You are on page 1of 209

‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫‪1‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫شاہی پوشاک‬
‫از طیبہ چوہدری‬

‫‪2‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫میرے مرض کی دعا بتائی ہے ڈاکٹر نے یہ‬


‫چھوڑ دو سوچنا وگرنہ دنیا چھوڑ جاؤ گی‬

‫ساحل سمندر پہ ننگے پاؤں چلتے ہوئے وہ‬


‫مسلسل خاموش تھی۔‬
‫آج سے پہلے اسے یہ سمندر بھی اتنا خاموش‬
‫نہیں لگا تھا جتنا آج‬
‫کیوں کہ وہ خود خوش نہ تھی' دل آج پھر سے‬
‫بےسکون ہوا تھا۔‬
‫ریشمی بال اونچی ٹیل پونی میں قید جن میں سے‬
‫کچھ شانوں پہ بکھر رہے تھے۔‬
‫موٹی آنکھیں کاجل سے بھری ہوئی تھیں پھر بھی‬
‫ان میں چھائی تکلیف جھلک رہی تھی۔‬

‫‪3‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫لب آپس میں بھینچے ہوئے کچھ بھی نہ بولنے کی‬


‫قسم کھا چکے تھے۔‬
‫وہ نظروں کو صرف پانی پہ جمائے ہوئے مسلسل‬
‫چل رہی تھی۔‬
‫کوئی سوچ دماغ میں نہیں تھی بس ایک‬
‫طوفانی خاموش ہی تھی۔‬
‫جو اس کے وجود میں دم توڑ رہی تھی۔‬
‫پتہ نہیں کہاں تک جانے کا ارادہ تھا اس کا؟ جو‬
‫وہ تھک نہیں رہی تھی۔‬
‫آج بھی وہ تنہا ہی تھی جیسے کل تھی جیسے‬
‫پہلے تھی۔‬
‫دل میں آج بھی وہ ہی درد اٹھا تھا جو کبھی پہلے‬
‫ہوتا تھا۔‬
‫وہ بھول چکی تھی یہ درد مگر وہ گزرا کل پھر‬
‫سے سامنے آ رکا تھا‬
‫کھو چکی تھی وہ اپنا سب کچھ‬

‫‪4‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫قدم چل رہے تھے اس کے مگر پھر بھی دل کی‬


‫دھڑکنیں بند تھیں۔‬
‫چلو چلتے ہیں خوابوں کے جہاں میں‬
‫”میں“ اور ”تم“ ہم ہیں‬ ‫جہاں‬

‫اس نے آنکھیں موند کر خود پہ پھونک ماری تھی‬


‫وہ ہوا میں خود کو محسوس کرتے ہوئے باہیں‬
‫پھیال چکی تھی۔‬
‫آنکھیں کھولیں تو اپنی سلطنت سے ہزاروں میل‬
‫دور آ چکی تھی۔‬
‫ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔‬
‫جس راہداری پہ وہ کھڑی تھی' وہ کانچ کی بنی‬
‫تھی جس کے چاروں اطراف سرخ گالب کے پھول‬
‫کھڑے مسکرا رہے تھے تو کہیں گالبی۔‬
‫وہاں درخت بھی بہت رنگ برنگے تھے۔‬
‫اس نے احتیاط سے قدم آگے بڑھایا تھا۔‬
‫‪5‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫جب نظر پیروں پہ پڑی تو وہ حیران رہ گئی۔‬


‫"یہ میں نے کیا زیب تن کر رکھا ہے اور یہ بالوں‬
‫کا سٹائل کیسے تبدیل ہو گیا۔‬
‫میں نے تو یہ نہیں کیا۔‬
‫میں یہاں تو نہیں آنا چاہتی تھی۔"‬
‫اس نے ہاتھ لگا کر اپنے بالوں کو محسوس کیا۔‬
‫وہ ایک سفید لمبے لباس میں ملبوس تھی پیروں‬
‫میں خوبصورت نفیس ڈیزائن والی پینسل ہیل‬
‫پہنے۔‬
‫بالوں کو سٹابری ُجوڑا سٹائل بنایا گیا تھا اور‬
‫سفید نیٹ کا دوپٹہ سر پہ ُجوڑے پر سیٹ کر رکھا‬
‫تھا پیشانی پہ ایک ہیرے جڑا تاج بھی آپ چکا تھا‬
‫جبکہ اس کا تاج ہمیشہ سر پہ ہوتا تھا۔‬
‫اس نے پلٹ کر نیچے دیکھا تو دوپٹہ پیچھے‬
‫پیروں کو چھو رہا تھا۔‬

‫‪6‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے محسوس کیا اس کا تاج بھی رنگ بدل‬


‫چکا ہے اور جہاں سرخ تھا اب سفید یے۔‬
‫"میں کہاں ہوں؟"‬
‫اس نے پھر سے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔‬
‫چٹکی بجائی تو فضا میں ایک نقشہ آیا۔‬
‫اس نے نقشہ پکڑا‬
‫اور پھر کچھ دیر ہی لگی تھی اسے سمجھنے‬
‫میں۔‬
‫"اگر میں غلط نہیں تو‪.....‬تو یہ کیقاد کی طلسمی‬
‫وادی ہے۔"‬
‫وہ سمجھتے ہوئے منہ پہ ہاتھ رکھ گئی۔‬
‫آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔‬
‫شیشے کی راہداری پہ ٹک ٹک کی آواز ابھر رہی‬
‫تھی۔‬
‫وہ دائیں جانب پلٹی۔‬

‫‪7‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی پاورز پہ‬


‫ایک اور پاور کیسے چل گئی۔‬
‫اور پرنس کیقاد جس سے آج تک اس کی کبھی‬
‫بنی نہ تھی وہ اس کو پاورز کے زرائع سے کہاں‬
‫لے آیا تھا۔‬
‫"پرنس کیقاد! ہمیں یہاں سے نکالیں۔"‬
‫وہ بار بار کچھ پڑھ کر خود پہ پھونک ماری رہی‬
‫تھی مگر مسلسل ناکامی حاصل ہوئی۔‬
‫"ملکہ ہیرل! "‬
‫اس نے اپنے نزدیک آواز سنی۔‬
‫چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔‬
‫"یہاں نیچے۔"‬
‫اس آواز پر اس نے چونک کر نیچے دیکھا تو پھر‬
‫حیرت سے بیٹھتی چلی گئی۔‬
‫خرگوش دو پیروں میں فروٹ کا تھال تھامے اور‬
‫دو پیروں پر کھڑا تھا۔‬

‫‪8‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"یہ تم ہو۔ مطلب یہ تمہارے ساتھ کیقاد نے کیا؟"‬


‫"نہیں نہیں یہاں ہم سب ہی ایسے ہیں۔ چلیں آپ کو‬
‫وادی کیقاد کی سیر کرواؤں۔"‬
‫وہ سر ہال کر اس کے ساتھ چل دی۔‬
‫شیشے کی راہداری ختم ہوئی تو پھولوں کی‬
‫راہداری سامنے موجود تھی۔‬
‫اس کی نیلی آنکھیں پھیل گئیں۔‬
‫پھول کھل کر راہداری بنا چکے تھے۔‬
‫وہ ان پہ قدم رکھتی آگے بڑھ گئی۔‬
‫ایک جانب چشمہ بہہ رہا تھا اور ایک جانب بہت‬
‫خوبصورت جھوال تھا جس کا سائز بڑا اور بہت ہی‬
‫نفیس ڈیزائن کا بنایا گیا تھا۔‬
‫وہ جھولے پہ بیٹھی تو چاروں اطراف سے پرندے‬
‫اڑتے ہوئے آئے اور پھر وہ اس کے لیے دھن‬
‫بجانے لگے کوئل نے گانا گیا۔‬

‫‪9‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کافی وقت لگا کر وہ وہاں سے اسی جگہ جا پہنچی‬


‫جہاں وہ جانا چاہتی تھی۔‬
‫محل میں صرف ایک کنیز جو اس کی خاص تھی‬
‫اسے علم تھا اور کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ‬
‫ملکہ ہیرل اس وقت کہاں ہے۔‬
‫"بیٹی سامنے چلتی آؤ۔"‬
‫وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب اسے آواز سنائی‬
‫دی۔‬
‫وہ چلتی ہوئی غار میں داخل ہوئی۔‬
‫"ولی بابا! "‬
‫وہاں ایک بزرگ بیٹھا تھا وہ اسے شہزادیوں کی‬
‫طرح جھک کر اسے سالم کرتی ایک جانب نیچے‬
‫بیٹھ گئی۔‬
‫"ولی بابا! مجھے آپ نے یاد فرمایا۔‬
‫خیریت تھی؟"‬

‫‪10‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ہوں۔ بس مجھے یہ پوچھنا تھا یہ کیقاد پرنس کیا‬


‫کر رہے ہیں؟‬
‫جشن کس خوشی میں رکھ رہے ہیں؟"‬
‫بابا کی بات پہ اس نے گہری سانس بھری۔‬
‫صبح ہی تو اسے خبر ملی تھی کہ پوری سلطنت‬
‫کی دعوت پرنس کیقاد کے ہاں ہے۔‬
‫"ولی بابا! یہ تو وہ ہی بہتر جانتے ہیں۔‬
‫آپ کے کہنے پہ ہی تو میں نے اس کو اپنی‬
‫سلطنت میں پناہ دے رکھی وگرنہ۔"‬
‫"ایسی غلطی کبھی مت کرنا پرنس کیقاد ہے تو وہ‬
‫سلطنت ہے وگرنہ کچھ نہیں بچے گا۔‬
‫خیر خاتمے کی رات جشن نہیں ہونا چاہیے۔‬
‫تم پرنس کیقاد سے بات کرو اور وجہ جانو۔"‬
‫بابا نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔‬
‫وہ سر ہال کر رہ گئی۔‬

‫‪11‬‬
‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"تمہاری پاورز خطرے میں ہیں۔تمہیں اپنے بچاؤ‬


‫کے لیے ایک پروٹیکٹ لباس کی ضرورت‬
‫ہے۔ایسا لباس جو آج تک کسی شہزادی نے نہیں‬
‫پہنا ہو گا۔"‬
‫بابا نے بتایا اور وہ حیران رہ گئی۔‬
‫پھر اٹھ کر باہر نکلی اور سبزے پہ چلتی گئی۔‬
‫اس کے دماغ میں بابا ولی کی باتیں گونج رہی‬
‫تھیں۔‬
‫"پرنس کیقاد! اس گستاخی کی کیا سزا دوں‬
‫تمہیں۔"‬
‫کچھ پڑھ کر اس نے اپنے ہاتھ پر پھونک ماری'‬
‫وہ کیقاد سے گفتگو کرنا چاہتی تھی۔‬
‫"ملکہ ہیرال‪!.....‬‬
‫ملکہ ہیرال!"‬
‫اسے دائیں جانب سے آواز سنائی دی۔‬
‫"کیا بات ہے کنیز‪".....‬‬

‫‪12‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے اپنے رتبے کے مطابق گردن اکڑائی تھی۔‬


‫"وہ وہ پرنس کیف‪ .....‬آپ کو یاد فرما رہے ہیں۔"‬
‫اس نے گھنٹوں پر جھک کر پیغام دیا۔‬
‫"ٹھیک ہے تم جاؤ' ان کو شاہی مہمان خانے میں‬
‫لے جاؤ۔"‬
‫اس نے کہہ کر رخ پلٹا اور پھر آہستہ آہستہ چلتی‬
‫گئی۔‬
‫ایک بڑے سے درخت کے پاس جا رکی۔‬
‫اس پہ لگے سرخ ڈائمنڈ پہ شہادت کی انگلی‬
‫رکھی تو وہ پیچھے کو کُھلتا گیا۔‬
‫اس نے قدم اندر رکھا مصنوعی لفٹ وہاں سے پَر‬
‫لگا کر اڑی۔‬
‫اب وہ ایک شیشے کے کمرے میں تھی اور وہ‬
‫لفٹ نما کمرہ فضا میں اڑ رہا تھا۔‬
‫اس نے ہاتھ بڑھا کر میز پہ پڑا طلسمی شیشہ‬
‫اٹھایا۔‬

‫‪13‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫پھر دائیں ہاتھ سے چٹکی بجائی۔‬


‫"میری ملکہ!‬
‫دنیا کی حسین ترین شہزادی طاقت کی دنیا پہ راج‬
‫کرنے والی ملکہ ہیرال! حکم کریں کیا دیکھنا‬
‫چاہتی ہیں آپ۔"‬
‫طلسمی شیشے میں ہونٹ اور دو آنکھیں نمایاں‬
‫ہوئیں۔‬
‫اور بےبی بوائے کی آواز میں بوال۔‬
‫"مجھے پرنس کیقاد کے کارنامے دکھاؤ۔"‬
‫اس کے ہونٹ ہِلے تھے۔‬
‫"جو حکم میری ملکہ!"‬
‫وہاں سفید روشنی نمودار ہوئی تھی اور پھر‬
‫سامنے ایک لمبا چوڑا نوجوان نظر آیا۔‬
‫جس نے شاہی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔‬
‫اور اس کے گہرے سنہری بال فلو سٹائل میں‬
‫نہایت بہترین طریقے میں سیٹ تھے۔‬
‫‪14‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫درخت کے تنے پر سر رکھے ہونٹوں میں بانسری‬


‫دبائے ایک ٹانگ لمبی اور دوسرا پاؤں زمین پہ‬
‫رکھے ہاتھ گھٹنے پہ ٹکائے وہ اپنے سامنے‬
‫ہونے والی سرگرمیوں پہ نظر رکھے ہوئے‬
‫بانسری بجا رہا تھا۔‬
‫بہت ساری چھوٹی چھوٹی پریاں درختوں پہ طرح‬
‫طرح کے بڑے بڑے ڈائمنڈ ' الئٹوں وغیرہ کی‬
‫ڈیکوریشن کر رہی تھیں۔‬
‫کچھ راہداریوں کے چاروں اطراف موم بتیاں اور‬
‫پھول سجا رہی تھیں۔‬
‫ساتھ ساتھ سب کیقاد کی بجائی جانے والی دھن پہ‬
‫جھوم بھی رہے تھے۔‬
‫"نجانے کیا جادو ہے کیقاد کی بجائی جانے والی‬
‫دھن میں کہ وہ سب کی ناک میں دم کرتا ہے پھر‬
‫بھی سب اس کا کام کر دیتے ہیں۔"‬
‫اس نے ابھی پرنس کیقاد کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔‬

‫‪15‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫شیشہ میز پہ رکھ کر وہ دائیں جانب پڑے شاہی‬


‫صوفے پہ بیٹھ کر نیچے دیکھنے لگی۔‬
‫"وہ ہیں ہی اتنے اچھے۔‬
‫سب کو تنگ اس لیے کرتے ہیں تاکہ سب خوش‬
‫رہیں۔"‬
‫طلسمی شیشہ گویا ہوا۔‬
‫"مگر ذلیل کرنے سے کوئی خوش کیسے ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫میرے بس میں ہوتا تو پرنس کیقاد کو ہیرل نگری‬
‫سے کیا بلکہ کوہ کاف سے ہی نکال دیتی۔"‬
‫وہ تپ کر بولی۔‬
‫شیشہ خاموش ہو گیا۔‬
‫کچھ وقت کے بعد اسی طرح کے ایک درخت میں‬
‫لفٹ جا اتری اس نے ڈائمنڈ پر انگلی رکھی اور‬
‫اپنی آرام گاہ میں داخل ہو گئی۔‬

‫‪16‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫یہ کمرہ بلکل ویسا ہی تھا جیسا شاہی لوگوں کا‬


‫ہوتا ہے۔‬
‫سرخ و گولڈن جدید اشیاء سے سجایا گیا۔‬
‫گالب کے پھولوں کی مہک سے مہکتا ہوا۔‬
‫اس نے چٹکی بجا کر انگلی کا اشارہ دروازے کی‬
‫جانب کیا تو وہ کھلتا چال گیا۔‬
‫گیارہ بارہ کنیزیں بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئی‬
‫تھیں۔‬
‫"میری کوئی نئی پوشاک نکالی جائے۔‬
‫جو آج تک کسی شہزادی نے زیب تن نہ کی ہو۔"‬
‫وہ شاہی بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے گردن تریچھی کر‬
‫میز پہ پڑی فروٹ کی ٹوکری کو انگلی سے اپنی‬
‫جانب کھینچتے ہوئے بولی۔‬
‫"جو حکم میری ملکہ!"‬
‫وہ ساری کنیزیں دیوار میں بنی وارڈروب کی جانب‬
‫بڑھیں۔‬

‫‪17‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کوئی دس بیس پٹ کھلے تھے۔‬


‫"ملکہ ہیرل! یہ خاص طور پر آپ کے لیے جادوگر‬
‫شاکا نے بنا کر بھیجا ہے بہت خاص کام ہوا ہے‬
‫اس پر آپ اسے پہن کر غائب ہو سکتی ہیں اور‬
‫اپنے جادو سے‪".....‬‬
‫"نہیں ترنم! کوئی اور دکھاؤ۔"‬
‫اس نے باندھی کو ٹوکا تھا۔‬
‫"یہ پرنس پاشا! کی جانب سے آیا ہے ریشم کے‬
‫دھاگے اور الل سے ‪"....‬‬
‫"یہ سب بہت عام ہے۔‬
‫ہیرے' الل' موتی' جادوئی' ریشم سب بہت عام ہیں۔‬
‫مجھے کچھ خاص دکھاؤ۔‬
‫جو کسی بھی سلطنت میں کسی شہزادی نے نہ‬
‫پہنی ہو۔"‬
‫وہ پُرسوچ انداز میں گویا ہوئی۔‬

‫‪18‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ایک اور پوشاک اسے دکھائی گئی تھی مگر اسے‬


‫پسند نہ آئی تھی۔ایک سے بڑھ کر ایک پوشاک‬
‫ملکہ ہیرل کے سامنے پیش کی گئی پر ان کے‬
‫ناک پہ نہ چڑھی۔‬
‫سب کنیزیں باہر چلی گئیں۔‬
‫"آج کا جشن بہت خاص ہے۔‬
‫مگر ملکہ ہیرل! کے لیے لباس کا انتخاب نہیں‬
‫ہوا۔"‬
‫"کیوں؟"‬
‫"انہیں کوئی لباس پسند نہیں آ رہا مشہور ڈیزائنر‬
‫جادوگر شاکا سے پرنس پاشا تک سب کے رد کر‬
‫دیئے گئے ہیں۔"‬
‫کچھ ہی وقت میں پورے کوہ کاف میں یہ بات آگ‬
‫کی طرح پھیل گئی۔‬
‫ہیرل۔ نگری میں تو ہر جانب ہی بات ہونے لگی۔‬
‫"تو اب محترمہ کو اپنا جادو دکھانا پڑے گا۔"‬

‫‪19‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫پرنس کیقاد کے کانوں میں جب یہ بات پڑی تو وہ‬


‫بانسری انگلی پہ نچاتے ہوئے درخت کے تنے‬
‫میں بنائے گئے اپنے محل کی جانب بڑھا۔‬
‫دوسری جانب ملکہ ہیرل اپنے شاہی مہمان خانے‬
‫کی جانب بڑھ گئی جہاں پرنس کیف ان کے منتظر‬
‫تھے۔‬
‫اس وقت یونیورسٹی کے کھلے میدان میں گھاس‬
‫پہ بہت سارے اسٹوڈنٹس بیٹھے تھے۔‬
‫وہ انگلی پہ گاڑی کی چابی گھومتا اپنے دوستوں‬
‫کے ساتھ چلتا ہوا مسلسل مسکرا رہا تھا۔‬
‫سفید پلین شرٹ اور گرے جینز زیب تن کر رکھی‬
‫تھی موصوف نے۔‬
‫کوئی اک دن بھی ایسا نہ آتا جب فخر الحسن نے‬
‫لباس نہ بدال ہو۔‬
‫اس کا ایک لباس جو وہ پہن لیتا دوسری مرتبہ‬
‫نظر نہ آتا۔‬

‫‪20‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اگر آتا بھی تو اس کے دوستوں کے تن پہ۔‬


‫باپ اور بھائی کی کمائی پہ وہ خوب عیاشی تو‬
‫کرتا تھا مگر ساتھ ساتھ پڑھائی پہ بھی دل لگاتا۔‬
‫کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ آنے والے وقت میں‬
‫اس کی عیاشیوں میں کمی آئے۔‬
‫"کیا بات ہے بہت چہک رہے ہو۔"‬
‫اس نے سامنے سے آتے ایک لڑکے کو روکا تھا۔‬
‫وہ جہاں مسکرا رہا تھا وہاں ہی سامنے والے کے‬
‫چہرے پر ناگواری تھی۔‬
‫"آج تو بڑے ممی ڈیڈی بچہ بن کر آئے ہو۔"‬
‫اس کے دوست نے فخر کے شانے پہ ہاتھ ٹکا کر‬
‫اویس کی جانب گردن جھکائی۔‬
‫" اوہ‪ ......‬فخر! تم بھول گئے پرسوں ویلنٹائن ڈے‬
‫ہے۔"‬
‫اس کے دوسرے دوست نے مصنوعی حیرانی سے‬
‫منہ پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔‬

‫‪21‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"پر شہزاد! وہ تو پرسوں ہے نہ۔‬


‫اور اویس آج ٹوپ ٹاپ ہو کر آیا ہے۔"‬
‫فخر نے اسے ڈانٹا۔‬
‫"فخر الحسن! میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔"‬
‫اویس کا ضبط جواب دے چکا تھا۔‬
‫"ارے بھئی ساری راہ خالی پڑی ہے گزرو گزرو۔"‬
‫اس نے دائیں بائیں اشارہ کر کے سر ہالتے ہوئے‬
‫سنجیدگی سے کہا۔‬
‫وہ ایک اچٹتی نظر اس پہ ڈال کر دانت پہ دانت‬
‫جمائے وہاں سے ہٹ گیا۔‬
‫"اسے سبق کیوں نہیں سکھایا؟‬
‫جانے کیوں دیا؟"‬
‫قیصر نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا جو مڑ‬
‫کر اویس کی پیٹھ کو گھور رہا تھا۔‬
‫وہ مسکرا دیا۔‬

‫‪22‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"سبق تو میں سکھاؤں گا۔‬


‫بس ویٹ اینڈ واچ۔"‬
‫سر کو خم دے کر اس نے آنکھ دبائی۔‬
‫وہ دونوں مسکرا دیئے اور میدان کی جانب بڑھے۔‬
‫کئی نظریں ان کی جانب ہوتی تھیں۔‬
‫وجہ صرف فخر الحسن تھا اور اس کی ہر ادا سے‬
‫جھلکتا غرور۔‬
‫یا پھر پیسہ' بینک بیلنس؟‬
‫کہنا مشکل ہے۔‬
‫کیونکہ سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے۔‬
‫"یار! ہمیں کل کے ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہے تو‬
‫کیوں نہ الئیبریری چلیں؟"‬
‫شہزاد نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر کہا۔‬
‫"بات تو ٹھیک ہے یہاں تو پرسوں کے ٹیسٹ کی‬
‫پالننگ چل رہی ہے بھئی۔"‬

‫‪23‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫قیصر کی آواز اتنی تو بلند ضرور تھی آس پاس‬


‫بیٹھے گروپوں کی عوام ان کی جانب متوجہ ہوئی۔‬
‫"بات تو ٹھیک ہے‬
‫پر ہے رسوائی کی۔"‬
‫فخر اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سب پہ ایک‬
‫نگاہ ڈال کر غیر معمولی انداز میں سر پہ ہاتھ‬
‫پھیرتا سب کو تکنے لگا۔‬
‫"خیر ہمیں کیا جن کی رسوائی ہونی ہے وہ‬
‫سوچیں۔"‬
‫شہزاد نے شانے اچکائے۔‬
‫اور ان دونوں کے شانوں پہ ہاتھ مارتا آنکھ دبا کر‬
‫چل دیا۔‬
‫"ان لوگوں کو کیسے پتہ چال ہم ویلنٹائن ڈے کی‬
‫پالننگ کر رہے؟"‬
‫ان کے کانوں میں سرگوشی گونجی تو وہ تینوں‬
‫ہنسی کو روکتے کنٹین کی جانب بڑھ گئے۔‬

‫‪24‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ان تینوں نے ایک دوسرے کو کوئی اشارہ کیا تھا۔‬


‫"ارے یار! میری آنکھوں کو کیا ہوا۔"‬
‫کنٹین میں پہنچتے ہی قیصر نے آنکھوں کو مسلنا‬
‫شروع کیا۔‬
‫فخر بہت مشکل سے اپنی بےاختیار ہونے والی‬
‫ہنسی کنٹرول کئے ہوئے تھا۔‬
‫"ارے کیا ہوا یار!"‬
‫شہزاد فکرمندی سے اس کی جانب بڑھا۔‬
‫"ارے مجھے یہ سب لوگ جانور جیسے لگ رہے‬
‫ہیں۔‬
‫جن کے گلے میں گھنٹیاں نہیں باندھی ہوئیں۔‬
‫مگر رسیاں ہیں۔"‬
‫وہ فرفر بول رہا تھا۔‬
‫فخر نے ہنسی چھپانے کی خاطر منہ پہ ہاتھ رکھ‬
‫کر رخ پھیر لیا۔‬

‫‪25‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫سب لوگ ان تینوں کو حیرت سے منہ کھولے تک‬


‫رہے تھے۔‬
‫جانتے تھے کہ وہ تینوں ہر وقت کسی نہ کسی کو‬
‫تنگ کرتے رہتے ہیں مگر صرف باتوں سے۔‬
‫اب ان کو کون تنگ کر رہا ہے؟‬
‫جو قیصر کو جانور نظر آنے لگے۔‬
‫"قیصر! مجھے لگتا ہے تمہیں کسی نے تعویذ ڈال‬
‫دیئے ہیں۔"‬
‫ایک لڑکی نے چال کر کہا۔‬
‫"ہائیں‪"....‬‬
‫اس کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔‬
‫"نہیں نہیں یہ بابا بن گیا ہے‪".......‬‬
‫فخر نے آگے بڑھ کر اس کا پاؤں لتاڑا۔‬
‫"بابا‪.......‬؟"‬
‫"بابا کیسے؟"‬

‫‪26‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کئی سرگوشیاں ابھری تھیں۔‬


‫ان تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر‬
‫اشارے اشارے میں ایک دوسرے کو کچھ کہا تھا‬
‫پھر مسکرائے۔‬
‫"جی بلکل۔‬
‫خاموش ہو جائیں۔‬
‫کل یہ ایک دربار پہ گیا تھا‪ .....‬دربار کا نام ہم نہیں‬
‫بتائیں گے۔‬
‫ہاں مگر۔"‬
‫شہزاد آگے بڑھا اور میز پہ ہاتھ مار کر تقریر‬
‫کرنے لگا۔‬
‫فخر نے گال صاف کرتے ہوئے اپنی ہنسی کو روکا۔‬
‫پھر آگے بڑھا اور ان دونوں کے ساتھ کرسی‬
‫کھینچ کر بیٹھ گیا۔‬
‫"ہم بھال تم تینوں پر یقین کیوں کریں۔‬
‫دھکے باز' فریبی ہو تم تینوں۔"‬
‫‪27‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ایک لڑکی نے معصوم صورت بنائی اس کا اشارہ‬


‫فخر کی جانب تھا جو اس کو گھاس تک نہیں ڈالتا‬
‫تھا۔‬
‫"یقین نہیں آتا تو آزما لو۔"‬
‫شہزاد نے شانے آچکا کر کہا۔‬
‫قیصر کی جان پہ بن گئی۔‬
‫"کمینے ایسے مت مروا۔"‬
‫اس نے زبردستی کی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے‬
‫شہزاد کو دیکھا۔‬
‫"اچھا تو ذرا یہ بتاؤ۔"‬
‫ایک لڑکا گال صاف کرتے ہوئے اٹھا۔‬
‫"میں کل یونیورسٹی دیر سے کیوں آیا تھا؟"‬
‫قیصر نے ایک نظر اس پہ ڈالی۔‬
‫اور پھر حد درجے کا سنجیدہ ہو گیا۔‬
‫"ذیشان! ذرا یہاں آ کر بیٹھ جاؤ۔"‬

