Professional Documents
Culture Documents
ِ
فصاحت وبالغت ۔تعارف
علم بیان سے مراد وہ علم جو یہ ظاہر کرے کہ کس مضمون ِ
یا معنی کی ادائیگی کے لیے کون کون سے نئے انداز
استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔یعنی کس بات کو کس طرح
مختلف طریقوں سے بیان کیا جاسکتا ہے تاکہ جو بات بیان
کی جارہی ہے اس میں زور اور اثر پیدا ہو جائے اور ایک
معنی دوسرے سے زیادہ واضح اور عمدہ اظہار کی قوت
کے مالک ہوں یعنی ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے
متنوع پیرائے بیان کا استعمال کرنا ۔علم بیان کہالتا ہے۔علم
بیان وہ اصطالح ہے جس کے ذریعے کسی واقعے ،خیال یا
کیفیت کی سچی تصویر پیش کی جائے۔ اور قاری فورا ً بیان
کرنے والے کی بات کی تہہ تک پہنچ جائے اوراس طرح
ابالغ و ترسیل کا مقصد پورا ہوجائے اس کے ساتھ بات
میں دلچسپی اور تاثر پیدا ہونے کے ساتھ جدت بھی پیدا ہو
جائے۔ علم بیان کو علم ادب اور علم کتاب بھی کہا جاتا ہے۔
علم بیان کے اجزائے ترکیبی جو کسی بھی سادہ بیان کو
دلکش بناتے ہیں وہ بالغت کے زمرے میں آتے ہیں ۔
فصاحت وبالغت
فصاحت وبالغت کی آمیزش سے ہی اچھا شعر یا اچھا ادب
تخلیق کیا جاسکتا ہے ۔حاالنکہ ہر انسان اپنی بات کو
دوسروں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔لیکن
یہ ملکہ کسی کسی کو ہی حاصل ہوتا ہے وہ جو کچھ بیان
کرناچاہتا ہے وہ اتنا پرکشش اور واضح ہو کہ جس سے
غالب نے
ؔ تحریر و تقریر میں اثر پیدا ہو جائے جیسا کہ
اچھے شعر کی تاثیر کے بارے میں کہا ہے کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کو جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
یعنی ادھر بات منہ سے نکلے اور اُدھر دل SOHgSTX
میں گھر کرجائے۔ علما فصاحت کی تعریف کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ فصاحت وہ صفت ہے جس کے معنی خوش
بیانی کے ہیں ۔ یعنی جملے اور فقرے میں ایسے الفاظ و
محاورات کا استعمال کرنا جو مستند ہوں جن کو ادا کرنے
میں اہل زبان کی پیروی کی جائے مثالً قدمائ اس کی
تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
فصاحت کلمہ اور کالم دونوں میں پائی جاتی ہے یعنی ’’
کلمہ بھی فصیح ہوتا ہے اور کالم بھی ،کلمے کی فصاحت یہ
ہے کہ اس میں جو حروف آئیں ان میں تنافر نہ ہو اور
ت لفظی سے پاک ہو اور نہ قیاس لغوی اور غراب ِ
مخالفت ِ
ایسا ہو کہ اس کے سننے سے کراہیت معلوم ہو‘‘۔
اس تعریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ فصاحت کا تعلق سماعت
شبلی نعمانی بھی الفاظ کے سبک اور
ؔ سے گہرا ہے
شیریں کلمہ کو فصیح کہتے ہیں اور الفاظ کے ثقیل اور
کریہہ کو غیر فصیح سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ
انھوں نے اس کو فصیح ،فصیح تر ،اور فصیح ترین کے
