You are on page 1of 26

‫باب دوئم‪ :‬فتنہ دجال اور عصر ی انکشا فات پر عمومی نظر‬

‫فصل اول ‪ :‬برمود ٹرائی اینگل اور میڈیا کے انکشا فات‬

‫فہرست مضامین‬
‫دجال کے بارے میں آپﷺ کا خطبہ‬
‫برمودا تکون کا محل وقوع‬
‫بر مودا ٹرائی اینگل تکون کی شکل میں‬
‫آگ کے گولے اور برمودا ٹرائی اینگل‬
‫اڑن طشتریاں اور دجال‬
‫اڑن طشتریوں کی حقیقت‬
‫جدید ترین لیزر شعاعیں‬
‫اڑن طشتریوں کے بارے میں محقیقن کی آراء‬
‫اڑن طشتریاں اور بر مودا تکون‬
‫برمودا تکون سائنس کی نظر میں‬
‫برمودا تکون میں غائب ہونے والےجہاز اور کشتیاں‬
‫مختلف مذاہب کی آراء‬
‫برمودا تکون میڈیا کی نظر میں‬

‫حضرت محمدﷺ نے اپنی امت کو فتنوں کے بارے میں آگاہ کر دیا ۔جب آپﷺ کو‬
‫ابن صیاد کے بارے میں پتہ چالتوآپﷺ خود اس کی تحقیق کے لیے گئے تو اس کی‬
‫حقیقت دریافت کی اور دور حاضر میں بھی برمودا تکون کے بارے میں تحقیق‬
‫کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ برمودا تکون کے بارے میں مختلف نظریات‬
‫پائے جاتے ہیں۔بعض محقیقن اس کو ہی دجال کا محل کہتے ہیں جو کہ سمندر کی‬
‫تہہ میں موجود ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں سائنس کے نظریات مختلف‬
‫ہیں۔ سائنس کی نظر میں یہ ایک مقناطیسی بھور ہے جو چیزوں کو اپنی طرف‬
‫کھینچ لیتا ہے نا کہ ا س جگہ دجال کی رہائش ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل کے ساتھ‬
‫اڑن طشتریوں کا گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ یہ بھی اسی جگہ سے پرواز کرتی ہیں‬
‫جس جگہ کو برمودا ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے۔ اہل مذہب اسے دجال کی سواری‬
‫کہتے ہیں جبکہ سائنس کی یہ رائے ہے کہ یہ دلدلوں سے اٹھنے والی گیس ہے‬
‫جو اوپر جا کر مختلف اشکال اختیار کر لیتی ہے۔ میڈیا اس کے بارے میں آئے روز‬
‫کچھ نہ کچھ شائع کرتا رہتا ہے ۔جیسا کہ"اینٹی دجال مشین" نے اس کے بارے میں‬
‫لکھا ہے کہ "دنیا میں دو جگہ ایسی ہیں جہاں قطب نما کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ان‬
‫دونوں جگہ کے اندر ایسی مقنا طیسی کشش یا برقی لہریں موجود ہیں جو بڑے‬
‫بڑے جہازوں کو توڑ مروڑ کر نگل جاتی ہیں۔آج تک اس جگہ کے بارے میں‬
‫کوئی مدلل حقائق منظر عام پر نہیں آئے۔‬

‫دجال کہاں ہے اس کے بارے میں پیشن گوئی کی جاتی ہے کہ وہ اس جگہ موجود ہے جسے‬
‫برمودا ٹرائی اینگل کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ جاپان میں جس جگہ کو‬
‫شیطانی سمندر کا نام دیا جاتا ہے وہاں دجال کی موجودگی کی پیشن گوئی کی جاتی ہے۔ جیسا‬
‫کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ بنو تیمیم کے شخص کے واقعہ کو خطبے میں بیان فرمایا۔‬

‫خطبہ‪:‬‬ ‫کا‬ ‫آپﷺ‬ ‫میں‬ ‫بارے‬ ‫کے‬ ‫دجال‬

‫"فلما قضى رسول هللا صلى هللا عليه وسلم صالته‬


‫جلس على المنبر‪ ،‬وهو يضحك‪ ،‬فقال‪« :‬ليلزم‬
‫كل‬
‫إنسان مصاله» ‪ ،‬ثم قال‪« :‬أتدرون لم‬
‫جمعتكم؟» قالوا‪ :‬هللا ورسوله أعلم‪ ،‬قال‪" :‬‬
‫إني وهللا ما جمعتكم لرغبة وال لرهبة‪ ،‬ولكن‬
‫رجال‬ ‫كان‬ ‫الداري‬ ‫تميما‬ ‫ألن‬ ‫جمعتكم‪،‬‬
‫نصرانيا‪ ،‬فجاء فبايع وأسلم‪ ،‬وحدثني حديثا‬
‫وافق الذي كنت أحدثكم عن مسيح الدجال‪،‬‬
‫حدثني أنه ركب في سفينة بحرية‪ ،‬مع ثالثين‬
‫رجال من لخم وجذام‪ ،‬فلعب بهم الموج شهرا‬
‫في البحر‪ ،‬ثم أرفئوا إلى جزيرة في البحر‬
‫حتى مغرب الشمس‪ ،‬فجلسوا في أقرب السفينة‬
‫فدخلوا الجزيرة فلقيتهم دابة أهلب كثير‬
‫الشعر‪ ،‬ال يدرون ما قبله من دبره‪ ،‬من كثرة‬
‫الشعر‪ ،‬فقالوا‪ :‬ويلك ما أنت؟ فقالت‪ :‬أنا‬
‫الجساسة‪ ،‬قالوا‪ :‬وما الجساسة؟ قالت‪ :‬أيها‬
‫القوم انطلقوا إلى هذا الرجل في الدير‪،‬‬
‫فإنه إلى خبركم باألشواق‪ ،‬قال‪ :‬لما سمت‬
‫لنا رجال فرقنا منها أن تكون شيطانة‪ ،‬قال‪:‬‬
‫فانطلقنا سراعا‪ ،‬حتى دخلنا الدير‪ ،‬فإذا‬
‫فيه أعظم إنسان رأيناه قط خلقا‪ ،‬وأشده‬
‫وثاقا‪ ،‬مجموعة يداه إلى عنقه‪ ،‬ما بين‬
‫ركبتيه إلى كعبيه بالحديد‪ ،‬قلنا‪ :‬ويلك ما‬
‫أنت؟ قال‪ :‬قد قدرتم على خبري‪ ،‬فأخبروني‬
‫ما أنتم؟ قالوا‪ :‬نحن أناس من العرب ركبنا‬
‫في سفينة بحرية‪ ،‬فصادفنا البحر حين اغتلم‬
‫فلعب بنا الموج شهرا‪ ،‬ثم أرفأنا إلى‬
‫جزيرتك هذه‪ ،‬فجلسنا في أقربها‪ ،‬فدخلنا‬
‫الجزيرة‪ ،‬فلقيتنا دابة أهلب كثير الشعر‪،‬‬
‫ال يدرى ما قبله من دبره من كثرة الشعر‪،‬‬
‫فقلنا‪ :‬ويلك ما أنت؟ فقالت‪ :‬أنا الجساسة‪،‬‬
‫قلنا‪ :‬وما الجساسة؟ قالت‪ :‬اعمدوا إلى هذا‬
‫الرجل في الدير‪ ،‬فإنه إلى خبركم باألشواق‪،‬‬
‫فأقبلنا إليك سراعا‪ ،‬وفزعنا منها‪ ،‬ولم‬
‫نأمن أن تكون شيطانة‪ ،‬فقال‪ :‬أخبروني عن‬
‫نخل بيسان‪ ،‬قلنا‪ :‬عن أي شأنها تستخبر؟‬
‫قال‪ :‬أسألكم عن نخلها‪ ،‬هل يثمر؟ قلنا له‪:‬‬
‫نعم‪ ،‬قال‪ :‬أما إنه يوشك أن ال تثمر‪ ،‬قال‪:‬‬
‫أخبروني عن بحيرة الطبرية‪ ،‬قلنا‪ :‬عن أي‬
‫شأنها تستخبر؟ قال‪ :‬هل فيها ماء؟ قالوا‪:‬‬
‫هي كثيرة الماء‪ ،‬قال‪ :‬أما إن ماءها يوشك‬
‫أن يذهب‪ ،‬قال‪ :‬أخبروني عن عين زغر‪،‬‬
‫قالوا‪ :‬عن أي شأنها تستخبر؟ قال‪ :‬هل في‬
‫العين ماء؟ وهل يزرع أهلها بماء العين؟‬
‫قلنا له‪ :‬نعم‪ ،‬هي كثيرة الماء‪ ،‬وأهلها‬
‫يزرعون من مائها‪ ،‬قال‪ :‬أخبروني عن نبي‬
‫األميين ما فعل؟ قالوا‪ :‬قد خرج من مكة‬
‫ونزل يثرب‪ ،‬قال‪ :‬أقاتله العرب؟ قلنا‪:‬‬
‫نعم‪ ،‬قال‪ :‬كيف صنع بهم؟ فأخبرناه أنه قد‬
‫ظهر على من يليه من العرب وأطاعوه‪ ،‬قال‬
‫لهم‪ :‬قد كان ذلك؟ قلنا‪ :‬نعم‪ ،‬قال‪ :‬أما إن‬
‫ذاك خير لهم أن يطيعوه‪ ،‬وإني مخبركم عني‪،‬‬
‫إني أنا المسيح‪ ،‬وإني أوشك أن يؤذن لي في‬
‫الخروج‪ ،‬فأخرج فأسير في األرض فال أدع قرية‬
‫إال هبطتها في أربعين ليلة غير مكة وطيبة‪،‬‬
‫فهما محرمتان علي كلتاهما‪ ،‬كلما أردت أن‬
‫أدخل واحدة ‪ -‬أو واحدا ‪ -‬منهما استقبلني‬
‫ملك بيده السيف صلتا‪ ،‬يصدني عنها‪ ،‬وإن‬
‫على كل نقب منها مالئكة يحرسونها‪ ،‬قالت‪:‬‬
‫قال رسول هللا صلى هللا عليه وسلم‪ ،‬وطعن‬
‫بمخصرته في المنبر‪« :‬هذه طيبة‪ ،‬هذه طيبة‪،‬‬
‫هذه طيبة» ‪ -‬يعني المدينة ‪« -‬أال هل كنت‬
‫حدثتكم ذلك؟» فقال الناس‪ :‬نعم‪« ،‬فإنه‬
‫أعجبني حديث تميم‪ ،‬أنه وافق الذي كنت‬
‫أحدثكم عنه‪ ،‬وعن المدينة ومكة‪ ،‬أال إنه في‬
‫بحر الشأم‪ ،‬أو بحر اليمن‪ ،‬ال بل من قبل‬
‫المشرق ما هو‪ ،‬من قبل المشرق ما هو من‬
‫قبل المشرق‪ ،‬ما هو» وأومأ بيده إلى‬
‫المشرق(مسلم) ‪؎۱‬‬
‫حدثني أنه ركب في سفينة‪:‬‬
‫سفینہ کے ساتھ بحریہ کی قید لگانے کا مقصد یہ ہے کہ اس سے کوئی مجازی معنی‬
‫محمول نہ کرلے اس لیے کہ اونٹ کو سفینہ لبرا کہا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے‬
‫کہ یہ قید اس لیےلگائی تاکہ اس کو چھوٹی کشتی نہ سمجھا جائے بلکہ بڑی کشتی‬
‫سمجھا جائے جو سمندرون میں چال کرتی ہے یہ لخم و جذام دو قبائل کے نام ہیں ان‬
‫کے تیس آدمی اس کشتی میں سوار تھے موجوں نے ایک ماہ پریشان کرنے کے بعد‬
‫ان کو کسی اور جزیرے میں پھینک دیا ۔قارب چھوٹی کشتی کو کہا جاتا ہے وہ سفر‬
‫پر جانے کے لیے بڑی کشتی کے ساتھ کوتل گھوڑے کی طرح چھوٹی کشتیاں‬
‫رکھی جاتی ہیں تاکہ کنارے پر رابطے میں سہولت ہو سکے۔ چنانچہ پانی کے ایک‬
‫گھاٹ سے وہ جزیرے میں داخل ہو گئے۔‬
‫فقالت‪ :‬أنا الجساسة‪:‬‬
‫یہ نام اس کا اس لیے رکھا کہ وہ دجال کو خبر پہنچاتا تھا۔ انہوں نے وہاں ایک دیر‬
‫انصاری عبادت گاہ یا راہب‬
‫ٰ‬ ‫دیکھا دیر سے مراد یہاں محل‪-‬منارےویسےدیر کا لفظ‬
‫کی رہائش گاہ پر بھی بوال جاتا ہے۔‬
‫وإني مخبركم‪:‬‬
‫اس نے بتایا کہ میں مسیح دجال مدینہ ہونمدینہ کو اس نے طیبہ کے لفظ سے ذکر کیا‬
‫اس کو اس کےناپاک قدموں سے محفوظ رکھا جائے گا آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫یہ طیبہ کا لفظ تین مرتبہ فرمایا تا کہ مدینہ منورہ کی فضیلت اور امتیاز دوسری‬
‫مقامات کے مقابلے میں ظاہر ہو۔(‪)۲‬‬
‫دجال کی رہائش کے بارے میں محققین اور مفکرین نے بہت بحث کی ہے۔ بعض‬
‫محققین کی یہ آراء ہے کہ یہ وہی جزیرہ ہے جس کے بارے میں صحابی رسول ﷺ‬
‫نے بتایا تھا۔ محققین پیشن گوئی کرتے ہینن کہ یہ جزیرہ وہی بحر اوقیانوس میں‬
‫موجود برمودا ٹرائی اینگل ہے ۔ اور یہ عالقہ غیر آباد ہے۔‬

