Professional Documents
Culture Documents
اگر غور کریں تو حروف تہیجی الگ الگ کوئی معانی نہیں رکھتے۔ جیسے
ا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الف
کیا مطلب ہے الف کا
ئ مطلب نہیں اس کا ظاہر ہے کو ِ
اسی طرح
ب
صرف ب پڑھنے سے کوئی مطلب نہیں سمجھ آتا
جب ایسے حروف جن پر زبر ہو یا جن کے نیچے زیر ہو یا اوپر پیش ہو ان کے ساتھ
جب تک کوئی ساکن حرف یعنی جزم کے نشان وال حرف نہیں ملے گا اس کا کوئی
مطلب سمجھ نہیں آئے گا۔ جب کسی بھی زیر زبر پیش والے حرف کے ساتھ کوئی
جزم کے نشان وال حرف ملے گا تو اس کا کوئی نہ کوئی مطلب نکل آئے گا۔
جیسے
َا ْ
ب
اب سے مراد ابھی۔ اس وقت
کوئی نہ کوئی مطلب تو نکل آیا۔
جْا
َ
جا۔۔۔۔۔۔ مطلب چلے جائو۔ جانا۔ وغیرہ
تو دوستو جن متحرک یعنی زیر زبر پیش والے حروف کے ساتھ کوئی ساکن مل رہا ہو
تو اس کو ہم شاعری کی اصطلح میں سبب خفیف کہتے ہیں
اسی طرح کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا ہوتا ان
کو ہم وتد کہتے ہیں
عموما ایسے الفاظ کے شروع میں دو حروف ایسے آجاتے ہیں جن پر زبر ہوتی ہے یا
یش ہوتی ہے۔ یا ایک پر زبر ہوتی ہے دوسری پر زبر۔ یعنی زیر زبر پیش میں سے
کوئی نہ کوئی اعراب لگا ہوتا ہے مگر ان کے درمیان کوئی جزم کے نشان وال حرف
نہیں ہوتا البتہ تیسرا حرف جزم کے نشان وال ضرور ہوگا۔
جیسے کچھ الفاظ میں لکھتا ہوں
سَزْا َ
جَزْاَ
صَبْاَ
ان الفاظ کو بغور دیکھیں جن پر میں نے اعراب لگائے ہیں
ان کے پہلے دو حروف پر زبر کا نشان ہے جبکہ تیسرے حرف پر جزم کا نشان ہے
اسی طرح کئی الفاظ ایسے بھی ہیں جن کے پہلے لفظ کے نیچے زیر ہوگی
دوسرے پر زبر اور تیسرے پر جزم کا نشان ہوگا
یا ایسے بھی الفاظ ہوں گے جن کے پہلے حرف پر پیش کا نشان ہوگا دوسرے پر زبر
کا اور تیسر ےپر جزم کا نشان ہوگا۔
یا ایسے بھی الفاظ ہوں گے جن کے پہلے حرف پر زبر کا نشان ہوگا دوسرے کے
نیچے زیر ہوگی اور تیسرے پر جزم کا نشان ہوگا
ایسے تمام الفاظ وزن میں ایک جیسے ہی شمار ہوں گے۔
یہ تھا حرکات و سکنات کو سمجھنے کا آسان طریقہ میں ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں
ایسے حروف جن پر زبر کا نشان ہو یا جن کے نیچے زیر کا نشان ہو یا جن پر پیش کا
نشان ہو ان حروف کو ہم متحرک حروف کہتے ہیں
ایسے حروف جن پر جزم کا نشان ہو ان کو ہم ساکن یا معکوف کہتے ہیں
اب آتے ہیں آسان تقطیع کی طرف
محترک اور ساکن کو سمجھ لینے کے بعد ہم متحرک اور ساکن کے لیے کوئی نشان
مقرر کر لیتے ہیں
ایسا حرف جس پر زبر ہو ،زیر ہو یا پیش ہو مگر اس کے ساتھ کوئی ساکن نہ مل ہو
اس کے لیے ہم عدد ایک یعنی 1مقرر کر لیتے ہیں
ایسے حروف جن پر زبر ہو یا زیر ہو یا پیش ہو مگر ان کے ساتھ کوئی ساکن مل رہا ہو
