You are on page 1of 69

‫مائل بکرم راتیں‬

‫اعجاز عبید‬

‫(ایک ناولٹ)‬

‫‪1‬‬
‫مائل بکرم ہیں راتیں‬
‫آنکھوں سے کہو کچھ مانگیں‬
‫خوابوں کے سوا جو چاہیں‬

‫شہریار‬

‫‪2‬‬
‫قرۃ العین حیدر کی نذر‬

‫’’پی چو۔ ہمارے سارے آیڈیلس!‘‘ رخشندہ نے‬


‫آہستہ سے کہا۔ پھر اسے ہی محسوس ہوا کہ اس‬
‫نے کتنی بیکار بے معنی لغو بات کہی ہے ۔‘‘‬

‫(میرے بھی صنم خانے ۔ ص۔ ‪)202‬‬

‫فہرست‬

‫ستارے اور دھند ‪5 .............. ................................ ................................‬‬


‫دھند اورستارے ‪28............. ................................ ................................‬‬

‫‪3‬‬
‫جنگل میں شام ‪51............... ................................ ................................‬‬
‫شاید کہ بہار آئی ‪66............. ................................ ................................‬‬

‫‪4‬‬
‫ستارے اور دھند‬
‫ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا‬

‫سنگ ر یزہ جہاں پڑا دیکھا‬

‫(ناصر کاظمی)‬

‫٭‬

‫کمرے کی جھلملیوں سے صبح کے نور کی پہلی کرن شرماتی لجاتی اندر داخل‬
‫ہو ئی۔ سامنے دیوار پر کالک ایک سے بارہ اور پھر بارہ سے ایک تک مسلسل‬
‫سفر کر رہا تھا۔ ِٹک ۔ ِٹک۔ِ ِٹک ۔ ِٹک‬
‫عمران صاحب کی آنکھ کھلتے ہی نظر سامنے رکھی تصویر پر پڑی۔ ابھی‬
‫جیسے کل کی ہی بات ہے کہ شاہینہ نے کہا تھا کہ اس سال فرحان کو اسکول‬
‫میں داخل کرنا ہے ۔ اور اب یہ فرحان صدّیقی آ ئی۔اے ۔ایس۔ اضالع کے دوروں‬
‫پر گھومتا رہتا ہے ۔ ابھی روحی آۓ گی‪ ،‬صبح کی چاۓ ہمیشہ وہی اپنے ہاتھ‬
‫سے ال کر دیتی ہے اور کچھ فرحان کی خبر سناۓ گی کہ پچھلی رات فرحان‬
‫نے اس سے فون پر کیا کہا۔ شاید۔ انھوں نے تھکے تھکے سے انداز سے آرام‬
‫کرسی پر بیٹھتے ہوۓ سوچا۔ شاید وقت نہیں بیتتا‪ ،‬ہم بیت جاتے ہیں۔ ٹک۔ ٹک۔‬
‫ٹک۔ ٹک۔ کالک مسلسل چیخ رہا تھا۔‬

‫‪5‬‬
‫باہر باغ میں اشوک کے درختوں پر ال تعداد پرندے اپنی ایک ساں آواز میں‬
‫چالّۓ جا رہے تھے ۔ انھوں نے اٹھ کر کھڑکی کھول دی ۔سڑک کے پار سامنے‬
‫کے بنگلے کے باورچی خانے میں چولھا سلگا دیا گیا تھا اور دھواں اٹھ رہا تھا۔‬
‫ماحول میں کتنی شدید یکسانیت ہے ۔ انھوں نے پھر سوچا اور پھر اپنی آرام‬
‫کرسی پر واپس ہوۓ۔ عمران صاحب کو اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ ابھی‬
‫قہقہوں اور مسکراہٹوں کے غباّرے فضا میں اڑنے لگیں تو۔۔۔۔!‬
‫٭‬
‫’کشی‘‬
‫کہکشاں نے چپ چاپ کروٹ بدلی۔‬
‫’اے کشی۔۔۔۔کہکشاں!‘‬
‫کہکشاں لحاف سے منہ نکالے بغیر کچھ کہنا ہی چاہ رہی تھی کہ ایک لمبی‬
‫’شی۔۔۔۔۔‘ کی آواز آ ئی‪.‬۔‬
‫انور اپنے بستر سے اٹھ کر کہکشاں کی طرف آیا۔ ۔’کشی۔ وہی اپنی کوئل۔۔۔۔۔۔۔!‘‬
‫کہکشاں جھٹ پٹ اپنے بستر سے اچھلی۔ اور ماحول کی یخ زدگی سے بے خبر‬
‫بغیر گرم کپڑوں کے دونوں پیچھے باغ میں نکل آۓ۔‬
‫’کل بھی ایسی ہی آواز تھی نا!۔۔۔ کیوں ہے نا کشی؟‘‬
‫’ہاں ۔یہ وہی اپنی کوئل کی آواز لگ رہی ہے ‘‬
‫کوئل اب بھی اسی طرح پکارے جا رہی تھی۔’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو‬
‫۔کو‘‬
‫’نانی جان کہہ رہی تھیں کہ یہ ہللا میاں کو پکارتی ہے ۔ تو۔۔۔تو۔۔۔ ہیں انّو بھیّا ؟‘‬
‫کہکشاں نے ’تو۔۔‘ کویل کی آواز کی نقل کرتے ہوۓ کہا۔ انور نے کوئی جواب‬
‫نہیں دیا۔ کہ اسے یک لخت یاد آ گیا تھا کہ اسے بھی تو کوئل کی پکار کا جواب‬
‫دینا ہے ۔‬
‫’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ کوئل چالّئی۔‬
‫’ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔۔۔۔۔۔۔ کو۔ کو۔ کو۔ کو ۔کو‘ انور کے ساتھ کہکشاں نے بھی جواب دیا۔‬
‫’یہی ہماری کوئل ہے جو روز اس پیپل کے پیڑ پر آ کر بولتی ہے ۔ شاید یہاں ہی‬
‫کہیں رہتی ہو‘ کہکشاں بولی۔ ٹھنڈی ہوا سے اس کی آنکھیں مچمچانے لگیں‬
‫تھیں۔‬
‫’کشی! اس کوئل کا کچھ نام دیا جاۓ۔ اب یہ ہماری تو ہو ہی گئی ہے ۔ جیسے‬
‫ہمارا کتّا نہیں ہے سولجر‘‬
‫’ہاں ہاں۔ سوچو کوئی اچھا سا نام۔‘‬
‫دونوں سوچنے لگے ۔‬
‫’کالو‘ کشی نے مشورہ دیا۔ ’کوئل کالی ہوتی ہے نا۔۔!‘‬

‫‪6‬‬
‫مگر انور کے ذہن میں جمعدارنی کا لڑکا کالو گھوم گیا۔ ’ اونہہ۔ کالو بھی کوئی‬
‫نام ہے بھال! اور پھر کالو تو لڑکوں کے نام ہوتے ہیں۔ پھر کیا پتہ یہ کوئل نر‬
‫ہے یا مادہ‘‬
‫کوئل پھر سے پیپل کی شاخ سے اڑ کر پورب کی طرف چلی گئی۔ آموں کے‬
‫درختوں کی طرف۔‬
‫’تو کیا کوئل نر بھی ہو سکتی ہے یا ہو سکتا ہے ‘ ۔کہکشاں گڑبڑا گئی۔ اسے‬
‫کوئل کے نر ہونے کے امکان پر سخت تعجبّ ہوا تھا۔‬
‫’اے انور کہکشاں! وہاں باغ میں پہنچ گۓ ہو۔ سوئیٹر کوٹ تو پہن لیتے ! او‬
‫ی جان! دیکھۓ ذرا انّو اور کشی کو۔ باغ میں بغیر گرم کپڑوں کے گھوم‬ ‫چچ ّ‬
‫رہے ہیں۔ سردی لگ جاۓ گی۔‘ شکیلہ باجی برامدے سے چالّ رہی تھیں۔ مگر‬
‫انّو اور کہکشاں بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچ چکے تھے اور جلدی جلدی‬
‫سوئیٹر پہن کر خود کو بے حد محفوظ محسوس کر رہے تھے ۔ ویسے ان کو یہ‬
‫ی پر شکیلہ باجی کی بات کا کچھ خاص اثر نہ ہوگا۔ اور اس‬ ‫بھی یقین تھا کہ ام ّ‬
‫ی کسی کام سے غفور کو پکار رہی تھیں جو شاید اب تک بوا کی‬ ‫وقت تو ام ّ‬
‫کوٹھری میں سو رہا تھا۔‬
‫٭٭٭‬
‫’’بڑے بھیّا!‘‘‬
‫انور نے ناشتے کی میز پر دودھ کا پہال گھونٹ لیتے ہوۓ کہا۔‬
‫’ہوں۔۔‘ بڑے بھیّا نے آتے ہی اپنی چاۓ بنائی اور اب چینی گھول رہے تھے ۔‬
‫’یہ حلوہ پراٹھا لیجیۓ نا! مزے کا ہے !!‘‬
‫’ہاں ہاں‪ ،‬تم تو لو۔۔۔۔۔۔‘ وہ بے حد محویت سے چاۓ میں اس طرح شکر ہال رہے‬
‫تھے جیسے دنیا کا اہم ترین کام یہی ہو۔‬
‫’’بڑے بھیّا! تھوڑا سا تو لیجئے نا‘‘ ۔ کہکشاں کو بڑے بھیّا پر بیت ترس آ رہا‬
‫تھا۔ بے چارے ناشتے میں محض چاۓ پۓ جا رہے تھے ۔ اور اب پھر جو نکلیں‬
‫گے تو رات تک کھانے کا کچھ ہوش تک نہ ہوگا۔‬
‫’’تم دونوں کو آج یکایک مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہو گئی ہے ۔‘‘ انھوں نے‬
‫ہونٹوں پر ایک غمگین سی مسکراہٹ پھیال دی۔ اور ایک پلیٹ اٹھا کر تھوڑا سا‬
‫حلوہ نکال کر سامنے رکھ لیا۔‬
‫’’بڑے بھیّا! ہماری کوئل کا اچھا سا نام رکھ دیجئے کوئی‘‘ انور نے شرما کر‬
‫کہا۔‬
‫’’لو بھال اب کوئلوں کے نام رکھے جانے لگے ‘‘ بڑے بھیّا ہنس دیۓ۔‬
‫ی بھی کمرے میں آ کر ناشتے کی میز پر بیٹھ گئیں۔‬ ‫’کیا ہوا بھئی‘ ۔ ام ّ‬
‫’ یہ انّو اور کشی اپنی کوئل کا نام رکھنا چاہ رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی کوئل‬
‫کو اپنا بنا لیا ہے ‘ بڑے بھیّا ایسے شرمندہ تھے جیسے یہ حماقت ان سے ہی سر‬
‫ی کہہ رہی تھیں۔ ’کوئی کوئل کا بھی نام رکھتا ہے جیسے‬ ‫زد ہو رہی ہو۔ اور ام ّ‬

‫‪7‬‬
‫کوئی پالتو جانور ہو۔ ‘ٹھیک ہے بھائی۔ اس گھر کی توریت ہی نرالی ہے ۔ کہ‬
‫آنکھ کے اندھے اور نام نین سکھ۔ جسے عقل چھو کر نہ گزرے اس کا نام ایسا‬
‫جیسے بہت عقل مند ہو۔ کالے کوے ّ کی سی صورت کا نام ایسا جیسے کسی بے‬
‫حد حسین کا نام ہو ۔۔۔۔۔ تو پھر اس گھر میں بھال کوئلوں کے نام کیوں نہ رکھے‬
‫جائیں گے ‘‬
‫ی آخر آپ کو عقیل چچا۔۔۔۔۔۔‘ بڑے بھیا نے کہنا چاہا تھا۔‬ ‫’ام ّ‬
‫’بس ۔ چپ رہو۔۔۔۔۔ اور شکیلہ تم سے کس نے کہا کہ یہاں چلی آؤ۔ تم کو تو اپنی‬
‫ماں کو ناشتہ کرانے کا کہا تھا نا!‘‬
‫شکیلہ باجی دروازے سے ہی واپس چلی گئیں۔ نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ اسی وقت‬
‫ناشتے کے لۓ آتی تھیں جب بڑے بھیّا ناشتہ کر رہے ہوتے ۔ اور بڑے بھیّا کے‬
‫ی چلی آتیں۔ مگر ان کی اس نگرانی‬ ‫ناشتے کی نگرانی کرنے کے لۓ ہمیشہ ام ّ‬
‫میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ بڑے بھیّا اٹھ بھی چکے تھے اور جب غفور‬
‫نے برتن سمیٹے تو ان کی پلیٹ میں اب تک اتنا ہی حلوہ رکھا ہوا تھا۔‬
‫انور اور کہکشاں ناشتہ کر کے بڑے بھیّا کے کمرے میں پھر چلے گۓ ۔۔۔۔۔‬
‫’ بڑے بھیّا! آپ نے بتایا نہیں؟‘‬
‫’کیا۔۔۔۔۔؟‘‬
‫’وہی ہماری کوئل کا نام!‘‬
‫’نام میں کیا رکھا ہے ۔ کچھ بھی رکھ دو۔ اے ۔ بی۔ سی۔ ڈی‘‬
‫انّو اور کشی کی آنکھیں مرجھا گئیں۔‬
‫’اچھا ّ دیکھو۔ کوئل کو ہندی میں کہتے ہیں کو کیال۔ بس یہی نام رکھ دو۔۔‘‬
‫’یہ تو بہت لمبا نام ہے بڑے بھیّا۔‘ مگر انّو کو نام پسند آ گیا تھا۔‬
‫’تو پیار سے کو کی کہہ دیا کرو۔۔۔۔‘‬
‫’واہ واہ‪ ،‬کوکی کو کی!!!۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‬
‫انو اور کشی خوش خوش بھاگ گۓ۔‬
‫’اے کشی۔ میری بہن۔ اپنے بڑے بھیّا کو یہ دے آؤ‘ شکیلہ نے کہکشاں کا راستہ‬
‫روکا۔‬
‫گاجر کے حلوے کی پلیٹ تھامتے ہوۓ کہکشاں بولی‪ ’ .‬جیسے آپ کے تو بڑے‬
‫بھیّا ہوتے ہی نہیں۔۔۔۔ ‘‬
‫’اور تمھارے لۓ یہ ٹافی۔۔۔۔‘‬
‫شکیلہ باجی نے جواب دۓ بغیر الل ریپر میں لپٹی ٹافی اس کی آنکھوں کے‬
‫سامنے کر دی۔ کہکشاں نے روٹھنے کا سا بہانہ کرتے ہوۓ مونہہ موڑ لیا۔ لیکن‬
‫پھر جانے کیا ہوا کہ کچھ لمحے بعد ہی ٹافی کا ذائقہ اس کے مونہہ میں گھل رہا‬
‫تھا اور شکیلہ باجی کے ہاتھ میں ٹافی کا خالی ریپر چرمرا رہا تھا۔‬
‫٭٭٭‬
‫‪8‬‬
‫’دیکھو انّو بھیا۔۔ یہ کیا؟‘‬
‫یہ ٹافی کے کاغذ کی جھلمالتی گڑیا تھی۔‬
‫’یہ تو دلہن لگ رہی ہے ۔ جیسے منشی جی کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی اپنی‬
‫شادی کے دن۔۔۔۔‘‬
‫پھر یہ گڑیا کمرے کی شمالی دیوار میں لگی الماری میں اوپر کے خانے میں‬
‫سجا کر رکھ دی گئی۔ اس میں تین خانے تھے ۔ سب سے نیچے واال کہکشاں کا‬
‫تھا‪ ،‬درمیان واال انور کا جس میں وہ اپنا ذاتی سرمایہ رکھتا تھا۔ اور سب سے‬
‫اوپر والے خانے میں دونوں کا مشترکہ سامان رہتا تھا۔ یہ گڑیا دونوں کا مشترکہ‬
‫خزانہ تھی۔‬
‫٭٭٭‬
‫’کیا کر رہے ہو خاور؟‘‬
‫’پہاڑے ‘‬
‫’کتنے کا؟‘‬
‫’تیرہ کا۔۔۔۔ ‘‬
‫’ارے اس میں کیا رکھا ہے ‘ انور نے شیخی بگھارنی شروع کی۔ ’مجھے تو‬
‫بیس تک پہاڑے یاد ہیں بیس تک۔۔۔۔ اور آدھا‪ ،‬پواّ‪ ،‬پونا‪ ،‬سوایا سب کچھ۔۔۔۔ ‘‬
‫آج کل انور اور کہکشاں کی چھٹیاّں تھیں مگر خاور اب تک اسکول میں داخل‬
‫نہیں کیا گیا تھا۔ اسے ماسٹر صاحب آ کر گھر پر پڑھاتے تھے ۔‬
‫’ایسا کرو۔ تم ماسٹر صاحب کو بنۓ کا پہاڑہ سنا دو۔‘ انور نے بے حد سنجیدگی‬
‫سے مشورہ دیا۔ پھر خود ہی رٹے ہوۓ سبق کی طرح دہرانا شروع کر دیا۔۔۔۔‬
‫’بنیا ایکم بنیا‬
‫بنیا دونی دال‬
‫بنیا تیا تیل‬
‫بنیا چوکے چاول‬
‫بنیا پنجے پان‬
‫بنیا چھکے ّ چھالیہ‬
‫ستو‬
‫بنیا ستے ّ ّ‬
‫بنیا اٹھے ّ آٹا‬
‫بنیا نواں نون‬
‫بنیا دھام دھنیا‘‬
‫’مجھے اڑھائی کا پہاڑہ بھی یاد ہو گیا۔ سناؤں؟‘ اور خاور شروع ہو گیا۔’اڑھائی‬
‫ایکم اڑھائی۔۔ اڑھائی دونی پانچ ۔۔اڑھائی۔۔۔۔۔۔‘‬

‫‪9‬‬
‫مگر انور بور ہو گیا۔ ’ختم کرو اسے ۔ سنو۔ آج ہم نے کوئل کا نام رکھا ہے‬
‫۔۔۔۔کوکی۔۔۔۔‘‬
‫’کوکی۔ یہ کیا نام ہے ؟‘‬
‫’بڑے بھیّا نے نام تو رکھا تھا کوکیال۔ جیسے شکیلہ‘‬
‫مثال کے لۓ شکیلہ باجی کا نام سامنے ہی تھا۔‬
‫’مگر ہم پیار سے اسے کوکی کہیں گے ۔۔۔۔۔ ہماری پالتو کوئل ہے نا!‘‬
‫مکی!!۔ چہ چہ‬
‫ّ‬ ‫ی۔۔۔۔۔مک ّ‬
‫ی‬ ‫ی کا نام ہے مک ِّ‬ ‫’تب تو مزے کی بات ہے ۔ ہماری بل ّ‬
‫چہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‬
‫ی خاور کے پیر سے لپٹنے لگی۔‬ ‫اور میاؤں میاؤں کرتی صندلی بل ّ‬
‫ی تو کسی چوہیا کا نام ہوتا ہے ‘‬ ‫’مگر ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مک ّ‬
‫ی کے نام پر شک ہوا‘‬‫خاور کو اپنی بل ّ‬
‫ی کہتی ہیں نا کہ آنکھ کے اندھے نام نین سکھ‘ انور نے تسلی دی۔‬ ‫’تو کیا ہوا۔ ام ّ‬
‫کہکشاں نے موضوع بدال۔۔۔۔۔’چلو ۔۔۔۔۔باہر چلیں۔ انجیر توڑیں گے ۔۔۔۔۔‘‬
‫تینوں پھاٹک سے نکل کر انجیروں کے پیڑوں کی طرف جانے والی باغ کی‬
‫پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے اور خاور گا رہا تھا۔۔‬
‫’چل چل چمن کے باغ میں میوہ کھالؤں گا۔۔۔۔۔‘‬
‫ی لے جاؤ اور بنۓ‬ ‫ی انور کو آوازیں دے رہی تھیں۔۔۔۔۔’ انّو بیٹا۔ یہ چون ّ‬ ‫’اور ام ّ‬
‫کے پاس سے چرونجی تو لے آؤ۔ یہ غفورا نہ جانے کہاں مر گیا۔۔۔۔۔‘‬
‫٭٭٭‬
‫ڈگڈگی کی آواز سے انور اور خاور دونوں چونکے ۔ ڈگڈگی مسلسل بج رہی تھی۔‬
‫مجمع جمع ہونے لگا تھا۔ یہ ایک بھالو واال تھا اور بھالو کے تماشے کے لۓ ان‬
‫دونوں کا نہ رکنا ایک اہم ترین فریضے سے آنکھیں بند کر لینا تھا۔ بھالو اپنے‬
‫مالک کے اشارے پر نت نۓ کرتب دکھا رہا تھا۔‬
‫’اے کالۓ۔ یہ سب تماشہ کس واسطے ؟‘‬
‫اور بھالو اپنا پیٹ دکھاتے ہوے سب کے سامنے لیٹ گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنے‬
‫لگا۔‬
‫ی محسوس کی۔‬ ‫پھر بھالو واال سب سے پیسے مانگنے لگا۔انور نے جیب میں چون ّ‬
‫پھر جلدی سے خاور کو کھینچا۔ اسے چرونجی یاد آ گئی تھی۔‬
‫دونوں بنۓ لی دوکان کی طرف چلنے لگے ۔ بس یہ آخری گلی ہی تھی دو‬
‫گھروں کے درمیان اور اس کے بعد موڑ پر ہی بنۓ کی دوکان۔ مگر اس چھوٹی‬
‫ی گلی کی وجہ سے ہی انور اکیال نہیں آیا تھا۔ اس گلی میں ایک ننھی سی طاق‬
‫تھی اور اس طاق میں ایک ننھی منی سی قبر۔ اس پر سبز رنگ کیا ہوا تھا اور‬
‫ایک تازہ گالب کا پھول رکھا تھا۔ دیوار کے ایک سوراخ میں اگر بتیاں سلگ‬
‫رہی تھیں۔ یہ سیّد صاحب کا مزار تھا۔‬

‫‪10‬‬
‫’نہ جانے کون پھول اور اگر بتیاں رکھ جاتا ہے یہاں۔ انور! تم نے کبھی سیّد‬
‫صاحب کو سالم کیا ہے ؟ ‘‬
‫’نہیں تو ڈر لگتا ہے ۔۔‘‬
‫’کہتے ہیں کہ قبروں پر سالم کرنا چاہۓ۔ اسالّم و علیکم یا اہ ِل قبر!‘‬
‫’مگر خاور۔ سمجھ میں نہیں آتا کی سیّد صاحب کی اتنی چھوٹی سی قبر کیوں‬
‫ہے ؟‘ انور کے ذہن میں عقیل چچا کی لمبی چوڑی قبر کی یاد ابھی تازہ تھی۔‬
‫’ابا کہتے تھے کہ یہاں پہلے بڑا مزار تھا اور بڑی قبر تھی۔ مگر جس کی زمین‬
‫تھی‪ ،‬اس نے وہیں مکان بنایا اور بڑا مزار توڑ کر اس کی جگہ یہ چھوٹی سی‬
‫طاق بنا دی۔ ۔۔‘‬
‫انور کے لۓ یہ نئ اطالّع تھی۔ انور کے دماغ کے خزانے میں نہ جانے کتنے‬
‫اسرار پنہاں تھے ۔‬
‫’اور میرے ابا ّ تو ہمیشہ اس قبر کو سالم کرتے ہیں۔۔۔‘‬
‫اس نے مزید اطالّع دی۔‬
‫انّو کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ ابھی پچھلے دنوں بنۓ کی دوکان پر‬
‫سائیکل کی دوکان والے شبراتی نے بتایا تھا کہ اس نے اس مزار پر سالم کیا تو‬
‫ایک ’رباب‘ والی آواز نے جواب دیا ’وعلیکم اسالم‘ اور شبراتی ڈر کر بھاگ‬
‫گیا تھا۔‬
‫زیر‬
‫بنۓ کی دوکان سے چرونجی لینے کے بعد موڑ مڑتے ہی پھر سیّد صاحب ِ‬
‫بحث آ گۓ تھے ۔اس مزار کو دیکھتے ہی ان کی یہ باتیں الزمی تھیں۔‬
‫’مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ سیّد صاحب تھے ہی ذرا سے آدمی ۔۔۔‘ انور نے‬
‫فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ اور خاور بھی اس نئ تھیوری پر سنجیدگی سے غور‬
‫ی کہتی ہیں کہ کبوتر بھی سیّد ہوتے ہیں۔شاید یہ سیّد‬ ‫کرنے کے بعد بوال۔ ’ام ّ‬
‫صاحب بھی کبوتر ہوں۔‘ انور نے سامنے کی مسجد کے میناروں پر اڑتے بیٹھے‬
‫کبوتروں پر کچھ خوف سے نظر ڈالی۔ اس موضوع نے نیا رخ اختیار کر لیا تھا۔‬
‫آخر انور چپ نہ رہ سکا۔’ چپ رہو اب۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ‘۔ پھر باقی راستہ‬
‫خاموشی سے ہی طے ہوا تھا۔‬
‫٭٭٭‬
‫بڑے بھیّا!‘ انور نے بڑے بھیّا کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور کہکشاں نے ان‬
‫کے ہاتھ سے کتاب چھین لی۔‬
‫’کوئی کہانی‘ انّو نے جلدی سے اپنی فرمائش اگل ہی دی۔‬
‫بڑے بھیّا نے عینک اتار کر رکھ ہی دی۔ ’کون سی کہانی بھائی!‘‬
‫کوئی سی بھی۔ مگر بھوتوں والی نہیں۔۔۔‘ انور ابھی بھی سیّد صاحب کے مزار‬
‫والی گلی میں گھوم رہا تھا۔‬
‫پہلے یہ بتائیے آپ نے کبھی سیّد صاحب کو سالم کیا ہے وہی طاق والے ۔۔۔۔؟‘‬

‫‪11‬‬
‫’ارے وہ بنۓ کی دوکان کے پاس جن کا گلی میں مزار ہے ۔‘ بڑے بھیّا ہنس‬
‫دئیے ۔ ’کیا آج انھوں نے تمھارے سالم کا بھی جواب دے دیا۔۔۔؟‘‬
‫انور ے کچھ جواب نہیں دیا‘‬
‫’بھئ یہ بھوت پریت کچھ نہیں ہوتے ۔۔۔۔سب لوگوں نے ایسے ہی جھوٹے قصے ّ‬
‫بنا لئے ہیں‪‘.‬‬
‫ی بڑے بھیّا!‘ کہکشاں بولی۔ ‪.‬مگر پریاں تو ہوتی ہیں۔ اچھے ّ بچے ّ جب‬ ‫’سچ ّ‬
‫رات کو سوتے ہیں تو پریاں ان کے تکۓ کے نیچے ٹافیاں اور چاکلیٹ رکھ‬
‫جاتی ہیں۔ اور اس دن شکیلہ باجی کہہ رہی تھیں کہ کوئ پھول توڑے تو ایک‬
‫پری مر جاتی ہے ۔ کہا وہ پھول نہیں ہوتا‪ ،‬پری ہوتی ہے ؟ ہیں بڑے بھیّا؟‘‬
‫’تمھاری شکیلہ باجی نے کہا ہے تو پھر ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ مگر بھائی انگریزی‬
‫کہانیوں والی پریاں تو مش رومس میں رہتی ہیں۔ وہی جو ہوتی ہے نا کتے ّ کی‬
‫چھتری۔۔ اس میں۔ اچھا ّ وہ کہانی سنائیں تمھیں جس میں ایک شہزادی کے سر‬
‫میں کیل ٹھونک کر مینڈکی بنا دیا گیا تھا جادو سے ۔‘‬
‫’ہاں ہاں بڑے بھیا!۔ وہی۔ کہکشاں خوش ہو کر پریوں کی بات بھول ہی گئ۔‬
‫بڑے بھیّا کی کہانیوں میں سات شہزادے ہوتے تھے یا سات شہزادیاں۔ ساتویں‬
‫شہزادے کا تیر کسی تاالب میں مینڈکی کے پاس چال جاتا تھا جس سے اسے‬
‫شادی کرنی ہوتی تھی۔یہ دوسی بات ہے کہ بعد میں پتہ چلتا تھا کہ وہ بھی‬
‫شہزادی ہی تھی جسے جادو سے مینڈکی بنا دیا گیا تھا۔ یا پھر کوئی ساتویں‬
‫شہزادی ‪/‬شہزادہ اپنی قسمت کا کھانے کی وجہ سے معتوب ہو جاتی تھی‪/‬ہو جاتا‬
‫تھا۔یہ سارے معزول شہزادے اور مظلوم شہزادیاں اپنے اجاڑ محلوں میں اپنی‬
‫قسمت کا ماتم کرنے کے لۓ رہ جاتے تھے ۔ انھیں ان ماتم گاہوں کے حصار‬
‫کے باہر کا کچھ پتہ نہ تھا جہاں روشنیاں تھیں‪ ،‬رنگ تھے ‪ ،‬سر تھے ۔‬
‫’تو پھر بادشاہ نے کہا کہ جس شہزادے کا تیر جس طرف جاۓ گا وہیں اس کی‬
‫شادی کر دی جاۓ گی۔ پہلے شہزادے کا تیر شمال کی طرف گیا‪ ،‬اور وہاں‬
‫………‘‬
‫انور سوچ رہا تھا کہ دنیا بھر کی دادی ا ّمائیں اور نانی ا ّمائیں ایسی ہی کہانیاں‬
‫سناتی ہیں۔ ہماری نانی دادی نہیں مگر بڑے بھیّا نے ضرور اپنی نانی دادی سے‬
‫ہی یہ سب کہانیاں سن رکھی ہوں گی۔‬
‫’دوسرے شہزادے کا تیر گیا جنوب کی طرف۔ تم جانتی ہو کشی شمال جنوب۔‬
‫جسے انگریزی میں نارتھ ساؤتھ کہتے ہیں۔‘ بڑے بھیّا شمال جنوب سمجھانے‬
‫لگے جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ مگر انور کے ذہن میں گرمیوں کی ایک‬
‫چکر لگا رہی تھی۔‬
‫ّ‬ ‫دوپہری‬
‫٭٭٭‬
‫ی مگر بڑی بڑی امبیوں کا ڈھیر لگا‬
‫ی کچ ّ‬
‫ی نے آنگن میں کچ ّ‬
‫ی بی اور ام ّ‬ ‫چچ ّ‬
‫ی بی مزے سے بڑے سے سروطے سے کھٹا کھٹ ان کے دو دو‬ ‫رکھا تھا۔ چچ ّ‬

