You are on page 1of 24

‫علم بیان‬

‫ِ‬
‫فصاحت وبالغت ۔تعارف‬
‫علم بیان سے مراد وہ علم جو یہ ظاہر کرے کہ کس مضمون‬ ‫ِ‬
‫یا معنی کی ادائیگی کے لیے کون کون سے نئے انداز‬
‫استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔یعنی کس بات کو کس طرح‬
‫مختلف طریقوں سے بیان کیا جاسکتا ہے تاکہ جو بات بیان‬
‫کی جارہی ہے اس میں زور اور اثر پیدا ہو جائے اور ایک‬
‫معنی دوسرے سے زیادہ واضح اور عمدہ اظہار کی قوت‬
‫کے مالک ہوں یعنی ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے‬
‫متنوع پیرائے بیان کا استعمال کرنا ۔علم بیان کہالتا ہے۔علم‬
‫بیان وہ اصطالح ہے جس کے ذریعے کسی واقعے‪ ،‬خیال یا‬
‫کیفیت کی سچی تصویر پیش کی جائے۔ اور قاری فورا ً بیان‬
‫کرنے والے کی بات کی تہہ تک پہنچ جائے اوراس طرح‬
‫ابالغ و ترسیل کا مقصد پورا ہوجائے اس کے ساتھ بات‬
‫میں دلچسپی اور تاثر پیدا ہونے کے ساتھ جدت بھی پیدا ہو‬
‫جائے۔ علم بیان کو علم ادب اور علم کتاب بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫علم بیان کے اجزائے ترکیبی جو کسی بھی سادہ بیان کو‬
‫دلکش بناتے ہیں وہ بالغت کے زمرے میں آتے ہیں ۔‬
‫فصاحت وبالغت‬
‫فصاحت وبالغت کی آمیزش سے ہی اچھا شعر یا اچھا ادب‬
‫تخلیق کیا جاسکتا ہے ۔حاالنکہ ہر انسان اپنی بات کو‬
‫دوسروں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔لیکن‬
‫یہ ملکہ کسی کسی کو ہی حاصل ہوتا ہے وہ جو کچھ بیان‬
‫کرناچاہتا ہے وہ اتنا پرکشش اور واضح ہو کہ جس سے‬
‫غالب نے‬
‫ؔ‬ ‫تحریر و تقریر میں اثر پیدا ہو جائے جیسا کہ‬
‫اچھے شعر کی تاثیر کے بارے میں کہا ہے کہ‬
‫دیکھنا تقریر کی لذت کو جو اس نے کہا‬
‫میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‬
‫یعنی ادھر بات منہ سے نکلے اور اُدھر دل ‪SOHgSTX‬‬
‫میں گھر کرجائے۔ علما فصاحت کی تعریف کرتے ہوئے‬
‫لکھتے ہیں کہ فصاحت وہ صفت ہے جس کے معنی خوش‬
‫بیانی کے ہیں ۔ یعنی جملے اور فقرے میں ایسے الفاظ و‬
‫محاورات کا استعمال کرنا جو مستند ہوں جن کو ادا کرنے‬
‫میں اہل زبان کی پیروی کی جائے مثالً قدمائ اس کی‬
‫تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔‬
‫فصاحت کلمہ اور کالم دونوں میں پائی جاتی ہے یعنی ’’‬
‫کلمہ بھی فصیح ہوتا ہے اور کالم بھی‪ ،‬کلمے کی فصاحت یہ‬
‫ہے کہ اس میں جو حروف آئیں ان میں تنافر نہ ہو اور‬
‫ت لفظی سے پاک ہو اور نہ‬ ‫قیاس لغوی اور غراب ِ‬
‫مخالفت ِ‬
‫ایسا ہو کہ اس کے سننے سے کراہیت معلوم ہو‘‘۔‬
‫اس تعریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ فصاحت کا تعلق سماعت‬
‫شبلی نعمانی بھی الفاظ کے سبک اور‬
‫ؔ‬ ‫سے گہرا ہے‬
‫شیریں کلمہ کو فصیح کہتے ہیں اور الفاظ کے ثقیل اور‬
‫کریہہ کو غیر فصیح سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ‬
‫انھوں نے اس کو فصیح ‪ ،‬فصیح تر ‪،‬اور فصیح ترین کے‬
‫درجات میں بھی بانٹا ہے لیکن کچھ مفکروں کا خیال ہے‬
‫کہ الفاظ یا کلمہ نہ تو خوش صورت ہوتے ہیں نہ کریہہ‬
‫ق استعمال‬ ‫صورت بلکہ کسی مصرعے ‪،‬جملے کے طری ِ‬
‫سے یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے ۔‬
‫اس کے عالوہ متقدمین نے کالم کی فصاحت کے لیے جن‬
‫عیوب سے کالم کو علیحدہ رکھنے کی تلقین کی وہ قاب ِل اعتنا‬
‫نہیں ہوسکتی کیونکہ جب اظہار و مطلب کے لیے ادبائ و‬
‫ذخیرہ الفاظ محدود معلوم ہوتے ہیں تو وہ‬
‫ٔ‬ ‫شعرائ کو روایتی‬
‫نامانوس الفاظ اور نئی تراکیب استعمال کرنے کی طرف‬
‫راغب ہوجاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں کئی بار متروک الفاظ‬
‫اور تراکیب کا استعمال بھی کر جاتے ہیں ۔ کیونکہ فلسفیانہ‬
‫اور مفکرانہ خیاالت و جذبات کی تہہ داری کوظاہر کرنے‬
‫میں عام اور سادہ الفاظ ان کا احاطہ کرنے سے قاصر ہو‬
‫جاتے ہیں ۔ ایسے میں ان کے موزوں ترین اظہار کے لیے‬
‫نادر او ردقیق الفاظ و تراکیب کی طرف ادبائ اور شعرائ کا‬
‫ت کالم الفاظ کے‬ ‫رجوع کرنا فطری ہے۔ اس طرح فصاح ِ‬
‫موزوں ترین انتخاب اور حسین ترتیب سے عبارت ہے اس‬
‫سلسلے میں شبلی نعمانی کی آرائ ہے کہ‬
‫کالم کی فصاحت میں صرف الفاظ کا فصیح ہونا کافی ’’‬
‫نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ‬
‫ترتیب میں آئیں ان کی ساخت ہیئت و نشست سبکی اور‬
‫گرانی کے ساتھ اس کو خاص توازن او رتناسب ہو ورنہ‬
‫‘‘ فصاحت قائم نہ رہے گی۔‬
‫شمس الرحمن فاروقی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ‬
‫فصاحت سے مراد یہ ہے کہ لفظ یا محاورے کو اس طرح ’’‬
‫بوال یا لکھا جائے جس طرح مستند اہل زبان لکھتے یا بولتے‬
‫ہیں ۔ ٰلہذا فصاحت کا تصور زیادہ تر سماعی ہے اس کی بنیاد‬
‫روز مرہ اہ ِل زبان ہے جو بدلتا بھی رہتا ہے اس لیے‬
‫فصاحت کے بارے میں کوئی دلیل النا یا اصول قائم کرنا‬
‫‘‘تقریبا ً نا ممکن ہے ۔‬
‫اعلی مثال پیش کرتی ہے‬
‫ٰ‬ ‫انیس کی شاعری فصاحت کی‬ ‫میر ؔ‬
‫؎ مثالً‬

