Professional Documents
Culture Documents
2
نjjاطق کے کjjردار کی ُپرسjjراریت ،سjjفید مjjوتی کے تنjjاظر میں .28
____69
میری لڑکیوں سے لڑائی ہے______________73 .29
اورحان پاموک ،پرخطر رستوں کا مسافر______76 .30
”جہاں میں تھا“ تجزیاتی مضمون__________79 .31
زلفوں کے سائے میں“ تجزیاتی مطالعہ_______83 .32
امیرن کے کردار کا تجزیاتی و نفسیاتی مطالعہ___86 .33
”امرأو جان“ کے کردار کا نفسیاتی مطالعہ ____90 .34
زنجیر (افسانہ)_______________94 .35
پاک چین دوستی ،عوامی محبت اور قومی ترقی کا سنگم___97 .36
تیسرا دیدار (افسانہ)__________________101 .37
مرزا اطہر بیگ :تعارفی مطالعہ___________105 .38
سڑک (افسانہ)_____________110 .39
الہوری بلیاں __________112 .40
ناول ”سدھارتھ“ ،فکری مطالعہ___________116 .41
اردو غزل میں امرد پرستی کی روایت________ 120 .42
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں____123 .43
اردو شاعری میں رنگوں کا استعمال_______125 .44
مرزا اطہر بیگ :قلمی جہات___________131 .45
فیض احمد فیض کے نام خط__________138 .46
اجالسی روحیں ____________ 140 .47
لونڈے لپاڑے _________145 .48
الم ،دکھ کی انتہا_________149 .49
فاصلوں کا ہم نشیں ______152 .50
فن اور اخالقیات _______154 .51
.52
.53
.54
3
زمان و مکان کی تبدیلی ہیئت
13/10/2021
آج ڈاکٹر نعیم احمد کو پڑھتے ہوئے ایک عجیب و غریب سطر میری نظر سے گ زری،
لکھا تھا” ،عالم خواب میں زمان و مکان کے پیم انے یکس ر ب دل ج اتے ہیں۔“ مجھے یہ
سطر پڑھ کر جھٹکا سا لگا کیونکہ اس سے قب ل میں ذاتی ط ور پ ر یہی س مجھتا تھ ا کہ
زمان و مک ان کے پیم انوں میں رد و ب دل ی ا تب دیلی کس ی بھی ص ورت میں ممکن نہیں
کیونکہ یہ کائنات زمان و مکان کے تحت وجود میں آئی اور اس ی کے مط ابق اپن ا س فر
حیات طے کر رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ علم کی قلت اور ذہنی نا بلیدگی ہ و مگ ر م یرا
نظریہ یہی تھا۔
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ عالم خواب اور طبیعیاتی دنیا کہ زمان و مکان کے پیم انوں
میں آخر فرق کیوں آ جایا کرتا ہے تو اس کا جواب یہی دی ا جاس کتا ہے کہ ع الم خ واب
اور طبیعیاتی دنیا میں فرق ہے اس وجہ سے ان کے زمان و مکان کے پیمانوں کی ہیئت
بھی تبدیل ہو جایا کرتی ہے۔ عالم خواب ک ا زم ان و مک ان وہ ہے جس میں ف رد ک و اس
بات کا احساس ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کہاں پڑا ہے اور وقت کس ترتیب سے گزر رہا ہے
مگ ر دوس ری ط رف طبیعی اتی دنی ا ک ا زم ان و مک ان وہ ہے جس میں ف رد کی ونکہ وہ
