Professional Documents
Culture Documents
گُمشُدہ آدھی رُوح
گُمشُدہ آدھی رُوح
شد ِ
ت ُمحبت ناں ملی ہمیں
عشق کہ طوا ِ
ف یار
—عشق کہ طوافِ یار-----
----خِرد کہ یہ سب کیا ہے دلدار---
---عشق کہ ُگم کہ صرف یار---
---خرد کہ ایسا کیوں ہے یار--
امام خرد---
—عشق کہ ِ
---خرد کہ برابر سوال و جواب---
-----عشق کہ وجہ ِء اضطراب---
----اور خرد کہ کیونکر ہے یہ اضطراب-----
---اضطراب کہ پائے جواب-----
----عشق کہ جُنوں-----
----جُنوں کہ ھُو----
----اور خرد کہ پاۓ جواب----
منزل عشق----
ِ ---خرد کہ عاجز اگلی
ب عشق-----
---اور آخر میں خرد کہ خود کہ جذ ِ
عشق اول عشق آخر اور خرد کہ ساتھ ساتھ کہ ناں کوئی رہے کہ اب کوئی---
منزل اضطراب
ِ
دل کہ آگ زندہ
دل کہ آگ زندہ—
--ہم کہ قیدی ِء بُت—
--جُنوں کہ کرنے نصیب پاش پاش---
---ہم کہ ابھی ٹہر جا ٹہر جا---
---دل کہ آگ زندہ---
---دل کہ آگ زندہ-
--کشمکش ہجرو وصل کہ اب جان لیوا---
ِ
----کہ اب جان لیوا---
---ہم کہ دل ابھی ٹہر جا ابھی ٹہر جا—
----پل پل کہ اب دل رنجیدہ—
-پل پل کہ اب دل رنجیدہ—
شہر دل دریدہ---
--ہم کہ اب ِ
--اب کہ سمجھ کہ اُس بُت کہ بات تھی وہ سچی—
---مگر معنی کہ ہجر کی منزل تھی وہ لکھی---
---منزلیں اور لوگ بدلتے ہیں وقت با وقت---
--ہم کہ منتظر کہ اِس وقت کہ وہ وقت---
----شہر دل کہ جلتا رہے آگ میں—
ُ ----دعا کہ نصیب کرے پورا اپنا وقت---
---دل کہ اب آرزو ِء چین----
---منزلیں کہ ہوں اب پُوری مکمل---
--شکوہ کہ کوئی ناں ہو اُسے ہم سے---
خرچ غم
ِ دل کہ
خرچ غم---
ِ دل کہ
--اور ہم کہ خرچ پیمانوں کی طرح—
---شہر کہ خرچ کر گیا ہمیں—
---اور ہم کہ خرچ زمانوں کی طرح---
--ویراں کہ پھریں ہم راستوں میں---
---اور حیراں کہ ہم خرچ ویرانوں کی طرح---
----دل خرچ کہ اب گمشدہ تیری طرح---
ِ
---اور ہم کہ خرچ گذرے زمانوں کی طرح---
---ساری منزلیں کہ اب لگیں ویرانوں کی طرح---
--اور ہم کہ اب خرچ ،خرچ زمانوں کی طرح---
خرچ غم---
ِ ----دل کہ
---اور ہم کہ خرچ پیمانوں کی طرح—
---شہر کہ خرچ کرگیا ہمیں—
----اور ہم کہ خرچ ،خرچ زمانوں کی طرح----
انعام دل
ِ ہجر کہ
خیال دل---
ِ ُزباں کا کہہ ناں پائے کہ
خیال دل—
ِ --الفاظ کہ عاجز بیاں کہ
-ہم ناں کریں کہ اب کچھ لفظوں سے بیاں—
خیال دل بیاں
ِ ---خیال کی زباں میں کہ ہو کہ اب ہو کہ
منزل تنہائی
ِ -عجب یہ
-کہ تنہا نہیں مگر آباد ہوں میں---
—سمجھ کہ جو سمجھ ناں آۓ---
—تنہائی کہ اُسے سمجھا دے مجھے--
-تنہائی کہ سخت تنہائی ،تنہائی کہ آساں تنہائی-
