Professional Documents
Culture Documents
سید آ ِل احمد
میں اجنبی سہی
سید آ ِل احمد
یہ اشعار سید صاحب اکثر مشاعروں اور شعری نشستوں میں
تواتر کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ ایک اور غزل تھی:
سید آل احمد نے ایک اچھے شاعر اور محبت کرنے والے انسان
کی حیثیت سے بہت جلد ہمارے دلوں میں گھر کر لیا۔ ُان کے کلم
میں روایت سے پیوستگی کے ساتھ ایک تخلیقی لپک تھی جو ُان
کے کلم کو محض ’’روایتی‘‘ بن جانے سے بچاتی تھی اور فنی
خد و خال میں ان کی انفرادیت کو ُابھار کر سامنے لتی تھی۔
سید صاحب چونکہ خود مست شاعر تھے اور ُاس زمانے میں ُ
دور
دور تک تعارف رکھنے کے باوجود پی آر کو سیڑھی کے طور پر ُ
استعمال کرنے کا فن نہیں جانتے تھے اس لیے آگے چل کر کہنی
مار دوڑ میں شمولیت نہ کر سکے اور ہر چند کہ خواص ان کے
فنی مرتبے سے ناواقف نہ تھے ،وہ ’’لئم لئٹ‘‘ سے دور ہوتے چلے
گئے۔ ان کا بس ایک مختصر سا مجموعہ ’’صریرِ خامہ‘‘ کے
عنوان سے ۱۹۶۴ء میں بہاول پور ہی سے شائع ہوا جس کی
پذیرائی کرنے والوں میں ماہرالقادری ،حمایت علی شاعر ،اختر
انصاری اکبر آبادی ،محمد احسن فاروقی ،منظور حسین شور
اور دیگر کئی ممتاز سخن شناس شامل تھے۔
ایک طویل عرصے کے بعد جب نوید صادق نے اطلع دی کہ سید
صاحب بسترِ عللت پر ہیں اور ان کا ایک اور مجموعہ اشاعت
کے لیے تیار ہے ،جس پر مجھے بھی کچھ اظہارِ خیال کرنا ہے تو
مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ اظہاِر
خیال تو میرے لیے خود اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے مترادف
ہوگا لیکن عجیب تلخ اتفاق یہ ہوا کہ اگلے روز جب نوید صادق
مسود ّہ میرے حوالے کرنے آئے تو میں اخبار میں سّید صاحب کی
رحلت کی خبر پڑھ چکا تھا ،جس کا خود نوید صادق کو علم نہ
تھا۔
گ سخن کا ل احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رن ِ
سید آ ِ
ت احساس ،رومانیت ،روایت اور جدت کے آئینہ دار ہے ،جو شد ِ
ایک دلکش امتزاج سے عبارت ہے۔ چند شعر ملحظہ ہوں
میری خاطر نہ تکلف کیجئے
میں تو کا نٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں
ل احمد
سید آ ِ
آر اء
مولنا ما ہر القادری
احسان دانش
سب سے ہٹ کے بات کرنے وال ایک علیحدہ لغت لیے اپنی علیحدہ
ل احمد مجھے پہلی ہی ملقات میں زبان میں شاعری کرنے وال آ ِ
اچھا لگا کہ سچ بول رہا تھا۔ وہ ادب کے روایتی وڈیروں کے خلف
تھا۔ کبھی کسی کو چھپنے کے لیے کچھ نہیں بھیجا۔ چھوٹی جگہ پر
چپ چاپ ل احمد صاف دل لیے ُ بیٹھ کر اچھی شاعری کرنے وال آ ِ
یہاں سے چل گیا۔
منیر نیازی
محسن احسان
ر
روایت میں ایک خرابی ہے کہ اس میں شاعر کی انفرادیت زی ِ
زمین چلی جاتی ہے اس لیے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا
شعر کہنا جس پر شاعر کی انفرادیت کی چھاپ گہری ہو اور
محسوسات کا نیا پن بھی موجود ہو ،فنی پختگی کا تقاضا کرتا
ہے۔ سماجی عدل و انصاف ،معاشرتی اور اقتصادی مسائل
کلسیکی غزل کے موضوعات نہیں ہیں۔ یہ آج سے چند دہائیاں پہلے
کی بات ہے جب نئے شاعر نے غزل کو ان عصری موضوعات سے
روشناس کرایا اور غزل کی یکسانیت کو ایک نیا آہنگ دیا۔ سید
ل احمد اپنے فن کے لحاظ سے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آ ِ
یہی وجہ ہے کہ ُان کے ہاں عصری آگہی کے ساتھ ساتھ غزل کی
روایتی غنائیت بھی موجود ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ ُان کے کلم کو
ہر طبقہ میں مقبولیت حاصل ہے۔
ن نظر!
