You are on page 1of 3

‫‪ 

‬ہم بھی گئے دیو سائی‬


‫) ایک بار پڑھیے پھر ابھی سفر کا بستر نہ باندھ لو تو مجھے کہنا (‬
‫دالور عباس آدھی رات تک دیو سائی کے سفر کا انتظام کرتا رہا ‪،‬اِس میں نہ تو اُس نے جنوں س ے م دد چ اہی نہ دوس توں س ے مگ ر دوس رے دن ض رورت ک ا ہ ر‬
‫سامان میسر تھا ۔ رات کے لیے خیمے ‪ ،‬سلیپنگ بیگ ‪،‬بسترے ‪ ،‬کھانے پینے کے برتن ‪ ،‬گیس سلنڈر او چولہا ‪،‬چُھری کانٹے ‪ ،‬جیکٹیں اورمچھلی پکڑنے کے کانٹے‬
‫(جو وہاں کسی کام نہیں آئے کیونکہ مچھلی تو ایک طرف ‪،‬اُس کی بُو تک نہیں تھی یا کہیں تھی بھی تو ہر سیاح کے ہاتھ میں مچھلی کا کانٹا دیکھ کر ف رار ہ و چکی‬
‫تھی )‪ ،‬یہ سب کچھ دالور نے لینڈ کروزر میں رکھ دیا ‪،‬جو اُس نے اپنے بھائی سے بمع ڈرائیورعاریتا ً حاصل ک ر لی تھی ۔ ص بح گوش ت چ اول اور گھی دودھ لی تے‬
‫اور دوستوں کو اکٹھا کرتے‪،‬جو سکردو کی سائے دار گلیوں گلیوں میں بکھرے ہوئے تھے ‪ ،‬گیارہ بج گئے ۔ ہللا ہللا کر کے ساڑھے گیارہ بجےسکردو س ے نکلے ‪،‬‬
‫نکلے سے کیا معنی‪ ،‬سکردو سے اُوپر چڑھنا شروع کیا ۔ اگر دیوسائی کی طرف نکلنا ہو تو چڑھائی پہلے قدم پر ہی شروع ہوجاتی ہے‪،‬پھر چڑھ تے ج او‪ ،‬چڑھ تے‬
‫جاو اور نیچے ُمڑ کر مت دیکھوورنہ پتھر کے ہو جاو گے یا ِگ ر ج او گے۔ ہم چ ونکہ مین ار بن انے ک ا ک ام ک رتے رہے ہیں اور ہمیش ہ بلن دی پ ر رہے ہیں اِس ل یے‬
‫مسلسل نیچے جھانکتے گئے اور اندازہ لگاتے گئے کہ نیچے کی طرف ساتھ ساتھ ندی بہتی ہے یا سفید ہرنی کے دودھ کی نہر چلتی ہے ۔ سکردو سے دیوس ائی کی‬
‫طرف نکلیں تو موسم کا حال چال پہلے ہی دیکھ لینا واجب ہے ورنہ آپ کا ف وت ہون ا واجب ہے ۔ ہم چھ نف ر اور ای ک ڈرائی ور ‪،‬ک ل مال کے س ات م انس ‪،‬چ ار پ انچ‬
‫مرغیاں ۔ فقط اتنے سے گناہوں کو اُٹھا کر چلنے میں ہی چند سانسوں میں گاڑی کا دم پھول گیا ۔ ذری ذری میں ہونکنے لگی اور چڑھائی تھی کہ برابر ہونے ک ا ن ام‬
‫نہ لیتی ‪ ،‬کوئی دس میل کے فاصلے تک ہم دو ہزار فٹ اُوپر اُٹھ گئے تھےاور گاڑی کا انجن غصے سے آگ بگوال ہو چکا تھا ۔ اس راستے پ ر س ب س ے پہلے ص د‬
‫پارہ جھیل آتی ہے ‪،‬جو اب ایک چھوٹے سے سمندر کے برابر ہو چکی ہے اور گہرائی کا تو سوچ ک ر ہی پس ینہ اُت ر آت ا اور اُس ک ا پ انی بع د میں اِس ی گہ رائی میں‬
‫آسمان نیلگوں ہے کہ زمین پر پڑا ہے جس کے گردا گرد پہاڑوں کے ستون اِسے س ہارے ہ وئے ہیں ۔ یہ س تون قی امت‬ ‫ِ‬ ‫شامل ہو جاتا ہے یہ جھیل کاہے کو ہے‪ ،‬ایک‬
‫تک نہ اُکھاڑے جاویں گے نہ صدپارہ کا آسمان زمین سے اُٹھایا جاوے گا ۔ یہیں کئی ہائڈروپاور لگا کر بجلیاں بنائی جا رہی ہیں اور سکردو کو پہنچائی جا رہی ہیں ۔‬
‫جھیل کے سبزی مائل نیلے پانی کو دیکھتے جا یئے اور چلتے جایئے ‪،‬چلتے جایئے اور دیکھتے جایئے ۔جہاں سے جھیل ختم ہوگی وہاں ایک چھوٹ ا س ا گ اوں آئے‬
‫دامن دل میں ُکھب ُکھب کے رہ گئیں ۔ بلندیوں س ے ک ئی ک ئی‬ ‫ِ‬ ‫گا ‪،‬اِسے لوئر صد پارہ کہتے ہیں ‪ ،‬وہی ہرے ہرے پانیوں کی پھیریاں اور درختوں کی سبزیاں۔ ہمارے‬
‫نالے چاندی کے اور پارے کے گاوں میں اُترتے ہیں ‪،‬گاوں کی گلیوں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ ڈرائیور صاحب بہت باتونی اور لطیفہ گو تھے مگر ہماری مصیبت کہ‬
‫سوائے مادری زبان کے دوسری کسی زبان نے ہمیں منہ نہ لگایا‪ ،‬بلتی کیا سمجھتے ؟ بدھو بن کے بیٹھے تھے صرف آنکھیں اور دل مص روف تھ ا زب ان کے س اتھ‬
‫دماغ ماوف تھا کہ حیرتوں میں کچھ سوچنے کو سوجھتا نہیں اور حیرتیں یہاں ایک ایک قدم پر ہزار ہزار تھیں ۔ ڈرائیور بلتی زبان میں لطیفہ گ وئی ک ر رہ ا تھ ا اور‬
‫بلتی ہماری سمجھ سے اتنے ہی باہر تھے جتنے ہم خود اُن کی سمجھ سے‪ ،‬لیکن اپنی خجالت مٹانے کو ہنستے ض رور ج اتے تھے اور کبھی کس ی لطیفے ک ا مطلب‬
‫بھی پوچھ لیتے کہ اُنھیں اندازہ ہو ‪،‬کم از کم ہم بہرے نہیں ہیں ۔ جونہی اپر صدپارہ گاوں پہنچے تو ایک پ ولیس چ وکی نے روک لی ا اور س ب ک و چھ وڑ ک ر ہم اری‬
‫شناخت چاہی ۔ سچ پوچھیں تو اُس وقت ہمارا دل بہت ٹوٹا ۔اب اُنھیں کیا کہتے کہ اُس ص وبے س ے آئے ہیں جہ اں ک ا بادش اہ اور پ ولیس ک رپٹ ہے ۔ہم چُپ رہے اور‬
