You are on page 1of 115

‫میں اجنبی سہی‬

‫سید آ ِل احمد‬
‫میں اجنبی سہی‬

‫سید آ ِل احمد‬

‫شاید میں تیر ے د ھیان میں پ ھر س ے ُاب ھر‬


‫سکوں‬
‫میں اجنبی س ہی‪ ،‬مج ھے پ ہچان ک ے تو دیک ھ‬
‫ل احمد محفوظ ہیں‬
‫جملہ حقوق بحق بیگم سّید آ ِ‬

‫ت اول ۔۔۔۔۔۔۔۔فروری ‪۲۰۰۷‬ء‬


‫اشاع ِ‬
‫ترتیب و تدوین ۔۔۔۔نوید صادق‬
‫اہتمام ِ اشاعت ۔۔۔خالد علیم‬
‫اپن ے جگر پاروں‬
‫سید ارسلن احمد‬
‫اور‬
‫سید عدنان احمد‬
‫ک ے نام‬
‫ف ہرست‬
‫ل احمد کا مخصوص طرزِ سخن‪8...............................‬‬ ‫سّید آ ِ‬
‫خود نوشت‪12...............................................................‬‬
‫آراء‪13........................................................................‬‬
‫دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے‪16...................................‬‬
‫جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں‪17........................‬‬
‫سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں‪18..............‬‬
‫دور تک گئی‪19..............................‬‬ ‫دوش ہوا کے سات بہت ُ‬
‫خ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے‪20..........................‬‬ ‫شا ِ‬
‫منجمد ہو گیا لہو دل کا‪21..............................................‬‬
‫خاک آلود ہو گئے ابرو‪22................................................‬‬
‫پلکوں سے اب کے ابر جو کھل کر برس گیا‪22.....................‬‬
‫گارِ شب ترا مہمان ہو رہا ہوں میں‪24................................‬‬
‫نعرہتن تنانا‪ ،‬تن تنانا ُہو کیا ہے‪24.....................................‬‬
‫سوکھے ہوئے لبوں کی صدا کا اسیر ہوں‪26.........................‬‬
‫نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں‪27...........................‬‬
‫دکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے!‪28..............................‬‬ ‫تم مرا ُ‬
‫پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے‪29............................‬‬
‫ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی‪31...............................‬‬
‫گ ملمت ُاداس تھا‪32............................‬‬ ‫وہ بھی ُاٹھا کے سن ِ‬
‫خواہشیں شہر َانا میں سب امیروں سی لگیں‪33.................‬‬
‫گ نظر سے ٹوٹے ہوئے آئنے تو دیکھ‪34............................‬‬ ‫سن ِ‬
‫خواشوں کی کپاس د ُھن لو گے؟‪35.................................‬‬ ‫ہ‬
‫اک خواب سا وجود بریدہ بدن مل‪36.................................‬‬
‫حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے‪37........................‬‬
‫ہمیں پہ شہر میں ُاٹھا ہے سنگ آوازہ‪38...............................‬‬
‫سنسناتے ہوئے پتھر نے مجھے چونکایا‪39.............................‬‬
‫بر کی موت سے سرگشتہ رہوں اچھا ہے‪40.........................‬‬
‫نہ سہی پیار‪ ،‬حقارت سے کبھی بول کے دیکھ‪40....................‬‬
‫حیران کر دیا بھرا جنگل پڑاؤ نے‪42...................................‬‬
‫م ذات کے اوراق پہ بکھری ہوئی شب ہیں‪43.......................‬‬
‫ھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے‪44..........................‬‬
‫موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے‪45..........................‬‬
‫شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں‪46................................‬‬
‫ا س توقع پہ آس رکھتا ہوں‪47.........................................‬‬
‫وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں‪48....................‬‬
‫اس نے اقرار کیا ہے مگر انکار کے ساتھ‪49..........................‬‬
‫جنگل سے گزرنا پڑتا ہے‪50.............................................‬‬
‫ش کرب سے گزرتا ہوں‪51...........................................‬‬ ‫آت ِ‬
‫چراِغ راہ بجھا ہے تو سوچتا ہوں میں‪53..............................‬‬
‫دکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو‪54............................‬‬ ‫ُ‬
‫چھا گئے بام ِ جدائی پہ سحاب‪56.......................................‬‬
‫ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو‪57.......................‬‬
‫اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا‪58............................‬‬
‫جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں‪59......................................‬‬
‫چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا‪61..........................‬‬
‫س لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا‪62................................‬‬ ‫وہ حب ِ‬
‫ک ُھل تھا اک یہی رستہ تو اور کیا کرتا ‪63............................‬‬
‫ندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں‪64..................................‬‬
‫دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا‪65..........................‬‬
‫بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے‪66.......................‬‬
‫دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا‪67..............................‬‬
‫میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں‪68.......‬‬
‫س وفا شہر میں خوشی کی طرح‪69.................‬‬ ‫گراں ہے جن ِ‬
‫دکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا‪70......................‬‬ ‫ُ‬
‫خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا‪71......................‬‬
‫مسرتوں کی کرن کو ترس گئے ہم تم‪72...........................‬‬
‫پتھر کہیں گے لوگ‪ ،‬سر رہگذر نہ بیٹھ‪73..............................‬‬
‫خ جذبات کا در کھول تو سکتی ہے غزل‪74.......................‬‬ ‫کا ِ‬
‫ف نگارِ درد کا سایہ نہ تھا کبھی‪75...................................‬‬ ‫ل ِ‬
‫یہ الگ بات‪ ،‬ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے‪76........................‬‬
‫شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے‪78.......................‬‬
‫دکھ کے سکوں نہ سکھ کی خوشی کا سراب ہے‪79................‬‬ ‫ُ‬
‫سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی‪80..........................‬‬
‫ش لب کی دھنک ہیئت تمثیلی تھی‪81...........................‬‬ ‫لرز ِ‬
‫قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں‪82..............‬‬
‫ہم ہر لحظہ مٹانے پہ تل ہے مجھ کو‪83.................................‬‬
‫پھر کسی خواب نے دی ہے درِ دل پر دستک‪83.....................‬‬
‫دھوپ دل میں ُاتر گئی ہے بہت‪84.....................................‬‬
‫قہر کا پل ہے یہ تو ہوگا‪86...............................................‬‬
‫سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے‪87.............‬‬
‫بہت دن ہو گئے ہم پر کوئی پتھر نہیں آیا‪88..........................‬‬
‫کل رات ُاس کا چہرہ مجھے زرد سا لگا‪89..........................‬‬
‫غم ِ حالت سہیں یا نہ سہیں سوچ میں ہیں‪90.......................‬‬
‫وا کے ساتھ درختوں کے رابطے تھے بہت‪91..........................‬‬
‫ت غم میں کھل پھول جذبات کا‪91...............................‬‬ ‫دش ِ‬
‫جرم ِ اخلص کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے‪93..........................‬‬
‫ُامید کے صحرا میں جو برسوں سے کھڑا ہے‪94....................‬‬
‫آج بھی دھوپ میں ہوں ٹھہرا ہوا‪95...................................‬‬
‫ت دل میں خوابیدہ پڑی ہے‪97.....................................‬‬ ‫بہش ِ‬
‫خزاں میں غم ذرا کچھ کم کیا کر‪99.................................‬‬
‫ب ذات لکھتا تھا‪100.......................‬‬ ‫دھوپ اور چھاؤں کا کر ِ‬
‫اےرسم و را ِہ شہر کے محتاط ظرف رنگ‪101.....................‬‬
‫حادثوں میں رہتا ہے چہرہ للہ گوں اپنا‪102...........................‬‬
‫یاد آؤں گا ُاسے‪ ،‬آ کے منائے گا مجھے‪104...........................‬‬
‫رد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے‪105.........................‬‬
‫تو بے سبب ہے مری ذات سے خفا‪ ،‬کچھ سوچ‪106................‬‬
‫ل دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے‪108........................‬‬ ‫ہم اہ ِ‬
‫اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے ُابھرا کیوں‪110...................‬‬
‫میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں‪112..................‬‬
‫ل گدازِ حیات دے دے گا‪113.............................‬‬ ‫بدن کو غس ِ‬
‫یہ اور بات کہ تکلیف ِاس سفر میں ہے‪115..........................‬‬
‫ّ‬
‫س ید آ ِل احمد کا مخصوص طر ِز‬
‫سخن‬
‫‪۱۹۸۰‬ء میں سترہ برس کے بعد بہاول پور جانا ہوا تو یہ محسوس‬
‫کر کے خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ ُپرسکون شہر ُاس حد تک نہیں‬
‫بدل تھا کہ جس حد تک اتنے عرصے کے بعد آنے والوں کو اندیشہ‬
‫ہو سکتا ہے۔ اس کے مانوس خد و خال مجھے جوں کے توں نظر‬
‫آئے۔ سائیکل رکشا بھی ُاس زمانے تک چل رہے تھے۔ بیکانیری‬
‫گیٹ اب فرید گیٹ کہلنے لگا تھا مگر ُاس کی شکل و شباہت‬
‫بھی جوں کی توں تھی۔ ُاس کے برابر میں پان والے کی دکان‬
‫ل احمد کھڑے رہا‬ ‫بھی موجود تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں سّید آ ِ‬
‫کرتے تھے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ ُاس وقت بھی کھڑے ہیں۔ ہاں یہ‬
‫فرق ضرور آ گیا تھا کہ اب وہ سوٹ میں ملبوس تھے۔‬
‫پہلی بار جب ‪۱۹۶۲‬ء میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت سے میں‬
‫گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور آیا تو جن لوگوں سے بہت جلد‬
‫دور وہ اداس‬ ‫مانوس ہو گیا اور جن کی صحبت میں لہور سے ُ‬
‫ل احمد کو ایک‬ ‫شام و سحر اچھے گزر جاتے تھے ان میں سید آ ِ‬
‫نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ ُاس زمانے میں وہ مستقل ً گیروا کرتا‬
‫اور چھوٹے پائنچوں کا سفید پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ بیکانیری گیٹ‬
‫کے برابر میں حبیب ہوٹل تھا اور اس سے ذرا آگے ایک سادہ سا‬
‫نیا ہوٹل ہمارے سامنے ہی شروع ہوا تھا ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘۔ کالج‬
‫سے واپسی پر اور پھر شام کو ہم چند لیکچرار کھانا یہیں کھاتے‬
‫تھے۔ شہر کے جو ادیب و شاعر حضرات یہاں مستقل ً چائے پینے‬
‫ل احمد سب سے زیادہ باقاعدہ تھے۔ چنانچہ‬ ‫آتے تھے ان میں سید آ ِ‬
‫ُان سے ملقات روزانہ کا معمول تھا۔ ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ میں شعر‬
‫و سخن کی محفل بھی خوب جمتی۔ ہوٹل کے مالک ایک معمر‬
‫بزرگ تھے۔ نام یاد نہیں۔ بڑے خلیق آدمی تھے۔ ہمیں دور سے آتا‬
‫دیکھتے تو گرم روٹیاں لگوانا شروع کر دیتے‪ ،‬اور ہماری طویل‬
‫ادبی نشستوں سے الجھن محسوس کرنے کے بجائے بہت خوش‬
‫ح دل پر‪ُ ،‬ان‬ ‫ُ‬
‫ل احمد کے اس زمانے کے کچھ شعر لو ِ‬ ‫ہوتے۔ سید آ ِ‬
‫کی آواز میں‪ ،‬اب تک نقش ہیں‪:‬‬
‫ہنگامہ سرا مصر کا بازار نہیں اب‬
‫حسن طرح دار نہیں اب‬ ‫یوسف سا کوئی ُ‬

‫ہو بھی تو کوئی ُاس کا خریدار نہیں اب‬


‫ن زلیخا میں کوئی تار نہیں اب‬‫داما ِ‬

‫ہم تو ہیں ہمیں سنگ و گل و خشت سے مارو‬


‫منصور اگر کوئی سرِ دار نہیں اب‬

‫یہ اشعار سید صاحب اکثر مشاعروں اور شعری نشستوں میں‬
‫تواتر کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ ایک اور غزل تھی‪:‬‬

‫پر شکستہ کسی سہمے ہوئے طائر کی طرح‬


‫وقت کے کانپتے ہاتھوں میں نہ مرنا اب کے‬

‫سید آل احمد نے ایک اچھے شاعر اور محبت کرنے والے انسان‬
‫کی حیثیت سے بہت جلد ہمارے دلوں میں گھر کر لیا۔ ُان کے کلم‬
‫میں روایت سے پیوستگی کے ساتھ ایک تخلیقی لپک تھی جو ُان‬
‫کے کلم کو محض ’’روایتی‘‘ بن جانے سے بچاتی تھی اور فنی‬
‫خد و خال میں ان کی انفرادیت کو ُابھار کر سامنے لتی تھی۔‬
‫سید صاحب چونکہ خود مست شاعر تھے اور ُاس زمانے میں ُ‬
‫دور‬
‫دور تک تعارف رکھنے کے باوجود پی آر کو سیڑھی کے طور پر‬ ‫ُ‬
‫استعمال کرنے کا فن نہیں جانتے تھے اس لیے آگے چل کر کہنی‬
‫مار دوڑ میں شمولیت نہ کر سکے اور ہر چند کہ خواص ان کے‬
‫فنی مرتبے سے ناواقف نہ تھے‪ ،‬وہ ’’لئم لئٹ‘‘ سے دور ہوتے چلے‬
‫گئے۔ ان کا بس ایک مختصر سا مجموعہ ’’صریرِ خامہ‘‘ کے‬
‫عنوان سے ‪۱۹۶۴‬ء میں بہاول پور ہی سے شائع ہوا جس کی‬
‫پذیرائی کرنے والوں میں ماہرالقادری‪ ،‬حمایت علی شاعر‪ ،‬اختر‬
‫انصاری اکبر آبادی‪ ،‬محمد احسن فاروقی‪ ،‬منظور حسین شور‬
‫اور دیگر کئی ممتاز سخن شناس شامل تھے۔‬
‫ایک طویل عرصے کے بعد جب نوید صادق نے اطلع دی کہ سید‬
‫صاحب بسترِ عللت پر ہیں اور ان کا ایک اور مجموعہ اشاعت‬
‫کے لیے تیار ہے ‪ ،‬جس پر مجھے بھی کچھ اظہارِ خیال کرنا ہے تو‬
‫مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ اظہاِر‬
‫خیال تو میرے لیے خود اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے مترادف‬
‫ہوگا لیکن عجیب تلخ اتفاق یہ ہوا کہ اگلے روز جب نوید صادق‬
‫مسود ّہ میرے حوالے کرنے آئے تو میں اخبار میں سّید صاحب کی‬
‫رحلت کی خبر پڑھ چکا تھا‪ ،‬جس کا خود نوید صادق کو علم نہ‬
‫تھا۔‬
‫گ سخن کا‬ ‫ل احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رن ِ‬
‫سید آ ِ‬
‫ت احساس‪ ،‬رومانیت‪ ،‬روایت اور جدت کے‬ ‫آئینہ دار ہے‪ ،‬جو شد ِ‬
‫ایک دلکش امتزاج سے عبارت ہے۔ چند شعر ملحظہ ہوں‬
‫میری خاطر نہ تکلف کیجئے‬
‫میں تو کا نٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں‬

‫پتھر کہیں گے لوگ‪ ،‬سرِ رہ گزر نہ بیٹھ‬


‫چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ‬

‫احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر‬


‫خائف نہ ہو‪ ،‬نظر نہ چرا‪ ،‬چھپ کے گھر نہ بیٹھ‬

‫کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد‬


‫اتنی سردی میں رات کو تنہا‬

‫کس مسافت کے بعد پہنچا ہے‬


‫تیرے ُرخسار پر مرا آنسو‬

‫افسوس کہ ہم اس مجموعے کا استقبال بہت دیر سے کر رہے‬


‫ت ظاہری کی اہمیت کچھ زیادہ نہیں۔‬
‫دنیائے فن میں حیا ِ‬
‫ہیں۔ تاہم ُ‬
‫امید ہے کہ یہ مجموعہ سّید صاحب کے لیے بقائے دوام کا ضامن‬
‫ہوگا۔‬

‫ڈاکٹر خورشید رضوی‬


‫خود نوشت‬
‫میں نے جب بھی کسی تخلیق کا سوچا ۔۔۔ اور جب بھی کوئی‬
‫پیکر تراشا ہے تو کوشش کی ہے کہ میرے خواب و ادراک کی‬
‫تعمیر کا جو وجود قرطاس پر ُابھرے‪ ،‬وہ عجز و سلیقہ کے حیات‬
‫افروز شانوں سے حروف کا وہ بوجھ زائل کر دے جو ’’صورت‘‬
‫آواز اور معنی کے مرتب شدہ نقوش کے جسموں کی کمر جھکا‬
‫دیتا ہے۔‬
‫میں اس تحمل اور لغزشوں کی منزل میں کس حد تک خوش‬
‫نتائج اور عاقبت نااندیش مسافت طے کر سکا ہوں۔۔۔ آئنہ ہے۔‬

‫ل احمد‬
‫سید آ ِ‬
‫آر اء‬

‫ل احمد کی شاعری نوائے سروش چاہے ہو یا نہ ہو مگر اس‬ ‫سید آ ِ‬


‫ل احمد کی‬ ‫میں انسانی دل کی دھڑکنیں ضرور بند ہیں۔ سید آ ِ‬
‫شاعری وہ دوراہا ہے جہاں جدت اور قدامت کے راستے پھٹتے ہیں۔‬
‫ُان کے کلم میں جوش و تازگی کے ساتھ تنوع بھی ہے۔ُان کی‬
‫’’لے‘‘ ساز کے پردوں کی طرح کہیں نرم و شیریں ہے اور کہیں‬
‫چونکا دینے والی!‬

‫مولنا ما ہر القادری‬

‫ل احمد بہاولپور کے نوجوانوں میں ایک خاص ُرخ کے انسان‬ ‫سید آ ِ‬


‫ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور صحافی بھی ‪ ،‬اور شاعری و صحافت‬
‫کا آمیزہ ُان کی شاعری میں نہایت حسین صورت اختیار کر لیتا‬
‫ہے۔ ُان کی صحافت میں شاعری کے خدوخال ُابھرتے معلوم ہوتے‬
‫ہیں‪ ،‬اور شاعری میں سیاست کی گتھیاں نکلتی نظر آتی ہیں۔ وہ‬
‫فکر و خیال کے اعتبار سے جدید لکھنے والوں کی صف میں آتے‬
‫ہیں اور ُان کی ترقی پر بھی حدود نہیں لگائی جا سکتیں۔‬

