You are on page 1of 16

‫‪1‬‬

‫خانقاہی نظام میں فقہ‬


‫کا کردار‬
‫نگار‪:‬سعدکامران)ایم فل سکالر(‬ ‫مقالہ‬
‫رول نمبر‪028-18131704:‬‬
‫سمیسٹر‪Fall 2018 (2nd smaster):‬‬
‫پروگرام‪:‬‬
‫ایم فل‬
‫زیر نگرانی؛‬
‫ڈاکٹر محمد نواز( ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اسالمک سٹیڈی)‬
‫علوم اسالمیہ‬
‫ِ‬ ‫شعبہ‬
‫یونیورسٹی آف گجرات‬
‫مقدمہ‪:‬‬

‫قرآن پاک چونکہ ہللا کی نازل کردہ آخری شریعت ہے‬


‫اور حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہللا تعالی کے‬
‫‪2‬‬

‫آخری رسول ہیں اس لیے ہللا تعالی نے قیامت تک‬


‫کے لئے آنے والے انسانوں کے لیے تمام احکامات‬
‫شریعت محمدیہ صلی ہللا علیہ وسلم میں نازل کر دیے‬
‫ہیں۔ انہیں احکامات میں سے سب سے ضروری‬
‫انسان کی اپنی اصالح ہے۔ اور ہللا تعالی نے انسان‬
‫کی اصالح یعنی تزکیہ نفس کے احکامات وغیرہ بھی‬
‫شریعت محمدیہ میں نازل فرمائے ہیں تاکہ قیامت تک‬
‫کے لئے آنے والے انسان اپنے اصالح کرتے رہیں۔‬
‫زمانہ نبوت سے لے کر آج تک جس طرح علمائے‬
‫اکرام شریعت محمدیہ کو پھیالتے رہے ہیں اسی طرح‬
‫تزکیہ نفس کے خاص طریقے کو جو حضور صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سکھالیا تھا وہ بھی‬
‫امت محمدیہ تک پہنچتا رہا ہے۔موجودہ دور تک‬
‫تزکیہ نفس جسے تصوف بھی کہا جاتا ہے اس کے‬
‫کئی مشہور سلسلے ہیں۔اور انہوں نے اسالم کی‬
‫اشاعت اور تزکیہ نفس کا کام بخوبی سر انجام دیا ہے۔‬
‫خانقاہی نظام کی ابتدا کرنے والوں سے لے کر آج‬
‫تک اس نظام کے ذمہ داران کسی نہ کسی فقہ سے‬
‫متعلق رہے ہیں زیر نظر مضمون میں خانقاہی نظام کا‬
‫تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اس میں فقہ کے کردار‬
‫کا جائزہ لیا گیا ہے۔‬
‫‪3‬‬

