تاریخ نویسی ای ک فن ہے اور دیگ ر فن ون کی ط رح اس فن کے ح والے س ے بھی اس کے محقیقین و م ورخین کے یہ اں اس فن کی
تعریف ،اس کی ضرورت اور اس کے فوائد اور تاریخ کے ماخذ سے متعلق مکم ل بحث مل تی ہے۔ اس موض وع کی بنی ادوں کت ابوں میں تاریخ ابن خلدون ،تاریخ فرشتہ ،بغداد کا نام خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ اس میں اس کی پوری تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں بط ور اختص ار فن ت اریخ س ے متعل ق مفک رین کے بعض نظری ات اور اس ک ا خالص ہ پیش ہے۔ علم تاریخ کی تعریف میں مفکرین کا اختالف پایا جاتاہے ،چنانچہ کسی نے کہا کہ انسانوں کو یکجا ہوکر رہنے کو تم دن ،اس انس انی مجمع کو مدینہ ،اس مختلف حالتوں کو جو طبعا اس کو عارض ہ وں واقع ات اور پچھل وں ک و پہل وں س ے کس ک و واقع ات ک و اکٹھ ا کرنے اور اپنے سے پیچھے آنے والوں کی عبرت اور نصیحت کیلئے بطور نمونہ چھوڑ جانے کا تاریخ کہ تے ہیں ،لیکن س ب س ے بہتر تعریف یہ ہے کہ علم تاریخ اصطالحا ً اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ،فاتحوں اور مشہور شخصیتوں کے حاالت و واقعات وغیرہ معلوم ہوسکیں اور جو زمانہ گذشتہ کی معاشرت ،اخالق اور تمدن وغیرہ سے واقفیت کاذریعہ بن سکے۔ یعنی بطور تے ہیں۔ اریخ کہ وت انے ک ار لکھے ج االت ،اخب د وقت ح کتے ہیں بقی ہ ہم کہہ س خالص ادب کیا ہے اس کی ابتداء کب سے ہے انسانی زندگی کا سے اس کا کیا تعلق ہے۔ سماج میں اس کے کیا اث رات م رتب ہ وتے ہیں اور ارباب فکر وادب نے اسے کن نگاہوں سے دیکھاہے۔ اس پر تفصیل سے گفتگ و ہوس کتی ہے۔ بلکہ ارب اب ادب نے کی بھی ہے یہ اں تفصیل سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف اس تعلق سے گفتگو آگے بڑھاتے ہیں کہ آخرتاریخ کا ادب سے کی ا رش تہ ہے اور کی ا جس طرح تاریخ ،انسانی ذہن ،افسانی فکر اور سماج پر اثرات مرتب کرتی ہے ،اسی ط رح ادب بھی انہیں عوام ل و اث رات س ے ک ام لیت ا وری نے کہی کہ وں گورکھپ ات کہی مجن ے جچی تلی اور پختہ ب بس لہ میں س :ہے۔ اس سلس ادیب ک وئی راہب ی ا ج وگی نہیں ہوت ا ،اور ادب ت رک ی ا تپس یا کی پی دوار نہیں ہے۔ ادب بھی اس ی ط رح ای ک مخص وص ہےئت" اجتماعی ،ایک خاص نظام تمدن ک ا پ روردہ ہوت اہے۔ جس ط رح کہ ک وئی دوس را ف رد اور ادب بھی ب راہ راس ت ہم اری معاش ی اور سماجی زندگی سے اُسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح ہمارے دوسرے حرکات وسکنات۔ ادیب کو خالق کہا گیا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ قادر مطلق کی طرح صرف ایک ' ُک ن' سے جو جی چاہے اور جس وقت جی چاہے پیدا کرسکتا ہے۔ ش اعر ج و کچھ کہتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایک اندرونی اُپچ سے مجبور ہوکر کہتا ہے جو بظاہر انفرادی چ یز معل وم ہ وتی ہے۔ لیکن دراص ل یہ اُپچ اُن تمام خارجی حاالت و اسباب کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو مجموعی طورپر تمدن ی ا ہےئت اجتم اعی کہ تے ہیں۔ ش اعر کی زب ان الہامی زبان مانی گئی ہے۔ مگر یہ الہ امی زب ان درپ ردہ زم انہ اور م احول کی زب ان ہ وتی ہے۔ اگ ر ایس ا نہ ہوت ا ت و ت اریخ ادب کی اصطالح کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ جرمنی کے مش ہور فلس فی ہیگ ل نے فلس فے ک و ت اریخ مان ا ہے۔ یع نی فلس فہ ن ام ہے انس ان کے خیاالت و افکار کے آگے بڑھتے رہتے اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہنے کا۔ اسی طرح ادب بھی ت اریخ ہے جس میں کس ی مل ک ی ا کسی قوم کے دور بہ دور ب دلتے ہ وئے تم دن کی مسلس ل تص ویریں نظ ر آتی ہیں۔ البتہ اس کیل ئے دی دۂ بین ا درک ار ہے۔ فن ون لطیفہ " بالخص وص ادیب ات کس ی نہ کس ی ح د ت ک قوم وں کے ع روج و زوال ک ا آئینہ ض رور ہ وتے ہیں۔ تاریخ و ادب کی اس گفتگ و کے بع د اب بظ اہر یہ کہ نے کی ض رورت ب اقی نہیں رہ ج اتی ہے کہ دون وں کے م ابین کی ا رش تہ ہے۔ کیونکہ بار بار یہ بات دہرائی جاچکی ہے کہ ادب اپنے عہد کے ماحول ،تہذیب طرز معاشرت اور طرز زن دگی کی ترجم انی ک ا ن ام تے ہیں مثال اریخ پڑھ د کی ت ا ہم اس عہ تے ہیں گوی ا ادب پڑھ دک : ہے۔ ہم جس عہ مرثیہ ایک صنف ہے اور اس میں شہید کربال حضرت امام حسین اور ان کے جملہ رفقاء و احباب کی شہادت کے احوال اور اس یران کربال کی اسیری کی کیفیات شاعرانہ انداز میں بیان ہوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں انیس و دب یر کے م راثی ح والے کیل ئے بہت ک افی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ ان مراثی میں مبالغہ سے بھی کام لیا گی ا ہے لیکن مب الغہ بھی کس ی بنی اد ہی پ ر ہوت اہے۔ بہرح ال وہ واقع ات ت اریخی ہیں ،ان داز پیش کش مب الغہ آم یزہے گوی ا ادب کی یہ ص نف ادب ہ وتے ہ وئے بھی ای ک گ ونہ ت اریخ ہے۔ شاہنامہ کی اپنی ایک شان ہے۔ ہمارے سامنے مختلف عہد کے شاہنامے ہیں ان میں شاہنامہ اسالم کو جو مقام و مرتبہ حاص ل ہے اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ حفیظ جالندھری ایک ب ڑے ش اعر تھے ،غ زل کہ تے تھے لیکن غ زل نے انہیں وہ زن دگی نہیں دی ج و شاہنامہ اسالم نے نے دی۔ شاہنامہ اسالم اسالمی تاریخ کا وہ الزوال ومقبول منظ وم گلدس تہ ہے جس نے وج ود میں آنے کے بع د ہ ر زمانے کے قاری کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔ ظاہر ہے شاعری نے اسے ادب کا کہ ا ہے اور موض وع نے اس ے ت اریخ ک ا ن ام دی ا ہے۔ گویا یہاں ادب اور تاریخ باہم گلے مل رہے ہیں۔ قدیم ش اہوں س ے منس وب قص ائد آج بھی پ ڑھے پڑھ ائے ج اتے ہیں۔ بتای ا ج ائے کہ قصیدہ اگر شاعری کی ایک صنف ہے تو موضوع کے اعتبار سے اس کا رشتہ ت اریخ س ے ج ڑا ہ وا نہیں ہے؟ افس انہ ادب کی ای ک صنف ہے بعض ادباء نے تاریخی واقعات کو افسانوی انداز میں بیان کرنے کا کامیاب سلسلہ شروع کیا جن میں خواجہ حسن نظ امی، ماہر القادری اور عالمہ ارشد القادری کا نام سرفہرست ہے۔ ظاہر ہے ہےئت کے اعتب ار س ے یہ ادب ہے لیکن موض وع کے اعتب ار اریخ ہے۔ ے یہ ت س اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ کیا اثر ڈالنے میں ادب اور تاریخ دونوں کا کردار یکساں ہے؟ اور دونوں اس معاملہ میں یکس اں مقام رکھتے ہیں۔ جواب یقینا ً ہاں میں ہوگا کیونکہ ہمارے سامنے تاریخ کے ایسے شواہد موجود ہیں جس سے اث ر ان دازی میں دون وں کی یکس انیت ک ا اظہ ار ہوت ا ہے۔ ہم دور نہ ج اکر ص رف یہ ی ادکریں کہ کی ا یہ واقعہ نہیں کہ جن گ آزادی میں ادبی ش اعروں نے ہندوستانیوں کے سرد لہو کو شعلہ فشاں بنادیا تھا اور وہ ان کے ترانے سن کر اپنے وطن عزیز کی آزادی کیل ئے آہ نی تل وار بن ک ر غاصب انگریزوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ اگر جنگ آزادی میں ترانہ آزادی نے ہندوستانیوں کا خون گرمای ا تھ ا ت و یہ بھی واقعہ ہے کہ تاریخ اپنے خاندان کی ہویا اپنے ملک کی ،اسالمی ممالک کی ہویا اسالمی روایات کی اس کو پڑھ کر خون تو جوش مارتا ہی ہے ،جذبے تو بیتاب ہوتے ہی ہیں اور جوش جنوں کچھ کر زرنے کیلئے آمادہ عمل ت و کرت ا ہی ہے۔ حاص ل یہ کہ ت اریخ و ادب کے مابین گہرا رشتہ ہے اور یہ رشتہ مختلف نوعیتوں کا ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