You are on page 1of 11

‫ب اربعہ‬

‫مذاہ ِ‬

‫ائمہ‪ ،‬تالمذہ‪ ،‬فقہی مناہج‪ ،‬اُمہات الکتب‬

‫(پہلی قسط)‬ ‫ایک مختصر‪ #‬تعارف‬

‫اجتہاد کا سنہرا دور‬

‫دوسری صدی کے اوائل سے چوتھی‪ #‬صدی‪ #‬کے نصف تک کا دور اجتہاد کا سنہرا دور ہے۔ ا ُ ِ‬
‫فق‬
‫انس مدینہ میں‪ ،‬حسن‬‫عیینہ مکہ میں‪ ،‬مالک بن ؒ‬ ‫ؒ‬ ‫اجتہاد پر ‪ ۱۳‬مجتہدین چھائے ہوئے تھے۔ سفیان بن‬
‫شافعی اور‬‫ؒ‬ ‫اوزاعی شام میں‪ ،‬امام‬
‫ؒ‬ ‫ثوری کوفہ میں‪ ،‬امام‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫حنیفہ اور سفیان‬
‫ؒ‬ ‫بصری بصرہ میں‪ ،‬امام ابو‬
‫ؒ‬
‫ظاہری اور‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫محمد‪ ،‬امام داؤد‬
‫ؒ‬ ‫ابوثور‪ ،‬امام‬
‫ؒ‬ ‫راہویہ نیشاپور‪ #‬میں‪ ،‬امام‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫سعد مصر میں‪ ،‬اسحاق بن‬ ‫لیث بن ؒ‬
‫ب اجتہاد پہ فائز تھے۔ لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا توں توں ان‬ ‫طبری بغداد میں منص ِ‬
‫ؒ‬ ‫ابن جریر‪#‬‬
‫میں سے اکثر حضرات کے مذاہب بھی متبعین کے چل بسنے سے عملی سانچوں سے نکل کر کتابوں‬
‫عالم اسالم پہ نمایاں حکمرانی کرنے والے مذاہب چار رہ‬ ‫کے پیٹ میں اُترتے چلے گئے۔ چنانچہ‪ #‬آج ِ‬
‫ب اربعہ کے مؤسسین وائمہ اور اُن کے ممتاز تالمذہ‪ ،‬فقہی‬ ‫گئے۔ (‪ )۱‬ذیل کی تحریر میں ان ہی مذاہ ِ‬
‫مناہج اور اُمہات الکتب کا تعارف پیش کیا جارہا ہے‪:‬‬

‫(مؤسس فقہ حنفی)‬


‫ِ‬ ‫امام ابوحنیفہ‪ #‬رحمہ ہللا‬

‫امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ ہللا کی والدت ‪۸۰‬ھ میں کوفہ میں ہوئی‪ ،‬کوفہ ہی میں آپ‬
‫شعبی نے آپ کے ماتھے پہ‬‫ؒ‬ ‫کی نشوونما ہوئی۔ ابتداء ً آپ تجارت وصنعت میں مشغول ہوئے۔ جب امام‬
‫تحصیل علم کی راہ میں جت گئے۔ (‬
‫ِ‬ ‫تحصیل علم کا مشورہ دیا‪ ،‬چنانچہ آپ‬
‫ِ‬ ‫چمکتا اقبال دیکھا تو آپ کو‬
‫‪ )۲‬اکابر مشائخ وفقہاء سے علم حاصل کیا‪ ،‬جن میں عطاء بن ابی رباح‪ ،‬نافع مولی ابن عمر‪ ،‬زید بن‬
‫علی‪ ،‬محمد الباقر‪ ،‬عبد ہللا بن حسن‪ ،‬جعفر الصادق‪ #‬اور حماد بن ابی سلیمان کا تذکرہ بطور‪ #‬خاص کیا‬
‫حماد کی صحبت میں ‪ ۱۸‬سال رہے۔ ‪ ۱۲۰‬ہجری میں اُن‬ ‫ؒ‬ ‫جاتا ہے۔ عراق کے شیخ العصر وامام الزمان‬
‫ب تدریس وافتاء پر فائز ہوئے۔ (‪)۳‬‬‫کی وفات کے بعد اُن کے منص ِ‬

‫دور عباسی میں گزرے۔ (‪)۴‬عراق کے گورنر‬ ‫دور اُموی اور ‪ ۱۸‬سال ِ‬ ‫آپ کی زندگی‪ #‬کے ‪ ۵۲‬سال ِ‬
‫ٰ‬
‫وتقوی کی بنیاد پر انکار کردیا۔‪#‬‬ ‫ب قضاء سپرد کرنا چاہا‪ ،‬لیکن آپ نے ورع‬ ‫ابن ہبیرہ نے آپ کو منص ِ‬
‫اس کے بعد منصور‪ #‬عباسی نے آپ کو بغداد میں عہدٔہ قضاء پر فائز کرنا چاہا‪ ،‬لیکن آپ نے حلفیہ‬
‫انکار کردیا‪ ،‬اس پر انہوں نے آپ کو قید وبند کی صعوبتوں سے گزارا۔ باآلخر صعوبتیں جھیلتے‬
‫دارفانی سے چل بسے۔ (‪ )۵‬آپ کے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی‬ ‫جھیلتے ‪۱۵۰‬ھ کو بغداد میں ِ‬
‫تعداد ‪ ۵۰‬ہزار یا اس سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ (‪)۶‬‬
‫انداز گفتگو دل پذیر تھا‪ ،‬پختہ دلیل والے تھے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں‪’’ :‬میں نے ایک ایسے شخص‬
‫ِ‬
‫ابوحنیفہ) کو دیکھا ہے کہ اگر آپ ان سے اس ستون کے بارے میں بات کریں کہ وہ اس کو‬‫ؒ‬ ‫(امام‬
‫شافعی کا فرمان ہے‪’’ :‬فقہ میں‬
‫ؒ‬ ‫سونے کا ثابت کردے تو وہ اس کو حجت سے ثابت کردے گا۔‘‘ امام‬
‫حنیفہ کے محتاج ہیں۔‘‘(‪)۷‬‬
‫ؒ‬ ‫لوگ…امام ابو‬

‫حنبل ان کے بارے میں‬


‫ؒ‬ ‫ٰ‬
‫وتقوی اور عبادت وریاضت‪ #‬میں بلند درجہ پہ فائز تھے۔ امام احمد بن‬ ‫زہد‬
‫تقوی‪ ،‬زہد اور غلبٔہ آخرت کے اس مقام پر فائز ہیں کہ جس تک کسی کی‬ ‫ٰ‬ ‫فرماتے ہیں‪’’ :‬وہ علم‪،‬‬
‫رسائی نہیں۔ اُن کو کوڑے مارے گئے کہ عہدٔہ قضاء کو قبول کرلیں‪ ،‬لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔‘‘ (‬
‫‪)۸‬‬

