You are on page 1of 18

‫آسان عروض‬

‫مصنف ‪ :‬محمود ارشد وٹو‬

‫پبلشر ‪ :‬اردو لفظ‬


‫‪www.urdulafz.com‬‬
‫سبق نمبر ‪۱‬‬
‫کوئی بھی لفظ حرکات و سکنات سے مل کر مکمل آواز دیتا ہے۔کسی بھی شعر‬
‫میں حرکات و سکنات کے خیال رکھنے سے شعر باوزن کہلتا ہے۔‬

‫حرکت = ایسے حروف جن پر زبر ہو یا پیش ہو یا زیر ہو ان کو متحرک کہتےہیں۔ یعنی‬


‫زیر زبر پیش والے حروف حرکت کرتے ہیں۔‬

‫سکون یا ساکن= ایسے حروف جن پر جزم کا نشان ہو ان کو عموما ہم ساکن یا‬


‫معکوف کہتے ہیں۔‬
‫بچپن میں اکثر ہم سکول یا سیپارہ پڑھنا شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں‬
‫حروف تہجی سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ یعنی ا ب پ ت ٹ ث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ی وغیرہ‬
‫جب ہم ان کی اشکال سے ان کو اچھی طرح پہچان جاتے ہیں کہ یہ حرف کونسا ہے‬
‫تو پھر اگلے مرحلے میں ہمیں یہی حروف زیر کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں۔‬
‫مث ً‬
‫ل‬
‫ت وغیرہ‬
‫ب۔۔۔۔۔۔۔۔ َ‬
‫َا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َ‬
‫جب ہم یہ مرحلہ طے کر لیتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ کسی حرف پر زبر ہو تو‬
‫اس کی آواز کیسے نکالنی ہے تو پھر اگلے مرحلے میں ہمیں یہی حروف ۔ زیر ۔ کے‬
‫ساتھ اور پھر پیش کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں۔‬
‫جب یہ مرحلہ طے کر لیا جاتا ہے تو پھر انہی حرکات و سکنات کو مل کر چھوٹے‬
‫چھوٹے لفظ بنا کر سمجھایا جاتا ہے۔‬
‫مثل۔‬
‫َا ْ‬
‫ب‬
‫ج ْ‬
‫ب‬ ‫َ‬
‫جْا‬
‫َ‬

‫اگر غور کریں تو حروف تہیجی الگ الگ کوئی معانی نہیں رکھتے۔ جیسے‬
‫ا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الف‬
‫کیا مطلب ہے الف کا‬
‫ئ مطلب نہیں اس کا‬ ‫ظاہر ہے کو ِ‬
‫اسی طرح‬
‫ب‬
‫صرف ب پڑھنے سے کوئی مطلب نہیں سمجھ آتا‬
‫جب ایسے حروف جن پر زبر ہو یا جن کے نیچے زیر ہو یا اوپر پیش ہو ان کے ساتھ‬
‫جب تک کوئی ساکن حرف یعنی جزم کے نشان وال حرف نہیں ملے گا اس کا کوئی‬
‫مطلب سمجھ نہیں آئے گا۔ جب کسی بھی زیر زبر پیش والے حرف کے ساتھ کوئی‬
‫جزم کے نشان وال حرف ملے گا تو اس کا کوئی نہ کوئی مطلب نکل آئے گا۔‬
‫جیسے‬
‫َا ْ‬
‫ب‬
‫اب سے مراد ابھی۔ اس وقت‬
‫کوئی نہ کوئی مطلب تو نکل آیا۔‬
‫جْا‬
‫َ‬
‫جا۔۔۔۔۔۔ مطلب چلے جائو۔ جانا۔ وغیرہ‬
‫تو دوستو جن متحرک یعنی زیر زبر پیش والے حروف کے ساتھ کوئی ساکن مل رہا ہو‬
‫تو اس کو ہم شاعری کی اصطلح میں سبب خفیف کہتے ہیں‬
‫اسی طرح کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا ہوتا ان‬
‫کو ہم وتد کہتے ہیں‬
‫عموما ایسے الفاظ کے شروع میں دو حروف ایسے آجاتے ہیں جن پر زبر ہوتی ہے یا‬
‫یش ہوتی ہے۔ یا ایک پر زبر ہوتی ہے دوسری پر زبر۔ یعنی زیر زبر پیش میں سے‬
‫کوئی نہ کوئی اعراب لگا ہوتا ہے مگر ان کے درمیان کوئی جزم کے نشان وال حرف‬
‫نہیں ہوتا البتہ تیسرا حرف جزم کے نشان وال ضرور ہوگا۔‬
‫جیسے کچھ الفاظ میں لکھتا ہوں‬
‫سَزْا‬ ‫َ‬
‫جَزْا‬‫َ‬
‫صَبْا‬‫َ‬
‫ان الفاظ کو بغور دیکھیں جن پر میں نے اعراب لگائے ہیں‬
‫ان کے پہلے دو حروف پر زبر کا نشان ہے جبکہ تیسرے حرف پر جزم کا نشان ہے‬
‫اسی طرح کئی الفاظ ایسے بھی ہیں جن کے پہلے لفظ کے نیچے زیر ہوگی‬
‫دوسرے پر زبر اور تیسرے پر جزم کا نشان ہوگا‬
‫یا ایسے بھی الفاظ ہوں گے جن کے پہلے حرف پر پیش کا نشان ہوگا دوسرے پر زبر‬
‫کا اور تیسر ےپر جزم کا نشان ہوگا۔‬
‫یا ایسے بھی الفاظ ہوں گے جن کے پہلے حرف پر زبر کا نشان ہوگا دوسرے کے‬
‫نیچے زیر ہوگی اور تیسرے پر جزم کا نشان ہوگا‬
‫ایسے تمام الفاظ وزن میں ایک جیسے ہی شمار ہوں گے۔‬