‫تصوف‬
‫حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں تصوف سے یہ مراد ہے کہ تجھے‬
‫‪1‬‬
‫بالواسطہ ہللا کی معیت حاصل ہوجائے۔‬
‫تصوف کی ابتداء‬
‫بعض لوگ تصوف کی ابتداء کے بارے میں درج ذیل روایت پیش‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫صلَّى‬ ‫سلَ ْی َمانَ ب ِْن ب َُر ْیدَةَ‪َ ،‬ع ْن أ َ ِبی ِه‪ ،‬قَا َل‪َ :‬جا َء َما ِع ُز ب ُْن َمالِكٍ ِإلَى النَّ ِبي ِ َ‬ ‫ع ْن ُ‬ ‫َ‬
‫ار ِج ْع‬ ‫ط ِھ ْر ِني‪ ،‬فَقَا َل‪َ « :‬و ْی َح َك‪ْ ،‬‬ ‫سو َل ہللاِ‪َ ،‬‬ ‫سل َم‪ ،‬فَقَا َل‪َ :‬یا َر ُ‬ ‫َّ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫ہللاُ َ‬
‫سو َل‬ ‫فَا ْست َ ْغ ِف ِر ہللاَ َوتُبْ ِإلَ ْی ِه»‪ ،‬قَا َل‪ :‬فَ َر َج َع َغی َْر َب ِعیدٍ‪ ،‬ث ُ َّم َجا َء‪ ،‬فَقَا َل‪َ :‬یا َر ُ‬
‫ار ِج ْع‬ ‫سلَّ َم‪َ « :‬و ْی َح َك‪ْ ،‬‬ ‫صلَّى ہللاُ َ‬
‫ع َل ْی ِه َو َ‬ ‫سو ُل ہللاِ َ‬ ‫ط ِھ ْر ِني‪ ،‬فَقَا َل َر ُ‬ ‫ہللاِ‪َ ،‬‬
‫سو َل‬ ‫فَا ْست َ ْغ ِف ِر ہللاَ َوتُبْ ِإلَ ْی ِه»‪ ،‬قَا َل‪ :‬فَ َر َج َع َغی َْر َب ِعیدٍ‪ ،‬ث ُ َّم َجا َء‪ ،‬فَقَا َل‪ :‬یَا َر ُ‬
‫ت‬ ‫سلَّ َم‪ِ :‬مثْ َل ذَ ِل َك َحتَّى ِإذَا َكانَ ِ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬‫صلَّى ہللاُ َ‬ ‫ي َ‬ ‫ط ِھ ْرنِي‪ ،‬فَقَا َل النَّ ِب ُّ‬ ‫ہللاِ‪َ ،‬‬
‫سأ َ َل‬‫الزنَى‪ ،‬فَ َ‬ ‫ط ِھ ُر َك؟» فَقَا َل‪ِ :‬منَ ِ‬ ‫یم أ ُ َ‬ ‫سو ُل ہللاِ‪« :‬فِ َ‬ ‫الرا ِب َعةُ‪ ،‬قَا َل لَهُ َر ُ‬ ‫َّ‬
‫ون‪،‬‬ ‫ْس ِب َم ْجنُ ٍ‬ ‫ون؟» فَأ ُ ْخ ِب َر أَنَّهُ لَی َ‬ ‫سلَّ َم‪« :‬أ َ ِب ِه ُجنُ ٌ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلَّى ہللاُ َ‬ ‫سو ُل ہللاِ َ‬ ‫َر ُ‬
‫ام َر ُج ٌل فَا ْست َ ْن َك َھهُ‪ ،‬فَلَ ْم یَ ِج ْد ِم ْنهُ ِری َح خ َْم ٍر‪ ،‬قَا َل‪،‬‬ ‫ب خ َْم ًرا؟» فَ َق َ‬ ‫فَقَا َل‪« :‬أَش َِر َ‬
‫ْت؟» فَقَا َل‪ :‬نَ َع ْم‪ ،‬فَأ َ َم َر ِب ِه‬ ‫سلَّ َم‪« :‬أَزَ نَی َ‬ ‫ع َل ْی ِه َو َ‬‫صلَّى ہللاُ َ‬ ‫سو ُل ہللاِ َ‬ ‫فَقَا َل َر ُ‬
‫ت ِب ِه‬ ‫اس ِفی ِه فِ ْرقَتَی ِْن‪ ،‬قَائِ ٌل یَقُولُ‪ :‬لَقَ ْد َهلَ َك‪ ،‬لَقَ ْد أَ َحا َ‬
‫ط ْ‬ ‫فَ ُر ِج َم‪ ،‬فَ َكانَ النَّ ُ‬
‫ض َل ِم ْن تَ ْوبَ ِة َما ِع ٍز‪ ،‬أَنَّهُ َجا َء ِإلَى النَّبِي ِ‬ ‫َطیئَتُهُ‪َ ،‬وقَائِ ٌل یَقُولُ‪َ :‬ما ت َ ْوبَةٌ أ َ ْف َ‬ ‫خ ِ‬
‫ارةِ‪ ،‬قَا َل‪:‬‬ ‫ض َع یَدَہُ فِي یَ ِدہِ‪ ،‬ث ُ َّم قَا َل‪ :‬ا ْقت ُ ْلنِي بِ ْال ِح َج َ‬ ‫سلَّ َم فَ َو َ‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫صلَّى ہللاُ َ‬ ‫َ‬
‫سلَّ َم َو ُه ْم‬ ‫علَ ْی ِه َو َ‬‫صلَّى ہللاُ َ‬ ‫سو ُل ہللاِ َ‬ ‫فَلَبِثُوا بِذَ ِل َك یَ ْو َمی ِْن أ َ ْو ث َ َالثَةً‪ ،‬ث ُ َّم َجا َء َر ُ‬
‫س‪َ ،‬فقَا َل‪« :‬ا ْستَ ْغ ِف ُروا ِل َما ِع ِز ب ِْن َمالِكٍ »‪ ،‬قَا َل‪ :‬فَقَالُوا‪:‬‬ ‫سلَّ َم ث ُ َّم َجلَ َ‬‫وس‪ ،‬فَ َ‬ ‫ُجلُ ٌ‬
‫سلَّ َم‪« :‬لَقَ ْد‬ ‫صلَّى ہللاُ َ‬
‫علَ ْی ِه َو َ‬ ‫سو ُل ہللاِ َ‬ ‫غفَ َر ہللاُ ِل َما ِع ِز ب ِْن َمالِكٍ ‪ ،‬قَا َل‪ ،‬فَقَا َل َر ُ‬ ‫َ‬
‫ت َبیْنَ أ ُ َّم ٍة لَ َو ِس َعتْ ُھ ْم»‬ ‫اب تَ ْوبَةً لَ ْو قُ ِس َم ْ‬ ‫تَ َ‬
‫‪4‬‬