‫احسان دانش‬

‫سب سے ہٹ کے بات کرنے وال ایک علیحدہ لغت لیے اپنی علیحدہ‬
‫ل احمد مجھے پہلی ہی ملقات میں‬ ‫زبان میں شاعری کرنے وال آ ِ‬
‫اچھا لگا کہ سچ بول رہا تھا۔ وہ ادب کے روایتی وڈیروں کے خلف‬
‫تھا۔ کبھی کسی کو چھپنے کے لیے کچھ نہیں بھیجا۔ چھوٹی جگہ پر‬
‫چپ چاپ‬ ‫ل احمد صاف دل لیے ُ‬ ‫بیٹھ کر اچھی شاعری کرنے وال آ ِ‬
‫یہاں سے چل گیا۔‬

‫منیر نیازی‬

‫غزل گوئی میں آپ کو بڑی دسترس حاصل ہے۔ ان کی غزلوں‬


‫میں دوہوں کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اور گیتوں کا رنگ نظر‬
‫آتا ہے۔ ان کی غزلوں کا لہجہ گیتوں کی طرح میٹھا‪ ،‬ملئم‪ ،‬کومل‬
‫اور گداز ہے۔‬

‫پروفیسر محمد امین‬

‫ل احمد زیادہ تر غزل ہی کے شاعر ہیں اور ان میں‪ ،‬میں‬ ‫سید آ ِ‬


‫نے فکر و فن کی وہ جھلکیاں دیکھیں جو نہ صرف یہ ثابت کرتی‬
‫ہیں کہ صنف غزل میں ل انتہا جدتوں کا امکان ہے بلکہ اس کا‬
‫ثبوت بھی ہیں۔ احمد صاحب اس کو اپنی افرادی جدت سے‬
‫معمور کر سکتے ہیں۔‬

‫ڈاکٹر محمد احسن فاروقی‬

‫تو غم ِ دوراں اور غم ِ جاناں کا حسین ترین امتزاج عصرِ حاضر‬


‫ل احمد کی شاعری میں بھی نمایاں‬ ‫کے جواں فکر شاعر سید آ ِ‬
‫ہے مگر اس خوبی کے علوہ ُان کی غزلوں اور نظموں میں ایک‬
‫ایسی کیفیت بھی جھلکتی ہے جس کی مثال آج کل نوجوان‬
‫شعراء میں خال خال ہی پائی جاتی ہے‪ ،‬وہ ہے ُان کا ’’ذاتی‬
‫احساس‘‘ جو ُان کی پوری شخصیت پر طاری ہے۔ میں سمجھتا‬
‫ہوں کہ ذاتی احساس کا سلیقے سے اظہار ایک نعمت ہے‪ ،‬اور‬
‫ل احمد کے کلم میں اپنی پوری رعنائی‬ ‫ق تحسین خوبی‪ ،‬جو آ ِ‬ ‫لئ ِ‬
‫کے ساتھ موجود ہے۔‬

‫اختر انصاری اکبرآبادی‬

‫ل احمد کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ صرف شاعری کے سہارے‬ ‫ید آ ِ‬


‫دنیا میں آیا ہے۔ اشتہار بازوں کے کسی گروہ کے سہارے‬‫ادبی ُ‬
‫نہیں‪ ،‬اور یہی وجہ ہے کہ لہور اور کراچی سے جب آئے دن ادبی یا‬
‫ل احمد کا نام کہیں نظر‬ ‫غیر ادبی غبارے چھوڑے جا رہے ہیں‪ ،‬آ ِ‬
‫نہیں آتا۔ وہ ایک چھوٹی سی جگہ بیٹھا خاموشی سے یہ تماشے‬
‫دیکھ رہا ہے اور زیرِ لب مسکرا رہا ہے۔۔۔اس مسکراہٹ میں کتنی‬
‫خوداعتمادی ہے‪ُ ،‬اس کے اشعار سے ظاہر ہے۔‬

‫حمایت علی شاعر‬

‫ل احمد بہاولپور کے ریگ زاروں اور راہ گزاروں میں سانس‬


‫سید آ ِ‬
‫لینے والے ایسے با کمال سخن گو تھے کہ انھوں نے زندگی بھر‬
‫قرطاس و قلم سے رشتہ جوڑے رکھا‪ ،‬اور نامساعد حالت میں‬
‫بھی اپنے فن اور اپنے حرف سے وابستگی قائم رکھی۔ وہ خلیق‪،‬‬
‫با مرّوت اور ملنسار انسان تھے۔ قدرت نے انھیں ذوق آشنا قلب‬
‫عطا کیا تھا مگر قسمت نے انھیں ایک ایسے ریگ زار میں رکھا‬
‫جہاں ُان کی صلحیتیں پورے طور پر عوام الناس کے سامنے نہ آ‬
‫سکیں۔ روایت کے ساتھ رشتہ جوڑنے اور اپنے ماضی کو اپنے حال‬
‫ل احمد بخوبی واقف‬ ‫کے ساتھ منسلک کرنے کے فن سے سید آ ِ‬
‫تھے۔‬

‫محسن احسان‬

‫ر‬
‫روایت میں ایک خرابی ہے کہ اس میں شاعر کی انفرادیت زی ِ‬
‫زمین چلی جاتی ہے اس لیے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا‬
‫شعر کہنا جس پر شاعر کی انفرادیت کی چھاپ گہری ہو اور‬
‫محسوسات کا نیا پن بھی موجود ہو‪ ،‬فنی پختگی کا تقاضا کرتا‬
‫ہے۔ سماجی عدل و انصاف‪ ،‬معاشرتی اور اقتصادی مسائل‬
‫کلسیکی غزل کے موضوعات نہیں ہیں۔ یہ آج سے چند دہائیاں پہلے‬
‫کی بات ہے جب نئے شاعر نے غزل کو ان عصری موضوعات سے‬
‫روشناس کرایا اور غزل کی یکسانیت کو ایک نیا آہنگ دیا۔ سید‬
‫ل احمد اپنے فن کے لحاظ سے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔‬ ‫آ ِ‬
‫یہی وجہ ہے کہ ُان کے ہاں عصری آگہی کے ساتھ ساتھ غزل کی‬
‫روایتی غنائیت بھی موجود ہے‪ ،‬اور یہی وجہ ہے کہ ُان کے کلم کو‬
‫ہر طبقہ میں مقبولیت حاصل ہے۔‬

‫پروفیسر غلم جیلنی اصغر‬


‫دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے‬
‫تیرا پیار بھی کم نکل اندازے سے‬

‫سنے ِبن چل دیتے‬


‫تم جو میری بات ُ‬
‫رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے‬

‫ک وفا کا حصہ تھا‬


‫ج سکوں تو تر ِ‬
‫رن ِ‬
‫سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے‬

‫آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں‬


‫روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے‬

‫دکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی‬


‫تیرا ُ‬
‫تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے‬

‫کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے‬


‫کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے‬

‫احمد گہری سوچ کی خو کب پائی ہے‬


‫تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے‬
‫جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں‬
‫اس کی خواہش ہے کہ میں اپنا سفر جاری رکھوں‬

‫اپنی تنہائی کا یہ جشن مٹانے کے لیے‬


‫جی یہ چاہے کہ ترے حسن پہ آوازہ کسوں‬

‫تو نے ناحق ہی گرجنے کا تکلف برتا‬


‫میں تو بپھرے ہوئے طوفان کا ُرخ موڑتا ہوں‬

‫عمر بھر جس کے لیے میں نے دعائیں مانگیں‬


‫اب اسے‪ ،‬کوئی بتاؤ‪ ،‬میں برا کیسے کہوں‬

‫ہے کوئی؟ خستہ لکیروں کی جو قبریں کھودے‬


‫کتنے مضمون ہیں مجھ سوختہ تن میں مدفوں‬

‫اب تو حالت سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں‬


‫زندگی! اور کہاں تک ترا رستہ دیکھوں‬

‫تیری بستی میں تو پتھر کے سجے ہیں اصنام‬


‫آدمی کوئی نظر آئے تو کچھ بات کروں‬

‫ش سکوں پر کھلتا‬‫ُزلف ہوتا تو کسی دو ِ‬


‫میں تو وہ زخم ِ وفا ہوں کہ مہک بھی نہ سکوں‬

‫کتنی آنکھیں مری خواہش پہ جھپٹ پڑتی ہیں‬


‫جب بھی اس شخص سے ملنے کی فراغت ڈھونڈوں‬

‫کس کو فرصت ہے مجھے ڈھونڈنے نکلے احمد‬


‫اپنی ہی چاپ پہ کب تک میں پلٹ کر دیکھوں‬
‫سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں‬
‫زیست کے بے خواب گھر میں کوئی جگنو بھی نہیں‬

‫نا ُامیدی! تیرے گھیراؤ سے ڈر لگنے لگا‬


‫دھڑکنوں کے دشت میں اک چشم آہو بھی نہیں‬

‫جسم کے حساس پودے کو نمو کیسے ملے‬


‫قرب کی ٹھنڈی ہوا کیا کرب کی لو بھی نہیں‬

‫ہم سفر ہیں مصلحت کا خول سب پہنے ہوئے‬


‫دوستی کیا اب کوئی تسکیں کا پہلو بھی نہیں‬

‫ضبط کے گہرے سمندر کو تموج بخش دے‬


‫پیار کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں‬

‫وقت نے تجھ سے ترے لہجے کی خوشبو چھین لی‬


‫میں جسے اپنا سمجھتا تھا وہ اب تو بھی نہیں‬

‫شام کی خستہ لحد پر بے سکوں ٹھہرا ہوں میں‬


‫میرا مونس کوئی ’’داتا‘‘ کوئی ’’باہو‘‘ بھی نہیں‬

‫خواب جو دیکھے تھے احمد سب ادھورے رہ گئے‬


‫اب کسی خواہش کے آگے دل ترازو بھی نہیں‬
‫دور تک گئی‬‫دوش ہوا کے سات بہت ُ‬
‫خوشبو ُاڑی تو رات بہت ُ‬
‫دور تک گئی‬

‫بادل برس رہا تھا کہ اک اجنبی کی چاپ‬


‫شب‪ ،‬رکھ کے دل پہ ہات بہت دور تک گئی‬

‫یہ اور بات لب پہ تھی افسردگی کی مہر‬


‫دور تک گئی‬
‫ق تبسمات بہت ُ‬‫بر ِ‬

‫خورشید کی تلش میں نکل جو گھر سے میں‬


‫ی حیات بہت دور تک گئی‬
‫تاریک ِ‬

‫احمد سفر کی شام عجب مہرباں ہوئی‬


‫اک عمر میرے سات بہت دور تک گئی‬
‫خ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے‬‫شا ِ‬
‫یہ الگ بات کہ اک آس لگا رکھی ہے‬

‫کتنا ساکت ہے ترے عہد کے اخلص کا جسم‬


‫سوچ کی آنکھ بھی پتھرائی ہوئی لگتی ہے‬

‫پھر کوئی تازہ مصائب کا بھنور دیکھیں گے‬


‫آب تسکیں پہ کوئی لہر نئی ُابھری ہے‬

‫حوصلہ ہار گیا دل تو چھٹی درد کی د ُھند‬


‫سوچ کے پاؤں ہوئے شل تو سحر دیکھی ہے‬

‫آنکھ ہر لمحہ نئے جھوٹ میں سرگرداں ہے‬


‫دل ہر اک لحظہ نئی چوٹ کا زندانی ہے‬

‫اب کسے دل میں جگہ دیں کہ جسے پیار کیا‬


‫ش رنج ہی معیارِ وفا ٹھہری ہے‬
‫کاہ ِ‬

‫سرِ تسلیم ہے خم‪ ،‬شوق سے آوازہ کسو‬


‫چپ کی تلوار سے یہ سنگ زنی اچھی ہے‬

‫گ تبسم‪ ،‬نہ حرارت کی رمق‬‫نہ کوئی رن ِ‬


‫زندگی ہے کہ کوئی سوکھی ہوئی ٹہنی ہے‬

‫دکھ کے سفر سے احمد‬ ‫سخت بوجھل ہوں میں اب ُ‬


‫رات دن ضبط کی شہ رگ سے لہو جاری ہے‬
‫منجمد ہو گیا لہو دل کا‬
‫تیرے غم کا چراغ کیا جلتا‬

‫ن نظر!‬
‫وہ بھی دن تھے کہ اے سکو ِ‬
‫تو مری دسترس سے باہر تھا‬

‫بجھ گئی پیاس آخرش اے دل!‬


‫ہو گیا خشک آنکھ کا دریا‬

‫تو مرا پیار مجھ کو لوٹا دے‬


‫جانے والے ُاداسیاں نہ بڑھا‬

‫پاس خاطر ہے شہر میں کس کو‬


‫ف وفا‬
‫کون کرتا ہے اعترا ِ‬

‫تیری خواہش بھنور بھنور ساحل‬


‫میری منزل سکوت کا صحرا‬

‫پوچھتی تھی خزاں بہار کا حال‬


‫شاخ سے ٹوٹ کر گرا پتا‬

‫کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد‬


‫اتنی سردی میں رات کو تنہا‬
‫خاک آلود ہو گئے ابرو‬
‫کٹ گئے اعتماد کے بازو‬

‫تیرے جذبے کے ہاتھ پتھر ہیں‬


‫میری سوچوں کے پاؤں میں گھنگرو‬

‫سینۂ سنگ بھی دھڑکنے لگا‬


‫چل گیا تیری آنکھ کا جادو‬

‫گونجتا ہے دماغ سوچوں سے‬


‫برہنہ ہے سکون کا پہلو‬

‫اس ُاداسی کو کون دور کرے‬


‫وہم کا کس کے پاس ہے دارو‬

‫دھڑکنوں کا شکیب ٹوٹتا ہے‬


‫کس لیے چپ ہے میرے داتا تو!‬

‫کس مسافت کے بعد پہنچا ہے‬


‫تیرے ُرخسار پر مرا آنسو‬

‫ہر خوشی کو جھلس گئی احمد‬


‫دکھوں کی لو‬
‫شہر انفاس میں ُ‬

‫پلکوں سے اب کے ابر جو کھل کر برس گیا‬


‫ط وفا سے دل کا ہر اک تار کس گیا‬
‫فر ِ‬

‫ُامید کے چراغ کی َلو خود ہی بجھ گئی‬


‫دل کو جو کچھ سکون تھا‪ ،‬اب کے برس‪ ،‬گیا‬

‫کس نے متاِع رونق بازار چھین لی‬


‫یہ روشنی کا شہر کوئی کیسے َڈس گیا‬

‫جس سے وفا کی کوئی توقع نہ تھی مجھے‬


‫کتنے خلوص سے وہ مرے دل میں بس گیا‬

‫جو کونپلیں بھی شاخ پہ پھوٹیں وہ جل گئیں‬


‫جو پھول بھی کھل وہ نمی کو ترس گیا‬

‫دکھ اسے اب تک نہیں دیا‬


‫میں نے تو کوئی ُ‬
‫کیوں اس کے لب سے پیار کے لہجے کا َرس گیا‬

‫دیکھی نہ انبساط کی چھاؤں تمام عمر‬


‫احمد غموں کی د ُھوپ میں چہرہ جھلس گیا‬
‫گارِ شب ترا مہمان ہو رہا ہوں میں‬
‫وفا میں کرب کی پہچان ہو رہا ہوں میں‬

‫کھرچ رہا ہوں گئے موسموں کی ہر نسبت‬


‫نئی ُرتوں کا شبستان ہو رہا ہوں میں‬

‫ت لب دے کر‬‫ط تیرہ شبی کو شگف ِ‬ ‫محی ِ‬


‫طلوِع صبح کا امکان ہو رہا ہوں میں‬

‫س وقار ہے تن پر‬
‫ترے کرم سے لبا ِ‬
‫تری نگاہ پہ قربان ہو رہا ہوں میں‬

‫ب ہجر کی مرطوب صحبتوں کی قسم‬ ‫سرا ِ‬


‫ث وصل کا عنوان ہو رہا ہوں میں‬‫حدی ِ‬

‫ف ادق کی صورت ہوں‬ ‫امیر شہر پہ حر ِ‬


‫غریب شہر پہ آسان ہو رہا ہوں میں‬

‫ف آئینہ‬
‫عداوتوں پہ تل ہے حری ِ‬
‫ت عکس‪ ،‬مری جان! ہو رہا ہوں میں‬ ‫ثبو ِ‬

‫ت دیروز پر ہوں شرمندہ‬


‫ط لذ ِ‬
‫نشا ِ‬
‫خود احتساب کی میزان ہو رہا ہوں میں‬

‫نہ کوئی ماتھا کشادہ‪ ،‬نہ کوئی دل روشن‬


‫ش وقت پہ حیران ہو رہا ہوں میں‬‫معا ِ‬

‫یہ کس کی‪ ،‬کوئے طلب میں‪ ،‬تلش ہے احمد‬


‫یہ کس ُامید کا دربان ہو رہا ہوں میں‬

‫نعرہتن تنانا‪ ،‬تن تنانا ُہو کیا ہے‬


‫دشت کہتے ہیں کسے‪ ،‬کون ہوں میں‪ ،‬تو کیا ہے‬

‫روح گھائل ہے بھل کیسے بدن کو سمجھائے‬


‫اس کڑی دھوپ میں تسکین کا پہلو کیا ہے‬

‫تجھ سے اک پل بھی جدا ہوں تو تڑپ ُاٹھتا ہوں‬


‫اے مرے پیار کی آسودہ خلش! تو کیا ہے‬

‫کونپلیں شاخ پہ پھوٹیں بھی تو جل جاتی ہیں‬


‫پیڑ حیراں ہیں‪ ،‬نمو چیز ہے کیا‪ُ ،‬لو کیا ہے‬

‫تو فرشتہ ہے نہ جب قادرِ لغزش احمد‬


‫یہ َانا کیا ہے تری اور یہ تری خو کیا ہے‬
‫**‬
‫سوکھے ہوئے لبوں کی صدا کا اسیر ہوں‬
‫میں خواہشوں کے طاس کی ٹیڑھی لکیر ہوں‬

‫ہر لمحہ ُرخ بدلتے مزاجوں کو کیا کہوں‬


‫میں آپ اپنے شہر میں اپنی نظیر ہوں‬

‫جسموں کی تیز آنچ سے محفوظ رکھ مجھے‬


‫ش حیات! میں اب گوشہ گیر ہوں‬
‫اے شور ِ‬

‫ت طلب دراز کروں کس کے سامنے‬ ‫دس ِ‬


‫ف انا وہ فقیر ہوں‬
‫آئے نہ جس پہ حر ِ‬

‫ب سکون کا‬ ‫رد ِ عمل ہے تو مرے خوا ِ‬


‫یا میں تری جبیں کی اد ُھوری لکیر ہوں‬

‫احمد میں کس کے لب سے غزل پرورش کروں‬


‫غالب ہوں میں نہ شہر تغزل کا میر ہوں‬
‫نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں‬
‫میں خواب خواب بھنور آئنوں کو تکتا ہوں‬