‫کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا‬


‫دامن صحرا بھرا ہوا‬
‫ِ‬ ‫تھا موتیوں سے‬
‫انیس پل کا بھروسہ نہیں ٹھہرجائو‬
‫ؔ‬
‫چراغ لے کے کہاں سامنے ہواکے چلے‬
‫بالغت‬
‫بالغت سے مراد کالم کو دوسروں کے گوش گزار کرنے‬
‫سے تعلق رکھتی ہے بالغت کے لغوی معنی تیز زبان کے‬
‫ہیں ۔ بالغت کی تعریف عموما ً یوں کی جاتی ہے کہ کالم‬
‫تقاضہ حال کے مطابق ہو۔ بالغت کی تعریف‬
‫ٔ‬ ‫فصیح ہو اور‬
‫کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں کہ‬
‫بالغت کسی علم کا نام نہیں ہے بلکہ بالغت ایک تصور ’’‬
‫ت حال کی تصوراتی شکل کو کہا جاتا‬ ‫ہے ۔بالغت اس صور ِ‬
‫ہے جو زبان کو حسن اور خوبی کے ساتھ استعمال کرنے‬
‫سے ظہور میں آتی ہے …بالغت اس صور ِ‬
‫ت حال کو‬
‫کہتے ہیں ۔جب کالم میں الفاظ معمولی زبان کے مقابلے‬
‫میں زیادہ زور اور خوبی کے حامل ہوں مغرب کے جدید‬
‫ماہرین استعارہ بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شعر‬
‫ِ‬
‫میں زبان کے استعمال کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ عام زبان‬
‫‘‘سے زیادہ ارفع و امجد ہوتی ہے ۔‬
‫شبلی نعمانی کا خیال ہے کہ‬
‫ؔ‬ ‫اور‬
‫گویا بالغت کا صرف اس قدر فرض ہے کہ تم کسی مطلب ’’‬
‫کو ادا کرنا چاہو تو یہ بتادے کے جملہ کے اجزا کیا ہونا‬
‫چاہئیں اور ان اجزاکی ترکیب کیا ہونی چاہئے۔ لیکن اگر عام‬
‫طور سے یہ پوچھا جائے کہ کس قسم کے مضامین‬
‫فن بالغت اس کے‬ ‫کیوں کر ادا کرنا چاہئیں ؟ تو موجودہ ِ‬
‫متعلق کچھ رہبری نہیں کر سکتا ‪ ،‬حاالنکہ بالغب کا اصلی‬
‫…تعلق مضامین ہی سے ہے نہ الفاظ سے‬
‫ت الفاظ در حقیقت بالغت کا ابتدائی درجہ ہے ‪،‬اصلی‬
‫بالغ ِ‬
‫اعلی درجہ کی بالغت ‪،‬معانی کی بالغت ہے۔ یعنی قدما‬
‫ٰ‬ ‫اور‬
‫دور‬
‫کے نزدیک بالغت علم سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن ِ‬
‫حاضر میں اسے تصور سے تعبیر کیاجاتا ہے جو زبان کے‬
‫فنکارانہ استعمال سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہاب اشرفی بالغت‬
‫کے جدید تصور کی روشنی میں اپنی آرائ کا اظہار کرتے‬
‫‪ :‬ہوئے کہتے ہیں کہ‬

‫شاعری میں جو الفاظ ہوتے ہیں وہ یقینی جانے پہچانے ’’‬


‫ہوتے ہیں ۔ لیکن خالق انھیں نئی توانائی بخش دیتا ہے ۔اس‬
‫طرح کہ وہ عام سطح سے بلند ہو جاتے ہیں اور ایک‬
‫مرتبہ کمال‬
‫ٔ‬ ‫واضح معیاری صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ یہی‬
‫ہے۔ جس کا حصول آسان نہیں اور جس میں ذوق کی‬
‫کارکردگی کھل کر سامنے آتی ہے۔ گویا بالغت کی تفہیم‬
‫معنی سے زیادہ الفاظ سے ہوتی ہے۔ یہ بالکل نیا تصور ہے‬
‫‘‘۔‬