اس کے لیے ہم عدد دو یعنی 2مقرر کر لیتے ہیں
اب آتے ہیں تقطیع کی طرف
لفظ ہے
َا ْ
ب
یعنی الف زبر ب ساکن = اب
اس میں ہمیں پہلے حرف پر زبر کی علمت نظر آئی ہم نے اس کا عدد لگا دیا 1
اب دوسرے حرف پر تو جزم کا نشان ہے اکیلے جزم کے نشان کے لیے ہم نے کیا
کیا؟
کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔۔ ہم نے پڑھا ہے کہ ایسا متحرک حرف یعنی جس پر زبر ہو یا زیر ہو
یا پیش کا نشان ہو اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف نہیں مل رہا تو اس کا عدد
مقرر کیا تھا ہم نے ایک یعنی 1
مگر ایسا حرف جس پر زبر ہو ،زیر ہو یا پیش ہو مگر اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف
مل رہا تو اس کا عدد ہم نے مقرر کیا تھا دو یعنی 2
اگر اس لفظ کی آواز پر غور کریں تو الف کے ساتھ ب کی آواز مل کر اب کی آواز نکل
رہی ہے
یعنی الف پر زبر تو ہے مگر اس کے ساتھ ب ساکن کی آواز مل رہی ہے
یہ سمجھیں کہ الف جس پر زبر کا نشان ہے اس کے ساتھ ایک ساکن حرف ب مل
رہا ہے لہذا ہم اس پورے لفظ کو دو کے عدد سے ظاہر کریں گے
لہذا
ب کی تقطیع عدد میں ہم یوں کریں گے َا ْ
ب=2َا ْ
ب میں الف پر زبر کی بجائے الف کے نیچے زیر ہوتی یا الف کے اوپر پیش دوستو اگر َا ْ
ہوتی تو ؟
چونکہ ہم نے اوپر پڑھا ہے کہ کسی بھی حرف پر اگر زبر ہو یا نیچے زیر ہو یا اوپر
ب کی الف کے نیچے زیر ہوتی یا پیش ہو اس کو ہم متحرک کہتے ہیں اس لیے اگر َا ْ
پیش ہوتی پھر بھی اس کا عدد ہم دو یعنی 2لگاتے کیوںکہ پہلے متحرک حرف کے
ساتھ ایک ساکن حرف مل رہا ہے اس لیے تقطیع میں ہم اس کا عدد 2لگائیں گے۔
اب ایسے الفاظ دیکھتے ہیں جن کے شروع میں دو متحرک اور تیسرا ساکن حرف آتا
ہے ان کی تقطیع کیسے کریں گے۔ یعنی ایسے شروع کے دو حروف جن پر زبر ،زیر
یا پیش ہو اور ان کے درمیان تو کوئی ساکن نہ ہو مگر آخری حرف ساکن ہو یعنی اس
پر جزم کا نشان ہو۔
مثل
سَزْا
َ
اب اس لفظ کو دیکھیں
شروع میں دو حروف ایسے ہیں جن پر زبر کا نشان ہے مگر ان کے درمیان کوئی ایسا
حرف نہیں جس پر جزم کا نشان ہو اور تیسرا حرف دیکھیں الف ہے جس پر جزم کا
نشان ہے یعنی اس لفظ میں صرف ایک ساکن ہے وہ بھی آخر میں تو اس کی
تقطیع کیسے کریں گے۔
کیا یہ تقطیع درست ہوگی۔
211
نہیں
کیوں؟
اس لیے کہ ہم نے قاعدہ پڑھا ہے کہ ایسا حرف جس پر زبر ہو یا جس کے نیچے زیر
ہو یا جس پر پیش ہو اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا تو تب ہم اس کو
عدد 1سے ظاہر کریں گے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال
حرف مل رہا ہے تو اس کو عدد 2سے ظاہر کریں گے۔
اب دیکھیں پہلے حرف پر زبر ہے
اس کے آگے کوئی ساکن نہیں بلکہ اگل حرف میں متحرک ہے یعنی اس پر زبر کا
