You are on page 1of 130

‫ادھوری تحریریں‬

‫علی حسن اویس‬


‫فہرست‬
‫زمان و مکان کی تبدیلی ہیئت______________________‪5‬‬ ‫‪.1‬‬
‫اقساِم شہرت __________________‪6‬‬ ‫‪.2‬‬
‫قدیم منٹو‪ ،‬جدید معاشرہ _____________________ ‪8‬‬ ‫‪.3‬‬
‫رسم جشن‪ ،‬خوشی یا تماشا___________________ ‪9‬‬ ‫‪.4‬‬
‫بنیاِد معاشرہ‪ ،‬الہامی مذاہب یا انسانی مساعی _______ ‪11‬‬ ‫‪.5‬‬
‫ذات پات اور معاشرہ _______________________ ‪13‬‬ ‫‪.6‬‬
‫دنیا دار کمینے __________________________ ‪15‬‬ ‫‪.7‬‬
‫منٹو کا آدمی‪ :‬اچھائی اور برائی کے تناظر میں______ ‪16‬‬ ‫‪.8‬‬
‫چلو اس طرف کو ہوا ہو جدھر کی ______________ ‪18‬‬ ‫‪.9‬‬
‫کٹاس راج‪ ،‬تاریخ کے آئینہ میں تہذیب________ ‪20‬‬ ‫‪.10‬‬
‫غاروں میں بسیرا کرنے واال الو____________ ‪23‬‬ ‫‪.11‬‬
‫آخری صفحہ ________________________ ‪25‬‬ ‫‪.12‬‬
‫نظیر اکبر آبادی کا ہنس نامہ ______________ ‪27‬‬ ‫‪.13‬‬
‫کالی شلوار‪ :‬فحاشی کا پلندا یا حقیقت کی روداد___‪31‬‬ ‫‪.14‬‬
‫سیپ موتی کی تالش میں ہے ______________‪34‬‬ ‫‪.15‬‬
‫نمازیں ہماری‪ ،‬حساب ہمارے ______________‪37‬‬ ‫‪.16‬‬
‫عادت سے لت تک _____________________‪39‬‬ ‫‪.17‬‬
‫قائد اعظم کا تصور قومی زبان______________‪41‬‬ ‫‪.18‬‬
‫مشاہدہ سے تجربہ تک___________________ ‪45‬‬ ‫‪.19‬‬
‫الکھ نگری میں چمکتا سورج_____________‪47‬‬ ‫‪.20‬‬
‫معاشرتی رواداری کے فروغ میں ادب کا کردار__‪50‬‬ ‫‪.21‬‬
‫بند کواڑوں کا ادب____________________‪53‬‬ ‫‪.22‬‬
‫نمرود کی خدائی _____________________‪55‬‬ ‫‪.23‬‬
‫درگاہ سے درگاہ تک کا سفر ________________‪57‬‬ ‫‪.24‬‬
‫پانی‪ ،‬مسکراہٹوں کا پاسباں ______________‪60‬‬ ‫‪.25‬‬
‫ایک بار اور میری عیادت کو آئیے __________‪63‬‬ ‫‪.26‬‬
‫رمزیہ اشارہ (افسانہ)________________‪66‬‬ ‫‪.27‬‬

‫‪2‬‬
‫ن‪jj‬اطق کے ک‪jj‬ردار کی ُپرس‪jj‬راریت ‪،‬س‪jj‬فید م‪jj‬وتی کے تن‪jj‬اظر میں‬ ‫‪.28‬‬
‫____‪69‬‬
‫میری لڑکیوں سے لڑائی ہے______________‪73‬‬ ‫‪.29‬‬
‫اورحان پاموک‪ ،‬پرخطر رستوں کا مسافر______‪76‬‬ ‫‪.30‬‬
‫”جہاں میں تھا“ تجزیاتی مضمون__________‪79‬‬ ‫‪.31‬‬
‫زلفوں کے سائے میں“ تجزیاتی مطالعہ_______‪83‬‬ ‫‪.32‬‬
‫امیرن کے کردار کا تجزیاتی و نفسیاتی مطالعہ___‪86‬‬ ‫‪.33‬‬
‫”امرأو جان“ کے کردار کا نفسیاتی مطالعہ ____‪90‬‬ ‫‪.34‬‬
‫زنجیر (افسانہ)_______________‪94‬‬ ‫‪.35‬‬
‫پاک چین دوستی‪ ،‬عوامی محبت اور قومی ترقی کا سنگم___‪97‬‬ ‫‪.36‬‬
‫تیسرا دیدار (افسانہ)__________________‪101‬‬ ‫‪.37‬‬
‫مرزا اطہر بیگ‪ :‬تعارفی مطالعہ___________‪105‬‬ ‫‪.38‬‬
‫سڑک (افسانہ)_____________‪110‬‬ ‫‪.39‬‬
‫الہوری بلیاں __________‪112‬‬ ‫‪.40‬‬
‫ناول ”سدھارتھ“ ‪ ،‬فکری مطالعہ___________‪116‬‬ ‫‪.41‬‬
‫اردو غزل میں امرد پرستی کی روایت________ ‪120‬‬ ‫‪.42‬‬
‫عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں____‪123‬‬ ‫‪.43‬‬
‫اردو شاعری میں رنگوں کا استعمال_______‪125‬‬ ‫‪.44‬‬
‫مرزا اطہر بیگ‪ :‬قلمی جہات___________‪131‬‬ ‫‪.45‬‬
‫فیض احمد فیض کے نام خط__________‪138‬‬ ‫‪.46‬‬
‫اجالسی روحیں ____________ ‪140‬‬ ‫‪.47‬‬
‫لونڈے لپاڑے _________‪145‬‬ ‫‪.48‬‬
‫الم‪ ،‬دکھ کی انتہا_________‪149‬‬ ‫‪.49‬‬
‫فاصلوں کا ہم نشیں ______‪152‬‬ ‫‪.50‬‬
‫فن اور اخالقیات _______‪154‬‬ ‫‪.51‬‬
‫‪.52‬‬
‫‪.53‬‬
‫‪.54‬‬

‫‪3‬‬
‫زمان و مکان کی تبدیلی ہیئت‬

‫‪13/10/2021‬‬

‫آج ڈاکٹر نعیم احمد کو پڑھتے ہوئے ایک عجیب و غریب سطر میری نظر سے گ زری‪،‬‬
‫لکھا تھا‪” ،‬عالم خواب میں زمان و مکان کے پیم انے یکس ر ب دل ج اتے ہیں۔“ مجھے یہ‬
‫سطر پڑھ کر جھٹکا سا لگا کیونکہ اس سے قب ل میں ذاتی ط ور پ ر یہی س مجھتا تھ ا کہ‬
‫زمان و مک ان کے پیم انوں میں رد و ب دل ی ا تب دیلی کس ی بھی ص ورت میں ممکن نہیں‬
‫کیونکہ یہ کائنات زمان و مکان کے تحت وجود میں آئی اور اس ی کے مط ابق اپن ا س فر‬
‫حیات طے کر رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ علم کی قلت اور ذہنی نا بلیدگی ہ و مگ ر م یرا‬
‫نظریہ یہی تھا۔‬

‫درج باال سطر کو پڑھنے کے بعد اس پر تحقیق کرنے کا خی ال بن دہ خ اکی کے کن د ذہن‬


‫پر سے گزرا۔ تحقیق مکمل ہوئی تو یہ راز مجھ پر عیاں ہوا کہ جب آدمی عالم روی ا میں‬
‫ہوتا ہے تو وہ طبیعیاتی دنیا سے قطع تعلق ہو جاتا ہے اور اس ے اس ب ات کی کچھ خ بر‬
‫نہیں رہتی کہ وہ کہاں پڑا ہے اور کون سا وقت ہوا چاہتا ہے۔ کی ونکہ زم ان و مک ان ک ا‬
‫تعلق مادی دنیا س ے بہت گہ را ہے اس وجہ س ے ع الم خ واب میں اس کے پیم انوں کی‬
‫ہیئت تبدیل ہو جاتی ہے۔‬

‫یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ عالم خواب اور طبیعیاتی دنیا کہ زمان و مکان کے پیم انوں‬
‫میں آخر فرق کیوں آ جایا کرتا ہے تو اس کا جواب یہی دی ا جاس کتا ہے کہ ع الم خ واب‬
‫اور طبیعیاتی دنیا میں فرق ہے اس وجہ سے ان کے زمان و مکان کے پیمانوں کی ہیئت‬
‫بھی تبدیل ہو جایا کرتی ہے۔ عالم خواب ک ا زم ان و مک ان وہ ہے جس میں ف رد ک و اس‬
‫بات کا احساس ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کہاں پڑا ہے اور وقت کس ترتیب سے گزر رہا ہے‬
‫مگ ر دوس ری ط رف طبیعی اتی دنی ا ک ا زم ان و مک ان وہ ہے جس میں ف رد کی ونکہ وہ‬
‫شعوری طور پر طبیعیاتی دنیا میں موجود اور اس کے زمان و مک ان ک ا اس یر ہوت ا ہے‬
‫اس لئے اسے چھوٹے سے چھ وٹے لمحے کی بھی خ بر ہ وتی ہے کہ وہ کس ان داز اور‬
‫ترتیب سے گزر رہا ہے۔ اس بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زم ان و مک ان کی دو اقس ام‬
‫ہیں جن کے پیمانوں کی ہیئت ایک دوسرے سے یکسر جدا ہے۔‬

‫‪4‬‬
‫اقساِم شہرت‬

‫‪14/10/2021‬‬

‫موجودہ عصر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس مٹی کی دنی ا‬
‫کے خ اکی پتلے بس ای ک ہی چ یز ک و حاص ل ک رنے کی ت گ و دود ک ر رہے ہیں۔ نہ‬
‫صرف حال بلکہ ماضی کے پنوں کو اگر کھوال ج ائے ت و یہی راز افش اں ہ و گ ا کہ ہ ر‬
‫خاص و عام شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں ہی محو رہا۔ جب ہم لفظ شہرت بولتے‬
‫ہیں تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں‪ ،‬کبھی کسی نے غور کیا؟ ش ہرت ک ا مطلب ہوت ا ہے‬
‫کہ اتنا مشہور ہو جانا کہ ہر خاص و عام میں چرچا ہو۔‬

‫کوئی بھی بات ہو کوئی بھی معاملہ ہو اس کا نام بحث میں شامل کیے بغیر بحث نامکم ل‬
‫معلوم ہو۔ اس خود غرض عالم میں شہرت کو دو پہلؤوں س ے س مجھنے کی کوش ش کی‬
‫جاتی رہی ہے۔ ایک وہ شہرت جو ب رائی کی ب دولت حاص ل ہ و۔ جیس ے مص طفٰی خ ان‬
‫شیفتہ فرماتے ہیں‪” ،‬بد نام اگر ہوں گے تو نام نہ ہو گا کیا“ ۔ ایسی شہرت ع ام ط ور پ ر‬
‫دیہاتی عالقوں کے سرداروں میں عام ہوتی ہے۔ اور دوسری ش ہرت وہ ش ہرت ہے ج و‬
‫قابل ذکر اور الئق قدر کام انجام دینے پر حاصل ہوتی ہے۔‬

‫ایسی شہرت کا حاصل ہو جانا ہی ایک شہرت اور کم ال کی ب ات ہے۔ ایس ی ش ہرت ک و‬
‫حاصل کرنے کے ل ئے خان دان‪ ،‬م ال اور یہ اں ت ک کہ ج ان ک ا ن ذرانہ بھی کبھی کبھی‬
‫معمولی سا بن جاتا ہے۔ اگر دیکھنے والی نظر اور سوچنے واال دماغ ہو تو ایسی شہرت‬
‫کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اگر بات کی جائے ‪ 1965‬ء میں میدان جنگ کی ت و بے‬
‫شمار نام ایسے آتے ہیں‪ ،‬مثًال میجر شبیر ش ریف ش ہید‪ ،‬میج ر راجہ عزی ز بھ ٹی ش ہید‪،‬‬
‫پائلٹ افسر راشد منہاس شہید‪ ،‬میجر طفیل محمد شہید‪ ،‬کیپٹن راجہ محمد سرور ش ہید اس‬
‫طرح کے اور بے شمار نام جن کو اس وقت احاطہ تحری ر میں الن ا مش کل ہے‪ ،‬جنہ وں‬
‫نے ملک کی آن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ایسی شہرت حاص ل کی ج و‬
‫آج بھی ان کی قربانیوں کا ثبوت ہے۔‬

‫شہرت کو حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک شہرت ایس ی ش ہرت ہ وتی ہے‬
‫جو چند لمحات میں حاصل ہو جاتی ہے۔ مگ ر ایس ی ش ہرت ک ا دورانیہ چن د دن ک ا ہوت ا‬
‫ہے۔ چند ماہ قبل سوشل میٰڈ یا پر دنانیر مبین کی ایک ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا اور وہ اتنی‬
‫مشہور ہو گئی کہ بھارت جیسے دشمن کی عوام بھی اس ویڈیو پر اپنے تاثرات کا اظہار‬
‫‪5‬‬
‫کرنے لگی مگر اب کسی کو بھی یاد نہیں کی دنانیر مبین کون تھی یا کہ اں ہے۔ کی ونکہ‬
‫یہ اصول ہے کہ جو چیز جتنی محنت س ے مل تی ہے اس ک ا دورانیہ بھی اتن ا ہی طوی ل‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫دوسرا طریقہ ہے تو بہت کار آمد مگر اس پر عمل کرنا ہر بشر کی بس اط کی ب ات نہیں۔‬
‫زن دگی کے س فر میں ص بر و ش کر ک و س اتھی بن ائے تکلیفیں برداش ت کرن ا اور آگے‬
‫بڑھتے رہنا ہی اس شہرت کی کنجی ہے۔ ڈاکٹر عبد الق دیر خ ان نے ص د ہ اں مخ الفتوں‬
‫کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور وہ شہرت حاص ل کی ج و رہ تی دنی ا ت ک پاکس تان‬
‫کے لیے سرمایہ افتخار رہے گی اور ان کا نام پاکس تان کی ت اریخ میں س نہرے ح روف‬
‫میں لکھا جائے گا۔ یہ شہرت وہ شہرت ہے جو مرزا اس د ک و غ الب‪ ،‬الط اف حس ین ک و‬
‫حالی اور میر تقی کو میر بناتی ہے۔‬

‫قدیم منٹو‪ ،‬جدید معاشرہ‬

‫‪17/10/2021‬‬

‫جب حقیقت کو حقیقی رنگ کی چاشنی کے ساتھ خیال پرست معاشرے کے س امنے پیش‬
‫کیا جائے تو ہر سمت سے مخالفت کا طوفان کھڑے ہ و جان ا غ یر معم ولی ب ات نہیں۔ یہ‬
‫معاشرے کا قدیم اصول اور بے حس پتلوں کا فطرتی رویہ ہے۔ ایسا ہی ہوا سعادت حسن‬
‫منٹو کے ساتھ جب انہوں نے بے باکی سے یہ کہتے ہوئے‪ ،‬کہ میں سوچتا ہوں اگر بندر‬
‫سے انسان بن کر ہم اتنی قیامتیں ڈھا سکتے ہیں‪ ،‬اس قدر فت نے برپ ا ک ر س کتے ہیں ت و‬
‫واپس بندر بن ک ر ہم خ دا معل وم کی ا کچھ ک ر س کتے ہیں‪ ،‬معاش رے کی حقیقی تص ویر‬
‫معاشرے کے سامنے رکھی ت و مخ الفت ک ا طوف ان س اون کی ب ارش کی ط رح چ اروں‬
‫اطراف سے امڈ آیا۔‬

‫حقیقت کو عیاں کرنے کی دیر تھی کہ سعادت حسن منٹو کو عدالت کے اس کٹہ رے میں‬
‫کھڑا ہونا پڑا جو چیخ چیخ کر گواہی دے رہا تھا کہ منٹو نے حقیقت ک و بی ان ک رنے ک ا‬
‫جو جرم کیا ہے اس کی سزا نیکی کے لبادے میں چھپے ہوئے ان م ادہ پرس توں ک و دی‬
‫جائے جو اپنی اصلیت کو چھپانے کی خاطر کف ر کے فت وے ج اری ک ر رہے ہیں۔ منٹ و‬
‫نے کہا تھا اگر آپ کو میرے افسانے پڑھ کر فحش نگاری کا گماں ہوتا ہے تو معاش رے‬

‫‪6‬‬
‫کا جائزہ لیں‪ ،‬اگر معاشرہ اس بات کی گ واہی دیت ا ہے ج و میں نے بی ان کی ت و مجھ پ ر‬
‫الزام لگانے کی گنجائش نہیں بچتی۔‬

‫آج جب میں نے منٹو کے افسانہ ٹھنڈا گوشت اور جدید معاشرے ک ا تق ابلی ج ائزہ لی ا ت و‬
‫آنکھیں تر اور لب پر گویا قفل لگ گیا ہو۔ اگر میں بات بیان کروں جدید معاشرے کی ت و‬
‫یہ دور ترقی وہی تصویر پیش کرتا نظر آتا ہے جو ہمیں منٹو کے افسانوں میں ملتی ہے۔‬
‫منٹو کا افسانہ ٹھنڈا گوشت اگر مردہ لڑکی کے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی پ ر مب نی ہے‬
‫تو موجودہ معاشرہ چیخ چیخ کر یہ بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ تم ب ات ک رتے ہ و م ردہ‬
‫لڑکی کی یہاں تو وہ لڑکی بھی محفوظ نہیں جس کو دفن کر دیا گیا ہو۔‬

‫ٹھنڈا گوشت جس وقت تحریر کے مراحل س ے گ زر رہ ا تھ ا تب جن گ ک ا م احول تھ ا۔‬


‫افراتفری کے عالم میں مردہ لڑکی کا جنسی شکار بننا‪ ،‬ہ و س کتا ہے کی ونکہ جن گ میں‬
‫کسی کو یہ خبر نہیں رہتی کہ جس کو وہ اٹھا رہا ہے وہ مردہ ہے یا زندہ۔ مگ ر موج ودہ‬
‫دور میں جب رات کی تاریکی میں لڑکی کی قبر کھود کر اسے جنسی زی ادتی ک ا نش انہ‬
‫بنایا گیا تو جنگ تو دور کی بات معمولی جھڑپ تک نہ تھی۔ اس ساری بحث کا ایک ہی‬
‫نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی پر بھی الزام لگانے سے پہلے تحقیق کر لی نی چ اہیے۔ آخ ر میں‬
‫میں اتنا ہی کہوں گا کہ چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر۔‬

‫رسم جشن‪ ،‬خوشی یا تماشا‬

‫‪22/10/2021‬‬

‫پیلی روشنیوں سے جگمگاتی الہور کی پر رونق گلی وں میں ان داز و نی از س ے گ زرتے‬


‫لوگوں کے قدموں کی چاپ اور ہلکی ہلکی ترنم کی صدا سن کر جب میں گلی میں پہنچا‬
‫تو ت رنم کی ص دا آہس تہ آہس تہ دل دہال دی نے والے ش ور میں تب دیل ہ ونے لگی۔ اچان ک‬
‫لوگوں کا رش بڑھنے لگا۔ گاڑیوں کا شور سن کر پر لطف فضا بے کیفی کا نظ ارہ پیش‬
‫کرنے لگی۔ یہ سب کچھ دیکھ ک ر میں تعجب کے س حر میں مبتال ہوت ا چال گی ا۔ میں نے‬
‫ہمت کی اور پاس سے گزرتے ایک معمر شخص سے دریافت کیا‪ ،‬یہ س ب کچھ کی ا اور‬
‫کیوں ہو رہا ہے؟‬

‫‪7‬‬
‫پہلے تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ انہ وں نے نہ ایت خل وص کے س اتھ مودب انہ ان داز میں‬
‫بیان کیا کہ یہاں سے ‪ 12‬ربیع االول کے سلسلے میں ایک جل وس گ زرنے واال ہے۔ اس‬
‫جلوس میں نعت رسول ﷺ کی گونج کے لیے سپیکروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور‬
‫یہ جو لوگ گزر رہے ہیں یہ وہاں سے ہی آرہے ہیں جہاں سے جلوس برآمد ہوا تھ ا اور‬
‫ان کا یوں گزرنا اس بات کی خبر ہے کہ جلوس بہت جلد یہاں سے گزرنے واال ہے۔ اتنا‬
‫کہہ کر وہ چل دیے اور میں کھڑا انتظار کرنے لگا۔‬

‫چند لمحات میں ہی جلوس سڑک کے کنارے سے برآمد ہ وا اور اس گلی کی ط رف م ڑا‬
‫جو سڑک سے نسبتًا تنگ تھی اور جس میں میں کھڑا انتظار کی ساعت کا تجزیہ کر رہا‬
‫تھا۔ جلوس پر نظر پ ڑی‪ ،‬وہ گلی کے کچھ ان در آ ک ر رک گی ا۔ میں اس ط رف چ ل دی ا‪،‬‬
‫دیکھتا کیا ہوں کہ اچان ک نغمہ رس ول ﷺ کی بج ائے گ انے ک ا ش ور بلن د ہ وا۔ دو‬
‫اشخاص جو نسًال پنجابی مگر حلیہ سے عربی معلوم پڑتے تھے نمودار ہ وئے اور ایس ا‬
‫ڈانس شروع کر دیا جیسا شادی بیاہ کے موقع پر تماشا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔‬

‫حیرت میں گم‪ ،‬آنکھیں پھٹی کی پھ ٹی رہ گ ئیں۔ ض میر نے جھنجھ وڑا اور تلخ آواز میں‬
‫پوچھا کیوں کھڑے ہو یہاں؟ یہاں سے چلتے بنو۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کی‬
‫آمد کی خوشی یہ نہیں جیسی تمہاری نظروں کے سامنے پیش کی ج ا رہی ہے۔ بلکہ اس‬
‫خوشی ک ا ان دازہ اس رب ک ریم کے اس ک رم س ے ک رو کہ جب ن بی ک ریم ﷺ کی‬
‫پیدائش مبارک ہوئی تو اس نے دنیا کی تمام مأوں کو بیٹ وں س ے ن وازا۔ اگ ر خوش ی ک ا‬
‫اندازہ کرنا چاہتے ہو تو اب و لہب کے اس عم ل س ے ک رو کہ جب انہ وں نے ن بی ک ریم‬
‫ﷺ کی پیدائش کی خبر سنی تو اپنی لونڈی ک و جس نے آ ک ر نوی د س نائی تھی آزاد‬
‫کر دیا۔‬

‫ضمیر نے چیخ چیخ ک ر کہ ا کہ اگ ر تم نے کبھی خ اکی دنی ا کے بے قلب حیوان وں کے‬


‫تماشے کو بغور دیکھا ہے تو یہاں سے چلے جأو۔ میں سوچ میں محو ہو گیا۔ ایک س وال‬
‫میرے قلب کی گہرائی سے آسمان پر اچانک چھا جانے والی کہ ر کی مانن د نم ودار ہ وا‬
‫اور ذہن کی وسعت میں آ کر چکر لگانے لگا۔ مگر میں جواب تالش ک رنے س ے قاص ر‬
‫رہا۔ سوال تھا کہ موجودہ لوگ جشن خوشی من ا رہے ہیں ی ا جش ن تماش ا؟ اس س وال ک ا‬
‫جواب میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس جواب کی تالش میں‬
‫میری مدد ضرور کریں گے‪ ،‬کیونکہ میں سمجھتا ہوں وہ جواب دینے کے زیادہ اہل ہیں۔‬

‫‪8‬‬
‫بنیاِد معاشرہ‪ ،‬الہامی مذاہب یا انسانی مساعی‬

‫‪02/11/2021‬‬

‫تاریخ کے پن وں ک و‪ ،‬متفک ر ذہن کی موج ودگی میں مش اہدہ پرس ت آنکھ وں ک و س اتھی‬
‫بنائے‪ ،‬اگر کھوال جائے تو یہ پوشیدہ راز عی اں ہوت ا ہے کہ الہ امی م ذاہب ہی وہ م ذاہب‬
‫ہیں جو کسی بھی معاشرے کے عدم سے وجود میں آنے اور تہذیب کی پیدائش کا حقیقی‬
‫باعث ہوتے ہیں۔ یہ اں پ ر یہ س وال ہم ارے س امنے دامن کھ ول ک ر ج واب طلب ہے کہ‬
‫موجودہ دنیا کے آثار کو دیکھا جائے تو ہمیں ایسے کئی معاشرے نظر آتے ہیں جن کے‬
‫باشندے الہامی مذاہب کو پس پشت رکھے انسانی مذاہب پر کام ل عقی دہ رکھ تے ہیں اور‬
‫دنیا کے مہذب معاشروں میں سرخیل ک ا درجہ اختی ار ک یے ہ وئے ب اقی معاش روں کے‬
‫حاکم کا کردار بھی ادا کرتے ہیں‪ ،‬تو یہ جو کہا گیا ہے کہ معاشرے کی بنی اد ہی الہ امی‬
‫مذاہب ہیں کہاں تک انصاف کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے؟‬

‫یہ نکتہ بالکل صحیح ہے کہ موج ودہ دور ت رقی میں ہمیں بعض ایس ے معاش رے مل تے‬
‫ہیں جن کے باشندے انسانی مذاہب کے پیروکار ہیں‪ ،‬اور ان معاشروں کا شمار دنی ا کے‬
‫مہذب معاشروں میں ہوتا۔ مگر تحقیق کی ضرورت بہرحال موجود ہے‪ ،‬اور اکثر تحقی ق‬
‫خیال کے متضاد ہی ہوا کرتی ہے۔ یہودیت کو تحقیق کے سانچے میں رکھ کر اگ ر ب ات‬
‫کی جائے تو جب یہودیت الہامی مذہب کے روپ میں اس ع الم خ اکی میں ظ اہر ہ وا ت و‬
‫وہاں حکومت تھی فرعون کی۔ لوگ آباد تھے‪ ،‬حکومت کی شان و شوکت عروج پ ر تھی‬
‫مگر معاش رہ موج ود نہ تھ ا۔ معاش رہ وہ ہوت ا ہے جس میں ل وگ آزاد اور آزادی اظہ ار‬
‫رائے کا حق رکھتے ہوں‪ ،‬تو کیا فرعون کے دور میں لوگ آزاد تھے؟‬

‫اسالم سے پہلے والی تاریخ کے پنوں کو اگر تحقیق کے آئینہ میں رکھا جائے تو قب ل از‬
‫اسالم قبیلے تھے‪ ،‬لوگ تھے‪ ،‬شان و شوکت جلوہ گر تھی‪ ،‬مگر معاش رہ موج ود نہ تھ ا۔‬
‫معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں لوگ ایثار و قربانی کے ج ذبے ک و ملح وظ خ اطر رکھ تے‬
‫ہیں۔ کیا وہاں معاشرہ موجود تھا جہاں صرف پانی پینے کی وجہ سے بھی جن گ ش روع‬
‫ہو جایا کرتی تھی؟‬

‫‪9‬‬
‫سوال رہا ان معاشروں کا جو انسانی مذاہب کے دائرہ میں آتے ہیں‪ ،‬اگر کتابوں کی بستی‬
‫میں کھو کر اس بات کا کھوج لگایا ج ائے کہ یہ معاش رے کیس ے وج ود میں آئے ت و یہ‬
‫راز افشاں ہوتا ہے کہ ان معاشروں کی بنیاد تھی تو الہامی مذاہب پر مگر جیسے جیسے‬
‫لوگوں میں اختالفات پیدا ہوتے گئے‪ ،‬رسوم کو عروج حاصل ہوتا گیا‪ ،‬نئے مذاہب وج ود‬
‫میں آتے گئے‪ ،‬ان معاشروں میں بھی وہی ڈھنگ پیدا ہوتا گیا جس کا ع ام چ ال چلن تھ ا۔‬
‫اس وجہ س ے ان کی موج ودہ ص ورت اس ق در مس خ ہ و چکی ہے کہ ہم اس قاب ل نہیں‬
‫رہے کہ پہچان کر سکیں کہ ان معاشروں کی بنیاد کیا تھی یا کون سا مذہب۔‬

‫آخر میں یہی کہوں گا کہ کوئی بھی انسانی مذہب اتنی قوت ہی نہیں رکھتا کہ ایک حقیقی‬
‫معنوں میں معاشرہ وجود میں ال سکے۔‬

‫ذات پات اور معاشرہ‬

‫‪08/11/2021‬‬

‫عالم فانی گواہ ہے کہ مسلم عوام نے پاک سر زمین جن وجوہات کی بنا پر حاصل کی ان‬
‫کی تہہ میں کہیں نہ کہیں ہن دوانہ ذات پ ات ک ا نظ ام بھی ک ار فرم ا تھ ا۔ جب اپ نے ہی‬
‫معاشرے میں اونچ نیچ کا تصور عقیدے سے زیادہ قوی ہو جائے تو معاشرے سے ال گ‬
‫ہ و ج انے کی خ واہش ک ا بھ ڑک اٹھن ا ک وئی تعجب کی ب ات نہیں۔ چھ وت چھ ات س ے‬
‫چھٹکارا ہر ذی روح کے لیے جب معراج کا درجہ اختی ار ک ر ج ائے تب علیح دگی کے‬
‫طوفان کا سمندر امڈ آنا بھی الزمی ٹھہرتا ہے۔‬

‫تاریخ کے صفحات کی سطروں میں غ وطہ زن ہ ونے س ے معل وم ہوت ا ہے کہ یہی ہ وا‬
‫ہندوستان میں اور ایک الگ ملک موجود میں آی ا جس کی بنی اد مس اوات کے اص ول پ ر‬
‫رکھی گئی۔ وقت ہر غم کو بھال دیتا ہے اور ہر مقصد کو فراموش ک ر دیت ا ہے۔ ایس ا ہی‬
‫ہوا اس نئی مساواتی دھرتی پر‪ ،‬لوگ آہستہ آہستہ اسی نظام کی طرف لوٹتے گئے جو ان‬
‫کے پرکھوں کی میراث تھا۔ بظاہر ذات پات کے نظام سے چھٹکارا حاص ل ہ و چک ا تھ ا‬
‫مگر دلوں میں ناسور کی مانند موجود تھا۔‬

‫‪10‬‬
‫لوگوں نے آبا و اجداد کی میراث کو قابل استعمال بناتے ہوئے ایک ایسا نظام ت رتیب دی ا‬
‫جس میں ذات پات کا تصور نئے رنگ‪ ،‬نئی امنگ اور نئے ولولے کی چاشنی کے س اتھ‬
‫موجود تھا۔‬

‫لوگوں نے اپنی حیثیت کو دوسرے لوگوں سے بلند ک رنے کی خ اطر ن ئے ن ئے ح ربے‬


‫استعمال کرنا شروع کر دیے۔ وہ لوگوں کو ان ک ا ح ق حاص ل ک رنے پ ر پھس التے اور‬
‫ناجائز راستوں کا پتہ بتالتے۔ جب وہ حق کی طرف‪ ،‬ج و ح ق نہیں ظلم کے زم رے میں‬
‫آتا تھا‪ ،‬رواں دواں ہوتے اور اسی جوش میں ان راستوں پر چل نکلتے جو بظاہر روش ن‬
‫مگر اصلیت میں تاریک‪ ،‬تو وہ لوگ جنہوں نے ان راستوں کی خبر انہیں دی تھی حک ام‬
‫کو سارا ماجرا کہہ سناتے‪ ،‬حکام حق کے متالشیوں‪ ،‬جنہیں یہ خ بر ت ک نہ ہ وتی کہ وہ‬
‫کس دلدل میں پھنس چکے ہیں‪ ،‬کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیتے۔‬

‫اور پھر ان کو آزاد کروا کر احسان کا پہاڑ کھڑا ک رنے والے بھی وہی ل وگ ہ وتے جن‬
‫کے کہنے پ ر وہ اس ص حرا کی تپ تی ریت پ ر ننگے پ أوں نکلے تھے۔ جب احس ان ک ا‬
‫وزن کمر پر آ جایا کرتا ہے تو کمر جھک جایا کرتی ہے۔ ایسا ہی ان کے س اتھ ہوت ا اور‬
‫وہ احسان کا وزن کمر پر ل یے غالمی ک ا ط وق گلے میں ڈالے اپ نے مال ک کے تل وے‬
‫چاٹنے پر مجبور ہو جاتے۔‬

‫خطرناک حربہ جو اکثر اس پاک زمین کے باشندوں کا پسندیدہ رہا وہ ہے لوگوں کو آرام‬
‫و سکون کے خواب دکھاتے ہوئے بے روزگاری کے سمندر ک ا رس تہ ناص ح کے روپ‬
‫میں آ کر بتانا۔ وطن عزیز کے کونے کونے پر اور ہر ش ہر کے چ وراہے میں‪ ،‬ہ ر گلی‬
‫کی نکڑ پر ایسے کئی لوگ نظر سے گزرتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد دیگر لوگ وں‪،‬‬
‫جو محنت کو اپنا شعار بنائے عزت کے نوالے کی خاطر آرام ک و س ر ع ام نیالم ک رتے‬
‫ہیں‪ ،‬سے مانگ کر کھان ا ہے۔ س تم ت و یہ ہے کہ ام راء اپ نی بے ج ا دولت و ث روت کی‬
‫نمائش کی خاطر ایسے بیکار لوگوں میں اضافہ کا سب سے بڑا باعث بنتے ہیں۔‬

‫وہ غریب لوگوں کے لئے علم و ہنر کی راہیں کھولنے کے عالوہ ہ ر وہ ک ام ک رتے ہیں‬
‫جن سے غریب کو روکھی سوکھی روٹی تو ملے مگر وہ بے کار رہے۔ اس نم ائش کے‬
‫پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہو سکتا ہے‪ ،‬آپ خوب جانتے ہیں۔ اگ ر غ ریب علم و ہ نر ک ا‬
‫متالشی ٹھہرا‪ ،‬امیر کو صاحب کہنے واال اور خدا کا درجہ دینے واال کون ہو گا؟ ک ون؟‬
‫میں آپ سے جواب طلب ہوں‪ ،‬کون؟‬
‫‪11‬‬
‫دنیا دار کمینے‬

‫‪19/11/2021‬‬

‫مزار اقبال پر حاضری کے دوران ایک عجیب منظر دیکھا‪ ،‬جو دیکھنے والوں کے لیے‬
‫نظر کا دھوکا مگر سمجھنے والوں کے لئے سچائی پر مبنی ایک داستان تھ ا۔ پ ر رون ق‬
‫شہر کے مرد و زن مزار اقب ال پ ر حاض ری کی تمن ا دل میں اور م زار کی زی ارت کی‬
‫خواہش چہروں پر سجائے خرام اں خرام اں م زار کی ج انب رواں دواں تھے۔ م زار ک ا‬
‫احاطہ قریب آیا تو ادب کے لباس میں ملبوس ہو کر‪ ،‬جوتیاں اتار کر مزار اقبال کے اندر‬
‫حاضر ہونے اور فاتحہ خوانی کی خاطر آگے بڑھے تو عجیب منظر دیکھ کر ح یران و‬
‫پریشان ہو کر ایسے کھڑے ہو گئے جیسے بجلی کا بل دیکھ کر غریب آدمی۔‬

‫م زار کے ان در لوگ وں ک ا جم غف یر تھ ا‪ ،‬وہ س فید لب اس میں ملب وس‪ ،‬ہ اتھوں میں س بز‬
‫جھنڈے بلند کیے نعرے لگا رہے تھے۔ ہر منٹ بعد نع رے کی ص دا بجلی کی ک ڑک کی‬
‫مانند بلند ہوتی اور پھر سکوت۔ نئے آنے والے لوگ اس انتظار میں کھ ڑے ہ و گ ئے کہ‬
‫کچھ لمحات بعد ان لوگوں‪ ،‬جو پہلے س ے ہی م زار کے ان در موج ود ہیں‪ ،‬کی حاض ری‬
‫مکمل ہو جائے گی‪ ،‬تو ہم داخل ہ و ک ر اقب ال س ے اپ نی عقی دت ک ا اظہ ار انس انیت کے‬
‫درجے میں رہتے ہوئے کریں گے۔ نعرے بار بار لگائے جا رہے تھے‪ ،‬آواز بلند ہو ک ر‬
‫مدھم اور پھر بلند ہوتی رہی۔‬

‫لوگ مزار کے اندر جانے کی خواہش کو دل میں دبائے احاطہ میں خاموش کھڑے مح و‬
‫انتظار رہے‪ ،‬مگر ان کی حالت صرف وہ آدمی ہی س مجھ س کتا ہے ج و ش دید پیاس ا ہ و‬
‫اور دریا اس کے سامنے اور پانی پینے سے روک لیا جائے۔ مزار کے اندر والے ل وگ‬
‫ب اہر نکل نے ک ا ن ام ت ک نہیں لے رہے تھے اور غض ب ت و یہ تھ ا کہ س فید لب اس میں‬
‫ملبوس‪ ،‬ہاتھ میں سبز جھنڈا اٹھائے جو بھی آتا‪ ،‬سیدھا اندر داخل ہو کر نعرے ب ازی میں‬
‫حصہ دار ٹھہرتا۔ ہر نعرے کے ساتھ مزار کے احاطہ میں کھڑے لوگ وں کے خ ون کی‬
‫گردش میں غصہ کی بدولت تالطم پیدا ہو جاتا مگر وہ اپنے آپ پر قابو پا لیتے۔‬

‫‪12‬‬
‫آخرکار ان لوگوں نے جو باہر احاطہ میں کھڑے تھے ای ک ش خص ک و ان در بھیج ا اور‬
‫کہا کہ وہ اندر جاکر ان لوگوں کو یہ بتائے کہ باہر کچھ لوگ کھڑے ہیں‪ ،‬جن کے ہم راہ‬
‫لڑکیاں بھی ہیں اور مرزا میں حاضری کے خواہشمند ہیں‪ ،‬ب رائے مہرب انی ان ک و ان در‬
‫آنے کی اجازت دی جائے۔ وہ شخص ہمت کر کے مزار کے اندر داخل ہوا اور انہیں کہا‬
‫کہ ”ہم مزار کے اندر حاض ری کے خواہش مند ہیں اور ہم ارے س اتھ لڑکی اں بھی ش امل‬
‫ہیں‪ ،‬آپ برائے مہربانی پانچ منٹ ہمیں بھی موقع دیں کہ ہم اقبال کے س اتھ اپ نی عقی دت‬
‫کا اظہار کر سکیں۔‬

‫“ الفاظ ختم ہوئے تو ای ک معم ر آدمی غص ہ س ے گرج ا‪” ،‬ایتھے بیبی اں دا کی کم اے“‬
‫اور اپنی جماعت کو حکم صادر فرمایا‪” ،‬نعرے بازی جاری رکھ و!“ ۔ نع رے بلن د ہون ا‬
‫شروع ہوئے‪ ،‬شروع کیا ہوئے ایک طوفان سا برپا ہو گیا۔ چند لوگوں نے مزار سے باہر‬
‫آ کر‪ ،‬ٹھیک ان لوگوں کے سامنے جو مزار اقبال کے اندر داخ ل ہ ونے کی اج ازت کے‬
‫خواہاں تھے‪ ،‬نعرے بازی شروع کردی۔ یہ نعرے بازی تو نہ تھی مگر طعنہ زنی۔ ای ک‬
‫ایک نع رے کے س اتھ ج ذبات مش تعل ہ و ج اتے اور نع رے ب ازوں ک و قت ل ک رنے کی‬
‫خواہش کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے مگر شرافت مانع آتی۔ آخر ان لوگوں نے باہر سے‬
‫ہی فاتحہ خوانی کی اور مزار اقبال کے اندر حاض ری کی خ واہش دل میں دب ائے واپس‬
‫چل دیے۔ آپ سب سوچ ہی رہے ہو گئے کہ‪ ،‬ایسا کیا نعرہ تھا ج و غص ہ‪ ،‬اور خ ون کی‬
‫گردش میں تالطم کا باعث بن جاتا تھا؟ نعرہ تھا‪” ،‬قدر نبی ﷺ دا اے کی ج انن دنی ا‬
‫دار کمینے! ‪ ،‬دنیا دار کمینے!“ ‪ ،‬کمینے!‬

‫منٹو کا آدمی‪ :‬اچھائی اور برائی کے تناظر میں‬

‫‪27/11/2021‬‬

‫سعادت حس ن منٹ و کے ہ اں آدمی ک ا تص ور ادب کے دیگ ر شہس واروں کی نس بت بہت‬


‫زیادہ مختلف پایا جاتا ہے۔ ادب کے تم ام شہس واروں نے لکھ ا اور بہت خ وب لکھ ا ہے‬
‫مگر اس میدان میں اپنا زور قلم نہ آزمایا جو سب سے بنیادی اور انسانی جبلت کا نمای اں‬
‫حصہ تھا۔ مگر سعادت حسن منٹو نے اپنے قلم کو‪ ،‬نظیر اک بر آب ادی کے اس مص رعے‬
‫کی تائید کرتے ہوئے کہ سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‪ ،‬اس می دان کے ل ئے‬

‫‪13‬‬
‫مسخر کرتے ہوئے ان لوگوں کو اپنا موضوع بنایا جو غلیظ آدمی اور معاشرے کے لئے‬
‫ناسور تصور کیے جاتے تھے۔‬

‫سعادت حسن منٹو نے جب معاشرے کے برے لوگوں پر قلم اٹھایا تو بغ یر کس ی تغ یر و‬


‫تبدل کے وہ س ب کچھ لکھ ڈاال ج و انہ وں نے دیکھ ا ی ا ان لوگ وں س ے مل نے کے بع د‬
‫محسوس کیا۔ منٹو نے جب اپنا قلم اپنی رائے کو شامل کیے بغ یر لوگ وں کے ک ردار پ ر‬
‫اٹھایا تو مختلف انواع کے پردے جو لوگ وں کے ک ردار پ ر پ ڑے ہ وئے تھے اٹھے ت و‬
‫کئی زہد بدکار اور کی بدکار انسان کے روپ میں ابھرے۔‬

‫یہ سعادت حسن منٹو کا کمال ہے کہ انہوں نے بغیر کسی کی پ رواہ ک یے بے ب اکی کے‬
‫ساتھ وہ سب کچھ لکھ ڈاال جو انہ وں نے دیکھ ا‪ ،‬بے ب اکی کے س اتھ لکھن ا ان کے ل یے‬
‫سزا کا باعث ضرور بنا‪ ،‬مگر وہ لکھتے رہے اور معاشرے کو بے نقاب کرتے رہے۔‬

‫انہوں نے خود یہ کہا ہے کہ ان کے کردار وہ لوگ ہرگز نہیں ہو س کتے ج و کہ پ اکیزہ‬


‫اور نفیس ہوتے ہیں‪ ،‬بلکہ ان کے کردار وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاش رے کی گن دگی ک و‬
‫صاف کرتے ہیں۔ وہ خود اس کی مثال یوں پیش کرتے ہیں کہ آپ ش ہر میں خوبص ورت‬
‫اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں‪ ،‬یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھ انے کے‬
‫کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غالظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لیے اور گاڑی اں موج ود‬
‫ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں یا دیکھتے بھی ہیں تو فورًا اپنی ناک پر رومال رکھ لی تے‬
‫ہیں۔‬

‫اگر ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے جو معاشرے کی گندگی صاف کرتی ہیں‪ ،‬ت و پھ ر‬
‫ان کرداروں کا وجود بھی ضروری ہے ج و معاش رے کی غالظت ک و اٹھ اتے ہیں۔ اور‬
‫اگر یہ کردار نہ ہوتے تو ہمارے سب گلی کوچے لوگوں کی غلیظ حرک ات س ے بھ رے‬
‫ہوئے ہوتے۔ اس لیے سعادت حسن منٹو نے انہیں لوگ وں ک و اپ نے افس انوں بلکہ س چی‬
‫کہانیوں ک ا موض وع بنای ا۔ ان کے افس انوں میں ہمیں ایس ے ک ئی ک ردار مل تے ہیں ج و‬
‫افسانے کی ابتدا میں جس روپ میں نظر آتے ہیں آخ ر ت ک وہ روپ ب دل چک ا ہوت ا ہے‬
‫اور اسے پڑھتے ہوئے منہ سے ایک جملہ نکلتا ہے کہ ایسا بھی ہو س کتا ہے کی ا؟ اگ ر‬
‫بات کریں سعادت حسن منٹو کے کردار بابو گ وپی ن اتھ کی ت و وہ افس انے کی ابت دا میں‬
‫نہایت غلیظ اور برا کردار ہے‪ ،‬مگر افسانے کی انتہا تک وہ ایک نفیس اور عمدہ کردار‬

‫‪14‬‬
‫کے روپ میں ہماری نظر کے سامنے آتا ہے۔ ایسے اور کئی ک ردار منٹ و کے افس انوں‬
‫کی شان ہیں۔‬

‫جب سعادت حسن منٹو نے معاشرے کے غلی ظ تص ور ک یے ج انے والے ک رداروں ک و‬


‫موضوع سخن بنایا تو ان کے خالف لوگوں کی مخالفت کا ایک طوفان سا کھ ڑا ہ و گی ا‪،‬‬
‫مگر انھوں نے بس اتنا کہتے ہوئے کہ ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬تمام لوگوں کا منہ بند کر دیا اور اپنے کرداروں کو امر کرتے رہے۔‬

‫چلو اس طرف کو ہوا ہو جدھر کی‬

‫‪2021/12/04‬‬

‫”وقت ان کا ہوتا ہے جو وقت کے ہوتے ہیں۔“ دوسرے الفاظ میں ”وقت ان کا س اتھ دیت ا‬
‫ہے جو وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔“ یہ مقولہ صدیوں محو گردش رہ ا اور ہے۔ یہ اص ول‬
‫اس عالم مادی میں سب اقوام میں مقبول رہا ہے کہ اگر کچھ پا لینے کی تمن ا دل میں اور‬
‫حاصل کرنے کے لئے قوت بازوں میں موجود ہ و ت و وقت کے بے ک راں دری ا میں بہہ‬
‫کر ہی وہ تمنا تکمیل ہوتی ہے۔ وہ اق وام‪ ،‬ف رد اور ل وگ ہمیش ہ ناک امی س ے دو چ ار ہی‬
‫ہوئے جنہوں نے زمانے کی رفتار کو چھوڑ کر سست روی کو اپنا شعار بنایا اور ک اہلی‬
‫کا دامن تھام کر مستی میں ہستی کو مگن رکھا۔‬

‫جب ان دو تجربات کو مدنظر رکھا جائے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کے ”تم‬
‫چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو‪ ،‬پأوں رکتے نہیں زمانے کے۔“ اگر ہم تاریخ کے تن اظر میں‬
‫اس فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا کیوں ضروری‬
‫ہے تو ہم با آسانی اس حقیقت کا ادراک حاصل ک ر لیں گے کہ آخ ر وہ کی ا وجوہ ات ہیں‬
‫جو ہمیں‪ ،‬یعنی ان لوگوں کو جو پیدائشی آزاد پی دا ہ وئے ہیں‪ ،‬وقت ک ا قی دی بن ا ک ر اس‬
‫کے بہأو میں بہہ جانے کا درس دیتی ہیں۔‬

‫بات شروع کرتے ہیں جنگ آزادی س ے کی ونکہ یہ وہ جن گ ہے جس نے ہندوس تان کی‬
‫قسمت کا اصل فیصلہ کیا تھا۔ اس جنگ میں ہندوس تان کے آخ ری مغ ل بادش اہ کے پ اس‬
‫مادی قوت بہت زیادہ تھی کیونکہ جنگ ہندوستان میں رہ ک ر انگری ز ق وم‪ ،‬ج و کہ ای ک‬
‫نئی وارد قوم تھی‪ ،‬کے خالف لڑی گئی اور دوسری طرف انگری ز ق وم کے پ اس م ادی‬
‫‪15‬‬
‫قوت گو بہادر شاہ ظفر کی نس بت کم تھی مگ ر اس کے پ اس اس وقت کے جدی د ہتھی ار‬
‫اور وقت کی گردش کی دھول سے سینچا ہوا دماغ تھا۔‬

‫اس وجہ سے وہ جنگ جیت گئے اور بہادر شاہ ظفر قوم سمیت ہار گیا۔ اس کی یہی وجہ‬
‫تھی کہ مغل شان و شوکت کا آخری چراغ ہستی کی مستی میں کھو کر وقت کے س مندر‬
‫کی ان لہروں ج و ع روج کی پاس باں تھیں س ے پیچھے رہ گی ا۔ جب ان ح االت ک ا قتی ل‬
‫شفائی نے عمیق نظر سے جائزہ لیا تو یہ کہنے پر مجبور ہ و گ ئے کہ ”ہم ک و چلن ا ہے‬
‫مگر وقت کی رفتار کے ساتھ۔“‬

‫اگر ہم بات کریں جنگ عظیم دوم کی تو اس جنگ میں بھی وقت کے ساتھ نہ چلنے سے‬
‫جو نقصان برپا ہ وا اس ک ا نقش ہ واض ح نظ ر آت ا ہے۔ جاپ ان جس کی ف وجی ق وت انتہ ا‬
‫درجے کی مضبوط تھی مگر وہ جن گ اس وجہ س ے ہ ار گ ئے کہ انہ وں نے وقت کے‬
‫ساتھ چلتے ہوئے اس وقت ایٹم بم بنانے پر توجہ مرکوز نہ کی جب امریکہ اس قوت ک و‬
‫حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔ اسی وجہ سے امریکہ نے ہاری ہوئی جنگ‬
‫کو جیت میں بدل کر فتح کا تمغہ اپنے نام کر لیا کی ونکہ وہ وقت کی رفت ار ک و بھ انپتے‬
‫ہوئے اس کے ساتھ ہو لیے تھے۔‬

‫ان دو امثال سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اگر خواہش ہو گوہر نایاب کی تو جسم میں‬
‫تیرنے کی قوت اور روح میں سمندر میں کود جانے کا ج ذبہ بھی ہون ا چ اہیے۔ اس وقت‬
‫دنیا میں جتنی قومیں بھی سرخرو ہیں اگر ان کی تاریخ کی کتب کے پنوں کو پلٹ ا ج ائے‬
‫تو سب سے اہم نکتہ جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہو گا کہ انہوں نے وقت کی رفتار اور‬
‫ضرورت کے مطابق خود کو ڈھاال اور آہس تہ آہس تہ پیت ل س ے س ونے میں تب دیل ہ وتی‬
‫گئیں۔ ان قوموں کی ترقی کے راز کو ندا فاضلی یوں عیاں کرتی ہیں کہ ہم نے اپنا لیا ہر‬
‫رنگ زمانے واال۔ اگ ر موج ودہ دور میں ہم کامی اب و ک امران ہون ا چ اہتے ہیں ت و ہمیں‬
‫وقت کے سمندر میں چھالنگ لگاتے ہوئے ان لہروں کا تعاقب کرن ا چ اہیے ج و ہم اری‬
‫منزل کی جانب رواں دواں ہوں۔‬

‫کٹاس راج‪ ،‬تاریخ کے آئینہ میں تہذیب‬

‫‪16‬‬
‫‪09/12/2021‬‬

‫کٹاس راج الہور سے شمال مغرب کی جانب اڑھ ائی س و کلومی ٹر کے فاص لے پ ر چن د‬
‫قدیم عمارتوں کا مجموعہ ہے جن کو ع رف ع ام میں من در کہ ا جات ا ہے۔ اس من در ک و‬
‫زمان و مکان کا صید ہوتے ہوئے‪ ،‬مادی آنکھ سے دیکھنے سے قبل میں اسے اینٹوں پر‬
‫مشتمل ایک کھنڈر تصور کرتا تھا‪ ،‬بس ایک کھنڈر۔‬

‫جب راقم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی الہ ور کی ادبی مجلس‪ ،‬مجلس اقب ال کے ہم راہ کل ر‬
‫کہار کی پراسرار سرزمین سے گزرتا ہوا کٹاس راج پہنچا‪ ،‬نظر مندر کی قدیم عم ارتوں‬
‫پر یوں گری جیسے سورج کی روشنی سے دیوار کا سایہ زمین پر‪ ،‬میں دنگ رہ گیا۔ وہ‬
‫ایک کھنڈر نہ تھی بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عہ د رفتہ کی تہ ذیب ت اریخ کے لب اس‪،‬‬
‫وہ لباس جس نے اس کی شکل و صورت پر اپنی بربریت کی مہر ثبت ک ر دی تھی‪ ،‬میں‬
‫ملبوس کھڑی ہو۔‬

‫اس تہذیب کا چند لمحات کے ل یے حص ہ بن نے اور کچھ س یکھنے کی غ رض س ے اس‬


‫عمارت کی طرف بڑھا جو پانچ ہزار سال کی دانائی س میٹی ہ وئی‪ ،‬س ب عم ارتوں س ے‬
‫بلند ملکہ کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ ملکہ کی جانب بڑھتی ہ وئی س یڑھیوں ک و میں‬
‫نے اپنا منتظر پایا اور ملکہ جیسی عمارت پر نظر جم ائے س یڑھیاں عب ور ک رنے لگ ا۔‬
‫راستے میں میرے ساتھ آئے ہوئے ساتھی تص اویر ات ارنے میں مح و تھے۔ اس سلس لے‬
‫میں کوئی بال سنوار رہا تھا تو کوئی چشمہ پہن نے ک ا ان داز۔ ج وں ج وں م نزل مقص ود‬
‫قریب آتی گئی تجسس بڑھتا گیا۔ قریب پہنچا تو لطیف طرز تعمیر دیکھ ک ر آنکھیں پھ ٹی‬
‫کی پھٹی رہ گئیں مگر جب اس عمارت کو مقفل پایا تو غصہ چہرے پر الل پیال ہوتا گیا۔‬

‫آگے بڑھنے ہی واال تھا کہ مجلس اقبال کے جنرل سیکرٹری ثمر کو وہاں کھڑا پایا۔ ثمر‬
‫نے مجھے دیکھ تے ہی مس کراتے ہ وئے کہ ا حس ن من در کتن ا پراس رار ہے۔ اس کے‬
‫چہرے سے عیاں تھا کہ وہ بھی چند لمحات زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر پانچ ہ زار‬
‫سالہ قدیم تاریخ میں ضم ہو جانے کا منتظر ہے۔ ثمر ک و ی وں دیکھ ک ر خوش ی کی ہلکی‬
‫سی لہر میرے چہرے پر رقص کرنے لگی۔ اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے میں نے کہا ثم ر‬
‫چلو اس مقدس تاالب کی جانب چلتے ہیں جس کے متعل ق مش ہور ہے کہ وہ ت االب ش یو‬
‫کے ان آنسؤوں سے وجود میں آیا جو انہوں نے اپنی بیوی س تی‪ ،‬ج و ان ک و چھ وڑ ک ر‬
‫ہمیشہ کے لیے اجل کی وادی میں اتر گئی تھی‪ ،‬سے جدائی کے غم میں بہائے۔‬
‫‪17‬‬
‫ہم دونوں تاالب کی جانب‪ ،‬جو سب سے بلندی پر واقع عم ارت س ے نچلی ج انب مش رق‬
‫کی طرف موجود تھا‪ ،‬چل نکلے۔ راستے میں چند عمارتیں اپنی قدیمیت میں چھپی ہ وئی‬
‫تہذیب کو عیاں کرنے کی خاطر یوں سلیقے سے خاموش کھڑی تھیں جیسے غ ریب ک و‬
‫مالی ام داد دی نے کی غ رض س ے نم ود و نم ائش س ے بے نی از ام یر آدمی۔ ہم ی وں ان‬
‫عمارتوں کی جانب بڑھے جیسے ام یر آدمی س ے م الی تحفہ وص ول ک رنے کی خ اطر‬
‫غریب۔ اندر داخل ہو کر طرز تعمیر ک و دیکھ نے کے س اتھ س اتھ اس تہ ذیب کے ب ود و‬
‫باش اور رہن سہن کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے جو آج سے پانچ ہ زار س ال قب ل‬
‫صفحہ قرطاس پر موجود تھی۔‬