‫‪28‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے اشارہ سامنے رکھی کرسی کی جانب کیا۔‬


‫وہ کرسی گھسیٹ کر جب اس کے سامنے بیٹھا تو‬
‫قیصر نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں جوڑ‬
‫کر اپنی پیشانی پہ ٹکا کر منہ ہی منہ میں کچھ‬
‫پڑھا۔‬
‫پھر جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔‬
‫"کل تم اپنے گھر سے نکلنے کے بعد مارکیٹ‬
‫گئے تھے وہاں سے تم نے ایک ڈائری خریدی‬
‫تھی۔‬
‫جس پہ الل گالب کے پھول بنے ہیں۔‬
‫یہ ڈائری تمہیں بہت مشکل سے ملی تھی۔ اپنی‬
‫من پسند ڈائری ڈھونڈنے میں وقت لگ گیا اور تم‬
‫دیر سے پہنچے۔"‬
‫وہ ایک ٹرانس کی طرح بول رہا تھا سب کی‬
‫نگاہیں اس کی جانب تھیں۔‬
‫اور اس کی بات کے اختتام پر سب کی نگاہیں‬
‫ذیشان کی جانب ہوئیں۔‬
‫‪29‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ انہماک سے منہ کھولے قیصر کو دیکھ رہا تھا۔‬


‫"بولو ذیشان! کیا یہ سچ ہے؟"‬
‫وہ کیا بولتا بچارہ صدمے سے منہ کھولے ہوئے‬
‫تھا۔‬
‫''یقین نہیں آتا تو اس کا بیگ چیک کر لو۔"‬
‫اس نے سر کرسی کی پشت سے ٹکا لیا۔‬
‫"اب یہ بھی بتاؤں کہ وہ ڈائری کس کے لیے لی؟"‬
‫قیصر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫پوچھا۔‬
‫"ن نہیں مگر تمہیں کیسے پتہ چال؟"‬
‫وہ ہکالیا۔‬
‫"بابا جی کی پاور ہے پتر!‬
‫چل اب اٹھ۔"‬
‫شہزاد نے کہا۔‬
‫"ہاں جی تو اور کوئی؟"‬

‫‪30‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے سب کی جانب نگاہیں کر کے کہا۔‬


‫"میں‪".......‬‬
‫ایک لڑکی نے ہاتھ اٹھایا۔‬
‫"آ جاؤ۔‬
‫ناصر! یار ذرا کنٹین سے برگر بوتلیں تو الؤ ہم‬
‫تینوں کے لیے پیسے فخر سے لے لینا۔"‬
‫شہزاد نے کہا تو ان لڑکوں میں سے ایک دبال پتال‬
‫لڑکا اٹھا اور کنٹین کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫"جی مس کومل! تو کیا پوچھنا ہے آپ کو؟"‬
‫وہ شرٹ کا کالر درست کرتا اس کی جانب متوجہ‬
‫ہوا۔‬
‫"کل میرے پیسے گم ہوئے تھے۔ کیا آپ بتا‬
‫سکتے ہو کس کے پاس ہیں؟"‬
‫اس کی بات پہ قیصر نے فخر کی جانب دیکھا۔‬
‫''اچھا کتنے پیسے تھے؟"‬
‫"ہزار۔"‬
‫‪31‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے جواب دیا۔‬


‫اتنے میں فخر کے فون پہ کال آئی تو وہ اٹھ کر‬
‫اپنے اردگرد جمع ہوئے لڑکے لڑکیوں کو ایک‬
‫جانب کرتا پیچھے خالی جگہ کی طرف بڑھا۔‬
‫"ہوں تو مس کومل! آپ کے پیسے اس کے پاس‬
‫ہیں جائیں جا کر نکال لیں۔"‬
‫قیصر نے اشارہ ایک جانب کھڑے لڑکے کی طرف‬
‫کیا تو سب کی نگاہیں اس کی جانب ہوئی اس کے‬
‫چہرے کا ڈر بتا رہا تھا کہ واقع ہی وہ چور ہے۔‬
‫"چور‪.....‬‬
‫چوری کرتا ہے۔"‬
‫وہ اس کے گریبان تک پہنچی تھی۔‬
‫"کومل! میں نے چوری کی تھی۔‬
‫مگر میرے پاس ابھی اک روپیہ بھی نہیں ہے۔"‬
‫وہ خوف زدہ ہوا۔‬
‫"اپنی جیب چیک کرو۔"‬
‫‪32‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫قیصر نے چٹکی بجاتے ہوئے اشارہ جینز کی جیب‬


‫کی جانب کیا تو رضا نے تیزی سے ہاتھ جیب کی‬
‫جانب بڑھایا۔‬
‫وہاں سے ہزار کا نوٹ برآمد ہوا۔‬
‫سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔‬
‫"یہ کیسے‪.....‬؟"‬
‫"کیا واقع ہی یہ بابا جی بن گیا؟"‬
‫"یہ تو جادو کرتا ہے‪"....‬‬
‫ہر جانب سرگوشیاں تھیں اور رفتہ رفتہ پوری‬
‫یونیورسٹی میں یہ بات پھیل گئی کہ قیصر جادوگر‬
‫ہے۔‬
‫وہ تینوں ہی بہترین دوست تھے کچھ نہ کچھ‬
‫کرتے رہتے جس سے یونیورسٹی کا ماحول‬
‫سنجیدہ نہ ہوتا تھا۔‬
‫وہ اسٹوڈنٹس کو پریشان بھی کرتے تھے۔‬

‫‪33‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اسی وجہ سے بہت ساری نظروں میں وہ اچھے‬


‫تھے اور بہت سی نظروں میں آوارہ۔‬
‫اس نے الل آنکھوں کو موندے کوئی منتر پڑا اور‬
‫مٹھی بھینچ کر پھر کھولی اور ہاتھ کی پانچوں‬
‫انگلیاں درخت پہ بنے دروازے پہ رکھیں۔‬
‫"ویلکم پرنس کیقاد!"‬
‫محل میں سے آواز ابھری۔‬
‫"شکریہ میرے دوست‪".....‬‬
‫عنابی ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا۔‬
‫"مجھے کیسا لباس تیار کرنا چاہیے کہ ملکہ ہیرل‬
‫کو پسند آ جائے۔‬
‫کم از کم کچھ غلط فہمیاں تو دور ہوں گی۔"‬
‫وہ تھوڑی کھجاتے ہوئے سٹڈی میز کے سامنے‬
‫رکھی کرسی پہ بیٹھ گیا۔‬
‫دونوں ہاتھوں کو اس نے جب میز پہ رکھا تو ایک‬
‫ڈیجیٹل کتاب برآمد ہوئی۔‬

‫‪34‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے ہوا میں چٹکی بجائی تو ایک پینسل اس‬


‫کے ہاتھ میں آئی جس کے اختتام پہ مور کے پر‬
‫لگے تھے۔‬
‫پھلوں کی ٹوکری سے آم کا پھل اس کی جانب آیا‬
‫تھا اور پھر وہ ٹکروں میں تقسیم ہو کر سامنے‬
‫میز پہ پلیٹ میں سج گیا۔‬
‫کھانے کے ساتھ ساتھ وہ ڈیزائن تیار کر رہا تھا۔‬
‫اس نے مختلف ڈیزائن بنائے۔‬
‫مگر اسے خود بھی ایک ڈیزائن تک پسند نہ آیا۔‬
‫"کیقاد! کیا کر رہے ہو تم؟"‬
‫اس کے کانوں میں اپنے دوست کی آواز گونجی۔‬
‫"ایک شاہی پوشاک کا ڈیزائن بنا رہا ہوں یاقوت!"‬
‫اس نے چٹکی بجا کر سامنے کی دیوار جو کہ‬
‫درخت کا تنا تھی اسے غائب کیا۔‬
‫سامنے سے ایک نوجوان نمودار ہوا اور پھر سے‬
‫دیوار اپنی جگہ آ گئی۔‬

‫‪35‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کیقاد نے آنکھوں سے ہی صوفے پہ پڑیں سلوٹوں‬


‫کو ختم کیا۔‬
‫"تم کس کے لیے یہ پوشاک بنا رہے ہو؟"‬
‫یاقوت نے استفسار کیا۔‬
‫"افکورس ملکہ ہیرل کے لیے۔"‬
‫"واٹ‪......‬؟ تمہیں لگتا ہے ملکہ ہیرل تمہارا بنایا‬
‫گیا لباس پسند کر لے گی؟"‬
‫"جب معمولی سی وادی پسند آ سکتی ہے تو لباس‬
‫بھی آ جائے گا۔"‬
‫اس نے الل آنکھوں میں قید ہیرل کی باغیچہ میں‬
‫مسکراتی فوٹو یاقوت کو دکھائی۔‬
‫"تمہیں لگتا ہے وہ‪ ..‬تمہارے متعلق کچھ اچھی‬
‫رائے قائم کریں گی‪.....‬؟"‬
‫"ہا‪.....‬یہ تو نہیں معلوم میرے دوست۔‬
‫خیر تم خیریت سے آئے ہو؟"‬

‫‪36‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫شانے آچکا کر جواب دے کے وہ اٹھا تھا اور‬


‫سیڑھیاں چڑھتا اوپر والے کمرے میں غائب ہو‬
‫گیا۔‬
‫یاقوت اپنے پیروں تلے پتھر کی شکل والی ایک‬
‫بڑی سی پلیٹ لے آیا تھا اور اب اڑتے ہوئے اس‬
‫کے پیچھے گیا۔‬
‫"میں ایک بہت اہم خبر الیا ہوں۔‬
‫پرنس پاشا نے ملکہ ہیرل کو اپنے قبضے میں‬
‫کرنے کے لیے ان پہ جذباتی حملہ کرنے کی‬
‫سازش رچائی ہے۔ایک لباس بھی بھیجا گیا ہے‬
‫جس کو ملکہ نے رد کر دیا اور اب وہ مزید بھڑک‬
‫چکا ہے۔"‬
‫اس کی بات پہ کیقاد کی الل آنکھیں شعلہ بار‬
‫ہوئیں۔‬
‫"اس کی اتنی ہمت کہ میری ہیرل نگری میں قدم‬
‫رکھے وہ بھی غلط مقصد کے لیے۔"‬
‫اس نے مٹھیاں بھینچ کر رخ پھیرا تھا۔‬
‫‪37‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ریلکس کیقاد! ملکہ ہیرل اگر اس کے جذباتی‬


‫ٹارچر میں نہ آئیں تو ہم اس کو روک سکتے‬
‫ہیں۔"‬
‫یاقوت نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔‬
‫"مگر کیسے؟‬
‫وہ اتنی الٹے دماغ کی ہے کہ کچھ نہیں سنے‬
‫سمجھے گی۔"‬
‫کیقاد اب ہوش میں تھا اس کی آنکھیں پھر سے‬
‫اپنے اصلی رنگ الل میں آ چکی تھیں۔‬
‫" صرف یہ پانچ گھنٹے ہیں ہمارے پاس۔‬
‫اس کے بعد بارہ بج جائیں گے اور پھر خاتمے کی‬
‫شب شروع ہو جائے گی۔‬
‫جو بھی لڑکی اس رات کی لپٹ میں آئے گی اپنا‬
‫جادو کھو دے گی۔"‬
‫یاقوت نے تشویش سے اس کو دیکھا۔‬

‫‪38‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ہاں مگر ہیرل ملکہ کیوں کر پاشا کے قبضے‬


‫میں جائے گی۔‬
‫وہ بھی تو جانتی ہے یہ خاتمے کی شب ہے۔"‬
‫کیقاد نے ایک نظر یاقوت پہ ڈالی۔‬
‫"یہ مجھے معلوم نہیں مگر میر مومن نے یہ خبر‬
‫دی ہے۔"‬
‫اس نے کہا اور پھر کچھ دیر کی گفتگو کے بعد‬
‫غائب ہو گیا۔‬
‫"خاتمے کی شب۔"‬
‫ایک نظر اس نے وقت پہ ڈالی اور پھر طوفان کی‬
‫طرح اپنی کرسی پہ جا بیٹھا۔‬
‫دھڑا دھڑ لباس کے ڈیزائن بنائے مگر ایک بھی‬
‫پسند نہ آیا۔‬
‫"پرنس کیقاد! ابھی ہمارے سامنے حاضر ہوں۔"‬
‫اس کے کانوں میں نسوانی آواز پڑی جو ملکہ‬
‫ہیرل کی تھی۔‬

‫‪39‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے گہری سانس خارج کی پینسل میز پر رکھ‬


‫کر اٹھ کھڑا ہوا۔‬

‫غریب ہوں تو کیا ہوا؟‬


‫انسان تو ہوں تیری طرح‬

‫"بیٹا! جاؤ جا کر ہیرا کے کپڑے پریس کر دو۔"‬


‫ماں نے اسے کہا تو وہ کتابیں چھوڑ کر اٹھ کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫"یہ بھی ہیرا کے ہی ہیں۔"‬
‫بجھے بجھے دل کے ساتھ اس نے فولڈرز اٹھائے‬
‫تھے اور اپنے کوارٹر سے نکل کر اس شاندار‬
‫بنگلے کی جانب بڑھی جہاں اس کی ماں مالزمہ‬
‫تھی اور باپ کار ڈرائیور اور وہ خود بھی تو ہیرا‬

‫‪40‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کی مالزمہ تھی بچپن سے اب تک وہ اس کے لیے‬


‫پڑھتی تھی لکھتی تھی۔‬
‫اس کے ٹیسٹ ہیرا کے نام کے ہوتے اور ہیرا کے‬
‫ٹیسٹ پہ وہ محبہ کا نام لکھتی۔‬
‫یہ بات چند ٹیچرز اور پرنسپل تک ہی رہتی۔‬
‫محبہ صرف پڑھنا چاہتی تھی بنا کسی مقصد کے‬
‫اور وہ پڑھ رہی تھی۔‬
‫چاہے اس کے نام کا میڈل ہیرا ہی کیوں نہ لیتی‬
‫مگر اسے اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔‬
‫ہیرا بھی تو اسے بہن سمجھتی تھی اس کے لیے‬
‫وہ کچھ بھی کر لیتی۔‬
‫وہ جان مانگتی تو جان دے دیتی۔‬
‫یہ سوچ کر وہ مسکرائی‬
‫"تم سے میں نے کہا تھا نہ کہ اس کو جانے مت‬
‫دینا۔‬
‫وہ اب میرے لیے موت کا پھندہ بن چکی ہے۔"‬

‫‪41‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ ابھی ہیرا کے کمرے میں داخل ہوئی نہیں تھی‬


‫کہ ہیرا کی بلند ہوتی غصے میں ڈوبی آواز اس‬
‫کے کانوں میں پڑی بےاختیار ہی اس کے قدم رک‬
‫گئے اور وہ دیوار کے ساتھ ہو گئی۔‬
‫دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔‬
‫"ہاں وہ فخر اس کے پیچھے پاگل ہوا پھر رہا ہے۔‬
‫ایک مزید موقع دیا تھا تمہیں مگر تم نے پھر سے‬
‫اس کو سالمت جانے دیا۔‬
‫اگر تم کسی کام کے ہوتے تو وہ فخر کے کام کی‬
‫نہ رہتی وہ میری مالزمہ میری محبت چھینے گی۔‬
‫ایک سال پہلے تم چاہتے تھے اس کے ساتھ وقت‬
‫گزارنا میں نے تب بھی موقع دیا تھا۔‬
‫خیر اب دفع ہو جاؤ اس شہر سے کہیں دور چلے‬
‫جاؤ۔"‬
‫وہ مزید کچھ سن نہیں سکی تھی اور کانپتے‬
‫وجود کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے ہی واپس پلٹ‬
‫گئی۔‬
‫‪42‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس کی محبت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔‬


‫وہ جس کو بہن سمجھتی تھی وہ ہی اس کی دشمن‬
‫نکلی۔‬
‫"محبہ! تم یہاں ہی رکو میں آنٹی کو بتا آؤں کہ‬
‫میں جا رہی ہوں۔"‬
‫ہیرا کہہ کر اندر چکی گئی تھی وہ گاڑی کے پاس‬
‫کھڑی رہی۔‬
‫آج ہیرا کی خالہ زاد بہن کی منگنی تھی اور ہیرا‬
‫اسے بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔‬
‫"محبہ!"‬
‫کچھ دیر بعد وہ جب باہر آئی تو اویس اس کے‬
‫ساتھ تھا۔‬
‫"یہ اویس ہے تم اس کے ساتھ گھر چلی جاؤ میں‬
‫ابھی نہیں جا سکتی خالہ کی طبیعت اچانک ہی‬
‫ناساز ہو گئی ہے اور گھر میں ماما کو بھی‬
‫تمہاری ضرورت ہے۔"‬

‫‪43‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ مکاری دکھا رہی تھی۔‬


‫محبہ نے ایک نظر اویس پہ ڈالی جو شریف سی‬
‫شکل کا نوجوان تھا۔‬
‫سر ہالتی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫"تھینک یو سو مچ ہیرا!"‬
‫"انجوائے۔"‬
‫وہ مسکرا کر آنکھ دباتی پلٹ گئی تھی۔‬
‫"ہاں۔ زیادہ ڈرانا مت بچی کو۔یہ نہ ہو پھر ہاتھ نہ‬
‫آئے۔"‬
‫وہ پلٹی اور شریر لہجے میں کہتی چلی گئی۔‬
‫اور وہ کیسے بچ نکلی تھی یہ وہ ہی جانتی تھی۔‬
‫کھینچا کھینچی میں اس کے پیٹ میں اویس نے‬
‫زور سے پنچ مارا تھا کہ وہ نڈھال ہو کر ڈھے‬
‫جائے مگر وہ اس کے شکنجے سے کسی طرح‬
‫بچ بھاگی۔‬

‫‪44‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اگر فخر نہ اس دن پہنچتا تو شاید اویس اس تک‬


‫پہنچ ہی جاتا۔‬
‫"فخر!"‬
‫اس نے دکھ سے چور چور ہوتے لہجے میں اسے‬
‫پکارا تھا۔‬
‫فخر کو وہ بہت پہلے سے‪ ....‬جانتی تھی ہیرا سے‬
‫اس کی باتیں اکثر سنتی رہتی تھی‪ .....‬اور لڑکپن‬
‫میں تو وہ کئی بار فخر کو ہیرا کے گھر دیکھ‬
‫چکی تھی۔‬
‫قسمت میں ملنا کیسے لکھا تھا یہ وہ نہیں جانتی‬
‫تھی۔‬
‫یونیورسٹی میں جانے سے پہلے ہی وہ اس سے‬
‫اس حادثے میں ملی تھی۔‬
‫یونی میں بھی وہ اور اس کے دوڈت جیسے اپنی‬
‫عادتوں سے یونی کے ماحول کو سنجیدہ نہ ہونے‬
‫دیتے وہ اسے اچھا لگتا تھا۔‬

‫‪45‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫مگر فخر کے نزدیک اس کا وجود کوئی معنی نہیں‬


‫رکھتا یہ اسے لگتا تھا۔‬
‫"اری کیا ہوا واپس کیوں آ گئی؟"‬
‫ماں نے اس کو دیکھتے ہی استفسار کیا۔‬
‫وہ چونکی۔‬
‫"ہاں ماں! آ گئی واپس اب میں کبھی اس کی جانب‬
‫نہیں جاؤں گی اور ہمیں یہاں سے جانا ہو گا۔"‬
‫کھوئے کھوئے انداز میں کہتی آنسوؤں کو رگڑتی‬
‫وہ کمرے میں چلی گئی۔‬
‫"ہوا کیا ہے کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟"‬
‫ماں اس کے پیچھے لپکی۔‬
‫اس نے ساری بات ماں کو بتا دی۔‬
‫"سچ کہتے ہیں۔‬
‫امیروں سے دور ہی رہنا چاہیے' برباد کرنے میں‬
‫وقت نہیں لگاتے۔"‬
‫ماں نے دل ہی تھام لیا تھا۔‬
‫‪46‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"شکر ہے خدا کا میری بچی کی عزت سالمت‬


‫ہے۔اب ہم واقع ہی یہاں نہیں رہیں گے۔"‬
‫انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ لوگ یہ شہر چھوڑ‬
‫کر چلے جائیں گے۔‬
‫دن کا سورج طلوع ہوا تو اس نے اپنی تنخواہ کے‬
‫پیسے مالک سے مانگے اور جانے کی اجازت۔‬
‫وہ باہر سیڑھیوں پر بیٹھی تھی جب ہیرا اس کے‬
‫ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔‬
‫"تم کیوں جا رہی ہو؟"‬
‫ہیرا نے معصوم صورت بنائی۔‬
‫مگر اس بار محبہ اس کی چاالکی میں نہیں آئی‬
‫تھی۔‬
‫"بس یہاں اب مزید رہنا نہیں چاہتی۔‬
‫تمہیں سارے اسائنمنٹ تیار کر کے دے جا رہی‬
‫ہوں۔"‬
‫"یار! آخری بار مجھے کچھ لکھ کر دیتی جاؤ پلیز۔‬

‫‪47‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫میرے دل کو تسلی ہو جائے گی۔"‬


‫وہ مصنوعی آنسوؤں کو رگڑ کر گویا ہوئی۔‬
‫پھر ایک رجسٹر اور پین اس کی جانب بڑھایا۔‬
‫"کیا لکھوں؟"‬
‫"میرے لیے خط لکھ دو۔‬
‫تم مجھے اپنی مرضی سے چھوڑ کر جا رہی ہو‬
‫کسی کا دباؤ نہیں ہے۔‬
‫تم میرے بغیر بہت خوش رہو گی تمہیں میری‬
‫کبھی یاد نہیں آئے گی۔"‬
‫اس کے بتائے گئے لفظوں پہ محبہ کو حیرانی‬
‫ہوئی پھر اس کی اداکاری سمجھ سر جھٹک‬
‫لکھنے لگی۔‬
‫اس نے آخر پہ اپنے سائین کیے اور پین اسے‬
‫تھما کر رخ پھیر لیا۔‬
‫پھر دوپٹہ درست کرتی اٹھ گئی۔‬
‫"شکر ہے دفعہ ہو رہی ہے۔‬
‫‪48‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ہے بھی آخری سال پھر تو ڈگری مل جائے گی۔‬


‫اور فخر بھی میرا ہی ہو گا۔"‬
‫وہ کورے کاغذ پہ لکھے لفظوں کو دیکھ شیطانی‬
‫مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے چہکتی ہوئی واپس‬
‫اپنے کمرے میں چلی گئی اور محبہ گھر سے باہر۔‬
‫اس نے گھر والوں سے پہلے ہی بات کر رکھی‬
‫تھی کہ وہ اب مزید محبہ کو برداشت نہیں کرے‬
‫گی۔‬
‫سو اس کے گھر والے بھی خاموش تھے۔‬
‫صبح جب وہ یونیورسٹی پہنچی تو ہر جانب وہی‬
‫پہلے واال ماحول تھا۔‬
‫نہ الل پھول' نہ قہقہے' نہ ہی کپل وہ بہت بدمزگی‬
‫کا شکار ہوئی تھی۔‬
‫کتاب میں چھپے گالب کو اس نے دیکھا اور پھر‬
‫فخر کو ڈھونڈنے لگی۔‬
‫"ہیرا! محبہ نہیں آئی تمہارے ساتھ؟"‬

‫‪49‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫فخر کالس سے نمودار ہوا تھا اور اسے اکیال‬


‫دیکھ حیران ہوا۔‬
‫وہ بھی دکھی ہونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔‬
‫"یہ مجھے اس کی ماں نے دیا تھا تمہارے لیے‬
‫ہے۔"‬
‫اس نے وہی رجسٹر سے پھاڑا کاغذ اسے تھما‬
‫دیا۔‬
‫وہ حیرانی سے تہہ شدہ خط کو دیکھتا رہا۔‬
‫"اسالم و علیکم!‬
‫فخر!‬
‫دنیا میں ہم سب اکیلے آتے ہیں مگر یہاں رنگوں‬
‫بھری دنیا میں بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں‬
‫دوست بناتے ہیں۔‬
‫میں نے تمہیں دوست سمجھا‬
‫تم نے میری بہت مدد بھی کی تو وہاں مجھے‬
‫نقصان بھی پہنچایا اور اب میں تمہیں اپنی مرضی‬

‫‪50‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫سے چھوڑ کر جا رہی ہوں کسی کا دباؤ نہیں ہے‬


‫مجھ پر اور کوئی دباؤ کیوں ڈالے گا؟‬
‫زندگی میری ہے اب میں اسے اپنے طریقے سے‬
‫جیوؤں گی۔‬
‫اور یہ مت سوچنا کہ میں تم سے جدا ہو کر دکھی‬
‫ہو جاؤں گی' جی نہیں سکوں گی' تو یہ تمہاری‬
‫غلط فہمی ہے میں تمہارے بغیر بہت خوش رہوں‬
‫گی۔‬
‫مجھے تمہاری کبھی یاد نہیں آئے گی۔ویسے بھی‬
‫ہماری کوئی اچھی یادیں تو ہیں نہیں۔‬
‫اچھائی کی ہوتی تم نے میرے ساتھ تو میں مرتے‬
‫دم تک نہ بھولتی۔ "‬
‫وہ پڑھتے پڑھتے ریلنگ کے ساتھ جا لگا خط‬
‫زمین بوس ہو گیا۔‬
‫"کیا ہوا؟ کیا لکھا ہے؟"‬

‫‪51‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ خوف سے آنکھیں پھیالئے جھکی اور نیچے‬


‫منہ کر کے ہنسی پھر خط اٹھا کر جیسے ہی کھوال‬
‫وہ مکاری سے دل تھام گئی۔‬
‫"ہائے میں مر جاؤں۔‬
‫فخر! وہ تو تمہارے ساتھ نہیں گئی تھی کل رات۔"‬
‫اس نے آخری کیل صندوق میں ٹھونک دیا۔‬
‫"میرے ساتھ؟‬
‫نہیں میں بھال‪.....‬مگر تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟"‬
‫"مجھے لگا تھا وہ تمہارے ساتھ ہو گی مگر یہ‬
‫خط جب اس کی ماں نے تمہارے لیے دیا تو‬
‫مجھے لگا اس نے گھر چھوڑتے وقت جان بوجھ‬
‫کر یہ لکھا ہو گا کہ تم دونوں کسی مصیبت میں نہ‬
‫پھنس جاؤ۔‬
‫مگر اب تمہاری شکل سے لگ رہا ہے اس نے‬
‫مجھے بھی بیواقوف بنایا۔‬
‫وہ کل کسی اور کے ساتھ چلی گئی۔‬

‫‪52‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اوہ مائی گاڈ اس نے مجھے جھوٹ بوال تھا۔"‬


‫وہ نان سٹاپ تیز تیز بول رہی تھی۔‬
‫"میں نے بھی گاڑی میں بیٹھے شخص کو نہیں‬
‫دیکھا۔اوہ مائی گاڈ۔‬
‫میری بیسٹ فرینڈ نے مجھے دھوکہ دیا۔"‬
‫وہ ہاتھوں میں منہ چھپا کر رو دی۔‬
‫فخر سب سنتے ہوئے سن کھڑا تھا۔‬
‫ایک پل کو تو اسے یقین نہیں آیا مگر پھر خط اور‬
‫اس کا فخر سے کترانا‪.....‬‬
‫وہ بالوں میں ہاتھ چلتا منہ پہ ہاتھ رکھ پلٹا اور‬
‫تیز رفتار میں سیڑھیاں اترتا چال گیا۔‬
‫"فخر!"‬
‫ہیرا استہزائیہ انداز میں ہنسی اور نفی میں سر‬
‫ہالتی نقلی آنسوؤں کو رگڑتی اس کے پیچھے‬
‫بڑھی۔‬
‫"فخر! بات سنو۔"‬
‫‪53‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫میدان میں جا کر اس نے فخر کا ہاتھ تھام لیا تھا۔‬


