Professional Documents
Culture Documents
Rishtedaron Ki Shaadi Par
Rishtedaron Ki Shaadi Par
بات کچھ سال پہلے کی ہے جب میں 18سال کا تھا اور بارویں میں پڑھتا تھا۔
ایک بار میں اپنے کچھ دور پار کے رشتہ -داروں کی شادی پر کراچی گیا۔ میں چونکہ بہت کم جاتا ہوں
اسی لئے زیادہ لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔
خیر شادی والے گھر میں پہنچ کر پتہ چال کہ شادی بالکل ساتھ والے گھر میں ہو رہی ہے اور تقریبا”
سارے مہمان کامن ہیں۔ دولہا اور دلہن آپس میں کزن ہیں۔ جبکہ دولہا میرا بھی کزن تھا۔ وہاں پہنچ کر
پتہ چال کہ کافی افراتفری -مچی ہوئی -ہے اور لوگ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ یعنی وہی سین جو عام
طور پر شادیوں مین ہوتا ہے۔
میں کچھ دیر تو ادھر ادھر وقت ضائع کرتا رہا پھر اٹھ کر فضول میں گھومنے لگا۔ میری -یہ حالت دیکھ
کر ایک آنٹی جو پتہ نہیں میری کیا لگتی تھیں کو رحم آ گیا۔
انھوں نے ایک مجھے لڑکی والوں کے گھر بھیج دیا کہ وہاں میرے کافی ہم عمر تھے۔
یہاں آ کر لگا کہ جنت میں آ گیا ہوں کہ جہاں ہر طرف -لڑکیاں ہی لڑکیاں بکھری ہوئی ہیں۔
کوئی ڈانس پریکٹیس -کر رہی ہے تو کوئی کپڑے استری کوئی -سامان پیک کر رہی ہے تو کوئی میک
اپ۔کوئی نہا رہی ہے تو کپڑےٹرائی -کر رہی ہے۔ غرض بہار ہی بہار تھی۔
دلہن کو دیکھا تو اپنی قسمت پہ رونا آیا مگر پھر دل نے تسلی دی کہ کوئی -بات نہیں
یہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مجھے اپنی خوش قسمتی -اور پرسنالٹی -پر فخر ہوا ،جو جلد ہی ختم ہوا
کیونکہ یہ سب لڑکیاں کسی لڑکے کو ترس رہی تھیں۔
میں نے فخر سے کہا :ایسا ویسا -پورے الہور -میں مجھ سے اچھا بائیکر -پیدا نہیں ہوا۔
مجھے کیا معلوم -تھا کہ بڑے بول فورا” -سزا پاتے ہیں۔ میرا ٹیسٹ ایسے لیا گیا کہ شام تک گانڈ بائیک
سے علیحدہ نہیں ہوئی۔
گھر سے بازار تک کا راستہ اس اتنی بار دیکھا کہ ھاتھ کی لکیروں کی طرح یاد ہو گیا۔
شام تک لڑکیوں نے میری وہ حالت کی جو ریپ کے بعد ہوتی ہے۔ میں بیٹھنے تو کیا لیٹنے کے قابل نہ
رہا۔
آخر کار ایک بزرگ خاتون کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے چند لڑکیوں کے ساتھ دولہا دولہن
کا کمرا سجانے بھیجا۔ چند خود کو بہت سمارٹ سمجھنے والی لڑکیاں میرے ساتھ آئی اور مجھے حکم
دینے لگیں ۔ میں پھولوں کی لڑیاں لگانے لگا۔
لڑکیاں وہاں سے غائب ہونے لگیں تو میں نے شور مچا دیا۔ آخر کار میں یہ مزدوری جن کی قربت کے
لئے کر رہا تھا وہی اڑن چھو ہو رہی تھیں۔
میرے شور مچانے پر انھوں نے ایک لڑکی جو ان کی کتاب میں بچی تھی میرے پاس چھوڑی -اور دلہن
کے گھربھاگ گئیں۔
اس کی عمر 16-15سال تھی دبلی پتلی ،سانوال رنگ ،شادی کی مناسبت سے شوخ بلکہ کسی قدر
سیکسی ٹراؤزر -اور شرٹ میں تھی۔ جو چیز سب سے خاص تھی اس میں وہ تھا اس کا چہرا جو کسی
طرح بھی اس کو اس کی عمر کے مطابق -ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
میرا نام سارا ہے۔ میں نائیتھ میں پڑھتی ہوں۔” وہ ذرا شرما کے بولی۔”
سارا میں فیصل ہوں اور سیکنڈ ائیر میں پڑھتا ہوں" میں بوال۔"
"سارا میرا خیال ہے کہ اب بس کی جائے کیونکہ میں بہت تھک گیا ہوں۔"
میں نے کہا :میرا کیا قصور -ہے مزے کوئی لے گا کریڈٹ وہ تھماری باجیاں اور محنت میری لگ رہی
ہے۔
نہیں اس لئے کہ کوئی کام ہو تو کروا لوں مگر ہو وہ جو لڑکیوں کے کرنے واال ہو"۔وہ شوخ ہو کر"
بولی۔