‫ہنومان کے مندر‪ ،‬جس کی دی واریں مورتی وں کی تص اویر اور ب االئی گنب د ک ا ان درونی‬
‫حصہ مینا کاری سے آراستہ تھا‪ ،‬نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آج س ے پ انچ‬
‫ہزار سال قبل لوگ کن عقائد کو بنیاد بن ائے‪ ،‬کن خواہش ات ک و س ینے س ے لگ ائے‪ ،‬اس‬
‫میں آ کر ہنومان کی عبادت کس انداز س ے ک رتے تھے اور ہنوم ان کس ط رح کھ ڑا ان‬
‫کی بے بسی پر قہقہے لگاتا تھا۔‬

‫تاالب کی جانب بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ قدرتی خشکی تاالب ک ا مق در بن چکی ہے‬
‫مگر مصنوعی طریقے سے اس میں پانی ڈاال جا رہا ہے ت اکہ ق دیم عقائ د ک و جال مل تی‬
‫رہے۔ ہم نے اس کے درمیان میں پڑے ہوئے ایک پتھر پ ر ج ا ک ر اس کی آنکھ وں میں‬
‫جھانکتے ہوئے عہد قدیم کی تہذیب و ثقافت کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہی مگ ر‬
‫وہ آنکھیں سپاٹ کیے بے حس پڑھا رہا۔‬

‫تاالب کے مشرق‪ ،‬شمال اور شمال مغرب میں کھ ڑی ہ وئی چن د عم ارتیں جن کے ان در‬
‫جھانکنا ہمارے لئے باعث اضطراب بنتا جا رہا تھا‪ ،‬ان کی جانب چلنے لگے۔ وش نو کی‬
‫مورتی دیکھنے کے ساتھ ساتھ ترشول پر بھی نگاہ پ ڑی‪ ،‬دون وں ت اریخ کی چاش نی کے‬
‫ساتھ قدیم تہذیب کے عقائد پر گواہ کھڑے تھے۔‬

‫ایک عمارت دیکھی اس کی طرز تعمیر نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ دربار کا س ا نقش ہ‪،‬‬
‫دیواریں مورتی وں کی تص اویر س ے م زین‪ ،‬روش ن دان س لیقے س ے بن ائے ہ وئے اور‬
‫س یڑھیاں ایس ی کے جدی د ط رز تعم یر ک و بھی خ اطر میں نہ الئیں۔ ہم اس میں کھ ڑے‬
‫حیرت میں گم ہو کر تاریخ کے آئینہ کو دیکھتے ہوئے پ انچ ہ زار س الہ تہ ذیب میں کھ و‬
‫گئے۔‬
‫‪18‬‬
‫غاروں میں بسیرا کرنے واال الو‬

‫‪21/12/2021‬‬

‫عالمہ اقبال نے تخیل کی پرواز میں محو ہوتے ہوئے نوجوان ( یاد رہے یہ نوج وان اس‬
‫وقت کا نوجوان ہے جس وقت موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا سے خ اکی دنی ا بے خ بر‬
‫تھی) کو شاہین کا تمغہ عطا کرتے ہوئے کہا تھا کہ‬

‫” نہیں تیرا نشیمن قصِر سلطانی کے گنبد پر‬

‫تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔”‬

‫اقبال نے ایسا اس لئے کہ ا تھ ا کہ اس ے نوج وان میں وہ خصوص یات نظ ر آئیں ج و کہ‬
‫شاہین نام کے پرندے کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہیں۔ اگ ر ان تم ام خصوص یات‬
‫کو قلم کی نوک سے گزار کر زب ان دی نے کی کوش ش کی گ ئی ت و اص ل مض مون پ ایہ‬
‫تکمیل تک پہنچنے کی سعی میں ہی دم توڑ کر بھٹک جانے والے گمنام مسافر کی طرح‬
‫بے منزل رہ جائے گا۔ اسی لیے یہاں صرف دو تین خصوصیات‪ ،‬ج و ہم ارے موض وع‬
‫سے براہ راست رشتہ قائم کرتی ہیں‪ ،‬کو احاطہ تحری ر میں التے ہ وئے اص ل موض وع‬
‫کی طرف بڑھنے کی کوشش ک ریں گے۔ پہلی ص فت یہ ہے کہ ش اہین رات ک و آرام اور‬
‫دن کے وقت طعام اور باقی معامالت سرانجام دیتا ہے‪ ،‬دوسری صفت ج و ب اقی پرن دوں‬
‫سے اسے ممیز ک رتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپن ا رزق‪ ،‬ج و خ دا کی ط رف س ے اس کے‬
‫نصیب میں پہلے ہی لکھا جاچکا ہے‪ ،‬خود تالش کرتا ہے اور کسی دوس رے پرن دے ک ا‬
‫سہارا نہیں لیتا بلکہ اپنی قوت اور طاقت پر بھروس ہ ک رتے ہ وئے راس تہ اکیال ہی طے‬
‫کرت ا ہے۔ جس وقت اقب ال نے نوجوان وں ک و ش اہین کہ ا اس وقت نوج وان میں کچھ ک ر‬
‫جانے کی تڑپ اور کچھ پالینے کا حوصلہ موجود تھا۔ اقب ال کے الف اظ ان نوجوان وں پ ر‬
‫ایسے منطبق ہوتے تھے جیسے دیودار کی لکڑی میں کیل۔‬

‫اقبال سے معذرت کرتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہ وں کہ موج ودہ تن اظر میں جب‬
‫دنیا کا تصور انٹر نیٹ کی دنیا کے بغیر تقریب ا ن اممکن ہوت ا ج ا رہ ا ہے درج ب اال ش عر‬
‫نوجوانوں کے کردار کو پرکھتے ہوئے ان کے کردار پر پورا نہیں اترتا۔ اور میں غ الب‬
‫یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج اقبال اس عالم فانی میں موجود ہوتے تو وہ‬
‫‪19‬‬
‫” تو ش اہیں ہے بس یرا ک ر پہ اڑوں کی چٹ انوں میں” کی بج ائے کہ تے کہ ت و ال و ہے‬
‫بسیرا کر پہاڑوں کی غاروں میں۔ آپ کو میرا یہ تخیل پر مبنی جملہ گ راں گ زرا ہوگ ا‪،‬‬
‫کوئی بات نہیں گراں گزرنا بھی ضروری تھا۔ ایسا اقبال کیوں کہتے؟‪ ،‬اس س وال نے آپ‬
‫کے ذہن کی کسی گمنام خ الی جگہ میں س ر اٹھ انے کی کوش ش ض رور کی ہ وگی۔ اس‬
‫س وال ک ا ج واب تالش ک رنے س ے قب ل‪ ،‬ج واب تالش ک رنے ہی کے ل یے‪ ،‬ال و کی‬
‫خصوصیات کا تذکرہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔‬

‫ال و ص بح ک و س وتا ہے اور رات ک و جاگت ا ہے‪ ،‬کس ی دوس رے پرن دے‪ ،‬س وائے اپ نی‬
‫برادری کے چند پرندوں کے‪ ،‬کے ساتھ کچھ واسطہ نہیں رکھت ا۔ ان دو خصوص یات ک و‬
‫ہی بنیاد بنائے اگر موجودہ نوجوان کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پہال‬
‫ثبوت ہمیں یہی ملے گا کہ دور جدید کا نوجوان دن کو سوتا ہے اور رات ک و جاگت ا ہے۔‬
‫شام پ ڑتے ہی ان کی آنکھیں ایس ے کھ ل ج اتی ہیں جیس ے روٹی ک و دیکھ ک ر بھ وکے‬
‫غریب کا منہ۔ کوئی فلم دیکھنے میں محو ہے ‪ ،‬تو کوئی گیم کی تخیالتی دنی ا میں کھوی ا‬
‫دشمن کو ختم کرنے میں سرگرداں۔ ان ک و کچھ خ بر نہیں ہ وتی کہ س اتھ والے کم رے‪،‬‬
‫بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ساتھ والے بستر پر پڑے ہوئے انسان کے کیا مزاج اور‬
‫حاالت ہیں۔ یعنی سیدھے الفاظ میں الوؤں کی طرح انہیں ایسا محسوس ہوت ا ہے کہ س اتھ‬
‫واال ان کی برادری کا نہیں اور اگر انہوں نے اس سے کالم کر لیا تو برادری سے نک ال‬
‫کر دربدر کر دیا جائے گا۔ اس لیے ای ک دوس رے س ے گفتگ و ہرگ ز نہیں ہ و پ اتی اور‬
‫دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن صبح کی پو پھوٹنے کے ساتھ ہی سو جاتے ہیں۔‬

‫اپنی بات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قب ل میں ال وؤں س ے اس گس تاخی کی مع افی‬


‫طلب کرنا چاہتا ہوں جو میں نے الوؤں کو الوؤں س ے تش بیہ دی تے ہ وئے کی ہے۔ امی د‬
‫کرتا ہوں مجھے بیوقوف انسان گردانتے ہوئے معاف ضرور کریں گے۔‬

‫آخری صفحہ‬

‫‪03/01/2022‬‬

‫لفظ ”آخری“ ابدی گھ ر س ے درب در ک ر دیے ج انے والے خ اکی پتل وں کی چ ار روزہ‬
‫حیات میں وہ کردار نبھاتا ہے جو ان کے دلوں کی گہرائی میں پنہ اں خواہش ات ک و س ر‬

‫‪20‬‬
‫بازار الکر پارہ پارہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ زندگی کے کینوس کو سمیٹ ک ر ای ک‬
‫لفظ میں بیان کرنے کی سعی لفظ آخری پر اختتام ہوتی ہے۔ زندگی کا ہ ر لمحہ‪ ،‬ہ ر پہل و‬
‫اور ہر سانس اسی لفظ کا منتظر اور متالشی ہوت ا ہے۔ ازل س ے لے ک ر اب ت ک انس ان‬
‫کہ انی‪ ،‬کت اب‪ ،‬نظ ریہ‪ ،‬فلس فہ اور فلم بلکہ زن دگی کے ہ ر پہل و کے س اتھ ج ڑے ہ وئے‬
‫لمحات میں میں ہمیشہ لفظ آخری کا ہی خواہاں رہا۔ اور یہ سلسلہ ابد تک ی وں ہی ج اری‬
‫و ساری رہے گا۔‬

‫کتاب کا آخری صفحہ‪ ،‬ڈرامہ کی آخری قسط اور فلم کے آخ ری چن د منٹ ہی وہ لمح ات‬
‫ہیں جن میں یقینی فیصلہ ہوتا ہے کہ ک ل مال ک ر فلم‪ ،‬ڈرامہ اور کت اب اچھی تھی ی ا کے‬
‫انسان کے بنائے ہوئے اس معیار سے تعلق رکھتی تھی جسے عرف عام میں برا تص ور‬
‫کیا جاتا ہے۔ کیونکہ قانون فطرت ہے‪ ،‬انت بھال سو بھال۔‬

‫اگر بات کی جائے ان انسانی احساسات‪ ،‬نظری ات‪ ،‬فلس فیات اور تجرب ات کی جن ک و قلم‬
‫کی نوک سے گزار کر سپاٹ صفحات پر رقم کرتے ہوئے کتاب کی شکل دی ج اتی ہے‬
‫تو صفحات کی گہرائیوں میں کھو کر ہمیشہ اس صفحہ کی تالش کی جاتی ہے ج و س ب‬
‫سے آخری اور حتمی ہوتا ہے۔ کیونکہ آخری ص فحہ ہی وہ ص فحہ ہوت ا ہے ج و یہ راز‬
‫فاش کرنے کا گر جانتا ہے کہ انجام کیا ہوا۔‬

‫زندگی بھی ایک کتاب کی مانند ہے اور اس بے عنوان کتاب کا آغاز اس چیخ س ے ہوت ا‬
‫ہے جب بچہ ماں کے بہشت نما شکم سے ظالم دنیا میں قدم رکھتے ہوئے عالم خاکی کی‬
‫بربریت پر نوحہ خواں ہوتا ہے۔ ہر لمحہ ایک لفظ‪ ،‬ہر دن ایک صفحہ‪ ،‬ہر ماہ ای ک ب اب‬
‫اور ہر سال ایک حصہ کا نمائندہ بن کر زندگی کی کتاب کے سفید صفحات کو کاال کرت ا‬
‫ہوا گ زر جات ا ہے۔ م اں ب اپ‪ ،‬رش تہ دار‪ ،‬دوس ت احب اب اور ی ار بیلی اس کت اب کے وہ‬
‫کردار ہوتے ہیں جن سے کتاب میں رحمت‪ ،‬اداسی‪ ،‬حقارت‪ ،‬نفرت‪ ،‬حسد‪ ،‬خوش ی‪ ،‬غمی‬
‫اور محبت کے عناصر کا اضافہ ہوتا ہے۔‬

‫ہر کردار اپنی نوعیت کا منفرد اور اعلی کردار بننے اور اپنے الگ معیار کی مہر کتاب‬
‫میں ثبت کرنے کی کوشش میں س رگرداں نظ ر آت ا ہے۔ اوپ ر بی ان ک ردہ ک رداروں کے‬
‫عالوہ بھی کئی کردار ہوتے ہیں جن کا کوئی نام نہ حلیہ اور نہ ہی ک وئی نش اں مگ ر وہ‬
‫موجود ہوتے ہیں۔ کبھی خوشگوار آغاز بن کر زندگی کے پہلے صفحے کی زینت بن تے‬
‫ہیں تو کبھی پراسراریت کا لبادہ اوڑھ کر آخری صفحہ میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔‬
‫‪21‬‬
‫زندگی کی ہر کتاب منفرد اسلوب‪ ،‬الگ طرز بیان اور جدا ج دا ک رداروں ک ا اپ نے ان در‬
‫سمیٹے ہوئے عجب لمحات کا مجم وعہ ہ وتی ہے مگ ر گمن ام اور بے نش ان ک ردار ہ ر‬
‫کتاب کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ کردار انسان کو کبھی خوابیدہ دنیا میں لے جاکر پرستان کی‬
‫سیر کرواتے ہیں تو کبھی حقیقی دنیا کے مسخرے ب ازاروں میں س ر ع ام نیالم ک ر کے‬
‫بے بسی کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ان کرداروں کا زندگی کی نایاب کت اب میں آن ا اور کت اب‬
‫سے گم ہو جانا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔‬

‫جب یہ کردار پراسراریت کا لبادہ اوڑھ ک ر ف انی انس ان کی زن دگی کی کت اب کے پہلے‬


‫صفحے میں قدم رکھتے ہیں تو انسان کو دنیا کی ہر چ یز خوش ی میں جھوم تی اور وقت‬
‫رقص کرتا ہوا محس وس ہوت ا ہے۔ انس ان کے نزدی ک ف انی زن دگی کے ف انی ہ ونے ک ا‬
‫احساس ختم ہونا ش روع ہ و جات ا ہے اور انس ان اپ نے آپ ک و اب دیت ک ا ش اہکار تص ور‬
‫کرتے ہوئے کرداروں کی گہرائی کے اندر چھپے ہوئے اندھیرے س ے بے خ بر ان کی‬
‫معطر گفتار میں کھو کر رہ جاتا ہے۔‬

‫مگر جب یہ کردار آخری صفحہ میں اپنی پراسراریت کا لبادہ چ اک ک ر کے انس ان کے‬
‫روبرو ہو کر اپنے اصلی اور حقیقی روپ کی نمائی کرتے ہیں تو انس ان پ ر اپ نے ف انی‬
‫ہونے کا ایسا راز عیاں ہوتا ہے ہے کہ وہ پ ارہ پ ارہ ہ و ک ر اپ نی زن دگی کی کت اب کے‬
‫آخری صفحہ میں اپنے آپ کو دفن کرتے ہوئے ابدی نیند سو جاتا ہے۔ ابدی نیند!‬

‫نظیر اکبر آبادی کا ہنس نامہ‬

‫‪11/01/2022‬‬

‫نظیر اک بر آب ادی ک ا اس م گ رامی ولی محم د اور تخلص نظ یر ک رتے تھے۔ جنم دن کے‬
‫متعلق حتمی فیصلہ کرنا کہ وہ کب پیدا ہوئے مشکل ہے کی ونکہ ت اریخ حتمی فیص لہ ک ا‬
‫سراغ وا کرنے سے قاصر ہے۔ ہاں مگر ”زندگانی بے نظ یر“ میں پروفیس ر عب دالغفور‬
‫شہباز نظیر اکبر آبادی کی دہلی میں پیدائش محمد شاہ رنگیال کے عہ د میں اور رام ب ابو‬
‫سکسینہ نادر شاہ کے حملہ کے وقت بیان کرتے ہیں۔ مبہم اشارات کی روشنی میں ق رین‬
‫قیاس یہی ہے کہ ان کی پیدائش ‪ 1740‬ء۔‪ 1735‬ء کے دوران دہلی میں ہوئی۔ وال د محم د‬
‫فاروق کے ہمراہ آپ بچپن میں ہی اکبر آباد (آگرہ) منتقل ہو گ ئے۔ اس ی وجہ س ے نظ یر‬

‫‪22‬‬
‫اکبر آبادی کہالئے۔ عام حاالت و واقعات اور احساسات ک و س ادہ اور ع ام فہم زب ان میں‬
‫پیش کرنے کا فن نظیر کا خاصہ ہے۔ اسی بنا پر انہیں عوامی شاعر تس لیم کی ا جات ا ہے۔‬
‫ان کی چند معروف نظموں میں آدمی نامہ‪ ،‬روٹی اں‪ ،‬بنج ارا ن امہ‪ ،‬مفلس ی اور ہنس ن امہ‬
‫وغیرہ شامل ہیں۔ ‪ 1830‬ء میں فالج کے باعث ان کا انتقال آگرہ میں ہوا۔‬

‫بقول محمد وزیر خاں ‪:‬‬

‫”کتاب لطف مآب پسند ہر صغیر و کبیر کلیات نظیر۔“‬

‫تمثیل نگاری‪:‬‬

‫ایسا انداز تحریر جس میں موضوع پر براہ راست بحث ک رنے کے بج ائے اس تعارات و‬
‫تشبیہات اور تخیلی کرداروں (غیر ذی روح یا غیر ذی عقلی) کو اس تعمال ک رتے ہ وئے‬
‫اصل موضوع بیان کیا جائے تمثیل نگاری کہالتا ہے۔‬

‫فکری جائزہ‪:‬‬

‫نظیر اکبر آبادی نے نظم بعنوان ”ہنس نامہ“ میں تمثیل نگاری کو استعمال ک رتے ہ وئے‬
‫انسان کی اس عالم مستعجل میں اکیلے آمد اور اس جہان فانی سے ابدی ع الم کی ط رف‬
‫اکیلے کوچ کی حقیقت کو ہنس کے روپ میں بیان کیا ہے۔‬

‫آیا تھا کسی شہر سے ایک ہنس بچارا‬

‫اک پیڑ پہ جنگل کے ہوا اس کا گزارا‬

‫جب آدمی اس دنیا میں تشریف التا ہے تو اس کے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ اس محلے‬
‫میں جہاں وہ پیدا ہوتا ہے‪ ،‬خوشی کا سماں ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ جوانوں کی صف میں‬
‫قدم رکھتا ہے اور سب اس پر فدا ہونے لگتے ہیں۔‬

‫سب ہو کے خوش اس کی مے الفت لگے پینے‬

‫ہر آن جتانے لگے چاہت کے قرینے‬

‫وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں اس قدر گھل مل جاتا ہے کہ اس کے دوست احباب اس س ے‬
‫جدائی کا تصور کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ دوست احباب‪ ،‬رش تہ دار اور چن د محبت‬
‫میں اعلٰی مقام کے حام ل ذی وق ار اس کے س اتھ جی نے م رنے کی قس میں کھ اتے ہیں۔‬
‫‪23‬‬
‫مگر ایک دن اسے ازل سے بالوا آ ہی جاتا ہے اور جب وہ اپنے احباب س ے راز عی اں‬
‫کرتا ہے تو وہ گویا ہوتے ہیں کہ اگر تم چلے گئے تو ہمارا جین ا ممکن نہ ہ و گ ا۔ ہم بھی‬
‫تمہارے ساتھ چلیں گے۔‬

‫اک آن نہ دیکھیں گے تو دل غم سے بھریں گے‬

‫ہم جتنے ہیں سب ساتھ تمہارے چلیں گے‬

‫آخرکار وہ فانی دنیا سے عالم حقیقت کی جانب کوچ کر جاتا ہے اور تمام دوست اس کے‬
‫جنازے کے ساتھ چلتے ہیں کوئی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد تو کوئی ق بر پ ر مٹھی‬
‫بھر مٹی ڈال کر پہلی ہی منزل سے واپس لوٹ آتا ہے اور وہ آخری منزل یع نی ق بر میں‬
‫اکیال ہی جاتا ہے۔‬

‫اس پہلی ہی منزل میں کیا سب نے کنارا‬

‫آخر کے تئیں ہنس اکیال ہی سدھارا‬

‫فنی تجزیہ‪:‬‬

‫نظیر اکبر آبادی کی زیر تجزیہ نظم کا عنوان ہے ”ہنس ن امہ“ ۔ ن امہ کے مع نی خ ط ی ا‬
‫چٹھی کے ہیں۔ نظم کے متن میں ہنس کو تمثیل کے طور پر استعمال کیا گی ا ہے ج و کہ‬
‫انسان کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس بنا پر ہنس نامہ کے معنی ہوئے انسانی خط دیگر الف اظ‬
‫میں انسانی زندگی کا خط۔‬

‫اس نظم کا ہر بند پانچ مصرعوں پ ر مش تمل ہے جس ک ا مطلب یہ ہے کہ یہ نظم مخمس‬


‫ہے۔ اس نظم میں قافیہ کا استعمال ایسی خوبی سے کی ا گی ا ہے کہ ت رنم کے س اتھ س اتھ‬
‫معنی پوری آب و تاب کے ساتھ واضح ہو جاتے ہیں۔ محاورات کو نظم میں ایسے ج وڑا‬
‫گیا ہے جیسے نگینہ انگوٹھی میں۔ مثًال مواف ق ہون ا‪ ،‬آنکھ ک ا ت ارا ہون ا‪ ،‬ج ان وارن ا اور‬
‫کنارہ کرنا وغیرہ۔‬

‫کیونکہ یہ نظم اٹھارہویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل کی تص نیف ہے اس‬
‫وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کا استعمال نظر آتا ہے جو موجودہ دور میں متروک ہو چکے‬
‫ہیں مثًال ایدھر اور ہووے وغیرہ۔‬

‫مجموعی تاثر‪:‬‬
‫‪24‬‬
‫نظ یر اک بر آب ادی کی نظم ”ہنس ن امہ“ تم ثیلی نظم ہے جس میں خوبص ورت ق افیہ اور‬
‫محاورات کا استعمال کرتے ہوئے انسان کی عالم فانی میں اکیلے آمد و انتق ال کی حقیقت‬
‫کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔‬

‫حواشی‪:‬‬

‫‪:1‬۔ پروفیسر محمد عبدالغفور شہباز‪” ،‬زن دگانی بے نظ یر“ ‪ ،‬لکھن ٔو‪ ،‬منش ی ن ول کش ور‬
‫مطبع‪ 1900 ،‬ء‪ ،‬ص ‪411‬۔‬

‫‪:2‬۔ نظیر اکبر آبادی‪” ،‬قاصد نامہ و ہنس نامہ“ ‪ ،‬مطبع آئینہ سکندر‪ ،‬ص ‪4‬۔‬

‫کالی شلوار‪ :‬فحاشی کا پلندا یا حقیقت کی روداد‬

‫‪30/01/2022‬‬

‫کالی شلوار سعادت حسن منٹو ک ا وہ افس انہ ہے ج و ‪1942‬ء میں ش اہد احم د دہل وی کے‬
‫جریدے ” ساقی ” میں ش ائع ہ وا۔ اس افس انہ پ ر فحاش ی کے ال زام میں الہ ور کی کس ی‬
‫عدالت میں مقدمہ چالیا گیا جہاں یہ افس انہ فحاش ی پ ر مب نی داس تان ٹھہ را مگ ر سیش ن‬
‫کورٹ الہور میں سزا کے خالف اپیل کی گئی تو اسے غیر فحش قرار دے کر منٹ و ک و‬
‫بری کر دیا گیا۔ عدالتی ریکارڈ ناپید ہونے کے سبب اس بات ک ا ثب وت پیش کرن ا کہ کن‬
‫وجوہات کی بنا پر اسے فحش اور غیر فحش قرار دیا گیا تھا ناممکن ہے۔ مگ ر اس پ ارہ‬
‫میں میں نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر بحث کی ہے۔‬

‫کالی شلوار کا پس منظر ویشیا عورت‪ ،‬جس کا نام سلطانہ ہے جو خدا بخش (س لطانہ ک ا‬
‫چاہنے واال اور سلطانہ کے نزدیک خوش بختی کی عالمت) کے ہمراہ انب الہ چھ وڑ ک ر‬
‫دہلی میں آن بسی‪ ،‬کا گھر ہے۔ دہلی میں سلطانہ کا کاروبار نہیں چلتا مگر آہستہ آہستہ وہ‬
‫سرمایہ بھی ختم ہو جاتا ہے جو وہ انبالہ س ے کم ا ک ر الئی تھی۔ مح رم ق ریب ہوت ا ہے‬
‫مگر اس کے پاس محرم کے دنوں میں پہننے کے لئے کالے کپڑے موج ود نہیں ہ وتے۔‬
‫وہ سفید دوپٹہ اور قمیض رنگوانے کے لیے دکان پر دے دیتی ہے مگر ک الی ش لوار ک ا‬
‫کچھ بندوبست نہیں ہو پاتا۔ آخر شنکر نامی شخص سلطانہ کے چاندی کے ُبندے لے جاتا‬
‫ہے اور کچھ دنوں بعد ایک کالی شلوار دے جاتا ہے۔ جب سلطانہ کالے ک پڑے پہن لی تی‬

‫‪25‬‬
‫ہے ت و اس کی دوس ت مخت ار آتی ہے جس کے ک انوں میں وہی ُبن دے ہ وتے ہیں ج و‬
‫سلطانہ سے شنکر لے گیا تھا۔ یہاں پر افسانے کا اختتام ہو جاتا ہے۔‬

‫تنقیدی نکتہ نگاہ س ے ک وئی بھی حتمی رائے ق ائم ک رنے س ے قب ل افس انہ کے متن ک ا‬
‫عمیق نظر سے تجزیہ کرنا الزمی ہے۔‬

‫افسانہ کے شروع میں ہی یہ معلوم ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ افسانہ کی کہ انی چکلہ کی‬
‫عورت پر مبنی ہے اور جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے یہ یقین اور پختہ ہوتا چال جات ا‬
‫ہے۔‬

‫افسانہ میں منٹو لکھتے ہیں کہ‪" ،‬تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس‬
‫تیس روپے پی دا ک رتی تھی۔” اور اقتب اس مالحظہ ہ و‪ ” ،‬ان چھ گ اہکوں س ے اس نے‬
‫ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے۔ تین روپے سے زی ادہ پ ر ک وئی مانت ا ہی نہیں تھ ا۔”‬
‫دونوں اقتباسات کے متن پ ر گہ رائی س ے س وچنے پ ر یہ فحش معل وم پ ڑتے ہیں مگ ر‬
‫بظاہر ایسے الفاظ کا استعمال نظر نہیں آتا جو کہ فحاشی کا عنصر نمایاں کرسکیں۔ بلکہ‬
‫حقیقت کا بیان ملتا ہے کیونکہ معاشرے کے ہر چکلہ کی عورت کے پاس لوگ آتے اور‬
‫پیسے ہی کے عوض نفسانی لذت حاصل کرتے ہیں۔‬

‫اقتباس‪ ” ،‬خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت ض عیف‬
‫االعتقاد تھی اس لئے اس نے س مجھا کہ خ دا بخش ب ڑا بھ اگوان ہے جس کے آنے س ے‬
‫اتنی ترقی ہو گئی۔” منٹو نے اس جملہ کے ذریعے اس حقیقت کو عیاں ک رنے کی س عی‬
‫کی ہے کہ لوگ کیسے عقل کو توہم پرستی کی لونڈی بنا کر فضول عقائد ک و اعلی مق ام‬
‫بخشتے ہیں۔‬

‫اقتباس دیکھیے‪ ” ،‬جب نیچے النڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگایا ت و اس‬
‫کو ایک پکی نشانی م ل گ ئی۔ ” یہ اں میلے ک پڑوں کی دھالئی کی ج اتی ہے۔” یہ ب ورڈ‬
‫پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تالش کر لیا کرتی تھی۔” اقتباس میں بیان کردہ بورڈ پر کندہ الفاظ‬
‫اک عجب حقیقت کا بی ان ہیں۔ س لطانہ کی عین مک ان کے نیچے ک پڑوں کی دھالئی اور‬
‫عین مکان میں گناہ کا پلندا ایک جنس سے دوسری جنس میں منتقل ہوتا ہے۔ س ادہ الف اظ‬
‫میں نیچے گندے کپڑے اور اوپر گندے آدمی آتے ہیں۔‬

‫‪26‬‬
‫اقتباس‪ ” ،‬سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال‬
‫اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کاال لباس پہن رکھا ہے۔” جیسی انس انی ان درونی‬
‫کیفیت ہوتی ہے انسان کو بیرونی دنی ا بھی ویس ے ہی نظ ر آتی ہے کی ونکہ س لطانہ ک و‬
‫محرم کے لیے کالے کپڑے درکار ہوتے ہیں اور وہ ان کے متعل ق س وچ رہی ہ وتی ہے‬
‫اس لیے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریل گاڑی کا انجن بھی کاال لب اس زیب تن ک یے‬
‫کھڑا ہے۔‬

‫اقتباس‪ ” ،‬تم عورت ہو۔۔۔۔۔کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے‪،‬‬
‫اس دنی ا میں ص رف دکان داری نہیں‪ ،‬کچھ اور بھی ہے۔” ص نِف ن ازک اس کائن ات میں‬
‫صنف کرخت کا دل بہالنے اور بے رنگ ص فحہ قرط اس میں رن گ بھ رنے کے ل یے‬
‫پیدا کی گئی ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک درج باال سطر میں منٹو کرتے نظر آتے ہیں۔‬

‫ان تمام اقتباسات جو میں نے آپ جیسے قارئین کے سامنے پیش کیے کہ عالوہ اور ک ئی‬
‫ایسے جملے ہیں جو اس بات پر گواہی پیش کرتے نظ ر آتے ہیں کہ افس انہ ک الی ش لوار‬
‫فحاشی کا پلندا نہیں بلکہ معاشرے کی سچائیوں پر مبنی حقیقت کی روداد ہے۔ مگر پھ ر‬
‫بھی فحاشی اور حقیقت کا سوال میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ کیونکہ ق اری ہی بہ تر‬
‫فیصلہ کر سکتا ہے کہ افسانہ کالی شلوار حقیقت پر مبنی روداد ہے یا فحاشی کا پلندا۔‬

‫سیپ موتی کی تالش میں ہے‬

‫‪03/02/2022‬‬

‫گوہر کو اپنے شکم میں پرورش کی مسند عطا کرنے کی خاطر سیپ ازل سے فانی دنی ا‬
‫کے وسیع و عریض سمندر کی اوپری سطح پر قطرہ شبنم کی تالش میں س رگرداں ہے۔‬
‫اسی تالش میں کسی سیپ کو شبنم کی بوند اور کسی کو سمندر کے کھاری پانی کا قطرہ‬
‫نصیب ہ وا۔ دنی ا وس یع و ع ریض ہے اور اس کے ہ ر حص ہ میں ک وئی نہ ک وئی س یپ‬
‫ہمیشہ ایسے موتی کی تالش میں رہتی ہے جو اس کی شان کو چار چاند لگا کر فضا کی‬
‫بلندیوں کی سیر کروا سکے۔‬

‫‪27‬‬
‫ایسی ہی ایک سیپ کا ظہور پچھلی صدی کے وسط میں خاکی دنیا کے نقش ے پ ر ای ک‬
‫الگ نام کے ساتھ ہوا۔ اپنے وجود میں ڈھلتے ہی یہ سیپ بھی اپ نی ن وع کے ب اقی س یپ‬
‫کی طرح گوہر کی افزائش کی خاطر شبنم کے قطرے کے حص ول کے ل ئے س رگرداں‬
‫رہنے لگی۔ خوش بختی سے اس سیپ کو شبنم کا وہ قطرہ نصیب ہوا جو گ وہر ک ا روپ‬
‫اختیار کرنے کے بعد اس کی شان و شوکت کو چار چاند لگ ا ک ر ب اقی تم ام س یپ س ے‬
‫نمایاں مقام عطا کرنے کی صالحیت رکھت ا تھ ا۔ مگ ر ق درت نے اس ش بنم کی بون د ک و‬
‫ایک سال بعد ہی اس سے چھین لیا اور اسے اتن ا وقت نہ م ل س کا کہ وہ گ وہر ک ا روپ‬
‫اختیار کر پاتا۔‬

‫شبنم کی گزشتہ بوند چھین جانے کے بعد سیپ نئی بوند کے حصول کے لئے سمندر کی‬
‫سطح پر ماری ماری پھ رنے لگی۔ وقت کے س اتھ س اتھ ش بنم کی تالش میں س مندر کے‬
‫کھاری قطرے مل تے گ ئے ج و کچھ عرص ہ بع د ہی س یپ کی ان درونی ح الت کی اپ نی‬
‫صالحیت کے مطابق تباہی کا باعث بن کر پھر سمندر کی آغوش میں چلے جاتے۔‬

‫ساٹھ کی دہائی میں صدف کے شکم میں ایک ایس ی بون د پہنچ گ ئی جس نے ص دف کے‬
‫ہر عضو کو اپنی قوت کے زور پر اپنے قبضہ میں لے کر اپنی مرض ی ک ا برت أو کرن ا‬
‫شروع کر دیا۔ ستر کی دہائی تک وہ بوند سیپ کے تمام اعضاء کو ات نی ش دت س ے بے‬
‫ترتیب کر چکی تھی کہ سیپ کے مختلف اعضاء ایک دوسرے سے الگ ہونے کی پکار‬
‫میں محو ہ وتے گ ئے۔ وقت گزرت ا گی ا اور س یپ کی کھ وٹی قس مت کی ب دولت اس کے‬
‫نصیب میں ہمیشہ گوہر کی بجائے سمندر کے کھاری پانی کا قطرہ ہی آیا۔‬

‫کیونکہ یہ اصول کائنات ہے کہ قدرتی عمل میں کوئی بیرونی قوت کا دخل ان داز ہ و ت و‬
‫فطرتی عمل میں بگاڑ آ جایا کرتا ہے۔ ایسا ہی ہوا اس سیپ کے ساتھ۔ مگ ر س یپ ہمیش ہ‬
‫گوہر کی تالش میں سرگرداں رہی۔ سیپ نے اس بات کو تسلیم ک ر لی ا تھ ا کہ اگ ر تالش‬
‫ہوں گوہر کی تو سمندر کے کھاری پانی سے واسطہ ضرور پڑت ا ہے مگ ر وہ س یپ ہی‬
‫موتی کی تالش میں کامیاب رہتی ہے جو کھاری پانی س ے نبردآزم ا ہ وتے ہ وئے اپ نی‬
‫تالش اور کھوج سے منہ نہ موڑے۔ اسی لئے س یپ نے گ وہر کی تالش میں اپ نی ہمت‪،‬‬
‫جذبہ‪ ،‬اور حوصلہ کو ہمیشہ جوان کیے رکھا۔‬

‫اسی کی دہائی میں سیپ سمندری پ انی کی کھ اری بون دیں ب ار ب ار س میٹنے اور ان ک و‬
‫گوہر میں تبدیل کرنے کی سعی میں اپنے دونوں ب ازوں ک و یکج ا نہ رکھ س کی اور اس‬
‫‪28‬‬
‫کے دو ٹکڑے ہونے کا تماشا پوری دنیا نے دیکھا۔ دو ٹکڑے ہو جانے کے ب اعث س یپ‬
‫کی ہیئت‪ ،‬شکل و شباہت میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں مگ ر اس نے اپ نی تالش ک و لف ظ‬
‫اختتام سے نا آشنا رکھا۔ اسی دوران ایک بون د اس ے ایس ی نص یب ہ وئی جس کے ان در‬
‫سمندری پانی اور شبنم کی آمیزش کی۔‬

‫شبنم نے اپ نی مق دار کے مط ابق اپن ا اث ر دکھان ا ش روع کی ا اور ای ک ایس ے گ وہر کی‬
‫افزائش ہونا شروع ہوئی جس نے ق انون کی ت رتیب عط ا ک رتے ہ وئے س یپ کے آدھے‬
‫حصے‪ ،‬جو کہ مکمل تصور کیا جا رہا تھا‪ ،‬کو یکجا کر کے ترقی کی منازل کی ط رف‬
‫گامزن کرنا شروع کر دیا۔ مگر گوہر وہ ہی مکمل ہو پات ا ہے جس کی بنی اد مکم ل ش بنم‬
‫کے قطرے پر ہو۔ مگر وہاں تو معاملہ الٹ تھا کیونکہ شبنم کی بوند میں کھاری پانی کی‬
‫آمیزش بھی تھی۔ اسی وجہ سے افزائش کا عمل مکمل ہونے سے قبل ہی وہ آدھا ادھ ورا‬
‫موتی سمندر کی جانب واپس بہہ گیا۔‬

‫جن کا مقدر ہی ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر اپنی موج ودگی ک ا احس اس نہ دل وائے ان‬
‫کے حصے میں ہمیشہ کھاری بوندیں ہی آیا کرتی ہیں۔ یہی ہوا س یپ س اتھ۔ وہ جب ش بنم‬
‫کی بوند کے حصول کے لیے بحر کی موجوں پر سوار ہو کر ساغر کی س ب س ے بلن د‬
‫سطح پر نمودار ہوئی اور منہ شبنم کے قطرے کو اپنے اندر ضم کرنے کے لیے کھ وال‬
‫تو سمندر کے کھاری پانی کا خطرہ چاالکی سے س یپ کے ش کم میں ات ر کی ا اور س یپ‬
‫منہ کو بند کرتے ہیں واپس گہرائیوں کی جانب چلی گئی۔‬

‫ازل سے لوگوں کے دلوں میں ای ک نظ ریہ یقین کی مانن د پختہ اور پوش یدہ ہے کہ وقت‬
‫ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح سیپ کے مقدر میں بھی ایک ایسا ہی‬
‫قطرہ آیا جیسا ساٹھ کی دہائی میں اس کے دامن کو تار تار کر چکا تھا۔ مگر عجیب ب ات‬
‫یہ ہوئی کہ اس قطرہ کو پرکھنے کے دوران سیپ کو اعلی مقام بھی نصیب ہون ا ش روع‬
‫ہوا مگر کب تک۔ اگر قطرے نے اپنی خصوصیات کو ظاہر کرن ا ش روع کیں اور س یپ‬
‫کے ہر ہر ٹکڑے میں ہنگامے برپا ہونے لگے اور آخر کار اس قطرے سے چھٹکارا تو‬
‫مل گیا مگر سیپ کی حالت ابتر ہو چکی تھی۔‬

‫تب سے آج تک سیپ کو تین قطرے نصیب ہ و چکے ہیں‪ ،‬ان تین وں کے خ واص بالک ل‬
‫ایک دوسرے کے خواص س ے مش ابہ ہیں۔ مگ ر کس ی نے س یپ کے ان در بس نے والی‬
‫خوردبینی مخلوق کے حقوق کا سہارا لے کر سیپ کے اندر جانے کا راستہ ہموار کیا تو‬
‫‪29‬‬
‫کسی نے سیپ کے چار مختلف حصوں ک و براب ر حق وق مراع ات اور ق وت دی نے کے‬
‫وعدے کا سہارا لیتے ہوئے سیپ کے اندر جانے کے لیے دروازہ غیر مقفل کی ا۔ آخ ری‬
‫قطرے نے بالکل الگ راستہ اختیار کرتے ہوئے س یپ ک و وہ مق ام‪ ،‬ج و بیس ویں ص دی‬
‫کے وسط میں تھا‪ ،‬عطا کرنے کا خواب خوردبینی مخلوق کی آنکھوں میں اتارتے ہوئے‬
‫س یپ کے ش کم کی مس ند حاص ل کی۔ یہ قط رہ ابھی ت ک س یپ کے ش کم کی مس ند پ ر‬
‫براجمان ہے‪ ،‬ہو سکتا ہے کہ یہ قطرہ وہ گوہر ثابت ہو جس کے حصول کے ل ئے س یپ‬
‫تقریبًا اسی سال سے سرگرداں ہے۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔‬

‫نمازیں ہماری‪ ،‬حساب ہمارے‬

‫‪04/02/2022‬‬

‫کاروبار کے دیو کی مورتی کو دل کی مسند پر بٹھائے خدائے ع الم کے گھ ر کی ن رم و‬


‫مالئم صف پر خدائے واحد کی بارگاہ میں مٔودب کھڑے ہو کر قلبی صنم کے ق دموں پ ر‬
‫سر ٹیکنا معاشرے کا عام چلن ہے۔ میں وعظ ہوں نہ کوئی ناص ح مگ ر تص وراتی ص نم‬
‫کو سر بازار ال کر پاش پاش کرنے کو اپن ا ف رض عین گردانت ا ہ وں۔ موج ودہ معاش رے‬
‫میں رہتے ہوئے مسجد کے اندر کھڑے ہو ک ر تج ربہ اور اس تج ربہ ک ا تج زیہ ک رنے‬
‫سے ایک درپردہ مگ ر کھلی تلخ حقیقت آش کار ہ وتی ہے وہ یہ کہ میں‪ ،‬ہم اور آپ س ب‬
‫مسجد میں پندرہ منٹ کے لیے عبادت خدا لم ی زل کی ک رنے ج اتے ہیں مگ ر کاروب ار‪،‬‬
‫پیسہ‪ ،‬گھر اور دکان کے مسائل میں ذہن کو مدہوش کیے رکھتے ہیں۔ با جماعت نماز ہ و‬
‫رہی ہوتی ہے مگ ر ہ ر رکعت میں ای ک ال گ مس ئلہ کی گتھی س لجھانے میں ہی ہم ارا‬
‫سارا دھیان لگا رہتا ہے اور یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ بس پن درہ منٹ ہی نک ال س کے‬
‫تھے مسائل س ے خ دا کی عب ادت کی خ اطر مگ ر وہ پن درہ منٹ بھی ایس ے ہی اک ارت‬
‫جاتے ہیں جیسے بھینس کے سامنے بانسری کے سر۔‬

‫بات کچھ اور ہی تخیل میں محو گردش تھی مگر ایک واقعہ یاد آ گیا‪ ،‬چلو آپ س ے بی ان‬
‫کرتا ہی چلوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مسجد میں باجم اعت نم از مکم ل ہ ونے کے‬
‫بعد کچھ افراد نے کہا کہ ابھی تین رکعات ہوئی ہیں اور ای ک ب اقی ہے جبکہ کچھ اف راد‬
‫اس خیال ( ج و یقین کی ح د ت ک پختہ تھ ا) پ ر متف ق ٹھہ رے کہ نم از مکم ل ہ و چکی۔‬
‫مولوی صاحب کی نظ ر اچان ک مس جد کے گوش ہ میں بیٹھے ب اریش ب زرگ پ ر پ ڑی۔‬
‫‪30‬‬
‫مولوی صاحب سب نمازیان نظر سے گویا ہوئے‪” ،‬آپ سب خاموش رہیں ہم اس بزرگ‪،‬‬
‫جو مسجد کے گوشہ میں تشریف رکھ تے ہیں‪ ،‬س ے دری افت فرم ا لی تے ہیں کی ونکہ وہ‬
‫معتبر معلوم پڑتے ہیں“ ۔‬

‫جب بزرگ سے پوچھا گیا تو انہ وں نے کہ ا‪” ،‬ابھی تین رکع ات ہی ہ وئی ہیں اور ای ک‬
‫باقی ہے۔“ زاہدوں نے استفسار کیا کہ آپ اتنے یقین کے ساتھ کیس ے کہہ س کتے ہیں کہ‬
‫ایک رکعت ب اقی ہے ت و موص وف ریش س فید پ ر ہ اتھ پھ یرتے ہ وئے لب کش ا ہ وئے‪،‬‬
‫”بازار کے کونے پر میری چار دکانیں ہیں‪ ،‬ہ ر رکعت میں ای ک ای ک دک ان ک ا حس اب‬
‫کرتا ہوں مگر آج صرف تین دکانوں ہی کا حساب ہو پایا تھا کہ سالم پھ یر دی ا گی ا جبکہ‬
‫ایک دکان کا حساب کرنا ابھی باقی ہے‪ ،‬اس لحاظ سے تین رکعات ہوئی ہیں۔“‬

‫ہاں عالمہ اقب ال ک ا ای ک ش عر تخی ل کی دنی ا میں مح و گ ردش تھ ا وہ ض رب کلیم میں‬


‫فرماتے ہیں۔‬

‫یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے‬

‫ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات‬

‫عام چال چلن میں تبدیلی کی نئی جنبش پیدا کرنا یقینًا آسان نہیں ہوتا مگر جنبش ک ا ہوی دا‬
‫ہونا الزمی ہے۔ ایک ایسی جنبش پیدا ک رنے کی ض رورت ہے ج و ض میر کی رگ میں‬
‫ارتعاش کا باعث بن کر دل کی مسند پر براجمان مورتی کو زمین بوس کرتے ہوئے پارہ‬
‫پارہ کرنے کی وجہ ثابت ہو سکے۔‬

‫بال جبریل میں شامل مثنوی ”ساقی نامہ“ میں ڈاکٹر اقبال یوں قلم اٹھاتے ہیں۔‬

‫وہی سجدہ ہے الئق اہتمام‬

‫کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام‬

‫کاروبار کا دیو ہیتوں کی تبدیلی کے ساتھ ازل سے آدم خاکی کی فانی زندگانی کے س اتھ‬
‫منسلک ہے۔ سر کو دو قدموں پ ر کھ ڑا ک رنے کی خ اطر اس دی و س ے چھٹک ارا ہرگ ز‬
‫ممکن نہیں۔ ہاں ممکن نہیں مگ ر خ دا کی بارگ اہ میں حاض ر ہ ونے س ے قب ل اس س ے‬
‫چھٹکارا حاصل نہ کرن ا انس انیت کی ش ان میں گس تاخی کی مانن د ہے۔ کی ونکہ انس انیت‬

‫‪31‬‬
‫واحد کا نغمہ االپتی ہے اور واحد کا نغمہ االپنے واال دوی کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے۔‬
‫کیسے؟‬

‫عادت سے لت تک‬

‫‪20/02/2022‬‬

‫معاشرتی حیوانیت کے تاج کو سر پر سجانے والے خاکی پتلے کے ایک ہی کام ک و ب ار‬
‫بار دہرانے کے عمل کو وہ درجہ حاصل ہے جسے سادہ الفاظ میں ع ادت کہ ا جات ا ہے۔‬
‫عادت بذات خود اچھی ہے نہ بری مگر اس کی برائی اور اچھ ائی ک ا انحص ار اس چ یز‬
‫کی نوعیت پر ہے جس کے ساتھ یہ پوست ہ وتی ہے۔ ع ادت س ے لت ت ک کے س فر ک ا‬
‫گہرائی سے جائزہ لینے سے قب ل ع ادت کی وجوہ ات ک و زی ر بحث الن ا ض روری ہے‬
‫کیونکہ عین ممکن ہے کہ عادت سے لت تک کے سفر کا آغ از ع ادت کی وجوہ ات میں‬
‫ہی پنہاں ہو۔‬

‫سب سے بڑی وجہ کسی ش خص کے ایس ے عم ل ک و اپن انے کی کوش ش کرن ا ج و اس‬
‫شخص کی شخصیت کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے گر ک ا مال ک ہ و۔ ل وگ اس‬
‫عمل کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کی خ اطر ب ار ب ار دہ راتے ہیں ت و اس عم ل کی‬
‫نوعیت میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ عادت کا سا روپ دھارنے لگت ا‬
‫ہے۔ اگر وہ عمل دوسرے لوگوں کی شخصیت کے موافق آئے تو سٹائل ورنہ بری عادت‬
‫یا خامی کا گواہ بن کر اپنے نقلی پن کا راگ االپنا شروع کر دیتا ہے۔‬

‫دوسری وجہ لوگوں کو اپنی شخصیت‪ ،‬اعلٰی خاندان‪ ،‬اعلٰی نسل وغیرہ سے متاثر ک رنے‬
‫کی خاطر کچھ ایسی چیزوں کی طرف مائل ہونا ہے جن کا بار ب ار اس تعمال ع ادت میں‬
‫بدل جایا کرتا ہے۔ مثًال ایک شخص جس کا تعلق امیر خاندان سے ہے وہ لوگوں کو اپنی‬
‫امیری دکھانے کی خاطر سگریٹ‪ ،‬تمباکو اور شراب کا استعمال کرنا شروع کر دیت ا ہے‬
‫اور بار بار کرتا ہی چال جاتا ہے تو ایک خاص وقت کے بعد وہ اس کی عادت کا حص ہ‬
‫بننا شروع ہو جاتا ہے۔‬

‫عادت کی معراج کو لت کہا جاتا ہے۔ جب آدمی عادت سے مجبور ہو کر اس کو بار ب ار‬
‫سر انجامی سے ہمکنار کرتا رہتا ہے تو ایک درجہ ایسا آت ا ہے کہ وہ ع ادت ک و مکم ل‬
‫‪32‬‬
‫کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ اس حالت کو عادت کی معراج اور لت ک ا پہال درجہ‬
‫کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی جس کا ذکر درج واال حص ہ میں پہلے ہی کہہ‬
‫چکا ہوں وہ اپنی دولت کی نمائش کرنے کی خاطر ہر روز سگریٹ اور شراب وغیرہ کا‬
‫استعمال کرتا ہے تو ہو گا یوں کہ دو تین ہفتہ کے بعد وہ مجبور ہونا شروع ہو جائے گ ا‬
‫اور ایک ماہ کے اندر اندر سگریٹ اور ش راب پ ئے بغ یر چن د لمحے بھی س کون س ے‬
‫نہیں بیٹھ پائے گا۔ اسی حالت کو عادت کی انتہا اور لت کی ابتدا کہا جاتا ہے۔‬

‫سب عادات بری نہیں ہوتیں مگر لت چاہے وہ اچھی چ یز ہی کی کی وں نہ ہ و ب ری بلکہ‬


‫تباہ کن اور بدترین چیز ہے۔‬

‫مثال کے طور پر ایک بچہ کو کتب بینی کی عادت ہے اور وہ روز کتب کا مطالعہ کرت ا‬
‫ہے۔ یہ عادت بہت اعلٰی ہے مگر کتب بینی کی لت اس سانپ س ے بھی زہ ریلی ہے جس‬
‫کے ایک وار سے ہی آدمی عالم ثبات کی جانب کوچ کر جایا کرتا ہے۔‬

‫قرآن پاک میں خدا تعالی نے بار بار میانہ روی اختیار ک رنے ک ا حکم ص ادر فرمای ا۔ ہم‬
‫سب نے پڑھا مگر سمجھنے سے قاصر۔ اسی وجہ سے ہی تو فرمایا گی ا ہے کہ غ ور و‬
‫فکر کرو۔ اگر غور کیا جائے کہ میانہ روی کیا ہے ت و معل وم ہ و گ ا‪ ،‬ع ادت اور لت ک ا‬
‫درمیانی نقطہ۔‬

‫اگر آپ ایک کام کو ہر روز سر انجام دیتے ہیں مگر کچھ وجوہات کی بن ا پ ر دو تین دن‬
‫دہرانے سے قاصر رہتے ہیں‪ ،‬مگر آپ کو بے چینی کا سامنا نہیں کرن ا پڑت ا ت و اس ک ا‬
‫مطلب یہ ہے کہ عادت ابھی لت میں تبدیل نہیں ہوئی۔ اگر معاملہ الٹ ہے تو پھر غ ور و‬
‫فکر کی ضرورت ہے‬

‫آخر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کوئی کام عادتًا ہر روز سر انجام دی تے ہیں ت و‬
‫تنہائی میں ایک مرتبہ بیٹھ کر یہ تجزیہ ضرور کیجئے گا کہ وہ عادت ہی ہے کیا؟‬

‫قائد اعظم کا تصور قومی زبان‬

‫‪21/02/2022‬‬

‫‪33‬‬
‫اردو زبان وہ زب ان ہے جس کی ج ڑیں برص غیر س ے پھ وٹیں اور رفتہ رفتہ پ ودے کی‬
‫شکل اختیار کرتے ہوئے بیسویں صدی عیسوی میں زبان کی حیثیت میں نم ودار ہ و ک ر‬
‫برص غیر کی آزادی اور پاکس تان کے ع دم س ے وج ود میں آنے کی وجوہ ات میں س ے‬
‫ایک اہم وجہ ق رار پ ائی۔ پاکس تان اس الم کے ن ام کے س اتھ س اتھ زب ان کے ن ام پ ر بھی‬
‫حاصل کیا گیا۔ اور وہ زبان اردو تھی ص رف اردو۔ جب پاکس تان اپ نے علیح دہ تش خص‬
‫کے ساتھ دنیا کے نقش ے پ ر ابھ را ت و ض رورت اس ام ر کی تھی کہ اس کی س رکاری‬
‫زبان کا درجہ کس زبان کے دامن میں ڈاال جائے۔ غور و خوض کے بع د اردو ہی ایس ی‬
‫زبان ٹھہری جو اس قابل تھی کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان ک ا تمغہ اپ نے دامن‬
‫میں سمیٹ لے۔ کیونکہ اس وقت یہ ہی ایس ی ب ڑی زب ان تھی ج و لوگ وں کی اجتم اعی‪،‬‬
‫سماجی‪ ،‬مذہبی‪ ،‬علمی‪ ،‬ادبی اور فکری روایات کی واحد ذمہ دار تھی۔‬

‫قائد اعظم اور اردو زبان‪:‬۔‬

‫قائداعظم محمد علی جناح‪ ،‬بانی پاکستان‪ ،‬نے ق رارداد الہ ور کے منظ ور ہ ونے اور اس‬
‫کی کامیابی کے بعد سے ہی اس مسئلہ پر تحقیق شروع ک ر دی تھی کہ ج و نی ا مل ک ہم‬
‫مسلمان حاصل کرنے جا رہے ہیں اس کی قومی و سرکاری زبان کون سی زب ان ہ وگی۔‬
‫قائد اعظم کی نظر میں سب سے ضروری یہ تھا کہ سرکاری اور ق ومی زب ان ک ا درجہ‬
‫اس زبان کو دینا چاہیے جو عالقائی تشخص سے بلند قومی تشخص کی حام ل ہ و۔ ق رآن‬
‫مجید میں بھی یہ نقطہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا‪:‬‬

‫”ہم نے ہر رسول اس کی ہی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔“ ۔ (سورۃ ابراہیم‪ :‬آیت ‪) 4‬‬