‫علم فقہ کی بنیاد رکھی۔(‪)۹‬‬


‫ومبوب انداز سے ِ‬
‫َّ‬ ‫آپ وہ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے مرتب‬

‫ابویوسف کی آپ‬
‫ؒ‬ ‫آپ کی تصانیف میں آپ کے تالمذہ کا جمع کیا ہوا ’’مسند اإلمام األعظم‘‘‪ ،‬ا مام‬
‫البتی کی جانب لکھاگیا‬
‫ؒ‬ ‫سے روایت کردہ چھوٹی کتاب ’’المخارج‘‘‪ ،‬رسالہ ’’الفقہ األکبر‘‘‪)۱۰( ،‬عثمان‬
‫’’خط‘‘‪’’ ،‬کتاب الرد علی القدریۃ‘‘ اور ’’کتاب العالم والمتعلم‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔(‪)۱۱‬‬

‫انس سے منقول ہے‪’’ :‬امام ابوحنیفہ رحمہ ہللا نے ‪ ۶۰‬ہزار مسائل کو وضع کیا۔‬ ‫حضرت مالک بن ؒ‬
‫ابوحنیفہ نے ‪ ۵‬الکھ مسائل کو وضع کیا‘‘ خطیب خوارزمی کا‬‫ؒ‬ ‫عقیق سے مروی‪ #‬ہے‪’’ :‬امام‬ ‫ؒ‬ ‫ابوبکر بن‬
‫ابوحنیفہ نے ‪ ۳‬الکھ مسائل وضع کیے۔ ‪۳۸‬ہزار مسائل عبادات میں اور باقی معامالت‬ ‫ؒ‪#‬‬ ‫کہنا ہے‪’’ :‬امام‬
‫ابوحنیفہ کے حاالت ‪ ،‬خدمات اور کارناموں کا احاطہ اس مختصر وقت اور گنے چنے‬ ‫ؒ‪#‬‬ ‫میں۔‘‘(‪ )۱۲‬امام‬
‫صفحات میں ناممکن ہے۔ طاش کبری‪ #‬زادہ نے ’’مفتاح السعادۃ‘‘ میں بجا لکھا ہے‪:‬‬

‫’’والکالم فی مناقب اإلمام األعظم مما الیمکن االستقصاء فیہا‪ ،‬سیمًا فی ٰہذہ الوریقات‪ ،‬إذ قد کسر علیہا‬
‫مناقبہ وإن ٔاطنبوا فی فصولہ ؤابوابہ۔‘‘‪)۱۳( #‬‬
‫ٖ‪#‬‬ ‫األئمۃ عدۃ مجلدات‪ ،‬ومع ٰذلک لم یؤدوا‪ #‬عشر ٔاعشار‬

‫ابوحنیفہ کے اجلہ تالمذہ‬


‫ؒ‪#‬‬ ‫امام‬

‫ابوحنیفہ کی یہ امتیازی‪ #‬شان ہے کہ ان کو خدانے‬


‫ؒ‪#‬‬ ‫عظیم استاذ کے شاگرد‪ #‬بھی عظیم ہوتے ہیں۔ امام‬
‫زادہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ایسے شاگرد عطا کیے جو کسی امام کے حصہ میں نہیں آئے‪،‬چنانچہ طاش کبری ؒ‬
‫حنیفۃ ما لم یجمع إلمام من األصحاب‪ ،‬الذین ہم لب األلباب۔‘‘‬
‫ؒ‬ ‫’’جمع ہّٰللا ألبی‬

‫زیاد‪ ،‬امام‬
‫زفر‪ ،‬امام حسن بن ؒ‬ ‫محمد‪ ،‬امام ؒ‬
‫ؒ‬ ‫ابویوسف‪ ،‬امام‬
‫ؒ‬ ‫صاحب کے اجلہ تالمذہ میں سے امام‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫سمتی‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫طائی‪ ،‬یوسف‪ #‬بن خالد‬
‫ؒ‬ ‫یزید‪ ،‬داؤد‬
‫المریسی‪ ،‬عافیہ بن ؒ‬
‫ؒ‬ ‫مبارک‪ ،‬بشر بن غیاث‬
‫ؒ‬ ‫وکیع‪ ،‬عبد ہللا بن‬
‫ؒ‬
‫مندیل اور قاسم‬
‫ؒ‬ ‫حبان‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫ؒ‬
‫غیاث‪،‬‬ ‫زائدہ‪ ،‬حفص بن‬
‫ؒ‬ ‫ٰ‬
‫یحیی بن ابی‬ ‫مریم‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫البجلی‪ ،‬نوح بن ابی‬
‫ؒ‬ ‫مالک بن معول‬
‫زائدہ‪ ،‬حفص بن‬
‫ؒ‬ ‫ٰ‬
‫یحیی بن ابی‬ ‫زفر قیاس میں‪،‬‬
‫ابویوسف وامام ؒ‬
‫ؒ‬ ‫معن کے نام گنے جاتے ہیں۔ امام‬ ‫بن ؒ‬
‫طائی وفضل بن‬ ‫ؒ‬ ‫معن معرفت فقہ وعربیت میں‪ ،‬داؤد‬ ‫مندیل حفظِ حدیث میں‪ ،‬قاسم بن ؒ‬‫ؒ‬ ‫حبان اور‬
‫ؒ‬ ‫ؒ‬
‫غیاث‪،‬‬
‫عیاض زہد میں اپنی مثال آپ تھے۔ (‪)۱۴‬‬
‫ؒ‬

‫صاحب کے پاس اُن کے تالمذہ‬‫ؒ‬ ‫فقہ حنفی کی تدوین کچھ اس طرح ہوئی کہ ایک مجلس میں امام‬
‫زیر بحث التے‪ ،‬شورائی‪ #‬گفتگو ہوتی‪ ،‬کبھی یہ گفتگو اور بحث ومباحثہ‪#‬‬ ‫جمع ہوتے‪ ،‬ایک مسئلہ کو ِ‬
‫اتفاق آراء سے طے شدہ مسئلہ کا حکم دفتر‪ #‬میں درج کردیا جاتا۔ یوں‬
‫ِ‬ ‫مہینوں تک چلتا۔ آخر میں‬
‫شوری کے اراکین میں سے‬ ‫ٰ‬ ‫شورائی‪ #‬مباحث ومناظرات‪ #‬سے گزر کر ’’فقہ حنفی‘‘ وجود میں آئی۔ (‪)۱۵‬‬
‫بعض حضرات کا مختصر تعارف‪ #‬درج ذیل ہے‪:‬‬

