Professional Documents
Culture Documents
شريعت عرضيدات ﻧﻤﺒر / 4 :آئی آف 2016عﻤران اﻧور خان بنام حکوم ِ
ت پنجاب ؛ شريعت
عرضيدات ﻧﻤﺒر / 4 :آئی آف 2019ﷴ اکﺒر سعيدوغيره بنام فيڈريشن آف پاکستان وغيره
اور شريعت عرضيدات ﻧﻤﺒر / 3 :آئی آف 2020شيخ محﻤوداقﺒال بنام حکوم ِ
ت پنجاب اس
عدالت ٰہذا ميں برائے تنسيخ قواﻧين دفعہ 10ذيﻠی دفعات ) (5اور ) (6پنجاب فيﻤﻠی کورٹ
)ترميﻤی( ايکٹ 2015 ،بديں مدعا دائر کردی ہيں کہ کہ مذکوره قواﻧين قرآن اور سن ِ
ت
ﻧﺒویﷺ کے منافی ہيں۔ چوﻧکہ جﻤﻠہ عرضيداشتوں کا محور پنجاب فيﻤﻠی کورٹ ايکٹ کی
دفعہ 10ميں کی ﮔئی تراميم ) (5اور ) (6ہيں ،لہٰ ذا تﻤام عرضيداشتوں کا يکجا تصفيہ
سائيﻼن کی طرف سے مفتی ضياءالدين صاحب پيش ہوئے۔ مفتی صاحب خﻠﻊ کے اصﻞ
قاﻧون ہی پر بحث کے متﻤنی تهے۔ اُن کو بتايا ﮔيا کہ خﻠﻊ کا اصﻞ قاﻧون ِ
زيربحث ﻧہيں اوريہ
ﻧکتہ قﺒﻞ ازيں اس عدالت سے حتﻤی طور پر فيصﻠہ ہو چکا ہے۔ اِس وقت پنجاب فيﻤﻠی
کورٹ )ترميﻤی( ايکٹ 2015 ،کی دفعہ 10ذيﻠی دفعات ) (5اور) ، (6جن کی رو سےحق
مہرموجﻞ کا ﻧصف يا 1/4حصہ مہر معجﻞ تسﻠيم شده کی ڈﮔری بوقت عﻠيحدﮔی بصورت
خﻠﻊ بحق شوہر جاری ہوﮔی اور بقيہ مہرموجﻞ کی ڈﮔری کﻠی يا جزوی بحق خاتون ہوﮔی،
اﻧکی تياری ﻧہيں ہے۔ ايڈيشنﻞ ايڈووکيٹ جنرل پنجاب ﻧے بهی کوئی خاص معاوﻧت ﻧہيں کی
ت پنجاب قاﻧون
اور اپنے مدخﻠہ جواب پر ہی اکتفا کيا۔ ہم اس تاثر ميں تهے کہ حکوم ِ
موضوعہ کی تائيد ميں اسﻤﺒﻠی کے روبرو بﻞ پيش کرتے وقت کی بحث اور مابعد اس کی
تائيد ،حﻤايت يا مخالفت ميں معزز اراکين پنجاب اسﻤﺒﻠی کی تقارير ،دﻻئﻞ اور موقف ہﻤارے
سامنے رکه کر يہ بتائيں ﮔے کہ مذکوره بِﻞ پاس کرتے وقت کس حد تک شرعی حوالہ
جات سے استفاده کرﻧے کی کوشش کی ﮔئی ،آئين کی تﻤہيد اور بالخصوص آرٹيکﻞ 227کو
کس حد تک مﻠحوظ رکها ﮔيا۔ مگر پنجاب حکومت اور اس کا ﻧﻤائنده يہ ذمہ داری ﻧﺒهاﻧے پر
پيش ﻧظر افسوس کے ساته لکهنا پڑتا ہے کہ فريقين مائﻞ ﻧظرﻧہ آئے۔ اس صور ِ
ت حال کے ِ
ﻧے قاﻧوﻧی معاوﻧت کے حوالہ سے اپنی واجﺒی ذمہ داری بهی پوری ﻧہيں کی۔
ہم ﻧے اپنے طور پر جائزه ليا۔ معامﻠہ کچه يوں ہے کہ شريعت ميں طﻼق کا 3۔
جو حق مرد کو حاصﻞ ہے ،خﻠﻊ وہی حق عورت کو طﻠب تفريق کی صورت ميں عﻄا
کرتاہے۔ اس ضﻤن ميں اہم سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا موضوعہ متنازعہ قاﻧون وضﻊ
کرتے وقت خﻠﻊ اوراس کےمضﻤرات جوپہﻠے سے طے چﻠی آرہی ہيں مﻠحوظ رکهی ﮔئيں؟