‫شناختی کارڈ نکال کر دکھایا اور آگے کا راہ پایا ۔ خیر ہم اُوپر ہی اُوپر چڑھتے جا رہے تھےاور برفوں والے پانی ک ا ناالہم اری اُل ٹی س مت نیچے ہی نیچے بہہ رہ ا‬
‫تھا ۔ برف کے تودوں کے بیچ سے ‪ ،‬کنکروں کے بیچ سے ‪ ،‬بڑے پتھروں کے بیچ س ے‪ ،‬پھل دار درخت وں اور پھول دار جھ اڑیوں کے بیچ س ے بہہ رہ ا تھ ا ۔ ہم اُل ٹی‬
‫طرف جا رہے تھے اور وہ سیدھی طرف یا ہم سیدھی طرف جا رہے تھے اور وہ اُلٹی طرف ‪ ،‬یہ ایک ایسا معما ہے جسے فی الحال ہم نہیں سُلجھا سکتے کی ونکہ ہم‬
‫دیوسائی جا رہے ہیں اور بہت مصروف ہیں ۔ سردی بدستور بڑھتی جا رہی تھی ۔ ہر پانچ میل پر دُگنی ہو رہی تھی ۔ ِادھر گاڑی کا سنیے تھوڑی چل تی‪ ،‬زی ادہ رُک تی‬
‫اور لمبے سانس لیتی ۔ ہم نے کئی ایسے بھی دیکھے جو اِس راہ میں سوزوکیاں لے کے نکلے تھے اور اب اُنھیں سر پر اُٹھانے کے چک روں میں تھے مگ ر نہ اُٹھ ا‬
‫سکتے تھے ۔آخر آگے کے نہیں رہتے تھے اور پیچھے کی طرف بہتے تھے ۔ دیکھو بھ ائی ج و ک وئی وہ اں ج اوے ری ل کے انجن والی ش ے لے کے ج اوے ورنہ‬
‫خجل ہونا اُس کے نصیبوں میں لکھا جائے گا ۔ ایک اور بات سُن لو ‪ ،‬پتا نہیں کب اور کہاں سے لُڑھکتا ہوا پتھ ر آئے اور آپ ک و ہم وار ک ردے۔ اک ثر جگہ ل ڑھکے‬
‫ہوئے پتھروں سے رستہ بالک ملتا تھا ‪ ،‬ہم گاڑی سے اُتر کر پتھر ہٹاتے تھے اور آگے چلتے تھے ۔ آخر چار پانچ کلومیٹر تو پیدل ہی چلے بلکہ سڑک بن اتے ہ وئے‬
‫چلے اور پیچھے پیچھے گاڑی چلی ۔اُونچے اُونچے پہاڑوں کے پہلو میں دیوسائی کو جانے والی سڑک ہرگز سڑک نہیں ہے‪ ،‬اِسے آپ ٹھوٹی پھوٹی پگڈنڈی کہہ لیں‬
‫جس پر لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام واال معاملہ ہے مگر واہ رے بکریاں اور یاک اور گائے چرانے والے ‪ ،‬نہ تو اُنھیں کھائیوں س ے ڈر لگت ا تھ ا اور‬
‫نہ سردی سے پاال۔ یہ اور اِن کی بکریاں اور گائیں اور یاک اونچے نیچے ‪ ،‬ٹیڑھے میڑھے‪،‬اُلٹے سیدھے اور دیوماالئی راستوں پر ایسے چل رہے تھے جیسے گھر‬
‫کے آنگن میں گولٹا چھپاکی کھیل رہے ہوں ۔ حیرانی اُس وقت دو چند ہو جاتی جب مت وازی چٹ انوں پرچرواہ ا ج انوروں س میت براب ر چڑھ تے دیکھت ا ۔ پہ اڑوں کی‬
‫چٹانوں میں پتھروں کی اُبھری ہوئی نوکیں اِن کی سیڑھیاں تھیں جن پر قدم ایسے جماتےتھے کہ بیس گز چوڑی سڑک ہو اور چرواہ ا س پائڈر مین ہ و ۔ ہ ر چ رواہے‬
‫کی کمر پیچھے بستر اور چولہا بندھا تھا ۔ جہاں رات پڑتی ہوگی ‪،‬بستر کھوال اور لیٹ رہے۔ بکریاں اور یاک کسی غار میں دُبک گئیں اور یہ خ ود بکری وں کے بیچ‬
‫دُبک گئے ۔ کھانے کو اِن کے پاس اِدھر اُدھر سے توڑی ہوئی جڑی بوٹیاں ‪ ،‬سبزیاں اور خوبانیاں تھیں ۔ مزی د اُنھی بکری وں ک ا دودھ ہوت ا جنھیں ل یے ل یے پھ رتے‬
‫تھے ۔ رستے میں ہمیں کئی گلیشیئر بھی ملے ‪،‬جنھوں نے ندی کا سرسفید ٹوپی کی صورت ڈھک رکھا تھا ۔ یہاں گاڑی ہماری خالی چڑھتے ہوئے بھی ض د ک ر کے‬
‫کھڑی ہو جاتی اور ہم اُسے گدھے کی طرح آگے دھکیلتے ۔ تب معلوم ہوتا کہ مشین پر آدمی کا زور حاوی ہے ۔ لیج یے حض ت ‪ ،‬براب ر تین گھن ٹے کی م ارا م اری‬
‫اور جگر کاوی کے بعد ہم دیو سائی کے منہ برابر آ ہی گئےاور اچانک سردی سے دانت بجنے لگے ۔ خدا قسم ایک دفعہ تو بھول ہی گ ئے کہ مہینہ ج والئی ک ا ہے۔‬
‫یہاں پنجاب کی جنوری سے جوالئی بھاری پڑ رہا تھا ۔ آگے خود سونچ لو جنوری کیا ہوگا ۔ یوں سمجھو کہ اک برف کا دریا ہے اور دفن ہو کے نکلن ا ہے ۔ ای ک دم‬
‫بادل گ ِھر آئے تھے اور کم کم بادو باراں تھی م یر ص احب ہ وتے ت و چمن کی بج ائے ض رور دیوس ائی چل تے ۔ ب ارش کے س بب س ردی ای ک دم س ائبیریاکو آنکھیں‬
‫جشن دسمبر منانے لگے یع نی ہ اتھ بغل وں میں دب انے لگے اور منہ مفل روں میں چھپ انے لگے ۔‬ ‫ِ‬ ‫دکھانے لگی ۔ ہم نے جھٹ جرسیاں اور کوٹ نکال کر پہن لیے اور‬
‫یہاں ساڑھے سولہ ہزار فٹ کی بلندی تھی ‪،‬سبز گھاس اور رنگا رنگ پھولوں کے میدان تھے ‪،‬میدانوں میں سینکڑوں ندی نالے تھے ‪ ،‬ن الوں میں ت یرے ہ وئے ہ ری‬
‫مالئم گھاس کے لچھے تھے۔ لچھوں میں پھُدکتی ہوئی تتلیوں کی پریاں تھیں ‪ ،‬ایک نالہ دوسرے کواور دوسرا تیسرے کو کاٹ کر گزر رہا تھا ‪ ،‬جن کے بیچ ہ زاروں‬