‫ش پائندہ‬
‫نہ کوئی رنگ توقع‪ ،‬نہ نق ِ‬
‫کسے بتاؤں کہ کن خواہشوں کا ڈھانچہ ہوں‬

‫کسے دکھاؤں وہ آنکھیں جو جیت بھی نہ سکا‬


‫کسے بتاؤں کہ کن آنسوؤں کا سپنا ہوں‬

‫نہ تازگی ہی بدن میں نہ ُپرسکون تھکن‬


‫خ عمر کا وہ زرد و سبز پتا ہوں‬
‫میں شا ِ‬

‫جہاں یقین کے تلووں میں آبلے پڑ جائیں‬


‫میں حادثات کی ان گھاٹیوں میں ُاترا ہوں‬

‫وہ نغمگی جسے سازِ سلیقگی نہ مل‬


‫میں تشنہ رنج ُاسی کا سراب پیما ہوں‬

‫یہ اور بات قرینے کی موت بھی نہ ملی‬


‫مگر یہ دیکھ کہ کس تمکنت سے زندہ ہوں‬

‫جو پڑھ سکے تو بہت ہے یہ ملگجی صورت‬


‫دکھ کا بدن ہوں میں تیرا سایہ ہوں‬
‫میں تیرے ُ‬

‫ورق ورق ہوں مگر صحن زیست میں احمد‬


‫مشاہدات کے جوہر کا اک ذخیرہ ہوں‬
‫دکھ تر و تازہ نہیں رہنے دیتے!‬
‫تم مرا ُ‬
‫دشت کو ابر تو پیاسا نہیں رہنے دیتے؟‬

‫واہمے نت نئی اشکال بنا لیتے ہیں‬


‫ق دل کو بھی سادہ نہیں رہنے دیتے‬
‫ور ِ‬

‫ل گل میں‬
‫کتنے بے رحم ہیں یہ ہاتھ کہ فص ِ‬
‫شجر سبز پہ پتا نہیں رہنے دیتے‬

‫ن کہن‬
‫اب تو کچھ ایسے بچھڑ جاتے ہیں یارا ِ‬
‫س تمنا نہیں رہنے دیتے‬
‫آنکھ میں عک ِ‬

‫میری َاچھائیاں آئینہ بنانے والو!‬


‫کیوں مجھے شہر میں ُرسوا نہیں رہنے دیتے‬

‫کتنے سفاک طبیعت ہیں شناسا چہرے‬


‫ایک لمحے کو بھی تنہا نہیں رہنے دیتے‬

‫ہم سے بے درد زمانے میں نہ دیکھے ہوں گے‬


‫اپنے ہی گھر کو جو اپنا نہیں رہنے دیتے‬

‫اب ترا نام جفا پیشہ ہوا کے جھونکے‬


‫گ صحرا پہ بھی لکھا نہیں رہنے دیتے‬
‫ری ِ‬

‫اتنے سورج نکل آئے ہیں ُافق پر احمد‬


‫زیر دیوار بھی سایہ نہیں رہنے دیتے‬
‫پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے‬
‫ہاتھ میں سنگ ُاٹھائے ہوئے بونے آئے‬

‫یوں تو اب بھی ترے خط ڈاک میں مل جاتے ہیں‬


‫کوئی تحریر تو آنکھوں کو بھگونے آئے‬

‫اس سے پہلے کہ کڑی دھوپ میں میل ہو بدن‬


‫تو اسے لمس کی خوشبو سے بھی دھونے آئے‬

‫دھیان میں پھر سے گئی ُرت کے سہانے سپنے‬


‫کرب کے گہرے سمندر میں ڈبونے آئے‬

‫قرب بھی جس کا رہا ہجر کے صحرا کی طرح‬


‫اب وہ جذبہ مرے بستر پہ نہ سونے آئے‬

‫ل زار کو زنجیر کیا‬


‫پھر فریبوں نے د ِ‬
‫ف تسلی کے کھلونے آئے‬ ‫پھر مجھے حر ِ‬

‫میں ترے پھول سے انگاروں کو چھو کر تڑپوں‬


‫تیرا بچپن مرے گھر دودھ بلونے آئے‬

‫ان کہے لفظ نہ چہرے پہ برہنہ ہو جائیں‬


‫تیری آنکھوں میں مرا خواب نہ رونے آئے‬

‫کس کو ُافتاد پڑی ہے کہ ُاٹھائے خفت‬


‫کون اس شہر میں اب نیکیاں ڈھونے آئے‬

‫آئے بے شک ترے آنگن میں چراغاں کرنے‬


‫اپنی پہچان کوئی ہم سا نہ کھونے آئے‬

‫التجا ہے نئے موسم کی نمو سے احمد‬


‫بے ثمر پیڑ مرے گھر میں نہ بونے آئے‬
‫ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی‬
‫خوش بھی نہیں ہوئی وہ خفا بھی نہیں لگی‬

‫خواش کی جلتی د ُھوپ کی ُرت بھی گزر گئی‬


‫ہ‬
‫یخ بستہ موسموں کی ہوا بھی نہیں لگی‬

‫دکھ بھی نفس کی آنکھ کا کاجل نہ بن سکا‬‫ُ‬


‫سکھ کی قبا بھی نہیں لگی‬‫اچھی بدن پہ ُ‬

‫سوکھ گئی لمس کی کلی‬ ‫خ خلش پہ ُ‬ ‫شا ِ‬


‫ہاتھوں پہ آرزو کی حنا بھی نہیں لگی‬

‫مہکا نہیں سکون کی ساعت کا کوئی پھول‬


‫دعا بھی نہیں لگی‬
‫اس سال دوستوں کی ُ‬

‫مت پوچھ کس خیال کا بادل تنا رہا‬


‫صحرا میں تیز دھوپ ذرا بھی نہیں لگی‬

‫دستک تو نصف شب درِ احساس پر ہوئی‬


‫مشفق سپردگی کی صدا بھی نہیں لگی‬

‫احمد تمام عمر وفا کا سفر کیا‬


‫ب خطا بھی نہیں لگ‬‫ت َانا میں ضر ِ‬
‫دش ِ‬
‫گ ملمت ُاداس تھا‬
‫وہ بھی ُاٹھا کے سن ِ‬
‫ہم کو بھی دوستی کے تقدس کا پاس تھا‬

‫ٹھوکر لگی تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے‬


‫ق یاس تھا‬
‫گ رہگزار وفا غر ِ‬
‫اک سن ِ‬

‫پگھل دیا تھا روح کو دوری کی آنچ نے‬


‫دکھوں کا رنگ بدن کا لباس تھا‬‫تیرے ُ‬

‫تم آ گئے تو لب پہ تبسم بھی آ گیا‬


‫ورنہ تو شام ہی سے مرا دل ُاداس تھا‬

‫نفرت کی تیز دھارنے شہ رگ ہی کاٹ دی‬


‫اتنا خلوص تھا کہ سراپا سپاس تھا‬

‫س حد نظر چھپے‬
‫مدت ہوئی جسے پ ِ‬
‫اس تیرگی کا حل ُاسی سورج کے پاس تھا‬

‫احمد گھرے ہو آ کے کہاں شورِ شہر میں‬


‫تنہائیوں کا دشت تمہیں کتنا راس تھا‬
‫خواہشیں شہر َانا میں سب امیروں سی لگیں‬
‫جستجوئیں‪ ،‬ہاتھ پھیلئے فقیروں سی لگیں‬

‫رات بھر بیکل رہا یادوں کے جلتے دشت میں‬


‫دھیان میں جو صورتیں بھی آئیں‪ ،‬تیروں سی لگیں‬

‫آرزوئیں‪ ،‬پابجولں‪ ،‬صف بہ صف ٹھہری ہوئیں‬


‫دل سے تا بہ ذہن‪ ،‬جسموں میں اسیروں سی لگیں‬

‫ف جاں‬
‫دکھ دیکھے‪ ،‬تبسم ریز تھے‪ ،‬اطرا ِ‬
‫جتنے ُ‬
‫اور خوشیاں‪ ،‬دل گرفتہ راہگیروں سی لگیں‬

‫میں ترے خط کی عبارت پڑھ کے روتا کس لیے‬


‫جتنی سطریں تھیں مقدر کی لکیروں سی لگیں‬

‫یوں تو پیشانی کشادہ تھی سمندر کی طرح‬


‫کتنی سوچیں تھیں جو ماتھے پر جزیروں سی لگیں‬

‫میں ترے ترشے ہوئے معیار کی بینائی تھا‬


‫لفظ و معنی کی چٹانیں تک لکیروں سی لگیں‬

‫ب ساکت کی تاریکی چھٹی‬ ‫یک نفس احمد ل ِ‬


‫دو غزل پروردہ آنکھیں مجھ کو ہیروں سی لگیں‬
‫گ نظر سے ٹوٹے ہوئے آئنے تو دیکھ‬
‫سن ِ‬
‫ان کی طرف بھی ایک نظر ہو سکے‪ ،‬تو دیکھ‬

‫شاید میں تیرے دھیان میں پھر سے ُابھر سکوں‬


‫میں اجنبی سہی‪ ،‬مجھے پہچان کے تو دیکھ‬

‫کس کس ادا سے چھانی ہے صحرائے شب کی خاک‬


‫آنکھوں میں رتجگوں کے نئے زاویے تو دیکھ‬

‫دکھوں کے سامنے سینہ سپر ہوں میں‬‫کتنے ُ‬


‫ط الم! حوصلے تو دیکھ‬
‫ف نشا ِ‬
‫ناواق ِ‬

‫کن لذتوں کے در نہ کھلے ہم پہ کیا کہیں‬


‫یہ غم کسی کی ذات سے تجھ کو ملے تو دیکھ‬

‫کچھ دن تو تجربات کے شعلوں پہ دل جل‬


‫میری طرح سے دہر میں کچھ سانحے تو دیکھ‬

‫ی شوق عجب مرحلوں میں ہے‬ ‫وارفتگ ِ‬


‫ب طلب کے پھیلے ہوئے سلسلے تو دیکھ‬‫جذ ِ‬

‫کن خواہشوں کا گرم لہو زیب خاک ہے‬


‫میں جن سے ہو کے آیا ہوں وہ راستے تو دیکھ‬

‫دکھ نہ پوچھ‬
‫ک مراسم کا ُ‬
‫ل دل سے تر ِ‬
‫ہم اہ ِ‬
‫خ شجر سے ٹوٹ کے پتا گرے تو دیکھ‬ ‫شا ِ‬

‫آئینۂ وفا ہے‪ ،‬سراپا خلوص ہے‬


‫احمد کے ساتھ چند گھڑی بیٹھ کے تو دیکھ‬
‫خواشوں کی کپاس د ُھن لو گے؟‬
‫ہ‬
‫تم بھی آوازہ کوئی سن لو گے‬

‫کون سمجھا ہے اس کسک کی زباں‬


‫دل کی دھڑکن تو تم بھی سن لو گے‬

‫دوستی کر رہے ہو‪ ،‬یہ تو بتاؤ‬


‫پاپ لو گے کہ کوئی پن لو گے‬

‫کتنے خوابوں کو دو گے تعبیریں‬


‫شاخ سے کتنے پھول چن لو گے‬

‫سوچ کی جرأتوں کو قید کرو‬


‫جال تو تم ہزار بن لو گے‬

‫اس الؤ سے اب گزر جاؤ‬


‫کون سا زندگی سے ہن لو گے‬

‫تم اگر سن لو مجھ پہ کیا گزری‬


‫رنج سے اپنے سر کو د ُھن لو گے‬

‫تم سے جو ُپرخلوص ہوں احمد‬


‫ایسے تم کتنے نام چن لو گے‬
‫اک خواب سا وجود بریدہ بدن مل‬
‫دل کی طرح دماغ بھی بے پیرہن مل‬

‫میں بھی شکست شیشۂ دل سے تھا مضمحل‬


‫وہ بھی ُاداس‪ ،‬رات‪ ،‬سر انجمن مل‬

‫د ُھندل دئیے ہوس نے تقدس کے آئنے‬


‫ہم نے جسے خدا کہا وہ اہرمن مل‬

‫دکھ‬
‫مت پوچھئے سفر کی رفاقت کا ہم سے ُ‬
‫جو بھی مل‪ ،‬وفا کی قسم‪ ،‬راہزن مل‬

‫یہ اور بات دل تھے کدورت کی خستہ قبر‬


‫لہجوں میں نکہتوں سے بھرا بانکپن مل‬

‫گ سد ِ راہ ذہانت تھا دہر میں‬


‫میں سن ِ‬
‫ن فن مل‬‫انسان دوستی سے مجھے حس ِ‬

‫شل ہو گئیں دماغ کی شوریدہ سر رگیں‬


‫سوچوں کو دشت میں وہ اذیت کا رن مل‬

‫ف اشتیاق نہ آیا زبان پر‬


‫اک حر ِ‬
‫احمد وہ اپنے آپ میں اتنا مگن مل‬
‫حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے‬
‫دل سا انگارہ تو پہلے ہی بجھا رکھا ہے‬

‫اے مرے شہر کی بے رحم زمیں کچھ تو بتا‬


‫گ جفا رکھا ہے‬
‫تو نے ہر موڑ پہ کیوں سن ِ‬

‫دکھ ہو تو چہرے پہ بکھیرا جائے‬


‫اک ترا ُ‬
‫کتنے غم ہیں جنہیں سینے سے لگا رکھا ہے‬

‫آپ کا اپنا تو اس میں کوئی پتھر ہی نہیں‬


‫کس لیے دوش پہ کہسار ُاٹھا رکھا ہے‬

‫تو مری آنکھ کے گرداب کے نزدیک نہ آ‬


‫اس میں وہ زہر ہے جو تجھ سے چھپا رکھا ہے‬

‫رکھ رکھاؤ کے چراغوں کی لویں بجھ جائیں‬


‫اس توقع کی اذیت میں بھی کیا رکھا ہے‬

‫میں ترے رنج کے پتھراؤ سے گھبراتا ہوں‬


‫ورنہ اس جسم کو زخموں سے سجا رکھا ہے‬

‫تو مرے کرب کے احساس سے کب گزرا ہے‬


‫دکھ ہے جو دھڑکن میں چھپا رکھا ہے‬
‫یہ تو وہ ُ‬

‫خود کو اب اتنی اذیت بھی نہ دیجے احمد‬


‫ت احساس میں کیا رکھا ہے‬‫سوچیے شد ِ‬
‫ہمیں پہ شہر میں ُاٹھا ہے سنگ آوازہ‬
‫ن گرم کا غازہ‬
‫ہمیں نے ُرخ پہ مل خو ِ‬

‫ُاداسیوں کی کڑی د ُھوپ مجھ پہ رحم نہ کھا‬


‫گئے دنوں کی وفا کا یہی ہے خمیازہ‬

‫ہے تار تار کچھ اتنا لباس حال مرا‬


‫شعورِ ذات بھی کسنے لگا ہے آوازہ‬

‫مجھے بھی دے گا کوئی شہر میں کبھی ترتیب‬


‫ہے کوئی آنکھ کہ بکھرا ہوا ہے شیرازہ‬

‫یہ اور بات کئی حسن دلفریب ملے‬


‫کھل نہ ہم پہ کسی کی ادا کا دروازہ‬

‫دکھ کو بڑے صبر سے سہا احمد‬ ‫ہر ایک ُ‬


‫پہ حادثات میں چہرہ رہا ترو تازہ‬
‫**‬
‫سنسناتے ہوئے پتھر نے مجھے چونکایا‬
‫جب کسی جذبۂ خودسر نے مجھے چونکایا‬

‫سلوٹیں دیکھ‪ ،‬کوئی ُالٹے قدم لوٹا ہے‬


‫رات‪ ،‬تنہائی میں‪ ،‬بستر نے مجھے چونکایا‬

‫اس کو پہلے ہی سفر کا مرے اندازہ تھا‬


‫یک بیک راہ کے پتھر نے مجھے چونکایا‬

‫اپنے آئینے کی قیمت سے تہی علم تھا میں‬


‫تیری آواز کے کنکر نے مجھے چونکایا‬

‫گرد ہر چہرہ خورشید پہ جم سکتی ہے‬


‫ملگجی شام کے منظر نے مجھے چونکایا‬
‫بر کی موت سے سرگشتہ رہوں اچھا ہے‬
‫ایسی آزادی سے زنداں کا سکوں اچھا ہے‬

‫سرخ پتھر سے کئی سال تراشے ہوئے بت‬


‫حبس کی ضرب سے میں چیخ پڑوں اچھا ہے‬

‫جس کی تعمیر میں زخموں سے سجایا ہے بدن‬


‫اب وہی سنگ ُاٹھاتا ہے‪ ،‬کہوں‪ ،‬اچھا ہے‬

‫خود ہی گھائل بھی ہو پتھر بھی ُاٹھائے خود ہی‬


‫زندگی! تیرا یہ اندازِ جنوں اچھا ہے‬

‫تو چمکتے ہوئے چہروں کے بھنور میں کھو جا‬


‫میں شرافت کے اندھیروں میں رہوں اچھا ہے‬

‫کس نے ُرسوائی کے پیکر کو عطا کی توقیر؟‬


‫کچھ تو فرمائیے کس شخص کا خوں اچھا ہے‬

‫میری تنہائی کا یہ دشت نہ آباد کرو‬


‫آپ ہی روؤں میں اب آپ ہنسوں اچھا ہے‬

‫ریزہ ریزہ کی طرح حد نظر تک بکھروں‬


‫فرش پر اتنی بلندی سے گروں اچھا ہے‬

‫میرے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے احمد‬


‫جس قدر حسن کے نزدیک رہوں اچھا ہے‬

‫نہ سہی پیار‪ ،‬حقارت سے کبھی بول کے دیکھ‬


‫کوئی تو زہر مری روح میں تو گھول کے دیکھ‬

‫میری آواز کہاں تک تری دیوار بنے‬


‫ت کرب سے تو بھی تو کبھی بول کے دیکھ‬ ‫شد ِ‬

‫اپنی تنہائی کے اس گھور اندھیرے سے نکل‬


‫کیا ہے باہر کی فضا آنکھ ذرا کھول کے دیکھ‬

‫مجھ سے دریافت نئی صبح کا سورج ہوگا‬


‫گ صحرا کے اندھیروں میں مجھے رول کے دیکھ‬
‫ری ِ‬

‫ماند پڑ جائے گی ہر مہرِ زر و سیم کی دھوپ‬


‫ن تحمل میں کبھی تول کے دیکھ‬
‫مجھ کو میزا ِ‬

‫میرے اخلص کی تصویر جلنے والے!‬


‫دکھ کا منظر تو درِ دیدہ و دل کھول کے دیکھ‬

‫دکھ کو بھل دیتا ہے‬


‫مجھ سا خوش فہم تو ہر ُ‬
‫وضع داری کے بہانے ہی سہی بول کے دیکھ‬

‫دکھ احمد‬
‫دیکھ کس طاق میں جلتا ہے ترا ُ‬
‫سوچتا کیا ہے‪ ،‬درِ قصرِ غزل کھول کے دیکھ‬
‫حیران کر دیا بھرا جنگل پڑاؤ نے‬
‫رکھا ہے دل میں سبز قدم کس لگاؤ نے‬