سﻄح پر ہو يا صوبائی سﻄح پر ايک معيار پر پوری اترے اور وه يہ کہ موضوعہ قاﻧون
قرآن و سنت کے تابﻊ ہويعنی آئين کی تﻤہيد ،آرٹيکﻠز ) 227 ،35 ،31(1سے متصادم ﻧہ ہو۔
مگربااتفاق معنی ومقصد يہ ہے کہ پنجاب فيﻤﻠی کورٹ ايکٹ کی دفعہ 10کی ذيﻠی دفعات
) (5اور ) (6قرآن وسنت کے منافی ہيں لہٰ ذا اﻧہيں منسوخ کيا جائے۔ متنازعہ قاﻧون کی رو
) (5کے بﻤوجب ﻧصف حق مہرموجﻞ يا چہارم حصہ حق مہر معجﻞ کی حد تک واپسی
بحق شوہر کی ڈﮔری جاری کرے ﮔی۔ ذيﻠی دفعہ ) (6کی رو سے ذيﻠی دفعہ ) (5کے
بﻤوجب عدالت ﻻزما ً بقيہ مہرموجﻞ کی کﻠی يا جزوی ادائيگی بحق خاتون کا حکم دے ﮔی۔
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2016
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 7/I :آف 2017
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2019
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 3/I :آف 2020
7
ميں اپنی قاﻧوﻧی ذمہ داری پوری ﻧہيں کی۔ ان کی طرف سے کوئی معنی خيز ،مدلّﻞ اور
بامقصد معاوﻧت ﻧہيں ہوئی اور ﻧہ ہی حجت کے طور پرکوئی تيربہ ہدف مواد مہيا کيا ﮔيا۔
يہاں بهی ﻧہيں تهﻤا ،جيورس کنسﻠٹ ڈاکٹر مشتاق احﻤد صاحب باوجود فراہﻤی موقﻊ بسيار
اپنا ﻧکت ِہ ﻧظرﻧہ تو زباﻧی پيش کرسکےاورﻧہ ہی تحريری جواب داخﻞ کرﻧے کے ليے
زحﻤت پرکﻤربستہ ﻧظر آئے۔ لہٰ ذا مجﺒورا ً ان کی حد تک ان مقدمات ميں جيورس کنسﻠٹ کی
بسﻠسﻠہ اجراءڈﮔری بصورت خﻠﻊ پر بهی سوال اٹهايا ﮔيا ہے۔ اس ضﻤن ميں يہ واضح رہے
کہ يہ ﻧکات قﺒﻞ ازيں اس عدالت سےحتﻤی طورپربعدازباقاعده سﻤاعت طے ہوچکے ہيں۔
لہٰ ذا اس ’ضﻤن‘ ميں کوئی ﮔفتگو اور بحث ﻧہيں ہوﮔی۔ مﻼحظہ ہو PLD 2014 FSC 43
محولہ باﻻ قواﻧين ازدواجی زﻧدﮔی سے متعﻠق ہيں جو اسﻼمی معاشرتی زﻧدﮔی کی اساس،
معاہده کو اس کی روح کے مﻄابق سﻤجهنے کی اشد ضرورت ہے۔ معاہده ﻧکاح ايک
شرعی معاہده ہے۔ ﻧوعيت وهيئت کے لحاظ سے خوبصورت ،باعزت ،باوقار اور مجﻤﻊِ عام
سﺒب اور باعث افتخاروعزت تصور ہوتا ہے۔ اہﻤيت کے اعتﺒار سے چوﻧکہ شرعی بنيادوں
اسے مضﺒوط ،مستحکم ،دائم ،پختہ اور پائيدار ﮔرداﻧا جاتا ہے۔ ہرچندکہ اس معاہده کو قائم
رکهنا يا ختم کرﻧا فريقين کی مرضی و منشاء پرموقوف اور منحصر ہے مگريہ اختيار بهی
مادرپدرآزاد ﻧہيں بﻠکہ اصولوں کے تابﻊ ہے اور دوﻧوں صورتوں ميں قرآﻧی احکامات
مشع ِﻞ راه ہيں۔ اول الذکريعنی معاہده قائم رکهنے کی صورت ميں ”فامساک بﻤعروف“ کے