‫یہ تھا حرکات و سکنات کو سمجھنے کا آسان طریقہ میں ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں‬
‫ایسے حروف جن پر زبر کا نشان ہو یا جن کے نیچے زیر کا نشان ہو یا جن پر پیش کا‬
‫نشان ہو ان حروف کو ہم متحرک حروف کہتے ہیں‬
‫ایسے حروف جن پر جزم کا نشان ہو ان کو ہم ساکن یا معکوف کہتے ہیں‬
‫اب آتے ہیں آسان تقطیع کی طرف‬
‫محترک اور ساکن کو سمجھ لینے کے بعد ہم متحرک اور ساکن کے لیے کوئی نشان‬
‫مقرر کر لیتے ہیں‬
‫ایسا حرف جس پر زبر ہو ‪ ،‬زیر ہو یا پیش ہو مگر اس کے ساتھ کوئی ساکن نہ مل ہو‬
‫اس کے لیے ہم عدد ایک یعنی ‪ 1‬مقرر کر لیتے ہیں‬
‫ایسے حروف جن پر زبر ہو یا زیر ہو یا پیش ہو مگر ان کے ساتھ کوئی ساکن مل رہا ہو‬
‫اس کے لیے ہم عدد دو یعنی ‪ 2‬مقرر کر لیتے ہیں‬
‫اب آتے ہیں تقطیع کی طرف‬
‫لفظ ہے‬
‫َا ْ‬
‫ب‬
‫یعنی الف زبر ب ساکن = اب‬
‫اس میں ہمیں پہلے حرف پر زبر کی علمت نظر آئی ہم نے اس کا عدد لگا دیا ‪1‬‬
‫اب دوسرے حرف پر تو جزم کا نشان ہے اکیلے جزم کے نشان کے لیے ہم نے کیا‬
‫کیا؟‬
‫کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔۔ ہم نے پڑھا ہے کہ ایسا متحرک حرف یعنی جس پر زبر ہو یا زیر ہو‬
‫یا پیش کا نشان ہو اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف نہیں مل رہا تو اس کا عدد‬
‫مقرر کیا تھا ہم نے ایک یعنی ‪1‬‬
‫مگر ایسا حرف جس پر زبر ہو ‪ ،‬زیر ہو یا پیش ہو مگر اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف‬
‫مل رہا تو اس کا عدد ہم نے مقرر کیا تھا دو یعنی ‪2‬‬
‫اگر اس لفظ کی آواز پر غور کریں تو الف کے ساتھ ب کی آواز مل کر اب کی آواز نکل‬
‫رہی ہے‬
‫یعنی الف پر زبر تو ہے مگر اس کے ساتھ ب ساکن کی آواز مل رہی ہے‬
‫یہ سمجھیں کہ الف جس پر زبر کا نشان ہے اس کے ساتھ ایک ساکن حرف ب مل‬
‫رہا ہے لہذا ہم اس پورے لفظ کو دو کے عدد سے ظاہر کریں گے‬
‫لہذا‬
‫ب کی تقطیع عدد میں ہم یوں کریں گے‬ ‫َا ْ‬
‫ب=‪2‬‬‫َا ْ‬