نشان ہے تو؟
اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟
اس لفظ کو ہم توڑ کر دیکھتے ہیں
س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زا
یعنی ہم نے ایسا متحرک جس پر زبر تھی اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف نہیں تھا
اس کو الگ لکھ دیا
اور ایسا متحرک جس پر زبر کا نشان تھا مگر اس کے ساتھ ایک ساکن حرف بھی مل
کر آواز دے رہا تو اس کو ایک ساتھ لکھ دیا
تو اس کی شکل کیا بنے؟
س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زا
اب اس کو اعداد لگاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 12
یعنی ایک ایسا حرف جس کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا تھا اور ہم نے اسے
الگ کر کے لکھا اس کو عدد ایک 1سے ظاہر کیا
اور جس متحرک حرف کے ساتھ ایک ساکن حرف مل رہا تھا اس کو عدد 2سے ظاہر
کر دیا۔
دوستو کسی بھی شعر کی تقطیع کے عمل میں صرف یہی دو اعداد کام کریں گے
یعنی 1اور 2
یہاں تو تو سمجھ آگئی اب دوستو ایسے الفاظ جو بڑے ہوتے ہیں ان کی تقطیع
کیسے سمجھی جائے
آسان سا کلیہ ہے ایک ہی لفظ کے ٹکڑے کر لیے جائیں۔
مثل لفظ ہے
جیسے
اب لفظ جیسے کو سمجھنے کے لیے ہم اس کو آواز کے مطابق توڑ ڈالتے ہیں
مثل
جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے
اب ان کی تقطیع آسانی سے ہو جائے گی
لفظ جیسے کو دو حصوں میں تقسیم کیا تو
ج ْ
ے َ
س ْ
ے َ
یعنی ج پر زبر اور ے پر جزم
جے لفظ میں پہلے حرف پر زبر ہے اور آگے ے پر جزم کا نشان ہے یعنی ے ساکن
ہے
اس کا مطلب ہے کہ ج جس پر زبر کا نشان ہے اس کے ساتھ ے ساکن مل رہا ہے
لہذا اس کا عدد ہم 2لگاتے ہیں
ے=2 ج ْ َ
اسی طرح جیسے کا دوسرا ٹکڑا دیکھیں
س ْ
ے َ
یعنی اس میں ایک حرف پر زبر ہے اور دوسرے پر جزم کا نشان ہے اس کا مطلب ہے
یہاں بھی متحرک یعنی زبر والے حرف کے ساتھ ایک ساکن مل رہا ہے لہذا اس کو
بھی عدد 2لگا دیتے ہیں
ے=2 س ْ َ
اب لفظ جیسے کی تقطیع ظاہر کریں گے تو اس طرح
22
دوستو ایک اہم بات یاد رکھیں کسی لفظ کے آخر میں کوئی ایسا ساکن حرف رہ
جائے جس کے ملنے کے لیے کوئی متحرک حرف نہ باقی بچے یعنی کوئی زیر زبر
پیش وال حرف باقی نہ بچے اسے ہم عدد 1سے ظاہر کریں گے یعنی اس کو
متحرک سمجھا جائے گا۔
مثل ایک لفظ دیکھیں
دْاْز
َاْن َ
اس لفظ بغور دیکھیں تو آخر میں دو ساکن حروف نظر آرہے ہوں گے
اس کا مطلب ہے کہ آخری وال ساکن حرف اکیل رہ گیاہے اور پیچھے کوئی ایسا
متحرک یعنی زبر زیر پیش وال کوئی حرف باقی نہیں رہا ہوگا۔
چیک کر کے دیکھتے ہیں
لفظ چونکہ بڑا ہے اس لیے اس کو پہلے توڑتے ہیں
