You are on page 1of 2

‫خطبہ شقشقیہ کا متن اور ترجمہ‬

‫خدا کی قسم‪ ! ‬فالن (ابوبکر) نے پیراہ ِن خالفت پہن لیا حاالنکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا‬
‫کہ میرا خالفت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ (کوہ ُ بلند ہوں ) جس‬
‫پر سے سیالب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے‬
‫باوجود) میں نے خالفت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ‬
‫سن رسیدہ‬ ‫اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں ِ‬
‫بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا‪ M‬ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس‬
‫قرین عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر‪ M‬کیا۔ حاالنکہ آنکھوں‬
‫ِ‬ ‫پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی‬
‫میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث‬
‫ابن خطاب کو دے گیا۔‬‫کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خالفت ِ‬
‫بطور تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا۔)‬
‫ِ‪M‬‬ ‫(پھر حضرت نے‬
‫کہاں یہ دن جو ناقہ‪ M‬کے پاالن پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا "‬
‫"تھا۔‬
‫تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خالفت سے سبکدوش‪ M‬ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی‬
‫بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خالفت کے تھنوں کو‬
‫آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خالفت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا۔ جس کے چرکے کاری‪M‬‬
‫تھے۔ جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی‪ M‬تھی۔ جہاں بات بات میں ٹھوکر‪ M‬کھانا اور پھر عذر‬
‫کرنا تھا۔ جس کا اس سے سابقہ پڑے ہو ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کو سوار کہ اگر مہار کھینچتا‪ M‬ہے‬
‫تو (اس کی منہ زوری‪ M‬سے ) اس کی ناک کا درمیانی‪ M‬حصہ ہی شگافتہ‪ M‬ہوا جاتا ہے جس کے بعد مہار‬
‫دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیال چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ‬
‫جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم‪ ! ‬لوگ کجروی‪ ،‬سرکشی‪ M،‬متلون مزاجی اور بے راہ‬
‫روی‪ M‬میں مبتال ہو گئے میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔ یہاں تک کہ دوسرا بھی‬
‫اپنی راہ لگا‪ ،‬اور خالفت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا۔ اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد‬
‫شوری سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے‬ ‫ٰ‬ ‫خیال کیا۔ اے ہللا مجھے اس‬
‫استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ‬
‫طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں‬
‫اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی االمکان کسی نہ‬
‫کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں۔) ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے‬
‫منحرف‪ M‬ہو گیا اور دوسرا مادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔ یہاں تک کہ اس‬
‫قوم کا تیسرا‪ M‬شخص پیٹ پھالئے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے‬
‫فصل ربیع کا چارہ‬‫ِ‬ ‫بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے۔ جو ہللا کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ‬
‫چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا۔ جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بَل ک ِھل گئے اورا س کی بد‬
‫اعمالیوں نے اسی کا کام تمام کر دیا۔ اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔ اس وقت مجھے لوگوں‬
‫کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بچو کے ایال کی طرح ہر طرف‪ M‬سے لگاتار بڑھ رہا تھا‬
‫یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن علیہ اور حسین علیہ کچلے جارہے تھے اور میری ردا کے دونوں‬
‫کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس‬
‫کے باوجود‪ M‬جب میں امر خالفت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا‪ M‬دین سے‬
‫نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے ہللا کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ‪ » ‬یہ‬
‫آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں نہ فساد‬
‫پھیالتے ہیں۔ اور اچھا انجام پرہیز‪ M‬گاروں کے لئے ہے۔«‪ ‬ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا‬
‫تھا اور یاد کیا تھا۔ لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔‬
‫دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ‪ M‬کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں۔ اگر بیعت کرنے‬
‫والوں کی موجودگی‪ M‬اور مدد کرنے والوں کے وجود‪ M‬سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی‪ M‬ہوتی اور وہ عہد‬
‫نہ ہوتا جو ہللا نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم‪ M‬کی گرسنگی‪ M‬پر سکون‬
‫و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خالفت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی‬
‫پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم پانی دنیا کو میری نظروں‬
‫ناقابل اعتنا پاتے۔‬
‫ِ‬ ‫میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ‬

You might also like