‫بے لطف دوستی کے سفر نے تھکا دیا‬


‫ساحل پہ دے کے مارا بھنور سے جو ناؤ نے‬

‫ت تازہ لگا کہ پھر‬


‫اے دوست! زخم تہم ِ‬
‫سرسبز کر دیا ہے شجر سکھ کے گھاؤ نے‬

‫ان قربتوں کا ہدیۂ اخلص کچھ تو دے‬


‫خوش بخت کر دیا تجھے جن کے لگاؤ نے‬

‫ُان پستوں کو روح کی نزدیکیوں سے دیکھ‬


‫کاٹا ہے جن کو دل کی ندی کے بہاؤ نے‬

‫تجھ کو تو رفعتوں کا وہ بادل بنا گیا‬


‫دکھ کے الؤ نے‬ ‫تسخیر کر لیا جسے ُ‬

‫ت فن‬
‫کیا کیا بسنت ہونٹ تراشے ہیں دس ِ‬
‫مواج کر دیا ہے تبسم کٹاؤ نے‬

‫ب مصلحت‪ ،‬اے ہم سفر! نہ دے‬ ‫اب تو عذا ِ‬


‫پتھرا دیے ہیں دیدہ و دل رکھ رکھاؤ نے‬

‫ن صدق کی تذلیل کی قسم‬ ‫احمد زبا ِ‬


‫تہذیب یافتہ کیا فن کے جھکاؤ نے‬
‫م ذات کے اوراق پہ بکھری ہوئی شب ہیں‬
‫معیار علیحدہ ہیں پہ انسان تو سب ہیں‬

‫آسیب زدہ ہے ترے ہونٹوں کی حلوت‬


‫افسردۂ خاطر ترے لہجے کے سبب ہیں‬

‫دولت کی ترازو میں بھی ایمان بکا ہے؟‬


‫ب کردار ہیں‪ ،‬پروردہ رب ہیں‬‫ہم صاح ِ‬

‫دیروز کے چہرے کی عبارت بھی ذرا پڑھ‬


‫معمار ہیں آئندہ کے قاتل ترے کب ہیں‬

‫سوگند ہمیں صبح کے کھلتے ہوئے در کی‬


‫ن شب ہیں‬ ‫تعزیر لگاؤ کہ ہمیں رہز ِ‬

‫ہم دونوں محبت کے سوا جانتے کیا تھے‬


‫ایسے تو نہ تھے دوست کہ جس حال میں اب ہیں‬

‫حسن کا پیکر ہے کہ اعصاب کا قاتل‬


‫وہ ُ‬
‫آنکھیں کسی آہو کی ہیں یاقوت سے لب ہیں‬

‫جسموں کے ذخائر کا سمندر ہے مگر ہم‬


‫اک چشم ستم پیشہ سے اخلص طلب ہیں‬
‫ھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے‬
‫اپنے قدموں سے مرے گھر کبھی چل کر آتے‬

‫ذہن‪ ،‬نایافت بشارت کا سمندر ہوتا‬


‫حرف تہذیب کی خوشبو میں جو پل کر آتے‬

‫اس الؤ سے مجھے خوف بہت آتا ہے‬


‫اجنبی! پیار کے کپڑے تو بدل کر آتے‬

‫سہل‪ ،‬فردا کے تقاضوں کی مسافت ہوتی‬


‫غم دیروز سے باہر جو نکل کر آتے‬

‫جانے کس خواب کی تعبیر سے ٹکرائے ہو‬


‫اتنے زخمی تو نہ ہوتے جو سنبھل کر آتے‬

‫رتجگا اتنا مناتے کہ سحر ہو جاتی‬


‫ب روئیدہ سے اک پل جو بہل کر آتے‬ ‫قر ِ‬

‫حوصلہ مند ہی احمد یہ ادا رکھتا ہے‬


‫سوئے مقتل کبھی مجرم نہیں چل کر آتے‬
‫موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے‬
‫ہم زاد مرا قلب کا سادہ بھی بہت ہے‬

‫نفرت بھی محبت کی طرح کرتا ہے مجھ سے‬


‫وہ پیار بھی کرتا ہے ُرلتا بھی بہت ہے‬

‫وہ شخص بچھڑتا ہے تو برسوں نہیں ملتا‬


‫ملتا ہے تو پھر ٹوٹ کے ملتا بھی بہت ہے‬

‫خوشحال ہے مزدور بہت عہد ِ رواں کا‬


‫ماتھے پہ مگر اس کے پسینہ بھی بہت ہے‬

‫ت طلب ابر بھی کھل کر‬‫برسا ہے سرِ دش ِ‬


‫سناٹا مری روح میں گونجا بھی بہت ہے‬

‫تم یوں ہی شریک غم ہستی نہیں ٹھہرے‬


‫سچ بات تو یہ ہے تمہیں چاہا بھی بہت ہے‬

‫ُاٹھتی ہی نہیں آنکھ حیا سے کبھی ُاوپر‬


‫دوپٹہ مگر سر سے ڈھلکتا بھی بہت ہے‬

‫دکھ کو تبسم میں ُاڑا دیتا ہے احمد‬


‫ہر ُ‬
‫بچوں کی طرح پھوٹ کے روتا بھی بہت ہے‬
‫شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں‬
‫سنگ ہوں موم بھی ہو جاتا ہوں‬

‫دل کا دروازہ کھل مت رکھو‬


‫یاد آنکھوں میں پرو جاتا ہوں‬

‫جس کے لہجے میں وفا کھلتی ہو‬


‫میں تو ُاس شخص کا ہو جاتا ہوں‬

‫دن میں سہتا ہوں بصیرت کا عذاب‬


‫شام کے شہر میں کھو جاتا ہوں‬

‫میری خاطر نہ تکلف کیجیے‬


‫میں تو کانٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں‬

‫گاہے اظہار کو دیتا ہوں ہنر‬


‫گاہے دیوالیہ ہو جاتا ہوں‬

‫جب بھی بحران کا َرن پڑتا ہے‬


‫میں تری ذات میں کھو جاتا ہوں‬

‫میں ہوں احساس کی برکھا احمد‬


‫چشم اعصاب بھگو جاتا ہوں‬
‫**‬
‫ا س توقع پہ آس رکھتا ہوں‬
‫آنکھ چہرہ شناس رکھتا ہوں‬

‫جانے کس لمحہ تو پلٹ آئے‬


‫اک یہی دل میں آس رکھتا ہوں‬

‫نہ سہی زر ادا تری قربت‬


‫ت درد پاس رکھتا ہوں‬
‫دول ِ‬

‫مسکرا کر تو دیکھ ایک نظر‬


‫ہدیۂ صد سپاس رکھتا ہوں‬

‫ت گفتگو عطا تو کر‬


‫صحب ِ‬
‫شہد ایسی مٹھاس رکھتا ہوں‬

‫سر سے پا تک شفق گلب ہو تم‬


‫میں دھنک کا لباس رکھتا ہوں‬

‫مسکراتا ہوں بے سبب احمد‬


‫یا طبیعت ُاداس رکھتا ہوں‬
‫وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں‬
‫حرف کا دشت ہوں معنی کا سمندر ہوں میں‬

‫کون جانے کہ یہ خوشبو ہے عبارت مجھ سے‬


‫کیسے سمجھاؤں کہ پھولوں کا مقدر ہوں میں‬

‫مجھ کو آتا نہیں کاندھے پہ جنازہ رکھنا‬


‫منجمد شہر! حرارت کا پیمبر ہوں میں‬

‫اب بھی آتی ہے ترے قرب کے ایام کی آنچ‬


‫اب بھی احساس کا ذخار سمندر ہوں میں‬

‫آخر شب ہے‪ ،‬مری ذات سے نظریں نہ چرا‬


‫اے غم ِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں‬

‫شہر میں حفظ مراتب کا بہت قحط ہے اب‬


‫آپ چاہیں تو چلے آئیں کہ گھر پر ہوں میں‬
‫اس نے اقرار کیا ہے مگر انکار کے ساتھ‬
‫ن طرح دار کے ساتھ‬ ‫حس ِ‬
‫سلسلہ جڑ تو گیا ُ‬

‫ب دل ہیں‪ ،‬کوئی ُرت ہو‪ ،‬بھرم رکھتے ہیں‬‫صاح ِ‬


‫سن و دار کے ساتھ‬‫اپنا رشتہ ہے ازل سے َر َ‬

‫اب کسے تن پہ سجائے گا کڑی دھوپ میں پیڑ‬


‫ٹوٹ کر پتے لگے بیٹھے ہیں دیوار کے ساتھ‬

‫ت خاموش مزاج!‬ ‫ِاک ذرا دیر ٹھہر جا ب ُ ِ‬


‫ب اظہار کے ساتھ‬
‫نطق زنجیر تو کر لوں ل ِ‬

‫عمر بھر کس نے اصولوں کو ترازو رکھا‬


‫کون ُرسوا ہوا اس شہر میں کردار کے ساتھ‬

‫ایک لمحے کو کھل تھا درِ مقتل شب کا‬


‫ت خاص ہے ہر صبح کو تلوار کے ساتھ‬‫رغب ِ‬

‫کس نے ترتیب دیا ذروں سے عالم کا نظام‬


‫مہر و مہ کس نے نمائش کیے پرکار کے ساتھ‬

‫آنکھ پتھرا گئی تکتے ہوئے رستہ لیکن‬


‫خ دلدار کے ساتھ‬
‫روح کا ربط ہے قائم ُر ِ‬

‫میرا خالق ہے مرے فن کی ضمانت احمد‬


‫حرف ترتیب سے چنتا نہیں معیار کے ساتھ‬
‫جنگل سے گزرنا پڑتا ہے‬
‫ہر سائے سے ڈرنا پڑتا ہے‬

‫کب لوٹ کے آتا ہے کوئی‬


‫یہ زخم تو بھرنا پڑتا ہے‬

‫ہر شام ُاجڑ جاتے ہیں ہم‬


‫ہر صبح سنورنا پڑتا ہے‬

‫دہلیز تو پار وہ کر لیتا‬


‫طوفاں سے گزرنا پڑتا ہے‬

‫اب جیب بھی خائف رکھتی ہے‬


‫بچوں سے بھی ڈرنا پڑتا ہے‬

‫یہ پیٹ کا دوزخ بھی کیا ہے‬


‫سو طرح سے بھرنا پڑتا ہے‬

‫سر ہے تو یہ پتھر آئیں گے‬


‫برداشت تو کرنا پڑتا ہے‬

‫کیا تم سے ہاتھ ملئیں ہم‬


‫خفت سے گزرنا پڑتا ہے‬

‫اے زیست! سفر طے کتنا کریں‬


‫اک روز تو مرنا پڑتا ہے‬

‫کتنی بھی بلندی سر کر لو‬


‫نیچے تو ُاترنا پڑتا ہے‬

‫اک دشت سراب ہے یہ‪ ،‬احمد‬


‫خوابوں کو بکھرنا پڑتا ہے‬
‫ش کرب سے گزرتا ہوں‬‫آت ِ‬
‫اب دعاؤں سے پیٹ بھرتا ہوں‬

‫تم سے ملنے کا حوصلہ ہی نہیں‬


‫بدگمانی سے اتنا ڈرتا ہوں‬

‫اس اذیت میں جی رہا ہوں‬


‫صبح مرتا ہوں‪ ،‬شام مرتا ہوں‬

‫دکھ میں‬
‫سوچ پتھرا گئی اسی ُ‬
‫سطح دریا پہ کب ُابھرتا ہوں‬

‫ابر کھل کر برس نہ جائے کہیں‬


‫بادلوں کی گرج سے ڈرتا ہوں‬

‫ف جاودانی ہوں‬
‫ت حر ِ‬
‫نکہ ِ‬
‫دھڑکنوں کو غزل میں بھرتا ہوں‬

‫اپنے پیڑوں کا پھل نہیں کھاتا‬


‫مسکراتا ہوں‪ ،‬صبر کرتا ہوں‬

‫صبح سے شام کی مسافت تک‬


‫د ُھوپ کے دشت سے گزرتا ہوں‬

‫خود گڑھا کھودتا ہوں اپنے لیے‬


‫اور پھر خود ہی اس کو بھرتا ہوں‬

‫دکھ کی بے مہریوں کا موسم ہے‬‫ُ‬


‫سکھ کی آشفتگی سے ڈرتا ہوں‬‫ُ‬

‫تیرے دل میں ُاتار کر سورج‬


‫اپنی آنکھوں میں رات بھرتا ہوں‬
‫اہرمن کون ہے‪ ،‬فرشتہ کون‬
‫مہرباں دوستوں سے ڈرتا ہوں‬

‫اے زمانہ! میں اب کھلونا نہیں‬


‫َاب میں بچوں سے پیار کرتا ہوں‬

‫کون ہوتا ہے خلوتوں میں مکیں‬


‫رات بھر کس سے بات کرتا ہوں‬

‫َاب میں اپنے ہی شہر سے احمد‬


‫ل گرد ِ سحر گزرتا ہوں‬
‫مث ِ‬
‫چراِغ راہ بجھا ہے تو سوچتا ہوں میں‬
‫نہ جانے کون تھا جس سے بچھڑ گیا ہوں میں‬

‫درِ سماع سے دستک جو دے کے لوٹ آئی‬


‫ت قیمت دل کی وہ اک صدا ہوں میں‬
‫شکس ِ‬

‫دکھ کتنے‬
‫ہیں میرے گرد مرے دوستوں کے ُ‬
‫کوئی بھی لمحۂ فرصت ہو‪ ،‬سوچتا ہوں میں‬

‫ی وفا کو لیے‬
‫نہ جانے کون سی خوش فہم ِ‬
‫دکھوں کے تیز الؤ میں جل رہا ہوں میں‬
‫ُ‬

‫کسے یقیں ہے رہیں گے بھی استوار سدا‬


‫تعلقات کی دہلیز پر کھڑا ہوں میں‬

‫غم ِ حیات سے جب بھی مل ہے مجھ کو فراغ‬


‫تمہاری یاد کی بانہوں میں آ گیا ہوں میں‬

‫کوئی بتائے کبھی لوٹ کر بھی آئیں گے‬


‫گئے سموں کو جو آواز دے رہا ہوں میں‬

‫تو اپنا ہاتھ ذرا اپنے دل پہ رکھ کے تو دیکھ‬


‫دھڑک ُاٹھے گا یقینا کہ غم زدہ ہوں میں‬

‫نظر مل کہ مرا حوصلہ جوان رہے‬


‫ت شہر! ترے سامنے کھڑا ہوں میں‬
‫سکو ِ‬

‫نہ پوچھ دل پہ جو گزری ہے جستجو میں تری‬


‫خود اپنے گھر کا پتہ پوچھتے پھرا ہوں میں‬

‫لگا نہ ہاتھ مرے جسم کو تو باد ِ وفا!‬


‫گزرتے وقت کی ڈھلوان پر کھڑا ہوں میں‬
‫جو تیرا قرب بھی گزرے تو ٹھوکریں کھائے‬
‫ر ِہ وفا میں وہ پتھر بنا ہوا ہوں میں‬

‫شعور ہے تو مری ذلتوں کو سجدہ کر‬


‫ترے وقار کی بنیاد ہو گیا ہوں میں‬

‫جہاں کسی کے تبسم کی اک کرن بھی نہیں‬


‫غم ِ حیات کے ُاس موڑ پر کھڑا ہوں میں‬

‫رکھا نہ ُاس نے مرے پیار کا بھرم احمد‬


‫وہ آدمی کہ جسے اب بھی پوجتا ہوں میں‬
‫’’’‬
‫دکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو‬ ‫ُ‬
‫ُ‬
‫یہ جو طوفاں سا امڈ آیا ہے‪ُ ،‬رک جانے دو‬

‫مدتوں بعد تو پلٹا ہے بدل کر ملبوس‬


‫گھر کا دروازہ کھل رکھو‪ ،‬اسے آنے دو‬

‫وقت بیمار مسافر ہے‪ ،‬گزر جائے گا‬


‫رائگاں ایک بھی لمحہ نہ کوئی جانے دو‬

‫اک تہی دست ہے اور ایک مقدر کا دھنی‬


‫کتنے مقبول ہوئے شہر میں دیوانے دو‬

‫عمر بھر کون سا برسا ہے کرم کا بادل‬


‫ب بل‪ ،‬آنے دو‬
‫گھر میں آتا ہے جو سیل ِ‬

‫آئنہ سامنے رہنے دو ابھی ماضی کا‬


‫سلوٹیں دیکھ کے پیشانی پہ پچھتانے دو‬

‫س ربط سے باہر تو نہیں جا سکتا‬


‫محب ِ‬
‫قید جتنا بھی رکھو اشک تو تھم جانے دو‬

‫زندگی کرب کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے‬


‫اب تو اس پیکر بے مثل کو گھر آنے دو‬
‫چھا گئے بام ِ جدائی پہ سحاب‬
‫ہو گئے خواب‪ ،‬تبسم کے گلب‬

‫عمر بھر ہم سر قربت ٹھہرے‬


‫دل میں دیکھا نہ ُاترتا مہتاب‬

‫پہلے تہذیب کا مکتب تھے دیے‬


‫اب سکھاتی ہیں ہوائیں آداب‬

‫کتنا بھی پیار کا بادل برسے‬


‫دل کا صحرا نہیں ہوتا سیراب‬

‫کرب کی دھوپ مسلسل جو پڑے‬


‫سوکھ جاتا ہے بدن کا تالب‬

‫اے ہوا! بند دریچہ مت کھول‬


‫ٹوٹ جائے نہ کہیں صبح کا خواب‬

‫ت خامہ میں ہے لرزش کی لکیر‬‫دس ِ‬


‫ت بے آب‬
‫س تحریر ہے دش ِ‬
‫طا ِ‬

‫ایک بھی گھر نہ بچے گا اب کے‬


‫پورے جوبن پہ ہے برکھا کا شباب‬

‫دن کا ُاجیال ہے قاتل احمد‬


‫اب اندھیرے میں مہکتا ہے گلب‬
‫ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو‬
‫مجھے ُاجاڑنے والے! مرا شعور ہے تو‬