حکم پرکاربند رہنا ﻻزمی وﻻبدی ہے جﺒکہ خداﻧخواستہ موخرالذکر کی کيفيت ﻻحق ہو تو
”تسريح با حسان“ کے حکم پرعﻤﻞ پيرا ہوﻧا ضروری ہے۔ اس ليے اس معاہده کی کوکه
سے جنم لينے والے حقوق و ذمہ داريوں کی بنياد پرقرآن مجيد اسے ” ِ ّميثَاقا ً َغ ِﻠيظا“سے
ق ﻧکاح سے متعﻠق کسی بهی قاﻧون سازی کا اُس معيار پر پورا اترﻧا
تعﺒير کرتا ہے۔ لہٰ ذا ميثا ِ
سوره بقره کی آيت ﻧﻤﺒر 230/229کی تفسير کرتے ہوئے حضرت موﻻﻧا
مفتی ﷴ شفيﻊ صاحب معارف القرآن جﻠد اول کے صفحہ 556-555پر لکهتے ہيں:۔
ٰ
پر335 سيدابواﻻعﻠی مودودی صاحب تفہيم القران جﻠد اول صفحہموﻻﻧا
سﻠيم احﻤد2009 مئی28 وفاقی شرعی عدالت ﻧے اپنے فيصﻠہ مصدره ۔8
۔:ہے
اس مکرم ومعظم رشتہ سے جنم لينے والی اوﻻد کسﻤپرسی ،پريشاﻧی اورغيريقينی مستقﺒﻞ
کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس امر ميں شک ﻧہيں کہ شريعت ميں طﻼق اورخﻠﻊ دوﻧوں مﺒاح تو
ہيں ليکن ان کا شﻤار اﻧتہائی ﻧاپسنديده ،مکروه ومﺒغوض اعﻤال ميں ہوتا ہے۔ اس ليے اس
حق کا استعﻤال حتﻤی چاره کار اوراﻧتہائی ﻻعﻼجی کی صورت ميں کيا جاﻧا چاہيے۔ لہٰ ذا
طﻼق کا اختيار اور طﻠب تفريق بذريعہ خﻠﻊ کے حق کے استعﻤال سے پہﻠے قرآﻧی منشاء
کہ رشتے قائم رہيں کی طرف راغب ہوﻧا اﻧتہائی ضروری ہے۔
ٰ
ُواﻻعﻠی مودودی صاحب حقوق الزوجين صفحہ 51پر اس موﻻﻧا سيد اب
ضﻤن ميں يوں رقﻤﻄرازہيں:۔
شريعت طﻼق کو پسند ﻧہيں کرتی۔ ﻧﺒیﷺ کا ارشاد ہے
تعالے کے
ٰ تعالی ال ﱠ
ﻄﻼَ ُق )ﷲ ْغض ال َح َﻼ ِل اِلی ﷲ ٰ کہ اَب ُ
َ
ﻧزديک حﻼل چيزوں ميں سب سے زياده ﻧاپسنديده چيز
ﻄ ِﻠّقُوا فان ﷲ َﻻيحب الذواقينَ
طﻼق ہے( اور ت َزَ ﱠو ُج ْوا َو َﻻ ت ُ َ
والذّواقات )شادياں کرو اور طﻼق ﻧہ دو۔ کيوﻧکہ ﷲ مزے
چکهنے والوں اور مزے چکهنے واليوں کو پسند ﻧہيں
کرتا(۔ اس لئے مرد کو طﻼق کا آزاداﻧہ اختيار دينے کے
ساته ايسی شرائط کا پابند کر ديا ﮔيا ہے ،جن کے ماتحت
وه اس اختيار کو محض ايک آخری چار ٔه کار کے طور
پر ہی استعﻤال کرسکتا ہے۔
القران جﻠد اول صفحہ 557-556ميں آيت ﻧﻤﺒر 230/229کے معارف ومسائﻞ پر بحث
”ليکن بعض اوقات ايسی صورتيں بهی پيش آتی ہيں ،کہ
اصﻼحِ حال کی تﻤام کوششيں ﻧاکام ہوجاتی ہيں ،اور
ق ﻧکاح کے مﻄﻠوبہ ثﻤرات حاصﻞ ہوﻧے کے بجائے تعﻠ ِ
طرفين کا اپس ميں مﻞ کر رہنا ايک عذاب بن جاتا ہے،ٓ
ايسی حالت ميں اس ازدواجی تعﻠق کا ختم کر دينا ہی
طرفين کے لئے راحت اور سﻼمتی کی راه ہوجاتی ہے،
ت اسﻼم ﻧے بعض دوسرے مذاہب کی اس لئے شريع ِ