‫ب میں الف پر زبر کی بجائے الف کے نیچے زیر ہوتی یا الف کے اوپر پیش‬ ‫دوستو اگر َا ْ‬
‫ہوتی تو ؟‬
‫چونکہ ہم نے اوپر پڑھا ہے کہ کسی بھی حرف پر اگر زبر ہو یا نیچے زیر ہو یا اوپر‬
‫ب کی الف کے نیچے زیر ہوتی یا‬ ‫پیش ہو اس کو ہم متحرک کہتے ہیں اس لیے اگر َا ْ‬
‫پیش ہوتی پھر بھی اس کا عدد ہم دو یعنی ‪ 2‬لگاتے کیوںکہ پہلے متحرک حرف کے‬
‫ساتھ ایک ساکن حرف مل رہا ہے اس لیے تقطیع میں ہم اس کا عدد ‪ 2‬لگائیں گے۔‬
‫اب ایسے الفاظ دیکھتے ہیں جن کے شروع میں دو متحرک اور تیسرا ساکن حرف آتا‬
‫ہے ان کی تقطیع کیسے کریں گے۔ یعنی ایسے شروع کے دو حروف جن پر زبر‪ ،‬زیر‬
‫یا پیش ہو اور ان کے درمیان تو کوئی ساکن نہ ہو مگر آخری حرف ساکن ہو یعنی اس‬
‫پر جزم کا نشان ہو۔‬
‫مثل‬
‫سَزْا‬
‫َ‬
‫اب اس لفظ کو دیکھیں‬
‫شروع میں دو حروف ایسے ہیں جن پر زبر کا نشان ہے مگر ان کے درمیان کوئی ایسا‬
‫حرف نہیں جس پر جزم کا نشان ہو اور تیسرا حرف دیکھیں الف ہے جس پر جزم کا‬
‫نشان ہے یعنی اس لفظ میں صرف ایک ساکن ہے وہ بھی آخر میں تو اس کی‬
‫تقطیع کیسے کریں گے۔‬
‫کیا یہ تقطیع درست ہوگی۔‬
‫‪211‬‬
‫نہیں‬
‫کیوں؟‬
‫اس لیے کہ ہم نے قاعدہ پڑھا ہے کہ ایسا حرف جس پر زبر ہو یا جس کے نیچے زیر‬
‫ہو یا جس پر پیش ہو اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا تو تب ہم اس کو‬
‫عدد ‪ 1‬سے ظاہر کریں گے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال‬
‫حرف مل رہا ہے تو اس کو عدد ‪ 2‬سے ظاہر کریں گے۔‬
‫اب دیکھیں پہلے حرف پر زبر ہے‬
‫اس کے آگے کوئی ساکن نہیں بلکہ اگل حرف میں متحرک ہے یعنی اس پر زبر کا‬
‫نشان ہے تو؟‬
‫اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟‬
‫اس لفظ کو ہم توڑ کر دیکھتے ہیں‬
‫س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زا‬
‫یعنی ہم نے ایسا متحرک جس پر زبر تھی اس کے ساتھ کوئی ساکن حرف نہیں تھا‬
‫اس کو الگ لکھ دیا‬
‫اور ایسا متحرک جس پر زبر کا نشان تھا مگر اس کے ساتھ ایک ساکن حرف بھی مل‬
‫کر آواز دے رہا تو اس کو ایک ساتھ لکھ دیا‬
‫تو اس کی شکل کیا بنے؟‬
‫س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زا‬
‫اب اس کو اعداد لگاتے ہیں‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‪12‬‬
‫یعنی ایک ایسا حرف جس کے ساتھ کوئی ساکن نہیں مل رہا تھا اور ہم نے اسے‬
‫الگ کر کے لکھا اس کو عدد ایک ‪ 1‬سے ظاہر کیا‬
‫اور جس متحرک حرف کے ساتھ ایک ساکن حرف مل رہا تھا اس کو عدد ‪ 2‬سے ظاہر‬
‫کر دیا۔‬
‫دوستو کسی بھی شعر کی تقطیع کے عمل میں صرف یہی دو اعداد کام کریں گے‬
‫یعنی ‪ 1‬اور ‪2‬‬
‫یہاں تو تو سمجھ آگئی اب دوستو ایسے الفاظ جو بڑے ہوتے ہیں ان کی تقطیع‬
‫کیسے سمجھی جائے‬
‫آسان سا کلیہ ہے ایک ہی لفظ کے ٹکڑے کر لیے جائیں۔‬
‫مثل لفظ ہے‬
‫جیسے‬
‫اب لفظ جیسے کو سمجھنے کے لیے ہم اس کو آواز کے مطابق توڑ ڈالتے ہیں‬
‫مثل‬
‫جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے‬
‫اب ان کی تقطیع آسانی سے ہو جائے گی‬
‫لفظ جیسے کو دو حصوں میں تقسیم کیا تو‬
‫ج ْ‬
‫ے‬ ‫َ‬
‫س ْ‬
‫ے‬ ‫َ‬
‫یعنی ج پر زبر اور ے پر جزم‬
‫جے لفظ میں پہلے حرف پر زبر ہے اور آگے ے پر جزم کا نشان ہے یعنی ے ساکن‬
‫ہے‬
‫اس کا مطلب ہے کہ ج جس پر زبر کا نشان ہے اس کے ساتھ ے ساکن مل رہا ہے‬
‫لہذا اس کا عدد ہم ‪ 2‬لگاتے ہیں‬
‫ے=‪2‬‬ ‫ج ْ‬ ‫َ‬
‫اسی طرح جیسے کا دوسرا ٹکڑا دیکھیں‬
‫س ْ‬
‫ے‬ ‫َ‬
‫یعنی اس میں ایک حرف پر زبر ہے اور دوسرے پر جزم کا نشان ہے اس کا مطلب ہے‬
‫یہاں بھی متحرک یعنی زبر والے حرف کے ساتھ ایک ساکن مل رہا ہے لہذا اس کو‬
‫بھی عدد ‪ 2‬لگا دیتے ہیں‬
‫ے=‪2‬‬ ‫س ْ‬ ‫َ‬
‫اب لفظ جیسے کی تقطیع ظاہر کریں گے تو اس طرح‬
‫‪22‬‬
‫دوستو ایک اہم بات یاد رکھیں کسی لفظ کے آخر میں کوئی ایسا ساکن حرف رہ‬
‫جائے جس کے ملنے کے لیے کوئی متحرک حرف نہ باقی بچے یعنی کوئی زیر زبر‬
‫پیش وال حرف باقی نہ بچے اسے ہم عدد ‪ 1‬سے ظاہر کریں گے یعنی اس کو‬
‫متحرک سمجھا جائے گا۔‬
‫مثل ایک لفظ دیکھیں‬
‫دْاْز‬
‫َاْن َ‬
‫اس لفظ بغور دیکھیں تو آخر میں دو ساکن حروف نظر آرہے ہوں گے‬
‫اس کا مطلب ہے کہ آخری وال ساکن حرف اکیل رہ گیاہے اور پیچھے کوئی ایسا‬
‫متحرک یعنی زبر زیر پیش وال کوئی حرف باقی نہیں رہا ہوگا۔‬
‫چیک کر کے دیکھتے ہیں‬
‫لفظ چونکہ بڑا ہے اس لیے اس کو پہلے توڑتے ہیں‬
‫ن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َدْا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ْز‬‫َا ْ‬
‫اب دیکھیں تو آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ ہم نے ان کو کونسے کونسے‬
‫عدد الٹ کرنے ہیں‬
‫چلو الٹ کرتے ہیں۔‬
‫ن=‪2‬‬ ‫َا ْ‬
‫َدْا =‪2‬‬
‫اب یہاں تک تو عدد ‪ 2 ، 2‬الٹ ہوگئے کیوںکہ ان میں سے ہر ایک متحرک کے ساتھ‬
‫کوئی نہ کوئی ساکن مل رہا تھا‬
‫اب آخر میں ایک حرف ز بچا جس پر جزم کا نشان ہے لہذا اس کو متحرک تصور کریں‬
‫گے اور اس کو عدد ‪ 1‬الٹ کریں گے‬
‫ْز= ‪1‬‬
‫یوں اس کی تقطیع کو ایک ساتھ لکھیں تو یوں ہوگی۔‬
‫دْاْز= ‪122‬‬
‫َاْن َ‬
‫دوستو ایک بات کو اچھی طرح یاد رکھیں کسی بھی بڑے لفظ کو توڑتے وقت ہمیشہ‬
‫‪ 2‬کے عدد کے حساب سے توڑیں گے۔شاعری میں اس کو سبب خفیف کہتے ہیں‬
‫سبب خفیف ایسے لفظ کو تقطیع میں کہیں گے جس کا پہل حرف متحرک یعنی‬
‫زبر‪،‬زیر یا پیش وال ہو اور اس کے ساتھ لزمی کوئی جزم کے نشان وال یعنی ساکن‬
‫حرف مل رہا ہو اور اس کو عدد ‪ 2‬سے ظاہر کیا جارہا ہو۔‬
‫دوستو اگلے سبق میں ہم کسی نہ کسی شعر کے لفظوں کو توڑ کر اسی طرح‬
‫سبب خفیف یعنی ‪ 2‬عدد والے حروف میں تقسیم کریں گے اور انہیں عدد یعنی نمبر‬
‫الٹ کریں گے۔‬
‫پھر بحور کو انہی نمبر کے حساب سے توڑ توڑ کر جوڑے بنائیں گے تاکہ کسی لفظ‬
‫کا وزن سمجھ آسکے۔‬
‫امید ہے عروض کا یہ آسان طریقہ آپ سمجھ پائے ہوں گے۔ میں نے کوشش کی ہے‬
‫کہ علم عروض میں روایتی یا اصطلحی لفظوں کو کم استعمال کیا ہے تاکہ شعر کا‬
‫بنیادی مسئلہ " وزن " کیا ہے آسانی سے سمجھا جا سکے۔‬
‫سبق نمبر ‪۲‬‬
‫دوستو پچھلے سبق میں ہم نے آسان تقطیع کا طریقہ سیکھا تھا اور یہ بھی کہ‬
‫کسی بھی شعر میں حرکات وسکنات کے خیال رکھنے کانام شعر کا وزن ہے۔‬
‫پچھلے سبق میں ہم نے پڑھا تھا کہ متحرک وہ حرف ہوتا ہے جس پر زبر ‪ ،‬زیر یا پیش‬
‫کا نشان ہو اور ساکن وہ حرف ہوتا ہے جس پر جزم کا نشان ہو۔‬
‫اس سبق میں ہم نے شعری اصطلح سبب خفیف کے متعلق جانا کہ کس لفظ میں‬
‫ایک متحرک حرف یعنی زیر زبر یا پیش والے حرف کے ساتھ اگر کوئی ساکن مل کر‬
‫آواز دے رہا ہو تو اس کو ہم سبب خفیف کہتے ہیں۔جب کہ وتد ایک ایسے متحرک‬
‫حرف کو کہتے ہین جس کے ساتھ کوئی ساکن نہ مل رہا ہو۔‬
‫پچھلے سبق میں ہم نے سبب خفیف یعنی ایسا متحرک لفظ جس پر زبر زیر یا پیش‬
‫ہو اور اس کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال حرف نہ مل رہا ہو بلکہ وہ‬
‫اکیل ہو تو اس کے لیے ہم نے عددی نظام کا عدد دو ‪ 1‬مقرر کیا۔‬
‫اور ایسا حرف جو متحرک ہو یعنی اس پر زبر ہو ‪ ،‬زیر ہو یا پیش کا نشان ہو اور اس‬
‫کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال حرف مل رہا ہو تو اس کے لیے ہم‬
‫نے عددی نظام کا عدد ‪ 2‬مقرر کیا تھا۔‬
‫پچھلے سبق میں ہم نے انہی عددی نظام کے تحت کچھ لفظوں کی تقطیع کا عمل‬
‫سیکھا تھا اور ان میں اکیلے متحرک یعنی زیر زبر پیش والے حرف کو عددی نظام کا‬
‫عدد ‪ 1‬الٹ کیا تھا اور ایسا لفظ جس میں ایک متحرک یعنی زبر ‪ ،‬زیر اور پیش کے‬
‫نشان والے حرف کے ساتھ کوئی ساکن یعنی جزم کے نشان وال حرف مل رہا تھا‬
‫اس کو عددی نظام کا عدد ‪ 2‬الٹ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک چھوٹے لفظ‬
‫اور ایک بڑے لفظ کی تقطیع کا عمل سیکھا تھا۔‬
‫دوستو آج ہم شاعری میں استعمال ہونے والی بحور میں ارکان کے جوڑ توڑ کرنے کا‬
‫عمل سیکھیں گے اور ان کو متحرک ساکن حروف میں تقسیم کر کے ان کو عددی‬
‫نظام کے تحت عدد الٹ کریں گے۔‬
‫آج کا رکن ہے‬