‫‪12‬‬
‫حصے ّ کۓ جا رہی تھیں۔ انور اور کہکشاں ان کی ’بجلیاں‘ نکال رہے تھے اور‬
‫جمع کرتے جا رہے تھے ۔‬
‫’بجلی بجلی میرا بیاہ کدھر؟‘‬
‫انور نے امبیا کی بجلی کو پنجے میں پکڑ کر پھسالیا اور بجلی اچک کر آنگن‬
‫کے پار کھڑکی سے ٹکرائی۔ اور اسی لمحے کھڑکی کھلی۔۔‬
‫’انو بھیّا۔ کشی کہاں ہے ؟‘۔ یہ صبیحہ تھی۔‬
‫٭٭٭‬
‫سنو خاور۔ رات مجھ کو بڑا ڈر لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے سیّد صاحب‬
‫سالم کا جواب دے رہے ہیں۔وعلیکم ّ‬
‫اسالم‘‬
‫’وہ ضرور جمعراتی ہوگا۔ ہمیشہ اسالم و علیکم کی جگہ وعلیکم اسالم کہتا ہے‬
‫بے وقوف۔ ارے وہی جمعراتی جس نے اس دن کوتوالی کے پیچھے سر کٹا‬
‫دیکھا تھا۔۔۔۔‘‬
‫’سر کٹا۔۔۔۔؟‘‬
‫’ہاں جناب۔ جمعراتی بتا رہا تھا کہ اس نے کیا دیکھا کہ کوتوالی کے پیچھے جو‬
‫پیپل کا پیڑ ہے ‪ ،‬اس سے کود کر سر کٹا اترا اور جمعراتی سے پوچھنے لگا‬
‫۔۔۔’تو نے دیکھا ہے اس راستے میں کہیں میرا سر تو نہیں پڑا؟‘‬
‫’تو کیا وہ آدمی تھا جس کا سر نہیں تھا؟‘‬
‫’ اور کیا ۔ ایسا ہی ہوگا‪ ،‬گردن تک آدمی‪ ،‬سر کٹا ہوا۔ اور جب وہ وہاں سے ڈر‬
‫کر بھاگا ہے تو پتنگوں والے چوراہے پر اسے سڑک پر کٹا ہوا سر بھی پڑا مال۔‬
‫اور جناب ! اس نے تو ِپچھل پیریاں بھی دیکھی ہیں!!!‘‬
‫’یعنی چڑیلیں۔ہیں خاور!!‘‬
‫’ ہاں وہ ٹرک چالتا ہے نا۔ ایک رات وہ کسی سنسان سڑک سے گزر رہا تھا کہ‬
‫اس نے جنگل میں روشنی دیکھی۔ اسے بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ‬
‫کوئی گاؤں ہوگا۔ وہاں شاید اسے چاۓ َمل جاۓ۔ مگر جب روشنی کے قریب گیا‬
‫تو وہاں کچھ عورتیں ناچ رہی تھیں‪ ،‬اور ان کے پیر الٹے تھے ‪----‬ایڑی سامنے‬
‫اور پنجے پیچھے ۔‘‬
‫’جیسے ہماری اردو کی کتان میں ایک ڈاکٹر صاحب نے گڑیا کے پیر الٹے سی‬
‫دیۓ تھے ‘‬
‫’ہاں ہاں ایسی ہی ہوتی ہیں پچھل پیریاں۔ اور انہیں کو چڑیل بھی کہتے ہیں۔خود‬
‫ہمارے ابّا نے چڑیلوں کے پیروں کی پائل کی آواز سنی ہے ۔‘‬
‫’بس کرو خاور۔۔۔۔۔ کیا مار بھوتوں چڑیلوں کی باتیں کۓ جا رہے ہو۔ میرا تو ڈر‬
‫کے مارے دم نکال جا رہا ہے ۔‘‬
‫’کیا ہو گیا انّو بھیّا ۔۔۔۔! صبیحہ جو ابھی آئی تھی‪ ،‬انور کے جملے کا آخری حصہّ‬
‫سن کر پریشان سی ہو اٹھی۔‬

‫‪13‬‬
‫’بھوت چڑیلوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔چیاؤں۔۔۔۔۔!‘‬
‫اور انور نے صبیحہ کو ڈرانے کی کوشش کی حاالں کہ خود اس کا دل اب تک‬
‫کانپ رہا تھا۔‬
‫٭٭٭‬
‫’سات سمندر گوبھی چندر‪ ،‬بول میری مچھلی کتنا پانی۔۔۔۔؟‘‬
‫’اتنا پانی۔۔۔‘‬
‫بچیوں کو اکٹھا ّ کر رکھا تھا اور کھیل‬ ‫ّ‬ ‫صبیحہ اور کہکشاں نے محلے ّ کی کئی‬
‫ی نے آواز لگائی۔۔۔‬‫زوروں میں جاری تھا کہ ام ّ‬
‫’دونوں وقت ِمل رہے ہیں۔ اب بند بھی کرو‘ اور مچھلی نہ جانے کتنے پانی میں‬
‫آ کر رک گئی۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ خاور اور انور دور کھڑے آسمان پر اڑتے‬
‫بگولوں کی قطار دیکھ رہے تھے ۔‬
‫’ہللا دے رسول بخش۔ بگلے بگلے پھول بخش ‘‬
‫ان کی آنکھیں بند تھیں اور ہونٹ مستقل گردان کیے جا رہے تھے ۔ پھر انور نے‬
‫دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور ’شگون‘ کے لیے پہلے بگلوں کی طرف دیکھا‬
‫جو مشرق کی طرف جنگلوں میں دھیرے دھیرے گم ہوتے جا رہے تھے اور‬
‫پھر اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے سارے ناخنوں میں کچھ تالش کیا۔‬
‫’دیکھو دیکھو ‘ خاور نے بائیں ہاتھ کی بیچ کی انگلی نچائی جس کے ناخن پر‬
‫خشخاش کے دانے کے برابر داغ پڑ گیا تھا۔ انور کا دل بجھ سا گیا۔ بگلوں نے‬
‫اسے کوئی پھول نہیں بخشا تھا۔ اس کے ہاتھ کی کسی انگلی کے ناخن میں کوئی‬
‫داغ نہیں تھا۔وہ دھیرے دھیرے نپے تلے قدموں سے برامدے کی طرف آیا اور‬
‫وہاں پڑی چار پائی پر بیٹھ کر اپنے ناخن پھر سے غور سے دیکھنے لگا۔‬
‫’ہماری بیچ کی انگلی پکڑو۔۔ ‘ خاور نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں توڑ مروڑ کر‬
‫بائیں ہاتھ کے پیالے میں پیش کر دیں۔ انور سوچ میں پڑ گیا۔ بایاں ہاتھ ہوتا تو‬
‫بگلے کے بخشے پھول سے بیچ کی انگلی پہچان بھی لیتا۔‬
‫’شاید یہ ہے ۔ نہیں۔ یہ تو انگوٹھا ہے ۔ یہ چھوٹی انگلی ہے جس میں کل میرے‬
‫سامنے گالب کے پھول توڑتے ہوۓ تمھارے کانٹا چبھ گیا تھا۔ ہاں۔ یہ رہی۔۔۔‘‬
‫اور اب انور مسکرا رہا تھا۔ اس نے صحیح انگلی پکڑی تھی۔ اب اس نے بھی‬
‫فورا ً اپنی بیچ کی انگلی پکڑوانے کے لۓ خاور کے سامنے دوسرے ہاتھ میں‬
‫انگلیاں اس طرح چھپا کر پیش کر دیں کہ ان کے صرف ِسرے نظر آ رہے تھے‬
‫۔‬
‫’یہ ہے ۔۔۔ ہیں۔۔۔۔؟‘‬
‫مگر خاور کی آنکھوں کی چمک معدوم ہو چکی تھی۔ یہ انور کی چھوٹی انگلی‬
‫کے پاس والی انگلی تھی‪ ،‬بیچ کی نہیں۔‬
‫٭٭٭‬

‫‪14‬‬
‫شکیلہ باجی اپنی سہیلیوں کے ساتھ تاش کھیل رہی تھیں۔غالم بادشاہ کا کھیل‬
‫عروج پر تھا کہ شکیلہ باجی غالم بن گئیں۔‬
‫’ہم تو بھئی بادشاہ ہیں‘۔ رعنا آپا نے فخر سے کہا۔‬
‫’اور ہم تمھارے وزیر‘ قدسیہ باجی بولیں۔‬
‫’ہم تو بھئی سدا کے غالم۔ایکو بار بادشاہ نہیں بنے ۔ بھولے بھٹکے وزیر ضرور‬
‫بن چکے ہیں۔‘ شکیلہ باجی نے تاش کے پتے ّ سمیٹ دیۓ۔ ’اب ختم کریں۔‘‬
‫’ہم لوگ کھیلیں؟‘ کہکشاں نے اجازت مانگی۔‬
‫’خراب مت کرنا پتے ّ۔۔۔۔‘‬
‫شکیلہ باجی اور دوسری لڑکیاں اٹھ کر برامدے میں چلی گئیں۔‬
‫’آؤ تاش کے گھر بنائیں۔ ‘ صبیحہ نے تجویز کیا۔‬
‫’دیکھو کس کا گھر اونچا بنتا ہے ۔‘ کہکشاں نے بازی لگائی۔ صبیحہ نے جلدی‬
‫پتوں کو ترچھا کر کے کھڑا کیا اور ان کے اوپر ایک اور‬ ‫جلدی تاش کے چار ّ‬
‫پتے کی چھت بنا دی۔ دوسری ’منزل‘ بھی اسی طرح بن گئی۔ اور اب تیسری‬
‫منزل کے پتے لگا رہی تھی کہکشاں نے ابھی دوسری منزل کے پتے ہی سجاۓ‬
‫تھے کہ سارا گھر فرش آ رہا۔ صبیحہ کی بھی تیسری منزل کی کوشش کامیاب‬
‫گر چکا تھا۔’ آہا جی۔۔۔ ہم جیت‬ ‫نہیں ہوئی۔ مگر صبیحہ کا تاش کا گھر پہلے ہی ِ‬
‫گۓ۔۔ ہمارا گھر دو منزلوں کا!!!‘صبیحہ نے تالی بجائی۔۔۔‬
‫’’ہم سے نہیں بنتے ایسے اونچے اونچے گھر۔ ہمارے لیے تو چھوٹا سا گھر ہی‬
‫کافی ہے ۔‘‬
‫اداسی سے کہکشاں نے پتے ّ پھر سمیٹ دیۓ اور چپ چاپ بڑے کمرے کی‬
‫ی ایک ساں خاور کی اماّں سے باتیں کیے جا رہی‬ ‫الماری پر رکھ آئی۔ وہاں ام ّ‬
‫تھیں۔‬
‫’بھئی۔۔ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا بھابھی کا رہنا۔ اور پھر اس پر یہ شکیلہ‬
‫بھی۔ مظہر کے ابا ّ کو اپنے بھائی کا خاندان بھلے ہی عزیز ہو‪ ،‬مگر میں تو‬
‫برداشت نہیں کرنے کی!! ‘‬
‫’مگر ایمان کی بات ہے کہ شکیلہ الکھ گنوں کی لڑکی ہے ۔‘‬
‫’تو کیا میں اپنے مظہر سے اسے بیاہ دوں؟ نہ نہ!! یہ تو نہیں ہونے کا۔ایک تو‬
‫عقیل بھائی نے اپنی پسند سے رذیلوں کی لڑکی اٹھائی اور اس کی گود بھری۔‬
‫اور جب لڑکی جوان ہونے لگی تو گولی کھا کر خود قبر کی گود میں سو گۓ۔‬
‫شکیلہ میں بھی اپنے خاندان کی خصلتیں تو آئیں گی ہی۔ ڈوم جو ٹھہریں۔ خود ہی‬
‫سن لو۔۔۔‘‬
‫اور شکیلہ باجی کے کمرے سے مدھ ّم سروں میں میٹھی میٹھی آواز آ رہی تھی۔۔۔‬
‫اے ری۔۔۔ آلی پیا بنے ۔ سکھی کل نہ پرت موہے گھری پل چ ِھن دِن‘‬
‫٭٭٭‬

‫‪15‬‬
‫’شکیلہ باجی!! ‘ کہکشاں نے شکیلہ باجی کی آنکھیں پیچھے سے اپنے ہاتھوں‬
‫سے بند کر لیں۔‬
‫’روٹی جل جاۓ گی بھئی۔ بد تمیزی مت کرو کشی‘‬
‫ی باجی!! ایک روٹی ہم بھی پکائیں گے ‘‬ ‫’اچھ ّ‬
‫کہکشاں انتظار کرتی رہی۔ اور جب آٹے کی پرات میں آخری دو پیڑے بچے تو‬
‫شکیلہ باجی نے دونوں پیڑوں سے تھوڑا تھوڑا سا آتا نکاال اور تیسرا چھوٹا پیڑا‬
‫بنا دیا۔‬
‫’یہ تمھارے لئے ‘ اور ایک ایک کر کے باقی دونوں روٹیاں بیلنے لگیں۔ اور‬
‫پھر بیلن پٹرا کہکشاں کے سامنے تھا۔‬
‫’ہاتھ دھو کر آئی ہو نا؟؟ ‘شکیلہ باجی نے اپنے سگھڑاپے کا ثبوت دیا اور کچھ‬
‫بزرگی بھی جتائی۔‬
‫’ہاں باجی۔ ‘کہکشاں نے روٹی گول کرنے کی کوشش کی مگر لنکا کا نقشہ ہی‬
‫بن سکا۔ پھر بھی کہکشاں اس وقت بہت خوش تھی جب اس کی بیلی ہوئی روٹی‬
‫توے پر سنک رہی تھی۔ اسے یک لخت محسوس ہوا اب اسے کھانا پکانا آ گیا‬
‫ہے ۔ چاۓ بنانی تو اس نے پہلے ہی سیکھ لی تھی کہ پہلے پانی کیتلی میں اباال‬
‫ی اسی میں ڈال کر اتار لو۔ اور پیالی میں دودھ اور‬ ‫جاۓ اور پھر چاۓ کی پت ّ‬
‫چینی مال کر چاۓ کا پانی ڈال دو۔ بس چاۓ تیاّر۔ اب کبھی ضرورت پڑی تو کم‬
‫از کم خود چاۓ بنا ک اس کے ساتھ روٹی تو کھائی ہی جا سکے گی۔ بھوکے تو‬
‫نہیں رہیں گے ۔ اس نے د ِل ہی د ِل میں دعا مانگی کہ کسی دن گھر کے سب‬
‫بڑے کہیں چلے جائیں تو چاۓ اور روٹی سے ناشتہ کیا جاۓ اور انور‪ ،‬خاور‬
‫اور صبیحہ کی دعوت بھی کی جاۓ۔‬
‫٭٭٭‬
‫ی ! بھوک لگ رہی ہے ‘‬ ‫’ام ّ‬
‫ی بوا اور شکیلہ باجی‬‫انّو باورچی خانے میں ہی چال آیا تھا۔ دروازے پر کھڑی ام ّ‬
‫کو ہدایتیں دے رہی تھیں۔ بوا برتن بھی دھوتی جا رہی تھیں۔ تانبے اور چینی کے‬
‫برتنوں کی کھنک کے ساتھ المونیم کے برتن دھلتے وقت عجیب بے سری سی‬
‫آواز پیدا کر رہے تھے ۔ بوا برتن دھو کر باورچی خانے میں رکھی میز پر‬
‫سجاۓ جا رہی تھیں۔ ان آوازوں میں شکیلہ باجی کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ بھی‬
‫تھی جنھیں وہ آٹے میں سنے ہاتھوں سے اوپر چڑھا لیتی تھیں مگر آٹا گوندھتے‬
‫ہوۓ چوڑیاں بار بار سامنے کی طرف سرک آتیں ۔‬
‫ی باورچی‬‫’تم چوڑیاں نہ پہنو تو اب تک دو چار روٹیاں تیار ہو چکی ہوتیں۔۔‘ ام ّ‬
‫خانے سے باہر چلی گئیں۔‬
‫’بس ابھی دو چار روٹیاں پک جائیں گی تو تم کھانا کھانے بیٹھ جانا۔‘ شکیلہ باجی‬
‫ی دی اور چوڑیاں اتار کر طاق پر ایک طرف رکھ کر پھر تیزی‬ ‫نے انور کو تسل ّ‬
‫سے آٹا گوندھنے لگیں۔ انور انھیں دیکھتا رہا۔ آٹا گوندھنے کے بعد اس کی‬
‫نظریں لکڑی کے پٹرے پر رہیں۔ وہ غور سے دیکھتا رہا کہ کس طرح شکیلہ‬

‫‪16‬‬
‫باجی آٹے کے پیڑے بنا کر خشکی میں دبا کر ہاتھ سے پھیالتی ہیں اور پھر‬
‫پٹرے پر رکھ کر بیلن سے گول بیل دیتی ہیں۔ اور پھر ایک ہلکی سی جنبش اور‬
‫ایک چاند توے کی سیاہ آسمان پر چمک جاتا۔‬
‫پھر بوا نے اس کے سامنے کھانا ال کر رکھ دیا۔ ایک چھوٹی تپائی باورچی خانے‬
‫میں ایسی ضرورت کے لۓ رہتی تھی۔‬
‫’گوشت میں ابھی پانی نہیں ڈاال ہے ۔ بھنا ہوا ہی کھا لو۔ ‘ شکیلہ باجی نے اس‬
‫کی پلیٹ میں ایک گرم گرم روٹی رکھ دی اور انور کھانے لگا اور دیکھتا رہا‬
‫روٹیوں سے زیادہ شکیلہ باجی کے ہاتھوں کو۔ اور کھانا ختم کر کے بھی یہی‬
‫کھیل دیکھتا رہا۔ آٹے کی پیڑے پرات میں کم ہوتے گۓ۔ اور انور کھیل ختم‬
‫ہونے کے خیال سے افسردہ ہونے لگا۔ پھر اچانک ایک خوش گوار احساس نے‬
‫اسے ایک اور لمحے کا منتظر کر دیا۔ روٹی پکا کر شکیلہ باجی نے توا چولھے‬
‫کے کنارے اوندھا دیا تھا۔‬
‫’توا ہنس رہا ہے !! توا ہنس رہا ہے !!‘‬
‫توے کے اندر والے حصے ّ میں چنگاریوں کے سرخ ستارے جھلمال رہے تھے‬
‫۔‬
‫’راکھ ڈالو۔ توے کا جلنا اچھا ّ نہیں ہوتا۔ ‘ بوا نے مشورہ دے کر خود ہی جلدی‬
‫سے توے پر راکھ کی مٹ ّھی بکھیر دی۔‬
‫٭٭٭‬
‫ی بی دونوں اپنے سامنے کدو کش رکھے گاجریں کدو کش کر رہی‬ ‫ی اور چچ ّ‬
‫ام ّ‬
‫تھیں۔‬
‫'آہا۔۔گاجر کا حلوہ !!' کہکشاں نے سوچا اور اس کے مونہہ میں پانی بھر آیا۔ وہ‬
‫ی کے پاس بیٹھی یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ صبیحہ آنگن میں شکیلہ‬ ‫خاموشی سے ام ّ‬
‫باجی کا دوپٹ ّہ سکھانے میں مدد دے رہی تھی جو انھوں نے ابھی شنجرفی رنگ‬
‫ی بی سے گاجر چھیلتے چھیلتے باتیں کئے جا رہی‬ ‫میں رنگا تھا۔ اور امی چچ ّ‬
‫تھیں۔‬
‫"سبزیوں واال باغ تو بِک چکا۔ اب کیا گاجروں کا حلوہ بنے ۔ ایک زمانہ تھا کہ‬
‫میں نے انھیں ہاتھوں سے من من بھر گاجروں کا حلوہ بنایا ہے ۔"‬
‫ی بی کی آنکھوں کے سامنے سے ماضی‬ ‫"وہ زمانہ تو کب کا لد چکا دلہن۔۔۔" چچ ّ‬
‫کے سایوں کا جلوس گزرنے لگا۔‬
‫"اور اب ظاہر ہے کہ گاجریں خرید کر تھوڑا سا حلوہ بنایا جائے اور اس میں‬
‫بھی غیر حص ّہ بٹا لیں تو کیا ملے گا بچوں کو۔۔؟"‬
‫ی نے آخری گاجر کدو کش کر کے کدو کش الٹا کر کے جھٹکتے ہوئے‬ ‫ام ّ‬
‫کنکھیوں سے چچی بی کی نورانی آنکھوں میں مہیب سایوں کا جلوس گزرتے‬
‫دیکھا۔ یہ صفا ان پر چوٹ تھی۔‬
‫آنگن میں دھوپ تیز ہو گئی تھی‪ ،‬شکیلہ باجی کا دوپٹ ّہ سوکھ چکا تھا‪ ،‬وہ دھیرے‬
‫ی اور چچی بی کی باتوں‬ ‫دھیرے قدموں سے برامدے میں چلی آئی تھیں اور ام ّ‬

‫‪17‬‬
‫کو خاموشی سے ایک لمحہ سن کر کچھ سوچتے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے‬
‫ت سامعہ‬
‫کی طرف چلی گئیں ۔ ملحقہ کمرے سے دوسری ہی آوازیں ان کو دعو ِ‬
‫دے رہی تھیں۔‬
‫٭٭٭‬
‫"ابا ّ میاں! گیہوں کی کٹائی اب قریب ہے ۔۔۔۔۔۔"‬
‫"بھئی۔ مجھ سے مشورہ لینے کی کیا ضرورت۔ میں ٹھہرا مفلوج آدمی۔ تم ہی‬
‫منشی فضل دین سے کہہ کر آدمیوں کو لگوا لو۔"‬
‫"ابا ّ میاں‪ ،‬میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا کہ منشی جی کو بلوا لیتے ہیں۔ آپ خود‬
‫ہی ان کو حکم دے دیجئے گا‪ ،‬وہ سنبھال لیں گے ۔ اس لئے کہ اب میرا کھیتوں‬
‫میں جانے کا ارادہ نہیں ہے "‬
‫"بھائی‪ ،‬تم نے خود ہی تو کھیتوں میں کام کرنے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا‬
‫تھا ۔ تم کو پڑھ لکھ کر بھی ہل چالنا زیادہ پسند تھا کہ گوروں کی نوکری تم کرنا‬
‫نہیں چاہتے "‬
‫’’ابا ّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔"‬
‫ابا ّ میاں کے ذہن پر 'زمیں دار' اخبار کی کئی سرخیاں دھول اڑاتی تیز رفتار‬
‫بگھیّوں کی طرح گزر گئیں۔‬
‫'دہشت پسندوں کے گروہ کی گرفتاری'‬
‫'خاکسار تحریک'‬
‫'مسلم لیگ کے جلسے میں کانگریسیوں کی رخنہ اندازی'‬
‫خارج مسجد ہے ۔ مفتی کان پور کا بیان'‬‫ِ‬ ‫'غسل خانہ‬
‫آزاد ہند فوج۔۔۔ دہشت پسند۔۔۔مسلم لیگ۔۔۔ کانگریس۔۔۔عقیل بھائی۔۔۔۔ محمدّ علی۔۔۔۔۔‬
‫'میں شیروانی اور کرتے کے بٹن بھی کھول دیتا ہوں کہ گولی اور میرے سینے‬
‫کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔۔'‬
‫ابا ّ میاں! میں آزادی کے لئے کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔" ان کے ذہن میں پھر مظہر‬
‫کی آواز گونجی۔ انور چپ چاپ کھڑا بڑے بھیّا اور ابا ّ کو دیکھتا رہا۔ ابا ّ میاں کی‬
‫ایک بوڑھی سفید لٹ گھنی مونچھوں پر آ گری جسے انھوں نے اپنے رومال‬
‫والے ہاتھ سے سر کی طرف پھینکتے ہوئے آنکھوں کے گوشے صاف کئے ۔‬
‫"تم جو بھی کرو‪ ،‬حق کے لئے کرو۔ تم اپنے عقیل چچا کے بھتیجے ہو‪ .‬اس‬
‫صغیر ہللا کی اوالد ہو جسے سن ستاّون میں گوروں کا مقابلہ کرنے پر انعام کے‬
‫طور پر سرکار سے یہ زمینیں ملی تھیں جن کی پیداوار تم اب تک کھاتے رہے‬
‫ہو۔ حاالنکہ اب ہم کو خود ہی اپنی رعایا۔۔۔۔۔۔۔‘ ابا ّ میاں رکے ۔ انور دروازے کی‬
‫اوٹ میں چپ چاپ کھڑا یہ پر اسرار باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ دنیا‬
‫میں اب بھی کتنی باتیں ایسی ہیں جو نہ سمجھ میں آنے والی ہیں۔ سیّد صاحب‪،‬‬
‫سر کٹے اور پچھل پائیاں تو زندگی کا ضروری جز اور بے حد حقیقی چیزیں‬
‫تھیں۔ ایک دم سامنے کی باتیں جو آسانی سے سمجھ میں آ جاتی تھیں۔ مگر یہ‬

‫‪18‬‬
‫باتیں!!! دس گیارہ سال کی عمر میں تو اسے یہ سب باتیں سمجھ میں آ جانی‬
‫چاہئے اور اپنے سے چھوٹے خاور اور صبیحہ کو سمجھا بھی دینا چاہۓ تھا۔‬
‫٭٭٭‬
‫انور ۔کہکشاں اور خاور۔صبیحہ کے گھروں کے آنگنوں میں کھلنے والی‬
‫مشترکہ کھڑکی دن میں کئی بار کھلتی۔ کبھی ایک طرف سے بند ہوتی تو‬
‫دوسری طرف سے کھڑکی بجا کر دستک دی جاتی۔ چاروں کے کان اس دستک‬
‫کی پہچان میں بے حد تیز تھے کی ان کی آمد و رفت کا تو راستہ ہی یہ تھا۔‬
‫مختلف چیزوں کا تبادلہ ان کی ماؤں میں ہوتا اور یہ فریضہ بھی ان چاروں میں‬
‫سے کسی کا ہوتا۔‬
‫اس دن بے حد صبح شاید چاروں ابھی سو ہی رہے تھے کہ کھڑکی پر دستک‬
‫ہوئی تھی۔ آنگن کے پار کوٹھری میں سوئی ہوئی بوا اور غفور کی آنکھ کھل‬
‫ی پریشان سی کھڑی تھیں۔ ان کے‬ ‫گئی۔ غفور نے کھڑکی کھولی۔ خاور کی ام ّ‬
‫ہاتھ میں ٹیلی گرام تھا۔۔۔‬
‫’ذرا جلدی سے مظہر میاں سے یہ تار پڑھوا دو۔ سو رہے ہوں تو جگا دو۔۔‘‬
‫غفور تار لے کر بڑے بھیّا کے کمرے کی طرف اتنی تیزی سے گیا کہ کئی‬
‫لوگوں کی آنکھ کھل گئی۔‬
‫’ بڑے بھیّا!‘ اس نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ ’ بڑے‬
‫بھیّا!‘ اس نے دروازہ بجانے کے لۓ پھر دروازے پر ہاتھ رکھا تو تھوڑے‬
‫دھکے ّ سے دروازہ کھل گیا جو اندر سے بند نہیں تھا۔ بڑے بھیّا کمرے میں نہیں‬
‫تھے ۔ ان کے بستر پر بے شمار سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں اور ابا ّ میاں پکار رہے‬
‫تھے ۔۔۔‬
‫’مظہر کو ابھی مت اٹھاؤ۔ تار مجھے دو میں پڑھ دیتا ہوں۔۔۔‘‬
‫غفور نے ٹیلی گرام ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا‪،‬‬
‫ابا ّ میاں نے تار بلند آواز میں پڑھا۔۔۔‬
‫’’‪ JAMAL EXPIRED(.) COME SOON‬رام پور سے آیا ہے یہ تار۔ بھابھی‬
‫ان ِللّلہ وا َِّن اِلی ِہ راجعون۔ ان‬
‫سے کہو کہ ان کے بھائی جمال کا انتقال ہو گیا ہے ۔ ّ‬
‫کو فورا ً بالیا ہے ۔‘‘‬
‫’مگر صاحب بڑے بھیّا؟؟؟‘‬
‫انور اور کہکشاں بڑے بھیّا کے کمرے میں جھانک رہے تھے ۔ کل شام کو‬
‫انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کل صبح وہ انھیں سالم کرنے آئیں گے تو ان کو‬
‫انعام دیا جاۓ گا۔ انور کی فرمائش کلر باکس کی تھی اور کہکشاں کی تصویروں‬
‫والی کہانی کی کتاب کی۔ مگر بڑے بھیا نہ جانے کہاں غائب تھے ۔ البت ّہ ان کے‬
‫سرہانے کی تپائی پر ایک کلر باکس اور دو کہانی کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔‬
‫انور نے جلدی سے رنگ کا ڈب ّہ اٹھا لیا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کلر‬
‫باکس پر بنا خرگوش بھاگتے بھاگتے دور سرسوں کے کھیتوں میں نکل گیا ہے‬

‫‪19‬‬
‫اور صبیحہ کی کتابوں کے سر ورق پر بنے پھولوں پر کوئی سچ مچ کی تتلی آ‬
‫بیٹھی ہے جو لمحے بھر بعد اڑ جاۓ گی۔‬
‫٭٭٭‬
‫پھر ان چاروں کی چوکڑی میں ایک پانچواں سوار جنید شامل ہو گیا تھا۔ جنید‬
‫ی رام پور سے لے آئی تھیں۔ ان کے مرحوم بھائی کی یاد گار‬ ‫جسے خاور کی ام ّ‬
‫جن کا ٹرک کے حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ بڑے فخر سے اپنے شہر رام‬
‫پور کی باتیں بتا رہا تھا۔ ۔۔‬
‫ی ڈنڈا‬
‫’’اور ہمارے اسکول کے سامنے اتنا بڑا میدان تھا۔۔ جی ہاں جناب کہ گل ّ‬
‫ی ہزار‬‫ی کبھی ہزار ہو جاۓ۔ ایک بار میں نے ہی گل ّ‬ ‫کھیلنے میں مجال ہے جو گل ّ‬
‫ی آدھے میدان کو پار کر گئی تھی۔ پھر دوسرے کے‬ ‫کی تھی۔ پہلے ہی ٹل میں گل ّ‬
‫ی میدان کے باہر اسپتال کی چھت پر۔۔!!! اس‬ ‫بعد تیسرا ٹل جو میں نے مارا تو گل ّ‬
‫دن کھیل میں اتنا مزا آیا تھا کہ گھر جانا یاد ہی نہیں رہا۔ اس دن ابا جان نے بہت‬
‫مارا تھا۔۔۔‘‘‬
‫’’ابا ّ جان تم کو بہت مارتے ہیں کیا۔۔۔؟‘‘انور نے تعجب سے پوچھا۔‬
‫’’ہاں۔۔۔۔ بہت مارتے تھے ‘‘ اس نے ’تھے ‘پر زور دیا۔ ’’اب تو وہ اپنی قبر‬
‫میں گھسنے والے ب ّجوؤں کو مارتے ہوں گے ‘‘۔ وہ استہزا سے ہنسا۔‬
‫’’اور امی ۔۔؟‘‘ انور کو جمال ماموں کی وفات کی بات بھول جانے پر شرمندگی‬
‫کا احساس ہوا۔‬
‫’’اماں کا تو یاد ہی نہیں۔ میں بہت چھوٹا تھا کہ ایک دن وہ اسپتال گئیں تو واپس‬
‫ہی نہیں آئیں۔ گھر میں خالہ تھیں۔ وہ نہ مارتی تھیں نہ پیار ہی کرتی تھیں‘‘ انور‬
‫ابو ۔ عقیل‬
‫کو شکیلہ باجی کی بات یاد آئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایک بار ان کے ّ‬
‫چچا۔ اسپتال گۓ تو واپس ہی نہیں آۓ‘‘۔‬
‫’’یہ لوگ اسپتال کیوں جاتے ہیں جب واپس نہیں آ سکتے ‘‘۔ خاور نے اپنی راۓ‬
‫ظاہر کی ۔‬
‫’’اسپتال تو عالج کے لۓ ہوتا ہے بیوقوف۔ مگر کسی کسی کا عالج ٹھیک نہیں‬
‫ہو پاتا تو وہ بیماری سے مر جاتا ہے ۔ دل دھڑکنا بند ہو جاتا ہے اور سانس رک‬
‫جاتی ہے ۔ پھر لوگ لے جا کر قبر میں لٹا دیتے ہیں۔‘‘ جنید نے نہایت عقل مندی‬
‫اور بزرگی کا ثبوت دیا۔‬
‫اب تو شاید جنید بھی میرے ساتھ اسکول میں داخل کیا جاۓ گا۔ انور نے خوشی‬
‫سے سوچا۔ مگر جنید نے ہی ایک بار بتایا تھا کہ وہ تو اپنے کسی دوست کے‬
‫گھر سے ال کر اپنے سے اگلے درجے کی کتابیں بھی پڑھ چکا تھا۔ نئی کالس‬
‫شروع ہوتے ہی نئی نئی کتابیں آتی تھیں اور وہ پہلی ہی رات میں سارے سال کا‬
‫کورس ختم کر دیتا تھا۔ اور اگلے اگلے دنوں میں دوسرے درجوں کی کتابیں‬
‫مانگ کر التا تھا۔ کتنا قابل تھا بھئی یہ جنید!!‬
‫’’تم اسکول میں پڑھو گے ۔۔؟‘‘ انور نے پوچھا۔‬