‫"دیکھو مجھے اچھا نہیں لگتا تمہیں یوں پریشان‬
‫دیکھنا۔‬
‫پلیز پریشان نہ ہوں۔‬
‫مجھے معلوم ہے تم اس سے محبت کرتے تھے‬
‫مگر‪ ......‬مگر وہ تم میں نہیں اویس میں دلچسپی‬
‫رکھتی تھی۔‬
‫ان دونوں کے درمیان کچھ مس انڈرسٹینڈنگ ہو‬
‫گئی تو وہ اس کے خالف ہو گئی۔ان دونوں کا‬
‫بریک اپ ہو گیا۔"‬
‫"تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔"‬
‫وہ اسے گھورتے ہوئے بوال۔‬
‫"کتنی بار کوشش کی اس دن بھی بتانے کے لیے‬
‫آئی تھی مگر تمہیں قیصر کی کال آ گئی۔"‬
‫وہ سر جھکا کر بولی۔‬

‫‪54‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫فخر نے اس سے ہاتھ چھڑوا لیا وہ چند پل اسے‬


‫دیکھتی رہی پھر واپس پلٹی۔‬
‫کتاب میں سے گالب کو جان بوجھ کر گرا کر اس‬
‫نے آنکھیں بند کیں۔‬
‫دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔‬
‫"جو کل تقریر کرتا رہا آج وہ ہی مجھے پروپوز‬
‫کرے گا۔‬
‫شکریہ محبہ! ہر بات تم نے لکھی میں نے تو‬
‫صرف فخر کا نام لکھا تھا۔"‬
‫وہ دل میں ڈانس کر رہی تھی۔‬
‫"یہ کس کے لیے ہے؟"‬
‫تریچھی نظر سے زمین پہ پڑے پھول کو دیکھتے‬
‫ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"وہ‪.....‬وہ میں ‪"...‬‬
‫وہ کمال کی اداکارہ تھی۔‬

‫‪55‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"یہ تمہارے لیے تھا۔مگر دینے کی ہمت‪...‬نہیں‬


‫تھی اگر اعتراض نہ ہو تو‪".....‬‬
‫گالب اٹھا کر اس کی جانب بڑھا کر وہ آنکھیں‬
‫موندے بول رہی تھی۔‬
‫تب بولتی بند ہوئی جب فخر نے گالب کا پھول تھام‬
‫لیا۔‬
‫وہ آنکھیں کھول اسے دیکھتے ہوئے مسکرائی‬
‫وہ بھی مسکرایا تھا۔‬
‫کوریڈور میں کھڑی محبہ نے ان دونوں کو ایک‬
‫ساتھ دیکھ سر جھکایا اور کالی چادر سے نقاب‬
‫کرتی وہاں سے ہٹ گئی۔‬
‫"تم سچے تھے قیصر! فخر نے مجھے تحفہ تو‬
‫دیا ہے۔"‬
‫آنسوؤں کو صاف کرتی وہ ایک خالی کالس کی‬
‫جانب بڑھ گئی آج سارا دن اسے چھپ کر رہنا تھا‬
‫فخر سے۔‬

‫‪56‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ نہیں چاہتی تھی کہ فخر اس کے سامنے آئے‬


‫وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔‬
‫کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔‬
‫وہ آج آخری دن اس یونیورسٹی میں آئی تھی تو‬
‫صرف فخر الحسن کے لیے‪ .....‬مگر وہ ہیرا کا تھا‬
‫تو اس کا کیسے ہو جاتا؟‬
‫وہ اس کے برابر کی کب تھی ؟‬
‫ہیرا اور فخر ایک دم درست میچ تھا۔‬
‫وہ سارا دن اپنے ڈیپارٹمنٹ میں آئی ہی نہیں تھی۔‬
‫وہ اپنے بیڈ پہ لیٹی مسلسل‬
‫کیقاد کو ہی سوچ رہی تھی۔‬
‫وہ خود بہت حسین تھی مگر کیقاد بھی کچھ کم نہ‬
‫تھا اس کی سرخ آنکھیں ہیرل کو بےبس کر رہی‬
‫تھیں۔‬
‫وہ خود کو کمزور محسوس کر رہی تھی۔‬
‫اس کا جادو بھی ختم ہونے لگا تھا۔‬
‫‪57‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ جتنا کیقاد کو چھونے کی خواہش کرتی اتنا ہی‬


‫اس کا میجک ختم ہوتا جاتا۔‬
‫آنسو بےاختیار رخساروں پر پھسلے تھے۔‬
‫سفید دودھ جیسا چہرہ مرجھایا ہوا' آنکھوں کے‬
‫گرد سرخ حلقے 'لمبے بالوں کی چمک دمک بھی‬
‫لمحوں میں کم ہوئی تھی۔‬
‫نہ ہار نہ سنگھار۔‬
‫ملکہ کا تاج بھی سائیڈ میز پہ پڑا تھا۔‬
‫وقت سرکتا گیا اور رات کے سائے پھیلنے لگے۔‬
‫ملکہ ہیرل اپنے دل کو بہت کمزور محسوس کر‬
‫رہی تھی۔‬
‫"ترنم! کیقاد کو بالؤ میں مر جاؤں گی اس کے‬
‫بغیر۔"‬
‫آخر اس نے تنگ آ کر دل کو زبان دی۔‬
‫ترنم کے ہاتھ سے زیورات کے صندوق چھوٹ کر‬
‫گرے تھے۔‬

‫‪58‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ملکہ ہیرل! آپ کو کیا ہو گیا؟"‬


‫اس کی نظر جب ملکہ پہ پڑی تو وہ ڈر گئی۔‬
‫"کچھ نہیں ترنم! کیقاد کو بالؤ اسے کہو یا تو مجھ‬
‫سے نکاح کرکے دنیا کو تباہ کر دے یا پھر‪.....‬‬
‫پھر مجھ سے میرا جادو چھین لے مجھے خود کو‬
‫چھونے دے۔‬
‫مجھے مار دے۔"‬
‫وہ بہت مردہ آواز میں بولی تھی۔‬
‫سب جانتے تھے اس سلطنت میں ہر قسم کا جادو‬
‫ہے مگر ایک جادو کے چھن جانے سے باقی‬
‫سارے جادو ختم ہو جاتے ہیں‬
‫اور وہ جادو تھا لڑکیوں کی اپنی عزت۔‬
‫جو کسی نامحرم کی نزدیکیوں سے ختم ہونے‬
‫لگتی ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مر جاتی‬
‫ہیں۔‬

‫‪59‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ملکہ ہیرل! آپ پہ پرنس پاشا نے کالی طاقتوں‬


‫سے وار کر دیا ہے۔‬
‫مگر وہ آپ کو اپنا بنانا چاہتا تھا اور الٹا ہو گیا‬
‫میں ابھی‪"......‬‬
‫"تم بس اسے پکارو۔‬
‫ایک مرتبہ مجھے اسے دیکھنا ہے سنا نہیں تم‬
‫نے۔"‬
‫وہ مشکل سے چالئی تھی۔‬
‫ترنم پریشان ہوتی سر ہال کر غائب ہو گئی۔‬
‫"پرنس کیقاد!"‬
‫دروازے پہ زور زور سے دستک ہوئی تھی اور‬
‫کیقاد نے دروازے کو حکم دیا تو وہ کھل گیا۔‬
‫"کیا ہوا ترنم!"‬
‫"پرنس کیقاد! ملکہ ہیرل کی حالت غیر ہے ان کی‬
‫طاقتیں رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی ہیں۔‬
‫وہ آپ کو یاد فرما رہی ہیں‬
‫‪60‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫جلدی چلیں۔"‬
‫ترنم نے اسے سارا واقع سنا دیا تو وہ پریشان‬
‫ہوتا اپنا بنایا گیا لباس اٹھاتا چل دیا۔‬
‫سارا شہر محل کے باہر جمع تھا۔‬
‫پرنس کیقاد نے سب کی نظروں میں آنا مناسب نہ‬
‫سمجھا تبھی دوسری طلسمی چادر اوڑھ لی۔‬
‫"کیقاد! "‬
‫اسے اپنی آرام گاہ میں دیکھ کر ہیرل کے وجود‬
‫میں جان آئی تھی۔‬
‫وہ دوڑ کر اس کے قریب گئی تھی ہاتھ بڑھا کر‬
‫اسے کے چہرے پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ ایک‬
‫جھٹکے سے اس کے بدن سے طاقتیں سفید شکل‬
‫اختیار کر کے نکلنے لگیں۔‬
‫"ملکہ ہیرل! آپ یہ لباس زیب تن کریں۔‬
‫ٹھیک ہو جائیں گی۔"‬

‫‪61‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ بنا اسے دیکھے لباس ترنم کو دے کر رخ پھیر‬


‫گیا۔‬
‫اس سے ہیرل کا یہ حال دیکھا نہیں جا رہا تھا۔‬
‫"میری بےبسی کا مذاق مت اڑاؤ۔‬
‫کیقاد! مجھے ختم ہو جانے دو۔‬
‫ہمارا نکاح ہو نہیں سکتا۔‬
‫اور تمہارے بنا اب میں جی نہیں سکتی۔"‬
‫وہ چالئی تھی۔‬
‫"یہ لباس اسی گاؤن کے اوپر پہناؤ انہیں۔"‬
‫اس نے ہیرل کی بات کا جواب دیئے بنا کہا۔‬
‫"مگر پرنس کیقاد! یہ تو عام سا لباس ہے اور ہے‬
‫بھی کالے رنگ کا اور اس لباس کا رواج نہیں ہے‬
‫یہاں۔‬
‫لوگ کیا کہیں گے؟"‬
‫ترنم نے کہا تو کیقاد نے سخت نظریں اس پہ‬
‫جمائیں۔‬
‫‪62‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"مگر اب سے رواج ہو گا۔"‬


‫وہ ہڑبڑا کر پلٹی۔‬
‫ملکہ ہیرل کو جب لباس پہنا دیا گیا۔‬
‫وہ چند پل بعد ہی سو چکی تھیں اور پرنس کیقاد‬
‫اپنی سلطنت کو بچانے کے لیے بارڈر پہ جا پہنچا‬
‫اسے پاشا سے اپنی سلطنت کی لڑکیوں کی حفاظت‬
‫کرنی تھی۔‬
‫وہ دونوں سلطنت سے ہزاروں میل دور کھلے‬
‫میدان میں آمنے سامنے کھڑے تھے۔‬
‫"کیقاد! تم مجھے ملکہ تک پہنچنے سے روک‬
‫نہیں سکتے خاتمے کی شب ملکہ ہیرل کے لیے‬
‫آخری شب ہو گی۔کافی حد تک تو وہ پہلے ہی ختم‬
‫ہو چکی ہیں۔‬
‫نفس سے جنگ وہ لڑ نہیں سکیں گیں۔"‬
‫پاشا ہنستے ہوئے چالیا تھا۔‬
‫"یہ تمہاری غلط فہمی ہے پاشا!‬

‫‪63‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ملکہ ہیرل تک تمہیں پہنچنے سے پہلے کیقاد کی‬


‫الش پر سے گزرنا پڑے گا۔"‬
‫اس نے چٹکی بجائی تو ہوا میں تلوار چمکی۔‬
‫"یہ نیک کام میں پہلے کروں گا۔"‬
‫اس نے منتر پڑھ کر ہاتھ پہ پھونک مارا تو ایک‬
‫بڑا سا پتھر جس کے اردگرد نوکیلے پتھر جڑے‬
‫تھے اس کے ہاتھ میں آیا۔‬
‫ان دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تھی۔‬
‫کبھی پاشا اس پہ تو کبھی وہ پاشا پہ وار کرتا۔‬
‫اس طرح کئی گھنٹوں تک جنگ جاری رہی اور‬
‫اس مرتبہ پاشا نے اس کے دل پہ وار کیا۔‬
‫وہ جانتا تھا اس کی جان صرف دل میں ہے جسم‬
‫کا کوئی حصہ اگر زخمی ہوتا تو کیقاد کو کچھ نہ‬
‫ہوتا۔‬
‫وہ دل پہ ہاتھ رکھ کر پیچھے گرتا گیا تلوار چھوٹ‬
‫کر زمین پر جا گری۔‬

‫‪64‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫رفتہ رفتہ کیقاد کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں۔‬


‫پاشا کے قہقہوں سے فضا گونج اٹھی تھی۔‬
‫"اب تو میں جا سکتا ہوں نہ پرنس کیقاد!"‬
‫وہ اڑتا ہوا اس کے قریب آیا اور جھک کر‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"افکورس جا سکتا ہوں۔‬
‫کیوں کہ تم تو مر چکے ہو۔"‬
‫ایک بار پھر سے اس کے دل پہ وار کیا تھا مگر‬
‫اس بار کیقاد کی اپنی تلوار سے ہی اس کے دل کو‬
‫چیرا گیا۔‬
‫ایک سانس لے کر وہ ڈھیر ہو گیا۔‬
‫سرخ آنکھوں سے خون کے آنسو نکل کر کانوں‬
‫تک گئے تھے۔‬
‫پاشا اونچی اونچی ہنستا چال گیا۔‬
‫"ارے ارے‪......‬یہ خاتمے کی شب تو تمہارے بھی‬
‫خاتمے کی شب بن گئی۔‬
‫‪65‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اب ہیرل نگری اور کوہ کاف کی ملکہ ہیرل کا کیا‬


‫ہو گا؟‬
‫اس کا جادو کون بچائے گا۔"‬
‫وہ مصنوعی دکھ سے کہتا جھکا اور کیقاد کو کک‬
‫مارتا پھر سے ہنسنے لگا۔‬

‫وہ لمحے مجھے یاد ہیں'تقدیر نے مالیا تھا‬


‫قسمت کی بدولت مگر' بدلے تھے راستے‬

‫وہ اپنے دوست کی برتھڈے پارٹی سے لوٹ رہا‬


‫تھا۔‬
‫رات کا ایک بج چکا تھا۔‬
‫ہلکی پھلکی سی بارش بھی ہو رہی تھی۔‬
‫اس کی کالی کار کی ہیڈ الئٹ ایک لڑکی پہ پڑی جو‬
‫سڑک کے کنارے تیز تیز چل رہی تھی۔‬

‫‪66‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"کہیں چڑیل تو نہیں۔"‬


‫اس نے گاڑی کی سپیڈ آہستہ کرتے ہوئے لڑکی‬
‫کے پیروں کو دیکھا جو سیدھے تھے اس نے‬
‫گہری سانس خارج کر کے گاڑی تھوڑی آگے‬
‫بڑھائی اور پھر پیچھلی الئٹ سے اس نے لڑکی کا‬
‫چہرہ دیکھا۔‬
‫"یہ لڑکی‪ ....‬اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے؟"‬
‫اسے وہ بہت ڈری ہوئی محسوس ہوئی تھی۔‬
‫وہ سوچ کر بریک پہ پاؤں مارتا اس سے دو قدم‬
‫کے فاصلے پر گاڑی روک چکا تھا۔‬
‫وہ کچھ ڈری سہمی تھی اور اپنے آہستہ ہوئے‬
‫قدموں کو تیز کرتی چل دی۔‬
‫" بات سنیں۔"‬
‫فخر نے اسے آواز لگائی۔‬
‫مگر وہ رکی نہیں۔‬
‫"پاگل لڑکی۔"‬

‫‪67‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫دانت پیس کر بڑبڑایا اور گاڑی سے اتر کر اس‬


‫کے پیچھے بھاگا۔‬
‫اس کے قدموں کی رفتار مزید تیز ہو چکی تھی وہ‬
‫کبھی پیچھے دیکھتی تو پھر سے تیز بھاگنا‬
‫شروع کر دیتی۔‬
‫اسی دوران وہ بہت بری طرح فٹ پاتھ پر گری‬
‫تھی۔‬
‫فخر نے اس سے تین قدموں کے فاصلے پر بریک‬
‫لگائی اور سانس بحال کرنے کی غرض لمبے‬
‫لمبے سانس لینے لگا۔‬
‫"میرے نزدیک مت آنا۔"‬
‫وہ کانپتی ہوئی آواز کو مضبوط کرنے کی کوشش‬
‫کرنے میں ناکام رہی تھی۔‬
‫"دیکھیں میں فخر ہوں۔"‬
‫"تو فخر ہو تو‪"......‬‬

‫‪68‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ بدلے میں چالتے ہوئے اٹھی تھی اور فٹ پاتھ‬


‫پہ پڑی مٹی اور بجری سے مٹھی بھر کر فخر کی‬
‫جانب اچھالتی پھر سے پلٹ گئی تھی۔‬
‫فخر اس کے ہاتھ کو فٹ پاتھ پر چلتے محسوس‬
‫کر چکا تھا اور آلرٹ ہو گیا جب اس نے یہ حرکت‬
‫کی تو وہ منہ پہ ہاتھ رکھ آنکھیں موند گیا تھا۔‬
‫"دیکھو میں تمہاری ہیلپ کرنا چاہتا ہوں۔"‬
‫وہ لنگڑاتے ہوئے چل رہی تھی یقینا ً پاؤں میں‬
‫گہری چوٹ لگی تھی۔‬
‫"مجھے تمہاری ہیلپ بلکل بھی نہیں چاہیے۔پتہ‬
‫نہیں کون ہو تم۔"‬
‫وہ تیکھے لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫"بتا تو چکا ہوں میں فخر ہوں۔ اب ہیلپ کرنے کے‬
‫لیے لکھ کر دوں کہ میں فخر ہوں۔"‬
‫"مسٹر فخر! تم میرے مامے کے صاحبزادے تو ہو‬
‫نہیں جو میری مدد کو اتنے بےتاب ہوئے جا رہے‬
‫ہو۔"‬
‫‪69‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ پلٹ کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔‬


‫اس کے لہجے میں غصہ تھا چہرے پہ ڈر' دل ہی‬
‫دل میں وہ مسکرایا۔‬
‫"کیوں مامے کے صاحبزادے ہی مدد کر سکتے‬
‫ہیں؟"‬
‫اس نے استفسار کیا۔‬
‫وہ منہ پھیر کر چل دی۔‬
‫"میرا پیچھا مت کرنا ورنہ چال چال کر سب کو بتا‬
‫دوں گی کہ‪".....‬‬
‫"کہ میں تمہارے مامے کا صاحبزادہ ہوں۔‬
‫جھوٹی مکار لڑکی۔"‬
‫اس کی بات درمیان میں کاٹ کر وہ مصنوعی‬
‫غصے سے بولتا جینز کی جیب میں ہاتھ گھسائے‬
‫اس کے پیچھے چل رہا تھا۔‬
‫"مجھے کوئی شوق‪.....‬آہ میرا پاؤں۔"‬

‫‪70‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ اسے جواب دینا چاہتی تھی تبھی بری طرح‬


‫لڑکھڑا کر گر گئی۔‬
‫"کچھ پل کے لیے مجھے اپنے مامے کا پتر ہی‬
‫سمجھ لو محترمہ۔"‬
‫وہ پیروں کے وزن پہ بیٹھ کر کوٹ کی جیب سے‬
‫فون نکال چکا تھا۔‬
‫اس نے بولنے کے لیے منہ کھوال تھا مگر جب‬
‫اس نے فخر کا چہرہ دیکھا تو خاموش ہو گئی۔‬
‫وہ اس کے پاؤں کا معائنہ کر رہا تھا اور وہ‬
‫مسلسل اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔‬
‫سلکی بال کچھ پیشانی پہ بکھرے تھے تو کچھ فلو‬
‫سٹائل میں سیٹ کئے گئے تھے۔‬
‫چہرے پہ سٹائلش برائیڈ عنابی ہونٹ بھینچے وہ‬
‫سر جھکا اس کے پاؤں کو چھوئے بغیر دیکھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫"لگتا ہے موچ‪"......‬‬

‫‪71‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے جب سر اٹھایا تو لڑکی کی نگاہوں کو خود‬


‫کو دیکھے پا کر خاموش ہوا وہ خجل سی ہو کر‬
‫سر جھکا گئی۔‬
‫شرمندگی سے الل ہوتی وہ اٹھنے لگی تھی مگر‬
‫پھر لڑکھڑا کر گرنے کو ہی تھی کہ فخر نے اس‬
‫کا ہاتھ تھام لیا۔‬
‫"تم یہاں ہی بیٹھو میں اپنی گاڑی لے کر آتا ہوں۔"‬
‫وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر تیزی سے پلٹا تھا اور فٹ‬
‫پاتھ پر دوڑتا چال گیا۔‬
‫"فخر الحسن! اس کے بارے میں جیسا سنا تھا‬
‫ویسے ہی ہیں۔"‬
‫وہ مسکرا کر تھوڑی گھٹنوں پر ٹکا گئی۔‬
‫ّٰللا میری مدد کر دی تو نے۔‬
‫"شکر ہے ہ‬
‫بیشک تو خالی ہاتھ نہیں موڑتا‬
‫اپنے بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔"‬

‫‪72‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ دل میں دعا کر رہی تھی تبھی فخر کی گاڑی‬


‫اس کے قریب آ رکی وہ باہر نکال تھا اور اس کی‬
‫جانب آیا۔‬
‫"چلیں۔"‬
‫فخر نے آگے بڑھ کر بائیں جانب واال دروازہ‬
‫کھوال۔‬
‫وہ آہستہ آہستہ چلتی جب گاڑی میں بیٹھ گئی تو‬
‫وہ دروازہ بند کرتا ڈرائیونگ سیٹ کی جانب آ گیا۔‬
‫سیٹ پہ بیٹھتے ہی اس نے ایک نظر ساتھ بیٹھی‬
‫لڑکی پہ ڈالی جو اب پر سکون تھی۔‬
‫اسے حیرانی ہوئی کہ وہ ب اتنی پرسکون کیسے‬
‫ہے؟‬
‫مگر شانے آچکا کر گاڑی سٹارٹ کر لی۔‬
‫راستے میں مسلسل اس لڑکی کی نگاہوں کو خود‬
‫پہ محسوس کرتا جب وہ اس کی جانب دیکھتا تو‬
‫وہ بڑی چاالکی سے نگاہوں کا رخ پھیر جاتی۔‬

‫‪73‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"پتہ نہیں اتنی رات کو یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟"‬


‫اس کے دماغ میں سوچ ابھری۔‬
‫"کیا نام ہے آپ کا؟"‬
‫"محبہ۔"‬
‫تیزی سے جواب دیا گیا۔‬
‫گالبی سادی شلوار قمیض میں ملبوس وہ سانولی‬
‫سی لڑکی شاید اس سے پہلی نظر میں محبت‬
‫کرنے لگی تھی؟‬
‫محبہ کی کالی موٹی آنکھوں میں کاجل کی گہری‬
‫لکیر بھلی لگ رہی تھی حاالنکہ سانولی رنگت‬
‫اور کاجل کا کوئی میچ نہیں۔‬
‫"میرے پاؤں میں بہت بری چوٹ آئی ہے۔"‬
‫اس نے جھک کر پاؤں دیکھنے کی کوشش کی‬
‫تھی مگر ناکام رہی۔‬
‫"میرے پاس فرسٹ ایڈ باکس ہے۔"‬

‫‪74‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫فخر نے جھک کر دراز کھوال اور باکس اس کی‬


‫جانب بڑھا دیا۔‬
‫"شکریہ۔ مگر ابھی آپ کو گاڑی روکنی ہو گی۔"‬
‫"کیوں؟"‬
‫مختصر استفسار کیا گیا۔‬
‫" ڈیٹول سے زخم صاف کرنا ہے تو‪"......‬‬
‫"اتنا بڑا زخم ہے؟"‬
‫اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر پوچھتے ہوئے‬
‫فخر نے ایک نظر اس پہ ڈالی تھی۔‬
‫"جی۔"‬
‫"تو پھر ہسپتال لے چلتا ہوں۔"‬
‫"نہیں نہیں میں پٹی کر لیتی ہوں۔ آپ ایک جانب‬
‫گاڑی کھڑی کریں۔"‬
‫اس کی بات پہ فخر نے سر ہالتے ہوئے روڈ سے‬
‫گاڑی اتار لی۔‬

‫‪75‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ پاؤں گاڑی سے باہر نکال کر پٹی کرنے کی‬


‫کوشش کر رہی تھی مگر جھک نہیں پا رہی تھی۔‬
‫"کیا کہیں اور بھی چوٹ آئی ہے؟"‬
‫"ن نہیں۔"‬
‫وہ ہڑبڑا کر سر جھکا گئی مگر فخر اس کے‬
‫چہرے پہ چھائی اذیت دیکھ چکا تھا۔‬
‫"میں ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ ہوں اور ہمیں‬
‫سیکھایا جاتا ہے کہ کوئی مریض ہو تو اس کی‬
‫ہیلپ کرنی چاہے۔مجھے دو میں پٹی کر دیتا ہوں۔"‬
‫فخر نے اپنا فون جینز کی جیب میں سے نکاال‬
‫اور اس کی جانب بڑھا۔‬
‫"نہیں نہیں میں کر‪"......‬‬
‫"یہ فون پکڑو' اور سمجھو کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں‬
‫اور تم مریض۔"‬
‫وہ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھتے ہوئے بوال۔‬
‫محبہ کے دل کی دھڑکن بڑھی تھی۔‬

‫‪76‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ فخر الحسن‬


‫اس کے سامنے آئے گا اور پھر پٹی بھی کرے‬
‫گا‪.....‬‬
‫یہ سب اس کے لیے ایک خواب کی طرح تھا۔‬
‫اور وہ اسے آنکھیں کھولے دیکھتی رہی۔‬
‫فخر کا ہاتھ اور توجہ ایک ڈاکٹر کی ماند ہی پاؤں‬
‫پر تھے۔‬
‫مگر محبہ کی نگاہوں کو وہ اپنے چہرے پہ‬
‫محسوس کر سکتا تھا۔‬
‫"فخر!"‬
‫اپنے شانے پہ تھپکی محسوس کر کے وہ بری‬
‫طرح چونکا اور حال میں واپس لوٹا۔‬
‫"میں نے اس دن کنٹین میں اس کی انسلٹ کر کے‬
‫اچھا نہیں کیا تھا شہزاد!‬
‫وہ تو بہت پہلے ہی مجھ سے محبت کر چکی‬
‫تھی۔"‬

‫‪77‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس کی نگاہوں کے سامنے محبہ کی وہ صورت‬


‫آئی جب کنٹین میں وہ رو رہی تھی۔‬
‫تب اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا مگر آج ایک‬
‫سال بعد اسے اپنی محبت جب خود سے دور جاتی‬
‫محسوس ہوئی تو اس کو ڈر لگا تھا۔‬
‫ساری بات شہزاد کو سنا کر وہ کرسی پہ گر گیا۔‬
‫"یار! وہ اس دن وہاں روڈ پہ پہنچی کیوں تھی یہ‬
‫نہیں پوچھا؟"‬
‫شہزاد نے استفسار کیا تو اس نے نفی میں سر‬
‫ہالیا۔‬
‫شہزاد افسردگی سے اسے تکتا رہ گیا۔‬
‫"اتنے سال پہلے کی بات اسے یاد تھوڑی ہو‬
‫گی۔اچھا چلو اٹھو ہیرا کی تقریر شروع ہونے والی‬
‫ہے۔"‬
‫اس نے اس کی افسردگی بھاگنے کی غرض سے‬
‫کہا۔‬

‫‪78‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫جبکہ وہ جانتا تھا محبت ایک بار ہو جائے تو‬