—ہم کے مگر اِس کہ بہت احساں کہ تنہائی--
—تنہائی کہ شاد تنہائی کہ آباد--
—عجب منزل کہ یہ ہے آباد کہ تنہائی--
—دل کی بستیاں کہ راہ اس سے--
—اور ہم کہ مانگیں کہ اور تنہائی--
—تنہائی کہ شاد تنہائی کہ آباد--
-اور ہم کہ اب رسیا کہ اور کہ ہو کہ اب اور کہ ہو کہ تنہائی--
شام غم کی عجیب گلیوں میں
دل کہ بسر ہو آج زندگی ِ
-
ُتمہیں ق ِ
ِصہء پارینہ لکھوں یہ ُمجھے قبول نہیں
چاند کہ تم
-چاند کہ تم ،سورج کہ تم
—اور تم ہو کہ ہمارے یاد سہارے---
—چمن میں خوشبو ،چمن میں آرزو تم-
—اور تم ہو کہ ہمارے یاد آوازے--
—دل کہ پرواز تیری طرف--
-اور ہم کہ ہر آواز تیری طرف--
—اور تم کہ ہو ہمارے یاد سہارے--
اور ہم کہ ہیں دل تمہارے--
منزل تنہائی
ِ عجب یہ
منزل تنہائی
ِ —عجب یہ
—کہ تنہا نہیں مگر آباد ہوں میں--
—سمجھ کہ جو سمجھ ناں آۓ--
-تنہائی کہ اُسے سمجھا دے مجھے--
-تنہائی کہ سخت تنہائی ،تنہائی کہ آساں تنہائی--
—ہم کے مگر اِس کہ بہت احساں کہ تنہائی--
—تنہائی کہ شاد تنہائی کہ آباد--
—عجب منزل کہ یہ ہے آباد کہ تنہائی--
—دل کی بستیاں کہ راہ اس سے--
—اور ہم کہ مانگیں کہ اور تنہائی--
—تنہائی کہ شاد تنہائی کہ آباد--
-اور ہم کہ اب رسیا کہ اور کہ ہو کہ اب اور کہ ہو کہ تنہائی--
—تم کہ حسیں
—تم کہ حسیں
—ہم کہ حسیں---
-چاروں طرف کہ حسیں--
-قدرت کے کرشمےکہ سب کہ حسیں ِ--
---اور چاروں طرف کہ ہیں ہردم حسیں---
---قدرت کہ مالک و قدرت کہ حسیں--
---اور ہم کہ حسیں--
—اور تم کہ حسیں---
– عجب کہ قدرت کے حُسن کرشمے کہ اس دنیا---
—اور اس سے دنیا کہ حسیں--
—اور تم کہ حسیں---
—اور ہم کہ حسیں--
---عجب حسن وعشق کی کہ منزل حسیں-
ب جلیل کی قدرت کہ ہر طرف کہ ہر اک حسیں----
-عطاءے ر ِ
ش ِ
ب غم کی کہ کیا انتہا ہوگی
ب غم کی کہ کیا انتہا ہوگی
---ش ِ
----کہ آج کہ شاید وہ دنیا سے رہا ہوگی---
----منظر نامے کہ ہوں گے تبدیل----
---اور شاید کہ وہ آج خود سے رہا ہوگی----
---۔۔دل کی دنیا کہ آج پھیل گئی ہے شام سویرے--
---اور دل کی دنیا کہ دنیا سے رہا ہوگی--
---شام غم کہ آگئی ہے منہ اندھیرے---
ِ
----اور شاید کہ تیرے دل سے کہ یہ دعا ہوگی---
شام غم کی آخر کہ آج آخری انتہا ہوگی--
صبح کہ وہ طلوع ہو دل میں کہ ِ
-
ُمحبتوں کے دریاؤں میں بہہ گیا ہوں میں ُمحبتوں کے س ُمندر سے ملنے کے لیئے
مُحبتوں کے دریاؤں میں بہہ گیا ہوں میں مُحبتوں کے سمُندر سے ملنے کے لیئے
اور عجب سی وسعتیں ہے کہ دل میں اب اتری ہوئیں
کشادگی ِء دل اب کیا بتائیں کشادگی دریا سی ہیں اب دل میں اتری ہوئی