‫َفُعْوُل ْ‬
‫ن‬

‫عْو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُلنْ‬
‫ف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُ‬
‫َ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪2‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪12‬‬

‫ع پر پیش ہے۔۔۔۔دوستو‬
‫ف پر زبر ہے اور اس سے اگلے حرف ُ‬ ‫ن ۔۔۔۔۔۔ اس رکن میں َ‬
‫َفُعْوُل ْ‬
‫ہم نے سیکھا تھا کہ کسی متحرک یعنی زیر زبر پیش والے حرف کے ساتھ اگر کوئی‬
‫ساکن نہ مل رہا ہو تو اس کو الگ سے لکھ کر اس کو عدد ‪ 1‬الٹ کریں گے۔اس لیے‬
‫اس رکن میں چونکہ ف پر زبر ہے اور عین پر پیش ہے اس لیے یہ دونوں متحرک حروف‬
‫ہیں اور ان کے درمیان کوئی ساکن نہیں اس لیے پہلے متحرک کو ہم نے عدد ‪ 1‬الٹ‬
‫ع ہے اور اس سے اگلے حرف پر جزم کا نشان ہے یعنی اگلے‬ ‫کردیا۔۔دوسرا حرف ُ‬
‫عْو کی آواز دے رہا ہے لہذا اس کو‬
‫ع کے ساتھ مل کر ُ‬
‫حرف ْو ساکن ہے اس لیے یہ ُ‬
‫ہم عدد ‪ 2‬الٹ کیا ہے۔ یہاں تک ایک وتد یعنی اکیل متحرک اور پھر ایک سبب خفیف‬
‫یعنی متحرک کے ساتھ ساکن مل ہوا مکمل ہو۔اب چلتے ہیں اسی رکن کے اگلے‬
‫ل اور اس کے آگے‬‫ٹکڑے کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگل حرف لم ہے اور لم پر پیش ہے یعنی ُ‬
‫ن مل کر ُلنْ کی‬
‫ل کے ساتھ ْ‬‫نون پر جزم کا نشان ہے یعنی نون ساکن ہے۔ اس لیے ُ‬
‫آواز مکمل کر رہا ہے لہذا اس کو بھی ہم نے عدد ‪ 2‬الٹ کیا۔‬