‫مندرجہ باال اقوال کی روشنی میں یہ بات پوری طرح‬


‫سامنے آجاتی ہے کہ بالغت کا تعلق الفاظ سے بھی ہے اور‬
‫معنی سے بھی لیکن اس کا اصل تعلق مضامین سے گہرا‬
‫ہے یعنی ایک ادیب یا شاعر جس واقعہ کو بیان کر رہا ہے‬
‫پیش نظر عقل‬ ‫وہ اس طرح بیان ہو کہ موقع اور حالت کے ِ‬
‫اس کو قبول کرے اور واقعات کی جزئیات حالت سے پوری‬
‫طرح ہم آہنگ ہونی چاہئے تاکہ وہ تصویر آنکھوں کے‬
‫سامنے کھنچ جائے اسی کا نام بالغت ہے ۔ اگر کالم‬
‫میں بالغت نہیں ہوگی تو وہ تاثیر اور فطرت کے منافی‬
‫ہوگا۔ فصاحت اور بالغت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے البتہ‬
‫یہ ہوسکتا ہے کہ کسی کالم میں فصاحت ہو ‪،‬بالغت نہ ہو‬
‫مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی کالم بلیغ ہو‪ ،‬اور فصیح نہ ہو۔‬
‫دبیر‬
‫انیس اور مرزا ؔ‬ ‫فصاحت اور بالغت کے ضمن میں میر ؔ‬
‫دبیر کے‬‫کی شاعری میں بے شمار مثالیں موجود ہیں مثالً ؔ‬
‫حسین کی بہن حضرت‬ ‫ؓ‬ ‫مرثیہ میں ایک موقع پر حضرت‬
‫اکبر جن کی‬‫زینب اس لیے ناراض ہوگئیں کہ حضرت علی ؓ‬ ‫ؓ‬
‫زینب نے پرورش تھی انھیں جنگ میں جانے کی‬ ‫ؓ‬ ‫ت‬
‫حضر ِ‬
‫؎ اجازت کیوں دی گئیں ۔ فرماتی ہیں‬

‫امیر ہوں‬
‫ت جناب ؓ‬
‫سب جانتے ہیں بن ِ‬
‫گھر پہ تمہارے رہتی ہوں اس سے حقیر ہوں‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫زینب کے بلند مرتبے اور‬
‫ؓ‬ ‫ت‬
‫ندرجہ باال شعر حضر ِ‬
‫ذہنیت کے بالکل منافی ہے اس لیے اس شعر میں بالغت‬
‫انیس نے ایسے‬
‫بالکل نہیں ہے اس کے بر عکس ؔ‬
‫موقعوں پر وہی بات کہی جو اس موقع حالت اور شخصیات‬
‫اکبر کے‬
‫ت علی ؓ‬ ‫سے پوری طرح ہم آہنگ ہے مثالً حضر ِ‬
‫زینب کی عالی‬
‫ؓ‬ ‫ت‬
‫انیس حضر ِ‬
‫میدان جنگ میں جانے پر ؔ‬ ‫ِ‬
‫ہمتی اور بلند مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے فطری‬
‫انداز بیان اپناتے ہیں مالحظہ‬
‫ِ‬ ‫موثر‬
‫اورکسی قدر ٔ‬
‫؎ کیجئے‬