‫میں تیرے شہر میں یوں صبح و شام کاٹتا ہوں‬


‫نڈھال زخموں سے ہو جیسے دشت میں آہو‬

‫خدا کے واسطے یہ کھیت مت ُاجاڑنے دو‬


‫زمیں کی کھاد بنا دو بدن کا گرم لہو‬

‫میں تیرے نام کا کتبہ ُاٹھائے پھرتا ہوں‬


‫جبین دہر کی تابندگی! کہاں ہے تو‬

‫فقی ِہ شہر بتا اتنی قحط سالی کیوں‬


‫ہے اختیار تو کر ان کی بھوک کا دارو‬

‫زبان و حرف قفس ہوں‪ ،‬خیال و فکر صلیب‬


‫تم ان خطوط پہ دو گے دماغ و دل کو نمو‬

‫نکھر رہے ہیں نئی ُرت میں خار و خس احمد‬


‫بکھر رہی ہے چمن میں گلب کی خوشبو‬
‫اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا‬
‫حالت کے گرداب سے نکل نہیں جاتا‬

‫اب گھر میں سکوں کی کوئی تصویر نہیں ہے‬


‫اب شہر کی سڑکوں پہ بھی گھوما نہیں جاتا‬

‫گ ملمت لیے ُاٹھے‬ ‫ہر آنکھ جہاں سن ِ‬


‫آئینۂ احساس بچایا نہیں جاتا‬

‫دل پاؤں پکڑتا ہے مگر لب نہیں ہلتے‬


‫اب جاتے ہوئے شخص کو پکڑا نہیں جاتا‬

‫سوچوں تو ُابھرتے نہیں خال و خد ِ الفاظ‬


‫چاہوں بھی تو اب خط ُاسے لکھا نہیں جاتا‬

‫دکھ مجھے زنجیر کیے ہے‬ ‫ہر لمحہ نیا ُ‬


‫باہر قفس فکر سے آیا نہیں جاتا‬

‫کس شخص کا دل جیتو گے اس شہر میں احمد‬


‫اس آنکھ کا کاجل تو چرایا نہیں جاتا‬
‫جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں‬
‫خواب میں تتلیاں پکڑتا ہوں‬

‫قامت و قد میں ہوں پہاڑ مگر‬


‫اپنے اندر میں ریزہ ریزہ ہوں‬

‫چھاؤں کرتا ہوں شہر میں تقسیم‬


‫اپنے چہرے پہ دھوپ ملتا ہوں‬

‫بجھ گیا ہے الؤ جذبوں کا‬


‫سوچ کی رہگذر پہ تنہا ہوں‬

‫مرثیہ ہوں جو مصلحت برتو‬


‫دل سے چاہو تو ایک نغمہ ہوں‬

‫ت حاکم غلط کرنا‬‫بیع ِ‬


‫ت زندگی سمجھتا ہوں‬‫لعن ِ‬

‫ب تیرہ میں چمکتا ہے‬


‫جو ش ِ‬
‫میں وہ کردار کا ستارہ ہوں‬

‫مہرباں سائے یاد آتے ہیں‬


‫ہاڑ کی دوپہر میں جلتا ہوں‬

‫جانے والوں کے لکھ رہا ہوں کرم‬


‫آنے والوں کی سوچ پڑھتا ہوں‬

‫شمِع دل تو جل کے دیکھ مجھے‬


‫تیری منزل کا سیدھا رستہ ہوں‬

‫خلق عہد میں احمد‬


‫ہر تہی ُ‬
‫غم زدوں کے لیے مسیحا ہوں‬
‫چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا‬
‫ملے گا شہر میں ہم کو مکان خالی کیا‬

‫چھلک پڑے جو تمہیں دیکھ کر‪ ،‬بتاؤ مجھے‬


‫ان آنسوؤں نے مری آبرو بچا لی کیا‬

‫یہ دھڑکنیں ہیں علمت‪ ،‬چھپا ہوا تو نہیں‬


‫نظر کی اوٹ میں پیکر کوئی خیالی کیا‬

‫ت لب ٹوٹے‬
‫کسی طرح تو طلسم ِ سکو ِ‬
‫گ تبسم‪ ،‬یہ قحط سالی کیا‬
‫کوئی تو رن ِ‬

‫یہاں تو سب ہی پریشاں دکھائی دیتے ہیں‬


‫دکھوں کے شور میں ہوگا بدن سوالی کیا‬
‫ُ‬

‫جواں ہوئے تو کئی سال ہو گئے احمد‬


‫ہے اب بھی ُاس کی طبیعت میں ل ُابالی کیا‬
‫س لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا‬
‫وہ حب ِ‬
‫ت شہر کا در کھولنے لگا‬ ‫میں جب سکو ِ‬

‫اک خوف سا لگا مجھے خالی مکان سے‬


‫کل رات اپنے سائے سے دل ہولنے لگا‬

‫انگڑائی لے رہا ہو کوئی جیسے بام پر‬


‫خورشید روئے شرق پہ پر تولنے لگا‬

‫دوں گا کسے صدا کہ سماعت کو آ سکے‬


‫اے یاد ِ یار! زخم اگر بولنے لگا‬

‫ل اعتماد کنارے پہ آ گئے‬


‫ہم اہ ِ‬
‫گرداب میں سفینہ اگر ڈولنے لگا‬

‫روشن ہوئے نہ تھے ابھی آثار صبح کے‬


‫دل بانجھ جرأتوں کی گرہ کھولنے لگا‬

‫احمد میں اپنے صدق پہ ثابت ثمر رہا‬


‫نفرت کا زہر قرب اگر گھولنے لگا‬
‫ک ُھل تھا اک یہی رستہ تو اور کیا کرتا‬
‫نہ دیتا ساتھ ہوا کا تو اور کیا کرتا‬

‫بہت دنوں سے پریشان تھا جدائی میں‬


‫جو َاب بھی تجھ سے نہ ملتا تو اور کیا کرتا‬

‫ت تسلی‪ ،‬نہ ہے سکون کا شہر‬ ‫نہ کوئی دش ِ‬


‫ُاجالتا جو نہ صحرا تو اور کیا کرتا‬

‫بشر تو آنکھ سے اندھا تھا کان سے بہرہ‬


‫تجھے صدا جو نہ دیتا تو اور کیا کرتا‬

‫مرے سفر میں محبت کا سائبان نہ تھا‬


‫بدن پہ دھوپ نہ ملتا تو اور کیا کرتا‬

‫ن مدعا نہ مل‬‫ترے حضور بھی جب اذ ِ‬


‫متاِع جاں نہ گنواتا تو اور کیا کرتا‬

‫حصارِ یاد کی زنجیر توڑ کر احمد‬


‫کھلی فضا میں نہ آتا تو اور کیا کرتا‬
‫ندر کا ہر کرب چھپاتے پھرتے ہیں‬
‫ہم دیوانے لوگ ہنساتے پھرتے ہیں‬

‫چہرہ چہرہ ہر دل کی دیوار سے ہم‬


‫اپنے نام کے حرف مٹاتے پھرتے ہیں‬

‫گ سبز‬
‫شاخ سے ٹوٹ کے قریہ قریہ بر ِ‬
‫ل بہار کا حال سناتے پھرتے ہیں‬
‫فص ِ‬

‫وہ جو دل کو دل کی رحل پہ رکھتے تھے‬


‫اب ہم ان کا کھوج لگاتے پھرتے ہیں‬

‫پہلے دھوپ کے لمس کو ہم نے برف کیا‬


‫اب ہم برف پہ پاؤں جلتے پھرتے ہیں‬

‫اب تو اپنے سائے سے آئینہ لوگ‬


‫اپنا عیب ثواب چھپاتے پھرتے ہیں‬

‫ط سماعت سے دیواروں کو‬ ‫احمد قح ِ‬


‫تازہ غزل کے شعر سناتے پھرتے ہیں‬
‫دل یہ کہتا ہے کہ تعبیر کا گھر دیکھوں گا‬
‫رات آنکھوں میں گزاروں تو سحر دیکھوں گا‬

‫اے غم زیست! کوئی موڑ بھی منزل کا نہیں‬


‫اور کب تک میں مسلسل یہ سفر دیکھوں گا‬

‫یہ جو ہر لمحہ دھڑکتی ہے مرے سینے میں‬


‫اس کسک کو بھی کبھی جسم بدر دیکھوں گا‬

‫مجھ کو تصویر کا بس ایک ہی ُرخ بھاتا ہے‬


‫کس طرح سے ترا ویران نگر دیکھوں گا‬

‫اب تو اس خواب سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں‬


‫کب سراپا کو ترے ایک نظر دیکھوں گا‬

‫یہ مرا شہر ہے‪ ،‬اس شہر میں میں رہتا ہوں‬
‫کیسے ان آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر دیکھوں گا‬

‫ق شرق سے پو پھوٹ رہی ہے احمد‬ ‫ُ‬


‫اف ِ‬
‫اب میں بستی کا ہر اک فرد نڈر دیکھوں گا‬
‫بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے‬
‫بعض ایثار کا اک عمر قلق ہوتا ہے‬

‫لفظ اخلص کا دھڑکن میں چھپا رہتا ہے‬


‫ب اظہار تو اک سادہ ورق ہوتا ہے‬
‫ل ِ‬

‫آئنہ صاف خدوخال دکھا دیتا ہے‬


‫چہرہ غیروں کا نہیں اپنوں کا فق ہوتا ہے‬

‫میں تجھے کون سے لہجے میں ملمت بھیجوں‬


‫اچھے گھوڑے کو تو چابک بھی سبق ہوتا ہے‬

‫میرے ہر جرم ِ وفا سے ہے شناسا عالم‬


‫تیرے اخلص کا احساس ادق ہوتا ہے‬

‫جب بھی ماتھے پہ چمکتا ہے عرق بن کے لہو‬


‫گ شفق ہوتا ہے‬
‫مطلِع دل پہ عجب رن ِ‬

‫ق وفا سے احمد‬‫خل ِ‬
‫کون محروم رہا ُ‬
‫تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے‬
‫دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا‬
‫کتنے چہروں کے تبسم کا یہ مدفن ہوگا‬

‫تو اگر مجھ سے گریزاں ہے کوئی بات نہیں‬


‫کوئی چہرہ تو مرے قلب کی دھڑکن ہوگا‬

‫مجھ سے آئے گی تجھے شعلۂ کردار کی آنچ‬


‫میرے معیار پہ ُاترے گا تو کندن ہوگا‬

‫نہ کوئی خواب‪ ،‬نہ تعبیر‪ ،‬نہ خواہش‪ ،‬نہ کسک‬


‫اتنا ویران کسی گھر کا نہ آنگن ہوگا‬
‫دکھ کے الؤ میں جلیں گے احمد‬ ‫عمر بھر ُ‬
‫تن کے دوزخ کا غم ِ زیست ہی ایندھن ہوگا‬
‫میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫جگ میں کس کا کون ہوا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫من مورکھ ہے‪ ،‬مت سمجھاؤ‪ ،‬کرنی کا پھل پائے گا‬
‫چڑھتا دریا کب ٹھہرا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫تم تو اب بھی مجھ سے پہروں دھیان میں باتیں کرتے ہو‬
‫ک تعلق کیا ہوتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫تر ِ‬
‫جانے والے حد یقیں تک‪ ،‬ہم نے جاتے دیکھے ہیں‬
‫واپس لوٹ کے کون آتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫میں سوچوں کی جلتی دھوپ اور وہ تسکین کی گہری چھاؤں‬
‫میرا اس کا ساتھ ہی کیا ہے‪ ،‬سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫اک تجھ پر ہی کیا موقوف کہ سب ہی پیٹ کے ہلکے ہیں‬
‫ف دل گہرا ہے؟ سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫کس کا ظر ِ‬
‫احمد اس کا چہرہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھاتا ہے‬
‫دکھ میں وہ رویا ہے‪ ،‬سب کہنے کی باتیں ہیں‬
‫تیرے ُ‬
‫س وفا شہر میں خوشی کی طرح‬ ‫گراں ہے جن ِ‬
‫پرانے دوست بھی ملتے ہیں اجنبی کی طرح‬

‫کبھی تو آئے گا چشم ِ یقیں کے حلقے میں‬


‫ط دل پہ جو ُابھرا ہے چاندنی کی طرح‬
‫بسا ِ‬

‫کوئی چراغ نہ ہو جس کے صحن میں روشن‬


‫مرا وجود ہے اس شب کی تیرگی کی طرح‬

‫وہ ابرِ خاص کہ جس سے بڑی توقع تھی‬


‫دیارِ روح سے گزرا ہے اجنبی کی طرح‬

‫ل خرد نہ جچی‬
‫مری نظر میں کوئی منز ِ‬
‫ق گمرہی کی طرح‬ ‫سدا سفر میں رہا ذو ِ‬

‫کچھ اور دور ہو مجھ سے کہ اور نکھرے گا‬


‫ترا شعور مرے فن شاعری کی طرح‬

‫تھے جتنے جسم کے عقدے وہ حل ہوئے احمد‬


‫لہو کی خاک بھی چھانی تو دشت ہی کی طرح‬
‫دکھوں میں ضبط کی زنجیر تو پہن لوں گا‬ ‫ُ‬
‫میں اپنا سر کسی دہلیز پر نہ رکھوںگا‬

‫میں تیرے قرب کے تسکین بخش پہلو میں‬


‫یہ ایک رات تو کیا ساری عمر جاگوں گا‬

‫دکھ نہ سناؤں گا شہر والوں کو‬


‫میں اپنا ُ‬
‫ترے وقار کی اے دوست لج رکھوں گا‬

‫وہ ایک شخص بھی اخلص سے تہی نکل‬


‫وفا کی سرد ترازو میں کس کو تولوں گا‬

‫ت شیشۂ دل سے تو موت بہتر ہے‬ ‫شکس ِ‬


‫کوئی بتائے کہ کب تک یہ زہر چاٹوں گا‬

‫میں ایک شعلۂ احساس ہوں‪ ،‬اے شہر سکوت!‬


‫دماغ و دل بھی ہوئے منجمد تو بولوں گا‬

‫یہ تیرے ماتھے پہ تازہ شکن جو ُابھری ہے‬


‫اسی لکیر کے گرداب سے میں ُابھروں گا‬

‫ترے لبوں کے تبسم کے سرخ پتھر پر‬


‫میں اپنی روح کے لرزیدہ ہونٹ رکھ دوں گا‬

‫وہ میرے پاس بھی آ کر ستائے گا احمد‬


‫میں ُاس سے دور بھی رہ کر ُ‬
‫دعائیں ہی دوں گا‬
‫خواب میں کچھ اور تھا چہرہ تری تصویر کا‬
‫مہر برلب تھا مسافت میں بدن تعبیر کا‬

‫رنگ لتا ہے بہرصورت لہو شبیر کا‬


‫سلسلہ در سلسلہ پھیلؤ ہے زنجیر کا‬

‫ڈھونڈتا ہے کس گئی ُرت کی رمیدہ خواہشیں‬


‫جبر کے سکرات میں افتادہ دل تقدیر کا‬

‫ایک ہالہ سا ملمت کا بنا رہتا ہے گرد‬


‫ی توقیر کا‬‫ُرخ دمکتا ہی نہیں شاداب ِ‬

‫رات کی گہری سیاہی میں بھی مٹ جاتے ہیں نقش‬


‫دھوپ میں بھی رنگ ُاڑ جاتا ہے ہر تصویر کا‬

‫جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا‬


‫مٹ نہیں سکتا لکھا انسان کی تقدیر کا‬

‫دعا کس سے کرے‬ ‫ناُامید آنکھوں کی تاریکی‪ُ ،‬‬


‫کون ہے‪ ،‬کس نے جلنا اب دیا تاثیر کا‬

‫زندگی ایسی کئی قربان اس کی ذات پر‬


‫ہاتھ آ جائے کوئی نکتہ اگر تفسیر کا‬

‫کس کی جنبش کا تسلسل ہے زمیں سے تا ُافق‬


‫ت تحریر کا‬
‫ہے معطر طاس‪ ،‬کس کی نگہ ِ‬

‫ت شوریدہ سے احمد کھلی چشم ِ ہنر‬‫قو ِ‬


‫کس تیقن سے ہوا مجرم قدم تاخیر کا‬
‫مسرتوں کی کرن کو ترس گئے ہم تم‬
‫ح وطن کو ترس گئے ہم تم‬‫ت صب ِ‬
‫ثبو ِ‬

‫دلوں میں پھیل گئی رنجشوں کی تاریکی‬


‫ط بدن کو ترس گئے ہم تم‬
‫خلوص و رب ِ‬

‫دل و نگاہ کی بے چہرگی کے صحرا میں‬


‫دلہن کو ترس گئے ہم تم‬
‫صباحتوں کی ُ‬

‫نہ اتفاق کا لہجہ‪ ،‬نہ اختلف کی ضد‬


‫صداقتوں کے دہن کو ترس گئے ہم تم‬

‫یہ کیسی رات ڈھلی‪ ،‬مصلحت کا دن نکل‬


‫ح بدن کو ترس گئے ہم تم‬
‫ن رو ِ‬
‫سکو ِ‬

‫ت شام کے منظر میں ڈھل گئیں سوچیں‬‫سکو ِ‬


‫ف قریۂ فن کو ترس گئے ہم تم‬‫طوا ِ‬

‫دعا کے گلب سوکھ گئے‬‫ف ُ‬‫لبوں پہ حر ِ‬


‫س شکن کو ترس گئے ہم تم‬‫جبیں پہ قو ِ‬

‫ہوائے شہر کا ُرخ ہی بدل گیا احمد‬


‫نگارِ شیریں سخن کو ترس گئے ہم تم‬
‫پتھر کہیں گے لوگ‪ ،‬سر رہگذر نہ بیٹھ‬
‫چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ‬

‫ناعاقبت شناس رفیقوں سے بچ کے رہ‬


‫کج بحث دوستوں میں کبھی دیدہ ور نہ بیٹھ‬

‫ت شیشۂ دل آشنا نہیں‬ ‫یہ تو شکس ِ‬


‫ان پتھروں کی سامنے آئینہ گر نہ بیٹھ‬

‫اے رہروِ سکون وفا! حوصلہ نہ ہار‬


‫محرومیوں کی تپتی ہوئی ریت پر نہ بیٹھ‬

‫گرتی ہے جس پہ برق یہی وہ لباس ہے‬


‫سر پر دکھوں کی کالی ردا اوڑھ کر نہ بیٹھ‬

‫س نظر دائمی نہیں‬ ‫گ قو ِ‬‫کوئی بھی رن ِ‬


‫یہ حبس عارضی ہے دل معتبر نہ بیٹھ‬

‫احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر‬


‫خائف نہ ہو‪ ،‬نظر نہ چرا‪ ،‬چھپ کے گھر نہ بیٹھ‬
‫خ جذبات کا در کھول تو سکتی ہے غزل‬
‫کا ِ‬
‫چپ کے ِاس دور میں کچھ بول تو سکتی ہے غزل‬