‫ن کی عددی تقطیع یوں ہے۔‬


‫اس عمل سے ہمیں پتہ چل کہ َفُعْوُل ْ‬

‫۔۔۔۔۔۔۔‪2‬۔۔۔۔۔۔۔‪12‬‬

‫یعنی ایک متحرک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبب خفیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبب خفیف‬

‫اب اسی وزن پر ہم کوئی لفظ دیکھتے ہیں جس میں اسی ترتیب سے متحرک اور‬
‫ساکن حروف آئے ہوں۔‬
‫پچھلے سبق میں ہم نے ایک لفظ کی تقطیع عددی نظام میں سیکھی تھی۔ اور وہ‬
‫لفظ تھا‬

‫سَزْا‬
‫َ‬

‫اس کو اگر تقسیم کریں تو یوں بنے گا‬

‫س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َزْا‬
‫َ‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪12‬‬

‫یعنی اس لفظ میں شروع میں متحرک حرف اکیل ہے اس کے ساتھ کوئی ساکن‬
‫نہیں مل رہا لہذا اس کو ہم نے عدد ‪ 1‬الٹ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے حصے میں ایک‬
‫متحرک اور اس کے ساتھ ایک ساکن ملنے کی وجہ سے اس کو عدد ‪ 2‬الٹ کیا۔‬
‫ن اور اس کی تقطیع‬ ‫دوستو اگر غور سے دیکھیں تو ہم نے آج جو رکن سیکھا َفُعْوُل ْ‬
‫سَزْا اور فعولن کے پہلے حصے َفُعْو کی‬‫عددی نظام میں کی تو معلوم ہوگا کہ لفظ َ‬
‫عددی نظام کے عدد ایک جیسے الٹ ہوئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ سزا کا لفظ‬
‫فعولن کے پہلے حصے فعو پر پورا اترتا ہے۔‬

‫ن جو کہ سبب خفیف ہے اور اس کا عدد ہم نے ‪ 2‬الٹ کیا‬ ‫فعولن کے اگلے حصے ُل ْ‬


‫تھا کیونکہ اس میں ایک متحرک کے ساتھ ایک ساکن حرف مل رہا ہے اس کو مکمل‬
‫ئ ایسا لفظ دیکھنا ہوگا جو سبب خفیف ہو یعنی جسکا پہل‬
‫کرنے کے لیے ہم نے کو ِ‬
‫حرف متحرک ہو یعنی زیر زبر پیش وال ہو اور اس کے ساتھ اگل لفظ ساکن ہو یعنی‬
‫اس پر جزم کا نشان ہو۔‬

‫مثل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫َہ ْ‬
‫ے‬

‫َہْو‬

‫َکْر‬

‫وغیرہ‬

‫ن کے پہلے حصے َفُعْو کی عددی تقطیع ایک جیسی‬


‫سَزْا جو کہ َفُعوُل ْ‬
‫اب اگر لفظ َ‬
‫تھی اور ہم نے سمجھ لیا کہ سزا لفظ فعولن کے پہلے حصے فعو کے وزن پر ہے اس‬
‫ن کا وزن پورا کرنا ہے اس کے لیے ہم نے کچھ‬
‫لیے اب ایسا لفظ ملنے سے ہم نے ُل ْ‬
‫لفظ لکھے جن میں ایک متحرک اور اس کے ساتھ ایک ساکن مل رہا ہے اور اس کے‬
‫عدد ‪ 2‬ہے اس کو باری باری لفظ سزا کے ساتھ لکھیں تو یہ صورت حال بنتی ہے‬
‫سَزْا َہ ْ‬
‫ے‬ ‫َ‬
‫ن میں متحرک ساکن کی یہی ترتیب ہے‬ ‫اگر غور سے دیکھیں تو رکن َفُعْوُل ْ‬
‫اب ہم رکن کے متحرک حرف کے نیچے لفظ سزا کے متحرک حروف رکھ کر غور کرتے‬
‫ہیں‬
‫عْو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُل ْ‬
‫ن‬ ‫ف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُ‬
‫َ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪2‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‪12‬‬

‫س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َزْا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َہےْ‬


‫َ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪2‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‪12‬‬

‫غور کریں تو فعولن کی ف پر زبر ہے یعنی وہ متحرک ہے اس کے نیچے سزا لفظ کی‬
‫سین ہے وہ بھی متحرک ہے اس لیے ف کے نیچے ہم نے سین کو رکھا۔‬
‫عْو ہے ۔ جس میں ایک متحرک اور ایک ساکن مل رہا ہے‬ ‫فعولن کے اگلے حصے میں ُ‬
‫اور اس کے نیچے لفظ سزا کے حروف زا ہے جس میں ایک متحرک اور ایک ساکن مل‬
‫رہا ہے۔‬
‫ن میں لم پر پیش ہے یعنی لم متحرک ہے اور نون پر جزم کا‬ ‫فعولن کے اگلے حصے ُل ْ‬
‫نشان ہے یعنی نون ساکن ہے اس کے نیچے ہم نے اسی ترتیب سے ایسا لفظ رکھا‬
‫جس کا پہل حرف متحرک ہے اور دوسرا ساکن مل رہا ہے ۔‬

‫یوں یہ لفظ‬

‫سَزْا َہ ْ‬
‫ے‬ ‫َ‬

‫َفُعْوُل ْ‬
‫ن‬

‫کے وزن پر پورا ہوگیا۔‬

‫مشق۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ن کے وزن میں متحرک اور ساکن کے نظام کو سمجھیں اور اس طرح کے‬ ‫دوستو َفُعْوُل ْ‬
‫ن کے وزن پر پورے اترتے ہوں۔‬
‫کچھ لفظ بنائیں تو َفُعْوُل ْ‬
‫سبق نمبر ‪۳‬‬
‫دوستو آج کے سبق میں ہم اردو شاعری کی مروجہ بحور کے کچھ ارکان کو اعراب‬
‫لگا کر ان کو توڑ کر پھر ان کی تقطیع عددی نظام سے کریں گے۔ یہاں عدد ‪ 1‬ایسا‬
‫حرف ہوگا جس پر زبر ہوگی یا جس کے نیچے زیر ہوگی یا پھر اوپر پیش ہوگی لیکن‬
‫اس کے ساتھ کوئی جزم کے نشان وال یعنی ساکن کوئی حرف نہیں ہوگا۔ عدد ‪2‬‬
‫ایسے حروف کے نیچے لکھا ہوگا جس کے ایک حرف پر زیر ‪ ،‬زبر‪ ،‬یا پیش ہوگی لیکن‬
‫اس کے ساتھ جزم کے نشان وال یعنی کوئی نہ کوئی ساکن حرف مل ہوا ہوگا۔‬