‫بھولتی نہیں۔‬
‫"کیقاد! میری بات غور سے سنو!‬
‫اگر تم ملکہ ہیرل کی جانب نہیں دیکھو گے تو وہ‬
‫ٹھیک رہیں گی۔‬
‫جب تک تم وہ پوشاک نہیں بنا لیتے جو تم بنا‬
‫رہے ہو۔‬
‫تب تک تمہیں ان سے نظریں نہیں مالنی۔‬
‫ولی بابا نے بھی یہ بات کا پتہ لگا لیا ہے کہ ان پہ‬
‫پاشا نے ہی قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔"‬
‫کیف کی آواز گونجی تھی۔‬
‫"ٹھیک ہے میں اس بات کا خیال رکھوں گا ۔"‬
‫سرد سانس فضا کے سپرد کر کے وہ پھر سے‬
‫سامنے دیکھنے لگا کینچی ‪،‬سوئی‪ ،‬دھاگے سب‬
‫خود بخود فضا میں تنے کپڑے پہ چل رہے تھے۔‬

‫‪79‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ملکہ ہیرل! تمہاری سٹی گم ہو جائے گی' میرے‬


‫بنائے گئے لباس کو دیکھ کر۔"‬
‫"پرنس کیقاد! پہلے لباس تو تیار کر لو ابھی تو‬
‫تمہاری خود کی سٹی گم ہے۔"‬
‫اس نے ملکہ کی آواز سنی تو چونکا۔‬
‫"جاسوس عورت یہاں بھی پیچھے پہنچ گئی۔"‬
‫"کیوں تم مریخ پہ رہتے ہو؟"‬
‫دیوار پھٹی تھی اور ملکہ ہیرل سیڑھیاں اترتی اندر‬
‫داخل ہوئیں۔‬
‫"اگر وہاں رہتا تو تب آپ وہاں بھی پہنچ جاتیں۔‬
‫جلدی سے یہ لباس بنے اور میری جان چھوٹے۔"‬
‫وہ بس سوچ رہا تھا۔‬
‫"اور یہ عورت تم ِکسے کہہ رہے ہو ہم ابھی‬
‫اٹھارہ برس کی ہوئی ہیں۔"‬
‫"کیا بات ہے ملکہ ہیرل! آج ہم غریبوں کے گھر‬
‫کیسے آنا ہوا؟"‬
‫‪80‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"دیکھنے آئی تھی کیا کر رہے ہو۔"‬


‫"دیکھ لیا ذلیل ہو رہا ہوں۔"‬
‫وہ اسے دیکھنے سے پرہیز کر رہا تھا مگر ہیرل‬
‫کی نگاہیں بھٹک بھٹک کر اس کے چہرے پہ جا‬
‫ٹھہرتیں۔‬
‫"مگر ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ تم ذلیل ہوتے‬
‫رہو۔خیر ہمیں ایمپریس کرنا کوئی آسان کام ہے۔"‬
‫وہ گردن اکڑا کر بولی۔‬
‫"آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ میں اس سلطنت کی ملکہ‬
‫ہیرل کو بچانے کے لیے کر رہا ہوں۔"‬
‫وہ اس سے رخ پھیر گیا تھا۔‬
‫جبکہ ہیرل آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کے پیچھے‬
‫جا کھڑی ہوئی‬
‫اس کو کیقاد کی موجودگی 'خوشبوئیں ہوش‬
‫کھونے پہ مجبور کر رہی تھی۔‬

‫‪81‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ملکہ ہیرل! سنبھالیں خود کو ہماری محبت کا‬


‫دامن تھام کر رکھیں مگر اپنا دامن داغ دار نہ‬
‫کریں۔"‬
‫وہ اس کی موجودگی اپنی پشت پہ پا کر دو قدم‬
‫آگے بڑھا تھا۔‬
‫وہ ہڑبڑا کر رہ گئی۔‬
‫"ہماری جانب دیکھ کر بات کرو کیقاد!"‬
‫وہ تیزی سے اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی‬
‫مگر کیقاد نے آنکھیں موند لیں۔‬
‫"نہیں ملکہ ہیرل! ہمیں مجبور نہ کریں۔ جائیں یہاں‬
‫سے۔"‬
‫وہ دائیں جانب بڑھ گیا مگر ہیرل کا ہاتھ اس کے‬
‫جلتے ہاتھ پہ آ ٹھہرا تھا۔‬
‫وہ بھی آگ بنی بیٹھی تھی۔‬
‫کیقاد نے لمحے کے ہزارویں حصے میں کچھ‬
‫پڑھ کر اپنے ہاتھ پہ پھونک مارا ہیرل کا ہاتھ‬

‫‪82‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫پیچھے ہٹا اور وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے‬


‫لگا۔‬
‫ہیرل کے دل میں آگ سی جلنے لگی تھی۔‬
‫کیقاد اسے اگنور کیسے کر سکتا تھا۔‬
‫اس نے کچھ پڑھ کر چٹکی بجائی مگر جادو نہ‬
‫چال۔‬
‫"کیقاد! اگر آج تم مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو‬
‫میں خود کو ختم کر لوں گی۔"‬
‫اس نے دھمکی دی تھی۔‬
‫کیقاد دروازہ بند کرنے کو تھا جب وہاں ہی تھم کر‬
‫رک گیا۔‬
‫کمر بندھ سے چاکو نکال کر اس نے اپنے دل پہ‬
‫رکھا تھا۔‬
‫منہ ہی منہ میں وہ کوئی منتر پڑھ رہی تھیں۔‬
‫شاید خود کو ختم کرنے کی کوشش‬
‫"یہ پاگل پن اچھا نہیں ہے ملکہ ہیرل!"‬
‫‪83‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے سر جھکا کر دروازے پہ زور سے ہاتھ‬


‫مارا تھا۔‬
‫ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لیے سر کو خم دے کر‬
‫ہیرل نے اپنے دل پہ چاکو کا دباؤ بڑھایا تھا۔‬
‫ایک خون کا قطرہ نکل کر سفید پوشاک کو داغ دار‬
‫کر گیا۔‬
‫دوسری جانب درد کیقاد کے دل پہ ہوا تھا۔ مگر یہ‬
‫درد اس کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔‬
‫"ہیرل! ابھی تمہیں یہاں سے جانا ہو گا میں بہت‬
‫جلد آؤں گا تمہارے پاس۔"‬
‫اس نے بےبسی سے رخ پھیرا تھا۔‬
‫"نہیں تم ابھی میری جانب دیکھو۔"‬
‫کچھ تھا جو اسے ضدی بنا رہا تھا۔‬
‫کیقاد نے چٹکی بجائی تو اس کے ہاتھ میں پکڑا‬
‫چاکو ہوا میں اچھل گیا۔‬

‫‪84‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے پھر سے کچھ پڑھ کر ہیرل پہ پھونک‬


‫ماری تھی اور وہ دیکھتے دیکھتے ہوش کھو‬
‫گئی۔‬
‫کیقاد نے اشارے سے ہی اسے اڑنے والے قالین‬
‫پہ ڈال کر قالین کو حکم دیا کہ ملکہ کو محل پہنچا‬
‫دیا جائے۔‬
‫اس نے اپنے دل پہ ہوئے زخم پر ہاتھ پھیرا تو وہ‬
‫اب کوئی نشان نہ تھا۔‬
‫دوسری جانب اڑتے قالین پہ لیٹی ملکہ کے سینے‬
‫پہ ہوا سوراخ خودبخود غائب ہو گیا۔‬
‫کچھ دیر وہ یوں ہی حیران پریشان کھڑا رہا پھر‬
‫پلٹ کر بیڈ پہ آرام کرنے لگا۔‬
‫کچھ دیر بعد سب ہال میں جمع ہو چکے تھے وہ‬
‫آخری نشیست پہ براجمان تھی۔‬
‫"اوہ شیٹ‪.....‬یہ فخر سٹیج پہ کیا کر رہا ہے‬
‫تقریر تو ہیرا نے کرنی تھی۔"‬

‫‪85‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫سٹیج پہ جب ڈائس کے سامنے فخر آن کھڑا ہوا‬


‫تو قیصر سر تھام کر رہ گیا۔‬
‫اس نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا محبہ آرام‬
‫سے بیٹھی فخر کو ہی دیکھ رہی تھی۔‬
‫وہ شانے آچکا کر سیدھا ہو بیٹھا۔‬
‫کچھ دیر بعد فخر کی تقریر شروع ہوئی تھی اور‬
‫محبہ اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫وجہ یہ تھی کہ ہیرا فخر کے ساتھ آن کھڑی ہوئی‬
‫تھی اور وہ دونوں مل کر اس تقریر میں حصہ لے‬
‫رہے تھے۔‬
‫اس کے سامنے ہی فخر نے جب ہیرا کو حجاب‬
‫کرنے کو کہا تو اس نے بنا کوئی چوں چاں کیے‬
‫حجاب کر لیا۔‬
‫محبہ کو حیرانی ہوئی‪......‬اور اب وہ فخر کے‬
‫ساتھ کھڑی۔‬
‫"نو ویلنٹائن ڈے آئی ایم مسلم" پہ بول رہی تھی۔‬

‫‪86‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫مگر اس نے سر جھٹکا اور آگے بڑھتی رہی اسے‬


‫سس تھا۔‬
‫تج ّ‬
‫وہ جاننا چاہتی تھی کہ اسے کیا گفٹ ملنے واال‬
‫ہے فخر کی جانب سے۔‬
‫کیا وہ واقع ہی فخر ہے؟‬
‫کیا وہ بھی میرے متعلق سوچتا ہے؟‬
‫وہ سوچتے ہوئے اپنے دھیان میں چل رہی تھی۔‬
‫جب سامنے سے اویس اور اس کے ساتھی آتے‬
‫دکھائی دیئے۔‬
‫وہ راستہ بدلنا چاہتی تھی آس پاس کوئی نہ تھا۔‬
‫اور وہ واپس پلٹی تبھی ان تینوں کے قدم بھی‬
‫تیزی سے اس کے پیچھے بڑھے تھے۔‬
‫"کہاں جاؤ گی۔ اب کی بار کون بچائے گا تمہیں؟‬
‫پچھلی بار تو تم بچ گئی تھی اب کی بار نہیں۔"‬
‫اویس نے اسے تھام کر منہ پہ اپنا ہاتھ دھرے‬
‫ایک کالس روم میں کھینچ لیا تھا۔‬
‫‪87‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ اس کی گرفت میں تڑپ رہی تھی۔‬


‫اسے وہ دن نہیں بھوال تھا جب الئبریری میں وہ‬
‫تنہا بیٹھی ڈاکومنٹس بنا رہی تھی۔‬
‫"ہائے سویٹ ہارٹ۔"‬
‫اویس اس کے ساتھ والی کرسی پہ آ بیٹھا۔‬
‫وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔‬
‫"ارے کہاں جا رہی ہو بیٹھو تو۔"‬
‫اس نے محبہ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔‬
‫وہ ڈر کے مارے بول بھی نہیں پا رہی تھی۔‬
‫سوچا تھا یہاں ہی سارے نوٹیفکیشن بنا ڈالے گی‬
‫مگر اویس اس کو تنہائی میں ڈھسنا چاہتا تھا‬
‫تبھی موقع کی تالش میں اس کے پیچھے گھومتا‬
‫تھا۔‬
‫وہ اس کی گھٹیا حرکتوں سے واقف تھی۔‬
‫ہر لڑکی پہ نظر رکھنا بات کرنا اویس کا پسندیدہ‬
‫مشغلہ تھا۔‬
‫‪88‬‬
‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"م مجھے چھوڑ دو۔"‬


‫وہ ڈرتے ڈرتے بولی تھی۔‬
‫"چھوڑ دوں گا یار! ابھی تو پکڑا ہے۔"‬
‫وہ بہکا تھا۔‬
‫اس کا ہاتھ بہت آہستہ آہستہ محبہ کے شفاف‬
‫چہرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ چھوتا اس کا ہاتھ ہوا میں ہی‬
‫فخر نے تھام لیا۔‬
‫"سوچنا بھی مت۔"‬
‫زور کا پنچ اویس کی رخسار پہ آن پڑا تھا اور وہ‬
‫لڑکھڑا کر پیچھے جا گرا۔‬
‫"تمہاری اتنی ہمت کہ تم مجھ پہ ہاتھ اٹھا رہے‬
‫ہو۔"‬
‫وہ دھاڑتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔‬
‫اور پھر وہ دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔‬
‫محبہ ہونٹوں پر ہاتھ دھرے۔‬
‫‪89‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫خوف زدہ سی آنکھیں پھیالئے ان دونوں کو دیکھ‬


‫رہی تھی۔‬
‫اب اویس زمین پہ تھا اور فخر اس کے اوپر بیٹھا‬
‫مسلسل اس کے چہرے پہ تھپڑ رسید کر رہا تھا۔‬
‫"فخر! چھوڑ دو اسے۔مر جائے گا وہ۔"‬
‫ہوش میں آتے ہی وہ چالئی تھی۔‬
‫مگر وہ کہاں سننے واال تھا۔‬
‫وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچی اور اس کا بازو‬
‫پکڑ کر کھینچا۔‬
‫"چھوڑ دو۔آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی۔"‬
‫اویس درد کی شدت سے کہراتے ہوئے بوال۔‬
‫"اگر اب میں نے تمہیں کسی بھی لڑکی کے گرد‬
‫منڈالتے دیکھ لیا تو بہت برا ہو گا۔"‬
‫اسے وارنگ دے کر وہ اٹھا اور شرٹ جو اویس‬
‫نے پھاڑ دی تھی اتار کر اس پہ ہی پھینکتا پلٹ‬
‫گیا۔‬

‫‪90‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫محبہ خوف زدہ سی اویس کو دیکھ رہی تھی جو‬


‫پیٹ پکڑے کہرا رہا تھا۔‬
‫"چلو یہاں سے اب اس کے مرنے کا انتظار کرو‬
‫گی؟"‬
‫فخر کی گرج دار آواز پہ وہ سہم گئی۔‬
‫پلٹی اور اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے الئبریری‬
‫سے نکل گئی۔‬
‫"کیا کچھ یاد آیا؟‬
‫اب میں نے تمہارا وہ ہی حال کرنا ہے جو اس نے‬
‫میرا کیا تھا۔"‬
‫چٹکی بجا کر اس نے محبہ کو ہوش دالیا۔‬
‫محبہ نے خوف سے کانپتے وجود پہ قابو پاتے‬
‫ہوئے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫"نہ بےبی چلو اب خود کو برباد ہوتے دیکھو۔"‬
‫وہ اس کو اپنے نزدیک کر چکا تھا محبہ سختی‬
‫سے آنکھیں میچ گئی بند آنکھوں کے پیچھے‬

‫‪91‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫آنسو تھے اور فخر الحسن جس سے وہ محبت‬


‫کرتی تھی۔‬
‫"صرف تمہاری بدولت ہی میں اور فخر دشمن بنے‬
‫نہیں تو اچھے بھلے دوست تھے۔‬
‫بیواقوف سے میں نے کہا بھی تھا کہ مل کر موج‬
‫مستی کریں گے پر نہیں وہ تو ہے ہی نامرد۔"‬
‫اس کی باتوں پہ محبہ مٹی میں دھنستی چلی گئی۔‬
‫اویس نے محبہ کا دوپٹہ اتار کر دور پھینکا تھا‬
‫اور اس کا ہاتھ اب اس کے چہرے کی جانب بڑھ‬
‫رہا تھا اس کے دوستوں کی نظروں میں اور‬
‫ہونٹوں پر شیطانی ہنسی تھی۔‬
‫اتنے میں دروازہ زور زور سے پیٹا گیا۔‬
‫وہ تینوں ہڑبڑا گئے تھے۔‬
‫اس سے پہلے کہ کچھ سوچتے فخر نے کھڑکی‬
‫کے شیشے ٹوٹ دیئے اور چھالنگ لگا کر کمرے‬
‫میں داخل ہوا۔‬

‫‪92‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اویس اور اس کے دوستوں کے رنگ اڑ گئے‬


‫اچانک سے فخر کہاں سے آ گیا اور پیچھے‬
‫پیچھے قیصر اور اس کے دروازہ کھولنے پہ‬
‫شہزاد۔‬
‫"تجھے وارنگ دی تھی نہ کہ کسی کی بہن کی‬
‫عزت کی جانب ہاتھ مت کرنا‬
‫سمجھ نہیں آئی تھی بات؟"‬
‫فخر نے دوپٹہ پکڑ کر محبہ کے گرد لپیٹا دیا تو‬
‫وہ تیزی سے دوپٹہ تھام کر شرمندگی سے سر‬
‫جھکائے وہاں سے بھاگ نکلی تھی۔‬
‫"فخر! ہم اسے سنبھال لیں گے تم محبہ کے‬
‫پیچھے جاؤ۔‬
‫وہ کچھ کر نہ لے۔"‬
‫قیصر نے کہا تو وہ لب بھینچے سر ہال کر اس‬
‫کے پیچھے بھاگا۔‬

‫‪93‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ہاں جاتے جاتے اویس کو ایک پنچ مار ضرور گیا‬


‫تھا۔‬
‫"محبہ! بات سنو کہاں جا رہی ہو؟‬
‫پاگل مت بنو۔"‬
‫وہ اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور وہ مسلسل‬
‫بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔‬
‫ارادہ چھت سے کود کر خودکشی کرنے کا تھا یہ‬
‫سوچ کر فخر کے اوسان خطا ہو گئے۔‬
‫"محبہ! پلیز رکو۔"‬
‫اس نے اپنی رفتار تیز کی اس سے پہلے کہ وہ‬
‫منڈر تک پہنچتی فخر نے اسے تھام کر اپنی جانب‬
‫گھما کے‬
‫پٹاخ‪......‬‬
‫زور کا تھپڑ اس کی رخسار پہ آیا تھا اور وہ‬
‫لڑکھڑا کر اس کی باہوں میں ہی گری۔‬

‫‪94‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"پاگل ہو کیا خودکشی کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی‬


‫ہو؟"‬
‫شانوں سے تھام کر کرخت لہجے میں کہا گیا۔‬
‫"مر جانے دو مجھے۔"‬
‫اس کے ہاتھوں کو جھٹک وہ چالئی تھی۔‬
‫آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر رخساروں کو تر‬
‫کر رہے تھے۔‬
‫"منہ بند کرو محبہ!"‬
‫وہ اس کا بازو دبوچ کر چالیا تھا۔‬
‫"اگر ایک مرتبہ بھی ایسی بات منہ سے نکالی تو‬
‫میں خود تمہیں اس بلڈنگ سے نیچے دھکیل دوں‬
‫گا۔"‬
‫انگلی دکھا کر کہتا وہ اس کو ایک جھٹکے سے‬
‫چھوڑ دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔‬
‫چند پل کی خاموشی کو محبہ کی آواز نے چیرا تھا۔‬

‫‪95‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"میں تو خوبصورت بھی نہیں ہوں اور میرا رنگ‬


‫دیکھو کالی ہوں‪......‬م میں اتنی حسین تو نہیں‬
‫پھر وہ کیوں میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔"‬
‫وہ دکھ سے چور لہجے میں کہتی وہاں ہی ڈھے‬
‫گئی۔‬
‫بکھرے سلکی بال چہرے پہ آ ٹھہرے۔‬
‫"تمہیں لگتا ہے کہ نفس خوبصورتی چاہتا ہے؟‬
‫بیواقوف ہو تم ضرورت کبھی کچھ نہیں دیکھتی۔"‬
‫وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس سے کچھ فاصلے پر‬
‫بیٹھ گیا۔‬
‫سانس بحال کرتے ہوئے وہ پھر سے گویا ہوا۔‬
‫"یہ جو آج کل محبت کا دور چال ہے تمہیں لگتا‬
‫ہے یہ کچھ دیکھتا ہے۔‬
‫جیسے محبوب کی سریلی آواز۔‬
‫بال' آنکھیں' یا دل یا پھر سچی محبت۔‬
‫نہیں بلکل بھی نہیں۔‬
‫‪96‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫محبہ! یہ دنیا اب تباہی کے بہت نزدیک ہے۔‬


‫اس تباہی سے ہر ایک کو خود بچ کر رہنا ہے۔"‬
‫وہ اس کو نہیں دیکھ رہا تھا جبکہ وہ اسے ہی‬
‫دیکھ رہی تھی۔‬
‫"ایک یہ ویلنٹائن ڈے بھی بہت بڑی تباہی ہے۔‬
‫جھوٹ فریب' مکاری' دھوکہ دہی' نفس پرستی۔‬
‫سارے کھیل ہی تو لوگ کھیلتے ہیں۔‬
‫اور اس کھیل میں سب سے زیادہ ہار عورت کو‬
‫حاصل ہوتی ہے۔"‬
‫وہ نرمی سے کہتا اسے دیکھ رہا تھا۔‬
‫وہ سر جھکائے خاموشی سے اسے سن رہی‬
‫تھی۔‬
‫"اور مجھے معلوم ہے اویس میری بدولت ہی‬
‫تمہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔"‬
‫وہ شرمندگی سے سر جھکا گیا۔‬
‫"اویس کو تم نے دشمن نہیں بنایا۔"‬
‫‪97‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫بالوں کو سمیٹ کر سر اٹھایا فخر نے بھی اسے‬


‫دیکھا تھا۔‬
‫"کیا مطلب؟"‬
‫"ایک سال پہلے جب۔"‬
‫اس نے کہنا شروع کیا تو فخر کی پیشانی پر‬
‫بےشمار بل پڑتے گئے چہرے کے رنگ بدلنے‬
‫لگے تھے۔‬
‫"تمہارا بھائی ہے؟"‬
‫جب وہ بول کر خاموش ہو گئی تو وہ سنجیدگی‬
‫سے گویا ہوا محبہ نے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫"تو پھر تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"‬
‫"تم میرے بھائی بننا چاہتے ہو؟"‬
‫اس کے معصومانہ سوال پہ فخر نے لب بھینچے۔‬
‫وہ اس کی تیکھی نظروں کی تاب نہیں ال سکی‬
‫تھی۔‬
‫سانولی رخساروں پر اللی بکھرتی گئی۔‬
‫‪98‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"اگر تم اس دن مجھے سچ سچ بتا دیتی تو شاید‬


‫میں مدد کر دیتا۔"‬
‫اس کی بات پہ وہ زخمی مسکراہٹ ہونٹوں پر‬
‫سجائے سر جھکا گئی۔‬
‫"شاید‪.....‬؟"‬
‫"ہوں شاید‪".......‬‬
‫وہ اس سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا تھا۔‬
‫تب وہ اسے بلکل بھی نہیں جانتا تھا مگر اگر وہ‬
‫مدد مانگتی تو وہ ضرور کرتا۔‬
‫"اچھا اب سمجھداری سے کام لو۔‬
‫میں اب اویس کو نہیں چھوڑوں گا اور۔"‬
‫وہ ہاتھوں کو جھاڑ کر اٹھا تھا۔‬
‫"اور اب تمہیں سوچنا ہے کہ عزت کو کیسے‬
‫سالمت رکھا جائے۔‬
‫سوچو کہ تم کیسے سالمت رکھ سکتی ہو اس ایک‬
‫جادو کو جیسے عزت کہتے ہیں۔‬
‫‪99‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اگر یہ جادو ہے تو ہم دنیا فتح کر سکتے ہیں۔"‬


‫وہ کہہ کر رکا نہیں تھا بلکہ جا چکا تھا۔‬
‫اور وہ کھوئی کھوئی سی گھٹنوں پہ سر ٹکائے‬
‫اس کی پشت دیکھتی رہ گئی۔‬

‫الئبریری میں بھی اس کو لے کر بحث جاری تھی۔‬


‫"کیا وہ جادوگر ہے؟"‬
‫سنتے ہی اک لڑکی نے دل پکڑا۔‬
‫"ہاں وہ ہے‪ .......‬ذیشان اور کومل کے ساتھ کیا‬
‫ہے جادو۔"‬
‫دوسری نے رازداری سے کہا۔‬
‫"چلو چلتے ہیں۔"‬
‫"میں تو پوچھوں گی کہ پرسوں میرے لیے سہیل‬
‫نے کیا سرپرائز پالن کیا ہے۔"‬

‫‪100‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ چہک کر اٹھی اور کتابیں اٹھا کر دوسری لڑکی‬


‫کے پیچھے چل دی۔‬
‫"جادو‪.......‬؟"‬
‫ان دونوں لڑکیوں کے پیچھے والی کرسی پہ وہ‬
‫بیٹھی تھی۔‬
‫نظر کا چشمہ اتار کر گردن گھمائی۔‬
‫اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں لگی کاجل کی‬
‫لکیر'ہونٹوں کا گالبی پن' شفاف گندمی رنگت‬
‫کھلے بالوں نے اس کے چہرے کو چھپایا تھا‬
‫نرمی سے ہاتھ پھیر کر بالوں کو سمیٹ کے شانے‬
‫پہ ڈاال اور پھر سے سامنے کھلی کتاب کی جانب‬
‫متوجہ ہوئی۔‬
‫"محبہ! چلو وہاں کنٹین میں تو میلہ لگا ہوا ہے۔‬
‫قیصر جو کہتا ہے وہ سچ ہو رہا ہے۔"‬
‫ہیرا نے اسے پکڑ کر کھینچا۔‬
‫"ارے صبر کرو یار! کھینچو تو مت آ رہی ہوں۔"‬

‫‪101‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ نرمی سے بازو چھڑوانے کے بعد دوپٹہ گلے‬


‫میں درست کرتی اس کے ساتھ ہو لی۔‬
‫"ملکہ ہیرل! ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟"‬
‫وہ مصنوعی گھبراہٹ لیے بوال۔‬
‫ملکہ ہیرل جو سنگھار کے سامنے کھڑی تھی۔‬
‫اس کی جانب گھوم گئی۔‬
‫کیقاد کی الل آنکھیں اسے ہمیشہ ہی خود میں جکڑ‬
‫لیتی تھیں۔‬
‫اسی وجہ سے وہ اس کے سامنے کم ہی جاتی۔‬
‫وہ کئی پل اسے دیکھتی رہی پھر مسکرا کر گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"آئیں پرنس کیقاد!‬
‫نشیت سنبھالیں۔"‬
‫وہ اس کے سامنے سے گزرتا صوفے پہ‬
‫شہزادوں کے انداز میں بیٹھ گیا۔‬
‫"آج تم مجھے زہر نہیں لگ رہے پرنس کیقاد!"‬
‫‪102‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ سوچ کر ہی مسکرا دی تھی۔‬


‫"دیکھو ہمارے درمیان کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔‬
‫اور بے مقصد کی غلط فہمیاں ایک طرف رکھ کر‬
‫ہمیں اپنی سلطنت کے لیے مل کر ایک جنگ لڑنی‬
‫ہے۔"‬
‫اس نے کہنا شروع کیا۔‬
‫"پچھلی مرتبہ آپ نے جو الزام مجھ پہ لگایا تھا‬
‫کہ تمہارے آدمیوں کو وہ زہر میں نے دیا ہے وہ‬
‫کیا تھا؟‬
‫اب کی بار اگر جنگ میں کوئی مارا گیا پھر تم‬
‫مجھے ہی قصوروار ٹھہراؤ گی۔"‬
‫وہ بھی پرنس کیقاد تھا۔‬
‫"وہ تو اس لیے کیا تھا کہ‪......‬مجھے تمہاری‬
‫پاورز سے خوف آتا تھا۔‬
‫کہیں تم ہیرل نگری پہ قبضہ نہ کر لو۔‬
‫خیر اب ویسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔"‬

‫‪103‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"میں ایک الوارث ہوں قبضہ کر کے کیا کروں گا۔"‬


‫اس کی الل آنکھوں میں اداسی ابھری تھی۔‬
‫ملکہ ہیرل کے تن بدن میں بھی اداسی پھیلی۔‬
‫وہ آنکھیں موند کر اسے سوچنے اور دیکھنے‬
‫سے پرہیز کرتی رخ پھیر گئی۔‬
‫"الوارث کا رونا مت رویا کرو پرنس کیقاد!‬
‫ہم بھی ماں باپ کھو چکے ہیں۔‬
‫چھوڑو اس بات کو تم‬
‫مجھے بس ایک بات بتاؤ‪.....‬‬
‫ہم مل کر اپنی سلطنت کی حفاظت نہیں کر‬
‫سکتے؟"‬
‫چند پل کی خاموشی کے بعد اس نے کہا۔‬
‫"جی ضرور مگر بارڈر پر لڑنے کے لیے میں‬
‫کافی ہوں۔‬
‫آپ عورت ہیں محل تک محدود رہیں۔"‬