‫‪20‬‬
‫’’ہاں۔ امتحان پاس کرنے کے لۓ تو اسکول جانا ہی ہوگا۔ اور تمھارے اسکول‬
‫کی ہی بات ہو رہی ہے ۔ پھوپھا جان بتا رہے تھے ۔ مگر بھائی ۔۔۔۔۔اب تو میں‬
‫کتابیں لکھوں گا!!‘‘‬
‫’کیا مطلب؟‘خاور کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ ’‬
‫’ارے ‪ ،‬یہ جتنی کتابیں ہوتی ہیں نا‪ ،‬رسالوں میں کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں‪ ،‬یہ‬
‫لوگ خود ہی تو لکھتے ہیں ہم تم جیسے ۔ میری دو تین کہانیاں ’پھلواری‘ میں‬
‫چھپ بھی چکی ہیں۔‪‘....‬‬
‫’پھلواری۔۔۔؟‘‬
‫بچوں کا رسالہ ہوتا ہے نا۔ میں کچھ پرچے لے کر آیا ہوں‪،‬۔ دیکھ لینا۔‬
‫ّ‬ ‫’ارے وہ‬
‫مزے کی کہانیاں نظمیں ہوتی ہیں اس میں۔ اب تو میں کہانیوں کی کتابیں لکھنے‬
‫کی سوچ رہا ہوں۔۔‘‬
‫خاور اور انور نے جنید کو دفعتا ً اپنے سے بے حد بہتر محسوس کیا اور اح ِ‬
‫ساس‬
‫کم تری سے محجوب ہو کر جدا پو گۓ۔‬
‫٭٭٭‬

‫ب معمول بڑے بھیا کے کمرے میں جھانکا۔ ان کا کمرہ ترتیب‬‫انور نے آ کر حس ِ‬


‫سے سجا دیا گیا تھا۔ مینٹل پیس پر ان کی بکھرے بالوں والی تصویر مسکرا رہی‬
‫تھی۔ بستر قرینے سے لگا ہوا تھا۔ سرہانے کے دریچے سے ہوا کے ساتھ کمرے‬
‫میں گھس آۓ عشق پیچاں کے پتے ّ شکیلہ باجی کے چہرے کو سہال رہے تھے‬
‫اور ان کی بے حد چمکیلی آنکھوں کے بھیگے کناروں سے اپنی پیاس بجھا رہے‬
‫تھے ۔ نہ جانے کب سے شکیلہ باجی وہاں کھڑی تھیں۔اور کب تک کھڑکی کے‬
‫پاس کھڑی رہیں۔ نہ جانے کب تک وہاں انّو شکیلہ باجی کو گم صم کھڑا دیکھتا‬
‫رہا اور بڑے بھیّا تصویر میں مسکراتے رہے ۔‬
‫٭٭٭‬
‫سردی کی مختصر چھٹّیوں کے بعد اسکول پھر کھل گۓ تھے اور دھیرے‬
‫دھیرے گرمیاں بھی آ گئیں۔ اور ایک دن پانچوں سوار چونکے تو ان کو یہ‬
‫احساس ہوا کہ آج کل ان کو بہت فرصت ہے ۔ امتحان نزدیک سہی‪ ،‬مگر دن بہت‬
‫بڑا ہے ۔ اسکول بھی صبح سویرے کا ہو گیا تھا اور ‪ ١١‬بجے چھٹّی ہو جاتی‬
‫تھی۔ باقی دن بھر خوب لطف اٹھاۓ جا سکتے ہیں۔ انور‪ ،‬خاور اور جنید طویل‬
‫ترین راستے سے اسکول سے لوٹا کرتے ۔ راستے میں کتنی دل چسپیاں بھی تو‬
‫بکھری پڑی تھیں!!۔ پتنگ والے چوراہے پر رنگ برنگی پتنگوں کے عالوہ‬
‫چورن والے کا خوانچہ بھی ہوتا تھا۔۔ چورن میں تو شاید ان کو اتنا ذائقہ محسوس‬
‫نہیں تھا مگر چورن واال چورن پر کچھ چیز ڈال کر جب آگ دکھاتا تھا تو اس‬
‫ننھے سے شعلے کے تماشے میں ان کے چورن کی ساری قیمت وصول ہو جاتی‬
‫تھی۔ اور اس نیک با سعادت فرض کی ادائیگی میں اکثر جیب کا ایک ایک پیسہ‬

‫‪21‬‬
‫خرچ کر دیتے تھے جو ان کو اسکول کے وقفے میں خرچ کرنے کے لۓ دیا‬
‫جاتا تھا۔‬
‫پتھروں‬
‫ّ‬ ‫پھر بڑی مسجد کے پاس واال پیپل کا پیڑ تھا۔ جس کی جڑوں کے پاس‬
‫میں گیرو لگا ہوا تھا اور آس پاس کے ہندو گھروں کی عورتیں ناریل توڑ کر یا‬
‫دودھ اور پانی بہا کر اس کی پوجا کرتی تھیں۔ اور جس کے سو شاخہ تنے سے‬
‫ایسا منظر بنتا تھا جیسے کرشن جی اپنے مخصوص پوز میں ایک ٹانگ دوسری‬
‫پر رکھے بانسری بجا رہے ہوں اور مسجد کے میناروں پر کبوتر۔ سیّد صاحب!۔‬
‫اور تھوڑا آگے بسم ہللا ہوٹل پر بجنے والے ریکارڈ ’’تیری گٹھری میں الگا چور‬
‫مسافر جاگ ذرا‘‘ اور اس کے ساتھ آواز مال کر وہ گاتے ۔۔۔۔’’مسافر بھاگ ذرا‘‘‬
‫اور خود بھی بھاگتے ہوۓ آگے بڑھ جاتے ۔ گھر آ کر کھانا کھاتے ۔ پھر ساری‬
‫دوپہر پڑی تھی۔ دوپہر کھانے کے بعد سارے بزرگ آرام کرتے تھے ۔‬
‫ایسی ہی ایک گرم دو پہر کو انور نے اپنے کمرے سے نکل کر دوسرے کمروں‬
‫ی بی گہری نیند سو رہی تھیں۔ اور شاید ایسے ہی خواب دیکھ‬ ‫میں جھانکا۔ چچ ّ‬
‫ی کو سناتیں اور امی اپنا کام کرتے کرتے بے دھیانی‬ ‫رہی تھیں جو وہ ہمیشہ ام ّ‬
‫سے ’ہاں۔ ہوں‘ کرتی رہتیں۔‬
‫’’‪..‬کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کنواں ہے اور اس میں بہت گہرا پانی ہے ۔ میں‬
‫ابو دکھائی دیتے ہیں‬ ‫جھانکتی ہوں تو مجھے کنویں کی گہرائی میں شکیلہ کے ّ‬
‫جیسے وہ وہاں تیر رہے ہوں۔۔ پھر مجھے پکارتے ہیں کہ مجھے نکالو۔ میں‬
‫تیزی سے ڈول ڈالتی ہوں اور تھوڑی دیر بعد ڈول نکالتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ‬
‫اس میں شکیلہ کا نارنجی دوپٹّہ نکلتا ہے جو میں نے اس کے چوتھی کے‬
‫جوڑے کے ساتھ بنایا ہے ۔ بھیگے ہوۓ دوپٹے ّ کو دیکھ کر میں چیخ مارتی ہوں‬
‫اور میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘‬
‫انور نے یہ خواب سن کر پچھواڑے کے کنویں میں جھانکا تھا مگر اسے اس‬
‫کنویں سے اسے کبھی کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی۔ سواۓ اس وقت کے جب‬
‫ایک بالّ کنویں میں گر کر مر گیا تھا اور ابا ّ میاں نے منشی چچا اور بڑے بھیّا‬
‫سے چالیس ڈول پانی گن کر باہر نکلوا کر پھنکوایا تھا کنویں کو پاک کرنے کے‬
‫لۓ۔‬
‫ی بی کو سوتا دیکھ کر انور آگے بڑھ گیا۔ ابا ّ میاں کے کمرے میں‬ ‫ی اور چچ ّ‬ ‫ام ّ‬
‫ّ‬
‫جھانکا۔ ان کے سینے پر ’زمیں دار‘ اخبار کھال پڑا تھا اور ان کے خرانٹوں اور‬
‫ہوا کے ساتھ اخبار کے ورق پھڑپھڑانے کی آوازوں سے فضا گونج رہی تھی۔‬
‫ان کے سر کی طرف بڑا سا پنکھا ساکت تھا۔ اس کی دوری برامدے میں لیٹے‬
‫ہوۓ غفور تک چلی گئی تھی جو میلی سی بوری کے بستر پر لیٹا ہوا سو گیا تھا۔‬
‫انور نے غفور کو دھیرے سے جھنجھوڑا۔۔‬
‫’’پنکھا نہیں چل رہا ہے ۔۔۔۔‘‘ اس نے غفور کو اطالّع دی۔ غفور نے آنکھیں مل‬
‫کر کھولیں مگر اس سے پہلے ہی وہ مستعدی سے پنکھا ہالنا شروع کر چکا تھا۔‬
‫انور کو اطمینان ہو گیا کہ اب پنکھا بند ہو جانے کی گرمی سے ابا ّ میاں کی آنکھ‬
‫ی کے کمرے کا پنکھا بوا ہال رہی تھیں۔ داالن‬ ‫کھلنے کا بھی خطرہ نہیں ہے ۔ ام ّ‬
‫میں ہی کہکشاں مل گئی۔ انور نے غفور کے سو جانے کی بات ہنس کر سنا ئی‬

‫‪22‬‬
‫زیر لب۔ اور پھر دونوں خاور اور صبیحہ کے آنگن کی کھڑکی پر دستک‬
‫مگر ِ‬
‫دے رہے تھے ۔‬
‫٭٭٭‬

‫پانچوں لو کے باوجود جیسے ٹہلتے ہوۓ سرکنڈوں کی جھاڑیوں تک گۓ اور‬


‫کب واپس آ رہے تھے تو ان کے ہاتھوں میں ڈھیروں سر کنڈوں کی گانٹھیں تھیں۔‬
‫اور پھر بے حد انہماک سے سر کنڈوں کی مختلف چیزیں بنائی جا رہی تھیں۔‬
‫’’دیکھۓ جناب۔ ہم نے نہایت شاندار پستول بنایا ہے ۔۔۔‘‘ جنید نے سر کنڈوں کے‬
‫پستول کو ہاتھوں میں اٹھایا۔۔۔۔’’ہینڈس اپ۔۔۔۔۔!!!! ‘‘‬
‫یہ یقینا ً جنید نے ان انگریزی فلموں سے سیکھا ہوگا جو اس نے اپنے ابا ّ کے‬
‫ساتھ دیکھی ہوں گی۔‬
‫’’یہ دیکھو‪ ،‬پورا صوفہ سیٹ تیار ہو گیا۔ ایک میز‪ ،‬دو کرسیاں اور ایک لمبا واال‬
‫صوفہ۔‘‘ یہ صبیحہ تھی۔‬
‫دھوپ میں زردی آتی گئی اور فرنیچر اور گھر ٹوٹتے رہے ‪ ،‬بنتے رہے ۔ اور‬
‫سورج سرکنڈوں کی جھاڑیوں کے پیچھے چھپنے لگا۔‬
‫٭٭٭‬

‫ی کی صبح تھی جب موسم ہمیشہ خوش گوار لگتا ہے ۔ کہکشاں‬ ‫وہ اتوار کی چھٹ ّ‬
‫کو شکیلہ باجی اپنے ساتھ کہیں لے گئی تھیں اور انور اکیال تھا۔ اس نے پائیں‬
‫باغ کی طرف قدم بڑھا دۓ۔ ہر طرف یکسانیت تھی۔ سارے درخت ویسے ہی سر‬
‫جھکاۓ کھڑے تھے ۔ اس وقت ہوا بند تھی۔ اب دن چڑھے گا تو لو چلنی شروع‬
‫ہو گی‪ ،‬پھر درختوں کے پتے ّ بین کرتے زمین پر بکھرنے لگیں گے ۔ مگر اس‬
‫وقت خاموشی اور سکون تھا۔ سارے درخت۔۔ مگر نہیں۔۔ پپیتے کا درخت اپنی‬
‫جگہ سے غائب تھا۔ اسے یاد آیا۔ کچھ دن پہلے مولوی چچا‪ ،‬ابا ّ میاں کے دوست‬
‫لکھنؤ سے آۓ تھے ۔ اور اپنے ہاتھوں سے انھوں نے پپیتے کا درخت ہال ہال کر‬
‫اکھاڑ دیا تھا۔ ’’میرے ہوتے ہوۓ جمیل میاں‪ ،‬پپیتے کا یہ منحوس درخت میں‬
‫نہیں رہنے دوں گا۔ ابھی مجھ میں اتنا دم تو ہے ۔‘‘ انھوں نے اپنی چاند ستاروں‬
‫والی ہری ٹوپی امرود کے درخت کی نکلی ہوئی ننگی شاخ پر لٹکا دی تھی اور‬
‫دونوں ہاتھوں سے پپیتے کے تنے کو جھنجھوڑنے لگے تھے ۔‬
‫انور اور کہکشاں مولوی چچا کو پپیتے سے کشتی لڑتے دیکھتے کبھی ان کی‬
‫چاند ستاروں والی عجیب سی ٹوپی پر شاخوں سے چھنتی دھوپ سے مزید نقش‬
‫و نگار بنتے ہوۓ دیکھتے رہے ۔‬
‫باغ سے وہ آنگن میں آیا اور خاور کو بالنے کے لۓ کھڑکی پر دستک دی۔‬
‫’’بھائی جان تو پڑھ رہے ہیں‘‘ صبیحہ نے اطالّع دی۔ تو ابھی تک وہ بڈھا ّ‬
‫ماسٹر بیٹھا ہوا ہے ۔۔ انور نے سوچا۔۔ اسکول والے ماسٹر صاحب ہی کافی نہیں‬

‫‪23‬‬
‫ہیں کیا؟؟ ’’تم آ رہی ہو؟‘‘ انور نے پوچھا مگر جواب دۓ بغیر بلکہ سوال مکمل‬
‫ہونے سے پہلے صبیحہ کھڑکی پھالنگ چکی تھی اور انور کے آنگن میں اتر‬
‫آئی تھی۔‬
‫’’آؤ۔ کاغذ کے ہوائی جہاز بنائیں‘‘۔ انور ابا ّ میاں کے کمرے سے پرانے اخبار‬
‫اٹھا الیا تھا۔‬
‫پھر ہوائی جہاز بنتے بگڑتے رہے ۔ کچھ اڑے ‪ ،‬کچھ اڑ نہ پاۓ۔ اس کے بعد‬
‫کشتیوں کا نمبر آیا‪ ،‬باغ کی نالی میں ایک کے بعد ایک کشتیاں اترتی رہیں‪،‬‬
‫تیرتی ڈوبتی رہیں۔ ’’چلو کشتیوں کی ریس ہو جاۓ‘‘‬
‫’’یہ میری کشتی‪ ،‬تصویر کے کاغذ والی‘‘ صبیحہ نے اپنی ناؤ کی پہچان بتائی۔‬
‫’’اور یہ میری‘‘۔ انور کی ناؤ کچھ دور تک بہتی چلی گئی مگر صبیحہ کی‬
‫کشتی تھوڑی دور ہی تیر کر جھکی اور پانی میں ڈوب گئ۔ صبیحہ کی آنکھوں‬
‫میں آنسو آ گۓ۔‬
‫’’ارے روتی ہو‘‘۔ انور نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ ’’وہ تصویر والی کشتی‬
‫میری تھی بھائی ۔ تمھاری کشتی ہی جیت گئی ہے ۔ آؤ تم کو اپنی صندوقچی‬
‫دکھاؤں‘‘ اور انور صبیحہ کو اپنے کمرے میں لے آیا۔ اور کچھ دیر بعد اس نے‬
‫فرش پر اپنی ساری کائنات ڈھیر کر دی۔ نیلی پیلی شیشے کی گولیاں‪ ،‬پالسٹک‬
‫کے ننھے ننھے جانور‪ ،‬رنگ برنگ کی تتلیوں کے پر‪ ،‬سنہری بٹن‪ ،‬دو چار‬
‫خوبصورت سے ڈاک کے ٹکٹ۔ کچھ ہوائی جہازوں کی رنگین تصویریں۔ اور‬
‫ایک ننھی منی سی ڈائری جو اس نے ابا ّ میاں سے لی تھی۔‬
‫’’یہ سب تم لے لو‘‘۔‬
‫’’میں۔۔۔۔۔۔۔؟؟‘‘ صبیحہ نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔ اس کی آنکھوں کی‬
‫جھیل خشک ہو چکی تھی۔‬
‫’’ہاں ہاں۔ لے لو۔۔۔ سچ مچ!!‘‘ انور نے اس طرح کہا جیسے وہ صبیحہ سے بہت‬
‫بڑا اور اس کا بزرگ ہو۔‬
‫’’میرے پاس دو ہار ہیں۔ ایک تم کو ال دیتی ہوں۔‘‘ صبیحہ بھاگتی ہوئی اپنی‬
‫کھڑکی کی طرف گئ۔ اور پھر واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں ایک زنجیر تھی‬
‫جو شیشے کی رنگین چوڑیوں کے ٹکڑوں کو چراغ کے شعلے پر موڑ موڑ کر‬
‫بنائی گئ تھی۔‬
‫٭٭٭‬

‫پھر آموں کا موسم آیا اور پرانا ہو گیا۔ آم کھا کھا کر انھوں نے گٹھلیاں جمع کیں‬
‫اور لیموں کے درخت کے نیچے بو دیں۔ کچھ دن بعد ان کے ’پپیۓ‘ اگ آۓ۔‬
‫بڑی احتیاط سے انھیں توڑا گیا۔ انور‪ ،‬کہکشاں‪ ،‬خاور‪ ،‬صبیحہ اور جنید سب نے‬
‫اپنے اپنے پپیۓ تقسیم اور منتخب کۓ‪ ،‬پھر ان کے گھسے کانے کے عمل کے‬
‫ساتھ ساون کی بوندیں بھی پانچ آوازوں کے ساتھ کورس میں گا رہی تھیں‪:‬‬
‫آم کا‬

‫‪24‬‬
‫جام کا‬
‫کھڑی ببول کا‬
‫میرا پپیا ّ بولے‬
‫پٹ پوں‬
‫پٹ پوں‬
‫پٹ پوں‬
‫صبیحہ کو یہ ’وظیفہ‘ یاد نہیں تھا۔ اس لۓ وہ مایوس نظر آ رہی تھی۔ معلوم نہیں‬
‫اس جادوئی منتر کے بغیر اس کا پپیا ّ بول بھی سکے گا یا نہیں؟ مگر باقی سب‬
‫زور زور سے چالّۓ جا رہے تھے ۔‬
‫’’پٹ پوں‬
‫پٹ پوں‬
‫پٹ پوں‘‘‬
‫اور صبیحہ پپۓ کو مزید گھسنے سے بور ہو کر مونہہ کے پاس ال کر اسے‬
‫بجانے کی کوشش کی تو اس کی ساری مایوسی دور ہو چکی تھی۔ اور بعد میں‬
‫جب معلوم ہوا کہ اس کے پپیۓ کی آواز ہی سب سے زیادہ ہے تو اس کی خوشی‬
‫کا ٹھکانہ نہ تھا۔‬
‫٭٭٭‬
‫’’بادل نا مراد آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ کچھ بوندیں گرتی بھی ہیں تو گرمی‬
‫ی ہاتھ کی پنکھیا غصے ّ سے پھینکتے‬ ‫کم بخت کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔‘‘ ام ّ‬
‫ہوۓ برامدے سے بڑے کمرے میں چلی آئیں۔چھت پر لٹکے پنکھے کی طرف‬
‫دیکھا ۔ ’’یہ غفور مرا ہر وقت سوتا رہتا ہے ‘‘‬
‫برامدے میں بیٹھے بادلوں سے بننے والے ہاتھی گھوڑے دیکھتے ہوۓ انور‬
‫ی کس سے بات کر رہی ہیں۔۔ دونوں‬ ‫اور کہکشاں نے کمرے میں نظر ڈالی۔ ام ّ‬
‫نے ایک ساتھ سوچا اور کمرے میں کسی کو نہ پا کر خوف زدہ ہوۓ۔ نہ جانے‬
‫کمرے میں کون ہے جو ان کو نظر نہیں آ رہا!! دونوں خاموش رہے مگر اس‬
‫خاموشی میں اس عجیب وقوعے کے بارے میں ہزار گفتگوئیں شامل تھیں۔ کبھی‬
‫کبھی موسم کے بارے میں اظہار خیال کے لۓ کسی مخاطب کی ضرورت پیش‬
‫نہیں آتی‪ ،‬یہ انھیں پتہ نہیں تھا۔‬
‫٭٭٭‬

‫پہلی بوند گری ٹپ!!‬


‫ی بی کو دعائیں مانگنے کی‬‫’’یا ہللا خوب برسے کہ جھڑی لگ جاۓ‘‘ ۔ چچ ّ‬
‫عادت سی تھی۔ ان کے کمرے سے ہر وقت یا ہللا سے شروع ہونے واال کوئی نہ‬
‫کوئی جملہ سنائی دے جاتا تھا۔ شاید ہللا میاں نے اسی وجہ سے ان کی بات سننا‬
‫چھوڑ دیا تھا۔‬

‫‪25‬‬
‫چکر لگاتے ہوۓ گا رہے‬‫ّ‬ ‫کہکشاں اور صبیحہ آنگن میں نکل آۓ اور بارش میں‬
‫تھے ۔ ’’پانی بابا آیا۔ ککڑی بھٹے ّ الیا‘‘۔‬
‫’’اری کم بختو۔ پہلی بارش میں نہیں نہاتے ‪ ،‬بیمار ہو جاؤ گی‘‘۔‬
‫دونوں ڈر کر برامدے میں چلی آئیں اور اب خاور اور جنید بھی وہیں آ گۓ تھے‬
‫اور برامدے کی پر نالیوں میں بار بار اپنے ہاتھ دھو رہے تھے ۔ باہر آنگن میں‬
‫ی کی‬ ‫درختوں کی پتیاّں چمک دار سبز ہو گئی تھیں۔ زمین سے سوندھی مٹ ّ‬
‫خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ان تیز بارش کی جگہ ہلکی پھوار نے لے لی تھی۔ باہر‬
‫محلے ّ کے بچے چیخ رہے تھے‬
‫’برسو رام دھڑاکے سے ۔‬
‫بڑھیا مر گئی فاقے سے ‘‬
‫٭٭٭‬

‫ایک برستی شام کو جنید نے اطالّع دی۔‬


‫’’معلوم ہے کہ سانپ کے مونہہ میں ایک چیز ہوتی ہے ۔ بڑی قیمتی۔۔ اسے منکا‬
‫کہتے ہیں۔ پھر سانپ بارش کی کسی اندھیری رات کوکسی کھڑکی کی طاق میں‬
‫یا دیوار کے کسی سوراخ میں یا پھر زمین میں ہی اپنے بل میں اسے اگل دیتا‬
‫ہے ۔ کسی کو یہ منکا مل جاتا ہے تو راتوں رات امیر ہو جاتا ہے ۔ شاید‬
‫ڈھونڈھیں تو ہم کو بھی یہ منکا ِمل جاۓ۔‘‘‬
‫کچھ دن پہلے ہی غفور کی کوٹھری کے پاس بوا کی پرانی کوٹھری پچھلی‬
‫مرمت نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈر پڑی‬ ‫ّ‬ ‫برسات میں گر گئی تھی اور اب تک‬
‫تھی۔ اسی کوٹھری میں پچھلے دنوں غفور نے سانپ مارا تھا۔ کاال لمبا سا‪ ،‬غفور‬
‫نے اس کا نام ’ناگ‘ بتایا تھا۔ اور اب اس کوٹھری کا نام سانپ کی کوٹھری پڑ‬
‫گیا تھا۔‬
‫’’سانپ کی کوٹھری میں دیکھیں۔‘‘ انور نے مشورہ دیا۔ ’’شاید وہیں سانپ نے‬
‫منکا اگال ہو۔۔‘‘‬
‫اور اب سب بنا خوف کے اس کھنڈر میں سانپ کے منکے کی تالش کر رہے‬
‫تھے ۔ دھوپ ڈھلتی جا رہی تھی اور پھر سورج نے مونہہ چھپا لیا۔اندھیرا بڑھ‬
‫گیا۔‬
‫’’دیکھو دیکھو۔۔۔!!‘‘ صبیحہ نے آواز لگائی۔ پچھلی کھڑکی کے نیچے فرش کے‬
‫ایک سوراخ سے ایک گول سی سرخ شے جھانک رہی تھی۔ ’’ہو نہ ہو‪ ،‬یہی‬
‫منکا ہے ۔ سانپ نے یہیں آ کر اگال ہوگا‘‬
‫پھر دفعتا ً سب کو اندھیرے اور سانپ کا ڈر لگا۔ وہ سب تیزی سے باہر آۓ‪ ،‬اور‬
‫پھر صبح اس سرخ شے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ غفور چالتا رہا‪’’...‬ہم ابہن‬
‫بھین اور بٹیا لوگ سانپ والی کٹھریا میں گھسے رہے‬ ‫ّ‬ ‫بڑی ماں سے کہت ہیں کہ‬
‫۔ ڈر ناہیں لگت کیا؟؟‘‘‬

‫‪26‬‬
‫انور سوچنے لگا‪ ،‬صبح سب لوگ اس چیز کو دیکھیں گے ‪ ،‬اگر یہ واقعی منکا‬
‫ہوا تو۔۔۔!! اسے نکال کر اس کا کیا کریں گے ؟؟ شاید اس پر جنید قبضہ جمانا‬
‫چاہے کہ اس نے ہی منکے کی بات بتائی تھی۔ یا شاید صبیحہ رونے لگے ۔ خیر‬
‫صبیحہ رونے لگی تو وہ ضرور اس کی اجازت دے دے گا کہ منکا صبیحہ کو‬
‫دے دیں۔ اسے مل جاۓ تو کوئی بات نہیں۔ مگر۔۔۔مگر۔۔۔’’سب سے پہلے میں ہی‬
‫دیکھوں گا منکا کل صبح۔۔۔‘‘‬
‫اپنی اپنی جگہ شاید یہی سب ہی سوچ رہے تھے ۔‬
‫٭٭٭‬

‫مرغ کی پہلی بانگ کے ساتھ ہی انور اٹھ بیٹھا۔ دبے قدموں سے سانپ کی‬
‫کوٹھری کی طرف گیا۔ ابھی روشنی نہیں پھیلی تھی۔ انور کھنڈر کے پاس ہی‬
‫روشنی ہونے کے انتظار میں کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہمت کر کے اندر‬
‫گھسا۔ روشنی بڑھتی رہی مگر وہ سرخ سرخ سی پر اسرار شے اب تک اپنی‬
‫ماہیت کو واضح نہیں کر سکی تھی۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ تبھی خاور اور‬
‫صبیحہ بھی اس کے پاس چلے آۓ‪ ،‬اور پھر کہکشاں بھی‪ ،‬مگر جنید شاید ابھی‬
‫سو رہا تھا۔‬
‫پھر دن پوری طرح نکل آیا۔سانپ والی کوٹھری کی کچی زمین کے سوراخ میں‬
‫وہ شے واضح ہونے لگی۔ انور نے اس شے کو نکال لیا۔ پھر وہ چپ چاپ جنید‬
‫کو خبر کرنے چلے گۓ۔ بے حد مایوس۔‬
‫یہ کسی فراک کا سرخ بٹن تھا۔‬
‫٭٭٭٭٭‬

‫‪27‬‬
‫دھند اور ستارے‬
‫اسی کو ڈھونڈیں اسی کو خدا بنا‬
‫ڈالیں‬
‫سیاہ خانۂ دل میں اگر کرن ہے‬
‫کوئی‬

‫(ظفر اقبال)‬

‫‪28‬‬
‫ساری رات بارش کی موسیقی کمرے میں بکھرتی رہی تھی۔ اور جب بارش تھم‬
‫جانے کے بعد بھی پانی کی بوندیں لیموں کے درختوں کی اوپری شاخوں سے‬
‫ٹپ ٹپ کرتی ہوئی نیچے گر رہی تھیں۔ اور ان سے بھی زمین اپنی پیاس بجھا‬
‫لیتی تھی۔ نہ جانے کتنی صدیوں سے زمین بارش کے قطروں سے اپنی پیاس‬
‫ی میں سے گزرتی ہوئی چٹاّنوں کے‬ ‫بجھاتی آئی ہے ۔ اور یہ پانی کی بوندیں مٹ ّ‬
‫ذراّت کی درمیانی خالؤں میں جمع ہو کر زیر زمین پانی میں شامل ہو کر اندر‬
‫ہی اندر بہنے لگیں گی۔۔ایک ایسی حرکت۔۔ایسا عمل جسے ہم اوپری سطح پر‬
‫رہنے والے محسوس نہیں کر سکتے ۔‬
‫انور نے سگریٹ کا باقی حص ّہ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے میں پھنسا کر‬
‫اچھال دیا۔ مشرقی دریچے کے باہر باغ میں جمع شدہ سوکھے پتے ّ گڑھوں کے‬
‫پانی میں تیرنے لگے تھے ۔ اس نے اپنی سوچ کا سلسلہ جاری رکھا۔ خداون ِد عالم‬
‫کی اس دنیا میں نہ جانے کتنی ہی باتیں ایسی ہیں جنھیں ہم گہرائی میں اترے‬
‫بغیر بھی محسوس کر لیتے ہیں۔ اس نے اپنے ان احمقانہ خیاالت کو سر کے‬
‫جھٹکے سے جھٹک دیا اور خود بخود مسکرا دیا۔ جیسے یہ خیاالت مادّی وجود‬
‫رکھتے تھے جو سر جھٹکنے سے زمین پر پانی کی بوندوں کی طرح گر جائیں‬
‫گے اور مطلع صاف ہو جاۓ گا۔ ۔۔ واہ بھئی انور جمیل ! تم جو اپنے آپ کو بے‬
‫حد عقل مند گردانتے ہو تو تم نے در اصل سنجیدگی کا ایک بے حد۔۔بے حد۔۔۔۔نہ‬
‫جانے کیسا غالف اوڑھ رکھا ہے ورنہ تمھارے ذہن میں کیسی کیسی احمقانہ‬
‫بلیوں کی طرح گھومتی رہتی ہیں۔ تمھارے اسٹوڈنٹس کو تو شاید کبھی‬ ‫باتیں آوارہ ّ‬
‫پتہ بھی نہ چلے کہ‬
‫تم ساری رات سگریٹ پھونکتے رہے ہو اور بغیر کسی پریشانی کے جاگتے‬
‫رہے ہو اور ایسی ایسی باتیں سوچتے رہے ہو جن کا نہ سر ہے نہ پیر۔ اس نے‬
‫مشرقی دریچہ کھول دیا اور نئی سگریٹ سلگا لی۔ مشرق کی طرف سفیدی‬
‫نمودار ہو چلی تھی۔ بادل غائب ہو گۓ تھے اور دھندلے دھندلے ستارے اپنی‬
‫آخری جھلک دکھا رہے تھے ۔ اس نے اٹھ کر ٹیبل کیلنڈر میں تاریخ کا اگال ورق‬
‫پلٹتے ہوۓ سوچا۔ نئی تاریخ آدھی رات سے ہی شروع ہو جاتی ہے مگر شاید ہی‬
‫کوئی ہللا کا بندہ ایسا ہو جو اپنے روز وار کیلنڈر میں رات ‪ ١۲‬بجے ہی تاریخ‬
‫بدل دیتا ہو۔اور پھر آج کی تاریخ دیکھ کر وہ چونک گیا۔ ‪ ۲١‬اگست۔۔۔‪ ۲١‬اگست۔۔۔‬
‫اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ وہ دن بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ ایسی ہی‬
‫صبح۔رات بھر تیز بارش ہوتی رہی تھی مگر صبح ہوتے ہوتے مطلع صاف ہو‬
‫گیا تھا اور دن بھر خوب چمکتی ہوئی دھوپ پھیلی تھی۔ اس کی نظروں کے‬
‫سامنے اس دن کے سارے مناظر قافلے بناۓ بھاگتے ہوۓ گزر گۓ۔ اور وہ‬
‫چھلوں میں مد غم ہوتے ہوۓ‬ ‫ّ‬ ‫جیسے ان کو اپنے سگریٹ کے دھوئیں کے گول‬
‫دیکھتا رہا۔‬