‫یاد رہے زیر ۔۔ زبر یا پیش والے حروف کو متحرک اور جزم کے نشان والے حرف کو‬
‫ساکن کہتے ہیں۔‬

‫ع=‪2‬‬
‫َف ْ‬

‫َفْعُل ْ‬
‫ن‬

‫ع۔۔۔۔۔ ُلنْ‬
‫َف ْ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔ ‪22‬‬

‫عُل ْ‬
‫ن‬ ‫َفْا ِ‬

‫ع۔۔۔۔۔۔۔۔ ُلنْ‬
‫َفْا۔۔۔۔۔ ِ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔‪1‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪22‬‬

‫ل ُت ْ‬
‫ن‬ ‫ع َْ‬
‫َفْا ِ‬

‫ل ۔۔۔۔۔ ُتنْ‬
‫ع ۔۔۔۔ َْ‬
‫َفْا۔۔۔۔۔ ِ‬
‫۔۔۔۔۔۔‪ 1‬۔۔۔۔۔۔‪ 2‬۔۔۔۔۔ ‪2 2‬‬

‫ل ُت ْ‬
‫ن‬ ‫َفِع َْ‬

‫ل ۔۔۔۔ ُتنْ‬
‫ع ۔۔۔۔ َْ‬
‫ف ۔۔۔۔ ِ‬
‫َ‬
‫۔۔۔۔۔۔ ‪ 1‬۔۔۔۔ ‪ 2‬۔۔۔۔ ‪1 2‬‬

‫ُفُعْو ُل ْ‬
‫ن‬

‫عو ۔۔۔۔ ُلنْ‬


‫ف ۔۔۔۔ ُ‬
‫ُ‬
‫۔۔۔۔۔۔ ‪ 2‬۔۔۔۔۔۔۔ ‪1 2‬‬

‫عُل ْ‬
‫ن‬ ‫فْا ِ‬
‫مَ‬
‫ُ‬
‫ع ۔۔۔۔ ُلن‬
‫م ۔۔۔۔۔ َفْا ۔۔۔۔ ِ‬
‫ُ‬
‫۔۔۔۔۔ ‪ 2‬۔۔۔۔۔ ‪ 1‬۔۔۔۔۔۔‪1 2‬‬

‫عْیُل ْ‬
‫ن‬ ‫فْا ِ‬
‫مَ‬
‫ُ‬

‫ی ۔۔۔۔ ُلن‬
‫ع ْ‬
‫م ۔۔۔۔ َفْا ۔۔۔ ِ‬
‫ُ‬
‫۔۔۔۔ ‪ 2‬۔۔۔۔۔۔ ‪ 2‬۔۔۔۔۔۔۔‪1 2‬‬
‫سبق نمبر ‪۴‬‬
‫آسان عروض۔۔۔۔۔ سبق نمبر ‪4‬‬

‫چند اہم باتیں۔۔۔۔ جو تقطیع کے عمل کے قواعد کہلتی ہیں‬

‫ان کی تقطیع عددی نظام کے تحت پیش کرتا ہوں‬

‫ہائے مخفی= ایسی " ہ " اگر تنہا استعمال ہو یعنی کسی لفظ کے ساتھ نہ مل‬
‫رہی ہو تو تقطیع میں یعنی وزن میں شمار نہیں کیا جاتی۔مثل‬

‫یہ ۔۔۔۔۔۔۔ پہ ۔ نہ وغیرہ‬

‫ان کی تقطیع کے وقت اس کو عدد ایک الٹ کریں گے۔ یہ سبب خفیف نہیں ہے‬
‫یعنی دیکھنے میں اس کے پہلے حروف پر زبر ہے اور ہ ساکن ہے اصولتو یہ سبب‬
‫خفیف بنتا ہے چونکہ اس " ہ " کی آواز آدھی ہے اس لیے اساتذہ نے اس کو ایک‬
‫حرف ہی شمار کیا ہے۔ لہذا ان کی تقطیع عددی نظام میں یوں ہوگی۔‬

‫یہ = ‪1‬‬
‫پہ = ‪1‬‬
‫نہ = ‪1‬‬

‫اگر کسی لفظ کے آخر میں یا درمیان میں کوئی لفظ ایسا آجائے تو ضرورت شعری‬
‫کے تحت اس کا شمار ہوتا ہے۔‬

‫ہ۔۔۔۔۔۔ َپْرَدْہ‬
‫سَت ْ‬
‫دْاَزْہ۔۔۔۔۔ َر ْ‬
‫ہ ۔۔۔ َاْن َ‬
‫ہ ۔ آئْیَن ْ‬
‫جیسے۔۔۔۔۔ َوْرَن ْ‬

