Professional Documents
Culture Documents
تفسیر قرآن میں ام المؤمنین سیدۃ عائشه کا مقام - Religion
تفسیر قرآن میں ام المؤمنین سیدۃ عائشه کا مقام - Religion
االیضاح مجلہ
عبد،المتین مصنف
32 جلد
1 شمارہ
2016 سال
144-155 صفحات
مکمل مقالہ
1 شمارہ۔,32 عبد۔ "تفسیر قرآن میں ام المؤمنین سیدۃ عائشه کا مقام۔" االیضاح،المتین
16 شکاگو
)۔2016(
Abstract
Quran is the absolute and error free source of knowledge for all mankind. The words and
meanings of the Quran both have been revealed by Allah and will remain unchanged for ever. The
holy Quran was explained by the Holy prophet and by sahaba as well. Later on different scholars
of Islam have made notable contribution in this regard. Many companions of the Holy prophet
are famous in the explanation of the Holy Quran. Although Syyeda Aeshah is famous in the field
of Hadith but she is one of most prominent Mufassrah of the Quran too. She has deep and
correct knowledge of the Holy Quran. In this Article the status of Sayyedah Aesha in the field of
tafseer has been discussed. Hopefully the readers will get useful information from this Article
قرآن اور سنت کی روشنی میں انبیاء کے بعد صحابہ کرام کا مقام ہے۔سارے انبیاء اللہ کے مقربین ہیں لیکن ان کے درمیان
) یہ253 :2(سورۃ البقرۃ،، مراتب میں تفاوت مو جود ہے جیسا کہ ارشاِد باری تعا لی ہے" ِت ْلَك الُّر ُس ُل َف َّض ْلَنا َبْع َض ُه ْم َع َلى َبْع ٍض
اسی طرح تمام صحابہ کرام قابل احترام ہیں لیکن،، رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضلیت عطا کی ہے
مراتب کے لحاظ سے ان کے درمیان تفاوت ہے ان میں بعض سابقین االولین ہیں جب کہ دوسروں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے
۔ ان میں سے بعض کو غزوہ بدر میں شمولیت کا موقع مال ہے جب کہ سب کو یہ موقع حاصل نہیں ہوا۔ بعض صحابہ کو
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور دوسروں کو یہ مقام حاصل نہیں ہے اسی طرح ان
میں سےبعض نے فتح مکہ سے پہلے اسالم قبول کیا اور دوسرے
فتح مکہ کے بعد مشرف باسالم ہو ئے تھے۔ اللہ تعا لی کا ارشاد ہے:
Al-Idah
"اَل َي ْس َت ِو ي ِم نُكم َّم ْن َأ نَف َق ِم ن َق ْب ِل اْلَف ْت َو َق اَت َل ُأ ْو َلِئَك َأ ْع َظ ُم َد َرَج ًة
ِح االیضاح
ِّم َن اَّلِذ يَن َأ نَف ُق وا ِم ن َبْع ُد َو َق اَت ُلوا َو ُكاًّل َو َع َد اُهَّلل ا ُح ْس َنى (سورۃ
ْل
Volume 32 Issue 1
الحدید)10 :57تم میں وہ لوگ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق
کیا ہے اور قتال کیا ہے وہ دوسرں کے برابر نہیں ہیں بلکہ ان کا
Contents
درجہ ان سے بڑا ہے جنہوں نے بعد میں انفاق اور قتال کیا ہے اور
عصرحاضر کے تقاضوں کے تناظر میں جامعات دینیہ
اللہ تعا لی نے ان سب کے ساتھ بھالئی کا وعدہ کیا ہے ،،
کا قضیہ :عملی تجاویز
اسی طرح صحابہ کرام میں امہات المؤمنین کا امتیازی مقام ہے
طبی میدان عمل میں ضرورت کی بنیاد پر رخصت
جن کے بارے میں اللہ تعا لی کا ارشاد ہے َيا ِن َس اء الَّن ِبِّي َلْس ُت َّن َكَأ َح ٍد
ِّم َن الِّن َس اء" (سورۃ االحزاب)6 :33اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کا اطالق
ازواج تمھارا مقام عام عورتوں کی طرح نہیں ہے ،،اور ایک جگہ
تعلیمی نظام کی اصالح کے بارے میں امام بخاری کا
ارشاد ہے؛ الَّن ِب ُّي َأ ْو َلى ِب اْلُم ْؤ ِم ِن يَن ِم ْن َأ نُف ِس ِه ْم َو َأ ْز َو اُج ُه ُأ َّم َه اُت ُه ْم "
نظریہ
(سورۃاالحزاب،،)6 :33نبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنین کے لئے ان
کی جا نوں سے بھی زیادہ اولی (معزز) ہےاور آپ کی ازواج فلسفہ احکام میراث