‫زینت نے کہا جس میں رضائے شہ عالی‬ ‫ؓ‬


‫میں نے تو کوئی بات نہیں منہ سے نکالی‬
‫کیا غم ہے نہ پوچھا مجھے ماں سے تو رضا لی‬
‫مالک ہیں وہی ‪،‬میں تو ہوں اک چاہنے والی‬
‫صدقے کیے فرزند پھو پھی سوگ نشیں ہے‬
‫سمجھیں تو مرا حق ہے نہ سمجھیں تو نہیں ہے‬
‫انیس واقعات کی جزئیات‬
‫اس شعر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ؔ‬
‫کے بیان پر پوری قدرت رکھتے تھے جس نے ان کے کالم‬
‫میں فصاحت اور بالغت کا دریا بہا دیا ہے کئی بار کوئی‬
‫بات عقیدے کی بنا پر بھی کہی جاتی ہے یعنی یہ ضروری‬
‫نہیں کہ کوئی واقعہ یا حادثہ حقیقتا ً گزرا ہی ہوبلکہ صرف‬
‫اتنا کافی ہے کہ اسے عقل قبول کرے مثالً ؔ‬
‫انیس ایک مقام پر‬
‫حسین کی زبان سے اس طرح کے کلمات ادا‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت امام‬
‫؎ کراتے ہیں کہ‬
‫طاقت اگر دکھائوں رسالت ما ٓب کی‬
‫رکھ دوں زمیں پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی‬
‫اس شعر میں شاعر کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ حضرت‬
‫تعالی نے ایسی طاقت بخشی تھی ۔ ٰلہذا شاعر‬
‫ٰ‬ ‫ؓ‬
‫حسین کو حق‬
‫کایہ کہنا کہ رکھ دوں زمیں پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی‪،‬‬
‫سے اس مصرعے میں بالغت میں کوئی کمی واقع‬
‫نہیں ہوتی ۔‬
‫بالغت کی قسمیں‬
‫علم‬
‫علم معانی ِ‬
‫بالغت کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ِ‬
‫بیان او رعلم بدیع ‪،‬علم معنی کا تعلق جملے کی ساخت سے‬
‫تعلق رکھتا ہے اور اس کے لوازم سے یعنی بالغت میں اس‬
‫بات کا دھیان رکھنا ہوتا ہے کہ کس موقع پرجملے کہ کون‬
‫سے اجزائ بیان کرنے چاہئے اور کون سے نہیں ۔یعنی‬
‫کون سے موقع پر جملے سے خبر دینی مقصود ہے اور کون‬
‫انداز بیان کو اپنانا ہے مثالً ایک ہی‬
‫ِ‬ ‫سے موقع پر انشائیہ‬
‫جملے میں الفاظ کی ترتیب سے مفہوم میں کس طرح معنی‬
‫‪ :‬تبدیل ہو جاتے ہیں مالحظہ کیجئے‬
‫مجھے یہ پین سنانے دیا ہے (یعنی کسی اور نے ‪١\t‬۔‬
‫)نہیں دیا‬
‫)سنانے مجھے یہ پین دیا ہے (اور کوئی چیز نہیں دی‪٢\t‬۔‬
‫علم بیان یہ سکھاتا ہے کہ کسی بھی مضمون کو بیان کرنے‬
‫کے لیے کیا کیا انداز ہو سکتے ہیں ہر انداز کی نوعیت‬
‫جداگانہ ہوتی ہے۔ اس سے مضمون میں زور اور اثر پیدا‬
‫ہوتا ہے اور علم بدیع سے کالم کا حسن بڑھ جاتا ہے ۔بالغت‬
‫میں سب سے اہم معانی کا اظہار ہے اس کے بعد بیان اور‬
‫آخر میں بدیع یہ تینوں علم اپنی افادیت اور نوعیت کے‬
‫لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اگر کالم میں ان‬
‫اعلی تخلیق کا ظہور‬‫ٰ‬ ‫تینوں کو ملحوظ رکھا جائے تو ایک‬
‫ہوتا ہے ۔‬
‫علم بیان سے مراد ایک ہی مضمون کو بیان کرنے کے لیے‬ ‫ِ‬
‫کس طرح نئے نئے پیرائے استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔یہ‬
‫از‬
‫پیرائے چار قسم کے ہوسکتے ہیں ۔ تشبیہ ‪،‬استعارہ ‪،‬مج ِ‬
‫مرسل ‪،‬کنایہ ان پیرایوں کے استعمال سے کالم میں ایک‬
‫سے زیادہ معنی پیدا کیے جاسکتے ہیں اور کسی ایک معنی‬
‫کو مختلف پیرایوں میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔علم بدیع‬
‫میں اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ الفاظ کے معنی اور‬
‫صوری ُحسن اور ان کے طریقے کیا ہیں جس کے ذریعہ‬
‫کالم کی معنوی اور ظاہری خوبصورتی میں اضافہ ہوجائے‬
‫یعنی بدیع معنی کی وہ خوبی قرار پاتا ہے جو بیان کے‬
‫ذریعے پیدا ہوتی ہے اس کے ساتھ وہ کون سی‬
‫خوبیاں ہیں اور انھیں کس طرح پیدا کیا جائے اور پرکھا‬
‫جائے‪ ،‬ان کو صنائع معنوی کہا جاتا ہے۔ علم بدیع‬
‫میں دوسری چیز یہ ہے کہ کالم کی ان خوبیوں کا مطالعہ‬
‫کیاجائے جو کالم میں معنوی اضافہ اس قدر نہیں کر تیں ‪،‬‬
‫جس قدر کہ ضائع معنوی کے ذریعہ کالم میں اضافہ ہوتا‬
‫ہے ۔اور جس سے الفاظ میں جدت ‪ ،‬تازگی اور ندرت پیدا ہو‬
‫جاتی ہے ۔یعنی لفظی خوبی کو ضائع لفظی کہتے ہیں ۔‬
‫بدیع‬
‫بدیع کے لغوی معنی بنانے واال اور انوکھے و نادر کے‬
‫ہیں اور شعری اصطالح میں اس علم کو کہتے ہیں جس‬
‫میں ان چیزوں کی طرف اشارہ کیا جائے جن سے کالم‬
‫۔عرف عام میں اسے ضائع‬‫ِ‬ ‫کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے‬
‫بدائع کہا جاتاہے ۔یعنی یہ وہ علم ہے جس میں کالم کے‬
‫حسن و خوبی کے لوازمات سے بحث کی جائے ۔ لیکن اس‬
‫کے لیے کالم کا بلیغ ہونا پہلی شرط ہے۔ کیونکہ اگر کالم‬
‫لفظ و معنی کی مطابقت سے عاری ہوگا تو اس میں حسن‬
‫پیدا ہونا ممکن نہیں ۔ یہ حسن صورت میں بھی ہوتا ہے اور‬
‫معنی و مطالب میں بھی اس مناسبت سے صنائع بدائع کی‬
‫دو قسمیں ٹھہریں ایک وہ خوبیاں جن سے معنوی حسن‬
‫میں اضافہ ہو‪،‬انھیں صنائع معنوی کہا جاتا ہے ۔بقول یوسف‬
‫حسین خاں‬
‫ؔ‬

‫صنائع لفظی اور معنوی سے شاعر کو اپنے تخیل کی ’’‬


‫پرواز میں مدد ملتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ان کا استعمال‬
‫برمحل ہو‪ ،‬اگر صفت کی خاطر صنعت برتی گئی اور شعر‬
‫کہا گیا تو رمزی تاثیر مجروح ہو جائے گی۔ صنائع بھی‬
‫بالغت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ۔ ضروری ہے کہ ان‬
‫‘‘سے شعر کی طلسمی تاثیرمیں اضافہ ہو‪ ،‬نہ کہ کمی۔‬
‫یعنی صنائع بدائع میں مضمون کا بر وقت اور بر محل ہونا‬
‫الفاظ کا مضمون سے پوری طرح مطابقت رکھنا بیان یعنی‬
‫تشبیہات و استعارات وغیرہ کا موزوں ترین استعمال اور‬
‫تکلف سے عاری بدیعیات کا اہتمام اور اس کے ساتھ اسلوب‬
‫میں بے ساختگی وغیرہ جیسے تمام عناصر اس میں شامل‬
‫ہیں ۔ مضمون کی برجستگی سے مراد جو خیال پیش کیا‬
‫جائے وہ اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے یا اپنے زمان و‬
‫مکان کی حدود سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہو۔ اور کالم‬
‫میں استعمال شدہ الفاظ میں ہم آہنگی اور ایسی چستی پائی‬
‫جائے کہ اگر ایک لفظ بھی اس میں سے خارج کر دیا جائے‬
‫تو معنی میں خلل واقع ہو جائے ایسے کالم کو برجستگی‬
‫طرز بیان‬
‫ِ‬ ‫سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اسی طرح موضوع اور‬
‫میں بھی پوری مطابقت ہونی ضروری ہے تاکہ دونوں باہم‬
‫مربوط ہو کر ایک وحدت بن جائیں ‪،‬اسے اسلوب کی‬
‫تش کے اشعار‬‫برجستگی کہیں گے۔ اس سلسلے میں آ ؔ‬
‫مالحظہ کیجئے۔‬
‫بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں‬ ‫ِ‬
‫تش مرصع ساز کا‬ ‫شاعری بھی کام ہے آ ؔ‬
‫تش;‬
‫ہالدیں دل نہ کیونکر شعر آ ؔ‬
‫صفا بندش ہے‪ ،‬معنی خوبصورت‬
‫اپنے ہر شعر میں ہے معنی تہ دار آ ؔ‬
‫تش‬
‫وہ سمجھتے ہیں جو کچھ فہم وذکارکھتے ہیں‬
‫کھینچ دیتا ہے شبہ شعر کا خاکہ خیال‬
‫فکر رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرواز کا‬
‫لم بیان کے وہ مختلف پیرایے جو کسی بھی سادہ بیان کو پر‬
‫مجاز مرسل‬
‫ِ‬ ‫اثر اور دلکش بنا تے ہیں ‪،‬وہ تشبیہ‪ ،‬استعارہ‪،‬‬
‫اور کنایہ ہیں ۔‬

