بہاری
سید اعظم حبیب
تیرے پرچم کو سر بام اڑایا جس نے
راہ میں تیری سدا خون بہایا جس نے
تیر ی ناموس پہ گھر بار لٹایا جس نے
اورترےعشق کوسینے میں بسایاجس نے
بہاری
سید اعظم حبیب
تیرے پرچم کو سر بام اڑایا جس نے
راہ میں تیری سدا خون بہایا جس نے
تیر ی ناموس پہ گھر بار لٹایا جس نے
اورترےعشق کوسینے میں بسایاجس نے
بہاری
سید اعظم حبیب
تیرے پرچم کو سر بام اڑایا جس نے
راہ میں تیری سدا خون بہایا جس نے
تیر ی ناموس پہ گھر بار لٹایا جس نے
اورترےعشق کوسینے میں بسایاجس نے
راہ میں تیری سدا خون بہایا جس نے تیر ی ناموس پہ گھر بار لٹایا جس نے اورترےعشق کوسینے میں بسایاجس نے
بارہا جس نے تری زلف سنواری اے وطن
اسی دیوانے کو کہتے ہیں بہاری اے وطن
جو مہاجر بنا تقلید پیمبر کر کے
جیتے جی مر گیا جو اورجیا مر مر کے اپنے بیگانوں کے ہر گام پہ کھا کر چرکے زندگی جس نے گزاری ہے ترا دم بھر کے
خون دے دے کے سنوارا ہے ترا جس نے چمن
کچھ تو جرم اس کا بتا مجھ کو مرے پیارے وطن
ایک پرچم کا محافظ تھا وفادار تھا وہ
عاشق فخر رسل احمد مختار تھا وہ وہ بہاری تھا مگر صاحب کردار تھا وہ پہلوئے دشمن اردومیں بس اک خارتھا وہ
اب زماں ہے نہ مکاں ہے نہ وطن اس کے لئے
اس زمیں پر نہیں اب گور و کفن اس کے لئے اس نے کب تم کوکہا میرے عزا دار بنو تم سدا شاد رہو قوموں کے سردار بنو تم بڑھو پھولو پھلو زینت گلزار بنو ہوسکے تم سے توکچھ اورطرح دار بنو
کی وفا تم سے بڑا جرم کیا ہے اس نے
جام اس زہر ہالہل کا پیا ہے اس نے
ہوئی اندھیر زمانے کی فضا جس کے لئے
ہے فقط رنج ومحن کرب وبالجس کے لئے اب ترے پاس دوا ہے نہ دعا جس کے لئے اب کراچی ہےنہ ڈھاکہ نہ گیا*جس کے لئے
اس کی قسمت تیرے چوکھٹ پہ کھڑی روتی ہے
اور غیرت تری مدہوش پڑی سوتی ہے کیا مال تجھ سے اسے اس کی وفائی کا ثمر ؟ خاک ہو کر بھی کبھی چھوڑا نہ جس نے ترا در اس پہ کیا بیت گئی اس کی بھی ہے تجھ کو خبر؟ خاکساران جہاں را بہ حقارت منگر