شعوری طور پر طبیعیاتی دنیا میں موجود اور اس کے زمان و مک ان ک ا اس یر ہوت ا ہے
اس لئے اسے چھوٹے سے چھ وٹے لمحے کی بھی خ بر ہ وتی ہے کہ وہ کس ان داز اور
ترتیب سے گزر رہا ہے۔ اس بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زم ان و مک ان کی دو اقس ام
ہیں جن کے پیمانوں کی ہیئت ایک دوسرے سے یکسر جدا ہے۔
4
اقساِم شہرت
14/10/2021
موجودہ عصر کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس مٹی کی دنی ا
کے خ اکی پتلے بس ای ک ہی چ یز ک و حاص ل ک رنے کی ت گ و دود ک ر رہے ہیں۔ نہ
صرف حال بلکہ ماضی کے پنوں کو اگر کھوال ج ائے ت و یہی راز افش اں ہ و گ ا کہ ہ ر
خاص و عام شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں ہی محو رہا۔ جب ہم لفظ شہرت بولتے
ہیں تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں ،کبھی کسی نے غور کیا؟ ش ہرت ک ا مطلب ہوت ا ہے
کہ اتنا مشہور ہو جانا کہ ہر خاص و عام میں چرچا ہو۔
کوئی بھی بات ہو کوئی بھی معاملہ ہو اس کا نام بحث میں شامل کیے بغیر بحث نامکم ل
معلوم ہو۔ اس خود غرض عالم میں شہرت کو دو پہلؤوں س ے س مجھنے کی کوش ش کی
جاتی رہی ہے۔ ایک وہ شہرت جو ب رائی کی ب دولت حاص ل ہ و۔ جیس ے مص طفٰی خ ان
شیفتہ فرماتے ہیں” ،بد نام اگر ہوں گے تو نام نہ ہو گا کیا“ ۔ ایسی شہرت ع ام ط ور پ ر
دیہاتی عالقوں کے سرداروں میں عام ہوتی ہے۔ اور دوسری ش ہرت وہ ش ہرت ہے ج و
قابل ذکر اور الئق قدر کام انجام دینے پر حاصل ہوتی ہے۔
ایسی شہرت کا حاصل ہو جانا ہی ایک شہرت اور کم ال کی ب ات ہے۔ ایس ی ش ہرت ک و
حاصل کرنے کے ل ئے خان دان ،م ال اور یہ اں ت ک کہ ج ان ک ا ن ذرانہ بھی کبھی کبھی
معمولی سا بن جاتا ہے۔ اگر دیکھنے والی نظر اور سوچنے واال دماغ ہو تو ایسی شہرت
کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اگر بات کی جائے 1965ء میں میدان جنگ کی ت و بے
شمار نام ایسے آتے ہیں ،مثًال میجر شبیر ش ریف ش ہید ،میج ر راجہ عزی ز بھ ٹی ش ہید،
پائلٹ افسر راشد منہاس شہید ،میجر طفیل محمد شہید ،کیپٹن راجہ محمد سرور ش ہید اس
طرح کے اور بے شمار نام جن کو اس وقت احاطہ تحری ر میں الن ا مش کل ہے ،جنہ وں
نے ملک کی آن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ایسی شہرت حاص ل کی ج و
آج بھی ان کی قربانیوں کا ثبوت ہے۔
شہرت کو حاصل کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک شہرت ایس ی ش ہرت ہ وتی ہے
جو چند لمحات میں حاصل ہو جاتی ہے۔ مگ ر ایس ی ش ہرت ک ا دورانیہ چن د دن ک ا ہوت ا
ہے۔ چند ماہ قبل سوشل میٰڈ یا پر دنانیر مبین کی ایک ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا اور وہ اتنی