‫سلیمان بن بریدہ اپنے والد (بریدہ بن حصیب اسلمی ؓ) سے روایت‬


‫کرتے ہیں کہ ماعز بن مالک ؓ(اسلمی)نبیﷺ کے پاس آئے اور کہنے‬
‫لگے ‪ :‬اے ہللا کے رسولﷺ! مجھے پاک کیجیے ۔ آپﷺ نے فرمایا‬
‫‪ :‬تم پر افسوس! جاؤ ‪ ،‬ہللا سے استغفار کرو اور اس کی بارگاہ میں‬
‫توبہ کرو ۔ کہا ‪ :‬وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے ‪ ،‬پھر واپس آئے‬
‫اور کہنے لگے ‪ :‬اے ہللا کے رسولﷺ! مجھے پاک کیجیے ۔ تو‬
‫نبیﷺ نے فرمایا ‪ :‬تم پر افسوس! جاؤ ‪ ،‬ہللا سے استغفار کرو اور اس‬
‫کی طرف رجوع کرو ۔ کہا ‪ :‬وہ لوٹ کر تھوڑی دور تک گئے ‪ ،‬پھر‬
‫آئے اور کہنے لگے ‪ :‬اے ہللا کے رسولﷺ! مجھے پاک کیجیے ۔ تو‬
‫نبیﷺ نے (پھر) اسی طرح فرمایا حتی کہ جب چوتھی بار (یہی بات)‬
‫ہوئی ‪ ،‬رسول ہللاﷺ نے اس سے پوچھا ‪ :‬میں تمہیں کس چیز سے‬
‫پاک کروں؟ انہوں نے کہا ‪ :‬زنا سے ۔ رسول ہللاﷺ نے پوچھا ‪ :‬کیا‬
‫اسے جنون ہے؟ تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ مجنون نہیں ہے ۔ تو آپ نے‬
‫پوچھا ‪ :‬کیا اس نے شراب پی ہے؟ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور‬
‫اس کا منہ سونگھا تو اسے اس سے شراب کی بو نہ آئی ۔ کہا ‪ :‬تو‬
‫رسول ہللاﷺ نے پوچھا ‪ :‬کیا تم نے زنا کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا‬
‫‪ :‬جی ہاں (یہیں آپ نے اس سے اس واقعے کی تصدیق چاہی جو آپ‬
‫تک پہنچا تھا) پھر آپﷺ نے ان (کو رجم کرنے) کے بارے میں حکم‬
‫دیا ‪ ،‬چنانچہ انہیں رجم کر دیا گیا ۔ بعد ازاں ان کے حوالے سے‬
‫لوگوں کے دو گروہ بن گئے ‪ ،‬کچھ کہنے والے یہ کہتے ‪ :‬وہ تباہ و‬
‫برباد ہو گیا ‪ ،‬اس کے گناہ نے اسے گھیر لیا ۔ اور کچھ کہنے والے‬
‫یہ کہتے ‪ :‬ماعز ؓ کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں (ہو سکتی) کہ‬
‫وہ (خود) نبیﷺ کے پاس آئے اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ‪ ،‬پھر‬
‫کہا ‪ :‬مجھے پتھروں سے مار ڈالئے ۔ کہا ‪:‬دو یا تین دن وہ (اختالف‬
‫کی) اسی کیفیت میں رہے ‪ ،‬پھر رسول ہللاﷺ تشریف الئے ‪ ،‬وہ سب‬
‫بیٹھے ہوئے تھے ‪ ،‬آ پ نے سالم کہا ‪ ،‬پھر بیٹھ گئے اور فرمایا ‪:‬‬
‫‪5‬‬

‫ماعز بن مالک ؓ کے لئے بخشش مانگو ۔ کہا ‪ :‬تو لوگوں نے کہا ‪ :‬ہللا‬
‫ماعز بن مالک ؓ کو معاف فرمائے! تو رسول ہللاﷺ نے فرمایا ‪ :‬بالشبہ‬
‫انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک امت میں بانٹ دی جائے‬
‫‪2‬‬
‫تو ان سب کو کافی ہو جائے ۔‬
‫اس روایت میں ایک صحابی رسول ﷺکے تزکیہ نفس کا تذکرہ ہے‬
‫کہ انہوں نے کس طرح اپنے تزکیہ نفس کی فکر کی۔ اور تصوف‬
‫بھی اپنے نفس کو پاک کرنے کی جدو جہد کا نام ہے لہذا کہا جاسکتا‬
‫ہے کہ تصوف کی ابتداء دور نبویﷺ سے ہوئی۔‬
‫سالسل طریقت‬
‫اہل تصوف‪،‬طریقت کے باقاعدہ سلسلوں کا آغاز دور تابعین اور تبع‬
‫تابعین سے کرتے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔‬
‫(‪)1‬سلسلہ عجمیہ(‪150‬ه)از حبیب عجمی‬
‫(‪)2‬سلسلہ ادہمیہ(‪150‬ه)از ابو اسحاق ابراہیم بن ادهم‬
‫(‪)3‬سلسلہ عیاضیہ(‪170‬ه)از فضیل بن عیاض‬
‫(‪)4‬سلسلہ کرخیہ (‪190‬ه)از حضرت معروف بن فیروز کرخی‬
‫(‪)5‬سلسلہ محاسبیہ(‪230‬ه)از حارث بن اسد محاسبی‬
‫عیسی بسطامی‬
‫ٰ‬ ‫(‪)6‬سلسلہ طیفوریہ(‪240‬ه)از طیفور بن‬
‫(‪)7‬سلسلہ سقطیہ(‪245‬ه)از ابوالحسن سری سقطی‬
‫(‪)8‬سلسلہ جنیدیہ(‪270‬ه)از حضرت جنید بغدادی‬
‫(‪)9‬سلسلہ نوریہ(‪280‬ه)از ابوالحسن احمد بن محمد نوری‬
‫‪6‬‬