‫ایسی زبان صرف ایک ہی تھی جس کا رشتہ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ اس طرح‬
‫منسلک کر دیا گیا تھ ا کہ وہ عالق ائی قی د کی زنج یر س ے بالک ل آزاد ہ و چکی تھی۔ وہ‬
‫زبان صرف اور صرف اردو ہی تھی۔ قائداعظم کی دور اندیش اور تجربہ پرست نظروں‬
‫نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اردو ایک تہذیب کی حامل اور عالقائیت کی پابندیوں سے آزاد‬
‫زبان ہے اور اگر ہم اسے قومی و س رکاری زب ان ک ا درجہ دیں گے ت و ہم متح د رہ ک ر‬
‫ترقی کی من ازل حاص ل ک رنے کے قاب ل ہ و ج ائیں گے۔ روش ص دیقی اردو کی اص ل‬
‫اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیں ‪:‬‬

‫اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے ( روش صدیقی )‬

‫‪34‬‬
‫قائداعظم کو اچھی ط رح معل وم تھ ا کہ اگ ر ہم نے کس ی ایس ی زب ان ج و عالق ائیت کی‬
‫پاسباں ہو کو قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تو ملک تباہ ہو کر رہ ج ائے گ ا۔‬
‫اس وجہ سے انہوں نے برمال کہا‪:‬‬

‫”پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔“ ( ‪ 1942‬ء)‬

‫قائد اعظم محم د علی جن اح نے ای ک اور اجالس میں بالک ل س ادہ اور ص اف الف اظ میں‬
‫ارشاد فرمایا کہ جو ملک ہم حاصل کرنے ج ا رہے ہیں اس کی ق ومی و س رکاری زب ان‬
‫صرف اردو ہی ہو گی۔‬

‫”میں اعالن کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔“ ( ‪ 10‬اپریل ‪ 1946‬ء)‬

‫پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اردو کو ق ومی و س رکاری زب ان ک ا درجہ دے دی ا‬


‫گیا۔ کیونکہ پاکستان دو ایسے حصوں پ ر مش تمل تھ ا جن کی زب ان مختل ف تھی ت و کچھ‬
‫شرپسند عناصر‪ ،‬جو پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور اس کو تباہ کرنے‬
‫کے خواب سجائے بیٹھے تھے‪ ،‬نے زبان کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ آنند نرائن مال اس مس ئلہ‬
‫کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں ‪:‬‬

‫مال بنا دیا اسے بھی محاذ جنگ‬

‫اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی ( آنند نرائن مال)‬

‫قائ د اعظم محم د علی جن اح نے اس مس ئلہ ک و پاکس تان کی س المیت کے ل ئے خط رہ‬


‫گردانتے ہوئے ڈھاکہ ک ا دورہ کی ا اور وہ اں پ ر جلس ہ ع ام س ے خط اب ک رتے ہ وئے‬
‫واشگاف الفاظ میں پاکستان کی واحد سرکاری زبان کے متعلق یوں ارشاد فرمایا‪:‬‬

‫”میں واضح طور پر آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہ و گی‬
‫اور صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی زبان نہیں۔ جو آپ کو گمراہ کرنے کی کوش ش‬
‫کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔“ ( ڈھاکہ‪ 21 :‬مارچ ‪ 1948‬ء)‬

‫قائد اعظم محمد علی جناح اس بات کے قائل تھے کہ جب تک پ ورے مل ک کی مش ترکہ‬
‫زبان نہیں ہوگی ملک کسی بھی صورت ترقی کی شاہراہ پ ر گ امزن نہیں ہ و س کتا ۔ اس‬
‫وجہ سے ایک اجالس میں انہوں نے یوں ارشاد فرمایا‪:‬‬

‫‪35‬‬
‫”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے‬
‫تو ان کی سرکاری زبان ای ک ہی ہ و س کتی ہے اور وہ م یری ذاتی رائے میں اردو اور‬
‫صرف اردو ہے۔“‬

‫مگر افسوس کہ ہم نے قائداعظم کے ارشادات کو تسلیم نہ ک رتے ہ وئے پاکس تان ک و دو‬
‫حصوں میں تقسیم کر دی ا اور اگ ر ہم موج ودہ وقت میں بھی ان ارش ادات پ ر عم ل نہیں‬
‫کریں گے تو ایک ایسا نقصان ہو گا جس کی تالفی ناممکن ہوگی۔ اس بات کو من ور ران ا‬
‫یوں بیان کرتے ہیں ‪:‬‬

‫تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی (منور رانا)‬

‫اختتامیہ‪:‬‬

‫اگر ہم دور جدید میں ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپ نے ب انی اور عظیم‬
‫قائد کے ارشادات پر بغیر کسی حجت کے عمل کرنا ہو گا۔ آج اگر ہم ت رقی کی دوڑ میں‬
‫کئی ممالک سے پیچھے ہیں ت و اس کی س ب س ے ب ڑی وجہ ق ومی زب ان ک و س رکاری‬
‫درجہ سے محروم رکھنا ہے۔ ہمیں اس امر کی ضرورت ہے‪ ،‬اگر ہم معاشرے کی صف‬
‫میں نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو‪ ،‬کہ ہم متح د ہ و ک ر ص حیح معن وں میں اردو‬
‫کے سرکاری سطح پر نفاذ کے لئے کوشاں ہو جائیں۔‬

‫(تحریک نفاذ اردو‪ ،‬پاکستان سے انعام یافتہ مضمون)‬

‫مشاہدہ سے تجربہ تک‬

‫‪27/02/2022‬‬

‫مادی آنکھ سے خاکی دنیا کی رگ رگ میں پنہاں خوبصورتی کو حسین انداز نظ ر س ے‬


‫بغ ور دیکھن ا اور اس خوبص ورتی س ے پیوس ت ت رنم ک و تخی ل کے ک انوں س ے درجہ‬
‫سماعت عطا کرنا مش اہدہ کہالت ا ہے۔ ع ام چلن ہے کہ ہ ر چ یز پ ر جیس ی بھی نگ اہ پ ڑ‬
‫جائے اسے مشاہدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں مشاہدہ بالکل ای ک ال گ چ یز‬
‫کا نام ہے۔ فرض کریں دو آدمی ایک سرسبز و شاداب باغ میں چہل ق دمی ک رتے ہ وئے‬
‫خوشبو سے معطر فضا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔‬
‫‪36‬‬
‫اچان ک دون وں کی نظ ر ای ک ہلکے نیلے رن گ کے پھ ول پ ر پ ڑ ج اتی ہے جس کی‬
‫پنکھڑیاں جام شبنم سے لبریز ہیں۔ دونوں دیکھتے ہیں منہ سے سبحان ہللا کی صدا دل وں‬
‫کو پہنچنے والی مسرت پر گواہ بن ک ر بلن د ہ وتی ہے۔ ای ک ش خص آگے ب ڑھ جات ا ہے‬
‫مگر دوسرا اس پھول کے قریب دو زانوئے ہو کر اس کی ایک ایک پنکھ ڑی ک و بغ ور‬
‫دیکھتا ہے اور ان پر پڑے شبنم کے قطروں کے اندر پوشیدہ زندگی کو محسوس ک رنے‬
‫کی خاطر اپنے دست پر چھڑکت ا ہے۔ پھ ول دون وں آدمی وں نے دیکھ ا تھ ا مگ ر مش اہدہ‬
‫صرف ایک نے کیا۔‬

‫اس مثال سے میرا مقصد اس نقطہ کو عی اں کرن ا ہے کہ ص رف دیکھن ا اور گ زر جان ا‬


‫مشاہدہ کی حد سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ مشاہدہ صرف اس دیکھ نے ک و کہ ا جات ا‬
‫ہے جس کے ساتھ جذبات کا رشتہ قائم ہو۔ درج باال مثال میں جو شخص پھ ول اور ش بنم‬
‫کا بغور جائزہ لیتا ہے اس کی جمالیاتی حس کو تسکین کی منزل عطا ہ وتی ہے۔ تس کین‬
‫کی منزل کا میسر آ جانا جذبات کی اونچائی ہے اور جب جذبات کی اونچ ائی نص یب ہ و‬
‫گئی تو اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ مشاہدہ ہو گیا۔‬

‫مشاہدہ کا انسانی زندگی میں اہم کردار ہے۔ تاریخ ع الم گ واہ ہے کہ ب ڑے ب ڑے واقع ات‬
‫کے نتائج کا رخ مشاہدات کی ب دولت یکس ر ب دل گی ا۔ روزم رہ کی زن دگی میں اگ ر اس‬
‫نقطہ پر غور کیا جائے کہ مشاہدہ کی کیا اہمیت ہے تو س و ب ات کی ای ک ب ات ہی تخی ل‬
‫سے زبان تک ک ا س فر طے ک رتی ہے اور وہ ہے اگ ر کامی ابی کی م نزل س ے ہمکن ار‬
‫ہونے کی تمنا ہے تو ہاتھ کی ایک انگلی مشاہدہ کے ہاتھ میں دے دینی چاہیے۔‬

‫مثال کے طور پر ایک ط الب علم بے ح د محنت کرت ا ہے بہت زی ادہ مط العہ کرت ا ہے۔‬
‫اپنی اصل منزل سے نا آش نا ہے ہی مگ ر معاش رے میں موج ود اس ی ش عبہ س ے تعل ق‬
‫رکھنے والے کامیاب لوگوں کی منزل کی تالش میں کی جانے والی محنت سے بے خبر‬
‫بھی رہتا ہے۔ اس وجہ سے وہ کامی ابی کی دوڑ میں پیچھے رہ ج انے وال وں میں ش مار‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫دوسرا طالب علم درج باال طالب علم کی زندگی ک ا مش اہدہ ک رتے ہ وئے س ب س ے قب ل‬
‫اپنے اصل مقصد کی کھوج لگائے گا اور اصل منزل کا تعین کرنے کے بعد ان راس توں‬
‫کی تالش میں سرگرداں ہو جائے گا جو اس کی جستجو کو منزل س ے مالتے ہ وں گے۔‬
‫یوں وہ کامیابی کے پھل کو حاصل کرنے والوں میں شمار ہو گا۔‬
‫‪37‬‬
‫مشاہدہ کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی کامیابی کے لوازم میں شامل ہے۔‬

‫زندگی کی روح کو ہتھیلی پر چراغ کی مانند روش ن ک یے معاش رے کی س تم گ ری کے‬


‫اندھیرے میں پرخار راستوں سے آشنا ہونا تجربہ کہالت ا ہے۔ جس تجو س ے کامی ابی کی‬
‫طرف سفر کے دوران تجربہ سے دوستی وہ گوہر عطا کرنے کی صالحیت رکھ تی ہے‬
‫جو گر کے بحر کا شناور ہے اور سفر کا زاد راہ بن کر منزل کی جانب ج اتے راس توں‬
‫کے قفل کی کنجی سے آشنا۔ تجربہ ک ا بھی آدمیت کی زن دگی میں نہ ایت اہم ک ردار ہے۔‬
‫مش اہدہ کی ط رح اس نے بھی ت اریخ کے بہ أو کے رخ ک و م وڑنے کی خ اطر ک ئی‬
‫کارنامے دکھائے ہیں۔‬

‫برطانیہ کی ہی مثال لے لیجیے۔ اس کی فوج امریکہ میں امریکی ریاستوں کے باش ندوں‬
‫کے ہاتھوں ناکامی سے بری طرح دوچار ہوئی ت و اس نے اپن ا رخ ہندوس تان کی ط رف‬
‫موڑا اور تجربہ کی بنا پر وہ غلطیاں دہرانے سے باز رہی جو وہ امریکہ میں ک ر چکی‬
‫تھی اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ انگریز کا راج ہندوستان کی سر زمین پر عالم نے دیکھ ا‬
‫اور موجودہ دور تک اس کا راج بالواسطہ قائم و دائم ہے۔‬

‫تجربہ اور مشاہدہ آپس میں الزم و مل زوم ہیں۔ تج ربہ کے بغ یر مش اہدہ بے ک ار ہے ت و‬
‫مشاہدے کے بغیر تجربہ کی مث ال اس پھ ول جیس ی ہے جس کے ان در خوبص ورتی ت و‬
‫موجود ہوتی ہے مگر خوشبو کا نام ت ک موج ود نہیں۔ ج و ل وگ مش کالت کے دری ا ک ا‬
‫سامنا کرتے ہوئے کامیابی کے س مندر میں غ وطہ زن ہون ا چ اہتے ہیں انہیں تج ربہ کی‬
‫کشتی میں بیٹھ کر مشاہدہ کے چپو سے حاالت کی تیز لہروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‬

‫الکھ نگری میں چمکتا سورج‬

‫‪13/03/2022‬‬

‫چوکور نما احاطہ‪ ،‬جس میں اگی ہوئی گھاس کا سبز اور گرے ہوئے سنبل کے پت وں ک ا‬
‫گہرا زرد رنگ حسین نظارہ پیش کر رہے ہیں‪ ،‬میں پڑے دو بنچوں پر س ے اس بنچ پ ر‬
‫بیٹھے جو تاریخ کی ایسی نگری جو اپنی دنی ا میں ای ک کائن ات ہے‪ ،‬کی ط رف بڑھ تی‬
‫راہداری کے کنارے زمین سے پیوست ہے‪ ،‬مجھ پر فاختہ‪ ،‬چڑی ا‪ ،‬ک وے اور کب وتر کی‬
‫آواز کے امتزاج کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی جسم سے ٹکراتی ہوا نے ایسا اث ر کی ا کہ قلم‬
‫‪38‬‬
‫اٹھائے بغیر نہ رہ سکا۔ سوچا حسن پرست ساتھیوں کو ایک ایسی بستی کی سیر کروائی‬
‫جائے جو اپنی ذات میں کائنات ہے۔‬

‫یہ بستی عرف عام میں گورنمنٹ کالج کے نام سے اپنی پہچان رکھتی ہے مگ ر میں اس‬
‫کائنات کے اندر ایک ایسی گمنام نگری کی س یر ک روانے ج ا رہ ا ہ وں جس کے متعل ق‬
‫بہت کم حسن پرست جانتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کی علمی‪ ،‬ادبی اور تاریخی روایات سے‬
‫ماوراء ہو کر اس قدرتی حسن کی بات کرنے ج ا رہ ا ہ وں ج و اس نگ ری کی رگ رگ‬
‫میں پنہاں ہے۔‬

‫گورنمنٹ کالج یونیورس ٹی الہ ور کے ب ڑے دروازے س ے داخ ل ہ وتے س اتھ ہی ب ائیں‬


‫جانب گھاس کا بیضوی میدان ہے جسے اوول گرأون ڈ (‪ )Oval Ground‬کہ ا جات ا ہے۔‬
‫اوول گرأونڈ کے باالئی مشرقی کونے سے شمال سے ہوتے ہوئے مغ رب کی ج انب خم‬
‫کھاتی پ ودوں کی قط ار کے ان در اگے متن وع رنگ وں کے پھ ول دل اف روز منظ ر پیش‬
‫کرتے ہیں۔ یہ اں س ے تھ وڑا آگے بڑھ تے ہی دائیں ج انب س کالرز گ ارڈن (‪Scholars‬‬
‫‪ ) Garden‬ہے۔ اس گارڈن میں درختوں کے اوپر بیٹھے ہوئے حسین پرندے خوش آمدید‬
‫کی صدا بلند کرتے نظر آتے ہیں۔‬

‫سبز گھاس اور نرم نرم شاخیں ایسا نظارہ پیش کرتی ہیں جس میں بال تکلف کھ و ج انے‬
‫کو دل چاہتا ہے۔ اگر زندگی کی مس کراہٹ اور خوش ی کی کھلکھالہٹ محس وس ک رنے‬
‫کی خواہش ہو تو اس کے گھاس پر دو زانو ہو کر چند پل ضرور گزارنے چ اہئیں۔ یہ اں‬
‫سے نظر بلند کیے تھوڑا باہر نکل کر چند ق دم ش مال مغ رب کی ط رف ب ڑھیں ت و نگ اہ‬
‫ایک ایسے مین ار (‪ )Tower‬پ ر پ ڑتی ہے جس کی بنی اد میں لم بی لم بی س یڑھیوں کے‬
‫پیچھے ایک دروازہ ہے۔ فجر کی نم از س ے چن د لمح ات قب ل اور مغ رب کی نم از کے‬
‫فورًا بعد اس کے اندر جلتی سبز اور گالبی روشنی ایک ایسی الکھ نگری کا نظ ارہ پیش‬
‫کرتی ہے جس کے رموز کی تالش کی خاطر اس میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے۔ یہ اں‬
‫سے مغرب کی جانب کچھ فاصلے پر لور گارڈن (‪ )lover garden‬اپنی ط رف مت وجہ‬
‫کرتا نظر آتا ہے۔‬

‫لور گارڈن کی راہداریوں کے کنارے چھوٹے چھ وٹے حس ین و جمی ل پ ودوں اور س بز‬
‫گھاس کی کونپلوں سے مزین ہیں۔ درمیان میں ایک اونچا فوارہ ہے جس کے مغ رب کی‬
‫طرف کھڑے ہو کر کالج کی مرکزی عمارت پر نظر دوڑائی جائے تو مینار آسمان سے‬
‫‪39‬‬
‫محو گفتگو نظر آتا ہے۔ یہاں چند لمحات گزارنے کے بعد محبت کی اس روح کا احساس‬
‫ہوتا ہے جو عظیم لوگوں نے پروان چڑھائی تھی۔‬

‫مرکزی عمارت کے بالکل عقب میں دو الن ہیں جنہیں ان کے مرکز س ے گ زرتی ای ک‬
‫راہداری‪ ،‬جس کے دونوں جانب سبزہ کی دیوار ہے‪ ،‬الگ کرتی ہے۔ رات کے وقت جب‬
‫ہلکی ہلکی دھند زمین پ ر ات ر چکی ہ و اردو الن میں درخت وں کی جھکی ہ وئی ش اخوں‬
‫کے نیچے پڑے ہوئے کسی بھی بینچ پر بیٹھ ک ر مرک زی عم ارت کے اوپ ر آس مان پ ر‬
‫چمکتے ستاروں کا نظارہ کرنے سے ایسی خوشی کا احساس ہوتا ہے جیسا بچہ ک و جب‬
‫اس کی ماں اس کا ماتھا چومتی ہے۔‬

‫یہاں سے مرکزی عمارت کے اندر سے ہوتے ہوئے ب اہر کی ط رف ج اتے راس تے پ ر‬


‫چلیں تو شہاب گارڈن کے ساتھ س اتھ ایمفی تھی ٹر کے اس حس ن س ے واقفیت ہ وتی ہے‬
‫جو جمالیاتی حس کی تسکین کے لیے کافی ہے۔ یہ اں س ے مرک زی دروازے کی ج انب‬
‫جاتی سڑک پر چلتے ہوئے انٹر کیفے کی جانب بڑھیں تو نظ روں کے س امنے چوک ور‬
‫نما احاطہ ہوتا ہے جس کے اندر کھڑے گہرے زرد پتوں والے سنبل کا حسن بی ان س ے‬
‫باہر ہے۔‬

‫پرندوں کی چہچہاہٹ کی ترنم کو سنتے‪ ،‬ہلکی ہلکی فضا کے لمس ک و محس وس ک رنے‬
‫کے ساتھ ساتھ سنبل کے درخت کی شاخوں سے اوپر آسمان کی جانب نگاہ بلند کریں ت و‬
‫سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا نظر آت ا ہے۔ یہ نظ ارہ دیکھ تے ہی انس ان ای ک‬
‫ایسی الکھ نگری میں کھو جات ا ہے جس کی ای ک ای ک چ یز حس ن کی ش اہکار ہے اور‬
‫چمکتا سورج ہر چیز کو رعنائی بخش رہا ہے۔‬

‫معاشرتی رواداری کے فروغ میں ادب کا کردار‬

‫‪20/03/2022‬‬

‫صفحہ قرطاس پر جب انسانیت کا ظہور ہوا تب انسان گفتگو کے ان رموز س ے ن ا آش نا‬


‫تھا جو موجودہ دور ترقی میں گفتگو کی معراج تصور ک یے ج اتے ہیں۔ وقت کی رفت ار‬
‫کے ساتھ آدمیت نے ہلکی ہلکی ہوں ہ اں کرن ا س یکھی اور پہلی ب ات‪ ،‬ج و ش اید انس انی‬
‫ت اریخ کی پہلی ب ات تھی‪ ،‬ش اعری کے رن گ میں رنگی ہ وئی تھی۔ دنی ا کے ہ ر ای ک‬
‫‪40‬‬
‫لسانی ادب کا آغاز ہمیشہ شاعری سے ہوتا آیا ہے۔ لہذا دنیا کے اولین لسانی ادب کا آغاز‬
‫وہ پہلی ہوں ہاں تھی جو شاعری کے رنگ میں کی گئی تھی۔‬

‫جوں جوں زبان کو فروغ حاصل ہوتا گیا‪ ،‬ادب ترقی کی من ازل طے کرت ا گی ا اور ای ک‬
‫وقت ایسا آیا جب تمام معاشرتی قدروں کا پاسبان ادب ٹھہرا۔ ادب نے انس انی زن دگی میں‬
‫انقالب برپا کرتے ہوئے انسانیت ک و مع راج کی مع راج ک ا راس تہ دکھ انے کی کوش ش‬
‫جاری رکھی۔ زندگی کا ہر پہل و ادب س ے توان ائی حاص ل کرت ا ہ وا نم و پات ا رہ ا۔ مگ ر‬
‫معاش رتی رواداری کے تن اظر میں ادب نے وہ کارن امے س ر انج ام دی نے کی بھرپ ور‬
‫کوشش کی جو آدمی کو انسان کا روپ عط ا ک رتے ہ وئے انس انیت کے پھ ول کے ان در‬
‫پنہاں خوشبو تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہو س کیں۔ پختہ اور اٹ ل عقائ د کے مال ک ہ وتے‬
‫ہوئے دوسرے لوگوں کے مخالف نظریات کو تحم ل س ے س ننا اور برداش ت ک رنے کی‬
‫کوش ش کرن ا رواداری کہالت ا ہے۔ اس چن د ح رفی مض مون میں ادب کی معاش رتی‬
‫رواداری کے فروغ کی جہت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔‬

‫اگر بات کی جائے اس ادب کی جو خدائے برحق کی طرف سے پیامبر ص لی ہللا علیہ و‬
‫آلہ و سلم کے ہاتھوں خاکی پتلوں کی ہدایت کے لئے فانی دنیا میں بھیجا گی ا ت و اس میں‬
‫خدائے لم یزل رواداری کے موضوع پر ارشاد فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫”اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ای ک ع ورت س ے پی دا کی ا اور‬


‫تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان‬
‫کر سکو۔“‬

‫(سورت الحجرات)‬

‫نبی اعظم صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم وجہ تخلیق ادب‪ ،‬معاشرتی رواداری پر لب ک و ی وں‬
‫جنبش سے آراستہ کرتے ہیں ‪:‬‬

‫”تم لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔“‬

‫اگر بات کی جائے اس ادب کی جو خیموں میں پیدا ہوا‪ ،‬لشکر میں پال بڑھا اور سپاہ کے‬
‫موجب تاریک دنیا میں شمع کی مانند روشن ہوا ت و وہ بھی معاش رتی رواداری ک و ای ک‬
‫اہم موضوع قرار دیتا ہے۔ اس ادب میں شاعری اور شاعری میں غزل کو روز اول سے‬

‫‪41‬‬
‫ہی اہم مقام حاصل ہے۔ ہندوستانی شعراء کرام غزل کے چراغ کی ل و میں رواداری کے‬
‫عنصر کو خوبصورتی سے روشن کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ‪:‬‬

‫جس گوشہ دنیا میں پرستش ہو وفا کی‬

‫کعبہ ہے وہی اور وہی بت خانہ ہے میرا‬

‫(چکبست)‬

‫ادب کے ساتھ ساتھ ادبی مشاعروں کا بھی معاشرتی رواداری کے ف روغ میں اہم ک ردار‬
‫رہا ہے۔ ہندوستانی ت اریخ گ واہ ہے کہ جہ اں بھی ادبی مش اعرہ منعق د ہوت ا اونچے طبقہ‬
‫س ے لے ک ر نچلے طبقہ ت ک کے ش عرا ای ک دوس رے کے پہل و بہ پہل و بیٹھ تے اور‬
‫رواداری کے تن وع رنگ وں کے پھ ول کی آبی اری ک رتے۔ ان مش اعروں کی ای ک مث ال‬
‫مشاعرہ ”آئینہ ہندوستان“ تھا جو ہری سرن داس کے دولت خانہ پر منعقد ہوا کرتا تھا۔‬

‫اردو ادب کی تاریخ میں کئی ادبی تحریکیں اٹھیں‪ ،‬ان تحریک وں میں تحری ک علی گ ڑھ‬
‫سرفہرست ہے۔ اس تحریک کے سرخیل سرسید احمد خان نے جس نقطہ پر اس تحریک‬
‫کی بنیاد رکھی وہ رواداری تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ ادب کو ایسے ڈھاال جائے کہ وہ ہندو‬
‫مسلم اتحاد کا باعث بنتا ہوا دونوں کی انگریزوں کے ساتھ دوستی کی وجہ بھی ثابت ہ و۔‬
‫اس ل ئے ‪ 1857‬ء کے بع د تخلی ق ہ ونے والے ادب میں معاش رتی رواداری ک ا عنص ر‬
‫نمایاں ہے۔‬

‫ن ثری ادب میں افس انہ ک و اہم مق ام حاص ل ہے۔ افس انہ نگ اروں نے ادب ک و معاش رتی‬
‫رواداری ک ا ذریعہ بن اتے ہ وئے م زدور س ے لے ک ر س یٹھ‪ ،‬مس لم س ے لے ک ر ہن دو‪،‬‬
‫یہودی‪ ،‬سکھ‪ ،‬عیسائی بلکہ ہر طبقہ اور مذہب کے لوگوں کو اپ نی کہ انیوں ک ا موض وع‬
‫بنایا۔ سعادت حسن منٹو نے معاش رتی رواداری کے تن اظر میں جنس یت پ ر قلم اٹھای ا ت و‬
‫راجندر س نگھ بی دی نے معاش رتی رش توں کے ات ار چڑھ أو کے بے ک راں س مندر میں‬
‫غوطہ زنی کی۔ ہر ادیب نے اپنے قلم کو الگ انداز پرواز سے روشناس ک رواتے ہ وئے‬
‫رواداری کی مختلف جہات کو اجاگر کیا اور لوگوں کو رواداری اختیار کرنے پر ابھارا۔‬

‫نہ صرف ادب بلکہ ادبی تعلیم بھی معاشرتی رواداری کے ف روغ میں اپن ا منف رد ک ردار‬
‫ادا کرتی رہی‪ ،‬اور کر رہی ہے۔ ہندو اساتذہ کے ہ اں مس لم ش اگرد اور مس لم اس اتذہ کے‬
‫ہاں ہندو شاگرد ادبی تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرتی رواداری کی شمع کو روش ن رکھ نے‬
‫‪42‬‬
‫کا باعث بنتے رہے۔ مثًال میر کے شاگرد منور الل صفا اور غالب کے شاگرد ب ال مکن د‬
‫بے صبر وغیرہ۔‬

‫حرف اختتام‪:‬‬

‫ادب معاشرتی رواداری کے فروغ میں ہمیشہ صف اول میں کھڑا رہا چ اہے وہ ش اعری‬
‫ہو یا نثر۔ ادب نے معاشرے کو رواداری کی انواع سے متع ارف ک روانے اور اس س ے‬
‫اصل روح سے آہنگ پیدا کرنے کے لیے کئی رنگ بدلے مگر اپنا ف رض بخ وبی نبھات ا‬
‫رہا۔ سادہ الفاظ میں معاشرے میں رواداری کے پرندے کو مح و پ رواز ک رنے ک ا س ہرا‬
‫ادب کے سر ہے۔‬

‫حواشی‪:‬‬

‫‪ )1‬قرآن مجید‪ ،‬سورۃ الحجرات۔‬

‫‪ )2‬ذکی الدین عبد العظیم بن عبدالقوی‪” ،‬ترغیب و ترہیب“ جلد ‪4‬‬

‫‪ )3‬گوپی چند نارنگ‪ ،‬مضمون‪” :‬اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات“ ۔‬

‫‪ )4‬ان ور س دید‪ ،‬ڈاک ٹر‪” ،‬اردو ادب کی تح ریکیں“ انجمن ت رقی اردو پاکس تان‪ ،‬ک راچی‪،‬‬
‫‪2021‬ء۔‬

‫بند کواڑوں کا ادب‬

‫‪24/03/2022‬‬

‫”بند کواڑوں کا ادب“ ایک سو گی ارہ ص فحات پ ر مب نی ان چ الیس اداری وں پ ر مش تمل‬


‫مجموعہ ہے جو شاہین زیدی نے بطور مدیرہ سہ ماہی مجلہ ”نوادر“ میں تحری ر ک یے ۔‬
‫شاہین زیدی ادبی دنیا میں بطور شاعرہ‪ ،‬ناول نگار‪ ،‬افسانہ نویس‪ ،‬مبصرہ‪ ،‬سفرنامہ نگار‬
‫اور مدیرہ خاص مقام رکھ تی ہیں۔ ش اہین زی دی نے مجلہ ن وادر اپ نے سس ر ڈاک ٹر س ید‬
‫نظیر زیدی کی یاد کو تازہ رکھنے کی خاطر نکالنا شروع کیا اس لیے اکثر اداریوں میں‬
‫ان کی یادوں کے پھول‪ ،‬جنہیں شاہین زیدی سمیٹتی نظر آتی ہیں‪ ،‬بکھرے ملتے ہیں۔‬

‫‪43‬‬
‫اس ضمن میں ”میرے آئیڈیل“ اور ”مجلس یادگار نظیر حسین زی دی“ بط ور نم ونہ پیش‬
‫کیے جا سکتے ہیں۔ ادب کی روح معاشرے کی روح کو زندگی سے آشنا کروانے کا گر‬
‫جانتی ہے اور ادب کا خالق ادیب ہوت ا ہے‪ ،‬اگ ر ادیب ہی ادبی روح ک ا قات ل ٹھہ رے ت و‬
‫معاشرے کو مردہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس اصول کو گردان تے ہ وئے ش اہین‬
‫زیدی ”فروغ علم و ادب‪ ،‬ٹھٹھرتی اندھیر نگ ری‪ ،‬بہ روپ کی زن دگی۔ کت نی؟ ‪ ،‬بے س بز‬
‫بہار ادب‪ ،‬جبر کا ادب‪ ،‬اور بند کواڑوں کا ادب“ میں ان ادیبوں سے خ ائف نظ ر آتی ہیں‬
‫ج و ادب تخلی ق ک رنے کی بج ائے گروہ وں میں بٹ ک ر کچ ا ادب اگل تے ہ وئے تمغ ات‬
‫وصول کرنے کی سعی میں سرگرداں ہیں۔‬

‫اور ساتھ ہی ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں“ میں پ ر امی د بھی ہیں کہ موج ودہ دور میں راکھ‬
‫میں کہیں نہ کہیں چنگاری بھر رمق‪ ،‬جو معاش رے ک و روش ن رکھ نے کی ض امن ہے‪،‬‬
‫باقی ہے۔ اداریہ ”اردو والوں کے بغیر اردو کانفرنس“ میں اس بات پ ر گ ریہ ک رتی ہیں‬
‫کہ موجودہ دور میں ادب کے نام پر جو کانفرنسیں ہو رہی ہیں ان ک ا ادب س ے در کن ار‬
‫ادب کے معنی تک سے تعلق نہیں۔ یار دوست ادبی کانفرنس کا ڈھونگ رچا ک ر مالق ات‬
‫کا بہانہ تالش کرتے ہیں اور ان لوگوں کو محفل میں مدعو کرنا کسر شان س مجھتے ہیں‬
‫جو حقیقی معنوں میں ادبی روح کے پاسباں ہیں۔‬

‫بیشتر اداریے اس بات کا پرچ ار ک رتے ہیں کہ اردو کی بق ا حقیقی معن وں میں پاکس تان‬
‫کی بقا ہے۔ اداریہ ”لمحہ فکریہ“ میں انہوں نے یہ موقف اپنای ا ہے کہ پاکس تان وہ مل ک‬
‫ہے جہاں ہر زبان کو ف روغ پ انے کے مواق ع میس ر ہیں س وائے اردو زب ان کے۔ ش اہین‬
‫زیدی کے لئے ان کے شوہر کی موت کا صدمہ بہت بڑا تھا جس سے وہ باہر تو نہ نک ل‬
‫سکیں مگر ان کی یاد کی شمع کو کبھی ”اہل علم و دانش“ تو کبھی ”ی ادوں کے چ راغ“‬
‫میں روشن کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔‬

‫اس کتاب کا بہ ترین اداریہ ”ٹھٹھ رتی کت ابیں اور بھ اگتے درخت“ ہے جس میں مص نفہ‬
‫نے درخت کو بطور عالمت استعمال کرتے ہوئے ان لوگ وں ک ا ت ذکرہ ک رنے کی س عی‬
‫کی ہے ج و ادب کے برگ د ہیں۔ اس کے عالوہ ای ک ط رف معاش رے کی سیاس ی‬
‫صورتحال‪ ،‬دہشت گردی‪ ،‬ٹارگیٹ کلنگ پر قلم اٹھاتی ہیں ت و دوس ری ط رف نوجوان وں‬
‫کو تخلیق اور تحقیق کی طرف راغب کرنے کی خواہش من د بھی ہیں۔ آخ ر میں بس اتن ا‬
‫ہی کہنا چاہوں گا کہ یہ کتاب بعنوان ”بند کواڑوں کا ادب“ متنوع رنگوں ک ا گلدس تہ ہے‬
‫جس کی خوشبو سے ادبی طالب علم کو ضرور لطف اندوز ہونا چاہیے۔‬
‫‪44‬‬
‫نمرود کی خدائی‬

‫‪06/04/2022‬‬

‫”نمرود کی خدائی“ ایک سو اٹھائیس صفحات پر مب نی س عادت حس ن منٹ و کے ان ب ارہ‬


‫افسانوں کا مجموعہ ہے جو آزادی سے قبل اور جن گ عظیم دوم کے بع د ہندوس تان میں‬
‫برپا ہ ونے والے فس ادات کے تن اظر میں لکھے گ ئے ہیں۔ آج ت ک جت نے بھی افس انوی‬
‫مجموعے نظر سے گزرے ان کا عنوان مجموعہ میں شامل نمائندہ افسانہ کا موضوع تھا‬
‫مگ ر افس انوی مجم وعہ ”نم رود کی خ دائی“ میں اس عن وان کے تحت ک وئی کہ انی ی ا‬
‫افس انہ موج ود نہیں۔ پہال افس انہ بعن وان ”کھ ول دو“ ہے جس میں آزادی کے دوران بپ ا‬
‫ہونے والے فسادات کو موضوع بناتے ہ وئے اس نقطہ ک و عی اں ک رنے کی کوش ش کی‬
‫گئی ہے کہ جنہیں آپ اپنی عزت و ناموس کے رکھ والے مق رر ک ر کے ان کی کامی ابی‬
‫کی خاطر دعأوں میں مستغرق رہتے ہیں وہ کس طرح آپ کی عزت کو س ر ب ازار نیالم‬
‫کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس افسانہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ لوگ جنسی طور پ ر‬
‫کس قدر وحشی ہیں کہ ایک ادنٰی سی جنسی تس کین کی خ اطر ایس ی ل ڑکی ک و مسلس ل‬
‫جنسی ہوس کا شکار بناتے رہتے ہیں جس کے جذبات و احساسات بے انتہ ا جنس ی س تم‬
‫کی بدولت مردہ ہو چکے ہوتے ہیں۔‬

‫دوسرا افسانہ بعنوان ”سوراج کے لئے“ ہے۔ اس افسانہ میں مذہب کے لب ادے میں پنہ اں‬
‫اس چہرے سے نقاب اٹھانے کی سعی کی گئی ہے جو پس پردہ رہ ک ر سیاس ت کے مہ ا‬
‫گرو کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اس پنہاں س چ س ے بھی پ ردہ اٹھای ا‬
‫گیا ہے کہ مہا گرو اپنے مفاد کی تکمیل کی خاطر کس طرح لوگوں ک و اپ نے س حر میں‬
‫گرفتار کرتے ہوئے ان سے کٹھ پتلی کا سا کردار ادا کرواتے ہیں۔‬

‫چند افسانوں جن میں ”ڈرلنگ‪ ،‬بدتمیز‪ ،‬عزت کے لئے‪ ،‬اور ش ریفن“ وغ یرہ ش امل ہیں‪،‬‬
‫میں منٹو نے خوبصورت چہروں سے نقاب اٹھاتے ہوئے اس ہوس ک و بے نق اب ک رنے‬
‫کی کامیاب کوشش کی ہے جو فسادات کے دنوں میں لوگ وں کی نس نس میں س ما چکی‬
‫تھی۔ مصنف اس ہوس ک ا تعل ق کبھی م ادیت کے س اتھ ت و کبھی جنس یت کے س اتھ ق ائم‬
‫کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دامن عصمت سے جب ف ریب ک ا نق اب اٹھای ا‬
‫جاتا ہے تو اندرونی کہانیاں وحشی حیوان کی روداد معلوم پڑتی ہیں۔‬
‫‪45‬‬
‫”شیر آیا‪ ،‬شیر آیا‪ ،‬دوڑنا“ ایک ایسی کہانی ہے جس میں منٹو کا مخصوص رنگ مفق ود‬
‫ہے مگر قدیمیت میں جدیدیت کا رنگ شامل کرتے ہوئے ایسا ام تزاج بنای ا گی ا ہے جس‬
‫کی ہر جھلک سے ایک ہی صدا بلند ہ وتی ہے کہ کس ی بھی ذی روح ک و‪ ،‬اس کی ب ات‬
‫کو سنے بغیر‪ ،‬اس کے آبا و اجداد کی غلطی کی بنا پر مجرم نہیں ٹھہران ا چ اہیے‪ ،‬بلکہ‬
‫تحمل سے اس کی بات کو درجہ سماعت عط ا ک رنے کے بع د ‪ ،‬ح االت کے تن اظر ک و‬
‫پیش نظر رکھے معاملہ ک ا تج زیہ ک رنے کے بع د ‪ ،‬رائے ق ائم ک رنی چ اہیے کہ آی ا وہ‬
‫مجرم ہے یا محرم۔‬

‫والدین اپنی اوالد سے غلط توقعات کی امید لگائے انہیں وہ منزلیں‪ ،‬ج و وہ خ ود حاص ل‬
‫نہیں کر پائے تھے‪ ،‬حاص ل ک رنے کی خ اطر ای ک خ اص ڈگ ر پ ر چالنے کی کوش ش‬
‫کرتے ہیں۔ مگر جب ان کی اوالد مخصوص رستہ پر چلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی ت و‬
‫والدین کس طرح خود کو مایوسی کے جام کی اتھاہ گہرائیوں میں م دہوش ک ر لی تے ہیں‬
‫کو منٹو نے افسانہ ”ہرنام کور“ میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔‬

‫زمانہ چاہے کتنا ہی تاریک کیوں نہ ہو کچھ ایسے لوگ ض رور ہ وتے ہیں ج و مایوس ی‬
‫میں بھی امید کی کرن کو روشن رکھنے کی ہ ر ممکن کوش ش ک رتے ہیں‪ ،‬چ اہے انہیں‬
‫اس مقص د کے حص ول کے ل یے ح االت کے بے ڈھنگے پن پ ر قہقہے لگان ا پ ڑیں ی ا‬
‫حاالت کی ستم گری پر واویال کرنے کی نوبت آ پہنچے۔ وہ اپنے مقص د ک و واض ح اور‬
‫روشن رکھے امید کی کرن سے راستہ ہم وار ک رنے کی جس تجو میں س رگرداں رہ تے‬
‫ہیں۔ ایسے ہی ایک کردار‪ ،‬جو حاالت کی نزاکت ک و بھ انپتے ہ وئے بہ تری کی جس تجو‬
‫میں لگا رہتا ہے‪ ،‬ک ا ح ال منٹ و نے افس انہ ”دیکھ کب یرا آی ا“ میں بی ان کی ا ہے۔ اس کے‬
‫عالوہ اس مجموعہ ہے میں کچھ ایسے بھی کردار ہیں جو ہمیں اپنے موج ودہ معاش رے‬
‫کے افراد معلوم پڑتے ہیں اور ایسا محس وس ہوت ا ہے کہ راہ چل تے ہ وئے ہمیں کہیں نہ‬
‫کہیں یہ کردار ضرور مل جائیں گے‪ ،‬یا مل چکے ہیں۔ ان ک رداروں میں ش ہید س از‪ ،‬بی‬
‫زمانی بیگم اور شہزادہ غالم علی کے کردار نمایاں ہیں۔‬

‫آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اگ ر ہندوس تانی آزادی کے دوران برپ ا ہ ونے والے فس ادات‬
‫اور فسادات کی بدولت ذہنیت کی تبدیلی کو سمجھنے کی تمنا ہو تو ایک بار اس افسانوی‬
‫مجموعہ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔‬

‫‪46‬‬
‫درگاہ سے درگاہ تک کا سفر‬

‫‪09/04/2022‬‬

‫اشفاق احمد فرماتے ہیں‪” ،‬گورنمنٹ کالج الہور (موجودہ یونیورس ٹی) ای ک درس گاہ ہے‬
‫جس میں“ س ”کا حرف اضافی ہے۔ عالم گواہ ہے کہ اس جہ ان ف انی میں فق ر ک ا گ وہر‬
‫درگاہوں سے ہی نصیب ہوتا چال آ رہا ہے۔ جس فقیر کے کاسہ کو وہ انمول صدف عط ا‬
‫ہوتا ہے اسے درویشی کا وہ جوہر‪ ،‬جس کی چمک دمک سے دنیا کی نس نس روشن ہو‬
‫جاتی ہے‪ ،‬نصیب ہو جاتا ہے۔ مگر یہ قیمتی رتن حاصل کرنا ہ ر ای ک کے بس کی ب ات‬
‫نہیں‪ ،‬بلکہ صرف وہ خاص لوگ جنہیں خدائے بر حق کی طرف سے منتخب کر لیا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬اسے حاصل کرنے کی صالحیت رکھتے ہیں۔‬

‫گورنمنٹ کالج الہور دیگر درگاہوں سے قدرے مختلف نوعیت کی درگ اہ ہے۔ اس درگ اہ‬
‫میں زندگی کی چند خوبصورت سال گزارنے کا موقع تو صرف خاص خاص لوگوں ک و‬
‫ہی میسر آتا ہے‪ ،‬مگر اس درگاہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر فق یر کے کش کول میں اتن ا‬
‫فیض ضرور ڈال دیتی ہے جتنا فقیر کی استطاعت کے موافق ہوتا ہے۔‬

‫ہر درگاہ میں بہت سی کمیٹیاں یا تنظیمیں‪ ،‬جو معامالت ک و س نبھالتی ہیں‪ ،‬موج ود ہ وتی‬
‫ہیں۔ گ ورنمنٹ ک الج الہ ور میں بھی ایس ی ک ئی تنظیمیں‪ ،‬جنہیں سوس ائٹی کے ن ام س ے‬
‫موسوم کیا جاتا ہے‪ ،‬موجود ہیں۔ ہر سوسائٹی کا حلقہ جدا جدا ہے۔ ک وئی سائنس ی تحقی ق‬
‫میں مح و ت و ک وئی حق وق ع امہ کی پاس داری ک و عملی ج امہ پہن انے کی کوش ش میں‬
‫س رگرداں۔ ان میں س ے ای ک سوس ائٹی ”مجلس اقب ال“ ‪ ،‬ج و ادبی تحقی ق و تخلی ق میں‬
‫گورنمنٹ کالج کا طرہ امتیاز ہے‪ ،‬کے نام س ے علمی ش ان و ش وکت کی حام ل ہے۔ اس‬
‫سوسائٹی کی ہمیش ہ یہ کوش ش رہی ہے کہ طلبہ ک و ادبی ورثہ س ے روش ناس ک روانے‬
‫کے مقصد کو مقدم رکھا جائے۔ چند دن قبل مجلس اقبال طلباء کو پنج ابی ورثہ کی ای ک‬
‫جہت س ے روش ناس ک روانے کی خ اطر پنج ابی زب ان کے شیکس پیئر‪ ،‬ہ یر کے خ الق‪،‬‬
‫حضرت وارث شاہ کی درگاہ پر لے گئی۔‬

‫گورنمنٹ کالج الہور کی شان و شوکت کی عالمت ”مینار“ کے سامنے سے گاڑی صبح‬
‫آٹھ بجے روانہ ہوئی۔ گاڑی کے اندر سپیکرز پ ر ہلکی ہلکی ت رنم‪ ،‬ج و دل وں ک و م ترنم‬
‫کرنے کی صالحیت سے لبریز تھی‪ ،‬بج رہی تھی۔ ناشتے کا انتظام ش یخو پ ورہ میں کی ا‬
‫گیا تھ ا۔ س اڑھے ن و بجے کے ق ریب مق رر ک ردہ ہوٹ ل کے دروازے کے عین س امنے‬
‫‪47‬‬
‫گاڑی کو روکا گیا اور طلباء کو ہوٹل کے اندر سندر کرسیوں پر ذی شان کے ساتھ بٹھایا‬
‫گیا۔ ناشتہ میں وہ تمام روایتی اشیاء‪ ،‬جن کے بغ یر الہوری وں ک ا ناش تہ مکم ل نہیں ہوت ا‬
‫موجود تھیں‪ ،‬کے عالوہ مجلس اقبال کے مشیر اعلٰی جناب ڈاکٹر س فیر حی در کی محبت‬
‫اور کابینہ کے خلوص نے کھانے میں وہ لذت گھول دی تھی جس کو احاطہ تحری ر میں‬
‫النا میرے تئیں ناممکن نہیں تو مشکل ض رور ہے۔ یہ اں س ے گ اڑی میں س وار ہ و ک ر‬
‫ناچتے گاتے ایک بجے کے قریب ہم محبت کے وارث کی درگاہ پر موجود تھے۔‬

‫درگ اہ کے منتظمین نے ہم ارا بھ ر پ ور اس تقبال کی ا اور ای ک خ اص کم رے‪ ،‬جس کی‬


‫سامنے اور بائیں جانب والی دیوار کے ساتھ کرسیاں پ ڑی تھیں اور س امنے والی دی وار‬
‫پر آویزاں وارث شاہ کی تصویر مسکرا رہی تھی‪ ،‬بٹھایا گیا۔ ایک مجاور نے ہیر رانجھ ا‬
‫کی اصل کہانی ہمارے گوش گزار کرنے کے بعد وارث کے اس کارنامے‪ ،‬جو رانجھے‬
‫سے ہیر کو جدا کر کے وارث کے س پرد ک رنے ک ا ب اعث بن ا‪ ،‬ک و بھی بی ان کی ا۔ ای ک‬
‫صاحب نے ہیر کے چند بول یوں گنگنائے کے دل پیار کی پینگ میں ہوالرے لینے لگا۔‬

‫چند لمحات بعد ڈھول منگوایا گیا جس کی تھاپ پر ہم س ب ن اچتے‪ ،‬جھوم تے اور رقص‬
‫کرتے درگاہ کی جانب ب ڑھے۔ ق دم ق دم پ ر ای ک ایس ی خوش بو‪ ،‬جس کے ذرہ ذرہ س ے‬
‫عظیم محبت کی س وندھی س وندھی مہ ک اٹھ رہی تھی‪ ،‬روح میں س رایت ک رتی گ ئی۔‬
‫درگ اہ کے ص در دروازے کے ان درونی ب ائیں ج انب محبت پی ار کے ب ازوں میں مح و‬
‫رقص تھی اور دائیں ط رف عش ق کھ ڑا ان کی بالئیں لے رہ ا تھ ا۔ درگ اہ کی مرک زی‬
‫عمارت کے چھت کے اندرونی حصے میں مین ا ک اری نے م یرے قلب میں ای ک ایس ی‬
‫ترنگ ک و ابھ ارا جس ک ا احس اس مجھے زن دگی میں اس س ے قب ل کبھی نہیں ہ وا تھ ا۔‬
‫مرکزی کمرے کے عین درمی ان دو ق بریں تھیں ای ک وارث کے وارث ( وال د) کی اور‬
‫دوسری ہیر کے وارث کی۔ درگاہ پر کسی نے محبت کے حصول میں کامیابی پ ر پھ ول‬
‫چڑھائے تو کسی نے اپنی ہیر کو حاصل کرنے کی خاطر پھول اٹھائے۔‬

‫ہم مرکزی عمارت کے عین عقب میں واق ع اس الئ بریری میں بھی گ ئے جس کے ای ک‬
‫حصے میں پنجاب کی ثقافت‪ ،‬جس کا تعلق براہ راست ہیر رانجھا سے تھا‪ ،‬دکھ ائی گ ئی‬
‫تھی۔ الئبریری کی دوسری جانب کتاب کے پنوں پر ہ یر اپ نی محبت کے ام ر ہ ونے ک ا‬
‫جشن منانے میں محو تھی۔ جشن اس قدر شاندار تھا کہ ہم اس میں کھو ک ر رہ گ ئے اور‬
‫یہ بالکل بھول گئے کہ جہاں ہیر ہوتی ہے وہاں کیدو کا وجود الزم ہے۔ وقت نے کیدو کا‬
‫سا کردار ادا کیا اور ہمیں چار و ناچار جشن عشق کو الوداع کہنا پڑا۔ الوداع!‬
‫‪48‬‬
‫پانی‪ ،‬مسکراہٹوں کا پاسباں‬

‫‪19/04/2022‬‬

‫قرطاس کائنات پر جب انسانیت کا ظہور ہوا وہ پانی کے ان خواص سے ناآش نا تھی ج و‬


‫اس کی شخصیت کی تہہ میں پنہاں خوشی کو لذت کے پ ر لگ ا ک ر س کون کی وادی کی‬
‫معط ر فض ا میں مح و پ رواز ک رنے کی ص الحیت س ے ل بریز تھے۔ مگ ر ج وں ج وں‬
‫انسانیت کی نسل بڑھتی گئی توں توں خ واص س ے آش نائی کی لہ ر ش دت پک ڑتی گ ئی۔‬
‫بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اس لہر نے وجود کی ش کل اختی ار ک رتے ہ وئے‬
‫عالم میں اپنی اہمیت کا اعالن کرنا شروع کیا۔ وہ دماغ آگے بڑھے جن میں اس لہ ر کے‬
‫اعالن نے تالطم برپا کر دیا تھا۔ تحقیق شروع ہوئی۔ ہر محقق اس نتیجہ پر پہنچا کہ پانی‬
‫زندگی ہے۔ زندگی مجموعہ ہے چار عناصر کا اور ان عناصر میں پ انی وہ عنص ر ہے‬
‫جو کرہ ارض پر زندگی کے وجود کا ضامن ہے۔ نباتات ہوں‪ ،‬حیوانات ہ وں ی ا حش رات‬
‫سب کے بدن میں کھلکھالتی روح پانی ہی کے باعث موجود ہے۔‬

‫بات شروع کی جائے اگر کتابوں کے پنوں میں کھو ک ر مس کراتی زن دگی ک ا س راغ ک ا‬
‫تالش کرنے سے تو سب سے قبل جس کت اب کے ص فحہ س ے یہ س راغ وا ہوت ا ہے وہ‬
‫کتاب انسانیت کی بھالئی کی امین قرآن مجید ہے۔‬

‫ارشاد الرحٰم ن ہے ‪:‬۔‬

‫” اور ہم نے ہر چیز پانی سے بنائی۔“‬

‫(سورت انبیاء‪ :‬آیت ‪) 30‬‬

‫کسی بھی چیز کی تخلی ق جس عنص ر س ے ہ وتی ہے اگ ر وہی عنص ر اس ک و میس ر آ‬


‫جائے تو اس کی چمک دمک اور ندرت میں نکھار آ جات ا ہے۔ کی ونکہ پ انی ک رہ ارض‬
‫کی تخلیق میں شامل عناص ر میں س ے ای ک عنص ر ہے اس ل ئے دنی ا کی ہ ر چ یز کی‬
‫چمک دمک پانی ہی کے باعث قائم و دائم ہے۔ پانی س بزہ ک و ص حرا‪ ،‬گ ل ک و خ ار اور‬
‫تمام جانداروں کی زندگی کو تار تار ہونے سے بچاتے ہ وئے ای ک ایس ی رعن ائی عط ا‬
‫کرنے کی وجہ ہے جسے سادہ الفاظ میں کائناتی حسن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‬

‫‪49‬‬
‫حضرت محمد صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم وہ ہستی ہیں جنہیں آخری رسول ﷺ ہونے‬
‫کے ساتھ ساتھ دنیا کی سو عظیم ترین شخصیات میں بھی اول درجہ حاص ل ہے۔ دون وں‬
‫لحاظ سے آپ صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مستند ترین ہے۔‬

‫فرمان مصطفٰی صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم ہے ‪:‬۔‬

‫” پانی ہللا تعالٰی کی ایک عظیم نعمت ہے“‬

‫(صحیح مسلم)‬

‫پانی وہ نعمت ہے جس کی شفافیت پہاڑوں کی فضا کو نمی عطا ک رتی ہ وئی ان پ ر اگی‬
‫ہوئی جڑی بوٹیوں اور انواع و اقسام کے رنگوں کے پھولوں کی خرام ناز کا باعث بنتی‬
‫ہے تو ساتھ ساتھ دیو قامت درختوں پ ر مش تمل جنگ ل کی بق ا ک و دوام بھی بخش تی ہے۔‬
‫انسان اس سے اپنے جگر کو ٹھنڈک بخشتے ہوئے سکون کی مس ند پ ر براجم ان ہ وتے‬
‫ہیں۔ پرندے اس کی بوند بوند سے مخمور ہو کر درختوں پ ر بیٹھے نغمہ االپ تے ہیں ت و‬
‫جانور پانی سے سرور حاصل کرتے ہوئے قدرت کی نعمت پ ر اظہ ار تش کر بج ا التے‬
‫ہیں۔‬

‫جہاں پانی لذت‪ ،‬سکون اور رعنائی کا باعث ہے وہاں دنی ا کی تم ام ذی ارواح اش یاء ک و‬
‫بیماریوں س ے بھی بچات ا ہے۔ اگ ر ب ات کی ج ائے اش رف ت رین مخل وق کی ت و اس کی‬
‫زندگی کو بیماری کی آغوش سے نا واقف رکھنے میں پانی کا اہم کردار ہے۔‬

‫جاپانی طبی ماہرین کے مطابق شدید سردرد‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر‪ ،‬خون کی کمی‪ ،‬جوڑوں ک ا‬
‫درد‪ ،‬دل کی دھڑکن کا ایک دم تیز یا آہستہ ہو جان ا اور م رگی ک ا عالج گ رم پ انی س ے‬
‫ممکن ہے۔ کچھ م اہرین ک ا یہ بھی کہن ا ہے کہ نہ ار منہ پ انی پی نے س ے میٹ ابولزم کی‬
‫کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے اور جسم سے زہریلے مادے خارج ہ ونے ک ا عم ل ت یز ہ و‬
‫جاتا ہے۔‬

‫کائنات کی کوئی بھی ذی روح جب پیاسی ہوتی ہے تو اس کی ح الت ایس ی ہ وتی ہے کہ‬
‫اس کے حواس خود اس کے اپنے قابو میں نہیں ہوتے اور ایسی حالت بیماروں سے بھی‬
‫ابتر ہوتی ہے۔ مگر پانی کے چند گھونٹ حواس کے ٹھکانے میں آنے کی وجہ بن جاتے‬
‫ہیں۔ ‪F‬۔ ‪ Batmanghelidj‬اس حوالے سے کہتے ہیں ‪:‬۔‬