‫برمودا تکون کا محل وقوع‪:‬‬


‫برمودا بحر اوقیانوس کے کل تین سو جزیروں پر مشتمل عالقہ ہے جن میں اکثر‬
‫غیر آباد ہے صرف بیس سے جزیروں پر انسان آباد ہے وہ بھی بہت کم تعداد میں‬
‫جو عالقہ خطرناک سمجھا جاتا ہے اس کو برمودہ تکون کہتے ہیں۔اس تکون کا کل‬
‫رقبہ ‪ 1140000‬مربع کلو میڑ ہے۔ اس کا شمالی سراجزئرہ برمود‪،‬ا ور جنوب‬
‫مشرقی میں سرا پورٹور یکو اور جنوبی مغرب سرا میامی(فلوریڈ ا امریکی مشہور‬
‫ریاست) ہے۔یعنی اس کا تکون میامی (فلوریڈا) میں بنتا ہے۔ فلوریڈا۔ فلوریڈا کے‬
‫معنی" اس خدا کا شہر جس کا انتظار کیا جا رہا ہے"۔ اس کے دوسرے معنی " وہ‬
‫خدا جس کا انتظار کیا جا رہا ہے"‬
‫تقریبا چار سو سال سے کسی انسان نے ان جزیروں میں جا کر آباد ہونے کی کوشش‬
‫نہیں کی ہے یہاں تک جہازکے کیپٹن تک اس عالقے سے دور ہی رہتے ہیں ان میں‬
‫ایک جملہ بڑا عام ہے جو وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں" وہاں پانی کی‬
‫گہرائی میں خوف اور شیطانی راز چھپے ہیں"‬

‫بر مودا ٹرائی اینگل تکون کی شکل میں ‪:‬‬


‫برمودا تکون سارے کا سارا پانی میں ہے جو کہ بحر اقیانوس میں ہے چناچہ قابل‬
‫غور بات یہ ہے کہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں تکون کس طرح بن سکتا ہے سو‬
‫جاننا چاہئے کہ تکون حقیقی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مخصوص عالقہ ہے جہاں‬
‫ناقابل یقین حادثات ہوتے ہیں اس عالقے کو تکون کا نام فرضی نام دیےدیا گیا ہے‬
‫اس نام کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ پہلی بار اس عالقے کیلئے برمودا تکون کا‬
‫نام ‪ 1945‬میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت استعمال کیا گیا جب اس‬
‫عالقے میں کچھ طیارے غائب ہوگئے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس کو تکون کا نام‬
‫ہی کیوں دیا گیا۔ اس حادثے سے پہلے بھی یہاں بہت سے حادثات رونما ہو چکے‬
‫تھے لیکن اس وقت اس عالقے کو برمودا تکون کی بجائے شیطان کے جزیرے کہا‬
‫جاتا تھا۔ جب کریسٹو فر کولمبس(‪)1506-1451‬جب اس عالقے سے گزرا تو اس‬
‫نے بھی یہاں کچھ عجیب و غریب و مشاہدات کئے۔ مثال آگ کے گولوں کا سمندر‬
‫کے اندر داخل ہونا اس عالقے میں پہنچ کر کمپاس(قطب نما) میں بغیر کسی ظاہری‬
‫سبب کے خرابی پیدا ہو جانا وغیرہ۔(‪)٣‬‬

‫ابلیس کا تخت‪:‬‬

‫جس طرح دجال کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ سمندر میں رہتا ہے اسی طرح ابلیس‬
‫کے بارے میں بھی یہی بیان ہے کہ وہ سمندر کی تہہ میں رہاتا ہے جہاں نہ آبادی‬
‫ہوتی ہے اور نہ ہی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جیسا کہ رسول ہللا ﷺ نے ارشاد‬
‫فرمایا۔‬
‫شیطان پانی میں رہتا ہے اور وہ سمند ر کے اس حصے میں رہتا ہے جہاں پر‬
‫اذان کی آواز نہ جاتی ہو۔ جیسا کا احادیث مبارکہ ہے۔‬
‫"عن جابر‪ ،‬قال‪ :‬سمعت النبي صلى هللا عليه‬
‫وسلم‪ ،‬يقول‪« :‬إن عرش إبليس على البحر‪،‬‬
‫فيبعث سراياه فيفتنون الناس‪ ،‬فأعظمهم‬
‫عنده أعظمهم فتنة»(‪)٤‬‬