رشتہ ازدواج ہر حال ميںٔ طرح يہ بهی ﻧہيں کيا ،کہ
فسخ ﻧکاح کاقاﻧون
ِ ﻧاقاب ِﻞ فسخ ہی رہے ،بﻠکہ طﻼق اور
بنايا ،طﻼق کا اختيار تو صرف مرد کو ديا ،جس ميں
عادة ً فکروتدبّراورتحﻤﻞ کا ماده عورت سے زائد ہوتا
ہے ،عورت کے ہاته ميں يہ آزاد اختيار ﻧہيں ديا ،تاکہ
وقتی تاثرات سےمغﻠوب ہوجاﻧا جوعورت ميں بہ ﻧسﺒت
مرد کے زياده ہے وه طﻼق کا سﺒب ﻧہ بن جائے،
ليکن عورت کو بهی بالکﻞ اس حق سے محروم
ﻧہں رکها کہ وه شوہرکےظﻠم وستم سہنے ہی پر مجﺒور
حاکم شرعی کی عدالت ِ ہوجائے ،اس کويہ حق ديا کہ
ميں اپنا معامﻠہ پيش کرکے اور شکايات کا ثﺒوت دے کر
ﻧکاح فسخ کراسکے يا طﻼق حاصﻞ کرسکے ،پهر مرد
مگراول تو يہ کہہ ديا
ّ کو طﻼق کا آزاداﻧہ اختيار توديديا،
کہ اس اختيار کا استعﻤال کرﻧا ﷲ کے ﻧزديک بہت
مﺒغوض و مکروه ہے ،صرف مجﺒوری کی حالت ميں
اجازت ہے ،حديث ميں ارشادِﻧﺒوی ہے:
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2016
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 7/I :آف 2017
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2019
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 3/I :آف 2020
15
ٰ
ُواﻻعﻠی مودودی صاحب حقوق الزوجين صفحہ 50ميں ذيﻞ موﻻﻧا سيد اب
اب تصوير کا دوسرا ُرخ بهی مﻼحظہ کيجيے۔ طﻼق کی طرح خﻠﻊ کی 10۔
اوريکساں ﻧسواﻧی حق قرار پايا ہے ،فرق صرف يہ ہے کہ مرد طﻼق کا حق آزاداﻧہ طور
پر استعﻤال کرسکتا ہےجﺒکہ عورت کو خﻠﻊ کی صورت ميں طﻠب تفريق کا قﻄعی حق ديا
ﮔيا ہے۔ جس طرح طﻼق ﻧاپسنديده عﻤﻞ قرار ديا ﮔيا ہے اسی بنياد پر مﺒاح ہوﻧے کے
پامالی کا مرتکب بهی ﻧہ ہو۔ ﻧاپسنديدﮔی کا اظہار ﻧﺒی پاک ﷺ ﻧے ،بحوالہ حقوق الزوجين
ب ل ّذت بکثرت
ہر طال ِ مط َﻼ ٍ
ق۔ ق ِلَ َعنَ ﷲُ ُک ﱠل َذ ﱠوا ٍ
طﻼق دينے والے پر ﷲ
نے لعنت کی ہے۔
ﻧزاکت اور زﻧدﮔی کے ﻧشيب وفراز سے پوری طرح باخﺒر ہے اس ليے سوره بقره کی آيت
٢٢٩ميں وه تﻤام اصول وضوابط متعين کئے ﮔئے جو ازدواجی زﻧدﮔی کے مختﻠف مراحﻞ
کرﻧا ہے کہ:۔
بزعم خود
ِ کے اس آفاقی اورغيرمتنازعہ مسﻠﻤہ اصول کا تذکره ضروری ہے کہ اﮔر شوہر
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2016
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 7/I :آف 2017
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2019
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 3/I :آف 2020
17