‫لہذا ضرورت شعری کے تحت اس کی تقطیع دو طرح سے کی جا سکتی ہے۔‬

‫ہ پہلی صورت‬
‫َوْرَن ْ‬

‫َوْر=‪2‬‬
‫نہ= ‪1‬‬

‫ورنہ دوسری صورت‬

‫ور=‪2‬‬
‫نہ= ‪2‬‬

‫آئینہ پہلی صورت‬


‫آ =‪2‬‬
‫ی=‪2‬‬‫ا ْ‬
‫ہ=‪2‬‬‫َن ْ‬

‫آئینہ دوسری صورت‬

‫آ =‪2‬‬
‫ء= ‪1‬‬
‫نہ=‪1‬‬

‫آئینہ تیسری صورت‬

‫آ=‪2‬‬
‫ای=‪2‬‬
‫نہ= ‪1‬‬

‫دْاَزْہ پہلی صورت‬


‫َاْن َ‬

‫ن =‪2‬‬
‫َا ْ‬
‫َدْا =‪2‬‬
‫َزْہ= ‪1‬‬

‫دْاَزْہ دوسری صورت‬


‫َاْن َ‬

‫ن=‪2‬‬‫َا ْ‬
‫َدْا = ‪2‬‬
‫َزْہ= ‪2‬‬

‫ہ پہلی صورت‬
‫سَت ْ‬
‫َر ْ‬

‫س=‪2‬‬
‫َر ْ‬
‫ہ=‪2‬‬‫َت ْ‬

‫ہ دوسری صورت‬
‫سَت ْ‬
‫َر ْ‬

‫س=‪2‬‬
‫َر ْ‬
‫ہ=‪1‬‬‫َت ْ‬

‫َپْرَدْہ پہلی صورت‬

‫ُپْر = ‪2‬‬
‫َدْہ = ‪2‬‬

‫َپْرَدْہ دوسری صورت‬


‫َپْر = ‪2‬‬
‫َدْہ = ‪1‬‬

‫حرف علت = ہندی زبان کے الفاظ کے آخر میں آنے والے‬

‫الف ۔ وائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ی۔۔۔۔ ے۔۔۔۔۔ دب کر نکلتے ہیں اس لیے اکثر شمار نہیں کیے جاتے‬

‫مث ً‬
‫ل‬

‫نے ۔۔۔۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا کی آخری الف۔۔۔۔‬
‫ایسا۔۔۔۔۔۔ ویسا وغیرہ کی آخری الف‬

‫یہ تقطیع میں یوں شمار ہوں گے‬

‫نے = ن = ‪1‬‬
‫سے =س = ‪1‬‬
‫کو =ک = ‪1‬‬
‫جو = ج = ‪1‬‬
‫بھی = ب = ‪1‬‬
‫ہی = ہ = ‪1‬‬
‫کہتا = کہت = ‪2‬۔‪1‬‬
‫ایسا = ایس = ‪2‬۔‪1‬‬
‫ویسا = ویس =‪1 2‬‬

‫ضرورت شعری کے تحت اس کو دو حرفی بھی باندھا جاسکتا ہے‬

‫مثل‬

‫نے =‪2‬‬
‫سے =‪2‬‬
‫کو =‪2‬‬
‫جو =‪2‬‬
‫بھی =‪2‬‬
‫ہی =‪2‬‬
‫کہتا =‪2‬۔‪2‬‬
‫ایسا=‪2‬۔‪2‬‬
‫ویسا=‪2‬۔‪2‬‬

‫عربی زبان یا فارسی زبان میں ایسے حرف گرانا جائز نہیں جو گرائے گا اس کا وہ‬
‫شعر بے وزن شمار ہوگا۔‬

‫گرانا سے مراد اس کو عدد ا الٹ نہیں کرسکتے ۔ اس کو عدد ‪ 2‬ہی الٹ کریں گے۔‬

‫=وائو معدولہ‬

‫یعنی تلفظ میں ‪ ،‬آواز میں ادا نہ ہو مگر لکھا جائے وہ وزن میں شمار نہیں ہوتا۔‬
‫مث ً‬
‫ل‬

‫خود ۔۔۔۔۔۔ خوش ۔ خواب ۔۔۔ خواجہ‬

‫ان کی آواز یوں نکلتی ہے‬

‫خود = خد‬
‫خوش = خش‬
‫خواب = خاب‬
‫خواجہ = خا جہ‬

‫ان کی عددی تقطیع یوں ہوگی۔‬

‫خود = ‪2‬‬
‫خوش =‪2‬‬
‫خاب = ‪2‬۔۔‪1‬‬
‫خا جہ = ‪2‬۔۔‪1‬‬

‫باقی اگلے سبق نمبر ‪ 5‬میں‬


‫سبق نمبر ‪۵‬‬
‫معائب سخن‬

‫کسی شاعر کے لیے علم عروض کے ساتھ ساتھ معائب سخن کا جاننا بھی از حد‬
‫ضروری ہے۔ذیل میں چند معائب سخن کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جن سے گریز کرنا‬
‫چاہیے‬

‫۔ شتر گربہ‪۱‬‬

‫ایک ہی مصرع ایک ہی شعر میں " میں "۔ "میرا" یا مجھے کے ساتھ ہم۔ ہمیں۔ہمارا یا‬
‫تیرا۔ تجھے کے ساتھ تم‪ ،‬تمہیں‪ ،‬تمہارا کا استعمال شتر گربہ کہلتا ہے۔‬

‫۔ بے جا لفظی تعقید۔‪۲‬‬

‫ئ مصرع نثر سے جس قدر قریب ہوگا اس میں اس قدر سلست اور روانی ہوگی۔‬ ‫کو ِ‬
‫اگر الفاظ اپنی جگہ پر نہ ہوں اور ترتیب بگڑ جائے کہ سننے پر گراں گذرے یا معنی‬
‫سمجھنے میں دقت ہو اس کو تعقید لفظی کہتے ہیں۔مث ً‬
‫ل‬

‫میری تعریف نے" کی جگہ یوں لکھا جائے " تعریف نے میری" یہ گوارہ ہوسکتا ہے"‬
‫مگر یوں کہنا کہ " تعریف نے میری" لکھا جائے تو سماعت پر گراں گذرے گا۔‬

‫‪:‬۔ہندی الفاظ کے ساتھ فارسی تراکیب‪۳‬‬

‫چیخ و پکار۔ اہل دھن۔ دن بہ دن۔ برس ہا برس ۔ دریائے لہو ۔ غلط تراکیب ہیں ان کی‬
‫ل زر۔ روز بہ روز۔ سال ہا سال دریائے خوں یا لہو کا دریا ۔ درست ہے۔‬
‫جگہ چیخ پکار۔ اہ ِ‬

‫۔ غلط تلفظ‪۴‬‬

‫تحریر میں یہ عیب چھپا رہتا ہے لیکن بول چال اور شعر میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ مثل‬
‫زہر ۔ ذہن میں دوسرا حرف ساکن ہے اگر ان کو متحرک یعنی زیر زبر یا پیش سے‬
‫شعر میں باندھا جائے تو تلفظ غلط ہو جائے گا۔‬

