You are on page 1of 16

‫سالمتی با‬

‫انسانی حقوق‬
‫©‬

‫ھم تاکید کرتے ھیں کہ ریاستیں ان تمام اقدامات میں حقوق بشر کا‬
‫احترام کریں جو وہ قومی سالمتی کے لئے یا دہشتگردی سے مقابلہ‬
‫کرنے کے لئے اٹھاتے ھیں۔ جہاں ریاستیں انسانی حقوق کے احترام‬
‫کرنے میں ناکام رہ جاتی ھیں تو ذمہ دار حکومتوں اور افراد کا‬
‫محاسبہ کیا جانا چاہئیے۔ ایمنسٹی اینٹرنیشنل دہشتگردی اور مسلح‬
‫گروھوں کا نشانہ بننے والوں کے لئے کام کرے گی‪ ،‬اور سچ‪،‬‬
‫انصاف اور ازالہ حاصل کرنے کے لئے ان کی جدوجہد کی مدد‬
‫کرے گی۔‬
‫‪2‬‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل ‘ سالمتی با حقوق بشر’ کی عالمی مھم کا آغاز‬


‫کرنے والی ھے۔ ایمنسٹی اینٹرنیشنل‪ ،‬جو کہ ‪ 3‬میلین سے زیادہ‬
‫حامیوں‪ ،‬اراکین اور کارکنوں کی حمایت یافتہ ھونے کے ناطے عالمی‬
‫تشکیل کی حامل ھے‪ ،‬ان حکومتوں کو افشا کرے گی جو قومی‬
‫سالمتی یا دہشتگردی سے مقابلے کے نام پر انسانی حقوق کی خالف‬
‫ورزی کرتی ھیں ‪ ،‬یا دھشتگردی کے خطرے کو بہانہ بنا کر انسانی‬
‫حقوق کی تضعیف کرتے ھیں۔ یہ اس سلسلے میں کی جانے والی‬
‫خالف ورزیوں پر روشنی ڈالے گی اور ذمہ دار افراد کے کے احتساب‬
‫کا مطالبہ کرے گی۔ یہ خالف ورزیوں کے شکار لوگوں کے حقوق کے‬
‫لئے مھم چالئے گی‪ ،‬چاہے ریاست کی جانب سے کی جانے والی خالف‬
‫ورزیوں کا نشانہ بنے ھوں یا ان حملوں کا شکار جو مسلح گروھوں‬
‫کی جانب سے کئے جاتے ھیں۔‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل نے اس کا جواب سرزد‬ ‫پس منظر‬


‫شدہ انسانی حقوق کی خالف ورزیوں سے پردہ‬ ‫بعض لوگ یہ دلیل بتاتے ھیں کہ دہشتگردی‬
‫اٹھانے‪ ،‬اور بین االقوامی قانونی معیارات کے‬ ‫کا خطرہ اتنا شدید ہے کہ موجودہ قومی اور‬
‫دفاع کرنے سے دیا۔ ہمارے ممبران اور حامیوں‬ ‫بین االقوامی ضابطوں کو ایک حانب رکھـ کر‬
‫نے بہت سارے ایسے اعمال کے خالف مہم‬ ‫حکومتوں کو مجاز بنا دیا جانا چاہئے تاکہ وہ اس‬
‫چالئی جو انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتے‬ ‫قسم کے حملوں سے لوگوں کو تحفظ فراہم کریں۔‬
‫تھے‪ ،‬ان میں استعمال اذیت کو جائز قرار دینے‬ ‫وہ اصرار کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کا احترام‬
‫کی کوششیں‪ ،‬افغنستان اور خلیج گوانتنامو کیوبا‬ ‫کے ذمہ داری دہشتگردی سے مؤثر طور پر‬
‫میں امریکی قیدخانوں میں قید اور دوسری خفیہ‬ ‫نمٹنے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی راہ‬
‫جگہوں پر قید لوگوں سے برے سلوک کے‬ ‫میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے۔‬
‫حوالے سے بین االقوامی قانون کی کھلی خالف‬
‫ورزیاں شامل ہیں۔‬ ‫امریکہ پر ‪ 11‬ستمبر ‪ 2001‬کے حملوں کے بعد‬
‫اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کی سربراہی‬
‫سال ‪ 2006‬میں اس کام کے مختلف حصوں کو‬ ‫میں امریکی ادارے نے بھی اس قسم کی دالئل‬
‫دہشتگردی کے خالف ایمنسٹی اینٹرنیشنل کی‬ ‫کی‍طرف یہ دعوی کرتے ہوئے رجوع کیا کہ‬
‫باانصاف عدالت میں یکجا کیا گیا۔ دنیا بھر سے‬ ‫“دہشتگردی کے خالف جنگ” میں بین االقوامی‬
‫کارکنوں نے گوانتنامو قیدخانے کی بندش کا‬ ‫انسانی اور انسانیتی قوانین کا اطالق حاالت کے‬
‫مطالبہ کیا اور خفیہ قیدخانوں‪ ،‬اذیت اور دوسری‬ ‫ایک وسیع دائرے پر نہیں ہوتا۔ امریکی افواج نے‪،‬‬
‫قسم کی زیادتیوں کے خالف احتجاج کیا۔ ہم نے‬ ‫بعض اوقات دوسری ریاستوں کی آوبھگت سے‪،‬‬
‫تواتر سے “دہشتگردی کے خالف جنگ” میں‬ ‫خودسرانہ طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں‬
‫انسانی حقوق کی خالف ورزیوں کو مستند طور‬ ‫لوگوں کو گرفتار کیا‪ ،‬انہیں خفیہ مقامات پر رکھا‪،‬‬
‫پر پیش کیا اور دنیا بھر میں موجود قیدخانوں کے‬ ‫ضروری ضابطوں کو خاطر میں الئے بغیر انہیں‬
‫تاریک ترین گوشوں میں ہونے والی زیادتیوں‬ ‫ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کیا‪ ،‬انہیں‬
‫‪© Simon Freeman‬‬

‫سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی۔‬ ‫فرد جرم اور مقدمے کے بغیر لمبے عرصے تک‬
‫زیر حراست رکھا‪ ،‬اور انہیں اذیتیں دیں اور یا‬
‫بصورت دیگر ان کے ساتھـ بد سلوکی کی گئی۔‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬ ‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬


‫‪3‬‬ ‫سڈنی اسٹریلیا میں جنوری ‪ 2008‬کوامریکی قونصل خانے‬
‫کے باہر کیوبا کے گوانتنامو بے میں قیدخانے کے چھٹے یوم‬
‫تاسیس کے موقع پر مظاہرہ‪-‬‬

‫“گزشتہ چھـ سالوں کے دوران نام‬


‫نہاد ‘چھـ الجزائریوں’ کو ازادی‬
‫دالنے کے لئے آپ کی مدد کا بہت‬
‫شکریہ۔ درحقیقت میں اپنے اظہار‬
‫تعظیم کے لئے الفاظ نہیں ڈھونڈ‬
‫سکتی‪ ،‬مگر جب بھی میں مایوسی‬
‫اور تنہائی محسوس کرتی تھی تو‬
‫آپ میں سے ایک کی جانب سے‬
‫مدد کا خط آجاتا تھا اور مجھـ میں‬
‫جان آجاتی تھی اور جدوجہد کو‬
‫جاری رکھنے کے لئے قوت حاصل‬
‫کرلیتی تھی۔ ۔ ۔ “‬
‫ندجہ دیدارویک‪ ،‬اسیر گوانتنامو کے قیدی بودیال الحاج کی بیگم‬

‫فرنٹ کور‪© John Woodworth/GettyImage :‬‬

‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬


‫‪4‬‬

‫مثال کے طور پر سعودی عربیہ نے دہشتگردی‬ ‫بہت سی ریاستوں نے امریکہ کی سربراہی میں‬
‫کے خالف جنگ کے بہانے بطور مسلسل انسانی‬ ‫لڑی جانے والی “دہشتگردی کے خالف جنگ”‬
‫حقوق کو زیراعتاب رکھا ہے۔ ہزاروں افراد کو‬ ‫سے پیدا شدب صورت حال سے فائیدہ اٹھاکر‬
‫مکمل پراسراریت میں گرفتار کرکے قید میں‬ ‫لمبے عرصے سے سرزد ہونے والی انسانی‬
‫رکھا گیا ہے؛ دیگرافراد کو حکام کے دعوں کے‬ ‫حقوق کی خالف ورزیوں کو اور شدید کیا یا‬
‫مطابق سیکوریٹی افواج کے ساتھـ تصادم میں‬ ‫حفاظت کےنام سے ہونے والے زیادتی پر مبنی‬
‫مارا گیا‪ ،‬یہ ایسے دعوے ہیں جن کی تصدیق‬ ‫اعمال جائز قرار دیا۔ بعض ریاستوں نے جا‏ئز‬
‫کبھی نہیں کی جاسکتی۔ ‪ 2009‬سے لے کر اب‬ ‫مخالفت اور سیاسی اختالف کو دبانے کے لئے‬
‫تک سینکڑوں افراد کے خالف خفیہ اور مختصر‬ ‫خوف کا ماحول پیدا کیا۔ ایتھوپیا‪ ،‬بھارت اور‬
‫مقدمات میں عدالتی کاروائی کی گئی ہے؛ ان‬ ‫اردن کے بشمول بہت سے ممالک نے دہشتگردی‬
‫میں سے کم از کم ایک کو سزائے موت اور‬ ‫کی ایک مبہم تعریف کرکے اس کے خالف قانون‬
‫بہت سے دیگر افراد کو لمبی قید کی سزائیں‬ ‫سازي کی۔ ایسے وسیع اختیارات نے خودسرانہ‬
‫سنائی گئی ہیں۔ دیگر سینکڑوں گرفتارشدگان‬ ‫گرفتاریوں کو اسان بنادیا‪ ،‬بعض صورتوں میں‬
‫‪© Amnesty International‬‬