مؤمنوں کی مائیں ہیں ،،لیکن ازواج مطہرات میں سیدۃ عائشه
ریاست کے اداراتی مقاصد کے تناظر میں نظریہ
الصدیقۃکو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔آپ کی والدت شوال بمطابق
انفرادیت اور اجتماعیت پسندی
جوالئی 614ء مکہ مکرمہ میں ہوئی ،ان کے والد خلیفہء اول
ابوبکر الصدیق ہیں جب کہ آپ کی والدہ کا نام ام رومان ہے۔رسول ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا:
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نکاح نبوت کے دسویں سال ہوا احوال و خدمات کا تحقیقی مطالعہ
تھا۔ سیدۃ عائشه نے مسلمان ماں باپ کے گود میں آنکھیں کھولیں
اور رسول اللہ کی محبوب ترین رفیقہء حیات تھیں([)]1 شریعت اسالمی میں رسم و رواج کے ساتھ تعامل کا
سیدۃعائشه نہایت ذہین،فطین،عقل مند اور بارک بین تھیں آپ کو جائزہ :مختلف اسالمی ادوار کی روشنی میں
دینی مسائل کےاجتہاد واستنباط میں ایک منفرد مقام حاصل تھا۔
تفسیر قرآن میں ام المؤمنین سیدۃ عائشه کا مقام
احادیث کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت عائشه
کوحدیث میں بہت مہارت حاصل تھی۔عام طور آپ کو حدیث میں اشیاء خورد و نوش و ادویہ میں جالٹین کے
مہارت کے طور پر ما نا جا تا ہے لیکن تفسیِرقرآن کو مطالعہ کرتے استعمال کا طریقہ کار اور اس کا شرعی جائزہ
ہوئے یہ بات منکشف ہوجا تی ہے کہ آپ ایک بہترین مفسرہء قرآن
بھی ہیں ۔ اسی لئے رسول اللہ نے ارشاد فر مایا "فضل عائشة علی عقیدہ تناسخ اور عہد الست میں فرق کے حوالے سے
النساء کفضل الثرید علی سائر االطعمة " )]2[(،عائشه کو دیگر تمام امام رازی کے موقف کا جائزہ
عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسا کہ ثرید کو دیگر تمام
اسالمی تعلیمات کی روشنی میں مروجہ پاکستانی
کھانوں پر فوقیت حاصل ہے.
ٹریفک قوانین کی پاسداری کی اہمیت
اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ سیدہ عائشه کو قرآن
أعالم النثر العربي في شبه القارة الهندية
مجید کی تفسیر میں جو مقام حاصل ہے وہ واضح ہو جا ئے اور وہ
نکات اور اجتہادات منکشف ہو جائیں جو سیدۃ عائشه سے قرآن
کی تفسیر میں منقول ہیں ۔ بعض قرآنی آیات کی تفسیر میں آپ موقف محمود سامي البارودي ومحمد إقبال من
کو تفرد بھی حاصل ہے۔ السياسة :دراسة تحليلية وموازنة
سیدۃ عائشه کی تفسیری نکات المحاسن البالغية واألدبية في األحاديث النبوية في
كتاب الفرائض
خشیِت اٰل ہی :سورۃ مؤمنون کی ایک آیت میں اللہ تعا لی کا ارشاد
المحكم والمتشابه وموقف المفسر منهما
ہے(َو ُق ُلوُب ُه ْم َو ِج َلٌة ) (سورۃ المؤمنون )60: 23آپ نے اس کی تشریح
میں فر ما یاہے ُه ُم اَّلِذ ْي َن َي ْخ َش ْو َن اَهّلل َو ُي ِط ْي ُع ْو َن ه" ([)]3 الجملة المعترضة فى القرآن الكريم :دراسة بالغية
"یہ وہ (ایما ندار)لوگ ہیں جو اللہ تعا لی سے ڈرتے ہیں اور اس کی The Analytical Study of Well Thought-Out
اطاعت کرتے ہیں ،،۔ یہاں انہوں نے َو ِج َلٌة ،،کا معنی صرف خشیت
Legitimate Pakhtun’s Trends Regarding
نہیں بیان کیا بلکہ اس کے ساتھ اطاعت کو بھی مشروط کیا ہے ،
Marriage Binding Shariah Perspective
کیوں کہ وہ خشیت جس میں اطاعت نہ ہو یہ تو شیطن کو بھی
حاصل ہے جس کا ذکر سورۃ االنفال کی آیت 48میں آیا ہے۔ یہاں Lunar Calendar and Ramadan Effect on
حضرت عائشه نے باریک نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نجات کے Islamic Mutual Funds Performance in
لئے صرف خشیت کا فی نہیں ہے بلکہ اس کےساتھ اللہ تعا لٰی کی Pakistan
اطاعت بھی ضروری ہے۔قرآن میں وجلۃ ،،کا لفظ صرف خوف کے
Concept of Peace and Harmony in the
لئے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السالم کے
Buddhism amd Islam: A Comparative