ن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َدْا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ْزَا ْ
اب دیکھیں تو آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ ہم نے ان کو کونسے کونسے
عدد الٹ کرنے ہیں
چلو الٹ کرتے ہیں۔
ن=2 َا ْ
َدْا =2
اب یہاں تک تو عدد 2 ، 2الٹ ہوگئے کیوںکہ ان میں سے ہر ایک متحرک کے ساتھ
کوئی نہ کوئی ساکن مل رہا تھا
اب آخر میں ایک حرف ز بچا جس پر جزم کا نشان ہے لہذا اس کو متحرک تصور کریں
گے اور اس کو عدد 1الٹ کریں گے
ْز= 1
یوں اس کی تقطیع کو ایک ساتھ لکھیں تو یوں ہوگی۔
دْاْز= 122
َاْن َ
دوستو ایک بات کو اچھی طرح یاد رکھیں کسی بھی بڑے لفظ کو توڑتے وقت ہمیشہ
2کے عدد کے حساب سے توڑیں گے۔شاعری میں اس کو سبب خفیف کہتے ہیں
سبب خفیف ایسے لفظ کو تقطیع میں کہیں گے جس کا پہل حرف متحرک یعنی
زبر،زیر یا پیش وال ہو اور اس کے ساتھ لزمی کوئی جزم کے نشان وال یعنی ساکن
حرف مل رہا ہو اور اس کو عدد 2سے ظاہر کیا جارہا ہو۔
دوستو اگلے سبق میں ہم کسی نہ کسی شعر کے لفظوں کو توڑ کر اسی طرح
سبب خفیف یعنی 2عدد والے حروف میں تقسیم کریں گے اور انہیں عدد یعنی نمبر
الٹ کریں گے۔
پھر بحور کو انہی نمبر کے حساب سے توڑ توڑ کر جوڑے بنائیں گے تاکہ کسی لفظ
کا وزن سمجھ آسکے۔
امید ہے عروض کا یہ آسان طریقہ آپ سمجھ پائے ہوں گے۔ میں نے کوشش کی ہے
کہ علم عروض میں روایتی یا اصطلحی لفظوں کو کم استعمال کیا ہے تاکہ شعر کا
بنیادی مسئلہ " وزن " کیا ہے آسانی سے سمجھا جا سکے۔
سبق نمبر ۲
دوستو پچھلے سبق میں ہم نے آسان تقطیع کا طریقہ سیکھا تھا اور یہ بھی کہ
کسی بھی شعر میں حرکات وسکنات کے خیال رکھنے کانام شعر کا وزن ہے۔
پچھلے سبق میں ہم نے پڑھا تھا کہ متحرک وہ حرف ہوتا ہے جس پر زبر ،زیر یا پیش
کا نشان ہو اور ساکن وہ حرف ہوتا ہے جس پر جزم کا نشان ہو۔
اس سبق میں ہم نے شعری اصطلح سبب خفیف کے متعلق جانا کہ کس لفظ میں
ایک متحرک حرف یعنی زیر زبر یا پیش والے حرف کے ساتھ اگر کوئی ساکن مل کر
آواز دے رہا ہو تو اس کو ہم سبب خفیف کہتے ہیں۔جب کہ وتد ایک ایسے متحرک
حرف کو کہتے ہین جس کے ساتھ کوئی ساکن نہ مل رہا ہو۔
پچھلے سبق میں ہم نے سبب خفیف یعنی ایسا متحرک لفظ جس پر زبر زیر یا پیش
ہو اور اس کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال حرف نہ مل رہا ہو بلکہ وہ
اکیل ہو تو اس کے لیے ہم نے عددی نظام کا عدد دو 1مقرر کیا۔
اور ایسا حرف جو متحرک ہو یعنی اس پر زبر ہو ،زیر ہو یا پیش کا نشان ہو اور اس
کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال حرف مل رہا ہو تو اس کے لیے ہم
نے عددی نظام کا عدد 2مقرر کیا تھا۔
پچھلے سبق میں ہم نے انہی عددی نظام کے تحت کچھ لفظوں کی تقطیع کا عمل