‫وقت کے ساتھ ساتھ ان سلسلوں اور ان کی شاخوں کی تعداد سینکڑوں‬


‫تک پہنچ گئی۔یہ سالسل طریقت بعد میں موجود ہ چار سلسلوں میں‬
‫مدغم ہو گئے۔‬
‫(‪)1‬سلسلہ چشتیہ‬
‫سلسلہ چشتیہ کی وجہ تسمیہ خراسان کے ایک شہر چشت کی نسبت‬
‫سے ہے۔جہاں ایک بڑا مرکز قائم کیا گیا جس سے بڑی شہرت حاصل‬
‫‪3‬‬
‫ہوئی یہ سلسلہ اس مقام کی نسبت سے سلسلہ چشتیہ کہالیا۔‬
‫چشت میں ابو اسحاق شامی(متوفی ‪329‬ه) مقیم تھے بعد میں یہ سلسلہ‬
‫خواجہ معین الدین چشتی اجمیری(متوفی ‪633‬ه) کے نام سے مشہور‬
‫ہے جو اس سلسلے کے اہم فرد تھے وہ ہندوستان آئے اور اجمیر کو‬
‫مرکز بنایا۔ ہندوستان کے مشہور صوفی اس سلسلے سے وابستہ ہیں‬
‫مثال فرید الدین گنج شکر(متوفی ‪642‬ه)خواجہ نظام الدین‬
‫اولیاء(متوفی ‪726‬ه)عالء الدین صابر(متوفی‪691‬ه) نصیرالدین‬
‫چراغ دہلوی(متوفی ‪757‬ه)سید محمد گیسو دراز(متوفی ‪825‬ه)شیخ‬
‫عبد القدوس گنگوہی(متوفی ‪944‬ه)حاجی امداد ہللا مہاجر مکی(متوفی‬
‫‪1370‬ه)وغیرہ‬
‫سلسلہ چشتیہ کا خاص امتیاز نسبت عشق کا فروغ ہے جس سے وہ‬
‫محبت کے سوا ہر چیز کا خیال دل سے نکال کر خالی دل کے ساتھ‬
‫دائمی ذکر کے ذریعے سے حاصل کرتے ہیں ان کے اہم نظریات و‬
‫اعمال مختصر یہ ہے۔‬
‫اہم نظریات وعقائد‬
‫(‪)1‬وحدت الوجود(‪)2‬ذاتی جائیداد کو توکل کے منافی سمجھنا(‪)3‬امن‬
‫و صلح اور عدم تشدد پر اعتقاد رکھنا اور انتقام کو حیوانی دنیا کا‬
‫طریقہ سمجھنا(‪)4‬حکومت سے مراسم رکھنے کو برا سمجھنا(‪)5‬ہللا‬
‫‪7‬‬

‫کے لئے جینے کو صوفیانہ زندگی کا مقصد سمجھنا(‪)6‬صوفیانہ‬


‫ریاضت کی ابتدا کے لئے تجدید اسالم کی بجائے جذباتی زندگی میں‬
‫انقالب کو ضروری سمجھنا۔‬
‫تربیتی اصول‬
‫ہللا تعالی سے تعلق قائم کرنے کے لیے تمام جذبات و احساسات پر‬
‫قابو پانے کے لئے مندرجہ ذیل تربیتی اصول ہیں۔‬
‫(‪)1‬ذکر جہری‪:‬مقررہ اوقات میں معین کردہ طریقے سے بیٹھ کر ہللا‬
‫کا نام بلند آواز سے ذکر کرنا‬
‫(‪)2‬ذکر خفی‪:‬ہللا کا نام خاموشی سے لینا‬
‫(‪)3‬پاس انفاس‪:‬سانس کے ساتھ ذکر کو منضبط کرنا‬
‫(‪)4‬مراقبہ‪:‬تصوفانہ تفکر میں استغراق گوشہ عزلت میں عبادت و‬
‫تفکر کے لیے چالیس روز ایک طرف توجہ کر کے مشغول ہو جانا‬
‫(‪)5‬سماع‪:‬صوفی کی دل کو المحدود کے ساتھ متحد کرنے کے لئے‬
‫سننا۔‬
‫(‪)2‬سلسلہ قادریہ‬
‫یہ سلسلہ شیخ عبدالقادر جیالنی رحمہ ہللا (متوفی ‪561‬ه)کی نسبت‬
‫سے قادریہ کہالتا ہے شیخ عبدالقادر جیالنی رحمۃ ہللا علیہ جید عالم‬
‫اور حنبلی مسلک کے پیروکار تھے۔آپ نے اپنے وقت کے نامور‬
‫علماء سے علم حاصل کیا یہاں تک کہ جامعہ بغداد کے استاذ و مہتمم‬
‫رہے۔ان کے اصالحی مواعظ سے کثیر لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ان کے‬
‫نام سے سلسلہ قادریہ کی باقاعدہ تنظیم ان کے انتقال کے بعد ہوئی۔آپ‬
‫کی طرف بہت سی کرامات منسوب ہیں۔‬
‫‪8‬‬