‫آگ کے گولے اور برمودا ٹرائی اینگل‪:‬‬


‫برمودا ٹرائی اینگل سے آگ کے گولے بھی نکلتے دیکھے گئے ہیں۔ جیسا کہ‬
‫ڈبلیو جے نے اپنے سمندری سفر کے دوران آگ کے گولوں کا خود مشاہدہ کیا۔‬
‫آگ کے گولے ‪،‬سفید چمکدار بادل اور اڑن طشتریاں اگر ان سب کو گہری نظر سے‬
‫دیکھا جائے تو یہ ایک ہی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے گویا اڑن‬
‫طشتری کو چھپانے کے لیے یہ بادل اور کہر مصنوعی طور پر کیمیائی عمل سے‬
‫پیدا کی جاتی ہے برمودا کے اندر آگ کے گولے کا داخل ہونا بھی معروف چیز ہے‬
‫"ڈبلیو جے مورسی جو کہ ایک سی مین ہے ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوچکا‬
‫ہے۔ ڈبلیو جے مورسی کابیان ہے کہ وہ ‪1955‬ء میں" اٹالنٹک سٹی" نامی جہاز پر‬
‫کام کر رہا تھا۔ صبح کا وقت تھا۔ وچ آفیسر میرے پاس آکر کھڑا ہوا تھوڑی دیر بعد‬
‫اس نے چیخ ماری۔ جہاز پاگلوں کی طرح ایک دائرے میں چکر کاٹنے لگا تھا۔ تب‬
‫ہم نے دیکھا کہ آگ کا ایک گولہ بڑی تیزی کے ساتھ جہاز کی طرف آ رہا ہے میں‬
‫خوف زدہ ہو کر عرشے پر کود گیا میرے ایک ساتھی نے مجھے دھکا دے کر‬
‫عرشے پر اپنے ساتھ گرالیا۔وہ آگ کا گوال ہمارے اوپر سے گزر گیا بعد میں ہم نے‬
‫دیکھا کہ سمندر خوفناک انداز میں تالطم خیز تھا۔ ہم کپتان کے کمرے کی طرف‬
‫دوڑے وہاں کمپاس (سمت بتانے کا آلہ) ناکارہ پڑا تھا اور سارا راستہ خراب ہی‬
‫رہا۔"(‪)٥‬‬

‫اڑن طشتریاں اور دجال‪:‬‬


‫اڑن طشتریوں کے بارے میں سائنس اور مذاہب کے الگ الگ نظریات ہے ۔‬
‫سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ دلدلوں سے اٹھنے والی گیس اوپر جا کر عجیب وغریب‬
‫شکلیں اختیا ر کرلیتی ہیں ‪ ،‬انہی شکلوں میں سے ایک شکل اڑن طشتری کی ہیں ۔‬
‫جب کی بعض مذاہب کے لوگ اس کو آنکھوں کا دھوکہ کہتے ہیں جب کہ بعض اس‬
‫کو دجال کی سواری کہتے ہیں۔‬

‫اڑن طشتریوں کی حقیقت‪:‬‬


‫(‪ Flying objects undentified‬یعنی نامعلوم اڑنے والی چیز کہا جاتا ہے۔‬
‫اڑن طشتری کو یو‪-‬ایف‪-‬او (‪U.F.O‬‬
‫یہ کسی جدید معدن سے بنی ہیں۔ یہ معدن چمک دار ہوتی ہے جو دور سے دیکھنے‬
‫میں تیز سفید روشنی کی مانند نظر آتی ہے ایک ہی اڑن طشتری بیک وقت اپنا حجم‬
‫چھوٹا اور اتنا بڑا کر سکتی ہے کہ اپنی آنکھوں پر شک ہونے لگے اور دیکھنے‬
‫والے بیہوش ہو جائیں۔ اس کے اندر عام طور پر نارنجی ‪،‬نیلے اور سرخ رنگ کی‬
‫روشنی پھوٹ رہی ہوتی ہے اس کی رفتار انتہائی تیز ہے کہ ایک سیکنڈ میں‬
‫نظروں سے غائب ہو جاتی ہے جو رفتار اب تک ریکارڈ کی جا سکی ہے وہ سات‬
‫سو کلو میٹر فی سیکنڈ یعنی پچیس الکھ بیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔یہ رفتار‬
‫دنیا والوں کو معلوم ہے اصل کا کسی کو علم نہیں ۔‬

‫جدیدترین لیزر شعاعیں ‪:‬‬


‫اڑن طشتریاں لیزر شعاعوں کے ذریعے دنیا کے جدید ترین طیاروں کو باآسانی تباہ‬
‫کر سکتی ہیں۔ یہ اڑنے کے ساتھ ساتھ سمندر کے اوپر اور سمندر کے اندر اس‬
‫طرح چلنے کی صالحیت رکھتی ہے۔‬

‫قوت ثقل‪ :‬جہاں تک اس کی ٹیکنالوجی کا تعلق ہے تو صرف ابھی اندازہ ہی ہے۔ وہ‬
‫یہ کہ اس کائنات میں موجود تمام توانائی کے ذرائع اڑن طشتری کی ٹیکنالوجی میں‬
‫استعمال ہوتے ہیں ۔ان میں قوت کشش اہم ہے۔جن طشتریوں کا راز جاننے کی‬
‫کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے ڈاکٹر جیسوب کا کہنا ہے‪:‬‬
‫"یہ غیر معروف چیزیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ (اڑن طشتری والے) بہت طاقتور‬
‫مقناطیسی میدان بنانے پر قدرت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ جہاز اور طیاروں‬
‫کو کھینچ کر کہیں لے جاتے ہیں"(‪)۶‬‬

‫نظریات‪:‬‬ ‫اڑن طشتری کے بارے میں محققین کے‬


‫رومن کیتھولک پادری فادر ‪ ،‬جو اڑن طشتریوں کے بارے میں سند سمجھے جاتے‬
‫ہیں کہتے ہیں ‪:‬‬
‫"یہ سب شیطانی چرخہ ہے۔ چرچ او رہمارے اجداد جن کو شیطان کہتے ہیں وہ اب‬
‫اڑن طشتریوں کے ہوا باز کہالتے ہیں اڑن طشتریوں کے شاہدین ان کے پرواز کے‬
‫وقت اکثر سلفر کی بو محسوس کرتے ہیں ۔یہ شیطان کو مارے جانے والے گندھک‬
‫کے پتھروں کی بو ہے‪)٧(-‬‬

‫عیسی داؤد داالطال مصری کا کہنا ہے کہ‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫محمد‬
‫"میری نزدیک اڑن طشتریاں دجال کی ملکیت ہے اور اسی کی ایجادہیں نیز‬
‫برمودہ تکون کے اندر اس نے ابلیس کی مدد سے تکون کی شکل کا قلعہ نما محل‬
‫بنایا ہوا ہے( برمودا تکون کے اندر مختلف قسم کی تعمیرات غوطہ خوروں نے‬
‫دیکھی ہیں) جہاں سے بیٹھ کر وہ اپنے چیلوں کو ہدایات دے رہا ہے کہ وہ اپنے‬
‫نکلنے کے وقت کا انتظار کر رہا ہے۔ اس پورے مشن میں اس کو ابلیس اور اس‬
‫کے تمام شیا طین کی مدد حاصل ہے۔ جو تمام دنیا کے اندر سیاسی ‪،‬اقتصادی‪،‬‬
‫سماجی اور عسکری میدان میں جا رہی ہے۔ کس ملک میں کس کی حکومت ہونی‬
‫چاہیے اور کس ملک کو تباہ کرنا ہے؟ نیز دنیا میں جاری دریاؤں پر خصوصا مسلم‬
‫دنیا میں کہاں کہاں ڈیم بنانے ہیں۔ اپنے حامی مسلک والی اقوام کو اقتدار میں النا‬
‫ہے۔اور ہر اس قوم اور فر د کو ابھی سے راستے سے ہٹانا ہے جو آگے چل کر‬
‫دجال کے سامنے کھڑا ہو سکے۔‬
‫جہاں تک برمودہ تکون میں ابلیس کے مرکز کا تعلق ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں‬
‫البتہ دجال کی وہاں موجودگی پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے دجال کو مشرق میں بیان فرمایا تھا جب کے برمودا تکون تو مغرب میں‬
‫ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ‬
‫فرماجانے کے بعد جو اس طرح بند ہوا نہیں رہا بلکہ وہ زنجیروں سے آزاد ہو گیا‬
‫تھا۔اور مستقل اپنے خروج کے لیے راہ ہموار کرتا رہا ہے ۔البتہ اس کو مکمل‬
‫آزادی اسی وقت ملے گی جب وہ دنیا کے سامنے ظاہر ہو کر اپنی خدائی کا اعالن‬
‫کرے گا ۔‬
‫یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برمودا تکون میں ابلیس ہو اور دجال جاپان کے شیطانی‬
‫سمندر میں یا ایران کے اصفہان میں ہی ہوں اور اس طرح دونوں کا آپس میں رابطہ‬
‫ہو اور دونوں جگہوں سے اسالم کے خالف بلکہ پوری انسانیت کے خالف سازشیں‬
‫کی جا رہی ہو۔ واضح رہے کہ جاپان کا شیطانی سمندر مشرق میں ہے‪)۸(-‬‬

‫اڑن طشتریاں اور معجزات‪:‬‬


‫اڑن طشتریوں کے بارے میں ہی بھی مشہور ہے کہ جب بھی اڑن طشتری نظر آئی‬
‫اور جس جگہ سے نظر آئی اس جگہ بہت سے معجزات ہوئے‪:‬‬
‫‪-1‬مجسمے رونے لگتے‬
‫‪-2‬مجسموں کے منھ سے خون بہنے لگتا‬
‫‪-3‬تصویریں روشن ہوجاتیں‬
‫‪-4‬چرچ کے نادر سے روشنی کی کرنیں نکلنے لگتیں‬
‫‪-5‬انفرادی طور پر دائمی مریض صحت مند ہوجانا (‪)٩‬‬