‫مقدمے یا ممکنہ سزائے موت کے منت‍ظر ہیں۔‬ ‫تو لوگوں کے انسانی حقوق کی جائز تعمیل کا‬
‫مقدمہ اکثر اسیران ضمیر کی اسارت میں تبدیل‬
‫بعض دوسری ریاستیں‪ ،‬جو لمبے عرصے سے‬ ‫ہوجاتا ہے۔‬
‫انسانی حقوق کی ترویج کے رہنما ہونے کے‬
‫دعوے کرتے چلے آرہے ہیں‪ ،‬بھی جب سالمتی‬ ‫سویٹزرلینڈ میں ‪ 2008‬کے قانون انسداد‬
‫کے خطرات آڑے آجاتے ہیں تو انسانی حقوق‬ ‫دہشتگردی میں ایسے زوردار اختیارات شامل‬
‫کے ساتھـ وفا نبھانے میں ناکام رہ جاتی ہیں۔‬ ‫ہیں جو حکومت پر تنقید کرنے والر افراد اور‬
‫دراین اثنا مسلح گروہ اور افراد تسلسل کے ساتھـ‬ ‫تنظیموں کو دبا‏ؤ اور ممکنہ عدالتی کاروائی کے‬
‫ان شہریوں پر ظلم ڈھا رہے ہوتے ہیں جو اکثر‬ ‫سامنے بے بس بنا دیتی ہے۔ سویٹزرلینڈ کے‬
‫بےیارومددگار رہ جاتے ہیں۔‬ ‫حکام نے ‪ 2009‬کے بعد اس قانون کے اختیارات‬
‫کے تحت سیاسی کارکنوں‪ ،‬انسانی حقوق کے‬
‫سالمتی با انسانی حقوق کی مہم کا مقصد‬ ‫محافظوں اور مزدور تنظیموں کے افراد کو‬
‫دنیا بھر سے ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے اراکین‬ ‫ڈرایا دھمکایا‪ ،‬ان کے ساتھـ برا سلوک کیا‪ ،‬انہیں‬
‫اورحامیوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ زیادتیوں‬ ‫حراست میں لیا اور ان کے خالف عدالتی کاروائی‬
‫کی اس روش کا سدباب کرتے ہوئے تین باتوں‬ ‫کی۔ سال ‪ 2010‬میں حکومتی تنصیبات پر پیٹرول‬
‫پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھیں – غیرقانونی‬ ‫بموں کے حملے کے بعد ایک بڑے اور بےدریغ‬
‫گرفتاریوں اور مفقودین سے متعلق زیادتیوں اور‬ ‫کاروائی کے دوران اسی ایکٹ کے تحت گرفتار‬
‫ایذارسانی کا خاتمہ؛جو لوگ امن و امان کے‬ ‫شدب ایک سیاسی کارکن کی موت دوران حراست‬
‫نام پر زیادتیوں کے ارتکاب کے ذمہ دار ہیں‬ ‫نامعلوم حالت میں واقع ہوئی۔‬
‫ان کے احتساب کو یقینی بنائیں؛ اور نشانہ بنے‬
‫لوگوں کے حقوق کے لئے مہم چالئیں چاہے وہ‬ ‫متعدد حکومتیں متواتر طور پر دہشتگردی کے‬
‫ریاستوں کے جانب سے کی گئی خالف ورزیوں‬ ‫خطرے کا سہارا لے کر بین االقوامی قانون کو‬
‫کا شکار ہوں یا ان حملوں کا نشانہ بنے ہوں جو‬ ‫خاطر میں نہیں التے اور انسانی حقوق کی خالف‬
‫مسلح گروہوں کی جانب سے شہریوں پر کی‬ ‫ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔‬
‫جاتی ہیں۔‬
‫بہت ساری حکومتیں پرامن اختالف رائے کو‬
‫دباتی ہیں‪ ،‬امن کے حوالے سے مشکوک افراد‬
‫کو اذیتیں دیتی ہیں‪ ،‬افراد کو فرد جرم اور مقدمہ‬
‫چالئے بغیر حراست میں رکھتی ہیں‪ ،‬لوگوں کے‬
‫جبری غائب کراتی ہیں‪ ،‬اور بہت ساری دوسری‬
‫زیادتیوں کا ارتکاب کرتی ہیں – اور یہ سب کچھـ‬
‫صرف سالمتی کے نام پر کرتی ہیں۔‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬ ‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬


‫‪5‬‬ ‫دائیں‪ :‬چلی میں جنوری ‪ 2009‬کی “گوانتنامی بند کرو” کی مہم‬

‫نیچے‪“ :‬ایذارسانی بند کرو” ایمنسٹی انٹرنیشنل کی شمع بردار‬


‫مہم جون ‪ 2006‬بریزبین اسٹریلیا‬

‫“ انسانی حقوق پر سمجھوتہ‬


‫کرنے سے دھشتگردی سے‬
‫مقابلے کرنے کا ھدف حاصل نہیں‬
‫کیا جاسکتا۔ بلکہ اس کے برعکس‬
‫یہ ایک دھشتگرد کے مقاصد کے‬
‫حصول کو سہل بنا دیتا ھے –‬
‫کیونکہ اس سے اسے اخالقی بنیاد‬
‫ملتی ھے‪ ،‬اور خاص طور پر ابادی‬
‫کے ان حصوں میں حکومت کے‬
‫خالف تناو‪ ،‬نفرت اور بداعتمادی‬
‫بڑھ جاتی جہاں سے وہ بھرتی کرتا‬
‫رہتا ھے۔”‬
‫کوفی عنان‪ ،‬اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل‪2005 ،‬‬

‫‪© Stefan Jannides‬‬

‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬


‫‪6‬‬

‫میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا جاتا‬ ‫غیرقانونی گرفتاریوں کو ختم کرو‬
‫ہے‪ ،‬جبکہ سری لنکا میں ہزاروں افراد کو‬ ‫بہت سی حکومتوں نے دہشتگردی کے بڑھتے‬
‫لبریشن ٹائگرز آف تامل ایالم کے ساتھـ رابطے‬ ‫ہوئے خدشے کا جواب لوگوں کی گرفتاریوں سے‬
‫کی شبہ کی بنا پر فردجرم کے بغیر قید میں رکھا‬ ‫دیا ہے مگر اس عمل میں ان مدافعات کا خیال‬
‫جاتا ہے۔‬ ‫نہیں رکھا جو معمول کے مطابق ہر اس شخص‬
‫کی ضرورت ہوتی جو ازادی سے محروم ہو جاتا‬
‫مہم برائے سالمتی با انسانی حقوق غیرقانونی‬ ‫ہے۔ ان مدافعات میں شامل ہیں‪ ،‬گرفتارشدگان کو‬
‫حراست‪ ،‬خاص طور پر طاقت کے بل پر غائب‬ ‫ان کی گرفتاری کی وجہ بتانا؛ ان کے خاندان‬
‫)‪© Dicle Haber Ajansi (DIHA‬‬

‫کرنے اور ایذارسانی کے ساتھـ مربوط زیادتیوں‬ ‫والوں کو ان کے مقام حراست کے بارے میں‬
‫کے خاتمے کے لئے بھی کام کرے گی۔‬ ‫بتانا؛ اور یہ یقینی بنانا کہ گرفتارشدگان کو وکال‬
‫تک رسائی حاصل ہے ‪ ،‬اپنی گرفتاری کی قانونی‬
‫حیثیت کے بارے میں پوچھنا‪ ،‬اور یہ کہ انہیں‬
‫بزور طاقت گمشدگیاں‬ ‫ایک خفیہ مقام حراست پر قید نہیں رکھا گیا ہے۔‬