‫‪29‬‬
‫٭٭٭‬
‫کئی دن پہلے سے گھر میں عجیب مباحثہ جاری تھا۔ ابا ّ میاں کہتے رہے تھے ۔۔۔‬
‫ہمت نہیں کر سکتا کہ ایک نۓ شہر بلکہ ایک نۓ‬ ‫"میں ٹھہرا مفلوج آدمی۔ اتنی ّ‬
‫ملک کو اپنا گھر بناؤں۔"‬
‫شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔‬ ‫ّ‬ ‫ی کو بڑے بھیّا کی کمی‬ ‫ام ّ‬
‫"اپنا مظہر ہوتا تو سب انتظام کر لیتا۔ اب تمھارے ساتھ ہمیں کون لے جا سکتا‬
‫ہے پاکستان؟"‬
‫"تم میری فکر مت کرو۔ اعظم صاحب کے خاندان کے ساتھ چلی جاؤ۔ وہ بتا‬
‫رہے تھے کہ جنید کو تو اس کے چچا لے جائیں گے ۔ میاں بیوی اور چھوٹے‬
‫بچوں کا قافلہ ہوگا ان کا۔۔ تم ان کے ساتھ چلی جاؤ۔ مجھ کو تو یہیں رہنے دو۔‬ ‫ّ‬
‫ی میری قبر بنے تو میری روح کو سکون ملے گا۔ مگر مجھے بہت‬ ‫یہیں کی مٹ ّ‬
‫بڑی فکر شکیلہ کی ہے ۔ ۔"‬
‫"ہاں۔ اب اس کا بار تو اٹھانا ہی ہے ۔ پہلے تو تم کو صرف عقیل بھائی کو مونہہ‬
‫دکھانا تھا۔ اب تو بھابھی کو بھی دکھانا ہے ۔" ایک رات چچی بی جو رات کو‬
‫سوئیں تو صبح جاگی ہی نہیں۔ راتوں رات کوئی ان کی آنکھوں کا بچا کھچا نور‬
‫بھی چرا کر لے گیا تھا۔‬
‫"بار کی بات نہیں ہے بھائی۔ جوان لڑکی کے ساتھ سفر کرنا ان حاالت میں کتنا‬
‫خطر ناک ہو سکتا ہے ۔ تم اخباروں میں نہیں دیکھ رہی ہو۔ اس سے تو بہتر یہی‬
‫ہے کہ ہم ہی ایسے موقعوں پر بندوق لے کر بیٹھے رہیں۔"‬
‫"مگر مجھے پاکستان جانے کی اس لئے بھی فکر ہے کہ شاید وہاں مظہر مل‬
‫جائے ۔۔"‬
‫"ہاں۔ مظہر مل جائے تو میں شکیلہ اور مظہر دونوں کے فرض سے ایک ساتھ‬
‫سبک دوش ہو لوں۔" ابا ّ میاں نے تکئے کے نیچے سے اپنی گولی نکالی اور‬
‫سرہانے رکھے گالس کے پانی کے ساتھ نگل گئے ۔ "اسی لئے تو اپنا عالج بھی‬
‫کر رہا ہوں۔۔۔"‬
‫ی کچھ کہتے کہتے چپ رہ گئیں۔ اکثر شروع میں ابا ّ میاں پاکستان جانے کے‬ ‫ام ّ‬
‫ارادے پر شدید اعتراض کرتے تھے ۔ مگر جیسے ہی بڑے بھیّا کا ذکر ہوتا‬
‫خاموش ہو جاتے ۔ جیسے پاکستان میں ہجرت کے بعد وہ جہاں بھی رہیں گے ‪،‬‬
‫وہیں بڑے بھیّا ایک دن اپنے گھر واپس آ جائیں گے ۔اور شاید اسی وجہ سے‬
‫جب اعظم چچا نے اپنے ساتھ ان کو بھی لے جانے کے لئے ہر طرح کے تعاون‬
‫کا وعدہ کیا تو ‪ ۲١‬اگست کو ابا ّ میاں اپنی نئی وھیل چئر کو ڈھکیلتے باہر تک‬
‫آئے اور اور اعظم چچا کے کاندھوں کا سہارا لیتے ہوئے ٹیکسی میں جا بیٹھے‬
‫تھے ۔‬
‫ی بوا سے کہہ رہی تھیں " اب سب کچھ تمھارے ذمے ًً !!" انھوں نے کمرے‬ ‫ام ّ‬
‫بند کر دئے تھے جو صندوق چھوڑ دئے تھے ان میں تالے ڈال دئے تھے اور‬
‫ساری چابیاں بوا کو دیتے ہوئے کہا تھا۔‬

‫‪30‬‬
‫ی کو خیال آیا۔ وہ اور کہکشاں شکیلہ باجی کو دیکھنے‬ ‫"شکیلہ کہاں ہے " ام ّ‬
‫گئے ‪ ،‬وہ باغ میں امرود کے پیڑ کے پاس کھڑی تھیں اور پیڑ پر کچھ نام لکھ‬
‫رہی تھیں۔ ان دونوں کو بھی کچھ یادگار چھوڑنے کا خیال آیا اور آنگن کے‬
‫دروازے پر اینٹ کے ٹکڑے سے لکھنے لگے ۔۔‬
‫"یہاں انور اور کہکشاں رہتے تھے "‬
‫شکیلہ باجی بھی پیچھے سے آئیں اور ایک شعر کا اضافہ کر دیا‬
‫"بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھا لیا‬
‫اس کی بال سے بوم رہے یا ہما رہے "‬
‫اور پھر تینوں ٹیکسی کی طرف چلے گئے ۔ ٹیکسی سٹارٹ ہو گئی۔ انور کے‬
‫ذہن میں آخری منظر اب تک سمایا ہوا تھا۔ بوا نے اپنی آنکھوں کے کنارے‬
‫پونچھے اور کنجیوں کا گچھا ّ ہاتھ سے وھیل چئر پر بے پروائی سے ڈال دیا اور‬
‫اس کا رخ برامدے کی طرف موڑ کر اسے گھسیٹنے لگیں۔‬
‫سانپ کی کوٹھری میں پوشیدہ خزانوں‪ ،‬پنگوں والے چوراہے کے ہنگاموں‪،‬‬
‫بتیوں‪ ،‬مسجد کے میناروں پر بیٹھے کبوتروں‪ ،‬چورن‬ ‫مزار پر جلنے والی اگر ّ‬
‫ّ‬
‫والے کے شعلوں اور آنگن میں پپیا بنانے کے لئے بوئی گئی آم کی گٹھلیوں کو‬
‫خدا حافظ کہا جا چکا تھا۔ اور آج۔۔ آج ‪ ۲١‬اگست ‪ ١۹۶۲‬کو ۔۔حاالت کتنے تبدیل‬
‫ہو گئے ہیں۔۔‬
‫انور نے ریڈیو کھول دیا۔‬
‫"یہ کراچی ہے ۔ مغربی پاکستان میں صبح کے ۔۔۔۔" اس نے پھر ریڈیو بند کر دیا۔‬
‫یہ واقعی کراچی تھا۔ اعظم چچا کی کوششوں سے پہلے اس کوٹھی کا االٹمنٹ ہو‬
‫گیا تھا جو کس قدر بڑی تھی۔ اور پھر کچھ ہی دنوں کے بعد ابا ّ میاں بھی عقیل‬
‫چچا کے پاس چلے گئے تھے تو اس ڈھنڈھار گھر میں ہم چاروں کیسے مسافر‬
‫ی کو بھی اسی گھر میں بلوا لیا تھا‬ ‫ی نے اعظم چچا اور چچ ّ‬ ‫سے لگتے تھے ۔ ام ّ‬
‫اور انھوں نے اپنی االٹ ہوئی کوٹھی کو کرائے پر اٹھا دیا تھا۔ مگر پھر کچھ ہی‬
‫ی کو لے کر الہور چلے گئے تھے‬ ‫دنوں بعد اعظم چچا خاور صبیحہ اور چچ ّ‬
‫جہاں ان کا بزنس کافی پھیل گیا تھا۔ آج سے سترہ اٹھارہ سال پہلے کسے خبر‬
‫تھی کہ وہ بادلوں سے کھلے آسمان میں نکلنے والی صبح کو ایک اور بڑی سی‬
‫کوٹھی کے ایک کمرے میں مشرقی دریچے کے پاس کچھ ہی فاصلے پر رکھے‬
‫اسٹول پر پیر رکھے کھڑا ہوا سگریٹ پی رہا ہوگا۔ یہ کوٹھی بھی خاصی بڑی‬
‫ی نے کسی طرح بنوا لی تھی۔ اور ایک وہ‬ ‫ہے جو ٰالہی بخش کالونی میں ام ّ‬
‫کوٹھی تھی جس میں ایک پوجا کا کمرہ بھی تھا جس میں چھوٹے سے کرشن‬
‫جی ٹانگوں پر ٹانگ رکھ کر بانسری بجا رہے تھے اور دیواروں پر رام جی اور‬
‫سیتا جی کی تصویریں بھی تھیں۔ ایک طرف ہنومان جی پہاڑ لے کر اڑ رہے‬
‫تھے ۔ اس کمرے کو استعمال کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی اس لئے اسے‬
‫بند کر دیا گیا تھا۔ اور ایک اور کمرہ بھی تھا جو بند رہتا تھا مگر جس کی چابی‬
‫شکیلہ باجی نے اپنے پاس رکھ لی تھی۔ اس کمرے میں الماریاں ہی الماریاں تھیں‬
‫ت مومن سے لے کر‬ ‫ت غالب اور کلیا ِ‬‫اور ان میں ٹھسا ٹھس بھری کتابیں۔ کلیا ِ‬

‫‪31‬‬
‫اقبال کی ساری کتابیں‪ ،‬چکبست کی رامائن سے منطق الطیر تک‪ ،‬گلستاں‬
‫زہر عشق‪ ،‬ڈپٹی نذیر احمد کے ناول‪ ،‬توبۃ النصوح تو‬ ‫بوستاں‪ ،‬مثنوی موالنا روم‪ِ ،‬‬
‫ابھی بھی انور کی میز پر پڑی تھی۔ الف لیلی سے لے کر قصص االنبیاء تک‪،‬‬
‫پھر آئینہ اور نگار کی جلدیں۔ اور ان سب پر نام لکھے تھے ۔ رام لعل منچندا‬
‫رحمت۔ ایک شاعری کی بیاض تھی۔ وہ کیا شعر تھا‪ ،‬انور نے یاد کیا؎‬
‫کیا اپنا سخن ہے یہ‪ ،‬غالب بھی تصدّق ہے‬
‫ہللا کی رحمت ہے الہور کے رحمت پر‬
‫اور اسی بیاض میں کسی "بیٹی روپ وتی سلمہا" کے نام ادھورا خط بھی۔۔‬
‫"شہر کی حالت۔۔۔۔ ہر وقت الحول پڑھتا رہتا ہوں۔ خدا مولوی بدر الدین کو دونوں‬
‫جہاں کی دولت سے نوازے جنھوں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہمارے یہاں رہنے‬
‫تک ہمارے جان و مال کی پوری حفاظت کریں گے ۔ اور ہم ہجرت کر جائیں تو‬
‫جو سامان ہم چھوڑ جائیں گے اس کی حتی االمکان دیکھ بھال کریں گے ۔ مجھے‬
‫بیٹی صرف اپنے دار المطالعے کی فکر ہے ۔ یہ ساری نایاب اور کمیاب کتابیں‪،‬‬
‫لے جائی بھی نہیں جا سکتیں اور چھوڑنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ کچھ تمھارے‬
‫ق رحمت کرے ‪،‬‬ ‫دادا کی یادگاریں ہیں۔کچھ تمھارے دادا استاد ۔۔ خدا انھیں غری ِ‬
‫جنت مکانی پربھو دیال دل سیال کوٹی کی۔ اگر نئی کتابیں خرید بھی لوں تو یہ‬
‫یادیں کیسے خریدوں گا۔ برخوردار کرم چند کی وجہ سے الہور سے کراچی تو‬
‫سب اٹھا الیا تھا۔ ہاں۔ دہلی گیا تو زندہ رہنے پر کبھی ان یادگاروں کو دیکھ تو‬
‫سکوں گا واپس آ کر۔۔۔"‬
‫ی بھی ہم سب کو چھوڑ گئیں۔ اب تو بس ہم تین ہی بچے‬ ‫اور پھر دو سال پہلے ام ّ‬
‫ہیں۔ شکیلہ باجی گھر کی بزرگ ہیں۔‬
‫"بڑی بٹیا ناشتے پر بال رہی ہیں۔۔" عبدل نے آ کر اطالع دی۔۔ وہ چونکا۔ تو گویا‬
‫کہ یہ یوں ہے ۔۔ یہ کراچی ہے ۔‬

‫٭٭٭‬

‫تو گویا کہ یہ یوں ہے ۔۔ شکیلہ نے چائے کی پیالی میں شکر گھولتے ہوئے اپنے‬
‫آپ سے بے آواز کہا۔ انور اسے آج کی تاریخ کی یاد دالنے کے بعد غیر متعلق‬
‫سا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ تو گویا کہ تمھاری عمر سے شکیلہ بیگم مزید‬
‫‪ ١۵‬سال کم ہو گئے ہیں۔ ‪ ١۵‬سال کے عرصے میں کیا کچھ نہیں ہو جاتا‪ ،‬کیا کچھ‬
‫نہیں ہو سکتا تھا‪ ،‬مگر کیا ہوا ہے ۔ تم ‪ ۳۴‬سال کی عمر میں بوڑھی نظر آنے‬
‫لگی ہو۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے ۔ ایک سفید لٹ شکیلہ کی چائے کی پیالی پر آ‬
‫گری۔ تم اتنے دن تک مظہر کا انتظار کرتی رہیں۔ تم نے کیا کیا خبریں سنیں۔‬
‫جب تم کو پتہ چال کہ مظہر پاکستان میں ہی ہیں الہور میں‪ ،‬مگر تم ان سے ملنے‬
‫نہیں گئیں۔ ویسے بھی صحیح پتہ معلوم نہ تھا‪ ،‬تم کہاں بھٹکتی پھرتیں۔ صرف‬
‫صبیحہ نے لکھا تھا۔۔‬

‫‪32‬‬
‫"ایک دن ہم لوگ شاہ عالمی میں شاپنگ کر رہے تھے کہ بڑے بھیا نظر آئے ۔‬
‫جو کتابوں کا ایک پیکٹ تھامے تیزی سے جا رہے تھے ۔ میں نے ان کو روکا‬
‫مگر وہ مجھے پہچانے نہیں۔ میں نے خود ہی اپنا تعارف کرایا تھا۔ اور انھوں‬
‫نے کہا تھا۔"میرے بارے میں کسی کو اطالع مت دینا صبیحہ۔ میں اب اپنے گھر‬
‫کے صاف ستھرے ماحول میں رہنے کے قابل نہیں‪ ،‬تم کو پتہ ہے مجھے آزادی‬
‫کی خواہش کے جرم میں منٹگمری جیل میں رکھا گیا تھا‪ ،‬اور جب مجھے آزاد‬
‫کیا گیا تو مجھے پتہ چال کہ میں تو ہندوستان کی آزادی کے لئے لڑ رہا تھا‪ ،‬مگر‬
‫میں ہندوستان میں نہیں تھا۔ وہ تو سرحد پار مشرق میں رہ گیا تھا اور بھارت ہو‬
‫گیا تھا۔ مجھے کچھ احساس تو ہوا تھا جب ہمارے ہندو ساتھیوں کو اس جیل سے‬
‫نکاال جا رہا تھا اور کہیں اور بھیجا جا رہا تھا اور میں آزاد ہو کر اپنے کو ایک‬
‫اجنبی ملک میں پا رہا تھا۔ آزادی کے بعد بھی جیسے قید میں۔ مجھے اخبار نہیں‬
‫ملتا تھا۔ جیل میں دن میں دو سگریٹیں ملتی تھیں۔ مجھ سے مجرموں کا سا برتاؤ‬
‫مشقت کرائی جاتی تھی۔ اور مجھے لگنے لگا تھا کہ میں چوری‬ ‫ّ‬ ‫کیا جا تا تھا‪،‬‬
‫کرتے یا قتل کرتے پکڑا گیا ہوں۔ بس شکر ہے خدا کا کہ مجھے جیل میں وہ دن‬
‫دیکھنا نصیب نہیں ہوا جب یہاں کا آسمان مسلمان آسمان تھا اور ہندوستان کی‬
‫صبحیں شامیں ہندو صبحیں شامیں۔ اب مجھے مونہہ چھپانے دو۔ انگریزوں سے‬
‫آزادی کے بعد بھی سرمایہ داروں سے آزادی نہ ہندوستان کو ملی ہے نہ پاکستان‬
‫کو۔ ابھی میرا کام پورا نہیں ہوا ہے ۔۔۔ اب میری زندگی ایسی ہے صبیحہ بٹیا کہ‬
‫تم سے کیا کہوں ۔خدا کے لئے مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کرنا۔انو اور کشی‬
‫کو میری دعا اور پیار کہنا۔" اور میرے سامنے سے وہ اچانک کسی گلی میں مڑ‬
‫کر غائب ہو گئے تھے ۔ ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔"‬
‫پھر اسے جنید کی یاد آئی۔ تم تو جنید اپنے پھوپھی زاد بھائی بہنوں خاور اور‬
‫صبیحہ کا ساتھ چھوڑ کر اپنے سوتیلے عرفان چچا کے ساتھ حیدر آباد دکن چلے‬
‫گئے تھے نا جہاں تمھارے چچا کہتے تھے کہ سکون ہی سکون ہے ‪ ،‬وہ نہ‬
‫ہندوستان ہے نا پاکستان۔ صرف حیدر آباد ہے ۔۔مگر کچھ ہی دن بعد وہ سکون‬
‫بھی درہم برہم ہو گیا تھا۔تم نے کچھ سال بعد پہلی بار خط لکھا تھا تو لکھا تھا‬
‫چچا تو نہ جانے کہاں غائب تھے اور تمھاری چچی ساری رات بندوق دریچے‬
‫میں لئے بیٹھی رہتی تھیں۔ پولس ایکشن کے بعد پھر سکون ہو گیا تھا اور اب‬
‫بنجارہ ہلس میں اپنے مکان کے ۔ اپنی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں اپنے بے حد‬
‫پاش دوستوں کے ساتھ وھسکی سپ کرتے ہوئے یا سٹیٹ ایکسپریس سگریٹ‬
‫پیتے ہوئے تم کو شاید یہ بات بھی یاد نہیں آتی ہوگی کہ حیدر آباد سے بہت دور ۔‬
‫جب تم اپنی پھوپھی اور پھوپھی زاد بھائی بہن کے ساتھ۔۔ یہاں سے بہت دور۔۔‬
‫یو۔پی۔کے ضلعے فیض آباد کے ایک موضع حسن پور میں رہتے تھے اور جہاں‬
‫رہ کر تم بارہ بنکی‪ ،‬اپنے وطن کے سکول کے میدان یاد کرتے تھے ۔ اور تم‬
‫میرے چچا زاد بھائی بہنوں کے ساتھ کیسے کیسے کھیل کھیال کرتے تھے ۔ انّو‪،‬‬
‫کشی‪ ،‬اور۔۔۔ اور صبیحہ۔ صبیحہ تو تم کو ضرور یاد ہی ہوگی اور یقینا ً تم خود‬
‫اسے ایک دو بار خط لکھ چکے ہو۔‬
‫" ّکشی۔۔۔کہکشاں نے ناشتہ کر لیا ہے کیا؟" انور کو بھی کہکشاں کی یاد آئی۔‬

‫‪33‬‬
‫"آج اسے لڑکیوں کا امتحان لینا تھا‪ ،‬اس لئے وہ بہت سویرے اسکول چلی گئی۔‬
‫ناشتہ عبدل نے کروا دیا تھا اسے "‬
‫یہ پندرہ سال ۔۔اور اب کہکشاں سینٹ اینس گرلس ہائی اسکول میں ٹیچر تھی۔ یہ‬
‫پندرہ سال۔۔ اور اب انور قائد اعظم ڈگری کالج میں انگریزی کا لکچرر تھا مگر‬
‫فلسفے کے طالب علم بھی اس کے پاس فلسفہ سمجھنے آتے تھے ۔ اور تم۔۔۔ تم‬
‫شکیلہ عقیل۔۔!!!" شکیلہ نے جلدی سے چائے کی پیالی میز پر رکھ دی جیسے‬
‫وہ پیالی ہی مستقل چیخ رہی ہو۔۔" اور تم۔۔ تم۔۔ شکیلہ عقیل۔۔۔۔۔"‬
‫شکیلہ انور اور کہکشاں‪ ،‬جب تک تکون مکمل نہ ہوتی تھی‪ ،‬تینوں تنہائی کے‬
‫شکار ہوتے تھے ۔ یا کم از کم وہ ایسا محسوس کرتے تھے ۔ اس لمحے کہکشاں‬
‫کی غیر موجودگی ان کو ماضی کے دھندلے کھنڈروں میں لے گئی تھی۔ اور اب‬
‫تھوڑی دیر میں کہکشاں آ جائے گی تو یک لخت احساس ہوگا کہ بھئی زندگی تو‬
‫کافی خوبصورت ہے ۔ کیوں خواہ مخواہ کی بوریت سر پر الد رکھی ہے ۔ تم‬
‫بھی کالج چلے جاؤ مسٹر انور جمیل۔ مگر پہلے اپنے نوٹس ریوائز کر لو۔ اِب‬
‫سین کے ڈراموں کے کردار اور سوفوکلیز۔۔۔۔‬
‫شکیلہ بیگم تم اب کیا کرو گی‪ ،‬چلو ریڈیو ہی آن کر دو۔‬
‫"ابھی آپ مہدی حسن کی آواز میں ناصر کاظمی کی غزل سن رہے تھے ۔ یہ‬
‫کراچی ہے ۔۔۔"‬
‫واقعی یہ کراچی تھا۔ ہوا تیز ہو گئی تھی۔ یہ کراچی کی نم نمکین ہوا تھی۔‬

‫٭٭٭‬

‫کہکشاں اسکول سے آتے ہی مربھکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑی۔ اس نے‬


‫انور کا انتظار بھی نہیں کیا۔ بڑی دیر سے وہ اور شکیلہ خاموشی سے کھانا‬
‫کھاتے رہے ۔ کھانا ختم کر کے کہکشاں اپنے کمرے میں تیزی سے گئی اور‬
‫اپنی میز پر بیٹھ کر بڑے انہماک سے لکھنے میں مصروف ہو گئی۔‬
‫"ہر ایک رہ میں خوشبوؤں کے کارواں ملیں‬
‫تو کیوں نہ اپنے زخم اپنے آبلے مہک اٹھیں‬
‫کہ اب بھی اپنی منزلیں۔۔۔‬
‫کہ اب بھی اپنی منزلوں۔۔۔۔"‬
‫اس نے جھنجھال کر قلم پٹخ دیا اور دریچے میں لٹک کر بوگن ویلیا کے پھول‬
‫توڑنے کے اہم کام میں مشغول ہو گئی۔ اور پھر یک لخت ہوا کا ایک جھونکا آیا‬
‫اور اس کی میز کے ایک کونے سے ایک خط کے اوراق پھڑپھڑانے لگے ‪ ،‬پیال‬
‫لفافہ جس پر تری مورتی کی تصویر بنی تھی۔ ستیہ میو جیتے ۔۔ سچ کی ہمیشہ‬
‫جیت ہوتی ہے ۔۔ اس خط کے کم از کم فی الحال اڑ جانے کی اسے قطعی فکر نہ‬
‫تھی۔ اسے قریب قریب پورا خط زبانی یاد ہو گیا تھا۔‬

‫‪34‬‬
‫" ڈیر ّکشی۔‬
‫تمھارا خط کئی دن پہلے مل چکا تھا۔ امید ہے کہ معاف کر دو گی کہ فوراً جواب‬
‫نہ دے سکا۔ میں نے دراصل خود کو اور زیادہ مصروف کر لیا ہے ۔ دو دو‬
‫پرچوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ ہورائزن کے بارے میں تو پہلے لکھا ہی تھا اگر چہ‬
‫اب تک تمھارے لئے پرچے نہیں بھیج سکا۔ دو چار دن میں ہی اس کے تازہ اور‬
‫پرانے کچھ شمارے پارسل سے پوسٹ کروں گا۔ اپنی تازہ نظم بھی تم کو بھیجنی‬
‫ہی ہے ‪ ،‬تم پھر کہو گی کہ میں انگریزی میں نہیں لکھتی۔ ہاں‪ ،‬اردو میں ہی کہ‬
‫اگلے ماہ سے اردو کا نیا ماہنامہ "افق" شروع کر رہا ہوں۔ خاور کو بھی ساتھ ہی‬
‫خط لکھ رہا ہوں۔ تم سب کی اکثر یاد آتی رہتی ہے نا۔ وہ لوگ یعنی خاور اور‬
‫صبیحہ پھوپھی جان اور پھوپھا میاں الہور چلے گئے ہیں‪ ،‬یہ شاید تم جانتی ہی‬
‫ہوگی۔‬
‫تم سوچ رہی ہوگی کہ میں یک لخت اتنا امیر کیسے ہو گیا کہ دو دو رسالے‬
‫نکالنے شروع کر دئے ۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ اردو ہی یا انگریزی میں بھی ادبی‬
‫پرچہ نکالنا کار زیاں ہی ہے ۔ اور اب میں دونوں زبانوں میں رسالے چھاپ رہا‬
‫ہوں۔ بھئی وہ ہمارے عرفان چچا جن کے انتقال کی خبر تمھیں پچھلے دنوں دے‬
‫چکا ہوں‪ ،‬خاصے مال دار تھے اور انھوں نے مجھے اپنا وارث قرار دیا ہے‬
‫وصیت میں۔ نتیجے کے طور پر اب میں بنجارہ ہلس کی ایک کوٹھی میں رہ رہا‬
‫ہوں۔ بنجارہ ہلس‪ ،‬حیدر آباد‪ ،‬جو تمھارے یہاں سے کالے کوسوں دور ہے ‪ ،‬یہی‬
‫ی سے میلوں دور ہے ۔‬ ‫کیا‪ ،‬یہ عالقہ تو حیدر آباد کے ہی یاقوت پورہ اور ملے ّپل ّ‬
‫اور اس میں رہتا ہوا میں۔۔ مجھے خود تعجبّ ہوتا ہے کبھی کبھی۔۔۔۔"‬
‫" کہ اب بھی اپنی منزلیں‬
‫شکستہ پا چہار سمت ڈھونڈھتے رہیں۔‬
‫ابھی سفر تمام ہی کہاں ہوا‬
‫ابھی تو ہم سفر میں ہیں‬
‫ابھی تو ہم سفر میں ہیں"‬
‫کہکشاں نے پھر لکھنا شروع کیا۔‬
‫دوپہر کا سناّٹا اچانک بارش کی بوندوں کی زبان میں بولنے لگا تھا۔‬

‫٭٭٭‬

‫کچن میں سہ پہر کی چائے بن رہی تھی۔ اور ڈائننگ ٹیبل پر چائے کی پیالیاں‬
‫سجائے جانے کی آوازوں نے دوپہر کے فسوں کو توڑ دیا تھا۔ اور صبیحہ اپنے‬
‫چھوٹے سے کمرے میں اپنے پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی اپنی عادت کے‬
‫مطابق تکیہ گود میں رکھ کر اس پر فنون کے تازہ شمارے پر کاغذ رکھ کر خط‬
‫لکھ رہی تھی۔‬

‫‪35‬‬
‫"اس وقت خاور بھائی کالج سے آنے والے ہوں گے ۔ پھر ہم سب شام کی چائے‬
‫پئیں گے ۔ اگر تم اس وقت‪ ،‬سہ پہر کی چائے کے وقت ‪ ،‬میرا یہ خط پڑھ رہی‬
‫ہوگی یا اس کا جواب دے رہی ہو گی تو اس وقت یہی بات شاید انو بھیّا کے‬
‫بارے میں لکھو گی۔ میں یہ لکھنا چاہ رہی ہوں دراصل ّکشی پیاری کہ ہم سب‬
‫ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں۔ میرا یہ میوزک کالج میں آخری سال ہے جیسا کہ تم‬
‫جانتی ہو۔ اور ہماری پرنسپل نشاط آپا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ‪ ،‬بلکہ وعدہ کیا‬
‫حکم دیا ہے کہ اگلے سیشن سے کالج کے جونئیر سکشن میں لکچرر کی پوسٹ‬
‫ی۔ جسے بے حد‬ ‫سنبھال لوں۔ تو گویا کہ ہم سب کا پروفیشن ایک ہی ہے ۔ معلم ّ‬
‫نوبل پروفیشن کہا جاتا ہے ۔ ہم شاید ہمیشہ سے ایک ہی ناؤ میں سوار رہے ہیں۔‬
‫تم بھی اسکول میں ٹیچر ہو۔ خاور بھائی اور انو بھیا کالجوں میں لکچرر ہیں۔ اور‬
‫اب میں بھی یہی شغل اپنا لوں گی۔ آئندہ سال سے ‪ ،‬بلکہ یہی کوئی چار ماہ بعد۔‬
‫پھر ہم لوگ اپنے اپنے شہروں میں جمعے کی چھٹیاں خوب دھوم دھام سے دل‬
‫کھول کر منائیں گے ۔ تم کوئی کہانی لکھنی شروع کر دو گی یا شاید کوئی ناول۔‬
‫انّو بھیّا کوئی لینڈ سکیپ پینٹ کرنا شروع کر دیں گے ۔ ہاں‪ ،‬ان سے کہنا کہ میں‬
‫نے ان کے لئے شاکر علی کی ایک بڑی پیاری تصویر حاصل کر لی ہے ‪،‬‬
‫گھوڑے شہر کے دروازے پر‪ ،‬شاکر صاحب حسین کے گھوڑے پاکستان میں‬
‫بھی دوڑا رہے ہیں‪ ،‬اس پر شاکر علی نے دستخط بھی کر دئے ہیں۔ جلد ہی‬
‫پارسل کر دوں گی۔ ان گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم شاید کراچی آ جائیں۔ مگر‬
‫کراچی کی گرمیاں!! اگر تم ہی الہور آ جاؤ تو کیسا رہے ۔ یا پھر ہم سب ایک‬
‫ساتھ مری چلیں۔ مگر تم نے تو الہور بھی اب تک نہیں دیکھا ہے ۔۔۔ لو خاور‬
‫بھائی آ گئے ہیں اور اپنے دو انٹلکچوال دوستوں کے ساتھ۔ اب یہ لوگ چائے کم‬
‫پئیں گے اور فلسفہ زیادہ۔ اور میں چائے پیتے ہوئے اور ان کی باتیں سنتے‬
‫ہوئے سوچتی رہوں گی کہ کیا ان فلسفوں کے بنا ہم جی نہیں سکتے ؟ کیا کسی‬
‫ازم کے بغیر زندگی نہیں گزاری جا سکتی؟ میرا ازم تو اب صرف ایک ہے ۔‬
‫سکون۔۔ ابدی سکون۔ ابھی خاور بھائی سے اگر میں یہ بات کہوں تو وہ اسے بھی‬
‫کوئی نام دے دیں گے ‪ ،‬شاید سے رے نزم۔ ۔۔‬