طﻼق کا اعﻼن کرے يا طﻼق دينا چاہے توحق مہر ،تحفہ تحائف يا کوئی چيزجوشوہربيوی
ايسے لوگ ظالم قرار ديے ﮔئےاورحدودﷲ ميں تجاوز کےمرتکب قرار پائينگے۔
تعالی ہے:
ٰ قرآن مجيد کی سوره ﻧساء آيت ﻧﻤﺒر 20اور 21ميں ارشا ِد باری
ارا
ﻄ ًج ﱠم َكانَ زَ ۡوجٍ ۙ ﱠو ٰات َۡيت ُ ۡم ا ِۡح ٰدى ُه ﱠن قِ ۡن َ َوا ِۡن اَ َر ۡدت ﱡ ُم ۡ
استِ ۡﺒدَا َل زَ ۡو ٍ B۔
ۡ
فَ َﻼ ت َۡا ُخذُ ۡوا ِم ۡنهُ ش َۡيـئًاؕ ا َ تَا ُخذ ُ ۡوﻧَهٗ بُهۡ ت َاﻧًا ﱠواِث ًﻤا ﱡم ِﺒ ۡينًا )(4:20
ۡ
ض ُك ۡم ا ِٰلى َبعۡ ٍ
ض ﱠواَخ َۡذنَ ِم ۡن ُك ۡم ف ت َۡا ُخذُ ۡوﻧَهٗ َوقَ ۡد ا َ ۡف ٰ
ضى َبعۡ ُ َو َك ۡي َ
ظا )(4:21 غ ِﻠ ۡي ً
ِ ّم ۡيثَاقًا َ
خﻼصئہ تفسِير )معارف القرآن جﻠد دوم صفحہ 349۔ (350ميں موﻻﻧا ﷴ
موﻻﻧا مفتی ﷴ شفيﻊ صاحب معارف القران جﻠد دوم صفحہ 353معارف
ٰ
ابواﻻعﻠی مودودی صاحب لکهتے ہيں:۔ سيد
تدبرقرآن جﻠد دوم صفحہ 43پر امين احسن اصﻼحی صاحب يوں رقﻤﻄراز
ہيں:۔
اﮔرعﻠيحدﮔی اورجدائی کامحرک مرد ہے۔ محض مﻄﻠق مرضی ،منشاء 14۔
عالی يا عق ِد ثاﻧی کی غرض اورعورت کے کسی قصوراورخﻄاء کے بغير طﻼق دينے پر
صر ہے توپهر مرد عورت سے کچه طﻠب ﻧہيں کرسکتا۔ اس حوالہ سے سوره بقره کی
ُم ِ ّ
آيت ﻧﻤﺒر 229اورسوره ﻧساء کی آيت ﻧﻤﺒر 21کے تحت مرد کا ديا ہوا حق مہر ہر لحاظ
روشنی ميں باآساﻧی يہ ﻧتيجہ اخذ کيا جا سکتا ہے کہ اﮔر طﻼق شوہر اپنی مرضی
شوہرکوکوئی بهی شے ،جو بﻄور تحفہ ،ہﺒہ وغيره دے چکا ہے ،واپس لينے کا کوئی حق
آزادی ،عز ِ
ت ﻧفس کے وقار اور زﻧدﮔی کی اصﻞ مقصدوماخذ کے حصول کا داعی ہے اور
اﮔر ازدواجی حاﻻت اس ﻧہﺞ تک پہنچ جائيں کہ کسی بهی صورت ميں ﻧﺒاه ﻧہ ہو سکے،
ساته رہنا مﻤکن ﻧہ ہو ،ايک دوسرے سے منافرت بڑه جائے ،کدورت پيدا ہو تو ايسی
صورت ميں جدائی اور عﻠيحدﮔی کی اجازت ہے۔ مگر يہ اختيار بهی مروجہ قاﻧون واصول
جو قرآن مجيد اور حديث شريف ميں موجود ہيں کی بنياد پر اور ان کو بروئے کار ﻻتے
خﻠﻊ کا جواز اور خﻠﻊ کی بنياد سورة بقره کی آيت ﻧﻤﺒر 229سے ماخوذ 16۔
ہے:۔
فَإِ ْن ِخ ْفت ُ ْم أَﻻﱠ يُ ِقي َﻤا ُحدُودَ ﱠ ِ فَ َﻼ ُجنَا َح َعﻠَ ْي ِه َﻤا فِي َﻤا ا ْفتَدَ ْ
ت ِبہ
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2016
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 7/I :آف 2017
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2019
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 3/I :آف 2020