‫۔ کلمات نفی۔‪۵‬‬

‫نا اور نے اب متروک ہوچکے ہیں ۔نہ کے بعد فعل منفی میں بولنا یا لکھنا درست‬
‫نہیں۔ جیسے مجھے سے نہ بول جاتا ہے۔ کی جگہ مجھ سے نہیں بول جاتا درست‬
‫ہوگا۔مگر جہاں عطف کے لیے ہو وہاں جائز ہے۔ جیسے نہ تم آئے نہ ہم گئے۔ " نہ "‬
‫کے بعد اگر ہے نہ ہو تو درست ہوگا جیسے اس نے مجھ سے وفا نہ کی۔‬

‫۔حرف علت کا گرانا۔‪۶‬‬


‫ہندی الفاظ میں حرف علت کا گرانا جائز ہے مگر عربی‪ ،‬فارسی الفاظ میں جائز نہیں۔‬

‫‪:‬۔ہندی الفاظ میں درمیانی " ی " کا اعلن‪۷‬‬


‫ل۔ پیاسا۔پیار۔سیانا۔دھیان میں "ی" اعلنیہ نہیں۔ تقطیع میں یہ الفاظ پاسا۔پار۔سانا۔‬
‫مث ً‬
‫دھان بلکہ دھان کا ھ گر کر دان رہ جائے گا۔‬

‫۔ نے کا غلط استعمال‪۸‬‬

‫میں نے جانا ہے کی جگہ مجھے جانا ہے۔ہونا چاہیے۔ یا یہ آواز میں نے پہچانی ہوئی‬
‫ہے کی جگہ یہ آواز میری پہچانی ہوئی ہے ۔ درست استعمال ہوگا۔‬

‫۔ فارسی الفاظ‪۹‬‬

‫فارسی الفاظ میں " ن " کا اعلن یا اس کے برعکس فارسی الفاظ اگر بل اضافت‬
‫استعمال ہوں تو ان میں "ن" کا اعلن ضروری ہے۔ مثل ایمان۔ جان۔ بولنا یا لکھنا‬
‫چاہیے مگر اضافت کے ساتھ ن کا اعلن جائز نہیں۔ بار ایماں۔آفت جاں۔‬

‫‪:‬۔ بعض فارسی الفاظ کا استعمال بغیر اضافت‪۱۰‬‬

‫دست پا۔ مہ وغیرہ۔ الفاظ کا استعمال بغیر اضافت یا عطف درست نہین۔ دست و پا۔‬
‫دست قدرت‬

‫۔ سقوط حروف۔‪۱۱‬‬

‫اشعار میں ع۔ ح۔ ک۔ وغیرہ کا گرنا اور تلفظ میں نہ آںا معیوب ہے۔‬

‫۔حشو‪۱۲‬‬

‫اس زائد لفظ کو کہتے ہیں جس کے بغیر بھی شعر پورے معنی دے۔بلکہ اس کے‬
‫حزف کرنے سے کلم میں حسن پیدا ہو۔‬

‫۔قافیہ کی مجبوری اور غلط تلفظ یا ترکیب کا استعمال‪۱۳‬‬

‫"معنی کو جس طرح سخن عاشقانے میں"‬

‫یہاں سخن عاشقانہ میں درست ہوگا‬

‫"ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا "‬

‫ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضے کا۔ یہاں تقاضے درست استعمال ہوگا‬

‫‪:‬۔ تنافر صوتی‪۱۴‬‬

‫ایک ہی مصرع میں دو یا زائد الفاظ میں ایک ہی حرف کا اس طرح جمع ہو جانا تو تلفظ‬
‫میں ناگواری یا دشواری پیدا کرے۔ یہ اگر خفی ہو معنی غلط ہوں نہ ہوں تو گوارہ ہے‬
‫لیکن اگر جلی یعنی نمایاں ہو تو معیوب ہے۔‬
‫خفی‪ :‬یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا‬
‫جو۔ جگر میں "ج" کا حرف ہے‬

‫جلی‪ :‬کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں‬

‫کی کہ کھا میں " ک " تین بار آیا ہے۔‬

‫‪:‬۔ تکرار لفظی‪۱۵‬‬

‫شعر میں الفاظ یا حروف کی تکرار بعض اوقات ناگوار گذرتی ہے۔ بعض تکرار سے شعر‬
‫کا حسن بڑھ جاتا ہے۔‬

‫دم جو توڑا تو اسی در کے مقابل توڑا‬

‫اس میں توڑا تکرار لفظی ہے‬

‫‪:‬۔ عیوب قافیہ‪۱۶‬‬

‫قافیہ شعر میں آہنگ پیدا کرتا ہے۔اس کا انحصار صوت پر ہونا چاہیے نہ کہ حروف یا‬
‫کتابت پر۔ جیسا کہ اردو میں رائج ہے۔یعنی ذات۔ برسات۔ کا قافیہ نشاط نہیں‬
‫ہوسکتا۔۔اشارہ‪ ،‬کنارہ کا قافیہ نہیں ہوسکتا۔‬

‫ل قافیہ کا قاعدہ ہے کہ قافیہ کا آخری حرف روی کہلتا ہے۔حرف روی کا اصلی یا‬ ‫اصو ِ‬
‫زاید ہونا کوئی معنی نہیں رکھاتا۔ اسی طرح حرف روی کے پہلے حروف کا نام رکھنا‬
‫بھی بے معنی ہے۔سیدھا سادہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ قافیہ کے آخری حرف کو روی‬
‫ئ مقررہ حرکت ہوگی۔ یعنی زیر زبر یا پیش۔‬
‫کہیں گے۔ روی سے پہلے حرف پر کو ِ‬
‫محفل۔ قاتل۔۔دل۔ ہم قافیہ ہین ان قوافی کے ساتھ ہلچل۔ یا بلبل کا قافیہ نہیں آسکتا۔‬
‫اسی طرح حور۔ دستور کے ساتھ حور۔ مور قوافی غلط ہیں‬

‫‪Complied and published by – www.urdulaf.com‬‬


‫‪Find us on facebook: https://www.facebook.com/groups/urdulafz‬‬

You might also like