‫اتنے مایوس ہو کیوں شہر کے ماحول سے تم‬


‫حبس کتنا بھی ہو پر تول تو سکتی ہے غزل‬

‫تلخ اتنا تو نہیں ذائقۂ صوت و حروف‬


‫ن ذی فہم میں رس گھول تو سکتی ہے غزل‬ ‫ذہ ِ‬

‫اور کچھ روز اسی خاک پہ پتھرانا ہے‬


‫مجھ کو مٹی میں ابھی رول تو سکتی ہے غزل‬

‫ط مسرت ہو مگر خامۂ سرخ‬‫کتنا بھی قح ِ‬


‫غم ِ ہر دل کی گرہ کھول تو سکتی ہے غزل‬

‫اس کھڑی جھیل میں احمد کوئی پتھر پھینکو‬


‫کسی لہجے میں سہی بول تو سکتی ہے غزل‬
‫ف نگارِ درد کا سایہ نہ تھا کبھی‬
‫ل ِ‬
‫یہ وہ لباس ہے کہ جو پہنا نہ تھا کبھی‬

‫یادوں کا کارواں بھی گزرتا نہیں کوئی‬


‫ت وفا میں اتنا تو تنہا نہ تھا کبھی‬
‫دش ِ‬

‫محرومیوں کی دھوپ میں جلتے ہوئے بدن‬


‫حد نگاہ تک تو یہ صحرا نہ تھا کبھی‬

‫ف آبرو!‬‫کیا بات ہو گئی ہے بتا ظر ِ‬


‫اس تیرہ خاکداں سے تو جھانکا نہ تھا کبھی‬

‫یہ اور بات ہے کہ تری جستجو تو تھی‬


‫اے درد ِ شادماں! تجھے دیکھا نہ تھا کبھی‬

‫تم ڈھونڈتے ہو شہر میں جس کو گلی گلی‬


‫ایسا گیا ہے جیسے وہ رہتا نہ تھا کبھی‬

‫کچھ تو کہو اے دیدہ ورو کیا ہوا اسے‬


‫بے پیرہن تو روح کو دیکھا نہ تھا کبھی‬

‫کس تمکنت کے ساتھ ہے کانٹوں پہ محو خواب‬


‫پھولوں کی سیج پہ بھی جو سویا نہ تھا کبھی‬

‫ط درد‬
‫احمد یہ اب سے پہلے تو ابر نشا ِ‬
‫پلکوں سے اتنا ٹوٹ کے برسا نہ تھا کبھی‬
‫یہ الگ بات‪ ،‬ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے‬
‫ش جاں! کس نے ستایا ہے مجھے‬ ‫اے مری کاہ ِ‬

‫اتنی نفرت تو مرے دل میں نہ جاگی تھی کبھی‬


‫سوچ‪ ،‬کس شخص نے یہ زہر پلیا ہے مجھے‬

‫پھر کوئی تازہ کسک دل کی تہوں میں ُاتری‬


‫پھر کسی خواب نے آئینہ دکھایا ہے مجھے‬

‫کس نے لوٹا ہے مرے ذہن کی سوچوں کا سہاگ‬


‫اے مرے قلب تپاں! کس نے چرایا ہے مجھے‬

‫دنیا‬
‫تیری چیخیں بھی کسی روز سنے گی ُ‬
‫مصلحت کیش! اگر تو نے ُرلیا ہے مجھے‬

‫میں یہی سوچ کے چپ ہوں کہ کسی طور سہی‬


‫گنبد ِ درد کے کنگرہ پہ سجایا ہے مجھے‬

‫ابر تزویر ہوا جب بھی کبھی سایہ فگن‬


‫ت شعلۂ ادراک نے پایا ہے مجھے‬
‫حد ِ‬

‫میں تو سر تا بہ قدم تیرا فقط تیرا تھا‬


‫ف کم حوصلہ! خود تو نے گنوایا ہے مجھے‬ ‫ظر ِ‬

‫ُاس کے گھر میں بھی کسی ُ‬


‫دکھ کی سیاہی بھر دے‬
‫شب کی دہلیز کا پتھر تو بنایا ہے مجھے‬

‫تو مرا کیسا خدا ہے! مری لغزش تو بتا‬


‫زندگی بھر جو بلندی سے گرایا ہے مجھے‬

‫کس کے اخلص سے کوتاہی ہوئی ہے احمد‬


‫کس نے اس ضبط کا انگارہ بنایا ہے مجھے‬
‫شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے‬
‫ط معتبر آئی تو ہے‬
‫رقص میں ضد پر نشا ِ‬

‫ل خامشی اک مرد نے‬ ‫شکر ہے توڑا تو قف ِ‬


‫ض ہنر آئی تو ہے‬
‫ت عر ِ‬‫مدتوں میں جرأ ِ‬

‫گھپ اندھیرے میں تبسم کا دیا روشن کریں‬


‫زندہ رہنے کی یہ اک صورت نظر آئی تو ہے‬

‫قربتوں کے سرد ہاتھوں میں لیے خفگی کے پھول‬


‫دوستی نظارگی کے بام پر آئی تو ہے‬

‫ہم یہ سمجھے تھے کہ آنکھیں زرد ہو جائیں گی اب‬


‫ل گل صحن چمن میں لوٹ کر آئی تو ہے‬ ‫فص ِ‬

‫دکھ تو ہم نے سہہ لیے اب دیکھئے آگے ہو کیا‬


‫ُ‬
‫ح نو کی رہگذر آئی تو ہے‬‫انقلب صب ِ‬

‫ہے خجل قد سہی اخلص کی تضحیک پر‬


‫آبرومندی کی اب ُامید بر آئی تو ہے‬

‫بے سبب جس نے قبیلے میں کیا ُرسوا مجھے‬


‫ُاس کے چہرے پر تھکن کی دوپہر آئی تو ہے‬

‫آؤ احمد بڑھ کے لیں تکریم سے ُاس کے قدم‬


‫ل وقت گھر آئی تو ہے‬
‫تم سے ملنے ِاک غزا ِ‬
‫دکھ کے سکوں نہ سکھ کی خوشی کا سراب ہے‬‫ُ‬
‫اک رنج رائیگاں کی طلب بے حساب ہے‬

‫لغزش کے سہو پر مجھے شرمندگی نہیں‬


‫قربت کی ہر کجی مری گل آفتاب ہے‬

‫پچھلے برس بھی نیکیاں سب ضائع ہو گئیں‬


‫اب کے برس بھی جان! کڑا احتساب ہے‬

‫بے شک وہ بے وفا ہے مگر اس کی راہ میں‬


‫دل کی طرح چراغ جلنا ثواب ہے‬

‫اے صبح نو! لہو کی حرارت بھی کر عطا‬


‫ہیں برف حرف لب پہ یہی انقلب ہے‬

‫دکھ نہ دے ُاسے‬
‫نفرت بھی وہ کرے تو کوئی ُ‬
‫اے رب ذوالجلل! مرا انتخاب ہے‬

‫آنکھوں میں نفرتوں کے مضامین درج ہیں‬


‫دل پر جو ہے رقم وہ ترا انتساب ہے‬

‫دریا کے دو کناروں کی صورت ہے ان دنوں‬


‫یا ضد ِ اختلف ہے یا اجتناب ہے‬

‫فرصت ملے تو ُاس کو ہر اک زاویے سے پڑھ‬


‫وہ صرف ایک جسم نہیں ہے‪ ،‬کتاب ہے‬

‫اندھی سماعتوں کی زمیں پر مقیم ہوں‬


‫ط سراب ہے‬ ‫اب حرف مدعا بھی نشا ِ‬

‫احمد وفا کے لفظ کو بدذائقہ نہ کر‬


‫اس عہد میں تو اس کا تصور بھی خواب ہے‬
‫سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی‬
‫ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے بھی‬

‫ت عجز کے ہاتھ‬
‫متاِع فقر بھی آئی نہ دس ِ‬
‫ت وقار سے بھی‬
‫گریز پا ہی رہا دول ِ‬

‫ہم اہل دل ہی نہ سمجھے وفا کے منصب کو‬


‫ہوئی ہے ہم کو ندامت ستم شعار سے بھی‬

‫لہو ہے قلب ترے تمکنت کے لہجے سے‬


‫ف انکسار سے بھی‬
‫عرق عرق ہے جبیں حر ِ‬

‫ت شب کی مثال ہے ہر سوچ‬ ‫چراِغ ظلم ِ‬


‫ح انتظار سے بھی‬
‫ہمیں تو کچھ نہ مل صب ِ‬

‫بجھا نہ شعلہ کوئی کرب کے الؤ کا‬


‫ترے لبوں کے تبسم کے آبشار سے بھی‬

‫میں ُاس کی ذات سے مایوس ہوں‪ ،‬محال ہے یہ‬


‫ُاسے تو پیار ہے بے حد گناہگار سے بھی‬

‫یہ خواہشوں کی مسافت عذاب ہے احمد‬


‫ب جسم کے حصار سے بھی‬‫نکل کے دیکھ ش ِ‬
‫ش لب کی دھنک ہیئت تمثیلی تھی‬
‫لرز ِ‬
‫میرے احساس نے خود میری زباں کیلی تھی‬

‫خ حرم! چاک حسد تک نہ سیا‬


‫تو نے اے شی ِ‬
‫ن ہوس نے تو قبا سی لی تھی‬‫ہم فقیرا ِ‬

‫آنکھ جس قلب میں ُاتری وہی آئینہ تھا‬


‫ہاتھ جس شاخ پہ رکھا وہی لچکیلی تھی‬

‫ف اخلص بھی لہجے کی طرح سندر تھا‬


‫حر ِ‬
‫روح پر جسم کی پوشاک بھی چمکیلی تھی‬

‫ل ہر لفظ ہے آئینۂ احساس مجھے‬‫د ِ‬


‫ب اظہار! تری سوچ ہی زہریلی تھی‬
‫ل ِ‬

‫میں جسے شہر کے ہنگامے میں کھو آیا ہوں‬


‫چشم ِ اخلص و تعاون تھی مگر نیلی تھی‬

‫کس طرح پاؤں جماتا کوئی اندیشۂ غم‬


‫میرے ادراک کی مٹی ہی بہت گیلی تھی‬

‫اب تو ہر بند ِ سخن جسم معانی پہ ہے چست‬


‫اس سے پہلے جو کہی تھی وہ غزل ڈھیلی تھی‬

‫ب وفا تھا احمد‬


‫ف آدا ِ‬
‫وہ بھی ناواق ِ‬
‫اور کچھ آپ میں بھی پہلے سے تبدیلی تھی‬
‫قصرِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں‬
‫ب زندگی! میں عجب مخمصے میں ہوں‬
‫آشو ِ‬

‫کیوں جرم بے گناہی پہ دیتا ہے قید سخت‬


‫فرد ِ عمل تو دیکھ‪ ،‬میں کس قاعدے میں ہوں‬

‫تو میرے خال و خد کبھی پہچان کے تو دیکھ‬


‫آئینہ ساز! میں بھی ترے آئینے میں ہوں‬

‫دکھ ہو بعد میں‬


‫اتنا نہ حد سے بڑھ کہ تجھے ُ‬
‫میں عاقبت شناس ہوں اور حوصلے میں ہوں‬

‫کچھ تو بتا اے ذہن حقیقت شناس دہر‬


‫حلقہ بگوش وہم میں کس سلسلے میں ہوں‬

‫وہ شورشیں تو دکھ کی لحد میں ُاتر گئیں‬


‫زندہ اگرچہ چشم یقیں دیکھنے میں ہوں‬

‫چاہے میں تیرے دکھ کی تلفی نہ کر سکوں‬


‫ک غم تو ترے سانحے میں ہوں‬
‫لیکن شری ِ‬

‫آنکھوں میں َرت جگوں کی تھکن ہی انڈیل دے‬


‫تشنہ خلش نہ رکھ کہ ترے میکدے میں ہوں‬

‫کن لغزشوں پہ منظر عبرت نظر ہوا‬


‫گ رہ تماشہ‪ ،‬یہ کس سلسلے میں ہوں‬
‫سن ِ‬

‫احمد یہ اور بات تھکن سے ہے چور جسم‬


‫ب سکوں چھاننے میں ہوں‬
‫ک خوا ِ‬
‫مصروف خا ِ‬
‫ہم ہر لحظہ مٹانے پہ تل ہے مجھ کو‬
‫ایک تیشہ ہے کہ بس کاٹ رہا ہے مجھ کو‬

‫کس لیے آج یکایک مرا دل دھڑکا ہے‬


‫کیوں تبسم ترا‪ ،‬آوازہ لگا ہے مجھ کو‬

‫مجھ سے پھر آنکھ ملتے ہوئے کیوں ڈرتا ہے‬


‫قتل کرنے پہ جو آمادہ ہوا ہے مجھ کو‬

‫مجھ کو اب شہر کے ہنگاموں میں کیوں کھینچتے ہو‬


‫کنج تنہائی میں آرام بڑا ہے مجھ کو‬

‫ت تسکیں بخشوں‬‫میں تجھے کون سی اب دول ِ‬


‫تو تہی دست زمانے میں مل ہے مجھ کو‬

‫کس کو فرصت ہے مرے کرب کی فصدیں کھولے‬


‫ف تسلی تو دیا ہے مجھ کو‬
‫تم نے اک حر ِ‬

‫ش معانی پہ وہی بارِ حروف‬


‫ہے ابھی دو ِ‬
‫ہنر تیشہ زنی آ تو گیا ہے مجھ کو‬

‫پھر کسی خواب نے دی ہے درِ دل پر دستک‬


‫پھر دریچے سے کوئی جھانک رہا ہے مجھ کو‬

‫آخرِ شب ہے مرے خوں سے چراغاں رکھو‬


‫ح کی آمد کا پتا ہے مجھ کو‬
‫س صب ِ‬
‫جر ِ‬

‫دکھ کی تھکن ہے احمد‬‫میرے انفاس میں اب ُ‬


‫اپنی تنہائی کا احساس بڑا ہے مجھ کو‬
‫دھوپ دل میں ُاتر گئی ہے بہت‬
‫خ خواہش مگر ہری ہے بہت‬ ‫شا ِ‬

‫دیکھ کر بے کسی کا پیرہن‬


‫آگہی ضبط پر ہنسی ہے بہت‬

‫ایسے شاداب لب جزیرے پر‬


‫چند ساعت کی ہمرہی ہے بہت‬

‫تیرگی کی اذیتوں کے سفر!‬


‫حوصلے میں شگفتگی ہے بہت‬

‫راستہ صبح کا بنانا ہے‬


‫یوں تو دیوار ڈھے گئی ہے بہت‬

‫اب مرا نام شہر جاں کی ہوا‬


‫آخری خط میں ڈھونڈتی ہے بہت‬

‫ایک کھڑکی جو بند ہے کب سے‬


‫دل کے اوراق کھولتی ہے بہت‬

‫عمر کی سیڑھیاں نہیں گنتے‬


‫جن کی خالق سے دوستی ہے بہت‬

‫بور آیا ہے اب تعلق پر‬


‫دوستی بے ثمر رہی ہے بہت‬

‫نا ُامیدی کے دش ِ‬
‫ت تیرہ میں‬
‫تیری یادوں کی روشنی ہے بہت‬

‫تشنگی برہنہ مسافت ہے‬


‫خاک صحرا کی چھانتی ہے بہت‬

‫س آئینہ! آنکھ قاتل کی‬


‫عک ِ‬
‫وج ِہ تسکین ڈھونڈتی ہے بہت‬

‫دینے والے کاظرف دیکھنا ہے‬


‫اپنا دامن ابھی تہی ہے بہت‬

‫بوئے گل کو بھی قید کر لیتے‬


‫اختیارات کی کمی ہے بہت‬

‫بند مٹھی کو کھول کر احمد‬


‫خود سے شرمندگی ہوئی ہے بہت‬
‫قہر کا پل ہے یہ تو ہوگا‬
‫دل بیکل ہے یہ تو ہوگا‬
‫دوری ہے‬
‫کیا قربت تھی‪ ،‬کیا ُ‬
‫جہد ِ خلل ہے یہ تو ہوگا‬
‫سکھ تھا آنکھ کا تپتا صحرا‬
‫دکھ بادل ہے یہ تو ہوگا‬
‫ُ‬
‫سائیں سائیں کرتا گھر ہے‬
‫یا ہوٹل ہے یہ تو ہوگا‬
‫صبح مسافت‪ ،‬شام مسافت‬
‫خواب کا پھل ہے یہ تو ہوگا‬
‫پھول بدن ہے‪ ،‬آنکھیں شبنم‬
‫د ُھوپ کا تھل ہے یہ تو ہوگا‬
‫’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‪،،‬‬
‫رِدعمل ہے یہ تو ہوگا‬
‫سن لے‬‫لب نہ ہلے اور بات وہ ُ‬
‫صبر کا پھل ہے یہ تو ہوگا‬
‫سندرتا کی ایک جھلک کو‬
‫من پاگل ہے یہ تو ہوگا‬
‫کارِ جنوں میں بارِ خرد سے‬
‫بازو شل ہے یہ تو ہوگا‬
‫سی راکھ تو ہو گئی جل کر‬ ‫ر ّ‬
‫لیکن بل ہے یہ تو ہوگا‬
‫من میں چاروں اور اندھیارا‬
‫تن مشعل ہے یہ تو ہوگا‬
‫صبح کا سورج تو نکلے گا‬
‫یہ تو اٹل ہے یہ تو ہوگا‬
‫اب تو احمد ایک اک مصرعہ‬
‫س غزل ہے یہ تو ہوگا‬
‫قو ِ‬
‫سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے‬
‫شاید مجھ سے اب تک پگلی آس لگائے بیٹھی ہے‬
‫میری کسک‪ ،‬یہ میری ٹیسیں‪ ،‬آپ کو کیوں محسوس ہوئیں؟‬
‫آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو! دل تو میرا زخمی ہے‬
‫دنیا‬
‫ب منزل خواب ہے یہ ُ‬
‫نفس نفس اک تازہ سرا ِ‬
‫نظر نظر قدموں سے خواہش سایہ بن کر لپٹی ہے‬
‫چپ مت سادھو‪ ،‬جھوٹ نہ بولو‪ ،‬اب تو اطمینان سے ہو‬
‫اب تو ہر دن سو جاتا ہے‪ ،‬اب تو ہر شب جاگتی ہے‬
‫دل ایسا معصوم پرندہ‪ ،‬اپنے پر پھیلئے کیا؟‬
‫اندیشوں کی کالی بلی‪ ،‬گھات لگائے بیٹھی ہے‬
‫آپ تو بس اک خاص ادا سے ’’اپنا‪ ،،‬کہہ کر بچھڑ گئے‬
‫ش ہوا پر پھیلی ہے‬ ‫ُ‬
‫اب تک اس اک بات کی خوشبو دو ِ‬
‫کیسے اپنا دن گزرا‪ ،‬شب کیسے کٹی‪ ،‬کیا پوچھتے ہو‬
‫دن بھر شہر کی خاک ُاڑائی‪ ،‬رات آنکھوں میں کاٹی ہے‬
‫آپ کو دیکھا‪ ،‬دل نہ مانا‪ ،‬ٹھہر گیا‪ ،‬ناراض نہ ہوں‬
‫اتنی اچھی صورت اکثر‪ ،‬ہوش ُاڑا ہی دیتی ہے‬
‫میرے دیس کا چڑھتا سورج کیسے گرہن میں آیا ہے‬
‫دنیا تماشہ دیکھتی ہے‬
‫اے فرزانو! کچھ تو بتاؤ‪ُ ،‬‬
‫آپ کی تخلیقات پڑھے اب ایک زمانہ بیت گیا‬
‫احمد صاحب! تازہ غزل کس الماری میں رکھی ہے‬