‫٭٭٭‬

‫‪36‬‬
‫جنید صاحب ابھی نہیں آئے کیا۔۔۔۔۔؟‬
‫یہ ہورائزن کا آفس اور ایڈیٹر جنید احسن کے گھر کا ڈرائنگ روم تھا۔ اور جہاں‬
‫اس وقت نعیم احمد جنید سے ملنے آیا تھا۔ نعیم اپنے سیاسی اور سماجی مضامین‬
‫کے لۓ بڑا مشہور ہو گیا تھا۔وہ نہرو جی کی پالیسی پر بے الگ تنقید بھی کر‬
‫دیتا تھا۔ اسے چرچل سے بھی جیسے چڑ تھی۔ اور روس اور امریکہ کی ایٹمی‬
‫ہتھیاروں کی کوششوں سے بھی۔ ساری دنیا سے جیسے وہ الگ دور رہ کر دنیا‬
‫کو دیکھتا تھا‪ ،‬جنید کہتا تھا کہ وہ مغربی اور مشرقی برلن کی درمیانی دیوار پر‬
‫کھڑا ساری دنیا کا منظر دیکھتا تھا۔ صیہونیت‪ ،‬اسرائیل‪ ،‬ویت نام‪ ،‬کشمیر‪ ،‬گنگا‬
‫جمنی تہذیب ہندوستان کی‪ ،‬اتر پردیش‪ ،‬دہلی اور حیدر آباد کی‪ ،‬کو مرتے دیکھ‬
‫رہا تھا اور خود مر رہا تھا۔ وہ سارے رسم و رواج جو ہندوؤں نے مسلمانوں‬
‫سے لۓ اور جو مسلمانوں نے ہندوؤں سے قبول کۓ‪ ،‬اور وہ جب ان سب سے‬
‫گھبرا جاتا تو دیویندر ستیارتھی کے ساتھ ہندوستان بھر کے لوک گیت جمع کرتا‬
‫رہتا تھا۔ یہ وہی مشہور عام ہستی نعیم احمد تھا جو جنید کا انتظار کر رہا تھا اور‬
‫صوفے پر بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔‬
‫"سنو! کیا نام ہے تمھارا؟"‬
‫"خاسم"‬
‫"تم مالزم ہو یہاں۔۔"‬
‫"جی ہاؤ"‬
‫"قاسم میاں‪ ،‬تم ہم کو سگریٹ ال دو گے ۔۔ چار مینار!!"‬
‫اور کچھ دیر بعد وہ اس وقت چونکا جب سشما‪ ،‬عالیہ جنید اور وہ خود مستقل‬
‫باتیں کئے جا رہے تھے ۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔‬
‫"خدا کے لئے تم اپنے ایلیٹ کو طاق پر بٹھا دو۔۔۔۔" نعیم نے سشما سے کہنا چاہا‬
‫اور وہ جھالّ کر بات کاٹ کر بولی۔" میں تمھارے چرچل اور کرشنا مینن کی بات‬
‫نہیں کر رہی۔ یہ انگریزی شاعری کی گفتگو ہے جناب‪ ،‬سمجھے جناب۔۔!" سشما‬
‫ٹمل تھی‪ ،‬مگر اردو ہندی اچھی طرح سمجھ اور بول لیتی تھی اور انگریزی‬ ‫ایّر ِ‬
‫میں شاعری کرتی تھی۔ اور عثمانیہ یونیورسٹی میں انگریزی ہی پڑھاتی بھی‬
‫تھی۔ اور جس کی نظمیں ہورائزن‪ ،‬مین سٹریم‪ ،‬السٹریٹد ویکلی ہی نہیں‪ ،‬ہارپرس‬
‫میگزین میں بھی چھپ چکی تھیں۔ اور جس کی نظموں کے بارے میں ہریندر دا‬
‫یا نہ جانے کسی اور بنگالی انٹلکچوئل نے نہ جانے کیا کہا تھا مگر نعیم احمد کو‬
‫بھی معلوم تھا کہ تعریف میں ہی کہا تھا۔ ہریندرا ناتھ چٹوپادھیائے ہی نہیں نَسیم‬
‫ایزیکیل بھی اس کی نظموں کے مجموعے پر مقدمہ لکھ چکے تھے ۔ اس کی‬
‫رپ ورٹ وہ نعیم سے پہلی ہی مالقات میں وہ دے چکی تھی اور بے حد اسناب‬
‫واقع کے باوجود ان دوستوں کی محفل کا الزمی جزو تھی۔‬
‫"ستیش گجرال کا کینوس بہت چھوٹا ہے ۔ " گفتگو نہ جانے کب شاعری سے‬
‫مصوری کی طرف مڑ گئی تھی۔ اور اس نے چائے کی پیالی زور سے طشتری‬

‫‪37‬‬
‫میں رکھتے ہوئے یک لخت کہا تھا۔یہ عالیہ علی تھی‪ ،‬کئی اخباروں کی آرٹ‬
‫رپورٹر اور نقاد بھی۔ جنید نے جواب دیا تھا "تو کیا تمھارا حسین آسمان پر پینٹ‬
‫کرتا ہے ۔۔؟؟"‬
‫جنید‪ ،‬عالیہ‪ ،‬سشما اور نعیم۔ چاروں نہ جانے کتنی دیر تک آرٹ اور ادب اور‬
‫موسیقی اور مصوری پر باتیں کرتے رہے بلکہ اس سے زیادہ بحثیں کرتے رہے‬
‫۔ اور دریچے کے باہر ادب اور آرٹ کی تحریک کے سارے عناصر جمع ہو‬
‫گئے تھے ۔ سورج ڈوبنے واال تھا‪ ،‬چڑیاں شور مچانے کے بعد اپنے گھونسلوں‬
‫کی طرف اڑے جا رہی تھیں اور سب محض گفتگو کر رہے تھے ۔ باتیں۔ باتیں‬
‫بر صغیر کی جان نسل کا حص ّہ ہیں"۔ نعیم نے‬ ‫اور مزید باتیں۔"یہ باتیں محض ّ‬
‫کہا تھا ۔"مغربی ادیب اور فن کار اس طرح باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے ۔۔"‬
‫اور جنید نے جواب دیا تھا۔ "بس ایک تم ہی گھڑی گھڑی گھڑی دیکھتے رہتے‬
‫ہو۔۔" اور سب ہنسنے لگے تھے ۔ شاید بر صغیر کے کئی گوشوں میں اسی لمحۂ‬
‫موجود میں ایسی ہی گفتگو کئی جگہ جاری ہو گی۔‬
‫٭٭٭‬

‫"جی نہیں! فلم کا پروگرام قطعی نہیں بنے گا" خاور نے جیسے فیصلہ کیا۔‬
‫"ہللا خاور بھائی۔ انّو بھیّا! تم ان کو سمجھاؤ نا!"‬
‫منت کی۔ صبیحہ خاموشی سے دریچے کے پاس کھڑی‬ ‫ّ‬ ‫"کہکشاں نے انور کی‬
‫پردے کو کھولتی بند کرتی رہی اور ہاتھ میں پکڑے چاۓ کے مگ سے چسکیاں‬
‫لیتی رہی۔ خاور کو راج شاہی یونیورسٹی میں ریڈر کی پوسٹ مل گئی تھی اور‬
‫صبیحہ نے بھی طے کیا تھا کہ مشرقی پاکستان روانہ ہونے سے پہلے خاور اور‬
‫صبیحہ کو کراچی ضرور جانا چاہئے ۔ یوں بھی جہاز کے لۓ کراچی جانا ہی‬
‫پڑتا۔ مگر وہ تین دنوں کے لۓ کراچی میں رکے ہوۓ تھے ۔ کہکشاں فلم کا‬
‫پروگرام بنانا چاہ رہی تھی۔ مگر خاور کا خیال تھا کہ تین گھنٹے ایک دوسرے‬
‫متعلق ہو کر خاموشی سے فلم دیکھنے کی بجاۓ اپنے گھر میں ہی بیٹھ‬ ‫ّ‬ ‫سے غیر‬
‫کر محض باتیں ہی کیوں نہ کی جائیں!‬
‫"ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے بے چارہ بقراط" خاور کا یہ نام تازہ بہ تازہ ابھی ابھی‬
‫انور نے رکھا تھا۔ جب سفر کی تھکان کے بعد خاور اور صبیحہ نہا دھو کر‬
‫کھانے بیٹھے تھے ۔ اور کھانے کے بعد ڈائننگ ٹیبل کے پاس رکھی ایک اور‬
‫مقرروں کے انداز میں کیا تھا ۔۔۔"آرام بڑی چیز ہے‬ ‫ّ‬ ‫کرسی پر چڑھ کر اس نے‬
‫مونہہ ڈھک کے سوئیے "۔‬
‫دوپہر سے اس شام تک جب کہ یہ سب لوگ دنیا جہاں کی بے سر و پا باتیں کر‬
‫چکے تھے ۔ ماضی اور حال سے لے کر مستقبل کے منصوبوں تک کی باتیں۔‬
‫مصوری اور موسیقی کے حلقوں کے مقابلے ‪،‬‬ ‫ّ‬ ‫الہور اور کراچی کے ادبی‪،‬‬
‫فیض اور فراق سے لے کر میرا جی اور ناصر کاظمی کی شاعری تک‪ ،‬جیمنی‬
‫راۓ سے حنیف رامے اور بڑے غالم علی خاں‪ ،‬ڈاگر برادران اور روی شنکر‬
‫کی موسیقی تک۔۔ ادھر باتیں جاری تھیں اور ادھر خاور سٹنگ روم کی آرام‬

‫‪38‬‬
‫کرسی پر واقعی آرام سے سو رہا تھا۔ اور ابھی شام کی چاۓ کے لئے اسے‬
‫بمشکل جگایا گیا تھا۔ اور اب شاید اسے اس کمی کا احساس ہو رہا تھا کہ کسی‬
‫سے دل کھول کر باتیں تو وہ کر ہی نہیں سکا تھا اور سب کی ساری باتیں سننے‬
‫سے محروم رہا تھا۔ بہر حال اس کے مونہہ ڈھک کر سونے کے دقیق فلسفۂ‬
‫عمل کی بنا پر اس کا فی الفور یہ نام تجویز کیا گیا تھا۔ انور نے ریزولیشن پیش‬
‫کیا تھا اور تمام حاضرین نے ڈائننگ ٹیبل کے چمچے بجا بجا کر اسے پاس کیا‬
‫تھا۔‬
‫"در اصل کشی! ان پاکستانی فلموں میں ہوتا ہی کیا ہے ۔ زیادہ تر وہی ‪Eternal‬‬
‫‪Triangle‬۔ ابدی تکون۔ "‬
‫"جب کہ ہم سب کو ابدی سکون کی تالش ہے ۔ یہ ایکو پاکستانی فلم۔۔۔۔۔"‬
‫ت لفظی کا جواب نہیں۔‬ ‫صبیحہ نے بات کاٹ کر اچانک داد دی۔ واہ واہ۔ اس صنع ِ‬
‫ابدی تکون اور ابدی سکون۔ انّو بھیّا آپ کو تو شاعر ہونا چاہیے تھا۔ ۔۔۔"‬
‫"جی ہاں۔ اگر ایسی ہی بد قسمتی رہی تو ایک دن یہ بندہ شاعر ہو جاۓ گا اور‬
‫پھر تم سب روتے پھرو گے کہ ایک نہایت ہی مرنجاں مرنج۔ رنگا رنگ اور‬
‫ساتھ ساتھ شریف بھی۔آدمی کو کھو بیٹھے ۔بلکہ دنیا میں تو پھر کوئی بھی شریف‬
‫آدمی باقی ہی نہیں بچے گا۔۔ابھی تو لے دے کر ایک تو ہے ۔ اور اگر خاور‬
‫صاحب اس اکلوتے شریف آدمی کو ایک سگریٹ عنایت کر دیں تو ابھی ابھی یہ‬
‫تعداد دوگنی ہو سکتی ہے ۔۔"‬
‫"چہ چہ چہ۔۔" صبیحہ نے کہکشاں کو دیکھتے ہوۓ افسردگی کا اظہار کیا۔‬
‫"عوں ہوں۔۔"انور کھنکار کر رکا۔ اور اپنی اور خاور کی سگریٹ سلگا کر کہا۔‬
‫"تو عرض کیا ہے ۔۔۔۔ اف مرے دل کی داستاں چہ چہ۔۔۔ ارے مصرعہ اٹھائیے‬
‫سامعین۔۔۔"‬
‫تعمیل کی گئی "اف مرے دل کی داستاں چہ چہ۔۔۔"‬
‫"اور عرض کرتا ہوں کہ پھر وہی نالہ و فغاں چہ چہ۔۔ارے کم از کم چہ چہ تو‬
‫کرو بھائی!!"‬
‫"مکرر مکرر۔۔ " صبیحہ چالّنے میں پیش پیش تھی۔‬
‫"لو بھئی بقراط۔ ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چال میں۔۔۔۔" انور نے چاۓ کی‬
‫پیالی خاور کے ہاتھ میں پکڑائی اور تیزی سے اٹھ گیا۔‬
‫"مگر کدھر۔۔؟" خاور نے چاۓ کی پیالی کے ساتھ خود کو بھی میز پر رکھ دیا۔‬
‫"اور وہ غزل۔۔۔؟" صبیحہ نے یاد دالیا۔ مگر انور جو دوسرے کمرے میں غائب‬
‫ہو گیا تھا ‪،‬لمحے بھر بعد ہی ایک لفافہ لے کر برامد ہوا۔ سب اس کی صورت‬
‫دیکھنے لگے ۔‬
‫"مہمان حضرات بلکہ آئی ایم ساری۔ مہمان حضرت و خاتون نیز میزبان‬
‫خاتون۔۔۔۔"‬

‫‪39‬‬
‫کہکشاں نے لقمہ دیا "من کہ انور جمیل ولد سید جمیل احمد‪ ،‬سابق زمیندار۔ حسن‬
‫ت خدا داد‬‫پور ضلع فیض آباد‪ ،‬یو۔پی۔ حال مقیم و ساکن کراچی‪ ،‬ملک بلکہ مملک ِ‬
‫پاکستان بدرست ِی ہوش و حواس خمسہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر۔۔۔"‬
‫"ٹھہرو بھئی کشی۔پہلے میں جناب خاور بقراط کو صدارت کی کرسی پیش کرتا‬
‫مقرر تقریر نہیں کر سکتا۔"‬ ‫ہوں کہ بغیر صدر کوئی ّ‬
‫"ما بدولت ٹیب ِل صدارت پر پہلے ہی سے جلوہ افروز ہیں۔ میں انور جمیل صاحب‬
‫سے گزارش کرتا ہوں‪ ،‬بلکہ اجازت دیتا ہوں ان کو کہ اپنی تقریر شروع کریں۔ "‬
‫"تو حاضرین۔ مقصد اس فدوی کا یہ ہے بوجوہ و بسلسلۂ آم ِد مہمانان ‪ ،‬خاکسار‬
‫ہیچ مدان ان تین دنوں کو زیادہ بہتر طریقے سے انجواۓ۔۔۔۔۔"‬
‫"انگریزی نہیں چلے گی" کہکشاں نے بات کاٹی"‬
‫"مقرر صاحب انگریزی‬ ‫ّ‬ ‫"مداخلت نہ کی جاۓ" خاور نے صدارت کا فائدہ اٹھایا‬
‫سے پرہیز کریں"‬
‫"تو ان تین دنوں کو زیادہ پر لطف طریقے سے گزارنے کے ساتھ ساتھ کچھ‬
‫ملک و قوم کی خدمت بھی ہو جاوے تو یہ نکو کار اپنے کو ہارون رشید سوئم‬
‫گردانے گا کہ مبادا ان صدیوں میں کوئی ہارون رشید دوم گزر چکا ہو۔ سلسلہ یہ‬
‫ہے کہ حاضرین میں سے ایک یعنی ایک حاضر کو علم ہے کہ پرسوں شب‬
‫انجمن امداد کی طرف سے مشرقی پاکستان کے سیالب زدگان کی امداد کے لۓ‬
‫ایک چیرٹی شو۔ چیرٹی شو کو اردو میں کیا کہیں گے ؟" انور نے خاور کی‬
‫طرف دیکھا۔‬
‫"خیراتی تماشا" خاور نے سگریٹ کا دھواں فخریہ انداز میں مونہہ سے نکالنا‬
‫چاہا مگر سگریٹ کے آخری دم میں اتنا دھواں تھا ہی نہیں۔‬
‫ب دارین حاصل کیا جاوے‬ ‫" تو اس کے لۓ اپنی خدمات پیش کی جاویں اور ثوا ِ‬
‫ب صدر مجھے معاف کریں کہ اتنی اردو‬ ‫۔" پروگرام اس کا یوں ہے ۔۔ اور جنا ِ‬
‫مجھے نہیں آتی۔ ایک عدد ڈرامہ پہلے ہی تیار ہے مگر یہ ناکافی ہے ۔ ڈرامہ تو‬
‫ایک گھنٹے کا بھی نہیں ہے اور سامعین کو کم از کم تین گھنٹے کا پروگرام‬
‫دینے کی ضرورت ہے ۔خیال ہے کہ موسیقی کا پروگرام بھی رکھا جاۓ۔خاکسار‬
‫کو علم ہے کہ ایک حاضرہ صبیحہ صاحبہ موسیقی سے شدید شغف رکھتی ہیں۔‬
‫ان سے درخواست ہے کہ وہ کچھ پنجابی لوک گیت جو انھوں نے اپنے قیام الہور‬
‫میں سیکھے ہوں‪ ،‬سنائیں‪ ،‬تقریب میں بھی اور اس کی مشق کے طور پر یہاں‬
‫بھی۔ اس کے عالوہ اگر آپ لوگ ساتھ دے سکیں تو یہ بھی تجویز ہے کہ ان دو‬
‫دنوں میں ایک اور ڈرامہ یا کھیل کا اضافہ کر دیا جاۓ۔ انفرا اسٹرکچر۔۔۔۔"‬
‫"اٹر سٹر۔۔" کہکشاں نے لقمہ دیا۔‬
‫"۔۔۔۔تو ہمارے پاس ہے ہی۔ اس ڈرامے کی تخلیق کا بار میں اپنے کم زور شانوں‬
‫ب صدر کے مضبوط کاندھوں پر رکھنا چاہوں گا۔۔ اب تالیاں بجائی‬ ‫اور جنا ِ‬
‫جائیں"‬
‫تالیاں بجائی گئیں۔ پھر کہکشاں کھڑی ہوئی۔‬

‫‪40‬‬
‫"میں یہ مناسب سمجھتی ہوں کہ اب تک جو پروگرام طے ہو چکے ہیں ان کے‬
‫بارے میں حاضرین کو مطلع کیا جاۓ۔دو خواتین۔ نجمی جن کا اصل نام نجمہ‬
‫ظہیر ہے ‪ ،‬اور خوشونت کور دگ ّل ۔ ّاول الذکر کراچی ریڈیو اور آخر الذکر‬
‫الہور ریڈیو کی آرٹسٹ ہیں۔ نیز ہمارے انسپکٹر آف سکولس کی بیگم صاحبہ‬
‫تسنیم سلمان بھی ہمارے اس پروگرام میں شامل ہیں۔تسنیم صاحبہ نے ایک تھئیٹر‬
‫گروپ کے ڈرامے کا انتظام کر لیا ہے ۔ سلمان صاحب کے بھا‪4‬ی سہیل بھی‬
‫غزلیں گائیں گے ۔ مہدی حسن کو بھی بالیا جا رہا ہے مگر ان کی منظوری کی‬
‫اطالع نہیں ہے ۔ اطالع تو فریدہ خانم نے بی نہیں دی ہے مگر وہ‬ ‫اب تک کوئی ّ‬
‫شاید ہماری تسنیم سلمان سے اپنی ذاتی دوستی کی بنا پر شرکت کر لیں ۔ ریڈیو‬
‫پاکستان سے خبریں ختم ہوئیں۔‘‬
‫آخری جملہ نیوز اناؤنسر شمیم احمد کے لہجے میں کہا گیا تھا ۔۔۔ ’تو اب یہی‬
‫طے کیا جاۓ کہ میں اور خاور اس ڈرامے کے مسودّے کو فائنالئز کر لیں جس‬
‫ٹپوں وغیرہ میں لگ جائیں۔‬ ‫کا خاکہ میں بنا ہی چکا ہوں۔ اور صبیحہ صاحبہ کچھ ّ‬
‫کشی نے ہارمونیم گھر میں ہی منگا رکھا ہے ۔‘‬
‫چنانچہ خاور اور انور سٹڈی روم کی طرف چلے گۓ اور ڈرائینگ روم ہی‬
‫میوزک روم بن گیا۔‬
‫’انّو بھیّا۔۔۔۔۔ وہ طبلہ۔۔۔۔ جوڑی تو رکھی ہے مگر حیات بھائی سے آپ نے کہا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‬
‫’حیات بھائی شاید آٹھ بجے تک آئیں۔ تب تک تم ڈائننگ ٹیبل پر چمچوں سے‬
‫سنگت کرو‘‬
‫شکیلہ باجی اپنے کمرے میں ٹیبل لیمپ جالۓ مستقل کوئ کتاب پڑھے جا رہی‬
‫تھیں۔‬
‫٭٭٭‬
‫کمیو نٹی ہال ۔۔۔ کراچی اکتوبر ‪1962‬‬
‫’’ ارے بھئی ہمارا بقراط کہاں ہے ۔۔۔۔‘‘ انور خاور کو ڈھونڈنے دوڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔‬
‫اس کے ہاتھ میں ڈرامے کا اسکرپٹ تھا جس پر دونوں نے کافی محنت کی تھی‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫’’ خاور بھائی کو ابھی میں نے ریسپشن میں دیکھا ہے ۔۔۔۔‘‘ صبیحہ تیزی سے‬
‫بولی اور گرین روم میں بھاگ گئی ۔‬
‫’’ ریسپشن میں۔۔۔۔‘‘ انور نے سوچا ۔۔۔ابھی تو مہمان بھی آنے شروع نہیں ہوۓ‬
‫۔۔۔۔ لو وہ خود ہی آ رہا ہے ۔‬
‫’’ ارے بقراط بھائی۔۔۔‘‘اس نے آواز لگائی ’’ ذرا چل کے پراپس(‪ ) PROPS‬تو‬
‫دیکھ لو ۔۔۔ ڈریس ریہرسل چھوڑ کر تم کہاں چلے گئے تھے ۔بیک گراؤنڈ‬
‫میوزک کا صبیحہ کو اچھا آئیڈیا آیا ۔۔ مجھ تو وہ بہت پسند آئی ۔۔۔‘‘‬
‫’’ارے وہ تو ٹھیک ہے ۔ مگر ڈایالگس سب کو یاد بھی ہیں نا ۔۔۔۔‘‘‬

‫‪41‬‬
‫’’ یہ میرے ذ ّمے ۔۔۔ پروڈیوسر ڈائریکٹر انور جمیل ۔۔۔‘‘ انور نے سینے پر ہاتھ‬
‫رکھ کر کہا ۔۔۔ خاور میوزک روم کی طرف چال گیا ۔۔۔‬
‫میں ۔۔۔۔انور جمیل ۔۔۔ ایک ڈرامے کا نصف مصنف اور ہدایت کار اور کردار ۔۔‬
‫خود بھی ایک ڈرامے کا کردار بھی ۔۔۔ انور نے سوچا ۔۔۔ ڈرامے کا موضوع‬
‫اسالمی تاریخ اور حال کے مسلمانوں کی حالت ۔۔ چلتے چلتے ہم کہاں آ گئے ہیں۔‬
‫اندر گھٹن سے گھبرا کر وہ باہر نکل آیا ۔۔۔ سڑک پر ایوننگ سوٹ پہنے ہوۓ‬
‫مرد اور قیمتی ’’ انڈین‘‘ ساریاں پہنے عورتیں جم خانہ کلب جا رہے تھے ۔‬
‫وہاں اب وہ شرابیں پئیں گے ۔ مرد ایک دوسرے کی بیویوں کے ساتھ ناچیں گے‬
‫اور بد تمیزیاں کریں گے اور عورتوں کی غیر موجودگی میں ان کے اسکنڈلز‬
‫نمک مرچ لگا کر بیان کریں گے اور خود سے کسی کے عشق کے فرضی‬
‫قصے گھڑیں گے ۔ ان کو یاد بھی نہیں ہوگی کہ مشرقی پاکستان میں سیالب آیا‬
‫ہوا ہے اور حکومت کو ان کی مدد کی ضرورت ہے ۔ پھر اسے اچانک اپنی‬
‫فرض کی یاد آئی اور وہ اپنے ڈائالگس دل میں دل میں دہراتے ہوۓ گرین روم‬
‫کی طرف بھاگ رہا تھا ۔ میوزک روم سے صبیحہ ۔۔۔سہیل اور نجمہ ظہیر کے‬
‫گانوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔۔۔ یہ سب ہم سب کہاں جا رہے ہیں ۔ انور نے پھر‬
‫سوچا۔‬
‫’’ شام بخیر حاضرین ۔۔ آج کی اس شام کو ہم ایک تہذیبی شام منانے کے لیے‬
‫جمع ہوۓ ہیں ۔۔۔ سب سے پہلے ۔۔۔۔۔ ‘‘ ریڈیو پاکستان کے ایک اناونسر ناصر‬
‫صدیقی کی آواز تھی۔‬
‫’’ یہ ناصر صدیقی تو آل حسن کی آواز اور لہجے کی نقل کرتا ہے ۔ ‘‘ اگلی‬
‫صف میں سے کسی خاتون نے برابر بیٹھی ہوئی صاحبہ سے کہا ۔ ناصر صدیقی‬
‫آج کے پروگراموں کے بارے میں اناؤنس کر رہا تھا ۔‬
‫اس ڈرامے کے مصنف اور ہدایت کار ہیں پاکستان تھیٹر کے مشہور فن کار‬
‫جناب جلیل رحمانی ۔‘‘‬
‫’’ہمارے ڈرامے کے ہدایت کار انور جمیل اپنے پہلے ڈرامے میں ہی ان کے‬
‫مقابلے پر آ جائیں گے ۔’’صبیحہ نے کہکشاں کے کان میں کہا ۔‬

‫٭٭٭‬
‫سب سے پہلے ڈرامے ’’آزمائش‘‘ کے اختتام پر تالیاں بنے کے ساتھ پردہ پھر‬
‫اٹھا۔ صبیحہ کاغذ پر لکھی ہوئی کچھ سطریں جلدی جلدی دہرانے لگی اور ناصر‬
‫صدیقی اس کے نام کا اعالن کر رہا تھا۔‬
‫ستار نواز مستقیم صاحب اور طبلے پر حیات بھائی کے سامنے کے مائیکرو‬
‫فونس ٹھیک کئے جا رہے تھے ۔ پھر صبیحہ نے پھونک مار کر اپنے مائک کا‬
‫معائنہ کیا۔‬
‫پھر صبیحہ نہایت محویت سے ایک بنگلہ گیت گا رہی تھی ۔۔۔۔ نذرال گیتی ۔۔۔۔‬
‫آما دیر پاکبے نا جل گو‬

‫‪42‬‬
‫مودیر پاکبے نا جل‬
‫آما دیر جھور بے نا پھل گو‬
‫مو دیر جھور بے نا پھل‬
‫٭٭٭‬

‫تھوڑی دیر بعد مائیکرو فون سے آواز بکھر رہی تھی ۔۔۔‬
‫""پیر آکھیا جوگیا جھوٹ بولیں ۔۔۔ کون رٹھڑے یار مناوندا اے‬
‫ایسا کوئی نہ دٹھا میں ڈھونڈ تھکی۔ جیڑا گیاں نوں موڑ لیاوندا اے‬
‫یہ خوشونت کور کی آواز تھی ۔۔ الہور اور دوسرے پنجابی عالقوں سے متعلق‬
‫شائقین کے دل دھڑک رہے تھے ۔‬
‫""اب سہیل احسن غالب کی مشہور غزل پیش کریں گے ۔ مدت ہوئی ہے یار کو‬
‫مہماں کئے ہوئے ۔‬
‫"یار انور کی غزل ہمارے ڈرامے میں بھی بہترین ثابت ہوتی۔ اگلے کسی شو‬
‫میں خیال رکھنا۔‘‬
‫خاور کہہ رہا تھا۔‬
‫"ہاں۔۔۔ دل پھر طواف کوئے مالمت کو جائے ہے "‬
‫وضع احتیاط سے گھٹنے لگا ہے دم "‬ ‫ِ‬ ‫"اور ۔۔۔ پھر‬
‫وادئ سینا‬
‫ِ‬ ‫سر‬
‫"اور فیض ۔۔۔ ِ‬
‫اے دیدۂ بینا‬
‫اے دیدۂ بینا ۔۔۔"‬
‫"یہ محترمہ تو نور جہاں کی نقل کر رہی ہیں۔ کسی نے رائے ظاہر کی۔ اور‬
‫نجمہ ظہیر اپنی ہاٹ دار آواز میں گا رہی تھیں۔‬
‫" نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں‬
‫کیوں زیاں کوش بنوں سود فراموش رہوں‬
‫غم دوش رہوں‬ ‫فکر فردا نہ کرو‪ ،‬مح ِو ِ‬ ‫ِ‬
‫ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں‬
‫ب سخن ہے مجھ کو‬ ‫جرأت آموز مری تا ِ‬
‫شکوہ ہللا سے خاکم بدہن ہے مجھ کو‬
‫٭٭٭‬