محبت کے سمندر میں اتر جانے کو اب جی چاہتا ہے
اور عجب سی محبتیں کہ ہے اب دل میں اتری ہوئی
عجب سی قید سے کہ آزاد آج ہوا ہوں میں
—اور عجب سے وسعتیں اور قدرتیں کہ ہیں اب دل میں بسی ہوئیں
دل کہ اب پانی مزاج ہوئے جاتا ہے اور پانی کی وسعتیں کہ ہیں کہ اب دل سے ملی---
---ہوئیں
------پانی کہ نواز پانی کہ عجب مزاج---
-اور پانی کی محبتیں کہ ہیں اب مزاج سے ملی ہوئیں-------
دُوریاں کہ چاہتیں
ُ ---دوریاں کہ چاہتیں
—نزدیکیاں کہ نفرتیں ------
--اچھا رہا کہ تم دور رہے----
---چاہتیں کہ بڑھتی رہیں-----
---اور نزدیکیاں کہ وجود ناں ہوئیں----
– گر ہوتیں نزدیکیاں---
منزل دوراں کہ ناں ہوتی---
ِ ت
ت عشق کہ میری شد ِ
تو شاید کہ شد ِ
اضطرا ِ
ب َمن ناں بچھڑ جائے ہم سے
ناں ہجر ہوں ناں وصل ہوں اور ناں ہی اب ہوں تیری Aآرزو
—ناں ہجر ہوں ناں وصل ہوں اور ناں ہی اب ہوں تیری آرزو
منزل عشق---
ِ —دل کہ اب مسافر کسی انجانی نئی
منزل عشق کہ خامشی کہ سفر----
ِ ---نئی
اظہار خیال---
ِ ---اور کالم کہ معذور
---خیال کی دنیا کہ آباد اس میں عجب جہاں--
—عجب جہاں کہ آباد یہاں کہ کچھ خاص---
---خاص جمال کہ آباد یہاں--
----خاص کمال کہ آباد یہاں--
---تمنائے آرزؤے دلدار سے آگے کہ کچھ منزلیں یہاں----
—اور آرزؤں کا چمن کہ کچھ خاص یہاں---
—عشق کی منزلیں کہ رب جانے---
---انسان کہ مجبور والچار بیچارہ---
---اور عشق کہ صرف حکمران یہاں ----
—عشق کہ صرف سچ---
---سچ کہ صرف سچ اور سچ کہ صرف سچ---
---اور سچ کہ ُکل جہاں---
—عشق کہ سب کا بھال سب کی خیر--
اور عشق کی منزلیں کہ سچائی کہ ُکل جہاں----
ُ
—گم ہے وہ شخص اب اپنی بستی ِء نصیب میں
شہر دل سے بھی اب دھواں تو اُٹھتا ہے مگر کبھی کبھی---
----اور ہمارے ِ
----شہر دل کہ جل جل کہ ہوگیا ہےسرد آگ---
ِ
----اور سرد آگ کہ اب جالئےتو ہے ہمیں مگر اب کبھی کبھی-----
شہر دل کہ دہکا ہے صدیوں سے کہ اُس کی طلب---
– ِ
—اور دل انگارے کہ ہیں اب سرد بہت--
----اور دھواں تو اُٹھتا ہے اُن میں مگر اب کبھی کبھی ---
---شام غم کہ ہوگی کہ اب برف آگ-----
ِ
ب ہجراں کہ ہوگی کہ اب برف آگ----
----ش ِ
-چلو زندگی کہ اب کچھ دیر کہ کٹے گی کہ اک برف آگ---
ُ
—گم ہے وہ شخص اب اپنی بستی ِء نصیب میں
شہر دل سے بھی اب دھواں تو اُٹھتا ہے مگر کبھی کبھی----------
اور ہمارے ِ
----شہر دل کہ جل جل کہ ہوگیا ہےسرد آگ
ِ
---اور سرد آگ کہ اب جالئےتو ہے ہمیں مگر اب کبھی کبھی-----
شہر دل کہ دہکا ہے صدیوں سے کہ اُس کی طلب----
– ِ
—اور دل انگارے کہ ہیں اب سرد بہت---