میں نے کہا :کوئی نہیں ابھی تمھیں لڑکیوں کے کرنے واال کام کہوں گا اور تم مکر جاؤ گی۔
مجھے لگا کہ جیسا اچانک ایک مچھلی خود ہی کانٹے میں آ گئی ہے۔ اب میں نے اسے اسی نیت سے
دیکھا اور اسے ہر لحاظ سے چودنے کے قابل پایا۔
میں نے اب سوچ کے جواب دیا:چلو -یہ بھی ٹرائی لیتے ہیں مگر یاد رکھنا اگر مکر گئی تو میں
سمجھوں گا کہ تم میں وہ دم نہیں اور تم لڑکی ہی نہیں۔
اب میں نے اسے کہا کہ دروازہ بند کر دو اور یہاں میرے قریب آ جاؤ۔ میں کام بھی کرتا رہا اور اس
سے باتیں بھی۔
میں نے اس سے پوچھا :سارا پتہ نہیں لوگ یہ سیج کیوں سجاتے ہیں ہوتا تو بس سونا ہی ہے نا؟
وہ بولی :نہیں یہ یادگار رات ہوتی -ہے زندگی -بھر یاد رہتی ہے۔
میں نے کہا :ارے بھئی سردی لگ سکتی ہے پھولوں سے دلہن کو کوئی -کانٹا چب سکتا ہے۔
وہ بولی :کانٹا کیسے چبے سکتا ہے یہاں ایسا تو کوئی کانٹا نہیں۔
میں بوال :ڈئیر جب کپڑے بہنے بغیر ان پھولوں پر سونا ہو تو سردی -اور کانٹا دونوں ہو سکتے ہیں۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ میں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ وہ حالت تھی کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس
موضوع -کو آگے چالؤں یا نہیں کیوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
میں پوچھا :کیا ہوا کیا تمھیں نہیں پتہ تھا کہ سہاگ رات میں کیا ہوتا ہے؟
سوری یار! مجھے نہیں معلوم تھا کہ تھمیں نہیں پتہ۔ بس بات ذرا ایسی ہے کہ لڑکیوں کو تو پتہ ہونا
چائیے۔ مگر جب وہ بڑی ہو جائیں۔ کچھ عرصے بعد تمھیں کوئی نہ کوئی بتا ہی دے گا۔ میں اس لئے
نہیں بتا رہا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے۔
میں نے اگال وار کیا :اگر تم وعدہ کرو کہ کسی کو میرا نہیں بتاؤ گی تو میں بتاتا ہوں۔
وہ کچھ نہ بولی مگر اٹھ کر بھی نہ گئی۔ اب میری ھمت فل بڑھ گئی۔
وہ بری طرح چونک گئی جیسے اس سوال کی امید نہ ہو۔ اس نے سر چھکا لیا۔
میں آہستہ سے بوال :اس جگہ کے اندر لڑکا اپنا یہ (میں نے پینٹ کے اوپر سے ھاتھ لگایا) ڈالتے
ہیں۔.لڑکی کے اوپر -لیٹ کر اندر باہر کرتے ہیں پھر اس سے مزا لیتے ہیں۔
وہ سر جھکا کے زمین دیکھتی رہی اور بولی :میں ابھی آتی ہوں۔
وہ واپس آ گئی تو اس طرح بیٹھ گئی۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں جن میں بعض ایسے فلمی سین
جس میں سیکس تھا وہ اور ایسی دوسری -باتیں کرنے لگا۔
اب وہ بھی مجھ سے اس متعلق کچھ کچھ پوچھنے لگی جیسے درد تو نہیں ہوتا۔ یہ کتنا لمبا ہوتا ہے
وغیرہ۔
اتنے میں الئٹ چلی گئی۔ میں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے جسم پر ھاتھ رکھا تو وہ ذرا ذرا کانپ
رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ایک آنٹی نے مجھے کہا کہ باہر آ جاؤ اند کیا کر رہے ہو۔ میں کہا کہ اسی بہانے ذرا
آرام کر لیتا ہوں۔ آپ بس ذرا ایک کب چائے بھجوا دیں۔
دس منٹ بعد وہ چائے لیکر آئی۔ میں نے چائے لے لی اور کہا :سارا یہاں میرے پاس آ جاؤ۔
میں نے کہا :میں انتظار کر رہا ہوں تم آؤ ذرا دیکھ بھال کے ،یہاں اندھیرا ہے کوئی نہیں آئے گا۔
وہ چلی گئی اور 5منٹ بعد یہ آ گئی۔ دروازہ اندر سے بند کر بیڈ کے قریب آ گئی۔
میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔وہ ذرا سا کسمسائی -مگر کچھ ارو نہیں
کیا۔
میں نے سیدھا اپنا ھاتھ اس کی کنٹ پر رکھ دیا جو حسب توقع گیلی تھی۔
اس نے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر ہٹایا نہیں۔میں اس کے چہرے کو چومتا بھی رہا اور اس کی کنٹ مسلتا