‫ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی‬


‫ت شام ِ ویرانی بتا‪ ،‬کس روز آئے گی‬
‫سکو ِ‬
‫بہت دن ہو گئے ہم پر کوئی پتھر نہیں آیا‬
‫ت شیشۂ دل کی صدا کس روز آئے گی‬ ‫شکس ِ‬
‫دکھوں کے جلتے سورج کی تمازت جان لیوا ہے‬
‫ُ‬
‫مرے حصے میں خوشیوں کی ردا کس روز آئے گی‬
‫س قید ِ لب سے دم گھٹنے لگا اب تو‬
‫مسلسل حب ِ‬
‫ن قفس! تازہ ہوا کس روز آئے گی‬ ‫اسیرا ِ‬
‫ب مفلس جھلملتا ہے‬ ‫فر ِ‬ ‫مری پلکوں پہ ظر ِ‬
‫مری ماں جب یہ کہتی ہے‪ ،‬دوا کس روز آئے گی‬
‫کہاں تک شانۂ ہستی یہ بارِ غم ُاٹھائے گا‬
‫تری دنیا میں جینے کی ادا کس روز آئے گی‬
‫بدل دیتی ہے جو احمد مقدر کی لکیریں تک‬
‫دعا کس روز آئے گی‬
‫مرے ہونٹوں پہ دل سے وہ ُ‬
‫کل رات ُاس کا چہرہ مجھے زرد سا لگا‬
‫اک آگ کا الؤ تھا جو سرد سا لگا‬
‫مجھ سے قدم ملتا ہوا دھوپ میں چل‬
‫سایہ بھی آشنائےر ِہ درد سا لگا‬
‫ُاس کے بھی پاؤں میں کوئی چکر ہے ان دنوں‬
‫وہ بھی کچھ اپنی طرح جہاں گرد سا لگا‬
‫ت غم کی خاک ُاسے چھاننی پڑی‬ ‫کس دش ِ‬
‫کیوں چودہویں کا چاند مجھے زرد سا لگا‬
‫دکھ جو مجھے پیار کے عوض‬ ‫دیتے رہے ہیں ُ‬
‫وہ بھی ُاسی قبیل کا اک فرد سا لگا‬
‫وہ شخص جس نے بارِ مسائل ُاٹھا لیا‬
‫اس شہر بے سکوں میں جوانمرد سا لگا‬
‫میں بھی بہت ُاداس تھا احمد گذشتہ روز‬
‫ُاس کا مزاج بھی مجھے کچھ سرد سا لگا‬
‫غم ِ حالت سہیں یا نہ سہیں سوچ میں ہیں‬
‫دکھی لوگ کسے اپنا کہیں سوچ میں ہیں‬
‫ہم ُ‬

‫جسم اور روح کے مابین کسک کس کی ہے‬


‫ذہن ذی فہم کی کتنی ہی تہیں سوچ میں ہیں‬

‫کوئی آواز‪ ،‬نہ پتھر‪ ،‬نہ تبسم‪ ،‬نہ خلوص‬


‫اب ترے شہر میں ہم کیسے رہیں سوچ میں ہیں‬

‫کیسا اخلص کہ ہیں مصلحت اندیش تمام‬


‫ہم بھی کیوں ان کی طرح خوش نہ رہیں‪ ،‬سوچ میں ہیں‬

‫شہر بے خواب میں کب تک تن تنہا احمد‬


‫گ آوارہ کی مانند رہیں‪ ،‬سوچ میں ہیں‬
‫بر ِ‬
‫**‬
‫وا کے ساتھ درختوں کے رابطے تھے بہت‬
‫س ذات فقط ایک‪ ،‬آئینے تھے بہت‬
‫تھا عک ِ‬

‫تمہارے بعد تو سنسان ہو گیا ہے شہر‬


‫عجیب دن تھے وہ‪ ،‬تم تھے تو رتجگے تھے بہت‬

‫ک مراسم کی راہ اپنا لی‬


‫ہمیں نے تر ِ‬
‫یہ اور بات تعلق کے راستے تھے بہت‬

‫سحر سے مانگ رہے ہیں وہ عکس خواب و خیال‬


‫چراِغ شوق جل کر جو سوچتے تھے بہت‬

‫چھلک ُاٹھے ہیں مرے صبر کے تموج سے‬


‫رفاقتوں کے جو دریا ُاتر گئے تھے بہت‬

‫تھا جلوہ ریز مری خلوتوں میں اور کوئی‬


‫یہ جب کی بات ہے‪ ،‬جب تم نے خط لکھے تھے بہت‬

‫وہ تم نہیں تھے مگر ہوبہو وہ تم سا تھا‬


‫اس اعتبار پہ کل رات بھی ہنسے تھے بہت‬

‫ف صدا برف ہو گئے احمد‬ ‫لبوں پہ حر ِ‬


‫طلوِع مہر سے پہلے تو حوصلے تھے بہت‬
‫**‬

‫ت غم میں کھل پھول جذبات کا‬ ‫دش ِ‬


‫گ حنا ہات کا‬
‫کتنا سندر تھا رن ِ‬

‫جس جگہ ہر خوشی غم کا عنواں بنے‬


‫کون مہماں ہو ایسے محلت کا‬

‫بھولی بسری ہوئی یاد کے بادلو‬


‫مینہ نہ برسے گا اب پھر ملقات کا‬
‫ک تمنا بھی میلے رہے‬
‫بعد ِ تر ِ‬
‫شہر سونا ہوا کب خیالت کا‬

‫زندگی کو نگل جائے گی تیرگی‬


‫سر پہ سورج نہ آئے گا حالت کا‬

‫ہجر کی ُزلف بکھرے تو احمد کبھی‬


‫ختم ہوتا نہیں سلسلہ رات کا‬
‫جرم ِ اخلص کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے‬
‫جب بھی آتی ہے تری یاد ُرل دیتی ہے‬

‫بیکراں وقت کی اس کوکھ میں پلتی ہوئی سوچ‬


‫اک نئی صبح کی آمد کا پتہ دیتی ہے‬

‫سوچتا ہوں کہ کہیں تیرے تعاقب میں نہ ہو‬


‫وہ اذیت جو مری نیند ُاڑا دیتی ہے‬

‫تیری تصویر مرے گھر میں جو آویزاں ہے‬


‫خواب کو وہم کی تعبیر دکھا دیتی ہے‬

‫ب مصائب مجھے کرنے والے!‬ ‫ق گردا ِ‬‫غر ِ‬


‫دعا دیتی ہے‬
‫ش جاں تجھ کو ُ‬‫موجۂ کاہ ِ‬

‫ذہن آسیب زدہ سوچ کا پتھر ہے تو کیا‬


‫ش زیست تو کہسار ہل دیتی ہے‬ ‫خواہ ِ‬

‫اتنا لوٹا ہے گھنی چھاؤں نے اک عمر مجھے‬


‫اب تو سائے کی بشارت بھی ڈرا دیتی ہے‬

‫کوئی پتھر ہو‪ ،‬خدا ہو کہ فرشتہ احمد‬


‫اپنی صحبت ُاسے انسان بنا دیتی ہے‬
‫ُامید کے صحرا میں جو برسوں سے کھڑا ہے‬
‫حالت کی بے رحم ہواؤں سے لڑا ہے‬

‫ُرسوائی سے بھاگے تو یہ محسوس ہوا ہے‬


‫تنہائی کی منزل کا سفر کتنا کڑا ہے‬

‫ہیرے کی کنی ہو تو تبسم بھی بہت ہے‬


‫لو سامنے اک کانچ کا مینار کھڑا ہے‬

‫یوں ذہن پہ برسا ہے تری یاد کا بادل‬


‫جیسے کہکوئی کو ِہ الم ٹوٹ پڑا ہے‬

‫گزرے ہوئے لمحے کبھی واپس نہیں آتے‬


‫ت دیوار اندھیرے میں کھڑا ہے‬
‫کیوں صور ِ‬

‫اک اختر مبہم ہوں بظاہر میں ُافق پر‬


‫کہتے ہیں مرا نام مرے قد سے بڑا ہے‬

‫ت خلش میں‬ ‫اک میں ہی اکیل نہیں اس دش ِ‬


‫جلتا ہوا سورج بھی مرے سر پہ کھڑا ہے‬

‫ی جذبات کے اس عہد میں احمد‬ ‫نا قدر ِ‬


‫آ جائے اگر راس تو پتھر بھی بڑا ہے‬
‫آج بھی دھوپ میں ہوں ٹھہرا ہوا‬
‫ابر کا انتظار کتنا تھا‬

‫اک الؤ تھا ُروٹھنا اس کا‬


‫مسکراتی تو پھول کھل جاتا‬

‫دل کے در پر یہ کس نے دستک دی‬


‫گونج ُاٹھا ہے گھر کا سناٹا‬

‫تیری قربت مری ضرورت تھی‬


‫یوں تو تو نے بھی خواب دیکھا تھا‬

‫دو قدم اور ساتھ دے لیتے‬


‫حوصلہ آپ کا بھی کم نکل‬

‫کون صحرا میں دے تجھے آواز‬


‫کون کھولے طلب کا دروازہ‬

‫آؤ قانون کی کتاب پڑھیں‬


‫اب صحافت میں کچھ نہیں رکھا‬

‫میرے حصے میں غم کی دوپہریں‬


‫تیری تقدیر میں گھنا سایہ‬

‫آئنے میں تریڑ کیوں آتی‬


‫تو کوئی پھول تھا نہ پتھر تھا‬

‫خواب سا ہو گیا ہے اب اس کا‬


‫منہ چھپا کر ِادھر ُادھر پھرنا‬

‫انگلیوں میں عجب حرارت تھی‬


‫جسم انگارہ سا دہک ُاٹھتا‬

‫تھی مخالف ہوائے شہر بہت‬


‫قربتوں کا چراغ کیا جلتا‬

‫تو تو دھڑکن تھا میرے سینے کی‬


‫تو بھی حاکم ہی وقت کا نکل‬

‫تیری آنکھوں میں ڈوب جانے کو‬


‫کون سے روز دل نہیں کہتا‬

‫کتنا مشکل ہے ان دنوں احمد‬


‫شہر میں دشت کی طرح رہنا‬
‫ت دل میں خوابیدہ پڑی ہے‬
‫بہش ِ‬
‫وہ اک حسرت جو میری زندگی ہے‬

‫بہت خوش ہوں میں فن کی سرزمیں پر‬


‫مری نیکی بدوں نے لوٹ لی ہے‬

‫دریچے کھول دیتا ہوں طلب کے‬


‫مجھے جب بھی شرارت سوجھتی ہے‬

‫سیاست اب کہاں زنجیر ہوگی‬


‫یہ کشتی اب کنارے لگ رہی ہے‬

‫بہت نا مطمئن ہے دل کی دھڑکن‬


‫ب شوق تسکیں سے بھری ہے‬ ‫کتا ِ‬

‫مہینوں بعد دیکھا ہے تبسم‬


‫بہت دن میں غزل تازہ کہی ہے‬

‫بدن اب تک تر و تازہ ہے لیکن‬


‫سفر کی دھول آنکھوں میں جمی ہے‬

‫حکومت اک سخی کے ہاتھ میں ہے‬


‫غریب شہر کی حالت وہی ہے‬

‫لگا ہے جب بھی کوئی زخم تازہ‬


‫مرے فن کو توانائی ملی ہے‬

‫بہارِ نو کے دروازے نہ کھولو‬


‫خزاں سے عمر بھر کی دوستی ہے‬

‫مرےدل پر تو کو ِہ غم گرا ہے‬


‫تمہاری آنکھ کیوں بھیگی ہوئی ہے‬
‫تجھے بھی نیند نے دھوکا دیا ہے‬
‫تھکن تیری بھی پلکوں پر جمی ہے‬

‫وہ کب کی جا چکی ہے اور دل میں‬


‫ابھی تک یاد کی کھڑکی کھلی ہے‬

‫جسے ہم سائباں سمجھے ہوئے تھے‬


‫وہی دیوار سر پر آ گری ہے‬

‫میں شہر دل میں اب تنہا ہوں احمد‬


‫تعلق کی بصارت چھن چکی ہے‬
‫خزاں میں غم ذرا کچھ کم کیا کر‬
‫بہاروں میں بھی آنکھیں نم کیا کر‬

‫دلوں میں قید کر رکھا ہے جن کو‬


‫وہ باتیں بھی کبھی باہم کیا کر‬

‫تمنا ہے کہ زہری چپ کے گیسو‬


‫لبوں کے دوش پر برہم کیا کر‬

‫ہر آنگن میں سحر کب بولتی ہے‬


‫دکھ کم کیا کر‬
‫ت شام کا ُ‬
‫سکو ِ‬

‫تعلق خواب ہے قدرت نہیں ہے‬


‫ت دل کا مت ماتم کیا کر‬
‫شکس ِ‬

‫کہیں بہتر ہے جابر سے بغاوت‬


‫سرِ تسلیم یوں نہ خم کیا کر‬

‫ب جاں میں‬ ‫حرارت ڈھونڈ مت مہتا ِ‬


‫لحد پر دن کی اب ماتم کیا کر‬

‫زمانہ نفرتیں بھی بانٹتا ہے‬


‫زمانے سے محبت کم کیا کر‬

‫کبھی دل کو سلگتی دوپہر کر‬


‫لہو کی َلو کبھی مدھم کیا کر‬

‫معافی دے دیا کر دوستوں کو‬


‫تبسم زیر لب پیہم کیا کر‬
‫ب ذات لکھتا تھا‬‫دھوپ اور چھاؤں کا کر ِ‬
‫دیدہ ور تھا دوری کو اختلط لکھتا تھا‬

‫زخم زخم گنتا تھا روشنی میں جگنو کی‬


‫حرف حرف پلکوں پر سچی بات لکھتا تھا‬

‫میں بھی ان خلؤں میں ایک لحظہ پہلے تک‬


‫خواب کا مسافر تھا‪ ،‬خواہشات لکھتا تھا‬

‫ح جاں کی شبنم ہو‪ ،‬د ُھوپ ہو بدن کی تم‬ ‫صب ِ‬


‫سچ بتاؤ یہ جملے کس کا ہات لکھتا تھا‬

‫گ زرد ہونے تک میں ہوا کی تختی پر‬‫بر ِ‬


‫منتظر نگاہوں سے التفات لکھتا تھا‬

‫پوچھتے ہیں بام و در‪ ،‬کون‪ ،‬شہر ناپرساں!‬


‫آنے والی ہر ُرت کو بے ثبات لکھتا تھا‬

‫خوب آدمی تھا وہ شہر کی ُاداسی پر‬


‫خامۂ تبسم سے دن کو رات لکھتا تھا‬

‫کتنا ُانس تھا ُاس کو میری ذات سے احمد‬


‫جو بھی خط وہ لکھتا تھا ’’دل نشاط‪ ،،‬لکھتا تھا‬
‫اےرسم و را ِہ شہر کے محتاط ظرف رنگ‬
‫ٹھوکر بھی کھا کے آیا نہ جینے کا ہم کو ڈھنگ‬
‫ح یقیں پر وفا کی لہر‬
‫آتی نہیں ہے سط ِ‬
‫رہتی ہے صبح و شام مزاجوں میں سرد جنگ‬
‫دکھ سے چور مل زخم زخم جسم‬ ‫ہر صبح ُ‬
‫ہر شب تھرک تھرک گیا آہٹ پہ انگ انگ‬
‫ط خاص‬
‫تھا جس سے میرے سچ کے تحمل کا رب ِ‬
‫اترا اسی کے غم کا مری روح میں خدنگ‬
‫ت لہجہ تھے سب ہی لوگ‬ ‫ناآشنائے لذ ِ‬
‫س رنگ‬
‫ط لب پہ بکھیری نہ قو ِ‬
‫کیا کیا بسا ِ‬
‫ش نظر ہے اب بھی کوئی پیکر لطیف‬ ‫پی ِ‬
‫اب بھی ہے دل میں کتنی ہی یادوں سے جلترنگ‬
‫میری وجہ سے تو بھی ہوا شہر میں خراب‬
‫تیرے سبب ہے مجھ پہ بھی ہر رہگذار تنگ‬
‫ش ایذا پسند دل!‬
‫کچھ تو بتا اے خواہ ِ‬
‫ب حاصل میں ہر ُامنگ‬
‫کب تک رہے تعاق ِ‬
‫ل مسائل نہ مل سکے‬ ‫سوچوں تو کوئی ح ِ‬
‫ہے ذہن کی تہوں میں حوادث سے اتنا زنگ‬
‫کس نے کہا تھا کھیل رچاؤ خل میں تم‬
‫کیوں ہاتھ مل رہے ہو اگر کٹ گئی پتنگ‬
‫ج معانی کی تمکنت‬ ‫ہے منفرد مزا ِ‬
‫لفظوں کے پیرہن میں ہے میری انا کا رنگ‬
‫احمد‪ ،‬لہو لہو ہے مرا پیکر نفس‬
‫دل پر ہیں داِغ رنج‪ ،‬بدن پر ہیں زخم ِ سنگ‬
‫حادثوں میں رہتا ہے چہرہ للہ گوں اپنا‬
‫ل زبوں اپنا‬
‫حوصلے کا آئینہ ہے د ِ‬