‫سلسلہ قادریہ میں رضائے الہی کی طلب کے لیے ذکر پر توجہ دی‬
‫جاتی ہے۔یہ ذکر دل کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور زبان کے ساتھ بھی‬
‫ہوتا ہے نسبت فاروقی کا ظہور اور ذکر پر توجہ سلسلہ قادریہ کے‬
‫اختصاصات ہیں۔یہ سلسلہ عراق اور پاک و ہند میں معروف ہے۔شیخ‬
‫ابوالمعالی(متوفی ‪1024‬ه)شیخ داؤد کرمانی(متوفی ‪ 289‬ه)اور‬
‫حضرت میاں میر الہوری(متوفی ‪1045‬ه) ہیں اسی سلسلے سے‬
‫‪4‬‬
‫وابستہ تھے۔‬
‫(‪)3‬سلسلہ سہروردیہ‬
‫یہ سلسلہ شیخ شہاب الدین ابو حفص عمر بن عبدہللا سہروردی(متوفی‬
‫‪630‬ه) سے منسوب ہے آپ شافعی المذہب تھے۔تصوف کی تربیت‬
‫ابو نجیب سہروردی اور عبد القادر جیالنی رحمہ ہللا سے پائی‬
‫عوارف المعارف آپ کی مشہور تصنیف ہے جو علم تصوف پر اعلی‬
‫ترین تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ چشتی سلسلہ سے منسلک خانقاہوں‬
‫میں بھی عوارف پڑهی جاتی ہے۔ مشہور فارسی شاعر و ادیب سعدی‬
‫شیرازی آپ کے مرید تھے برصغیر پاک و ہند میں آپ کا سلسلہ آپ‬
‫کے خلیفہ شیخ بہاوالدین زکریا ملتانی(متوفی ‪ 661‬یا ‪666‬ه) کے‬
‫توسط سے پھیال۔‪5‬سلسلہ سہروردیہ میں تزکیہ کے متعین اسباق‬
‫ہیں۔جن کی طالبعلم کو تعلیم دی جاتی ہے ان کے ہاں ذکر قلبی اور‬
‫توجہ کو بھی اہمیت حاصل ہے۔‬
‫(‪)4‬سلسلہ نقشبندیہ‬
‫اس سلسلے کی نسبت بہاؤالدین نقشبند(متوفی ‪ 791‬ه) سے ہے جن‬
‫کا تعلق بخارا سے تھا۔پہلی ہی صحبت میں سالک کے دل سے ما‬
‫سوا ہللا(ہللا کے سوا ہر چیز کا نقش مٹا کر)ہللا تعالی کا نقش دل پر‬
‫جمانے کی وجہ سے نقشبند کے لقب سے مشہور ہوئے مدت کے‬
‫‪9‬‬

‫اعتبار سے یہ سلسلہ سب سے پرانا ہے یہ سلسلہ ترکستان میں قائم‬


‫ہوا اور اس کے سب سے زیادہ مشہور بزرگ خواجہ محمد اتالیسوی‬
‫ہیں۔جو ترکستان کے شہر ایسا میں رہتے تھے ہندوستان میں نقشبندی‬
‫سلسلہ شیخ احمد سرہندی(مجدد الف ثانی)کی وجہ سے مشہور‬
‫ہے۔طریقہ نقشبندیہ میں ذکر قلبی ولسانی خفی رائج ہے۔ عالوہ ازیں‬
‫اس سلسلے میں تکمیل سلوک کے متعین اسباق ہیں اور اس کا باقاعدہ‬
‫نصاب ہے جو شیخ کی رہنمائی میں مکمل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے‬
‫کی اصطالحات درج ذیل ہیں۔‬
‫(‪)1‬ہوش دردم‪:‬ہر سانس میں ہوشیار رہنا یعنی کوئی سانس ہللا تعالی‬
‫کی یاد سے غافل نہ ہو اس کی معصیت میں گزرے۔‬
‫(‪)2‬نظر بر قدم‪:‬چلنے پھرنے میں اپنی نظر نیچی کر کے پیروں پر‬
‫نگاہ رکھے ادهر ادهر نہ دیکھے کیونکہ اس پاس کی چیزوں کی‬
‫طرف متوجہ ہونے سے توجہ الی ہللا میں خلل پڑتا ہے اور خیاالت‬
‫منتشر ہوتے ہیں۔‬
‫(‪)3‬سفر در وطن‪:‬آدمی صفات بشری گیا اور اخالق رذیلہ کو ترک‬
‫کرکے صفات میں کیا فر یعنی فرشتوں کی صفات اور اخالق فاضلہ‬
‫حاصل کریں یعنی طلب جاہ ومال حسد بغض و کینہ خودپسندی اور‬
‫تکبر وغیرہ سے دل کو پاک کرے کیونکہ جب تک یہ خصائل رذیلہ‬
‫دل میں ہونگے دل پاک نہیں ہو سکتا۔‬
‫(‪) 4‬خلوت در انجمن‪:‬لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی اپنے وطن اصلی‬
‫یعنی دل کی طرف متوجہ رہنا اور ہللا کی یاد سے غافل نہ ہونا۔‬
‫(‪)5‬یاد کردن‪:‬اپنے قلب کی طرف متوجہ ہونا اور خیال کرنا کے قلب‬
‫ہللا ہللا کر رہا ہے۔‬
‫‪10‬‬