پاس جب فرشتے آئے اور انہوں نے آپ سے کہا ال َت ْو َج ْل ِإ َّن ا ُن َب ِّش ُر َك
Study
ِب ُغ الٍم َع ِل يٍم " (الحجر )53:آپ خوف زدہ نہ ہوبے شک ہم آپ کو ایک
علیم بیٹے کی خوشخبری دینے والے ہیں ،،لیکن سورۃ المؤمنون Social Media and Cyber-Jihad in
میں سیدۃعائشه نے اس لفظ کا جو مفہوم بیان کیا ہے وہ جامع ہے Pakistan
جس میں عموم ہےاور قرآن کے عمومی تعلیمات کے عین مطابق ہے
کیوں کہ صرف خوف نجات کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ خوف مفید اور Economic Facilities for Non-Muslims in a
نجات کا ذریعہ بن سکتاہے جس میں طیِب خاطر اور حقیقی Muslim Country in the Light of Quran and
محبت کے ساتھ اللہ کی اطاعت بھی ہو۔ Sunnah
سورۃ نور کی آیت ِإ اَّل َم ا َظ َه َر ِم ْنَه ا(،،سورۃالنور ) 31:کی تفسیر میں Relationship Between Quality Culture
آپ نے ارشاد فر ما یا ’’َم ا َظ َه َر ِم ْنَه ا:الوجہ والکفین ،،کہ عورت کے and Organizational Performance With
لئے چہرہ اور دونوں ہاتھ حجاب کے حکم سے مستثنٰی ہیں یعنی Mediating Effect of Competitive
عورت کے لئے غیر محرم سے ان کا چھپا نا الزم نہیں ہے۔[ ]4حنفیہ Advantage
کے نزدیک بھی عورت کے لئے حجاب کا یہی حکم ہے جس کی
Allama Sahabbir Ahmed Uthmani’s
تفصیل فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ" كتاب الكراهية میں موجود ہے۔
Efforts for Islamization in Pakistan
لیکن علماء نے اس کے ساتھ یہ تصریح بھی کی ہے کہ جہاں فتنہ
کا خوف ہو تو وہاں چہرے کا پردہ بھی الزم ہے۔[ ]5واقعہء افک Time Management in Islam
میں سیدہ عائشه کےاپنے عمل سے بھی یہ ثابت ہو تا ہے کہ غیر
Muslim-Christian Relationship in the
محرم سےچہرے کو چھپانا شریعت کا حکم ہے۔ کیونكه ایک سفر
Context of Status of Prophet
سے واپسی پر جب حضرت عائشه قافلہ سے پیچھے رہ گئی تھیں
Muhammad SAW
اور بعد میں حضرت صفوان آئے اور انہوں نے انا للہ وانا الیہ
[]6
راجعون پڑھا تو حضرت عائشہ نے ان سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔
جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ جہاں فتنے کا ڈر ہو توعورت کے لئے غیر محرم سےچہرے کو چھپا نا چاہئے۔یہاں تک کہ عورت
کے لئے یہ بھی جائزنہیں کہ خوشبو لگا کر گھر سے با ہر نکلے کیونكه اس میں فتنہ ہے اور فتنہ سے بچنا الزم ہے۔
یہ کوثرجنت میں ایک نہر کا نام ہے جو کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا ہے ،،لیکن بعض روایات کے
مطابق کوثر کا معنٰی خیِر کثیرہے جب کہ بعض روایات کی روشنی میں اس سے ہر خیر مراد ہےاور بعض کے مطابق کوثر
محشرکے میدان میں پانی کا ایک خاص حوض ہوگا۔کوثر کے لفظ میں اگر چہ عموم ہے لیکن اکثر احادیث سے معلوم ہو تا
ہے کہ یہ جنت میں ایک خاص نہر کا نام ہے اورمیدان محشر میں حوض کوثر کا پانی بھی اسی نہر کاپانی ہے۔
سورۃ التحریم میں حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیو ں کے نام کا ذکر آیا ہے لیکن ان کے ناموں کا تذکرہ اللہ تعا لٰی نے
نہیں کیا ،اس لئے سیدۃ عائشه نے اس کی وجہ دریافت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا"
ليغضهمااس لئے کہ اللہ ان کےنام ظاہر نہیں کر نا چا ہتا ،،اس کے بعد سیدۃ عائشه نے پو چھا کہ ان کےکیا نام ہیں؟ جواب
دینے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل امین حاضر ہو ئے اور فرما یا کہ نوح علیہ السالم کی بیوی کا نام
والغۃ ،،تھا اور سیدنا لوط کی بیوی کا نام والھۃ ،،تھا۔ اس سے سیدۃ عائشہ کاقرآن کی تفسیر کے متعلق شغف کا بخوبی
اندازہ لگا یا جا سکتا ہے اور اس سے آپ کا ُر تبہ اور مقام بھی واضح ہو گیا کہ ان کے استفسار پر اللہ تعا لی کی جا نب سے
جبریل کو ارسال کیا گیا ۔([)]8