‫یاک اور لمبے بالوں والی بکریاں َچرپ ِھر رہی تھیں ۔ دور تک سر سبز ٹیلے ہی ٹیلے تھے جن پر جگہ جگہ برف کے چھ وٹے ب ڑے گلیش ئر ہمیں چان دی دکھ ا رہے‬
‫تھے ‪،‬یا ہمارا منہ چڑا رہے تھے کہ آو ہمیں پکڑ کر دیکھو ۔ بھئی اتنی بلندی پر آ کے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ ہم بھی بلند قامت آدمی ہیں مگر آس مان کی‬
‫کمینگی کچھ نہ پوچھیے ‪،‬پہلے کی طرح بلند تھا یعنی ایسا لگتا تھا کہ اُس نے اپنا فاصلہ نہیں گھٹایا ۔ خیر کس ی دن پک ڑ ہی لیں گے ‪،‬کہ اں ت ک بھ اگے گ ا ۔ ہم س ب‬
‫دوست ‪،‬مثل تیمور ‪،‬دالور عباس ‪ ،‬ذی جاہ ‪ ،‬علی وزیر ‪ ،‬وقار اور علی اکبر ناطق گاڑی س ے نیچے اُت ر آئے ۔ ہلکی ب ارش ش روع ہ و چکی تھی اور ٹھن ڈ ک افی ب ڑھ‬
‫چکی تھی ۔ ہم تو اِسی کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکلے تھے ۔ فوراً جوالئی میں گرم جیکٹیں اور چادریں نکال ک ر پہن لیں اور اوڑھ لیں اور دی و س ائی کی گھ اس‬
‫اور اودے اُودے ‪،‬نیلے پیلے‪ ،‬الل سنہری اور سُرمئی پھولوں میں لیٹنیاں لینے لگے۔ ہمارے پیچھے اور بھی ل وگ آ رہے تھے ‪،‬ہم ارے آگے اور بھی ل وگ ج ا رہے‬
‫تھے اور وہ سب بھی وہی کچھ خرمستاں کر رہے تھے جو ہم میں تھیں ‪ ،‬عورتیں کیاِ بالیاں کیا ‪ ،‬بالکے کیا ‪،‬بڑے کیا ‪ ،‬سب پتا نہیں کہ اں کہ اں س ے اکٹھے ہ و ل یے‬
‫تھے اور یہاں ناچتے جھومر گاتے پھرتے تھے ۔ بوڑھے نہیں دیکھے گئے ۔ غالبا ً سانس لینے کا مسئلہ تھا جو کہ اب ہمیں بھی مشکل سے ہی آ رہا تھا ‪،‬یعنی تھ وڑا‬
‫سا چلنے پر چڑھ جاتا تھا ‪،‬نہ جانے ہم ساتوں کو لے کر گاڑی کیسے چڑھ آ ئی تھی ۔ یعنی چڑھائی بہت تھی اور آکسیجن کم کم۔ تھوڑی دیر ہم یہاں لیٹے لُوٹے‪ ،‬پھ ر‬
‫گاڑی پر بیٹھے اور آگے چلے ‪،‬یعنی بڑا پانی کے پاس جہاں ٹھنڈی ندی چل تی ہے اور رُک تی نہیں ہے س وائے ہللا می اں اور ج اڑے کے حکم کےیہ س ڑک کچی ہے‬
‫‪،‬اور یہاں مٹی ہے اور مٹی بھُربھری ہے ‪ ،‬جس پر اگر بارش ہو جائے (جو اکثر ہوتی ہے بلکہ ہوتی ہی رہتی ہے) تو سمجھیے گاڑی واڑی کچھ نہیں چلے گی ۔ ہاں‬
‫اونٹ ‪،‬گھوڑے اور گدھے کی اور بات ہے اور وہ یہاں انسانوں کی شکل میں جون سے لے کر نصف اگست تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُس کے بعد اُن کا داخلہ بھی‬
‫ممکن نہیں ‪،‬کہ سردی ‪،‬پاال اور برف باری اِس وادی کو سفید کفن اوڑھا کر درود فاتحہ پڑھ کر اگلی جون تک سُال دیتی ہے ۔ جہاں سے ہم یا ہماری گاڑی گ زر رہی‬
‫تھی ‪،‬اُس کے ارد گرد مٹی اور پتھروں کے اُونچے نیچے اور سرسبز ٹیلے ح ِد نگ اہ ت ک پھیلے تھے اور بہت زی ادہ تھے۔ جن کے س روں اور پہل ووں پ ر ب رف ی ا‬
‫ٹھنڈی چاندی کی گٹھڑیاں باندھ کر رکھی ہوئی تھیں ۔ ساتھ ساتھ ایک ناال بہے جاتا تھا‪ ،‬جو اِن ٹیلوں پہ پڑی چاندی کا پانی زمرد کے تختوں میں سے گوی ا زبردس تی‬
‫گھسیٹ کر لیےجاتا تھا ۔ غالبا ً یہ بھی وہیں جا رہا تھا‪ ،‬جہاں ہم جا رہے تھے ‪،‬یعنی دیوسائی کے اُس مرکزی مقام پر جسے بڑا پانی کہتے ہیں ‪،‬جہ اں ای ک ب ڑی نہ ر‬
‫بہتی ہے اور جسے ِاسی طرح کے کئی دوسرے نالے بھی مختلف طرفوں کی پہاڑیوں سے پگھلی چاندی کا خراج وصول کر کے پہنچاتے ہیں ۔ ہم آہستہ آہستہ یع نی‬
‫ایک قدم آگے اور دو پیچھے کے کلیے سے چلتے ہوئے بڑا پانی کے پاس پہنچ ہی گئے ۔ اتنی تیزی سے اِس ل یے س فر کی ا کہ جہ اں س ے گ زرتے تھے ‪،‬زمین اور‬
‫سبزہ اور جنگلی پھول پاوں پکڑ لیتے تھے‪ ،‬ہم نے ایک جگہ دیکھی جو ٹیلے سے بہت نیچے تھی‪،‬وہاں ناال کہکشاں کی طرح موڑ کھاتا جات ا تھ ا ‪،‬س بزہ اور گھ اس‬
‫اور جنگلی پھول اتنے کہ ہللا اکبر‪ ،،،‬ہم نے کہا بھئ ذری گاڑی روکیے‪ ،‬ہم کچھ وقت فطرت سے ہم کالم ہو لیں ۔ڈرائور بوال ‪،‬بھئی آپ یہاں نہیں اُتر سکتے ‪،،‬یہ سب‬
‫کچھ چمکتے نالے کے ساتھ جو آپ کو سبزہ اور پھول نظر آتے ہیں ‪،‬دراصل اِن کے اندربہت گہری دلدل ہےجہاں ایک بار آپ پھنسے ت و اِس ی فط رت ک ا حص ہ بن‬
‫جائیں گے اور اگلی جوالئی تک اِنھی گھاس اور پھولوں کی صورت اُگ آو گے اور لوگ اِسی طرح آپ کی زیارت کو آئیں گے ۔ ڈرائیور کی یہ نامراد خبرسُن کر ہم‬