‫(‪)6‬بازگشت‪:‬تھوڑے تھوڑے ذکر کے بعد تین بار یا پانچ بار مناجات‬


‫کی طرف رجوع کرنا‬
‫(‪)7‬نگہداشت‪:‬ذکر کیسے جو کیفیت پیدا ہو اس کو قائم رکھنا اور‬
‫خطرات اور وساوس سے اپنے قلب کو بچانا۔‬
‫(‪)8‬یادداشت‪:‬ذکر کی اس قدر مشق ہو جانا کہ بے ارادہ اور بے اختیار‬
‫دل سے ہللا ہللا نکلے لگے۔‬
‫(‪)9‬وقوف زمانی‪:‬ہوش در دم اور وقوف زمانی کا مطلب تقریبا ایک‬
‫ہی ہے۔وقوف زمانی کو صوفیاۓکرام محاسبہ بھی کہتے ہیں۔‬
‫(‪)10‬وقوف عددی‪:‬سالک ہللا کا ذکر وتر یعنی طاق کرے جیسے ‪،3‬‬
‫‪ 9 ،7 ،5‬مرتبہ۔ اس میں ذات حق کے ساتھ مناسبت ہے۔‬
‫(‪)11‬وقوف قلبی‪ :‬وقوف قلبی سے مراد یہ ہے کہ سالک ہر وقت ‪،‬‬
‫ہر آن اور ہر لحظہ اپنے قلب کی طرف متوجہ رہے اور قلب ہللا کی‬
‫طرف متوجہ رہے تاکہ ہر طرف سے توجہ ہٹ کر معبود حقیقی کی‬
‫طرف ہو جائے اور کسی قسم کے خطرات اور وسوسے دل میں نہ‬
‫آئیں۔‬
‫ان سلسلوں کے عالوہ سلسلہ اویسیہ بھی مشہور ہے جس کا آغاز‬
‫حضرت اویس قرنی سے کیا جاتا ہے۔‬
‫ان سلسلہ جات میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ حضرت ابوبکر صدیق‬
‫رضی ہللا تعالی عنہ سے ملتا ہے جب کہ باقی سلسلے حضرت علی‬
‫‪6‬‬
‫رضی ہللا تعالی عنہ سے شروع ہوتے ہیں۔‬
‫خانقاہی نظام کا تعارف اور اس کا آغاز و ارتقاء‬
‫خانقاہ کا مفہوم‬
‫‪11‬‬

‫معروف معنوں میں خانقاہ وہ جگہ ہے جہاں راہب صوفی اور درویش‬
‫قسم کے تارک دنیا لوگ گوشہ نشینی اختیار کرکے عبادت و ریاضت‬
‫میں مصروف رہتے ہیں۔خانقاہ عموما کسی بزرگ کی قیام گاہ یا مزار‬
‫پر بنائی جاتی ہے۔ لفظ خانقاہ دو الفاظ "خان" اور "قاہ" کا مرکب‬
‫ہے۔لفظ خان بمعنی بزرگ اور قاہ بظاہر فارسی لفظ "کاہ" سے بگڑا‬
‫ہوا لفظ ہے جس کے معنی کسی زندہ بزرگ کی جائے قیام یا مردہ‬
‫آدمی کے مزار کے ہیں۔‬
‫اردو لغت میں خانقاہ سے مراد درویشوں اور صوفیوں کی عبادت‬
‫گاہ‪ ،‬مسیحی عبادت خانے کے متعلق راہبوں کا مسکن ‪ ،‬نیز بده مذہب‬
‫کے ٹوپے لیے گئے ہیں۔‬
‫بعض نے خانقاہ کی اصل لفظ "خانق" لکھا ہے جس کا معنی تنگ‬
‫کرنا ہے۔ کیونکہ گوشہ نشینی سے نفس پر تنگی ہوتی ہے اس لئے‬
‫گوشہ نشین فقراء کے مساکین کو خانقاہ کہا جانے لگا۔‬
‫خانقاہ فارسی کا لفظ ہے جس سے مراد عموما ایک ایسی عمارت‬
‫ہے جو سلسلہ تصوف میں مسلم صوفیوں کے لیے مخصوص ہوتی‬
‫ہے۔ خانقاہ کو عربی میں رباط کہتے ہیں جس کے معنی ہیں رسی‪،‬‬
‫بند باندهنے کی چیز‪ ،‬دل‪ ،‬روح‪ ،‬گھوڑے‪ ،‬قلعہ یا ایسا مکان جس میں‬
‫فوج رکھی جائے۔خانقاہ کے لیے انگریزی میں ‪ monastery‬کا لفظ‬
‫استعمال ہوتا ہے جس کے معنی راہبوں کے رہنے کی جگہ کے ہیں۔‬
‫مذہبی کمیونٹی کے لوگوں کا یہ مخصوص طرز زندگی جس میں وہ‬
‫معمول کی زندگی سے ہٹ کر صرف مذہبی تعلیمات کو مکمل طور‬
‫پر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‪ monasticism‬کہالتا ہے۔‬
‫مذکورہ تعریفوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خانقاہ دراصل ایسے آدمی‬
‫کی پناہ گاہ اور رہائش گاہ ہے جو دنیا کے تمام معموالت سے الگ‬
‫‪12‬‬