‫انور اور خاور اب اپنے ڈرامے کی تیاریوں میں لگ گئے تھے ۔‬

‫‪43‬‬
‫" او سعد ۔ تم کو علم ہوگا کہ دشت و دریا ہر جگہ ہم نے اپنے عربی النسل‬
‫گھوڑے دوڑا دیئے تھے ۔ ہم جو ہسپانیہ میں مسج ِد قرطبہ سے ہندوستان میں‬
‫دریائے سندھ تک اور غرناطہ سے حبش تک جا چکے تھے ۔ مگر اب۔۔۔۔۔ اب‬
‫جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں زندگی ہم پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ ہم جیسے گہرے‬
‫غار کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ ۔۔۔۔ پہلی آواز۔‬
‫"کیا۔ کہا۔ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اتنے طویل سفر کے عادی ہمارے قدم‬
‫اس مسافت کے باعث ہی اب تھک گئے ہیں۔" ۔۔۔ دوسری آواز‬
‫"ہاں شاید۔ یا شاید یہ بھی کہ ہمارے کاندھے اتنے شل ہو چکے ہیں کہ ہم اپنی‬
‫ساری روایات کا بوجھ لے کر بلندیوں پر نہیں چڑھ سکتے ۔ ہمیں اتھاہ پستیوں‬
‫کی تمنا ہے ۔ عمیق گہرائیاں ہمیں پکارتی ہیں۔ ‘‘‬
‫"تم سب بے حد مایوس ہو ۔۔۔ اور مایوسی کفر ہے ۔" ۔۔۔۔ تیسری آواز‬
‫"نہیں۔ ہم اب بھی پر ا ّمید ہیں"‬
‫"مگر یہ امید شاید محض اتنی ہے کہ ہمیں وہ پستیاں مل جائیں گی کہ ہم اپنی‬
‫روایات کو کاندھوں سے اتار کر کوڑے کے ڈھیر کی طرح پھینک دیں گے ۔"‬
‫’’نہیں ۔ محض یہی نہیں۔ ہم سے کوئی روایات کا بوجھ لے لے تو پھر ہم پھر‬
‫بلندیوں کی طرف سفر کر سکتے ہیں۔ ہم ابھی اتنے نہیں تھکے ہیں کہ پا شکستہ‬
‫بیٹھ جائیں۔"‬
‫"مگر تم کون ہو ۔ اے اجنبی آواز۔۔۔۔"‬
‫"میں وہی ہوں جس کا بوجھ تم پر ناگوار محسوس ہو رہا ہے ۔ تم اسے الزام‬
‫دیتے ہو۔ مگر مجھے نہیں پہچانتے ۔ تعجب ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ تم کو ابو‬
‫صدیق سے صالح الدین ایوبی اور محمود غزنوی اب تک یاد ہیں۔ تمہارے‬ ‫ؓ‬ ‫بکر‬
‫حبشی کی اذانیں گونجتی ہیں۔ تمہاری آنکھوں میں مسج ِد‬ ‫ؓ‬ ‫کانوں میں اب بھی بالل‬
‫قرطبہ کے میناروں کی روشنی ابھی سالمت ہے ۔"‬
‫پس منظر کی موسیقی میں اقبال کی نظم گائی جا رہی تھی۔‬
‫حرم قرطبہ ۔۔ عشق سے تیرا وجود۔۔۔"‬ ‫"اے ِ‬
‫پردے پر روشنیوں کے سائے لہرا رہے تھے ۔ مسجد کے میناروں کے سلہوٹ‬
‫اور گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں ۔۔۔‬
‫٭٭٭‬
‫ڈرامے کے بعد تالیاں بہت دیر تک بجتی رہیں۔‬
‫ب باریش بے ہوش تو نہیں ہو‬
‫"بھئ خاور بھائی۔ ذرا دیکھ کر آئیے تو کوئی صاح ِ‬
‫گئے "‬
‫کہکشاں نے گرین روم کے کونے سے پانی کا گالس ہاتھ میں لئے ہوے صدا‬
‫لگائی۔‬

‫‪44‬‬
‫"الحول وال۔ اتنی محنت سے تو ہم لوگوں نے مذہبی فکر کا ڈرامہ لکھا تھا۔ اور‬
‫حالت یہ ہے کہ کرداروں پر ہی کچھ اثر نہیں ہوا۔ " انور بھی اس اثنا میں گرین‬
‫روم میں اپنا چغہ اتار رہا تھا۔‬
‫"ویسے سچ پوچھو تو بقراط بھائی۔ ڈرامے کے موضوع سے قطع نظر مجھے‬
‫تمہاری پوشاک پر بڑی ہنسی آ رہی تھی۔ اور سوچ رہا تھا کہ میں بھی ایسا ہی‬
‫وسطی میں ہیں۔ اور ابھی ہم گھر‬‫ٰ‬ ‫قرون‬
‫ِ‬ ‫نظر آ رہا ہوں گا۔ لگ رہا تھا کہ ہم‬
‫جائیں گے تو موالنا روم ہم کو راستے میں ملیں گے اور اپنی مثنوی فی البدیہہ ہم‬
‫کو سنا دیں گے ۔ "‬
‫"یا اخی۔۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ڈرامے کا پروگرام تو آخر میں تھا۔‬
‫مگر یہ فریدہ خانم کہاں رہ گئیں۔ "‬
‫اور مائکرو فون پر ناصر صدیقی فریدہ خانم سے ناصر کاظمی کی غزل کی‬
‫فرمائش کر رہا تھا۔ انور بھاگ کر مڑا ہی تھا کہ صبیحہ چالئی۔ ’’اپنا عمامہ تو‬
‫اتار دیجئے ۔ میک اپ تو کافی صاف ہو گیا۔‘‘ اس نے عمامہ اتار کر چہرے پر‬
‫ہاتھ پھیرا۔ مصنوعی داڑھی کے دوچار بال پسینے کے ساتھ چپکے ہوئے تھے ۔‬
‫باہر اسٹیج پر فریدہ خانم یکساں گاتے جا رہی تھیں۔‬
‫دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر‬
‫کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے‬
‫دل تو میرا اداس ہے ناصر‬
‫شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے‬
‫٭٭٭‬

‫ہورائزن کا پیس ایشو )‪ (Peace Issue‬بازار میں آ چکا تھا۔ اس کے لیے جنید‬
‫عالیہ اور سشما اور ان کے دوستوں نے ان تھک محنتیں کی تھیں۔کتنے مشہور‬
‫مصنفین سے مضامین لکھوائے گئے تھے ۔ ہندوستان پاکستان کے سیاست دانوں‬
‫اور عالموں کے عالوہ دنیا کے بھی جانے مانے ۔۔۔۔ جوزف کونراڈ ۔ جی گوارا۔‬
‫چرچل ۔ قرۃ العین حیدر کے ساتھ ساتھ کرشنا مینن سے بھی نعیم کے کہنے پر‬
‫سشما ایّر نے انٹرویو لیا تھا ۔ اور نعیم نے جواہر الل نہرو سے ۔ ویت نام۔ ویت‬
‫کانگ۔ عرب۔ اسرائیل۔ کشمیر۔ یہ سب کیوں؟ یہ اشو ایک سوال تھا۔ اور جب‬
‫رسالہ چھپ کر آیا تھا تو اس کا ایک ایک صفحہ چیخ رہا تھا۔ ساری دنیا کو امن‬
‫کی ضرورت ہے ۔ مگر اچانک ایک رات ریڈیو کی خبروں نے اس آواز پر قابو‬
‫پا لیا۔ یہ اکتوبر ‪ 62‬کی ایک رات تھی۔ چین نے ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا۔‬
‫جنید۔ ہماری سب کوششیں بیکار ہو گئیں۔ نعیم نے "ہندو" میں ہورائزن کے‬
‫شمارے پر تبصرہ پڑھتے پڑھتے پھینک کر کہا۔ جنید نے تازہ اشو کے آخری‬
‫پرچے کے پارسل پر پتہ لکھ کر رومال سے ہاتھ صاف کئے اور دھم سے ایزی‬
‫چیئر میں دھنس گیا۔ اور سگریٹ اس طرح سلگائی جیسے یہ ایک اہم فریضہ ہو۔‬

‫‪45‬‬
‫"نعیم احمد صاحب۔ ہمارا رسالہ اپنے بہت مختصر سے حلقے کو ہی متاثر کر‬
‫سکتا ہے ۔ کیا اس رسالہ سے بڑی طاقتیں اپنی پیش قدمیاں روک دیں گی۔ وہ آپ‬
‫کے جوزف کونراڈ اور اسٹین بک اور ہیمنگ وے اور پاسترناک اور فراق اور‬
‫مخدوم اور کرشن چندر کی آوازیں سن سکیں گی؟ جنید نے ختم ہوتی ہوئی‬
‫سگریٹ سے دوسری سگریٹ سلگائی۔‬
‫جنگ انسانی تباہی کا دوسرا نام ہے ۔ نعیم نے اپنی بے خواب آنکھوں کو ملتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫جنگ کی ہم برائی کر سکتے ہیں۔ روک نہیں سکتے اور پھر جب خود ہمارا‬
‫ملک اس میں کود جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬
‫تو کیا ہم اپنی مرضی سے اس میں شریک ہوئے ہیں۔۔۔؟‬
‫نہیں بھئی ۔۔۔ میں حملہ کرنے اور حملے سے متاثر ہونے کی بات نہیں کہہ رہا‬
‫ہوں۔ میرا اشارہ محض جنگ سے ہے ۔‬
‫نعیم نے پھر ریڈیو کھول دیا۔ دشمن کو کمزور نہ سمجھئے ۔ جواہر الل نہرو کہہ‬
‫رہے تھے ۔ عالیہ دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔‬
‫آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔۔؟ یونیورسٹی میں ابھی بھی ہنگامی میٹنگ چل‬
‫رہی ہے ۔ میں وہیں سے آ رہی ہوں۔‬
‫آپ نے خبروں نے سنا۔ نیشنل ڈیفنس فنڈ بنایا گیا۔ جنگ کے سلسلے میں ۔ ہم اس‬
‫سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں۔‬
‫"نہیں عالیہ بیگم۔۔۔" نعیم نے عالیہ کے ننگے کانوں کی طرف دیکھ کر کہا‬
‫"صرف کانوں کے ٹاپس اور انگوٹھیاں اتار کر دینے سے ہی صحیح طور پر‬
‫ملک کی مدد نہیں ہوگی۔ ہم کو اب بھی دنیا نہیں تو کم از کم ہندوستان کے اپنے‬
‫خطے کے جذبات کو ابھارنا ہے ۔ جنگ کی ہولناکیاں۔ اس کے اثرات۔ یہ آپ‬ ‫اس ّ‬
‫کے گھر کے محبوب میاں کو معلوم نہیں ہوں گے ۔ موڑ پر اس پان والے کو پتہ‬
‫نہیں ہوں گے جہاں سے ابھی شربت خرید کر ال رہا ہوں۔۔۔۔ "‬
‫ارے تقریر مت کرو بھائی۔۔ یہ کام کا موقع ہے ۔۔۔۔۔"‬
‫اپنے اپنے ہتھیار اٹھاؤ اور چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب سپاہی ہیں۔"‬
‫یہ بھی باتیں ہیں ‪ ،‬نعیم اور عالیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی لوگوں کے جذبات اس جھٹکے‬
‫سے ہل گئے ہوں گے ۔ ہم کل یا پرسوں ہی ایک کلچرل پروگرام کریں۔ سارے‬
‫لوکل ‪Talents‬۔ پھر بھی ٹکٹ فروخت ہو ہی جائیں اور نیشنل ڈیفنس فنڈ میں‬
‫کافی رقم دی جا سکے گی۔ ۔۔ اب یہ پروگرام سن کر پھر وہی بات کہو نعیم۔۔۔۔‬
‫اپنے ہتھیار اٹھاؤ اور چلو۔۔۔ وقت بہت کم ہے ۔ وقت بہت کم ہے ۔ " جنید نے اپنی‬
‫تاریخ والی گھڑی میں تاریخ اور وقت دونوں ایک ساتھ دیکھے ۔"‬
‫٭٭٭‬

‫‪46‬‬
‫اور دو دن بعد ہی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اور سٹیج پر حیدرآباد کا پیارا‬
‫مخدوم اپنی نظمیں سنا رہا تھا۔‬
‫’’درد کی رات ہے‬
‫چپ چاپ گزر جانے دو‬
‫درد کو مرہم نہ بناؤ‬
‫دل کو آواز نہ دو‬
‫نور سحر کو نہ جگاؤ‬ ‫ِ‬
‫زخم سوتے ہیں تو سو رہنے دو‬
‫وقت بے درد مسیحا ہے‬
‫بیک حکم جگا دینا ِجال دیتا ہے‬
‫رات اک سائل بے فیض کی مانند گزرتی ہے‬
‫گزر جانے دو‬
‫وقت ۔‬
‫وقت۔‬
‫او مشفق و محسن و قاتل‬
‫رات کی نبض پہ نشتر رکھ دے‬
‫رات کا خون ہے‬
‫بہہ جاتا ہے‬
‫بہہ جانے دے‬
‫وقت بے درد مسیحا۔۔۔۔۔۔"‬
‫اور اس رات کو جنید کے ذہن پر یہ نظم ہتھوڑے برسا رہی تھی۔ وقت ۔ وقت ۔ ۔۔‬
‫بھائی آئنسٹائین تم نے کون سا تیر مار دیا اسے چوتھا ڈائمنشن بنا کر اب کوئی‬
‫ڈائمنشن نہیں بچا ہے مگر ٹھیک ہی تو کہنا تھا بے چارہ۔ اب اس وقت ‪62‬ء کی‬
‫بر‬
‫اس خوشگوار رات میں وقت کتنا ظلم کر رہا ہے ۔ یہ لمحۂ موجود۔ اس وقت ِ ّ‬
‫اعظم امریکہ کے اکثر لوگ اپنے کاموں کے لیے نکل رہے ہوں گے یا نکل‬
‫چکے ہوں گے ۔ دوڑ بھاگ میں مصروف ہوں گے ۔ یہ سب کتنا عجیب ہے ۔‬
‫محض اس ایک لمحے میں مختلف جغرافیوں میں مختلف اعمال ہو رہے ہوں گے‬
‫۔یہیں۔۔۔ حیدرآباد میں ہی کچھ لوگ کسی بار میں جشن منانے چلے گئے ہوں گے‬
‫۔ کچھ لوگ دن بھر کی مزدوری کے بعد گہری نیند سو چکے ہوں گے ۔ سرحد‬
‫پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں نہ جانے اس وقت کیا ہو رہا ہو۔ پاکستان۔۔۔ اسے انور کہکشاں اور‬
‫خاور صبیحہ یاد آئے ۔ مخدوم بھائی تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔۔۔۔۔ اور عینی آپا۔۔۔۔۔۔ تم‬
‫بھی درست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔ اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے ۔ اسی‬
‫جگہ جہاں میں بھی آج سے سو ۔ دوسو۔ ہزار سال پہلے نہ جانے کیا ہو رہا ہوگا۔‬
‫شنکر آچاریہ اپنے چیلوں کو درس دے رہا ہوگا۔ کہیں آگرہ ۔ بلکہ اکبر آباد میں‬
‫تعمیر تاج محل کے نقشے دیکھ رہا ہوگا۔ کہیں انگریزوں کے خالف‬ ‫ِ‬ ‫شاہجہاں‬

‫‪47‬‬
‫سازش ہو رہی ہوگی اور کسی مغل شاہ کو شہر بدر کر کے رنگون لے جا رہا‬
‫ہوگا۔ کسی کو مٹیا برج رخصت کرتے وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وقت بے درد مسیحا ہے‬
‫بیک حکم جگا دینا۔۔۔۔ ِجال دیتا ہے‬
‫جاپانی االرم کالک نے بارہ کے گھنٹے بجائے ۔ جنید نے ہاتھ بڑھا کر اس آواز‬
‫کو روک دیا‬
‫٭٭٭‬

‫چلو بھئی ۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبیحہ نے ٹکٹوں کی رسید بک ایک‬


‫کونے میں پھینکی اور دھم سے کرسی پر بیٹھ گئی۔‬
‫"ہاں سب کچھ ختم ہو گیا۔ " جیسے روئے زمین پر قیامت آ چکی ہو۔ خاور نے‬
‫سگریٹ سلگاتے ہوئے سوچا اور وہ محض دونوں ہی جلے بھنے ‪ ،‬کٹے پھٹے‬
‫مناظر کے ماتم کے لئے زندہ بچے رہے ۔‬
‫کار جہاں بے ثبات۔"‬‫کار جہاں بے ثبات ۔ ِ‬
‫ِ‬
‫کہکشاں گنگناتی ہوئی گرین روم میں چلی آئی۔‬
‫"افوہ یہ آپ لوگ اداس کیوں بیٹھے ہیں بھائی۔ گھر ناہیں چلہیں کا۔۔۔۔۔۔۔۔؟"‬
‫مگر کہکشاں کی بات کا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔‬
‫کار جہاں بے ثبات ۔‬‫کار جہاں بے ثبات ۔ ِ‬‫ِ‬
‫کہکشاں کے دل کی دھڑکیں دہرا رہی تھیں۔‬
‫’’انور کہاں ہے ؟" خاور نے نہایت کاہلی سے پوچھا۔‬
‫’’ابھی میں نے ان کو باہر ی برامدے میں مہمانوں کو رخصت کرتے دیکھا تھا۔‬
‫لیجئے تھنک آف دی ڈیول ۔۔۔ "‬
‫"نہیں صبیحہ بیگم ہمارے یہاں شیطان نہیں رحمت کے فرشتے آیا کرتے ہیں۔‘‘‬
‫انور نے آ کر کہا اور ایک کرسی پر ٹانگیں پھیال کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"بھئی ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا نہایت سخت موڈ ہو رہا ہے کہ جلدی سے لمبی تان کر سو‬
‫جائیں۔"‬
‫"تو مجھے اٹھنا ہی پڑے گا۔ " خاور نے منہ بسور کر کہا اور خاصی پھرتی‬
‫سے کھڑا ہو گیا۔ کہکشاں ایک دم ہنس پڑی۔‬
‫"افوہ خاور بھائی۔ ۔ آپ تو ایسے تھکے ماندے بیٹھے تھے کہ صبح تک آپ کے‬
‫ہلنے کی بھی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔"‬
‫"ارے میں تو اتنا تھک گیا ہوں کہ ہونٹ ہال کر یہ کہنے کی طاقت نہیں تھی کہ‬
‫چلو گھر چلیں"۔‬
‫خاور نے جوتے کے فیتے دوبارہ کس کر باندھتے ہوئے کہا۔ پھر دونوں روانہ‬
‫ہو گئے ۔‬

‫‪48‬‬
‫"ہمارا پروگرام بڑا کامیاب رہا"۔ صبیحہ رسید بکوں کے نمبر دیکھ کر حساب کر‬
‫چکی تھی۔‬
‫اور میرے پروگرام کا تو صبیحہ بیگم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو کچھ پتا ہی نہیں ہے ۔انور نے‬
‫دل میں سوچا۔ ایک پیاری سی کہانیوں اور سروں سے لبریز لڑکی۔ اس کا ساتھ‬
‫ہو تو زندگی کیسے سکون سے گزر سکتی ہے ۔ اب میں یہ سب تم کو کیسے‬
‫سمجھاؤں۔‬
‫"صبیحہ تمہارا مستقبل کے بارے میں کیا خیال ہے "‬
‫یہ اچانک آپ کو مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا سوجھی ۔ ویسے‬
‫اطالعا ً عرض ہے کہ میں مستقبل کی ہولناکیوں یا تابناکیوں پر یقین نہیں رکھتی۔‬
‫ہر لمحۂ موجود۔ صرف یہ لمحہ جب کہ آپ اور میں کراچی کے کمیونیٹی ہال‬
‫کے اس گرین روم میں بیٹھے ہوئے ہوں اور یہاں کے کارندوں کی کرسیاں‬
‫ٹھیک کرنے اور الئٹوں کو سرکانے کی آوازیں آ رہی ہیں۔۔۔۔۔"‬
‫اور میں سگریٹ پی رہا ہوں ۔۔ اور تم شو کی آمدنی کا حساب لئے بیٹھی ہو۔‬
‫تمہارا مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ۔ اور ماضی سے ۔ بجلی بجلی تیرا بیاہ‬
‫زیر لب ہنس کر کہا۔ "صبیحہ بیگم ۔ تم کچھ نہیں سمجھ‬ ‫کدھر۔۔۔ مگر انور نے ِ‬
‫سکتیں۔‬
‫’آؤ چلیں۔۔۔۔۔۔"‬
‫’’یہ آپ پر کیسا موڈ سوار ہو گیا ہے ۔ " صبیحہ نے کچھ پریشانی سے کہا۔ "‬
‫"کچھ نہیں صبیحہ۔ دراصل میں عرصے سے سوچ رہا ہوں کہ تمہارا اور میر ا‬
‫مستقبل اگر ایک ہو جائے ۔ جڑ جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "‬
‫صبیحہ خاموش ہو گئی۔ تو یہ بات تھی۔ اس نے سوچا جو انو بھیا اچانک میرے‬
‫مستقبل کی بات لیے بیٹھے تھے ۔ اور آپ کے وہ سارے خیاالت کیا ہوئے ۔‬
‫کہتے تھے کہ ہمارے پاس بہت سے پروجکٹس ہیں۔ ہمیں لوگوں کو یہ احساس‬
‫دالنا ہے کہ ہم مہاجروں نے ۔ ہم ہندوستان کے کسی بھی صوبے سے آنے والے‬
‫۔ یوپی والوں‪ ،‬نے انصاروں۔۔ یہاں کے پنجابی اور سندھی باشندوں کی کسی‬
‫شئے پر قبضہ نہیں کیا ہے ۔ سندھی پنجابی کا جھگڑا ہے ۔ اردو ‪ ،‬سندھی ۔‬
‫پنجابی زبانوں کا الگ ہے ۔ شیعہ سنی۔ اسالم میں تو یہ بھی ہے کہ دوسرے‬
‫بر صغیر کے لیے نہایت‬ ‫مذہب کو برا مت کہو۔ پھر ہندوستان پاکستان کی دوستی ِ ّ‬
‫ضروری ہے ۔۔۔۔ ہمیں۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔ صرف اپنا ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫"مگر ہمارے آئڈیلز۔ "‬
‫" عینی آپا کا کردار مت بنو۔۔۔۔ چھوڑو یہ۔۔۔۔۔۔۔ " انور اٹھ کر کھڑا ہو گیا "آؤ‬
‫چلیں۔"‬
‫"ایک بات کہوں انو بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔شاید خاور بھائی بھی اسی لیے کہکشاں کے ساتھ‬
‫فوراً چلے گئے کہ کچھ خود کچھ بات کر سکیں۔ مجھ سے اب تک کہتے رہے‬
‫تھے کہ میں بات کروں۔ کل رات ہی میں نے کشی سے بات کی تھی۔ تو وہ کہتی‬

‫‪49‬‬
‫ہے کہ اس کا تو شادی کا ارادہ ہی نہیں ہے ۔ نہ خاور بھائی سے اور نہ اور‬
‫کسی سے "‬
‫"چھوڑو بھائی ۔۔۔ اور میں نے بھی جو کہا۔ اس لمحے کو ماضی کو ایک اور‬
‫لمحہ سمجھ کر بھول جاؤ۔‬
‫ہر شخص کی زندگی میں کمزوری کے کئی لمحات آتے ہیں۔"‬
‫اور انور اس طرح موضوع بدل کر الہور کے موسم کی باتیں کرنے لگا۔ جیسے‬
‫ابھی کوئی بات ہی نہ ہوئی۔ بڑی دیر سے الہور اور کراچی کے موسم ہی زیر‬
‫بحث رہے ہوں۔‬
‫٭٭٭‬

‫‪50‬‬
‫جنگل میں شام‬
‫جنگل میں ہوئی ہے شام آخر‬

‫بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے‬

‫(ناصر کاظمی)‬

‫‪51‬‬
‫چاٹگام‬
‫‪/4‬مئی ‪ 1970‬ء‬
‫کشی ڈیئر……۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫یہ خط تم کو چاٹگام سے لکھ رہی ہوں۔ ہم لوگ چھٹیاں گزارنے یہاں آۓ ہوۓ‬
‫ہیں۔ ۔ یہاں چھوٹا سا ڈاک بنگلہ ہے ۔ جس کا مالزم ایک بہاری لڑکا ہے ۔ چوکی‬
‫دار ۔۔ خانساماں سب کچھ …‪.‬اس نے دو پہر کے کھانے کے ساتھ ڈاک ال کر دی‬
‫تھی۔ تمہارا خط راج شاہی سے ری ڈائرکٹ ہو کر مال ہے ۔ اور میں تم کو خط‬
‫لکھ رہی ہوں۔ ویسے تو ہم بہت گھوم پھر رہے ہیں ۔ مگر اس سفر کا بھی ہیڈ‬
‫کوارٹر چاٹگام ہی ہے ۔ اسی لیے یہاں کا پتہ راج شاہی میں دے کر آۓ تھے ۔‬
‫چاٹگام ۔ یہ دریاۓ کرنافلی اور شنکھا کا شہر ہے ۔ ڈاک بنگلے کے مینیجر‬
‫چودھری صاحب نے بتایا تھا کہ ہوان سانگ نے چاٹگام کو ’پانی کی خیالی سیج‬
‫پر سویا ہوا حسن ‘ کہا تھا۔ ہم لوگ پرسوں چلے جائیں گے ۔ راج شاہی میں کوئی‬
‫سمپوزیم ہے ۔ اس میں خاور بھائی کو شرکت کرنی ہے ۔ اب تو تقریبا ً ہم نے سب‬
‫کچھ دیکھ ہی لیا ہے ۔ اور اس خط میں کچھ تم کو بھی دکھا دوں گی۔۔ یہ مشرقی‬
‫پاکستان ۔۔ یہ سونار بانگال۔۔۔۔۔‬
‫یہاں سے پانچ میل دور نصیر آباد کے سر سبز ٹیلے پر شاہ یزید بستامی کا مزار‬
‫ہے ۔ ہم لوگ کل ہی وہاں گۓ تھے اور ان کے مزار پر فاتحہ بھی پڑھی ۔ بھئی‬
‫کہکشاں ۔۔ پیروں مریدوں سے مجھے بھی کوئی خاص رغبت نہیں۔ مگر پھر‬
‫بھی مزاروں کے ماحول عجیب طرح سے اپیل کرتے ہیں ۔ افسردگی اور‬
‫پاکیزگی اور رعب کا عجیب مجموعہ ۔ کل فاتحہ پڑھنے کے بعد اپنے آپ کو‬
‫بے تحاشہ ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ میں نے خاور بھائی سے یہ بات کہی تو وہ‬
‫ہنسنے لگے ۔ میں نے ہی کہا ۔۔ بھائی یہ روحانیات ہے ۔ اور آپ کے مادی‬
‫فلسفے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔‬
‫اسٹیمر کے ذریعہ چندر گھاٹ بھی گئے ۔ جو دریاۓ کرنافلی پر ہی واقع ہے ۔‬
‫کچھ دور چندرگوٹاہ ہے ۔ جہاں پیپر ِٕمل بھی دیکھا ۔۔۔ پھر کاکس بازار ۔۔۔ جو ستّر‬
‫میل لمبا ساحل ہے ۔ لکڑی کے مکانات ناریل کے درختوں کے جھرمٹ ۔۔ پگوڈا۔۔‬
‫مندر ۔۔ پہاڑیوں پر بنے ہوۓ استوپ ۔۔ ہم لوگ تو وہاں دس بارہ دن ایک چھوٹے‬
‫سے لکڑی کے کچے مکان میں رہے تھے ۔ میاں جسیم الدین کے مہمان ۔۔ نہیں‬
‫بھئی ۔۔ یہ وہ مشہور و معروف جسیم الدین نہیں ہے ۔۔ یہ تو ایک دیہاتی مچھیرے‬
‫تھے ۔۔ خاور بھائی بھی ان مناظر کو پینٹ کرتے کرتے بوکھال گۓ ۔ جی چاہتا‬
‫ہے صبیحہ کہ یہاں ہی رہ جائیں اور میں یہاں ہی بنجاروں کی طرح گھوم پھر‬
‫کر مصوری کرتا رہوں ۔ انہوں نے کہا تھا ۔۔ یہ نظارے واقعی ہیں ہی ایسی قابل‬
‫کبھی آؤ تو ضرور نظارہ کرنا ۔۔ اور ہاں ۔۔۔ یہاں بالکل عرب جہاز رانوں کے‬
‫طرز کی قدیم ٹائپ کی کشتیاں ہوتی ہیں ۔ جنہیں شمپان کہتے ہیں ۔ بس یہی‬

‫‪52‬‬
‫وسطی میں سفر کر رہے ہیں ۔۔ تم کو وہ پروگرام‬‫ٰ‬ ‫محسوس ہوتا ہے کہ ہم قرون‬
‫تو یاد ہو گا نا ۔۔۔۔…………‬
‫’’کھانا ابھی کھایئے گا کہ صاحب کا انتظار کیجیئے گا ۔۔‘‘ حبیب ہللا پوچھ رہا‬
‫تھا۔۔۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔ ’’ہم کو تو ابھی دے ہی دو۔‘‘‬
‫پھر ایک سطر کا اور اضافہ کر دیا ۔۔۔’’ اب اس خط کو کل صبح مکمل کروں‬
‫گی ۔۔۔‘‘‬
‫اس نے قلم رکھ دیا اور گنگناتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چل دی۔۔‬
‫’’تومار ہولو شروع‬
‫آمار ہولو شارا‬
‫تومار جولے باتی تو مار گھورے شا تھی‬
‫امار تورے راتی و امار تورے تارا‘‘‬
‫وہ خود ہی مسکراتی ۔۔۔ وہ ایک ہندوستانی یو پی کی لڑکی ۔۔۔ جو اب پاکستانی‬
‫تھی۔ اور اب اس مشرقی پاکستا ن میں ۔۔ نذرل کے دیس میں ربندر سنگیت گا‬
‫رہی تھی ۔۔‬
‫کھانے کی میز پر سامان سج رہا تھا۔ وہ گنگناتی رہی ۔۔ ’’ تومار آچھے ڈانگا ۔‬
‫امار آچھے جول‘‘ باہر رات گہری ہونے لگی تھی ۔۔‬
‫٭٭٭‬

‫’’‪‘‘...............................‬‬
‫اب اس خط کو مکمل کر رہی ہوں۔ مگر کس طرح کروں۔ حواس باختہ ہو گۓ‬
‫ہیں۔ رات بھر خاور بھائی نہیں آۓ ۔ اور صبح کو حبیب ہللا ۔۔۔۔۔ ڈاک بنگلے کے‬
‫چوکی دار نے ایک پرچہ ال کر دیا۔ رات کو کوئی برآمدے میں پھینک گیا تھا ۔۔۔‬
‫خود کیا لکھوں ۔۔ اس پرچے کی نقل کروں جو میرے سامنے ہی رکھا ہے ۔‬
‫صور کا‬‫’’ صبیحہ ۔۔۔۔ میری ساری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے آوارہ م ّ‬
‫پیشہ اختیار کر لیا ہے ۔ کس وقت کہاں ملوں گا ۔۔۔ کہہ نہیں سکتا ۔۔ دو چار سال‬
‫بعد شاید کبھی مالقات ہو جاۓ۔۔ شاید نہ ہو۔۔ کہنا ۔۔۔ کوئی شکایت نہیں ۔۔ خدا‬
‫حافظ ۔۔ تمہارا بھائی خاور ۔۔۔۔۔‘‘‬
‫صبح سے چودھری صاحب کو ساتھ لیے ہر ممکن کوشش کر چکی ہوں ۔ ان‬
‫دنوں میں بھی خاور بھائی مجھ سے باتیں کرتے کرتے غائب ہو جاتے تھے ۔‬
‫مصوری کا سامان رکھتے ہی تھے ۔ میں سوچتی رہی کہ پینٹنگ‬ ‫ّ‬ ‫جھولے میں‬
‫کے لیے چلے گۓ ہوں گے ۔ مگر انہوں نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں کہا ۔‬
‫سواۓ اس بات کے جو میں نے کل تم کو لکھی تھی ۔ اب کل ہی میں تنہا راج‬
‫شاہی واپس جا رہی ہوں ۔ وہاں سے پھر اطالع دوں گی ۔ یعنی کوئی خبر ہوئی تو‬
‫۔۔ ادھر کے سیاسی حاالت تو تم کو کچھ حد تک معلوم ہوں گے ۔ مکتی واہنی‬

‫‪53‬‬
‫وغیرہ ۔ دل میں پھر عجیب سے ہولناک خیاالت نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے ۔ اب اور‬
‫کچھ نہیں لکھ سکتی ۔ انو بھیا کو سالم کہہ دو ۔۔‬
‫تمہاری ہی‬
‫صبیحہ‬