سیکھا تھا اور ان میں اکیلے متحرک یعنی زیر زبر پیش والے حرف کو عددی نظام کا
عدد 1الٹ کیا تھا اور ایسا لفظ جس میں ایک متحرک یعنی زبر ،زیر اور پیش کے
نشان والے حرف کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال حرف مل رہا تھا
اس کو عددی نظام کا عدد 2الٹ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک چھوٹے لفظ
اور ایک بڑے لفظ کی تقطیع کا عمل سیکھا تھا۔
دوستو آج ہم شاعری میں استعمال ہونے والی بحور میں ارکان کے جوڑ توڑ کرنے کا
عمل سیکھیں گے اور ان کو متحرک ساکن حروف میں تقسیم کر کے ان کو عددی
نظام کے تحت عدد الٹ کریں گے۔
آج کا رکن ہے
َفُعْوُل ْ
ن
عْو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُلنْ
ف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُ
َ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔12
ع پر پیش ہے۔۔۔۔دوستو
ف پر زبر ہے اور اس سے اگلے حرف ُ ن ۔۔۔۔۔۔ اس رکن میں َ
َفُعْوُل ْ
ہم نے سیکھا تھا کہ کسی متحرک یعنی زیر زبر پیش والے حرف کے ساتھ اگر کوئی
ساکن نہ مل رہا ہو تو اس کو الگ سے لکھ کر اس کو عدد 1الٹ کریں گے۔اس لیے
اس رکن میں چونکہ ف پر زبر ہے اور عین پر پیش ہے اس لیے یہ دونوں متحرک حروف
ہیں اور ان کے درمیان کوئی ساکن نہیں اس لیے پہلے متحرک کو ہم نے عدد 1الٹ
ع ہے اور اس سے اگلے حرف پر جزم کا نشان ہے یعنی اگلے کردیا۔۔دوسرا حرف ُ
عْو کی آواز دے رہا ہے لہذا اس کو
ع کے ساتھ مل کر ُ
حرف ْو ساکن ہے اس لیے یہ ُ
ہم عدد 2الٹ کیا ہے۔ یہاں تک ایک وتد یعنی اکیل متحرک اور پھر ایک سبب خفیف
یعنی متحرک کے ساتھ ساکن مل ہوا مکمل ہو۔اب چلتے ہیں اسی رکن کے اگلے
ل اور اس کے آگےٹکڑے کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگل حرف لم ہے اور لم پر پیش ہے یعنی ُ
ن مل کر ُلنْ کی
ل کے ساتھ ْنون پر جزم کا نشان ہے یعنی نون ساکن ہے۔ اس لیے ُ
آواز مکمل کر رہا ہے لہذا اس کو بھی ہم نے عدد 2الٹ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔12
اب اسی وزن پر ہم کوئی لفظ دیکھتے ہیں جس میں اسی ترتیب سے متحرک اور
ساکن حروف آئے ہوں۔
پچھلے سبق میں ہم نے ایک لفظ کی تقطیع عددی نظام میں سیکھی تھی۔ اور وہ
لفظ تھا
سَزْا
َ
س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َزْا
َ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔12
یعنی اس لفظ میں شروع میں متحرک حرف اکیل ہے اس کے ساتھ کوئی ساکن
نہیں مل رہا لہذا اس کو ہم نے عدد 1الٹ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے حصے میں ایک
متحرک اور اس کے ساتھ ایک ساکن ملنے کی وجہ سے اس کو عدد 2الٹ کیا۔
ن اور اس کی تقطیع دوستو اگر غور سے دیکھیں تو ہم نے آج جو رکن سیکھا َفُعْوُل ْ