اللہ تعا لی کے دیدارکے بارے میں سیدۃ عائشه کا بیان ہے کہ جس نے یہ کہا کہ رسول اللہ نے اللہ کا دیدار کیا ہے تو اس نے
اللہ تعا لیٰ کے متعلق بڑا جھوٹ کہا حاالں کہ اللہ تعا لی کا ارشاد ہے ’’ َو َم ا َكاَن ِل َب َش ٍر َأ ن ُي َكِّلَم ُه اُهَّلل ِإ اَّل َو ْح ًي ا‘‘(سورۃ
الشوری )51 :42یعنی کسی بشر کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ اللہ تعا لی سے ہم کالم ہو جا ئے سوائے وحی کے ،،اور جس
نے یہ کہا کہ رسول اللہ نے اللہ کا کوئی حکم چھپا یا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھ لیا کیوں کہ اللہ تعا لٰی کا بیان ہے
کہ ’’َي ا َأ ُّي َه ا الَّر ُس وُل َب ِّلْغ َم ا ُأ نِزَل ِإ َلْي َك ِم ن َّر ِّب َك ‘‘ (سورۃ النمل )65 :27اے رسول جو کچھ آپ کی طرف نازل ہو تا ہے اس کو لو
گوں تک پہنچا دے ،،اور جس نے یہ کہا کہ رسول اللہ کو آئیندہ آنے والےکل کا علم ہے تو اس نے اللہ کے بارے میں بڑا
جھوٹ کہا کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے " ُق ل اَّل َيْع َلُم َم ن ِف ي الَّس َم اَو اِت َو اَأْلْر ِض اْلَغ ْي َب ِإ اَّل اُهَّلل َو َم ا َي ْش ُع ُر وَن َأ َّي اَن ُي ْب َع ُث وَن " (سورۃ
المائدۃ )67 :5کہو! کہ آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ کے ِس واکوئی نہیں جانتا اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں کب
ُا ٹھا یا جا ئے گا؟)]9[(،،
سیدۃعائشه کی تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعا لی کا دیدار انسان کے لئے نا ممکن ہے البتہ انبیاء اللہ تعا لی سے
وحی کے ذریعے ہم کالم ہو تے ہیں ،اور یہ کہ دیِن اسالم کے وہی طریقے معتبر ہیں جس کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم
سے مو جود ہے ۔ یہاں سیدۃ عائشه نے ان خیا الت کو مسترد کر دیا جو علم غیب کے بارے میں اختالفات ،خرافات اور
توہمات کا شکار ہیں اور اس مسئلہ کی مکمل وضاحت کردی کہ غیب کا کلی اور ذاتی علم صرف اللہ تعا لی کا خاصہ ہے ۔
حضرت عائشه نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ دین اسالم مکمل اور نا قابل تغیر ہےلہذا جو بھی اس میں اپنی طرف سے
اضافہ یا ترمیم کرے گا وہ بدعت ،ضاللت اور نا قابل قبول ہے۔کیوں کہ دین کےتمام احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے انسانوں تک پہنچا دئے ہیں اور اس سلسلے میں آپ نے قطعا کوئی کو تا ہی نہیں برتی ۔
سیدۃ عائشه نےایک دفع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر دریافت کیَ{:ي ْو َم ُت َب َّد ُل اَألْر ُض َغ ْي َر اَألْر ِض
َو الَّس َم َو اُت وبرزوا هلل الواحد القهار}(سورۃ ابراھیم)48 :14جس دن زمین اور (تمام) آسمانوں کو تبدیل کر دیا جا ئے گا اور
لوگ اللہ جو کہ (خدائی میں ) اکیال اور غالب ہے ،کے سامنے پیش کر دئے جا ئیں گے ،،حضرت عائشه نے پو چھا کہ پھر لوگ
کہاں ہوں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ اس آیت کی استفسارمیں آپ نے دوسروں پر سبقت حاصل
کرلی ہے۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا کہَ ،يا َع اِئ َش ُة ،الَّناُس يومئٍذ َع َلى الِّص َر اِط َ ،ف ِم ْنُه ْم من يمشي منكبًا َع َلى َو ْج ِه ِه َ ،و ِم ْنُه ْم َم ْن
َيْم ِش ي َس ِو ًّي ا َع َلى صراط المستقيمَ ،و ُي ْع َط ى ُكُّل ُم ْؤ ِم ٍن َو ُم َناِف ٍق ُن وًر اَ ،ف َأ َّم ا اْلُم ْؤ ِم ُن َف َي ْب َق ى َف ُي ِض يُء َلُه ُن وُر ُه َح َّت ى ُي ْد ِخ َلُه اْلَج َّن ُة ،
َو َأ َّم ا اْلَكاِف ُر َو اْلُم َناِف ُق َف ُي َغ َّط ى ُن وُر ُه َو ُي ْخ َت َط ُف .عائشه لوگ اس دن صراط پر ہوں گے ان میں سے بعض لوگ منہ کے بل چلتے
ہوں گے جب کہ بعض صرا ط مستقیم پر ہوں گے ،اور ہر مومن اور منافق کو نور عطا کیا جا ئے گا ،مومن کا نور باقی رہے گا