درجات میں بھی بانٹا ہے لیکن کچھ مفکروں کا خیال ہے
کہ الفاظ یا کلمہ نہ تو خوش صورت ہوتے ہیں نہ کریہہ
ق استعمال صورت بلکہ کسی مصرعے ،جملے کے طری ِ
سے یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے ۔
اس کے عالوہ متقدمین نے کالم کی فصاحت کے لیے جن
عیوب سے کالم کو علیحدہ رکھنے کی تلقین کی وہ قاب ِل اعتنا
نہیں ہوسکتی کیونکہ جب اظہار و مطلب کے لیے ادبائ و
ذخیرہ الفاظ محدود معلوم ہوتے ہیں تو وہ
ٔ شعرائ کو روایتی
نامانوس الفاظ اور نئی تراکیب استعمال کرنے کی طرف
راغب ہوجاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں کئی بار متروک الفاظ
اور تراکیب کا استعمال بھی کر جاتے ہیں ۔ کیونکہ فلسفیانہ
اور مفکرانہ خیاالت و جذبات کی تہہ داری کوظاہر کرنے
میں عام اور سادہ الفاظ ان کا احاطہ کرنے سے قاصر ہو
جاتے ہیں ۔ ایسے میں ان کے موزوں ترین اظہار کے لیے
نادر او ردقیق الفاظ و تراکیب کی طرف ادبائ اور شعرائ کا
ت کالم الفاظ کے رجوع کرنا فطری ہے۔ اس طرح فصاح ِ
موزوں ترین انتخاب اور حسین ترتیب سے عبارت ہے اس
سلسلے میں شبلی نعمانی کی آرائ ہے کہ
کالم کی فصاحت میں صرف الفاظ کا فصیح ہونا کافی ’’
نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ
ترتیب میں آئیں ان کی ساخت ہیئت و نشست سبکی اور
گرانی کے ساتھ اس کو خاص توازن او رتناسب ہو ورنہ
‘‘ فصاحت قائم نہ رہے گی۔
شمس الرحمن فاروقی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ
فصاحت سے مراد یہ ہے کہ لفظ یا محاورے کو اس طرح ’’
بوال یا لکھا جائے جس طرح مستند اہل زبان لکھتے یا بولتے
ہیں ۔ ٰلہذا فصاحت کا تصور زیادہ تر سماعی ہے اس کی بنیاد
روز مرہ اہ ِل زبان ہے جو بدلتا بھی رہتا ہے اس لیے
فصاحت کے بارے میں کوئی دلیل النا یا اصول قائم کرنا
‘‘تقریبا ً نا ممکن ہے ۔
اعلی مثال پیش کرتی ہے
ٰ انیس کی شاعری فصاحت کی میر ؔ
؎ مثالً
امیر ہوں
ت جناب ؓ
سب جانتے ہیں بن ِ
گھر پہ تمہارے رہتی ہوں اس سے حقیر ہوں
اعلی
ٰ زینب کے بلند مرتبے اور
ؓ ت
ندرجہ باال شعر حضر ِ
ذہنیت کے بالکل منافی ہے اس لیے اس شعر میں بالغت
انیس نے ایسے
بالکل نہیں ہے اس کے بر عکس ؔ
موقعوں پر وہی بات کہی جو اس موقع حالت اور شخصیات
اکبر کے
ت علی ؓ سے پوری طرح ہم آہنگ ہے مثالً حضر ِ
زینب کی عالی
ؓ ت
انیس حضر ِ
میدان جنگ میں جانے پر ؔ ِ
ہمتی اور بلند مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے فطری
انداز بیان اپناتے ہیں مالحظہ
ِ موثر
اورکسی قدر ٔ
؎ کیجئے
:تشبیہ کی تعریف
تشبیہ لفظ شبہ سے بنایا گیا ہے۔ جس کے معنی مثال دینے یا
کسی دو چیزوں کے درمیان مشابہت ظاہر کرنا ہے ،جس
سے کہنے والے کا مقصد پوری طرح واضح ہو جائے۔ یہ
مشابہت کسی لفظ کے ذریعہ ظاہر کی جاتی ہے یعنی تشبیہ