‫”‪“You are not sick ,you are thirsty‬‬


‫‪50‬‬
‫پانی وہ شے ہے جو عالم کی بقائے حیات کا ضامن ہ وتے ہ وئے کائن ات کی تم ام اش یاء‬
‫چاہے ان کا تعلق جمادات‪ ،‬نباتات سے ہو یا حیوانیات س ے کے ق درتی حس ن اور حقیقی‬
‫کھلکھالہٹ کا باعث ہے اور اسی کی بدولت کائنات کے رنگوں میں رعن ائی کی جھل ک‬
‫موجود ہے۔ مگر افسوس ناک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ آدمی نے پانی کو حد درجہ آل ودہ‬
‫کرنے کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی سطح کو بھی کافی نقص ان پہنچای ا ہے۔ اگ ر ہم‬
‫قدرت کو مسکراتے ہوئے دیکھنا چ اہتے ہیں ت و ہمیں پ انی کی حف اظت کے ل یے عملی‬
‫اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کیونکہ پانی ناپید تو زندگی ناپید۔‬

‫ایک بار اور میری عیادت کو آئیے‬

‫‪18/06/2022‬‬

‫ہاسٹل ایک ایسی نگری کا نام ہے جو ماؤں کے الل کو بے حال ک رنے کے ق انونی ہ نر‬
‫سے ماالمال ہوتی ہے۔ ہاس ٹل کے اس ق انونی ہ نر کے س انچے س ے گزرن ا ان طلب اء و‬
‫طالبات پ ر ف رض عین کی مانن د الگ و ہوت ا ہے ج و دل میں اعلٰی تعلیم کے حص ول کی‬
‫خواہش کے موتی کے لمس کو سلگائے گھر سے دور اعلٰی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے‬
‫ہیں۔ ہاسٹل کے در و دیوار کے اندر داخل ہوتے ہی تمام کام کی ذمہ داری خود پ ر عائ د‬
‫ہو جاتی ہے اور ان بچوں کا حال دیکھنے الئق ہوتا ہے جو گھر کے راج میں کبھی تنکا‬
‫تک نہیں اٹھاتے۔‬

‫ہاسٹل کی زندگی کے جہاں بے شمار مسائل ہیں وہاں چھوٹی چھوٹی خوش یاں‪ ،‬دوس توں‬
‫کے س اتھ س ارا س ارا دن گزارن ا‪ ،‬ای ک دوس رے ک و ب ات ب ات پ ر چڑھان ا‪ ،‬ن ئے ن ئے‬
‫موضوعات کی کھوج‪ ،‬آئے دن نئی شرارتیں‪ ،‬دوستوں کے گروہ میں کھڑے ہ و ک ر ہل ڑ‬
‫بازی اور عجیب قسم کے مذاق جیسی رونقیں بھی شامل ہیں۔ اگر ہاس ٹل کی زن دگی کے‬
‫بنیادی مسائل کو زیر بحث الیا جائے ت و وہ ص رف دو ہیں‪ ،‬پ انی اور کھ انے ک ا مس ئلہ۔‬
‫گاؤں کا ٹھنڈا میٹھا پانی جن کی گھٹی میں شامل ہو انہیں ہاسٹل کا کھ اری پ انی راس آن ا‬
‫سچ میں عجوبہ اور معجزے کی بات ہے۔‬

‫گاؤں کے کھیت کو سیراب کرتے ٹیوب ویل کا صاف و شفاف آب اور م اں کے ہ اتھ کی‬
‫مک ئی کی روٹی‪ ،‬لس ی اور س اگ کے ع ادی ہاس ٹل کے بے نم ک کھ انے اور نمکین و‬

‫‪51‬‬
‫بدمزہ پانی سے آئے روز بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہاسٹل میں بیماری کا مطلب ہوتا ہے عذاب‬
‫اٰل ہی کیوں کہ ہاسٹل میں زیادہ تر لوگ الو صفت ہوتے ہیں جو دوسرے لوگوں کے س اتھ‬
‫میل مالپ رکھنا اپنی فطرت کے عین منافی سمجھتے ہیں۔ بعض اوق ات مع املہ اس کے‬
‫برعکس بھی ہوتا ہے اور خوش قسمتی سے ایسے لوگ بھی میسر آ جاتے ہیں جو خی ال‬
‫رکھنے والے ہوتے ہیں۔ مگر دوسرے گروہ کے اف راد کی ش رح پہلے گ روہ کی نس بت‬
‫بہت کم ہے۔ اگر انسان ہاسٹل میں موسِم امتحان کے دوران بیمار پ ڑ ج ائے ت و ج و اذیت‬
‫برداشت کرنا پڑتی ہے وہ عذاب عظیم سے کسی صورت بھی کم نہیں ہوتی۔‬

‫چوتھے میقات کے فائنل امتحان کے دنوں میں میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ رونما‬
‫ہوا۔ ُادھر امتحان شروع ہوئے اور ِادھ ر مع دہ میں ش دید قس م کی ٹھیس اٹھ نے لگیں۔ دو‬
‫تین روز تک میڈیکل سٹور سے دوائی وغیرہ لیتا رہا اور کمرے کے س اتھیوں ک و خ بر‬
‫تک نہ ہونے دی۔ میرا یہ اصول ہے کہ اپنے ساتھیوں کو کس ی ص ورت نہ پریش ان کی ا‬
‫جائے اور نہ ہی ان کے معامالت میں دخل ان داز ہ وا ج ائے اور امتح ان کے دن وں میں‬
‫اس اصول پر سختی سے کار بند رہا جائے۔‬

‫چوتھے روز درد کی شدت سے چہرہ کا رنگ پھیکا اور آنکھیں زرد ہونا شروع ہوگئیں۔‬
‫چہرے کے تاثرات اور مسکراہٹ کے پھیکے پن سے کمرے کے ساتھیوں کا ش ک یقین‬
‫میں بدلتا گیا کہ حسن کی طبیعت ناساز ہے۔ ان سے نہ رہا گیا اور انہوں نے سختی سے‬
‫دریافت کیا تو میرے بتانے پر برہم ہوئے اور مجھے کمرے میں بستر پر لیٹنے ک ا حکم‬
‫صادر کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔ آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرنے پایا تھا‪ ،‬ہاتھ میں دوائی کا‬
‫پیکٹ لئے کمرے میں واپس داخل ہوئے۔ چن د منٹ بع د ڈاک ٹر بھی آ نکال اور م یرا ہلک ا‬
‫پھلکا عالج کروایا گیا۔ پانچویں دن طبیعت کی زیادہ خ رابی کی ب دولت ہس پتال بھی جان ا‬
‫ہوا۔ واپس آتے ہی دونوں ساتھی مجھے سختی سے آرام ک رنے کی ہ دایت ک رتے ہ وئے‬
‫پرچہ کی تیاری میں جٹ گئے۔ کیونکہ میرا اگلی صبح پرچہ نہیں تھا اس وجہ س ے آرام‬
‫سے سو گیا۔‬

‫اگلی صبح بیدار ہوا تو درد کی شدت میں کمی ضرور تھی مگر اتنا درد باقی تھا کہ پانچ‬
‫منٹ مسلسل بیٹھ نہ پاتا تھا۔ بارہ بجے کے قریب یونیورسٹی کے ای ک س خن فہم دوس ت‬
‫کا میسج آیا اور عی ادت کی غ رض س ے م یرے ہاس ٹل آنے کی اطالع دی۔ تقریب ا ای ک‬
‫بجے کال آئی اور دوسری ج انب س ے دوس ت کی آواز آئی‪” ،‬میں ب ازار میں کھ ڑا ہ وں‬
‫اور سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کا ہاسٹل کس طرف ک و ہے۔“ میں نے اس ے وہیں رک نے ک ا‬
‫‪52‬‬
‫کہا اور بنفس نفیس اسے لینے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں‪ ،‬جناب ہاتھ میں لسی اور کھانے کا ڈبہ‬
‫پکڑے چلے آرہے ہیں۔ ہاسٹل لے کر آیا اور اپنی طبیعت کے ناساز پن کو اس پ ر عی اں‬
‫نہ ہونے دیا۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں اور پھر اس دوست نے ایک دوس رے دوس ت ک و‬
‫کال کر کے کہا‪” ،‬میں حسن کے پ اس ہ وں‪ ،‬تم بھی آ ج اؤ“۔ چن د لمح ات بع د وہ دوس ت‬
‫اپنے ایک دوست کو ساتھ لیے آ پہنچا۔‬

‫پہلے سے تشریف الئے ہوئے دوست نے وہ کھانا پیش کیا جو وہ اپنے ساتھ الیا تھ ا۔ اس‬
‫کے باوجود کہ ڈاکٹر نے مجھے روٹی سالن کھانا سختی سے منع کیا تھ ا‪ ،‬دوس توں کے‬
‫لحاظ کی خاطر چند لقمے تن اول ک یے۔ گپ ش پ ش روع ہ وئی ت و ب ات یونیورس ٹی کے‬
‫مع امالت‪ ،‬یونیورس ٹی کے اس اتذہ‪ ،‬اردو ادب اور خان دانی روای ات س ے ہ وتی ہ وئی‬
‫پاکستانی سیاست تک جا پہنچی۔ میری حالت ایسی کہ مسلسل بیٹھے رہنے اور چند لقمے‬
‫روٹی کی وجہ سے درد کی شدت بڑھتی گ ئی۔ ایس ی ح الت کے ب اوجود مس کراہٹ کے‬
‫جھومر کو چہرے پر سجائے رکھا اور اپنی طبیعت کی اصل حالت دوستوں پ ر عی اں نہ‬
‫ہونے دی۔‬

‫میرے کم رے کے س اتھی کہیں ب اہر گ ئے ہ وئے تھے‪ ،‬ای ک ڈی ڑھ گھن ٹے بع د وہ بھی‬


‫آپہنچے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اپنے اپنے بستر پر دراز ہو گئے۔ چند لمح ات بع د‬
‫انہیں میری ہنسی کے پیچھے چھپے راز نے بے چین کرنا شروع ک ر دی ا۔ ای ک س اتھی‬
‫اٹھا اور دوسرے کے کان میں کچھ کہا‪ ،‬دوسرے نے ”ہوں“ کہتے ہوئے س ر ک و جنبش‬
‫دی۔‬

‫وہ ساتھی پیچھے مڑا اور میرے جامعہ کے ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہ وئے ب وال۔ ”‬
‫کیا آپ سب پنجابی ہیں؟“ سب نے یک زب ان کہ ا‪” ،‬جی الحم دہللا! ہم س ب پنج ابی ہیں۔“‬
‫پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا اور پوچھا‪ ” ،‬حسن رات تمہیں کتنے انجکش ن لگے تھے۔“‬
‫میں نے جواب دیا‪” ،‬تمہیں معلوم ہے“ وہ پھر میرے جامعہ کے دوستوں س ے مخ اطب‬
‫ہوا اور کہا۔ ” اگر تسی برا نہ مناؤ تے حسن نوں آرام کرن دیو۔ توساں نوں ای دی ح الت‬
‫دا اندازہ نیں۔ ایہنوں آرام دی سخت ضرورت اے۔“ یہ سن ک ر دوس توں کے ت اثرات میں‬
‫کچھ خاص تبدیلی نہ آئی اور انہوں نے کہا کہ ہم ابھی جانے لگے ہیں۔ مجھے قدرے برا‬
‫بھی لگا مگر کمرے کے ساتھی کی میری طبیعت کو لے ک ر اض طرابی نے خوش ی ک ا‬
‫احساس بھی دالیا۔ وہ رخصت ہوئے اور میں درد کے کرب سے نج ات کی خ اطر بس تر‬

‫‪53‬‬
‫پر دراز ہو گیا۔ جیسے جیس ے ط بیعت میں بہ تری آتی گ ئی ای ک امن گ دل میں پ روان‬
‫چڑھتی گئی کہ دوستوں کو کال کر کے کہوں!‬

‫”ایک بار اور میری عیادت کو آئیے “‬

‫رمزیہ اشارہ (افسانہ)‬

‫‪22/06/2022‬‬

‫”چھوڑ دو اس سرزمین کو یا موت کو خوشی سے گلے لگانے کے لئے تیار ہ و ج اؤ!“‬


‫گدھ مٹیالے آسمان کی وسعت‪ ،‬ج و ب ادل کے آنگن میں آک ر س میٹ گ ئی تھی‪ ،‬چک ر لگ ا‬
‫رہے تھے اور کالے بادلوں سے جھانکتی سورج کی روشنی ان کا سایہ دی وار پ ر ی وں‬
‫پینکھ رہی تھی جیسے ردی کی ٹوکری میں کاغز پھینکا جاتا ہے۔ آسمان کی سمٹی ہوئی‬
‫وسعت کے نیچے خار دار جنگلی پودوں سے مزین راستے پ ر س تمگر کھ ڑا ب ار ب ار‬
‫”چھوڑ دو اس سرزمین کو یا موت کو خوشی سے گلے لگانے کے لئے تیار ہ و ج اؤ!“‬
‫جیسے الفاظ ُد ہرا رہا تھا اور ساتھ ساتھ قہقہے کی سینہ چیر دینے والی آواز بلند ہ و رہی‬
‫تھی۔ ستمکش سامنے کھڑا حق ح ق کی ص دا لگ ا رہ ا تھ ا۔ الف اظ دالئ ل کی رم جھم کے‬
‫ساتھ انصاف انصاف کا مفہوم االپ رہے تھے‪ ،‬مگر ستمگر پر کچھ اثر نہیں ہو رہا تھ ا۔‬
‫وہ بار بار موت کی صدا بن کر گونج رہا تھا اور دعوٰی کر رہا تھا ”یہ سرزمین ہم ارے‬
‫آباؤاجداد کی تھی مگ ر تمہ ارے لٹ یرے آباؤاج داد نے ُاس وقت ہم س ے چھین لی جب ہم‬
‫کمزور اور تم شہ زور تھے۔ آج حاالت ب دل چکے ہیں۔ اب ہم پ رزور اور تم کم زور بن‬
‫چکے ہو۔ وقت تاریخ کے پنوں کو نئے واقعات کے ساتھ ُد ہراتا رہت ا ہے اور اپ نی مس ند‬
‫ک ا فیض کبھی کس ت و کبھی کس ق وم ک و بخش تا رہت ا ہے۔ آج وقت ہم اری چ وکھٹ ک ا‬
‫نگہب ان ہے اور ہم اپ نی س رزمین ک و واپس حاص ل ک رنے کی ط اقت اور ہمت رکھ تے‬
‫ہیں۔“‬

‫اتنے میں فریادرس‪ ،‬سفید رنگ کے لباس میں ملب وس‪ ،‬ک ا وہ اں س ے گ زر ہ وا۔ اس نے‬
‫جب ستمگر کو ہاتھ میں بندوق‪ ،‬جو خون کی طالب تھی‪ ،‬اور ستمکش کو ستون کی مانند‬
‫سامنے کھڑا اور حق ح ق کی ص دا بلن د ک رتے پای ا ت و ان کے درمی ان آ کھ ڑا ہ وا اور‬
‫ستمگر سے محبت بھرے انداز میں ہلکی سی مسکراہٹ کو چہرے پر سجائے سوال کیا‪،‬‬

‫‪54‬‬
‫”ستمگر‪ ،‬اتنے غصے میں کیوں ہو تم؟“ ستمگر نے جابرانہ ان داز میں بن دوق کی ن الی‬
‫کو ستمکش کے سینہ کے مزید قریب کرتے ہوئے کہا‪” ،‬کبھی یہ سرزمین جس پر آج یہ‬
‫‪ ،‬اس نے ستمکش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‪ ،‬اپنا ح ق جم ائے بیٹھے ہیں ہم ارے‬
‫آباؤاجداد کی تھی مگر ان کے جابر آباؤاجداد نے ہماری نسلوں پ ر ظلم ڈھ اتے ہ وئے ہم‬
‫سے چھین لی تھی۔ اور آج جب ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ اپ نی ملکیت ک و واپس حاص ل‬
‫کر سکیں تو یہ اپنے آباؤاجداد کی روش پر چلتے ہوئے ہم کو ہمارا جائزحق دینے س ے‬
‫انک اری ہیں۔ اب آپ ہی ہم ارا فیص لہ ک ریں اور ہم ارا ح ق ہم ارے دامن میں ڈال دیں“۔‬
‫فریادرس ستمکش کی طرف پلٹا اور آنکھوں میں خون اور چہرے پر غصہ نمایاں ک یے‬
‫بیک وقت کئی سوال داغ دئیے‪” ،‬تم لوگ کیوں غاصب بنے بیٹھے ہ و؟ لوگ وں ک ا ح ق‬
‫مارنے کی روش کو تم کب چھوڑو گے؟ تمہارے آباؤاجداد نے بھی لوگ وں ک و م ارنے‬
‫کو اپنا مقصِد عظیم قرار دیا تھا اور اب تم بھی ان کی روش اور اسی راس تے پ ر چل تے‬
‫ہوئے دنیا کا امن تباہ کرنے پر آمادہ ہو اور لوگوں کا وہ حق‪ ،‬جو تمہ ارے آباؤاج داد نے‬
‫غصب کیا تھا‪ ،‬دینے سے انکاری ہو؟“‬

‫ستمکش‪ ،‬ستمگر کی بندوق کی نالی ک و پیچھے جھٹک تے ہ وئے‪ ،‬فری ادرس کی آنکھ وں‬
‫میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوا۔ ”ع الِم ف انی گ واہ ہے کہ ہم ارے آباؤاج داد نے ص رف اور‬
‫صرف امِن عالم کی خاطر ان لوگوں کی مخالفت کی جو امن کو تب اہ ک رنے کے در پے‬
‫تھے۔ اور جب وہ ل وگ ت وبہ کرلی تے تھے کہ وہ ظلم اور ظ الم کی حم ایت نہیں ک ریں‬
‫گے‪ ،‬ہمارے آباؤاجداد انہیں تمام حق وق ع زت کی رح ل میں س جا ک ر عط ا ک رتے اور‬
‫انہیں وہ مقام دیتے جس کی مثال آج کی دنی ا پیش ک رنے س ے قاص ر ہے۔ رہی ب ات اس‬
‫سرزمین کی تو یہ سرزمین ہم ارے آباؤاج داد کی تھی۔ انہ وں نے نہ کس ی س ے چھی نی‬
‫تھی اور نہ ظلم کی حم ایت کے ص لے میں حاص ل کی تھی۔ یہ ہم اری تھی‪ ،‬ہے اور‬
‫انشاءہللا کل بھی ہماری ہی ہوگی۔“‬

‫ستمکش کے یہ الفاظ سن کر س تمگر بھ ڑک اٹھ ا اور کہ ا‪” ،‬جھ وٹ جھ وٹ! تم غاص ب‬


‫تھے اور ہمارے حقوق کو تم نے غصب کی ا تھ ا ‪ ،‬اب ہم تم جیس ے غاص ب لوگ وں ک و‬
‫یہاں نہیں رہنے دیں گے‪ ،‬بلکہ اپنی سرزمین کو بمع تمام حقوق حاص ل ک رکے ہی رہیں‬
‫گے۔ چھوڑ دو اس زمین کو اور چلے جاؤ ُاسی جگہ جہاں کے تم باشندے تھے اور اگ ر‬
‫ہمارا یہ فیصلہ تمہیں منظور نہیں ہے تو پھر!“‬

‫”تو پھر؟“‬
‫‪55‬‬
‫”موت کو ایسے گلے لگاؤ جیسے تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلنے واال جوتے کو۔“‬

‫ستمکش سے چپ نہ رہا گیا اور دالئل کے لمس ک و س لگائے کہ نے لگ ا‪” ،‬یہ س ر زمین‬
‫ہمارے لیے ماں کی گود کی مانند ہے اور دنیا کا کوئی بے وقوف بھی یہ نہیں چاہے گ ا‬
‫کہ ماں کی محبت بھری گود کو چھوڑ کر یتیم ہو جائے۔ ہم بھی یتیم نہیں ہونا چ اہتے۔ یہ‬
‫سرزمین‪ ،‬وہ سرزمین ہے جس کی مٹی ہم اری ج ڑوں کی چوکی دار ہے۔ اگ ر ہم اس ک و‬
‫چھوڑ کر یہاں سے نکل گئے تو ہم زندہ نہ رہ سکیں گے۔“‬

‫ستمگر یہ الفاظ سن کر طنزیہ مسکراتے ہوئے چالی ا‪” ،‬یہ اں تمہیں زن دہ رہ نے ک ا ح ق‬


‫کون دے گا۔ تمہیں مرنا ہوگا‪ ،‬موت تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ تمہارے ل یے اب اس س ے‬
‫راہ فرار ہرگز ہرگز ممکن نہیں۔“ ستمکش نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھ یرتے‬
‫ہوئے جواب دیا‪” ،‬ہم نہیں ڈرتے اس موت سے جو تمہاری ِاس بن دوق س ے نکلی ہ وئی‬
‫ُاس گولی سے ہوگی جو اس بات کی عینی شاہد ہو گی کہ ایک آزادی ک ا خواہش مند م اں‬
‫کی گود ایسی سرزمین کو حاصل ک رنے کی خ واہش دل میں اور آنکھ وں میں س رزمین‬
‫سے محبت کا شعلہ بلند کیے خوشی سے فانی دنیا سے رخصت ہ و گی ا‪ ،‬مگ ر آزادی ک ا‬
‫شعلہ کیئں پروانوں کے دامن میں ڈال گیا۔ لیکن ہم ڈرتے ہیں ُاس موت سے ج و ِاس م اں‬
‫کو چھوڑ کر ہمیں آ پکڑے گی۔ وہ موت موت نہیں بلکہ ذلت ک ا تمغہ ہ وگی اور وہ تمغہ‬
‫ہماری روح کی موت کا باعث بنتے ہوئے ہمیں زندہ الش کا لقب عطا کرے گا۔“‬

‫س تمکش اور س تمگر کے تم ام جمل وں پ ر غ ور ک رتے فری ادرس نے محس وس کی ا کہ‬


‫ستمکش ِاس سرزمین کو چھوڑنے پر کبھی بھی رضامند نہیں ہوگ ا اور یہ اں م یری دال‬
‫گلنے والی نہیں تو وہ ستمگر کو دائیں ہاتھ سے ایک اشارہ کرتے ہوئے اپنے راستے پر‬
‫ہو لی ا‪ ،‬س تمگر نے ِاش ارم ِاش ارہ ک رتے ہ وئے س ر ک و جنبش دی اورس تمکش کھ ڑا یہ‬
‫سوچتا رہ گیا کہ اس اشارہ بازی کا کیا مطلب تھا۔‬

‫ناطق کے کردار کی ُپرسراریت ‪ ،‬سفید موتی کے تناظر میں‬

‫‪23/06/2022‬‬

‫علی اکبر ناطق موجودہ دوِر ترقی کے ایسے عمدہ لکھاری ہیں جن کی وجہ شہرت ناول‬
‫ن ولکھی ک وٹھی ہے۔ مگ ر اس کے عالوہ ش اعری اور افس انہ نگ اری میں اپ نی پہچ ان‬
‫‪56‬‬
‫بنانے میں بھی سرگرداں ہیں۔ اگ ر ب ات کی ج ائے ان کے افس انوی ک رداروں کی ت و وہ‬
‫زی ادہ ت ر ایس ے ک رداروں ک و پیش ک رتے ہیں جنہیں پ ڑھ ک ر معل وم ہوت ا ہے ایس ے‬
‫کرداروں سے ہم بھی مل چکے ہیں اور شاید بچھ ڑ بھی چکے ہیں۔ ایس ے ہی ک رداروں‬
‫میں سے ایک کردار کا نام منشی فضل حسین ہے جسے افسانہ بعنوان ”سفید موتی“ میں‬
‫پیش کیا گیا ہے۔ اس کردار کی شخصیت کو ایک ایس ی پراس رار فض ا کے س انچے میں‬
‫رکھ کر پیش کیا گیا ہے کہ افسانہ شروع ہوتے ہی تجسس کی لہ ر کھ وج کی مہ ک میں‬
‫تبدیل ہو کر اس کردار کی شخصیت کے راز کی تالش میں مح و ج اتی ہے۔ افس انہ کے‬
‫شروع میں کردار کو قارئین کے سامنے یوں پیش کیا جاتا ہے‪:‬‬

‫” وہ کھلے گراؤنڈ میں کرسی پر بیٹھا اتنا ُپرسکون تھا جتنا کوئی خزاں رسیدہ درخت ہو‬
‫سکتا ہے “‬

‫اس جملے کو پڑھتے ہی تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایسا کردار ہے ج و زم انے کے س فاک‬
‫پن کے ہاتھوں لوٹا ج ا چک ا ہے مگ ر اس کے ب اوجود وہ ُپرس کون ہے اور اس ے اپ نی‬
‫حالت پر کچھ مالل نہیں۔ آخر یہ کیسا کردار ہے۔‬

‫جیسے ہی افسانہ کی کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے تجّسس کی چمک میں ت یزی آتی ج اتی‬
‫ہے۔‬

‫”ہر کوئی جانتا تھا کہ اس کے پاس ایک انڈے کے براب ر س فید رن گ ک ا م وتی ہے اور‬
‫اس موتی میں ایک جن بند ہے۔ وہ جن اسے لوگوں کے راز اور غیب کی باتیں بتات ا ہے‬
‫اور گیت بھی سناتا ہے۔“‬

‫انڈے کے برابر سفید رنگ کے موتی اور اس میں بند جن جیس ے الف اظ س ے جہ اں اس‬
‫کردار کی ُپرسراریت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ایس ا بھی محس وس ہوت ا ہے کہ یہ ک وئی‬
‫داستانوی ہیرو ہے جس کے پاس ای ک جن ہے ج و اس کی ہ ر خ واہش کی تکمی ل کرت ا‬
‫ہے۔‬

‫اس کہانی ”سفید موتی“ کا کردار منشی فضل حسین ہمیشہ سکول میں بیٹھا رہتا ہے مگر‬
‫کسی کو پڑھاتا نہیں۔ جب سکول کے طلبہ فضل حسین کے بچوں س ے اس س فید م وتی‪،‬‬
‫جو ان کے مطابق منشی فضل حسین کے پاس موجود ہے‪ ،‬کے بارے میں س وال ک رتے‬

‫‪57‬‬
‫ہیں تو وہ ایسا جواب دیتے ہیں جس سے پراسراریت میں جہاں اضافہ ہوتا ہے وہ اں اس‬
‫کی شخصیت کے اسرار سے پردہ کِھ سکتا بھی معلوم پڑتا ہے۔‬

‫”اس کے پاس پھ ٹی پ رانی کت ابوں ک ا ای ک ڈھ یر ہے‪ ،‬جس میں عجیب و غ ریب ب اتیں‬
‫لکھی ہیں۔ دلچسپی سے یکسر خالی‪ ،‬مکمل نہ سمجھ آنے والی۔ ب ڑے بی ٹے ک ا کہن ا تھ ا‬
‫سفید موتی ان کتابوں میں کہیں چھپا کر رکھا ہو تو اور ب ات ہے۔ ورنہ پ ورے گھ ر میں‬
‫موجود نہیں۔“‬

‫سفید موتی کی حقیقت اور اس کے اصل رمز سے شناسائی کی لہر اس وقت بی دار ہ وتی‬
‫ہے جب ایک طالب علم منشی فضل حسین سے س فید م وتی کے متعل ق س وال کرت ا ہے‬
‫اور پوچھتا ہے کہ وہ موتی کہاں ہے؟ منشی صاحب یوں جواب دیتے ہیں۔‬

‫”استاد جی لڑکے کہتے ہیں آپ کے پاس انڈے برابر موتی ہے۔ ہاں بیٹا وہ ٹھی ک کہ تے‬
‫ہیں میرے پاس موتی ہے‪ ،‬لیکن یہاں کوئی اس کے دیکھنے کا اہل نہیں۔“‬

‫فضل حسین کے جواب سے جہاں اصل راز سے پردہ اٹھنا شروع ہوتا ہے وہ اں ح یرت‬
‫بھی ہوتی ہے کہ موتی میں ایسا کیا راز ہے جس کی ب دولت ل وگ اس ک و دیکھ نے کے‬
‫اہل نہیں۔‬

‫فضل حسین ایک طالب علم جو فضل حسین کے دوست کا بیٹا ہوتا ہے اسے پڑھانے کی‬
‫ذمہ داری لیتا ہے اور اسے اپنے ساتھ پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھانا ش روع‬
‫کرتا ہے۔ مگر اس سادہ واقعہ ک و ایس ے طلس ماتی الف اظ کے س اتھ بی ان کی ا گی ا ہے کہ‬
‫افسانہ کے کردار پر داستانوی ہیرو کا شک گہرا ہوتا جاتا ہے۔‬

‫”اس جگہ کو پہچان ل و۔ روزانہ میں تمہیں یہیں تین گھن ٹے ت ک کچھ من تر پڑھ اؤں گ ا۔‬
‫جب تک تم یاد نہیں کر لیتے‪ ،‬میں وہ سفید موتی تم کو نہیں دکھا سکتا۔“‬

‫منش ی فض ل حس ین کے ط الب علم ک و پہلے دو من تر پڑھ نے کے س اتھ ہی اس کی‬


‫شخصیت پر چھائی طلسماتی دھند چھٹنے لگتی ہے۔ جملہ مالحظہ فرمائیے‪:‬‬

‫”دو منتر وہیں بیٹھے بیٹھے یاد بھی کرا دیے۔ اس کا نام اس نے مجھے امیر خس رو کی‬
‫پہیلیاں بتایا تھا۔“‬

‫‪58‬‬
‫قدرتی مناظر کی خوبصورتی کے رموز کو فضل حسین جس ط رح بی ان کرت ا ہے‪ ،‬اس‬
‫سے اس کی شخصیت پر پڑے وہ سارے پردے‪ ،‬جو اس کی شخص یت ک و پراس رار بن ا‬
‫رہے تھے‪ ،‬اٹھ جاتے ہیں اور ایک ایسا کردار ابھرتا ہے جسے حقیقی معن وں میں اس تاد‬
‫کہا جاتا ہے۔‬

‫”اس پھول کی پتیوں کے اندر جو یہ نیلے نیلے اور گالبی ریشے نظر آتے ہیں یہ اص ل‬
‫میں خ دا کی ن رم روحیں ہیں اور یہ ج و ہلکی ہلکی خوش بو س ونگھ رہے ہ و‪ ،‬جس ے تم‬
‫دیکھ نہیں سکتے‪ ،‬یہ خدا ہے۔ یہی وجہ ہے جو انسان جتنے زیادہ پھول اور درخت لگاتا‬
‫ہے‪ ،‬ہّٰللا میاں اس سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے اور اسے بڑے بڑے سفید موتی دیتا ہے۔“‬

‫منشی صاحب نہ صرف طالب علم پر ایسا جادو کر دیت ا ہے ج و ط الب علم کے ل ئے ان‬
‫موتیوں سے محبت کا باعث بنتا ہے جو کتابوں کی نگری میں جابجا بکھ رے ہ وتے ہیں‬
‫بلکہ اس گر کے رمز کو بھی طالب علم پر عیاں ک ر دی نے کے ہ نر ک و جانت ا ہے‪ ،‬ج و‬
‫کتب نگری میں بکھ رے موتی وں کے چن نے میں کلی دی حی ثیت رکھت ا ہے اور اس کے‬
‫بغیر موتیوں کو چننا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن۔‬

‫طالب علم کا بیان دیکھئے‪:‬‬

‫”دن کیا رات کیا‪ ،‬میں منتر پڑھتے تھکتا نہیں تھا۔ ایسی ہ ڑک لگی کہ بعض دف ع س اری‬
‫ساری رات جاگتا اور ج ادو کے ملک وں کی س یر کرت ا۔…… ال ف لیلہ‪ ،‬ام یر حم زہ ک ا‬
‫عمرو عیار‪ ،‬سامری جادوگر اور قصہ چہ ار درویش‪ ،‬طوط ا کہ انی‪ ،‬قص ہ ح اتم ط ائی‪،‬‬
‫مثنوی سحر البیان اور زہر عشق کے منتروں نے وہ رونق پیدا کی اور ایسے سفید موتی‬
‫دیکھا دیے کہ ان کے آگے منشی جی کے موتی کی کچھ حیثیت نہ رہی۔“‬

‫المختصر سفید موتی استعارہ ہے علم کا۔ اور فضل حسین کی شخصیت کا رم زیہ ہے کہ‬
‫وہ نہ صرف عالم ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ایک ایسا استاد بھی ہے جو نہ صرف طلبہ‬
‫کو علم سے ماال مال کرتا ہے اور قدرتی رموز سے آشنا کرتا ہے بلکہ ان کے ان در علم‬
‫کی سچی تڑپ پیدا کرتے ہوئے انہیں اس راستے سے آگاہ بھی کرتا ہے جس کا ذرہ ذرہ‬
‫انہیں ان کی تڑپ کی گہرائی کو علم سے پر کرنے کے ہنر سے اٹا ہوا ہے۔‬

‫میری لڑکیوں سے لڑائی ہے‬


‫‪59‬‬
‫‪20/07/2022‬‬

‫لڑکیاں خدا کی عجب مخلوق ہے۔ کہتے ہیں کہ ہ ر کامی اب م رد کے پیچھے ع ورت ک ا‬
‫ہاتھ ہوتا ہے‪ ،‬جس کی پشت پناہ یہ مخلوق ہوتی ہے وہ زن دگی کے می دان میں ہ ار س ے‬
‫دو چار ہونے کی بجائے پھولوں کے ہار کا مستحق ق رار پات ا ہے۔ جبکہ دوس ری ج انب‬
‫جب یہ مخلوق کسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہے وہ بچارا پھر ہاتھ دھ ونے کے‬
‫قابل بھی نہیں رہتا۔‬

‫مگر میری تئیں معاملہ بالکل جدا نوعیت ک ا ہے۔ م یرے پیچھے ت و یہ طلس ماتی مخل وق‬
‫بغیر ہاتھ دھوئے ہی پڑ گئی ہے اور ایسی پ ڑی ہے کہ ہ اتھ دھون ا ت و درکن ار میں پ انی‬
‫کے نام تک سے التعلق سا ہو گیا ہوں۔ بات تو سحر انگیز اور حیرت کی ہے مگ ر ش اید‬
‫میرے تئیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک اس حیرت اور سحر انگ یزی کی کچھ اہمیت نہ‬
‫ہو۔ ممکن ہے کیونکہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے۔‬

‫میں ایک تیسرے درجے کا عام اور گمنام لکھ اری ہ وں مگ ر چھ وٹے چھ وٹے مق ابلوں‬
‫میں شرکت کرنا اور اپنا ن ام ب اقیوں س ے ج دا ک رنے کی کوش ش کرن ا لت کی ح د ت ک‬
‫میری عادت ہے۔ مقابلہ میں شرکت اس وجہ س ے نہیں کی ج اتی کہ جیت ک ر انع ام اور‬
‫داد پائیں گے بلکہ اس غرض سے کی جاتی ہے کہ دوڑ میں شریک ہو کر قل بی تس کین‬
‫حاصل ہوگی۔ میرا اصول بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ میں مقابلہ میں شرکت اس غرض س ے‬
‫نہیں کرتا کہ جیت کے ہ ار ک و م اتھے ک ا جھ ومر اور س ینے کی ش ان بن ا س کوں بلکہ‬
‫صرف ذہنی اور قلبی سکون کی خاطر۔‬

‫بطور یونیورسٹی کے طالب علم مقابلہ مضمون نویسی میں میری ش رکت تب ہ وئی جب‬
‫جی سی یونیورسٹی الہور نے تم ام یونیورس ٹیز سوس ائٹیز کے س مٹ ک ا انعق اد کی ا۔ اس‬
‫مقابلہ میں میری تیس ری پوزیش ن رہی‪ ،‬جبکہ پہال انع ام جی س ی یونیورس ٹی الہ ور کی‬
‫لڑکی کے نام ہوا۔ مجھے تیس رے انع ام ک و اپ نے ن ام ک رنے کی ات نی خوش ی نہیں تھی‬
‫جتنی اس بات کی کہ پہلی سیڑھی پر قدم جمانے والے کا تعلق صنف آہن سے ہے۔‬

‫دوسری مرتبہ میں نے اس مقابلہ‪ ،‬جو یو ای ٹی (‪ )UET‬نے منعقد کروایا تھا‪ ،‬میں بطور‬
‫سو لفظی کہانی کے لکھاری شرکت کی۔ خوش قسمتی سے دوسرا درجہ م یرے ن ام ہ وا‬
‫اور پہلی منزل کو سر کرنے کا سہرا اپنے سر پر سجانے ک ا اع زاز ی وواس (‪)UVAS‬‬
‫کی صنف نازک کو حاصل رہا۔ مجھے دوہ ری خوش ی ہ وئی۔ ای ک اس ب ات کی کہ میں‬
‫‪60‬‬
‫خود میں کچھ بہتری النے میں کامی اب رہ ا اور دوس ری اس ب ات کی کہ جدی د نس ل کی‬
‫لڑکی کے قلم میں طاقت تو ہے۔ ساتھ ہی کہیں نہ کہیں اداسی کی ہلکی سی لہ ر بھی س ر‬
‫اٹھانے لگی کہ دوسری مرتبہ بھی لڑکی سے ہارا۔‬

‫تیسری مرتبہ راقم نے اس قومی سطح کے مقابلے میں شرکت کی جو قائد اعظم کے یوم‬
‫پیدائش کے حوالے سے تحریک نفاذ اردو نے منعقد کروای ا تھ ا۔ میں نے کوش ش کی کہ‬
‫اچھا اور معیاری مضمون لکھ سکوں اور اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہ ا‬
‫ہے۔ نتائج کا اعالن ہوا اور دوسرا استھان م یرے ن ام ہ وا اور مق ابلہ کے می دان میں پہال‬
‫انعام حاص ل ک رتے ہ وئے ای ک ل ڑکی نے م یرے ط وطے اڑا دیے۔ نت ائج دیکھ تے ہی‬
‫میرے منہ سے اچانک نکلنے واال لفظ تھا ”پھر لڑکی!“ اب کی بار اداسی کی ہلکی س ی‬
‫لہر غصہ کے تالطم سے غم میں تبدیل ہوتی گئی۔‬

‫ایک دور تھا جب لڑکی گھر کی چوکھٹ پر کسی ناکام خ واہش کی تکمی ل کی خ اطر دم‬
‫سادھے گھٹ گھٹ کر ازلی دشمن موت کے ہاتھوں شکار ہو کر ابدی منزل ق بر میں ج ا‬
‫پہنچتی‪ ،‬اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔ مگ ر اب وہ دور ہے جب ص نف ن ازک کے پ ر‬
‫کھول کر انہیں آزادی کا پروانہ دیا جا چکا ہے اور وہ ہر میدان میں یہ ثابت کر رہی ہیں‬
‫کہ وہ صنف کرخت سے کسی بھی صورت کم نہیں۔ مگر ایک پہلو!‬

‫چ وتھی ب ار میں نے ق ومی س طح کے اس مق ابلے میں ش رکت ک رنے کی خ اطر ج و‬


‫‪ KWSSIP‬کے زیر اہتمام پانی کی اہمیت کے پیش نظر منعقد کروایا ج ا رہ ا تھ ا‪ ،‬خ ود‬
‫کو تحقیق کی گھٹی دی اور پروں ک و لفظی رعن ائی کی م الش س ے پ ر س کون کی ا اور‬
‫پرواز کے قابل بنایا۔ پرواز کو بلندیوں سے آشنا کرنے کی خاطر جملہ سازی ک ا این دھن‬
‫استعمال کرتے ہوئے محو پرواز ہوا۔ جب اڑان بھر چکا تو اس ب ات ک ا یقین ہ و چال تھ ا‬
‫کہ پہلی تین منازل سے کوئی ایک منزل سر کرنے میں کامیاب رہوں گا۔‬

‫نتائج کا اعالن کیا گیا۔ نتیجہ دیکھتے ہی غص ہ چہ رے پ ر الل پیال ہوت ا گی ا اور دل میں‬
‫جنگ کی ترنگ پروان چڑھنے لگی۔ خود تو جناب دوسری منزل کے پاسبان تھے مگ ر‬
‫پہلی منزل کے چوکھٹ پر بیٹھنے والے کا تعلق عورت ذات تھا۔ قومی سطح کی کامیابی‬
‫پر جتنی خوشی تھی اس سے زیادہ غصہ اس بات پ ر تھ ا کہ ہ ر ب ار ہی ل ڑکی ہ اتھ ک ر‬
‫جاتی ہے۔‬

‫‪61‬‬
‫میری لڑکیوں سے کوئی دشمنی نہیں اور نہ ہی میں انہیں کسی سے کم تصور کرتا ہوں۔‬
‫بلکہ میرے لیے یہ باعث فخ ر ہے کہ ہم ارے دور کی ع ورت اس قاب ل ہ و گ ئی ہے کہ‬
‫کسی بھی مقام پر اپ نی اہلیت کے ج وہر دکھ ا ک ر اعلٰی مق ام حاص ل کرس کے۔ اس کے‬
‫باوجود دل سے کہیں نہ کہیں سے یہ آواز بھی بلند ہوتی ہے کہ ہر بار لڑکی۔ لڑکی!‬

‫اورحان پاموک‪ ،‬پرخطر رستوں کا مسافر‬


‫‪25/07/2022‬‬

‫نوبل انعام الفریڈ نوبل سے وابستہ ایک ایسا انعام ہے جو طبیعی ات‪ ،‬طب‪ ،‬معاش یات‪ ،‬امن‬
‫اور ادب کے میدان میں ان لوگوں کے دامن میں ڈاال جاتا ہے جو ایسا کارنامہ س ر انج ام‬
‫دیں جو کہ نہ صرف لوگوں کی زن دگیوں ک و مت اثر ک رے بلکہ اس ک ام کی ن وعیت اس‬
‫کے متعلقہ میدان کے دیگر شہ سواروں سے الگ اہمیت بھی رکھتی ہ و۔ بیس ویں ص دی‬
‫کے آخری عشروں میں نوبل انعام کو احمقانہ کوشش اور موت کے بوسے جیسے الف اظ‬
‫سے بیان کیا جاتا رہا‪ ،‬مگر اکیسویں صدی کی ابتداء کے ساتھ ہی اس کی اہمیت میں اس‬
‫قدر اضافہ ہوا کہ اسے بین االقوامی عزت و وقار کی عالمت سمجھا جانے لگا۔‬

‫یہ انعام حاصل کرنا ہر ذی روح کے بس کی ب ات نہیں اس کے اص ول کے ل ئے ایس ے‬


‫ان دیکھے راستوں پر محو س فر ہون ا پڑت ا ہے ج و ت اریکی میں ڈوبے ہ ونے کے س اتھ‬
‫ساتھ خاردار جھاڑیوں سے اٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ اس راہ میں محو سفر ہ وئے‬
‫مگر تاریکی میں اپنی ذات پر قابو نہ رکھ سکے اور حواس باختہ ہو کر کسی کھائی میں‬
‫گر کر زندگی کے مقصد کو بھال بیٹھے اور زمانے کی گرد نے انہیں فرام وش ک ر دی ا۔‬
‫مگر کچھ ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے راستے کی تاریکی میں منزل ک ا نش ان پ انے‬
‫کی خاطر اپنی ذات کو شمع کی مانند جال ڈاال اور ماتھے پر بہادری کا جھ ومر س جائے‬
‫اپنی ذات سے پھوٹنے والی روشنی میں آگے بڑھتے رہے اور آخ ر ک ار ان ک ا ن ام بھی‬
‫نوبل انعام یافتہ لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔‬

‫اگر ب ات کی ج ائے ادب کے می دان میں نوب ل انع ام ی افتہ لوگ وں پ ر ت و ان کی فہرس ت‬
‫خاصی طویل ہے۔ بہت سے لکھاری قلم تھام لیتے ہیں‪ ،‬انگلیوں کو قلم ک ا ع ادی بھی بن ا‬
‫لیتے ہیں‪ ،‬مگر عمر بھر وفا نبھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ک ئی لکھ اری نوب ل انع ام‬

‫‪62‬‬
‫کی دوڑ میں حص ہ لی تے ہیں مگ ر ط بیعت کی ک اہلی اور غ یر س نجیدگی‪ ،‬معاش ی اور‬
‫سماجی مجبوریوں یا رجحانات کے بدالٔو کے ہاتھوں مجبور ہو ک ر رخ ب دل ج اتے ہیں۔‬
‫نتیجے میں زمانہ کی سفاکی کا شکار ہو کر گمنامی کی گہرائی میں گ رتے چلے ج اتے‬
‫ہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایک مرتبہ قلم تھام کر اس سے تاحیات وفا کا رش تہ اس توار ک یے‬
‫رکھتے ہیں‪ ،‬آخر نوبل انعام یافتہ کہالتے ہیں۔‬

‫انہیں لوگوں میں سے ایک نام اورح ان پ اموک ک ا ہے۔ لکھ اری کے ل یے لکھن ا‪ ،‬لم بے‬
‫عرصے تک لکھنا اور دس دس گھنٹے مسلسل لکھن ا‪ ،‬ش وق کی ک ڑی آزم ائش ہے اور‬
‫اس آزمائش سے تیس سال سے زائد عرصہ تک کامی ابی س ے ن برد آزم ا ہون ا اورح ان‬
‫پاموک کا ہ نر اور خاص ہ ہے۔ ان کی خ دمات کے اع تراف میں انہیں ‪2006‬ء میں نوب ل‬
‫انعام سے نوازا گیا۔‬

‫لکھاری معاشرے کا دماغ اور اس کا قلم معاشرے کی زبان ہوتا ہے۔ بے باک اور باہمت‬
‫دماغ سے حکم وصول کرنے والی زبان وہی بول تی ہے ج و دم اغ س وچتا‪ ،‬س مجھتا اور‬
‫تجزیہ کرتا ہے۔ یہی اصول اورحان پاموک پر صادق آتا ہے۔ اورح ان پ اموک ت رکی ک ا‬
‫پیدائش ی اور ت رک ق ومیت ک ا حام ل ہے۔ مگ ر اس کے ب اوجود انہ وں نے ت رکی کے‬
‫متنازعہ مسائل کو اپنے ناولوں کا موضوع بناتے ہوئے ترک سفاک پن کی سچی تصویر‬
‫دنیا کے سامنے رکھی‪ ،‬اور یہ بیان کیا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ان کے ملک میں‬
‫تیس ہزار کرد اور دس الکھ آرمینیائی باشندوں کا قتل عام ہوا۔‬

‫لیکن کسی نے بھی اس حقیقت کو ریاستی پابندی کی وجہ سے عیاں نہ ہونے دیا۔ اس پر‬
‫انہیں ریاست اور قومی اسمبلی کی توہین کے الزام میں مق دمے ک ا س امنا بھی کرن ا پ ڑا‬
‫مگر انہوں نے اپنے سفر کو ج اری رکھ ا۔ ان کے کچھ ن اول جیس ا کہ ‪My Name Is‬‬
‫‪ Red، White Castle، Snow‬اور حال ہی میں ‪ Other Colors‬اردو کے قالب میں‬
‫ڈھ الے ج ا چکے ہیں۔ ان کے دو ن اولوں ‪ Snow‬اور ‪ My Name Is Red‬کے اردو‬
‫تراجم بالترتیب ”جہاں برف رہتی ہے“ اور ”سرخ میرا نام“ میری نظر سے گزرے۔‬

‫”سرخ میرا نام“ ایک شاندار ناول ہے جس میں تاریخ‪ ،‬فن اور تہ ذیب ک و اکٹھ ا ک ر کے‬
‫ایک شاندار کہانی تش کیل دی گ ئی ہے۔ اس ن اول میں جہ اں تہ ذیبی تص ادم اور دنی اوی‬
‫کینوس میں آدم ذات کی اہمیت اور اس کے کردار کو تمثیلی کرداروں سے واضح کرنے‬
‫کی کامیاب کوشش کی گئی ہے‪ ،‬وہ اں پ ر ت رکی کے اس ع روج کی تص ویر کش ی بھی‬
‫‪63‬‬
‫نظر آتی ہے جب وہ جمود کا شکار ہو چکا تھا۔ بنیادی طور پ ر اس ن اول میں اہ ل ت رک‬
‫کو خبردار کرتے ہوئے اورحان پاموک نے ان حقائق سے پردہ اٹھانے کی سعی کی ہے‬
‫جو سلطنت عثمانیہ کے زوال کی وجہ قرار پائے۔ فن مصوری ک و جس کم ال کے س اتھ‬
‫بیان کیا گیا ہے وہ اورحان پاموک کے مشاہدہ کی پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‬

‫”جہ اں ب رف رہ تی ہے“ اورح ان پ اموک ک ا ای ک اور بہ ترین ن اول ہے جس ک ا اص ل‬


‫موضوع تہذیبی تصادم میں مذہب کا کردار ہے۔ اس ناول میں اورحان پ اموک نے م ذہب‬
‫کی اختراع ”سیاسی مذہب“ کو پس منظر کے طور پر اس تعمال ک رتے ہ وئے یہ واض ح‬
‫کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ مس ائل کی اص ل ج ڑ‪ ،‬م ذہب کی غل ط تش ریح اور‬
‫تشہیر ہے۔ اورحان پاموک کے نوبل انعام حاصل کرنے میں اس ناول ک و بنی ادی حی ثیت‬
‫حاصل ہے۔‬

‫اورحان پاموک ایک باکمال اور حقیقی معنوں میں فنکار شخصیت کا حامل ہے‪ ،‬ریاس تی‬
‫پابندی کے باوجود متنازعہ مسائل کو دنیا کے روب رو پیش کرن ا اس ک ا خاص ہ اور اس‬
‫کی بے باکی‪ ،‬حوصلہ مندی‪ ،‬اور ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جن قارئین کو قدرتی من اظر‬
‫س ے لگ أو ہے اور معاش رے کے متن ازعہ مس ائل کے س اتھ س اتھ تہ ذیبی تص ادم‪ ،‬فن‬
‫مصوری‪ ،‬سیاسی مذہب اور ترک تاریخ کے متعلق کچھ جانن ا چ اہتے ہیں‪ ،‬انہیں ”جہ اں‬
‫برف رہتی ہے“ اور ”سرخ میرا نام“ ایک بار الزمی دیکھنے چاہئیں۔‬

‫”جہاں میں تھا“ تجزیاتی مضمون‬


‫‪03/08/2022‬‬

‫عصر موجود میں کون ایسا ہے جو عطاء الح ق قاس می کے ن ام س ے واق ف نہیں۔ وہ نہ‬
‫صرف ادیب اور مزاح نگار بلکہ سفر نامہ نگار اور ک الم نگ ار بھی ہیں۔ ان کی خ دمات‬
‫کو نا صرف ادبی حلقوں میں تس لیم کی ا ج ا چک ا ہے بلکہ حک ومت پاکس تان بھی ان کی‬
‫خدمات ک ا اع تراف ک رتی ہے اور اع تراف کے ثب وت میں یہی ک افی ہے کہ انہیں تمغہ‬
‫حسن کارکردگی‪ ،‬ستارہ امتیاز اور ہالل امتیاز جیسے قومی میڈل سے نوازا جا چکا ہے۔‬
‫ایک عرصہ سے عطاء الحق قاسمی روز نامہ جنگ میں ”روزن دیوار س ے“ کے تحت‬
‫کالم نگاری کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔‬

‫‪64‬‬
‫کالم کو تنقید کی ہلکی آنچ پر تیار کرتے ہوئے دالئل کا مسالہ ڈالنا اور مزاح کی طشتری‬
‫میں قارئین کو پیش کرنا عطاء الحق قاسمی کا خاصہ ہے۔ اس طریقہ کالم نگاری سے نہ‬
‫صرف قاری دماغی رگوں کے تنأو سے محفوظ رہتا ہے بلکہ وہ مسائل کی نوعیت‪ ،‬اس‬
‫کے نازک پن اور اس کی اصل وجوہات سے آگاہ بھی ہو جات ا ہے اور نہ ص رف آگ اہی‬
‫بلکہ کالم پڑھنے کے بعد خود کو ت ازہ دم بھی محس وس کرت ا ہے۔ ان کے ک الم ہفتہ میں‬
‫دو‪ ،‬تین بار لگتے ہیں اور جن قارئین کو مزاح کی چاش نی س ے لط ف ان دوز ہ ونے کی‬
‫عادت پڑ چکی ہے‪ ،‬وہ ان کے کالم کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔‬

‫آج مورخہ ‪ 24‬جوالئی ‪ 2022‬ء ہے اور عطاء صاحب ک ا ک الم بعن وان ”جہ اں میں تھ ا“‬
‫روز نامہ جنگ میں شائع ہوا ہے۔ مختصر الف اظ میں م ذہبی‪ ،‬سیاس ی س ماجی‪ ،‬اجتم اعی‬
‫اور انفرادی منافقت کو جس انداز سے ایک ہی لڑی میں پرو ک ر ہ ار کی ش کل دی گ ئی‬
‫ہے وہ انہی کا ہنر ہے۔‬

‫موج ودہ دور میں م ذہبی من افقت روپیہ کم انے ک ا ہ نر بن چکی ہے۔ ن ام نہ اد مالء اپ نی‬
‫خواہش ک و پ ایہ تکمی ل ت ک پہنچ انے کی خ اطر دین کی پڑی ا میں ب دعت کے زہ ر کی‬
‫مالوٹ کرتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو متاثر ک رتے ہیں‪ ،‬بلکہ ان کے ل یے‪ ،‬ج و اوپ ر‬
‫بیٹھے ڈوری ہال کر مالء اکرام سے کٹھ پتلی سا کردار ادا کرواتے ہیں‪ ،‬خوشی کا باعث‬
‫بھی بنتے ہیں۔‬

‫مذہبی منافقت کو عطاء الحق قاسمی یوں منظر عام پر النے کی کوشش کرتے ہیں ‪:‬‬

‫”رات کو میں ایک ریستوران میں کھانے کے لئے گیا تو دیکھا وہ عالم دین اور حض ور‬
‫صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کے ذکر پر سر دھننے والے بہت سے لوگ ابوجہل کے س اتھ‬
‫بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ یہ لوگ بھرپور قہقہوں سے ریستوران کی فض ا ک و بوجھ ل‬
‫کیے ہوئے تھے۔ میں نے جاتی دفعہ ابوجہل کو کھانے کا بل ادا کرتے دیکھا۔“‬

‫ایسی ہی ایک اور کہانی بیان کرتے ہ وئے وہ ذاک ر لوگ وں کے ق ولی و فعلی تض اد پ ر‬
‫پڑے پردے کو فاش کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کو اس لیے وج ود کی ش کل دی گ ئی ت ا کہ‬
‫مذہبی سرپرست اپنی اپنی مذہبی پھکی جس میں انہوں نے ش یعہ‪ ،‬س نی اور وہ ابی ن امی‬
‫زہر کی مالوٹ کر رکھی ہے کو بآسانی بیچ سکیں۔ مگر اصلیت وہی ہے کہ ان کی ڈور‬
‫کسی اور ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہتا ہے ڈور ہال کر مذہبی رہنمأوں کو تگ نی‬
‫کا ناچ نچاتا ہے۔‬
‫‪65‬‬
‫عطاء صاحب ذکر کرتے ہیں ایک مجلس عزا کا جس میں ایک ذاکر غم حسین پر زار و‬
‫قطار رو رہا تھا اور سامعین کو بھی رال رہا تھا۔‬

‫پردہ فاش کیسے کرتے ہیں‪ ،‬مالحظہ ہو‪:‬‬

‫”اگلے روز میں ایک فلم دیکھنے گیا تو یہ ذاکر گیلری میں شمر کے ساتھ بیٹھا فلم دیکھ‬
‫رہا تھا۔“‬