‫ہو کر اپنے آپ کو مذہب کے حوالے کردیتا ہے اور انسانی معاشرے‬


‫سے الگ تھلگ ہو گا یکسوئی کے ساتھ مذہب کو اپنا اوڑهنا بچھونا‬
‫بنا لیتا ہے۔‬
‫خانقاہی نظام کے ہمارے معاشرے پر اثرات‬
‫یوں تو برصغیر میں اسالم کی آمد کافی پہلے ہو چکی تھی۔ محمد بن‬
‫قاسم اور دیگر تجار عرب ہندوستان آچکے تھے۔اور تبلیغ دین کا بیش‬
‫بہا کا ر نامہ ب ھی انجام دیا تھا ان کی خدمات سے انحراف نہیں کیا‬
‫جا سکتا۔ان کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ بہر حال یہ کہنا پڑتا‬
‫ہے کہ برصغیر کے لوگوں کے مزاج وطبعیت کو سمجھنے اور اس‬
‫کے ادراک میں جو طبقہ سب سے کامیاب ہوا وہ بال شبہ صوفیہ کا‬
‫طبقہ تھا۔جنہوں نے یقینی طور پر اسالم کو”االسالم یسرالعسر “بنا‬
‫کر پیش کیا ۔اور اپنی ذات کو بے ضرر ثابت کرنے میں وہ حد درجہ‬
‫کامیاب بھی ہوئے۔انہوں نے انسانیت کی تفہیم کو اصل سرمایہ حیات‬
‫قرار دیتے ہوئے عوام وخواص کے دلوں پر اپنی حکومت قائم کی‬
‫اور تخت و تاج کو آنکھ نہیں لگایا۔یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے‬
‫کے باوجود صوفیاء یکے بعد دیگرے آج بھی عوام الناس کے دلوں‬
‫میں موجود ہیں۔حضرت خواجہ غریب نواز ‪،‬حضرت خواجہ قطب‬
‫الدین بختیار کاکی‪،‬حضرت خواجہ بابا فریدالدین گنج شکر‪،‬حضرت‬
‫خواجہ نظام الدین اولیاء‪،‬حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ‬
‫دہلی‪،‬حضرت خواجہ کلیم ہللا شاہ جہاں آبادی‪،‬حضرت موالنا‬
‫فخرالدین چراغ‪،‬مجدد الف ثانی‪ ،‬حضرت علی ہجویری‪ ،‬حضرت‬
‫سلطان باہو وغیرہ یکساں طور پر مقبول و موثر ہوئے ہیں۔آج بھی‬
‫ان کی بارگاہوں میں پہنچ کر مذاہب کی تفریق ال یعنی محسوس ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫‪13‬‬

‫ایسا بھی نہیں ہے کہ جب صوفیاء کی برصغیر میں آمد ہوئی تو یہاں‬


‫کی زمین تبلیغ و اشاعت اسالم کے لئے مسطح اور ہموار تھی۔اور‬
‫انہوں نے بال کسی جدوجہد کے کلمہ اسالم پڑهانا شروع کر دیا۔‬
‫اس کے بر عکس کتابوں کے اوراق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ صوفیاء‬
‫کو حد درجہ جدوجہد کرنی پڑی ہے۔انہوں نے وضو کرنا چاہا تو‬
‫انہیں وضو سے روک دیا گیا۔نماز ادا کرنی چاہی تو اس سے بھی‬
‫منع کیا گیا۔جادو گروں کا سہارا لیا گیا۔طرح طرح سے انہیں پریشان‬
‫کیا گیا۔لیکن انہوں نے باشندگان ہندوستان کے عذر کو عذر لنگ‬
‫محسوس نہیں کیا اور وہ اپنے مشن میں ثابت قدم رہے۔اپنے پیغام‬
‫محبت کو عام کیا۔بھید بھاﺅ سے کام نہیں لیا‪،‬نہ ہی کسی پر جبر‬
‫کیا۔”ادع الی سبیل ربک با لحکمة و الموعظتہ الحسنة“کو نمونہ کے‬
‫طور پر استعمال کرتے رہے۔پہلے اپنے اعمال وافعال سے عوام‬
‫الناس کو متاثر کیا پھر اسالم کے قوانین کو ان کے ذہن ودماغ میں‬
‫بتدریج بسایا۔احکامات اسالم کو مانوس بنا کر پیش کیا۔ایک صوفی‬
‫کہتے ہیں کہ"انسان کو دریا کی سی سخاوت‪،‬زمین کی سی‬
‫تواضع‪،‬اور سورج کی سی شفقت اختیار کرنی چاہئے۔"‬
‫یہی پیار کے دو بول تھے جس نے برصغیر کے لوگوں کی زندگیاں‬
‫بدل دیں۔انہوں نے ستی کے رواج سے خود کو پاک کر لیا۔گناہ کو‬
‫گناہ سمجھنے لگے۔ان بزرگوں کے خالف دلوں میں جو کدورتیں‬
‫پائی جاتی تھیں وہ بتدریج ختم ہوتی گئیں بزرگوں کی نفرت سے دل‬
‫پاک ہو گئے۔اور آج ہمارے سامنے نتیجہ یہ ہے کہ بے شمار تخت‬
‫و تاج کے مالک و بادشاہ ہندوستانیوں کے اذہان سے محو ہو گئے۔اور‬
‫خود ان کی کارستانیوں اور غیر مصلحت پسندانہ رویوں کی وجہ‬
‫سے وہ الئق مذمت ٹھ ہرے مگر اب بھی ہندوستان میں بال تفریق‬
‫مذہب و دهرم بزرگوں کو چاہنے والی اکثریت موجود ہے۔‬
‫‪14‬‬