‫‪104‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے جتانا ضروری سمجھا تھا۔‬


‫مگر اس بار ملکہ ہیرل غصے میں نہیں آئی تھی۔‬
‫"مجھے خبر ملی ہے کہ پرنس پاشا ہماری‬
‫حکومت پہ حملہ کرنے واال ہے۔‬
‫بہت سی جوان لڑکیوں کے جادو ختم ہونے کا‬
‫اندیشہ ہے۔ "‬
‫وہ اپنا دھیان اس پر سے ہٹانے کی کوشش میں‬
‫تھی مگر نگاہیں خود بخود اس کی جانب اٹھیں'‬
‫جب نظریں چار ہوتیں تو وہ گھبرا کر سر جھکا‬
‫لیتی۔‬
‫"آپ کو کس نے یہ خبر دی؟"‬
‫اس نے حیرت سے استفسار کیا۔‬
‫"اس کے محل سے پیغام آیا تھا کہ خاتمے کی‬
‫شب وہ ہماری نگری کی جوان و خوبصورت‬
‫لڑکیوں پہ قبضہ کرے گا۔‬
‫میں ایسا ہونے نہیں دوں گی۔‬

‫‪105‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس کام کے لیے مجھے تمہاری اور تمہارے‬


‫ساتھیوں کی ضرورت درپیش ہے۔"‬
‫"اوہ تو پاشا ہمیں گمراہ کرنا چاہتا ہے تاکہ ہمارا‬
‫دھیان کہیں اور بھٹک جائے اور وہ ملکہ تک پہنچ‬
‫سکے۔"‬
‫وہ تشویش سے سوچ رہا تھا۔‬
‫"ویسے آج ہمارے سامنے آپ نے دل کی بات‬
‫کیسے کہہ دی ملکہ ہیرل!‬
‫جبکہ ہماری تو آپس میں بنتی ہی نہیں۔"‬
‫اس کے مسلسل دیکھنے پہ وہ چونکا اور پھر‬
‫شریر لہجے میں گویا ہوا۔‬
‫ملکہ ہیرل ہڑبڑا کر رخ پھیر گئی۔‬
‫"کچھ نہیں اب تم جاؤ۔"‬
‫وہ پلٹی اور اسی دوران اس کا دوپٹہ پیچھے سے‬
‫سرک کر پیروں میں جا گرا۔‬

‫‪106‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫تنگ گاؤن کا گال پیچھے سے کافی حد تک کھال‬


‫تھا کیقاد لب بھینچ کر سر جھکا گیا۔‬
‫"ملکہ ہیرل! اپنا آنچل سنبھالیں۔‬
‫ہم سلطنت سنبھال لیں گے۔"‬
‫اٹھ کر اس کا دوپٹہ سر پہ دیا اور پھر پلٹ گیا۔‬
‫چٹکی بجا کر وہ وہاں سے غائب ہوا تھا اور ملکہ‬
‫ہیرل اس جگہ کو تکتی رہ گئی جہاں وہ کچھ دیر‬
‫پہلے کھڑا تھا۔‬
‫"ہمیں اپنی سہیلیوں کو خاتمے کی شب سے بچانا‬
‫ہو گا۔ مگر کیسے؟‬
‫کسی کے دل پہ تو میں قبضہ نہیں کر سکتی۔‬
‫یہ کام صرف ایک مرد کر سکتا ہے مگر کوئی‬
‫طریقہ تو ہو گا؟ "‬
‫وہ کیقاد کا چہرہ نگاہوں میں سے جھٹک کر پلٹی‬
‫اور اپنے سنگھار کے سامنے جا بیٹھی۔‬

‫‪107‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ‬


‫اچانک سے پرنس کیقاد اس کے لیے اتنا اہم‬
‫کیسے ہو گیا۔‬
‫جب وہ اس سلطنت میں ایک رکھوالے کے درجے‬
‫سے آیا تھا تو ہیرل نے اسے دیکھا تک نہ تھا۔‬
‫جب دیکھا تو وہ کمزور پڑنے لگی مگر پھر اس‬
‫نے کیقاد کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا۔‬
‫کیونکہ یہ اس نگری کا اصول تھا اگر کوئی عورت‬
‫کسی غیر مرد کو سوچتی تو اس کی پاورز سب‬
‫ختم ہونے لگتا۔‬
‫اس کی پاورز سے وہ خوف کھاتی تھی کہ کہیں‬
‫وہ ہیرل کو خذباتی طور پر قبضے میں لے کر ختم‬
‫کر کے اس نگری پہ راج نہ کرے۔‬
‫"میری باری‪".....‬‬
‫"میری باری‪".....‬‬

‫‪108‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہاں سب پاگل جمع تھے اور قیصر پاگلوں کا‬


‫سردار کرسی پہ بیٹھا تھا۔‬
‫فخر یہ سوچ کر مسکرایا اور مڑ گیا۔‬
‫تبھی سامنے سے آتی محبہ کا شانا اس کے شانے‬
‫سے ٹکرایا تھا وہ بنا دھیان دیئے گزر گئی جبکہ‬
‫وہ وہاں رک کر ہی پلٹا تھا۔‬
‫اس کا ریشمی دوپٹہ ڈھلک کر فخر کے کف کے‬
‫بٹن میں اٹک گیا۔‬
‫لوگ آگے جانے کے چکر میں ایک دوسرے کو‬
‫لتاڑنے لگے تھے۔‬
‫تبھی ایک زور کے دھکے کے ساتھ محبہ‬
‫پیچھے کو ہٹی اور ہیل والے جوتے کی بدولت‬
‫گرتی چلی گئی‪.......‬‬
‫مگر فخر نے اسے تیزی سے تھام لیا۔‬
‫سفید شلوار قمیض اور سرخ ریشمی دوپٹے میں‬
‫وہ اپنی تمام تر معصومیت اور غیر معمولی حسن‬
‫کے سنگ فخر کو تکنے میں مصروف تھی۔‬
‫‪109‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"کون کہتا ہے کہ اس کو چھونا مشکل ہے‬


‫میں نے اس چاند کو بہت قریب سے دیکھا ہے"‬
‫وہ دل ہی دل میں گنگنایا۔‬
‫احتیاط سے اس کو اپنے سامنے کھڑا کرتے ہوئے‬
‫وہ پلٹنے لگا تھا جب محبہ کا دوپٹہ اسے اپنی‬
‫جانب کھینچ گیا۔‬
‫وہ پھر رکا اور پلٹا۔‬
‫وہ بھی حیران سی کھڑی اسے تک رہی تھی۔‬
‫دوپٹہ الگ کر کے اس نے محبہ کی جانب بڑھایا‬
‫اور تیزی سے قیصر اور شہزاد کی جانب بڑھا۔‬
‫"بس آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے چلو اٹھو تم‬
‫دونوں۔‬
‫چلو سب یہاں سے ہٹو۔"‬
‫اس نے میز پہ ہاتھ مار کر کرخت لہجے میں کہتے‬
‫ہوئے ان دونوں کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔‬
‫‪110‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ دونوں پہلے ہی ذلیل ہو رہے تھے تیزی سے‬


‫اٹھے۔‬
‫کچھ دیر اور بیٹھتے تو ان کی پول کھل جاتی۔‬
‫"مگر‪".....‬‬
‫کسی نے روکنا چاہا۔‬
‫"اگر مگر کچھ نہیں۔بس اتنا ہی ہوتا ہے۔"‬
‫وہ پلٹ کر کہتا تیزی سے آگے بڑھا۔‬
‫محبہ کے پاس رک کر گردن گھمائی ایک نظر اس‬
‫پہ ڈالی اور پھر تیزی سے چلتا گیا۔‬
‫اس نے بکھرے بالوں کو سنبھال کر ایک شانے‬
‫پہ ڈاال اور ہیرا کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫جو سب لوگوں کے ساتھ قیصر کے قصیدے سننے‬
‫میں مصروف تھی۔‬
‫وہ دونوں فخر کی گاڑی میں بیٹھتے ہی زور زور‬
‫سے ہنسے تھے۔‬
‫"یار! آج تو بہت مزہ آیا۔‬
‫‪111‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫یونیورسٹی تیرے بھائی کی دیوانی ہو گئی۔‬


‫اب فخر کے بعد قیصر سب کی زبان اور آنکھوں‬
‫میں ہو گا۔‬
‫اور تم نے فخر! جو کومل کے پیسے ذیشان کی‬
‫جیب میں ڈالے وہ تو سب سے بہترین کام تھا۔"‬
‫قیصر نے تالی بجاتے ہوئے قہقہہ لگاتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫"اور میرا مارکیٹ جانے کا فایدہ ہوا کہ ذیشان کو‬
‫ڈائری خریدتے دیکھ لیا تھا۔"‬
‫شہزاد نے بھی کہا۔‬
‫"او تو کیوں خاموش ہو‪.....‬گیا؟"‬
‫قیصر نے اس کے شانے پہ چپت رسید کی۔‬
‫"کچھ نہیں یار! بس ایک حسین چہرہ بہت نزدیک‬
‫سے دیکھ لیا ہے۔اور‪"......‬‬
‫اس نے بریک پہ پاؤں رکھ کر گاڑی کو روک دیا‬
‫تھا۔‬

‫‪112‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی اور اسے اتنا‬


‫نزدیک سے نہ دیکھ لے۔"‬
‫گردن گھما کر ایک ہاتھ ساتھ والی سیٹ کی پشت‬
‫پہ ٹکایا اور مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫"اوہ ہو‪.......‬کون ہے وہ‪.......‬؟"‬
‫قیصر نے چہک کر استفسار کیا۔‬
‫"تم دونوں کی ہونے والی بھابھی ہے۔‬
‫تمیز سے بات کرو اس کے بارے میں۔"‬
‫شہادت کی انگلی اٹھا کر سختی سے کہا گیا۔‬
‫"اچھا نام تو بتا ہونے والی بھابھی کا۔"‬
‫"محبہ۔"‬
‫اس نے آنکھیں موندے اسے تصور میں الیا تھا۔‬
‫سانولی رنگت والی محبہ بند آنکھوں کے پیچھے‬
‫بھی تھی۔‬
‫"ارے وہ‪......‬مڈل کالس لڑکی؟‬

‫‪113‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ناالئق محبہ‪"......‬‬
‫ان دونوں نے کچھ بھی مختلف نہیں کہا تھا۔‬
‫وہ ناالئق بھی تھی اور مڈل کالس گھرانے سے‬
‫بھی تعلق رکھتی تھی۔‬
‫"شیٹ اپ‪......‬چل اتر میری گاڑی سے بڑا آیا‬
‫توں۔"‬
‫اس نے قیصر کو دھکا دیا۔‬
‫"ارے‪......‬ارے لڑکی کیا ملی دوست کو ہی چھوڑ‬
‫دیا۔‬
‫تمہارا بھی تو ارادہ نہیں ویلنٹائن ڈے منانے کا‬
‫سچ سچ بتا‪.....‬؟"‬
‫اس نے بھی ڈھٹائی دکھائی۔‬
‫"ہاں‪......‬کیا پتہ ہمیں لوگوں کو سیدھی راہ‬
‫دیکھنے والے کام پہ لگا کر خود کسی‪"......‬‬
‫"شیٹ اپ یار! آج تک میں نے ایسی حرکت نہیں‬
‫کی اور آگے سے بھی نہیں کروں گا۔‬

‫‪114‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ہاں مگر محبہ کو ایک گفٹ ضرور دوں گا‬


‫پرسوں۔"‬
‫اس نے کچھ سوچتے مسکرا کر چٹکی بجائی۔‬
‫"اچھا‪".....‬‬
‫دونوں نے اچھا کو لمبا کھینچا۔‬
‫"ہاں‪.....‬مگر اس کے لیے تم دونوں کو میری مدد‬
‫کرنی ہو گی۔"‬
‫"مگر ہمیں کیا ملے گا؟"‬
‫وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بولے۔‬
‫"آ گئے نہ اپنی اوقات پہ۔ بکاؤ لوگ کہیں کے۔‬
‫جو دل کرے مانگ لینا میں منگتوں کو خالی ہاتھ‬
‫نہیں موڑتا۔"‬
‫اس کی' کی گئی بےعزتی کو عزت افزائی سمجھ‬
‫کر وہ دونوں ہنس دیئے۔‬
‫فخر کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔‬
‫"بس اب وہ میری ہو جائے۔"‬
‫‪115‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ کب سے محبہ کو چاہتا تھا یہ وہ خود بھی نہیں‬


‫جانتا تھا۔‬
‫مگر چاہتا تھا۔‬
‫"ملکہ ہیرل! میری پہنچ وہاں تک نہیں ہے۔ ولی‬
‫بابا کی بتائی گئی پوشاک نجانے کیسی ہے۔"‬
‫کیف بہت کوشش کر چکا تھا مگر اس کی آنکھوں‬
‫کے سامنے وہ پوشاک نہیں آ رہی تھی۔‬
‫آخر تھک کر اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔‬
‫ہیرل نے ایک نظر اس کی الئی گئی پوشاک پہ‬
‫ڈالی وہ بھی عام سی تھی۔‬
‫کچھ خاص نہ تھا وہ ہی ہیرے موتی۔‬
‫"ہیرل! تم پرنس کیقاد کی مدد کیوں نہیں لیتی؟"‬
‫اس نے چور نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"نہیں۔ چلو میرے ساتھ۔"‬

‫‪116‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ آنچل سنبھال کر اٹھی تھی کیف بھی اس کے‬


‫پیچھے ہو لیا۔‬
‫"نگری میں جا کر عالن کیا جائے ہم سب سے‬
‫مشترکہ مالقات کرنا چاہتے ہیں۔"‬
‫غالم کو حکم دیتی وہ آگے بڑھ گئی غالم نے سر‬
‫اٹھایا اور تیزی سے محل سے نکل گیا۔‬
‫"آپ کو اس سے کس بات کا خوف ہے ملکہ‬
‫ہیرل!"‬
‫کیف پشت پہ ہاتھ باندھے اس کے پیچھے پیچھے‬
‫چل رہا تھا۔‬
‫ہیرل رکی اور گہری سانس خارج کرتی پلٹی۔‬
‫"آپ میرے بھائی ہیں کیف! ہم آپ سے کچھ نہیں‬
‫چھپائیں گے۔"‬
‫وہ اب اس کے قدم کے ساتھ قدم مال کر چل رہی‬
‫تھی۔‬
‫"کیقاد سے مجھے خوف نہیں ہے۔‬

‫‪117‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫مجھے خود سے خوف ہے۔‬


‫اپنے جذبات میں بدلتے محسوس کر رہی ہوں۔‬
‫کچھ دنوں سے میں خود کو اس کی جانب کھینچتا‬
‫پا رہی ہوں۔‬
‫مجھے تو لگتا ہے اس نے مجھے جکڑ رکھا‬
‫ہے۔"‬
‫وہ انگلیاں پٹختی اضطراب کا شکار تھی۔‬
‫کیف زیر لب مسکرایا۔‬
‫"چلو چلتے ہیں۔ نگری کے لوگ جمع ہونے لگے‬
‫ہیں۔"‬
‫وہ بنا کچھ مزید کہتا آگے بڑھ گیا۔‬
‫ہیرل کچھ دیر وہاں کھڑی رہی آنکھوں کے سامنے‬
‫پھر سے سرخ آنکھیں جھپک سے آ ٹھہری تھیں۔‬
‫سختی سے سر جھٹک کر وہ سانس بحال کرتی‬
‫چل دی۔‬
‫وہ بالکنی میں جا رکی۔‬
‫‪118‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫نیچے نگری کے سارے لوگ جمع تھے۔‬


‫اس کی ایک جانب پرنس کیف سینے پہ ہاتھ‬
‫باندھے کھڑا تھا اور دوسری جانب وزیر تھا۔‬
‫"عالن کرو وزیر!"‬
‫اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫پرنس کیف جو اس کا چاچا زاد تھا اس نے چٹکی‬
‫بجائی تو ایک مائیک وزیر کے سامنے نمودار‬
‫ہوا۔‬
‫"ہیرل نگری کے لوگو۔ہماری ملکہ ہیرل کو ایک‬
‫خاص قسم کا لباس چاہیے۔‬
‫جو آج تک کسی نگری میں کسی بھی شہزادی نے‬
‫زیب تن نہ کیا ہو۔‬
‫اور جو اس پوشاک کو ملکہ کے سامنے پیش‬
‫کرے گا ملکہ اسے یہ طلسمی انگوٹھی تحفے میں‬
‫دیں گیں۔"‬

‫‪119‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وزیر نے شیشے کے ڈبے کو ہوا میں اچھاال تو‬


‫وہ اڑتا ہوا میں جا رکا۔‬
‫پرنس کیف نے چٹکی بجا کر انگلی کا اشارہ‬
‫مخملی ڈبے کی جانب کیا اب وہ مخلوق کے‬
‫سامنے بہت بڑی شکل اختیار کر گیا۔‬
‫"اس کی طاقتیں تب معلوم ہوں گی جب یہ ہاتھ میں‬
‫پہن لی جائے گی۔"‬
‫وزیر بول رہا تھا ہیرل کی نگاہ اچانک ہی سامنے‬
‫اٹھی تھی۔‬
‫اڑنے واال قالین فضا میں تھا اور اس پہ کیقاد‬
‫چیت سیدھا لیٹے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے ہوئے تھا‬
‫گھنی پلکیں رخساروں پر سجدہ کیے ہوئے تھیں۔‬
‫اس کی نگاہوں کی تپش کیقاد نے محسوس کی‬
‫تھی تبھی وہ سیدھا ہو بیٹھا۔‬
‫آنکھیں چار ہوئیں اور پھر لمحے رک گئے۔‬
‫وہ دونوں بےاختیار ایک دوسرے کو تکتے گئے۔‬

‫‪120‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ملکہ ہیرل اس کی الل آنکھوں کی گرمی مزید‬


‫برداشت نہیں کر سکی۔‬
‫لمبے لمبے سانس بھر کر پسینے کو پونچھ کر‬
‫پلٹی اور پھر وہاں سے چلی گئی۔‬
‫کیقاد لب بھینچ کر سر جھکا گیا۔‬
‫بےدلی سے چٹکی بجائی اور منظر سے غائب ہو‬
‫گیا۔‬
‫جب وہ پہلے پہل آئی تھی تو۔‬
‫وہ بہت ہی ڈرپوک قسم کی لڑکی تھی۔‬
‫اور ناالئق بھی۔‬
‫ساتھ ساتھ مڈل کالس گھرانے کی‪....‬‬
‫وہ کیسے اتنی مہنگی یونیورسٹی میں آ گئی؟‬
‫یہ کوئی کب سوچتا تھا خاص طور پر فخر تو بلکل‬
‫بھی نہیں۔‬
‫اسے وہ دن بھی یاد تھا جب کنٹین میں فخر اور‬
‫اس کے دوستوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا تھا۔‬
‫‪121‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ عام سی جینز اور شرٹ زیب تن کئے دوپٹہ‬


‫شانوں کے گرد پھیالئے سفید پیروں میں چپل‬
‫پھنسائے کنٹین میں داخل ہوئی تھی۔‬
‫"جینز کے ساتھ دوپٹہ کون اوڑھتا ہے‪.....‬؟"‬
‫کھی کھی کی آوازیں اس کے کانوں پہ پڑیں تو وہ‬
‫ایک پل کو رکی گہری سانس خارج کرتی ایک‬
‫خالی کونے میں پڑی کرسی پہ جا بیٹھی۔‬
‫"ارے یہ یہاں کیسے آ گئی؟"‬
‫"اتنی ناالئق ہے کہ کچھ آتا جاتا نہیں۔"‬
‫"اتنی زیادہ ِفیس کیسے دیتی ہے؟"‬
‫بہت سی باتیں تھیں اور یہ سب وہ پہلے دن سے‬
‫سنتی آ رہی تھی۔‬
‫نظر کا چشمہ اتار کر میز پہ رکھا اور ایک ہاتھ‬
‫تھوڑی تلے ٹکا کر یوں ہی سوچوں کے سمندر‬
‫میں ڈوب گئی۔‬

‫‪122‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس معاشرے میں صرف ایک چیز ہی ہے جو کام‬


‫آتی ہے اور وہ پیسہ ہے۔‬
‫میرے پاس وہ بھی نہیں ہے۔‬
‫ّٰللا ایک دن ضرور مجھے بہت سارا پیسہ دے‬
‫مگر ہ‬
‫گا جس سے میں اپنے جیسے غریب لوگوں کی‬
‫مدد کروں گی۔‬
‫"ہائے‪ ......‬کیا ہم آپ کو جوائن کر سکتے ہیں؟"‬
‫وہ ابھی پوری طرح سوچوں کے سمندر میں ڈوبی‬
‫نہیں تھی کہ قصر نے اس کی میز بجائی وہ بری‬
‫طرح چونکی اور پہلی نظر فخر پہ پڑی جو کرسی‬
‫کی پشت پہ ہاتھ ٹکائے جھکا کھڑا تھا۔‬
‫اس کا سر بےاختیار اثبات میں ہال۔‬
‫وہ تینوں مسکرا کر بیٹھ گئے۔‬
‫"کچھ منگوائیں‪"........‬‬
‫شہزاد نے ایک نظر ان دونوں پہ ڈالی پھر محبہ‬
‫پہ۔‬

‫‪123‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ارے آپ کہاں جا رہی ہیں بیٹھو بیٹھو۔"‬


‫وہ اٹھنے کے لیے پر تول رہی تھی کہ فخر نے‬
‫سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"ن نہیں میں چلتی ہوں۔ مجھے کچھ نہیں کھانا۔"‬
‫وہ گھبرا گئی تھی۔‬
‫"کھانا نہیں تو کھال دیں۔‬
‫کیونکہ نئے آنے والے یا ٹریٹ لیتے ہیں یا دیتے‬
‫ہیں۔"‬
‫فخر نے ٹانگ پر ٹانگ ٹکا لی تھی جیسے وہاں‬
‫ہی بیٹھے رہنے کا پروگرام ہو۔‬
‫وہ تپ کر بیٹھ گئی تھی۔‬
‫"بھوکے' منحوس مار میں ان کو کیا نظر آ رہی‬
‫ہوں۔"‬
‫باظاہر اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی مگر دل ہی‬
‫دل میں وہ ان تینوں کو صلواتیں دے رہی تھی۔‬
‫"کچھ بھی منگوا لو سوچو مت۔"‬
‫‪124‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫شہزاد نے اس کا چشمہ اٹھا کر اپنی آنکھوں پہ‬


‫لگایا اور اس کی نقل اتارنے لگا سب قہقہے لگا‬
‫کر ہنسے تھے۔‬
‫وہ شرمندگی کے مارے سر جھکا گئی۔‬
‫"م میرا چشمہ دیں۔"‬
‫اس نے ہاتھ بڑھا کر کہا۔‬
‫"پہلے کچھ کھالؤ پالؤ پھر دوں گا۔"‬
‫وہ معصوم سی صورت بنا کر بوال۔‬
‫"ہاں باجی! کھال دو بچارہ بھوکا پیاسا ہے۔‬
‫کہانی سنی ہے آپ نے وہ والی۔"‬
‫قیصر نے رازداری سے پوچھا۔‬
‫اس نے منہ کے زاویے بدل کر نفی میں سر ہالیا۔‬
‫"یار! وہ ہی پیاسے کوئے کی۔‬
‫یہ وہ کوا ہے۔"‬

‫‪125‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫شہزاد کے شانے پہ بازو ٹکا کر اس نے گردن کو‬


‫جھٹکا دے کر شوخ لہجے میں کہا۔‬
‫"آپ نے وہ کہانی سنی ہے بھوکے کتے‬
‫والی‪"......‬‬
‫شہزاد نے کہا ہی تھا کہ اس نے اسے غصے سے‬
‫گھورا۔‬
‫"نہ نہ میرا دوست وہ بلکل بھی نہیں ہے بےشک‬
‫فخر سے پوچھ لیں۔"‬
‫قیصر کے غصے پہ وہ مسکرا کر اس کے شانے‬
‫پہ ہاتھ رکھ دوستانہ انداز میں پیش آیا۔‬
‫محبہ ان کو حیرت سے تک رہی تھی۔‬
‫پھر جب ان دونوں نے کھانا شروع کیا تو بس‬
‫کھاتے چلے گئے فخر ٹانگ پر ٹانگ دھرے فون‬
‫پہ انگلیاں چالتے ہوئے مسلسل کچھ نہ کچھ آرڈر‬
‫کر رہا تھا مگر خود کچھ بھی کھا نہیں رہا تھا نہ‬
‫کچھ بول رہا تھا۔‬

‫‪126‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے سب سے نظریں بچا کر اپنا پرس چیک کیا‬


‫جس میں صرف تیس روپے تھے۔‬
‫ّٰللا میری عزت رکھ لے۔"‬
‫"یا ہ‬
‫اس نے دل ہی دل میں دعا کی۔‬
‫"بس یار! آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔‬
‫باقی کل سہی۔‬
‫اس کا بل دے دینا مس محبہ!"‬
‫ڈکار مار کر قیصر اٹھ کھڑا ہوا اور وہ ناک پکڑ‬
‫کر یوں بیٹھ گئی جیسے اس کے منہ سے بو آ‬
‫رہی ہو۔‬
‫وہ بہت کچھ سنانا چاہتی تھی مگر ابھی وہ بہت‬
‫پریشان تھی۔‬
‫سو خاموش رہی۔‬
‫پہلے دن ہی وہ یہاں بھی کسی سے دشمنی مول‬
‫نہیں لینا چاہتی تھی۔‬
‫خاص طور پر یونیورسٹی کے لڑکوں سے۔‬
‫‪127‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اور پھر یہ تینوں تو تھوڑے دماغ سے ڈھیلے‬


‫بھی لگتے تھے۔‬
‫"ایکسکوزمی‪.....‬‬
‫یہ بل بھی پے کر دیں۔"‬
‫وہ اٹھ کر جانے لگے تھے۔‬
‫"کیوں؟"‬
‫قیصر نے حیرت سے پوچھا۔‬
‫"ارے آپی کنگال ہے۔‬
‫چل نکال اوئے فخر پیسے۔"‬
‫شہزاد نے اکڑ دکھائی۔‬
‫محبہ کے چہرے پہ ایک رنگ آ رہا تھا دوسرا جا‬
‫رہا تھا۔‬
‫کنٹین میں قہقہے گونج رہے تھے۔‬
‫سب کی نگاہ اس پہ تھی۔‬

‫‪128‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫فخر الحسن نے جیب سے نیلے نوٹ نکال کر محبہ‬


‫کو دیکھتے ہوئے ہی میز پہ پھینکے تھے۔‬
‫"باقی کے تم رکھ سکتی ہو۔"‬
‫وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کے کہتا شانے‬
‫آچکا کر پلٹ گیا تھا۔‬
‫اس نے بس اک بات ہی کی تھی اور اس کا انداز‬
‫ایسا تھا کہ محبہ بھری بھری ریت کی مانند کرسی‬
‫پہ ڈھے گئی۔‬
‫آنسوؤں کی بہت سی لڑیاں رخساروں پر پھسلی‬
‫تھیں۔‬
‫اسے کم از کم فخر سے اس بات کی امید نہ‬
‫تھی‪ .....‬پر وہ اس کا کیا لگتا تھا؟‬
‫جو اس کا مذاق نہ اڑاتا۔‬
‫آنسوؤں کو رگڑ کر وہ اٹھی اور‬
‫سارے پیسے کنٹین والے کو دے کر وہاں سے‬
‫چلی گئی۔‬

‫‪129‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس دن کے بعد وہ ان تینوں سے کتراتی رہتی۔‬