‫اڑن طشتر یاں پاکستان میں‪:‬‬


‫اڑن طشتری کو پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی دیکھا گیا۔ یورینیم سے ماال‬
‫مال عالقے میں دو ہفتوں میں دو بار نظر آئی اس کو ڈیرہ غازی خان کے مقامی‬
‫لوگو ں نے بھی دیکھا ان کا کہنا تھا کہ یہ اڑن طشتریاں ہی تھی ۔اس طرح یہ‬
‫مختلف شہروں میں بھی دیکھائی دی جیسا کہ‬
‫‪-1‬اٹک میں ‪ 1995-96‬میں یہ دیکھائی دی‬
‫‪-2‬الہور میں ‪ 8‬اکتوبر ‪ 2008‬میں امان کریم نے آٹھ اڑن طشتریا ‪ V‬کی شکل میں‬
‫دعوی کیا ہے۔ انکے بقول یہ‬
‫ٰ‬ ‫دیکھنے کا‬
‫مشرق کی جانب جارہی تھیں۔‬
‫‪-3‬راولپنڈی میں جنوری ‪ 1998‬میں آصف اقبال نے اڑن طشتری کو دیکھا۔(‪)۱٠‬‬

‫تکون‪:‬‬ ‫اڑن طشتریاں اور برمودا‬


‫برمودہ تکون کے اندر پانی میں مختلف قسم کی روشنیاں‪ ،‬آگ کے گولے‪ ،‬چمکدار‬
‫بال اور اڑن طشتریاں داخل ہوتی اور نکلتی ہوئی دیکھی جاتی رہی ہیں۔اس موضوع‬
‫پر ڈاکٹر مائیکل پریسنجر کاتحقیقی مقالہ کافی مدلل ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس‬
‫عالقے میں خود کافی وقت گزارا ہے اور سمندر کے نیچے غوطہ خوری بھی‬
‫کرتے رہے ہیں۔‬
‫"‪ 1998‬میں فلوریڈا میں واقع امریکی خالئی تحقیقاتی ادارے "ناسا" کے ہیڈ کوارٹر‬
‫میں میں نے ایک انٹرویو کیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ایک انتہائی معزز اور عالمی‬
‫شہرت یافتہ برطانوی غوطہ خور " روب پالمز" جو بہا ماز میں واقع "بلیو ہولز"‬
‫تحقیقاتی مرکز کا کئی سال تک ڈائریکڑ بھی رہا۔ اس کا کہنا تھا‪ :‬بلیوہولز"‬
‫درحقیقت سمندر کے اندر چھوٹی چھوٹی غاریں ہیں۔ میرے خیال میں یہ اڑن‬
‫طشتریوں کے نکلنے کی جگہ ہو سکتی ہے۔ اس عالقے اور"ایریا ‪ "51‬کے بارے‬
‫میں اس غوطہ خور کی تحقیق کامیابی سے آگے بڑھ رہی تھی کہ جوالئی ‪1997‬‬
‫میں اسرائیل کے بحر احمر میں غوطہ خور ی کے دوران ہالک ہو گیا۔ناسا میں‬
‫موجود میرے مخبر نے مجھے بتایا کہ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے "روب‬
‫"تحقیقاتی ادارے کے حکام نے قتل کریا۔کیوں کہ اس خفیہ راز کے بارے میں بہت‬
‫پالمر"‪AUTEC‬کچھ جان چکا‬
‫تھا۔(‪)۱۱‬‬

‫میامی فلوریڈ اکے ایک ماہر مالح ڈون ڈلمو ینکو دوبار ان کا سامنا کر چکے‬
‫ہیں۔ان کے مطابق اکتوبر ‪ 1969‬میں وہ سمندر میں تھے کہ تھوڑے سے فاصلے پر‬
‫بڑی تیزی کے ساتھ کوئی آبدوزنما چیز آتی دکھائی دی۔ یہ آبدوز نہیں تھی اس کا‬
‫رنگ سر مئی تھا اور اس کی لمبائی ‪ 150‬سے دو سو فٹ تک تھی وہ ٹھیک اس کی‬
‫طرف آرہی تھی اور ٹکراؤ یقینی تھا۔ ڈون ڈلموینکو کہتے ہیں کہ میں نے موٹر بند‬
‫کی اور بس دعائیں مانگنے لگا۔ پھر میں حیران رہ گیا کہ وہ آبدوز نماز چیز میری‬
‫کشتی کے نیچے سے غوطہ لگا کر اپنی راہ چلتی دور نیلے پانیوں میں غائب ہو‬
‫گئی۔(‪)۱۲‬‬

‫واقعایات‪:‬‬
‫برمودا تکون کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں کچھ لوگ اس کو افسانے‬
‫اور کہانیوں سے تعبیر دیتے اور کچھ لوگ اس کو حقیقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس‬
‫جگہ پر بہت سے واقعایا ت پیش آئےہے ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫جہاز سے مسافروں کا غائب ہونا‪:‬‬
‫یہ حادثہ کیرول ڈئیر نگ نامی جہاز کے ساتھ پیش آیا۔ جہاز کا اگال حصہ ساحل پر‬
‫ریت میں دھنسا ہوا تھا جبکہ کے پچھلے حصہ پانی میں تھا کھانے کی میزوں پر‬
‫کھانا لگا ہوا تھا‪ ،‬کرسیاں تھوڑی پیچھے کی جانب کھسکی ہوئی تھیں گویا اس کے‬
‫سوا کسی غیر متوقع بات پیش آنے پر اپنی جگہ سے اٹھے ہوں اور پھر واپس آنا‬
‫چاہتے ہو لیکن پھر وہ کبھی اپنی کرسیوں پر واپس نہ آ سکے کرسیوں اور میزوں‬
‫پر رکھی کھانے کی پلیٹوں کو دیکھ کر کسی ہنگامے یابھگدڑکے کوئی آثار نظر‬
‫نہیں آتے تھے جہاز کی حالت دیکھ کر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اس میں‬
‫کوئی لوٹ مار کی واردات ہوئی ہے کہ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ‬
‫اتنے بڑے جہاز کو ساحل پر کون الیا ؟اور اس کے سوار وں کے ساتھ کیا حادثہ‬
‫پیش آیا؟ کیوں کہ اتنے بڑے جہاز کا اتنی کم پانی میں آنا ناممکن ہے یہ جہاز جی‬
‫جی ڈئیر نگ کمپنی آف پورٹ لینڈ کی ملکیت تھا۔‬

‫ڈوبا ہوا جہازواپس‪:‬‬


‫ایک جہاز مرمودا تکون کے پانی پر تیر رہا ہے۔سمندر کی موجوں اسے سے‬
‫اٹکھیلیاں کر رہی ہیں لیکن اس میں کوئی نہیں بالکل خالی نہ کپتان نہ کوئی عملہ‬
‫اور نہ کوئی سوار۔ اس جہاز کا نام الداہاما ہے۔ایس ایزٹیک کے کپتان اور عملے‬
‫نے جو منظر دیکھا وہ کچھ یوں ہے ہر چیز اپنی جگہ موجود ہے نہ کسی نے کسی‬
‫چیز کو اٹھایا اور نہ کوئی چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ نہ لوٹ مار کی واردات نہ کوئی‬
‫حادثہ حتی کے کپتان کا قلم اور دور بین بھی اسی طرح رکھی ہوئی ہے اس سے‬
‫بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بحری جہاز رانی کے ریکارڈ میں یہ جہاز ڈوب‬
‫چکا تھا جس کو ڈوبتے ہوئے اٹلی کے" ریکس" نامی کشتی کے سوار اور عملے‬
‫نے خود دیکھا تھا۔‬

‫سہی سالمت جہاز کا غائب ہونا‪:‬‬


‫‪ 1924‬میں جاپانی مال بردار جہاز یووکومارو نے غائب ہونے سے پہلے ساحل پر‬
‫پہرے داری کے مرکز کو یہ پیغام بھیجا "ہمارے اوپر خوف طاری ہورہا ہے‬
‫۔۔۔خطرہ۔۔۔۔خطرہ ۔۔۔۔۔فورا ہماری مدد کرو"‬
‫تفریحی کشتی کا غائب ہونا‪:‬‬
‫‪ 1967‬میں غائب ہوانے والی وچ گرافٹ نامی کا مالک جو خود کشتی پر موجود تھا‬
‫اس نے قریبی مرکز کو آخری پیغام یہ دیا‪:‬‬
‫"کشتی پانی میں کے نیچے موجود کسی نامعلوم چیز سے ٹکرائی ہے۔۔۔ تشویش کی‬
‫کوئی با ت نہیں ہے۔۔۔ کشتی میں کوئی خرابی نہیں ہوئی۔۔۔ البتہ یہ ٹھیک طو ر پر‬
‫کام نہیں کر رہی۔۔۔۔"‬
‫اس پیغام کے صرف تین منٹ بعد امدادی ٹیم کشتی پر پہنچ گئی لیکن ان تین منٹوں‬
‫میں کشتی اس کا مالک اور مالک کا دوست جو کہ سینٹ جارج چرچ کا پادری‬
‫فورٹ لوڈرڈیل تھا‪،‬کسی نامعلوم جگہ پہنچ چکے تھے۔پندرہ منٹ بعد امدادی ٹیم وہاں‬
‫پہنچ گئی اور دوسو میل عالقے کا چپہ چپہ چھان مارا‪،‬لیکن وچ کرافٹ کا کوئی‬
‫سراغ نہ مل سکا۔(‪)۱٣‬‬