‫رُک گئے اور بجھ سے گئے ۔ کچھ آگے گئے تو پھر وہی منظ ر ‪ ،‬اُس نے ہم ارے ارادے بھ انپ ک ر وہی جملے کچھ مث الوں کے س اتھ پھ ر دہ رائے اور کہ ا‪،‬پچھلے‬
‫موسم میں ایک انگریز اپنی میم کو بڑی کرب ناک اذیت میں اسی دلدل میں کھو کر چال گیا تھا ‪،‬بچارا بہت روتا تھا ‪،‬کوئی من بھر ٹشو خرچ ہ وئے ہ وں گے ۔ ہم پھ ر‬
‫تھوڑی دُور آگے گئے تو اُس سے بھی زیادہ پُرکشش منظرتھا اور ح ِد نگاہ تک تھا اور ساتھ ایک چمکدار نالے کے کئی ک ئی چک ر بھی تھے ۔‬ ‫ٰ‬ ‫اُترنے سے باز آئے ۔‬
‫ُ‬
‫اب کے ہم نے کہا‪ ،‬میاں اب تو چاہے دلدل میں ڈوب ہی جائیں اور اللہ و گل میں نمایاں ہو ہی جائیں ‪،‬کچھ پرواہ نہیں مگر یہ منظر تو پاس جا کر ض رور ہی دیکھیں‬
‫گے۔ یہ کہہ کررینگتی ہوئی گاڑی سے چھالنگ لگا ہی دی ۔ ہمیں دیکھ کر دالور عباس بھی کود پڑا‪،‬پھر دھڑا دھڑ سب لڑکے بھی اُتر گئے ۔ ہم سب کالنچیں بھرتے‬
‫اور چوکیاں مارتے ہوئے نالے اور سبزے اور پھولوں کے پاس جا پہنچے ‪،‬دیکھا تو وہاں دل دل کی دال (د) بھی نہیں تھی ۔ بس ذرا م ٹی ن رم تھی اور کچھ کچھ گیلی‬
‫تھی جہاں آدمی ذات تو کیا‪ ،‬ہاتھی بھی نہیں دھنس سکتا تھا ‪،‬جو گھاس میں اور پھولوں میں منہ چھپائے لیٹی تھی اور کمال ہیٹی تھی ۔ اوہ‪ ،‬میرے خدایا ! ایس ی زمین‬
‫آج تک نہ دیکھی نہ بھالی ‪،‬اور یہاں آکے پالی ۔ اس جگہ ہم سب نے ہر طرح سے تصویریں بنائی ‪،‬لیٹ کے‪ ،‬بیٹھ کے ‪،‬کھڑے ہو کے اور اسٹائل بن ا بن ا کے‪ ،‬ج و کہ‬
‫اِن جگہوں پر جانے کا مقصد ہوتا ہے ۔ویسے بھی جب سے یہ نامراد سیلفی نکلی ہے ‪،‬سیر سپاٹا دُگنا ہو گیا ہے اور مزا گھٹ کے آدھا رہ گیا ہے‪ ،‬مگ ر ہم بھی ای ک‬
‫ہی کائیاں تھے ‪،‬ایک تصویر بنوا کر اِدھر اُدھر بھاگ لیتے تھے اور لڑکے بالکوں کو سیلفیاں بنانے کے واسطے چھوڑ دیتے تھے ۔ جیسا کہ ہم نے عرض کی ا آخ ِر‬
‫کار پِتًا پانی کر کے بڑے پانی کے پاس پہنچ ہی گئے‪ ،‬جہاں ایک نہردودھ سے ِسوا سفید ‪،‬ہ یرے س ے زی ادہ ش فاف اور ک افور س ے زی ادہ ٹھن ڈی بہ تی ہے۔ اِس کے‬
‫کنارے بھی سبزے سے بھرے ہوئے تھے اور یہاں خیمے بھی بہت لگے ہوئے تھے ۔ دو خیمے ایسے تھے ‪،‬جن میں ہو ٹل تھے ۔ اِس نہر پر دو پُ ل بھی تھے‪ ،‬ای ک‬
‫لوہے اور بجری سیمنٹ وغیرہ کا جو کہ ثابت تھا ‪ ،‬دوسرا لوہے کی تاروں کا ‪،‬جو ٹوٹا ہوا تھا ‪ ،‬ہم تو( یعنی َمیں ) ٹوٹے ہوئے پُل سے گزر کر پ ار گ ئے اور لوگ وں‬
‫کو حیران کر گئے ۔ دالور ہمارے فوٹو بناتا رہا اور ہم گزرتے رہے ۔ اِسی لیے تو گ زرے تھے کہ فوٹ و بن ج ائیں ۔ اِس نہ ر کی خصوص یت یہ ہے کہ اِس میں بن دہ‬
‫ڈوب کر نہیں مرتا ‪،‬ٹھٹھرتا ہےپھر سُکڑتا ہے اور اتنا سُکڑتا ہے کہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ اب عصر کا وقت ہو چکا تھا اور بھ وک ایس ی چم ک ک ر لگی‬
‫کہ حواس مختل ہونے لگے۔ خیمے کے ہوٹل واال(اینٹوں کا اور پتھر کا وہاں کچھ بھی بنانے کی اجازت نہیں ہے ویسے بھی یہ چیزیں وہاں ناممکن ہیں ) ای ک روٹی‬
‫کے تیس روپے مانگ رہا تھا ‪،‬جو ہمیں نا منظور تھی اور اُسے بھی نامنظور تھی کہ وہ اں پچ اس دے ک ر کھ انے والے بھی موج ود تھے ‪ ،‬چن انچہ اپن ا ہی پک ا ک ر‬
‫کھانے کی اُمید تھی ۔ ہم نے فوراً سب خیموں سے دُور اورنہر کے دوسری طرف اپنے بھی دو خیمے نصب کر دیے۔ ہم سے مراد یہاں ہمارے دوست ہیں ورنہ ہمیں‬
‫تو خیمے کی کیل تک ٹھونکنا نہیں آتی‪ ،‬نہ کبھی اِن بکھیڑوں میں اُلجھے ۔ لو جی اب لونڈے تو سب خیمے لگا کر ہنڈیا روٹی ک ا قض یہ ک رنے لگے اور ہم نہ ر کے‬
‫کنارے کنارے سیر کو ہو لیے ۔ خراماں خراماں چلے جاتے تھےاور نہر میں کنکر مارتے جاتے تھے اور دیکھتے جاتے تھے کہ کہیں ٹ راوٹ مچھلی ک ا س اتھ م ل‬
‫جائےتو اُس سے دل کا حال احوال کہہ لیں‪،‬اُسی وقت اچانک ایسی سرد ہ وا چلی ‪،‬کہ کچھ نہ پوچھ یے ‪ ،‬ک انوں کے رس تے ‪،‬ن اک کے رس تے اور پت ا نہیں‪ ،‬کس کس‬
‫رستے سے سینے میں پہنچی اور جگر کاٹنے لگی ۔ ہم بھاگے واپس اور جیسے ہی بھاگے‪،‬ہمارا پاوں رپٹا اور سیدھا نہر میں ‪،‬جس ک ا پ انی ‪،‬پ انی نہیں تھ ا‪ ،‬م ائینس‬
‫‪ -170‬درجے کا تیزاب تھا ‪،‬یوں لگا ‪،‬ٹانگوں کو چھیل رہا ہے ۔ اِس حادثہء جانکاہ میں ہماری پینٹ ‪،‬جرابیں‪ ،‬جوتے اور دیگر اعضائے نازک سمیت س ب کچھ بھی گ‬