‫اس کی دوستی صرف ایک لڑکی ہیرا سے تھی۔‬
‫وہ کوئی اہم نہیں تھی۔‬
‫نہ ہی کبھی محبہ کسی کی نگاہوں کا مرکز رہی‬
‫تھی۔‬
‫وہ ہمیشہ بیک گراؤنڈ میں رہتی تھی۔‬
‫وجہ بہت ساری تھیں۔‬
‫"محبہ! کہاں کھو گئی چلو بھئی اسائنمنٹ تیار‬
‫کرتے ہیں۔"‬
‫ہیرا نے اسے ایک جگہ پہ فریز پایا تو اس کے‬
‫پاس آئی وہ جو ماضی میں جا پہنچی تھی تیزی‬
‫سے حال میں آئی اور ہاتھ میں پکڑے دوپٹے کو‬
‫تکتی گئی۔‬
‫ہتھیلی پہ ابھی بھی فخر کی انگلیوں کا احساس‬
‫باقی تھا‬
‫سر جھٹک اس کے پیچھے چل دی۔‬

‫‪130‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کچھ یادیں بہت ہی تکلیف دہ ہوتی ہیں ان کو یاد نہ‬


‫کرنے میں ہی انسان کی بہتری ہوتی ہے۔‬
‫"اس نگری میں جادو کی کمی نہیں ہے ملکہ‬
‫ہیرل!‬
‫مگر جب تک آپ کی پاورز ہیں تب تک ہی ہیرل‬
‫نگری میں طاقت ہے۔"‬
‫طلسمی شیشے نے کہا تھا۔‬
‫وہ بےڈھنگے انداز میں صوفے پہ پڑی تھی۔‬
‫سنہری لمبے بال صوفے کی پشت کو چھوتے‬
‫زمین پہ جا پڑے تھے۔‬
‫آنکھیں مونندے' لمبی پلکوں نے رخساروں پر‬
‫سجدہ کر رکھا تھا۔‬
‫دھاگے کی مانند باریک ہونٹ سختی سے بھینچے‬
‫ہوئے تھے۔‬
‫"اور یہ بھول گئیں کہ بادشاہ سالمت کو بھی کیقاد‬
‫کے لوگوں نے مار دیا تھا۔‬

‫‪131‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کیا معلوم اس کے لوگ زندہ ہوں؟‬


‫کیا خبر کہ اس نے آپ پہ جادو کر رکھا ہو۔"‬
‫شیشے کی بات پہ اس کی لمبی پلکیں اٹھی تھیں۔‬
‫"نہیں میرے دوست! کیقاد نے ایسا نہیں کیا۔‬
‫اور اس کے والدین بھی تو اسی حملے میں مارے‬
‫گئے تھے۔‬
‫دو طاقتوں کا مالپ ہوا تھا کچھ بھی نہیں بچا تھا‬
‫سوائے میرے اور کیقاد کے۔"‬
‫وہ بولتے بولتے آنکھیں پھر سے بند کر گئی۔‬
‫کوئی منتر پڑھ کر اس نے ایک دیوار پہ پھونک‬
‫ماری تو دیوار پہ دس سال پہلے ہوئے نقصان کی‬
‫فلم چلنے لگی۔‬
‫کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں پہ ہر طرف اندھیرا ہی‬
‫اندھیرا تھا۔‬
‫کچھ نہیں بچا تھا سوائے دو بچوں کے۔‬
‫وہ دونوں پیدل چل رہے تھے۔‬
‫‪132‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ننگے پاؤں چہرے پہ جگہ جگہ زخم تھے شاہی‬


‫لباس گرد سے بھرے ہوئے تھے۔‬
‫کیقاد بار بار چٹکی بجاتا مگر کوئی جادو نہیں‬
‫ہوتا۔‬
‫"کیقاد! میں تھک چکی ہوں۔"‬
‫ایک بڑے پتھر پہ بیٹھتے ہوئے آٹھ سالہ ہیرل‬
‫کہرائی تھی۔‬
‫"مگر ہم یہاں نہیں رک سکتے ہیرل! جادوگر‬
‫سیڈری ہمیں ڈھونڈ رہا ہو گا۔‬
‫میں نے دیکھا تھا اس نے پاپا اور چاچا کو آپس‬
‫میں جھگڑنے پہ مجبور کیا۔‬
‫اور دیکھو ہم تباہ ہو گئے۔‬
‫میری سلطنت تباہ ہو گئی۔"‬
‫بارہ سالہ کیقاد آگ بگولہ ہو رہا تھا۔‬
‫اس کی سرخ آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ‬
‫شعلے بہہ رہے تھے۔‬

‫‪133‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"سب ٹھیک ہو جائے گا کیقاد! ہمیں بابا ولی تک‬


‫کسی نا کسی طرح پیغام پہنچا دینا چاہیے۔"‬
‫وہ سر گھٹنوں پر ٹکا کر پیٹ میں اٹھنے والے‬
‫درد کو برداشت کر رہی تھی تین دن سے یہ تباہی‬
‫کا عالم تھا۔‬
‫"معاف کرنا ہیرل! میں تمہیں کچھ نہیں کھال سکتا‬
‫میری پاورز کام نہیں کر رہیں۔"‬
‫وہ اس کے سامنے پڑے پتھر پہ بیٹھ گیا۔‬
‫"ایک پالن ہے میرے پاس کیقاد! "‬
‫وہ اس کے آنکھوں سے بہتے شعلوں کو دیکھتے‬
‫ہوئے گویا ہوئی۔‬
‫"کیا؟"‬
‫"ہمیں یہاں نیچے جانا ہو گا وہاں جو ندی ہے اس‬
‫میں سے کوئی مچھلی پکڑ کر تمہارے آنسوؤں پر‬
‫پکاتے ہیں۔"‬
‫اس نے معصومیت سے کہا۔‬

‫‪134‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کیقاد چند پل اسے تکتا رہا پھر ہنستا چال گیا۔‬


‫"پاگل لڑکی!‬
‫جہاں انسان نہیں بچے وہاں جانور بچے ہوں‬
‫گے؟"‬
‫اس نے سنجیدگی سے کہا۔‬
‫ہیرل کے چہرے پہ پھر سے افسردگی چھا گئی۔‬
‫"پھر ہم دونوں کیوں زندہ بچ گئے ہیں کیقاد!‬
‫ہمیں کچھ بھی نہیں ہوا ایسا کیوں؟‬
‫ہم ان دونوں طاقتوں کے مقابلے میں سالمت کیوں‬
‫رہ گئے؟"‬
‫وہ اچھنبے سے اسے دیکھنے کے ساتھ استفسار‬
‫کر رہی تھی۔‬
‫"یہ ایک کرشمہ ہے میرے بچو۔"‬
‫اپنے نزدیک ایک آواز سن کر وہ دونوں چونکے‬
‫اور پھر بھاگتے ہوئے۔‬

‫‪135‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫سفید پوش نوری مکھڑے والے بزرگ سے لپٹ‬


‫گئے۔‬
‫"ولی بابا!"‬
‫کیقاد نے نہایت ادب و احترام سے ولی بابا کے‬
‫ہاتھوں پہ بوسا دیا۔‬
‫"چلو میرے بچوں آپ دونوں آنکھیں بند کر لو جب‬
‫تک میں نہ کہوں کھولنا مت۔"‬
‫ولی بابا کے کہنے پہ دونوں نے سر ہالیا پھر‬
‫آنکھیں موند لیں۔‬
‫ان دونوں نے خود کو ہوا میں محسوس کیا تھا‬
‫امپھر اگلے ہی پل زمین پیروں تلے دوبارہ سے آ‬
‫گئی۔‬
‫"تم دونوں اندر چلو میں آتا ہوں۔"‬
‫وہ دونوں محل کی جانب چل دیئے۔‬
‫اسی دن ہیرل کو کوہ کاف کی ملکہ بنا دیا گیا اور‬
‫کیقاد کو محافظ کے طور پر تیار کیا گیا۔‬

‫‪136‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ دونوں اس دن جدا ہوئے تھے۔‬


‫کیقاد ہزاروں کروڑوں میل دور چال گیا۔‬
‫پھر جب لوٹا تب تک ملکہ ہیرل کے دل میں اس‬
‫کی جگہ ہی جگہ تھی مگر‬
‫اس کی نگری کے جو قائدے قانون تھے ان کے‬
‫سامنے مجبور تھی۔‬
‫وہ آیا تھا مگر ہیرل اسے ملنے تک نہ گئی کوئی‬
‫نہ کوئی بہانہ ہمیشہ اس کے پاس ہوتا تھا کیقاد‬
‫سے دور رہنے کا۔‬
‫دیوار اب ہیرل اور کیقاد کو دکھا رہی تھی کچھ‬
‫وقت پہلے کا منظر تھا۔‬
‫کیقاد کی آنکھیں اور اس کی آنکھیں ایک روشنی‬
‫پیدا کر رہی تھیں۔‬
‫وہ بےاختیار ہو کر صوفے سے اٹھی تھی اور‬
‫چلتی ہوئی دیوار تک گئی۔‬

‫‪137‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫جیسے ہی کیقاد کو اس نے چھونے کی کوشش‬


‫کی وہ منظر غائب ہو گیا اب صرف دیوار خالی‬
‫تھی۔‬
‫"آپ اس سے کیا مطلب لیں گی میری ملکہ!‬
‫جب بھی آپ اسے چھونے کی خواہش کرتی ہیں‬
‫وہ دور ہو جاتا ہے' آپ انہیں چھو نہیں سکتیں۔"‬
‫جادوئی شیشے نے آنکھیں پٹپٹائیں۔‬
‫"مجھے نہیں معلوم۔‬
‫مجھے تو آج تک یہ نہیں معلوم ہوا کہ ہم دونوں‬
‫زندہ کیوں بچ گئے تھے۔"‬
‫وہ بوجھل سانس خارج کرتی بیڈ پہ جا گری۔‬
‫"پتہ نہیں کیسی بےچینی ہے‬
‫کہ اک پل بھی سکون نہیں"‬
‫لب کچلتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں۔‬
‫طلسمی شیشے نے بھی اپنی ملکہ کی یہ حالت‬
‫دیکھتے ہوئے افسوس سے آنکھیں موند لیں۔‬
‫‪138‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫********‬

‫اگلے دن یونیورسٹی میں کچھ لوگ ڈر سے نہیں‬


‫آئے تھے کہ کہیں قیصر جادوگر ان کی آنے والے‬
‫دن کے کارناموں کےلی پوپ نہ کھول دے۔‬
‫"تمہیں کیا لگتا ہے وہ مجھ پہ یقین کرے گی؟"‬
‫قیصر نے دور سے ہی محبہ کو دیکھ کر فخر کے‬
‫کان میں کہا۔‬
‫وہ بھی سینے پہ ہاتھ باندھے مسلسل محبہ کو‬
‫تکتا جا رہا تھا۔‬
‫جو کل والے لباس میں ہی ملبوس تھی مگر آج‬
‫کچھ سپیشل لگ رہی تھی اس کے چہرے کی‬
‫خوشی لبوں کی مسکان۔‬
‫آنکھوں پہ لگے چشمے کو درست کر کے وہ‬
‫ریلنگ پہ ہاتھ ٹکائے نیچے تکنے میں مصروف‬

‫‪139‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫تھی جس کی بدولت اونچی پونی میں جکڑے بال‬


‫اس کے دائیں شانے پہ ڈھلک آئے تھے۔‬
‫"یار! یہ لڑکی اگر ناالئق ہوتی تو اس کو چشمہ‬
‫کیوں لگا ہوتا۔میری سمجھ میں نہیں آئی یہ بات۔"‬
‫فخر تھوڑی کھجاتے ہوئے ان دونوں کی جانب‬
‫متوجہ ہوا۔‬
‫"لو کر لو گل‪.....‬چشمہ تو میری دادی کو بھی لگا‬
‫ہے مگر وہ تو ان پڑھ ہے۔‬
‫یہ پڑھائی کی بدولت نہیں لگتا۔"‬
‫قیصر نے سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"تو‪ ......‬کیوں لگتا ہے؟"‬
‫"یہ عورتیں نظر کا استعمال بہت کرتی ہیں۔‬
‫یعنی سب پہ نظر رکھتی ہوتی ہیں۔‬
‫تبھی تو ان کو چشمہ لگتا ہے۔"‬
‫اس نے بہت سمجھداری دکھائی تھی۔‬

‫‪140‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫جب کہ وہ دونوں اس کی جانب گھوم کر گھورنے‬


‫لگے۔‬
‫"چلو اب تم کام پہ لگ جاؤ۔"‬
‫اس نے قیصر کے شانے پہ تھپکی دے کر کہا۔‬
‫وہ سر ہالتا اس جانب بڑھا جس جانب محبہ تھی۔‬
‫"فخر‪"!....‬‬
‫اپنے پیچھے ہیرا کی آواز سن کر وہ پلٹا۔‬
‫"کیسے ہو؟"‬
‫مسکراتے ہوئے استفسار کیا گیا۔‬
‫"ّٰللا کا شکر ہے آپ سنائیں؟"‬
‫ہ‬
‫اس نے مسکرا کر سالم کا جواب دیا اور حال‬
‫دریافت کیا۔‬
‫"میں بھی ٹھیک ہوں۔‬
‫ایکچلی میں نے ایک تقریر لکھی ہے ویلنٹائن‬
‫ڈے کے حوالے سے تم دیکھو کچھ اچھی لگے‬
‫تو۔"‬
‫‪141‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫سٹالر کو شانے پہ پیچھے کو سرکاتے ہوئے وہ‬


‫اپنے مخصوص انداز نرمی سے بولی۔‬
‫فخر نے اس کے ہاتھ سے ڈائری تھام لی۔‬
‫"بہت خوبصورت انداز میں لکھی گئی ہے۔‬
‫اردو کی رائٹنگ تو تمہاری بہت پیاری ہے۔"‬
‫ساری تقریر پڑھ کر اس نے ہیرا کو داد دی وہ‬
‫مسکرا کر شکریہ کہتی سر جھکا گئی۔‬
‫ہیرا بہت ہی الئق فائق تھی۔‬
‫اور فخر کی دور پرے کی رشتے دار ہونے کے‬
‫ساتھ ساتھ کچھ حد تک دوست بھی تھی۔‬
‫"چلو کنٹین چلتے ہیں۔"‬
‫وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہیرا 'محبہ کے پاس جائے‬
‫اور اس کی پالننگ خراب ہو۔‬
‫وہ بھی سر ہال کر اس کے ساتھ چل دی۔‬
‫فخر نے پلٹ کر کوریڈور میں کھڑے ان دونوں‬
‫کو دیکھا‬
‫‪142‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫محبہ کی پیشانی پہ بل نمایاں تھے اور ناک‬


‫چھڑائے وہ بہت معصوم لگ رہی تھی بےاختیار‬
‫ہی وہ مسکرا کر نیچلے لب کو دانتوں میں دبا کر‬
‫ہیرا کے ساتھ چل دیا۔‬
‫محبت کی یہ شرط طے نہیں ہوتی کہ محبوب‬
‫پڑھائی میں اچھا ہو یا حسین ہو محبت تو محبت‬
‫ہوتی وہ کوئی کھیل تھوڑی ہے جو حسن دیکھے‬
‫یا دولت دیکھے۔‬
‫"پرنس کیقاد!"‬
‫دروازے پہ کیف کی آواز ابھری تھی۔‬
‫"دوست پرنس کیف کو اندر آنے دو۔"‬
‫چٹکی بجاتے ہوئے اس نے نرم لہجے میں کہا‬
‫تھا۔‬
‫دونوں ہاتھوں کو میز پہ رکھ کر کتاب غائب کی۔‬
‫چٹکی بجاتے ہوئے اس نے سارے ڈیزائن نظروں‬
‫کے سامنے سے غائب کیے تھے۔‬

‫‪143‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ نہیں چاہتا تھا کہ پرنس کیف اسے ملکہ ہیرل‬


‫کے لیے پوشاک بناتے دیکھ لے۔‬
‫آخر اس کے ساتھ بھی انا کا مسلئہ تھا۔‬
‫"آداب پرنس کیقاد!"‬
‫سینے پہ ہاتھ رکھ کر وہ گھٹنوں پہ جھکا تھا۔‬
‫"و آداب پرنس کیف!"‬
‫عنابی ہونٹوں کو دوستانہ مسکراہٹ نے چھوا تھا۔‬
‫آگے بڑھ کر وہ اس سے بغلگیر ہوا۔‬
‫"معزرت خواہ ہوں' بن بالیا مہمان بننا نہیں چاہتا‬
‫تھا مگر بہت ضروری بات تھی۔"‬
‫اس نے آنکھوں سے صوفے کو اپنی جانب کھینچا‬
‫تھا مگر ناکام رہا۔‬
‫"کوئی بات نہیں۔ ہم مہمان نواز ہیں۔"‬
‫انگلی کا اشارہ صوفے کی جانب کیا تو وہ کھینچتا‬
‫چال آیا پھر چھوٹی میز اس پہ رکھے فروٹ‬
‫'چھریاں کانٹے' جام کی بوتلیں۔‬
‫‪144‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫چٹنی سب ہی ترتیب سے سج چکا تھا۔‬


‫"معاف کرنا پرنس کیف! میرے محل میں میری‬
‫چیزوں پر صرف میرا ہی جادو چلتا ہے۔"‬
‫وہ مسکراتے ہوئے اس کے سامنے رکھے درخت‬
‫کے تنے سے ڈیزائن کیے صوفے پہ بیٹھ گیا۔‬
‫"اس نگری اور کوہ کاف میں صرف دو ہی تو‬
‫انسان ایسے ہیں جن کی طاقتیں سب سے مختلف‬
‫ہیں۔‬
‫جن کے سامنے سب کی طاقتیں کمزور پڑ جاتی‬
‫ہیں۔"‬
‫چھری خودبخود ہوا میں پھل کاٹ رہی تھی۔‬
‫اور اس کے سامنے کانچ کی پلیٹوں میں پھل‬
‫ترتیب سے سج کر رکھے جا رہے تھے۔‬
‫"دو مخالف طاقتیں ہیں۔‬
‫اور یہ جب بھی ملیں گی نگری تباہ ہو جائے گی۔"‬
‫بالآخر اس کے دل کی بات زبان پر آ ہی گئی تھی۔‬

‫‪145‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"میں آگ ہوں تو وہ روشنی۔"‬


‫کھوئے کھوئے انداز میں کہتے ہوئے وہ اپنے‬
‫ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔‬
‫"قدرت بھی چاہتی ہے کہ تم دونوں ایک ہو جاؤ۔‬
‫دونوں کے درمیان ایک بہت ہی خوبصورت رشتہ‬
‫ہے۔‬
‫مگر دونوں ہی اکسیپٹ نہیں کرنا چاہتے۔"‬
‫کیف نے بھی اسی کے انداز میں بات گول گول‬
‫گھماتے ہوئے کہہ ڈالی۔‬
‫"ادھر ملکہ ہیرل کی حالت غیر ہے۔"‬
‫اس کی بات پہ کیقاد نے چونک کر دیکھا۔‬
‫"ہاں کیقاد! وہ بہت کمزور ہو چکی ہے'بہت‬
‫خاموش ہو چکی ہیں' آنکھوں میں مکمل اداسی۔"‬
‫اس نے ایک فولڈ شدہ کاغذ کا ٹکڑا بڑھایا۔‬

‫‪146‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کیقاد نے ایک نظر اس پہ ڈالی اور کاغذ پہ نظر‬


‫ڈالی اس کاغذ کے درمیان میں ایک ویڈیو چل رہی‬
‫تھی۔‬
‫جس میں ملکہ ہیرل اس کی تصویر ہاتھ میں‬
‫تھامے ہوئے تھی جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر چھونے‬
‫کی خواہش کرتی گالب کے پھولوں کے فریم میں‬
‫سے تصویر غائب ہو جاتی۔‬
‫کیقاد نے کاغذ فولڈ کیا اور سر تھام کر لب بھینچ‬
‫گیا۔‬
‫"پرنس کیقاد! یاقوت آپ سے ملنے کا طلبگار‬
‫ہے۔"‬
‫اس نے بولنے کے لیے ہونٹ کھولے تھے مگر‬
‫اس سے پہلے دیوار کے پار سے غائب سے آواز‬
‫آئی۔‬
‫اس نے چٹکی بجائی اور شہادت کی انگلی دیوار‬
‫کی جانب کی دیوار غائب ہوئی اور یاقوت سیڑھیاں‬
‫اترتا ان کے پاس آ رکا۔‬

‫‪147‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ خوش اخالقی سے وہ ان دونوں سے بغلگیر‬


‫ہوا اور واپس ہٹ کر پرنس کیقاد کے ساتھ بیٹھ‬
‫گیا۔‬
‫"یہ سب جو ملکہ ہیرل کے ساتھ ہو رہا ہے یہ‬
‫سب پاشا کا کیا دھرا ہے اس نے کوئی جادو کیا‬
‫ہے۔‬
‫مگر یہ الٹا پڑ گیا۔"‬
‫اس نے بات کی شروعات کی۔‬
‫"کیا مطلب؟" کیف کو حیرت ہوئی۔‬
‫"وہ ملکہ کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا تھا اور‬
‫اس آگ سے دور کرنا چاہتا تھا مگر بچارے کا کیا‬
‫گیا جادو الٹا پڑ گیا۔"‬
‫وہ ہنسا تھا۔‬
‫"مگر اب ملکہ ہیرل! کو کیسے اس کالے جادو‬
‫سے آزاد کروائیں۔"‬

‫‪148‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"رہنے دو نہ یار! وہ ایسی پاگل پاگل ہی اچھی‬


‫لگتی ہے۔"‬
‫اس نے فولڈ کیا گیا کاغذ اٹھا کر کھول اس کے‬
‫سامنے کیا۔‬
‫کیقاد نے آنکھیں دکھائیں تو یاقوت سریس ہو گیا۔‬
‫"اب تمہیں بادشاہ بنانے کی تیاری کر رہا ہو گا وہ‬
‫پاشا‪".......‬‬
‫کیف نے مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا۔‬
‫وہ جو یاقوت کو ٹوک رہا تھا کیف و گھورنے لگا۔‬
‫"تم دونوں پاگل ہو گئے ہو کیا؟"‬
‫"اگر ہماری ملکہ ہو سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔"‬
‫یاقوت نے مصنوعی سنجیدگی دکھائی۔‬
‫"مجھے لگ رہا ہے اس میں جادوگر سیڈری کا‬
‫ہاتھ ہے۔"‬
‫وہ پُرسوچ انداز میں کہتا اٹھا تھا اور دراز سے‬
‫ایک عدد طلسمی چادر نکالی۔‬
‫‪149‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"یاقوت! تم ابھی کوہ ہمالیہ کے لیے روانہ ہو جاؤ۔‬


‫یہ چادر تمہاری حفاظت کرے گی۔‬
‫پتہ لگاؤ کہ پاشا کے ساتھ جادوگر سیڈری مال ہوا‬
‫ہے یا نہیں۔"‬
‫اس نے یاقوت کو چند اہم باتیں سمجھاتے ہوئے‬
‫رخصت کیا۔‬
‫"میں ولی بابا کی جانب جا رہا ہوں اور تم یہاں‬
‫ہیرل نگری اور پوری سلطنت کی حفاظت کرو۔‬
‫کل رات کو مالقات ہو گی اس شاہی جشن میں۔"‬
‫کیف نے اس سے مصافحہ لیا اور پلٹ گیا۔‬
‫ان سب کے جانے کے بعد وہ دوبارہ سے ڈیزائن‬
‫بنانے لگا۔‬
‫بالآخر ایک ایسا ڈیزائن بنا جو اس کے خود کے‬
‫دل کو اچھا لگا۔‬
‫"کیا بکواس کر رہے ہو؟"‬
‫محبہ کو واقع ہی غصہ آیا تھا۔‬
‫‪150‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"مت مانو سچ کہہ رہا ہوں۔آج تمہیں کوئی بہت‬


‫خوبصورت گفٹ ملنے واال ہے۔‬
‫اور وہ کون دے گا یہ تمہیں یوں ہی علم نہیں ہو‬
‫جائے گا۔"‬
‫"تمہیں لگتا ہے میں تم لوگوں کے ان ڈراموں میں‬
‫آؤں گی؟‬
‫شکل سے پاگل لگتی ہوں تمہیں؟"‬
‫آنکھیں سکوڑ کر سنجیدگی سے استفسار کیا گیا۔‬
‫ّٰللا ہی جانے۔"‬
‫"لگتی تو نہیں۔ مگر آگے ہ‬
‫"کیا کہا تم نے؟"‬
‫وہ بڑبڑایا تھا مگر آواز محبہ کے کانوں تک پہنچ‬
‫گئی تھی۔‬
‫"کچھ نہیں۔‬
‫خیر مت مانو میں تو تمہارے بھلے کی خاطر ہی‬
‫کہہ رہا تھا۔‬

‫‪151‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کل کو پھر اگر گفٹ تمہارے لیے نقصان دہ ثابت‬


‫ہوا تو پچھتانا مت۔"‬
‫اس نے شانے آچکائے اور واپس پلٹا۔‬
‫"رکو۔"‬
‫وہ آنکھیں موندے سانس بحال کرتی کرخت لہجے‬
‫میں گویا ہوئی۔‬
‫وہ مسکراہٹ ضبط کرتا رک گیا پھر سنجیدہ ہوتا‬
‫پلٹا۔‬
‫"کیسے پتہ چلے گا کہ‪.....‬کہ مجھے آج کیا گفٹ‬
‫ملنے واال ہے؟‬
‫اور اس کا مطلب کیا ہے یہ بھی تم ہی بتا دو۔‬
‫کون دے گا یہ بھی تم ہی بتا دو۔‬
‫آخر جادوگر جو ہو۔"‬
‫وہ سینے پہ ہاتھ لپیٹ کر مصنوعی مسکراہٹ لیے‬
‫کھڑی تھی۔‬
‫چہرے پہ ابھی بھی سنجیدگی ہی تھی۔‬
‫‪152‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"الحمدہلل۔ رب کا کرم ہے مجھ پہ جو بھی کہہ رہا‬


‫ہوں وہ سچ ہو رہا ہے۔"‬
‫وہ نرمی سے مسکرایا‬
‫"ّٰللا کی پناہ۔ تم کتنے گرے ہوئے انسان ہو'‬
‫ہ‬
‫ّٰللا کا نام لے رہے ہو۔"‬
‫جھوٹ میں بھی ہ‬
‫اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔‬
‫وہ جانتی تھی ان تینوں کو۔‬
‫سچ اور وہ تینوں بولیں‪......‬ہو نہیں سکتا تھا۔‬
‫"یہ تو تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا۔‬
‫اور کون دے گا یہ تم ابھی آنکھیں موند کر دل پہ‬
‫ہاتھ رکھ کے سوچو پھر جو بند آنکھوں سے نظر‬
‫آئے‬
‫اور پھر وہ ہی کھلی آنکھوں سے‬
‫تو سمجھ جانا وہ ہی ہے پارسل بوائے‪.......‬‬
‫میرا مطلب گفٹ دینے واال۔"‬
‫اس نے فون کی جانب توجہ رکھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫‪153‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ٹھیک ہے اور اگر یہ جھوٹ ہوا تو؟"‬


‫بھنویں آچکا کر استفسار کیا گیا۔‬
‫"تو مجھے یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں الٹا لٹکا‬
‫دینا۔"‬
‫"ٹھیک ہے جاؤ تم۔"‬
‫وہ پھوں پھاں کرتی خود ہی پلٹی اور پھر انگلیاں‬
‫پٹختی الئبریری کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫"بھائی! بھابھی الئبریری جا رہی ہیں جلدی پہنچ۔"‬
‫اس نے میسج ٹائپ کیا اور دوسری جانب فخر کو‬
‫مال۔‬
‫پڑھتے ہی اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫تھی جسے اس نے دانتوں تلے ہونٹ دبا کر دبا لیا۔‬
‫"اچھا ہیرا! میں چلتا ہوں اور یہ مجھے دے دو۔"‬
‫اس نے رکتے ہوئے کہا اور اس کے ہاتھ سے‬
‫ڈائری تھام لی۔‬
‫"اوکے۔ ایک منٹ فخر!"‬
‫‪154‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ پلٹا تو ہیرا نے پھر سے پکارا۔‬