21
اﮔر تم ڈرو کہ وه دوﻧوں )زوجين( ﷲ ٰ
تعالی کی ترجﻤہ:۔
حدود کو قائم ﻧہ رکه سکيں ﮔے تو دوﻧوں پر کچه
ﮔناه ﻧہيں اس ميں کہ عورت بدلہ دے کر چهوٹ
جائے۔
اس آيت ميں حدود ﷲ سے مراد باہﻤی معاشرت کے احکام ہيں۔
ﮔئی ہے کہ اﮔر دوﻧوں اس ﻧتيجے تک پہنچ جائيں کہ رشتہ ازدواج کے قيام کی صورت
ميں وه حدود ﷲ کو قائم ﻧہ رکه سکيں ﮔے تو بيوی بدلہ دے کر خﻼصی لے سکتی ہے۔ تاہم
موجود ﻧہيں باالفا ِظ ديگرپہره ﻧﻤﺒر13-Bميں متذکره آفاقی اصول ميں ايک استشناء ديا ﮔيا
ہے۔
وه ﷲ کی حدود پر قائم ﻧہ ره سکيں ﮔے عورت کچه معاوضہ دے کرعقدِﻧکاح سے آزاد ہو
بيويوں ﻧے حق مہرميں مﻠے ہوئے باغ واپس کرديے اور ﻧکاح فسخ ہوئے ۔ اﮔرعورت يہ
حق محض مرضی ومنشاء عالی کےطورپراورﻧاپسنديدﮔی کی بنياد پر استعﻤال کرتی ہے
جﺒکہ شوہرحقوق کی ادائيگی ،احترام وعزت کی بجاآوری ميں بالکﻞ قصوروارﻧہيں تو
ايسی صورت ميں ﻻزمی ہے کہ عورت بهی مال کی قرباﻧی ﮔوارا کرے ۔
پهرتصفيہ طﻠب امر يہ ہے کہ فديہ کيا ہو يا اس کا تعين کيسے کيا جائے ﮔا؟ 18۔
ايسی صورت ميں اسﻼم کےدوسرے ماخ ِذقاﻧون کی طرف رجوع کرﻧا ﻻزمی ہے۔ اس
وامرﻻ
ُ موباف تک لے لے اور اس کوخﻠﻊ دےدے۔ فاجازه
باخذ عقاس رأسها فﻤا دوﻧہ۔
مندرجہ باﻻ واقعات سے يہ بات قﻄعی طور پر پايہ ثﺒوت تک پہنچی ہے کہ 19۔
حق مہرميں مﻼ ہوا مال واپس ہوا اور ﻧکاح فِسخ ہوا۔ حاﻻﻧکہ حضرت ؓ
ثابت کی بيوی ﻧے
آﻧحضرت صﻠی ﷲ وعﻠيہ وسﻠم کی خدمت ميں عرض کيا کہ وه زياده چاہے تو زياده بهی
خﻠﻊ کے معاوضے کے بارے ميں محترم )متوفی( ڈاکٹر تنزيﻞ الرحﻤٰ ن 20۔
تشريح
تعالی قرآن ميں ارشاد فرماتا ہے: ﷲ ٰ
ج ﱠو ٰاتَيٌت ُ ٌم اِح ٰد ُه ﱠن
ستِﺒٌدَا َل زَ ٌوجٍ ﱠمکَانَ زَ ٌو ٍ َوا ٌِن اَ َردٌت ُ ُم ا ٌ
ارا فَ َﻼ تَا ٌ ُخذ ُ ٌو ِامنٌ ٗہ َ
شيٌئًا قِنٌ َ
ﻄ ً
)”يعنی اﮔر تم ايک بيوی کے بجائے دوسری
بيوی کرﻧے کا اراده کرو اور تﻤہاری بيويوں
ميں سے کوئی ايک بيوی اس کے صﻠے ميں
بہت سا مال دے تو تم اس مال سے کچه ﻧہ لو“(
يہ حکم اس مصﻠحت کی بناء پر ہے کہ ايسے
موقﻊ پرايک مصيﺒت توعورت پرمردکی جاﻧب
سے يہ ہوتی ہے کہ اس کے شوہر ﻧے اسے
چهوڑ ديا اور دوسری مصيﺒت يہ کہ شوہر اس
سے خﻠﻊ کے بدلے مال بهی لے۔
چناﻧچہ قرآن پاک کی مندرجہ باﻻ آيات
اپنے وسيﻊ مفہوم ميں شوہر کو اپنی بيوی سے
خﻠﻊ کے بدلے کسی بهی معاوضے لينے کو منﻊ
کرتی ہے جب کہ خﻠﻊ کا سﺒب خود مرد ہو۔
بالفاظ ديگر اﮔر ﻧااتفاقی شوہر کی جاﻧب سے ہو