‫‪ :‬تشبیہ کی تعریف‬

‫تشبیہ لفظ شبہ سے بنایا گیا ہے۔ جس کے معنی مثال دینے یا‬
‫کسی دو چیزوں کے درمیان مشابہت ظاہر کرنا ہے‪ ،‬جس‬
‫سے کہنے والے کا مقصد پوری طرح واضح ہو جائے۔ یہ‬
‫مشابہت کسی لفظ کے ذریعہ ظاہر کی جاتی ہے یعنی تشبیہ‬
‫دو چیزوں کے مابین باہمی مشابہت کا نام ہے ۔علم بیان کا‬
‫اصطالح میں دو مختلف چیزوں کو بعض مشترک‬
‫خصوصیات کی بنا پر ان میں باہمی مماثلت قائم کرنا ہے‬
‫۔تشبیہ کے چار ارکان ہیں ۔‬
‫جس چیز کو کسی دوسری چیز کے مانند ‪ \t‬مشبہ‪١\t‬۔‬
‫ٹھہرایا جائے اسے مشبہ کہتے ہیں ۔‬
‫جس سے تشبیہ دی جائے اسے مشبہ بہ ‪ \t‬مشبہ بہ‪٢\t‬۔‬
‫کہتے ہیں ۔‬
‫جن مشترک عناصر کی وجہ سے ایک کو ‪ \t‬وجہ شبہ‪٣\t‬۔‬
‫دوسرے سے تشبیہ دی جائے ‪ ،‬اسے وجہ شبہ کہتے ہیں ۔‬
‫حرف تشبیہ‪٤\t‬۔‬‫ِ‬ ‫مشابہت قائم کرنے کے لیے جن حروف ‪\t‬‬
‫حرف تشبیہ کہےں گے ۔مثالً‬ ‫ِ‬ ‫کا استعمال کیا جاتا ہے ۔انہیں‬
‫یہ حرف‪ ،‬جیسا ‪،‬جیسے ‪،‬مانند ‪،‬مثل ‪،‬سا ‪،‬سی‪ ،‬برابر وغیرہ‬
‫میر کا مشہور شعر دیکھئے‬ ‫؎ اس سلسلے میں ؔ‬
‫نازکی ان کے لب کی کیا کہئے‬
‫پنکھڑی ایک گالب کی سی ہے‬
‫مندرجہ باال شعر میں مجبوب کے لبوں کوگالب کی‬
‫پنکھڑی سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ان دونوں میں جو صفت‬
‫مشترک ہے وہ ہے لبوں کی نازکی خوبصورتی اور رنگین‬
‫آمیزی‪ ،‬اس شعر میں محبوب کے لب ہوئے مشبہ اورگالب‬
‫کی پنکھڑی مشبہ بہ ہوئی اور نازکی وجہ تشبیہ ہوئی‬
‫رف تشبیہ ہوا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ‬ ‫اورحرف ’سی‘ ح ِ‬
‫ِ‬
‫حرف تشبیہ ضرور ہو۔‬
‫ِ‬ ‫تشبیہ میں ہر جگہ وجہ تشبیہ اور‬
‫کئی بار ان دونوں ارکان کے بغیر بھی تشبیہ دے دی جاتی‬
‫ہے ۔جیسے کسی بہادر کو شیرسے تشبیہ دیں تو کہا جائے‬
‫گا کہ‪ ،‬وہ شیر ہے ‪،‬یا وہ شیر کی طرح ہے‪ ،‬ان‬
‫جملوں میں پہلے جملے میں حرف تشبیہ مذکور نہیں ہے‬
‫لیکن دوسرے جملے میں ’’شیر کی طرح‘‘ میں طرح‬
‫حرف تشبیہ ہے۔ اوریہ بات یا درکھنے والی ہے کہ تشبیہ‬
‫کے لیے کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی الزمی‬
‫ہے کہ وہ خصوصیت جس کی بنا پر تشبیہ دی جائے مشبہ‬
‫کی بہ نسبت مشبہ بہ سے زیادہ اعل ٰی ہو۔ لیکن یہ ضروری‬
‫نہیں ہے کہ ایسی برتری حقیقت میں ہو۔ البتہ اگر تشبیہ‬
‫دینے والے کے خیال کے مطابق یہ برتری ہے تو کوئی‬
‫حرج نہیں ‪ ،‬لیکن ایسی مشابہت کے لیے کسی قسم کی دلیل‬
‫موجود ہونی چاہئے۔ مثالً یہ کہیں کہ ‪،‬راشد شیر ہے‪ ،‬تو اس‬
‫ادنی سے‬
‫اعلی کو بھی ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫میں شیر برتر ہے۔ اس کے عالوہ‬
‫تشبیہ دی جاسکتی ہے جیسے کہ خدا کے نور کو آفتاب سے‬
‫تشبیہ دیں حاالنکہ خدا اور اس کا نور جو سب سے آ ٰ‬
‫علی‬
‫وارفع ہے اور خدا کے نور کے مقابلے میں آفتاب ٰ‬
‫ادنی‬
‫تشبیہ ہے حاالنکہ خدا کی ذات تشبیہ سے باال تر ہے ۔‬