‫بعض ممالک میں انسداد دہشتگردی کے لئے‬ ‫مھیم برائے سالمتی با انسانی حقوق ایمنسٹی‬
‫طاقت کے بل بوتے پر گمشدگیوں کا ارتکاب عام‬ ‫اینٹرنیشنل کے کام کو قومی سالمتی یا انسداد‬
‫ہوچکا ہے۔ بزورطاقت گمشدگی اس وقت واقع‬ ‫دہشتگردی کے نام پر غیرقانونی گرفتاری سے‬
‫کہہ دیا ہے۔ جو لوگ امن عامہ کی شک کے‬ ‫ہوجاتی ہے جب ایک شخص ریاست یا ریاست‬ ‫پردہ اٹھانے اور اس کے خاتمے تک جاری‬
‫تحت پکڑے جاتے ہیں عام طور پر انہیں بہت سی‬ ‫کیلئے کام کرنے والے گماشتوں کے ہاتھوں‬ ‫رکھے گی۔ انسانی حقوق کی شدید خالف ورزیوں‬
‫زیادتیاں سہنی پڑتی ہی جن میں جبری گمشدگی‬ ‫گرفتار‪ ،‬قید یا اغوا ہوجاتا ہے اور پھر حکام اس‬ ‫کے نتیجے میں لوگ بال مقدمہ اور اپنی خالف‬
‫بھی شامل ہے۔ بعض افراد تو ہفتوں یا مہینوں تک‬ ‫بات سے انکار کریں کہ مذکورہ شخص ان کے‬ ‫شہادت دیکھے بغیر‪ ،‬اور کسی بھی طریقے سے‬
‫مفقود ہوتے ہیں جب دراصل وہ ان سیکوریٹی‬ ‫ہاں قید ہے یا اس کی حالت اور اتہ پتہ چھپا کر‬ ‫اپنی گرفتاری کو چیلنج کئے بغیر سالہاسال تک‬
‫ایجنسیوں کی قید میں رہتے ہیں جو احتساب سے‬ ‫اسے قانون کے تحفظ سے ماورا قرار دیں۔‬ ‫پابند سالسل رہ سکتے ہیں۔‬
‫مبرا ہیں اور صرف یمن کے صدر علی عبداہلل‬
‫صالح ہی کو رپورٹ دیتے ہیں۔ حکومت نے‬ ‫‍بزورطاقت گمشدگیوں کے گھمبیر نتائج نکلتے‬ ‫بھارت میں عام طور پر ریاست جموں و کشمیر‬
‫سیاسی مخالفین اور ناقدین کو حراست میں لینے‬ ‫میں انتظامی یا “انسدادی” حراست کو قانون برائے ہیں۔ جو لوگ غائب کئے جاتے ہیں انہیں اکثر‬
‫کے لئے بھی دہشتگردی کے ساتھـ مقابلہ کرنے‬ ‫اذیتیں دے کر پراسرار طور پر ہالک کیا جاتا‬ ‫تحفظ عامہ کے تحت بروئے کار الیا جاتا ہے۔‬
‫کو بطور بہانہ استعمال کیا ہے۔‪.‬‬ ‫ہے۔ رشتہ داروں کو اپنے عزیزوں موت اور‬ ‫سیاسی کارکنوں اور مسلح گروہوں کے مشکوک‬
‫زندگی کی خبر نہیں ہوتی‪ ،‬جو بذات خود ایک‬ ‫ارکان یا حامیوں کو اکثر ایسے مبہم الزامات کی‬
‫مہم برائے سالمتی با انسانی حقوق کے ایک جز‬ ‫ایسی پریشانی ہے جو ظلم‪ ،‬غیرانسانی یا ذلت آمیز‬ ‫بنا پر گرفتار کیا جاتا ہے‪ ،‬کہ انہوں نے ایسا‬
‫کے طور پر ایمنسٹی اینٹن نیشنل ریاستوں پر دباؤ‬ ‫سلوک کا باعث بنتی ہے۔‬ ‫طرزعمل اپنایا تھا جو “ریاست کی سالمتی” یا‬
‫کو جاری رکھے گی تاکہ وہ اقوام متحدہ کا معاہدہ‬ ‫“امن عامہ کے قیام” کے لئے نقصاندہ تھا‪ ،‬دونوں‬
‫برائے جبری گمشدگی کی تصدیق اور مکمل نفاذ‬ ‫غیرواضح اصطالحات ہیں۔ احکام حراست کا اجرا پاکستان میں جبری گمشدگیا ‪ 2001‬سے پہلے‬
‫عمل میں الئیں جو ‪ 2010‬میں بیسویں ریاست‬ ‫بہت کم تھیں۔ اس کے بعد سے اگر ہزاروں نہیں‬ ‫تو تواتر کے ساتھـ کیا جاتا ہے‪ ،‬جبکہ رہائی کے‬
‫کی تصدیق کے بعد نافذالعمل ہوا۔ اس معاہدے کا‬ ‫تو سینکڑوں لوگوں کو تو ضرور جبری قید‬ ‫لئے عدالتی احکام کے اجرا کو نظرانداز کیا جاتا‬
‫مقصد جبری گمشدگیوں کے بارے میں حقیقت‬ ‫ہے تاکہ جمو و کشمیر کے حکام کو فرد جرم اور کرکے خفیہ عقوبتخانوں میں رکھا گیا ہے۔ ان‬
‫کو معلوم کرنا‪ ،‬مرتکبین کو سزا دینا اور اس‬ ‫افراد کو وکال‪ ،‬اپنے خاندانوں اور عدالتوں تک‬ ‫مقدمے کے بغیر لوگوں کو اس دوسالہ مدت سے‬
‫کے نشانہ بننے والوں اور ان کے خاندانوں کو‬ ‫رسائی نہیں دی جارہی‪ ،‬اور ان کے ساتھـ اذیت‬ ‫زیادہ قید میں رکھـ سکیں جس کی اجازت قومی‬
‫معاوضہ کی ادائگی ہے۔‬ ‫اور دیگر بدسلوکیوں کا انتہائی خدشہ موجود ہے۔‬ ‫قوانین کے تحت دی گئی ہے۔ گرفتارشدگان کو‬
‫اکثر قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے اور ایذارسانی‬
‫یمن میں حکام کوالقاعدہ سے مقابلہ کرنے کے‬ ‫کی شکایات عام ہیں۔‬
‫بشمول‪ ،‬شمال میں حوثی تحریک کی مسلسل‬
‫مزاحمت‪ ،‬اور جنوب میں علیحدگی پسندی کے‬ ‫ترکی میں قانون سازی برائے دہشتگردی کے‬
‫بڑھتے ہوئے جس چیلنج کا سامنا ہے اس کے‬ ‫تحت ‪ 12‬سال سے کم بچوں کو کرد برادری کے‬
‫متعلق مسائل کے لئے کئے جانے والے مظاہروں ردعمل میں انہوں نے انسانی حقوق کو خیرباد‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬ ‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬


‫‪7‬‬ ‫اپریل ‪ 2010‬ہکاری ترکی میں ایک مظاہرے کے موقع پر سادہ‬
‫کپڑوں میں ملبوس پولیس ایک بچے کو گھسیٹ کر لے جارہی‬
‫ہے جبکہ اس کی ماں مداخلت کرنے کی کوشش کررہی ہے‬

‫“دوسرے لوگ جب سو جاتے ہیں‬


‫تو انہیں قابوس نظر آجاتے ہیں۔‬
‫میں جاگ کر ہر روز اسے دیکھـ‬
‫لیتی ہوں۔ تین سال پہلے میری‬
‫زندگی کی روشنی اس وقت چلی‬
‫گئی جب بغیر کسی جرم کے میرے‬
‫شوہر کی حراست اور گرفتاری‬
‫عمل میں آئی”۔‬
‫سیلوی‪ ،‬فروری ‪ 2007‬سے سریلنکا میں قانون برائے انسداد‬
‫دہشتگردی کے تحت گرفتارشدہ ایک قیدی کی بیگم‬

‫مسعود احمد جنجوعہ‬

‫“یہ کسی بھی شخص کو درپیش ہونے واال بدترین‬


‫واقعہ ہوتا ہے۔ کسی کے مرنے پر آپ روتے ہیں‬
‫اور لوگ آپ سے اظہار رحمدلی کرتے ہیں اور‬
‫باآلخرہ آپ اس غم سے نپٹ لیتے ہیں۔ لیکن جب‬
‫کوئی غائب کیا جاتا ہے‪ ،‬تو آپ جینے کے قابل‬
‫نہیں رہتے۔ یہ غم کی تلخ ترین صورت ہوتی ہے۔”‬
‫امنہ جنجوعہ‬

‫بزنسمین مسعود جنجوعہ ‪ 30‬جوالئی ‪ 2005‬کو اپنے‬


‫دوست‪ ،‬فیصل فراز‪ ،‬کے ہمراہ پاکستان میں راولپنڈی‬
‫سے پشاور کے درمیان دو گھنٹوں پر محیط بس سفر‬
‫کے دوران کسی مقام پر مفقود ہوا۔‬

‫اس کی بیوی‪ ،‬امنہ جنجوعہ‪ ،‬نے فورا پولیس کو‬


‫اس کی گمشدگی کی اطالع دی اور خود پولیس اور‬
‫فوجی محکموں میں اس کی تالش کے پیچھے نکل‬
‫پڑی‪ ،‬مگر کچھـ بھی ہاتھـ نہیں آیا۔ آئی ایس آئی کے‬
‫زیرکنٹرول قیدخانوں سے بھری ہونے والے پانچ افراد‬
‫‪© Defence of Human Rights‬‬

‫کی جانب سے دیکھے جانے کی رپورٹوں کے باوجود‬


‫سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران تصدیق کے لئے‬
‫اکثر حاضر ہونے والے اٹارنی جنرل کے دفتر نے‬
‫مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز کی حراست یا ان‬
‫کے اتے پتے کے بارے میں کسی علم سے بطور‬
‫مسلسل انکار کیا۔‬

‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬


‫‪8‬‬

‫ملک بھر کے قیدخانوں میں ایذارسانی اور‬ ‫ایذارسانی اور بدسلوکی‬


‫بدسلوکی کا استعمال – بشمول برقی جھٹکے‪،‬‬
‫مارپیٹ‪ ،‬دردناک انداز میں لٹکانا‪ ،‬اور ریپ اور‬ ‫ایذارسانی اور دیگر ‍ظالمانہ‪ ،‬غیرانسانی یا ہتک‬
‫جنسی زیادتی کی دوسری اقسام – باقاعدہ طور‬ ‫آمیز سلوک یا سزا ہمیشہ سے ایک غلط عمل‬
‫پر کیا جاتا ہے‪ ،‬خاص طور پر جب لوگوں کو‬ ‫رہا ہے۔ کسی بھی صورت حال میں – جنگ‪،‬‬
‫ریاستی تفتیشی مراکز پر قید کیا جاتا ہے۔‬ ‫خطرہ جنگ‪ ،‬مسلح گروہوں کے حملے‪ ،‬یا قومی‬
‫ایمرجنسی میں – اس قسم کی زیادتیوں کو جائز‬
‫عراق میں بھی ایذرسانی اور بدسلوکی کا‬ ‫قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دہشتگردی کے خطرات‬
‫باقاعدہ استعمال کئی دہائیوں سے جاری ہے‪،‬‬ ‫میں اضافے کیوجہ سے حکومتوں کے ان اقوال‬
‫اور ‪ 2003‬میں امریکہ کی سربراہی میں ہونے‬ ‫و افعال میں تیزی آئی ہے جو ایذارسانی اور‬
‫والے حملے میں صدر صدام حسین اور اس‬ ‫بدسلوکی کی مکمل ممانعت کے احترام کے‬
‫کی حکومت گرانے کے بعد بھی جاری رہا۔‬ ‫ساتھـ مطابقت نہیں رکھتے۔‬
‫سالہاسال سے جو طریقے استعمال کئے جارہے‬
‫ہیں ان میں کیبل یا پانی کی پائپ سے مارنا‪،‬‬ ‫امریکہ نے جسے “دہشتگردی کے خالف جنگ”‬
‫برقی جھٹکے‪ ،‬جسم کی چھیرپھاڑ‪ ،‬اعضاشکنی‬ ‫کا نام دیا اس میں بش انتظامیہ نے ایذارسانی‬
‫اور ریپ شامل ہیں۔‬ ‫کے طریقے “واٹربورڈنگ” کی اجازت دے‬
‫دی۔ (جس میں مضبوط باندھے گئے شخص کو‬
‫ایذارسانی پر عالمی بندش کی بنیادوں کو ان‬ ‫ڈبونے کی اذیت سے گزارا جاتا ہے۔)امریکی‬
‫پالیسی اسناد اور رہنما اصول نے متزلزل کیا‬ ‫افواج نے تفتیش کے لئے اذیت اور بدسلوکی پر‬
‫جو استخباراتی افسروں اور فوجی مفتشین کو‬ ‫مبنی یہ اوردیگر ایسے طریقے اپنائے جن میں‬
‫ان متعدد ریاستوں کی جانب سے دیا گیا جو‬ ‫قیدیوں کو لمبے دوران کے لئے پریشانی اور‬
‫دہشتگردی یا مسلح گروہوں کی جانب سے پیدا‬ ‫عزلت میں رکھنا اور حواس کی محرومی شامل‬
‫کردہ خطرے سے نیٹنے کے لئے ریاستی ردعمل‬ ‫تھی۔ ایذارسانی اور بدسلوکی کی مکمل ممانعت‬
‫میں ایذارسانی اور دیگر ظالمانہ‪ ،‬غیرانسانی یا‬ ‫کے ساتھـ ایسا متکبرانہ رویہ برتنے پر امریکی‬
‫ہتک آمیز سلوک یا سزا کو پھر سے متعارف‬ ‫حکام نے یہ تاثر دیا کہ مخصوص حاالت میں‬
‫کرارہی ہیں۔‬ ‫ایسی زیادتیوں کو قابل قبول سمجھا جا سکتا ہے‬
‫اور دوسری حکومتوں کو بھی اپنے اس فعل کی‬
‫یہ بندش ان افعال سے بھی کمزرو ہوئی جن‬ ‫پیروی کرنے کا پیغام دے دیا۔‬
‫کے مطابق قیدیوں کو ان ممالک میں بھیجا جاتا‬
‫ہے جہاں کی حکومتیں ایذا رسانی کے باقاعدہ‬ ‫‪ 2009‬میں اقتدار سمبھالنے کے موقع پر‬
‫اور وسیع کے لئے مشہور ہیں‪ ،‬ایسا کرنے میں‬ ‫امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ ایذارسانی‬
‫صرف انہی حکومتوں کے ان وعدوں – “سفارتی‬ ‫اور دوسری بدسلوکیوں کے استعمال کی اجازت‬
‫یقین دھانیوں” پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ وہ ان‬ ‫نہیں دی جائیگی۔ اگرچہ یہ ایک خوش آیند اقدام‬
‫قیدیوں کے اذیت نہیں پہنچائیں گی جنہیں ان کے‬ ‫ہے‪ ،‬مگر اوباما انتظامیہ نے ابھی تک ماضی‬
‫ہاں بھیجا جارہا ہے۔ جن ریاستوں نے ایسے ہی‬ ‫میں سرزد ہونے والے ایذارسانی کے اعمال کو‬
‫سمجھوتوں کے تحت قیدیوں کو مبتقل کیا ہے‬ ‫سزا دئیے بغیر چھوڑا ہے‪ ،‬باوجودیکہ جورج‬
‫ان میں اٹلی‪ ،‬سپین‪ ،‬سویڈن‪ ،‬برطانیہ اور امریکہ‬ ‫ڈبلیو بش نے کھال اعتراف کیا ہے کہ اس نے‬
‫شامل ہیں۔ درحقیقت‪“ ،‬سفارتی یقین دھانیوں” اور‬ ‫خاص طور پر واٹربورڈنگ کی اجازت دی‬
‫دوسرے انتظامات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا‬ ‫تھی‪ ،‬اور یوں اذیت اسیران کے حوالے سے‬
‫ہے کیونکہ یہ اکثر ریاستوں کے اندرونی قانونی‬ ‫الزامات کی تحقیقات کے امریکی فرض کو پورا‬
‫وظائف کے انحراف کرتے ہیں۔‬ ‫نہیں کیا ہے۔‬

‫مصر میں‪ ،‬جہاں دہشتگردی کے خالف جنگ‬


‫اور سالمتی کے بہانے سالہا سال سے بہت‬
‫ساری گرفتاریاں کی جارہی ہیں‪ ،‬اذیت کے‬
‫نتیجے میں کچھـ قیدیوں کی موت واقع ہوئی ہے۔‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬ ‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬


‫‪9‬‬ ‫محافظوں کے انتظار میں سن ہوجاتے ہیں‪ ،‬ایذا رسانی کی‬
‫تشبیہ دکھانے والی فلم جو ایمنسٹی اینٹرنیشنل برطانیہ نے تیار‬
‫کی ہے۔ تمام حقوق © ایمنسٹی اینٹرنیشنل۔‬

‫“اس نے کہا کہ انہوں نے اس کے‬


‫‘پیچھے’ ایک ڈنڈا دے کر اس کے‬
‫ساتھـ جنسی زیادتی کی اور ہمیشہ‬
‫کے لئے اس کے سر پر پالسٹک کا‬
‫ایک تھیال اس کے سر پر رکھا جب‬
‫تمام حواس کھو بیٹھا۔ اس کے بعد‬
‫وہ اسے برقی جٹھکے سے جگا‬
‫لیتے۔ ۔ ۔ ہر بار جن وہ اس کے‬
‫ساتھـ پیچھے سے جنسی زیادتی‬
‫کرتے تھے تو خون اندر کی جانب‬
‫چال جاتا تھا۔ او ہر بار وہ حواس‬
‫کھو بیٹھتا۔”‬
‫رابعہ القصاب نے اکتوبر ‪ 2010‬میں ایمنسٹی اینٹرنیشنل کو بغداد‬
‫جیل میں قید اپنے شوہر‪ ،‬رمزے شہاب‪ ،‬کے بارے میں بتا رہی‬
‫تھی‪ ،‬جسے ‪ 2009‬کے آخر میں گرفتار کیا کیا تھا۔‬

‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬


‫‪10‬‬

‫لیتھوانیا میں اعتراف کیا ہے کہ اس نے سی آئی‬


‫انسانی حقوق کے خالف ورزیوں‬
‫اے کے دو جیلوں کو جگہ فراہم کی۔ جون ‪2010‬‬ ‫کے احتساب کا مطالبہ‬
‫میں یورپی کمیشن برائے انسداد ایذرسانی نے ان‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اور دوسروں کی سالہاسال کی‬
‫مقامات کا دورہ کیا‪ ،‬جو کہ یورپ میں موجود سی‬ ‫مہم کے بعد امریکی سربراہی میں “دہشتگردی‬
‫آئی اے کے خفیہ جیلوں کے بارے میں کسی ازاد‬ ‫کے خالف جنگ” کے ضمن میں ہونے والی‬
‫معاینہ کار ادارے کا پہال دورہ سمجھا جاتا ہے۔‬ ‫انسانی حقوق کی خالف ورزیوں کے بارے میں‬
‫مقامات کے بارے میں ایک فوجداری تحقیقات‬ ‫حقیقت اب آشکارا ہو چکی ہے۔‬
‫کو جنوری ‪ 2011‬میں روک بند کیا گیا۔ ایمنسٹی‬
‫اینٹرنیشنل اس تحقیقات کو دوبارے کھولنے کیلئے‬ ‫سابق صدر بش نے کھال اعتراف کیا کہ اس نے‬
‫مسلسل کوششیں کررہی ہے تاکہ ان لوگوں کا‬ ‫واٹربورڈنگ کی اجازت دی تھی جو ایک ایسا‬
‫احتساب کیا جائے جو ان مقامات کے قیام اور‬ ‫طریقہ ہے جو واضح طور پر ایذارسانی کے‬
‫ان کے اندر ہونے والی انسانی حقوق کی خالف‬ ‫زمرے میں آتا ہے۔ مختلف ممالک میں خفیہ‬
‫ورزیوں کے ذمہ دار ہیں۔‬ ‫مقامات اسارت کے ثبوت مل چکے ہیں اور مل‬
‫رہے ہیں۔ زیادتیوں کے کئی الزامات کے باوجود‪،‬‬
‫مسیڈونیا نے مبینہ طور پر جرمن شہری خالد‬ ‫جن کے قابل اعتماد ثبوت موجود ہیں‪ ،‬صرف چند‬
‫‪© AP Photo/Czarek Sokolowski‬‬