‫برمودا تکون سائنس کی نظر میں‪:‬‬


‫کمپاس کے ناکارہ ہونے سے سمت متعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے سائنسدان اس کی‬
‫مختلف توجیہہ پیش کرتے ہیں ۔ اس خاص عالقے کے بارے میں پیشن گوئیاں‬
‫بھی کیں ہیں۔ سائنسدانوں کے نقطہ نظر کے مطابق ان واقعات کا مذہب سے‬
‫کوئی تعلق نہیں۔‬
‫سائنسدانوں کے نزدیک برمودا تکون ایک مکمل طور پر سا ئنسی مسئلہ ہے اس کا‬
‫مذہب سے کو تعلق نہیں ۔ بہت سے سائنسدان غائب ہونے والے جہاز اور دوسرے‬
‫واقعات کو دھوکے بازسمندری موجوں اور تکنیکی غلطی کی جانب منسوب کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪ -1‬برمودا تکون کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک محقق چارلس برلنز کا خیال‬
‫ہے‪:‬‬
‫" برمودا تکون کے اندر مقناطیسی بھور ہیں جو اپنے اندر اپنے شکار کو کھینچ لیتا‬
‫ہے"‬
‫‪ -2‬اسے جگہ کشش یا الیکٹرومیگنیٹک لہریں پیدا ہوتی ہیں جن کی طاقت ہماری اس‬
‫بجلی کو طاقت سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ انتہائی طاقتور لہریں‬
‫جہازوں کو توڑ کر ان کا نام و نشان مٹا دیتی ہے اور برمودہ کے اوپر اڑتے‬
‫طیاروں کو کھینچ لیتی ہے اسی وجہ سے برمودہ تکون کے عالقے میں کمپاس کام‬
‫کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا میں دو جگہ ایسی ہے جہاں کمپس کام کرنا چھوڑ دیتا ہے‬
‫ایک برمودہ تکون دوسرے جاپان کا شیطانی سمندر"‬
‫جاپان میں موجود بحرالکاہل میں ایک شیطانی مثلث واقعہ ہے جیسے ڈریگن ٹرائی‬
‫اینگل بھی کہا کہتے ہیں ‪،‬یہ عالقہ بہت خطر ناک ہے ۔ کہا جاتا ہے یہ وہی جگہ ہے‬
‫جہاں سے دجال کا خروج ہو گا۔‬
‫‪" -3‬امریکی بحریہ نے الیکٹرومیگنیٹک اور موسمی خرابی کے امکان کے بارے‬
‫میں تجویز پر ظہار کیا تھا"‬
‫‪-4‬میتھین گیس تھیوری کے نا م سے ایک نظریہ مشہور ہے ۔ جو کہ ڈاکٹر نیب‬
‫کلینل کا ہے‬
‫"لیڈس یونیورسٹی کے ڈاکٹر بین کلینل نے یہ نظریہ متعارف کروایا کہ تکون‬
‫کےاندر سمندر کے نیچے میتھین گیس ہے جو کہ سمندر کی تہہ میں تلچھٹ میں‬
‫موجود ہے۔ آبیدے سمندر کی تہوں سے نکل کر موٹے موٹے بلبلوں کی صورت‬
‫میں پانی کی سطح پر آ جاتے ہیں یہ بلبلے چھونے سے یا آواز سےپھٹ جاتے ہیں‬
‫اور ان میں موجود گیس باہر نکل جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں پانی کی کثافت‬
‫کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں جہاز وغیرہ ڈوب جاتے ہیں نیز ان کا یہ بھی‬
‫دعوی ہے کہ چونکہ یہ گیس انتہائی سریع االشتعال ہے لہذا اگر یہ گیس فضاء میں‬
‫ٰ‬
‫پھیل جائے تو طیارے کے انجن کو ایک دھماکے کے ساتھ اڑاسکتی ہے۔(‪)۱٤‬‬
‫برمودا ٹرائی اینگل جس جگہ موجود ہے وہاں پر بہت زیادہ تعداد میں‬
‫الیکڑومیگنیٹک ویوز ہیں ۔جو ہر چیز کو اپنی طرف کھنچتی ہیں۔اور یہ مقناطیسی‬
‫لہریں اس قدر طاقت ور ہیں کہ بڑے بڑے جہازوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں‬
‫مستغنی قرار‬
‫ٰ‬ ‫۔سائنس دان اس جگہ سے متعلق تمام من گھڑت باتوں کو مذاہب سے‬
‫دیتے ہیں ۔‬

‫آراء‪:‬‬ ‫مختلف مذاہب کی‬


‫سامی مذاہب میں برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں مختلف نظریات ملتے ہیں ۔جو‬
‫سائنس سے بالکل الگ ہیں ۔عسا ئیت میں اس جگہ کو جہنم کا دروازہ کہتے ہیں‬
‫اور یہودیت میں اس جگہ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں سے ان کا بادشاہ خروج کرے‬
‫گا ۔ ااور اسالم میں اس کے بارے میں یہ رائے ہے کہ یہاں دجال موجود ہے۔‬
‫‪ -1‬قدامت پسند عیسائیوں کاخیال ہے کہ برمودہ تکون جہنم کیا دروازہ ہے۔‬
‫‪ -2‬برمودا کے عالقے میں پانی کے اندر طوفان اور زلزلے آتے ہیں جن کی وجہ‬
‫سے حادثات بہت تیزی کے ساتھ رونما ہوتے ہیں۔‬
‫‪ -3‬برمودا تکون کے اندراڑن طشتریاں جاتی دکھائی گئی ہیں چنانچہ وہاں ان میں‬
‫سوار خفیہ قوتوں کے ٹھکانے ہیں جو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے طیاروں‬
‫‪،‬جہازوں اور افراد کو اغوا کر لیتے ہیں۔‬
‫‪ -4‬یہ حقیقت ہے کہ وہاں پانی کے اندر چھوٹی چھوٹی غاریں پائی گئی ہیں۔‬
‫اس نظریے میں ان کی نوعیت اور شکل نہیں بتائیں گئی یا پھر بتانے کی اجازت‬
‫نہیں ہے یہ غاریں خود بن گئیں یا کسی منظم قورت نے بنائی ہیں؟ البتہ اتنا ضرور‬
‫ہے کہ جس نے ان واروں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی اور پہچان بھی لیا‬
‫اس کو پانی کے اندر ہی مار دیا گیا۔‬
‫‪ -5‬میں( ڈاکٹر محمد عیسی داؤد االطال مصری) کہتا ہوں کہ شیطانی سمندر‪ ،‬اڑن‬
‫طشتریاں اور برمودہ تکون کانے دجال کے زیر استعمال ہے اس میں باقاعدہ قلعے‬
‫نما محل بنایا ہوا ہے جو تکون کی شکل کا ہے۔ میں( محمد عیسی داؤد) ان تمام‬
‫جگہوں پر خود گیا ہوں جہاں سے دجال یا یہودی خفیہ تنظیم فریمین کا کوئی تعلق‬
‫رہا ہے مثال سویڈن ‪،‬مصر ‪،‬فلسطین‪ ،‬امریکہ برمودا‪ ،‬شام وغیرہ ۔فلسطین و مصر‬
‫میں کچھ قدیم مخطوطات ہاتھ بھی لگے ہیں۔ برمودا تکون کے حادثات کی تحقیق‬
‫کرنے والے وہ محققین جو اس عالقے کو خطرناک عالقہ قرار دیتے ہیں ان کی‬
‫دلیلیں زیادہ وزنی ہیں۔(‪)۱٤‬‬

‫برمودا تکون میڈیا کی نظر میں‪:‬‬


‫میڈیا سائنس کے نظریات کو ہی پیش کرتا ہےاور اس کے بارے میں جو تجربات‬
‫کئے گئے ان کو بیان کرتا ہے ۔تجزیہ بگار مختلف واقعات کو اکٹھا کر کے سائنسی‬
‫نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ نظریات کو بھی منظر عام پر التے ہیں‬
‫جیسے کہ "ابالغ" کی ویب سائٹ پر لکھا ہے۔کہ سمندر کے اس حصہ میں وسیع‬
‫تعداد میں شارک مچھلیاں موجود ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہیں۔ نیزاس حصہ میں‬
‫برقی لہریں بھی موجود ہیں ۔جو کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔‬
‫‪ DAWN‬نیوز کے بارے میں لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫"درحقیقت سائنسدانوں نے کہا ہے کہ پیورٹو ریکو‪ ،‬فلوریڈا اور برمودا کے درمیان‬
‫واقع اس سمندری تکون کا اسرار وہاں کی ‪ 100‬فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔‬
‫برطانیہ کی ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کا ماننا ہے کہ برمودا ٹرائی‬
‫اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔‬
‫محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت‬
‫طاقتور اور خطرناک تھی‪ ،‬جبکہ ان کی اونچائی ‪ 100‬فٹ تک تھی۔‬
‫اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا‪ ،‬یہ وہ‬
‫جہاز تھا جو ‪ 1918‬میں برمودا ٹرائی اینگل میں ‪ 300‬افراد کے ساتھ گم ہوگیا تھا۔‬
‫فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں ‪542‬‬
‫کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا۔‬
‫تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں ‪ 3‬مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں‬
‫جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔‬
‫ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے‪،‬‬
‫جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی"(‪)۱٥‬‬