اور اس کے لئے روشنی فراہم کر ےگا یہاں تک کہ اس کے روشنی میں وہ جنت میں داخل ہو جا ئے گا جب کہ کافر اور منا
فق کی روشنی بجھ کر ختم ہو جا ئے گی۔ ([)]10
اس واقعے سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسسلم نے بھی سیدۃ عائشه کی علمی معیار،ذہانت اور فطانت
کی تعریف کی اور یہ کہ علم کے حصول میں سیدۃ عائشه کو سبقت حاصل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ام المؤمنین
سیدۃ عائشه نہایت بارک بین اور دوراندیش تھیں قرآن کی آیات میں غور فرماتی تھیں اور ان سے استنباط اور استدالل
کیا کرتی تھیں جس کی ایک مثال میداِن حشر کے بارے میں آپ کا یہ استفسارہے۔
ایک دفع کسی نےسیدۃ عائشه سے{وإنك لعلى خلٍق عظيٍم }(،سورۃالقلم )4 :68کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فر مایا؛ خلقه
القرآن والعمل بما فيه .آپ کے اخالق قرآن اور اس پر عمل کر نا ہے )]11[( ،،
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کی عملی شکل اپنے اخالق کی صورت میں پیش کر دی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی سیرت در حقیقت قرآن کی عملی تفسیر ہے اگر کسی نے قرآن پر عمل کر نا ہے تو اس کے لئے الزم ہے کہ آپ کی سیرت کا
مطالعہ کرے اوراس کی روشنی میں قرآن پر عمل شروع کرے ۔==قران کے مطابق زندگی گذارنا در حقیقت نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر نا ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر قرآن پرعمل پیرا ہو نا ممکن
نہیں ہے۔جیسا کہ قرآن کے بغیر کسی کا ایمان معتبر نہیں اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بغیر قرآن
پر عمل کر نا صرف نامکمل ہی نہیں بلکہ اس عمل کا اعتبار ہی نہیں ہے۔
{َو َلِك ْن َر ُس وَل اِهَّلل َو َخ اَت َم الَّن ِب ِّي يَن }(سورۃ االحزاب ))10 :33اس آیت کی تفسیر میں حضرت عائشه نے ختم نبوت کی تشریح
میں فر ما یا کہ یوں نہ کہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی نہیں بلکہ یو کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم
النبیین ہیں )]12[( .آپ نےختم نبوت کے متعلق تمام شبہات کا ازالہ کر دہا ،جیساکہ ماضی میں بعض متنبیوں (جھوٹے
مدعیان نبوت)نے ظلی اوربروزی نبی ہو نے کا دعوٰی کیا تھا اس تفسیر سے اس طرح کے تمام جھوٹے مدعیاِن نبوت کی
ہمیشہ کے لئےتردید کر دی گئی۔
(َو اَل َتْق َر ُبوُه َّن َح َّت ى َي ْط ُه ْر َن ) کی تفسیر میں یہ روایت نقل کی گئی ہے " أن ابن عمر رضي اهلل عنهما أرسل إلى عائشة رضي
اهلل عنها يسألها" :هل يباشر الرجل امرأته وهي حائض؛ فقالت :لتشدد إزارها على أسفلها ثم يياشرها إن شاء؛([ " )]13سیدنا
ابن عمر نے سیدۃ عائشه کے پاس پیغام بیھج کر استفسار کیا کہ کیا شوہراپنی بیوی کے ساتھ حیض کی حالت میں
مباشرت کر سکتا ہے تو آپ نے جواب میں ارشاد فر ما یا کہ شوہر کو چا ہئے کہ ازار باندھ لے توپھر ایسا کر نا جا ئز ہے،،
یعنی جماع کے عالوہ اس کے ساتھ لیٹنے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ بڑے جلیل القدر صحابہ کرام
بھی قرآن کی تفسیر میں سیدۃ عائشه کی طرف رجوع کرتے تھے۔یہاں ام المؤمنین نے ان عقائد کو مسترد کر دیا ہے جن کے
مطابق حیض کی حالت میں عورت کو چھوت سمجھا جا تا ہے۔ احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ حیض کی حالت میں بیوی
کے ساتھ جماع کے عالوہ اختالط جائز ہے۔اس میں نصارٰی پر رد ہے جو کہ افراط کا شکارتھے اور یہود پر بھی رد ہے جو
اس معاملہ میں تفریط کا شکار تھے۔اسالم کی تمام تعلیمات اعتدال پر مبنی ہیں ۔ان میں نہ بے جاشدت ہے اورنہ بےدریغ
آزادی بلکہ فطرت کے عین مطابق ہدایات ہیں۔
قرآن میں یمین لغو کا ذکر آیا ہے اس کی تشریح میں سیدۃ عائشه نے فر ما یا ہے ۔ "لغو اليمين قول اإلنسان :ال واهلل ،وبلى
واهلل.