‫ب حنفی کی ترویج واشاعت کا‬ ‫تدوین اصول اور مذہ ِ‬


‫ِ‬ ‫ابویوسف‪ #،‬جنہوں نے فقہ حنفی کی‬
‫ؒ‬ ‫‪-:۱‬امام‬
‫عظیم کارنامہ‪ #‬سرانجام دیا۔ آپ مجتہ ِد مطلق کے درجہ پہ فائز تھے۔ (‪ )۱۶‬آپ فقیہ‪ ،‬عالم اور حافظ‬
‫تھے۔ محدثین سے احادیث سن کر حفظ کرتے اور پھر اپنے شاگردوں کو امالء کرواتے تھے۔ ابن‬
‫الجوزی ؒ نے ’’ٔاخبار الحفاظ‘‘ میں اُن کو ’’الحفظ البالغ‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ‪۱۸۲‬ھ میں وفات پائی۔‬
‫آپ کی کتاب ’’أالمالی‘‘ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ‪ ۳۰۰‬جلدوں پر مشتمل تھی۔ (‪)۱۷‬‬

‫صاحب کی وفات کے بعد امام‬


‫ؒ‬ ‫حنیفہ کی صحبت میں رہے‪ ،‬امام‬ ‫ؒ‬ ‫محمد جو چار سال امام ابو‬
‫ؒ‬ ‫‪-:۲‬امام‬
‫ابویوسف سے تعلیم کی تکمیل کی۔ امام مالکؒ کے ساتھ بھی ایک مدت تک رہے۔ بڑے ذہین عالم تھے۔‬‫ؒ‪#‬‬
‫ابویوسف کے بعد عراق کے سب سے بڑے فقیہ آپ‬‫ؒ‬ ‫مجتہ ِد مطلق کے درجہ کو پہنچے ہوئے تھے۔ امام‬
‫ب حنفی کی تدوین کی فضیلت‬‫ہی تھے۔ آپ کی شہرٔہ آفاق تصانیف‪ #‬عظیم الشان تصنیفی شاہکار‪ #‬ہیں۔ مذہ ِ‬
‫آپ کے حصہ میں آئی۔(‪)۱۸‬‬

‫ابوحنیفہ کے تالمذہ میں ’’ٔاقیس‘‘ کی فضیلت حاصل ہے۔ آپ مجتہ ِد مطلق‬


‫ؒ‬ ‫زفر جن کو امام‬
‫‪ -:۳‬امام ؒ‬
‫کے درجہ پہ فائز تھے۔ اصبہان میں ‪۱۱۰‬ھ کو والدت اور بصرہ میں ‪۱۵۸‬ھ کو وفات ہوئی۔ ابتداء ً آپ‬
‫پر حدیث کا ذوق غالب تھا‪ ،‬پھر رائے کا غلبہ ہوا اور قیاس میں مشہور ہوئے۔‬

‫حنفیہ کا فقہی منہج‬

‫حنفیہ کے فقہی استنباط اور اُصولی منہج کی بنیاد سات اصولوں پر رکھی گئی ہے‪:‬‬

‫‪-:۴‬اجماع‬ ‫صحابہ‬
‫ؓ‬ ‫اقوال‬
‫ِ‬ ‫‪-:۳‬‬ ‫‪-:۲‬سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫‪-:۱‬کتاب ہللا‬

‫‪-:۷‬اور عرف‬ ‫‪-:۶‬استحسان‬ ‫‪-:۵‬قیاس‬

‫ان سات اُصولوں کی طرف‪ #‬تین نصوص میں اشارہ ملتا ہے‪:‬‬

‫ابوحنیفہ فرماتے‪ #‬ہیں‪’’ :‬میں پہلے کتاب ہللا کو لوں گا‪ ،‬کتاب ہللا میں نہ ملے تو سنت کو لوںگا‪،‬‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫‪-:۱‬امام‬
‫صحابی کو لوںگا۔‬
‫ؓ‪#‬‬ ‫قول‬
‫اگر نہ کتاب ہللا میں ملے اور نہ سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم‪ #‬میں‪ ،‬تو میں ِ‬
‫صحابہ میں مجھے اختیار ہے‪ ،‬جس کا قول چاہوں تو لوں اور جس کا چاہوں تو چھوڑدوں‪ ،‬اور‬ ‫ؓ‬ ‫اقوال‬
‫ِ‬
‫میں ان کے اقوال کو چھوڑ‪ #‬کر غیر کا قول نہیں لوں گا۔ جب معاملہ ابراہیم‪ ،‬شعبی‪ ،‬ابن سیرین‪ ،‬حسن‪،‬‬
‫عطاء اور سعید بن المسیب پر آپہنچے تو وہ ایک قوم تھی جس نے اجتہاد کیا‪ ،‬میں بھی اجتہاد کروں گا‬
‫جیسے کہ انہوں نے اجتہاد کیا۔‘‘(‪)۱۹‬‬

‫ابوحنیفہ کے کالم کا ضابطہ‪ #‬یہ تھا کہ ثقہ ومستند بات کولیتے‪،‬‬


‫ؒ‬ ‫مکی نقل کرتے ہیں کہ‪’’ :‬امام‬
‫ؒ‬ ‫‪-:۲‬موفق‬
‫ضعیف وکمزور بات سے دور رہتے۔ لوگوں کے معامالت میں غور وفکر کرتے۔ لوگوں کے معامالت‬
‫ملحوظ نظر‬
‫ِ‪#‬‬ ‫کو مدِنظر‪ #‬رکھتے‪ ،‬جن بنیادوں پر لوگوں کے کاموںـ کی اصالح موقوف ہوتی ان کو‬
‫رکھتے۔ معامالت کو قیاس پر پرکھتے‪ ،‬اگر قیاس لوگوں کے معامالت کو درست قرار‪ #‬نہ دیتا تو‬
‫استحسان پر ان کو جانچتے‪ ،‬اگر استحسان معامالت کو نمٹاتا تو فبہا‪ ،‬اور اگر بات نہ بن پاتی تو تعامل‬
‫الناس کی طرف‪ #‬رجوع کرتے۔ متفق علیہ ومعروف‪ #‬حدیث کو بنیاد بناتے تھے۔ پھر جب تک اس پر‬
‫قیاس درست ہوتا قیاس کرتے رہتے اور اگر قیاس درست نہ ہوتا تو استحسان کی طرف‪ #‬جاتے۔‬
‫سہل فرماتے ہیں‬
‫استحسان اور قیاس میں جو بھی اصل کے موافق‪ #‬ہوتا اس کی طرف رجوع کرلیتے۔ ؒ‬
‫کہ‪ :‬آپ کا عمومی طریقٔہ کار یہی تھا۔‘‘‬