‫تشبیہ کو کیفیت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا‬


‫جاسکتا ہے مثالً تشبیہ حسی اور عقلی اس کے عالوہ تشبیہ‬
‫کو مقدار کے اعتبار سے مفرد اور مرکب میں تقسیم کیا‬
‫جاسکتا ہے ۔‬
‫تشبہہ حسی ‪:‬تشبہہ حسی سے مراد ایسی تشبیہ ہے جس کا‬
‫حواس خمسہ یعنی دیکھنے ‪،‬سننے ‪،‬سونگھنے‬ ‫ِ‬ ‫ادراک‬
‫‪،‬چکھنے اور چ ُھونے کے ذریعہ ہو۔ مثالً سننے والی تشبیہ‬
‫غالب کا شعر‬
‫ؔ‬ ‫؎ کی مثال یہ‬

‫میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا‬


‫سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں‬ ‫بلبلیں ُ‬
‫بلبلوں کے چہچہانے کو شاعر غزل خوانی سے تشبیہہ دے‬
‫رہا ہے ۔دیکھنے والی تشبیہ کی مثال‬
‫یوں برچھیاں تھیں چار طرف اس جناب کے‬
‫جیسے کرن نکلتی ہو گرد آفتاب کے‬
‫ہ تشبہہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے یعنی برچھیوں اور‬
‫آفتاب کرنیں دیکھنے کی چیز ہے ۔‬
‫تشبیہ عقلی ‪ :‬عقلی تشبیہ وہ ہے جس کا ادراک ظاہری‬
‫؎ حواس کے بجائے وجدان اور تخیل پر مبنی ہو مثالً‬
‫شعلے سے نہ ہوتی ہوس شعلے نے جو کی‬
‫جی کس قدر افسردگی دل پہ جال ہے‬
‫افسردگی دل اور جی کا جلنا دونوں عقلی ہیں یعنی عقل‬
‫سے دل کی افسردگی اور جی کے جلنے کا ادراک ممکن‬
‫ہے ۔‬
‫مفرد تشبیہ ‪ :‬مفرد تشبیہ و ہ ہے جس میں ایک چیز کو‬
‫دوسری چیز کے مانند ٹھہرایا جائے مثالً گل کو خوبصورت‬
‫چہرے کے مماثل ٹھہرانا یا چہرے کی تابناکی کو آفتاب سے‬
‫؎ ظاہر کرنا مثالً‬
‫جلوے خورشید کے سے ہوتے ہیں‬
‫(مومن‬
‫ؔ‬ ‫)نغمے ناہید کے سے ہوتے ہیں‬
‫مرکب تشبیہ ‪ :‬مرکب تشبیہ سے مراد وہ تشبیہ ‪،‬جس‬
‫میں چند اشعار کی ترکیب سے جو مجموعی شکل بنتی ہے‪،‬‬
‫اسے کسی دوسری مجموعی شکل سے تشبیہ دینا مرکب‬
‫؎ تشبیہ کہالتا ہے۔ مثالً‬