دو چیزوں کے مابین باہمی مشابہت کا نام ہے ۔علم بیان کا
اصطالح میں دو مختلف چیزوں کو بعض مشترک
خصوصیات کی بنا پر ان میں باہمی مماثلت قائم کرنا ہے
۔تشبیہ کے چار ارکان ہیں ۔
جس چیز کو کسی دوسری چیز کے مانند \tمشبہ١\t۔
ٹھہرایا جائے اسے مشبہ کہتے ہیں ۔
جس سے تشبیہ دی جائے اسے مشبہ بہ \tمشبہ بہ٢\t۔
کہتے ہیں ۔
جن مشترک عناصر کی وجہ سے ایک کو \tوجہ شبہ٣\t۔
دوسرے سے تشبیہ دی جائے ،اسے وجہ شبہ کہتے ہیں ۔
حرف تشبیہ٤\t۔ِ مشابہت قائم کرنے کے لیے جن حروف \t
حرف تشبیہ کہےں گے ۔مثالً ِ کا استعمال کیا جاتا ہے ۔انہیں
یہ حرف ،جیسا ،جیسے ،مانند ،مثل ،سا ،سی ،برابر وغیرہ
میر کا مشہور شعر دیکھئے ؎ اس سلسلے میں ؔ
نازکی ان کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی ایک گالب کی سی ہے
مندرجہ باال شعر میں مجبوب کے لبوں کوگالب کی
پنکھڑی سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ان دونوں میں جو صفت
مشترک ہے وہ ہے لبوں کی نازکی خوبصورتی اور رنگین
آمیزی ،اس شعر میں محبوب کے لب ہوئے مشبہ اورگالب
کی پنکھڑی مشبہ بہ ہوئی اور نازکی وجہ تشبیہ ہوئی
رف تشبیہ ہوا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اورحرف ’سی‘ ح ِ
ِ
حرف تشبیہ ضرور ہو۔
ِ تشبیہ میں ہر جگہ وجہ تشبیہ اور
کئی بار ان دونوں ارکان کے بغیر بھی تشبیہ دے دی جاتی
ہے ۔جیسے کسی بہادر کو شیرسے تشبیہ دیں تو کہا جائے
گا کہ ،وہ شیر ہے ،یا وہ شیر کی طرح ہے ،ان
جملوں میں پہلے جملے میں حرف تشبیہ مذکور نہیں ہے
لیکن دوسرے جملے میں ’’شیر کی طرح‘‘ میں طرح
حرف تشبیہ ہے۔ اوریہ بات یا درکھنے والی ہے کہ تشبیہ
کے لیے کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی الزمی
ہے کہ وہ خصوصیت جس کی بنا پر تشبیہ دی جائے مشبہ
کی بہ نسبت مشبہ بہ سے زیادہ اعل ٰی ہو۔ لیکن یہ ضروری
نہیں ہے کہ ایسی برتری حقیقت میں ہو۔ البتہ اگر تشبیہ
دینے والے کے خیال کے مطابق یہ برتری ہے تو کوئی
حرج نہیں ،لیکن ایسی مشابہت کے لیے کسی قسم کی دلیل
موجود ہونی چاہئے۔ مثالً یہ کہیں کہ ،راشد شیر ہے ،تو اس
ادنی سے
اعلی کو بھی ٰ ٰ میں شیر برتر ہے۔ اس کے عالوہ
تشبیہ دی جاسکتی ہے جیسے کہ خدا کے نور کو آفتاب سے
تشبیہ دیں حاالنکہ خدا اور اس کا نور جو سب سے آ ٰ
علی
وارفع ہے اور خدا کے نور کے مقابلے میں آفتاب ٰ
ادنی
تشبیہ ہے حاالنکہ خدا کی ذات تشبیہ سے باال تر ہے ۔
نفس کی آمدوشد ہے ِ
نماز اہل حیات
(ذوق
ؔ )جو یہ قضا ہو تو اے غافلوں قضا سمجھو
سانس کی رفتار کو نماز کی مجموعی حالت سے تشبیہ دی
گئی ہے جس طرح نماز میں قیام پھر رکوع و سجود کے
لےے اوپر اٹھنااور کبھی نیچے جھکتا ہوتاہے اسی طرح
زیر وبم میں جو زندگی کی عالمت سمجھے سانسوں کے ِ
جاتے ہیں اس کے عالوہ تشبیہ کی دو اور قسمیں ہیں یعنی