مشہور ہو گئی کہ بھارت جیسے دشمن کی عوام بھی اس ویڈیو پر اپنے تاثرات کا اظہار
5
کرنے لگی مگر اب کسی کو بھی یاد نہیں کی دنانیر مبین کون تھی یا کہ اں ہے۔ کی ونکہ
یہ اصول ہے کہ جو چیز جتنی محنت س ے مل تی ہے اس ک ا دورانیہ بھی اتن ا ہی طوی ل
ہوتا ہے۔
دوسرا طریقہ ہے تو بہت کار آمد مگر اس پر عمل کرنا ہر بشر کی بس اط کی ب ات نہیں۔
زن دگی کے س فر میں ص بر و ش کر ک و س اتھی بن ائے تکلیفیں برداش ت کرن ا اور آگے
بڑھتے رہنا ہی اس شہرت کی کنجی ہے۔ ڈاکٹر عبد الق دیر خ ان نے ص د ہ اں مخ الفتوں
کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا اور وہ شہرت حاص ل کی ج و رہ تی دنی ا ت ک پاکس تان
کے لیے سرمایہ افتخار رہے گی اور ان کا نام پاکس تان کی ت اریخ میں س نہرے ح روف
میں لکھا جائے گا۔ یہ شہرت وہ شہرت ہے جو مرزا اس د ک و غ الب ،الط اف حس ین ک و
حالی اور میر تقی کو میر بناتی ہے۔
17/10/2021
جب حقیقت کو حقیقی رنگ کی چاشنی کے ساتھ خیال پرست معاشرے کے س امنے پیش
کیا جائے تو ہر سمت سے مخالفت کا طوفان کھڑے ہ و جان ا غ یر معم ولی ب ات نہیں۔ یہ
معاشرے کا قدیم اصول اور بے حس پتلوں کا فطرتی رویہ ہے۔ ایسا ہی ہوا سعادت حسن
منٹو کے ساتھ جب انہوں نے بے باکی سے یہ کہتے ہوئے ،کہ میں سوچتا ہوں اگر بندر
سے انسان بن کر ہم اتنی قیامتیں ڈھا سکتے ہیں ،اس قدر فت نے برپ ا ک ر س کتے ہیں ت و
واپس بندر بن ک ر ہم خ دا معل وم کی ا کچھ ک ر س کتے ہیں ،معاش رے کی حقیقی تص ویر
معاشرے کے سامنے رکھی ت و مخ الفت ک ا طوف ان س اون کی ب ارش کی ط رح چ اروں
اطراف سے امڈ آیا۔
حقیقت کو عیاں کرنے کی دیر تھی کہ سعادت حسن منٹو کو عدالت کے اس کٹہ رے میں
کھڑا ہونا پڑا جو چیخ چیخ کر گواہی دے رہا تھا کہ منٹو نے حقیقت ک و بی ان ک رنے ک ا
جو جرم کیا ہے اس کی سزا نیکی کے لبادے میں چھپے ہوئے ان م ادہ پرس توں ک و دی
جائے جو اپنی اصلیت کو چھپانے کی خاطر کف ر کے فت وے ج اری ک ر رہے ہیں۔ منٹ و
نے کہا تھا اگر آپ کو میرے افسانے پڑھ کر فحش نگاری کا گماں ہوتا ہے تو معاش رے
6
کا جائزہ لیں ،اگر معاشرہ اس بات کی گ واہی دیت ا ہے ج و میں نے بی ان کی ت و مجھ پ ر
الزام لگانے کی گنجائش نہیں بچتی۔
آج جب میں نے منٹو کے افسانہ ٹھنڈا گوشت اور جدید معاشرے ک ا تق ابلی ج ائزہ لی ا ت و
آنکھیں تر اور لب پر گویا قفل لگ گیا ہو۔ اگر میں بات بیان کروں جدید معاشرے کی ت و
یہ دور ترقی وہی تصویر پیش کرتا نظر آتا ہے جو ہمیں منٹو کے افسانوں میں ملتی ہے۔
منٹو کا افسانہ ٹھنڈا گوشت اگر مردہ لڑکی کے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی پ ر مب نی ہے