‫تیرا دھیان بھی جیسے کعبۂ تقدس ہو‬


‫تیرے بعد بھی رکھا ہم نے سرنگوں اپنا‬

‫ت شوق کیا تھامے‬ ‫ش وصل کی باگیں دس ِ‬‫رخ ِ‬


‫ل انبساط آگیں حال ہے زبوں اپنا‬
‫فص ِ‬

‫فاصلوں کی دوپہریں رنگ ُرخ ُاڑاتی ہیں‬


‫خون خشک کرتا ہے دور رہ کے کیوں اپنا‬

‫عقل بیٹھ جاتی ہے تھک کے جب دو راہے پر‬


‫کام آ ہی جاتا ہے جذبۂ جنوں اپنا‬

‫تجھ پہ بار کیوں گزرا میری چپ کا سناٹا‬


‫تو جو خود سے مخلص ہے میں نہ ساتھ دوں اپنا‬

‫ذہن غم کی راہوں میں راستہ سجھاتا ہے‬


‫ہر نفس ’’وفا دشمن‘‘ پاسبان ہوں اپنا‬

‫بے سکون سچائی‪ ،‬جھوٹ کی علمت ہے‬


‫معتدل ہی رہتا ہے قلزم دروں اپنا‬

‫ق خاطر‬‫ک ربط باہم پر یہ تعل ِ‬


‫تر ِ‬
‫دکھ ہوا فزوں اپنا‬
‫رات وہ فسردہ تھا‪ُ ،‬‬

‫تیغ باد ِ بدخوئی ظرف سے پشیماں ہے‬


‫ط غم کے مقتل میں کر رہا ہوں خوں اپنا‬
‫ضب ِ‬

‫مجھ کو اس کی مٹی بھی زندگی سے پیاری ہے‬


‫ف قہر ُرسوائی! شہر چھوڑ دوں اپنا‬
‫خو ِ‬

‫ت روح کی دلدل ہے بدن کی تاریکی‬


‫دش ِ‬
‫اے لہو کی خوش فہمی! کیا سراغ دوں اپنا‬

‫رنگ و بوئے گلزارِ صبح کی ضمانت ہوں‬


‫ت ذہن تازہ کو دے رہا ہوں خوں اپنا‬
‫کش ِ‬

‫ب نغمہ فن کی سرد چھاؤں میں‬


‫شل ِ‬
‫بند ِ‬
‫مصلحت کی چھینی سے بت تراش لوں اپنا‬

‫کتنی خاک چھانی ہے پھر بتاؤں گا احمد‬


‫دکھ کے صحرا میں دن گزار لوں اپنا‬‫پہلے ُ‬
‫یاد آؤں گا ُاسے‪ ،‬آ کے منائے گا مجھے‬
‫ک تعلق سے ڈرائے گا مجھے‬‫اور پھر تر ِ‬

‫آپ مسمار کرے گا وہ گھروندے اپنے‬


‫اور پھر خواب سہانے بھی دکھائے گا مجھے‬

‫مجھ کو سورج کی تمازت میں کرے گا تحلیل‬


‫اور مٹی سے کئی بار ُاگائے گا مجھے‬

‫اپنی خوشبو سے وہ مانگے گا حیا کی چادر‬


‫س بدن جب بھی بنائے گا مجھے‬‫زیب قرطا ِ‬

‫ب ایقان و عطا! عمر کے اس موڑ پہ کیا‬


‫ر ِ‬
‫راستے کرب کے ہموار دکھائے گا مجھے‬

‫میں کڑی دھوپ کا سایہ ہوں کڑے کوس کا ساتھ‬


‫بھولنا چاہے گا وہ‪ ،‬بھول نہ پائے گا مجھے‬

‫میری شہ رگ پہ تمسخر کی چھری رکھے گا‬


‫گاہے پلکوں پہ تقدس سے سجائے گا مجھے‬

‫آنکھ لگ جائے گی جب ہجر کے انگاروں پر‬


‫نیند میں آ کے دبے پاؤں جگائے گا مجھے‬

‫تو بھی زنجیر پہن لے گا انا کی اک دن‬


‫میری غزلیں مرے لہجے میں سنائے گا مجھے‬

‫میں تو ہر بار مراسم کی بنا رکھتا ہوں‬


‫سوچتا ہوں کہ کبھی تو بھی منائے گا مجھے‬

‫جن سے ملتا ہو سراِغ ر ِہ منزل احمد‬


‫وہ لکیریں مرے ہاتھوں پہ دکھائے گا مجھے‬
‫رد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے‬
‫فن کو تہذیب کی بارش سے جل ملتی ہے‬
‫سر میں سودا ہے تو چاہت کے سفرپر نکلیں‬
‫کرب کی دھوپ طلب سے بھی سوا ملتی ہے‬
‫کون سی سمت میں ہجرت کا ارادہ باندھیں‬
‫کوئی بتلئے کہاں تازہ ہوا ملتی ہے‬
‫س قزح کی صورت‬ ‫چاند چہرے پہ جواں قو ِ‬
‫تیری ُزلفوں سے گھٹاؤں کی ادا ملتی ہے‬
‫ہم تو پیدا ہی اذیت کے لیے ہوتے ہیں‬
‫دعا ملتی ہے‬
‫دکھ میں بھی ُ‬ ‫ہم فقیروں سے تو ُ‬
‫ل جاناں کا سفر‬‫دشوار ہے اب منز ِ‬ ‫کتنا ُ‬
‫ب بدن آبلہ پا ملتی ہے‬
‫خواہش قر ِ‬
‫بے نمو شاخوں سے پتوں کو شکایت کیا ہو‬
‫اب تو پیڑوں کو بھی مشکل سے غذا ملتی ہے‬
‫اور بڑھنے دو گھٹن خوف نہ کھاؤ اس سے‬
‫ک بقا ملتی ہے‬
‫ت حبس سے تحری ِ‬
‫شد ِ‬
‫کبھی فرصت کی کوئی شام سحر تک دے دے‬
‫یوں جو ملتی ہے سرِ راہے تو کیا ملتی ہے‬
‫سر سے چادر نہ ُاتارو مرے اچھے فنکار!‬
‫برہنہ حرف کو معنی کی ردا ملتی ہے‬
‫تیرا انصاف عجب ہے مرے جبار و غنی!‬
‫جرم ہم کرتے ہیں بچوں کو سزا ملتی ہے‬
‫جب سے تنہائی کو اوڑھا ہے بدن پر احمد‬
‫تمکنت لہجے میں پہلے سے سوا ملتی ہے‬
‫تو بے سبب ہے مری ذات سے خفا‪ ،‬کچھ سوچ‬
‫ہے اس خرابے میں دل کس کا آئنہ‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫دماغ پر ہے مسّلط سکوت سا کچھ‪ ،‬سوچ‬


‫ہے شام ہی سے یہ دل کیوں بجھا بجھا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫خفا نہ ہو کہ کڑی دوپہر میں آیا ہوں‬


‫میں تنہا کیسے یہ لمحے گزارتا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫تھا جس کی لو سے منور یہ خواہشوں کا مکاں‬


‫وہ اک چراغ بھی تو نے بجھا دیا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫یہ اجتناب‪ ،‬یہ خط فاصلے کا کیسے کھنچا‬


‫وہ جذبہ ختم بھل کیسے ہو گیا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫تو جس کے پیار کو اپنی َانا پہ تیاگ آیا‬


‫وہ رات تجھ سے زیادہ ُاداس تھا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫بس اک نحیف سا جھونکا‪ ،‬بہارِ عہد سکوں!‬


‫ہرے درختوں کی شاخیں جھکا گیا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫تھا چاروں اور کڑی رنجشوں کی دھوپ کا دشت‬


‫میں کس کے پیار کی چھاؤں میں بیٹھتا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫وہ ماں کہ جس نے تلطم سپرد مجھ کو کیا‬


‫میں اس کے خواب سے کیسے گلے مل‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫وہ باغ جس کی نمو میں رچا ہے میرا لہو‬


‫میں اپنے ہاتھوں سے کیسے ُاجاڑتا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫نجانے کتنی ہواؤں کا زخم خوردہ ہے‬


‫وہ ایک پتا زمیں پر جو آگرا‪ ،‬کچھ سوچ‬
‫دروغ گوئی حقیقت کو ڈھانپ لیتی ہے‬
‫خلوص دل سے بیاں کر وہ واقعہ‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫یہ کس زمین پہ رکھی تھی شہر کی بنیاد‬


‫دکھوں کا شور فصیلوں میں رچ گیا‪ ،‬کچھ سوچ‬
‫ُ‬

‫وہ آدمی کہ دلسہ دیا تھا تو نے جسے‬


‫فسردہ ریت پہ خوابوں کی سو گیا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫مرے مکان کے باہر بھی تیرگی تھی محیط‬


‫میں کیسے تجھ کو دریچے سے جھانکتا‪ ،‬کچھ سوچ‬

‫یہ اور بات کہ تھا پرکشش مگر احمد‬


‫وہ اجنبی تھا‪ُ ،‬اسے کیسے روکتا‪ ،‬کچھ سوچ‬
‫ل دل نے نہ دیکھے بسنت کے لمحے‬
‫ہم اہ ِ‬
‫کھلے نہ پھول کبھی خواب میں بھی سرسوں کے‬

‫عجیب مرد تھے زنجیر کرب پہنے رہے‬


‫خ گل کو چھو لیتے‬
‫کنارِ شوق کسی شا ِ‬

‫ُافق پہ صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے‬


‫ستارے ڈوب چکے‪ ،‬مشعلیں بجھا دیجے‬

‫مرے خدا! مری دھرتی کی آبرو رکھ لے‬


‫ترس گئی ہیں نئی کونپلیں نمو کے لیے‬

‫مری وفا کے گھروندے کو توڑنے والے!‬


‫خدا تجھے بھی اذیت سے ہمکنار کرے‬

‫بجھی نہ پیاس کبھی تجربوں کے صحرا میں‬


‫تمام عمر سفر میں رہے ہیں سپنوں کے‬

‫یہ اور بات کہ سروِ سہی تھے شہر میں ہم‬


‫جو پستہ قد تھے وہی لوگ سربلند ہوئے‬

‫ترے لبوں پہ ترے دل کا آئنہ دیکھا‬


‫تعلقات کسی طرح تو برہنہ ہوئے‬

‫گداز جسم کی قربت میں اتنی لذت تھی‬


‫ہم احترام کے اسباق سارے بھول گئے‬

‫وہی درخت گرے منہ کے بل زمینوں پر‬


‫جنہیں غرور نے پاگل کیا تھا موسم کے‬

‫میں آئنے میں خدوخال کس کے پہچانوں‬


‫گئی ُرتوں کے‪ ،‬رواں عہد کے یا فردا کے‬

‫بڑے خلوص سے جس ذہن کو سنوارا تھا‬


‫وہی صلیب کی زینت بنا رہا ہے مجھے‬

‫سکوت سے تو پرندے بھی ڈرنے لگتے ہیں‬


‫ب تازہ دے‬
‫زمیں کے حبس کوئی انقل ِ‬

‫گزر گئے ہیں برس صبح کی صلیبوں پر‬


‫جو ہو سکے تو شب زندگی عطا کر دے‬

‫تمام رات درِ اشتیاق وا رکھا‬


‫کٹی نہ شب تو ستاروں سے بات کرتے رہے‬
‫اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے ُابھرا کیوں‬
‫بتا اے موجۂ گرداب! یہ تماشا کیوں‬

‫مجھے پتہ ہے ترے دل کی دھڑکنوں میں ہوں‬


‫دکھ کی کڑی دوپہر میں جلتا کیوں‬
‫میں ورنہ ُ‬

‫ر ِہ طلب میں مسلسل تھکن سے خائف ہوں‬


‫سکوں جو ہاتھ نہ آئے سفر ہو لمبا کیوں‬

‫یہ امتحاں تو نمود ِ وفا کا جوہر تھا‬


‫ُاسے یقین جو ہوتا مجھے ُرلتا کیوں‬

‫یہ پائے زیست میں زنجیر بے یقینی کیا‬


‫ب جو بھی اتنا تشنہ کیوں‬
‫رکھا ہے ہم کو ل ِ‬

‫ابھی تو اگلے ہی زخموں کے پھول تازہ ہیں‬


‫ل فردا کیوں‬‫بدن کو چھید رہا ہے خیا ِ‬

‫خجل تھا کتنا مرے ضبط کے طمانچے پر‬


‫میں اپنے مدمقابل سے رات جیتا کیوں‬

‫ف طلب‬
‫نہ کوئی رنگ‪ ،‬نہ سلوٹ‪ ،‬نہ کوئی حر ِ‬
‫ورق ہے دیدہ و دل کا یہ اتنا سادہ کیوں‬

‫چھپاؤں کیسے‪ ،‬کروں کس طرح اسے تقسیم‬


‫دیا ہے درد کا اتنا بڑا خزانہ کیوں‬

‫یہ اور بات کوئی مجھ سے پر خلوص نہیں‬


‫مری طرف سے کسی کا بھی دل ہو میل کیوں‬

‫جو تجھ سے پیار نہ ہوتا تو آبرو کی قسم‬


‫ہر آتے جاتے ہوئے شخص کو یوں تکتا کیوں‬

‫صبا کی پور سے نازک ہے اس کے ظرف کا پھول‬


‫دیا ہے سینے میں دل یہ بہ شکل شیشہ کیوں‬

‫دکھ پوچھے‬‫ت یک لمحہ ُرک کے ُ‬‫کسے ہے فرص ِ‬


‫کھڑے ہو د ُھوپ میں آزردہ دل یوں تنہا کیوں‬

‫وفا ناآشنا اتنا ہی تھا اگر احمد‬


‫میں سوچتا ہوں اسے میں نے خط لکھا تھا کیوں‬
‫میں ڈوبتے خورشید کے منظر کی طرح ہوں‬
‫زندہ ہوں مگر یاد کے پتھر کی طرح ہوں‬

‫ت وفا کا‬
‫آثار ہوں اب کہنہ روایا ِ‬
‫اک گونج ہوں اور گنبد بے در کی طرح ہوں‬

‫ل للہ ُرخاں پر رہا حاکم‬


‫اک عمر د ِ‬
‫اب یاد ِ مہ و سال کے پیکر کی طرح ہوں‬

‫کس کرب سے تخلیق کا در بند کیا ہے‬


‫مت پوچھ کہ صحرا میں بھرے گھر کی طرح ہوں‬

‫بپھرے تو کنارے نظر آتے نہیں جس کے‬


‫میں ضبط کے ُاس ٹھہرے سمندر کی طرح ہوں‬

‫بجھ جائے گی صدیوں کی اگر پیاس بھی ہوگی‬


‫آغوش کشادہ ہوں میں کوثر کی طرح ہوں‬

‫ت شفاف‬‫اب کتنا نچوڑے گی لہو ساع ِ‬


‫تہذیب کے سینے پہ صنوبر کی طرح ہوں‬

‫بے مہر تعلق کی مسافت سے تھکا ہوں‬


‫میں صبح کی خوشبو کے مقدر کی طرح ہوں‬

‫خوابیدہ ہی اچھا ہوں کم و بیش سے احمد‬


‫بیدار جو ہو جاؤں تو محشر کی طرح ہوں‬
‫ل گدازِ حیات دے دے گا‬
‫بدن کو غس ِ‬
‫ترا خلوص مجھے اب کے مات دے دے گا‬

‫یہ جڑتے ٹوٹتے کاذب مراسموں کا دیار‬


‫مرے یقیں کی صداقت کا سات دے دے گا‬

‫میں تھک گیا ہوں کڑی دھوپ کی مسافت سے‬


‫کوئی سراب تبسم کی رات دے دے گا‬

‫دعا کو ہاتھ ُاٹھاؤں تو کس طرح معبود‬


‫ُ‬
‫جو میں کہوں تو مجھے کائنات دے دے گا؟‬

‫دکھ کو بھول جاؤں گا‬‫یقین جان کہ ہر ُ‬


‫تو میرے ہاتھ میں جب اپنا ہات دے دے گا‬

‫یہ مفلسی کا تسلسل‪ ،‬ضرورتوں کا محیط‬


‫مجھے سلیقۂ تزئین ذات دے دے گا‬

‫وہ ایک لفظ مرے دل پہ ثبت ہے احمد‬


‫ح ثبات دے دے گا‬‫مری غزل کو جو رو ِ‬
‫مری نظر نے خل میں دراڑ ڈالی ہے‬
‫سکوں کی گم شدہ تصویر پھر سے پا لی ہے‬

‫خود اپنی َاور بچھائے ہیں غم کے َانگارے‬


‫ت رنج سے میں نے نجات پا لی ہے‬ ‫سکو ِ‬

‫کدھر کو جائیں‪ ،‬کہاں ہم کریں تلش کہ اب‬


‫سکوں کی د ُھن میں بہت خاک چھان ڈالی ہے‬

‫میں کس یقیں پہ تحمل کو پائیدار کروں‬


‫مرا مزاج ازل ہی سے ل ابالی ہے‬

‫مجھے یقیں نہ دلؤ‪ ،‬میں جانتا ہوں‪ ،‬مگر‬


‫وفا کا لفظ تو عہد ِ رواں میں گالی ہے‬

‫سراغ‬
‫مل نہ جب تری قربت کی روشنی کا ُ‬ ‫ِ‬
‫ب آرزو ُاجالی ہے‬
‫غموں کی ُلو سے ش ِ‬

‫دعا نہیں جلتا‬


‫کسی کے لب پہ چراِغ ُ‬
‫ہر ایک شخص کی جیسے زبان کالی ہے‬

‫تھا سخت ہم پہ بھی شب خوں پہ آبرو کی قسم‬


‫متاِع شیشہو نقد ِ ُہنر بچا لی ہے‬

‫وفا تو پہلے ہی عنقا تھی شہر میں احمد‬


‫دکھوں کی بھی قحط سالی ہے‬ ‫سنا ہے اب تو ُ‬
‫ُ‬
‫یہ اور بات کہ تکلیف ِاس سفر میں ہے‬
‫تمام ُلطف‪ ،‬محبت کی رہ گزر میں ہے‬

‫ف ُہو کر دے‬
‫صر ِ‬
‫تمام عالم ِ امکاں کو َ‬
‫وہ اک شعور‪ ،‬وہ افسوں تری نظر میں ہے‬

‫تمام عمر‪ ،‬جسے ڈھونڈتے ہوئے گزری‬


‫ن صبح کی صورت وہ میرے گھر میں ہے‬ ‫سکو ِ‬

‫گ زرد کو چاہے تو سرخرو کر دے‬


‫وہ سن ِ‬
‫ت کم ُہنر میں ہے‬
‫بی اب دس ِ‬
‫یہ ایک خوبی ھ‬

‫دت!‬
‫س شب! تری قربت میں اس قدر ح ّ‬ ‫عرو ِ‬
‫یہ خاصیت تو فقط شعلہ و شرر میں ہے‬

‫طلسم ِ ذات کے گرداب سے نکل کر دیکھ‬


‫بشر کا فائدہ اندازِ درگزر میں ہے‬

‫جو پھل کے پکنے سے پہلے ہی سر کو خم کر دے‬


‫ن تدبر تو ُاس شجر میں ہے‬
‫حس ِ‬
‫تمام ُ‬

‫وہ خوش خصال‪ ،‬جواں سال‪ُ ،‬تندخو احمد‬


‫دکھوں سے چور‪ ،‬مکیں شہر کے کھنڈر میں ہے‬
‫ُ‬
‫***‬

‫ٹائپنگ‪ :‬نوید صادق‪ ،‬پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل‪ :‬اعجاز‬


‫عبید‬
‫اردو لئبریری ڈاٹ آرگ‪ ،‬کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور‬
‫کتب ڈاٹ ‪ 250‬فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش‬
‫‪http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com,‬‬
‫‪http://kutub.250free.com‬‬

You might also like