‫"کل کا دن ویسے تو تمہیں پسند نہیں ہے‬
‫لیکن‪"......‬‬
‫وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔‬
‫ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ تھی اور پلکیں‬
‫رخساروں پر سجدہ کیے ہوئے۔‬
‫وہ خطرے کی گھنٹیاں اپنے اردگرد بجتے‬
‫محسوس کر رہا تھا۔‬
‫"ہیلو‪.....‬ہاں قیصر! میں آ رہا ہوں۔"‬
‫اسے کچھ نہ سوجھا تو فون کان سے لگا کر تیزی‬
‫سے بوال۔‬
‫"ہیرا! میں چلتا ہوں۔"‬
‫وہ مڑا اور اسے بولنے کا موقع دیئے بنا ہی چال‬
‫گیا۔‬
‫"فخر!‬
‫فخر! بات تو سنو۔"‬
‫‪155‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ پیچھے سے پکارتی رہی مگر وہ رکا نہیں‬


‫بھاگتے ہوئے بلڈنگ کے پیچھے غائب ہو گیا۔‬
‫"اب یہ محبہ کہاں چلی گئی؟"‬
‫وہ پیر پٹختی چہرے کو چھوتے بالوں کو سمیٹ‬
‫کر کان کے پیچھے کرتی واپس پلٹی۔‬
‫محبہ کتاب لے کر کونے میں ایک کرسی کھینچ کر‬
‫بیٹھ گئی۔‬
‫وہ آنکھیں موند کر پھر تیزی سے کھول لیتی۔‬
‫"نہ نہ‪....‬میں کیوں ان چکروں میں پڑ رہی ہوں۔‬
‫ایویں ای پاگل ہو رہی۔"‬
‫اس نے خود کو ڈپٹا اور چشمہ لگا کر توجہ‬
‫سامنے میز پہ کھلی کتاب کی جانب کی۔‬
‫"کہیں واقع ہی سچ نہ ہو۔ اتنی باتیں تو قیصر نے‬
‫سچ بتائی ہیں۔‬
‫ایک مرتبہ ٹرائی کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔"‬
‫دل میں گدگدی سی ہوئی تھی۔‬

‫‪156‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کتاب کے ساتھ پڑے ایک خالی صفحہ اور بال پن‬


‫پہ نظر پڑی۔‬
‫کچھ سوچ کر اس نے دونوں چیزیں اٹھا لیں۔‬

‫محبت تو وہ بھی کرتی تھی‬


‫مگر ویلنٹائن ڈے سے وہ ڈرتی تھی‬
‫وہ بہت عام سی لڑکی تھی!‬
‫اور خواب بھی عام لڑکیوں والے رکھتی تھی'‬
‫بس ایک وجہ سے وہ خاص تھی!‬
‫وہ وجہ بھی عام نہ تھی‪،‬‬
‫وہ محبت سے نہ ڈرتی تھی‬
‫مگر عزت بھی وہ چاہتی تھی!‬
‫نہیں چاہتی تھی تو وہ بس اتنا‬
‫ویلنٹائن ڈے کے نام پر‬
‫حواس کا نشانہ بننا نہیں چاہتی تھی‬

‫‪157‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫دل میں ایک شہزادہ بھی بستا تھا‬


‫سجی پالکیوں کے آنکھوں میں‬
‫خواب بھی وہ چھپاتی تھی‬
‫مگر ڈرتی تھی ان پھولوں سے‬
‫ان جھوٹے وعدوں سے‬
‫ان ڈھونگی جذبات سے‬
‫ان کالی راتوں کی محبت سے‬
‫جو اصل میں بس نفس پرستی تھی‬
‫محبت تو وہ بھی کرتی تھی‬
‫مگر ویلنٹائن ڈے سے وہ ڈرتی تھی‬

‫اس نے اپنے دل کی باتیں کورے کاغذ پہ اتار‬


‫دی۔‬
‫پھر بہت سوچ سمجھ کر آنکھیں موند لیں۔‬

‫‪158‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫چند پل بعد جس شخص کو اس نے دیکھا تھا ڈر‬


‫کر آنکھیں کھولی تھیں اور جب سامنے کھڑے‬
‫فخر کو دیکھا تو ایک پل کو ہڑبڑا گئی۔‬
‫آنکھیں مسل کر اس نے پھر دیکھا مگر وہ نہیں‬
‫تھا۔‬
‫اس نے پھر سے آنکھیں موند لیں اور پھر سے‬
‫کھولیں۔‬
‫اس بار بھی فخر اس کے سامنے کتابوں کی‬
‫الماری سے ٹیک لگائے کھڑا مسکرا رہا تھا۔‬
‫محبہ نے اپنا سر میز پہ زور سے پٹخا تھا پھر‬
‫اٹھایا تو وہ نہیں تھا۔‬
‫"ہائے میں پاگل تو نہیں ہو گئی۔"‬
‫وہ بڑبڑاتی اٹھی اور الئبریری سے نکل گئی۔‬
‫الماری کے پیچھے چھپے فخر کے ہونٹوں پر‬
‫دلفریب مسکراہٹ دوڑ گئی۔‬
‫"ڈر کر' بھاگ کر‬

‫‪159‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫محبت کا اظہار کرنا‬


‫کیا بات ہے تمہاری صنم!"‬
‫ایک ہاتھ الماری پہ ٹکا کر دوسرا پسلی پہ رکھ کر‬
‫وہ تھوڑا سا جھک کے گنگنایا۔‬
‫اس کی نگاہوں کے سامنے ایک منظر دوڑ گیا تھا۔‬
‫اس مرتبہ اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی اور وہ بری‬
‫طرح چونکا۔‬
‫پھر سر تھام گیا۔‬
‫"یہ میں نے کیا کر دیا۔"‬
‫اس کا رنگ اڑا تھا وہ سر تھام کر رہ گیا۔‬
‫اسے نہیں معلوم تھا کہ کبھی کبھی انسان کی ایک‬
‫غلطی بھی اسے لے ڈوبتی ہے۔‬
‫جیسے بہری جہاز کی مرمت میں ایک سوراخ بھی‬
‫رہ جائے تو ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔‬

‫‪160‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫یوں ہی اس نے اپنے جہاز میں ایک سوراخ کر لیا‬


‫تھا اور اب وہ محبت کی وادی میں تقریبا ً ڈوبنے‬
‫کو ہی تھی۔‬
‫وہ محبہ کا ڈر سمجھ چکا تھا۔‬

‫محبت ہے تم سے "بہت"‬
‫کہ بیان کی خاطر لفظ نہیں‬
‫تم سمجھ جاؤ نا "ایک" لفظ سے‬

‫"کیقاد!"‬
‫مخمل کے بستر پہ پڑی ملکہ ہیرل چال کر اٹھی‬
‫تھی اور تیزی سے بیڈ سے اتری۔‬
‫"ملکہ ہیرل! آپ ٹھیک تو ہیں؟"‬
‫کنیزوں نے بھاگ کر اسے تھاما۔‬

‫‪161‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"میں اب بلکل ٹھیک ہوں۔‬


‫مگر کیقاد بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔"‬
‫اس نے اپنے چہرے پر سے کاال ریشمی آنچل‬
‫ہٹایا۔‬
‫"آپ کو کیا ہو گیا تھا ملکہ ہیرل!‬
‫اتنی کمزور ہو گئی تھیں۔"‬
‫"ہاں مگر اب میں کمزور نہیں ہوں۔‬
‫بہت مضبوط ہوں'اس لباس میں بہت مضبوطی ہے‬
‫میری ساری طاقت لوٹ آئی ہے۔‬
‫مگر ابھی کیقاد کو بچانا ہے۔"‬
‫وہ تیزی سے اس جانب بڑھی تھی جس جانب اس‬
‫کا دل اسے کھینچ رہا تھا۔‬
‫پوری سلطنت میں ملکہ کی صحت یابی کا عالن کر‬
‫دیا گیا۔‬
‫سب کی دعائیں رنگ الئی تھیں۔‬
‫آسمان آتش بازی سے گونج اٹھا۔‬
‫‪162‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ محل سے باہر نکلی تھی اور بھاگتے ہوئے‬


‫درخت کے تنے میں داخل ہوئی۔‬
‫کچھ پڑھ کر جیسے ہی اس نے خود پہ پھونک‬
‫ماری سفید لمبے لمبے پر نمودار ہوئے آنکھوں‬
‫کو کھول کر اس نے دائیں بائیں دیکھا اور پھر‬
‫گہری سانس خارج کرتی اڑ گئی۔‬
‫"آئیں میری ملکہ!‬
‫دیکھیں آپ کے ویلکم کے لیے ہم نے پرنس کیقاد‬
‫کو آپ کی راہ میں بچھا دیا ہے۔"‬
‫پاشا ہنسا تھا۔‬
‫ملکہ ہیرل نے ایک نظر زمین پہ پڑے کیقاد پہ‬
‫ڈالی۔‬
‫اس کے جبڑے بھینچے گئے تھے۔‬
‫کیقاد کے خون کے آنسوں دیکھ ہیرل کے خون‬
‫میں غصے کی لہر دوڑ گئی نیکی آنکھوں نے‬
‫رنگ بدال تھا۔‬

‫‪163‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ویسے کمال کی بات تو دیکھو آپ ہمارے سامنے‬


‫کھڑی ہیں۔‬
‫وہ بھی سہی سالمت۔"‬
‫وہ حیران تو ہوا تھا۔‬
‫"تم جیسا شیطان' شیطانی طاقتوں کا استعمال کر‬
‫کے مجھے ختم کرنا چاہتے تھا؟‬
‫اونہہ‪.......‬ایسا ممکن نہیں ہے پاشا!‬
‫جادو تم نے مجھ پہ کیا تھا کیقاد پہ تو نہیں۔‬
‫شیطان میری جانب آیا تھا کیقاد کی جانب تو‬
‫نہیں۔"‬
‫وہ چالئی تھی۔‬
‫"ہا‪.......‬تم بھول کیوں گئے کہ عورت کی حفاظت‬
‫کی خاطر بھی محافظ بنائے گئے ہیں‬
‫باپ'بھائی'شوہر' اور‪"......‬‬
‫اس نے نگاہوں کا روخ کیقاد کی جانب کیا۔‬

‫‪164‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫سنہری و سفید جنگجو لباس میں ملبوس پیروں‬


‫میں چمڑے کے جوتے پہنے ہوئے سنہری بال‬
‫پیشانی پہ بکھرے تھے‬
‫آنکھیں بند تھیں مگر وہ ہوش میں نہ تھا پر‬
‫شخصیت اس کی زندہ تھی۔‬
‫اس کی محبت زندہ تھی!‬
‫ابھی اس کے بدن میں جان تھی۔‬
‫"اور محافظ‪.....‬تم نادان ہو پرنس پاشا! جب‬
‫جادوگر سیڈری ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکا تھا تو تم‬
‫کس کھیت کی مولی‪.....‬ہو۔"‬
‫اس نے ہوا کا رخ اپنی جانب کیا تھا اور ہوا کے‬
‫دوش پہ اس کی آواز پاشا تک پہنچی۔‬
‫"کوئی بات نہیں ملکہ! اب تمہارا کیقاد تمہارے‬
‫ساتھ انصاف نہیں کر سکا میں تو ابھی زندہ‬
‫ہوں۔""‬

‫‪165‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ قہقہے لگاتے ہوئے اس کی جانب بڑھا مگر‬


‫اس کی سیاہ لباس سے سفید شعائیں نکل کر پاشا‬
‫کے وجود سے ٹکرائیں۔‬
‫وہ سو قدم دور جا گرا۔‬
‫"یہ‪......‬یہ لباس اتار دو‪".......‬‬
‫وہ آنکھوں پر ہاتھ دھرے چالیا۔‬
‫"اونہہ‪.....‬ایسا ممکن نہیں پاشا!‬
‫یہ میرا حفاظتی لباس ہے۔‬
‫جو میری محبت نے مجھے تحفے میں دیا ہے۔"‬
‫اس نے آنچل چہرے پر ڈال لیا تھا۔‬
‫وہ پھر سے آگے بڑھا تھا۔‬
‫مگر اس مرتبہ وہ ان سفید شعاؤں کی تاب نہیں ال‬
‫سکا تھا۔‬
‫منتر خود پہ پھونک کر غائب ہونے کو تھا کہ ہیرل‬
‫نے اپنے سیاہ لباس سے ایک ٹکڑا کاٹا اور ایک‬
‫خون برساتی نگاہ پاشا پہ ڈال کر آنکھیں موند کر‬
‫‪166‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کچھ پڑھنے لگی پھر کپڑے پہ پھونک ماری پھر‬


‫اسے پھرتی سے فضا میں پھینکا تو وہ اڑتا ہوا‬
‫سفید رنگ کی شعاؤں میں بدل گیا۔‬
‫اس سے پہلے کہ پاشا غائب ہوتا ان شعاؤں نے‬
‫اس کو خود میں جکڑ لیا۔‬
‫دیکھتے ہی دیکھتے وہ چنخوں کے ساتھ راکھ‬
‫بن گیا۔‬
‫اس نے پلٹ کر کیقاد کو دیکھا اور پھر اڑتی ہوئی‬
‫اس کے پاس آئی۔‬
‫"کیقاد! آنکھیں کھولو۔"‬
‫وہ ڈرتے ڈرتے اس کے نزدیک بیٹھی تھی اور‬
‫اس کا چہرہ تھپک کر وہ بھرائی آواز میں گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"تمہاری الل آنکھیں مجھے کھلی اچھی لگتی ہیں۔‬
‫تم بولتے اچھے لگتے ہو۔‬

‫‪167‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫تم مجھے طرح طرح کی شرارتیں کرتے بھلے‬


‫لگتے ہو۔‬
‫پلیز لوٹ آؤ کیقاد!‬
‫خدا کا واسطہ تمہیں کیقاد مجھے یوں تنہا چھوڑ‬
‫کر مت جاؤ۔‬
‫تمہارے بغیر سلطنت کی حفاظت کون کرے گا۔"‬
‫وہ مسلسل رو رہی تھی۔‬
‫اس کے آنسو کیقاد کے چہرے پر گر رہے تھے۔‬
‫اس کا ہاتھ کیقاد کے دل پہ تھا۔‬
‫چند پل بعد ہی وہ پلکیں جھپکنے لگا اور پھر‬
‫دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں۔‬
‫"ملکہ ہیرل!"‬
‫"کیقاد‪"!.......‬‬
‫اس کی مدھم آواز پہ ہیرل نے آنکھیں کھول کر‬
‫تیزی سے اس کے چہرے کو چھوا تھا۔‬

‫‪168‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫کالے ریشمی آنچل کے پیچھے چھپا حسین چہرہ‬


‫کیقاد کے دل میں اترتا گیا۔‬
‫"پاشا کہاں گیا؟"‬
‫اسے جب کچھ نہ سوجھا تو پوچھنے کے ساتھ‬
‫ہاتھ زمین پر ٹکا کر نظریں جھکائے اٹھ بیٹھا۔‬
‫"وہ چال گیا اب ہم بھی چلتے ہیں۔"‬
‫"ہائیں‪!....‬‬
‫کیوں چال گیا؟‬
‫ابھی مجھے اس سے لڑائی کرنی ہے۔"‬
‫جمپ لگا کر وہ اٹھا اور چاروں اطراف نظریں‬
‫دوڑانے لگا۔‬
‫"بس کریں پرنس کیقاد!‬
‫اتنی ہمت والے ہوتے تو مجھے یہاں میرا دل‬
‫کبھی نہ کھینچ التا۔"‬
‫اس کے شانے پہ تھپکی دے کر ملکہ نے بے‬
‫نیازی سے کہا۔‬
‫‪169‬‬
‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ہمت ہے تو تمہارا دل تمہیں یہاں لے آیا ہے۔"‬


‫اس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔‬
‫ملکہ شرما کر نگاہیں جھکا گئی۔‬
‫کیقاد نے سنہری بالوں کو پیشانی سے سمیٹ کر‬
‫پیچھے کیا۔‬
‫"سلطنت ہم دونوں کے بنا ادھوری ہے اور ہم‬
‫دونوں ایک دوسرے کے بنا۔"‬
‫اظہار محبت‬
‫ِ‬ ‫مدھم آواز میں کہتے ہوئے اس نے‬
‫کیا تھا۔‬
‫"ایک بات تو بتاؤ۔"‬
‫وہ جب اس کے قدم کے ساتھ قدم مال کر چال تو‬
‫ملکہ کچھ سوچتے ہوئے گویا ہوئی۔‬
‫"ہوں پوچھو۔"‬
‫"تم نے یہ پوشاک کس مٹیریل سے بنائی ہے؟‬
‫اس میں ایک جادو ہے؟‬
‫میری ساری طاقتیں واپس پلٹ آئیں۔‬
‫‪170‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اور پاشا بھی بھاگ گیا مجھے چھو نہیں پایا۔"‬


‫وہ حیرت سے اسے تک رہی تھی۔‬
‫وہ مبہم سا مسکرایا۔‬
‫"اس میں حیا کا جادو ہے۔‬
‫جو بھی عورت اس پوشاک کو زیب تن کرے گی‬
‫اس کی طاقتیں کبھی کھو نہیں سکتیں۔‬
‫اسے میں نے شاہی پوشاک کا نام دیا ہے۔"‬
‫"بہت اچھے۔ تو کیا تم ہماری سلطنت کی ہر لڑکی‬
‫کے لیے بناؤ گے ایسی پوشاک؟"‬
‫وہ چہکی۔‬
‫"مجھے درزی سمجھ لیا ہے کیا؟‬
‫میں پرنس ہوں پرنس۔"‬
‫وہ کڑوے بادام جیسا منہ بنا چکا تھا۔‬
‫"پر خیر تمہارے لیے کچھ بھی بن جاؤں گا۔"‬
‫وہ پھر سے مسکرا دیا تھا۔‬

‫‪171‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ بھی ہنستی چلی گئی۔‬


‫"اچھا اور ایک بات بتاؤ‪"......‬‬
‫ملکہ ہیرل نے آہستگی سے اسے پکارا۔‬
‫"دو بتاؤں؟"‬
‫وہ عادت سے مجبور تھا۔‬
‫"پہلے ایک تو بتا لو۔"‬
‫بھنویں آچکا کر اس نے گردن گھما کر اسے‬
‫گھورا۔‬
‫"اب بھی تو میں تمہارے متعلق سوچ رہی ہوں۔‬
‫مگر میری قوتیں ویسی ہی ہیں۔‬
‫ایسا کیوں؟"‬
‫اس کے استفسار پر وہ رک کر اس کے سامنے آ‬
‫کھڑا ہو گیا۔‬
‫"وہ اس لیے کہ اب تمہیں حجاب مل گیا ہے۔"‬

‫‪172‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے دھیرے سے ملکہ کا ہاتھ تھاما تھا اور‬


‫پھر چٹکی بجائی وہ دونوں تیزی سے پرنس کیقاد‬
‫کے محل پہنچ گئے تھے۔‬
‫"اچھا یہ بتاؤ کہ ہم اس دن مرے کیوں نہیں‬
‫تھے؟"‬
‫"کیوں کہ قدرت نے ہمیں ایک کرنا تھا۔‬
‫ہمیں ابھی جینا تھا اسی لیے۔‬
‫یا پھر تمہارے ہاتھوں مجھے ذلیل ہونا تھا اس‬
‫لیے۔"‬
‫اس نے آخر پہ شرارتی لہجہ اختیار کر کے سرخ‬
‫آنکھوں کو پٹپٹایا۔‬
‫"ہم ایک نہیں ہو سکتے کیقاد!‬
‫دو طاقتیں جب ملتی ہیں تو تباہی ہوتی ہے۔"‬
‫وہ مایوس ہوئی تھی۔‬
‫"اس کا بھی ایک حل ہے۔"‬
‫سس پیدا کیا۔‬
‫اس نے تج ّ‬
‫‪173‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"کیا؟ جلدی بتاؤ نہ‪"!.....‬‬


‫"تم یہ شاہی پوشاک کبھی نہیں اتارو گی۔‬
‫صرف مجھ سے خود کو نہیں چھپاؤ گی باقی کوئی‬
‫مرد تمہیں دیکھ نہیں سکتا۔"‬
‫اس نے سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"منظور ہے۔"‬
‫وہ تیزی سے گویا ہوئی۔‬
‫"پھر ہمیں بھی قبول ہے۔"‬
‫وہ شانے آچکا کر بوال۔‬
‫"ایک منٹ۔"‬
‫وہ کچھ ڈھونڈ چکی تھی اس کے چہرے پہ۔‬
‫"اس میں کیا الجک ہے۔‬
‫اصل میں تو تم سے پردہ کرنا چاہیے تھا۔"‬
‫"مگر شوہر سے پردہ نہیں ہوتا۔"‬
‫وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔‬

‫‪174‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"مطلب ہمارا نکاح ہو سکتا ہے؟"‬


‫اس نے بےتابی سے استفسار کیا تھا۔‬
‫وہ صوفے پہ بیٹھ کر اثبات میں سر ہال آنکھیں‬
‫موند گیا۔‬
‫وہ خوشی سے چال اٹھی تھی۔‬
‫کیقاد ہڑبڑا کر اٹھا۔‬
‫پھر ہنستے ہوئے نیچلے لب کو دانتوں میں دبائے‬
‫سر جھکا گیا۔‬
‫اس کے بعد مل کر دونوں نے شاہی پوشاکیں تیار‬
‫کیں اور رات کے جشن میں سب عورتوں کو‬
‫تقسیم کیں۔‬
‫"سنو! یہ جشن کس لیے تھا؟"‬
‫وہ نیچے سب کو کھانا کھاتے دیکھ اس کی جانب‬
‫متوجہ ہوئی فضا میں اڑتے قالین پہ وہ دونوں‬
‫بیٹھے تھے۔‬

‫‪175‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ہیرل دولہن کے روپ میں مزید خوبصورت لگ‬


‫رہی تھی۔‬
‫کیقاد بھی شاہی لباس میں ملبوس اس کو تکنے‬
‫میں مصروف تھا۔‬
‫کچھ دیر پہلے ہی وہ دونوں پاک بندھن میں بندھ‬
‫گئے تھے۔‬
‫"تاکہ ہماری نگری اس خاتمے کی شب سے آزاد‬
‫ہو سکے۔‬
‫ایک بادشاہ باپ کے جیسا ہوتا ہے اور باپ نہیں‬
‫چاہتا اس کے بچے گھر سے باہر خوشیاں تالش‬
‫کریں۔‬
‫اسی لیے میں نے خوشیاں گھر میں ہی بنا ڈالیں‬
‫سب بڑے بوڑھے جوان اس تقریب میں ہیں۔ہماری‬
‫سب پہ نگرانی ہے‪.......‬‬
‫اور ہم تم بھی۔"‬
‫اس نے ہیرل کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرا تھا وہ شرما کر‬
‫سر جھکا گئی۔‬
‫‪176‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫پرنس کیف' یاقوت نے پھولوں کی برسات کی تھی‬


‫اور ساتھ ہی آتش بازی بھی ہوئی تھی۔‬
‫دونوں نے سر اٹھا کر مسکراتے ہوئے یہ‬
‫خوشیوں کا منظر دیکھا تھا۔‬
‫"خاتمے کی شب کا خاتمہ ہوا ہے۔‬
‫محبت کی اور عزت کی جیت ہوئی ہے۔"‬
‫کیقاد نے کہتے ہوئے گردن گھما کر ہیرل کو دیکھا‬
‫تو وہ اثبات میں گردن ہال کر اس کے شانے پہ سر‬
‫ٹکا کر آنکھیں موند گئی۔‬

‫سچ کہتی ہوں میں‬


‫دنیا کا کوئی بھی حصہ کیوں نہ ہو‬
‫عورت حیا کے ساتھ جچتی ہے‬
‫سنگھار کی بجائے‬
‫نقاب کے ساتھ جچتی ہے‬
‫اس کا جادو ہے اس کی عزت‬
‫‪177‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس کو کھونے سے وہ ڈرتی ہے‬

‫ان کو اپنی سلطنت کا جادو نہیں کھونا تھا۔‬


‫یوں خاتمے کی شب سے ایک ملکہ اور کنگ نے‬
‫اپنی سلطنت کو محفوظ کر لیا‬
‫اس کے بعد ہر عورت کے پاس حجاب تھا کوئی‬
‫پاشا جیسا ان کے قریب بھی نہیں‬
‫بھٹک سکتا تھا۔‬
‫کیقاد نے ویلنٹائن ڈے جیسی کالی رات کو خاتمے‬
‫کی رات ثابت نہیں کیا تھا اپنی سلطنت کو اور اپنی‬
‫محبت کو بچایا تھا۔‬
‫نکاح کر کے اور شاہی پوشاک دے کر اس نے‬
‫ہمیشہ کے لیے ملکہ ہیرل کو خاتمے کی شب سے‬
‫بچایا تھا۔‬
‫پریوں کی نگری اب خاتمے کی شب سے آزاد تھی۔‬
‫جواب ‪۱‬‬

‫‪178‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس کہانی میں عزت کو ایک جادو کا نام دیا ہے‬


‫جو کہ واقع ہی حقیقت ہے۔‬
‫عورت کے پاس جب تک یہ جادو ہے وہ طاقتور‬
‫ہے۔‬
‫جواب ‪۲‬‬
‫جب عورت کسی نامحرم کے متعلق سوچنے لگے‬
‫تو وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔‬
‫جواب ‪۳‬‬
‫اور شاہی پوشاک (حجاب)ہی وہ پوشاک ہے ِجسے‬
‫زیب تن کر کے عورت اپنی عزت کو محفوظ رکھ‬
‫سکتی ہے۔‬
‫اس کے نزدیک بری نیت والے مرد بھٹک نہیں‬
‫سکتے۔‬
‫جواب ‪۴‬‬
‫خاتمے کی رات یقینا ً ویلنٹائن ڈے کو کہا گیا ہے۔‬
‫جواب ‪۵‬‬

‫‪179‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس کہانی میں موجود جادو یا طلسم حقیقت نہ بھی‬


‫ہو‪.....‬مگر اس کے لفظ سچے ضرور ہیں۔‬
‫اور جو سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہی ہے۔‬
‫شاہی پوشاک کے بغیر عورت مکمل نہیں‬
‫ویلنٹائن ڈے خاتمے کی رات ہے خاتمے کا دن‬
‫ہے۔‬
‫مگر ہم اگر چاہیں تو اس روایت کو ختم کر سکتے‬
‫ہیں‬
‫اس اندھیری رات کو روشن کر سکتے ہیں‬
‫گالب کی بجائے حجاب دے کر‬
‫دھوکہ نہیں' نکاح کر کے‬
‫جس سے ہمیں مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔‬
‫بلکہ سب کو ہی خاتمے کی شب سے بچانا چاہیے۔‬
‫والدین کا فرض ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے کو گھر‬
‫میں ہی خوشیاں بکھیر دیں۔‬

‫‪180‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس نے کتاب بند کر کے ایک جانب رکھی اور‬


‫گہری سانس خارج کر کے سر میز پہ ٹکا دیا۔‬
‫آنکھوں میں سے چند موتی میز پہ بکھرے تھے۔‬
‫"اپنی ہی لکھی گئی کہانیاں پڑھ پڑھ کر خوش‬
‫ہوتی رہتی ہو۔"‬
‫دروازے کے درمیان میں کھڑی ڈاکٹر طاہرہ نے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا۔‬
‫وہ سر اٹھا کر تیزی سے آنسوؤں کا نام و نشان‬
‫مٹانے لگی۔‬
‫"ویسے یہ شاہی پوشاک افسانہ تم نے بہت ہی‬
‫اچھا لکھا ہے۔‬
‫میں تو ابھی تک اس طلسمی دنیا میں ہی کھوئی‬
‫ہوئی ہوں۔‬
‫خاتمے کی شب کو پرنس کیقاد نے نکاح کیا اپنی‬
‫سلطنت کو ایک نئی روایت دی۔‬
‫پر تم نے اتنا کم کیوں لکھا؟‬