‫سیاستدان معاشرے کا وہ کردار ہے جو عوام کے پیسے سے خریدے گئے انواع و اقسام‬


‫کے کھانے اور پھ ل س ے اپ نی چ ربی بڑھات ا ہے‪ ،‬رنگین نوش ی اور چٹ پ ٹے کھ انے‬
‫کھانے سے جب اسے موٹاپے کی ش کایت ہ ونے لگ تی ہے ت و ع وامی جلس ہ ک ا اہتم ام‬
‫کرواتا ہے تاکہ عوامی مسائل پر تھوڑا بہت رو کر نہ صرف عوام کی خوشنودی حاصل‬
‫کی جائے‪ ،‬بلکہ اپنی چربی کو کم کرنے کا انتظام بھی ہو س کے۔ مگ ر حقیقت میں انہیں‬
‫عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور وہ اپنی طاقت بڑھانے کی خاطر عوامی‬
‫پریشان حالت کا رونا روتے ہیں۔‬

‫سیاستدانوں کی تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہوئے قاس می ص احب کہ تے ہیں کہ ع وام‬


‫کی حالت زار کے ذمہ دار یہ حکم ران ل وگ ہیں‪ ،‬ج و کہ تے کچھ ہیں اور ک رتے کچھ۔‬
‫جب ایک مرتبہ یہ عوام سے اپنا مطلب حاصل کر لیتے ہیں تو پھر مڑ کر ان کی ط رف‬
‫نہیں دیکھتے۔ اگر یہ اپنے ف رائض ک و عیش پ ر قرب ان نہ ک ریں ت و ع وام بھی س کھ ک ا‬
‫سانس لینے کے قابل ہو سکتی ہے۔‬

‫قاسمی صاحب کا ان کے متعلق بیان دیکھئے ‪:‬‬

‫”رہنما فرط جذبات سے اپنی تقریر مکمل نہ کر سکا اور اسے ادھوری چھ وڑ ک ر وہ اں‬
‫سے جانا پ ڑا۔ اس ے ویس ے بھی ج انے کی جل دی تھی کی ونکہ ش ہر کی وہ تم ام مقت در‬
‫شخصیتیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی‪ ،‬ای ک ڈن ر میٹن گ پ ر‬
‫اس کی منتظر تھیں جہاں عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنانے کے ایجنڈے کو حتمی‬
‫شکل دی جانا تھی۔“‬

‫اصل منافقت بہت چھوٹے درجے سے شروع ہوتی ہے۔ دور ترقی میں ہر اس شخص کو‬
‫تنقید کا نشانہ بنایا جات ا ہے ج و اپن ا س ب کچھ مغ ربی ممال ک میں لے جات ا ہے۔ ان کے‬
‫متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی اوالد نہ صرف بگڑ جائے گی بلکہ تباہ ہو ج ائے گی۔ اور‬
‫‪66‬‬
‫اپنے تہذیب و تمدن کو پس پشت ڈال کر مغ ربیت کی دل دادہ ہ و ک ر رہ ج ائے گی۔ مگ ر‬
‫تنقید کرنے والوں میں سے جب کسی کو یہ موقع ملت ا ہے کہ وہ مغ ربی ممال ک ک ا رخ‬
‫کر سکے تو وہ نہ صرف فورًا تیار ہو جاتا ہے بلکہ تنقیدی پہلو کو بھال کر مغربیت کے‬
‫گن گانے لگتا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی کو قاسمی صاحب نے اپنے آرٹیکل میں بیان کی ا‬
‫ہے۔‬

‫آرٹیکل کے آخر میں عطاء الح ق قاس می ص احب ان لی ڈروں کی قلعی کھول تے ہیں ج و‬
‫عوامی مسائل کی آڑ میں ذاتی وسائل بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بی ان ک رتے ہیں‬
‫کہ آج کل کے لیڈر عوامی مسائل کو بنیاد بنائے‪ ،‬حکومت ک و دھرن ا دی نے کی وارنن گ‬
‫دیتے ہیں اور پھر حکومت سے مفاہمت کرتے ہوئے کس ی وزارت کے ل ئے منتخب ہ و‬
‫جاتے ہیں۔ اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے پر دھرنا منسوخ ک رتے ہ وئے کہ تے ہیں‪ ،‬ان‬
‫مسائل میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ حکومت تو مسائل کو وسائل سے ح ل ک رنے‬
‫کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ایسے ہی ایک سیاسی دوست‪ ،‬جو دھرن ا کی منص وبہ‬
‫بندی کرتا ہے اور پھر اچانک منسوخ کر دیتا ہے‪ ،‬کی کہانی وہ یوں بیان کرتے ہیں ‪:‬‬

‫”اگلے روز میں اپنے دوست کے انتظار میں بیٹھا تھ ا کہ اچان ک ف ون کی گھن ٹی بجی‪،‬‬
‫میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف میرا دوس ت تھ ا‪ “،‬آئی ایم س وری ی ار میں تمہ اری‬
‫طرف نہیں آ سکوں گا۔ میں وزیراعظم ہأوس وزارت کا حلف اٹھانے جا رہا ہوں۔ ”“‬

‫مجھے یقین ہے کہ سمجھنے والوں کے لئے یہی کافی ہے‪ ،‬اور شاید اب اور کچھ کہنے‬
‫کی ضرورت بھی نہیں۔ جون ایلیاء کے شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا‪:‬‬

‫ڈر ہے چبا نہ جائیں کلیجہ نکال کر‬

‫رہتے ہیں تیرے شہر میں ہندہ مزاج لوگ‬

‫زلفوں کے سائے میں“ تجزیاتی مطالعہ‬


‫‪01/09/2022‬‬

‫جس روز عناصر اربعہ؛ پانی‪ ،‬ہوا‪ ،‬مٹی اور آگ کا مرکب تیار کر کے پتال بنای ا گی ا اور‬
‫اس کے اندر روح پھونکی گئی‪ ،‬اسی روز لفظ ”جنگ“ کو وجود حاصل ہو گیا۔ اس لف ظ‬
‫‪67‬‬
‫کو مفہوم کا پیراہن تب نصیب ہوا جب آدم کو مسجوِد مالئک ٹھہرایا گیا اور عزازیل نے‬
‫آدم کو خلیفہ کے روپ میں مسند نشین دیکھ کر تکبر کا ورد کیا۔ لفظ ”جنگ“ ک و مفہ وم‬
‫کا پیراہن ملتے ہی یہ خدشہ الحق ہ وا کہ کہیں ایس ا نہ ہ و‪ ،‬جن گ کے س تم و ج بر س ے‬
‫نظام کائنات درہم برہم ہو جائے۔ نظاِم کائنات میں توازن برق رار رکھ نے کے ل یے ای ک‬
‫ایسے جذبے کی ضرورت محسوس کی گئی‪ ،‬جو جنگ کی ضد ہوتے ہوئے کائن ات کے‬
‫کینوس میں راحت کا رنگ بھ ر س کے۔ یہی ج ذبہ لف ظ ”محبت“ کی رگ رگ میں نہ اں‬
‫مال۔‬

‫جب دو طاقتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں ت و ہ ر ط اقت دوس ری پ ر غلبہ پ انے کے ل ئے ت انے‬
‫بانے بنتی ہے اور اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کی ہر ممکن سعی کرتی ہے۔ ایس ا ہی ہ وا‬
‫جنگ اور محبت کے درمیان اور روِز روشن س ے آج ت ک جن گ اور محبت میں ل ڑائی‬
‫جاری ہے۔‬

‫جنگ اور محبت دو ایسے آفاقی ج ذبے ہیں جن ک ا وج ود کائن ات کے ذرہ ذرہ میں اپ نی‬
‫موجودگی کا پتہ دیتا ہے۔ لکھاری کائنات کی زب ان ہوت ا ہے اور یہ کیس ے ممکن ہے کہ‬
‫زبان ُاس رمز‪ ،‬جو اس کے وجود کی گہرائی میں پنہاں ہے‪ ،‬سے دنی ا ک و ناآش نا رہ نے‬
‫دے۔ ایسا ہی ہوا اور دنیا کے تم ام لکھ اریوں نے ان دو ج ذبوں کے متعل ق خ وب لکھ ا۔‬
‫کس ی نے محبت کے نغمے گ ائے‪ ،‬ت و کس ی نے جن گ کے س تم و ج بر کی ت اروں ک و‬
‫چھیڑا۔‬

‫محبت اور جنگ میں کشمکش کی ای ک ایس ی ہی کہ انی ک و ن اولٹ ”زلف وں کے س ائے‬
‫میں“ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ناولٹ چینی زبان کے ُاس ناولٹ ک ا اردو ت رجمہ ہے‪ ،‬جس‬
‫کا انگریزی زبان میں ‪ IT HAPPENED AT WILLOW CASTLE‬کے عنوان‬
‫سے ترجمہ ہوا تھا۔ اس کا خالق شہیہ ین ہے جبکہ اردو کے قالب میں ڈھ النے ک ا س ہرا‬
‫ظ۔ انصاری کے سر ہے۔‬

‫کہانی کچھ یوں ہے کہ چین میں جنِگ عظیم ُد وم کے دوران چینی فوجی ایک گ اؤں میں‬
‫کسان کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ پلٹن کا فوجی‪ ،‬لی جن‪ ،‬جس کی عمر اٹھارہ برس ہ وتی ہے‪،‬‬
‫کسان کی بیٹی‪ ،‬ارہمی‪ ،‬کی زلفوں ک ا اس یر ہ و جات ا ہے۔ وہ اس س ے ش ادی کے خ واب‬
‫دیکھتا ہے۔ مگر ُاصول آڑے آ جاتے ہیں اور وہ اص ولوں پ ر محبت ک و قرب ان ک ر دیت ا‬
‫ہے۔‬
‫‪68‬‬
‫ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں“ جنگی تناظر میں رومان کی ایسی داس تان ہے جس س ے‬
‫ہندوستانی مٹی کی بو آتی ہے۔ یہ بات باعِث تعجب ہے کہ چینی سرزمین پر تخلیق ہونے‬
‫واال ناولٹ اپ نے ان در وہ تم ام خصوص یات س موئے ہ وئے ہے ج و ہندوس تانی ادب کی‬
‫پہچان تسلیم کی جاتی ہیں۔‬

‫ناولٹ میں جب لکھاری محبت پ ر قلم اٹھات ا ہے‪ ،‬اص ول کی زنج یر اس کے ہ اتھوں ک و‬
‫دبوچ لیتی ہے‪ ،‬کسان کی ع زت پرس تی اس ک ا رس تہ روک تی ہے‪ ،‬اور روای ات کی قی د‬
‫اسے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔‬

‫اس ناولٹ میں یہ بھی دکھای ا گی ا ہے کہ مش رق میں زمین داری نظ ام کتن ا مض بوط ہے۔‬
‫ن اولٹ کے ک ردار ہ اؤ‪ ،‬ج و کہ زمین دار ہے‪ ،‬کے ذریعے یہ واض ح کی ا گی ا ہے کہ‬
‫زمینداری نظام کا سرخیل کس طرح لوگوں کو اپنا غالم بنائے رکھتا ہے اور اپ نی دولت‬
‫کی ہوس کی خاطر سفاک پن کی نئی داستان کو کس انداز میں رقم کرتا ہے۔‬

‫اس ن اولٹ ک ا دوس را مرک زی موض وع جن گ ہے۔ اس ل یے جن گ س ے وابس تہ دیگ ر‬


‫موض وعات جیس ا کہ اص ول پرس تی‪ ،‬انقالب‪ ،‬ارادے کی پختگی ‪ ،‬ش ک‪ ،‬امی د اور جل د‬
‫بازی کے نقصانات وغیرہ کو بھی زیر بحث الیا گیا ہے۔‬

‫انسان صبح اویس ہی سے ُح سن کا شیدائی ہے اور جہاں بھی وہ خوبصورتی ک و دیکھت ا‬


‫ہے اس کی طرف کھینچا چال جاتا ہے۔ اس ناولٹ میں انسان کی اس ی جمالی اتی حس کی‬
‫تسکین کے لیے کہیں شبابی ُح سن کا تذکرہ کیا گیا ہے تو کہیں قدرتی مناظر کی عکاسی‬
‫ملتی ہے۔‬

‫لیڈر وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے ماتحت سے ایس ا پی ار ک رے جیس ا کہ وہ اپ نے فرزن د‬


‫س ے کرت ا ہے اور م اتحت ک ا بھی یہ ف رض ہے کہ وہ اپ نے حکم ران کے حکم کی‬
‫بجاآوری کے لئے ہمہ وقت تیار رہے۔ لیڈر کے تناظر میں یہی فکر اس ن اولٹ کی ج ان‬
‫ہے۔‬

‫محبت‪ ،‬ایک رنگارنگ ش ش جہت موض وع ہے۔ اور اس ی رنگ ا رنگی ک و پ وری آب و‬
‫تاب کے ساتھ شہیہ ین نے ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں “ میں نکھ ارا ہے۔ محبت کہیں‬
‫عاشق معش وق کے روپ میں مل تی ہے‪ ،‬ت و کہیں لی ڈر اور م اتحت کی ش کل میں۔ کہیں‬

‫‪69‬‬
‫ُاصولوں سے محبت کا رنگ غالب ہے‪ ،‬تو کہیں عزت سے محبت کا چراغ روشن۔ کہیں‬
‫یہی محبت باپ بیٹے کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے‪ ،‬تو کہیں وطن سے محبت کا پیراہن۔‬

‫ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں“ کی خاصیت یہ ہے کہ دو متضاد جذبات کو یکجا کر کے‬


‫ایک ہی طشتری میں یوں سلیقے سے سجایا گیا ہے کہ ظلم و جبر کی جھنک ار‪ ،‬حس ن و‬
‫عشق کی ُسر کے مانع نہیں آتی۔‬

‫( لی جن کے جذبہ محبت کے نام)‬

‫امیرن کے کردار کا تجزیاتی و نفسیاتی مطالعہ‬


‫‪12/09/2022‬‬

‫قصہ یا کہانی انسانی زندگی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ کائنات کے کینوس میں کہ انی کے‬
‫جرثومے اس وقت ظاہر ہوئے جب آدم کو مس جوِد مالئ ک ٹھہرای ا گی ا اور عزازی ل نے‬
‫آدم کو مسند نشین دیکھ کر تکبر کا ورد کیا۔ کہانی کی تخلیق کے بع د انس ان نے اس ک و‬
‫بیان کرنے کے کئی ڈھنگ اپنائے۔ کس ی نے داس تان ک و چھ یڑا ت و کس ی نے ن اول کے‬
‫پنوں میں زندگی کی شمع روشن کی۔ کوئی کہانی کا رخ موڑ ک ر اس ے ڈرام ا کے آنگن‬
‫میں لے گیا تو کسی نے اسے افسانے کی فضا سے متعارف کروایا۔ ان چار عناصر کے‬
‫مجموعے کو افسانوی ادب کا نام دیا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ ان سب کا مرک ز ای ک ہے اور وہ‬
‫ہے کہانی۔ انسانی زندگی بہت پیچی دہ اور متن وع جہ ات ک ا عکس ہ وتی ہے اور انس انی‬
‫زندگی کی انہی متنوع جہات کے عکس کو پیش کرنے کا نام ناول ہے۔‬

‫اردو ادب میں ناول ک ا آغ از تب ہ وا جب ڈپ ٹی ن ذیر احم د دہل وی نہیں ‪1869‬ء میں پہال‬
‫ناول مراۃ العروس برصغیر میں پیش کیا۔ ناول کی کئی اقسام ہیں اور ہ ر قس م اپ نی ج دا‬
‫اہمیت رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک اہم قسم کو نفسیاتی ناول کے نام سے جانا جاتا ہے۔‬

‫اردو ادب میں نفسیاتی ناول کی بنیاد ڈالنے کا سہرا مرزا ہادی رسوا کے سر ہے۔ انہ وں‬
‫نے ‪1899‬ء میں امراؤ جان ادا ناول لکھ کر اردو ناول کو نفسیاتی میدان سے آشنا کیا۔‬

‫امراؤ ج ان ادا میں ای ک ایس ی ل ڑکی کی کہ انی بی ان کی گ ئی ہے جس ے ای ک ش ریف‬


‫خاندان سے اغوا کرکے لکھنؤ کے بازار میں رنڈی کے ہاں سوا س و روپے کے ع وض‬
‫‪70‬‬
‫بیچ دیا جاتا ہے۔ وہاں طوائف ک ا ط وق اس ک ا مق در ق رار پات ا ہے اور وہ تاحی ات اس ی‬
‫اسیری میں گزار دیتی ہے۔‬

‫امراؤ جان ادا کے مرکزی کردار امراؤ جان کی زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا‬
‫سکتا ہے۔ امیرن‪ ،‬جب وہ ماں باپ کی دنیا کی شہزادی ہ وتی ہے۔ ام راؤ‪ ،‬جب وہ لکھن ؤ‬
‫کے بازار میں رنڈی کے ہاں بیچ دی جاتی ہے۔ امراؤ جان‪ ،‬جب وہ رنڈی کے ہاں خاص‬
‫تعلیم و تربیت کے بعد طوائف کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اور آخری حص ہ وہ‪ ،‬جس‬
‫میں امراؤ جان طوائف کے س اتھ س اتھ ش اعری کے ص حن میں ق دم رکھ تی ہے اور ادا‬
‫تخلص کرتی ہے۔ اس مضمون میں امراؤ جان ادا کی زندگی کے پہلے حصے ”ام یرن“‬
‫کا تجزیہ کیا گیا ہے۔‬

‫ام یرن جب وال دین کی کائن ات کی ش ہزادی تھی‪ ،‬اس ے ہ ر وہ خوش ی‪ ،‬ج و بچپن میں‬
‫مسکراہٹ اور کھلکھالہت کا ب اعث ہ وتی ہے‪ ،‬میس ر تھی۔ اس ک ا وال د جمع دار تھ ا اور‬
‫اسے شدت سے پیار کرتا تھ ا۔ اس وقت ام یرن کی دنی ا گڑی ا‪ ،‬مٹھ ائی‪ ،‬ن ئے ک پڑے اور‬
‫نئے جوتوں تک مح دود تھی۔ روای ات کی قی د ض رور تھی مگ ر وہ قی د‪ ،‬ایس ی قی د تھی‬
‫جسے وہ اپنی راحت کا سامان سمجھتی تھی۔ اور وہ قید تھی اس کی منگنی‪ ،‬جو اس کے‬
‫پھوپھی کے لڑکے کے ساتھ اس وقت طے پائی تھی جب وہ نو برس کی تھی۔ امیرن کی‬
‫دنیا بہت سادہ اور شاندار تھی اور سب س ے اہم ب ات یہ کہ تب اس ے کس ی بھی قس م کی‬
‫گمشدگی ک ا خ وف (‪ 1)FOMO‬نہیں تھ ا۔ گمش دگی کے خ وف س ے اس کی آش نائی تب‬
‫ہوئی جب کھلتے وقت اس کا چھال (انگوٹھی) کہیں گم ہو جاتا ہے اور وہ رو رو کر اپن ا‬
‫برا حال کر لیتی ہے۔ نقصان کا احس اس کھ و ج انے والی چ یز کی قیمت س ے نہیں بلکہ‬
‫اس قیامت سے ہوتا ہے جو گمشدہ چیز کے مال ک پ ر ٹوٹ تی ہے۔ بچپن میں چھال گم ہ و‬
‫جانے پر جو اتنا روئے کہ اس کی آنکھیں سوج جائیں‪ ،‬اندازہ کریں اس پر تب کیا قیامت‬
‫ٹوٹی ہوگی جب اس کی کل کائنات اندھیر نگ ری میں کہیں کھ و گ ئی اور اس ے رس یوں‬
‫سے جکڑ کر بیل گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ امیرن پر ٹوٹنے والی قیامت سے اسے جان کے‬
‫خوف (‪ 2)Thanatophobia‬کا علم ہوا اور وہ خوف اس کا بچپنا تار تار کرت ا ہ وا ای ک‬
‫ایسے زخم کا باعث بنا جو تاحیات رستہ رہا اور کبھی مندمل نہ ہو سکا۔‬

‫نفسیاتی تناظر میں اگر امراؤ جان ادا کے پہلے حص ے ام یرن ک ا تج زیہ کی ا ج ائے ت و‬
‫ہمیں دو نفسیاتی اصطالحیں ملتی ہیں۔‬

‫‪71‬‬
‫‪ .1‬نرگسیت (‪)Narcissism‬‬

‫‪ .2‬ایڈی پس الجھاؤ (‪)Oedipus Complex‬‬

‫نرگس یت نفس یات کی اہم اص طالح ہے ج و الفت ذات اور خودپس ندی کے معن وں میں‬
‫استعمال کی جاتی ہے۔‬

‫”تحلیل نفسی کی اصطالح میں نرگسیت اپنی ذات سے بے انتہ ا الفت کے ل ئے اس تعمال‬
‫ہوتا ہے۔“۔ ‪3‬‬

‫نرگسیت کی اہمیت کو فرائڈ یوں بیان کرتا ہے‪:‬‬

‫”نرگسیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ فرد کا لیبیڈو اپنی انا پر مرکوز ہ و ک ر اپ نی ہی‬
‫ذات میں گم ہو جاتا ہے۔“ ‪4‬‬

‫امیرن کا کردار جس طرح نرگسی ڈھ انچے میں ڈھال ہ وا ہے وہ ع ورت کی فط رت ک ا‬


‫عکاس ہے۔ ام راؤ ج ان ادا جب ام یرن کی زن دگی زی ر بحث التی ہے تب وہ ام یرن کی‬
‫نرگسیت کو یوں بیان کرتی ہے۔‬

‫”اچھے س ے اچھ ا کھ اتی تھی اور بہ تر س ے بہ تر پہن تی تھی۔ کی ونکہ ہمج ولی ل ڑکے‬
‫لڑکیوں میں کوئی مجھے اپنے سے بہتر نظر نہ آتا۔۔۔۔۔۔۔ پاؤں میں الل گ ل ب دن ک ا پ ائے‬
‫جامہ۔۔۔۔۔۔۔ تن زیب کی اوڑھنی‪ ،‬ہاتھوں میں چاندی کی تین تین چوڑیاں‪ ،‬گلے میں ط وق‪،‬‬
‫ناک میں سونے کی نتھنی اور سب لڑکیوں کی نتھنیاں چاندی کی۔“ ‪5‬‬

‫نرگسیت کا تعلق صرف اپنی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز س ے ہوت ا ہے ج و ذات‬
‫سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہوتی ہے‪ ،‬چاہے وہ کھانا ہ و‪ ،‬ک پڑا ہ و ی ا ک وئی رش تہ۔‬
‫امیرن کی زندگی میں نرگسیت کے عنصر ک ا غ الب پن دیکھ یے کہ وہ احس اس برت ری‬
‫کے اظہار کے لیے اپنے ہونے والے شوہر کا تقابل کریمن کی لڑکی سے کرتی ہے اور‬
‫احساس برتری کو یوں پیش کرتی ہے۔‬

‫”واہ! میرے دولہا کی صورت کریمن ( ایک دھینے کی ل ڑکی ک ا ن ام تھ ا ج و م یرے ہم‬
‫سن تھی) کے دولہا سے اچھی ہے۔ وہ کاال کاال ہے م یرا دولہ ا گ ورا گ ورا ہے۔ ک ریمن‬
‫کے دولہا کے منہ پر کیا بڑی بڑی سی داڑھی ہے‪ ،‬اور میرے دولہا کے ابھی م ونچھیں‬
‫بھی اچھی طرح سے نہیں نکلیں۔“ ‪6‬‬
‫‪72‬‬
‫دوسری اصطالح ایڈی پس الجھاؤ ہے۔ اس اصطالح کو فرائ ڈ نے لڑک وں کی م اں س ے‬
‫محبت اور وابستگی اور باپ سے مخالفت اور اسے رقیب سمجھنا کے لیے اس تعمال کی‬
‫ہے۔ یہ عم ل الٹ بھی ہوت ا ہے یع نی ل ڑکی کی ب اپ س ے محبت۔ ام یرن بھی ای ڈی پس‬
‫الجھاؤ کی شکار ہے۔‬

‫”بے شک ابا مجھے اماں س ے زی ادہ چ اہتے تھے۔ اب ا نے کبھی پھ ول کی چھ ڑی نہیں‬


‫چھوائی۔ اماں ذرا سی بات پر مار بیٹھی تھیں۔ اماں چھوٹے بھیا کو بہت چاہتی تھیں۔“ ‪7‬‬

‫المختصر امیرن کی دنیا جو اجڑ گئی تھی وہ بہت سادہ تھی۔ روایات کی قید ض رور تھی‬
‫مگر امیرن کی زندگی کسی قسم کے خ وف س ے بالک ل ناآش نا تھی۔ اور یہی ام یرن کی‬
‫اجڑی ہوئی کائنات کا حسن تھا‪ ،‬رعنائی تھی۔ اسی رعنائی کی تباہی کا غم تھا ج و اس ے‬
‫تاحیات گمشدہ دنیا کی یاد دالتا رہا اور ناسور بن کر ڈستا رہا۔‬

‫حواشی‪:‬‬

‫‪www.techtarget.com :1‬‬

‫‪www.verywellmind.com :2‬‬

‫‪ 3‬محمد اکرم چغتائی‪ ،‬تشریحی لغت‪ ،‬الہور‪ ،‬اردو سائنس بورڈ‪2001 ،‬ء‪ ،‬ص ‪557‬‬

‫‪ :4‬ڈاکٹر سلیم اختر ‪ ،‬تین بڑے نفسیات دان ‪ ،‬الہور‪ ،‬سنگ میل پبلی کیش نز‪2016 ،‬ء‪ ،‬ص‬
‫‪83‬‬

‫‪ :5‬مرزا ہادی رسواء ‪ ،‬امراؤ جان ادا ‪ ،‬الہور ‪ ،‬ری اض ش ہباز پ ریس‪2003 ،‬ء‪ ،‬ص ‪-33‬‬
‫‪34‬‬

‫‪ :6‬ایضًا ص ‪34‬‬

‫‪ :7‬ایضًا ص ‪35‬‬

‫”امرأو جان“ کے کردار کا نفسیاتی مطالعہ‬


‫‪19/09/2022‬‬

‫‪73‬‬
‫کہانی کے بیج کی تخلیق اسی روز ہی ہوئی تھی جس روز خدائے واح د نے کائن ات ک و‬
‫وجود بخشا تھا۔ مگر کہانی کے اس بیج کو جڑ تب نصیب ہوئی جب خ دا کے حکم س ے‬
‫عزرائیل نے آدم کی تخلیق کی خاطر مٹی سے مٹی کو جدا کیا۔ کہانی کو وجود کا پ یرہن‬
‫تب نصیب ہوا‪ ،‬جب آدم کو مسجود مالئک دیکھ کر عزازیل نے تکبر کا قصد کیا۔ کہ انی‬
‫کو بیان کرنے کے مختلف ڈھنگ اپنائے ج اتے رہے۔ کس ی نے داس تان کی آغ وش میں‬
‫کہانی کے رموز پر گفتگو کی تو کسی نے ناول کے کینوس کو بیان کا ذریعہ بنایا۔‬

‫زندگی کے متنوع پہلؤوں کو کثیر جہ ات کے لف افہ میں بن د ک ر کے پیش ک رنے ک ا ن ام‬


‫ناول ہے۔ ناول کی کئی اقسام ہیں اور ہر قسم اپنی نوعیت کے لحاظ سے زندگی کو بی ان‬
‫کرتی ہے۔ ناول کے لکھاریوں میں ایک نام مرزا ہادی رس واء ک ا ہے‪ ،‬ج و ای ک ایس ے‬
‫لکھاری ہیں جنہوں نے لکھنٔوی تہذیب میں طوائف کے مقام و مرتبہ کو زی ر بحث التے‬
‫ہوئے اردو ادب کو نہ صرف ایک نئے موضوع سے متعلق کروایا بلکہ ادب کو نفسیاتی‬
‫ناول سے متعارف کروانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ میرا اشارہ م زا ہ ادی رس واء‬
‫کے ناول ”امرأو جان ادا“ کی طرف ہے۔ مرزا ہادی رس واء نے ن اول ”ام رأو ج ان ادا“‬
‫کے مرک زی ک ردار ”ام رأو ج ان ادا“ کی زن دگی ک و چ ار مراح ل میں تقس یم ک ر کے‬
‫معاشرے کے سامنے پیش کیا ہے۔‬

‫‪1‬۔ امیرن‬

‫‪2‬۔ امرأو‬

‫‪3‬۔ امرأو جان‬

‫‪4‬۔ امرأو جان ادا‬

‫اس مضمون میں کردار امرأو جان ادا کی زندگی کے تیسرے مرحلے ”امرأو ج ان“ ک و‬
‫زیر بحث الیا گیا ہے۔‬

‫چند جملے پہلے دو مراح ل کے متعل ق بی ان ک رنے کے بع د اص ل موض وع کی ج انب‬


‫بڑھتے ہیں۔‬

‫امیرن آنگن میں کھلے ہوئے ایسے پھول کی مانند تھی ج و ب اد خ زاں س ے ن ا آش نا تھ ا۔‬
‫مگر جب اسے چمن سے توڑ کر قفس میں ڈال دیا گیا‪ ،‬اسے حوادث زم انہ س ے واقفیت‬
‫ہوئی اور قیامت یہ ٹوٹی کہ وہ اپنا نام اور اپنی پہچان تک نہ بچ ا س کی۔ ام یرن ک و جب‬
‫‪74‬‬
‫امرأو کا روپ مال‪ ،‬اس کی زندگی میں رعنائی شامل ہوئی اور وہ بس م ہللا‪ ،‬خورش ید اور‬
‫گوہر مرزا کے گروہ میں شامل ہو کر امیرن کو بھولنے کی س عی میں س رگرداں ہ وئی۔‬
‫مگر اداسیوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ خانم کے کوٹھے پر امرأو ن امی پھ ول پ ل بھ ر‬
‫میں کھل اٹھتا اور پل بھر میں اداسی کی یلغار سے مرجھا جاتا۔‬

‫امرأو کو امرأو جان کا روپ ملتے ہی اسے انتخاب اور اختیار کا ح ق ت و م ل گی ا۔ مگ ر‬


‫جب وہ نئی دنیا کی خواہش میں کوٹھے سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتی‪ ،‬اس کا سر‬
‫قفس کی دیواروں سے ٹکرا جاتا اور قید کی داستان ہنٹر بن کر اس پر برستی۔‬

‫امرأو جان کی زندگی ک ا المیہ یہ ہے کہ وہ حقیقی معن وں میں کبھی طوائ ف نہ بن پ ائی‬
‫اور اس میں وہ ناز و ادا نہ چمکی جو رنڈیوں ک ا خاص ہ ہ وتی ہے۔ اس کے پیچھے اس‬
‫ال ش عور کی ک ار فرم ائی معل وم پ ڑتی ہے‪ ،‬جس کے خم یر میں گھریل و ع ورت کے‬
‫صدیوں پرانے جذبات ش امل تھے۔ وہ حقیقی معن وں میں کبھی طوائ ف نہ بن پ ائی مگ ر‬
‫فلسفہ تربیت کے تحت وہ چند لوگوں سے جھوٹی س چی محبت ک ا اظہ ار ض رور ک رتی‬
‫ہے۔‬

‫امرأو جان کی زندگی حوادث زمانہ کا شکار ہے۔ ای ک لمحے اس کی زن دگی میں ن واب‬
‫سلطان ایسی خوشی کی ش مع روش ن ہ وتی ہے‪ ،‬ت و دوس رے لمحے اداس یوں ک ا خی ال‪،‬‬
‫محرومیوں کا احساس اور پناہ گاہ نہ ہونے کا غم‪ ،‬خوشی کی شمع کو گل ک ر دی تے ہیں۔‬
‫پناہ گاہ نہ ہونے کا غم اس کے اندر گھر بسانے کی تمنا پروان چڑھات ا ہے۔ اس تمن ا کی‬
‫تکمی ل کی خ اطر وہ کبھی ن واب س لطان س ے ت و کبھی فیض علی ڈاک و س ے محبت ک ا‬
‫اظہار کرتی ہے۔ اسی کوشش میں وہ اکبر علی خ اں کے گھ ر بیٹھ بھی ج اتی ہے‪ ،‬مگ ر‬
‫اس کی آرزو تکمیل نہیں ہ وتی۔ وہ خ واب س جاتی ہے مگ ر فیض علی ڈاک و کی دھ وکہ‬
‫دہی‪ ،‬خانم کی قید‪ ،‬بے بسی کا غم اور معاشرتی پابندیاں اس کی خوابوں کی تج وری ک و‬
‫درہم برہم کرتے ہوئے اس کے خوابوں کو سولی پر لٹکا دیتے ہیں۔‬

‫زندانی تقدیر جب اسے فیض آباد کے اس گھر کے س امنے ال کھ ڑا ک رتی ہے جس کے‬


‫آنگن کا وہ کبھی پھول تھی‪ ،‬وہ اندر جانے کی آرزو کرتی ہے تاکہ ام یرن ک و تالش ک ر‬
‫سکے۔ مگر درمیان میں سالوں کی دوری کی ایسی دیوار حائل ہوتی ہے جس پر خاندانی‬
‫روایات اور معاشرتی پابندیوں کا پہرہ ہوتا ہے۔ سگے رشتے اسے ٹھکرا دی تے ہیں اور‬

‫‪75‬‬
‫اس کا بھائی نادیدہ دبأو کے باعث اسے اپنانے س ے انک ار ک ر دیت ا ہے۔ اس وقت ام رأو‬
‫جان کو دوسری بار جالوطنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‬

‫پہلی جالوطنی جسمانی تھی اور اس میں امرأو ج ان ک ا قص ور نہیں تھ ا۔ مگ ر دوس ری‬
‫جالوطنی روحانی جالوطنی ہے جس کا محرک معاش رتی روای ات اور نادی دہ دب أو ہے۔‬
‫روحانی جالوطنی سے دوچار ہونے کے ب اعث وہ م رہم‪ ،‬ج و فیض علی ڈاک و نے امی د‬
‫کی کرن دکھا کر امرأو جان کے زخم پر رکھا تھا‪ ،‬زہر بن جاتا ہے اور ام رأو ج ان کے‬
‫گھأو کو سدا بہار بنانے کی وجہ ثابت ہوتا ہے۔‬

‫امرأو جان کی زندگی متضاد جذبات کی کش مکش میں گھ ری ہ وئی ہے۔ ای ک ط رف وہ‬
‫گھ ر بس انے کی تمن ا ک رتی ہے‪ ،‬دوس ری ج انب خ انم ک و اپ نی زن دگی ک ا واح د وارث‬
‫سمجھتی ہے۔ کبھی خانم کی قید سے چھٹکارا چاہتی ہے ت و کبھی ک وٹھے میں خ ود ک و‬
‫محفوظ سمجھتی ہے۔ نفسیات میں اس کے لئے ایک اصطالح اس تعمال ہ وتی ہے جس ے‬
‫جاذبیت (‪ )Ambivalence‬کہتے ہیں۔‬

‫امرأو جان ادا کی نفسیاتی کیفیت کے متعلق ڈاکٹر غالم حسین اظہر تحریر کرتے ہیں ‪:‬‬

‫”طوائف زادی کے اندر ہمیشہ ایک شریف عورت زن دہ رہ تی ہے‪ ،‬کی ونکہ ع ورت کی‬
‫فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ چار دیواری کے اندر ہی تحفظ محس وس ک رتی ہے اور پی ار‬
‫سے بھری فضا اس کے لئے باعث سکون ہے۔“‬

‫المختص ر ام رأو ج ان کی زن دگی اداس یوں‪ ،‬محرومی وں‪ ،‬خواب وں کے خس اروں‪ ،‬تش نہ‬
‫تمنأوں اور جھ وٹی س چی محبت وں ای ک ایس ا مجم وعہ ہے ج و اس ے کبھی زن دگی کی‬
‫رعنائی سے متعارف کرواتا ہے تو کبھی معاشرتی پابن دیوں کے س تم اور روای اتی ج بر‬
‫سے۔‬

‫(جناب ڈاکٹر سفیر حیدر کی طلباء سے محبت کے نام)‬

‫زنجیر (افسانہ)‬
‫‪22/09/2022‬‬

‫‪76‬‬
‫بارش کے پانی سے لت پت سڑک کے کنارے لوہے کے پنج روں میں مقی د‪ ،‬آزادی کے‬
‫خواہشمند‪ ،‬پنچھی فٹ پاتھ پر چلنے والی خ اک ک و دیکھ دیکھ ک ر م دد پک ار رہے تھے۔‬
‫لوگ پرندوں کی پکار کو خوشی کا ترانہ سمجھ کر محظوظ ہوتے ہوئے چپ چاپ گ زر‬
‫رہے تھے۔ مگر کسی بھی آدِم خاکی ک و پرن دوں کی آہ و بک ا میں پوش یدہ درد محس وس‬
‫نہیں ہو رہا اور پرندوں کی آزادی کی تمنا انہیں پریشان نہیں کر رہی تھی۔‬

‫نعمان‪ ،‬کشادہ پیشانی اور بڑی بڑی آنکھوں ک ا حام ل ب ارعب ش خص ج و احم د آب اد ک ا‬
‫زمیندار تھا اور پورے عالقے میں زمیندار صاحب کے ن ام س ے مش ہور تھ ا‪ ،‬کے چ ار‬
‫بیٹے تھے اور دنیا کی ہر نعمت‪ ،‬سوائے بیٹی ایسی نعمت کے‪ ،‬اسے میسر تھی۔ اس کی‬
‫آرزو تھی کہ اس کی بھی ای ک بی ٹی ہ وتی‪ ،‬ج و اس ے باب ا باب ا کہہ ک ر پک ارتی اور وہ‬
‫”میری بیٹی“‪” ،‬میری پری“ کہہ کر الڈ کرتا۔ اس نے بیٹی ایس ی نعمت کے حص ول کی‬
‫غ رض س ے ک ئی پ یروں فق یروں کے در کھٹکھٹ ائے اور ک ئی درگ اہوں کے س فر میں‬
‫جوتیاں گھسا ڈالیں مگر طویل عرصہ تک مراد مراد ہی رہی اور کوئی بھی دعا ُپر تاثیر‬
‫ثابت نہ ہوئی۔آخر اس کی کوششیں بار آور ہوئیں اور درویش کی دعا س ے آرزو تکمی ل‬
‫ہوئی۔ خداوند کریم نے نعمان کو بیٹی ایسی نعمت سے نوازا۔ وہ جب اپ نی بی ٹی ک و گ ود‬
‫میں اٹھاتا اور اس سے الڈ پیار کرتا تو نہ صرف اپنی قسمت پر نازاں بلکہ خدا کا ش کر‬
‫بھی ادا کرتا۔ اس کے بی ٹے بھی اپ نی بہن س ے بے ح د پی ار ک رتے اور اس ے ذرا س ی‬
‫تکلی ف ہ ونے پ ر بلبال اٹھ تے۔ ننھی ج ان ک ا ن ام آرزو رکھ ا گی ا کی ونکہ وہ وال دین اور‬
‫بھ ائیوں کی آرزو تھی۔ اور آرزو بھی وہ جس کی تکمی ل کے ل یے انہ وں نے م اتھے‬
‫گھیسا ڈالے تھے اور ہر در کھٹکھٹایا تھا۔دس سال کی عم ر ت ک آرزو‪ ،‬س انولی رنگت‪،‬‬
‫معمولی نین نقش کی حامل تندرست لڑکی‪ ،‬کی ہر تمنا پوری کی جاتی رہی‪ ،‬اس کے منہ‬
‫سے نکلنے واال ہر لفظ والدین اور بھائیوں کے لئے حرف آخر ہوتا۔ تعلیم کا سلس لہ گھ ر‬
‫پر ہی جاری رکھا گیا اور استانی صاحب باقاع دہ آرزو کے گھ ر آ ک ر اس ے تعلیم دی تی‬
‫رہی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد کچھ سال گاؤں کے سکول میں بھی اسے بھیجا جاتا رہا۔ مگ ر‬
‫جوں جوں آرزو بڑی ہوتی گئی اس کی دنیا تنگ اور خواہشیں وسیع ہوتی گئیں۔‬

‫دن گزرتے گئے‪ ،‬آرزو کی تمنائیں لفظ تکمیل سے نا آشنا ہونا شروع ہوئیں اور پابن دیاں‬
‫بڑھتی گئیں۔ سولہ کے عدد کو پہنچتے ہی نہ صرف اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کردی ا‬
‫گیا بلکہ گھر کی چوکھٹ سے ب اہر ق دم رکھ نے س ے بھی روک دی ا گی ا۔ جب آرزو نے‬
‫اپنے باپ نعمان سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے ش ہر جان ا‬
‫‪77‬‬
‫چاہتی ہے‪ ،‬تو نعمان‪ ،‬جو خاندانی روایات کا غالم تھا‪ ،‬نے یوں جواب دیتے ہوئے انک ار‬
‫کر دیا‪”:‬بیٹی گھر کی عزت ہوتی ہے۔ عزت در و دیوار کے اندر ہی رہے ت و اچھ ا ہے‪،‬‬
‫اگر دہلیز تک پہنچ جائے تو وہ عزت نہیں رہتی بلکہ ماتھے کا کلنک بن جایا کرتی ہے۔‬
‫اور ماتھے کے کلنک کو ہمیشہ مٹایا جاتا رہا ہے۔“انکار سن کر آرزو خ اموش ہ و گ ئی۔‬
‫آئے دن آرزو کی کوئی نہ کوئی خواہش قت ل ک ر دی ج اتی مگ ر وہ ع زت کی دی وی دم‬
‫سادھے پڑی رہتی ہے۔ اٹھارہ سال کو پہنچتے ہی اس کی شادی کے متعلق چی منگوی اں‬
‫ہونا شروع ہوئیں۔‬

‫آرزو کی منگنی‪ ،‬بغیر اس کی اجازت کے‪ ،‬ہمسائے گ اوں کے زمین دار کے بی ٹے س ے‬


‫کر دی گئی۔ جب آرزو کو خبر ہوئی تو اس کے اندر‪ ،‬حاص ل کی گ ئی تعلیم کے ب اعث‪،‬‬
‫حقوق کے حصول کا جذبہ جاگ اٹھا۔ اس نے ہمت کر کے اپنی ماں سے کہا کہ وہ کسی‬
‫ایسے شخص سے شادی نہیں کر سکتی جسے وہ ج انتی ت ک نہیں۔ اس کی م اں‪ ،‬الچ ار‬
‫عورت جسے گھر میں وہی مقام حاصل تھا جو ش ہروں میں ک ام ک رنے والی ماس ی ک و‬
‫حاصل ہوتا ہے‪ ،‬نے ڈرتے ڈرتے نعمان کے سامنے آرزو کی تمن ا ک ا ت ذکرہ ک ر دی ا۔یہ‬
‫بات سن ک ر نعم ان بھ ڑک اٹھ ا۔ یہ ب ات اس کی خان دانی روای ات اور رس م و رواج کے‬
‫خالف تھی۔ آج تک اس خاندان کی کس ی بھی ل ڑکی نے وال دین کے فیص لے کے خالف‬
‫آواز اٹھانے کی جرات نہ کی تھی بلکہ ہنس کر ب اپ کی خان دانی روای ات کی دی وی کی‬
‫شان کی خاطر بلی چڑھ جایا کرتی تھی۔ آرزو کا اپنے حق کی خاطر آواز اٹھانا خان دانی‬
‫روایات سے بغاوت کے مترادف تھا۔ اور خان دانی روای ات س ے بغ اوت نعم ان کے ہ اں‬
‫جرم عظیم سے کسی صورت بھی کم نہ تھی۔ ب اپ نے قس م کھ ائی کہ آج کے بع د آرزو‬
‫کی شادی کی بات نہیں ہوگی اور وہ تمام عمر بھائیوں کی چوکھٹ پر پ ڑی س ڑتی رہے‬
‫گی۔‬

‫سال گزرتے گئے‪ ،‬نعمان کی موت ہوگئی‪ ،‬تمام بھائیوں کی شادیاں ہوئیں اور وہ ص احب‬
‫اوالد ہو گئے۔ مگر آرزو کی تمنا کا کسی کو خیال تک نہ آیا۔آرزو‪ ،‬خاندانی روای ات کے‬
‫درودیوار میں مقید‪ ،‬بھائیوں کی چوکھٹ پ ر پ ڑی‪ ،‬رس م و رواج کی زنج یر س ے آزادی‬
‫کی تمنا کے لمس کو دل میں سلگائے سڑک کنارے پنجروں میں مقی د پرن دوں کی مان د‪،‬‬
‫مدد مدد پکار رہی ہے‪ ،‬مگر وہاں ایسا کوئی نہیں جو اس کی آہ و پکار سن سکے‪ ،‬کوئی‬
‫نہیں کوئی نہیں۔‬

‫‪78‬‬
‫پاک چین دوستی‪ ،‬عوامی محبت اور قومی ترقی کا سسنگم‬
‫‪03/10/2022‬‬

‫تعارف‪:‬‬

‫جب آدمیت کے خمیر میں انسانیت کی آمیزش ہوئی اور نئے مرکب میں محبت کا عنصر‬
‫شامل کیا گیا‪ ،‬تب دوستی کو جنم نصیب ہوا۔ دوستی کئی اقسام انفرادی‪ ،‬اجتم اعی‪ ،‬ق ومی‬
‫اور بین االقوامی ہیں۔ پاک چین دوس تی وہ دوس تی ہے ج و بین االق وامی س طح پ ر اپ نی‬
‫مثال آپ ہے۔ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے اس وقت ق ریب ائے جب پاکس تان چین‬
‫کو تسلیم کرنے واال پہال اس المی مل ک ق رار پای ا۔ پ اک چین دوس تی کی ابت داء ‪ 21‬م ئی‬
‫‪ 1951‬کو سفارتی تعلقات کی شروعات سے ہوئی۔ مثالی مراسم تب قائم ہوئے جب چی نی‬
‫وزیراعظم چو ین الئی کی کوششوں س ے ‪1955‬ء میں انڈونیش یا کے ش ہر بن ڈونگ میں‬
‫کانفرنس منعقد کی گئی‪ ،‬اور پاکستان کو مدعو کیا گیا ۔‬

‫پاک چین دوستی ‪ ،‬زمانی تناظر میں ‪:‬‬

‫جب ‪ 1949‬ء میں چین وجود میں آیا تو اسے بین االقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش‬
‫کی گئی۔ مگر پاکستان نے مسلم ممالک میں سب س ے قب ل چین ک و تس لیم ک رتے ہ وئے‬
‫پاک چین فضائی معاہدہ کیا اور یہ ث ابت کردی ا کہ چین تنہ ا نہیں ہے۔ ‪1971‬ء میں اق وام‬
‫متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چینی رکنیت کا ب ل پاکس تانی وف د کے س ربراہ محم ود علی‬
‫نے پیش کیا اور اس ے منظ ور بھی کروای ا۔ پاکس تان نے ام ریکہ ک ا اتح ادی ہ ونے کے‬
‫باوجود کبھی امریکہ کی چین مخالف پالیسی کو منظور نہیں کیا اور ہمیش ہ چین دوس تی‬
‫ک و مق دم رکھ ا۔ دوس ری ج انب چین نے ‪1965‬ء‪1971 ،‬ء اور ‪1992‬ء کی پ اک بھ ارت‬
‫جنگوں میں پاکستان کی بھرپور دفاعی امداد کرتے ہ وئے اپ نی دوس تی ک ا ثب وت دی ا۔ ء‬
‫‪ 2005‬کے زلزلے اور ء‪ 2010‬کے س یالب کے دوران چین نے پاکس تان ک و ‪ 247‬ملین‬
‫ڈالرز کی امداد دی۔ چین کے دنیا کو زمینی راستے س ے مالنے کے منص وبے ون بیلٹ‬
‫اینڈ روڈ اینیشیٹیو کے تحت پاکستان اور چین کے درمی ان ‪2013‬ء میں ‪ Cpec‬منص وبے‬
‫کی شروعات ہوئی۔ جس میں زمینی روابط قائم کرنے کے س اتھ س اتھ ص نعتی‪ ،‬تج ارتی‬
‫اور توان ائی می دان میں ترقی اتی منص وبے ش امل ہیں۔ چین نے پاکس تان میں پچیس س ے‬
‫زائد بڑے منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن میں‬

‫‪79‬‬
‫‪China Pakistan Economic Corridor , Heavy Mechanical Complex‬‬
‫‪ Taxila‬اور‬

‫‪ Heavy Electrical Complex Haripur‬شامل ہیں۔ عوامی سطح پر دوستی کو مزید‬


‫گہرا کرنے کے ل یے پاکس تان کی مختل ف یونیورس ٹیز میں کنفیوش س انس ٹی ٹی وٹ اور‬
‫چائنیز ریسرچ سینٹرز جبکہ چین میں پاکستانی ریسرچ سینٹرز اپ نے ف رائض س ر انج ام‬
‫دے رہے ہیں۔ چی نی می ڈیا چین ل ژنہ وا اور پاکس تانی می ڈیا چین ل انڈیپن ڈنٹ نی وز کے‬
‫مشترکہ معاہدہ‪ ،‬جس کے تحت دونوں چینل ایک دوسرے کی خبریں ترجمہ کرکے شائع‬
‫کریں گے ‪،‬سے عوامی سطح پر دوس تی مزی د گہ ری ہ ونے کے اس باب میں اض افہ ک ا‬
‫امکان ہے۔‬

‫پاک چین دوستی‪ ،‬عوامی رائے‪:‬‬

‫چین وہ ملک ہے جس نے پاکستان کے بڑے بھائی کا سا کردار نبھاتے ہوئے نہ ص رف‬


‫معاشی بحران س ے نکل نے میں م دد دی بلکہ توان ائی کے بح ران س ے نکل نے میں بھی‬
‫بھرپور کردار ادا کیا۔ پاک چین دوستی کی بدولت پاکستانی فوج دنیا کی بہترین ف وج کے‬
‫طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے‪ ،‬کیونکہ چی نی ش راکت کی وجہ س ے پاکس تانی دف اعی‬
‫ش عبے میں بہ ترین ہتھی ار ش امل ہ وئے ہیں۔ کرون ا وب ا کے دوران جس ط رح چین نے‬
‫پاکس تان کی م دد کی اور ادوی ات ف راہم کیں وہ اس کی دوس تی ک ا منہ بولت ا ثب وت ہے۔‬
‫پاکستان میں قائم چینی کنفیوشس انسٹی ٹی وٹ کے چی نی اس اتذہ ک ا پاکس تانی ن ام منتخب‬
‫کرنا اور پاکستانی ثقافت کے مط ابق لب اس اس تعمال کرن ا نہ ص رف پاکس تانی طلب ا میں‬
‫مینڈران سیکھنے کے رجحان کو پ روان چڑھ ا رہ ا ہے بلکہ پاکس تانی ع وام کے چی نی‬
‫باشندوں سے تعلقات میں بھی بہتری ہو رہی ہے۔ چی نی اس اتذہ کی بہ ترین حکمت عملی‬
‫یہ ہے کہ وہ پاکستانی مق امی جامع ات س ے م ل ک ر رس م و رواج اور م ذہبی اق دار میں‬
‫مطابقت پیدا ک رنے کی کوش ش ک ر رہے ہیں۔ چی نی یونیورس ٹیوں کی کم فیس اور اعلٰی‬
‫تعلیمی معیار کی وجہ سے پاکستانی لوگ اپ نے بچ وں ک و اچھی تعلیم کے سلس لے چین‬
‫بھیج رہے ہیں۔ اس سے ای ک دوس رے کی ثق افت س مجھنے میں م دد ملے گی اور چین‬
‫س ے ع وامی تعلق ات میں بھی بہ تری آئے گی۔ س ی پی ک منص وبے س ے پاکس تان میں‬
‫روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوں گے جس کی بدولت پاکستانی چی نی لوگ وں کے س اتھ‬
‫مل کر کام کریں گے اور ایک دوسرے سے تعلق ات مس تحکم ک رنے میں م دد ملے گی۔‬
‫چینی ریچ آؤٹ پروگرام کے تحت پاکستانی صحافیوں ک ا چین میں تربی تی پروگ رام میں‬
‫‪80‬‬
‫شرکت کرنا‪ ،‬ایک دوسرے کی ثقافت اور رس م و رواج ک و س مجھ ک ر اس میں مط ابقت‬
‫پیدا کرنے کی طرف بہترین ق دم ہے۔ پاکس تان چین دوس تی ہم الیہ س ے بلن د اور س مندر‬
‫سے گہری ہے‪ ،‬مگر عوامی سطح پر تعلقات میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔‬

‫پاکستان چین عوامی تعلقات‪ ،‬بہتری کی تجاویز‪:‬‬

‫پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں مگر ع وامی تعلق ات میں مزی د بہ تری‬
‫اور ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے سی پیک کو عملی جامہ پہنانا مش کل ہ و ج ائے گ ا۔‬
‫درج ذیل تجاویز عوامی تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔‬

‫‪ )1‬دونوں ممالک کی مشترکہ اقدار کو اجاگر کرنا‬

‫‪ )2‬تعلیمی و ثقافتی وفود کا تبادلہ‬

‫‪ )3‬لوگوں کی انفرادی اور ذاتی سطح پر روابط کا فروغ‬

‫‪ )4‬ایک دوسرے کی روایات اور ثقافت کا احترام‬

‫‪ )5‬طلبا کا باہمی تبادلہ تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ثقافت اور رسم و رواج میں مطابقت پی دا‬
‫ہو سکے۔‬

‫‪ )6‬پاکستان اور چائنا کی اسناد دونوں ممالک میں قابل قبول ہونی چاہیے‬

‫‪ )7‬ووکیشنل ایجوکیشن پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ‪ ،‬تا کہ پاکستانی چینی کمپ نیوں‬
‫میں کام کرنے کے اہل ہو سکیں۔‬

‫‪ )8‬دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی زبان سیکھنے کے لئے کورسز کا اجراء۔‬

‫حواشی‪:‬‬

‫‪ .1‬یونیورسٹی طلباء کی رائے‬

‫‪ .2‬چند یونیورسٹی اساتذہ سے انٹرویو‬

‫‪ .3‬راہ چلتے لوگوں سے بات چیت۔‬

‫‪Google form short research .4‬‬

‫‪81‬‬
‫‪ . 5‬مسلم انسٹیٹیوٹ‪ ،‬پاک چین تعلقات علمی سماجی اور ثقافتی تناظر میں‪ ،‬مراۃ العارفین‪،‬‬
‫مارچ ‪2008‬ء‬

‫‪ .6‬۔ڈاکٹر شائستہ تبسم‪ ،‬بالگ پاک چین دوستی ‪ ،‬حالل اردو۔‬

‫‪ .7‬یوسف سرور میر‪ ،‬پاک چین دوستی کی تاریخ ‪ ،‬روزنامہ پاکستان‪ 15 ،‬اپریل ‪2015‬ء‬

‫‪ .8‬محفوظ النبی خان‪ ،‬پاک چین دوستی کا سفر‪ ،‬ایکسپریس نیوز‪ 20 ،‬جون ‪2021‬ء‬

‫تیسرا دیدار (افسانہ)‬


‫( ‪) 31/10/2022‬‬

‫آسمان کے آنگن میں سفید رنگ کے بادل جن میں گہری س بز مائ ل جھی ل کے پ انی نے‬
‫ہلچل مچا دی تھی تیر رہے تھے۔ پہ اڑ کی چ وٹی ب ادل ک و گدگ دا ک ر مس کرا دی تی اور‬
‫پہاڑوں پر لیٹا سبزہ یہ کھیل دیکھ کر خوش ہوتا ہوا بادلوں کی روانی کو تکتا رہتا۔ ای ک‬
‫جانب پہاڑ خوش تھے کہ ان میں بادل کا سینہ چیرنے کی ط اقت ہے ت و دوس ری ج انب‬
‫بادل اس رمز پر نازاں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں اسے چیر کر مزید وسعت دی نے ک ا ب اعث‬
‫بنتی ہیں۔‬

