You are on page 1of 3

‫لوگوں سے مانگنے ‪ /‬سوال کرنے کی مذمت‬

‫‪١‬۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ” جو شخص سوال سے بچے ہللا بھی اسے‬
‫بچائے گا اور جو کوئی (دنیا سے) بے پروائی کرے گا۔ ہللا اسے بے پروا کر دے گا اور جو‬
‫کوئی کوشش سے صبر کرے گا ہللا اسے صبر دے گا اور صبر سے بہتر اور کشادہ تر کسی‬
‫کو کوئی نعمت نہیں ملی۔” (بخاری کتاب الزکٰو ۃ‪ ،‬باب االستعفاف عن المسئلہ)‬
‫‪ ٢‬۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ‪ :‬اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری‬
‫جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر الد کر الئے تو یہ‬
‫اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔” (بخاری۔ حوالہ‬
‫ایضًا)‬
‫"سیدنا ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫”جب آدمی اپنے لیے (لوگوں سے) سوال کرنے کا دروازہ کھولتا ہے تو ہللا تعالٰی اس پر فقر‬
‫و فاقہ کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ اگر آدمی رسی لے کر‪ ،‬کسی پہاڑ (جنگل) میں چال جائے‪،‬‬
‫لکڑیاں اکٹھی کر کے اٹھا الئے اور ان (کو فروخت کر کے ان) کے ذریعے اپنے کھانے کے‬
‫سامان کا بندوبست کرے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے‪،‬‬
‫اسے کچھ دیا بھی جائے یا نہ دیا جائے۔“‬
‫)سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی ۔(‪2543‬‬
‫‪ ٣‬۔ حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ‪ :‬سوالی جو ہمیشہ لوگوں‬
‫سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک‬
‫بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری‪ ،‬کتاب الزکٰو ۃ باب من سال الناس تکثرا)‬
‫‪ ٤‬۔ حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم لوگوں کو‬
‫منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ” اوپر واال‬
‫ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے واال ہے اور نیچے‬
‫واال ہاتھ مانگنے واال ہاتھ ہے (ابو داؤد‪ ،‬کتاب الزکٰو ۃ‪ ،‬باب ما تجوز فیہ المسئلہ)‬
‫‪ ٥‬۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ‪ ” :‬جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے‬
‫لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا‬
‫زیادہ اکٹھے کر لے (مسلم‪ ،‬کتاب الزکٰو ۃ‪ ،‬باب النھی عن المسئلہ)‬
‫‪ ٦‬۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ کے پاس آ کر سوال کیا۔ آپ نے اسے‬
‫پوچھا ” تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟” وہ کہنے لگا۔ ”ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔”‬
‫آپ نے فرمایا ‪ :‬یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔” وہ لے آیا تو آپ نے ان کو ہاتھ میں لے‬
‫کر فرمایا ‪ :‬کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا ‪ ” :‬میں ایک درہم میں‬
‫لیتا ہوں۔” آپ نے فرمایا ‪ :‬ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟” اور آپ نے یہ بات دو تین بار‬
‫دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا ‪ ” :‬میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔” آپ نے دو درہم لے کر‬
‫وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔‬
‫اب آپ نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا ‪ :‬اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید‬
‫اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس الؤ۔ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپ نے‬