‫المصری کی غیرقانونی قید اور بعد میں سی‬ ‫ہی ذمہ داروں کا احتساب کیا گیا‪ ،‬اور وہ بھی‬
‫آئي اے کی سربراہی میں افغانستان منتقلی میں‬ ‫نچھال رتبہ رکھنے والے افسران حکام تھے۔‬
‫مدد فراہم کی تھی۔ بعد میں اس نے یورپ کی‬
‫انسانی حقوق کی عدالت میں مسیڈونیا کے خالف‬ ‫‌زیادتیوں کے شکار افراد‪ ،‬ان کے خاندان اور‬
‫مقدمہ دائر کیا۔ ہو سکتا ہے یہ اپنی نوعیت کا‬ ‫مجموعی طور پر سارے سماج کو یہ حق‬
‫پہال مقدمہ ہو جس میں عدالت کونسل آف یورپ‬ ‫حاصل ہے کہ زیادتیوں کے بارے میں حقیقت‬
‫کی ایک رکن ریاست کی سی آئی اے کی جانب‬ ‫کو جان لیں‪ ،‬جس میں مرتکبین کی شناخت اور‬
‫سے منتقلی اور خفیہ قید کے پروگراموں میں‬ ‫دوسرے حقایق بھی شامل ہیں۔ ایمنسٹی اینٹرنیشنل‬
‫شرکت کے بارے میں کئے گئے ایک دعوے کے‬ ‫حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ قوقی سالمتی‬
‫استحقاق پر غور کرے گی۔ مسیڈونیا مسلسل طور‬ ‫یا دہشتگردی کے خالف مقابلے کے نام سے‬
‫منزل چپھانے میں مدد کی۔ اعداد و شمار سے‬ ‫پر انکار کررہا ہے کہ اس کے ایجنٹوں نے کوئی‬ ‫انسانی حقوق کی خالف ورزیوں کے الزامات‬
‫پتہ لگتا ہے کہ کچھـ جہازوں میں عملے کے‬ ‫غیرقانونی عمل کیا تھا۔‬ ‫کی آزادانہ تحقیقات کریں اور نتائج بھگتنے والے‬
‫عالوہ مسافر بھی تھے۔ سی آئی اے کے منتقلی‬ ‫افراد کو معاؤضہ ادا کرنے کو یقینی بنا دیں۔‬
‫اور خفیہ قید کے پروگراموں میں پولینڈ کی مبینہ‬ ‫برطانوی حکومت نے جوالئی ‪ 2010‬میں اعالن‬
‫شرکت کے بارے میں فوجداری تحقیقات جاری‬ ‫کیا کہ وہ بیرونی اوجنسیوں کے ہاتھوں قید‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل یورپی حکومتوں کے اس‬
‫ہے۔ ‪ 2010‬میں اپیل پرازیکیوٹر آفس نے اس‬ ‫افراد کے خالف مبینہ ایذرسانی اور بدسلوکی‬ ‫شرمناک رول سے پردہ اٹھانے کو جاری رکھے‬
‫بات کی تصدیق کی کہ اس نے جن دو آدمیوں کو‬ ‫میں برطانوی ریاستی عمال کی شمولیت کے‬ ‫گی جو انہوں نے ‪ 11‬ستمبر ‪ 2001‬کو امریکہ‬
‫“قربانی شدہ” حیثیت دی تھی‪ ، ،‬دونوں فی الحال‬ ‫بارے میں تحقیقات کرے گی۔ متواتر انکار کے‬ ‫پر ہونے والے حملوں کے بعد امریکی خفیہ‬
‫گوانتنامو میں قید ہیں‪ ،‬جو الزام لگاتے ہیں کہ‬ ‫بعد برطانوی حکومت نے فروری ‪ 2008‬میں‬ ‫ایجنسی (سی آئی اے) کے زیر اہتمام خفیہ‬
‫انہیں پولینڈ میں خفیہ قید میں رکھا گیا اور دوران‬ ‫اعتراف کیا کہ امریکی حکام نے برطانوی‬ ‫منتقلی کے پروگراموں اور خفیہ قیدخانوں میں‬
‫قید اذیتیں بھی دیں۔‬ ‫سرزمین کو منتقلی کی پروازوں کے لئے استعمال‬ ‫ادا کیا‪ ،‬اور ان پروگراموں کے شکار افراد‬
‫کیا تھا۔‬ ‫کو انصاف دالنے کی کوشش کرے گی۔ بعض‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل ان تمام مقدموں پر نظر رکھے‬ ‫حکومتوں نے منتقلی اور خفیہ قیدخانوں کے‬
‫گی تاکہ ان لوگوں کا احتساب کیا جائے جنہوں‬ ‫امریکہ کی سربراہی میں منتقلی اور خفیہ قید‬ ‫پروگراموں میں اپنے کردار کا اعتراف کیا‬
‫نے زیادتیوں کی اجازت دی‪ ،‬انہیں نظرانداز کیا‪،‬‬ ‫کے پروگراموں میں پولینڈ کی شرکت کے بارے‬ ‫ہے اور اس سلسلے میں انصاف دالنے کے‬
‫سمجھوتہ کیا یا ارتکاب کیا۔‬ ‫میں ‪ 10 – 2009‬میں نئے ثبوت نکل آئے۔ نہ‬ ‫لئے اقدامات کررہی ہیں۔ باقی اب بھی منکر‬
‫صرف منتقلی کے پروگرام میں استعمال ہونے‬ ‫ہیں بشمول حکومت رومانیا باوجودیکہ منتقلی‬
‫حکومت روس کی جانب سے شمالی کفکاز میں‬ ‫والے جہاز پولینڈ کے عالقے میں اترے‪ ،‬بلکہ‬ ‫کے پروگراموں میں اس کے کردار او اس کی‬
‫دہشتگردی کے خالف کاروائیوں کے پس منظر‬ ‫پولش ائر نیویگیشن ایجنسی نے بھی سرگرمی‬ ‫سرزمین پر سی آئی اے کے خفیہ زندان کی‬
‫میں واقع ہونے والی انسانی حقوق کی شدید خالف‬ ‫کے ساتھـ “نقلی” پروازوں کے اہتمام کے ذریعے‬ ‫موجودگی کے بارے میں قابل اعتماد ثبوت‬
‫ورزیوں کی تحقیقاتات شاذونادر ہی مؤثر یا جامع‬ ‫سی آئی اے کے ساتھـ بعض پروازوں کی اصلی‬ ‫موجود ہیں۔‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬ ‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬


‫‪11‬‬ ‫کیجکوتی پولنڈ کے باہر واچ ٹاور جہاں سی آئی اے کا مبینہ‬
‫خفیہ قیدخانہ تھا۔‬

‫ماھر ارار‬

‫کنیڈا اور شام کی دوہری شہریت کا حامل ماہر ارار کو‬


‫‪ 2002‬میں امریکہ سے ملک بدر کرکے شام بھیج دیا‬
‫گیا‪ ،‬جہاں اسے ایک سال تک ظالمانہ‪ ،‬غیرانسانی اور‬
‫ہتک آمیز حالت میں اذیتیں دی گئیں اور قید میں رکھا‬
‫گیا ۔ اگست ‪ 2003‬میں اسے رہائی ملی اور وہ واپس‬
‫کینڈا آگیا۔ ‪ 5‬فروری ‪ 2004‬کو کینڈا کی حکومت نے‬
‫ماہر ارار کے حوالے سے کینڈا کے حکام کی اعمال‬
‫کی تحقیقات کے بارے میں ایک انکوائری کمیشن‬
‫بنایا ۔ کمیشن نے ‪ ،‬جس کے ساتھـ امریکی حکومت‬
‫نے تعاون کرنے سے انکار کیا‪ ،‬ستمبر ‪ 2006‬میں‬
‫ماہر ارار کے کرب کے حوالے سے کینڈا کی ذمہ‬
‫داری کے بارے میں ایک جامع رپورٹ شائع کی۔‬
‫‪ 2006‬اور ‪ 2007‬میں کینڈا کی فیڈرل پولیس اور‬
‫وزیراعظم نے ماہر ارار سے رسمی طور پر معافی‬
‫مانگ لی اور کینڈا کی حکومت کے رول پر اس کے‬
‫لئے ‪ 10،5‬میلین کنیڈین ڈالر معاؤضے کا اعالن کیا۔‬
‫اس کے برعکس امریکی حکومت نے ماہر ارار سے‬
‫معافی مانگنے یا اسے معاؤضے ادا کرنے سے انکار‬
‫کیا؛ درحقیقت‪ ،‬انہوں نے امریکہ کے ہاتھوں ماہر‬
‫ارار پر ڈھانے والی زیادتیوں کے لئے امریکہ میں‬
‫کسی عدالتی یا کسی دوسرے معاؤضے تک ماہر ارار‬
‫کی رسائی کی کامیابی سے روکا۔‬