‫گیا ۔ بھاگے ہوئے خیمے کی اُور آئے‪ ،‬جہاں ہمارے دوست آگ جالئے بیٹھے تھے ۔ ہم آکر آگ پر بیٹھ ہی تو گئے‪ ،‬جس میں آکسیجن اتنی ہی تھی جتنی ہسپتالوں میں‬
‫مریضوں کے منہ پر چڑھانے والے سلنڈروں میں ہوتی ہے‪ ،‬گویا تھی ہی نہیں ۔ ہم نے اپنے پاوں آگ میں بھی ڈال دیے مگر کچھ نہ ہوااور پاال سر کو چ ڑھ گی ا ۔ ہم‬
‫نمازدوگانہ کے لیے کھڑا ہو گیا ۔ کچھ دیر لی ٹے‬ ‫ِ‬ ‫نے دو تین چادریں اُوپر نیچے اوڑھیں اور آگ کے پاس لیٹ رہے ‪ ،‬علی اور تیمور خیمے میں جا گھسے اور دالور‬
‫ت مسلمہ کے لیے نکل لیے اور جس ط رف ک و دالور گی ا تھ ا اُس کے پیچھے پیچھے گ ئے کہ کہیں ٹ ائلٹ وغ یرہ‬ ‫رہنے سے ہمیں کچھ ڈھارس ہوئی تو ہم بھی حاج ِ‬
‫نظر سے گزرے ۔ ایک بات کہوں‪ ،‬یہ عالقہ اُوپر نیچے کے کھلے میدانوں اور پہاڑی ٹیلوں پر مشتمل ایسا ہے‪ ،‬جہ اں س ال کے ن و مہی نے ب رف میں رہ تے ہیں اور‬
‫سکیٹنگ کرنے والوں کے لیے نہایت موزوں ہے اور سیاحوں کے لیے اِس میں بہت کشش ہے مگر گورنمنٹ کی اِس‬
‫میں کچھ بھی توجہ نہیں ہے ۔‬
‫ٹائلٹ تک اُس نے نہیں بنائے اور نہ آئیندہ بنانے کی طرف دھیان ہے ۔ اگر کچھ پُل ُول اور سڑکیں وڑکیں پکی کچی بنائی ہیں تو وہ بھی یو ایس ایڈ کا کمال ہے ۔ یو‬
‫ایس ایڈ یہاں جگہ جگہ نظر آتا ہے ‪ ،‬میڈیکل ہیلپ کے لیے ‪ ،‬جنگلی حیات کے لیے ‪ ،‬پُل ‪ ،‬چاہ اور تاالب بنانے کے لیے ‪،‬جھیلوں اور میدانوں کی صفائی کے لیے۔‬
‫پاکستانی گورنمنٹ یہاں ہرگز کام کی نہیں ہے بلکہ ہمارے سینگوں کی طرح غائب ہے اور بالکل نہیں ہے۔ خیر ہم جونہی دالور عباس کی تالش کو نکلے ‪،‬ایک‬
‫انکشاف ہم پر اچانک ہوا وہ یہ کہ مچھروں کی ایک فوج ظفر موج نے ہم پر حملہ کر دیا ۔پہلے تو ہم اُسے ٰٹڈی دَل سمجھے ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے پاو پاو بھر کا‬
‫مچھر افغانیوں کی طرح چڑھا آتا تھا اور ساون کی طرح برستا تھا ‪ ،‬ہمارے کانوں ‪،‬سروں ‪،‬ناکوں اور پتا نہیں کن کن جگہوں سے جسم میں گھس رہا تھا ۔ ہم اِدھر‬
‫اُدھر بھاگے اور ہا ہا کار مچائی مگر مچھر نے نہ سُنی ہماری دہائی اور برابر حملہ آور ہوا ۔ اُن کے اِس خروج سے پتا چال کہ اصل میں دیوسائی اِنھی کی اسٹیٹ‬
‫ہے اور نام اِس کا ریاست ہائے متحدہ ء مچھر ہے اور بہت لچر ہے ۔ اب خبر ہوئی کہ کوئی شریف آدمی یہاں دو دن بھی کیوں ڈھنگ سے نہیں رہ سکتا ؟ مچھروں‬
‫کے تیرو تفنگ سے بچاو کا کوئی سامان موجود نہیں یعنی دفاعی قلعے کا وجود نہیں ۔ خیر ڈھونڈتے ڈھانڈتے ہم ایک ٹائلٹ میں گھس ہی گئے ‪،‬جو یو ایس ایڈ کے‬
‫خط شکستہ میں بڑا سا امریکہ مردہ باد‬‫کافروں نے بنوایا تھا اور نہایت صاف ستھرا اور سفید رنگ کا تھا ‪،‬اِس کے ماتھے پر ہمارے مومنین نے کالی سیاہی اور ِ‬
‫نظر بد سے بچا یا تھا ۔ ہم اُسی ٹائلٹ کے احسان مند ہوئے ۔دالور نے نماز پڑھ لی تھی ‪َ ،‬میں اور ذی جاہ کافور کی نہر کا پُل پار کر چکے تھے ۔اب‬‫ِ‬ ‫لکھ کر اُسے‬
‫ُ‬
‫صالح یہ ٹھہری کہ کھانا کھانے کے بعد(جو ہمارے دوست تیار کر چکے تھے ) ہم جو پاس ہی ایک برف سے ڈھکا ہوا ٹیال نظر آتا ہے‪،‬اس تک ہو آئیں اور‬
‫تصویریں بنا کر دیوسائی سے دورجوالئی کی بھٹی میں بُھننے والوں کا جی جالئیں ۔کھانا کھایا ‪،‬جو اِس غریب الوطنی میں مزا دے گیا حاالنکہ آگ میں آکسیجن کم‬
‫ہونے کی وجہ سے آدھا کچا ہی تھا ۔‬
‫لو جی جب َرج پُج گئے تو ہم چاروں یعنی َمین دالور عباس ‪ ،‬ذی جاہ اور تیمور چوری چوری نکلے نیلے پربت کی طرف ‪،‬یہ سوچ کر کہ بس دس منٹ میں وہیں‬
‫ہوں گے اور برف میں لوٹنیاں لیں گےاور تصویریں بنائیں گے اور پھر ساتھیوں کو دکھا کر اِن کا جی جالئیں گے ‪ ،‬اور جب یہ کہیں گے ‪،‬ہمیں کیوں نہ لے گے‬
‫وہاں تو یہ سُن سُن کے خوش ہوں گے اور بولیں گے ہمیں کیا پتا تھا ‪ ،‬آپ نے بھی جانا ہے ۔ ہم گھاس کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت ندی کے کنارے کنارے‬
‫چلنے لگے ‪،‬مچھروں نے ہماری بہت راہ روکی مگر ہم نہیں رُکے اور بڑھتے گئے اُس نیلے پربت کی اُور ۔ اب جُوں جُوں آگے جاتے تھے‪ ،‬برف کا ٹیال اور آگے‬
‫آغاز قدم کے برابر ہی موجود تھا ‪ ،‬ضدی تھا ‪ ،‬مقابلہ باندھ کے بیٹھ گیا ۔ رات ہو گئی ‪ ،‬اور ہمارے‬