‫‪1/3‬‬
‫اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا ‪ :‬جاؤ جنگل سے‬
‫لکڑیاں کاٹ کر یہاں ال کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔”‬
‫پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور‬
‫آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپ نے فرمایا ‪ :‬یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت‬
‫کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔”‬
‫(نسائی کتاب الزکٰو ۃ باب فضل من الیسئل الناس شیأا )‬
‫اب دیکھئے کہ جس شخص کے گھر کا اثاثہ ایک ٹاٹ اور پیالہ ہو کیا اس کے محتاج ہونے‬
‫میں کچھ شک رہ جاتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ معذور نہیں بلکہ قوی اور کمانے کے قابل تھا۔ لہذا‬
‫آپ نے اسے کچھ دینے کے بجائے دوسری راہ تجویز فرمائی‪ ،‬پھر اسے عزت نفس کا سبق‬
‫دے کر کسب حالل اور محنت کی عظمت و اہمیت بتالئی۔ جس سے وہ چند دنوں میں آسودہ‬
‫حال ہو گیا‪ ،‬یہ تھا آپ کا انداز تربیت و تزکیہ نفس۔‬
‫‪ ٧‬۔ حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو‬
‫مجھے یہ ضمانت دے کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرے گا تو میں اس کو جنت کی ضمانت‬
‫دیتا ہوں۔” ثوبان کہتے ہیں کہ میں نے کہا ‪ :‬میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں” چنانچہ اس‬
‫کے بعد انہوں نے کبھی کسی سے سوال نہ کیا۔‬
‫(نسائی‪ ،‬کتاب الزکٰو ۃ‪ ،‬باب فضل من ال یسئل الناس شیأا)‬
‫‪٨‬۔ عرفہ کے دن ایک شخص لوگوں سے مانگ رہا تھا۔ حضرت علی رضی ہللا عنہ نے سنا تو‬
‫اسے کہنے لگے ” آج کے دن اور اس جگہ تو ہللا کے سوا دوسروں سے مانگتا ہے؟” پھر‬
‫اسے درے سے پیٹا۔ (احمد بحوالہ مشکٰو ۃ باب من الیحل لہ المسئلہ فصل ثالث)‬
‫‪ ٩‬۔ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم لوگوں میں صدقہ کا مال تقسیم فرما‬
‫رہے تھے دو آدمی آپ کے پاس آئے اور آپ سے صدقہ کا سوال کیا۔ وہ خود کہتے ہیں آپ‬
‫نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا‪ ،‬پھر نگاہ نیچی کی آپ نے ہمیں قوی اور طاقتور دیکھ کر فرمایا ‪:‬‬
‫اگر تم چاہو تو تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ کے مال میں مالدار اور قوی کا کوئی حصہ نہیں‬
‫جو کما سکتا ہو۔”‬
‫(ابو داؤد‪ ،‬نسائی‪ ،‬کتاب الزکٰو ۃ‪ ،‬باب مسئلہ القوی المکتسب)‬
‫‪ ١٠‬۔ ایک دفعہ آپ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر صدقہ کا‬
‫سوال کیا تو آپ نے اسے فرمایا ‪” :‬صدقات کی تقسیم کے بارے میں ہللا تعالٰی نبی یا کسی‬
‫دوسرے کے حکم پر راضی نہیں ہوا بلکہ خود ہی اس کو آٹھ مدات پر تقسیم کر دیا ہے۔ اب‬
‫اگر تو بھی ان میں شمار ہوتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔ (حوالہ ایضًا)‬
‫‪ ١۱‬۔ عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم سات آٹھ آدمی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫پاس تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ” ہللا کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ پانچ‬
‫نمازیں ادا کرو اور ہللا کی فرمانبرداری کرو اور ایک بات چپکے سے کہی کہ ” لوگوں سے‬
‫کچھ نہ مانگنا۔” پھر میں نے ان میں بعض افراد کو دیکھا کہ اگر اونٹ سے ان کا کوڑا گر‬
‫پڑتا تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں پکڑا دے (کتاب الزکٰو ۃ باب النہی عن المسئلہ)‬
‫‪ ١۲‬۔ حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ‬
‫نے مجھے دے دیا۔ پھر ایک دفعہ مانگا تو آپ نے دیا۔ پھر فرمایا ‪ ” :‬اے حکیم! یہ دنیا کا مال‬

‫‪2/3‬‬
‫دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں میٹھا ہے لیکن جو اسے سیر چشمی سے لے اس کو تو‬
‫برکت ہوگی اور جو جان لڑا کر حرص کے ساتھ لے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال‬
‫ایسی ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر واال (دینے واال) ہاتھ نچلے ہاتھ (لینے‬
‫والے) سے بہتر ہوتا ہے۔” حکیم کہنے لگے ‪ ” :‬یا رسول ہللا! اس ذات کی قسم! جس نے آپ‬
‫کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ میں آج کے بعد مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔”‬
‫(پھر آپ کا یہ حال رہا کہ) حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا عنہ آپ کو ساالنہ وظیفہ دینے‬
‫کے لیے بالتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے بھی اپنے‬
‫دور خالفت میں انہیں وظیفہ دینے کے لیے بالیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ حضرت عمر‬
‫رضی ہللا عنہ حاضرین سے کہنے لگے ‪” :‬لوگو! تم گواہ رہنا میں حکیم کو اس کا حق جو‬
‫غنائم کے مال میں ہللا نے رکھا ہے دیتا ہوں اور نہیں لیتا۔” غرض رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم سے کئے ہوئے عہد کا اتنا پاس تھا کہ انہوں نے تاحین حیات سوال تو درکنار کسی سے‬
‫کوئی بھی چیز قبول نہیں کی۔ (بخاری‪ ،‬کتاب الوصایا‪ ،‬باب تاویل قول ہللا تعالٰی من بعد وصیہ‬
‫توصون بھااودین)‬
‫سوال کرنا کس کے لئے جائز ہے؟‬
‫حضرت قبیصہ بن مخارق کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ‪” :‬یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے‬
‫پاس صدقہ آئے۔ پھر ہم تیرے لیے کچھ کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا ‪:‬‬
‫قبیصہ! تین شخصوں کے عالوہ کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور‬
‫ضمانت اس پر پڑ جائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر‬
‫رک جائے۔ دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے کہ اس کا سارا مال تباہ کردے وہ اس حد تک‬
‫مانگ سکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی‬
‫نوبت آ گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معتبر شخص اس بات کی گواہی دیں کہ فالں‬
‫کو فاقہ پہنچا ہے اسے سوال کرنا جائز ہے تا آنکہ اس کی محتاجی دور ہو جائے۔ پھر فرمایا ‪:‬‬
‫اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا‬
‫جو شخص سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔” (مسلم‪ ،‬کتاب الزکٰو ۃ باب من الیحل لہ‬
‫المسئلہ )‬
‫‪https://forum.mohaddis.com/threads/29868‬‬ ‫موالنا عبدالرحٰم ن کیالنی کی تفسیر تیسیر القرآن سے ماخوذ‬

‫‪3/3‬‬

You might also like