سَزْا اور فعولن کے پہلے حصے َفُعْو کیعددی نظام میں کی تو معلوم ہوگا کہ لفظ َ
عددی نظام کے عدد ایک جیسے الٹ ہوئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ سزا کا لفظ
فعولن کے پہلے حصے فعو پر پورا اترتا ہے۔
مثل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
َہ ْ
ے
َہْو
َکْر
وغیرہ
غور کریں تو فعولن کی ف پر زبر ہے یعنی وہ متحرک ہے اس کے نیچے سزا لفظ کی
سین ہے وہ بھی متحرک ہے اس لیے ف کے نیچے ہم نے سین کو رکھا۔
عْو ہے ۔ جس میں ایک متحرک اور ایک ساکن مل رہا ہے فعولن کے اگلے حصے میں ُ
اور اس کے نیچے لفظ سزا کے حروف زا ہے جس میں ایک متحرک اور ایک ساکن مل
رہا ہے۔
ن میں لم پر پیش ہے یعنی لم متحرک ہے اور نون پر جزم کا فعولن کے اگلے حصے ُل ْ
نشان ہے یعنی نون ساکن ہے اس کے نیچے ہم نے اسی ترتیب سے ایسا لفظ رکھا
جس کا پہل حرف متحرک ہے اور دوسرا ساکن مل رہا ہے ۔
یوں یہ لفظ
سَزْا َہ ْ
ے َ
َفُعْوُل ْ
ن
مشق۔۔۔۔۔۔۔
ن کے وزن میں متحرک اور ساکن کے نظام کو سمجھیں اور اس طرح کے دوستو َفُعْوُل ْ
ن کے وزن پر پورے اترتے ہوں۔
کچھ لفظ بنائیں تو َفُعْوُل ْ
سبق نمبر ۳
دوستو آج کے سبق میں ہم اردو شاعری کی مروجہ بحور کے کچھ ارکان کو اعراب
لگا کر ان کو توڑ کر پھر ان کی تقطیع عددی نظام سے کریں گے۔ یہاں عدد 1ایسا
حرف ہوگا جس پر زبر ہوگی یا جس کے نیچے زیر ہوگی یا پھر اوپر پیش ہوگی لیکن
اس کے ساتھ کوئی جزم کے نشان وال یعنی ساکن کوئی حرف نہیں ہوگا۔ عدد 2
ایسے حروف کے نیچے لکھا ہوگا جس کے ایک حرف پر زیر ،زبر ،یا پیش ہوگی لیکن
اس کے ساتھ جزم کے نشان وال یعنی کوئی نہ کوئی ساکن حرف مل ہوا ہوگا۔
یاد رہے زیر ۔۔ زبر یا پیش والے حروف کو متحرک اور جزم کے نشان والے حرف کو
ساکن کہتے ہیں۔
ع=2
َف ْ
َفْعُل ْ
ن
ع۔۔۔۔۔ ُلنْ
َف ْ
۔۔۔۔۔۔۔۔ 22
عُل ْ
ن َفْا ِ
ع۔۔۔۔۔۔۔۔ ُلنْ
َفْا۔۔۔۔۔ ِ
۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔22
ل ُت ْ
ن ع َْ
َفْا ِ
ل ۔۔۔۔۔ ُتنْ
ع ۔۔۔۔ َْ
َفْا۔۔۔۔۔ ِ
۔۔۔۔۔۔ 1۔۔۔۔۔۔ 2۔۔۔۔۔ 2 2
ل ُت ْ
ن َفِع َْ
ل ۔۔۔۔ ُتنْ
ع ۔۔۔۔ َْ
ف ۔۔۔۔ ِ
َ
۔۔۔۔۔۔ 1۔۔۔۔ 2۔۔۔۔ 1 2
ُفُعْو ُل ْ
ن
عُل ْ
ن فْا ِ
مَ
ُ
ع ۔۔۔۔ ُلن
م ۔۔۔۔۔ َفْا ۔۔۔۔ ِ
ُ
۔۔۔۔۔ 2۔۔۔۔۔ 1۔۔۔۔۔۔1 2
عْیُل ْ
ن فْا ِ
مَ
ُ
ی ۔۔۔۔ ُلن
ع ْ
م ۔۔۔۔ َفْا ۔۔۔ ِ
ُ
۔۔۔۔ 2۔۔۔۔۔۔ 2۔۔۔۔۔۔۔1 2
سبق نمبر ۴
آسان عروض۔۔۔۔۔ سبق نمبر 4
ہائے مخفی= ایسی " ہ " اگر تنہا استعمال ہو یعنی کسی لفظ کے ساتھ نہ مل
رہی ہو تو تقطیع میں یعنی وزن میں شمار نہیں کیا جاتی۔مثل
ان کی تقطیع کے وقت اس کو عدد ایک الٹ کریں گے۔ یہ سبب خفیف نہیں ہے
یعنی دیکھنے میں اس کے پہلے حروف پر زبر ہے اور ہ ساکن ہے اصولتو یہ سبب