‫ِ‬ ‫حتی کہ دو گھنٹے متواتر چل لیے مگر فاصلہ‬ ‫ہوا جاتا تھا ٰ‬
‫حوصلے جو کہ پہاڑوں کا جگر چیرنے کے لیے نکلے تھے ‪ ،‬اور ہم سمجھتے تھے کہ اسالم آباد کے ٹریل ‪ 5‬پر ٹریکنگ کرتے کرتے ہماری سانس پختہ ہوچکی‬
‫ہے ‪،‬ہم اُس نیلے پر بت کی برف کے آگے دم توڑ گئے‪ ،‬جو شاید ایک دن اور چلتے رہتے تو بھی فاصلہ وہیں کا وہیں رہتا ۔ لہذا اے ٹریل ‪ 5‬پر ٹریکنگ کر کے‬
‫توندیں کم کرنے والو! عبرت ہے تمھارے لیے کہ جب اصل پربت کا سامنا ہو گا تو تمھاری سانس دم میں پھول جائے گی اورایک ایک قدم بوجھل ہو جائے گا‬
‫‪،‬چنانچہ نیلے پربت پر چڑھنے کی تیاری کرو ‪ ،‬جس پر آج نہیں تو کل ضرور تمھیں چڑھنا پڑے گا اور یہ تیاری بید کی چھڑی پکڑے مارگلہ پر ٹریکنگ کرنے‬
‫سر مطلب ‪ ،‬مچھروں کے طوفانی حملے اِس پر مستزاد تھے ‪،‬دو گھنٹے ہم نے ہاتھ پاوں برابر چالئے ‪،‬‬ ‫سے نہیں ‪،‬حالل کھانے کی پریکٹس سے ہو گی ۔ خیر بر ِ‬
‫پاوں فاصلہ نمٹانے کے لیے اور ہاتھ منہ سر مچھروں سے بچانے کے لیے ۔ لیکن آخر ہار گئے ۔ اب ہم واپس ہو لیے یہ کہہ کر‪ ،‬کہ کل پھر آئیں گے اور تیری‬
‫چوٹی کو چت کریں گے اور فاصلے سے نہیں ڈریں گے ۔ واپس آئے اور بہت دیر کے بعد آئے اور جب آئے تو ہمارا خیمہ اُس جگہ نہیں تھا‪ ،‬جہاں چھوڑ گئے تھے‬
‫۔ اُسے ایک طرف سے اُٹھا کر دوسری کسی جگہ‪ ،‬مگر نہر کے کنارے نصب کیا جا چکا تھا اور ہر دو جگہ کا فاصلہ آپس میں ایک میل کا تھا۔ لہذا ہم ایک میل اور‬
‫چلے ۔ لیکن اُس سے پہلے بڑا پانی کے نہری پُل پر موجود خیمہ زدہ ہوٹل سے ‪ 60‬روپے واال آدھا کپ چائے پیا ۔ آدھا اس لیے کہ باقی آدھے کپ میں دس بارہ‬
‫مچھر گر گئے تھے ۔ خیمے میں واپس آ کر سر سے مچھر نکالنے کی طرف متوجہ ہوئے اور صرف آدھے مچھر ہی نکال سکے یعنی ایک کلو کے قریب باقی‬
‫آدھے دوسرے دن گھر آ کر نکالے ۔ ایک بات اِن مچھروں میں البتہ وضع داری کی ضرور ہے کہ یہ کاٹتے تو ضرور ہیں مگر بیمار نہیں کرتے ۔یہی سوچ کر ہم‬
‫نے اِنھیں دعا دی کہ سدا بڑھو ‪،‬پھلو اور پھولو اور دیو سائی کو آباد رکھو کہ تھمارے سوا یہاں کسی کو نمو نہیں ۔ رات کافی ہو گئی تھی ‪ ،‬کھانا مکررپک چکا تھا ۔‬
‫غالبا ً بریانی تھی جوپھر کچی رہ گئی تھی۔ ہم نے نہیں کھائی باقی دوستوں نے خوب اُڑائی۔ شاید ہماری بھوک کہیں بھاگ چکی تھی ۔ نہر کنارے بیٹھے بہت دیر آگ‬
‫تاپتے رہے ۔ ٹھنڈ بہت بڑھ گئی تھی ‪ ،‬آسمان اِتنا ٹھنڈا ‪ ،‬صاف اور تاروں بھرا تھا کہ َمیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ‪ ،‬اپنے اندر جذب کیے د ے رہا تھا ۔‬
‫ساتھ ہی نہر کے شفاف پانی کا شور تھا جس میں علی ایک گھنٹا مچھلی پکڑنے کا کانٹا ڈالے بیٹھا رہا اور ٹراوٹ ٹراوٹ کا ورد کرتا رہا ۔ مچھلی تو نہ آئی مگر‬
‫علی کا بھرم رکھنے کے لیے خالی کانٹا وآپس کرنے کی بجائے اُسے نہر کے پتھر اپنے ساتھ بہا کر لے گئے ۔ اِس کے بعد پُر سکونی کا زور تھا ۔ یہ رات ایک‬
‫خواب کا عالم تھی‪ ،‬جو ہم نے گزاری ۔ آدھی رات کے وقت جب دیوسائی میں سردی ‪ ،‬سردی میں شبنم‪ ،‬شبنم میں تارے ‪ ،‬تاروں میں آسمان ‪،‬آسمان میں چاند ‪ ،‬چاند‬
‫میں روشنی اور روشنی میں زمین نہا گئی تو ہم خیموں میں گھس گئے ۔ َمیں ‪،‬دالور عباس اور ذی جاہ ایک خیمے میں تھے ‪ ،‬دوسرے میں علی ‪ ،‬تیمور ‪ ،‬اور وزیر‬
‫علی تھے ‪ ،‬ڈرائیور گاڑی میں تھا ۔ہم نے اپنے اپنے سلیپنگ بیگ اوڑھے ‪ ،‬اُوپر نیچے رضائیاں لیں اور سو گئے مگر ساری رات ٹھنڈ ہماری ٹانگوں کو سردماتی‬
‫آذان سحر کے وقت ( جو وہاں کسی نے نہیں دی ‪،‬بھالو سے اُمید تھی کہ دے گا مگر وہ تو ابھی تک‬ ‫رہی ۔ جیسے جیسے سردی بڑھتی گئی ‪ ،‬ہم سُکڑتے گئے اور ِ‬
‫غائب تھا ) ہم ایک خرگوش کے برابر رہ گئے یعنی ٹانگیں اکٹھی ہوتے ہوتے گردن میں پیوست ہو گئیں ۔ ہللا ہللا کر کے صبح ہوئی ‪ ،‬خیمہ شبنم سے ایسے بھیگ‬
‫چکا تھا جیسے نہر سے غوطہ دے کر نکاال ہو ۔ اب ارادہ یہ تھا کہ اگال پڑاو سوسر جھیل پر ہو گا جہاں ٹراوٹ مچھلیاں اتنی ہیں جتنے یہاں مچھر ہیں ۔ خیمے‬
‫وغیرہ اُکھاڑ لیے اور گاڑی پر الد لیے کہ آگے جا کر ناشتہ ٹراوٹ کے تِکوں سے ہی کریں گے‪ ،‬مگر گاڑی تھی کہ سٹارٹ ہونے کا نام نہ لے رہی تھی ‪ ،‬دھکا لگا‬