‫ابوحنیفہ ناسخ ومنسوخ کے متعلق جستجو میں بہت محنت‬


‫ؒ‬ ‫مکی کی کتاب میں ہے‪’’ :‬امام‬
‫ؒ‬ ‫‪-:۳‬موفق‬
‫اہل کوفہ‪#‬‬
‫صحابہ ثابت ہوتی‪ #‬تو اس پر عمل کرتے تھے۔ ِ‬
‫ؓ‬ ‫ت‬
‫کرتے تھے۔ پھر جو حدیث آپ کے ہاں بروای ِ‬
‫کی احادیث کو خوب جاننے والے تھے۔(‪)۲۰‬‬

‫اصول فقہ کی کتابوں میں حنفیہ کے مذکورہ سات اصولوں کے عالوہ درج ذیل اصول بھی مذکور ہیں‪:‬‬
‫ِ‬
‫ب حال (‪)۲۳‬‬
‫‪-:۱۰‬استصحا ِ‬ ‫‪-:۹‬س ِّد ذریعہ (‪)۲۲‬‬ ‫مصالح مرسلہ (‪)۲۱‬‬
‫ِ‬ ‫‪-:۸‬‬

‫‪-:۱۱‬شرائع من قبلنا (‪)۲۴‬‬

‫نیز حنفی اُصول کے تحت ’’تعامل‘‘ کا ذکر بطور‪ #‬خاص ملتا ہے۔ (‪)۲۵‬‬

‫ب حنفی کی اُمہات الکتب‬


‫مذہ ِ‬

‫بنیادی طور پر فقہ حنفی کے مصادر‪ #‬کے تین حصے کیے گئے ہیں‪-:۱ :‬ظاہر روایت‪-:۲ ،‬نوادر‪،‬‬
‫ٰ‪#‬‬
‫فتاوی اور واقعات۔‬‫‪:۳‬‬

‫محمد کی یہ چھ کتابیں ہیں‪:‬‬


‫ؒ‬ ‫ظاہر روایت سے مراد امام‬
‫ِ‬
‫‪-:۵‬السیر‬ ‫‪-:۴‬السیر الصغیر‬ ‫‪-:۳‬الجامع الکبیر‬ ‫‪-:۲‬الجامع الصغیر‬ ‫‪-:۱‬المبسوط‬
‫‪-:۶‬الزیادات‬ ‫الکبیر‬

‫شہید نے ان میں سے مکرر مسائل کو حذف کرکے ان کو ’’الکافي‪ #‬في فروع‪ #‬الحنفیۃ‘‘ کے نام سے‬
‫حاکم ؒ‬
‫سرخسی نے ’’المبسوط‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫مرتب کیا ہے۔ اسی کی شرح عالمہ‬
‫ابویوسف کی‬
‫ؒ‬ ‫محمد کی دوسری کتابیں‪ ،‬جیسے‪ :‬ہارونیات‪ ،‬کیسانیات‪ ،‬رقیات‪ ،‬نیز امام‬
‫ؒ‬ ‫ان کے عالوہ امام‬
‫صاحب کے تالمذہ کی دوسری کتابیں‬‫ؒ‬ ‫زیاد کی کتاب ’’المجرد‘‘اور امام‬
‫کتاب ’’أالمالي‘‘‪ ،‬حسن بن ؒ‬
‫’’نوادر‘‘ کہالتی ہیں۔‬

‫صاحب کی رائے منقول نہیں ہے اور بعد کے مشائخ نے ان کی بابت‬ ‫ؒ‬ ‫جن مسائل کے بارے میں امام‬
‫سمرقندی کی کتاب‬
‫ؒ‬ ‫ٰ‬
‫’’فتاوی اور واقعات‘‘ کہا جاتاہے۔ اس سلسلہ میں ابو اللیث‬ ‫اجتہاد کیا ہے ان کو‬
‫شہید کی ’’الواقعات‘‘ اولین کتابیں‬
‫ناطفی کی ’’مجمع النوازل والواقعات‘‘ اور صدر ؒ‬ ‫ؒ‬ ‫’’النوازل‘‘‪ ،‬عالمہ‬
‫ہیں۔ ان کی کتب کے عالوہ فقہ حنفی کی اہم کتابیں یہ ہیں‪:‬‬

‫الطحاوي‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫‪:۱‬مختصر‪ #‬الطحاوي ألبي جعفر‬

‫الشہید‬
‫ؒ‬ ‫‪:۲‬المنتقی فی فروع الحنفیۃ للحاکم‬

‫الکرخي‬
‫ؒ‬ ‫‪:۳‬مختصر‪ #‬الکرخي لإلمام‬

‫القدوري‬
‫ؒ‬ ‫‪:۴‬مختصر‪ #‬القدوري‪ #‬ألحمد بن محمد‬

‫السرخسي‬
‫ؒ‬ ‫‪:۵‬المبسوط‪ #‬لشمس األئمۃ‬

‫السمرقندي‬
‫ؒ‬ ‫‪:۶‬تحفۃ الفقہاء لعالء الدین محمد‬

‫الکاساني‬
‫ؒ‬ ‫‪:۷‬بدائع الصنائع ألبي بکر‬

‫األوزجندي‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫‪ :۸‬فتاوی‪ #‬لقاضي خان لفخر الدین‬

‫المرغیناني‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫‪:۹‬بدایۃ المبتدي ألبي الحسن علي‬

‫المرغیناني‬
‫ؒ‬ ‫‪:۱۰‬الہدایۃ ألبي الحسن‬

‫محمود‬
‫ؒ‬ ‫‪:۱۱‬وقایۃ الروایۃ‪ #‬لبرہان الشریعۃ‬

‫الموصلي‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫‪:۱۲‬المختار لعبد ہّٰللا‬

‫ٔاحمد‬
‫ؒ‬ ‫‪:۱۳‬مجمع البحرین لمظفر الدین‬

‫النسفي‬
‫ؒ‬ ‫‪:۱۴‬کنز الدقائق‪ #‬لعبد ہّٰللا بن ٔاحمد‬

‫الکردري‬
‫ؒ‬ ‫‪:۱۵‬الجامع الوجیز لمحمد بن البزاز‬

‫العیني‬
‫ؒ‬ ‫‪:۱۶‬البنایۃ للعالمۃ‬

‫ہمام‬
‫‪:۱۷‬فتح القدیر لکمال الدین بن ؒ‬
‫الحلبي‬
‫ؒ‬ ‫‪:۱۸‬ملتقی األبحر إلبراہیم بن محمد‬