خفیف بنتا ہے چونکہ اس " ہ " کی آواز آدھی ہے اس لیے اساتذہ نے اس کو ایک
حرف ہی شمار کیا ہے۔ لہذا ان کی تقطیع عددی نظام میں یوں ہوگی۔
یہ = 1
پہ = 1
نہ = 1
اگر کسی لفظ کے آخر میں یا درمیان میں کوئی لفظ ایسا آجائے تو ضرورت شعری
کے تحت اس کا شمار ہوتا ہے۔
ہ۔۔۔۔۔۔ َپْرَدْہ
سَت ْ
دْاَزْہ۔۔۔۔۔ َر ْ
ہ ۔۔۔ َاْن َ
ہ ۔ آئْیَن ْ
جیسے۔۔۔۔۔ َوْرَن ْ
ہ پہلی صورت
َوْرَن ْ
َوْر=2
نہ= 1
ور=2
نہ= 2
آ =2
ء= 1
نہ=1
آ=2
ای=2
نہ= 1
ن =2
َا ْ
َدْا =2
َزْہ= 1
ن=2َا ْ
َدْا = 2
َزْہ= 2
ہ پہلی صورت
سَت ْ
َر ْ
س=2
َر ْ
ہ=2َت ْ
ہ دوسری صورت
سَت ْ
َر ْ
س=2
َر ْ
ہ=1َت ْ
ُپْر = 2
َدْہ = 2
الف ۔ وائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ی۔۔۔۔ ے۔۔۔۔۔ دب کر نکلتے ہیں اس لیے اکثر شمار نہیں کیے جاتے
مث ً
ل
نے ۔۔۔۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا کی آخری الف۔۔۔۔
ایسا۔۔۔۔۔۔ ویسا وغیرہ کی آخری الف
نے = ن = 1
سے =س = 1
کو =ک = 1
جو = ج = 1
بھی = ب = 1
ہی = ہ = 1
کہتا = کہت = 2۔1
ایسا = ایس = 2۔1
ویسا = ویس =1 2
مثل
نے =2
سے =2
کو =2
جو =2
بھی =2
ہی =2
کہتا =2۔2
ایسا=2۔2
ویسا=2۔2
عربی زبان یا فارسی زبان میں ایسے حرف گرانا جائز نہیں جو گرائے گا اس کا وہ
شعر بے وزن شمار ہوگا۔
گرانا سے مراد اس کو عدد ا الٹ نہیں کرسکتے ۔ اس کو عدد 2ہی الٹ کریں گے۔
=وائو معدولہ
یعنی تلفظ میں ،آواز میں ادا نہ ہو مگر لکھا جائے وہ وزن میں شمار نہیں ہوتا۔
مث ً
ل
خود = خد
خوش = خش
خواب = خاب
خواجہ = خا جہ
خود = 2
خوش =2
خاب = 2۔۔1
خا جہ = 2۔۔1
کسی شاعر کے لیے علم عروض کے ساتھ ساتھ معائب سخن کا جاننا بھی از حد
ضروری ہے۔ذیل میں چند معائب سخن کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جن سے گریز کرنا
چاہیے
۔ شتر گربہ۱
ایک ہی مصرع ایک ہی شعر میں " میں "۔ "میرا" یا مجھے کے ساتھ ہم۔ ہمیں۔ہمارا یا
تیرا۔ تجھے کے ساتھ تم ،تمہیں ،تمہارا کا استعمال شتر گربہ کہلتا ہے۔
۔ بے جا لفظی تعقید۔۲
ئ مصرع نثر سے جس قدر قریب ہوگا اس میں اس قدر سلست اور روانی ہوگی۔ کو ِ
اگر الفاظ اپنی جگہ پر نہ ہوں اور ترتیب بگڑ جائے کہ سننے پر گراں گذرے یا معنی
سمجھنے میں دقت ہو اس کو تعقید لفظی کہتے ہیں۔مث ً
ل
میری تعریف نے" کی جگہ یوں لکھا جائے " تعریف نے میری" یہ گوارہ ہوسکتا ہے"
مگر یوں کہنا کہ " تعریف نے میری" لکھا جائے تو سماعت پر گراں گذرے گا۔
چیخ و پکار۔ اہل دھن۔ دن بہ دن۔ برس ہا برس ۔ دریائے لہو ۔ غلط تراکیب ہیں ان کی
ل زر۔ روز بہ روز۔ سال ہا سال دریائے خوں یا لہو کا دریا ۔ درست ہے۔
جگہ چیخ پکار۔ اہ ِ
۔ غلط تلفظ۴