" لغو یمین یہ ہے کہ کوئی آدمی یو ں کہے ؛واللہ نہیں ،ہاں نہیں،،۔ ([ )]14قسم کی تین قسمیں ہیں ایک کا نام یمیِن غموس
ہے یہ جھوٹی قسم کو کہا جا تا ہے جوکہ ایک عظیم گناہ ہے کیوں کہ ایک طرف یہ جھوٹ پر مشتمل ہے اور دوم اس میں
نا جائز قسم ہے،اس لئے شرعا یہ بڑا جرم ہے ۔دوم یمیِن منعقد ہے جس میں آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا ذکر ہو اس
قسم(یمین) کے مطابق عمل الزم ہے اور قسم کوتوڑنے کی صورت میں کفارہء یمین الزم ہے۔سوم یمیِن لغو ہے جس کا ذکر
مذکورہ با ال روایت میں آیا ہے۔یہ وہ قسم ہے جس میں کوئی شخص بال ارادہ واللہ باللہ وغیرہ کہے ۔ ان الفاظ کے کہنے سے
اس کا مقصد قسم نہیں ہے بلکہ ویسے ہی آدمی کی زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں ۔اس صورت میں آدمی پر گناہ ہے اور
نہ کفارہ بلکہ یہ لغو یمین کہال تا ہے۔
رضاعت کی آیت کی تفسیر میں سیدہ عائشه کی رائے یہ ہے کہ ایک بڑا انسان بھی اگر کسی عورت کا دودھ پی لے تو اس
سے حرمِت رضاعت ثابت ہو تی ہے ۔اس مسئلہ میں آپ کی یہ رائے منفرد ہے جس کے ساتھ دوسری امہات المؤمنین نے
اتفاق نہیں کیا۔ ([ )]15عام صحابہ کرام اور سلف صالحین کے نزدیک دو سال کی عمر کے بعد کسی عورت کا دودھ پینے
سےحرمِت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۔ اس مسئلہ میں سیدہ عائشه منفرد ہیں ان کے ساتھ دیگر صحابہ اور امہات المؤمنین
کا اتفاق نہیں ہے۔ سیدۃ عائشه آیت کے ظاہری الفاظ سے استدالل کرتی ہیں لیکن دوسرے صحابہ دیگر روایات کی بنیاد اس
رائے سے اختالف کرتے ہیں۔جمہور صحابہ کرام کے نزدیک بچے کے لئےرضاعت کی مدت دو سال کی عمر ہے جس کے بعد
رضاعت کا حرمت پر اثر نہیں ہو تا۔
ازواج مطہرات کے تخییر کےبارے میں جب یہ آیت{ِإ ْن ُكْنُت َّن ُت ِر ْد َن اَهَّلل َو َر ُس وَلُه } ( )2 :33نازل ہو ئی تو نبی صلی اللہ علیہ
وسلم گھر کے اندرداخل ہوئےاور فرمایا «َي ا َع اِئ َش ُة ِإ ِّن ي َذ اِك ٌر َلِك َأ ْم ًر ا َف اَل َع َلْي ِك َأ ْن اَل َت ْع َج ِل ي ِف يِه َح َّت ى َت ْس َت ْأ ِم ِر ي َأ َبَو ْي ِك » َق اَلْت :
َق ْد َع ِلَم َو اِهَّلل َأ َّن َأ َبَو َّي َلْم َي ُكوَن ا ِل َي ْأ ُم َر اِن ي ِب ِف َر اِق ِه َ ,ق اَلْت َف َق َر َأ َع َلَّي َ{ :ي ا َأ ُّي َه ا الَّن ِب ُّي ُق ْل َأِلْز َو اِج َك ِإ ْن ُكْنُت َّن ُت ِر ْد َن اْلَح َي اَة الُّد ْن َي ا
َو ِزيَنَت َه اَ ،ف ُق ْلُت َ :أ ِف ي َه َذ ا َأ ْس َت ْأ ِم ُر َأ َبَو َّي ؟ َف ِإ ِّن ي ُأ ِريُد اَهَّلل َو َر ُس وَلُه َو الَّد اَر اآْل ِخ َر َة "
" عائشه میں آپ کے سامنے ایک مسئلہ پیش کر تا ہوں لیکن آپ نے جلدی نہیں بلکہ اپنے ماں باپ سے مشورہ کر نا ،عائشه
فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ کو معلوم تھا کہ میرے والدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری جدائی پر راضی نہیں ہوں گے
،اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی {َي ا َأ ُّي َه ا الَّن ِب ُّي ُق ْل َأِلْز َو اِج َك ِإ ْن ُكْنُت َّن ُت ِر ْد َن اْلَح َي اَة الُّد ْن َي ا َو ِزيَنَت َه ا} (سورۃ
االحزاب ==)28 :33:عائشه فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ کیا میں اس معاملہ میں بھی والدین سے مشورہ کروں
گی؟ بے شک مجھے اللہ اور اس کا رسول اور آخرت مطلوب ہے ۔یہاں سیدۃ عائشہ کا ُر تبہ واضح ہو گیا کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات میں سب سے پہلےان سے مشورہ کیا اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سیدہ عائشه
نے کس خوبصورت انداز میں جواب ارشاد فرمایا۔([)]16
حرام سے بچنے کے بارے میں سیدۃ عائشه نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں ارشاد فرما یا؛اال َم ْن تاَب َو آَم َن َو َع ِم َل َع َم ًال
صاِل حًا َف ُأ ْو لِئَك ُي َب ِّد ُل اُهَّلل َس ِّي ئاِت ِه ْم َح َس ناٍت َو كاَن اُهَّلل َغ ُف ورًا َرِح يمًا (سورۃ الفرقان : )70 :25ال تصح التوبة ألحدكم حتى يدع
الكثير من المباح ،مخافة أن يخرجه إلى غيره ،كما قالت عائشة رضي اهلل عنها :اجعلوا بينكم وبين الحرام سترًا من الحالل،
كان رسول اهلل صّلى اهلل عليه وسّلم يدعنا بعد الطهر ثالثًا حتى تذهب فورة الدم.