‫جالل بابا اپنے گھ ر‪ ،‬پہ اڑی ڈھل وان پ ر ہ ونے کی وجہ س ے جس ک ا آنگن ہمس ایہ کے‬
‫چھت کے برابر تھا‪ ،‬کے دائیں کونے میں پڑے پانی کے مٹکے کی طرف ج اتے ہ وئے‬
‫ودیعہ اور ائمہ کی سرگوشیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کے گ أوں میں آج‬
‫جش ن ک ا س ماں تھ ا۔ کی ونکہ وہ اں ای ک ش ادی تھی۔ اور وہ لمحہ آنے واال تھ ا جب دو‬
‫روحوں کو ایک بندھن میں باندھا جانا تھ ا۔ ب ارات آنے والی تھی اور ودیعہ اور آئمہ کی‬
‫سرگوشیوں کا محور وہی بارات تھی۔ شہنائی بجی اور شہنائی کی آواز کے ساتھ ہی ائمہ‬
‫نے خوشی میں چیخ کر کہا‪” ،‬ودیعہ بارات!“ ودیعہ نے ائمہ کا ہاتھ پکڑ ک ر کہ ا‪” ،‬چل و‬
‫ائمہ‪ ،‬دولہا کو دیکھنے چلتے ہیں۔ “‬

‫ائمہ‪ ،‬جس کی عمر محض دس برس تھی‪ ،‬یہ سن کر ح یران ہ و ک ر کھ ڑی ہ و گ ئی اور‬


‫ودیعہ‪ ،‬جو ائمہ سے دو برس بڑی تھی‪ ،‬سے سوال کر دیا۔‬

‫”دیکھی تو بارات جاتی ہے کیونکہ اس میں لوگ ناچ رہے ہوتے ہیں اور شہنائی بج ائی‬
‫جا رہی ہوتی ہے‪ ،‬مگر دولہا کو بھی دیکھا جاتا ہے؟“‬
‫‪82‬‬
‫ودیعہ‪ ،‬آسمان کے آنگن میں اڑتے شاہین‪ ،‬جو پہاڑ کی چوٹی سے بادلوں کی وس عت کی‬
‫جانب محو پرواز تھا‪ ،‬کو دیکھتے ہ وئے ائمہ کے س وال ک ا ج واب نہ دے پ ائی تھی کہ‬
‫جیالل بابا نے پانی پیتے ہوئی پیچھے مڑ کر دیکھا اور پانی کا گھونٹ حلق سے اتارتے‬
‫ہوئے کہا‪” :‬ہاں میری پری‪ ،‬دولہا بھی دیکھ ا جات ا ہے۔ بلکہ دولہ ا ہی دیکھ ا جات ا ہے۔“‬
‫ائمہ بات کو سمجھ نا پائی اور سوال کر دیا‪” ،‬دولہا کیوں دیکھا جاتا ہے؟ نانا ابو“‬

‫مٹی کا گالس مٹکے پر رکھتے ہوئے‪ ،‬جیالل گویا ہوا‪” :‬دیکھ ائمہ‪ ،‬ہر آدمی کے اس کی‬
‫زن دگی میں تین دی دار ک یے ج اتے ہیں اور بعض اوق ات ص رف دو۔ اور ش ادی کے دن‬
‫دولہا کو دیکھنا ان تین دیداروں میں دوسرا دیدار ہے‪ ،‬اس وجہ سے دولہا کو دیکھا جات ا‬
‫ہے۔ “‬

‫تین دیدار‪ ،‬دو دیدار‪ ،‬دوسرا دی دار یہ الف اظ ائمہ کے بچگ انہ ذہن میں س ما نہ س کے اور‬
‫دیر تک اس کے کانوں میں گونجتے رہے اور وہ ان الفاظ کو سمجھنے کی ناکام کوشش‬
‫کرتی رہی۔ کچھ دیر بعد بولی‪” ،‬تین دیدار! صرف تین دیدار ہی کیوں کیے جاتے ہیں؟“‬

‫ودیعہ‪ ،‬جو بارات اور دولہا کو دیکھنے کے لیے بے ت اب کھ ڑی تھی‪ ،‬نے ائمہ ک ا ہ اتھ‬
‫پکڑ کر اسے باہر لے جانا چاہ۔ مگر ائمہ جواب کے انتظار میں وہیں کھڑی رہی۔‬

‫” دیکھ میری بیٹی‪ ،‬ہ ر آدمی کے تین دی دار ک یے ج اتے ہیں اور حقیقی معن وں میں یہی‬
‫تین دیدار آدمی کی زندگی کی کل کتھا ہے۔ پہال دیدار اس وقت کیا جاتا ہے جب بچہ عالم‬
‫روحانی سے عالم خاکی میں بطور مسافر پہال قدم رکھتا ہے۔ میرا مطلب ہے جب وہ پیدا‬
‫ہوتا ہے۔ پھر وہ بچپن‪ ،‬لڑکپن‪ ،‬نوعمر اور جوانی کے پڑأو عبور کرتا ہ وا اس م نزل پ ر‬
‫پہنچتا ہے جہاں اس کا دوسرا دیدار کیا جانا ہوتا ہے۔ اس دی دار کی اہمیت اس وجہ س ے‬
‫ہے کہ یہی وہ دیدار ہے جس کا اختیار کسی حد تک خود فرد کے ہاتھ میں ہوت ا ہے اور‬
‫اس منزل کا نام ہے بیاہ“‬

‫”بیاہ؟“ ائمہ کو لفظ سمجھ میں نہ آیا۔‬

‫”شادی“‬

‫”اور تیسرا دیدار؟“‬

‫جیالل بابا جو اپنے دوسرے دیدار کی یادوں کی وادی میں کھو گ ئے تھے چون ک اٹھے‬
‫اور بتانا شروع کیا‪” ،‬ہاں بیٹی ائمہ تیسرا دیدار۔ تیسرے دیدار کو دیدار مردہ کہتے ہیں۔“‬
‫‪83‬‬
‫ائمہ نے سوال بھری نظروں سے جیالل نانا کو دیکھ ا ت و جیالل باب ا نے س وال بھ انپتے‬
‫ہوئے آئمہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بولتے گئے۔‬

‫”جب بندہ عالم مادی سے عالم برزخ کی جانب کوچ کرت ا ہے‪ ،‬یع نی اس کی م وت واق ع‬
‫ہو جاتی ہے‪ ،‬اس وقت جو دیدار کیا جاتا ہے‪ ،‬اسے کہتے ہیں دیدار م ردہ اور یہی دی دار‬
‫کی سب سے اعلٰی قسم ہے۔“‬

‫”اعلٰی قسم! اعلٰی کیوں؟“ ائمہ نے معصومیت سے پوچھا۔‬

‫ودیعہ جو شہنائی کی آواز کی طرف بار بار متوجہ ہو رہی تھی‪ ،‬دروازے تک گئی مگر‬
‫پھر واپس لوٹ آئی۔ کیونکہ وہ ائمہ کے بغیر نہیں جانا چاہتی تھی۔‬

‫”اس وجہ سے بیٹی کہ اس دیدار پر بندہ اس سفر ک و ختم ک رتے ہ وئے ج و پہلے دی دار‬
‫سے شروع ہوا تھا انتظار گاہ میں پہنچ جاتا ہے۔“ جیالل باب ا نے ب اہر ڈھل وان پ ر رن گ‬
‫برنگے ملبوسات میں ملبوس مرد و زن کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔‬

‫”انتظار گاہ؟ نانا جان انتظار گاہ تو نئے سفر کی ابتدا یا کسی سے مالقات کی خ اطر اس‬
‫کا انتظار کرنے کے لیے ہوتی ہے۔“‬

‫”ہ اں م یری الل‪ ،‬تم ص حیح کہہ رہی ہ و“ جیالل نے کس ی س وچ کے آنگن میں ات رتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫” نانا جان‪ ،‬مرنے کے بعد بندے کو کس کا انتظار ہوتا ہے اور کیسا انتظار ہوت ا ہے اور‬
‫وہ انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟“‬

‫”انتظار!“ جیالل بابا نے آہ بھرتے ہوئے کہا‪” ،‬بیٹی بعد میں بتأوں گا‪ ،‬لمبا واقعہ ہے‪ ،‬تم‬
‫ودیعہ کے ساتھ بارات دیکھنے جأو۔“‬

‫مگر ائمہ چند قدم نانا کی طرف بڑھی اور کہا‪” ،‬نانا جان مجھے ابھی بت ائیں‪ ،‬میں ت و نہ‬
‫جأوں گی۔“‬

‫ائمہ کی ضد دیکھ کر جیالل بابا نے بتانا شروع کیا‪” ،‬میری بی ٹی اس ے انتظ ار ہوت ا ہے‬
‫رب العالمین سے مالقات ک ا۔ جب ہللا نے آدم ک و تخلی ق کی ا ت و اس ے حکم دی ا کے ج و‬
‫چاہے کھائے پیئے مگر ایک شجر کو شجر ممنوعہ ق رار دی تے ہ وئے رب کائن ات نے‬
‫آدم سے کہا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا‪ ،‬ورنہ تم ظالم ٹھہ رو گے۔ آدم نے عزازی ل‬
‫‪84‬‬
‫کے بہکاوے میں آ کر شجر ممنوعہ کا پھل کھایا‪ ،‬تو رب کائنات نے غلطی کی سزا کے‬
‫طور پر آدم کو عالم بقا سے در بدر کرتے ہوئے عالم فانی میں بھیج دیا۔‬

‫عالم فانی انسان کے لیے زنداں یعنی جیل کی مانند ہے۔ اور جیل میں حسرتیں لفظ تکمیل‬
‫سے نا آشنا ہوتیں۔ عالم فانی میں آ کر انسان کے اندر خدا کا دیدار کرنے کی حسرت پیدا‬
‫ہوئی۔ پہلے جب آدم عالم بقا میں تھا باآسانی خدا تعالی کا دیدار کر لیا کرت ا تھ ا۔ مگ ر اب‬
‫خدا کی تخلیق کی گئی جیل یعنی دنیا میں سزا یافتہ تھا‪ ،‬اس وجہ سے دی دار کی حس رت‬
‫تکمیل نہ ہو پائی اور رفتہ رفتہ شوق میں بدلتی گئی اور شوق عشق کا روپ اختی ار ک ر‬
‫گیا۔‬

‫عشق میں انتظار کا وقفہ بہت طویل محسوس ہوت ا ہے۔ جب ت ک س زا ختم نہیں ہ وتی وہ‬
‫انتظار گاہ میں نہیں جا سکتا۔ اور انتظار گ اہ میں جب ت ک نہیں ج ائے گ ا اس کے ل یے‬
‫خدا کا دیدار کرنا ممکن نہیں۔ انسان زن دگی کی ص ورت میں س زا ک اٹ رہ ا ہے اور تب‬
‫سے اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب سزا کا آخری دیدار کی ا ج ائے اور وہ ع الم ب رزخ‪،‬‬
‫میرا مطلب ہے انتظار گاہ‪ ،‬میں پہنچے۔ یہ انتظار بہت طویل ہے۔“ یہ کہتے ہوئے جیالل‬
‫کی آنکھیں بھر آئیں۔‬

‫باہر شہنائی بجی‪ ،‬گوال پھٹا جھومر سے گھنگھرو چھنکے۔ ودیعہ جو اب تک بارات اور‬
‫دولہا دیکھنے کے انتظار میں بیٹھی تھی‪ ،‬مزید انتظار نہ کر پائی اور ائمہ کو کھینچ ک ر‬
‫باہر لے گ ئی۔ آنگن میں دی ر ت ک الف اظ گونج تے رہے‪ ،‬یہ انتظ ار بہت طوی ل ہے! بہت‬
‫طویل! طویل!‬

‫مرزا اطہر بیگ‪ :‬تعارفی مطالعہ‬


‫( ‪)15/11/2022‬‬

‫مرزا اطہر بیگ دنیا سے التعلقی انداز میں تعلق رکھنے واال ایک ایس ا قلم ک ار ہے ج و‬
‫”دھند میں راستہ“ پر چلتے ہ وئے س یر کے ل یے ”غالم ب اغ“ میں داخ ل ہ وا۔ س یر کے‬
‫دوران ”دوسرا آسمان“ تکتے ہوئے ”صفر سے ایک تک“ کے نظ ریہ پ ر غ ور و فک ر‬
‫کرتا ہوا ”گہرے پانی“ کا رخ کیا۔ راستے میں اس کی نظر ”دلدل“ پر پڑتی ہے تو اسے‬
‫اچانک کچھ ”روگ“ یاد آ جاتے ہیں۔ ”روگ“ کے ”حصار“ سے نکلنے کی کوشش میں‬
‫اس کی واقفیت ”حسن کی صورت حال“ سے ہوتی ہے۔ کہیں لوگوں کے ہج وم ک و دیکھ‬

‫‪85‬‬
‫کر وہ ”بے وزن لوگ“ کا نوحہ کہنے لگتا ہے تو کبھی ”خفیف مخفی کی خ واب بی تی“‬
‫سنانے لگ جاتا ہے۔‬

‫مرزا اطہر بیگ الہور سے ‪ 35‬کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ش رقپور ن امی قص بے میں‬
‫مارچ ‪ 1950‬ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا طاہر بیگ تھ ا۔ ان کے وال دین ک ا‬
‫تعلق شعبہ تدریس سے تھ ا اور وہ دون وں س کول میں پڑھ اتے تھے۔ ان کے وال د م رزا‬
‫طاہر بیگ تصوف اور مذہب کے مض مون پ ر گہ ری گ رفت رکھ تے تھے۔ م رزا ط اہر‬
‫بیگ خود صاحب کتاب بھی تھے۔ والدین ک ا تعل ق ش عبہ ت دریس س ے اور وال د ص احب‬
‫کتاب بھی۔ اس سے صاف طور پر بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے گھر علمی و ادبی‬
‫ماحول تھا اور اسی ماحول ہی کا اثر تھا کہ مرزا اطہر بی گ کی کت ابوں کی وادی س ے‬
‫بچپن میں ہی آشنائی ہو گئی۔ ابتدائی تعلیم شرقپور سے حاصل کی۔ اور میٹرک کا امتحان‬
‫پاس کرنے کے بعد مرزا اطہر بیگ الہور چلے آئے۔ اور انٹرمیڈیٹ کے لیے گ ورنمنٹ‬
‫ک الج الہ ور میں داخ ل ہ وئے۔ انٹرمی ڈیٹ کے بع د آپ نے بی ایس س ی (‪ )BSc‬کی س ند‬
‫حاص ل کی۔ (‪ )BSc‬کے بع د آپ آرٹس کے مض امین کی ط رف جھکے اور پنج اب‬
‫یونیورسٹی میں فلسفہ میں داخل لیا۔ وہاں فلسفہ میں ماس ٹرز ک رنے کے بع د آپ ‪1979‬ء‬
‫میں گورنمنٹ ک الج الہ ور (موج ودہ یونیورس ٹی) س ے منس لک ہ و گ ئے۔ ‪1999‬ء س ے‬
‫‪2010‬ء تک گورنمنٹ ک الج یونیورس ٹی الہ ور میں ش عبہ فلس فہ کے س ربراہ بھی رہے۔‬
‫اپنے گھر کے علمی و ادبی ماحول کے متعلق ایک انٹرویو میں انہوں نے یوں بیان دیا۔‬

‫”میری والدہ بھی ایک سکول میں پڑھاتی تھیں‪ ،‬پس ہمارا گھر کتابوں سے بھرا ہ وا تھ ا۔‬
‫گھر میں ہر طرف ہر طرح کے ادبی رسالے بکھرے رہ تے تھے۔ گرمی وں کی چھ ٹیوں‬
‫میں میں کتابوں کے اس ڈھیر میں گھس جاتا تھا۔ اب اس ساری صورت حال کو اس امر‬
‫سے جوڑیے کہ میرے والد ایک صوفی مزاج آدمی تھے۔ یہ مزاج بنیادی طور پ ر ب ڑی‬
‫دعائیں دینے واال اور انسانی معامالت کو احساس جرم کے بغیر دیکھنے واال ہے۔“‬

‫مرزا اطہر بیگ سائنس کے طالب علم تھے اور اس س ے بھی واض ح ہے کہ انہ وں نے‬
‫گریجویشن سائنس یعنی ‪ BSc‬میں کی۔ مگر اس کے بعد آرٹس کی جانب چلے گ ئے اور‬
‫فلسفہ میں ماسٹرز کیا۔ ای ک ان ٹرویو میں ان س ے س وال کی ا گی ا کہ آپ س ائنس پڑھ تے‬
‫پڑھتے فلسفے کے س نجیدہ ط الب علم کیس ے بن گ ئے؟ ت و م رزا اطہ ر بی گ نے ی وں‬
‫جواب دیا۔‬

‫‪86‬‬
‫”جب میں نے گورنمنٹ کالج الہ ور میں پ ری انجینئرن گ پڑھ نی ش روع کی ت و مجھے‬
‫محسوس ہوا کہ میرے ہم جماعت انجنیئرن گ س ے بہت س طحی ان داز س ے وابس تہ ہیں۔‬
‫انہیں اس حیرت سے کوئی واسطہ نہیں تھا جو ہمیں اشیا کی م اہیت پ ر غ ور ک رنے پ ر‬
‫ابھارتا ہے۔ وہ مختلف مضامین اس ل یے پ ڑھ رہے تھے ت اکہ اچھے گری ڈز حاص ل ک ر‬
‫سکیں اور اساتذہ بھی طلبا کے اندر کسی قسم کے حساس حیرانی کو جگانے کی کوشش‬
‫نہیں کر رہے تھے۔ انہی دنوں (امریکی فلس فی اور نفس یات دان) ولیم جیم ز (‪William‬‬
‫‪ )James‬کی کتاب“ مذہبی تجربے کا تنوع‪ :‬انسان فطرت ک ا ای ک مط العہ ”کس ی ط رح‬
‫میرے ہاتھ آ گئی۔ انگریزی زبان میں فلسفیانہ تحریر سے یہ میرا تع ارف تھ ا۔ اس کت اب‬
‫کے ساتھ ہی میں نصاب کی مجوزہ کتابوں سے دور ہو گیا۔“‬

‫مرزا اطہر بیگ کو حیرت میں بہت زیادہ دلچسپی ہے اور وہ اپنی تصانیف میں بھی اس‬
‫عنصر کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اس کے متعلق وہ یوں بیان دیتے ہیں۔‬

‫”‪I am in a state of wonder, certainty doesn’t convince me‬۔“‬

‫اسی طرح کا سوال ایک انٹرویور اختر مرزا نے بھی مرزا اطہر بیگ سے ایک انٹرویو‬
‫کے دوران کیا۔ مرزا اطہر بیگ نے یوں جواب دیا۔‬

‫”میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں! اور یہ کوئی استعاراتی بیان نہیں ہے۔ یہ حرف ًا درس ت‬
‫ہے ‪ :‬میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں۔ میں نہیں جانت ا کہ یہ کی ا ہ و رہ ا ہے۔ ارس طو نے‬
‫کہا تھا کہ فلسفہ حیرت سے شروع ہوتا ہے اور م یرا مانن ا ہے کہ یہ ختم بھی ح یرت پہ‬
‫ہوتا ہے۔ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ مجھے کسی جگہ قرار نہیں۔ میں خود کو کس ی ای ک‬
‫جگہ روک نہیں سکتا۔ میں یقینیت کے کسی خی ال س ے خ ود ک و مطمئن نہیں ک ر س کتا۔‬
‫میں ایسا کروں بھی کیوں؟ یقینیت مجھے مائل نہیں کر پاتی۔ ح یرت کے بغ یر کچھ نہیں۔‬
‫کہ نے ک ا مطلب یہ ہے کہ آپ علم‪ ،‬ادب‪ ،‬فلس فے کے س فر میں آگے ب ڑھ نہیں س کتے۔‬
‫حیرت ہر لمحے میں ہے۔ اگر کوئی فنکار یا کوئی سائنسدان‪ ،‬حیران ہونے کی صالحیت‬
‫نہیں رکھتا تو وہ تخلیقی نہیں ہو سکتا۔ وہ چیزوں کو ج وڑ س کتا ہے۔ انہیں س مجھ س کتا‬
‫ہے۔ لیکن یہ حیرت ہی ہے جو آپ کو نامعلوم میں گھس نے دی تی ہے۔ اور وہ اں آپ پھ ر‬
‫سے حیرت میں ہوتے ہیں۔“‬

‫مرزا اطہر بیگ کے ہاں ناول کے روایتی طریقوں سے انحراف ملتا ہے اور وہ روای تی‬
‫کلیوں کو توڑتے ہوئے ن ئے ن ئے تجرب ات ک رتے ہیں اور تحری ر ک و ن ئے ڈھن گ اور‬
‫‪87‬‬
‫کلیوں سے متعارف بھی کرواتے ہیں۔ مگر اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ وہ جان ب وجھ‬
‫کر معاشرے میں قائم کلیوں کو ت وڑنے کی کوش ش نہیں ک رتے۔ بلکہ یہ ک ام تحری ر کی‬
‫نوعیت خود سر انجام دیتی ہے اور اپنے لیے ایک نئی ڈھنگ ک و متع ارف ک رواتی ہے۔‬
‫اپنے طرز ناول نگاری سے متعلق مرزا اطہر بیگ یوں بیان دیتے ہیں۔‬

‫”میں یہ عزم لے کر نہیں لکھتا کہ مجھے کل یے ت وڑنے ہیں۔ ج و بھی موض وع م یرے‬
‫سامنے آتا ہے‪ ،‬وہ خود اپنی ساخت اور ہیئت کا انتخاب کرتا ہے۔“‬

‫مرزا اطہر بیگ ناول میں مشاہدہ اور علم سے زیادہ تجربات کو اہمیت دی تے ہیں اور ان‬
‫کے نزدیک ایسا کوئی ناول ادبی ناول نہیں بن سکتا جس میں تجربات کا لمس موج ود نہ‬
‫ہو۔‬

‫”اگر ناول میں تجربات نہیں ہیں۔ تو یہ پاپولر ناول (‪ )Papular Novel‬تو ہ و س کتا ہے‬
‫مگر ادبی ناول نہیں ہو گا۔ ادبی ناول میں کسی نہ کسی سطح پر تجربہ ضرور ہوت ا ہے۔‬
‫یہ حیرت انگیز صنف ادب ہے۔ یہاں امکانات المحدود ہیں۔ اس میں کمال ہے کہ تغیر کو‬
‫گرفت میں النے کے لیے خود تغیر سے گزرتا ہے۔ “‬

‫مرزا اطہر بیگ انسان کی داخلی کشمکش‪ ،‬جذبات اور ان کے انسانی زن دگی پ ر اث رات‬
‫کو سب سے زیادہ اہمیت دی تے ہیں۔ ان کے ہ اں خ وف‪ ،‬ح یرت اور پوش یدہ چ یزوں ک و‬
‫ظاہر کرنے کی جستجو بنیادی ہتھیار کا کام دیتے ہیں۔ وہ ادب کے لکھاریوں سے خائف‬
‫بھی نظر آتے ہیں کہ لکھاری خارجی عوامل کو تو بیان کرتے ہیں مگر داخل ک و ک وئی‬
‫اہمیت نہیں دیتے۔ ادب میں چن د ن اول داخلی مع امالت ک و بھرپ ور اہمیت دی تے ہیں مثًال‬
‫”امرأو جان ادا“ میں مرزا ہ ادی رس واء نے فلس فہ الش عور ج و کہ نفس یاتی ن وعیت ک ا‬
‫مسئلہ ہے اور فلسفہ تربیت کو مال کر ایک ایسا جہاں تخلیق کیا ہے ج و ان درونی جن گ‬
‫کی لفظی تصویریں پیش کرتا ہے۔ اور دوسری طرف قرة العین حی در ت اریخ اور تہ ذیب‬
‫س ے دوہ ری منظ ر نگ اری‪ ،‬ان درونی اور ب یرونی‪” ،‬آگ ک ا دری ا“ کے روپ میں پیش‬
‫کرتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمارے ہاں اندرونی معامالت کو زیادہ اہم خیال نہیں کی ا‬
‫جاتا۔ اس کے متعلق مرزا اطہر بیگ یوں بیان دیتے ہیں ‪:‬‬

‫”بیرونی دنیا میں ناول کے می دان میں بہت تجرب ات ہ وئے۔ مگ ر ہم اردو ن اول کی ب ات‬
‫کریں تو میں کہوں گا کہ ہمارے ہاں فوٹو گرافکس تو بنائے۔ گئے‪ ،‬مگر ایکس ری ز نہیں‬
‫بنائے۔“‬
‫‪88‬‬
‫مرزا اطہر بیگ کے نزدیک ناول نگاری متوازی دنی ا میں زن دہ رہ نے ک ا ن ام ہے۔ جب‬
‫دنیا میں کوئی ح ادثہ‪ /‬واقعہ رونم ا ہوت ا ہے ت و اس کی بازگش ت ن اول کی دنی ا میں بھی‬
‫سنی جا سکتی۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ ہر ب ڑے واقعہ کے بع د ک وئی ن اول اس‬
‫تناظر کو پیش کرتا ہوا سامنے آتا ہے۔‬

‫المختصر مرزا اطہر بیگ کے نزدیک ناول نام ہے تنہائی میں س فر ک رنے ک ا۔ اور جب‬
‫ناول مکمل ہو جاتا ہے تو وہ آباد دنیا کا حصہ بنتے ہوئے لکھاری کو پھ ر تنہ ا ک ر دیت ا‬
‫ہے اور لکھاری کا وہ جہاں بھی ختم ہو جاتا ہے جو ناول کی تخلی ق س ے قب ل لکھ اری‬
‫کی تخیلی دنیا میں آباد تھا۔‬

‫سڑک (افسانہ)‬
‫‪16/11/2022‬‬

‫نرم و مالئم اور آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہوئے‪ ،‬یوذاسیف خیال کی تنہ ائی میں مح و تھ ا۔‬
‫آفس کا دروازہ ہلکا سا کھوال ہوا تھا جہاں سے اس کا چہرہ جو بالکل سپاٹ تھا دیکھا جا‬
‫سکتا تھا۔ وہ خیال ہی خیال میں اپنے بچپن کی حسین یادوں میں اس قدر مستغرق ہ و گی ا‬
‫کہ اسے آفس کے ممبران کی بے معنی گفتگو بالکل سنائی نہ دے رہی تھی۔ باہر س ورج‬
‫روشن تھا جس کی روشنی کھڑکی کے ص اف و ش فاف شیش ے س ے ان در جھان ک رہی‬
‫تھی۔ آسمان بادلوں کی کمی محسوس کر رہا تھ ا اور چن د ہلکے نیلے رن گ کے پرن دے‬
‫آسمان کی وسعت میں کسی کی تالش میں سرگرداں تھے۔ باہر گلی سے خراماں خراماں‬
‫گزرتے لوگ ایک دوسرے کو اجنبیوں کی طرح گھور رہے تھے۔ یوذاسیف کو ب اہر کی‬
‫دنیا سے کچھ واسطہ نہ تھا‪ ،‬وہ تو بس اپنے خیاالت کی گہرائی سے چند ی ادیں س میٹنے‬
‫کی کوشش کر رہا تھا۔‬

‫اچانک ایک یاد اس کے ذہن کی گہرائی سے اٹھی اور دل کو روشن کرتی ہوئی چہ رے‬
‫پر مسکراہٹ کے لمس کے س اتھ پھی ل گ ئی۔ وہ اچان ک اس درخت کے نیچے پہنچ گی ا‬
‫جہاں اس کے استاد ایک ہاتھ میں چاک اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹی سی کتاب لیے سیاہ‬
‫تختے پر کچھ لکھ رہے تھے‪ ،‬اور وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت ہاتھوں میں قاعدہ پک ڑے‬
‫‪89‬‬
‫اس تاد ک و دیکھ رہ ا تھ ا۔ اس تاد لکھ تے ج ا رہے ہیں‪ ،‬لکھ تے ج ا رہے ہیں اور س اتھ‬
‫س مجھاتے بھی ج ا رہے ہیں کہ تین اور س ات دس ہ وتے ہیں اور پ انچ اور دو س ات۔ وہ‬
‫یادوں میں کھویا رہا‪ ،‬اور یادوں ہی یادوں میں اپنے آپ کو نوج وان بن تے ہ وئے دیکھت ا‬
‫رہا۔ اس تاد پڑھ ا رہے ہیں‪ ،‬زن دگی کے ُگ ر س یکھا رہے ہیں اور وہ اور اس کے س اتھی‬
‫بڑے ہو رہے ہیں۔ اچانک بجنے والی فون کی گھنٹی نے اسے چونکا دیا جس کی بدولت‬
‫یادوں کا تالطم تھم سا گیا۔ اور اس نے اپنے آپ ک و ای ک ن رم و مالئم کرس ی پ ر بیٹھے‬
‫اور رسیور کو کان سے لگایا ہوا پایا۔ دوسری ط رف س ے آواز آئی‪” ،‬س ر ای ک معم ر‬
‫آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ اس نے اپنے ہاتھ سے بالوں کو سنوارا اور کہ ا‪ ” ،‬ان در‬
‫آنے دیں “ اور ریسیور رکھ دیا۔ کچھ لمحات بع د معم ر آدمی اس کم رے میں داخ ل ہ وا‬
‫جس کا اندرونی رنگ ہلکا پیال اور دروازے کے باہر دو گلدان پڑے ہوئے تھے۔ جیسے‬
‫ہی وہ آدمی کمرے میں داخل ہ وا ت و یوذاس یف ک و جھٹک ا س ا لگ ا اور حل ق س ے الف اظ‬
‫اچانک پھوٹ پڑے ‪” ،‬استاد محترم آپ؟“ اس کے الفاظ سے معلوم ہو رہا تھ ا کہ جیس ے‬
‫اسے یقین نہ آ رہا ہو۔‬

‫انہیں بٹھایا گیا اور خاطر تواضع کی گ ئی۔ دوراِن گفتگ و یوذاس یف نے ادب س ے س وال‬
‫کیا‪ ” ،‬جناب آج کل آپ کہاں رہتے ہیں اور کس ادارہ میں پڑھاتے ہیں؟“ اس تاد نے نگ اہ‬
‫کو بلند کیا اور اپنے سابق شاگرد ‪ ،‬جو آج افس ر کے روپ میں قیم تی لب اس میں ملب وس‬
‫اس کے سامنے والی نشست پر بیٹھا ہوا تھ ا ‪ ،‬کے چہ رے پ ر نظ ر دوڑائی‪ ،‬اور ج واب‬
‫دیا‪ُ ” ,‬اسی گاؤں میں رہتا ہوں اور ُاس ی درخت کے نیچے بچ وں ک و پڑھات ا ہ وں جہ اں‬
‫سے میرے سامنے بیٹھنے والے افسر کا گہرا اور سنہرا تعلق ہے۔“‬

‫یہ الفاظ جب یوذاسیف کی سماعت سے ٹکرائے ت و وہ پھ ر خی الوں کی گہ رائی میں چال‬


‫گیا۔ مگر اب کے بار خیال س ے ابھ رنے والی تص ویر اس کے س نہری بچپن کی ی ادوں‬
‫کی نہ تھی بلکہ ایک سڑک کی تھی‪ ،‬ایسی سڑک جو ہر راہرو کو اس کی منزِل مقص ود‬
‫ت ک پہنچ اتی ہے مگ ر خ ود وہیں پ ڑی رہ تی ہے جہ اں پہلے تھی‪ ،‬مگ ر اس پ ر س ے‬
‫گزرنے والے اپنی خیالی دنیا کو حقیقت میں حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر اس سڑک کا‬
‫وجود ہی نہ ہو تو بھٹکنے والے مسافروں کو ان کی تخیالتی دنیا کو حقیقت میں ڈھ النے‬
‫کا ُگ ر کون سکھائے اور وہ راہ جو منزل ک و حاص ل ک رنے کی عظیم ش اہراہ ہے ک ون‬
‫دیکھائے؟ کون دیکھائے؟ کون؟‬

‫‪90‬‬
‫الہوری بلیاں‬
‫(‪)28/11/2022‬‬

‫الہور ایک ایسی الکھ نگری ہے جو جکڑنے کی صالحیت ( جادو کہیں یا حس ن) س ے‬


‫لبریز ہے۔ جو شخص اس نگری کا ایک بار مس افر ٹھہ را پھ ر اس کی بھ ل بھلی وں میں‬
‫ایسا کھویا کہ واپسی کا راستہ چاہ کر بھی تالش نہ سکا۔ الہور میں ٹھہرا متالش ی م نزل‬
‫اندرونی کشمکش‪ ،‬جس کی وجہ ماضی کی کشادہ یادوں کا تنگ گلیوں سے تص ادم ہے‪،‬‬
‫میں مبتال ہوتا ہے۔‬

‫تعلیم کے سلسلے میں گاؤں سے الہور ہجرت کی اور ہاس ٹل میں مقیم ہ وئے۔ گ اؤں میں‬
‫کھال ماحول اور وسیع درودیوار‪ ،‬جن میں درخت موس موں کے تغ یر ک ا پتہ دی تے تھے‬
‫اور پرندے ہر موسم کا ترانہ سنایا کرتے تھے‪ ،‬چھوڑ الہ ور آئے تھے۔ الہ ور کی تن گ‬
‫گلیاں کیسے راس آ سکتی تھیں۔ ہاسٹل کی گھٹن اور درودیوار کی بوجھل خاموشی س ے‬
‫دل گھبراتا اور گاؤں کا ماحول‪ ،‬پرندوں کی بولیاں‪ ،‬بلیوں کا رات کے تیسرے پہر ای ک‬
‫دوسرے سے لڑنا‪ ،‬گیدڑوں کا کماد کے کھیت سے طرح مصرعہ دینا‪ ،‬کتوں ک ا ج وابی‬
‫دو غزلے سنانا اور مرغے کا وقت سے قبل اذان دے کر محفِل مشاعرہ برخاست ک رنے‬
‫کی کوشش کرنا شدت سے یاد آتا۔ اور الشعور میں ان کی بازگشت گونجتی۔‬

‫یاد کی شدت سے دو طرح سے نمٹا جا سکتا تھا۔ یا تو یاد کو محو کر دیا جائے ی ا ک وئی‬
‫متبادل راہ تالش لی جائے۔ یاد کو محو تو نہ کر سکا اور نہ ہی مح و کی ج ا س کتی تھی‬
‫کیونکہ زندگی کا بیس سالہ عرصہ گاؤں کی گلیوں میں گھومتے گزرا تھا اور بیس س ال‬
‫کی یادوں کو چند لمحوں میں جال کر راکھ کر دینا کسی صورت میں ممکن نہ تھا۔‬

‫دوسرا رستہ چنتے ہوئے‪ ،‬دل بہالنے نزدیکی پارک پہنچ جایا کرتا ہ وں۔ یہ اں اک ثر تین‬
‫ط رح کے پرن دے اور ای ک ج انور دیکھ ائی دی تے ہیں۔ پرن دوں میں ک وا وہ بھی ک اال‪،‬‬
‫چیل ‪ ،‬چڑیا‪ ،‬اور جانور ہے بلی۔ چیل اور کوے ہ ر وقت دکھ ائی دی تے ہیں مگ ر چڑی ا‬
‫شام سورج ڈھلنے سے ذرا قبل‪ ،‬جب وہ سرخ مائل ہو جات ا ہے‪ ،‬ت و مغ رب س ے مش رق‬
‫کی جانب اڑتی دکھ ائی دی تی ہیں۔ اور ص بح جب س ورج طل وع ہ و رہ ا ہوت ا ہے ان کی‬
‫چہچہ اہٹ ک انوں میں رس گھول تی ہے۔ کبھی کبھ ار بھ یڑ اور میمن ا جن کی گ ردن میں‬

‫‪91‬‬
‫رس ی ہ وتی ہے‪ ،‬اپ نے خاون د کے س اتھ نظ ر آتے ہیں اور ہفتہ میں ای ک آدھ دن ای ک‬
‫لیورے کتا‪ ،‬جسے مالک سیر کروا رہا ہوتا ہے‪ ،‬دیکھا جاتا ہے۔‬

‫پطرس بخاری نے کہا تھا الہور میں طلباء کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مگر میری جدی د‬
‫تحقیق کے مطابق الہور میں آلودگی کے بعد س ب س ے زی ادہ بلی اں پ ائی ج اتی ہیں۔ ہ ر‬
‫گلی‪ ،‬در‪ ،‬دیوار ‪ ،‬س ڑک اور پ ارک میں یہ نس ل س وتی‪ ،‬خ راٹے لی تی‪ ،‬ج اگتی‪ ،‬اچھل تی‬
‫بھاگتی نظر آتی ہے اور ہوٹل مالکان کن انکھیوں سے انہیں گھورتے۔ یہ منظر دیکھ ک ر‬
‫اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں گدھوں کی طرح انہیں بھی ہوٹل مالکان کی نظ ر نہ ل گ ج ائے۔‬
‫الہور میں بلیوں کی اتنی کثرت ہے کہ وہ روایات کو بدل کر نیا مفروضہ پیش ک ر چکی‬
‫ہیں۔ بلی وں کے مش ترکہ عالم یے میں یہ س امنے آی ا ہے کہ جب الہ وری ان ک ا راس تہ‬
‫کاٹیں‪ ،‬انہیں سفر ترک کر دینا چاہیے۔ کیونکہ الہوریوں کا راستہ کاٹنا بلی وں کی زن دگی‬
‫میں تالطم النے کا باعث ہے۔‬

‫عمومًا بلیوں میں تین طرح کے عوامل پ ائے ج اتے ہیں۔ کھ انے کی تالش‪ ،‬کھی ل ک ود‬
‫اور خیال رکھے جانے کی تمنا۔ مگر الہ وری بلی اں عجب بلکہ غض ب بلی اں ہیں۔ ایس ی‬
‫بلیاں میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھیں۔ پیچھے بھ اگنے وال وں کے آگے بھ اگتی ہیں اور‬
‫آگے بھاگنے والوں کے پیچھے۔‬

‫الہوری بلیاں ای ک لح اظ س ے بہت خ وش قس مت ہیں۔ اور اس خ وش قس متی میں دیگ ر‬


‫ملکی بلیاں تو درکنار آدم زاد بھی ثانی نہیں۔ سرد رات میں انہیں سونے کے لیے س ڑک‬
‫کنارے خاموش کھڑے رکشے کی سیٹیں میسر ہوتی ہیں‪ ،‬جس میں بغ یر کس ی فک ر کے‬
‫سوتی ہیں اور انسان خواہش کے آالؤ لیے فٹ پاتھ پر۔‬

‫الہوری بلیوں کے رنگوں میں بہت تنوع ہے۔ کالی‪ ،‬بھوری‪ ،‬سفید‪ ،‬مٹیالی‪ ،‬سرمئی‪ ،‬ہلکی‬
‫پیلی اور سبز مائل بلیاں ہ ر گلی ک وچے میں دیکھی ج ا س کتی ہیں۔ رنگ وں کے اختالط‬
‫سے اور بھی کئی رنگ جھلکتے نظر آتے ہیں۔ جلد کے رنگوں کے ساتھ س اتھ آنکھ وں‬
‫کی رنگت بھی الجواب ہے۔ اس میں ہلکی سبز مائل آنکھیں‪ ،‬سرمئی‪ ،‬کالی‪ ،‬ہلکی پیلی‪،‬‬
‫سرخ‪ ،‬سنہری چمکدار اور ہلکی نیلی آنکھ وں والی بلی اں ادھ ر ادھ ر بھ اگتی مل تی ہیں۔‬
‫ایک روز پارک گیا‪ ،‬شام کا وقت‪ ،‬فضا میں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ای ک ہلکی ک الی بلی‪،‬‬
‫جس پر بھورے رنگ کا شبہ ہوتا تھا‪ ،‬درخت کے نیچے بیٹھی ہڈی چب ا رہی تھی۔ اس ے‬
‫دیکھتے ہی میں اس جانب چل دی ا۔ ہ ڈی چب اتے ہ وئے اس نے مجھے ایس ے گھ ور ک ر‬
‫‪92‬‬
‫دیکھا جیسے میں اس سے ہڈی چھیننے آ رہا ہوں۔ اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ وہ ہڈی‬
‫لے کر بھاگ گئی۔ مگر بھاگنے سے قبل ” غورررر ( ‪ “)purr‬کی آواز سے مجھے کچھ‬
‫کہہ بھی گئی۔ شاید یہی کہا تھا۔ ”آج کل تم بلیوں کو بہت تاڑ رہے ہو باز آجاؤ“ اس س ے‬
‫میں نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو وہ بلی نہیں بال تھا۔‬

‫ایک رات ‪ ،‬نو کا عمل ہوگا‪ ،‬چہل قدمی کی غرض سے نہرو پارک گیا۔ وہاں ای ک س فید‬
‫رنگ کی بلی کو پودے کی اوٹ میں بیٹھے دیکھا۔ اس کی سرخ مخمور آنکھوں نے ایسا‬
‫متاثر کیا کہ اس کے پاس جا کر تھپکی دینے کو دل چاہ ا۔ ق ریب گی ا ت و اس نے دو ق دم‬
‫پیچھے ہٹ ک ر ات نی خوفن اک آواز نک الی کہ میں ف ورًا دور ہٹ گی ا۔ س ائیکالوجی کے‬
‫مطابق جب بلی پیچھے ہٹ کر گھورتی ہے تو وہ حملہ کرنے کی تی اری میں ہ وتی ہے۔‬
‫مگر اس بلی کی خوفناک آواز نکالنے سے شک گزرا کے اس پر کسی پیرا نارم ل چ یز‬
‫کا اثر ہے۔ جسے پیرا نارمل سائیکالوجی میں ‪ anpsi‬کہا جاتا ہے۔‬

‫نہرو پارک میں ایک روز آوارہ خرامی کر رہ ا تھ ا۔ س ڑک پ ر س ے گاڑی اں گ زر رہی‬


‫تھیں اور گاڑیوں سے پ رے عم ارتیں پیلی اور س فید روش نی تلے خ اموش کھ ڑی تھیں۔‬
‫پیلی اور سفید روشنی کے امتزاج ک و دیکھ ک ر ی وں محس وس ہ و رہ ا تھ ا کہ کس ی کے‬
‫انتظار میں چمکتا سفید بلب‪ ،‬ہج ر کی لم بی ش ب کی ب دولت پیال پ ڑ گی ا ہ و۔ وہ اں ای ک‬
‫کھم بے کے درمی ان پ ڑے ک پڑے پ ر س فید دم والی ک الی بلی‪ ،‬س ردی س ے بچ نے کی‬
‫کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اسے دو تین مرتبہ آواز دی اور چھونا چاہ۔ کان ہال‪ ،‬چہرہ‬
‫پاؤں سے میری جانب اٹھا‪ ،‬نظر بھر دیکھنے کے بع د می اؤوں کہ تی ہ وئی‪ ،‬س ڑک کے‬
‫کنارے دور بھاگتی‪ ،‬فضا میں چھائی کہر میں چھپ گئی۔ بلی میاؤوں اس وقت کہتی ہے‪،‬‬
‫جب اسے انسانوں سے بات کرنا ہوتی ہے۔ میاؤوں کی سختی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ‬
‫کچھ الٹا سیدھا کہہ گئی ہے۔ بعد میں سمجھ آیا کہ اس نے کہا تھ ا‪ ” ،‬لعن تی لون ڈا مجھے‬
‫چھیڑتا ہے“۔‬

‫ایک روز میں اور میرا روم میٹ سیماب نہرو پارک سے پ انی بھ ر ک ر ب اہر نک ل رہے‬
‫تھے۔ ایک بھورے رنگے کا بلی کا بچہ راستہ کاٹتے ہوئے درخت پر چ ڑھ گی ا۔ راویت‬
‫کے مطابق مطلب تھا کہ سفر ت رک ک ر دی ا ج ائے۔ مگ ر ہم نے س وچا کہ بلی ہ وتی ت و‬
‫روایت کے متعلق سوچا جا سکتا تھا۔ مگر وہ تو بلونگڑا تھا۔ اور بلونگڑا لون ڈوں ک ا کی ا‬
‫بگاڑ سکتا ہے۔ سو ہم نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ دو قدم چلے‬
‫ہوں گے کہ اچان ک کس ی چ یز کے گ رنے کی آواز آئی۔ پیچھے م ڑ دیکھ ا ت و بل ونگڑا‬
‫‪93‬‬
‫درخت سے گرا تھا۔ بلیوں کا مشترکہ اعالمیہ ذہن میں گردش کرنے لگا۔ مگر تعجب اس‬
‫بات پر ہے کہ ہم دونوں الہوری نہ تھے۔‬

‫اور بھی کئی قصے بلکہ معرکے ہیں جنہیں پھ ر کس ی وقت کے ل یے اٹھ ا رکھ تے ہیں۔‬
‫البتہ اتنا ضرور کہنا چاہوں گا‪ ،‬جس نے الہور دیکھا مگر الہ وری بلی اں نہ دیکھیں ‪ ،‬ت و‬
‫اس نے پھر کیا دیکھا۔‬

‫ناول ”سدھارتھ“ ‪ ،‬فکری مطالعہ‬


‫( ‪)15/12/2022‬‬

‫انتساب‬

‫گمنام آہوں اور گمشدہ راہوں کے نام‬

‫جرمن لکھاری ہرمن ہیسے کے قلم س ے تخلی ق پ انے واال ن اول س دھارتھ ‪ 1922‬ء میں‬
‫جرمنی میں شائع ہوا۔ ‪ 1951‬ء میں اس کا انگریزی ترجمہ امریکہ سے شائع ہ وا۔ ‪1960‬‬
‫ء تک اس کی شہرت ع ام ہ و چکی تھی۔ یعق وب ی اور نے ‪ 1982‬ء میں اس ے اردو کے‬
‫قالب میں ڈھال کر ہندوستان کو اس سے متعارف کروایا۔ سدھارتھ سنسکرت زبان کا لفظ‬
‫ہے جو سدھ اور ارتھ کا مجموعہ ہے۔ سدھ کا مطلب ”حاصل ش دہ“ اور ارتھ کے مع نی‬
‫”کوشش کرنا“ کے ہیں۔‬

‫اس لحاظ سے سدھارتھ کے معنی ”وہ حاصل ہو جانا جس کے لیے کوشش کی گئی ہ و“‬
‫بنتے ہیں۔ اس ناول کے مرکزی کردار کا نام بھی سدھارتھ ہے۔ اس طرح ناول کا عن وان‬
‫ذو معنویت کا حامل بن جات ا ہے۔ اس ن اول ک ا مرک زی موض وع تناس خ (آواگ ون) س ے‬
‫نروان حاصل کرنا اور حقیقی سچائی جو کہ غ یر ف انی ہے ک و پہچانن ا ہے۔ دیگ ر تم ام‬
‫موضوعات اس موضوع سے منسلک ہو ک ر ن اول کی فک ر ک و مض بوطی بخش تے ہیں۔‬
‫درج ذیل بحث انہی موضوعات کے متعلق ہے۔‬

‫نصیحت اور مش ورہ میں ح د تف اوق کھینچ تے ہ وئے اس نکتہ پ ر بحث کی گ ئی ہے کہ‬
‫نصیحت کی بنیاد حکم پر ہوتی ہے‪ ،‬جبکہ مشورہ کی فصیل راہ دکھ انے پ ر کھ ڑی ہے۔‬
‫نصیحت میں ای ک راہ پ ر چالی ا جات ا ہے۔ جبکہ مش ورہ میں دو راہیں دکھ ا ک ر فیص لہ‬
‫‪94‬‬
‫مشار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ن اول کے ک ردار س دھارتھ کے مط ابق نص یحت بے مع نی‬
‫ہے‪ ،‬اس ک ا کچھ فائ دہ نہیں‪ ،‬ص رف وقت اور الف اظ ک ا ض یاع ہے۔ مش ورہ کے متعل ق‬
‫سدھارتھ کے عمل سے اس رمز سے بھی پ ردہ چ اک ہوت ا ہے کہ مش ورہ ہمیش ہ متعلقہ‬
‫آدمی س ے کی ا جان ا چ اہیے۔ اس وجہ س ے س دھارتھ دولت اور محبت کے حص ول ک ا‬
‫مشورہ طوائف سے کرتا ہے۔‬

‫علم اور سیکھنے کے عمل کے متعلق اس ناول میں مفصل تفص یل موج ود ہے۔ علم کے‬
‫حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کوئی بھی معلم اس وقت تک متعلم ک و تعلم کے‬
‫عمل میں نہیں ڈھال سکتا جب تک متعلم خود علم سیکھنے پر رضا مند نہ ہ و۔ اگ ر آدمی‬
‫سیکھنے کی تمنا رکھتا ہو تو اسے کسی مخصوص معلم کی ض رورت نہیں رہ تی‪ ،‬بلکہ‬
‫وہ دنیا کی ہر چیز سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے۔ سوال یہ پی دا ہوت ا ہے کہ س یکھنے‬
‫کی بنی اد کس عم ل پ ر ہے؟ اس ک ا ج واب بھی ن اول کے ان در موج ود ہے اور وہ ہے‬
‫”حیرت“ ۔ جب آدمی کسی بھی چیز کو ایسے دیکھے کہ پہلی مرتبہ دیکھی ہو تو حیرت‬
‫جنم لیتی ہے۔ حیرت کی کوکھ سے تجسس پیدا ہوتا ہے۔ اور تجسس علم کے حص ول کی‬
‫پہلی سیڑھی ہے۔‬

‫انسان ایک کتاب کی مانند ہے اور اس کتاب کی زبان کائناتی زب ان ہے۔ ف رد اپ نے ان در‬
‫جھانک تو سکتا ہے۔ مگر اس وقت تک اندرونی‪ /‬وج ود میں پنہ اں علم حاص ل نہیں ک ر‬
‫سکتا جب تک وہ کائناتی زبان سے آشنا نہ ہو۔ کائناتی زبان کا منبع‪ ،‬فطرت سے دوستی‪،‬‬
‫دنیاوی مشاہدات اور تجربات ہیں اور انہی سے ہی یہ زبان س یکھی ج ا س کتی ہے۔ جس‬
‫طرح ای ک تحری ر ک و پڑھ تے ہ وئے اس کے ان در موج ود تش بیہات و اس تعارات س ے‬
‫صرف نظر ممکن نہیں۔ اسی طرح روحانی وجود کو پڑھنے کے لئے کائناتی زبان سے‬
‫صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔‬

‫کائناتی زبان کو سمجھنے کے لئے خیال‪ ،‬احساس اور غور و فکر کو مرکزی اہمیت دی‬
‫گئی ہے۔ جب انسان خود میں غور و فکر کرتا ہے تو کائنات کی روح کے ساتھ ہم آہنگی‬
‫ہو جاتی ہے۔ اور وہ معنی جو کسی ایک وجود میں نہیں بلکہ ہ ر وج ود میں موج ود ہیں‬
‫وا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے غور و فکر اور کائناتی مط العہ ک و بنی اد بن ا‬
‫کر پیش کیا گیا ہے تا کہ انسان اپنی زندگی عین فطرت کے مطابق گزار سکے۔‬

‫چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر‬


‫‪95‬‬
‫منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ‬

‫علم‪ ،‬مقصد کے حصول میں اہم عنص ر ہے۔ اس وجہ س ے مقص د کے متعل ق ن اول میں‬
‫لکھا گیا ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے بھوک‪ ،‬س وچ اور انتظ ار الزم ہیں۔ اور جب‬
‫یہ تین چیزیں ہمنوا ہو جائیں تو مقصد ت ک پہنچ ا ج ا س کتا ہے۔ مقص د کی راہ میں آنے‬
‫والی رکاوٹیں‪ ،‬چائے وہ مخفی مغلظ نجس ہوں یا صریحًا سبک‪ ،‬من کی راہ میں حائل نہ‬
‫ہونے دیں اور پانی میں پھینکے گئے پتھر کی مانند ڈوب تے ج ائیں ت و م نزل م ل ج ائے‬
‫گی۔‬

‫اس فانی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان مقدر کا بہ انہ بن ا ک ر اپ نی شکس ت ک ا ملبہ‬
‫خدا پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ناول میں اس نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہ ا‬
‫گی ا ہے کہ انس ان اپ نے مق در ک و تب دیل ک ر س کتا ہے اور ک وئی دوس را ش خص کس ی‬
‫دوسرے آدمی کے لئے ہزاروں سال کوشش ک رے ت و بھی مق در کی تب دیلی ممکن نہیں۔‬
‫سادہ الفاظ میں‪” ،‬ہ ر ف رد ہے اپ نی ملت کے مق در ک ا س تارہ“ ۔ اور ملت تب ہی مع راج‬
‫حاصل کرتی ہے جب ہر فرد اپنا مقدر خود بناتا ہے۔‬

‫ن اول میں ض میر کی آواز ک و مرک زی حی ثیت حاص ل ہے۔ اور یہ بتای ا گی ا ہے کہ جب‬
‫انسان ”ضمیر کی آواز“ خاموش کر دیتا ہے تو دنی اوی ہ وس کہ ر کی مانن د اس کے دل‬
‫پر چھا جاتی ہے اور وہ فانی دھندے میں جکڑ جاتا ہے۔‬

‫محبت کے متعلق ایک اچھوتا نظریہ اس ناول میں پیش کی ا گی ا ہے۔ انس ان‪ ،‬مان گ ک ر‪،‬‬
‫مول لے کر محبت پا سکتا ہے۔ دے بھی سکتا ہے۔ لیکن وہ چرائی نہیں جا س کتی۔ جس م‬
‫ای ک راز ہے اور جنس ی تن اظر میں ان رازوں س ے محبت ک رنے واال ہی مس رت‬
‫محسوس کر سکتا ہے۔‬

‫اس ناول میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہر شخص وہی چیز دے سکتا ہے‬
‫جو اس کے پاس ہ وتی ہے۔ جیس ا کہ کس ان چ اول دے س کتا ہے ت و معلم علم اور ت اجر‬
‫دولت۔ اس لیے غیر مطلقہ شخص سے خاص چیز کی درخواست نہیں کرنی چاہیے۔ اور‬
‫درخواست کرنا یا امید رکھنا بے وقوفی ہے۔‬

‫بات کو کس طرح سنا جاتا ہے اور کسی کو قائل کرنے کے لئے کون س ی زب ان ک ارگر‬
‫ہے اس ناول سے سیکھی جا سکتی ہے۔‬

‫‪96‬‬
‫ممتا کو ایک احساس‪ ،‬ایک جذبے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مصنف اس راز کو بی ان‬
‫کرتا ہے کہ ممتا والد میں بھی ہو سکتی ہے۔ ب انو قدس یہ نے بھی یہی کہ ا تھ ا کہ ک وئی‬
‫ماں بن کر بھی ممتا نہیں ہوتی۔ اور کوئی بانجھ ہو کر بھی ممتا ہوتی ہے۔‬

‫ضخامت کے لحاظ سے یہ ناول وسیع نہیں مگر فکری لحاظ سے وقیع ضرور ہے۔ علم‪،‬‬
‫مقصد‪ ،‬غور و فکر‪ ،‬احساس‪ ،‬جذبات‪ ،‬کائناتی زب ان کے س اتھ س اتھ محبت کے موض وع‬
‫پ ر بہت کچھ موج ود ہے ج و پڑھ نے واال ہی حاص ل ک ر س کتا ہے۔ اقتب اس کے س اتھ‬
‫اجازت چاہوں گا۔‬