تو موجودہ معاشرہ چیخ چیخ کر یہ بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ تم ب ات ک رتے ہ و م ردہ
لڑکی کی یہاں تو وہ لڑکی بھی محفوظ نہیں جس کو دفن کر دیا گیا ہو۔
22/10/2021
7
پہلے تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ انہ وں نے نہ ایت خل وص کے س اتھ مودب انہ ان داز میں
بیان کیا کہ یہاں سے 12ربیع االول کے سلسلے میں ایک جل وس گ زرنے واال ہے۔ اس
جلوس میں نعت رسول ﷺ کی گونج کے لیے سپیکروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور
یہ جو لوگ گزر رہے ہیں یہ وہاں سے ہی آرہے ہیں جہاں سے جلوس برآمد ہوا تھ ا اور
ان کا یوں گزرنا اس بات کی خبر ہے کہ جلوس بہت جلد یہاں سے گزرنے واال ہے۔ اتنا
کہہ کر وہ چل دیے اور میں کھڑا انتظار کرنے لگا۔
چند لمحات میں ہی جلوس سڑک کے کنارے سے برآمد ہ وا اور اس گلی کی ط رف م ڑا
جو سڑک سے نسبتًا تنگ تھی اور جس میں میں کھڑا انتظار کی ساعت کا تجزیہ کر رہا
تھا۔ جلوس پر نظر پ ڑی ،وہ گلی کے کچھ ان در آ ک ر رک گی ا۔ میں اس ط رف چ ل دی ا،
دیکھتا کیا ہوں کہ اچان ک نغمہ رس ول ﷺ کی بج ائے گ انے ک ا ش ور بلن د ہ وا۔ دو
اشخاص جو نسًال پنجابی مگر حلیہ سے عربی معلوم پڑتے تھے نمودار ہ وئے اور ایس ا
ڈانس شروع کر دیا جیسا شادی بیاہ کے موقع پر تماشا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
حیرت میں گم ،آنکھیں پھٹی کی پھ ٹی رہ گ ئیں۔ ض میر نے جھنجھ وڑا اور تلخ آواز میں
پوچھا کیوں کھڑے ہو یہاں؟ یہاں سے چلتے بنو۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کی
آمد کی خوشی یہ نہیں جیسی تمہاری نظروں کے سامنے پیش کی ج ا رہی ہے۔ بلکہ اس
خوشی ک ا ان دازہ اس رب ک ریم کے اس ک رم س ے ک رو کہ جب ن بی ک ریم ﷺ کی
پیدائش مبارک ہوئی تو اس نے دنیا کی تمام مأوں کو بیٹ وں س ے ن وازا۔ اگ ر خوش ی ک ا
اندازہ کرنا چاہتے ہو تو اب و لہب کے اس عم ل س ے ک رو کہ جب انہ وں نے ن بی ک ریم
ﷺ کی پیدائش کی خبر سنی تو اپنی لونڈی ک و جس نے آ ک ر نوی د س نائی تھی آزاد
کر دیا۔
8
بنیاِد معاشرہ ،الہامی مذاہب یا انسانی مساعی
02/11/2021
تاریخ کے پن وں ک و ،متفک ر ذہن کی موج ودگی میں مش اہدہ پرس ت آنکھ وں ک و س اتھی
بنائے ،اگر کھوال جائے تو یہ پوشیدہ راز عی اں ہوت ا ہے کہ الہ امی م ذاہب ہی وہ م ذاہب
ہیں جو کسی بھی معاشرے کے عدم سے وجود میں آنے اور تہذیب کی پیدائش کا حقیقی
باعث ہوتے ہیں۔ یہ اں پ ر یہ س وال ہم ارے س امنے دامن کھ ول ک ر ج واب طلب ہے کہ
موجودہ دنیا کے آثار کو دیکھا جائے تو ہمیں ایسے کئی معاشرے نظر آتے ہیں جن کے
باشندے الہامی مذاہب کو پس پشت رکھے انسانی مذاہب پر کام ل عقی دہ رکھ تے ہیں اور