‫خانقاہوں نے ایسے شعرا ءپیدا کئے جنہوں نے خالص شاعری‬


‫کی۔خسرو ‪،‬بلھے شاہ‪،‬بابا فرید گنج شکر‪،‬بیدم وارثی وغیرہ کے نام‬
‫ناقابل فراموش ہیں۔انہوں نے عشق حقیقی میں رنگی شاعری کی۔پھر‬
‫وہ شاعری مجالس سماع یا صوفیانہ قوالیوں میں پیش کی گئی جس‬
‫سے نہ صرف عشق حقیقی کی چنگاریاں شعلہ بنیں بلکہ قومی‬
‫یکجہتی کی فضا بھی قائم ہوئی۔انسانوں کو مذہبی چشمہ لگا کر نہ‬
‫دیکھنے کا رواج عام ہوا۔انسان کو انسانیت کی نظر سے دیکھا جانے‬
‫لگا۔ہر انسان بھائی بھائی ہو گیا۔بزرگوں کی بارگاہوں سے تمام کے‬
‫مسائل حل کئے جانے لگے۔‬
‫تاریخ کو جب ہم کتابوں کے اوراق پر دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ‬
‫کر بڑا ہی افسوس ہوتا ہے کہ جب سے خانقاہوں میں زوال و انحطاط‬
‫کی بساط پھیلنے لگی تبھی سے فرقہ واریت‪،‬تشدد‪ ،‬نسل پرستی‪،‬انتہا‬
‫پسندی پھیلنی شروع ہوئی۔خانقاہوں میں پیغام الفت و محبت عام کرنے‬
‫والے نہ رہے اور برصغیر میں اختالف و انتشار کی بیج بونے والے‬
‫بے شمار منافقین آگئے۔جنہوں نے نہ صرف ہمیں اپنا غالم بنایا بلکہ‬
‫مسلمانوں کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر دیا۔‬
‫کردار‬ ‫کا‬ ‫فقہ‬ ‫میں‬ ‫نظام‬ ‫خانقاہی‬

‫خانقاہی نظام کے چاروں بڑے سلسلوں میں فقہ کا کردار اس طرح‬


‫نمایاں ہے کہ سلسلہ قادریہ کے باقاعدہ بانی شیخ عبدالقادر جیالنی‬
‫رحمہ ہللا فقہ حنبلی کے پیروکار اور جید عالم تھے۔ اسی طرح سلسلہ‬
‫سہروردیہ کے بانی شیخ شہاب الدین ابو حفص عمر بن عبدہللا‬
‫سہروردی بھی جید عالم اور شافعی فقہ کے پیروکار تھے۔‬
‫نقشبندی سلسلے کے بانی خواجہ بہاؤ الدین نقشبند ایک جید عالم ‪،‬‬
‫تھے۔‬ ‫پیروکار‬ ‫کے‬ ‫حنفی‬ ‫فقہ‬ ‫اور‬ ‫صوفی‬
‫‪15‬‬

‫ان تفصیالت سے پتہ چلتا ہے کہ تمام خانقاہی سلسلے کسی نا کسی‬


‫فقہ کی پیروی کرتے ہیں ۔یوں کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ فقہ نے جہاں‬
‫زندگی کے ہر معاملے میں انسانیت کی رہنمائی کی ہے وہیں خانقاہی‬
‫نظام میں بھی فقہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔‬
‫سفارشات‬

‫اسالم چونکہ کامل اور مکمل دین ہے اس لئے اسالم میں تحریف‬
‫نہیں ہو سکتی۔ ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنہوں‬
‫نے اسالم کی تعلیمات کو صحیح طور پر دوسروں تک پہنچایا ہے۔‬
‫اور ساتھ ہی ساتھ انسانیت سے محبت کی تعلیم دی ہے۔ اصطالح میں‬
‫ایسے لوگوں کو فقہاء اور صوفیاء کہا جاتا ہے۔ ضروری ہے ایسے‬
‫علوم سے ہمیں آگاہی حاصل ہو اور ہم دوسروں کو بھی بتا سکے کہ‬
‫دین کی صحیح شکل یہ ہے جن پر فقہاء اور صوفیاء نے عمل کر‬
‫ہے۔‬ ‫دکھایا‬ ‫کے‬

‫اس کے بارے میں معلومات نصاب کا حصہ ہونی چاہیے تاکہ ہر‬
‫تعلیم یافتہ کے پاس فقہ اور خانقاہی نظام کے بارے میں معلومات ہو‬
‫تاکہ اسالم کی غلط تشریح کرنے والوں سے بچا جا سکے۔‬

‫منبر و محراب پر موجود علماء کو یہ ذمہ داری بخوبی انجام دینی‬


‫چاہیے کہ وہ اپنی تقاریر کے اندر ان موضوعات کو خوب اجاگر‬
‫کرے۔‬

‫اسکول کالجوں یونیورسٹیوں میں موجود اساتذہ کو بھی اس جانب‬


‫توجہ دینی چاہیے اور فقہ اور خانقاہی نظام کے بارے میں اپنے طلبا‬
‫چاہیے۔‬ ‫دینا‬ ‫آگاہی‬ ‫کو‬
‫‪16‬‬

‫میڈیا کا کردار بھی اس حوالے سے اہم ہے کہ وہ بھی فقہ اور خانقاہی‬


‫نظام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی دے سکتے ہیں جس سے‬
‫لوگوں میں شعور پیدا ہوگا۔‬
‫حوالہ جات‬
‫‪1‬۔رسالہ قشیریہ صفحہ‪138،139 :‬‬
‫‪2‬۔مسلم حدیث نمبر‪4431 :‬‬
‫‪3‬۔تاریخ مشایخ چشت صفحہ‪135:‬‬
‫‪4‬۔تصوف وسرایت صفحہ‪219 :‬‬
‫۔‪5‬تصوف وسرایت صفحہ‪219 :‬‬
‫‪6‬۔آینہ تصوف صفحہ‪96:‬‬

You might also like