تو شوہر کے ليے اپنی بيوی سے خﻠﻊ کا
معاوضہ لينا مﻤنوع ہے۔
ہدايہ:
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2016
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 7/I :آف 2017
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2019
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 3/I :آف 2020
25
مقام رکهتا ہے اوراﻧتہائی معروف دور ﮔزرا ہے۔ ايک مرتﺒہ اُﻧہوں ﻧے حق مہر کی مقدار
کا تعين کيا جس پر ايک خاتون ﻧے اعتراض کيا۔ يہ واقعہ ڈاکٹر وہﺒہ الزحيﻠی ﻧے اپنی
کتاب”الفقہ اﻻسﻼمی وادلتہ“ جﻠد ﻧﻤﺒر 7کے صفحہ 255ميں اس طرح درج کيا ہے:
مہر طﻼق اور خﻠﻊ کے حوالہ سے قاﻧون سازی اﻧتہائی ﻧازک اور باريک 23۔
مسئﻠہ ہے۔ معﻤولی غﻠﻄی ،غفﻠت ،عدم توجہی يا ان معامﻼت سے متعﻠق عﻠﻤی کم مائيگی
سنگين اور بهياﻧک ﻧتائﺞ برآمد کرسکتا ہے کيوﻧکہ يہ معامﻼت حدودﷲ کو ُچهوتے ہيں۔ اس
اور آرٹيکﻞ 227اپنی پوری قوت کے ساته رکاوٹ بنتا ہے مثﻼً حق مہر کا باﻻئی حد مقرر
کرﻧا ،طﻼق مغﻠظہ کے بعد کسی دوسرے شخص سے ﻧکاح کے بغير رجوع کا حق دے
ہے کہ چوﻧکہ حق مہر کا باﻻئی حد قرآن مجيد اور حديث شريف ميں معين و مقرر ﻧہ ہے۔
ﻧص قرآن
مہر کی طرح ُخﻠﻊ کا فديہ/معاوضہ بهی حق مہر کے ہم پﻠہ اور متوازی حق ہے۔ ِ
مجيد ميں کوئی رقم ،جنس وغيره بﻄور فديہ/معاوضہ معين ﻧہ ہے۔ اس ليے سوال ﻧﻤﺒر )(١
خاتون صرف ﻧاپسنديدﮔی کی بنياد پر مرد سے خﻠﻊ کی طالﺒہ ہے تو وه ليا ہوا حق مہر
واپس کرے ﮔی۔ اور اﮔر ﻧشوز مرد کی طرف سے ہو ،اجﻤاع يہ ہے کہ عدالت
شرط ﻧکاح
ِ سازی تو ہوسکتی ہے۔ شرعيت کا يہ ُمسﻠﻤہ اور طے شده اصول کہ حق مہر
اور خﻠوت صحيحہ پر واجب اﻻدا مہرموجﻞ کی ادائيگی بصورت موت ،طﻼق يا تنسيخِ
ﻧکاح ﻻزمی ہے۔ تنسيخ ﻧکاح جس بنياد پر بهی مﻄﻠوب ہو اس کا احاطہ دفعہ 10ہی کرتی
مہر موجﻞ کی ڈﮔری ضروری قرار دی ﮔئی ہے۔ حاﻻﻧکہ سوائے خﻠﻊ کے تنسيخِ ﻧکاح کے
ديگر مقدمات ميں مہر موجﻞ کﻠی صورت ميں واجب اﻻدا ٹهہرتی ہے۔ ُکﻞ کے ساته ُجزو
کو شامﻞ کرﻧا صحيح ﻧہيں۔ اس زاويے سے جب ان تراميم کا جائزه ليا جائے تو باآساﻧی يہ
ﻧتيجہ اخذ کيا جا سکتا ہے کہ مذکوره تراميم وضعگی کی بنيادی مقصد کی تکﻤيﻞ کے ليے
بهی متاعِ ﻻحاصﻞ ہيں۔ لہٰ ذا بارديگر تکرار کی قيﻤت پر يہ اظہار ﻻزمی ہے کہ موضوعہ
قاﻧون اس حوالہ سے بهی بيوی کی حق تﻠفی کا باعث اور سﺒب بن سکتا ہے۔ بنابراں جو
قاﻧون سازی پنجاب فيﻤﻠی کورٹ )ترميﻤی( ايکٹ 2015 ،ميں کی ﮔئی ہے اس کا کوئی