مگر جس نے تو بہ اور ایمان ال یا اور عمل صالح کیا پس ان لو گوں کے برائیوں کو اللہ نیکیوں میں تبدیل کر دے گا اور اللہ
تعا لی بخشنے واال مہربان ہے ،،تشریح میں ذکر کیا گیا کہ تم میں سے کسی کا توبہ اس وقت تک قبول نہیں ہو تا جب تک
کہ بہت سی مبا حات سے اجتناب نہ کیا جا ئے ،اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں حرام میں مبتال نہ ہو جا ئے ،جیساکہ سیدۃ
عائشه کا قول ہے کہ حرام اور حالل کے درمیان حالل کا پردہ قائم کرو کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طہر شروع
ہو نے کے بعد بھی تین دن تک ہمارے قریب نہیں آیا کرتے تھے یہاں تک کہ خون کا جوش مکمل ختم ہو جا ئے ،،
یعنی حرام کے معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے جس کی مثال میں سیدہ عائشه نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے عمل کو پیش کیا۔([)]17
عروة بن الزبير قال ،سألت عائشة فقلت لها :أرأيِت قول اهلل":إّن الصفا والمروة من شعائر اهلل فمن َح ّج البيَت أو اعتمر َف ال
ُج ناح عليه أن يَّط َّو ف بهما"؟ وقلت لعائشةَ :و اهلل ما على أحٍد جناح أن ال يطوف بالصفا والمروة؟ فقالت عائشة :بئس ما قلت
يا ابن أختي ،إّن هذه اآلية لو كانت كما أَّو لتها كانت :ال ُج ناح عليه أن ال يطَّو ف بهما ،ولكنها إنما أنزلت في األنصار :كانوا قبل
أن ُي سلموا ُي هُّلون لَم ناَة ، ،وكان من أهَّل لها يتحَّر ج أن َي ُط وف بين الصفا والمروة ،فلما سألوا رسول اهلل صلى اهلل عليه وسلم
عن ذلك -فقالوا :يا رسول اهلل إذا كنا نتحرج أن َن ُط وف بين الصفا والمروة -أنزل اهلل تعالى ذكره":إّن الصفا والمرَو ة من
شعائر اهلل فمن َح ّج البيَت أو اعتمَر فال ُج ناح عليه أن يَّط َّو ف بهما" .قالت عائشة :ثم قد َس ن َر سول اهلل صلى اهلل عليه وسلم
الطواف بينهما ،فليس ألحد أن َي ترك الطواف َبينهما)۱۸( .
عروۃ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدۃ عائشه سے پو چھا کہ اس آیت":إّن الصفا والمروة من شعائر اهلل فمن َح ّج البيَت أو
اعتمر َف ال ُج ناح عليه أن يَّط َّو ف بهما" کا کیا مطلب ہے؟ میرے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی صفا ومروۃ کا طواف
نہ کرے تو اس پر کو ئی گناہ نہیں ہے۔ سیدۃ عائشه نے کہا کہ اے بھا نجے تو نے بہت غلط تفسیر بیان کی ،اگر آیت کا یہی
مطلب ہو تا جو کہ تم نے بیان کیا ہے تو پھر یوں کہنا چا ہئے تھا ال جناح علیہ اال یطوف بھما ،،حقیقت میں یہ آیت انصار
کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ اسالم سے قبل وہ صفا اور مروۃ کے درمیان رکھے گئےمناۃ بت کی پو جا کرتے تھے تو
اسالم قبول کرنے کے بعد ان کو صفا و مروہ کے درمیان طواف کے بارے حرج محسوس ہوا توانہوں نے اس بارے میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اس پریہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد ان دونوں کا طواف سنِت رسول قرار پایا
لہذا کسی کے لئے یہ جا ئز نہیں ہے کہ صفا اور مروہ کے طواف کو ترک کردے،،
وإن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به اهلل"( ،سورۃ البقرۃ )284 :2قال :كانت عائشة تقول :كل عبد يهّم بمعصية،
أو يحّد ث بها نفسه ،حاسبه اهلل بها في الدنيا ،يخاُف ويحزن ويهتم .ارشاد فر ما یا ہے ؛ جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے اس
کو ظاہر کرو یا مخفی رکھو ،اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرے گا ،،سیدۃ عائشه نے کہا ہے ہر وہ بندہ جس نے گناہ کا عزم کیا
اور دل میں گناہ کی بات کی اللہ دنیا ہی میں اس کا اس پرمحاسبہ کرے گا ،کہ وہ خوف ،غم اور اندیشے کا شکار ہو گا،،۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دل میں اگر کوئی گناہ کا عزم کر لے لیکن اس نے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تو اس وجہ سے دنیا ہی
میں اس کی گرفت ہو گی اور آخرت میں اس پر گرفت نہیں ہوگی کیوں کہ اس نے عمال گناہ نہیں کیا۔([)]18