‫٭٭٭‬
‫کراچی ۔‬
‫‪ / 3‬اپریل ‪72‬ء‬

‫پیاری صبیحہ ۔‬
‫معلوم نہیں کہ یہ خط تم کو مل سکے گا یا نہیں ۔ پتہ نہیں تم اب بھی راج شاہی‬
‫میں ہو یا نہیں۔ حاالت تو اس قدر تبدیل ہو گۓ ہیں ۔ اور ہونے جا رہے ہیں ۔‬
‫تمہارے کئی خطوط مل چکے ہیں اب تک اور میں جواب بھی دے چکی ہوں۔۔‬
‫مگر لگتا ہے کہ تم کو میرے خطوط نہیں مل رہے ہیں ۔ اور پھر ادھر پچھلے‬
‫چھ سات ماہ سے تو تاریخ بلکہ جغرافیہ بدل گیا ہے ۔ پہلے ہم ایک ہی ملک میں‬
‫تھے ۔۔۔ پھر سب ایک دوسرے ملک میں ساتھ آ گۓ تھے ۔ اگرچہ الگ الگ‬
‫شہروں میں ۔ اور پھر ایک ہی ملک کے دو بازوؤں میں بٹ گۓ ۔ اور اب وہ‬
‫دونوں بازو عل ٰیحدہ ہو گۓ ہیں ۔ اور اب تم بنگلہ دیش کی شہری ہو ۔ مگر اب‬
‫بھی راج شاہی یا چاٹگام یا وہاں ہی کہیں ہو تو ۔۔۔ کون جانے ۔۔۔ میرا بھی کون‬
‫جانے کہ میں اگلے پل کہاں ہوں گی ۔۔ خیر ۔۔ یہ فلسفے تو دور رکھو ۔۔ خبریں‬
‫۔۔۔۔ خبریں ۔۔ کس بات سے شروع کروں ۔۔۔ اہم ترین خبر سنو ۔۔۔‬
‫پچھلے ماہ شکیلہ باجی ہم کو چھوڑ گئیں ۔ معلوم نہیں ۔۔ دل کا دورہ ہی تھا یا کیا‬
‫بات تھی ۔۔ بہت بد نصیب تھیں بے چاری ۔ بڑے بھیا سے پیار کیا جو ان کو نہ‬
‫ملے ۔ پھر ان کی شادی کی اطالع بھی میں نے پچھلے کسی خط میں دی تھی نا‬
‫۔۔ عرصے تک تو وہ شادی سے انکار کرتی رہیں۔ ‪ 62‬ء میں جب ہم ملے تھے نا‬
‫۔۔۔ تب تک وہ بڑے بھیا کی منتظر تھیں ۔۔ اور میری شادی کے لیے فکر مند ۔۔‬
‫پڑوس میں ایک مہر جہاں آپا رہتی تھیں ۔۔ کسی کالج میں ٹیچر تھیں۔ کوئی‬
‫چالیس سال عمر ہوگی ۔۔ اور وہ بھی چاہتی تھیں کہ شادی نہ کریں گی ۔ اور‬
‫شکیلہ باجی نے بھی یہی طے کر رکھا تھا۔ پھر ان کے ہی کالج کے کسی‬
‫پروفیسر کے بارے میں انہوں نے انو بھیا سے بات کی تھی کہ شکیلہ باجی کے‬
‫لیے مناسب رشتہ رہے گا۔ شکیلہ باجی بمشکل راضی ہوئی تھیں ۔ ‪ 12‬دسمبر‬
‫‪71‬ء کو ۔۔۔۔ جب کہ تمہارا بنگلہ دیش آزاد ہو رہا تھا ۔ شکیلہ باجی پروفیسر قیوم‬
‫صاحب جو کہ ‪ 56‬۔ ‪ 57‬سالہ بوڑھے بیچلر تھے ۔ ریٹائر منٹ کے قریب ‪ ،‬ان‬
‫کی دلہن بن گئیں ۔۔ مگر کتے دن ۔۔ ‪ /21‬جنوری کو ہی قیوم بھائی بھی دل کے‬
‫دورے میں چل بسے اور ایک ماہ کی دلہن بیوہ ہو گئیں۔ ۔۔۔ بڑے بھیا کی کچھ‬
‫خبر نہیں ہے کہ کہاں رہے ہیں ان دنوں ۔۔ اور اب جب کہ ‪ /16‬مارچ کو ہی‬

‫‪54‬‬
‫شکیلہ باجی بھی اسی مرض کے پہلے حملے میں ہم سب کو چھوڑ کر گئی ہیں‬
‫تو جی چاہتا ہے کہ بڑے بھیا سے پوچھوں کہ ان کی اس زندگی اور موت میں‬
‫ان کا ہاتھ ۔۔۔ ان کو کس حد تک یہ بات قبول ہوئی ہے ۔ بہر حال ۔۔ شکیلہ باجی‬
‫کی مغفرت کے لیے دعا کرو ۔‬
‫میری شادی کا معاملہ بھی بڑا سرگرم رہا ۔۔ پہلے شکیلہ باجی اور پھر انو بھیا‬
‫بھی نہ جانے کس کس کو میرے لیے مناسب گردانتے رہے ۔ لیکن بھئی ۔۔ میں‬
‫کہتی ہوں کہ شادی کس لیے ضروری ہے ؟ کیا اس بندھن کے بغیر آزادی سے‬
‫جیا نہیں جا سکتا ۔ میری شاعری ہے ۔ میری سرگرمیاں ہیں ۔ ان سب پر روک‬
‫نہیں لگ جاۓ گی ۔ میں نے بہت سے ایسے رشتے دیکھے ہیں ۔ بلکہ یوں کہوں‬
‫کہ مرد دیکھے ہیں جو بظاہر اپنی ہر طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے‬
‫ساتھ دوش بدوش کام کرتے ہیں اور ان کو خوب بڑھاوا دیتے ہیں ۔ مثالی خاتون‬
‫قرار دیتے ہیں ۔ اور ان کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں چٹ پٹی باتیں‬
‫کرتے ہیں ۔ اور پھر شادی کرتے ہیں اور اگر بیوی بھی پڑھی لکھی ہی نہیں‬
‫مصور مل جاۓ تو چاہتے ہیں کہ وہ اپنا دیوان اور پینٹنگس‬ ‫ّ‬ ‫‪،‬بلکہ ادیبہ شاعرہ یا‬
‫۔ اور تان پورہ اور کتابیں ۔۔ جو کچھ بھی ہو ‪ ،‬چولہے میں جھونک کر ان کے‬
‫لیے روٹیاں بناۓ اور مرغ مسلم اور قورمہ اور بریانی ۔۔ شادی کے بعد عورت‬
‫ان کے لیے صرف جسم اور پیٹ کی ضرورت بن جاتی ہے ۔ میں کسی کی‬
‫ضرورت نہیں بنوں گی ۔۔ ہمارے انو بھیا اپنے کتنے ہی دوستوں کو میرے‬
‫سامنے ال کر مالئیں اور امید کریں کہ میں کبھی ہاں کر دوں ۔۔۔ اور صبیحہ ڈیر‬
‫۔۔۔ تم بھی یہی فیصلہ کر لو ۔۔ مالؤ ہاتھ اسی بات پر۔ ۔۔۔‬
‫خاور بھائی کی کیا خبر ہے ۔ انور بھیا ٹھیک ہیں ۔ ہاں ۔۔ یہ تو میں نے تم کو‬
‫لکھا ہی نہیں کہ انو بھیا کو امپریل کا لج لندن سے آفر آئی ہے اور انہوں نے‬
‫پاسپورٹ وغیرہ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہماری بڑی‬
‫گرما گرم بحثیں ہوئی ہیں ۔ بڑے نیشنلسٹ بنے پھرتے تھے ۔ ہمارا پاکستان ہمارا‬
‫پاکستان ۔۔۔ بس جمہوریت مل جاۓ ۔۔ اور اب جب کہ پاکستان کا وجود دو ٹکڑے‬
‫ہو گیا ہے اور ملک مصیبت میں ہے ۔ اس کا مستقبل خطرے میں ہے ‪ ،‬آپ اپنا‬
‫مستقبل بنانے لندن جا رہے ہیں۔ یہ رجعت پسندی نہیں ہے ۔۔ مجھ سے بھی بہت‬
‫کہہ رہے ہیں ۔۔ میں تنہا کیسے رہوں گی ۔۔ مگر مجھے یقین ہے کہ میں تنہا‬
‫رہوں گی۔ رہ سکتی ہوں ۔۔ اپنے کالج کی مالزمت کرتی رہوں گی۔ نظموں کی‬
‫پہلی کتاب کی اشاعت کی تیاریاں بھی چل رہی تھیں۔ ادھر شکیلہ باجی کی شادی‬
‫اور پھر وفات کی وجہ سے اس طرف ال پروائی ہو گئی ۔ اب تو تین چار مہینوں‬
‫میں کتاب آ ہی جاۓ گی۔ ’’جنگل میں شام‘‘ نام ہے مجموعے کا ۔۔‬
‫اب باقی باتیں پھر ‪ .................‬خدا حافظ‬
‫ہمیشہ تمہاری‬
‫کہکشاں‬
‫٭٭٭‬
‫‪ /3‬جون ‪72‬ء‬

‫‪55‬‬
‫ڈئیر کشی‬
‫یہ خط ٹرین سے لکھ رہی ہوں بہت دن سے تمہارا کوئی خط نہیں مال ۔۔ اور نہ‬
‫میں ہی لکھ سکی ۔۔۔ راج شاہی اور پھر کلکتہ میں زندگی محض ہل چل کا شکار‬
‫رہی نا ۔۔۔ شاید تم میرے بارے میں پریشان ہوگی ۔۔ ہاں ۔۔۔ میں زندہ ہوں ۔۔ البتہ‬
‫کلکتہ میں نند الل دا ۔۔ نندالل بوس سے ملنے گئی تھی تو ان کے حلقے کے‬
‫کسی مصور نے بتایا تھا کہ خاور بھائی سے اس کی مالقات جنگ سے پہلے‬
‫ہوئی تھی ۔ وہ بھی سرحد کے پاس درگا پور میں ۔۔ جہاں وہ سومیشوری ندی کے‬
‫پاس تنگائن ِبل جھیل کے مناظر پینٹ کرتے کرتے آسام کی گارو پہاڑیوں تک‬
‫چلے گۓ تھے ۔ باگھ مارا کے ایک منظر کی پینٹنگ انہوں نے نند الل دا کو‬
‫بھجوائی تھی ۔۔ اس کے بعد میمن سنگھ سے ہوتے ہوۓ وہ راج شاہی واپس آ‬
‫رہے تھے ۔ اس کے بعد کا کچھ معلوم نہیں ہوا۔ ان سب کو یقین ہے کہ وہ کسی‬
‫گولی کا شکار ہو گۓ ۔۔ مجھے ۔۔۔ کبھی یقین نہیں آتا کہ بنگالیوں کی طرح بنگلہ‬
‫بولنے والے خاور بھائی کو ۔۔۔ بنگلہ دیش ۔۔ جو کہ مشرقی پاکستان تھا ۔۔۔کی‬
‫تہذیب اور رہن سہن کو پوری طرح اوڑھے پہنے خاور بھائی کو کوئی کس‬
‫طرح غیرملکی سمجھ سکتا ہے ۔ لیکن راج شاہی میں ہی کتنے ہی لوگ ان کی‬
‫طرح کے تھے ۔۔۔ اصل پنجاب یا یو ۔ پی یا کہیں اور کے مگر پوری طرح مقامی‬
‫رنگ میں رنگ چکے تھے ۔ اور بنگلہ دیش کی آزادی کے ساتھ ان کی روحوں‬
‫کو بھی آزادی مل چکی تھی۔ ممکن ہے کہ خاور بھائی واقعی شہید ہو چکے ہوں‬
‫۔ خدا کرے کہ وہ زندہ ہوں اور خدا انہیں تندرست اور خوش و خرم رکھے اور‬
‫خدانخواستہ اگر ۔۔۔۔ تو ان کی روح کو سکون بخشے ۔۔‬
‫میں ۔۔۔۔ مجھے ایک پیغمبر مل گیا تھا ۔۔ نور االسالم م ِلک نام کا ۔۔۔ جس نے‬
‫مجھے کسی طرح پناہ دی ۔۔ اور نہ جانے کس کس طرح کہاں کہاں سے ہوتے‬
‫ہوۓ کلکتہ پہنچی ۔۔ مگر اکیلی ہی ۔۔ نور دا راستے میں نہ جانے کہاں غائب ہو‬
‫گئے تھے ۔ اور اب ۔۔ مجھے دوسرے فرشتوں نے لکھنؤ کے پتے دۓ ہیں ۔۔‬
‫بھتکھنڈے یونیورسٹی آف میوزک میں قسمت آزمائی کے لیے میں لکھنؤ جا رہی‬
‫ہوں ۔ شاید یہ خط وہاں سے پوسٹ کروں گی۔ گویا کہ یہ پھر ہندوستان ہے ۔ اور‬
‫ٹرین اتر پردیش میں داخل ہو چکی ہے ۔ مگر اب یہاں ۔ جنید بھائی ہی ہوں گے ۔‬
‫ان کی بھی مدت سے خبر نہیں کہاں ہیں۔ کلکتہ کی نئی انگریزی اور اردو ادبی‬
‫نسل میں ان سے کوئی واقف نہ تھا ۔ شاید وہ مکمل طور پر خاموش ہو گۓ ہیں ۔‬
‫ممکن ہے کہ ان کا کہیں پتہ مل ہی جاۓ ۔ ملک خدا تنگ نیست ۔ پاۓ گدا ضرور‬
‫لنگ ہے ۔ ہاں ۔۔ہمارے گھر ۔۔۔ یعنی نور دا کے محافظ خانے میں گولیاں آتی‬
‫تھیں ۔۔ اور میرے ایک پیر کو زخمی کر ہی گئی تھیں ۔ شکر کرو کہ پیر کاٹنے‬
‫کی نوبت نہیں آئی ۔ نور دا کے چھوٹے بھائی سرجن تھے ۔۔ اب تو میرا پیر بھی‬
‫بالکل ٹھیک ہے ۔ مگر زیادہ زور اس پر نہیں دیا جاتا ۔ اور چلنے میں کچھ‬
‫لنگڑاہٹ سی ضرور محسوس ہوتی ہے ۔ تم فکر نہ کرو ۔ ایک آدھ ماہ میں یہ‬
‫بھی دور ہو جاۓ گی۔‬

‫‪56‬‬
‫تمہاری امی نے یہ واقعی عقلمندی کی تھی کہ کراچی میں یہ ٰالہی بخش کا لونی‬
‫واال گھر بنا لیا ہے ۔ ہم سب میں سے کسی ایک کا ایک پتا تو مستقل ہے جو کہ‬
‫تم تک خبریں پہنچ سکیں ۔ باقی تو ہم سب آوارہ مصور ہیں خاور بھائی کی طرح‬
‫۔۔ اب ختم کرتی ہوں ۔۔ باقی باتیں پھر ہوں گی ۔ تمہارا مستقبل کا پالن کیا ہے ۔۔۔۔۔۔‬
‫؟ مگر اگال خط بھی میں ہی لکھوں گی تب تم کو پتہ دے سکوں گی کہ کس پتے‬
‫پر جواب دو ۔۔۔ خدا حافظ ۔۔۔۔۔‬
‫تمہاری اپنی‬
‫صبیحہ‬

‫٭٭٭‬
‫‪ / 12‬جون ‪72‬ء‬

‫آج سے میں یہ ڈائری شروع کر رہا ہوں ۔ ڈائری لکھنے کی میری عادت نہیں‬
‫تھی مگر کشی کا کہنا تھا کہ میں ا سے یہاں کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل‬
‫لکھتا رہوں ۔ اسی طرح کشی کو خطوط لکھنے کے لیے یہ ڈائری ایک ریفرینس‬
‫بک کا کام کرسکتی ہے ۔ اور کچھ یہاں کی تنہائی میں میری ساتھی بھی ثابت ہو‬
‫گی ۔‬
‫اب تک یہ ایک خواب سا لگ رہا تھا ۔ مگر اب یقین آگیا ہے کہ یہ لندن ہے ۔ یہ‬
‫کنسنگٹن کا عالقہ ہے اور اس میں یہ مسز مارگریٹ ایشر ووڈ کا اپارٹمنٹ جس‬
‫کے ایک کمرے میں َمیں بھی ہوں ۔۔ اور ایک کالج کا ساتھی ہے ۔ سبیر‬
‫چکرورتی ۔۔ جو کہ فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے ۔ وہی اس گھر میں لے کر آیا‬
‫ہے ۔ پہلے ایک ہندوستان کے صاحب اس کے ساتھ رہتے تھے ۔ بہار کے کسی‬
‫شہر کے کرن شری واستو جو کہ اردو شاعر تھے اور سارا لندن ۔۔۔ مطلب لندن‬
‫کا ہندوستانی پاکستانی حلقہ ان کو عظیم صاحب کہتا تھا اور مسلمان سمجھتا تھا۔‬
‫خود س بیر بھی شروع میں کچھ دن ان کو مسلمان سمجھتا رہا تھا ۔ بہر حال وہ‬
‫پڑوس ہی کے گھر میں شفٹ کر گۓ ہیں ۔۔۔ ہاں ۔۔ آج کے ہی اخبار میں پا ِول‬
‫صاحب کے بیانات ہیں کہ کالونی کے سارے لوگوں کو یہاں سے جانے پر‬
‫مجبور کیا جاۓ گا ٹھیک ہے صاحب ۔ ہم تو قلندر آدمی ہیں ۔ بہر حال میں خوش‬
‫۔‬
‫آج پروفیسر واٹ (شرالک ہومز یاد آ جاتے ہیں ) فیکلٹی کے اکثر ممبروں سے‬
‫مالنے لے گۓ تھے ۔ بلکہ آج اتنے لوگوں سے مالقات ہوئی کہ ایک ہی دن میں‬
‫شاید آج تک اتنا تعارف کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ع۔ واحد صاحب سے مالقات ہوئی ۔۔‬
‫میں نے پوچھا کہ آپ بھی پاکستانی ہیں ؟ برا مان گۓ ۔۔ کہ بڑے نیشلسٹ قسم‬
‫کے ہندوستانی مسلمان ہیں ۔ علی گڑھ کے ۔۔ انگریزوں نے تعارف کے ساتھ ہی‬
‫سوال کیا کہ ہندوستانی ہوں یا پاکستانی ۔۔۔ واقعی یہ عجیب گھپال ہے ۔۔ کلچر کے‬
‫حساب سے مجھ میں اور واحد بھائی میں کیا فرق ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ میں‬
‫ان کے گھر جاؤں گا ‪ ،‬جو یہاں اسی عالقے میں کہیں ہے ‪ ،‬تو وہ اپنے گھر میں‬

‫‪57‬‬
‫میری طرح ہی کرتا پاجامہ پہنے بیٹھے ہوں گے ۔ ۔۔۔۔۔اردو میں باتیں کر رہے‬
‫ہوں کے ۔ آفاق اور مشرق پڑھ رہے ہوں گے ۔’’ آفاق ’’ ان کے پاس ہی دیکھا‬
‫تھا کہ ان کی ایک نظم اس میں شائع ہوئی ہے ۔ ہاۓ کیا چیز غریب الوطنی ہوتی‬
‫ہے ۔ اب یہ دیکھو ۔۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ہوۓ پ ّچیس سال ہو گۓ ہیں‬
‫۔مگر کیا پاکستانی اردو ادب اور ہندوستانی اردو ادب کو الگ کیا جا سکتا ہے ؟‬
‫ہندوستان میں بھی سنا ہے کہ ہمارے ناصر کاظمی ۔ منیر نیازی اور ظفر اقبال‬
‫وغیرہ کا ہی بول باال ہے ۔ اور ہمارے نقوش اور فنون میں بیدی اور قاضی‬
‫عبدالستار اور سریندر پرکاش اور محمد علوی ۔۔ بانی ۔ شہر یار ۔۔ بشیر بدر ۔‬
‫خلیل الرحمٰ ن اعظمی کس شوق سے پڑھ جاتے ہیں۔ واحد بھائی نے ملتے ہی‬
‫پوچھا کہ میں نقوش اور فنون کے تازہ شمارے الیا ہوں یا نہیں ۔ اس بار لندن‬
‫میں ان کو ملے نہیں اور جب ملتے ہیں تو وہ اپنے ہندوستانی دوستوں کو بھجوا‬
‫دیئے ہیں جو بڑی عقیدت سے ان رسالوں کو پڑھتے ہیں ۔ ہاتھوں ہاتھ گھومتے‬
‫ہیں۔‬
‫سبیر آ گیا ہے اور پوچھ رہا ہے کہ بھات بنایا جاۓ کہ چپاتی ۔۔ ہر ہندوستانی چیز‬
‫یہاں مل جاتی ہے ساؤ تھال تو جیسے دلی کا ہی ایکسٹنشن ہے یا الہور ۔۔ ذبیحے‬
‫کا گوشت سے لے کر سارے مصالحے ۔ پان چھالیہ ۔ اس کی کوئی مشکل نہیں‬
‫ہے ۔ کلکتہ کا سبیر چکرورتی ہو یا حسن پور اور پھر کراچی کا میں انور جمیل‬
‫۔۔ سب کو اپنی پسند کا کھانا یہاں مل سکتا ہے ۔ یہ لندن ہے ۔۔۔۔۔‬

‫٭٭٭‬
‫‪ /22‬جون ‪72‬ء‬
‫کراچی‬
‫پیارے انو بھیا ۔۔۔۔‬

‫آپ کے دو خطوط مل چکے ہیں ۔ ‪ keep it up, Partner‬میری تو لندن دیکھنے‬


‫کی ایسی تمنا بھی نہیں تھی۔ پھر بھی آپ کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آج‬
‫سے دس پندرہ سال پہلے آپ لندن میں ہوتے تو مجھے شاید وہی باتیں لکھتے جو‬
‫قرۃ العین حیدر کے ناولوں کے لندن میں ملتی ہیں۔۔۔ بی بی سی اور مجلس کے‬
‫کراؤڈ ۔ انڈیا ہاؤس ۔ آل حسن۔ اور وہ کون صاحب تھے ۔ طغیان بھاگلپوری ۔۔ یہ‬
‫عظیم صاحب عظیم آبادی ہیں یا وہ بھی بھاگلپوری ہیں ۔۔ سچ بڑا مزا آیا ۔‬
‫یہاں بھی کئی انکشافات ہوۓ ہیں۔ صبیحہ کے دو خطوط ملے ہیں ۔ وہ ہندوستان آ‬
‫گئی ہے ۔ تیسری ہجرت ۔۔ بنگلہ دیش سے ۔۔۔ کلکتہ ہوتی ہوئی لکھنؤ پہنچی ۔‬
‫مگر وہاں ہتھکنڈے یونیورسٹی آف میوزک ۔۔ ارے وہی عینی آپا واال میرس کالج‬
‫۔ لکھنؤ تو ہم لوگوں نے ان کے قلم کی آنکھ ہی سے زیادہ دیکھا ہے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہاں ۔۔ تو اس یونیورسٹی نے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ وہاں جن سنگھ کی‬
‫‪ lobby‬کار فرما ہے جس نے وہ جگہ کسی ایسی ہندو لڑکی کو دے دی ہے‬

‫‪58‬‬
‫جس نے ابھی ابھی گریجویشن کیا ہے ۔ اس لڑکی کا گورنر سے بھی کوئی دور‬
‫کا رشتہ ہے ۔ اب وہ جامعہ ملیہ جا رہی ہے ۔‬
‫پچھلے ہفتے یہاں بڑا زوردار فنکشن رہا ۔ ہندوستان سے کچھ ادیب آۓ ہوۓ‬
‫تھے ۔ اسی سلسلے میں ‪ ،‬الہور سے ندیم قاسمی بھی آ گۓ تھے ۔ کشور ناہید‬
‫سے بھی مالقات ہوئی ۔۔ ’جنگل میں شام‘ ان کو دی تو معلوم ہوا کہ وہ پہلے ہی‬
‫کسی کے پاس دیکھ چکی ہیں ۔ شاعری کی تعریف کر رہی تھیں ۔ مگر شکایت‬
‫بھی کہ تمہاری شاعری کی عورت کہاں ہے ۔ اور مشورہ دے رہی تھیں کہ‬
‫شادی کر لو ۔ ب ّچے ہو جائیں گے تو پھر تمہاری شاعری کا رنگ دیکھنا ۔ جی‬
‫ہاں ۔۔ ایسے میں میں محض ان کو خوش کرنے کے لیے اور شاعری میں گھریلو‬
‫عورت ۔۔۔ ماں بیوی کا پہلو ابھارنے کے لیے شادی کرنے والی نہیں ۔۔ ہندوستان‬
‫میں ۔۔۔ علی گڑھ میں زاہدہ زیدی بھی تو ہیں۔ گو کوئی بڑی توپ چیز تو نہیں ہیں‬
‫۔۔ ہاں ۔۔۔ شمس الرحمٰ ن فاروقی جو ہندوستان سے آۓ تھے ‪ ،‬ان سے معلوم ہوا کہ‬
‫جنید بھائی کے پرچے ختم ہو گۓ ہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دہلی سے ان‬
‫کا انگریزی پرچہ ‪ Horizon‬ہی نکل سکے تو شاید چل جائے ۔ اردو رسالوں‬
‫میں بھال کوئی بزنیس کر سکتا ہے ؟ اپنا سارا سرمایہ ’افق‘ کی نذر کرنے کے‬
‫بعد ان کو ہوش آیا ہے ۔ البتہ اس عرصے میں ان کا ایک ناول ضرور چھپ گیا‬
‫ہے ‪ ،‬معلوم نہیں وہ آج کل کہاں ہیں۔۔۔ شاید آپ کو لندن میں بھی اپنے برصغیر‬
‫کے کسی ادیب شاعر سے ان کے بارے میں کوئی صحیح خبر ملے ۔‬
‫اپنے بارے میں کیا لکھوں۔۔ ادھر غزلیں زیادہ کہی جا رہی ہیں ۔ شاید ماحول نظم‬
‫کے لیے ساز گار نہیں تھے ۔ طفیل چچا بھی بضد ہیں کہ میں غزلیں زیادہ‬
‫لکھوں اور ’نقوش ‘ میں ہی چھپواؤں ۔ اسی بار کے ’ سیپ ‘ میں بھی دو غزلیں‬
‫ہی دی ہیں جو چھپ چکی ہیں ۔۔ دو شعر آپ کو بھی سنا دوں ۔‬
‫کبھی تو دھوپ کبھی ابر کی ِردا مانگے‬
‫ت غم بھی عجب موسم ہو ا مانگے‬ ‫یہ کش ِ‬
‫فقیر جھولی کے موتی لٹانے آیا ہے‬
‫امیر شہر کو ڈر ہے نہ جانے کیا مانگے‬
‫ِ‬
‫مالزمت جاری ہے ۔۔۔۔چھٹیوں کے بعد پرسوں اسکول پھر کھل رہا ہے ۔ کچھ‬
‫زیادہ فرصت ملی تو ادبی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ پھر وہی لڑکیاں ہوں گی اور‬
‫ان سے الجھتی میں۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی لطف ہی آتا ہے اس الجھن میں بھی۔۔۔۔۔‬
‫اور سب ٹھیک ہے ۔۔سبیر دا کو بھی سالم کہہ دیں‬
‫آپ کی بہن‬
‫کہکشاں‬

‫٭٭٭‬
‫یکم جوالئی ‪72‬ء‬

‫‪59‬‬
‫پیاری کشی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ڈائری سے نقل کرنے کی بجاۓ راست تم سے مخاطب ہوں۔ آج ذہن کی عجیب‬
‫حالت ہو گئی ہے ۔ سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔ آج دوپہر کو میں ہائیڈ پارک چال گیا تھا۔ تم نے تو‬
‫سنا ہی ہوگا کہ ہائڈ پارک میں کیا کیا ہنگامے ہوتے رہتے ہیں۔ ایک طرف ایک‬
‫صاحب اپنے یہاں کے سرمہ بیچنے والوں کی طرح مجمع لگا کر کچھ فروخت‬
‫کر رہے تھے ۔ ایک ہندوستانی صاحب پاول کے خالف تقریر کر رہے تھے ۔‬
‫ایک اسٹول پر کھڑے ۔ میں ادھر ادھر گھومتا لطف اندوز ہوتا جا رہا تھا کہ ِومال‬
‫مل گئی۔۔۔۔۔ بھئی یہ ومال بھٹناگر بھی مص ّور واقع ہوئی ہیں خیر سے ۔ مگر پتہ‬
‫چال کہ وہ کسی سوامی جی کے درشن کے لیے آئی ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سوامی جی بھی‬
‫ہائیڈ پارک میں ہی اپنا دربار لگائے ہوۓ تھے ۔ ومال کے ساتھ میں بھی چال‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکشافات ۔۔۔۔ انکشافات ۔۔۔۔۔۔‬
‫میرے سامنے گیروے کپڑے پہنے بڑے بھیا بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ ومال نے ان کے‬
‫پیر چھو کر پرنام کیا ۔۔اور میں دھیرے سے بوال ۔۔۔ ’’بڑے بھیا۔۔۔۔۔۔‘‘‬
‫ان کی آنکھوں میں ایک لمحے کو عجیب سی چمک آئی ۔۔۔ یہ مجھے یقین ہے کہ‬
‫وہ مجھے صحیح طور سے پہچان نہیں سکے ۔ کبھی شک ہوتا ہے کہ میری‬
‫آنکھوں نے تو دھوکا نہیں دیا ۔۔۔ انہوں نے ۔۔۔۔ ان سوامی جی نے صرف یہ کہا ۔‬
‫’’آنند ۔۔۔۔ آنند ۔۔۔ من کی آنکھیں کھول کر دیکھو ۔۔۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا‬
‫۔۔۔ سب ایک جیسے نظر آئیں گے ۔۔۔۔ سب بھگوان کے بندے ہیں ۔۔ ۔۔۔ اوم نمو‬
‫بھگوتے ‪ ‘‘ .........................‬میں چپ چاپ بھیڑ سے باہر آیا ۔۔ ومال نے بتایا‬
‫کہ اسے معلوم ہے کہ سوامی جی کہاں ٹھیرے ہوۓ ہیں۔ وہاں جا کر میں ان سے‬
‫مل سکتا ہوں ۔ چنانچہ شام کو میں اور ومال وہاں گۓ تھے ۔ معلوم ہوا ہائیڈ پارک‬
‫سے ہی کوئی آدمی آ کر ان کا سوٹ کیس لے گیا ہے اور الج کا کرایہ دے گیا‬
‫ہے ۔۔۔ وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گۓ۔ اور اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ وہ بڑے‬
‫بھیا ہی تھے ۔۔۔۔ قرۃالعین حیدر کے ’’ قلندر‘‘ ‪..................‬‬

‫٭٭٭‬

‫کالکا میل چھوٹنے میں ابھی دیر تھی ۔۔ صبیحہ نئی دہلی کے پلیٹ فارم نمبر سات‬
‫پر وقت گزاری کے لیے سامنے وہیلرز کے بک اسٹال پر آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔‬
‫سامنے کی ہی بوگی میں اس نے اپنا سامان رکھ دیا تھا۔ رسالوں پر نظر دوڑاتی‬
‫رہی ۔۔ ویکلی ۔۔۔ سنڈے ۔۔ امپرنٹ۔ بیسویں صدی ۔ شمع ۔ اس نے امپرنٹ خرید لیا‬
‫۔۔۔ اور ٹرین کے قریب جا کر اپنی بوگی سے لگ کر کھڑی ہو گئی کہ کھڑکی‬
‫سے اپنا سامان بھی دیکھتی رہے ۔‬
‫’’صبیحہ ۔۔۔۔‘ کسی نے آواز دی ۔‬
‫وہ چونکی ۔۔۔ ایک لمحے کے لیے وہ پہچان نہ پائی ۔‬