وہ بھی دن تھے کہ اے سکو ِ
تو مری دسترس سے باہر تھا
س وقار ہے تن پر
ترے کرم سے لبا ِ
تری نگاہ پہ قربان ہو رہا ہوں میں
ف آئینہ
عداوتوں پہ تل ہے حری ِ
ت عکس ،مری جان! ہو رہا ہوں میں ثبو ِ
ش پائندہ
نہ کوئی رنگ توقع ،نہ نق ِ
کسے بتاؤں کہ کن خواہشوں کا ڈھانچہ ہوں
ل گل میں
کتنے بے رحم ہیں یہ ہاتھ کہ فص ِ
شجر سبز پہ پتا نہیں رہنے دیتے
ن کہن
اب تو کچھ ایسے بچھڑ جاتے ہیں یارا ِ
س تمنا نہیں رہنے دیتے
آنکھ میں عک ِ
س حد نظر چھپے
مدت ہوئی جسے پ ِ
اس تیرگی کا حل ُاسی سورج کے پاس تھا
ف جاں
دکھ دیکھے ،تبسم ریز تھے ،اطرا ِ
جتنے ُ
اور خوشیاں ،دل گرفتہ راہگیروں سی لگیں
دکھ نہ پوچھ
ک مراسم کا ُ
ل دل سے تر ِ
ہم اہ ِ
خ شجر سے ٹوٹ کے پتا گرے تو دیکھ شا ِ
دکھ
مت پوچھئے سفر کی رفاقت کا ہم سے ُ
جو بھی مل ،وفا کی قسم ،راہزن مل
دکھ احمد
دیکھ کس طاق میں جلتا ہے ترا ُ
سوچتا کیا ہے ،درِ قصرِ غزل کھول کے دیکھ
حیران کر دیا بھرا جنگل پڑاؤ نے
رکھا ہے دل میں سبز قدم کس لگاؤ نے
ت فن
کیا کیا بسنت ہونٹ تراشے ہیں دس ِ
مواج کر دیا ہے تبسم کٹاؤ نے
دکھ میں
سوچ پتھرا گئی اسی ُ
سطح دریا پہ کب ُابھرتا ہوں
ف جاودانی ہوں
ت حر ِ
نکہ ِ
دھڑکنوں کو غزل میں بھرتا ہوں
دکھ کتنے
ہیں میرے گرد مرے دوستوں کے ُ
کوئی بھی لمحۂ فرصت ہو ،سوچتا ہوں میں
ی وفا کو لیے
نہ جانے کون سی خوش فہم ِ
دکھوں کے تیز الؤ میں جل رہا ہوں میں
ُ
ت لب ٹوٹے
کسی طرح تو طلسم ِ سکو ِ
گ تبسم ،یہ قحط سالی کیا
کوئی تو رن ِ
گ سبز
شاخ سے ٹوٹ کے قریہ قریہ بر ِ
ل بہار کا حال سناتے پھرتے ہیں
فص ِ
یہ مرا شہر ہے ،اس شہر میں میں رہتا ہوں
کیسے ان آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر دیکھوں گا
ق وفا سے احمدخل ِ
کون محروم رہا ُ
تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے
دل خزینے کا امیں ہوگا نہ رہزن ہوگا
کتنے چہروں کے تبسم کا یہ مدفن ہوگا
ل خرد نہ جچی
مری نظر میں کوئی منز ِ
ق گمرہی کی طرح سدا سفر میں رہا ذو ِ
ط درد
احمد یہ اب سے پہلے تو ابر نشا ِ
پلکوں سے اتنا ٹوٹ کے برسا نہ تھا کبھی
یہ الگ بات ،ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے
ش جاں! کس نے ستایا ہے مجھے اے مری کاہ ِ
دنیا
تیری چیخیں بھی کسی روز سنے گی ُ
مصلحت کیش! اگر تو نے ُرلیا ہے مجھے
دکھ نہ دے ُاسے
نفرت بھی وہ کرے تو کوئی ُ
اے رب ذوالجلل! مرا انتخاب ہے
ت عجز کے ہاتھ
متاِع فقر بھی آئی نہ دس ِ
ت وقار سے بھی
گریز پا ہی رہا دول ِ
نا ُامیدی کے دش ِ
ت تیرہ میں
تیری یادوں کی روشنی ہے بہت
ف طلب
نہ کوئی رنگ ،نہ سلوٹ ،نہ کوئی حر ِ
ورق ہے دیدہ و دل کا یہ اتنا سادہ کیوں
ت وفا کا
آثار ہوں اب کہنہ روایا ِ
اک گونج ہوں اور گنبد بے در کی طرح ہوں
سراغ
مل نہ جب تری قربت کی روشنی کا ُ ِ
ب آرزو ُاجالی ہے
غموں کی ُلو سے ش ِ
ف ُہو کر دے
صر ِ
تمام عالم ِ امکاں کو َ
وہ اک شعور ،وہ افسوں تری نظر میں ہے
دت!
س شب! تری قربت میں اس قدر ح ّ عرو ِ
یہ خاصیت تو فقط شعلہ و شرر میں ہے