‫نظام‬
‫‪:۱۹‬الفتاوی الہندیۃ تحت إشراف الشیخ ؒ‬
‫التمرتاشي‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫‪:۲۰‬تنویر األبصار‪ #‬لمحمد‬

‫‪:۲۱‬الدر المختار لمحمد عالء الدین الحصکفي ؒ‬

‫الشامي‬
‫ؒ‬ ‫‪ :۲۲‬رد المحتار العالمۃ محمد ٔامین‬

‫(یاد رہے کہ کتابوں کی یہ مذکورہ باال نمبر وار ترتیب مصنفین کے سن وفات کے اعتبار سے ہے)(‬
‫‪)۲۶‬‬

‫امام مالکؒ( مؤسس فقہ مالکی)‬

‫امام مالک ؒ کو ’’إمام دار الہجرۃ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی والدت ‪۹۳‬ھ اور وفات ‪۱۷۹‬ھ‬
‫ہرمز کی صحبت میں‬ ‫ؒ‪#‬‬ ‫میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ علمائے مدینہ سے علم حاصل کیا۔ عبد الرحمن بن‬
‫الرای سے بھی علم حاصل کیا۔‬ ‫ؒ‬ ‫زہری اور ربیعہ‪#‬‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫عمر ‪ ،‬ابن شہاب‬
‫بڑی مدت تک رہے۔ نافع مولی ابن ؓ‬
‫شافعی فرماتے ہیں‪’’ :‬امام مالکؒ میرے استاذ ہیں اور ان ہی سے میں‬ ‫ؒ‬ ‫فقہ وحدیث کے امام تھے۔ امام‬
‫نے علم حاصل کیا‪ ،‬جب علماء کا تذکرہ کیا جائے تو امام مالکؒ ایک روشن ستارہ ہیں۔‘‘ آپ کی زندگی‬
‫عصر عباسی میں گزرا۔ (‪ )۲۷‬خلیفہ جعفر کو آپ سے کچھ‬ ‫ِ‬ ‫دور اموی اور زیادہ عرصہ‬ ‫کا کم عرصہ ِ‬
‫رنجش تھی‪ ،‬جس کی بنا پر اس نے آپ کو کوڑے لگوائے‪ ،‬کوڑوں سے آپ کا کندھا اُتر گیا۔ آپ دین‬
‫میں بڑے پختہ تھے۔ خلیفہ رشید عباسی نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ ان کے پاس آکر انہیں حدیث‬
‫یؤتی‘‘ کہ ’’علم کے پاس آیا جاتاہے‘‘ جب یہ‬ ‫سنائیں۔ آپ نے جانے سے انکار کردیا اور فرمایا‪’’:‬العلم‪ٰ #‬‬
‫پیغام رشید کے پاس پہنچا تو انہوں نے آپ کے ٹھکانہ کا قصد کیا اور آکر دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر‬
‫حدیث سننے کے لیے بیٹھ گئے۔ امام مالکؒ نے فرمایا‪’’ :‬اے امیر المؤمنین! رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی تعظیم‪ #‬یہ ہے کہ ان کے علم کی تعظیم‪ #‬کی جائے۔‘‘ یہ سن کر خلیفہ رشید امام مالکؒ کے‬
‫سامنے سیدھا بیٹھ گئے اور پھر امام مالکؒ نے ان کو حدیث سنائی۔ آپ کی تصانیف ورسائل‪ #‬میں‬
‫’’الموطٔا‘‘‪’’ ،‬الوعظ‘‘‪’’ ،‬المسائل‘‘‪’’ ،‬الرد علی القدریۃ‘‘‪’’ ،‬النجوم‘‘‪ #‬اور’’تفسیر‪ #‬غرائب القرآن‘‘ کا تذکرہ ملتا‬
‫ہے۔(‪)۲۸‬‬

‫امام مالکؒ کے کبار تالمذہ ایک نظر میں‬

‫امام مالکؒ سے ’’موطٔا‘‘‪ #‬روایت کرنے والے تالمذہ کی فہرست کافی طویل ہے۔ البتہ امام مالکؒ کی فقہ‬
‫کو جمع ومرتب کرنے والے شاگرد دو ہیں‪:‬‬
‫‪:۱‬عبد الرحمن بن قاسم‪ ،‬جن کو ’’خزانۃ مذہب مالکؒ‘‘ کے نام سے پکارا جاتاہے‪ ،‬یعنی ’’مذہب مالک کا‬
‫خزانہ!‘‘ ‪ ،‬انہوں نے برا ِہ راست امام مالکؒ سے روایتیں لی۔‬

‫اندلسی‪ ،‬جن کی روایت امام مالک ؒ سے برا ِہ راست نہیں ہے‪ ،‬لیکن انہوں نے‬
‫ؒ‬ ‫‪:۲‬عبد الملک بن حبیب‬
‫اندلسی سے‬
‫ؒ‬ ‫امام مالکؒ کے تالمذہ کے اقوال کو ’’الواضحۃ‘‘‪ #‬نامی کتاب میں جمع کیا۔ پھر عبد الملک‬
‫عتبی نے علم حاصل کیا جو ’’عتیبۃ‘‘ کے مصنف‪ #‬ہیں‪ ،‬اور اندلس کے مفتی تھے۔ عبد‬ ‫ؒ‬ ‫محمد بن احمد‬
‫التنوخی ہے۔‬
‫ؒ‬ ‫سحنون نے علم حاصل کیا‪ ،‬جن کا نام عبد السالم بن سعید الحمصی‪#‬‬‫ؒ‬ ‫قاسم سے‬
‫الرحمن بن ؒ‬
‫’’المدونۃ‘‘ کے مؤلف ہیں۔ علمائے قیروان کا اعتماد ’’المدونۃ‘‘‪ #‬ہی پر ہے۔ اس میں ‪ ۳۶‬ہزار ‪ ۲‬سو‬
‫مسائل ہیں۔ امام مالکؒ کے تالمذہ میں اشہب بن عبد العزیز‪ ،‬عبد الرحمن بن قاسم‪ #‬کے ہم پلہ شمار ہوتے‬
‫ہیں۔ پھر ایک زمانہ میں علم ان چار محمدین میں جمع ہوگیا‪ #‬اور ان ہی پر امام مالکؒ کے مذہب کا مدار‬
‫تھا‪:‬‬