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کےموقع پر اللہ کا دیدار کیا تھا؟
جس نے یہ کہا کہ کسی اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بو ال کیوں کہ اللہ تعا لی کا ارشادہے ال تدركه
األبصار وهو يدرك األبصار"۔ وہ کسی کی نظر میں نہیں آسکتا اور وہ(اللہ) نظروں کا ادراک رکھتا ہے،،۔([ )]19واقعہء معراج
کے متعلق بہت سی روایات ہیں ۔اس موقع پر اللہ تعا لٰی کے دیدار کے بارے میں صحابہ کے درمیان اختالف رائے پا یا جا تا
ہے۔ سیدۃ عائشہ مذکورہ باال آیت کی روشنی میں فر ماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب اللہ کا دیدار
نہیں کیا تھا بلکہ جہاں رؤیت کا ذکر ہے اس سے جبریل کا دیدار مراد ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل کی اس آیت(َو ال َت ْج َه ْر ِب َص الِتَك َو ال ُت َخ اِف ْت ِب َه ا) (سورۃ بنی اسرائیل )110 :17کی تفسیر میں سیدۃ
عائشه کی رائے دوسرے صحابہ کرام سے مختلف ہے۔
عن عائشة ،قالت :نزلت في الدعاء.وقال آخرون :بل كان رسول اهلل صلى اهلل عليه وسلم يصلي بمكة ِج هارا ،فأمر
بإخفائها([ )]20سیدہ عائشه سے مروی ہے کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہو ئی ہے لیکن دیگر لوگ کہتے ہیں کہ جب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکۃ میں جہرا نماز پڑھتے تھے تو اللہ تعا لی نے اخفاکا حکم دیا ،،سیدۃ عائشه کی تشریح کے
مطابق مذکورہ آیت کامفہوم یہ ہےکہ ذکراللہ کےموقع پر اعتدال سے کام لینا چا ہئے۔بہت اونچی آواز میں ذکر سے اجتناب
کیا جا ئے۔اس کی تائید میں دیگر روایات بھی ہیں۔
َع ْن َع اِئ َش َة َ ،و اْب ِن ُع َم َر َ :أ َّن ُه َم ا «َكاَن ا اَل َي َر َي اِن َم ا اْس َت ْي َس َر ِم َن اْلَه ْد ِي ِإ اَّل ِم َن اِإْل ِب ِل َو اْلَب َق ِر » سیدۃ عائشه اور سیدنا ابن عمر کے
نزدیک حج میں ھدی کے لئےصرف اونٹ اور گائے قابِل قبول ہیں۔لیکن دیگر صحابہ اس رائے سے اختالف کرتے ہیں۔([)]21
دیگرصحابہ ہدایا (دم تمتع اور دم ِق ران)میں اونٹ اورگائے کے عالوہ بھیڑ اور بکری کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ جب کہ
فقہآء کا تقریبااس پر اجماع ہے کہ حج کے موقع پر ہدی میں بھیڑ اور بکری ذبح کرناجا ئز ہے۔
خالصہ
اسالم میں انسان کو رتبہ اور مقام صالحیت اور عمِل صالح کی بیناد پر حاصل ہے ،حسب اور نسب اور یا جنس کی بنیاد
پر نہیں۔ چنانچہ ابو لہب اگرکہ نسبی لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےقریب تھا لیکن تعلق میں آپ سے بعید ترین
شخص تھا جب کہ بالل حبشی پردیسی اور رنگ کے لحاظ سے کا لے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین لو
گوں میں شمار ہو تے تھے۔اسی طرح سیدۃ عائشه ایک عورت تھی لیکن بڑے بڑے صحابہ کرام ان سے قرآن کی تفسیر پو
چھنے کے لئے حاضر ہوا کرتےتھے۔ازواج مطہرات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے زیادہ تعلق تھا ،اس گہرے تعلق کی
وجہ علم وعمل تھا۔ سیدہ عائشه کے مقام کو بیان کرنے کے لئے ایک مقالہ کا فی نہیں ہے لیکن نمونہ کے طور پر قرآن کے
متعدد مقامات سے چند نکات کوقارئین کے سامنے پیش کیا گیاتاکہ قرآنن کےمتعلمین کو معلوم ہو جا ئے کہ سیدہ عائشه کو
صرف احادیث میں مہارت حاصل نہیں بلکہ اللہ تعا لی نے آپ کو قرآن فہمی سے بھی نوازا تھا۔
حوالہ جات
- .1دائرۃ معارف اسالمی ج 12ص ،708دانش گاہ پنجاب الهور طبع اول1973ء
- .5برہان الدین المرغینانی:ھدایۃ،کتاب الکراہیۃ ج 4ص ، 442طبعہ ال ہور بدون تاریخ
- .8مقاتل بن سلیمان المتوفی 150ھ،تفسیر مقاتل ج4ص، 380محقق:عبداللہ بن محمود،بیروت طبعہ اولی1430ھ
- .13محمدبن ادریس الشافعی المتوفی 204ھ:تفسیر االمام الشافعی ج1ص ،337دارالتدمیریہ السعودیہ2006،ء
- .21عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر المتوفٰی 327ھ:تفسیر البن ابی حاتم ج 1ص ،336مکتبہ نزار ۔ السعودیہ
Retrieved from
http://religion.asianindexing.com/index.php?"
title=Al-Idah/
&تفسیر_قرآن_میں_ام_المؤمنین_سیدۃ_عائشه_کا_مقامoldid=7
"474
Religion