‫نفس کی آمدوشد ہے ِ‬
‫نماز اہل حیات‬
‫(ذوق‬
‫ؔ‬ ‫)جو یہ قضا ہو تو اے غافلوں قضا سمجھو‬
‫سانس کی رفتار کو نماز کی مجموعی حالت سے تشبیہ دی‬
‫گئی ہے جس طرح نماز میں قیام پھر رکوع و سجود کے‬
‫لےے اوپر اٹھنااور کبھی نیچے جھکتا ہوتاہے اسی طرح‬
‫زیر وبم میں جو زندگی کی عالمت سمجھے‬ ‫سانسوں کے ِ‬
‫جاتے ہیں اس کے عالوہ تشبیہ کی دو اور قسمیں ہیں یعنی‬
‫قریب و بعید ۔‬
‫تشبیہ قریب‪ :‬جو تشبیہ جلدی سمجھ میں آجائے اور مشبہ‬
‫کا تعلق مشبہ بہ سے بہت واضح ہو وہ تشبیہہ قریب کہالتی‬
‫ہے مثالً‬
‫ت پیری شباب کی باتیں‬
‫وق ِ‬
‫ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں‬
‫علم بالغت میں تشبیہہ قریب کا شعر معمولی اور کمتر مانا‬ ‫ِ‬
‫جاتا ہے ۔‬
‫تشبیہ بعید ‪ :‬جس تشبیہ میں وجہ تشبیہ کو سمجھنے‬
‫میں غوروفکر کی ضرورت ہو اسے تشبیہ بعید یا تشبیہ‬
‫غریب کہتے ہیں اور اگر تشبیہ میں وجہ تشبیہہ کئی‬
‫تراکیب سے مل کر بنے تو وہ تشبیہ نہ صرف دور کی ہوگی‬
‫؎ بلکہ زیادہ لطافت اور بالغت سے پر بھی ہوگی مثالً‬
‫تشبیہ رگِ گل سے انہیں دوں توہے زیبا‬
‫رشک قمر سرخ‬‫ِ‬ ‫ڈورے ہیں ترے آنکھ کے اے‬
‫یہاں آنکھوں کے ڈوروں کو رگِ گل سے تشبیہ دی ہے‬
‫اور ان ڈوروں کی وجہ خوبصورتی ‪،‬باریکی اور سرخی‬
‫ہے اس شعر سے مجبوب کے نشے میں ہونے کا پتہ چلتا‬
‫ہے ۔‬
‫تشبیہہ مفصل ‪ :‬اگر تشبیہ میں وہ خصوصیت جس کی وجہ‬
‫سے ایک چیز کو دوسری سے تشبیہ دی گئی ہے اس کا ذکر‬
‫ملتا ہے تو ایسی تشبیہ کو مفصل کہتے ہیں ورنہ مجمل ہے۔‬
‫جیسے کہیں کہ شاہدہ حسن میں آفتاب کی مانند ہے‪ ،‬تو یہ‬
‫تشبیہ مفصل ہوئی یعنی اس جملے میں مفہوم واضح ہے اور‬
‫وجہ تشبیہ بتادیا گیا ہے لیکن اگر یوں کہیں کہ شاہدہ آفتاب‬
‫کی طرح ہے ‪،‬تو یہاں لفظ ’’حسن‘‘جو وجہ تشبیہ ہے اس‬
‫کا ذکر نہیں ملتا اس لیے یہ تشبیہ مجمل ہوئی۔‬
‫استعارہ ‪ :‬استعارہ کے لغوی معنی مستعار لینے کے ہیں ۔‬
‫علم بیان کی رو سے جب کسی لفظ کا استعمال ایسی شے‬
‫کے لیے کیا جائے جس کے لیے وہ بنیاد ی طور پر وضع نہ‬
‫کیا گیا ہو ‪ ،‬مگر دونوں میں مشابہتی رشتہ قائم ہو جائے تو‬
‫استعارہ کہالئے گا وہاب اشرفی استعارہ کی تعریف بیان‬
‫کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ‬
‫علم بیان کی اصطالح میں استعارہ سے مراد حقیقی اور ’’‬
‫مجازی معنوں کے مابین تشبیہ کا عالقہ پیدا کرنا یعنی‬
‫حقیقی معنی کا لباس عاریتا ً مانگ کر مجازی معنی کوپہنانا‬
‫استعارہ کہالتا ہے ۔اس میں لفظ اپنے لغوی معنی ترک‬
‫کرکے لسانی سیاق و سباق کے اعتبار سے نئے معنی اختیار‬
‫‘‘کرتا ہے ۔‬
‫استعاروں کے ذریعہ زبان نئی معنوی وسعتوں سے آشنا‬
‫ہوتی ہے یہ عمل چار ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔‬
‫)مستعارلہ (جس کے لیے مستعار لیا جائے‪١\t‬۔‬
‫ٰ‬ ‫مشبّہ‪\t‬‬
‫مشبہ بہ‪) \t‬مستعارمنہ (جسے مستعار لیا جائے‪٢\t‬۔‬
‫مستعار(وہ لفظ جو مستعار منہ کے معنی پر داللت ‪٣\t‬۔‬
‫حرف تشبیہہ استعارے میں ضروری نہیں ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫کرے)‬
‫نقطہ اشتراک جس کی وجہ سے مستعار لیا ‪٤\t‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫وجہ جامع(‬
‫وجہ تشبیہ‪) \t‬جائے‬
‫تشبیہ اور استعارے میں گہرا تعلق ہے کیونکہ استعارے کی‬
‫بنیاد تشبیہ پر ہے فرق صرف اتنا ہے کہ تشبیہ میں مشبہ‬
‫اور مشبہ بہ کے بیچ مماثلت دی جا رہی ہے )اسے عین‬
‫مشبہ بہ (یعنی جس سے تشبیہ دی گئی ہے )قرار دیا جائے۔‬
‫استعارہ ایسا مجاز (لغوی معنی سے الگ کسی معنی‬
‫میں استعمال) ہے جس میں دو چیزوں کے درمیان مشابہت‬
‫کا عالقہ ہوتا ہے۔ مثالً کسی بہادر آدمی کو صرف شیر‬
‫کہیں یعنی وہ شیر ہے تو یہ استعارہ ہوگا استعارہ میں جس‬
‫کی مشابہت کسی چیز سے ہوتی ہے اس چیز کا ذکر‬
‫نہیں کیا جاتا ۔جیسے کہ مندرجہ باال جملے میں بہادر آدمی‬
‫مستعارلہ کہتے‬
‫ٰ‬ ‫کو صرف شیر کے نام سے پکارا ہے ۔اسے‬
‫ہیں اور جس میں مشابہت دکھائی جائے یعنی کیا مشابہت‬
‫ہے اس کا ذکر کہاں ہے اسے مستعارہ منہ کہتے ہیں ۔ اوپر‬
‫ٰ‬
‫مستعارلہ اور شیر مستعار منہ ہے‬ ‫کی مثال میں بہادر آدمی‬
‫اور مشابہت کی وجہ یعنی بہادری کی وجہ جامع کہتے‬
‫ہیں اور لفظ استعارے کا قرینہ ہوتا ہے اسے مستعار کہتے‬
‫ہیں ۔‬
‫استعارہ کی کی قسمیں ہیں مثالًاستعارہ قافیہ‪ ،‬استعارہ عنادیہ‬
‫‪،‬استعارہ عامیہ‪ ،‬استعارہ غریبیہ ‪،‬استعارہ اصلیہ‪ ،‬استعارہ‬
‫تبعیہ ‪ ،‬استعارہ مطلقہ‪ ،‬استعارہ مجرد ‪،‬استعارہ مرشحہ‪،‬‬
‫استعارہ تمثیلیہ وغیرہ ۔‬
‫استعارہ تشبیہ سے زیادہ قوی ہوتا ہے کیونکہ تشبیہ میں دو‬
‫چیزوں کا مشابہہ ہونا ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ استعارہ‬
‫میں دونوں کا یکجا ہونا ظاہر کیا جاتا ہے ۔یعنی‬
‫دونوں میں حقیقی اور مجازی معنوں میں آپس میں کوئی‬
‫رشتہ ضرور ہوتا ہے۔ اگریہ رشتہ تشبیہ کا ہے تو اسے‬
‫استعارہ کہیں گے مثالً کسی حسین لڑکی کو دیکھ کر‬
‫کہیں کہ میں نے پھول جیسی لڑکی دیکھی تو یہ تشبیہ ہوئی‬
‫اور اگر کہیں میں نے پھول دیکھا تو اسے استعارہ‬
‫کہیں گے تشیبہ اوراستعارہ میں خاص فرق یہ ہے کہ تشبیہ‬
‫لغت کے تابع ہوتی ہے جبکہ استعارے کا لغت سے کوئی‬
‫تعلق نہیں ہوتا بلکہ اسے ایجاد کیا جاتا ہے ۔‬
‫استعارے کی ایک قسم استعارہ بالتصریح ہے۔ استعارہ‬
‫بالتصریح اس استعارے کو کہتے ہیں جس میں مستعارلہ کا‬
‫ذکر نہ ہوصرف مستعار منہ کا ذکر کیا جائے یعنی مشبہ بہ‬
‫کا ذکر کیا جائے اور اس سے مشبہ مراد لی جائے مثالً‬
‫پھول لے کر پھول آئے پھول سے میں نے کہا‬
‫پھول کیوں الئے ہو صاحب تم توخود ہی پھول ہو‬
‫اس شعر میں پھول سے مراد حسین مجبوب کے ہیں ٰلہذا‬
‫مستعارلہ ہوا استعارہ کی‬
‫ٰ‬ ‫پھول مستعار منہ ہوا اور محبوب‬
‫ایک اور قسم استعارہ بالکنا یہ ہے ۔یہ استعارے کی ایسی‬
‫مستعارلہ کا ذکر ہوتا ہے اور‬
‫ٰ‬ ‫قسم ہے جس میں صرف‬
‫مستعار منہ کے لیے کوئی اشارہ کر دیا جاتاہے ۔جیسے‬
‫کہیں کہ موت کہ ُچنگل سے کسے رہائی ہے تو یہ استعارہ‬
‫بالکنا یہ ہوگا کیونکہ صرف چنگل سے معلوم ہوا ہے کہ‬
‫مستعار منہ عقاب۔ یا شاہین ہے جس کے ہاتھ اگر انسان لگ‬
‫جائے تو وہ زندہ نہیں چھوڑتا۔‬