‫محمد بن عبدوس (المتوفی‪۲۶۰ #‬ھ) قیروان میں۔‬

‫محمد بن سحنون (المتوفی ‪۲۵۶‬ھ) قیروان میں۔ یہ صاحب المدونہ کے فرزند‪ #‬ہیں۔‬

‫محمد بن عبد الحکم (المتوفی‪۲۶۸ #‬ھ) مصر میں۔‬

‫محمد بن المواز االسکندری‪( #‬المتوفی ‪۲۶۹‬ھ) مصر میں۔ یہ مدونہ‪ #‬کے عظیم الشان شارح ہیں۔‬

‫پھر ان کے بعد چوتھی‪ #‬صدی‪ #‬میں ابن ابی زید القیروانی (المتوفی‪۳۸۶ #‬ھ) آئے۔‬

‫پانچویں صدی میں ابن عبد البر النمری (المتوفی‪ )۴۳۶ #‬آئے جو شہرٔہ آفاق کتابوں کے مصنف ہیں۔ اسی‬
‫مالکی آئے جو مشہور عالم ہیں‪ ،‬بلکہ اپنے زمانہ میں ’’سید المسلمین‘‘ تھے۔‬
‫ؒ‬ ‫صدی میں قاضی عیاض‬
‫المازری کی شہرت ہوئی۔‪#‬‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫اور اسی کے ساتھ ابوعبد ہللا‬

‫العربی بھی کبار‬


‫ؒ‬ ‫ترمذی کے شارح ’’ٔاحکام القرآن‘‘ اور ’’العواصم‪ #‬من القواصم‘‘ کے مصنف ابوبکر‪ #‬بن‬
‫قرطبی بھی مالکی المذہب تھے۔(‪)۲۹‬‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫علمائے مالکیہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مفسر القرآن امام‬

‫مالکیہ کا فقہی منہج‬

‫امام مالکؒ نے اپنے مذہب کی بنیاد بیس اُصولوں پر رکھی ہے۔ ان میں سے پانچ کتاب ہللا اور پانچ‬
‫سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے ہیں۔کتاب ہللا کے پانچ اصول یہ ہیں‪:‬‬
‫‪:۱‬نص الکتاب‪:۲ ،‬ظاہر الکتاب یعنی عموم کتاب‪:۳ ،‬دلیل الکتاب یعنی مفہوم مخالف‪:۴ ،‬مفہوم الکتاب‬
‫یعنی مفہوم موافق‪:۵ ،‬تنبیہ الکتاب یعنی کتاب ہللا کا علت پر تنبیہ کرنا‪ ،‬جیسے‪ :‬قرآن کریم میں‬
‫ہے‪َ ’’:‬فإِ َّن ٗہ ِرجْ سٌ َٔا ْو فِسْ ًقا‘‘ (األنعام‪)۱۴۵:‬‬

‫ت رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے پانچ اُصول یہ ہیں‪:‬‬


‫سن ِ‬

‫‪:۱‬نص السنۃ‪:۲ ،‬ظاہر السنۃ‪:۳ ،‬دلیل السنۃ یعنی مفہوم مخالف‪:۴ ،‬مفہوم السنۃ یعنی مفہوم موافق‪:۵ #‬تنبیہ‬
‫السنۃ ۔یہ ہوگئے کل دس اصول۔ باقی‪ #‬دس اصول مندرجہ‪ #‬ذیل ہیں‪:‬‬

‫صحابی‪:۵ ،‬استحسان‪:۶ ،‬س ِد ذریعہ‪:۷ ،‬مراعاۃ الخالف‪،‬‬


‫ؓ‬ ‫قول‬
‫تعامل اہل مدینہ‪ِ :۴ ،‬‬
‫ِ‬ ‫‪:۱‬اجماع‪:۲ ،‬قیاس‪:۳ ،‬‬
‫مصالح مرسلہ‪ :۱۰ ،‬شرائع من‬
‫ِ‬ ‫ب حال‪:۹ ،‬‬
‫امام مالک ؒ کبھی اختالف کی رعایت کرتے ہیں۔ ‪:۸‬استصحا ِ‬
‫قبلنا۔‬

‫وہ اہم اصول کہ جن سے امام مالکؒ کی شہرت ہوئی‪ ،‬وہ یہ پانچ ہیں‪:‬‬

‫صحابی‪ ،‬جب کہ سند صحیح ہو۔‬


‫ؓ‬ ‫قول‬
‫مصالح مرسلہ‪ِ :۴ ،‬‬
‫ِ‬ ‫تعامل اہل مدینہ‪:۳ ،‬‬
‫ِ‬ ‫‪:۱‬عمل بالسنۃ‪:۲ ،‬‬
‫‪:۵‬استحسان۔ (‪)۳۰‬‬

‫فقہ مالکی کی امہات الکتب‪:‬‬

‫فقہ مالکی کی اہم کتابوں اور مصنفین کے نام اس طرح ہیں‪:‬‬

‫الموطٔا‪ ،‬امام مالکؒ (م‪۱۷۹:‬ھ)‬

‫تنوخی (م‪۲۴۰:‬ھ)‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫المدونۃ‪ ،‬عبد السالم ابوسعید‪ #‬سحنون‬

‫حبیب (م‪۲۳۸:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫الواضحۃ فی السنن والفقہ(اب تک مخطوطہ ہے) عبد الملک بن‬

‫القرطبی(م‪۲۵۴:‬ھ) [اس کا نام ’’عتیبۃ‘‘ بھی ہے اور یہ ’’البیان والتحسین‘‘ نامی‬


‫ؒ‬ ‫المستخرجۃ‪ ،‬محمد العتبی‬
‫شرح کے ساتھ طبع ہوچکی‪ #‬ہے]‬

‫الموازیۃ(یہ بھی مخطوطہ‪ #‬تھی‪ ،‬حال ہی میں شائع ہوئی) محمد ابراہیم اسکندری‪ #‬معروف‪ #‬بابن مواز‪( #‬م‪:‬‬
‫ت اربعہ کہالتی ہیں اور انہیں پر فقہ مالکی کا مدار ہے۔‬
‫‪۲۶۹‬ھ) یہ چاروں کتابیں فقہ مالکی میں امہا ِ‬

‫جالب (م‪۳۷۸:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫التفریع ‪،‬ابو القاسم عبید ہللا‬

