You are on page 1of 1

‫ایک لسانی جائزے کے مطابق دنیا میں اس وقت چھ ہزار اٹھ سو نو زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔

ان میں سے نوے فیصد ایسی‬


‫ہیں کہ جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک الکھ سے کم ہے ‪ 537‬زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ‪ 50‬سے بھی کم ہے‬
‫اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں سے ‪ 46‬زبانیں ایسی ہیں کہ جو آئیندہ چند سالوں میں ختم ہو جائیں گی‬
‫کیونکہ ان کے بولنے والوں کی تعداد ایک یا دو لوگ باقی رہ گئے ہیں۔‬

‫پونچھی پہاڑی زبان وسیع و عریض عالقے پر پھیلی ہوئی ہے‬

‫بلخصوص ہندستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ مگر ‪ 1980‬کے بعد غیر‬
‫تحریری ادب جو سینہ با سینہ اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہا ان کے ساتھ ہی دفن ہوتا گیا اور ساتھ ہی ساتھ زبان پر اردو اور بعد میں‬
‫انگلش کا غلبہ بھی ہوتا گیا۔ بلخصوص اسکولز اور گھروں میں بچوں کو ماں بولی پر اردو کو ترجیح ملنے لگی۔‬

‫ایسے حاالت کے پیش نظر کچھ اہل نظر جن میں سردار کبیر خان ڈاکٹر صغیر لیاقت الئق حمید کامران شکور گردیزی اور نثار‬
‫نجمی نے شاعری نثر اور مختلف اصناف کو محفوظ کرنے کے لیے کتابیں لکھیں۔ اس کے عالوہ ریڈیو پروگراموں اور مشاعروں‬
‫میں ماں بولی کو خوب پزیرائی ملی ۔‬

‫زیر نظر کتاب ماں بولی کی ترویج میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ جس کی تحریر کے لیے مصنف محمد عباس حجازی نے متروک‬
‫ہونے والے الفاظ محاورے اور آخان کو اردو انگریزی ترجمہ کے ساتھ لکھ کر آنے والی نسل کے لیے اپنی مادری زبان کو سمجھنا‬
‫آسان کر دیا۔‬

‫محمد عباس حجازی درس و تدریس سے وابستہ ہیں یہی وجہ ہےکہ انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہمارے معاشرے کی مشترکہ قدروں‬
‫میں سب اہم ہماری ماں بولی ہے جس کے لیے بڑی محنت اور تحقیق کے بعد کتاب النے کا فیصلہ کیا جو ایک خوش آئند ہے۔‬
‫مصنف نے پہاڑی زبان میں شاعری بھی کر رکھی ہے جو بہت جلد کتاب کی صورت سامنے آئے گی۔ مجھے‪ p‬امید ہے کہ یہ کتاب‬
‫پونچھی پہاڑی زبان کے ترقی اور ترویج میں اہم کردار ادا کرے گی۔ خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔‬

‫زبیر حسن زبیری‬

‫۔‪07‬۔‪182022‬‬

You might also like