قریب و بعید ۔
تشبیہ قریب :جو تشبیہ جلدی سمجھ میں آجائے اور مشبہ
کا تعلق مشبہ بہ سے بہت واضح ہو وہ تشبیہہ قریب کہالتی
ہے مثالً
ت پیری شباب کی باتیں
وق ِ
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
علم بالغت میں تشبیہہ قریب کا شعر معمولی اور کمتر مانا ِ
جاتا ہے ۔
تشبیہ بعید :جس تشبیہ میں وجہ تشبیہ کو سمجھنے
میں غوروفکر کی ضرورت ہو اسے تشبیہ بعید یا تشبیہ
غریب کہتے ہیں اور اگر تشبیہ میں وجہ تشبیہہ کئی
تراکیب سے مل کر بنے تو وہ تشبیہ نہ صرف دور کی ہوگی
؎ بلکہ زیادہ لطافت اور بالغت سے پر بھی ہوگی مثالً
تشبیہ رگِ گل سے انہیں دوں توہے زیبا
رشک قمر سرخِ ڈورے ہیں ترے آنکھ کے اے
یہاں آنکھوں کے ڈوروں کو رگِ گل سے تشبیہ دی ہے
اور ان ڈوروں کی وجہ خوبصورتی ،باریکی اور سرخی
ہے اس شعر سے مجبوب کے نشے میں ہونے کا پتہ چلتا
ہے ۔
تشبیہہ مفصل :اگر تشبیہ میں وہ خصوصیت جس کی وجہ
سے ایک چیز کو دوسری سے تشبیہ دی گئی ہے اس کا ذکر
ملتا ہے تو ایسی تشبیہ کو مفصل کہتے ہیں ورنہ مجمل ہے۔
جیسے کہیں کہ شاہدہ حسن میں آفتاب کی مانند ہے ،تو یہ
تشبیہ مفصل ہوئی یعنی اس جملے میں مفہوم واضح ہے اور
وجہ تشبیہ بتادیا گیا ہے لیکن اگر یوں کہیں کہ شاہدہ آفتاب
کی طرح ہے ،تو یہاں لفظ ’’حسن‘‘جو وجہ تشبیہ ہے اس
کا ذکر نہیں ملتا اس لیے یہ تشبیہ مجمل ہوئی۔
استعارہ :استعارہ کے لغوی معنی مستعار لینے کے ہیں ۔
علم بیان کی رو سے جب کسی لفظ کا استعمال ایسی شے
کے لیے کیا جائے جس کے لیے وہ بنیاد ی طور پر وضع نہ
کیا گیا ہو ،مگر دونوں میں مشابہتی رشتہ قائم ہو جائے تو
استعارہ کہالئے گا وہاب اشرفی استعارہ کی تعریف بیان
کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
علم بیان کی اصطالح میں استعارہ سے مراد حقیقی اور ’’
مجازی معنوں کے مابین تشبیہ کا عالقہ پیدا کرنا یعنی
حقیقی معنی کا لباس عاریتا ً مانگ کر مجازی معنی کوپہنانا
استعارہ کہالتا ہے ۔اس میں لفظ اپنے لغوی معنی ترک
کرکے لسانی سیاق و سباق کے اعتبار سے نئے معنی اختیار
‘‘کرتا ہے ۔
استعاروں کے ذریعہ زبان نئی معنوی وسعتوں سے آشنا
ہوتی ہے یہ عمل چار ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔
)مستعارلہ (جس کے لیے مستعار لیا جائے١\t۔
ٰ مشبّہ\t
مشبہ بہ) \tمستعارمنہ (جسے مستعار لیا جائے٢\t۔
مستعار(وہ لفظ جو مستعار منہ کے معنی پر داللت ٣\t۔
حرف تشبیہہ استعارے میں ضروری نہیں ہے۔ ِ کرے)
نقطہ اشتراک جس کی وجہ سے مستعار لیا ٤\t۔ ٔ وجہ جامع(
وجہ تشبیہ) \tجائے
تشبیہ اور استعارے میں گہرا تعلق ہے کیونکہ استعارے کی
بنیاد تشبیہ پر ہے فرق صرف اتنا ہے کہ تشبیہ میں مشبہ
اور مشبہ بہ کے بیچ مماثلت دی جا رہی ہے )اسے عین
مشبہ بہ (یعنی جس سے تشبیہ دی گئی ہے )قرار دیا جائے۔