------اور دھواں تو اُٹھتا ہے اُن میں مگر اب کبھی کبھی ---
---شام غم کہ ہوگی کہ اب برف آگ---
ِ
ب ہجراں کہ ہوگی کہ اب برف آگ----
---ش ِ
-چلو زندگی کہ اب کچھ دیر کہ کٹے گی کہ اک برف آگ----
عجب کہ میرے دل کی آرزو
--
ت جُنوں سے نکل آیا ہوں میں
کیفی ِ
ُتم مُجھ سےمحبت کی باتیں مت کرو
"مزاج وقت"۔
ِ تا بع ہے آدم
ب آدم"
بتدریج تخری ِ
ِ مزاج وقت" ہے"
ِ ت
بغاو ِ
تعویز بقا
ِ ، لکھنا گر روح سے ھے تو ھے
وگرنہ الفاظ ھیی الفا ظِ بےاثر
راسم میں ُ
تعطل ایسا آیا اب کے َم َ
-کے اب ناں وہ ہمیں ڈھونڈتے ہیں ناں ہم اُنہیں ڈھونڈتے ہیں
روح عدم۔
ِ رموز
ِ دل ہے بادشا ِہ
لوگ عقل کو با دشا ِہ ُکل کہتے ہیں
منزل عشق
ِ عجب یہ نئی
عشق ہجر------
ِ کے ہجر مُبتال
انسان ہے ُد ِ
شمن انساں
-بے ربط ہے اب یہ فطرت سے------
تالش نیناں
ِ دل کے اُن
کے جن کو ڈھونڈتے تھے ہم صبح و شام----
-
---ساز عشق کہ لے آیا اِس منزل
ِ
ساز عشق سے آواز آ رہی ہے ،عِ شق قبُول ،عِ شق قبُول---
کہ اب ِ
کشمکش ہجرووصل
ِ ----شدید غم ہے اور ہے
تم فیصلہ کرو اور بات ختم کرو-----
-
------چار سُو کوئی ناں اور ہم کہ ذات اکیلے
عجب سی خوشی کہ گھیرے ہوئے ہمیں-----
---دل کہ ٹوٹ گیا ،برباد ہوا اور گیا روٹھ زما نے سے
-
----دل کہ ناں چاہے اب اُس سے ملنا
اور دل کی اب یہ کہ اپنی ایک نئ منزل----
-
---زندگی میں اب اس کی طلب نہیں
مگر اس کی یاد کہ دریچے کہ ہم نے کبھی بند نہیں کیۓ-----
-
---اب عاشقی ،دل لگی اور چاہت صرف اپنے آپ سے
اور اب ہم میں اور دل ہے کہاں----
-
------کسی کے انتظار میں اب نہیں ہیں ہم
ہم صرف اب اپنا ہی کرتے ہیں انتظار-----
---دل کہ خرچ ہوچکا برسوں پہلے
اب کہ یہ اور خرچ ہونے کے لیۓ تیار نہیں---
---محبت کہ نایاب
اور دیتی ہے ذات میں جگہ کہ ذات کو---
-
—زندگی کی انتظار گاہوں میں
---کبھی میں کروں تمہارا انتظار--
اور کبھی تم کرو میرا انتظار---
-
ب غم کی کہ اپنی دہلیز
-----شام غم کی کہ اپنی دہلیز ،ش ِ
ِ
صبح نو کہ مٹاتی جائے سب کو----
ِ اور
-
---ہر اک کہ غم میں ہے
احساس غم کہ کسی کسی کو---
ِ مگر
-
-
-
منزل عشق
ِ ----عجب یہ نئی
عشق ہجر--
ِ کے ہجر مُبتال
-
----کیا عجب تعویز تھے ُتم
کے عِ الج تھے ُتم میری وحشتوں کا --
-
-
محبت کہ نایاب
اور دیتی ہے ذات میں جگہ کہ ذات کو------
دل کہ خرچ ہوچکا برسوں پہلے
-اب کہ یہ اور خرچ ہونے کے لیۓ تیار نہیں------
ب غم کی کہ اپنی دہلیز
شام غم کی کہ اپنی دہلیز ،ش ِ
ِ
صبح نو کہ مٹاتی جائے سب کو---------
ِ اور
—
-