بھی رہا۔
اتنے میں کوئی کھٹکا ہوا اور ہم دونوں چونک کر علیحدہ ہوگئے۔ وہ فورا" -بیڈ کے دوسری -طرف
کارپٹ پر لیٹ گئی۔ اس کی امی اندر آئی اور پوچھا:بیٹا -سارا تو یہاں نہیں ہے؟
میں نے کہا :نہیں آنٹی وہ تو چائے دے کر چلی گئی شاید وہاں دلہن کے گھر گئی ہو۔
ان کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی میں باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر میں الئٹ بھی آ گئی۔ مہندی کی رسم
شروع ہو گئی۔ سب عورتیں لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔
یہاں آنٹی نے مجھے کہا کہ میں سیج تیار کروں میرا کھانا وہ بھجوا دیں گی۔
آخر ایک بجے جب میں پوری طرح مایوس ہو چکا تھا وہ آ گئی۔اس کے ساتھ اس بہن اور بھائی بھی
تھے۔ وہ انھیں نیچے ایک کمرے میں سال کر میرے پاس آ گئی۔
تقریب اپنے پورے عروج پر تھی مرد باہر قناتوں میں تھے اور عورتیں اندر گھر میں۔ میرے پاس ٹائم
کی کمی نہیں تھی کم از کم 2گھنٹے تھے پھر بھی کوئی بھی آ سکتا تھا۔
آخر میں نے حل یہ نکاال کہ کھڑکی کھولی اور باہر نکل کے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ اندر آ کر الئٹ
آف کر دی اور سارا کو لیکے بیڈ کے نیچے لیٹ گیا۔
وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مجھے بہت جلدی تھی اس کی مارنے کی۔
ایک بار میں اس کی سیل کھول لیتا پھر میں بعد میں بھی اس کو تسلی سے چود لیتا۔
میں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنی پینٹ بھی گھٹنوں تک اتار دی۔
اس کی کنٹ بالکل کنواری تھی اور اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔
تھوڑے سے تردد سے انگی اندر چلی گئی۔ وہ ذرا ذرا سی آہیں بھرنے لگی۔
میں نے اس کی قمیض گردن تک اوپر کر دی اور اسے سیدھا لٹا کے اس اوپر لیٹ گیا۔
میرا وزن اس سے کافی زیادہ تھا مگر وہ پرداشت کر گئی۔ میں نے اپنا لن کنٹ رکھا تو وہ بوبی؛ فیصل
درد تو نہیں گا؟
اب میں اپنا لن اس کے اندر دھکیال وہ چال اٹھی :پلیز نکالو مجھے درد ہو رہا ہے پلیز بھائی پلیز مجھے
درد ہو رہا ہو۔ امی ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز فیصل پلیز۔
مجھ پر اب چودائی سوار تھی۔ میں بجائے نکالنے کے اور اندر ڈاال۔
وہ اب رونے لگی مگر میرے وزن اور بیڈ کے نیچے سے کوئی جائےفرار -نہیں تھی۔
وہ اپنا خون دیکھ کر رونے لگی۔ مگر یہ بھی شکر تھا کہ خون کا بیڈ کے نیچے کارپٹ پر تھا۔
دو تین منٹ کے بعد میرا لن آسانی سے جانے لگا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھول دی اور ذرا تیزی سے چودنے لگا۔ وہ اور زور -سے رونے لگی۔ میں نے
اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا۔
اس کی ٹائٹ کنٹ اور کچھ سیکس پوزیشن کی وجہ سے میں 7-6منٹ بعد ہی چھوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد میں بیڈ کے نیچے سے نکل آیا کوئی 3-2منٹ بعد وہ بھی آ گئی۔
وہ مجھے چھوڑ کر جانے لگی مگر کیسے جاتی دروازہ تو باہر سے بند تھا۔
دیکھو سارا ! میری -جان ایسا کرنا پڑتا ہے اگر میں نکال لیتا تو تم کبھی بھی نہ ڈلوا سکتی۔ اب دیکھنا
اگلی بار جب ہم ایسا کریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔
میں نے کہا :کروانا تو تمھیں کرنا پڑے گا ورنہ -کہیں میری زبان سلپ ہو گئی تو۔ ۔ ۔ ۔
میں نے کہا :کل رات پھر مین تمھیں اسی طرح چودوں گا۔مرضی -سے کرو گی تو مزا آئے گا اور اگر
زبردستی -کرنا پڑا تو جتنا درد آج ہوا ہے اس زیادہ ہوگا۔