استعارہ ایسا مجاز (لغوی معنی سے الگ کسی معنی
میں استعمال) ہے جس میں دو چیزوں کے درمیان مشابہت
کا عالقہ ہوتا ہے۔ مثالً کسی بہادر آدمی کو صرف شیر
کہیں یعنی وہ شیر ہے تو یہ استعارہ ہوگا استعارہ میں جس
کی مشابہت کسی چیز سے ہوتی ہے اس چیز کا ذکر
نہیں کیا جاتا ۔جیسے کہ مندرجہ باال جملے میں بہادر آدمی
مستعارلہ کہتے
ٰ کو صرف شیر کے نام سے پکارا ہے ۔اسے
ہیں اور جس میں مشابہت دکھائی جائے یعنی کیا مشابہت
ہے اس کا ذکر کہاں ہے اسے مستعارہ منہ کہتے ہیں ۔ اوپر
ٰ
مستعارلہ اور شیر مستعار منہ ہے کی مثال میں بہادر آدمی
اور مشابہت کی وجہ یعنی بہادری کی وجہ جامع کہتے
ہیں اور لفظ استعارے کا قرینہ ہوتا ہے اسے مستعار کہتے
ہیں ۔
استعارہ کی کی قسمیں ہیں مثالًاستعارہ قافیہ ،استعارہ عنادیہ
،استعارہ عامیہ ،استعارہ غریبیہ ،استعارہ اصلیہ ،استعارہ
تبعیہ ،استعارہ مطلقہ ،استعارہ مجرد ،استعارہ مرشحہ،
استعارہ تمثیلیہ وغیرہ ۔
استعارہ تشبیہ سے زیادہ قوی ہوتا ہے کیونکہ تشبیہ میں دو
چیزوں کا مشابہہ ہونا ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ استعارہ
میں دونوں کا یکجا ہونا ظاہر کیا جاتا ہے ۔یعنی
دونوں میں حقیقی اور مجازی معنوں میں آپس میں کوئی
رشتہ ضرور ہوتا ہے۔ اگریہ رشتہ تشبیہ کا ہے تو اسے
استعارہ کہیں گے مثالً کسی حسین لڑکی کو دیکھ کر
کہیں کہ میں نے پھول جیسی لڑکی دیکھی تو یہ تشبیہ ہوئی
اور اگر کہیں میں نے پھول دیکھا تو اسے استعارہ
کہیں گے تشیبہ اوراستعارہ میں خاص فرق یہ ہے کہ تشبیہ
لغت کے تابع ہوتی ہے جبکہ استعارے کا لغت سے کوئی
تعلق نہیں ہوتا بلکہ اسے ایجاد کیا جاتا ہے ۔
استعارے کی ایک قسم استعارہ بالتصریح ہے۔ استعارہ
بالتصریح اس استعارے کو کہتے ہیں جس میں مستعارلہ کا
ذکر نہ ہوصرف مستعار منہ کا ذکر کیا جائے یعنی مشبہ بہ
کا ذکر کیا جائے اور اس سے مشبہ مراد لی جائے مثالً
پھول لے کر پھول آئے پھول سے میں نے کہا
پھول کیوں الئے ہو صاحب تم توخود ہی پھول ہو
اس شعر میں پھول سے مراد حسین مجبوب کے ہیں ٰلہذا
مستعارلہ ہوا استعارہ کی
ٰ پھول مستعار منہ ہوا اور محبوب
ایک اور قسم استعارہ بالکنا یہ ہے ۔یہ استعارے کی ایسی
مستعارلہ کا ذکر ہوتا ہے اور
ٰ قسم ہے جس میں صرف
مستعار منہ کے لیے کوئی اشارہ کر دیا جاتاہے ۔جیسے
کہیں کہ موت کہ ُچنگل سے کسے رہائی ہے تو یہ استعارہ
بالکنا یہ ہوگا کیونکہ صرف چنگل سے معلوم ہوا ہے کہ
مستعار منہ عقاب۔ یا شاہین ہے جس کے ہاتھ اگر انسان لگ
جائے تو وہ زندہ نہیں چھوڑتا۔
مجاز مرسل میں صرف مجازی معنی لیے ِ مجاز مرسل :
ِ
جاتے ہیں حقیقی معنی بالکل چھوڑ دئےے جاتے
ہیں ۔کیونکہ مجازی معنی کے ساتھ حقیقی معنی بھی شامل
ہوں تو وہ کنایہ ہو جاتا ہے ۔مجاز مرسل میں کل کہہ کر
جزو مراد لیا جاتا ہے ۔مثالً ؔ
میر کا شعر مالحظہ کیجئے۔