‫‪"-2‬دنیا پاکستان " میں لکھا ہے کہ‬


‫اسالم آباد ‪-‬برموداٹرائی اینگل کا راز فاش‪ ،‬وہ حقیقت سامنے آگئی جس کی جستجو‬
‫میں سائنسدان عرصے سے لگے ہوئے تھے‪ ،‬تفصیالت کے مطابق برطانوی اخبار‬
‫اپکسپریس نے امریکی کلوریڈوسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی رپورٹ کے‬
‫حوالے سے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں اور باالخر برمودا ٹرائینگل کی‬
‫پراسراریت کا ڈراپ سین کردیا ہے‪ ،‬رپورٹ کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل میں‬
‫جہازوں کی تباہی کاراز زمین کے اندر نہیں بلکہ آسمان پر تھا جس کو باالخر‬
‫سائنسدانوں نے پالیا ہے برموداٹرائینگل کے اوپر چھ کونوں والے بادل دیکھے گئے‬
‫ہیں جو دراصل ہوائی بم ہیں‪ ،‬ان بادلوں کی ہوا میں رفتار‪170‬میل فی گھنٹہ ہے اور‬
‫یہی بادل ہوائی جہازوں اوربحری جہازوں کے سمندرمیں غرق ہونے کی اصل وجہ‬
‫ہیں‪ ،‬ماہر موسمیات ڈاکٹر سٹیوملر نے بتایا کہ سیٹالئٹ کی مدد سے برموداٹرائی‬
‫اینگل میں مختلف مقامات پر چھ کونوں والے بادل دیکھے گئے ہیں جو کہ حیرت‬
‫انگیز ہیں‪،‬عم طورپربادلوں کی ترتیب بے ڈھنگی ہوتی ہے جب ریڈار سیٹالئٹس کی‬
‫مدد سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان بادلوں کے نیچے سمندرمیں کیا‬
‫ہورہاہے تو معلوم ہوا کہ ان بادلوں کے نیچے بھی سمندر ی ہوا کی رفتار‪170‬میل‬
‫فی گھنٹہ ہے‪ ،‬یہ ہوا تیز رفتاری سے سمندر کی سطح سے ٹکراتی ہے تو دھماکے‬
‫کی سی صورتحال پیداہوتی ہے اور یہی ہوا ہوائی جہاز یا بحری جہاز کو کھینچ کر‬
‫اپنے ساتھ سمندرمیں غرق کرنے کے لئے بہت ہے۔ ایسے بادل بھی اس عالقے میں‬
‫بھی دیکھے گئے ہیں جو کہ بہت بڑے تھے جن کا پھیالؤ بیس سے پچپن میل کے‬
‫عالقے پر محیط تھا(‪)۱۶‬‬
‫‪"-3‬اینٹی دجال مشن "میں برمودا تکون کے بارے میں لکھا ہے کہ‪:‬‬
‫اور بحر اوقیانوس کے برمودا ٹرائی )‪ (Devil Sea‬بحر الکاہل کے شیطانی سمندر‬
‫اینگل میں کئی خصوصیات کے اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہے جو یہ سوچنے پر‬
‫مجبور کرتی ہے کہ ان دونوں میں کوئی ایسا تعلق ضرور ہے جو دنیا کی نظر سے‬
‫پوشیدہ ہے اور یہ تعلق الزما ً شیطانی ہے۔ رحمانی یا انسانی نہیں (کیونکہ جیسے‬
‫پہلے عرض کیا کہ یہاں بہت سے حادثات رونما ہوچکے ہیں) مثالً‬

‫۔ دنیا میں یہی دو جگہیں ایسی ہیں جہاں قطب نما کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ دونوں ‪1‬‬
‫میں متعدد ہوائی اور بحری جہاز غائب ہوچکے ہیں۔ انتہائی تعجب خیز بات یہ ہے‬
‫کہ ان دونوں جگہوں کے درمیان ایسے جہازوں کو سفر کرتے دیکھا گیا جو سالوں‬
‫پہلے غائب ہوچکے تھے۔‬

‫۔ دونوں کے اندر ایسی مقناطیسی کشش یا برقی لہریں موجود ہیں جو بڑے بڑے ‪2‬‬
‫جہازوں کو توڑ مروڑ کر نگل جاتی ہیں۔‬

‫۔ دونوں کے درمیان اڑن طشتریاں اڑتی دیکھی گئی ہیں جنہیں امریکی میڈیا والے ‪3‬‬
‫خالئی مخلوق کی سواری کہتے ہیں۔ امریکا کا یہودی میڈیا ان کے متعلق سامنے‬
‫آنے والے حقائق چھپاتا رہتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی جراءت کی اور ان حقائق‬
‫کو منظر عام پر الئے تو انہیں قتل کردیا گیا۔ جیسے ڈاکٹر موریس جیسوپ اور‬
‫ڈاکٹر جیمس ای میکڈونلڈ کو صرف اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ یہ دونوں اڑن‬
‫طشتریوں کو کھوجتے ہوئے اصل حقائق جان گئے تھے۔‬

‫۔ دونوں جگہوں کو خواص و عوام قدیم زمانے سے شیطان سے منسوب کرتے ہیں ‪4‬‬
‫اور یہاں ایسی قوتوں کی کارستانیوں کے قائل ہیں جو انسانیت کی خیر خواہ نہیں۔‬
‫لیکن ان کے گرد اسرار کے پردے آویزاں کر دیے گئے ہیں۔ وہ میڈیا جو بال کی‬
‫کھال اور کھال کی کھال اتاردیتا ہے وہ اس راز کو کیوں چھپا رہا ہے ؟؟(‪)۱۷‬‬
‫‪-4‬برمودا تکون اور شارک مچھلیاں‪:‬‬
‫"ابالغ"اس کی وجہ یہاں پائی جانے والی شارکس ہیں جو لوگوں کی ہالکت کا سبب‬
‫بن سکتی ہینجزیرے کے مقام واال بحر اوقیانوس کا یہ حصہ خطرناک شارک‬
‫مچھلیوں سے بھرا پڑا ہے اور حکومت کے مطابق اگر یہاں لوگوں کی آمد و رفت‬
‫پر پابندی نہ عائد کی جاتی تو کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا تھا۔عالوہ ازیں نئے‬
‫ابھرنے والے جزیرے کی زمین اور ساحل کی زمین کے درمیان زیر زمین کرنٹ‬
‫بھی موجود ہیں جو خطرناک ثابت ہوسکتے۔(‪)۱۸‬‬

‫برمودا ٹرئی اینگل ایک افسانہ‪:‬‬

‫‪ Hamari web :‬میں لکھا ہے‬

‫برمودا کے بارے میں بعض مفکرین کا خیال یہ ہے کہ اصل میں یہاں اٹھارویں اور‬
‫انیسویں صدی میں برطانوی فوجی اڈے اور کچھ امریکی فوجی اڈے تھے۔ لوگوں‬
‫کو ان سے دور رکھنے کے لیے برمودا کی مثلث کے افسانے مشہور کیے گئے جن‬
‫کو قصص یا فکشن (بطور خاص سائنسی قصص) لکھنے والوں نے اپنے ناولوں‬
‫میں استعمال کیا۔ اب چونکہ اڈوں واال مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے‬
‫سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے۔ مواصالت‬
‫کے اس جدید دور میں اب بھی کوئی ایسا عالقہ نہیں مال جہاں قطب نما کی سوئی‬
‫کام نہ کرتی ہو یا اس طرح کے واقعات ہوتے ہوں جو برمودا کی مثلث کے سلسلے‬
‫میں بیان کیے جاتے ہیں۔(‪)۱٩‬‬

‫‪ -6‬زیرو پوائیٹ کے پیج پر لکھا ہے‪:‬‬

‫لندن (این این آئی)برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا کہے کہ امریکہ‬
‫کے ساحلی عالقے شمالی کیروالئنا کے قریب ایک نیا جزیرہ نمودار ہوا ہے جو مہم‬
‫جو سیاحوں اور فوٹو گرافرز کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔یہ جزیرہ موسم بہار میں‬
‫ابھرنا شروع ہوا جس کے بعد یہ بتدریج نمایاں ہوتا چال گیا۔ مقامی رہائشیوں کے‬
‫مطابق ہر دس سے پندرہ سال کے دوران ہمیں کچھ ڈرامائی دیکھنے کو ملتا ہے‬
‫مگر یہ ہماری زندگی میں نظر آنے واال سب سے بڑا جزیرہ ہے۔یہ جزیرہ جسے‬
‫شیلی آئی لینڈ کا نام دیا گیا ہے‪ ،‬کو ماہرین نے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ‬
‫وہ لوگ جانے سے گریز‬
‫کریں۔ماہرین کے مطابق لوگوں کو وہاں چہل قدمی یا اس کے ارگرد تیراکی سے‬
‫گریز کرنا چاہئے جس کی وجہ شارک مچھلیوں کے حملے کے ساتھ ساتھ کرنٹ‬
‫اور ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ان کے بقول اس جزیرے کے ارگرد پانچ فٹ لمبی شارکیں‬
‫اور اسٹرنگ ریز کو تیرتے دیکھا گیا ہے ٗہالل کی شکل کا یہ جزیرہ ایک میل لمبا‬
‫اور چار سو فٹ چوڑا ہے۔یہ جزیرہ سمندر میں اس جگہ ابھرا ہے جو برمودا ٹرائی‬
‫اینگل میں شامل ہے جس کے اندر سمندر کا چار الکھ چالیس ہزار میل کا رقبہ آتا‬
‫ہے۔کہا جاتا ہے کہ اوسطا ً ہر سال یہاں چار طیارے اور بیس کشتیاں گم ہوجاتی ہیں‬
‫جن کا نام و نشان نہیں ملتا۔(‪)۲٠‬‬