‫لگا کر ہم خود گرم ہو گئے لیکن وہ رات کی سردی میں ایسی ٹھنڈی ہوئی گویا فوت ہی ہو چکی ہو۔ آخر ڈرائیور نے اُس کے نیچے گیس کا چولہا جال دیا ۔ کوئی پاو‬
‫گھنٹا چولہا جلنے کے بعد وہ سٹارٹ ہوئی اور پھر بند نہ ہوئی ۔ ایک گھنٹا چلنے کے بعد (جس میں ہمارا شام واال برف کا ٹیال ہمارے ساتھ ساتھ چال تھااور ابھی‬
‫بھی دس منٹ پیدل مسافت پر ہمارے سامنے تھا ) ایک اور نہر کنارے جا رُکے۔ یہاں ایک اور خیمہ ہوٹل تھا مگر ہم نے اُس نیسلے ملک پیک سے چائے بنائی‪،‬‬
‫جس کے پیکٹ جاتے ہوئے ساتھ لے گئے تھے ۔ ہم نے تو صرف چائے ہی پی لیکن ہمارئے ساتھیوں نے وہاں سے پراٹھے پکوا کر چائے کے ساتھ کھائے اور‬
‫چلے جھیل کی طرف دوبارہ ۔ اب چلتے جاتے تھے اور دیکھتے جاتے تھے رستے میں جگہ جگہ ایک ایسا جانور جو قامت میں خرگوش کے برابر تھا مگر‬
‫خرگوش نہیں تھا ‪ ،‬گردن چوہے جیسی تھی مگر چوہا نہیں تھا ‪ ،‬منہ اُس کا ریچھ جیسا تھا مگر ریچھ کی دُم بھی نہیں تھا ‪،‬رنگ اُس کا زردی مائل سُرخ تھا مگر‬
‫سُرخاب ہرگز نہیں تھا ۔اب آپ ہی اندازہ کیجیے‪ ،‬وہ کیا تھا ‪،‬ہماری تو سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ مچھروں کےعالوہ دیوسائی میں ہم نے ایک یہی جانور دیکھا ۔ اِس کے‬
‫عالوہ وہاں ‪ ،‬نہ کوئی پرندہ تھا ‪ ،‬نہ کیڑا مکوڑا تھااور نہ دیگر حشرات االرض تھے ‪ ،‬ہللا جانے یہ کیا جادو تھا ۔‬
‫آخر ہم جھیل پر پہنچ ہی گئے اور اُس کی خوبصورتی دیکھ کر جی ہی جی میں دیوسائی کو داد دینے لگے‪ ،‬جھیل کے ارد گرد برف سے ڈھکے ہوئے چھوٹے‬
‫چھوٹے سینکڑوں ٹیلے تھے اور درمیان میں صبوحی کی مانند یہ نیلے اور ہرے پانیوں کی ٹھنڈی جھیل تھی۔ دو مربع کلومیٹرمیں ہو گی۔ جھیل کے کناروں کے‬
‫ساتھ ساتھ ہری ہری اور پھولوں والی چمکتی ہوئی گھاس کے قطعے زمردی قالینوں کی طرح بچھے تھے‪ ،‬جن کے بے داغ سینے پر ہم نے اپنا بار اُتارا اور پہلو‬
‫کے پربت پر بیٹھ کر برف کھانا شروع کر دی اور اُس پر ناچنا کودنا بھی ۔ البتہ جھیل میں یہاں بھی مچھلی کا نام نشان نہیں دیکھا ۔ کہیں پانی کی تہہ میں چھپی ہو‬
‫تو خبر نہیں اور تہہ کا ہللا کو معلوم تھا ۔ سو ہم اُن مچھلیوں سے در گزرے اور اپنا ہی جو دال ساگ پانی لے گئے تھے ‪،‬وہی کچا پکا کھایا اور شکر صبر کر کے‬
‫سیر کو نکلے ۔ کچا پکا اِس لیے کہ یہاں آکسیجن اُدھار مانگنے پر ذری ذری ملتی ہے اور کوئی شے چج سے نہیں پکتی اور آدھی کچی ہی رہتی ہے ۔ چاول ‪،‬جو‬
‫حبس سے بھی پک جاتے ہیں‪ ،‬وہ بھی آدھے کچے رہ گئے ‪ ،‬ہم نے بعد میں بھی بہت پانی ڈال ڈال کے پکانے کی کوشش کی مگر کچھ زیاں سود نہ ہوا ۔ پانی بھی‬
‫آکسیجن کے بغیر تھا ۔ منہ دھوتے تھے مگر میل کو اپنے سے دُور نہ پاتے تھے ۔ پانی ہاتھوں سے یوں پھسلتا تھا جیسے مچھلی پھسلتی ہے ۔ ہم ایک پربت سے‬
‫دوسرے پربت پر جا رہے تھے اور ہللا کے جلوے دیکھتے جاتے تھے اور سوچتے جاتے تھے‪ ،‬اتنا بلندی پر تو چڑھ آئے ہیں ۔ہللا میاں یہیں کہیں کسی ٹیلے پر بیٹھا‬
‫ہو گا مگر مالقات کی ہمیں خواہسش نہ تھی ‪ ،‬دُور سے ہی صاحب سالمت اچھی رہتی ہے ۔ سانس ہر قدم پر دُگنی چڑھ رہی تھی ۔ آخر ایک جگہ بلند ٹیلے پر چڑھ‬
‫کر َمیں ‪ ،‬دالور عباس اور وزیر علی ُرک گئے اور بیٹھ کر قدرت کے حسیں نظاروں کو داد دینے لگے ۔ یعنی ہم دنیا سے بہت اونچے بیٹھے تھے ۔ ہللا میاں کے‬
‫قریب قریب ‪،‬باقی بڑۓ بڑے پھنے خاں ہمارے نیچے تھے ۔ تیمور ‪ ،‬علی اور ذی جاہ بھالو دیکھنے کے لیے آگے نکل گئے اور کچھ دیر بعد نظروں سے اوجھل ہو‬
‫گئے ۔ کافی دیر کے بعد ‪ ،‬جہاں ہم بیٹھے تھے ‪،‬وہاں سے َمیں نے لُڑکھانے کو ایک پتھر اُٹھایا تو نیچے سے چار پانچ بڑے بڑے بچھو ُمردہ پڑے تھے ۔ َمیں ڈر‬
‫کے مارے وہاں سے اُٹھا اور دالور عباس کے پاس آ بیٹھا ‪ ،‬اُسی لمحے وزیر علی نے ایک بڑا سا سانپ وہاں دیکھ لیا ۔ اُس کے بعد ہم وہاں نہیں بیٹھے اور واپس‬
‫جھیل پر آگئے اور کھانا پکانے اور کیمپ لگانے کی جگہ ڈھونڈنے لگے ۔ جو جگہ پسند آتی تھی وہاں پانی کی بہتی ہوئی نالی نہ ہوتی تھی اور جس جگہ پانی ہوتا‬
‫تھا وہاں مچھر کا بول باال ہوتا ۔ آخر ہم جھیل کے کنارے ایک جگہ خم ٹھونک کر بیٹھ ہی گئے ۔ اِتنے میں ہمارے دوست ‪،‬جو تین گھنٹے پہلے ہم سے جدا ہوئے‬