‫”لفظ بہتر ہے مگر فکر بہترین‪ ،‬ہوشیاری بہتر ہے مگر صبر بہترین۔“‬

‫اردو غزل میں امرد پرستی کی روایت‬


‫( ‪)31/12/2022‬‬

‫مٔورخین نے وسطی ایش یا ک و ہندوس تان ک ا دروازہ کہ ا ہے اور اس ی دروازے ہی س ے‬


‫آریہ‪ ،‬تاتار‪ ،‬مغل‪ ،‬ترک اور پٹھان ہندوستان میں داخل ہوئے اور حملے کرتے ہوئے پ ایہ‬
‫تخت میں داخل ہو کر تخت نشین ہوئے۔ یہ لوگ جو رسم و رواج اور روایات اپنے س اتھ‬
‫الئے تھے‪ ،‬وہی روایات اور رسم و رواج آج ہمارا سرمایہ فخر ہیں۔ غزل نے عرب میں‬
‫جنم لیا اور فارس میں پلی بڑھی۔ فارسی میں غزل کی جو اقدار پروان چ ڑھ چکی تھیں‪،‬‬
‫ایرانی حملہ آور انہیں اپنے ساتھ ہندوستان الئے۔‬

‫انہیں اقتدار میں ایک قدر ”امرد پرستی“ بھی تھی۔ اردو غزل فارسی س ے مس تعار ش دہ‬
‫ہے۔ اور ہندوستان میں اسے پروان چڑھ انے میں ان لوگ وں ہی ک ا عم ل دخ ل ہے‪ ،‬ج و‬
‫فارس ی کے ب ڑے اس اتذہ اور م رد می دان تھے۔ اس وجہ س ے فارس ی ش اعری کی ق در‬
‫”شاہد بازی“ کو اردو غزل میں بار پانے میں دشواری پیش نہ آئی اور ہندوس تانی ام راء‬
‫کے ہاں معاشرتی حی ثیت س ے پ روان چڑھ تی گی۔ ”‪ 1151‬ہ ( ‪ 1729‬ء ) میں دہلی کے‬
‫امراء اور رٔوسا میں شاہد بازی کا کیا عالم تھ ا اس کی تفص یل ن واب ذوالق در درگ اہ قلی‬
‫خان کی مشہور تصنیف“ مرقع دہلی ”میں واضح طور پر ملتی ہے۔ “‬

‫‪97‬‬
‫‪ 1700‬ء کے بعد دہلی میں شاہد بازی ش عراء کے کالم میں اس ق در داخ ل ہ و چکی تھی‬
‫کہ اس وقت کے ہر تذکرہ نگار نے شعراء کے متعل ق لکھ تے وقت اس عنص ر ک ا ذک ر‬
‫ضرور کیا۔ عبدالغفور نساخ اپنے تذکرہ ”س خن ش عرا“ میں داغ دہل وی کے متعل ق ی وں‬
‫لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”داغ تخلص‪ ،‬میر مہدی دہلوی مقیم لکھنٔو‪ ،‬فرزند شاگرد میر س وز ب تیس ب رس کی عم ر‬
‫میں ایک نونہال گلشن خوبی پر شیدا ہو کر کچھ دنوں اس کے باغ وصال سے زندگی ک ا‬
‫مزا چکھا اور گل مراد سے اپنا دامان تمنا بھر لیا۔“‬

‫میر تقی میر اپنے تذکرہ ”نکات الشعراء“ میں رسواء کے متعلق یوں لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”رسوا تخلص کا ایک ہندو شخص تھا۔ فی الحال مذہب کی قی د س ے آزاد ہے۔ ای ک ہن دو‬
‫لڑکے پر عاشق تھا۔ حکم خدا سے وہ لڑکا انتقال کر گیا اور اس کا عش ق ہ وس میں ب دل‬
‫گیا۔“‬

‫میر تقی میر عاجز کے متعلق یوں لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”عاجز تخلص‪ ،‬یہ شخص لوطی ہے۔“‬

‫میر تقی میر دیوان ششم میں اپنے متعلق شعر موزوں کرتے ہیں کہ ‪:‬‬

‫بے عشق خوب رویاں اپنی نہیں گزرتی‬

‫اے وائے کس بال میں ہم مبتال ہوئے ہیں۔ (میر)‬

‫میر تقی میر کے ہم عصر شاعر خواجہ م یر درد جنہیں ص وفی ش اعر کہ ا جات ا ہے۔ ان‬
‫کے ہاں بھی امرد پرستی پر مبنی کئی درجن اشعار موجود ہیں۔‬

‫اے درد ہم سے یار ہے اب تو سلوک میں‬

‫خط زخم دل کو مرہم زنگار ہو گیا (درد)‬

‫ان بیانات اور اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہندوس تان اور‬
‫خصوصًا دہلی میں امرد پرستی کا کس قدر چرچا تھا اور اڑتے چ ڑے پھانس نے ک ا کس‬
‫قدر شوق۔ وہ ش عراء جن کی س ماجی حی ثیت مس لم تھی‪ ،‬کھلے بن دوں ام رد پرس تی کی ا‬
‫کرتے تھے اور ہر گلی محلے‪ ،‬شادی بیاہ اور دیگر محفل وں میں ام رد پرس تی پ ر مب نی‬
‫‪98‬‬
‫غ زلیں گ ائی ج اتی تھیں۔ اردو غ زل میں س بزہ خ ط‪ ،‬ش وخ‪ ،‬گ ل ب دن‪ ،‬س ادہ رو‪ ،‬ص نم‪،‬‬
‫خوبرو‪ ،‬ستم گر‪ ،‬خوب اں‪ ،‬ی ار‪ ،‬پی ارے‪ ،‬لڑک ا‪ ،‬چنچ ل ص نم‪ ،‬س تم پیش ہ اور قات ل جیس ی‬
‫اصطالحیں شاہد بازی ہی کی مرہون منت ہیں۔ اردو غزل میں شاہد بازی کے عنصر ک و‬
‫ظہور شہزاد اظہر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ‪:‬‬

‫”ابتداء میں غزل سادہ رو اور شوخ لڑکوں کے ساتھ منس لک رہی ہے۔ اور ج و ل وگ یہ‬
‫کہتے ہیں غزل کے لغوی معنی ہیں ’ع ورت کے س اتھ ب ات کرن ا‘ وہ اپ نی جہ الت کے‬
‫گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ عورت کہاں ہے؟“‬

‫چند اور شعرا کا کالم بطور نم ونہ درج ک یے دیت ا ہ وں۔ ت اکہ اردو غ زل کی ابت داء میں‬
‫امرد پرستی کا مقام واضح ہو جائے۔‬

‫خط آ گیا ہے اس کے‪ ،‬مری ہے سفید ریش‬

‫کرتا ہے اب تلک بھی وہ ملنے میں صبح شام۔ (مضمون)‬

‫شاید کہ ہوا ہے خط نمودار‬

‫نامہ کا میرے جواب آیا (فغان)‬

‫یہی مضمون خط ہے احسن ہللا‬

‫کہ حسن خوبرویاں عارضی ہے۔ (احسن)‬

‫دل مومن آتش کدہ بنے کیوں‬

‫لگاوٹ یہ طفل برہمن سے ہے۔ (مومن)‬

‫خوب رو ہی فقط نہیں وہ شوخ‬

‫حسن کیا کیا ادائیں کیا کیا ہیں (میر)‬

‫اے آنسوو نہ آوے کچھ دل کی بات منہ پر‬

‫لڑکے ہو تم کہیں مت افشائے راز کرنا۔ (درد)‬

‫سبزہ خط سے تیرا کاکل سرکش نہ دبا‬

‫‪99‬‬
‫یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا (غالب)‬

‫ان امثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب ہندوستان میں اردو غزل پ روان چ ڑھی‬
‫تو امرد پرستی اس کا مرکزی موضوع تھا۔ تو اس سے یہ ن تیجہ نکلت ا ہے کہ غ زل کے‬
‫معنی ”عورت کے ساتھ باتیں کرنا“ کی بجائے‪” ،‬لون ڈوں س ے ب اتیں کرن ا“ حقیقت کے‬
‫قریب معلوم ہوتا ہے۔‬

‫عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں‬


‫( ‪)17/01/2023‬‬

‫خاک کے خمیر میں ظلم اور رحم کی حدت کے س اتھ‪ ،‬جب ج ذبات کی آم یزش کی گ ئی‬
‫تب قرطاس کائنات پر آدمیت کا ظہور ہوا اور اس ک ا مس کن جنت ق رار پای ا۔ انس ان ظلم‬
‫کے حصار میں آ کر ظالم ٹھہرا اور جنت سے زمین پ ر ایس ے پھین ک دی ا گی ا‪ ،‬جیس ے‬
‫ٹوٹا تارا آسمان سے زمین کی طرف گرتا ہے۔ دوبارہ مہ کام ل بن نے کے ل یے رحم ک و‬
‫ظلم پر حاوی کرنا الزم تھا۔ آدمیت کی اس کوش ش میں ظلم اور رحم کے درمی ان جن گ‬
‫شروع ہوئی‪ ،‬اور آدمیت تقسیم ہو کر طبقات میں بٹ گئی۔‬

‫کوئی عالمی طاقت کا روپ اختیار کرتے ہوئے دنیا کے منظر نامہ پر چاند کی مانند چھا‬
‫گیا تو کوئی غریب محکوم ٹھہرا۔ عالمی طاقت نے خود کو غ ریب ک ا ح اکم ق رار دی تے‬
‫ہوئے محکوم کو دبانا شروع کر دیا‪ ،‬تاکہ وہ طاقت حاصل نہ کر پائے۔ دب أو کے ن تیجے‬
‫میں شعور کا جنم ہوا‪ ،‬جس نے محکوم کو ترقی کی راہ دکھائی۔ اسی راہ پر چلتے ہوئے‬
‫محک وم سیاس ت کے می دان میں ذوالفق ار علی بھٹ و‪ ،‬کاروب ار میں ش اہد خ ان‪ ،‬تعلیم میں‬
‫ماللہ یوسف زئی‪ ،‬ف زکس میں عبدالس الم‪ ،‬کیمس ٹری میں عبدالق دیر خ ان‪ ،‬ص حافت میں‬
‫کامران خان‪ ،‬کھیل میں عمران خان‪ ،‬بابر اعظم‪ ،‬اور انسانی خدمت کے میدان میں ایدھی‬
‫اور امجد ثاقب بن کر نکلے۔ ان ٹوٹے ہوئے تاروں کی کوش ش‪ ،‬محنت اور قرب انیوں ک و‬
‫دیکھ کر حاکم سہم گئے ہیں کہ کہیں یہ مہ کام ل کی ص ورت ع المی عن بر پ ر چمک تے‬
‫ہوئے ہماری چمک ماند نہ کر دیں۔‬

‫رحم کو جب عبدالستار ایدھی جیسے جانباز سپاہی ملے تو وہ ظلم پ ر ح اوی ہ ونے لگ ا۔‬
‫اس معاملہ کو دیکھ کر عزازیل سہم گیا اور محو حیرت ہے کہ کہیں ایس ا نہ ہ و کہ جس‬
‫‪100‬‬
‫چاند کو اس نے تارے کی مانند جنت سے ت وڑا تھ ا‪ ،‬وہ پھ ر س ے مہ کام ل بن ک ر وہی‬
‫مقام حاصل نہ کر لے۔‬

‫موج ودہ وقت سائنس ی زم انہ ہے۔ انس ان نے اس می دان میں ات نی ت رقی ک ر لی ہے کہ‬
‫فضأوں سے خالٔوں تک کا سفر کرت ا ہ وا چان د پ ر پہنچ ا اور اب م ریخ کی دھ رتی ک و‬
‫مس کن بن انے کی جدوجہ د میں مش غول ہے۔ بلین س ال قب ل چمک نے والے س تاروں کی‬
‫تصاویر حاصل کر کے اپنی کائنات سے نکل کر دوسری دنی أوں میں چان د کی ص ورت‬
‫چمکنے کے خواب کی تعب یر میں س رگرداں ہے۔ اس نے ایس ے ہتھی ار بن ا ڈالے ہیں کہ‬
‫دشمن ک و ختم ک رنے کے ل یے ای ک انچ بھی س فر کی ض رورت نہیں۔ گھ ر بیٹھے ج و‬
‫چاہے کر سکتا ہے۔ مشت بھر خاک کی اتنی ترقی دیکھ کر کائناتی ستارے مح و ح یرت‬
‫ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اور سہم گئے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہ وا ت ارا مہ کام ل نہ‬
‫بن جائے۔‬

‫اردو شاعری میں رنگوں کا استعمال‬


‫‪25/01/2023‬‬

‫رنگ‪ ،‬انسانی زن دگی میں رن گ بکھ یرنے کے عم ل میں بنی ادی اہمیت کے حام ل ہیں۔‬
‫رن گ کائن اتی ہ وں ی ا ج ذباتی‪ ،‬یہ حقیقت ہے کہ رنگ وں ہی کی ب دولت اس کائن ات اور‬
‫انسانی شخصیات میں تنوع ہے۔ اگر اس کائنات میں رنگ نہ ہوتے ت و زن دگی بے کی ف‬
‫ہو کر رہ جاتی‪ ،‬اور انسان اس بے کیفی سے گھبرا کر زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتا۔ آس مان‬
‫میں سنہرا سورج چمکتا ہے تو چرخ کا رنگ نیال اور چاند کی روشنی سفید۔ سبز پ ودے‬
‫سے جب سرخ‪ ،‬گالبی‪ ،‬نیلے‪ ،‬پیلے‪ ،‬کالے‪ ،‬جامنی‪ ،‬سفید‪ ،‬زرد‪ ،‬کیسری اور بنفشی رنگ‬
‫پھولوں کی صورت کھلتے ہیں تو ج ذبات میں بہ ار آ ج اتی ہے اور زن دگی مچ ل اٹھ تی‬
‫ہے۔‬

‫اگر رنگ کا وجود نہ ہوتا تو یہ تنوع‪ ،‬یہ تضاد وجود نہ رکھ تے اور کائن ات ی ک رخی‪،‬‬
‫یک رنگی بن کر بے حیثی تی کی تص ویر بن ج اتی۔ کی وں کہ زن دگی ن ام ہے تض اد ک ا۔‬
‫کائناتی وج ود میں رنگ وں کی وہی اہمیت ہے ج و انس انی وج ود میں زن دگی کی اونچی‬
‫نیچی دوڑتی سانسوں کی۔ رنگ اور ج ذبات ک ا گہ را تعل ق ہے۔ جت نے زمین میں رن گ‬

‫‪101‬‬
‫ہیں‪ ،‬اتنے ہی رنگوں کو انسانی وجود میں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ انسانی وجود کا‬
‫ہر رنگ ایک نئے اور انوکھے جذبہ کی کوکھ ہے۔‬

‫شاعر معاشرے کی زبان ہوتا ہے۔ وہ ج و کچھ دیکھت ا ہے‪ ،‬س نتا ہے اور محس وس کرت ا‬
‫ہے اس کو بیان کرتا چال جاتا ہے۔ دیکھنے کی دو اقسام ہیں۔ ای ک دیکھن ا ہے وہ دیکھن ا‬
‫ہے جس میں نظر باطن پ ر ہ وتی ہے اور ج ذبات و احساس ات دیکھے ج اتے ہیں۔ س ادہ‬
‫لفظ وں میں ان درونی کائن ات میں جھانک ا جات ا ہے اور اس میں موج ود راز عی اں ک یے‬
‫جاتے ہیں۔ اس کی مثال اس واقعہ کو بنایا ج ا س کتا ہے کہ جب لکھن ٔو کے ای ک ن واب‪،‬‬
‫میر تقی میر کو ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں ایک طرف گھر تھ ا اور دوس ری ط رف‬
‫باغ۔ باغ کا نظارہ کھڑکی کھول کر کیا جا سکتا تھا۔ میر جس دن وہاں تشریف لے گ ئے‪،‬‬
‫اس روز کھڑکی بند تھی۔ انہوں نے اسے کبھی نہ کھوال۔ اور جب ای ک دن ای ک دوس ت‬
‫نے آ کر بتایا کہ دوسری طرف باغ ہے تو میر نے کچھ غزلیں دکھاتے ہوئے جواب دی ا۔‬
‫”اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ “ دوس ری قس م وہ ہے‬
‫جس میں شاعر خدا کی تخلیقات کو دیکھتا ہے‪ ،‬مشاہدہ کرتا ہے اور اس ے اپ نی ش اعری‬
‫میں بیان کرتا جاتا ہے۔ اس قسم کی شاعری میں موسم‪ ،‬پہاڑ‪ ،‬ندیاں‪ ،‬دریا‪ ،‬برکھا‪ ،‬خزاں‪،‬‬
‫پرند‪ ،‬انساں‪ ،‬بہار‪ ،‬رنگ‪ ،‬پودے‪ ،‬پھول الغرض مظاہر ق درت ک ا بی ان ملت ا ہے۔ اس قس م‬
‫کے دیکھ نے کی روایت ہمیں اردو غ زل کے ب اوا آدم‪ ،‬ولی دک نی کے ہ اں بھ ر پ ور‬
‫رعنائی کے ساتھ مل تی ہے۔ ڈاک ٹر تبس م کاش میری لکھ تے ہیں۔ ”ولی کے ہ اں فک ر و‬
‫فلسفہ کی جگہ حواس‪ ،‬محسوسات اور ج ذبات کی ش اعری ہے۔ اس ش اعری کے منظ ر‬
‫نامہ میں فطرت کا کردار بہت اہم ہے۔ زمین‪ ،‬آسمان‪ ،‬چاند‪ ،‬س ورج‪ ،‬پھ ول‪ ،‬رن گ‪ ،‬ب اغ‪،‬‬
‫میدان‪ ،‬پہاڑ اور خوشبو کے مظاہر چاروں طرف بکھ رے نظ ر آتے ہیں۔ ولی ان مظ اہر‬
‫کا ان تھک تماشائی ہے۔“ جب شاعر اندرونی کائن ات کی ط رف دیکھت ا ہے ت و انس انی‬
‫ج ذبات کے رنگ وں ک و معاش رے کے س امنے پیش کرت ا ہے۔ اور ب یرونی کائن ات ک و‬
‫دیکھتا ہے تو فطرت کے مظاہر کے رنگ چار سو بکھیر دیتا ہے۔ اس مضمون کا تعل ق‬
‫دیکھنے کی دوسری قسم سے وابستہ ہے‪ ،‬اور مقص د کائن اتی رنگ وں کے اس تعمال اور‬
‫بی ان کی جھلکی اں پیش کرن ا۔ اردو کے ہ ر دور کے ش عرا کے ہ اں کائن اتی رنگ وں ک ا‬
‫استعمال نظر آتا ہے۔ اردو کے ابتدائی دور میں اس کی مث ال قلی قطب ش اہ کی ش اعری‬
‫سے پیش کی جا سکتی ہے۔‬

‫‪102‬‬
‫قلی قطب شاہ نے اپنے عہد کے ہر موسم‪ ،‬تہوار اور میلے وغیرہ کو بیان کیا ہے اور ان‬
‫موقعوں پر کون سے رنگوں کو زیادہ اہمیت حاصل تھی کو اپنی شاعری میں واضح کی ا‬
‫ہے۔ برسات کے موسم میں سبز رنگ کا مخمل ف رش پ ر بچھ ا دی ا جات ا اور س بز لب اس‬
‫زیب تن کیے جاتے تو دوسری طرف بسنت اور جش ن ن وروز میں س رخ رن گ ک ا راج‬
‫ہوتا۔ ان کی شاعری سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔‬

‫جھاڑاں کوں پھول ہور پھل سہتے ہیں جیوں جواہر‬

‫صدراں زمرد دی رنگ ہر اک محل بچھأو‬

‫سبز سارے نور تن کسوت کیے ہیں رنگ رنگ‬

‫سرو مینا میں سو شبنم کا سرا پایا بسنت‬

‫چوکہ کیا دیکھے کہ بائے لعل ادھر پر دانت رنگ‬

‫نکلے ہیں یک کھان تھے یاقوت و نیلم بے نظیر‬

‫مرزا محمد رفیع سودا کی شاعری میں ع روس مع نی‪ ،‬رنگی نی مع نی‪ ،‬اور حس ن مع نی‬
‫ایسی تراکیب سے جمالیاتی حس ک ا پتہ چلت ا ہے۔ ان کی جمالی اتی حس کی ت یزی ہی کی‬
‫بدولت رنگ‪ ،‬روشنی‪ ،‬بہار‪ ،‬گلزار‪ ،‬صبح‪ ،‬شادابی‪ ،‬شعلہ‪ ،‬سرخی اور آئینہ جیسے لفظوں‬
‫س ے کی گ ئی مص وری مل تی ہے۔ اور س نہرا‪ ،‬ص ندلی‪ ،‬حن ائی‪ ،‬چمپ ئی‪ ،‬ش فقی‪ ،‬س فید‪،‬‬
‫گالبی‪ ،‬نیال‪ ،‬بادامی‪ ،‬سبز‪ ،‬سرخ‪ ،‬کبودی اور پیال رنگ اپنی بہار دکھاتے ہیں۔‬

‫جن نے نہ دیکھی ہو شفق صبح کی بہار‬

‫آ کر تیرے شہید کو دیکھے کفن کے بیچ‬

‫بکیں گو صندلیں رنگ آ کے بازار محبت میں‬

‫گنوا کر نقد دل اپنا نہ یہ تو درد سر لیجا۔‬

‫لعل حل کردہ ہے جوں ظرف بلوریں کے بیچ‬

‫پیرہن پہنے ہے جس دم وہ گل اندام سفید‬

‫‪103‬‬
‫م یر تقی م یر کے متعل ق کہ ا جات ا ہے کہ ان کی ش اعری ب یرونی من اظر کی بج ائے‬
‫اندرونی منظر کشی پیش کرتی ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ م یر تقی‬
‫میر کو ابتدائی ناقدین نے ہمارے سامنے پیش ہی ایس ے کی ا ہے کہ ہمیں ان پ ر ب دھ مت‬
‫کے بھکشو کا گماں ہوتا ہے‪ ،‬جو ہمیشہ مراقبے میں رہت ا ہے۔ ڈاک ٹر احتش ام حس ین اس‬
‫بات کو یوں بیان کرتے ہیں۔ ”اکثر لکھنے وال وں نے ان کی داخلیت پ ر اتن ا زور دی ا کہ‬
‫بیرونی دنیا سے میر کا جو تعلق تھا وہ نظر انداز ہو گیا۔“‬

‫میر تقی میر کے دیوان میں کشمیر کی وادی کے آس مانی رن گ س ے لے ک ر زعف رانی‬
‫رنگ تک‪ ،‬کئی طرح کے بے ش مار رن گ موج ود ہیں۔ اس ی راز کی ب دولت غ الب نے‬
‫میر تقی میر کے متعلق یوں کہا تھا۔‬

‫میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب‬

‫جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں‬

‫میر تقی میر کے دیوان میں سرخ‪ ،‬سبز‪ ،‬گالبی‪ ،‬نیال‪ ،‬زرد‪ ،‬کاہی‪ ،‬زعفرانی‪ ،‬آبی‪ ،‬آتش ی‪،‬‬
‫حنائی‪ ،‬عنابی‪ ،‬شفقی‪ ،‬سفید اور سیاہ وغیرہ کے انوکھے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان‬
‫مناظر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ میر تقی میر مصور کی طرح مختلف رنگوں کے اختالط‬
‫سے لفظی تصویریں کینوس پر اتار رہے ہیں۔‬

‫چاک دل ہے ازار کے سے رنگ‬

‫چشم پر خوں فگار کے سے رنگ‬

‫جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب‬

‫جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے‬

‫ٹھہرے نہ چرخ نیلی پہ انجم کی چشم شوخ‬

‫اس قصر میں لگا جو ہے کیا الجورد ہے‬

‫یک معنی شگفتہ‪ ،‬سو رنگ بندھ گئے ہیں‬

‫الوان گل ہیں پر سو اب کی بہار سے بھی‬

‫‪104‬‬
‫اردو شاعری کے ہر شاعر کے یہاں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ وہ رنگ ک و کیس ے‬
‫دیکھتے‪ ،‬محسوس کرتے اور اپنی شخصیت میں جذب کرتے ہوئے‪ ،‬مناظر کی تص اویر‬
‫کشی کرتے۔ شاعری میں رنگوں کے استعمال کے حوالے سے نظیر اکبر آبادی (عوامی‬
‫شاعر) بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نظیر اکبر آبادی ایسا شاعر ہے جس نے معاشرے‬
‫میں جس چیز ک ا مش اہدہ کی ا‪ ،‬اس ے ش اعری کی ص ورت پیش کی ا۔ ان کی ش اعری میں‬
‫طالئی‪ ،‬سفید‪ ،‬چمپئی‪ ،‬سرخ‪ ،‬نیال‪ ،‬س بز‪ ،‬ک اال‪ ،‬ج امنی‪ ،‬دھ انی‪ ،‬بس نتی‪ ،‬س رمئی‪ ،‬گالبی‪،‬‬
‫گلناری‪ ،‬زرد‪ ،‬مہندی‪ ،‬کاہی‪ ،‬آتشی‪ ،‬شمعی‪ ،‬خاکس تری‪ ،‬کشمش ی‪ ،‬غ رض بے ش مار قس م‬
‫کے رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ مگ ر وہ ان رنگ وں کے بس ن ام ہی گن واتے ہیں‪ ،‬تص اویر‬
‫پیش کرنے سے قاصر ہیں۔‬

‫پوشاک چھڑکواں سے ہر جا تیاری رنگیں پوشوں کی‬

‫ہر جاگہ زرد لباسوں سے ہوئی زینت سب آغوشوں کی‬

‫اور بھیگی جاگہ رنگوں سے ہر گنج گلی اور کوچوں کی‬

‫سو عیش و طرب کی دھومیں ہیں اور محفل میں مے نوشوں کی‬

‫مے نکلی جام گالبی سے کچھ لہک لہک کچھ چھلک چھلک‬

‫ان کو عوامی شاعر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ ماحول اور عوامی مس ائل ک و بی ان‬
‫کرتے ہیں۔ ان دونوں چ یزوں ک و بی ان ک رنے کے ل یے مش اہدہ الزمی عنص ر ہے۔ اور‬
‫مشاہدے کے بعد تنوع پیدا کرنے اور چیزوں کے درمیان حد تف اوق کھینچ نے کے ل یے‬
‫مختلف رنگوں کا استعمال ناگزیر۔‬

‫چیزیں تضاد کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں اور تض اد واض ح ک رنے میں رن گ بنی ادی‬
‫کردار ادا کرتے ہیں۔ شاعری کی اصل بنیاد تض اد ہے۔ ش اعر من اظر کش ی اور ج ذباتی‬
‫منظر نگاری کرنے کے لئے رنگ استعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اردو ش اعری میں‬
‫رنگوں کی بہتات ہے اور ہر سو گلشن کھلے نظر آتے ہیں۔‬

‫مرزا اطہر بیگ‪ :‬قلمی جہات‬


‫‪04/02/2023‬‬
‫‪105‬‬
‫مرزا اطہر بیگ علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن ہی سے ایسا ماحول میس ر آی ا‬
‫جس میں کت ابوں کی وادی بہت اہمیت کی حام ل تھی۔ ہ ر م اہ ان کے گھ ر ک ئی علمی و‬
‫ادبی رسائل آتے تھے۔ اس وجہ س ے ان ک ا رجح ان ادبی و علمی می دان کی وس عت کی‬
‫جانب بڑھتا چال گیا۔ آپ کے مطالعہ کی پختہ عادت نے آپ کو لکھ نے کی ج انب راغب‬
‫کی ا اور آپ نے ای ک کہ انی بعن وان ”س و پہال دن ہ وا“ لکھ ڈالی۔ یہ افس انہ حلقہ ارب اب‬
‫ذوق‪( ،‬حلقہ ارباب ذوق ادبی تحریک ہے جس کی بنیاد چند احباب کے ساتھ مل ک ر س ید‬
‫نصیر احمد نے ‪ 29‬اپریل ‪ 1939‬کو رکھی۔ اس ک ا مقص د ہے کہ ادب میں روم انیت اور‬
‫داخلیت کے عنصر کو شامل کیا جائے۔ اور اس ک ا نظ ریہ ”ادب ب رائے ادب“ ہے۔ ‪) 1‬‬
‫کے اجالس میں پڑھا گیا۔ اسی افسانہ کے ساتھ ہی ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔ ان کی‬
‫ادبی زندگی کا پہال بڑا قدم ”غالم باغ“ ہے۔ غالم باغ پر کام ‪ 90‬کی دہائی میں شروع کیا‬
‫گیا اور اشاعت ‪ 2006‬ء میں ہوئی۔ ان کا ایک طالب علم ایک آرٹیک ل میں ان کے ب ارے‬
‫میں یوں لکھتا ہے ‪:‬‬

‫”مرزا اطہر بیگ سے میرا اولین تعارف فلسفہ کے استاد کی حی ثیت س ے ہ وا۔ ہمیں آپ‬
‫نے نفسیات اور جدید فلسفہ پڑھای ا۔ س ویرا (ادبی رس الہ) کے ش ماروں میں ہم اس تاد اور‬
‫شاگرد دونوں کی کہانیاں ایک ساتھ شائع ہوئیں۔ تو انہیں دن وں پتہ چال کہ آپ ای ک ن اول‬
‫پر کام کر رہے ہیں یا ایسا ارادہ ک یے ہ وئے ہیں۔ یہ ب ات ہے ن وے کی دہ ائی کے آغ از‬
‫کی۔“ ‪2‬‬

‫”غالم باغ“ منظر عام پر آیا تو ادبی حلق وں میں کھلبلی مچ گ ئی کی ونکہ یہ ادبی س مندر‬
‫کے ٹھہرے پانی میں پتھ ر کی مانن د گ را اور س مندر کی ک وکھ میں تالطم برپ ا ہ وا اور‬
‫لہریں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ اس ن اول کی خ وبی یہ ہے کہ یہ ن اول کے روای تی طریق وں‬
‫اور زب ان س ے اختالف کرت ا ہ وا ن ئی ط رز تحری ر ک و متع ارف کروات ا ہے۔ یہ ن اول‬
‫‪ Amorphous‬ہوتے ہوئے بھی ‪ Amorphous‬نہیں ہے۔ اس کی کوئی فارم متعین نہیں۔‬
‫یہ بے ہیئت بھی ہے اور بے شکل بھی۔‬

‫یہ ناول بھی ہے اور ناول نہیں بھی۔ اس کا پالٹ دلچسپ ہے اور اس میں جیتے ج اگتے‬
‫کردار بھی موجود ہیں‪ ،‬ایسے کردار جن کی زن دگی میں ن ئے اور ان وکھے واقع ات جنم‬
‫لیتے رہتے ہیں۔ اس ناول میں ہمیں نہ صرف اسلوب اور فارم کی روایتی ص ورت س ے‬
‫بغ اوت نظ ر آتی ہے‪ ،‬بلکہ ن اول کے م واد اور اس س ے ج ڑے تجرب ات‪ ،‬خی االت اور‬
‫مشاہدات کے حوالے سے بھی شدت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ابت داء میں ن اول ”غالم ب اغ“‬
‫‪106‬‬
‫کا مرکزی کردار کبیر مہدی جب یہ کہتا ہے ”وقت کا کوئی وج ود نہیں‪ ،‬یہ محض ای ک‬
‫واہمہ ہے۔“ ‪ 3‬تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب مل گی ا ہے ج و ق رۃ‬
‫العین حیدر نے ”آگ کا دریا“ میں اٹھایا تھ ا کہ وقت کی ا ہے؟ اور ج واب یہ ہے کہ وقت‬
‫صرف ایک واہمہ ہے۔ اس ناول میں طویل مک الموں اور خ ود کالمی ک و دیکھ ک ر ہمیں‬
‫دوستو فسکی یاد آ جاتے ہیں‪ ،‬جن کے ہاں طویل مک المہ اور ک ردار خ ود کالمی ک رتے‬
‫ہوئے ملتے ہیں۔‬

‫یہ ناول مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی دو اصطالحوں کے گرد گھومتا ہے۔ ایک‬
‫ہے ”ارزل نسلیں“ اور دوسری ”خصی کلب“ ۔ پہلی اصطالح ان لوگوں ک و بی ان ک رتی‬
‫ہے جو پست طبقہ ہے اور اس کا ف رض اونچے طبقہ کے آرام کی خ اطر اپ نے آرام ک ا‬
‫قتل کرنا ہے۔ اور دوس ری اص طالح اس اونچے طبقہ ک و بی ان ک رتی ہے ج و کلب میں‬
‫ایک دوسرے سے خلوت میں ملتا ہے۔ اس میں صاحب ثروت لوگ اور ک ئی پ ردہ نش ین‬
‫میں ش امل ہیں۔ ”غالم ب اغ“ کے متعل ق رف اقت حی ات ن امی ش خص (بالگ رای ٹر) ی وں‬
‫لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”غالم باغ میں استعمال ہونے والی زبان اردو فکشن کے دل دادگان کے لیے انتہائی غیر‬
‫متوق ع ہے۔ م رزا اطہ ر بی گ ص احب نے اس میں ج و زب ان ب رتی ہے‪ ،‬وہ نہ ص رف‬
‫بھرپ ور ط ور پ ر ن اول کے من اظر‪ ،‬ک رداروں کی کیفی ات‪ ،‬ان کی ذہ نی ح الت‪ ،‬ان کے‬
‫خیاالت و تصورات کا پوری طرح ابالغ ک رتی ہے اور اس کے س اتھ س اتھ بہت کچھ ان‬
‫کہی بھی چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ ان کہی قاری کے ذہن میں ہیجان برپا ک رتی ہے۔ “‬
‫‪4‬‬

‫”غالم باغ“ کا سب سے اہم موضوع وقت ہے اور اس کے لیے مرزا اطہر بیگ صاحب‬
‫نے لفظ ”لمحہ“ استعمال کیا ہے۔ کہانی حال‪ ،‬ماضی اور مستقبل ک و س اتھ لے ک ر چل تی‬
‫ہے۔ کہانی کے کرداروں کی کیفیات اور مرزا صاحب کی طرز تحری ر س ے واض ح ہ و‬
‫جاتا ہے کہ کہانی حال کی بتائی جا رہی ہے یا ماضی کی سنائی جا رہی ہے۔‬

‫وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر‬

‫آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے۔ (منیر نیازی) ‪5‬‬

‫‪107‬‬
‫غالم ب اغ اردو ادب کے ن اول میں ایس ا اض افہ ہے جس نے ن اول کی تکنی ک ک و ن ئی‬
‫راہوں کی خبر دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‬

‫مرزا اطہر بیگ کا دوسرا ناول ‪ 2012‬ء میں ”ص فر س ے ای ک ت ک“ کے عن وان س ے‬


‫منظر عام پر آیا۔ اس ناول کی کہانی سائبر سپیس کے ایک منشی کے گ رد گھوم تی ہے۔‬
‫بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گ ا کہ یہ کہ انی منش ی کی سرگزش ت ہے۔ کہ انی کی ج انب‬
‫بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ دیکھا ج ائے کہ س ائبر س پیس کی ا ہے؟ اس کے مع نی‬
‫کیا ہیں؟ اور اس کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے۔ ؟‬

‫سائبر سپیس جدید ٹیکنالوجی کا ای ک واہمہ ہے جس میں تقریب ًا تم ام ل وگ ہی مبتال ہیں۔‬


‫اس کے پیچھے اطالع ات و معلوم ات ک ا س مندر ٹھ اٹھیں م ار رہ ا ہے۔ یہ خط وط اور‬
‫ہندسوں کا ملغوبہ ہے۔ ہندسے صرف ‪1‬۔ ‪ 0‬ہیں مگر ان کی ترتیب انہیں پیچیدہ بناتی ہے۔‬
‫اس لفظ کی تخلیق کا سہرا ‪ William Gibson‬کے سر ہے۔‬

‫”ص فر س ے ای ک ت ک“ ک ا مرک زی ک ردار زکی ہے۔ وہ منش ی ک ا بیٹ ا ہے اور منش ی‬


‫زمیندار کے تمام حساب کا کئی سالوں سے رکھواال ہے۔ ہوتا کچھ ی وں ہے کہ منش ی ک ا‬
‫بیٹا تمام کھاتوں کو کمپیوٹر میں منتق ل ک ر دیت ا ہے۔ اس س ے یہ ظ اہر ہوت ا ہے کہ ق دیم‬
‫نظ ام ک و ب دال ج ا س کتا ہے۔ زمین دار ک ا ای ک بیٹ ا ہے‪ ،‬جس ک ا ن ام فیض ان ہے۔ وہ‬
‫یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔ اسے کمپیوٹر کے متعلق کچھ زیادہ علم نہیں ہوتا مگ ر وہ اس‬
‫پر ریسرچ ورک لے لیتا ہے اور زکی سے تمام مواد حاصل کر کے اسکالر بن جاتا ہے۔‬

‫ایک لڑکی کا کردار بھی ن اول میں ش امل ہے‪ ،‬ج و زلیخ ا کے ن ام کے س اتھ منظ ر میں‬
‫داخل ہوتی ہے۔ زلیخا پیرس میں مقیم ہے اور زکی کمپیوٹر پر اس س ے ب ات چیت کرت ا‬
‫ہے۔ یہ ن اول ‪ 1970‬س ے ش روع ہوت ا ہے۔ اور اس میں مص نف نے ق دیم اور جدی د کے‬
‫تضاد کو دکھای ا ہے۔ مص نف نے یہ واض ح ک رنے کی کوش ش کی ہے کہ موج ودہ دور‬
‫میں ہم سب عالمی وقت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ای ک ایس ا وقت جس میں فاص لوں‬
‫کا تصور مٹ چکا ہے۔ مصنف اس ب ات ک ا ثب وت زکی کی زلیخ ا س ے ب ات چیت س ے‬
‫دیتے ہیں۔ زکی ایک طرف اپنے گاؤں کی لڑکی سے محبت کرتا ہے‪ ،‬تو دوسری ط رف‬
‫ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھی زلیخا سے بھی گفتگو کر رہا ہے۔‬

‫‪108‬‬
‫صفر اور ایک‪ ،‬دراصل کمپیوٹر کا کل نظام ہے۔ جسے مرزا اطہر بیگ نے قدیمیت اور‬
‫جدیدیت کے تناظر میں رکھ کر یہ بی ان ک رنے کی کوش ش کی ہے کہ ص فر س ے ای ک‬
‫تک پہنچنے میں کتنا وقت درکار ہے۔ مرزا اطہر بیگ لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”کمپیوٹر فالتو باتیں کرنے کی صالحیت نہیں رکھتا جبکہ انسان یہ صالحیت رکھت ا ہے۔‬
‫کمپیوٹنگ‪ ،‬پروگرامنگ۔ مجھے دو اور دو چار بلکہ اب تو کہنا چاہیے کہ ون زیرو اور‬
‫ون زیرو ون زیرو زیرو کی جکڑ بند میں واپس کھینچ التے ہیں۔ اصل جکڑ بند ت و تم ام‬
‫دنیا میں اسی زیرو ون کی ہے۔ سارا کھیل ہی صفر سے ایک تک کا ہے۔ “ ‪6‬‬

‫مرزا اطہر بیگ کا تیسرا ناول ‪ 2014‬ء میں ”حسن کی صورت حال‪ ،‬خ الی جگہیں۔ پ ر۔‬
‫کرو“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس ناول میں مرزا اطہر بیگ نے انسانی زندگی کے اہم‬
‫لوازمات اور بنیادی انسانی خواہشات دولت‪ ،‬شہرت‪ ،‬ع زت اور جنس ک و موض وع بنای ا‬
‫ہے۔ ناول میں تھیٹر اور فلم کا ایک جہ اں آب اد ہے۔ اس جہ اں میں میل وں کی رون ق میں‬
‫سٹیج کے پر لطف من اظر اور س ٹیج کے پیچھے دردن اک واقع ات ہیں۔ اس ن اول میں یہ‬
‫دکھایا گیا ہے کہ انسان خواہشات کی تکمیل میں کیسے کیسے پاپڑ بیلت ا ہے اور کی ا کی ا‬
‫کر جاتا ہے۔ یہ ساری صورت حال زن دہ‪ ،‬گوش ت پوس ت کے ک رداروں کے س اتھ س اتھ‬
‫کچھ غیر جاندار کردار مثًال پیپر ویٹ‪ ،‬میگا ویٹ‪ ،‬بوتل‪ ،‬انگ وٹھی اور گ ول م یز وغ یرہ‬
‫ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔‬

‫بی بی سی کے اینکر نے مرزا اطہر بیگ سے سوال کیا کہ آپ نے ”حس ن کی ص ورت‬


‫حال میں“ سکرین پلے کی جو نئی تکنیک پیش کی ہے‪ ،‬اس کا خیال آپ کو کیسے آیا تو‬
‫انہوں نے یوں جواب دیا‪:‬‬

‫” میں نے پاکستان ٹیلی وی ژن کے ل ئے ‪ 15‬س یریل اور س و س ے زی ادہ ڈرامے تحری ر‬


‫ک یے ہیں۔ ظ اہر ہے کہ اس تحری ری تج ربے نے مجھے س کرین کے ل یے لکھ نے ک ا‬
‫ڈھنگ سکھا دیا تھا۔ لیکن میرے موج ودہ ن اول میں ای ک مکم ل س کرین پلے ک ا در آن ا‬
‫محض اتف اق نہیں تھ ا اور نہ ہی یہ کس ی چ الو فیش ن ک ا شاخس انہ تھ ا۔ بلکہ یہ خ ارجی‬
‫حقیقت کو دو سطحوں پر جانچنے پرکھنے کی ایک مشق تھی۔“ ‪7‬‬

‫اقبال خورشید (بالگ رائٹر) ”حسن کی صورت حال“ پر کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں۔‬

‫‪109‬‬
‫”یہ ناول م رزا اطہ ر بی گ کے دیگ ر ن اولوں س ے مختل ف ہے۔ مم اثلت بس ای ک کلیہ‬
‫شکنی کی خواہش جو اور شدید ہو گئی ہے۔ ناول میں کئی کردار ایک جیسے ناموں کے‬
‫حامل ہیں۔ یہ یکسانیت انتشار کو مہم یز ک رتی ہے۔ آپ ک و س ررئیلزم کی جھلکی اں ملیں‬
‫گی‪ ،‬کچھ عجیب و غریب ادارتی نوٹ۔ سب سے اہم بیانیے میں فلم میکن گ کی تکنی ک‪،‬‬
‫جس نے ناول کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔ دراصل اندرون ن اول ای ک فلم بن رہی ہے۔‬
‫جو یہ فلم نہیں بن سکے گی اور یہ فلم ضرور بنے گی کے درمی ان جھول تی ہے‪ ،‬لط ف‬
‫دیتی ہے۔ “ ‪8‬‬

‫اس ن اول ک ا ذیلی عن وان ہے خ الی جگہیں پ ر ک رو۔ انس ان بہت پیچی دہ ہے اور اس کی‬
‫حقیقی زن دگی اور ظ اہری زن دگی میں ف رق ک ا تعل ق اس کے ذہن س ے ہوت ا ہے۔ بعض‬
‫اوقات انسان کے ساتھ کچھ ایس ے واقع ات رونم ا ہ وتے ہیں کہ اس کی زن دگی میں خال‬
‫پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ اپنے اس خال کو پر کرنے کے لئے مختلف قسم کے ح ربے‬
‫اپناتا ہے اور طرح طرح کے پاپڑ بیلت ا ہے۔ یہی کش مکش ہمیں اس ن اول کے ک رداروں‬
‫میں نظر آتی ہے۔ ان کی حقیقی اور ظاہری زندگی میں اتنا ف رق ہے کہ اس س ے ان کی‬
‫زندگیوں میں خال پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقی اور ظاہری زندگی پر ایک کردار یوں بی ان دیت ا‬
‫ہے ‪:‬‬

‫”یہ جاننا ناممکن ہے کہ کس ی بھی ش خص کی ذاتی حقیقی زن دگی اص ل میں کی ا ہ وتی‬


‫ہے۔“ ‪9‬‬

‫ایک اینکر نے مرزا اطہر بیگ سے سوال کی ا کہ کی ا آپ اس ن اول ”حس ن کی ص ورت‬


‫حال“ سے مطمئن ہیں؟ آپ نے یوں جواب دیا‪:‬‬

‫”اس ناول سے میں کافی مطمئن ہوں کہ جو میں کرنا چاہتا تھا وہ میں نے کیا۔“ ‪10‬‬

‫مرزا اطہر بیگ کا ایک افسانوی مجموعہ ”بے افسانہ“ کے عن وان س ے ش ائع ہ و چک ا‬
‫ہے۔ اس کے متعلق بی بی سی نے رپورٹ شائع کی تھی‪ ،‬رپورٹ میں یوں لکھا ہے ‪:‬‬

‫”کتاب بے افسانہ میں شامل کچھ کہانیاں سن ‪ 70‬کی دہائی میں لکھی گ ئی تھیں اور کچھ‬
‫حالیہ دنوں میں تحری ر کی گ ئیں۔ اس ط رح کت اب ک ا دائ رہ ک ار تیس ب رس س ے زی ادہ‬
‫عرصہ پر محیط ہے۔ کتاب میں کہانیوں کی ترتیب بہت حد تک زمانی ہے یع نی ش روع‬
‫میں پرانی کہانیاں ہیں اور آخر میں تازہ تخلیقات اور یوں افس انوں ک ا یہ مجم وعہ ای ک‬

‫‪110‬‬
‫طرح سے مصنف کے ذہنی اور فنی ارتقاء کی دستاویز بھی بن جاتا ہے۔ “ ایک ناممکن‬
‫کہانی ”راقم کے نزدی ک مجم وعہ کی س ب س ے دلچس پ اور مکم ل ت رین کہ انی ہے‪،‬‬
‫حاالنکہ یہ ایک انتہائی تشنہ موڑ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔“ ‪11‬‬

‫حال ہی میں مرزا اطہر بیگ کا ایک نیا ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کے عن وان‬
‫س ے ش ائع ہ و چک ا ہے۔ اس ک ا موض وع بھیان ک م اورائے عم ومی واقع ات پ ر مب نی‬
‫یادداشتیں ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار سلطان زمان ہے جو خفیف مخفی کے نام س ے‬
‫مختلف رسائل میں مضامین لکھتا ہے۔ اور پ یرا س یکالوجیکل ریس رچر بھی ہے۔ دوس را‬
‫اہم ترین کردار محکم دین ہے جو کہ خفیف مخفی ک ا مالزم ہے۔ ای ک فرانسیس ی ک ردار‬
‫موسیو الفاں کو بھی ناول کے مرک زی ک رداروں میں ش امل کی ا گی ا ہے۔ اس ن اول میں‬
‫پالٹ موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ای ک پالٹ موج ود ہے۔ اور یہی اس ن اول کی خاص یت‬
‫ہے۔‬

‫اس کے عالوہ مرزا اطہ ر بی گ ک ئی طوی ل اور مختص ر پنج ابی اور اردو ڈرامے لکھ‬
‫چکے ہیں۔ ان کی خدمات کی بدولت انہیں حک ومت پاکس تان کی ج انب س ے تمغہ حس ن‬
‫کارکردگی اور ‪ pride of performance‬سے نوازا جا چکا ہے۔‬

‫حواشی‪:‬‬

‫‪ )1‬انور س دید‪ ،‬ڈاک ٹر‪” ،‬اردو ادب کی تح ریکیں“ ‪ ،‬ک راچی انجمن ت رقی اردو پاکس تان‪،‬‬
‫‪ 2021‬ء‪ ،‬ص ‪496‬‬

‫‪” )2‬ممتاز ناول نگار و کہانی نویس مرزا اطہر بیگ“ روز نامہ اٹک نیوز۔‬

‫‪ )3‬مرزا اطہر بیگ‪” ،‬غالم باغ“ ‪ ،‬الہور‪ ،‬سانجھ پبلیکیشنز‪ 2018 ،‬ء‪ ،‬ص ‪11‬‬

‫‪ )4‬رفاقت حیات‪www /‬۔ ‪humsub‬۔ ‪com‬‬

‫‪ )5‬منیر نیازی‪” ،‬آغ از زمس تاں میں دوب ارہ“ ‪ ،‬الہ ور‪ ،‬ش رکت پرنٹن گ پ ریس‪ ،‬اش اعت‬
‫اول‪ ،‬ص ‪14‬‬

‫‪ )6‬مرزا اطہر بیگ‪” ،‬صفر سے ایک تک“ ‪ ،‬الہ ور‪ ،‬س انجھ پبلی کیش نز‪ 2012 ،‬ء‪ ،‬ص‬
‫‪10‬‬

‫‪111‬‬
‫‪ )7‬عارف وقار‪” ،‬مرزا اطہ ر ک ا تیس را ن اول ’حس ن کی ص ورت ح ال‘ “ ‪ ،‬بی بی س ی‬
‫نیوز‪ 4 ،‬جون ‪ 2014‬ء۔‬

‫‪ )8‬اقبال خورشید‪” :‬مرزا اطہر بیگ کی صورت حال“ مشمولہ سنڈے ایکسپریس (فیصل‬
‫آباد ‪ 2‬نومبر ‪ 2014‬ء) ص ‪21‬۔‬

‫‪ )9‬مرزا اطہر بیگ‪” ،‬حسن کی صورت حال“ ‪ ،‬الہ ور س انجھ پبلیکیش نز‪ 2014 ،‬ء‪ ،‬ص‬
‫‪21‬۔‬

‫‪ ) 10‬عاطف بلوچ‪ ‘’ ،‬حسن کی صورت حال ’مرزا اطہر بیگ کا ناول‪ “،‬ڈی ڈبلیو نیوز‪،‬‬
‫‪ 24‬جون ‪ 2014‬ء‬

‫‪ ) 11‬عارف وق ار‪” ،‬اطہ ر بی گ ک ا افس انوی مجم وعہ“ ‪ ،‬بی بی س ی اردو‪ 11 ،‬اکت وبر‬
‫‪ 2008‬ء۔‬

‫فیض احمد فیض کے نام خط‬


‫‪15/02/2023‬‬

‫فیض صاحب!‬

‫میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں۔ ایک اس بنا پر کہ آپ اولڈ راوین ہیں اور دوسری وجہ یہ‬
‫کہ آپ نے زندگی میں ”کچھ عشق کیا‪ ،‬کچھ کام کیا“ اور ادب والوں ک و محنت ک ا درس‬
‫دے گئے۔ آپ شاعر ہیں اور ادب میں آپ کا مق ام بلن د ہے‪ ،‬مگ ر اس ک ا ہرگ ز یہ مطلب‬
‫نہیں کہ آپ اپنی من مانی کرتے پھریں۔‬

‫آج ‪ 13‬فروری ہے اور آج ہی کے دن آپ کا جنم ہوا تھا۔ آج کی تقریب بھی آپ نے اس ی‬


‫خوشی میں ترکیب دی ہے۔ ش اید آپ کے علم میں نہیں کہ ہم آپ ک ا جنم دن ب ڑے اہتم ام‬
‫‪112‬‬
‫س ے من اتے ہیں۔ اس وجہ س ے آپ ک و اپ نے جنم دن کی پ ارٹی کے ل یے ت ردد کی‬
‫ضرورت نہ تھی۔ چلو کوئی بات نہیں۔ جنت میں آپ فارغ ہوتے ہوں گے اور ک وئی ک ام‬
‫کرنے کو نہیں ہو گا تو آپ نے جشن تولد منانے کا پروگرام بنایا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے‬
‫کہ یہ خیال مشتاق احمد یوسفی کی ذہنی اختراع ہو۔‬

‫مگر ایک بات تو بتائیے کہ اس جش ن میں امج د اس الم امج د اور ض یاء محی ال دین ک و‬
‫بالنے کی کیا ضرورت تھی۔ ناصر کاظمی‪ ،‬اقب ال‪ ،‬ن م راش د‪ ،‬اور زی ادہ ش وق ہوت ا ت و‬
‫پطرس بخ اری ک و م دعو ک ر لی تے۔ آپ نے اپ نی محف ل میں لفظی ج ادوگری ک ا رن گ‬
‫جمانے کے لیے ضیاء محی الدین کو دعوت نامہ بھیج دیا۔ آپ کا خط ملے اور وہ انک ار‬
‫کر دیں‪ ،‬ایسا تو ممکن نہ تھا۔ مگر دعوت نامہ بھیجنے سے قبل آپ کو سوچنا چاہیے تھا‬
‫کہ اس رن سے جسے ایک بار بالوا آ جاتا ہے وہ واپس نہیں آیا کرتے۔‬

‫آج آپ کے لیے ”جشن کا دن“ ہے۔ آپ ضیاء صاحب کی آمد پ ر کہہ رہے ہ وں گے ”اج‬
‫آ ویہڑے وچھڑے یار میرے“ اور محفل کے بعد آپ ان کے سامنے اپنے غم عیاں کریں‬
‫گے اور ان کی آواز فکر رف و میں ہ و گی۔ مگ ر ہم ارے ل یے ”یہ م اتم وقت کی گھ ڑی‬
‫ہے۔“ ہم ساکنان جہان خراب بھال کس کی آواز سے روح کے گھأو بھ ریں گے۔ آپ اپ نی‬
‫کرنی تو کر گزرے‪ ،‬کاش ”میرے درد کو جو زباں ملے“ تو آپ کو بتأوں کہ آپ نے کیا‬
‫کیا ہے۔ اردو ادب کو ایک ہی تو قاری مال تھا‪ ،‬اسے بھی آپ نے چراغ محفل بن ا لی ا۔ آج‬
‫سے آپ کی راتیں روشن اور شعلہ ادب سیاہ پوش ہو گی ا۔ آپ نے ض یاء محی ال دین ک و‬
‫کیوں دعوت نامہ بھیجا‪ ،‬اور ہماری دنیا کی آواز کیوں س لب ک ر لی؟ اب یہ نہ کہ یے گ ا‬
‫کہ ”اب کوئی چارہ نہیں“ اور ”غم نہ کر“ کی صورت جھوٹی تسلی نہ دیجیے گا۔‬

‫جواب کا منتظر‬

‫اویس‬

‫اجالسی روحیں‬
‫‪21/02/2023‬‬

‫مأوں کے شہزادوں کو بے حال کرنے کے قانونی ہنر س ے ماالم ال جگہ ہاس ٹل کہالتی‬
‫ہے۔ ہاسٹل ہر اس جگہ پائے جاتے ہیں‪ ،‬جہاں گھر نہ ہوں۔ سول انجینئرز کی نئی تحقی ق‬
‫کے مطابق ہر وہ جگہ ہاسٹل کہالتی ہے‪ ،‬جہاں چار پ انچ لون ڈے ہ ر وقت موج ود ہ وں۔‬
‫‪113‬‬
‫الہور میں وہ طلبہ کثرت سے پائے جاتے ہیں‪ ،‬جو آوارہ منش ہ وتے ہیں۔ ان کی ط بیعت‬
‫پر فاصلے گراں گ زرتے ہیں‪ ،‬اس وجہ س ے ان کی آوارگی ہوٹ ل‪ ،‬س ینما اور دوس توں‬
‫کے ہاسٹل تک محدود ہوتی ہے۔ ان کے اسی طبیعتی وصف ک و م دنظر رکھ تے ہ وئے‪،‬‬
‫الہور انتظامیہ نے ہر گلی محلے میں ہاس ٹل کی ای ک ای ک ب رانچ کھ ول دی ہے۔ مزی د‬
‫سہولت کے پیش نظر ہاسٹل کو ہاسٹل سے راہ دی گئی ہے۔ انہی راہوں میں پائے ج انے‬
‫والی مخلوق عام معنوں میں لونڈے لپاڑی کہالتی ہے۔ اور خاص معن وں میں اس ے کچھ‬
‫کہنے کی ہماری ہمت نہیں ہوتی۔ انہی راہداریوں پر کسی ک ا ف ون بجت ا ہے‪ ،‬ک وئی ک ال‬
‫اٹھائی جاتی ہے‪ ،‬گالی گونجتی ہے اور جگت لگائی جاتی ہے۔ مخلوِق م ذکور ک ا اص ل‬
‫مشغلہ تو سیر سپاٹے ہوتا ہے‪ ،‬کبھی کبھار منہ کا سواد تبدیل کرنے کو کتاب س ے ہ وتی‬
‫ہوئی یونیورسٹی تک کا چکر کاٹ لیتی ہے۔ سیر سپاٹوں کی کئی اقسام ہیں جن ک و ف ردًا‬
‫فردًا بیان کرنا ضروری ہے‪ ،‬مگر دوستانہ تشدد کے پیش نظر موقوف کرتے ہیں۔‬