‫کنایہ ‪ :‬علم بیان کی ایک قسم کنایہ ہے ۔کنایہ کے معنی‬


‫پوشیدہ بات یا مخفی اشارہ ہے کنایہ اس کو کہتے ہیں جس‬
‫سے الزمی معنی بھی مراد ہوں اور حقیقی معنی بھی مراد‬
‫لیے جاسکیں جیسے لمبے قد کا آدی کہہ کر اس سے احمق‬
‫؎ مراد لیں مثالً‬

‫زندگی کی کیا رہے باقی اُمید‬


‫ہوگئے موئے سیاہ موئے سفید‬
‫اس شعر میں موئے سفید کہہ کر بڑھاپے کی طرف اشارہ‬
‫کیا گیا ہے ۔کنایہ سے مقصود کسی کی ذات صفات یا پھر ان‬
‫کی نفی و اثبات ہوتا ہے ۔کنایہ اور استعارہ میں یہ فرق ہے‬
‫کہ جس سے کالم حقیقی اور غیر حقیقی دونوں معنی مراد‬
‫لیے جاسکیں وہ کنایہ کہالئے گا اور اگر اس سے حقیقی‬
‫معنی مراد نہیں لیے جاسکیں تو وہ استعارہ کہالئے گا۔‬
‫لیکن اگر کسی کی صفت بیان کریں اور مراد اس کی ذات‬
‫ہو تو اس کو کنایہ کہیں گے مثالً دریا دل کہہ کر سخی‬
‫ہونے کی طرف اشارہ کریں یہاں صرف صفت کا ذکر ہوا‬
‫ہے اس سے سخی آدمی ہم نے مراد لیا ہے ۔‬

‫مجاز مرسل میں صرف مجازی معنی لیے‬ ‫ِ‬ ‫مجاز مرسل ‪:‬‬
‫ِ‬
‫جاتے ہیں حقیقی معنی بالکل چھوڑ دئےے جاتے‬
‫ہیں ۔کیونکہ مجازی معنی کے ساتھ حقیقی معنی بھی شامل‬
‫ہوں تو وہ کنایہ ہو جاتا ہے ۔مجاز مرسل میں کل کہہ کر‬
‫جزو مراد لیا جاتا ہے ۔مثالً ؔ‬
‫میر کا شعر مالحظہ کیجئے۔‬

‫غضب آنکھیں ستم ابرو عجب منہ کی صفائی ہے‬


‫خدا نے اپنے ہاتھوں سے تیری صورت بنائی ہے‬
‫کوئی چیز پورے ہاتھوں سے نہیں بنائی جاتی بلکہ اسے‬
‫بنانے کے لیے انگلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی‬
‫یہاں ہاتھوں کہہ کر انگلیاں مراد ہیں ۔‬
‫کبھی جزو سے کل بھی مراد لیتے ہیں جیسے سردار کے‬
‫لیے سر کا استعمال کریں ۔ مثالً‬
‫آیا جو مے کدہ میں تو بے دام پی گیا‬
‫زاہد بھی سر جھکائے کے کئی جام پی گیا‬
‫یہاں جام پی گیا سے مراد شراب پینے کے ہیں ۔‬
‫مجاز مرسل کی مکمل تعریف یوں ہے کہ جب حقیقی او‬ ‫ِ‬
‫رمجازی معنی میں مشابہت کا تعلق ہو تووہ استعارہ کہالئے‬
‫گا اور جب مشابہت کے عالوہ کوئی دوسرا تعلق ہو گا تو‬
‫مجاز مرسل کہیں گے ۔‬
‫ِ‬ ‫اس کو‬
‫مجاز مرسل کی کئی قسمیں ہیں یعنی ظرف کہہ کر‬ ‫ِ‬
‫مظروف مراد لیں جیسے جام کہہ کر شرا ب مرادلی جائے‬
‫یا مظروف کہہ کر ظرف مراد لیں مثالً کہیں شربت طاق‬
‫میں رکھ دو یہاں مظروف شربت کہہ کر ظرف یعنی شربت‬
‫کی بوتل مراد لیا گیا ہے کیونکہ شربت طاق میں نہیں رکھا‬
‫جاسکتا ہاں شربت سے بھری بوتل طاق میں رکھی‬
‫جاسکتی ہے ۔‬

You might also like