You are on page 1of 3

‫‪:‬‬‫زندگی ایک قحط‬

‫"بیٹا مجھے بھوک نہیں تم کھا لو" ‪ ،‬وہ اپنے خیالوں میں مگن اپنی ماں‬
‫کو یاد کر رہا تھا ۔ اتنے میں ایک گاڑی نے اسکے قریب آکر ہارن‬
‫بجایا۔ وہ ڈر کر ایک طرف ہو گیا۔ اسکے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا اور وہ‬
‫آگے بڑھ گیا۔‬
‫نم آنکھیں لئے وہ سڑک پر ٹہل رہا تھا۔ کپڑوں پر پیوند لگے ہوئے ‪،‬‬
‫جوتوں سے انگوٹھا جھانک رہا تھا ‪ ،‬چہرے پر غربت کے تاثرات‬
‫نمایاں تھے۔ اسکا جی چاہ رہا تھا کے وہ چیخ چیخ کر ساری دنیا کو‬
‫اپنے دکھ سنائے۔‬
‫وہ اپنے دوست کے گھر پہنچا۔ دروازے پر دستک دینے ہی لگا تھا مگر‬
‫اسکی غیرت نے گوارہ نہ کیا۔ وہ الٹے پاوں پھر گیا۔ بھوک نے اسکو‬
‫الغر کر رکھا تھا مگر اسکی خودداری اسکو کسی کے سامنے ہاتھ‬
‫پھیالنے نہ دیتی تھی۔‬
‫اسکی مالقات اپنے والد کے قریبی دوست سے ہوئی ۔اسکے دل میں‬
‫امنگ ابھری کہ شاید وہ اسکی مدد کرے مگر اسکی امیدوں کا پہاڑ‬
‫زمیں بوس ہوا جب وہ اسکے حال پر بنا ترس کھائے چند باتیں کرکے‬
‫چل دیا۔اس نے بہتیری جگہوں پر کام تالش کرنے کی کوشش کی مگر‬
‫اسکو اپنے ساتھ رکھنے پر کوئی تیار نہ ہوا کیونکہ وہ کسی فن سے‬
‫آشنا نہ تھا۔‬
‫امیدوں کے ٹوٹنے پر وہ دل برداشتہ ہوکر ایک درخت کے نیچے ٹیک‬
‫لگا کر بیٹھا اور اپنے حاالت کو رونے لگا۔ اسی اثنا میں اسکی نظر‬
‫ایک کوڑا دان پر پڑی جس میں فن مصوری کےآالت پڑے تھے۔ وہ‬
‫انکو اٹھا کر الیا ۔ وہ اپنے غم و غصے کو تصویروں میں پرونے لگا۔‬
‫اسکی آنکھوں سے دریا بہتا جاتا اور وہ اپنے آنسو کو قلم کی سیاہی بنا‬
‫کر تختی پر تصویری نمونے بناتا گیا۔‬
‫اور آہستہ آہستہ اسکی آنکھوں میں موجود کرنیں مدھم پڑتی جا رہی‬
‫تھی پھر ستم تو یہ ہوا کہ اسکے آنسووں نے اسکی آنکھوں کا دیا بجھا‬
‫دیا۔اسکی سانسیں اکھڑتی گئی اور پھر وہ غموں کا مارا دنیائے فانی‬
‫سے کوچ کر گیا۔ ہر شخص گزرتا اور اسکو دیکھ کر یہ سوچتا کہ وہ‬
‫نیند میں ڈوبا ہے۔ آخر غریب کو غریب کا احساس ہوتا ہے۔ کئی دن جب‬
‫وہ اپنی جگہ سے نہ ہال تو ایک کوڑا اٹھانے والے نے اسکو جا کر‬
‫دیکھا اور اسکو مردہ پاکر سب لوگوں کو اکٹھا کرنے لگا۔‬
‫لوگ اسکو ان چیزوں کو میسر کرنے میں مصروف ہو گئے جنکو وہ‬
‫دنیا میں ترستا تھا۔ باآلخر اسکو رہنے کو دو گز زمیں مل گئی ‪ ،‬پہننے‬
‫کو نیا سفید کفن مل گیا اور اسکے احباب اسکو دنیا میں نہ پاتے ہوئے‬
‫اسکے غم میں آنسو بہانے لگے۔ کچھ لوگ اب تک اسکے تصویری‬
‫نمونوں کو دیکھ رہے تھے جو اسکی زندگی کی مشکالت کی عکاسی‬
‫کرتے تھے۔‬
‫خودداری بھی عجب نمونہ ہے۔ انسان کو بلک بلک کے جانا قبول ہوتا‬
‫ہے مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیالنا نہیں۔ وہ لوگ جو انسان کی زندگی‬
‫میں اسکے کچھ کام نہ آتے تھے اسکی قبر پر پھول نچھاور کرنے لگ‬
‫گئے۔ اقبال نے موت کو کیا خوب لکھا ہے‪:‬‬
‫زندگی میں دو منٹ کوئی میرے پاس نہ بیٹھا ہے‬

‫آج سب میرے پاس بیٹھے جارہے تھے‬


‫کوئی تحفہ نہ مال آج تک مجھے‬
‫اور آج پھول ہی پھول دئیے جا رہے تھے‬
‫ترس گیا تھا میں کسی کے ہاتھ سے دئیے کپڑے کو‬
‫اور آج نئے نئے کپڑے اوڑھائے جارہے تھے‬
‫دو قدم ساتھ نہ چلنے والے‬
‫آج قافلہ بنا کر چلے جارہے تھے‬
‫آج پتہ چال کہ موت کتنی حسین ہوتی ہے‬
‫ہم تو یونہی جیتے جا رہے تھے۔‬

You might also like