‫انہیں اقسام میں سے ایک قسم ”ادبی اجالس“ کے نام سے اپنی مقبولیت رکھ تی ہے۔ اس‬
‫قسم کا سفر اشتہار کی تشہیر سے شروع ہوتا ہے اور لونڈوں کی چی مگوئیوں میں س ر‬
‫پٹختا‪ ،‬تنقید برائے قت ل ت ک پہنچ ک ر‪ ،‬چ ائے پ ر اختت ام پ ذیر ہوت ا ہے۔ اس وجہ س ے یہ‬
‫چائے ”چائے برائے اصالح“ کہالتی ہے۔‬

‫جب س ے ہم الہ ور آئے ہیں تب س ے ہم ارا تعل ق اس ی مخل وق کے کنبہ س ے ج ڑا ہے۔‬


‫میری لغت میں لفظ ”کنبہ“ ہاسٹل کا تہذیبی نام ہے۔‬

‫جنوری کی پہلی ٹھنڈی سہ پہر‪ ،‬عبدل کا برقی پیغام آی ا کہ ادبی اجالس کے سلس لے میں‬
‫ادبی چائے خانہ جانے ک ا مغل ظ ارادہ رکھ تے ہیں۔ س فر ش ام میں ش روع ہوگ ا‪ ،‬ہم ارے‬
‫ہاسٹل پہنچ جائیے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ مغلظ ارادہ س ے کی ا م راد ہے۔ خ دا مع اف‬
‫کرے اس سے کوئی خراب مع نی نہ نک الیے گ ا۔ البتہ اگ ر آپ نکلن ا بھی چ اہتے ہیں ت و‬
‫ایسی کوئی قباحت بھی نہیں۔‬

‫اصل میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہم ارے ای ک دوس ت ہیں انع ام ص احب۔ دیکھ نے میں‬
‫چنگے بھلے اور رفت ار میں رکش ہ کے ہم پلہ۔ بق ول عب دل‪ ،‬انع ام کے کم رہ میں داخ ل‬
‫ہونے سے قبل‪ ،‬درودیوار مغلظ نجس فضا بناتے ہیں۔ اور ان کے داخل ہ وتے ہی گالی اں‬
‫گونجتی ہیں۔ یہاں پر گالیاں سے مراد غلیظ گالی اں نہیں بلکہ انتہ ائی مہ ذب غلی ظ گالی اں‬
‫ہیں۔ مغلظ ارادہ سے عبدل کی مراد یہی تھی کہ انعام بھی ساتھ ہوگا۔‬
‫‪114‬‬
‫شام کے وقت جب میں ان کے ہاس ٹل کے دروازے پ ر پہنچ ا‪ ،‬ت و کی ا دیکھت ا ہ وں چ ار‬
‫لونڈے چلے آتے ہیں۔ دو کا ذکر کر چکا اور ب اقی دو میں ای ک ش ہروز تھ ا اور دوس را‬
‫راحت۔‬

‫شہروز اکثر ایک ہی کوٹ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو س ے ش عراء ٹپک تے ہیں اور‬
‫آنکھوں سے شعر۔ رفتار میں یہ انعام سے بھی دو الت آگے ہے‪ ،‬یعنی موٹر سائیکل کے‬
‫ہم پایہ۔ آواز اچھی ہے اس وجہ سے اکثر گنگناتا رہتا ہے‪ ،‬مگر تان دوسرے ہی مص رع‬
‫پر ٹوٹ جاتی ہے۔ تان ٹوٹنے کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔‬

‫راحت اچھا خاصا پٹھان ہے اور پٹھان کی تعری ف ادب میں بہت مل تی ہے‪ ،‬پ ڑھ لیج ئے‬
‫گا۔ ایک خصوصیت یہ ہے کہ تصویر کشی کرتا ہے۔ بس کرتا ہی ہے‪ ،‬تصویریں اص لی‬
‫حق دار کو بھیجنا‪ ،‬ان کی طبیعت کے منافی ہے۔‬

‫ہاسٹل سے نکلے اور مال روڈ پر چمک تی پیلی روش نیوں تلے چل تے چل تے ادبی چ ائے‬
‫خانہ پہنچے‪ ،‬دروازے پر ایک دوست ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ ن ام ب ڑا پ اکیزہ‪ ،‬گفتگ و‬
‫سے علمیت ٹپکتی ہے اور مجازًا مرد ہے۔ مض مون کی ابت داء میں اس تعمال ہ ونے والی‬
‫اصطالح لونڈے لپاڑی کو موجودہ بحث کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں مفہوم واضح ہ و‬
‫جائے گا۔‬

‫خیاالت اور نظریات میں بلندی پیدا کرنے کے ل یے اجالس ہمیش ہ ادبی چ ائے خ انہ کی‬
‫دوسری م نزل پ ر منعق د ہوت ا ہے۔ وہ ال گ ب ات ہے کہ نظری ات بلن د ہ ونے کی بج ائے‬
‫جذبات اور آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ ہم بھی وہاں تشریف لے گئے‪ ،‬م احول خالف توق ع ب ڑا‬
‫دستانہ تھا‪ ،‬یعنی سب کچھ دست و دستی ہ و رہ ا تھ ا۔ ہم ارے یونیورس ٹی کے اس تاد کی‬
‫ترجمہ شدہ کتاب پر ایک مضمون پڑھا جانا تھا اور اسی کی سماعت ہمارا مقص ود۔ کچھ‬
‫اور کت ابیں بھی عت اِب مض امین کی زد میں آن ا تھیں مگ ر ان واقع ات اور ص وتیات ک و‬
‫دیکھنے اور ضبِط سماعت میں النے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھ ا۔ ہم کی وں وہ مض امین‬
‫سننا نہ چاہتے تھے‪ ،‬اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ بات ذکر س ے اوص اِف حمی دہ‬
‫تک پہنچے گی اور کپڑے اتر جانے کا خدشہ الحق ہو جائے گا۔ خدشہ مضامین نویسوں‬
‫کو تو نہیں‪ ،‬بلکہ ہمیں ہے‪ ،‬کہ کپڑے اترنے کے بع د ہم کیس ے لگیں گے۔ کچھ دی ر میں‬
‫اجالس شروع ہوا اور مضمون ختم ہوتے ہی استاد مح ترم چ ل دی ئے۔ ہم بھی اٹھ نے ہی‬
‫کو تھے کہ سر نے زیِر لب کہا‪ ،‬کچھ دیر بعد آئیے گا‪ ،‬ادب کا مضمون ہے۔ شاید وہ بھی‬
‫‪115‬‬
‫یہی چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ ہمارے ادبی خیاالت کے ساتھ ہاتھ ہ و ج ائے‪ ،‬اور‬
‫کپڑے اتارنے کی نوبت آپہنچے‪ ،‬ادب سے باہر آجائیں۔‬

‫کبھی کبھار یونیورسٹی جانے اور کالس میں بیٹھ نے س ے ادب کی ج و س مجھ ہمیں آئی‬
‫تھی‪ ،‬وہ یہی تھی کہ سرد راتوں میں جب دھند فض ا میں معل ق ہ و چکی ہ و‪ ،‬س ڑک پ ر‬
‫چلتے ہوئے کسی ہوٹل پہنچ کر چائے پینا اور قہقہے لگانا۔ سر کے منہ س ے لف ظ ’ادب‘‬
‫سنتے ہی ہماری روح پھڑک اٹھی اور ہم مال روڈ پر اٹکیلیاں کرتے پ رانی ان ارکلی میں‬
‫واقع ایک ہوٹل میں جا دھمکے۔ سردی بڑھ گئی تھی اور شہروز کی ٹوپی سر سے ہ اتھ‬
‫تک کا سفر طے کرتی دس تانہ بن چکی تھی۔ م یز کے گ رد کرس یوں پ ر بیٹھ تے ہ وئے‬
‫چائے کا حکم دیا۔ حکم ہم صرف چائے ک ا ہی دی تے ہیں ک وئی اور ہم س ے س رزد نہیں‬
‫ہوتا۔ ہماری مجازًا مرد دوس ت انع ام س ے واق ف نہ تھی۔ جب ای ک چ ائے میں میٹھ ا کم‬
‫رکھنے کو کہا گیا‪ ،‬تو وہ حیرانی سے ہماری طرف دیکھتے ہ وئے ب ولی‪ ،‬پھیکی چ ائے‬
‫کون پیتا ہے۔‬

‫عبدل نے انعام کا تعارف کرواتے ہوئے کہا‪ ،‬یہ انعام ص احب ہیں۔ انتہ ائی مہ ذب گفتگ و‬
‫فرمایا کرتے ہیں۔ باتوں میں اتنی مٹھاس ہے کہ سامع کو شوگر ہونے کا خطرہ الحق ہ و‬
‫جاتا ہے۔ اس وجہ سے پھیکی چ ائے ن وش کی ا ک رتے ہیں‪ ،‬ت اکہ کچھ ک ڑواہٹ در آئے۔‬
‫ایک دو زی ر لب مس کراہٹیں مس کرائیں اور ب ات دب گ ئی۔ ش ہروز گان ا گنگن انے لگ ا۔‬
‫پھیکی پھیکی واہ واہ ہونے لگی اور ماحول بے تکلف ہوتا گیا۔ مگر دوسرے ہی مص رع‬
‫پر شہروز نے تان توڑ کر پوچھ ا‪ ،‬اس کے مع نی کس ی کی س مجھ میں آئے۔ ہلکی ہلکی‬
‫ہنسی کے ساتھ انعام سے لہریں نکلنا شروع ہوئیں۔ ہ وائی ب اتیں ہ ونے لگیں‪ ،‬قہقہے بلن د‬
‫اور فض ا نجس ہ وتی گ ئی۔ کچھ دی ر بع د جب ہم اری دوس ت پ ر ’مہ ذب‘ کے مع نی وا‬
‫ہوئے‪ ،‬تو ہاسا پڑ گیا۔ راحت کھ ڑا ہ و ک ر قہقہے لگ انے لگ ا۔ چن د لمحے محف ل مہک تی‬
‫رہی۔ چائے پی چکنے کے بعد جب بل دی نے کی ب اری آئی ت و س ب خ واہش ک و دب اتے‬
‫ہوئے بل ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے لگے۔ چائے برائے چ ائے کے معاہ دہ پ ر اتف اق‬
‫کرتے ہوئے شہروز نے بل ادا کیا‪ ،‬اور ہم ہاسٹل کی جانب چل پڑے۔‬

‫معزرت‪ ،‬آپ سے عبدل کا اور اپنا تعارف کروانا تو بھ ول ہی گی ا تھ ا۔ عب دل بن دہ پین ڈو‬


‫ہے۔ اور میں اچھا خاصا پینڈو۔ پھیکی واہ سے مزاح پی دا کرن ا عب دل ک ا مش غلہ ہے اور‬
‫میرا بات بات پر کہنا‪” ،‬دیر ہو رہی ہے۔ “ بات کرنے لگتا ہوں تو دوست اکثر ب ات ک اٹ‬
‫کر کہتے ہیں‪” ،‬آپ کو دیر ہو رہی ہو گی۔ “‬
‫‪116‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫مضمون دوستوں کی خدمت میں پیش کیا اور ہر ایک سے الگ الگ پوچھا کہ اگ ر انہیں‬
‫کچھ اعتراض ہے تو بتا دیں‪ ،‬تا کہ قابِل اع تراض م واد ح ذف ک ر دی ا ج ائے۔ کس ی نے‬
‫ہنسی کی رم جھم کے ساتھ فورًا شائع کروانے کا مشورہ دیا۔ تو کسی نے جھڑک دی ا کہ‬
‫آئندہ اعتراض کی ب ات مت کرن ا۔ تمہ ارے لکھے ہ وئے الف اظ پ ر ہمیں ک وئی اع تراض‬
‫کیسے ہو سکتا ہے۔ (وہ الگ بات ہے کہ میرے بولے ہوئے الف اظ پ ر اک ثر ن وبت تھ پڑ‬
‫تک پہنچ جاتی ہے) اور کہا‪ ،‬ادبی مزاح اسی ک ا ن ام ہے کہ مغل ظ چ یزوں س ے پ اکیزہ‬
‫مسکراہٹ تخلیق کی جائے۔‬

‫عبدل اور انعام ایک ہی ہاسٹل‪ ،‬بلکہ ایک ہی کمرے کے باسی ہیں۔ (باس ی ت و عب دل کے‬
‫کان ہو چکے ہیں‪ ،‬انعام تو نت نئی مغلظ تخلیقات کرتا رہتا ہے)۔ عبدل کو مضمون بھیج ا‬
‫اور رائے چاہی۔ عبدل حسب معمول مضمون کو بآواز بلند پڑھ نے لگ ا‪ ،‬ت اکہ انع ام بھی‬
‫سن سکے۔ مضمون میں بکھری پاکیزگی کو سن کر انع ام بھ ڑک اٹھ ا‪ ،‬مجھے ص لواتیں‬
‫سناتا‪ ،‬عبدل کی جانب متوجہ ہوا‪ ،‬عبدل مسکرا رہا تھا۔ اچانک گ الیوں کی آن دھی ک ا رخ‬
‫عبدل کی طرف مڑ گیا۔ آخر بات مجھ تک پہنچی اور نام تبدیل کرنے کی تجویز پر غور‬
‫و خوض ہونے لگا۔ خدا سے دعا ہے‪ ،‬کہ اب انعام تین چار گالیوں کی س المی کے س اتھ‬
‫ہمارے دیے گئے تحفظ کو سند قبولیت عط ا فرم ائے۔ اور آئن دہ ہمیں مغل ظ آن دھی س ے‬
‫محفوظ رکھے۔‬

‫لونڈے لپاڑے‬

‫‪25/02/2023‬‬

‫نوعمری سے بالغ پن کی راہ میں پڑنے والی منزل ک و نوج وانی کہ ا جات ا ہے۔ نوج وان‬
‫ایسا عجوبہ ہے جس ے س مجھے کے ل یے ش اعر اور ادیب دی وان کے دی وان لکھ گ ئے‬
‫مگر نتیجہ اخذ کرنے سے ناکام رہے۔ کسی نے قاتل رو کہ ا ت و کس ی نے ص یاد پیش ہ ۔‬
‫کوئی گل رو کہہ گیا تو کوئی چنچل ص نم۔ ش اعر لکھ لکھ تھ ک گ ئے مگ ر تس لی بخش‬
‫نتیجہ اخذ نہ کر پائے۔ اس مسلہ پر غور و خوض کرنے اور نتائج تک پہنچنے کے لئے‬
‫کمی ٹی ت رتیب دی گ ئی۔ کمی ٹی نے تحقیقی بنی ادوں پ ر مس لہ ک و ح ل ک رنے کے ل یے‬
‫ہنگامی اجالس بالیا۔ تمام شرکاء جن میں فلسفی ‪ ،‬ش اعر ‪ ،‬ادیب‪ ،‬عاش ق‪ ،‬آوارہ گ رد اور‬
‫کئی عام لوگ شامل تھے‪ ،‬سر جوڑ بیٹھ گ ئے۔ غ وروفکر ش روع ہ وئی۔ ک ئی ہف تے بع د‬
‫‪117‬‬
‫اجالس کے شرکاء ایک نکتہ پ ر متف ق ہ وئے۔ ص در کمی ٹی نے نت ائج ک ا اعالن ک رتے‬
‫ہوئے کہا کہ تمام شرکاء کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ نوجوان ”لون ڈے لپ اڑے“ ہ وتے‬
‫ہیں۔ اور لونڈے لپاڑے کی وض احت کرن ا ایس ا ہی ہے جیس ا اس ب ات پ ر بحث کرن ا کہ‬
‫مرغی پہلے آئی یا انڈا۔ نوجوان کی یہ تعریف جامع ہ ونے کے ب اوجود کچھ لوگ وں کے‬
‫ہاں سطحی قرار پائی اور ہر کوئی نوجوان کو ایک راہ پر چال کر ایک منزل دیکھ ا ک ر‬
‫نئی تعریف پیش کرنے کی سعی میں سرگرداں ہو گیا۔ ہم ارے عالمہ اقب ال‪ ،‬ش اعر اور‬
‫عاشق مزاج ہونے کے ساتھ فلسفی بھی تھے۔ انہوں نے تخیل کی پرواز میں محو ہوتے‬
‫ہوئے نوجوان کو پہاڑوں کی چوٹیوں کی راہ دیکھاتے ہوئے۔ کہا‬

‫” نہیں تیرا نشیمن قصِر سلطانی کے گنبد پر‬

‫تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔”‬

‫اور نوجوان کی نئی تعریف ” نوجوان شاہین ہے“ پیش کر دی۔ نئی تعری ف ہنگ امہ خ یز‬
‫ثابت ہوئی اور تنقیدی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ نئی تعریف پر تنقید میں نی ا م وڑ آی ا اور‬
‫نئی بحث چھڑ گئی۔ کوئی اقبال کے حق میں تو کوئی خالف تھا۔ نیام دین عرف ایرا غیرا‬
‫نے کھل کر اقبال کے حق میں بیان دیے اور اپنا تحقیقی مقالہ پیش کر دیا جس میں اقب ال‬
‫کی کی گئی تعریف کو جامع اور موزوں قرار دیا گیا تھا۔ نی ام دین ع رف ای را غ یرا نے‬
‫ایک اجالس میں اپنا تنقیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا‪:‬‬

‫”اقبال‪ ،‬ای ک فلس فیانہ اور زرخ یز ذہ نیت کے حام ل ش اعر ہیں۔ انہ وں نے نوج وان کی‬
‫تعریف میں جو نیا مفروضہ پیش کیا ہے۔ اس کے درپردہ وہ خصوص یات مخفی ہیں ج و‬
‫شاہین نام کے پرندے ک و ق درت کی ط رف س ے عط ا ک ردہ ہیں۔ اور وہی خصوص یات‬
‫مخفی آج کے نوجوان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ “‬

‫اتنے میں مسٹر جلد باز نے نیام دین عرف ایرا غیرا کو ہ اتھ کے اش ارہ س ے ای ک منٹ‬
‫خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اپنا منہ ان کے کان کے قریب کرتے ہوئے کہا ” جن اب‬
‫جلدی اپنا مدعا بیان کریں۔ ابھی آپ کو حجام مانی کی دوکان ک ا افتت اح ک رنے بھی جان ا‬
‫ہے۔ “‬

‫مسڑ جلد باز کی بات سن کر نی ام دین ع رف ای را غ یرا دوب ارہ ع وام کی ج انب مت وجہ‬
‫ہوئے اور کہنا شروع کیا۔‬

‫‪118‬‬
‫اگر ان تمام خصوصیات کو فردًا فردًا بیان کیا گیا تو اصل مدعا پایہ تکمیل تک پہنچ نے‬
‫کی سعی میں ہی دم توڑ ک ر بھٹ ک ج انے والے گمن ام مس افر کی ط رح‪ ،‬بے م نزل رہ‬
‫جائے گا۔ اسی لیے یہاں صرف دو تین خصوص یات کی ج انب آپ کی ت وجہ دالت ا ہ وں۔‬
‫پہلی ص فت یہ ہے کہ ش اہین رات ک و آرام اور دن کے وقت طع ام اور ب اقی مع امالت‬
‫سرانجام دیتا ہے‪ ،‬دوسری صفت جو باقی پرندوں سے اسے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ‬
‫وہ اپنا رزق‪ ،‬جو خدا کی طرف سے اس کے نصیب میں پہلے ہی لکھا جاچکا ہے‪ ،‬خ ود‬
‫تالش کرتا ہے اور کسی دوسرے پرندے کا سہارا نہیں لیتا بلکہ اپنی قوت اور طاقت پ ر‬
‫بھروسہ ک رتے ہ وئے راس تہ اکیال ہی طے کرت ا ہے۔ یہی خصوص یات آج کے نوج وان‬
‫میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کا نظریہ انتہ ائی م وزوں ہے کہ‬
‫”نوجوان شاہین ہے۔“ “ ہال تالیوں کی گونج سے مہ ک اٹھ ا۔ اور نی ام دین ع رف ای را‬
‫غیرا سٹیج سے اترتے ہوئے حجام کی دوکان کا افتتاح کرنے چل دئیے۔‬

‫کئی سال اس تعریف کو قانون کی سی حیثیت حاصل رہی اور ہ ر تحقیقی مق الہ کی بنی اد‬
‫قرار پاتی رہی۔ ستر اسّی سال بعد شکیل چتروتی عرف سوش ی نے نوج وان کی تعری ف‬
‫پر مقالہ لکھتے ہوئے نیا مفروضہ پیش کر دیا۔ ایک اخباری رپوٹر کو بیان دیتے ہ وئے‬
‫انہوں نے کہا۔‬

‫”جس وقت اقبال نے نوجوانوں کو شاہین کہا‪ ،‬اس وقت نوج وان میں کچھ ک ر ج انے کی‬
‫تڑپ اور کچھ پا لینے کا جذبہ اور حوصلہ موجود تھا۔ مگر موجودہ تناظر میں جب دنیا‬
‫کا تصور انٹرنیٹ کے بغیر تقریبا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اقبال کا پیش کیا گی ا مفروض ہ‬
‫”نوجوان شاہین ہے“ ادھورا ہے اور نا صرف ادھورا ہے بلکہ رد کئے جانے کے قابل۔‬
‫اور میں غالب یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگ ر آج اقب ال اس ع الم ف انی میں موج ود‬
‫ہوتے تو وہ اپنے مفروضہ پر نظ ر ث انی ک رتے ہ وئے‪ ،‬خ ود ہی اس ے قط ع ک ر دی تے۔‬
‫موجودہ تناظر میں میں ”تو الو ہے بسیرا کر پہاڑوں کی غاروں میں۔ “ کہتا ہوا نوجوان‬
‫کی تعریف میں نیا مفروضہ پیش کرتا ہوں کہ ” نوج وان ال و ہے“ اب س وال یہ ہے کہ‬
‫ایسا کیوں؟ اس سوال نے آپ کے ذہن کی کسی گمن ام جگہ میں س ر اٹھ انے کی کوش ش‬
‫ضرور کی ہوگی۔ اس سوال کا جواب دی نے س ے قب ل میں ال و کی چن د خصوص یات ک ا‬
‫تذکرہ کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔“‬

‫رپ وٹر‪” :‬اج ازت! دنی ا بے ت اب ہے۔ ن ئے مفروض ہ کی وض احت چ اہتی ہے۔ آپ بی ان‬
‫کرتے جائیں۔“‬
‫‪119‬‬
‫”الو صبح کو سوتا ہے اور رات کو جاگتا ہے‪ ،‬کسی دوسرے پرندے کے ساتھ ‪ ،‬س وائے‬
‫اپنی برادری کے چند پرن دوں کے‪ ،‬کچھ واس طہ نہیں رکھت ا۔ ان دو خصوص یات ک و ہی‬
‫بنیاد بنائے اگر موجودہ نوجوان کی زندگی ک و س مجھنے کی کوش ش کی ج ائے ت و پہال‬
‫ثبوت ہمیں یہی ملے گا کہ دوِر جدید کا نوجوان دن کو سوتا ہے اور رات ک و جاگت ا ہے۔‬
‫شام پ ڑتے ہی ان کی آنکھیں ایس ے کھ ل ج اتی ہیں جیس ے روٹی ک و دیکھ ک ر بھ وکے‬
‫غریب کا منہ۔ کوئی فلم دیکھنے میں مح و ہوت ا ہے ‪ ،‬ت و ک وئی گیم کی تخیالتی دنی ا میں‬
‫کھویا دشمن کو ختم کرنے کی سعی میں سرگرداں۔ ان کو کچھ خ بر نہیں ہ وتی کہ س اتھ‬
‫والے کمرے‪ ،‬بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ س اتھ والے بس تر پ ر پ ڑے ہ وئے انس ان‬
‫کے کی ا م زاج اور ح االت ہیں۔ یع نی س یدھے الف اظ میں ال وؤں کی ط رح انہیں ایس ا‬
‫محسوس ہوتا ہے کہ ساتھ واال ان کی برادری ک ا نہیں اور اگ ر انہ وں نے اس س ے کالم‬
‫کر لیا تو برادری بدر کر دیا جائے گا۔ اس لیے ایک دوس رے س ے گفتگ و نہیں ہ و پ اتی‬
‫اور دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن پو پھوٹ نے کے س اتھ ہی س و ج اتے ہیں۔ اس س ے یہ‬
‫ثابت ہوتا ہے کہ ” نوجوان الو ہے۔“ بلکہ ہم سب الو ہیں۔ “‬

‫”ایک منٹ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“‬

‫رپوٹر‪” :‬آپ کون ؟“‬

‫”لکھاری “‬

‫”کیا کہنا چاہتے ہیں‪ ،‬آپ ؟“‬

‫”الوؤں سے اس گستاخی کی معافی طلب کرنا چاہت ا ہ وں ج و میں نے ال وؤں ک و ال وؤں‬


‫سے تشبیہ دیتے ہوئے کی ہے۔“‬

‫رپوٹر‪" :‬جی تو سوشی صاحب آپ کچھ کہنا چاہیں گے۔“‬

‫الم‪ ،‬دکھ کی انتہا‬

‫‪22/03/2023‬‬

‫‪120‬‬
‫مجھے یہ دکھ ہے کہ شب کی دہلیز پر سورج مر گی ا اور رات نے خ بر ت ک نہ لی۔ اس‬
‫سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ سورج کی روشنی سے چمکنے واال چاند اس کا ہمدرد بننے‬
‫کی بجائے اس کی جگہ نمودار ہوا اور اپنی دھاک بٹھانے لگا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ دریا سسک سسک کر مرتا رہا اور بارش نے ادھر کا رخ نہ کیا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک گلی میں صف ماتم بچھی تھی تو دوسری گلی رقص و سرور‬
‫کا جشن منایا جا رہا تھا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ میں اس ملک ک ا رہ نے واال ہ وں ‪ ،‬جس میں ای ک قت ل ک رنے پ ر‬


‫سزائے موت اور ایک ہزار قتل کرنے پر تمغہ ملتا ہے۔ ایک چوری کرنے پ ر جی ل کی‬
‫سالخیں مقدر بنتی ہیں تو پورا ملک لوٹ لینے پر وزیراعظم کا درجہ دیا جاتا ہے۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ بیس واؤں نے ملکی غ یرت کی وجہ س ے اپ نے جس م دش من کے‬


‫ہاتھوں فروخت نہ کیے مگر حکمرانوں نے ملک بیچ دیے۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک گھڑی کی وجہ س ے مل ک میں ہنگ امے برپ ا ہ و گ ئے ‪ ،‬اور‬
‫پنتالیس ہزار ایکڑ زمین کی منتقلی پر مکمل سکوت رہا۔‬

‫مجھ یہ دکھ ہے کہ ایک کونج اپنے ڈار سے بچھڑ گ ئی اور تنہ ائی کی س ولی چ ڑ گ ئی۔‬
‫اور ڈار نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ معاشرے نے خواجہ سرا کو قبول نہ کیا اور وہ جنسی درن دگی ک ا‬
‫شکار بن کر اپنی زندگی کی شمع کی روشنی سے محروم رہ گیا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ دو بھائیوں کی ماں کی بے کفن الش کم رے میں پ ڑی تھی اور وہ‬
‫نشہ کرنے میں مشغول تھے۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک لڑکی نے ماں باپ ک ا س ہارا بن ک ر ث ابت ک ر دی ا کہ وہ بھی‬


‫سب کچھ کر سکتی ہے۔ مگر معاشرے نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ معاشرے نے یہ تقسیم ہی کی وں کی کہ وہ ل ڑکی ہے‪ ،‬لڑک ا ہے ی ا‬


‫خواجہ سرا۔‬

‫‪121‬‬
‫مجھے یہ دکھ ہے کہ فقیر کی مزار پر چادر چڑھائی گئی مگر اس بیٹی کی چ ادر کھینچ‬
‫لی گئی‪ ،‬جو جہیز لے کر نہ آئی تھی۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ رات کی ت اریکی میں ای ک ع زت ک و نیالم ک ر دی ا گی ا اور تن‬


‫ڈھانکنے کے لیے اس کا سایہ بھی اس کے ساتھ نہ رہا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ ہوس کو محبت کا نام دیا گیا اور ایک ناج ائز بچہ اس کی نش انی ‪،‬‬
‫گلیوں میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا۔‬

‫مجھے یہ غم ہے کہ میں کسی کو اپن ا دوس ت نہ بن ا س کا۔ اور المیہ ہے م یرے ل یے کہ‬
‫میں خود کو اس کام کا اہل بھی نہیں پاتا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں۔ دوستی روح سے آشنائی کا نام ہے۔ مجھے‬
‫جو بھی مال کام سے آشنا مال۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ گاڑی خریدنے کے بعد اس پر لکھوا دیا گی ا "م اں کی دع ا" ‪ ،‬اور‬
‫باپ کے ان چھالوں پر مرہم نہ رکھا گیا جو اوالد کو کامیاب دیکھنے کے ل یے کی گ ئی‬
‫محنت کی وجہ سے پڑے تھے۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ آدمی بوڑھا ہو گیا مگر اس کی ہوس ختم نہ ہوئی۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ غلط وقت پر ل وگ چیخ تے رہے اور جب بول نے ک ا وقت آی ا ‪ ،‬ان‬
‫کی زبانوں کو قفل لگ گئے۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ اس لڑکے کا کیا بنے گا جس کا سارا مستقبل لیپ ٹاپ میں بن د تھ ا‬
‫اور لیپ ٹاپ چوری ہو گیا۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ واقعہ زمان پارک میں ہوتا ہے اور عذاب جی سی یونی ورسٹی پر‬
‫ٹوٹ پڑتا ہے اور تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی جاتی ہیں۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ انفرادی خرابی کو خرابی تسلیم کیا جاتا ہے مگر اجتم اعی خ رابی‬
‫فیشن قرار پاتی ہے۔‬

‫مجھے یہ دکھ ہے کہ ہماری معصومیت معاشرے کی کثافت سے اس قدر ملوث ہ و گ ئی‬


‫کہ اپ نی اص لیت مٹ ا بیٹھی۔ اور اب اس کی تالش میں ص دیوں س ے در در کی خ اک‬

‫‪122‬‬
‫چھاننے میں سر گرداں ہے۔ مگ ر ج وں ج وں علمیت میں اض افہ ہوت ا جات ا ہے وہ اپ نی‬
‫اصلیت سے مزید دور ہوتی جاتی ہے۔‬

‫میں اس سوچ میں محو اور پریشان ہوں کہ کیا یہ سب ازلی ہے یا زمینی۔ مجھے یہ فکر‬
‫ہے کہ یہ زمینی ہے۔ اور زمینی چیز جب ایک بار وجود میں آ جاتی ہے اس ے ختم نہیں‬
‫کیا جا سکتا۔‬

‫فاصلوں کا ہم نشیں‬

‫‪01/04/2023‬‬

‫زندگی میں کچھ ایسے عجب واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ‪ ،‬جنہیں انس ان کبھی فرام وش‬
‫نہیں کر پاتا۔ ایک پ ل میں ص دیوں کے رش تے بکھ ر ج اتے ہیں۔ ت و کبھی راہ گ زر پ ر‬
‫ایسے لوگوں سے سامنا ہو جاتا ہے جن سے مل کر محس وس ہوت ا ہے کہ ص دیوں س ے‬
‫آشنائی ہو۔ زندگی ‪ ،‬وقت کی بہتی لہروں کا ن ام ہے۔ واقع ات‪ ،‬ان لہ روں میں تالطم برپ ا‬
‫کرنے کا باعث بنتے ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک عجب مگر دلچسپ حادثہ ہوا۔‬

‫بات ہے بیس سو اٹھارہ کی۔ میں گورنمنٹ ہائی سکول میں جماعت دہم سائنس ک ا ط الب‬
‫علم تھا۔ وقت خوشی سے گزرتا تھا۔ پریشانی تھی نہ کوئی آرزو۔‬

‫فکر مآل تھی نہ غم روزگار تھا‬

‫ای ک روز م یرے ہم جم اعت س اتھی نے مجھے بتای ا کہ دہم آرٹس ک ا ای ک ط الب علم‬
‫تمہارا دوست بننا چاہتا ہے۔ تب میں قدرے شرمیال ہوا کرت ا تھ ا اور دوس ت بنان ا مجھے‬
‫اچھا نہیں لگتا تھا۔ یوں سمجھیے کہ دوستی کے فن سے عاری تھا۔ بات ہنس کر ٹال دی۔‬
‫یعنی‬

‫جو کہا تو سن کے اڑا دیا۔‬

‫ایک دو بار یہی ب ات دوب ارہ چھ ڑی‪ ،‬کبھی کبھ ار راس تے میں مالق ات ہ و ج اتی۔ مگ ر‬
‫دوستی نہ ہو س کی۔ وقت گزرت ا گی ا‪ ،‬آج ک ل ہوت ا گی ا اور دن ہ وا ہ وتے گ ئے‪ ،‬ہم ارے‬

‫‪123‬‬
‫امتحان مکمل ہوئے اور سکول سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ای ک م اہ بع د ای ک ل ڑکے نے‬
‫مجھے فون کیا اور کہا کہ ”میں نے تمہارا نمبر جماعت دہم آرٹس کے طالب علم اب وذر‬
‫کو دیا ہے اور اس کا نمبر تمہیں بھیج رہا ہوں۔“ میں نے کہا ”اچھ ا۔“ اور ف ون رکھ دی ا۔‬
‫اور موصول شدہ نمبر پر میسج کیا۔ دن تھا ‪ 21‬اپریل ‪2018‬ء۔ چن د ب اتیں ہ وئیں ‪ ،‬مجھے‬
‫وہ کافی معقول لگا۔ اور تعلیم میں بھی اچھا تھا۔ یوں ہماری دوستی کی شروعات ہوئی۔‬

‫موصوف کا تعلق کھ رل خان دان کے متم ول گھ رانے س ے ہے۔ پیش ے کے لح اظ س ے‬


‫موروثی کسان ہیں۔ تعلیم سے کافی لگاؤ ہے۔ اس کے بڑے بھائی ای ک س رکاری س کول‬
‫میں ماسٹر ہیں۔‬

‫شکل و صورت سے‪ ،‬کافی سے زیادہ خوبصورت ہے۔ گول چہرہ‪ ،‬کشادہ پیش انی‪ ،‬لم بی‬
‫آنکھیں‪ ،‬اجال گن دمی رن گ‪ ،‬مناس ب ن اک‪ ،‬لب نہ ہی زی ادہ پتلے اور نہ زی ادہ م وٹے‪،‬‬
‫ٹھوڑی کے بائیں جانب تل‪ ،‬ہلکی داڑھی‪ ،‬گھنی مونچھیں‪ ،‬سر کے بال چھوٹے‪ ،‬ق د پ انچ‬
‫فٹ تین انچ‪ ،‬اور عمر یہی کوئی بیس بائیس برس۔ کل مال کر‪ ،‬آنکھوں کو بھا جانے والی‬
‫صورت اور دکھنے میں قدرتی معصوم۔‬

‫کھانے میں اسے کچھ زیادہ پسند نہیں‪ ،‬ناشتے میں دہی اور پراٹھا م ل ج ائے ت و خوش ی‬
‫سے کھا لیتا ہے۔ البتہ کوئی ممانعت بھی نہیں کہ ناش تے میں یہی چ یزیں ہون ا الزم ہے۔‬
‫چکن پالؤں شوق سے کھاتا ہے۔ اس کے عالوہ جو مل جائے ‪ ،‬بغیر ناک بھوں چڑھائے‬
‫کھا لیتا ہے۔‬

‫خوش لباسی اس کی خاصیت ہے۔ اکثر ک رتہ پاج امہ میں پای ا جات ا ہے۔ جب کھیت وں کی‬
‫ط رف جات ا ہے ت و ٹی ش رٹ پہن رکھی ہ وتی ہے۔ ٹ راؤزرز اور ٹی ش رٹ کے س اتھ‬
‫کرکٹ کھیلنے جاتا ہے۔ سردی کے موسم میں ہر لب اس کے س اتھ ک وٹ پہ نے رہت ا ہے۔‬
‫چشمہ کا اس تعمال بہت کم کرت ا ہے۔ گرمی وں میں ہ ر قس م کے لب اس کے س اتھ کیپ ک ا‬
‫استعمال اضافی ہے۔ جب ل و چل تی ہے ت و پنج ابی ص افحہ (چ ادر) ش انہ پ ر ہ وتی ہے۔‬
‫جوتوں میں جوگرز ‪ ،‬سنیکرز اور کھیڑی کا استعمال بکثرت کرتا ہے۔‬

‫کہا جاتا ہے کہ رشتے اور دوستی وہاں مضبوط ہ وتی ہیں جہ اں فاص لے نہ ہ وں۔ مگ ر‬
‫ہماری دوستی پر یہ منطق منطبق نہیں ہوتا۔ ہماری دوستی ک و پ انچ س ال ہ ونے ک و آئے‬
‫ہیں‪ ،‬اس دوران ہم نے شاید ہی گھنٹہ بھر ایک جگہ اکٹھے بیٹھ ک ر گ زارا ہ و۔ مگ ر اس‬
‫کے باوجود دوستی کی مضبوطی اور شدت میں کمی نہیں آئی۔ م یری بچپن س ے ع ادت‬
‫‪124‬‬
‫ہے کہ دوستوں سے ملنے نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں اپنے ہاں مدعو کرت ا ہ وں۔ اس وجہ‬
‫سے مہینوں‪ ،‬دوستوں سے مالقات نہیں ہو پاتی۔ سال بیس س و ب ائیس میں‪ ،‬میں نے ای ک‬
‫ساتھ تین چار کامیابیاں سمیٹیں تو سوچا دوستوں کے ساتھ خوشیاں ب انٹی ج ائیں۔ دع وت‬
‫کا اہتمام کیا اور اپنے تمام دوستوں کو‪ ،‬جو بمشکل تین چار ہیں ‪ ،‬م دعو کی ا۔ ان ص احب‬
‫کو خصوصی دعوت دی اور بار بار تاکید کی کہ وقت مقرر پر پہنچ جائیے گا۔‬

‫سب دوست بیٹھے ہیں اور ابوذر کا انتظار ہو رہا ہے۔ کوئی پ ون گھن ٹے کی دی ری کے‬
‫بعد‪ ،‬کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک پر س ے چلے آتے ہیں۔ اٹھ ک ر اس تقبال کی ا اور گلے ملے۔‬
‫ملنے کے انداز سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے‬

‫اگلے ملنے کی طرح بھول گئے‪ ،‬وہ طرح جو فون پر باتوں س ے عی اں ہ وتی ہے۔ ش اید‬
‫اس کی وجہ بھی چہرہ بہ چہرہ‪ ،‬رو برو مالقات کا نہ ہونا ہو۔‬

‫چار پانچ منٹ بعد تکلف کی فضا چھٹنے لگی۔ اور ع ام گفتگ و ش روع ہ وئی۔ اس دن پتہ‬
‫چال کہ اس کی رگ رگ میں گاؤں کی مٹی سرائیت کیے ہوئے ہے۔‬

‫جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں ای ک ہی جگہ ‪ ،‬ای ک دوس رے کے س اتھ ہم نے بہت کم‬
‫وقت گزارا ہے۔ ہاں البتہ فون پ ر ہ ر دوس رے دن ب ات ہ وتی ہے۔ اس کی شخص یت میں‬
‫ایک شرمیال پن ہے‪ ،‬اس وجہ سے وہ اپنے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا۔ اس کا اندازہ‬
‫اس بات سے لگائیے کہ فیس بک پر اپنا اصلی نام استعمال نہیں کرتا‪ ،‬صرف اپنی ذات (‬
‫کھرل) کے نام سے اکاؤنٹ بنایا ہوا ہے۔‬

‫اس کے اندر دوسروں کو کنٹرول کرنے کا مادہ زی ادہ ہے۔ ش اید یہ خاص یت وراثت کی‬
‫دین ہے۔ میرے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی وہ اپنی ب ات من وانے اور اپ نے نظری ات ک و‬
‫صحیح ثابت کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کی حرکات‪ ،‬مذاق اور باتوں ک ا انحص ار م زاج‬
‫پر ہوتا ہے۔ اگر اس کا بات کرنے کا من ہے تو فون کرے گا اور ب اتیں کرت ا چال ج ائے‬
‫گا۔ اور اگر کسی وجہ سے کال اٹینڈ نہ کی جائے‪ ،‬تو تین چار بار مسلسل کال ک رے گ ا۔‬
‫اس سے بھی بات نہ بنی تو میسج کرے گا۔ اور اگر بات کرنے کا من نہیں تو ک ال اٹھان ا‬
‫تک مناسب نہیں سمجھتا۔ مذاق بہت کم کرتا ہے اور اگر م ذاق ک رنے ک ا م وڈ نہ ہ و ت و‬
‫دوسروں کے مذاق کرنے پر برہم ہ و جات ا ہے۔ اور م زاج کب ب دل ج ائے کچھ پتہ نہیں‬
‫چلتا۔ یعنی‬

‫‪125‬‬
‫مزاج یار کا عالم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے‬

‫کھی ل میں ک رکٹ پس ند ہے۔ ہ ر روز تین چ ار گھن ٹے اس ک ا ش غل فرم اتے ہیں۔ اس‬
‫پس ندیدگی کے س وتے چن د کھالڑی وں س ے پھوٹ تے ہیں جن میں انگلس تان کے ‪Jason‬‬
‫‪ Roy‬اور پاکس تان کے ب ابر اعظم س ر فہرس ت ہیں۔اس کے س اتھ دو ای ک خ واتین‬
‫کھالڑیوں کو بھی پسند کرتا ہے۔‬

‫ہماری جب بھی بات ہوتی ہے تو گفتگو کا محور تین چار مخصوص موض وعات ہ وتے‬
‫ہیں۔ اور پانچ سالوں میں ان موضوعات میں کسی قسم کی رد و ب دل اور تب دیلی نہیں کی‬
‫گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوت ا ہے کہ وہ چن د موض وعات اس کی شخص یت ک ا مس تقل‬
‫حصہ ہیں‪ ،‬اس وجہ سے وہ بات کو گھما پھرا کر انہی موض وعات کی ط رف م وڑ دیت ا‬
‫ہے۔‬

‫ہمیں ایک دوسرے سے افالطونی قسم کی محبت (‪ )Platonic Love‬ہے۔ ہم س ے ای ک‬


‫دوسرے کی اداسی دیکھی نہیں جاتی۔ ایک اداس ہو تو‪ ،‬اس ک ا اث ر دوس رے پ ر بھی ہ و‬
‫جاتا ہے۔ تین چار دن بات نہ ہو پائے ت و ایس ا محس وس ہوت ا ہے کہ کس ی چ یز کی کمی‬
‫ہے۔ اور جیسے ہی کال آتی ہے‪ ،‬ایک دوسرے کی آواز س ن لی تے ہیں‪ ،‬وہ کمی دور ہ و‬
‫جاتی ہے۔‬

‫وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے‬

‫اور یہی وہ روشنی ہے جو اداسی کے اندھیرے کو چاک کر دیتی ہے۔‬

‫اس کے ساتھ جو لمحات گزرتے ہیں‪ ،‬ان کا بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ بس اتن ا کہ ا ج ا‬
‫سکتا ہے کہ‪:‬‬

‫مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر‬

‫وہ ایک لمحہ جو یاروں کے درمیاں گزرے‬

‫فن اور اخالقیات‬


‫‪24/04/2023‬‬
‫‪126‬‬
‫فن ایک عمل خالص کا نام ہے۔ ایسا عمل جو اندرونی تح رک کی بن ا پ ر ابھرت ا ہے اور‬
‫کسی بھی قسم کی جکڑ بندیوں س ے آزاد ہوت ا ہے۔ نق الی ک ا ن ام فن نہیں بلکہ یہ ن ام ہے‬
‫موجود امثال میں جدت التے ہوئے نقطٔہ کم ال کی ج انب بڑھن ا۔ فن ک و س ات اقس ام میں‬
‫تقسیم کیا گیا ہے جنہیں اصطالح میں فن ون لطیفہ کہ ا جات ا ہے۔ اس میں فن تعم یر (روم‬
‫میں پینتھیان‪ ،‬مص ر میں اہ رام‪ ،‬اور بھ ارت میں ت اج مح ل اس کی مث الیں ہیں ) ‪ ،‬رقص‬
‫( انتہائی قابل ذکر رقص کام ڈومینیکو ڈ پیاسنزا‪ ،‬ماریس پیٹیپا‪ ،‬ایگریپینا واگینووا ی ا ہانی ا‬
‫ہ ولم کے تھے ) ‪ ،‬ادب (میم ون بن قیس‪ ،‬ولیم شیکس پیئر‪ ،‬کن گ ای ڈورڈ‪ ،‬الرڈ ب ائرن‪،‬‬
‫رودکی‪ ،‬چیخوف‪ ،‬م یر تقی م یر‪ ،‬اور غ الب وغ یرہ کی امث ال س امنے ہیں ) ‪ ،‬مص وری‬
‫(ای ورورڈ منچ‪ ،‬پکاس و‪ ،‬اٹاپورک ا‪ ،‬لیون ارڈو ڈ ونچی کی پینٹنگ ز) ‪ ،‬س نگ تراش ی‬
‫( ڈسیکوبولو ڈی میرن ڈی ایلیوٹراس‪ ،‬ایسٹر جزیروں کا مویا‪ ،‬ری و ڈی جن یرو ش ہر میں‬
‫مسیح دی فدیہ یا مائیکل جیلو کے ذریعہ پیئٹا مشہور سنگ تراشی کی کچھ مثالیں ہیں ) ‪،‬‬
‫اور سینما شامل ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا کہ قدیم یونان میں ارسطو نے کس طرح فن کو دو‬
‫اقسام میں تقسیم کیا اور کسی ط رح بیس ویں ص دی عیس وی ت ک آتے آتے اس کی س ات‬
‫اقسام قرار پائیں‪ ،‬مضمون کو طول دینے کا باعث ہو گا۔‬

‫فن پر روشنی ڈالنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ اخالقیات کس چیز‬
‫ک ا ن ام ہے۔ اخالقی ات‪ ،‬اخالق کی جم ع ہے ج و کہ فلس فہ کی ای ک ش اخ ہے جس میں‬
‫معاشرے کی اخالقی اقدار پر بحث کی جاتی ہے۔ بعض مفکرین اخالقیات کو زندگی کے‬
‫فن کی داستان قرار دیتے ہیں۔ اخالقیات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‬

‫مذہبی اخالقیات‬ ‫‪.1‬‬


‫معاشرتی اخالقیات‬ ‫‪.2‬‬

‫اواللذکر میں کوتاہی گناہ اور موخر الذکر میں جرم قرار پاتی ہے۔ یہ بحث بھی یہاں غیر‬
‫موزوں معلوم پڑتی ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ کس ط رح اخالقی ات م ذہبی تن اظر س ے‬
‫سیکولر تناظر میں داخ ل ہ وئیں۔ البتہ اتن ا بی ان ک ر دین ا ض روری ہے کہ اس عم ل میں‬
‫سگمنڈ فرائڈ‪ ،‬کارل مارکس‪ ،‬یووال ہراری‪ ،‬ابراہم ماسلو‪ ،‬وکٹر فرینکل اور کارل روجرز‬
‫جیسے ماہرین کا ہاتھ ہے۔‬

‫اب سوال یہ ہے کہ فن اور اخالقیات کا کیا تعلق ہے؟‬

‫اس موضوع کو دو تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔‬


‫‪127‬‬
‫‪ )1‬فن اور اخالقیات‬

‫‪ )2‬فنی اخالقیات‬

‫فن اور اخالقی ات میں س ب س ے ض روری چ یز یہ ہے کہ کس ی بھی فن کی تخلی ق کے‬


‫وقت یہ بات ملح وظ خ اطر رہے کہ فن ع وامی چ یز ہے اور اس ک و ع وام کے س امنے‬
‫پیش کیا جانا ہے۔ اس لیے کسی ایسی چیز کو فن کا عنصر نہ بنایا ج ائے ج و معاش رتی‬
‫اخالقی مسلمات کے خالف ہو۔ یعنی فن ایس ا نہ ہ و کہ اس س ے ع وام میں چ وری‪ ،‬ڈاک ا‬
‫زنی‪ ،‬عصمت دری‪ /‬عصمت فروشی وغیرہ کی خواہش پروان چڑھے۔‬

‫قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ‬

‫”اور شعرا‪ ،‬تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے ل وگ چل تے ہیں۔ کی ا تم دیکھ تے نہیں کہ وہ‬
‫ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو ک رتے نہیں۔“ (الش عراء آی ات‬
‫‪224‬۔ ‪) 226‬‬

‫اور اگر کوئی ایسی بات بیان کرنا الزم ہو جس میں جنسیت کا عنص ر ہ و ت و اس تعاراتی‬
‫اسلوب اختیار کیا جائے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں میاں بیوی کے جنسی تعل ق کے متعل ق‬
‫ارشاد ہے ‪:‬‬

‫”وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“ ( سورۃ البقرہ‪) 187 :‬‬

‫لفظ ”لباس“ کے استعمال سے سارا معاملہ بھی واضح ہو گی ا ہے مگ ر ایس ے کہ س ننے‬


‫والوں کے جذبات میں ہیجان پیدا نہیں ہوتا۔‬

‫دوسری بات یہ کہ فن اندرونی تحرک کا نام ہے جو خدا کی ط رف س ے ودیعت کی ا گی ا‬


‫ہے۔ اس وجہ سے فن میں ذات باری تعالٰی کی حمد و ثناء کا بیان ض روری ہے۔ ی ا ی وں‬
‫کہ جس معاشرے میں فن تخلیق کیا گی ا ہے اس کے عقی دے کے مط ابق ذات مق دس کی‬
‫حمد و ثناء بیان کی جائے۔‬

‫فن کو آفاقی ہونا چاہیے اور ہر ایک مسئلہ کو اس کے اندر سمونے کی کوشش کی جانی‬
‫چاہیے۔ یہ بات اخالقیات کے خالف ہے کہ فن کو ایک موضوع تک محدود کرتے ہوئے‬
‫باقی تمام موضوعات سے کنارہ کش رہا جائے۔ برص غیر کے فن ون میں ای ک وقت ایس ا‬
‫بھی آیا جب وہ جنسیت تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اقبال فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫‪128‬‬
‫ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس‬

‫آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار! (ضرب کلیم)‬

‫فنون لطیفہ میں اس بات ک و ملح وظ خ اطر رکھ ا جان ا بھی ض روری ہے کہ کس ی بھی‬
‫شخص کی بے جا تعریف یا ہجو نہ کی جائے۔ یہ بات معاشرتی اخالقیات کے خالف ہے‬
‫کہ کسی بھی شخص پر بالوجہ الزام لگایا ج ائے اور اس کی ع زت و آب رو ک و داغ دار‬
‫کیا جائے۔‬

‫فنون لطیفہ کا سب سے اہم کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان دوستی کو پروان چڑھائیں اور‬
‫قومیت سے رشتہ استوار کرنے کے بجائے آف اقیت ک ا رش تہ پ روان چڑھ ائیں۔ اس وجہ‬
‫سے فن کے ذریعے کسی بھی ایسے جذبہ کو ابھارنا جو قومی‪ ،‬م ذہبی اور ملکی مس ائل‬
‫تک محدود رہ جائے یا خاص قوم میں احساس تفاخر قائم کرتے ہوئے باقی تمام اقوام ک و‬
‫کم تر قرار دے‪ ،‬انسانی اخالقیات کے منافی ہے۔ فن کو انسان سے مخ اطب ہون ا چ اہیے‬
‫نہ کہ ای ک خ اص گ روہ س ے۔ ہ اں یہ ب ات بھی درس ت ہے کہ زم انہ ق دیم میں فن کے‬
‫ذریعے قومی جذبات ک و ابھ ارا جات ا تھ ا اور جنگیں ل ڑی ج اتی تھی۔ ع رب میں رزمیہ‬
‫شاعری اس کی مثال ہے۔ مگر موجودہ زمانہ آفاقیت ک ا زم انہ ہے۔ اس وجہ س ے فن ک ا‬
‫قومیت سے آفاقیت تک سفر کرنا ضروری ہے۔‬

‫اب دوسرے سوال پر بات کرتے ہیں کہ فنی اخالقیات سے کیا مراد ہے۔‬

‫فنی اخالقیات سے مراد ہے کہ فن میں نقالی کے بجائے مروجہ فنی امثال میں جدت پی دا‬
‫کرتے ہوئے فنی نقطٔہ کمال کی جانب بڑھنا۔ اور پہلے سے طے شدہ معیارات اور جدی د‬
‫معیار میں حد تفاوق کھینچتے ہوئے امتیاز کو واضح کرنا۔‬

‫یہ ب ات ف نی اخالقی ات کے من افی ہے کہ کس ی کے فن مثًال نظم‪ ،‬موس یقی کی دھن اور‬


‫مضمون وغیرہ ک و اپ نے ن ام س ے منس وب ک رتے ہ وئے معاش رے میں پیش کرن ا۔ فن‪،‬‬
‫فنکار کی متاع ہوت ا ہے اور کس ی کی دولت ک و چھینن ا ن ا ص رف معاش رتی ج رم بلکہ‬
‫مذہبی اور اخالقی گناہ کے زمرہ میں بھی آتا ہے۔‬

‫فن داخلی تحرک کا نام ہے اور فنکار کی یہ اخالقی ذمہ داری ہے کہ وہ خ دا تع الٰی کے‬
‫ودیعت کردہ فن میں ہنر کی آمیزش کرتے ہوئے‪ ،‬عروج کی جانب محو س فر ہ ونے کے‬
‫لیے محنت کرے۔ محنت فن‪ ،‬جو ودیعت کی ا گی ا ہے‪ ،‬کے بنی ادی علم کے بغ یر نہیں کی‬
‫‪129‬‬
‫جا سکتی۔ اس وجہ سے فنکار کی یہ اخالقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے متعلقہ فن ک ا علم‬
‫حاصل کرے۔‬

‫مجموعی جائزہ‪:‬‬

‫وہ عمل جو انسان کی جمالیاتی حس کو تسکین پہنچاتے ہوئے اسے زن دگی گ زارنے ک ا‬
‫ہ نر س کھاتا ہے‪ ،‬فن ہے۔ اور فن کہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ م روجہ معاش رتی مس لمات‬
‫کے منافی نہ ہو۔ اگ ر فن معاش رتی مس لمات کے خالف ہ و گ ا ت و اس س ے دو رد عم ل‬
‫ظاہر ہوں گے۔ پہال یہ کہ لوگوں میں اش تعال انگ یزی پ روان چ ڑھے گی اور وہ فن اور‬
‫فنکار کے دشمن ٹھہریں گے۔ دوسرا یہ کہ ل وگ اخالقی ات س ے منہ م وڑنے لگیں گے۔‬
‫دونوں عوامل ہی معاش رے کی بق ا اور امن و س المتی کے من افی ہیں۔ اس وجہ س ے یہ‬
‫ضروری ہے کہ فنون لطیفہ کو اخالقیات کے منافی ہونے کے بجائے ان میں مض بوطی‬
‫النے کا باعث ہونا چاہیے۔‬

‫‪130‬‬

You might also like