‫‪181‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫تمہیں نہیں لگتا یہ کم تھا؟"‬


‫وہ ہمیشہ کی طرح فرفر بولتی گئی۔‬
‫وہ مبہم سی مسکرا کر کتاب کھول کر اسی پہ‬
‫نگاہیں ٹکا گئی۔‬
‫"یہ تحریر اس لیے لکھی تاکہ پڑھنے والے‬
‫انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ سیکھ بھی‬
‫جائیں۔‬
‫میرا مقصد صرف انجوائے کروانے کے ساتھ کچھ‬
‫سیکھانا تھا۔‬
‫تاکہ لوگ بور بھی نہ ہوں اور کچھ سیکھ بھی‬
‫جائیں۔‬
‫باتیں بہت گہری ہیں مگر پڑھنے والے سمجھ‬
‫جائیں گے۔"‬
‫اس نے گہری سانس خارج کر کے کہا۔‬
‫طاہرہ اثبات میں سر ہال گئی۔‬

‫‪182‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ویسے دیکھا جائے تو حقیقت بھی چھپی ہے اس‬


‫کہانی میں‬

‫جیسے پاشا ہیرل کی عزت پہ وار کرنا چاہتا تھا۔‬


‫اور ہیرل نے جب کیقاد کو چھونے کی خواہش کی‬
‫تو طاقتیں کھونے لگی۔‬
‫مگر جب اس کے دل میں کوئی کھوٹ نہ رہی‬
‫برقعہ پہن لیا تو اس کی طاقت واپس لوٹ آئی۔‬
‫کیوں کہ دل صاف تھا۔"‬
‫طاہرہ نے تعریفی انداز میں کہا۔‬
‫"شکر ہے تم سمجھی تو۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"اچھا میں چلتی ہوں موم ڈیڈ انتظار کر رہے ہوں‬
‫گے۔"‬
‫بیگ اٹھا کر شانے پہ ڈاال اور دروازے کی جانب‬
‫بڑھی۔‬
‫طاہرہ غور سے اسے دیکھ رہی تھی‬
‫‪183‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫جب جب وہ اپنی کہانی پڑھتی تب تب وہ روتی‬


‫تھی۔‬
‫وجہ کیا تھی ڈاکٹر طاہرہ اچھے سے جانتی تھی۔‬
‫"سنو! تم آج بھی رو رہی ہو' اسے بھولی نہیں؟"‬
‫بس یہ ہی فقرہ تھا جو اسے برف کر گیا۔‬
‫مگر اب تو طاہرہ کے اس سوال پر جواب دینا وہ‬
‫سیکھ چکی تھی۔‬
‫پلٹی' مسکرائی اور چلی گئی۔‬
‫"نہیں ڈیڈ! ابھی تو ہم پہنچے ہیں۔"‬
‫اس کا ہاتھ اپنی گاڑی کے دروازے کی جانب بڑھا‬
‫تھا کہ اس آواز پر وہاں ہی ساکت ہو گیا۔‬
‫یہ آواز وہ ہی تھی وہ کبھی بھی نہیں بھول سکتی‬
‫تھی۔‬
‫خواہ دو سال ہی کیوں نہ ہو گئے ہوں اس سے‬
‫دور ہوئے۔‬
‫مگر وہ آج بھی اس کے دل میں تھا۔‬
‫‪184‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"جلدی کرو فخر! میں مر رہی ہوں۔‬


‫بہت درد ہو رہا ہے۔"‬
‫اس کی منتشر ہوتی دل کی دھڑکنیں تھم گئیں اور‬
‫مسکراہٹ سمٹ گئی۔‬
‫یہ آواز ہیرا کی تھی۔‬
‫وہ بس ایک پل کو ہی پلٹی تھی۔‬
‫دوسری گاڑی میں سے فخر ہیرا کو سہارا دے کر‬
‫اتار رہا تھا اور ساتھ قیصر بھی تھا جو کوئی نمبر‬
‫ڈائل کرتے ہوئے فخر سے تھوڑا دور چال گیا۔‬
‫فخر ویسا ہی تھا بس شخصیت مزید نکھر گئی‬
‫تھی۔‬
‫وہ وجہہ پرسنیلٹی لیے آج بھی ہیرا کے ساتھ کھڑا‬
‫تھا جہاں وہ اسے چھوڑ کر آئی تھی‬
‫وہ بچپنا اور شرارتیں سنجیدگی میں بدل چکی‬
‫تھیں۔‬
‫اس کا لباس بھی بدال تھا۔‬

‫‪185‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اب پہلی ڈریسنگ کی بجائے پینٹ کوٹ' پیروں‬


‫میں جوگرز کی جگہ چمکتے جوتے لے چکے‬
‫تھے۔‬
‫وہ ہیرا کو سہارا دے کر آگے بڑھ رہا تھا۔‬
‫فخر کا ہاتھ اس کی کمر پہ تھا اور دوسرا ہیرا نے‬
‫تھام رکھا تھا۔‬
‫اس کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ ماں بننے والی‬
‫ہے۔‬

‫آنکھیں آج بھی پیاسی رہ گئیں‬


‫پھر رقب آ گئے تھے درمیان میں‬

‫وہ سختی سے لب بھینچ کر گاڑی کی جانب گھوم‬


‫گئی سختی سے ہاتھ گاڑی کے دروازے پر ٹکا‬
‫کے آنسو پونچھتی واپس پلٹی۔‬
‫دوست ہو یا دشمن ڈاکٹر ڈاکٹر ہی ہوتا ہے۔‬

‫‪186‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اور ابھی ہیرا کو ایمرجنسی آپریشن کی ضرورت‬


‫تھی۔‬
‫"تو آج تم باپ بھی بننے جا رہے ہو۔‬
‫خدا تمہاری خوشیاں سالمت رکھے۔"‬
‫ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے دل سے دعا نکلی‬
‫تھی۔‬
‫کیونکہ اس کا دل صاف تھا یہ ہی تو اس کی طاقت‬
‫تھی۔‬
‫"ماں میں کچھ دیر تک آتی ہوں۔ ابھی ایک‬
‫ایمرجنسی کیس آ گیا ہے۔"‬
‫وہ کال کر کے پلٹی تو سامنے کھڑے شخص کو‬
‫دیکھ ایک پل کو ہڑبڑائی پھر انجان بنتی عقب سے‬
‫نکل گئی۔‬
‫"محبہ! یہ تم ہو؟"‬
‫قیصر حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔‬
‫"ایکسکوزمی۔ کیا میں آپ کو جانتی ہوں؟"‬

‫‪187‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ العلمی سے گویا ہوئی۔‬


‫قیصر نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تھا۔‬
‫سٹائلش نفیس ڈیزائن والے شلوار قمیض پہ سفید‬
‫ڈاکٹری کوٹ۔‬
‫بالوں کو اونچی ٹیل پونی میں قید کیے خوبصورتی‬
‫سے حجاب چہرے کے گرد لپیٹا گیا تھا۔‬
‫موٹی موٹی آنکھوں میں کاجل اور ان پہ نفیس‬
‫ڈیزائن والی عینک۔‬
‫اس کی سانولی رنگت بھی چمک رہی تھی۔‬

‫وہ اسے وہاں ہی حیران چھوڑ کر چلی گئی۔‬


‫ّٰللا‬
‫ہیرا کا بڑا آپریشن ہوا تھا اور بہت پیاری بہٹی ہ‬
‫نے اسے عطا کی تھی۔‬
‫ّٰللا نے آپ کو بیٹی عطا کی ہے۔"‬
‫"مبارک ہو ہ‬
‫نرس نے اسے مبارک باد دی مگر وہ تو دستے‬
‫سے اکھڑی کہالڑی کی مانند پھٹ پڑی۔‬
‫‪188‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"کیا بکواس کر رہی ہو۔‬


‫مجھے بیٹا ہونا تھا۔ میں اس کو ہرانا چاہتی تھی‬
‫وہ میری‪......‬میری جگہ نہیں لے سکتی اس‬
‫خاندان کو وارث میں نے دینا تھا۔تم لوگوں نے‬
‫میرا بچہ بدل دیا ہے میرا بیٹا تھا۔"‬
‫اس نے چال چال کر ہسپتال سر پہ اٹھا لیا تھا۔‬
‫"ڈاکٹر محبہ!"‬
‫اسے دروازے میں ساکت دیکھ کر نرس گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"ڈاکٹر محبہ! ہم نے ان کو مبارکباد دی مگر یہ‬
‫عورت اتنی بدتمیز ہے ہمیں کہ رہی ہم نے اس کا‬
‫بچہ بدل دیا۔"‬
‫وہ تیزی سے محبہ کی جانب بڑھتے ہوئے بولی۔‬
‫مگر محبہ کی نگاہیں ہیرا پہ ہی تھیں جس کا سفید‬
‫رنگ پیال پڑ چکا تھا۔‬
‫بدتر حاالت تھی اس کی۔‬

‫‪189‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫جب ہیرا کی نظر اس پہ پڑی تو وہ گنگ رہ گئی۔‬


‫"محبہ! تم‪".......‬‬
‫چہرے پہ آئے بالوں کو وہ سمیٹ کر کان کے‬
‫پیچھے کرتے ہوئے اسے دیکھے جا رہی تھی۔‬
‫وہ اب سر جھٹک نرس کی جانب متوجہ تھی اور‬
‫فائل دیکھ رہی تھی۔‬
‫"ارے بھئی کیا ہوا چال کیوں رہی ہو؟سب ٹھیک‬
‫تو‪"......‬‬
‫کمرے میں داخل ہو کر وہ اس کے پاس جا کھڑا‬
‫ہوا۔‬
‫اس کی نگاہوں کا پیچھا کرتے ہوئے جب نظر‬
‫محبہ پہ پڑی تو وہ چونکا۔‬
‫"محبہ‪"!.....‬‬
‫اسے اپنی آواز کہیں کھائی سے آتی ہوئی‬
‫محسوس ہوئی۔‬

‫‪190‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ادھر اپنا نام دو سال بعد اس شخص کے منہ سے‬


‫سن آنکھوں میں نمی تر آئی تھی۔‬
‫وہ بنا کچھ بولے فائل نرس کو تھما کر وہاں سے‬
‫چلی گئی تھی۔‬
‫آج سے پہلے اسے کراچی اتنا برا نہیں لگا تھا۔‬
‫اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ خوش ہویا پریشان۔‬
‫کچھ نہ سوجھا تو گاڑی سمندر کی جانب گھوما‬
‫لی۔‬
‫ساحل سمندر پہ ننگے پاؤں چلتے ہوئے وہ‬
‫مسلسل خاموش تھی۔‬
‫آج سے پہلے اسے یہ سمندر بھی اتنا خاموش‬
‫نہیں لگا تھا جتنا آج‬
‫کیوں کہ وہ خود خاموش تھی۔‬

‫"ملکہ ہیرل!"‬

‫‪191‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اپنے پیچھے مدھم سی آواز سن کر وہ بری طرح‬


‫چونکی تھی اور پھر پلٹی۔‬
‫سب سے پہلے اس کی نظر الل آنکھوں پر پڑی‬
‫تھی۔‬
‫پھر عنابی ہونٹوں پر اور اس کے بعد‪......‬وہ رخ‬
‫پھیر گئی۔‬
‫"کیا ہوا محبہ! اب ہم اتنے ہی ناپسندیدہ شخصیت‬
‫قرار دے دیئے گئے ہیں؟"‬
‫وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔‬
‫"ن نہیں مجھے لگا‪".......‬‬
‫"تمہیں لگا کہ سچ میں پرنس کیقاد آ گیا ہے۔‬
‫بائے دی وے لگ رہا ہوں نہ پرنس کیقاد؟"‬
‫شرارت سے کہتے ہوئے اس نے بازوں کو ہوا‬
‫میں ہال کر بالوں میں ہاتھ پھیرا۔‬
‫نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مدھم سی مسکراہٹ کے‬
‫ساتھ اثبات میں سر ہال گئی۔‬

‫‪192‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"تم جانتی ہو محبہ!‬


‫رائٹر محبہ فراز کو میں شروع سے پڑھتا آ رہا‬
‫ہوں۔‬
‫آگ کا سمندر' ہرے ساون' اور جتنے بھی‬
‫تمہارے افسانے 'ناول 'آرٹیکل میں نے پڑھے ہیں۔‬
‫مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ تم ہی ہو۔‬
‫یہ تو آج تمہارے آفس میں پڑی شاہی پوشاک نے‬
‫اور اس پہ لکھے ہم دونوں کے نام نے بتایا کہ‬
‫محبہ فراز تم ہو۔‬
‫تمہاری اس تحریر سے پہلے ہی میں نے شاہی‬
‫پوشاک تمہارے لیے خریدا تھا۔‬
‫یاد ہے اس دن قیصر نے تم سے کہا تھا تمہیں اک‬
‫تحفہ ملے گا۔"‬
‫اس نے نرمی سے کہا تھا۔‬
‫"ہاں مال تھا تحفہ۔"‬
‫وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی تھی۔‬

‫‪193‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"اب گزری باتیں کرنے کا کیا مقصد۔‬


‫خیر تمہاری بیوی انتظار کر رہی ہو گی جاؤ یہاں‬
‫سے۔"‬
‫وہ سخت لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫"تم بیواقوف ہو محبہ!‬
‫اگر بیوی ہوتی تو تمہارے پیچھے کیوں کر ذلیل‬
‫ہوتا۔‬
‫ایک پرنس کیقاد ہیرل کے پیچھے اور ایک میں‬
‫تمہارے پیچھے ذلیل ہو رہا ہوں۔"‬
‫وہ معصوم بنا۔‬
‫محبہ نے رخ پھیر کر پھر چلنا شروع کیا تھا۔‬
‫"ذلیل تو تم مجھے کہانیوں میں بھی کرتی پھر‬
‫رہی ہو۔"‬
‫اس نے شکوہ کیا۔‬
‫"تم حقیقت میں کرتے ہو فرق صرف اتنا ہے۔"‬
‫وہ بےتاثر لہجے میں بولی۔‬
‫‪194‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ّٰللا۔‬
‫"سبحان ہ‬
‫کتنی جھوٹی ہو تم۔‬
‫چھوڑ کر تم آئی تھی یا میں۔‬
‫کم از کم مجھ سے تو مل لیتی۔"‬
‫"کیوں؟"‬
‫"تم سے ادھار لینا تھا۔"‬
‫وہ تپ کر بوال۔‬
‫"قیصر اور شہزاد کا اثر ہو گیا نہ تم پر۔"‬
‫وہ مسکراہٹ دبا کر چھپا گئی۔‬
‫"تمہیں جو میرا نہیں ہوا سوچا میں ہی کسی کا اثر‬
‫لے لوں۔"‬
‫وہ شانے آچکا کر بوال اور کوٹ اتار کر بازو پہ‬
‫لٹکا لیا۔‬
‫"آج بھال کیا ڈیٹ ہے؟"‬
‫"خاتمے کا دن ہے۔"‬

‫‪195‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وہ سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہوئے بولی۔‬


‫وہ دونوں چلتے چلتے اپنی اپنی گاڑیوں کے قریب‬
‫آ پہنچے تھے۔‬
‫"ہوں‪......‬دو سال پہلے اسی دن ہی ہم بچھڑے‬
‫تھے۔"‬
‫اس کی بات پہ محبہ نے رخ پھیر کر آنکھوں میں‬
‫چمکتی نمی چھپائی تھی۔‬
‫" ایک منٹ‪"......‬‬
‫وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھا اور کوٹ پیچھلی سیٹ‬
‫پر ڈال کے ایک گفٹ پیک اٹھا کر اس کی جانب‬
‫بڑھا دیا۔‬
‫"میں یہ نہیں لے سکتی۔سوری مسٹر فخر‬
‫الحسن!"‬
‫وہ سپاٹ لہجہ لیے ہوئے تھی۔‬
‫فخر لب بھینچ کر رہ گیا۔‬

‫‪196‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"یہ شاہی پوشاک ہے ملکہ محبہ! جو آپ کے‬


‫پرنس فخر الحسن نے خریدی تھی دو سال پہلے۔"‬
‫اس نے شہادت کی انگلی ڈیٹ پہ رکھی۔‬
‫وہ پل بھر کو خاموش ہوئی تھی۔‬
‫حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں۔‬
‫"مگر اس دن تم نے ہیرا‪.......‬کا پروپوزل اکسیپٹ‬
‫کیا تھا اور اب وہ تمہارے بچے‪".......‬‬
‫"بھابھی ہے وہ میری بیواقوف عورت‪"......‬‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتی فخر نے‬
‫اسے ٹوکا۔‬
‫"اس دن جب تمہارا خط مجھے مال تو میں بہت ہی‬
‫ٹوٹ گیا تھا۔‬
‫یقین نہ آیا یہ وہ لڑکی ہے جس نے مجھ سے‬
‫خاموش محبت کی ہے۔‬
‫اور اس دن مجھے ہیرا نے پرپوز کیا۔‬

‫‪197‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫مگر میں نے گالب کا پھول تھام کر پھر سے گرا‬


‫دیا تھا۔‬
‫"ایم سوری ہیرا! میں صرف محبہ سے محبت کرتا‬
‫ہوں۔ یہ گالب کا پھول میری محبت ختم نہیں کر‬
‫سکتا۔‬
‫اور تمہیں مجھ سے محبت تو بلکل بھی حاصل‬
‫نہیں ہو گی۔"‬
‫اس کو اپنی آواز سنائی دی تھی اور وہ گالب کا‬
‫پھول پھینکتا وہاں سے چال گیا۔‬
‫"اور اس اویس کا کیا بنا؟"‬
‫اس نے استفسار کیا۔‬
‫"اس کو میں نے‪"......‬‬
‫ہاتھ کا اشارہ اوپر کی جانب کیا۔‬
‫"ہاؤ تم نے مار دیا اسے؟"‬
‫"نہیں پاگل لڑکی آسمان سے زمین پہ ال پٹخا۔‬
‫یعنی جیل میں بند ہے پیچھلے ایک سال سے۔‬
‫‪198‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس سے میں ایک سال پہلے مال تھا۔‬


‫اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا۔‬
‫تمہیں بہت ڈھونڈا مگر ہمیشہ ناکامی حاصل‬
‫ہوئی۔"‬
‫اس کے چہرے پر درد کی لہر دوڑ گئی تھی۔‬
‫"اچھا اور ہیرا تمہاری بھابھی کیسے؟"‬
‫"جب میں نہیں مانا تو بھائی سے شادی کر لی۔‬
‫مگر وہ اتنی مطلب پرست اور دھوکے باز تھی کہ۔‬
‫اپنے ایک بچے کو دنیا میں آنے سے پہلے ختم‬
‫کر چکی تھی‬
‫بھائی نے تنگ آ کر دوسری شادی کر لی۔‬
‫میں تو خاموش ہو گیا تھا۔‬
‫مگر قدرت نے فیصلہ کیا اس کا بھی اور اویس کا‬
‫ّٰللا نے ہی کیا ہے۔"‬
‫بھی اور اب ہمارا بھی ہ‬
‫اس کی جانب گفٹ بڑھاتے ہوئے وہ بات کے‬
‫اختتام پہ مسکرایا۔‬
‫‪199‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫محبہ نے اس کی گاڑی کے ڈیش بورڈ پہ گفٹ رکھ‬


‫کر کھوال۔‬
‫اس میں سے کالے رنگ کا برقعہ برآمد ہوا ایک‬
‫سفید کاغذ جس پہ اس کی وہ ہی نظم تحریر تھی‬
‫جو الئبریری میں بیٹھ کر لکھی تھی وہ وہاں ہی‬
‫بھول آئی تھی اور فخر کے ہاتھ لگ گئی اس کاغذ‬
‫کی پیچھلی جانب فخر کے لفظ تھے۔‬

‫مجھے پسند ہے وہ عام سی لڑکی‬


‫میرا عشق ہے وہ عام سی لڑکی‬
‫اسے گالب تحفے میں نہ دوں گا کبھی‬
‫میں بھی اسے حجاب دوں گا کبھی‬

‫نظم پڑھتے ہی اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔‬

‫"مجھے معلوم تھا تم کیا ہو‬


‫‪200‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫میں نے تمہیں معلوم نہ ہونے دیا‬


‫یہ ہی تو میری صالحیت تھی!"‬

‫وہ جھک کر اس کے آنسو صاف کرتا گنگنایا۔‬


‫"ہیرا کی شادی تم سے نہیں ہوئی تو تم اس کے‬
‫ساتھ کیا کر رہے ہو؟"‬
‫وہ اس کی توجہ ہٹانے کی خاطر مصنوعی تیکھے‬
‫لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫"شکی عورت وہ بھابھی ہے میری۔‬
‫بابا نے کہا تھا لے چلو تو مجبورا ً آنا پڑا بھائی تو‬
‫بچاری کو چھوڑ کر لندن میں اپنے دو بچوں کے‬
‫ساتھ بیٹھے ہیں۔"‬
‫وہ اس کے سر پہ تھپکی رسید کر کے مسکرایا۔‬
‫وہ سر جھکا گئی۔‬
‫"اور کچھ پوچھنا ہو تو؟"‬
‫وہ مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔‬
‫‪201‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫اس کا شرم و حیا سے جھکا سر مزید جھک گیا۔‬


‫نفی میں سر ہال کر وہ ایک نظر اس پہ ڈال ہاتھوں‬
‫میں منہ چھپا گئی۔‬
‫وہ اس کی اس ادا پہ فدا ہوتا ہنس دیا۔‬
‫اس کی آنکھوں میں الل لینز بہت جچ رہے تھے۔‬
‫"تم ڈاکٹر کیسے بنی یہ تو بتایا ہی نہیں؟"‬
‫اس نے نرمی سے اسے دیکھتے ہوئے استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"معجزے بھی ہوتے ہیں فخر! میری زندگی میں‬
‫بھی معجزہ ہوا تھا۔‬
‫ڈاکٹر غالم جیالنی کے بارے میں سنا ہو گا کراچی‬
‫کے مشہور ترین ڈاکٹر۔"‬
‫وہ خاموش ہوئی تو فخر نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫"ایک مریض کو ان کے ہسپتال میں لے کر گئی‬
‫تھی۔‬

‫‪202‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫وقتی طور پر کوئی ڈاکٹر نہیں تھا وہاں جو اس کا‬


‫ٹریٹمنٹ کرتا۔‬
‫وہ بہت بری حالت میں تھا مجھے ایک چھوٹا سا‬
‫جھوٹ بولنا پڑا۔"‬
‫"وہ کیا؟"‬
‫"میں نے کہا میں بھی ڈاکٹر ہوں تو ٹریٹمنٹ دے‬
‫سکتی ہوں نرس نے حامی بھری۔‬
‫اور قسمت مہربان تھی مجھ پہ اسی وقت ڈاکٹر آ‬
‫گئے۔‬
‫میں نے ان کو اپنی کہانی سنا ڈالی۔‬
‫ّٰللا جب اپنے بندوں کو نوازنے پہ آتا ہے تو پھر‬
‫ہ‬
‫وہ نوازتے جاتا ہے۔‬
‫ّٰللا کا شکر ہے آج میرے پاس ڈگری بھی ہے اور‬ ‫ہ‬
‫اچھی جاب بھی 'ایک بنگلہ بھی اور ماں بابا آرام‬
‫کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔"‬
‫وہ پرسکون انداز میں مسکرائی تھی۔‬

‫‪203‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫چند پل ان دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی۔‬


‫"ملکہ ہیرل! کیا آپ مجھ سے شادی کریں گیں؟"‬
‫وہ اس کے سامنے شہزادوں کی طرح جھکا تھا۔‬
‫اس کے پوچھنے پر وہ سر تھام کر رہ گئی۔‬
‫"ارے کیا ہوا سر میں درد ہے کیا؟"‬
‫وہ تیزی سے اٹھا تھا۔‬
‫"فخر! بہت بڑی پرابلم ہو گئی ہے۔"‬
‫وہ ناخن چبانے لگی۔‬
‫"کیا پرابلم ہے بتاؤ مجھے۔ شاید حل کر سکوں۔"‬
‫وہ جی بھر کر بدمزگی کا شکار ہوا تھا مگر فلحال‬
‫وہ اس کی ضروری بات سننا چاہتا تھا۔‬
‫"اب کچھ نہیں ہو سکتا۔"‬
‫وہ لب کاٹنے لگی۔‬
‫"ارے ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ تو یکدم سے کیوں‬
‫ایسے ڈراؤنی بن گئی۔"‬

‫‪204‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"ہوا یہ ہے کہ۔‬
‫وہ میں نے پرنس کیقاد سے ملکہ ہیرل کو پرپوز‬
‫ہی نہیں کروایا۔اس نے تو ملکہ سے پوچھا ہی‬
‫نہیں تھا شادی کے متعلق ایک سین مس کر دیا۔"‬
‫اس نے جو جواب دیا فخر ایک پل کو اسے پھٹی‬
‫پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہا پھر نفی میں سر ہال‬
‫کر رہ گیا۔‬
‫"کچھ نہیں ہو سکتا تمہارا۔‬
‫میں یہاں ہماری شادی کی بات کر رہے ہیں تم‬
‫کیقاد اور ہیرل کی دنیا میں پہنچی ہوئی ہو۔"‬
‫وہ سخت لہجے میں کہتا پلٹ گیا۔‬
‫"پرنس کیقاد! مجھے آپ بولتے اچھے لگتے ہیں۔‬
‫پلیز لوٹ آؤ۔"‬
‫اس نے مدھم آواز میں کہا تو فخر کے قدم ایک‬
‫مرتبہ بھی نہیں اٹھے وہاں ہی فریز ہو گئے وہ‬
‫ایڑھیوں کے بل پلٹا اور اس تک چلتا آیا۔‬

‫‪205‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"پھر مجھ سے شادی کر لو۔‬


‫پرنس کیقاد تمہارے بغیر جی نہیں سکتا۔"‬
‫وہ اس کے سامنے ہاتھ پھیال کر بوال۔‬
‫اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی جانب بڑھایا۔‬
‫"میرے ماں باپ سے آ کر مانگو مجھے۔"‬
‫وہ ہاتھ کھینچ کر کہتی پلٹ گئی۔‬
‫وہ مسکراتا کھڑا رہ گیا۔‬
‫جانتا تھا وہ کہ محبہ اس کی ہے اور وہ محبہ کا۔‬
‫"آج رات آؤں گا تمہارے ماں باپ کے پاس تمہیں‬
‫مانگنے‬
‫اور خاتمے کی شب کی نظر اپنی معصوم سی‬
‫زندگی کرنے۔"‬
‫اس کا شرارت بھرا لہجہ گونجا تو محبہ کھلکھال‬
‫کر ہنسی اور گاڑی کا دروازہ کھول شاہی پوشاک‬
‫کو اپنے لباس پہ ہی زیب تن کر کے گاڑی سے‬
‫باہر نکلی۔‬
‫‪206‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫"مجھے بھی انتظار رہے گا اس دن کا جب۔‬


‫تمہیں مزید ذلیل کرنے تمہارے گھر آؤں گی۔"‬
‫اس نے وکٹری بنائی اور گاڑی میں پھر سے بیٹھ‬
‫گئی۔‬
‫وہ دیر تک کھڑا مسکراتا رہا۔‬
‫آخر وہ شاہی پوشاک بھی ایک ملکہ کے پاس پہنچ‬
‫گئی۔‬
‫کیونکہ دینے واال بھی بادشاہ تھا‬
‫جسے اپنی ملکہ کو خاتمے کی شب سے بچانا تھا۔‬
‫اپنی آنے والی نسلوں کو' اپنی بیٹی کو ۔‬

‫یوں ہی تو نہیں مل جاتی محبتیں‬


‫خاتمے کی شب کا خاتمہ کرنا پڑتا ہے‬

‫**************‬

‫‪207‬‬
‫ازطیبہ چوہدری‬ ‫شاہی پوشاک‬

‫ختم شد‬
‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬

‫‪208‬‬

You might also like