‫‪60‬‬
‫جنید بھائی ۔۔۔ ؟‘‘ اس نے پھر بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔‬
‫’’ہاں۔۔ ہم دونوں نے ٹھیک ہی پہچانا ۔۔۔ ‘‘ جنید نزدیک آگیا ۔ صبیحہ کے سر پر‬
‫ہاتھ پھیرا ۔۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ ’’ اب سب ٹھیک ہو جاۓ گا جنید‬
‫بھیا ۔ آپ جو مل گئے ہیں ۔ میں سمجھ رہی تھا کہ اب دنیا جہان میں اکیلی رہ گئی‬
‫ہوں ۔ خاور بھائی کا تو آپ کو معلوم ہوگا نا ۔۔۔۔ ‘‘‬
‫’’ اچھا بھئی ۔۔ تفصیلی باتیں تو بعد میں ہوں گی ۔۔ پہلے تم یہ بتاؤ کہ یہاں کیسے‬
‫ہو ۔۔۔۔ فرصت ہو تو باہر چل کر بات کریں ۔ گولی مارو میرے ٹکٹ کو ۔۔۔ ‘‬
‫’’ میں تو اسی کالکا سے علی گڑھ جا رہی ہوں ۔۔۔ ‘‬
‫’’ علی گڑھ ۔۔۔۔! یار مالؤ ہاتھ اسی بات پر ۔۔۔ چلو پھر ٹرین میں ہی بیٹھیں ۔۔ میں‬
‫بھی تو علی گڑھ میں ہی ہوں ۔۔۔۔‘‘ رستے میں ہی باتیں ہوں گی ۔۔۔ مگر تم پہلے‬
‫یہ بتاؤ کہ دہلی کب سے تھیں ۔۔۔؟‘‘‬
‫’’ ہجرت کے بعد ۔۔۔ کیسا لگتا ہے یہ لفظ ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ ارے ۔۔ سب کے الوژنس ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ایسی ماربڈ نہ بنو ۔۔۔ تم تو بڑی‬
‫سپاہی لڑکی ہو ۔۔ تین تین بار ہجرت کر چکی ہو ۔۔۔ حج کا کیا ثواب ملتا ہوگا اتنا‬
‫۔۔۔۔‘‘‬
‫’’آپ تو مذاق کرنے لگے ۔۔۔ دیکھیے ٹرین نے سیٹی دے دی ۔۔۔۔ آئیے اندر‬
‫بیٹھیں ۔۔۔۔۔‘‘‬
‫جنید نے جلدی سے سگریٹ سلگائی ۔۔۔ اور صبیحہ کے پیچھے ٹرین میں چڑھ‬
‫گیا۔۔۔ کالکا میل آہستہ آہستہ کھسکتی ہوئی آگے بڑھنے لگی تھی ۔۔۔ نئی دہلی‬
‫اسٹیشن پیچھے چھوٹ گیا۔‬
‫’’ ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی نا ۔۔۔۔‘‘ صبیحہ نے باتوں کا سلسلہ مالیا ۔‬
‫’’راج شاہی سے کسی طرح زندہ سالمت کلکتہ پہنچی ۔۔۔ بس کچھ ٹانگ‬
‫مضروب ہوئی ۔۔۔ آپ نے غور کیا میری ہلکی سی لنگڑاہٹ پر ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ جب تم کو چال کر دیکھیں گے تو دیکھ ہی لیں گے ۔۔۔۔ ‘‘ جنید نے سگریٹ‬
‫ٹرین کی کھڑکی سے باہر پھینکی ۔‬
‫’’ بہر حال کلکتہ پہنچی راج شاہی سے ۔۔ وہاں سے ایک صاحب نے لکھنو میں‬
‫بھتکھنڈے یونیورسٹی آف میوزک میں قسمت آزمائی کے لیے مشورہ دیا ۔ وہاں‬
‫مایوسی ہوئی ۔۔ پوسٹ تھی۔۔ مگر میرے لیے نہیں تھی ۔ یہی حال جامعہ ملیہ میں‬
‫بھی ہوا ہے ۔ ریفیوجیز سے ہمدردی سب کو ہے ۔ مگر کمپ میں رہو یا پھر‬
‫کلرکی کرو ۔۔ ۔۔ ٹائپسٹ بنو۔۔ اسٹینو گرافی تم نے کیوں نہیں سیکھی ۔۔ اب میں‬
‫کسی سے کیا کہوں ۔۔ میں غیر منقسم پاکستان کی وہ سنگیت کار جس نے دو تین‬
‫نئے راگ تک ہندوستانی کالسیکی موسیقی کو دۓ ہیں۔ جی ہاں غور فرمائیے ‪،‬‬
‫میں ہن دوستانی موسیقی ہی کہہ رہی ہوں‪ ،‬پاکستانی نہیں۔۔جس کی غزلوں میں‬
‫راگوں کے استعمال پر مہدی حسن۔۔ ہاں۔۔۔ مہدی حسن نے کہا تھا کہ مجھ‬
‫تمہاری آواز نہیں چاہیے ۔۔۔ مگر تمہارے سر مجھے دے دو ۔۔۔ جس نے تعلیم‬
‫بھی حاصل کی تو سنگیت کی ہی ۔۔۔ بہر حال چھوڑئے ۔۔ اب ہوا یہ ہے کہ خوش‬

‫‪61‬‬
‫قسمتی سے جامعہ ملیہ میں جن فرحان صاحب کے پاس مجھے بھجوایا گیا تھا ۔‬
‫وہیں ان کے بھائی عرفان ندیم صاحب آ گئے ۔۔ علی گڑھ سے اور انہوں نے بتایا‬
‫کہ مسلم یونیورسٹی میں جنرل ایجوکیشن میں موسیقی کے استاد کی جگہ خالی‬
‫ہو گئی ہے ۔ اور جو کہ تقریبا ً ان کے ہی تحت ہے ۔ وہ کل شام کو ہی واپس چلے‬
‫گئے ہیں ۔اور آج میں جا کر ان سے ملوں گی ۔ مالزمت کا پکا وعدہ کیا ہے‬
‫انہوں نے ۔ میں نے اب تک مسلم یونیورسٹی نہیں دیکھی ۔۔ مگر اب ۔۔ ابا میاں‬
‫کے آلما میٹر میں جا رہی ہوں ۔۔ بس۔۔ اب چائے پی جاۓ۔۔۔۔‘‘‬
‫جنید نے بوگی میں ہی موجود ایک چاۓ والے کو آواز دے کر چائے النے کا‬
‫کہا ۔۔۔ نئی سگریٹ سلگائی ۔۔۔‬
‫’’ میری بھی کہانی سنو گی ۔۔۔ یا چاۓ پینے کے بعد۔۔۔۔ ‘‘‬
‫’’ کہئے نا ۔۔۔ چاۓ تو ساتھ ہی پیتے رہیں گے ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ تفصیل تو دھیرے دھیرے معلوم ہوتی ہی رہے گی ۔۔۔۔ مختصرا ً یہ کہ میں‬
‫حیدرآباد میں تھا ۔۔۔ یہ تو تم کو معلوم ہی ہے ‪61‬ء سے انگریزی کا رسالہ نکاال‬
‫تھا ہورائزن ۔ پھر ‪62‬ء سے اردو ’افق‘ بھی ۔۔۔ اس وقت سرمایہ تھا ۔۔۔اور خواب‬
‫تھے ۔۔۔۔ ’افق‘ تین سال میں بیس بائیس شمارے نکل کر بند کرنا پڑا ۔ ہمارے‬
‫یہاں اردو ادب کا رسالہ خریدتا بھی کون ہے ۔ ہورائزن ضرور ‪69‬ء تک نکلتا‬
‫رہا ۔ پھر ۔۔ قصہ ختم پیسہ ہضم ۔۔ سرمایہ بھی کہاں تک چلتا آخر ۔۔۔ کسی طرح‬
‫ایک ڈیڑھ سال حیدرآباد میں ہی گزارا۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں کوشش کی تو‬
‫انگریزی ڈپارٹمنٹ میں ٹمپریری لکچرر شپ مل گئی ۔۔۔ پھر ‪71‬ء میں علی گڑھ‬
‫خوبی قسمت سے یہاں ریڈر شپ مل گئی‬ ‫ِ‬ ‫کا اشتہار دیکھ کر درخواست دی تو‬
‫ہے ۔۔۔ بس یہی چل رہا ہے ۔۔۔‬
‫’’ علی گڑھ کا ماحول ۔۔۔ مطلب تہذیبی ۔۔۔؟‘‘‬
‫’’ ارے اس کا کیا پوچھتی ہو۔ میں تو تقریبا ً تائب ہو چکا ہوں ۔۔۔۔ پچھلے سال‬
‫علی گڑھ سے ’افق‘ پھر نکاال تھا ۔۔۔ کچھ دوستوں کا اچھا حلقہ مل گیا تھا تو ۔ وہ‬
‫بھی بکھر گیا ۔ اب اس کو دہلی منتقل کر دیا ہے ۔ اور دہلی کا یہ سفر اسی‬
‫سلسلے میں تھا۔ اب شعیب زیدی ہی جہاں تک ممکن ہوگا ’افق‘ نکالتے رہیں‬
‫گے ۔ ہورائزن کے لیے پھر حیدرآباد میں کچھ دوستوں کو لکھا ہے ۔ سشما ایّر کا‬
‫خط آیا ہے کہ وہ بھی اس میں انٹرسٹیڈ ہے غرض سارا نام جھام دوسروں کے‬
‫سپرد کر دیا ہے ۔ ادبی ماحول کی بھی بات سنو گی ۔۔۔۔‘‘‬
‫چاۓ آ گئی تھی ۔۔۔۔‬
‫’’ ویسے تو تخلیقی طور پر علی گڑھ جو اب سرگرم ہے ۔ خاص کر اردو ادب‬
‫۔۔۔ شعبۂ اردو کے لوگوں میں سرور صاحب ہیں ۔۔ خورشید االسالم بھی آ گئے‬
‫ہیں ۔ خلیل صاحب ہیں ۔ ایک بڑے حلقے کے گاڈ فادر خلیل الرحمٰ ن اعظمی کی‬
‫بات کر رہا ہوں ۔ جذبی ہیں ۔ شہر یار ہیں ۔ بشیر بدر ہیں ۔ افسانے میں قاضی‬
‫عبدالستار ہیں۔۔۔ بالکل نئی نسل کی بات کروں ۔ افسانے میں محمد اشرف اور‬
‫شارق ادیب اچھے افسانے لکھ رہے ہیں اور خود کو نو ترقی پسند کہہ رہے ہیں‬
‫۔ ان کے گاڈ فادر قاضی ستار ہیں ۔ شاعری میں ۔ فرحت احساس ہیں ۔ آشفتہ‬

‫‪62‬‬
‫چنگیزی ہیں ۔ اور وہ رنگا رنگ صالح الدین پرویز ۔۔۔ مگر بھائی ۔۔۔ ترقی‬
‫پسندی ۔۔ جدیدیت ۔۔ نو ترقی پسندی ۔۔ اور بشیر بدر کی تو سچی شاعری ۔۔۔ ان‬
‫سب جھگڑوں سے اب میں دور بھاگ چکا ہوں ۔۔ یونیورسٹی میں بھی سیاست‬
‫ہے ۔ پچھلے سال تو میں یونیورسٹی کے قریب ہی سر سید نگر میں کراۓ کے‬
‫مکان میں رہ رہا تھا ۔۔۔۔ مگر اس ہر لمحے کی غیبت ۔ نوچ کھسوٹ ۔۔ اور ٹانگیں‬
‫کھینچنے سے میں تنگ آگیا ۔ شہر کا ماحول تو اور بھی مختلف ہے ہی تہذیب‬
‫اور ادب سے کوسوں دور ۔۔ چنانچہ میں نے پچھلے سال ہی یونیورسٹی سے بھی‬
‫دور اور شہر سے بھی دور ۔۔۔ بنّا دیوی کے عالقے میں کراۓ کا مکان لے لیا‬
‫تھا۔ ’افق‘ وہاں سے ہی نکال رہا تھا۔ کہ ابھی کچھ دن پہلے علی گڑھ میں پھر‬
‫فسادات ہوۓ ۔ ہندو مسلم ۔۔ جو کہ بنا دیوی تک پہنچ گۓ۔ میں تو جان بچا کر دلّی‬
‫بھاگ نکال تھا۔ مگر ’افق‘ کا کچھ نہیں بچا ۔ پھر حیدرآباد کے قیام میں اپنے‬
‫اچھے دنوں ۔ کی یادگار ۔۔۔ میری الئبریری تھی ۔۔ جو ظالموں نے مکمل جالدی‬
‫۔۔۔ اور جو کچھ باقی تھا ۔۔ وہ میں دوستوں میں تقسیم کرتا پھر رہا ہوں۔ اور طے‬
‫نوے فی صدی لوگ جیتے ہیں‪ ،‬میں‬ ‫کر رکھا ہے کہ اب ۔۔ جیسے دنیا کے اسی ّ‬
‫بھی زندگی کروں گا۔ کسی طرح یونیورسٹی جانا ۔۔۔ طلبا کو ۔۔ پڑھانا ۔۔ کچھ ٹالنا‬
‫۔۔ کچھ وقت گزار کر آ جانا ۔۔ پھر شمشاد مارکیٹ ہے ۔ مکتبہ جامعہ ہے ۔وہاں‬
‫بزمی بھائی کے ساتھ اکثر ادیب اور شاعر ملتے رہتے ہیں۔ وہیں شامیں گزار دینا‬
‫۔ ابھی تم سیدھی گھر ہی چلو گی نا ۔۔۔۔۔ شام کو چلیں گے عرفان صاحب سے‬
‫ملنے ۔ ان کے گھر ہی ۔۔۔۔ ‘‘‬
‫کالکا میل علی گڑھ کے قریب پینچ کر سست ہو رہی تھی ۔۔۔‬

‫٭٭٭‬

‫علی گڑھ‬
‫یکم اپریل ‪73‬ء‬
‫ڈیر کہکشاں ۔۔۔۔۔۔۔‬

‫آج بہت دن بعد تم سے مخاطب ہوں ۔ علی گڑھ میں مالزمت ملنے کا تو تم کو‬
‫لکھ چکی تھی۔ اب زندگی میں کافی سکون آ گیا ہے ۔ کینڈی ہال کے النس میں‬
‫بیٹھتی ہوں تو لگتا ہے کہ یہی جنت ہے ۔ بہت خوبصورت شام ہے ۔ طلبا کے‬
‫جمگھٹ ہیں ۔ زیادہ تر لڑکیاں گانا سیکھنے آتی ہیں ۔ اور کالس کے بعد سبھی‬
‫باہر الن میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے ۔ جنید صاحب بھی اپنے‬
‫ڈپارٹمنٹ سے سیدھے آ جاتے ہیں ۔ آرٹس فیکلٹی سامنے ہی ہے ۔ ہاں ۔ میں جنید‬
‫صاحب لکھ رہی ہوں ۔۔۔ کہ بھائی کا رشتہ ختم کرنے کے لیے انہوں نے کہا ہے‬
‫۔ اب تم سے کیا شرماؤں ۔۔۔ کل شام انہوں نے پروپوز کر دیا ہے ۔ انو بھیا کو تو‬
‫میں نے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت ولولے تھے ۔ امنگیں تھیں ۔ مگر اب میں بہت‬
‫تصور بھی نہیں‬
‫ّ‬ ‫تھک چکی ہوں۔ حاالنکہ تم تو ٹیپیکل عورتوں والی باتوں کا‬

‫‪63‬‬
‫کرتی ہو۔ تم تو ‪ LIBBER‬ہو نا ۔۔۔ مگر میرا بھی اب یہی جی چاہتا ہے کہ بس اپنا‬
‫قدر مشترک ہے جس نے ہم کو واقعی بہت‬ ‫گھر ہو ۔۔۔ بچے ہوں ۔۔ یہ ہماری ِ‬
‫نزدیک ال دیا تھا ۔۔ اب جو انہوں نے پر پوز کیا ہے تو میں تم کو اپریل فول نہیں‬
‫بنا رہی ہوں۔ شاید دس برس پہلے کا زمانہ ہوتا ۔۔۔ جنید صاحب یہی بات‬
‫‪/31‬مارچ کو کہتے تو میں یہی جواب دیتی کہ بھائی یکم اپریل تو کل ہے ۔ کیا‬
‫تاریخ بھول رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟ ۔ معلوم نہیں تم بھی اسی طرح کبھی جھکو گی یا‬
‫نہیں۔۔ میں بہرحال جھک چکی ہوں ۔ اگلے ہفتے ہماری شادی ہے ۔ بھابھی ۔۔۔‬
‫عرفان صاحب کی بیوی بہت خوش ہیں ۔ بڑی امنگوں سے انہوں آج سے ہی‬
‫شادی کی ’’ تیاریاں ‘‘ شروع کر دی ہیں ۔ اور میں ۔۔۔ ان کے گھر زہرہ باغ سے‬
‫کوئی پانچ کلو میٹر دور بنّا دیوی ہی جاؤں گی تو ان کو لگ رہا ہے کہ کالے‬
‫کوسوں مجھے بیاہ دیا ہے ۔ کرن ۔ ان کی بچی کو یہ افسوس ہے اب آنٹی اس کو‬
‫سنگیت نہیں سکھا سکیں گی ۔۔ ہاں ۔۔ وہ بھی میری کالس میں آتی رہی ہے نا ۔۔۔۔‬
‫مگر شادی کے بعد میں نے واقعی یہی سوچا ہے کہ یہ مالزمت چھوڑ دوں گی ۔‬
‫اور ایک ہندوستانی ۔۔۔۔ پاکستانی ۔۔۔ بنگلہ دیشی بیوی کی طرح ۔ ماں کی طرح ہی‬
‫زندگی گزاروں گی ۔۔ خدا توفیق دے ۔۔ جب تک تم کو یہ خط ملے گا ۔۔ میں مسز‬
‫صبیحہ جنید ہو چکی ہوں گی ۔۔ صرف ‪ 11‬اپریل تک ہی میں صبیحہ اعظم ہوں ۔‬
‫مگر تمہاری ہمیشہ کی ۔۔۔ محض‬
‫صبیحہ‬

‫٭٭٭‬
‫‪/16‬جنوری ‪1974‬ء‬

‫آج اتفاق سے فرحان صاحب سے مالقات ہو گئی ۔۔ حسن پور میں ہمارے گھر‬
‫کے پاس ہی ان کا گھر تھا جس میں ان کے بوڑھے والد رہتے تھے اور زیادہ تر‬
‫فرحان صاحب کی بیوی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ جو کہتی تھیں کہ ہم کو روحی‬
‫آنٹی کہو ۔۔ مگر ہم لوگ ان کے یہاں جاتے ہوۓ ڈرتے تھے ۔ دلچسپی بھی کون‬
‫سی تھی ۔ ان کے یہاں ساتھ کھیلنے والے دوسرے بچے بھی نہیں تھے نا ۔۔۔۔۔‬
‫فرحان صاحب ۔۔ ان بوڑھے پروفیسر صاحب عمران صاحب کے صاحبزادے‬
‫اس وقت بھی کہیں ڈپٹی کلکٹر ہوا کرتے تھے ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ سیاست میں‬
‫کود گۓ ہیں۔ اور ان کی حکمراں پارٹی میں بڑی پوچھ ہے ۔ سنا ہے کہ شاید اتر‬
‫پردیش کے گورنر ہو جائیں ۔ ان فرحان صاحب کے صاحبزادے راحیل یہاں‬
‫آکسفورڈ میں پڑھ رہے ہیں ۔ اور فرحان صاحب نے بھی سوچا کہ اپنی فیملی‬
‫کے ساتھ لندن گھوم لیا جاۓ ۔ چنانچہ وہ لوگ یہاں آۓ ہوۓ تھے ۔ عظیم صاحب‬
‫سے کسی طرح ان کی مالقات ہو گئی تھی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ‬
‫تمہارے فیض آباد کے ہی ہیں ۔ اور جب انہوں نے پوچھ تاچھ کی اور معلوم ہوا‬
‫کہ ابّا میاں سے بھی واقف ہیں اور اپنے بارے میں بتایا تو مجھے بچپن کی بات‬
‫یاد آئی ۔۔۔ عظیم صاحب کا مالنے کا مقصد ایک اور بھی تھا۔ ۔۔۔ یہ عظیم بھائی ۔۔۔‬

‫‪64‬‬
‫کرن شری واستو بھی بڑی اونچی ہستی ہیں ۔ ساری دنیا کے کام ان سے بن‬
‫جاتے ہیں ۔ اور ہندوستان کی ہر اہم شخصیت سے ان کا رابطہ نکل آتا ہے ۔ بہر‬
‫حال بات صرف اتنی تھی کہ ان فرحان صاحب کی ایک صاحبزادی ہیں جن کے‬
‫رشتے کے لیے وہ فکر مند ہیں ۔ا اور عظیم بھائی یہ ٹِپّس ب ِھڑا رہے ہیں کہ‬
‫برخوردار انور جمیل بھی اچھا ’’لڑکا‘‘ ہے ۔ چنانچہ آج ان محترم سے میری‬
‫مالقات بھی ہو گئی ہے ۔ معلوم ہوا کہ محترمہ یوں تو ایم اے کر چکی ہیں ۔‬
‫سوشیالوجی میں ۔ مگر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی‬
‫تہذیب اور ادب اور فن کے کوئلے سے ہاتھ کالے نہیں کیے ۔ مشغلہ پوچھا تو‬
‫معلوم ہوا کہ کشیدہ کاری اور باورچی خانہ ۔ روحی آنٹی بھی اب چچی جان کی‬
‫طرح نمازی ہو گئی ہیں ۔ بہر حال ۔۔۔ شام کو پھر عظیم بھائی ملے تھے ‪ ،‬بلکہ‬
‫خود ہی گھر آۓ تھے کہ میر ے ’ہاں‘ کہنے کی صورت میں فرحان صاحب‬
‫نیشنیلٹی وغیرہ کے سارے جھنجھٹ بحسن و خوبی دور کروا دیں گے اور لکھنؤ‬
‫یونیورسٹی میں پروفیسر شپ بھی ان کے ہی ہاتھ ہیں ہے ۔ یہاں لندن آ کر بھی‬
‫مجھے مایوسی ہی ہوئی ہے ۔ کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ واپس پاکستان‬
‫چال جاؤں ۔ مگر اب واقعی اگر واپس ہندوستان ہی چال جاؤں تو کیسا رہے ۔۔۔ یہ‬
‫ریحانہ ۔۔ جو کہ ان محترمہ کا نام ہے ۔ جس نے نہ کوئی خواب دیکھے ہیں اور‬
‫نہ خواب ٹوٹنے کا شکار ہے ۔ یا اگر خواب بھی دیکھا ہو تو محض یہی کہ کسی‬
‫فارن ریٹرنڈ سے ان کی شادی ہو جاۓ کہ زندگی مالی آسائشوں کے ساتھ گزرے‬
‫۔ اچھی ساریاں ۔ زیورات ۔ میک اپ بھی شاید کرنے لگیں شادی کے بعد ۔ کون‬
‫جانے ۔۔ غرض ۔۔۔۔ مختصر یہ کہ میں نے ابھی ابھی شام کو سات بج کر بارہ‬
‫منٹ پر عظیم بھائی سے ’ہاں‘ کہہ دی ہے ۔۔۔تمت بالخیر۔‬
‫٭٭٭‬

‫‪65‬‬
‫شاید کہ بہار آئی‬
‫پھر موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی‬

‫شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی‬

‫(میر )‬
‫ؔ‬

‫‪66‬‬
‫’’ صبّی ! ‘‘‬
‫’’ اوہو ۔۔۔ آج آپ جلدی آ گۓ ۔۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ ہاں لنچ کے بعد ایک ہی پیریڈ تو تھا ۔۔۔۔۔‘‘‬
‫’’چاۓ ابھی بناؤں ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ ہاں ہاں ‪ .......‬بھئی ۔۔۔ بنا الؤ ۔۔۔ بعد میں پھر ایک دور ہو سکتا ہے ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ اچھا ۔۔ یہ انو بھائی کا خط پڑھیے ۔۔۔ میں تب تک چاۓ بنا کر التی ہوں ‘‘‬
‫جنید نے کوٹ اتار کر ہینگر پر لٹکاتے ہوۓ صبیحہ کے ہاتھ سے خط لیا۔‬
‫صبیحہ نے کوٹ اندر وارڈ ادب میں لے جا کر لٹکا دیا ۔۔۔ اور خود کچن میں چلی‬
‫گئی ۔۔۔۔‬
‫جنید نے کپڑے بدلنے کے ارادے کو کچھ موقوف کر دیا اور ویسے ہی آرام‬
‫کرسی پر بیٹھ کر خط کھوال۔‬
‫لکھنو ۔۔‬
‫‪/13‬دسمبر ‪79‬ء‬
‫مائی ڈیر جنید اور صبیحہ‬
‫خدا تم کو خوش و خرم رکھے ۔ اور ہم کو بھی ۔۔۔‬
‫یہ خط محض اس اطالع کے لیے لکھ رہا ہوں کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ہم‬
‫لوگوں نے علی گڑھ آنے کا پالن بنا لیا ہے ۔ آخر عرصہ ہو گیا ہے ہم کو ملے‬
‫ہوۓ ۔ ریحانہ بھی بہت دن سے کہہ رہی تھیں اور بچے ۔۔۔ راحت اور تسکین‬
‫دونوں ہی ہمیشہ چھٹیوں میں کہیں باہر جانے کا کہتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ تو‬
‫سمندر دیکھنا چاہ رہے تھے ویسے کہ بمبئی یا کلکتہ چلیں ۔ مگر جب ریحانہ‬
‫نے علی گڑھ کا کہا تو یہ لوگ بھی خوش ہو گئے ہیں ۔ گڈو اور فردوس کی‬
‫تصویریں ان لوگوں نے دیکھی ہیں نا ۔۔۔‬
‫اب باقی باتیں مالقات پر ہی ہوں گی ۔۔۔ گڈو اور فردوس کو پیار کرو ۔۔۔‬
‫تمہارا ہی‬
‫انور‬
‫خط رکھ کر جنید نے انگڑائی لی ۔۔ صبیحہ چاۓ لے آئی تھی ۔۔ دونوں ڈرائنگ‬
‫روم میں ہی بیٹھ کر چاۓ پیتے رہے ۔‬
‫’’ گڈو وغیرہ اب تک نہیں آۓ گیا ۔۔۔۔۔ ؟‘‘‬
‫’’آپ کو یاد نہیں رہا کیا ۔۔۔۔ ان کے اسکول کا فنکشن ہے نا پرسوں کچھ ڈرامے‬
‫وغیرہ کی ریہرسل ہے ۔ کل پرنسپل نے پرچہ بھجوایا تھا نا کہ بچوں کو ایک‬
‫گھنٹہ بعد بھجایا جاۓ گا ۔۔۔ اور ابھی تو ساڑھے تین ہی بجے ہیں ‘‘‬

‫‪67‬‬
‫کچھ دیر تک خاموشی دونوں کے درمیان بولتی رہی۔۔۔‬
‫’’ صبی۔۔۔‘‘‬
‫’’ جی ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ یہ بولو کہ تم ۔۔۔ تم نے کوئی قربانی تو نہیں دی نا ۔۔۔۔۔‘‬
‫’’ نہیں تو ۔۔۔۔ کیسی قربانی ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ وہ اس لیے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ تم اب محض ایک بیوی اور ماں ہو کر رہ‬
‫گئی ہو ۔۔ تان پورے کو کب سے ہاتھ نہیں لگایا ۔۔۔ ‘‘‬
‫’’لیجیے ۔‘‘ صبیحہ ہنس دی ۔ ‘‘ وہ نوجوانی تک کی باتیں تھیں ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ تو ابھی کون سی بوڑھی ہو گئی ہو ۔۔۔۔ آج تمہاری کوئی غزل سننے کو جی‬
‫چاہ رہا ہے ۔ کتنے دن ہو گئے ہیں ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’مذاق مت کیجیے ۔۔۔۔‘‘‬
‫’’ ارے بھئی میں سنجیدہ ہوں ۔۔ سو فی صدی ۔۔۔ اپنے تمام ہوش و حواس میں ۔۔‬
‫چلو شاباش ۔۔ اچھی بچی۔‘‘ صبیحہ ہنستے ہوۓ اٹھ گئی ۔۔۔ کونے میں ہی تان‬
‫پورہ رکھا تھا۔۔۔۔‬
‫تان پورے کے تار ٹھیک کرتے ہوۓ اس نے پوچھا ۔۔ ’’ کون سی غزل سناؤں‬
‫۔۔۔‘‘‬
‫’’ کوئی کالسیکی ۔۔۔ میر یا غالب کی۔۔۔۔۔‘‘‬
‫تان پورے کے تار ٹیون ہو گئے تھے ۔ اور جے جے سنتی کے سروں میں غزل‬
‫کمرے میں گونج رہی تھی ۔‬
‫’’ پھر موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی‬
‫شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی۔۔۔‘‘‬
‫باہر رکشا کی گھنٹی کی آواز سنائی دی ۔۔۔‬
‫’’ لو ۔۔یہ شیطان آ گئے تمہارے ۔۔۔ اب کیا غزل ہوگی ۔۔۔۔‘’ جنید نے بے دلی سے‬
‫کہا ۔‬
‫’’ ممی ۔۔ پا پا ۔۔۔ آج خوب مزا آیا ۔۔۔۔۔‘‘‬
‫گڈو بے حد اکسائٹیڈ تھا ۔۔۔ فردوس رکشا کے دوسرے بچوں کو ہاتھ ہال کر ٹا ٹا‬
‫کر رہی تھی ۔ لیڈی فاطمہ اسکول میں پڑھنے والے عالقے کے بارہ پندرہ بچوں‬
‫سے بھرا رکشا ۔۔ غفار میاں نے پھر گھنٹی بجائی اور موڑ کاٹا ۔۔ اور نظروں‬
‫سے اوجھل ہو گئی ۔۔۔ پھر فردوس نے ایک اور بچی کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اور گھر‬
‫کے اندر لے آئی۔۔۔‬
‫’’ممی ۔۔۔ یہ کہکشاں ہے ۔۔۔ ہمارے ساتھ ہی پڑھتی ہے ۔ اس کے ڈیڈی کا گھر‬
‫بھی یہاں پاس میں ہی ہے ۔ ہم اس کے ساتھ کھیلیں ۔۔۔۔ ‘‘‬
‫’’ کپڑے نہیں بدلنے ہیں کیا ۔۔۔ ہاتھ مونہہ دھونے کا بھی ارادہ نہیں لگتا شاید‬
‫۔۔۔‘‘‬

‫‪68‬‬
‫دس منٹ بعد صبیحہ پھر ڈرائنگ روم میں آئی ۔۔ جنید اسی طرح بیٹھا ہوا تھا۔‬
‫صبیحہ نے تان پورہ اٹھا کر پھر اسی کونے میں رکھ دیا اور پاس ہی کرسی پر‬
‫بیٹھ گئی۔۔۔‬
‫پیچھے کے برامدے سے گڈو فردوس اور کہکشاں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔۔‬
‫’’ یہ دیکھو بھائی ۔۔۔ ہم کو تو یہ سیڑھی مل گئی ۔۔۔ ہم تو سات سے ‪ 23‬تک چڑ‬
‫ھ گئے ‘‘‬
‫’’ اونہہ ۔۔۔ دو ہی آۓ ۔۔۔۔۔ ‘‘‬
‫’’ یہ چھ ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ یہ پانچ ۔۔۔ ایک دو تین چار پانچ چھ ۔۔ اور ایک دو تین‬
‫چار پانچ ۔۔۔ ارے ۔۔۔ پھر یہ سانپ نے نگل لیا ۔۔۔۔۔۔‘‘‬
‫’’سن رہے ہیں نہ جنید صاحب ‘‘‬
‫’’ ہاں صبیحہ ۔۔ دعا کرو کہ یہ لوگ ۔۔۔ یہ لوگ خواب نہ دیکھیں ۔۔۔۔‘‘‬
‫برامدے میں سانپ سیڑھی کا کھیل زوروں سے جاری تھا ۔‬

‫٭٭٭‬
‫ٹائپنگ‪ :‬اعجاز عبید‪ ،‬مخدوم محی الدین‬
‫کاپی رائٹ سے مکمل آزاد۔ گنو فری اکیومینٹ الئسینس‬
‫ای بک‪ :‬اعجاز عبید‬

‫‪69‬‬

You might also like