‫تھے یعنی ذی جاہ ‪ ،‬علی اور تیمور دُور سے آتے دکھائی دیے ۔ جھیل کے کنارے کنارے چلے آتے تھے ۔پاس آئے تو سب بھیگے ہوئے تھے ۔ پاس آئے تو سردی‬
‫سے ثٹھٹھرے ایسے تھے کہ دانت بج رہے تھے ۔ ہم سمجھے ‪ ،‬جھیل کے دوسرے کنارے ٹراوٹ سے ُچہلیں کرتے رہے ہیں‪،‬اور ٹراوٹ بازیاب کرنے کے لیے اُن‬
‫کی شرٹیں پینٹیں ٹٹولنے لگے ‪،‬جو اُنھوں نے اُتار کر ہاتھوں میں تھام رکھی تھیں اور محض نیکروں سے گزارا کیا تھا ۔ ہماری تالشی پر کچھ نہ نکال ‪ ،‬سب‬
‫پتلےاور خالی پانی سے نُچڑ رہی تھیں ۔ پتا چال تینوں کے پاوں رپٹے ہیں اور جھیل میں پھسلے ہیں اور پانی میں جا نکلے ہیں ۔‬
‫خیر ہم نے اُن سب کو آگ تپائی ‪ ،‬نئے کپڑے دیے اور گاڑی میں بٹھایا ۔ دالور عباس کا ارادہ تو آج رات بھی یہاں پڑاو رکھنے کا تھا مگر ہمارا حوصلہ جواب دے‬
‫چکا تھا ۔ ہم نے کہا‪ ،‬میاں سیر ہو چکی ‪ ،‬دیوسائی دیکھ چکے‪ ،‬مچھروں سے مزاکرات کر لیے گئے ‪ ،‬ایک بھالو دیکھنا باقی تھا ‪،‬وہ ہمارے دوست دل کی آنکھوں‬
‫سے دیکھ آئے اور ہم خود قریب قریب بن چکے ہیں ‪،‬پھر کس چیز کی کمی رہ گئی ۔ چلو بوریا باندھو اور ہولے ہولے شہر سدھارو ۔ ہمارے ِاس مشورے پر پانی‬
‫میں گرے ہوئے دوستوں نے سب سے پہلے صاد کیا ۔ دالور اپنی جگہ اَڑا رہا اگرچہ مچھروں نے اُس کے ساتھ بھی کوئی مروتانہ برتاو نہ کیا تھا ۔ آخر ریزولیشن‬
‫پاس ہوئی‪،‬جس کے نتیجے میں الیکشن ہوا ‪ ،‬دالور کے دو ووٹ اور ہماے پانچ نکلے ‪ ،‬یوں ہم اُسی وقت دیوسائی سے نکلے ۔ نکلے کہاں‪ ،‬نکلنا شروع کیا اور‬
‫فیصلہ یہ ٹھہرا کہ جھیل وھیل یہیں چھوڑو ‪،‬کہیں دالور مکرر نہ پِسر جائے اور دوبارہ ریزو لیشنوں اور الیکشنوں میں وقت برباد ہوتے ہوتے رات گزارنا پڑے ۔‬
‫لہذا اِس جگہ کو ابھی چھوڑو اور کھانا وانا دیوسائی ٹاپ پر جا کر پکائیں کھائیں گے ۔ کھانا کھا کر وہیں سے سکردو سدھاریں ۔ لیجیے جناب ہم سب لینڈ کروزر پر‬
‫بیٹھے جو کچے اور کیچڑ بھرے راستوں پ ر واپس لُڑھکتی بَل کھاتی چلی جاتی تھی اور ہمیں دھوکا نہ دیتی تھی ۔ لوگ باگ موٹرسائکلوں پر گاڑیوں پر کچھ آ‬
‫رہے تھے ‪،‬کچھ جا رہے تھے ۔ ہمیں ایک ٹولی دس پندرہ لونڈوں کی ایسی ملی جو اپنی اپنی ‪ 125‬ہنڈا موٹر سائکلوں پرچڑھے اور بسترے باندھے سیر واسطے پھر‬
‫رہے تھے ‪ ،‬ہمیں اپنے اپنے لگے ‪،‬پوچھا کہاں سے ہو اور یہ پربت پربت نگری نگری کیوں پھرتے ہو ؟ بولے‪ ،‬ہم فیصل آباد سے آئے ہیں اور یہاں تک پہنچنے‬
‫میں ہمیں پندرہ دن لگے ہیں ۔اِسی طرح سیر بھرتے واپس جائیں گے اور اگلے برس پھر آئیں گے ‪،‬ہمارا ہر سال کا یہ معمول ہے اور بہت ہی باقاعدہ ہے ۔ ایک جگہ‬
‫ہم رُکے جہاں رنگ رنگ کے پھول کانٹے بہت تھے ‪،‬سب نے اُن پھولوں والی جڑی بُوٹیوں کو جڑوں سے اُکھاڑا کہ گھر جا کر لگائیں گے اور دیوسائی کا لطف‬
‫وہیں سے اُٹھائیں گے ۔ آخر ہم اُس جگہ پہنچ ہی گئے‪ ،‬جہاں سے ہم دیوسائی میں داخل ہوئے تھے۔اِسے ٹاپ کہتے ہیں ۔ اِس سے نیچے بس اُترائی ہے اور بہت‬
‫گہرائی ہے ۔ یہاں پتھروں اور لکڑی گارے سے بنا ہوا ایک ہوٹل بھی ہے ‪ ،‬وہاں سے میں نے چائے پی ‪ ،‬باقیوں نے نہیں پی کہ کھانا کھائیں گے اور بعد میں چائے‬
‫اُڑائیں گے ۔ اِس جگہ کا منظر بھی بہت دل کو لبھانے واال ہے ۔اتنی گائے‪ ،‬یاک اور بکریاں تھیں کہ گنتا جاتا تھامگر وہ ختم نہیں ہوتی تھیں ۔میں ایک ہزار پندہ تک‬
‫گن گیا پھر یہ سوچ کر ُر ک گیا کہ کس کام لگ گیا ہوں اور بیٹھ کرآگ تاپنے لگا‪ ،‬آگ یہاں بھی کافی ٹھنڈی تھی مگر وہ سوسر جھیل والی بات نہ تھی ۔ اس جگہ‬
‫یہیں سے ایک ٹھنڈے اور صاف پانی کا ناال نکلتا ہے‪،‬جو ہوتے ہوتے پہلے صدپارا جھیل میں جاتا ہے پھر ہرگسا نہر میں بدل کر سکردو کے بیچوں بیچ سے جا کر‬
‫دریائے سندھ میں پڑتا ہے ۔ شام چھ بجے سب نے یہاں کی ایک چھوٹی سی مسجد میں بیٹھ کے کھانا کھایا ‪ ،‬چائے پی ‪ ،‬کچھ دیر منہ سکھایا ‪ ،‬برتن دھوئے ‪،‬اُن کو‬
‫الدا‪ ،‬خود لدے اور چل سو چل نیچے ۔رات آٹھ بجے سکردو واپس ُمڑے ‪،‬کمرے میں آ کر غسل خانے میں گیا اور اب جو نہانے کے لیے سر پر پانی ڈاال تو‬
‫مچھروں کا پورا جہان سر سے نکال ‪ ،‬ہللا قسم اُن سے چار پیالے سوپ نکل سکتا تھا۔ہائے ضائع گئے‬
‫علی اکبر ناطق‬

You might also like