‫قیروانی (م‪۳۸۹:‬ھ)‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫رسالۃ ابن ٔابي زید القیرواني‪،‬ابو محمد ہللا زید‬
‫کتاب التلقین‪ ،‬قاضی‪ #‬ابومحمد عبد الوہاب بغدادی (م‪۴۲۲:‬ھ)‬

‫قرطبی (م‪۵۲۰:‬ھ)‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫البیان والتحصیل(شرح المستخرجۃ)‪ #‬ابو الولید محمد بن رشد‬

‫قرطبی (م‪۵۲۰:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫فتاوی ابن رشد‪،‬ابو الولید محمد بن رشد‬

‫شاس (م‪۶۱۰:‬ھ)[یہ فقہ مالکی کا نہایت اہم ماخذ‬


‫ؒ‬ ‫الجواہر الثمینۃ فی مذہب عالم المدینۃ‪ ،‬ابو محمد عبد ہللا‬
‫سمجھا جاتاہے]‬

‫ابراہیم (م‪۷۳۳:‬ھ)[یہ کتاب صرف قضاء سے متعلق نہیں‬


‫ؒ‬ ‫معین الحکام علی القضایا والحکام‪،‬ابواسحاق‪#‬‬
‫ہے‪ ،‬بلکہ عقود وجنایات پر ہے کہ قضاۃ کو اس سے مدد ملے]‬

‫مالکی (م‪۷۶۷:‬ھ)[مختصر خلیل‪ ،‬متٔاخرین کے نزدیک نہایت ہی معتمد‬


‫ؒ‬ ‫المختصر‪،‬شیخ خلیل بن اسحاق‬
‫ومستند کتاب ہے اور اسی لیے علماء مالکی کے ہاں اس کو بڑا قبول اور اعتناء حاصل ہوا ہے]‬

‫مکی (م‪۹۵۴:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل‪ ،‬ابو عبد ہللا محمد خطاب محمد‬

‫زرقانی(م‪۱۰۹۹:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫شرح الزرقاني علی مختصر خلیل‪ ،‬عبد الباقی‬

‫خرشی (م‪۱۱۰۱:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫خرشي علی مختصر خلیل‪ ،‬محمد بن عبد ہللا‬

‫دردیر (م‪۱۲۰۱:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫الشرح الکبیر علی مختصر خلیل‪ ،‬احمد بن محمد‬

‫دسوقی (م‪۱۲۳۰:‬ھ)‬
‫ؒ‬ ‫حاشیۃ الدسوقي‪ #‬علی الشرح الکبیر‪ ،‬محمد بن احمد‬

‫امیر (م‪۱۲۳۲:‬ھ) (‪)۳۱‬‬


‫المجموع الفقہي فی مذہب اإلمام مالکؒ‪ ،‬محمد بن محمد ؒ‬

‫مؤسس فقہ شافعی‪#‬‬


‫ِ‬ ‫شافعی‬
‫ؒ‪#‬‬ ‫امام‬

‫آپ کا پورا نام محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع القرشی الہاشمی المطلبی ہے۔ فلسطین کے‬
‫شہر غزہ میں ‪۱۵۰‬ھ کو پیدا ہوئے اور مصر میں ‪۲۰۴‬ھ کو وفات پائی۔ غزہ میں ان کے والد کی وفات‬
‫کے بعد جب کہ ان کی عمر ‪ ۲‬سال تھی‪ ،‬اُن کی والدہ ان کو اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ الئی۔ مکہ‬
‫مکرمہ میں آپ کی تربیت ہوئی۔‪ #‬بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کیا۔ پھر قبیلہ ہذیل کے دیہات کی طرف‪#‬‬
‫چلے گئے۔ ہذیل عرب کا فصیح ترین قبیلہ تھا‪ ،‬اُن کے عربی اشعار اور قصیدے حفظ کیے‪ ،‬عربیت‬
‫اور ادب میں خوب کمال حاصل کیا۔مکہ کے مفتی مسلم بن خالد زنگی کے سامنے زانوئے تلمذ طے‬
‫کیا۔ انہوں نے آپ کو افتاء کی اجازت دے دی‪ ،‬جب کہ آپ کی عمر ‪ ۱۵‬سال تھی‪ ،‬پھر آپ نے مدینہ‬
‫کی جانب کوچ کیا۔ امام مالکؒ سے فقہ پڑھی اور ان ہی سے ’’موطٔا‘‘ کا سماع کیا۔ ’’موطٔا‘‘ کو نو دن‬
‫میں حفظ کیا۔ اسی طرح سفیان بن عیینہ‪ ،‬فضیل بن عیاض اور اپنے چچا محمد بن شافع ؒ سے بھی‬
‫ت احادیث کی۔ یمن کی طرف بھی آپ کا سفر ہوا۔ ‪۱۸۳‬ھ اور ‪۱۹۵‬ھ میں بغداد کی طرف اسفار‬ ‫روای ِ‬
‫احمد نے ‪۱۸۷‬ھ میں‬ ‫ؒ‬ ‫محمد سے فقہائے عراق کی کتابیں پڑھیں۔ امام‬ ‫ؒ‬ ‫ہوئے۔ ان اسفار میں آپ نے امام‬
‫صول فقہ کا علم حاصل‬ ‫ِ‬ ‫مکہ میں اور ‪۱۹۵‬ھ کو بغداد میں آپ سے مالقات کی اور آپ سے فقہ اور ا ُ‬
‫کیا۔ بغداد میں آپ نے اپنی قدیم کتاب ’’الحجۃ‘‘ کو تصنیف کیا‪ ،‬جس میں آپ کا مذہب قدیم‪ #‬مذکورہے۔پھر‪#‬‬
‫‪۲۰۰‬ھ میں مصر کی طرف کوچ کیا اور وہاں اپنے جدید مذہب کی بنیاد رکھی۔ جمعہ کے دن رجب‬
‫کے آخر میں ‪۲۰۴‬ھ کو مصر ہی میں آپ کی وفات ہوئی اور اسی دن عصر کے بعد ’’قرافۃ‘‘‪ #‬مقام میں‬
‫صول فقہ کے موضوع پر لکھی ہے۔ ’’أالم‘‘‬ ‫ِ‬ ‫آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ کی تالیفات میں ’’الرسالۃ‘‘ ہے جو ا ُ‬
‫احمد فرماتے ہیں‪’’ :‬امام‬
‫ؒ‬ ‫بھی آپ کی مشہور کتاب ہے جس میں آپ کے نئے مذہب کا ذکر ہے۔ امام‬
‫شافعی کتاب ہللا اور سنت رسول‪ #‬کو لوگوں میں سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں۔‘‘ طاش کبری زادہ‬ ‫ؒ‬
‫آپ کی توصیف‪ #‬کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬

‫وعدالتہ وزہدہٖ ‪،‬‬


‫ٖ‬ ‫ٔامانتہ‬
‫ٖ‬ ‫’’اتفق العلماء من ٔاہل الفقہ واألصول والحدیث واللغۃ والنحو وغیر ٰذلک ٰ‬
‫علی‬
‫مدحتہ‬
‫ٖ‬ ‫وصفہ مقصر‪ ،‬والمسہب فی‬
‫ٖ‬ ‫سیرتہ‪ ،‬وعلوقدرہٖ ‪ ،‬فالمطنب فی‬
‫ٖ‬ ‫وورعہ وتقواہ وجودہٖ ‪ ،‬وحسن‬
‫ٖ‬
‫مقتصر۔‘‘(‪)۳۲‬‬

‫شافعی کے ممتاز تالمذہ‬


‫ؒ‪#‬‬ ‫امام‬

‫شافعی جب مصر آئے‬


‫ؒ‪#‬‬ ‫محمد احمد راشد اپنی کتاب ’’ٔاصول اإلفتاء واالجتہاد‘‘‪ #‬میں لکھتے ہیں کہ‪’ ’ :‬امام‬
‫شافعی کے قابل وذہین تالمذہ جمع ہوتے‬
‫ؒ‬ ‫تو آپ نے اپنے مذہب کو شورائی انداز سے مرتب کیا۔ امام‬
‫سر نو شورائی‪ #‬مذہب مرتب ہوا۔ اس‬ ‫اور ان کے ساتھ مسائل پر بحث ومباحثہ کرتے۔ اس طرح از ِ‬
‫شافعی کے شاگرد یہ تھے‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫ٰ‬
‫شوری میں شریک ہونے والے امام‬
‫ٰ‬
‫یحیی البویطی‪( ،‬م‪۲۳۱:‬ھ) جوکہ مسئلہ خلق قرآن کی پاداش میں جیل میں وفات پاگئے۔‬ ‫‪:۱‬یوسف‪ #‬بن‬

‫بخاری کے شیخ تھے۔‬


‫ؒ‬ ‫‪:۲‬عبد ہللا بن زبیر الحمیدی‪ ،‬جوکہ امام‬

‫شافعی کو ’’المختصر‪ #‬الکبیر المسمی بالمبسوط‘‘‪#‬‬


‫ؒ‪#‬‬ ‫ٰ‬
‫یحیی المزنی (م‪۲۶۴:‬ھ)‪ ،‬جنہوں نے فقہ‬ ‫‪:۳‬اسماعیل بن‬
‫میں جمع کیا۔‬

‫‪:۴‬محمد بن عبد ہللا بن عبد الحکم (‪)۳۳‬ان کے عالوہ آپ کے چند مشہور تالمذہ یہ ہیں‪:‬‬

‫شافعی کی کتابوں کے سب سے بڑے راوی ہیں۔‬


‫ؒ‬ ‫‪:۵‬ربیع بن سلیمان المرادی (م‪۲۷۰:‬ھ)‪ ،‬جوکہ امام‬
‫’’الرسالۃ‘‘ اور ’’أالم‘‘ ان کی روایت سے پہنچی ہیں۔‬

‫شافعی سے وہ کتابیں روایت کیں‪ ،‬جن کو ربیع نے‬


‫ؒ‬ ‫ٰ‬
‫یحیی (م‪۲۶۶:‬ھ)‪ ،‬جنہوں نے امام‬ ‫‪ :۶‬حرملہ ین‬
‫روایت نہیں کیا‪ ،‬جیسے تین جلدوں پر مشتمل ’’کتاب الشروط‘‘‪ ،‬دس جلدوں پر مشتمل ’’کتاب السنن‘‘‪،‬‬
‫’’کتاب النکاح‘‘ اور ’’کتاب ٔالوان االبن والغنم وصفاتہا ؤاسنانہا‘‘ (‪)۳۴‬ان کے بعد مذہب شافعی‪ #‬کی‬
‫تشریحات‪ ،‬تفصیالت اور ترویج کی خدمات انجام دینے والوں میں نمایاں اسمائے گرامی یہ ہیں‪:۱ :‬ابن‬
‫سریج‪:۲ ،‬ابواسحاق االسفرائنی‪:۳ ،‬امام الحرمین الجوینی‪:۴ ،‬ابوحامد غزالی‪:۵ ،‬امام نووی‪:۶ #،‬امام‬
‫رازی‪:۷ ،‬امام سبکی‪:۸ ،‬تقی الدین بن دقیق العید‪:۹ ،‬عز بن عبد السالم‪:۱۰ ،‬امام بلقینی‪:۱۱ ،‬ابن حجر‬
‫عسقالنی۔(‪)۳۵‬‬
‫ؒ‬

‫شافعیہ کا فقہی منہج‬

‫شافعی کے مذہب کی بنیاد چار اُصولوں پر رکھی گئی ہے‪:‬‬


‫ؒ‪#‬‬ ‫امام‬

‫ت رسول صلی ہللا علیہ وسلم ‪:۳ ،‬اجماع‪:۴ ،‬قیاس۔(‪)۳۶‬‬


‫‪:۱‬کتاب ہللا ‪:۲ ،‬سن ِ‬

‫اہل مکہ‘‘ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔(‪)۳۷‬‬


‫’’تعامل ِ‬
‫ِ‬ ‫اصل شافعی‪ #‬کے‬
‫ِ‬ ‫بعض حضرات بطور‬

‫صحابہ کے اجتہادات ہیں جن میں خطا‬


‫ؓ‬ ‫صحابہ ‘‘ کو نہیں لیا‪ ،‬اس لیے کہ وہ‬
‫ؓ‪#‬‬ ‫’’اقوال‬
‫ِ‪#‬‬ ‫امام شافعی‪ ؒ #‬نے‬
‫کا احتمال ہے۔ عمل باالستحسان کو بھی چھوڑدیا جوکہ حنفیہ ومالکیہ‪ #‬کے ہاں ایک مستقل اصول ہے۔‬
‫شافعی سے منقول ہے‪’’ :‬من استحسن فقد شرع‘‘ کہ ’’جس نے استحسان کیا‪ ،‬اس نے شریعت سازی‬ ‫ؒ‪#‬‬ ‫امام‬
‫اہل مدینہ کے قابل استدالل ہونے کو بھی تسلیم نہیں‬
‫تعامل ِ‬
‫ِ‬ ‫کی‘‘ مصالح مرسلہ کی بھی تردید کی اور‬
‫کیا۔ (‪)۳۸‬‬

You might also like