عورت ايک خاص رقم حق مہر کے عوض اپنا ﻧفس حوالہ کرتی ہے اور 26۔
ﻧکاح کی تنسيخ يا اس بندهن سے عﻠيحدﮔی بصورت خﻠﻊ کی عﻠت کا تعين اور تيقن
ضروری ہے۔ کيوﻧکہ عورت اﮔر محض ﻧفرت اور ﻧاپسنديدﮔی کی بنياد پر خﻠﻊ کی طالﺒہ
رہتی ہے تو ايسی صورت ميں جوحق مہر وه وصول کرچکی ہے قابﻞ واپسی ہے۔ اس سے
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2016
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 7/I :آف 2017
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 4/I :آف 2019
شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر 3/I :آف 2020
29
زياده لينا صحيح ﻧہيں۔ ﻧﺒی پاک صﻠی ﷲ وسﻠم ﻧے زياده دينے سے منﻊ فرمايا۔ دوسری
صورت مرد کے ﻧشوز کی ہوسکتی ہے۔ ايسی صورت ميں کہ ﻧکاح جيسے شرعی معاہدے
قاﻧوﻧا ً تحفظ اور امان پاتی ہے۔ ان حقوق ميں دست اﻧدازی اﻧکی خﻼف ورزی اور بے
ت حال ميں شرعاً ،قاﻧوﻧاً ،اخﻼقا ً اور روايتا ً حق مہر کی واپسی کا تقاضا يا
ہيں۔ ايسی صور ِ
واپسی کا حکم درست ﻧہيں بﻠکہ مﻄﻠق مہر يا اس کے کسی خاص جزو کے واپسی کا حکم
تعين کرے کہ کس قدر مال کی واپسی مناسب رہے ﮔی۔ بنابراں سوال ﻧﻤﺒر ) (٢کا جواب
ہاں ميں ہے کہ اﮔر عورت خﻠﻊ کا حق محض ﻧاپسنديدﮔی کی بنياد پر اور شوہر کے کسی
مذکوره باﻻ بحث کی روشنی ميں يہ استنﺒاط کرﻧا مشکﻞ ﻧہيں کہ پنجاب 27۔
فيﻤﻠی کورٹ )ترميﻤی( ايکٹ 2015 ،کی دفعہ 10کے ذيﻠی دفعات ) (5اور) (6قﻄعی طور
کرام
ؓ عﻠيہ وسﻠم ﻧے فرمايا تها ،سے متصادم ہيں۔ مزيد يہ کہ خﻠفائے راشدين اور صحابہ
کے دور کے کسی واقعہ اور روايت سے بهی ان قواﻧين کو کوئی پذيرائی ﻧہيں مﻠتی۔
موضوعہ متنازعہ تراميم بنيادی طور پر اپنے اﻧدر عﻠيحدﮔی کے لئے حصو ِل مالی منفعت
کے ليے پرکشش لگتی ہيں اورمحض مالی فوائد کے حصول کے ليے بهی عﻠيحدﮔی کے
رجحان ميں ايزادی اور اضافہ کا سﺒب بن سکتی ہيں۔ مزيدبراں ان تراميم سے آئين کے
آرٹيکﻞ 35کے تحت شادی ،ماں اور بچے کو حاصﻞ رياستی تحفظ بهی خﻄرے ميں پڑتا
لہٰ ذا شريعت عرضيدات ﻧﻤﺒری :شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر / 4 :آئی آف 28۔
اکﺒر سعيدوغيره بنام فيڈريشن آف پاکستان وغيره اور شريعت عرضيداشت ﻧﻤﺒر / 3 :آئی آف
دفعہ 10ميں متعارف کرائی ﮔئی ذيﻠی تراميم ) (5اور ) (6کو غيرشرعی قرار ديا جاتا ہے۔
تصور
ّ مذکوره ذيﻠی تراميم ) (5اور ) (6يکم مئی 2022ء سے منسوخ اور غير موثر