تحریر میں یہ عیب چھپا رہتا ہے لیکن بول چال اور شعر میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ مثل
زہر ۔ ذہن میں دوسرا حرف ساکن ہے اگر ان کو متحرک یعنی زیر زبر یا پیش سے
شعر میں باندھا جائے تو تلفظ غلط ہو جائے گا۔
۔ کلمات نفی۔۵
نا اور نے اب متروک ہوچکے ہیں ۔نہ کے بعد فعل منفی میں بولنا یا لکھنا درست
نہیں۔ جیسے مجھے سے نہ بول جاتا ہے۔ کی جگہ مجھ سے نہیں بول جاتا درست
ہوگا۔مگر جہاں عطف کے لیے ہو وہاں جائز ہے۔ جیسے نہ تم آئے نہ ہم گئے۔ " نہ "
کے بعد اگر ہے نہ ہو تو درست ہوگا جیسے اس نے مجھ سے وفا نہ کی۔
۔ نے کا غلط استعمال۸
میں نے جانا ہے کی جگہ مجھے جانا ہے۔ہونا چاہیے۔ یا یہ آواز میں نے پہچانی ہوئی
ہے کی جگہ یہ آواز میری پہچانی ہوئی ہے ۔ درست استعمال ہوگا۔
۔ فارسی الفاظ۹
فارسی الفاظ میں " ن " کا اعلن یا اس کے برعکس فارسی الفاظ اگر بل اضافت
استعمال ہوں تو ان میں "ن" کا اعلن ضروری ہے۔ مثل ایمان۔ جان۔ بولنا یا لکھنا
چاہیے مگر اضافت کے ساتھ ن کا اعلن جائز نہیں۔ بار ایماں۔آفت جاں۔
دست پا۔ مہ وغیرہ۔ الفاظ کا استعمال بغیر اضافت یا عطف درست نہین۔ دست و پا۔
دست قدرت
۔ سقوط حروف۔۱۱
اشعار میں ع۔ ح۔ ک۔ وغیرہ کا گرنا اور تلفظ میں نہ آںا معیوب ہے۔
۔حشو۱۲
اس زائد لفظ کو کہتے ہیں جس کے بغیر بھی شعر پورے معنی دے۔بلکہ اس کے
حزف کرنے سے کلم میں حسن پیدا ہو۔
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضے کا۔ یہاں تقاضے درست استعمال ہوگا
ایک ہی مصرع میں دو یا زائد الفاظ میں ایک ہی حرف کا اس طرح جمع ہو جانا تو تلفظ
میں ناگواری یا دشواری پیدا کرے۔ یہ اگر خفی ہو معنی غلط ہوں نہ ہوں تو گوارہ ہے
لیکن اگر جلی یعنی نمایاں ہو تو معیوب ہے۔
خفی :یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
جو۔ جگر میں "ج" کا حرف ہے
شعر میں الفاظ یا حروف کی تکرار بعض اوقات ناگوار گذرتی ہے۔ بعض تکرار سے شعر
کا حسن بڑھ جاتا ہے۔
قافیہ شعر میں آہنگ پیدا کرتا ہے۔اس کا انحصار صوت پر ہونا چاہیے نہ کہ حروف یا
کتابت پر۔ جیسا کہ اردو میں رائج ہے۔یعنی ذات۔ برسات۔ کا قافیہ نشاط نہیں
ہوسکتا۔۔اشارہ ،کنارہ کا قافیہ نہیں ہوسکتا۔
ل قافیہ کا قاعدہ ہے کہ قافیہ کا آخری حرف روی کہلتا ہے۔حرف روی کا اصلی یا اصو ِ
زاید ہونا کوئی معنی نہیں رکھاتا۔ اسی طرح حرف روی کے پہلے حروف کا نام رکھنا
بھی بے معنی ہے۔سیدھا سادہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ قافیہ کے آخری حرف کو روی
ئ مقررہ حرکت ہوگی۔ یعنی زیر زبر یا پیش۔
کہیں گے۔ روی سے پہلے حرف پر کو ِ
محفل۔ قاتل۔۔دل۔ ہم قافیہ ہین ان قوافی کے ساتھ ہلچل۔ یا بلبل کا قافیہ نہیں آسکتا۔
اسی طرح حور۔ دستور کے ساتھ حور۔ مور قوافی غلط ہیں