‫برمودا تکون میں بہت سے واقعایات رونما ہو بہت سے جہاز طیارےاور کشتی اس‬
‫کی نظر ہوے ان میں سے چندیہ ہیں‪:‬‬
‫برموداتکون میں غائب ہونےوالی مشہور کشتیاں‪:‬‬
‫‪-1‬اگست ا‪ 800‬میں امریکی کشتی انسرجنٹ بغیر کی حادثے کے غائب ہو گئی ۔ اس‬
‫پر‪ 340‬مسافر تھے‬
‫‪ 2-1924‬میں مال بردار جاپانی کشتی رائی نوکو غائب ہوئی۔‬
‫‪ -3‬فروری‪ 1940‬میں گلوریا کولڈ نامی تفریحی کشتی غائب ہوئی۔پھر کچھ عرصہ‬
‫بعد غائب ہونے کی جگہ سے دو سو میل دور پائی گئی لیکن سواروں سے خالی۔‬
‫‪ 4-1955‬میں‪Queen Mayrio‬نامی تفریحی کشتی غائب ہوئی۔‬
‫‪-5‬یکم جوالئی ‪ 1963‬کو اسنو بوئے نامی کشتی غائب ہوئی۔‬

‫برمودا تکون میں غائب ہونے والے جہاز‪:‬‬


‫‪-1‬مارچ ‪ 1918‬میں امریکی مال بردار جہاز سائیکلوپ اپنے عملے سمیت غائب‬
‫ہوا۔ عملے کی تعداد ‪ 309‬تھی۔‬
‫‪ -2‬جنوری ‪ 1880‬میں اٹال نٹ نامی برٹش جہاز غائب ہوا۔ اس پر ‪ 290‬افراد سوار‬
‫تھے۔‬
‫‪-3‬اکتوبر ‪ 1902‬میں فیریا نامی جرمن جہاز غائب ہوا۔ اس کا عملہ اغواء کرلیا گیا‬
‫جبکہ جہاز مل گیا۔‬
‫‪-4‬مارچ ‪ 1938‬میں برطانوی آسڑیلوی مال بردار اینگلو آسٹر یلیز غائب ہوا‬
‫‪2 -5‬فروری ‪ 1963‬کو میرین سلفر کوئن نامی امریکی ما بردار جہاز غائب ہوا‪،‬‬
‫اس پر ‪ 38‬جہاز ران سوار تھے۔ اس پر سلفر لدا ہوا تھا۔(‪)۲۱‬‬
‫حاصل بحث‪:‬‬

‫برمودا تکون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں پر پانی کی گہرائی میں‬
‫خوف اور شیطانی راز چھپے ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل کو دجال کا محل بھی کہا جاتا ہے جو‬
‫قلعہ نما شکل میں موجود ہیں ۔ برمودا تکون کے بارے میں لوگوں کی مختلف آراء ہیں ۔ بعض‬
‫کہتے ہیں کہ دجال اس جگہ سے نمودار ہوگا ۔ جب کے عیسائیوں کا خیال ہے کہ وہ دوزخ کا‬
‫دروازہ ہیں اس لئے وہاں جوبھی جاتاہے وہ واپس نہیں آتا۔سائنس کہتی ہیں کہ‬
‫الیکٹرومیگنیٹک اور موسمی خرابی کی خرابی کی وجہ سےیہاں اس طرح کے حادثات پیش‬
‫آتے ہے۔ اور بعض محققین کے مطابق اس جگہ بہت زیادہ تعدادمیں شارک مچھلیاں ہیں جس‬
‫کی وجہ سےیہ حادثات پیش آتے ہیں۔‬

‫حوالہ جات‬
‫‪ ؎1‬مسلم رقم الحدیث ‪2262‬‬

‫‪؎۲‬نواب محمد قطب الدین دہلوی‪،‬عالمہ‪ ،‬شمس الدین صاحب‪ ،‬موالنا‪ ،‬مظاہر حق‪ ،‬مکتبۃ العلم ‪،‬‬
‫الہور‪ ،‬ج‪ :‬پنجم‪ ،‬ص ‪۶۸‬‬
‫‪ ؎٣‬عاصم عمر ‪،‬موالنا‪ ،‬برمودا تکون اور دجال‪ ،‬الھجر ہ پبلیکیشن ‪،‬کراچی ‪،‬س ‪۲٠٠٩‬ء‪ ،‬ص‬
‫‪٣٤:‬‬

‫‪ ؎٤‬مسلم بن الحجاج ابو الحسن تفسیری النسیشابوری‪ ،‬صحیح المسلم ‪،‬کتا ب صفۃ القیا‬
‫مۃ والجنۃ والنار‪ ،‬باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس وان مع کل انسان قر‬
‫یتا‪ ،‬رقم الحدیث‪۲۸۱٣‬‬
‫‪؎٥‬عاصم عمر ‪،‬موالنا‪ ،‬برمودا تکون اور دجال‪ ،‬الھجر ہ پبلیکیشن ‪،‬کراچی ‪،‬س ‪۲٠٠٩‬ء‪،‬‬
‫ص‪٥۸:‬‬

‫‪ ؎۶‬احمد حسن الفریونی ‪،‬مترجم ‪ ،‬محمد زین العابدین‪ ،‬دجال شیطانی ہتھکنڈے اور تیسری جنگ‬
‫عظیم‪ ،‬ملت پبلی کیشنز ‪،‬اسالم آباد ‪ ۲٠۱۲ ،‬ء ‪ ،‬ص‪۱٥۶:‬‬

‫‪ ؎٧‬عاصم عمر ‪،‬موالنا‪ ،‬برمودا تکون اور دجال‪ ،‬الھجر ہ پبلیکیشن ‪،‬کراچی ‪،‬س ‪۲٠٠٩‬ء‪ ،‬ص‪:‬‬
‫‪۸۶‬‬

‫‪؎۸‬احمد حسن الفریونی ‪،‬مترجم ‪ ،‬محمد زین العابدین‪ ،‬دجال شیطانی ہتھکنڈے اور تیسری جنگ‬
‫عظیم‪ ،‬ملت پبلی کیشنز ‪،‬اسالم آباد ‪ ،‬س ‪ ۲٠۱۲‬ء ‪ ،‬ص‪۱۸۱:‬‬

‫‪؎٩‬عاصم عمر ‪،‬موالنا‪ ،‬برمودا تکون اور دجال‪ ،‬الھجر ہ پبلیکیشن ‪،‬کراچی ‪،‬س ‪۲٠٠٩‬ء‪،‬‬
‫ص‪۸۶:‬‬

‫‪؎۱٠‬ایضا‪ ،‬ص‪۶٩ :‬‬

‫‪؎۱۱‬احمد حسن الفریونی ‪،‬مترجم ‪ ،‬محمد زین العابدین‪ ،‬دجال شیطانی ہتھکنڈے اور تیسری‬
‫جنگ عظیم‪ ،‬ملت پبلی کیشنز ‪،‬اسالم آباد ‪ ،‬س ‪ ۲٠۱۲‬ء ‪ ،‬ص‪۶٩:‬‬

‫‪؎۱۲‬ایضا ‪ ،‬ص‪۱۶۶:‬‬

‫‪ ؎۱٣‬عاصم عمر ‪،‬موالنا‪ ،‬برمودا تکون اور دجال‪ ،‬الھجر ہ پبلیکیشن ‪،‬کراچی ‪،‬س ‪۲٠٠٩‬ء‪،‬‬
‫ص‪٣۶ :‬‬

‫‪؎۱٤‬احمد حسن الفریونی ‪،‬مترجم ‪ ،‬محمد زین العابدین‪ ،‬دجال شیطانی ہتھکنڈے اور تیسری‬
‫جنگ عظیم‪ ،‬ملت پبلی کیشنز ‪،‬اسالم آباد ‪ ،‬س ‪ ۲٠۱۲‬ء ‪ ،‬ص ‪۲٠٤‬‬

‫‪www,dawnnews .tv/news/1084216 /10-4-2019/5:19pm‬‬ ‫‪؎۱٥‬‬

‫‪www. Dunyapakistan.com/211654/ 10-4-2019/5:23pm‬‬ ‫‪؎۱۶‬‬


‫‪www.antidjjalmission.com/5755/ 10-4-2019/6:39 pm‬‬ ‫‪؎۱٧‬‬

‫‪iblagh.com/122605/10-4-2019/6:55pm‬‬ ‫‪؎۱۸‬‬
‫‪https://hamariweb.com/articles/7144 /10-4 2019/ 7:08pm‬‬ ‫‪؎۱ ٩‬‬

‫‪www.zeropoint.com.pk/international/2017/10-4-2019/7:04pm‬‬ ‫‪؎۲٠‬‬

‫‪؎۲۱‬عاصم عمر ‪،‬موالنا‪ ،‬برمودا تکون اور دجال‪ ،‬الھجر ہ پبلیکیشن ‪،‬کراچی ‪،‬س ‪۲٠٠٩‬ء‪ ،‬ص‪:‬‬
‫‪٣٩‬‬

‫دجال کی مختلف شخصیات سے مالقات‪:‬‬

‫کہا جا تا ہے کہ سائنس کی تاریخ میں سے اگرالبرٹ آئنسٹائن کا نام نکال دیا جائے تو سائنس‬
‫ترقی کی رفتار بہت پیچھے چلی جاے گی۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی مالقات‬
‫دجال کے ساتھ ہوئی ہے۔ڈک چینی کے بارے میں کہا جاتا ہے اس نے دجال کو دیکھا ہے اور‬
‫بش اس سے رابطے میں ہیں۔‬