‫مصطفے موستلگوف اور سپرالیف‬ ‫مجموعی طور پر سماج نے جو زخم برداشت‬ ‫ہوتی ہیں جس کیوجہ سے سزا سے مبرا ہونے‬
‫کئے ہیں ان کا مداوا کبھی بھی نہیں ہوگا۔‬ ‫کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ دیگر چیزوں کے عالوہ‬
‫سرخکئ گاؤں کے رہنے والے مصطفے موستلگوف‬ ‫ان تحقیقاتات میں واقعات کی سرکاری شکل کے‬
‫اور سپرالیف دونوں کو ‪ 26‬اگست ‪ 2010‬کو‬ ‫بارے میں شاذونادر ہی سوال اٹھایا جاتا ہے۔‬
‫جمہوریہ انگوشتیا‪ ،‬وفاق روس‪ ،‬میں گولی مار‬ ‫احتساب کی راہ میں دیگر رکاوٹوں میں زیادتیوں‬
‫کر ہالک کردیا جب وہ ساتھـ والے گاؤں سے ایک‬ ‫کے بارے میں سامنے آنے یا سند پیش کرنے‬
‫مارکیٹ سے واپس گاڑی میں آرہے تھے۔ فیڈرل‬ ‫سے نشانہ بننے والے افراد‪ ،‬گواہوں اور طبی‬
‫سیکوریٹی سروسز نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے‬ ‫عملے کا کترانا ہے جو وہ انتقام کے خوف سے‬
‫والے حکام نے اس کے بعد ان آدمیوں کو گولی مار‬ ‫برتتے ہیں۔‬
‫دی جب پہلے ان آدمیوں نے ان پر گولی چالئی۔ مگر‬
‫ان آدمیوں کے رشتہ داروں میں سے ایک نے کہا کہ‬ ‫بعض حکومتوں نے زیادتیوں کے ذمہ داروں کے‬
‫قانون نافذ کرنے والے حکام نے گاڑی روک لی‪ ،‬ان‬ ‫احتساب کرنے کے غرض سے اقدامات کئے ہیں‬
‫دو آدمیوں کو باہر نکاال‪ ،‬ان کے ہاتھـ باندھ کر اور‬ ‫مگر بہت سوں نے کچھـ نہیں کیا ہے۔ مہم برائے‬
‫انہیں کئی میٹر دور تک گھسیٹ کر پھر انہیں گولی‬ ‫سالمتی با حقوق انسانی کے جز کے طور پر‬
‫مار کر ہالک کر دیا۔ واخا سپرالیف کے خاندان نے‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل سخت کوشش کرے گی تاکہ‬
‫مختلف حکام کو درخواست دے کر ان سے ہالکتوں‬ ‫اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انسانی حقوق‬
‫کی تحقیقاتات کا مطالبہ کیا ہے‪ ،‬مگر انہیں ابھی تک‬ ‫کی خالف ورزی کرنے والے احتساب سے بچ‬
‫صرف ایک ہی جواب موصول ہوا ہے کہ شکایت کو‬ ‫نہ سکیں‪ ،‬اور یہ کہ نشانہ بنے افراد اور ان کے‬
‫“آگے بھیج دیا گیا ہے” ایمنسٹی اینٹرنیشنل سچ‬ ‫خاندان جس مصیبت سے گزرے ہیں انہیں اس کا‬
‫اور انصاف کے حصول کے لئے خاندان کی مہم کی‬ ‫معاوضہ مل جائے۔ ایسے ہی ایک احتساب کے‬
‫حمایت کررہی ہے۔‬ ‫بغیر زیادتیاں جاری رہیں گی اور خاندانوں اور‬

‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬


‫‪12‬‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل تمام مسلح گروہوں پر زور‬


‫دہشتگردی اور مسلح گروہوں کا‬
‫دیتی رہے گی کہ ایسے حملوں کا خاتمہ کرلیں‬ ‫نشانہ بننے والے افرد کے حقوق‬
‫جو شہریوں کو ہدف بناتے ہیں اورجو بے دریغ‬ ‫کے لئے مہم‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬اور جو لوگ ان حملوں کے ذمہ دار‬ ‫مسلح گروہ جب تشدد اور انسانی حقوق کی خالف‬
‫ہیں انہیں عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتی‬ ‫ورزی کیلئے عام لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں تو‬
‫رہے گی۔‬ ‫انہیں اپنے گروہی مقاصد کے حصول کیلئے ایک‬
‫آلے کو طور پر استعمال کرتے ہیں۔‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل حکومتوں پر زرو دیتی رہے‬
‫‪© AP Photo/Anja Niedringhaus‬‬

‫گی کہ مسلح گروہوں کی جانب سے شہریوں پر‬ ‫شہری اہداف پر حملوں میں چاہے مذہبی‬
‫کئے گئے تمام حملوں کی جامع تحقیقات کرلیں‬ ‫اجتماعات پر بموں کے حملے‪ ،‬سیاسی کارکنوں‬
‫اور ذمہ داروں کو عدالت میں پیش کردیں۔‬ ‫کا قتل‪ ،‬سماجی رہنماؤں کا اغوا‪ ،‬کسی خاص‬
‫نژادی گروہ کی خواتین کے ساتھـ جنسی زیادتی‬
‫ہم یگانگت اور حمایت کی ایک مہم چالئیں گے‬ ‫شامل ہو یا بےقاعدہ طریقے سے عام آبادی کو‬
‫جو مسلح گروہوں کے حملوں کے شکار او ان‬ ‫نشانہ بنانا شامل ہو‪ ،‬تو یہ حملے نہ صرف ان‬
‫سے بچ کر زندہ لوگوں کے ساتھـ کام کرکے‬ ‫افراد اور ان کے خاندانوں کے لئے خوفناک‬
‫انصاف‪ ،‬معاوضے اور وسچ کے حوالے سے‬ ‫مسائل کا باعث بنتے ہیں بلکہ ایک ایسی فضا پیدا‬
‫ان کے حقوق کو آگے بڑھاے گی۔ ہم نشانہ بنے‬ ‫کردیتے ہیں جس میں تمام برادریوں کو دہشت میں‬
‫لوگوں سے بات کرلیں گے‪ ،‬ان کی آپ بیتیوں کو‬ ‫رہنا پڑتا ہے۔ اکثر ایسے حملے مضر عواقب کے‬
‫سن لیں گے‪ ،‬اور شہادتوں کو اکھٹا کر لیں گے‬ ‫حامل ہوتے ہیں‪ ،‬کیونکہ ان کے شکار ہونے والے‬
‫تاکہ ان کے تجربات کو مستند شکل دے کر ان‬ ‫افراد‪ ،‬ان کے خاندان‪ ،‬اور برادری والے دیکھـ‬
‫کا تجزیہ کرلیں کہ کس طرح ان کے حقوق کو‬ ‫لیتے ہیں کہ ریاستی حکام ذمہ دار افراد کے‬
‫نظرانداز کیا گیا ہے۔ ہم ان سے متعلق حقیقت کو‬ ‫بارے میں مناسب تحقیقات کرکے انہیں عدالت میں‬
‫واضح کردیں گے ان کی شنوائی کو یقینی بنانے‬ ‫نہیں بال سکتے‪ ،‬سچ کو آشکارا نہیں کرسکتے‬
‫کے لئے ان کی مدد کریں گے۔‬ ‫کہ کیا ہوا ہے‪ ،‬اور نہ ہی مدد اور معاؤضے کے‬
‫حصول کیلئے مناسب ذرائع فراہم کرسکتے ہیں۔‬
‫حملوں کے بعد نشانہ بننے والے اور ان کے‬
‫اقارب ایک دوسرے کو تعاون پیش کرنے کیلئے‬ ‫جان بوجھـ کے شہریوں کے خالف ایسے حملوں‬
‫اکثر گروپ منظم کرلیتے ہیں اور اکثر صورتوں‬ ‫کے کبھی بھی جائز نہیں قرار دیا جاسکتا اور‬
‫میں اپنی مصیبتوں کے تحقیقات‪ ،‬معاوضے اور‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل ان کی مذمت کو جاری رکھے‬
‫مداوا کی دوسری انواع کے لئے مہم چالتے ہیں۔‬ ‫گی‪ ،‬جیسا کہ اس نے کی ہے ‪ 2001‬میں امریکہ‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل ان گروپوں سے سیکھـ لے گی‬ ‫میں حملوں کے بعد‪ 2002 ،‬میں نڈونشیا میں‪،‬‬
‫اور مسلح گروپوں کے ہاتوں نشانہ بننے والے‬ ‫‪ 2003‬میں مراکش میں‪ 2004 ،‬میں سپین میں‪،‬‬
‫افراد کے حقوق کے لئے ان کی مہم میں حصہ‬ ‫‪ 2004‬میں سعودی عربیہ میں‪ 2005 ،‬میں‬
‫لے گی۔‬ ‫برطانیہ میں‪ 2006 ،‬میں (ممبئ) بھارت میں‪،‬‬
‫‪ 2007‬میں افغانستان میں‪ 2010 ،‬میں یوگنڈا‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل حکومتوں پر بھی یہ دباؤ‬ ‫میں‪ 2011 ،‬میں مصر میں اور بہت ساری‬
‫جاری رکھے گی کہ شہریوں پر حملے کرنے‬ ‫دوسرے ممالک میں۔‬
‫والے مسلح گروپوں کے خالف اس انداز سے اپنا‬
‫ردعمل ظاہر نہ کریں جس سے انسانی حقوق کے‬ ‫مسلح گروہ اور افراد دنیا میں مختلف جگہوں پر‬
‫متزلزل ہوجانے کا خطرہ ہو۔ جہاں تحقیقاتات میں‬ ‫مذکورہ مختلف اہداف کے حصول کے لئے اور‬
‫کسر موجود ہو یا اذیت کے ذریعے حاصل کی‬ ‫مختلف سیاسی حاالت میں شہریوں کو نشانہ بناتے‬
‫گئی ہوں تو ایسی صورت میں کوئی اور شخص‬ ‫ہیں۔ صرف ‪ 2010‬میں جن ممالک میں ایسے‬
‫کو سزا ملنے کا غالب امکان موجود رہتا ہے اور‬ ‫حملے ہوئے ان میں افغانستان‪ ،‬کولمبیا‪ ،‬یونان‪،‬‬
‫اصل مجرم انصاف سے بچ نکلتا ہے۔‬ ‫اسرائیل‪ ،‬عراق‪ ،‬میانمار‪ ،‬پاکستان‪ ،‬فلپائن‪ ،‬وفاق‬
‫روس‪ ،‬روانڈا‪ ،‬سویڈن‪ ،‬ترکی‪ ،‬برطانیہ (شمالی‬
‫ائرلین) اور یمن شامل ہیں۔‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬ ‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬


‫‪13‬‬ ‫اوپر‪ :‬ہسانوی ریلوے مزدور اور پولیس مارچ ‪ 2004‬میں‬
‫میڈریڈ اٹوچا ریلوے سٹیشن کے باہر تباہ شدہ ٹرین کے ملبے‬
‫کا معاینہ کر رہے ہیں۔‬
‫نیچے‪ :‬سکول کے بچے جوالئی ‪ 2006‬میں ممبئ کو تہہ و‬
‫باال کرنے والے آٹھـ بم دھماکوں میں سے ایک کے مقام کے‬
‫نزدیک گزر رہے ہیں۔‬

‫سحر حسین الحیدری‬


‫‪© IWPR‬‬

‫‪ 44‬سالہ جرنلسٹ اور انسانی حقوق کی مدافع‪ ،‬سحر‬


‫حسین الحیدری کو ‪ 2007‬میں عراق میں گولی مار‬
‫کر ہالک کردیا۔ وہ خواتین کے خالف امتیازی سلوک‬
‫کے بارے میں رپورٹیں لکھتی تھی اور خواتین کے‬
‫خالف زیادتیوں کو روا رکھنے پر اسالمی گروپوں‬
‫پر تنقید کرتی تھی۔ وہ پہلے بھی اغوا کے حملے‬
‫کی ایک کوشش میں زندہ بچ گئی تھی اور اس کو‬
‫قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ رپورٹوں کے مطابق‬
‫‪© AP Photo/Gurinder Osan‬‬

‫انصاراالسالم نامی گروپ نے اس کے قتل کی ذمہ داری‬


‫قبول کی ہے۔ اس کا قتل ایک ایسے وقت میں واقع ہوئی‬
‫جب اکثر مسلح افراد کے ہاتھوں عراق میں ہر مہینے‬
‫سینکڑوں افراد مارے جارہے تھے یا جسمانی طور پر‬
‫معذور بنائے جارہے تھے‪ ،‬جو کہ زیادہ ترانسانی حقوق‬
‫کے لئے کام کرنے‪ ،‬سیاسی سرگرمیوں یا ان کی اپنی‬
‫نژادی یا مذہبی شناخت‪ ،‬جنس یا صنفی تمایل کی وجہ‬
‫سے مارے جارہے تھے۔‬

‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬


‫‪14‬‬

‫سرگرمیں نے امریکی اور دوسری حکومتوں‬


‫ہماری مہم میں حصہ لیں اور‬
‫کی جانب سے انسداد دہشتگردی کا نام پر وسیع‬ ‫تبدیلی میں اپنا کردار ادا کریں‬
‫پیمانے پر کی جانے والی انسانی حقوق کی‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل کی‪ ،‬مہم برائے انصاف کے‬
‫خالف ورزیوں سے پردہ اٹھایا‪ ،‬اور بہت سارے‬ ‫ساتھـ دہشتگردی کا مقابلہ‪ ،‬نے دنیابھر سے‬
‫انفرادی مقدموں کو منظرعام پر الیا۔ ان مقدموں‬ ‫ہزاروں کارکنوں کو ایسی طاقتور اور نوساز‬
‫میں سے بعض کے متعلق پوسٹ کارڈوں‪ ،‬کیس‬ ‫سرگرمیوں میں اکھٹا کر لیا جن کا مقصد امریکی‬
‫شیٹوں اور آنالین کالوں نے وسیع ردعمل کو‬ ‫حکومت کی جانب سے “دہشتگردی کے خالف‬
‫ابھارا۔‬ ‫جنگ” کے بعد انسانی حقوق پر ہونے والے‬
‫حملے کا روک تھام تھا۔‬
‫پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل کی رپورٹ اور گمشدہ لوگوں‬ ‫مہم نے ہر براعظم میں‪ ،‬چاہے شہر ہو یا‬
‫کے رشتہ داروں کو تعاون کی فراہمی سے‬ ‫گاؤں‪ ،‬عالمی ایام عمل کے مواقع پر لوگوں کو‬
‫حکومت پاکستان پر دباؤ بڑھـ گیا جس کی وجہ‬ ‫غیرقانونی حراست کے خاتمے‪ ،‬ایذارسانی کے‬
‫‪© Al Jazeera‬‬

‫سے اسے ‪ 2011‬کے شروع میں ‪ 134‬لوگوں کا‬ ‫روکنے اور بین االقوامی قانون کے احترام کے‬
‫سراغ لگانا پڑا۔‬ ‫لئے بیدار کیا۔ انسانی حقوق کے احترام کرانے‬
‫کے لئے امریکی اور دوسرے سفارتخانوں کی‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل نے کچھـ لوگوں کے مقدموں‬ ‫ٹیلیفون کالوں کی بھرمار کی گئی۔‬
‫کو اجاگر کیا تھا انہیں رہا کر دیا گیا۔ بہتوں نے‬
‫ان افراد کا شکریہ‪ ،‬جنہوں نے انہیں کارڈ یا خط‬ ‫انسانی حقوق کے بے شمار کارکنوں کو متحرک‬
‫بھیجے تھے‪ ،‬تحریری طور پر ادا کیا‪ ،‬یا غیر‬ ‫کیا گیا۔ ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے ممبران اور‬
‫قانونی گرفتاریوں کے حوالے منعقد ہونے والے‬ ‫حامیوں نے بھی غیرقانونی اور ظالمانہ افعال کے‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے پروگراموں‪ ،‬یا باانصاف‬ ‫خاتمے کے لئے امریکی حکومت پر ایمیلوں کی‬
‫مقدمے کے حصول‪ ،‬یا ہنوز گوانتنامو میں یا کہیں‬ ‫بھرمارکی۔‬
‫اور بغیر فردجرم کے قید لوگوں کی رہائی کی‬
‫مہم میں شرکت کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔‬ ‫مہم نے دنیا بھر سے ارکان پارلیمنٹ کو مایل بہ‬
‫عمل کیا – ‪ 27‬کے ‪ 1،204‬ارکا پارلیمان نے‬
‫“غیرقانونی امریکی گرفتاریوں کے خاتمے کے‬
‫لئے ہمارے فریم ورک” پر دستخط کئے۔ امریکی‬
‫حکومت کو یہ صحیح اور زوردار پیغام بھیج دیا‬
‫گیا کہ دنیا اس کے اعمال کو دیکھـ رہی ہے اور‬
‫ان کی مذمت کرتی ہے۔‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے ارکان نے انتہائی‬


‫سیکوریٹی کے تحت موجود گوانتنامو سیل کا‬
‫ہوبہو نمونہ آٹھـ امریکی شہروں کے عالوہ دنیا‬
‫کے کئی شہروں میں دکھایا۔ “دورہ سیل” نے بہت‬
‫سے لوگوں کو غیرقانونی اور طویل قید تنہائی‬
‫کی تلخ حقیقت کی جھلک دکھائی جنہوں نے اپنے‬
‫‪© Amnesty International‬‬

‫تاثرات کو ویڈیو پیغامات کے ذریعے چھوڑ دئیے۔‬

‫بہت سی سرگرمیوں کے دوران انسانی حقوق کے‬


‫پاسداروں نے گوانتنامو کے قیدیوں کے نانجی‬
‫رنگ کے لباس کو پہنا اور یوں امریکی حکومت‬
‫کی جانب سے کی جانے والی بین االقوامی انسانی‬
‫حقوق اور انسانیتی قانون کی توہین کو اجاگر کیا۔‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے بہت ساری اشاعتوں اور‬

‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬ ‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬


‫‪15‬‬

‫“میں‪ ،‬میرا بیٹا محمد اور میرر‬


‫بیوی اسما ایمنسٹی اینٹرنیشنل‬
‫کے ارکان کے شکر گزارہیں‬
‫جنہوں نے میرں اور انسانی‬
‫حقوق کی حمایت کی۔ ہم ان کے‬
‫ساتھـ اس وقت تک محنت کے‬
‫ساتھـ کام کرتے رہیں گے جب ہم‬
‫ساری دنیا کے لوگوں کے لئے‬
‫امن حاصل کرلیں گے۔ میں کبھی‬
‫بھی ان کی مدد کو فراموش نہیں‬
‫کروں گا اور میں ان کے لئے دعا‬
‫کرتا رہوں گا۔”‬
‫الجزیرہ ٹیلیویژن کے کیمرہ مین‪ ،‬سمیع الحاج‪ ،‬کو‬
‫چھـ سال تک گوانتنامو میں قید رکھا گیا۔ اس کو بار‬
‫بار مارا‪ ،‬دوا کی فراہمی سے محرم رکھا گیا اور نسل‬
‫پرستانہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ‪ 2008‬میں اپنی‬
‫رہائی کے بعد اس نے بتایا کہ دوران قید اس نے‬
‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے اراکین اور دوسرے لوگوں‬
‫سے ‪ 10،000‬سے زیادہ خطوط موصول کئے۔‬

‫دائیں‪ :‬مراد کرناز اکتوبر ‪ 2009‬میں جاپان کے دورے کے‬


‫دوران بول رہے ہیں۔ترکی الصل جرمن شہری‪ ،‬مراد کرناز‪ ،‬کو‬
‫‪ 24‬اگست ‪ 2006‬کو رہائی مل گئی۔ اسے چار سال اور آٹھـ‬
‫مہینے تک فردجرم اور مقدمے کے بغیر قید میں رکھا گیا۔ یہ‬
‫اس کے خاندان‪ ،‬وکال اور ایمنسٹی اینٹرنیشنل کے اراکین کی‬
‫البینگ کا نتیجہ تھا کہ جرمن حکومت نے اس کی جانب سے‬
‫نمائندگی کے آغاز کیا جس سے اس کی رہائی کے لئے راہ‬
‫ہموار ہوئی۔‬

‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫ایمنسٹی اینٹرنیشنل اپریل‪2011‬‬


‫اکتوبر ‪ 2005‬کوتا بالی‪ ،‬انڈونشیا میں ‪ 2002‬بالی‬
‫بم دھماکوں کی تیسری سالگرہ کی یاد میں ایک‬
‫ایونٹ‬

‫‪© AP Photo/Dita Alangkara‬‬


‫ہمارا ساتھـ دیجئے‬
‫منظر عام سے پوشیدہ درپیش ہونے والے‬ ‫‪ ‬حکومتوں پر زرو دیتے رہیں گے کہ‬ ‫انسانی حقوق کی مہم‪:‬‬ ‫سالمتی با‬
‫واقعات کو آشکارا کرنے کے لئے ہم میڈیا میں‬ ‫قومی سالمتی یا انسداد دہشتگردی کے نام‬
‫آواز اٹھاتے رہیں گے اور کارکنوں کو گلیوں‪،‬‬ ‫‪ ‬غیر قانونی حراست کے خاتمے کے لئے‬
‫کے تحت کی گئي انسانی حقوق کی خالف‬
‫کمیونٹی ہالوں اور آنالین التے رہیں گے۔ہم‬ ‫مہم چالتے رہیں گے‬
‫ورزیوں کے الزامات کی تحقیقاتات کرایں‪،‬‬
‫اپنے پیغامات حکومتی اور بین االقوامی اقتدار‬ ‫ذمہ داروں کو عدالت میں پیش کیا جائے اور‬ ‫‪ ‬حکومتوں سے مطالبہ کرتے رہیں گے کہ‬
‫کے غالم گردشوں تک ‪ ،‬اوران مسلح گروہوں‬ ‫نشانہ بنے افراد کو معاضہ ادا کریں‬ ‫اذیت اور بدسلوکی پر لگائی گئی مکمل‬
‫تک پہنچائیں گے جو شہریوں کو نشانہ بناتے‬ ‫پابندی کا احترام کریں‬
‫ہیں اور ان گروپوں تک بھی جو اس کی اجازت‬ ‫‪ ‬اصرار کرتے رہیں گے کہ ریاستوں‪ ،‬مسلح‬
‫دیتے ہیں یا اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے‬ ‫گروپوں یا دہشتگردوں کی ہاتھوں کی گئی‬ ‫‪ ‬تمام حکومتوں سے مطالبہ کرتے رہیں گے‬
‫ہیں کہ ہماری آواز دنیا بھر کے الکھوں افراد‬ ‫انسانی حقوق کی خالف ورزیوں کے شکار‬ ‫کہ وہ تمام افراد کا جبری گمشدگی سے تحفظ‬
‫تک پہنچ جائے۔ اگر ایک ہوئے‪ ،‬تو ہماری آواز‬ ‫افراد فراموش نہ کیا جائے اور ان کے حقوق‬ ‫کے عالمی میثاق کی توثیق کریں‬
‫کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔‬ ‫کا احترام کیا جائے‬

‫برائے مہربانی ہمارا ساتھـ دیجئے‪.‬‬

‫‪Month 2009‬‬
‫انڈکس ایکٹ‪30/001/2011 :‬‬ ‫والے ‪ 3‬میلین‬
‫‪Amnesty‬‬ ‫‪ is‬تعلق رکھنے‬
‫‪International‬‬ ‫عالقوں ‪a‬سے‬ ‫‪ of‬ممالک اور‬
‫‪global movement‬‬ ‫‪150‬‬ ‫اینٹرنیشنل‬
‫‪more‬‬ ‫ایمنسٹی ‪than­­­ 3‬‬
‫‪million‬‬
‫‪Index: ASA XX/XXX/2009 Urdu‬‬ ‫ہے جو انسانی‬
‫‪supporters,‬‬ ‫عالمی تحریک‬
‫‪members‬‬ ‫کارکنوں کی ایک‬
‫‪and activists‬‬ ‫‪than‬اور‪in more‬‬
‫اراکین‬
‫حامیوں‪150،‬‬ ‫‪ and‬زیادہ‬
‫‪countries‬‬ ‫سے‬
‫‪campaign‬ہیں۔‬
‫‪territories who‬‬ ‫لئے‪to‬مہم چالتے‬
‫کے‪end‬‬ ‫خاتمے‬
‫‪grave‬‬ ‫ورزیوں‪ of‬کے‬
‫‪abuses‬‬ ‫خالف‪human‬‬ ‫حقوق کی شدید‬
‫‪rights.‬‬
‫‪Amnesty International‬‬ ‫اپریل ‪2011‬‬
‫‪International‬‬ ‫‪Secretariat‬‬
‫‪Amnesty International‬‬ ‫‪vision‬جو‪Our‬‬
‫‪ is‬سکے‬‫برخوردار ہو‬
‫سے ‪for every‬‬ ‫حقوق‬
‫‪person‬‬ ‫تمام ‪to‬‬ ‫‪ all‬ان‬
‫‪enjoy‬‬ ‫شخص‬ ‫‪rights‬ہر ‪the‬‬
‫‪enshrined‬ہے کہ‬
‫ہمارا‪in‬نصب العین‬
‫‪the‬‬
‫‪Peter Benenson‬‬ ‫‪House‬‬
‫‪International‬‬ ‫‪Secretariat‬‬ ‫میں‬ ‫معیارات‬ ‫دوسرے‬ ‫کے‬ ‫حقوق‬ ‫انسانی‬ ‫اور‬ ‫حقوق‬ ‫انسانی‬
‫‪Universal Declaration of Human Rights and other international‬‬ ‫برائے‬ ‫‪human‬معاہدہ‬
‫عالمی‬
‫‪1 Easton StreetBenenson House‬‬
‫‪Peter‬‬ ‫موجود ہیں۔‬
‫‪1 Easton Street‬‬ ‫‪rights standards.‬‬
‫‪London WC1XLondon‬‬
‫‪0DW‬‬ ‫‪WC1X 0DW‬‬ ‫ہم کسی بھی سرکاری‪ ،‬سیاسی‪ ،‬نظریاتی‪ ،‬اقتصادی یا مذھبی مفادات سے ازاد ہیں‬
‫‪United KingdomUnited Kingdom‬‬ ‫حاصل‪We‬‬
‫فنڈ ‪are‬‬
‫‪independent‬‬
‫عوامی‪ of‬عطیات سے‬
‫اور ‪any‬‬
‫‪government,‬‬ ‫‪political‬‬
‫ارکین کی رکنیت‬ ‫‪ideology,‬اپنے‬ ‫‪economic‬‬
‫عمومی طور پر‬ ‫اور‬
‫‪www.amnesty.org‬‬
‫‪www.amnesty.org‬‬ ‫‪interest or religion and are funded mainly by our membership and‬‬ ‫‪ public‬ہیں۔‬
‫کرتے‬
‫‪donations.‬‬

You might also like