‫البرٹ آئنسٹان ‪:‬‬

‫یہ کٹر یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک موٹے دماغ‬
‫کا لڑکا ہےمالی پریشانیوں کے سبب یہ لوگ اٹلی سے سوئزر لینڈ آگئے۔سوئزرلینڈ میں تعلیم تک‬
‫اس کے بارے میں تمام لکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ ایک کوئی اچھا طالب علم نہیں‬
‫تھا۔آئن سٹائن میں تبدیلی ‪ 1900‬کے بعد آنا شروع ہوئیں ‪ 1905‬آئن سٹائن کی کامیابیوں کاسال‬
‫سمجھا جاتا ہے اسے سال اس نے کئی مقالے پیش کیے۔ چوتھا مقالہ خصوصی اضافیت پر تھا‬
‫اس سے وقت اور فضا کو الگ الگ تصور کرنے کے بجائے" وقت وفضا" یازمان و مکاں" کا‬
‫نظریہ سامنے آیا۔‪ 1911‬میں اس نے عمومی نظریہ اضافت تا پر اپنا مقالہ شائع کیا۔‬

‫"سوئزرلینڈ میں یہ دجال کے ساتھ اس کا رابطہ ہوا اور اسی نے اس کو نظریہ اضافیت کا علم‬
‫دیا"‬

‫اعتراض ہے کہ آئنسٹائن میں ایسی کون سی خاص بات تھی جس سے دجال خوش ہوا اور‬
‫آئنسٹائن کو ہیرو بنو ادیا۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں آئنسٹائن کی زندگی اور اس‬
‫کے نظریات کامطالعہ کرنا ہوگا۔آئنسٹائن اگرچہ خود کٹر یہودی تھا لیکن دوسروں کو وہ‬
‫الدینیت اور الحاد کی طرف دعوت دیتا تھا۔ ذاتی اعتبار سے اس میں وہ تمام برائیاں موجود‬
‫تھیں جو ابلیس یا دجال کو خوش کرنے کے لئے کافی تھیں عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات ۔‬
‫حتی کہ ‪ 1092‬میں پہلی بیٹی اس کی ناجائز بیوی سے ہوئی۔اس بیٹی کو انہوں نے پاال نہیں ۔‬
‫اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا کیا ہوا۔ ا بات سے اس کی چرافت اور انسانی ہمدردی کا‬
‫اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‬

‫اگر آئنسٹا ئن کا خدا مذہبی نقطہ نظر سے مختلف ہونے کا خیال ظاہرکیا گیا ہے اگر آئنسٹائن کا‬
‫خدا مذہبی خدا نہیں تھا تو پھر کون تھا؟ یہی چیز غور کرنے والی ہے کی وہ اکثر کس خدا کا‬
‫ذکر کرتا تھا۔ اگرچہ اب بعض مبصرین کی رائے یہ ہے کہ آئنسٹائن کی خدا سے مراد قدرت‬
‫ہے لیکن یہ درست نہیں ہے ۔‬

‫آئنسٹائن دجال کو اپنا خدا مانتا ہے۔ ا س بات پر آئنسٹائن کے مقاالت میں بھی ایک اشارہ ملتا‬
‫ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنے نظریات کے بارے میں " میرا نظریہ" کے بجائے " ہمارا نظریہ" کا لفظ‬
‫استعمال کرتا تھا۔ وہ کائنات کی متحدہ قوت کا رازپتہ لگانے کی بھی کوشش کررہا تھا۔ (‪)8‬‬

‫قرآن وحدیث میں اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ شیطان اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے یعنی وہ‬
‫اپنے دوست (انسان) کا شیطانی مشورے دیتا ہے۔ اور ان کی مدد کرتا ہے اس طرح شیطان کا‬
‫سب سے بڑا مہرا دجال ہے جس کی مدد سے وہ لوگوں کو توحید سے دور کرے گا۔شیطان‬
‫اپنے دوست دجال کی مدد سے دنیا پر کچھ عرصہ ہللا کے حکم سے حکومت کرے گا۔‬

‫بش اور دجال‪:‬‬

‫امریکی صدر بش نے عراق پر حملے سے پہلے کہا تھا کہ اسے جنگ کے بعد ان کا مسیح‬
‫موعود( یعنی دجال) آنے واال ہے اس کے بعد وہ اس نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ماسکو ٹائمز کے‬
‫مطابق اس نے دورے کے دوران ایک مجلس میں جس میں سابق فلسطینی وزیراعظم محمود‬
‫عباس اور حماس کے لیڈر بھی شریک تھے بقول محمد عباس‪ ،‬بش نے دعوے کئے کہ‪:‬‬

‫‪-1‬میں نے (اپنے حالیہ اقدامات کے لئے) براہ راست خدا سے قوت حاصل کی ہے۔‬

‫‪ -2‬خدا نے مجھے حکم دیا کہ القاعدہ پر ضرب لگاؤ اس لیے میں نے اس پر ضرب لگائی اور‬
‫مجھے ہدایت کی کہ میں صدام پر ضرب لگاؤں جو میں نے لگائی ہے اور اب میرا پختہ ارادہ‬
‫ہے کہ میں مشرق وسطی کے مسئلہ کو حل کرو اگر تم لوگ یہودی میری مدد کرو گے تو میں‬
‫دعوی اکثر کرتا‬
‫ٰ‬ ‫اقدام کروں گا ورنہ میں آنے والے الیکشن پر توجہ دوں گا۔بش اپنی نبوت کا‬
‫رہتا ہے اور کہتا ہےکہ‪:‬‬

‫‪ "i am‬میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ بش کا خدا ابلیس یہ دجال ہے جو اس کو براہ راست‬
‫”‪messenger of God‬‬

‫حکم دیتا ہوگا۔‬

‫ڈک چینی اور دجال‪:‬‬


‫دعوی ہے کہ اس نے دجال سے مالقات کی ہے اور‬
‫ٰ‬ ‫ڈک چینی کے بارے میں اسراد عالم کا‬
‫دجال اس کو خود ہدایات دیتا ہے۔‬

‫ڈک چینی تو وہ ہے جو دجال کی جانب سے منظر عام پر آیا ورنہ امریکہ ہی کیا "برطانیہ"‬
‫سویڈن" ناروے‪ :‬اصفہان‪ ،‬کا بل اور دنیا کے مختلف خطوں میں راک فیلر‪،‬روتھ شیلڈ ‪ ،‬مورگن‬
‫خاندان کے کتنے ہی بیٹھے ہوئے ہیں جن کے لبوں کی حرکت دنیا کے جمہوری اور شہنشاہی‬
‫حکومتوں کا قانون بن جاتی ہے امریکہ سمیت تمام دنیا کے حکمران آئی ایم ایف کے صدر دفتر‬
‫کی بجائے نیویارک میں ان کے گھروں کی چوکھٹ پر ناک رگڑتے ہیں۔چناچہ یہ بات قرین‬
‫قیاس لگتی ہے کہ اگر دجال متحرک ہے تو ان یہودی خاندان سے وہ ضرور رابطے میں رہتا‬
‫ہوں گا افغانستان میں طالبان کی سپالئی کے بعد سب سے پہلے آنے واال یہودی راک فیلر فیملی‬
‫کا ایک بائیس سالہ لڑکا تھا۔جس نے اس آپریشن کی نگرانی کی تھی یہ خاندان آئی ایم ایف ‪،‬ورلڈ‬
‫بینک‪ ،‬عالمی ادارہ صحت‪ ،‬اقوام متحدہ ‪،‬جنگی جہاز بنانے والی کمپنیوں‪ ،‬جدید اسلحہ‪،‬مزائل‪،‬‬
‫خالئی تحقیقاتی ادارے "ناسا" فلمساز ادارہ ہالی وڈ جیسے اداروں کا مالک ہے۔‬

‫یہودی خاندان صرف بینک کار ہی نہیں بلکہ" کبالہ" کا علم بھی رکھتے ہیں اس لئے بعض‬
‫انگریز مصنفین نے ان کو "پانچ کبالہ" کا نام سے بھی یاد کیا ہے۔ یہ سب کٹرصیہونی مذہبی‬
‫لوگ ہیں دجال اپنی خدائی کے اعالن سے پہلے انہیں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے راہ‬
‫ہموار کرتا رہے گا قرآن و حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ شیا طین اپنے انسانوں میں‬
‫موجود دوستوں کی مدد کرتے ہیں۔(‪)10‬‬

‫حوالہ جات‪:‬‬

‫‪-8‬ایضا‪ ،‬ص‪224 :‬‬

‫‪ -9‬عاصم عمر‪،‬موالنا‪ ،‬تیسری جنگ عظیم اور دجال‪ ،‬الھجرہ پبلیکیشن ‪ ،‬کراچی ‪،‬س‬
‫‪2009‬ء‪،‬ص‪109:‬‬

‫‪ -10‬احمد حسن الفریونی ‪،‬مترجم ‪ ،‬محمد زین العابدین‪ ،‬دجال شیطانی ہتھکنڈے اور تیسری‬
‫جنگ عظیم‪ ،‬ملت پبلی کیشنز ‪،‬اسالم آباد ‪ ،‬س ‪ 2012‬ء ‪ ،‬ص‪221:‬‬

You might also like