دنیا کے مہذب معاشروں میں سرخیل ک ا درجہ اختی ار ک یے ہ وئے ب اقی معاش روں کے
حاکم کا کردار بھی ادا کرتے ہیں ،تو یہ جو کہا گیا ہے کہ معاشرے کی بنی اد ہی الہ امی
مذاہب ہیں کہاں تک انصاف کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے؟
یہ نکتہ بالکل صحیح ہے کہ موج ودہ دور ت رقی میں ہمیں بعض ایس ے معاش رے مل تے
ہیں جن کے باشندے انسانی مذاہب کے پیروکار ہیں ،اور ان معاشروں کا شمار دنی ا کے
مہذب معاشروں میں ہوتا۔ مگر تحقیق کی ضرورت بہرحال موجود ہے ،اور اکثر تحقی ق
خیال کے متضاد ہی ہوا کرتی ہے۔ یہودیت کو تحقیق کے سانچے میں رکھ کر اگ ر ب ات
کی جائے تو جب یہودیت الہامی مذہب کے روپ میں اس ع الم خ اکی میں ظ اہر ہ وا ت و
وہاں حکومت تھی فرعون کی۔ لوگ آباد تھے ،حکومت کی شان و شوکت عروج پ ر تھی
مگر معاش رہ موج ود نہ تھ ا۔ معاش رہ وہ ہوت ا ہے جس میں ل وگ آزاد اور آزادی اظہ ار
رائے کا حق رکھتے ہوں ،تو کیا فرعون کے دور میں لوگ آزاد تھے؟
اسالم سے پہلے والی تاریخ کے پنوں کو اگر تحقیق کے آئینہ میں رکھا جائے تو قب ل از
اسالم قبیلے تھے ،لوگ تھے ،شان و شوکت جلوہ گر تھی ،مگر معاش رہ موج ود نہ تھ ا۔
معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں لوگ ایثار و قربانی کے ج ذبے ک و ملح وظ خ اطر رکھ تے
ہیں۔ کیا وہاں معاشرہ موجود تھا جہاں صرف پانی پینے کی وجہ سے بھی جن گ ش روع
ہو جایا کرتی تھی؟
9
سوال رہا ان معاشروں کا جو انسانی مذاہب کے دائرہ میں آتے ہیں ،اگر کتابوں کی بستی
میں کھو کر اس بات کا کھوج لگایا ج ائے کہ یہ معاش رے کیس ے وج ود میں آئے ت و یہ
راز افشاں ہوتا ہے کہ ان معاشروں کی بنیاد تھی تو الہامی مذاہب پر مگر جیسے جیسے
لوگوں میں اختالفات پیدا ہوتے گئے ،رسوم کو عروج حاصل ہوتا گیا ،نئے مذاہب وج ود
میں آتے گئے ،ان معاشروں میں بھی وہی ڈھنگ پیدا ہوتا گیا جس کا ع ام چ ال چلن تھ ا۔
اس وجہ س ے ان کی موج ودہ ص ورت اس ق در مس خ ہ و چکی ہے کہ ہم اس قاب ل نہیں
رہے کہ پہچان کر سکیں کہ ان معاشروں کی بنیاد کیا تھی یا کون سا مذہب۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ کوئی بھی انسانی مذہب اتنی قوت ہی نہیں رکھتا کہ ایک حقیقی
معنوں میں معاشرہ وجود میں ال سکے۔
08/11/2021
عالم فانی گواہ ہے کہ مسلم عوام نے پاک سر زمین جن وجوہات کی بنا پر حاصل کی ان
کی تہہ میں کہیں نہ کہیں ہن دوانہ ذات پ ات ک ا نظ ام بھی ک ار فرم ا تھ ا۔ جب اپ نے ہی
معاشرے میں اونچ نیچ کا تصور عقیدے سے زیادہ قوی ہو جائے تو معاشرے سے ال گ
ہ و ج انے کی خ واہش ک ا بھ ڑک اٹھن ا ک وئی تعجب کی ب ات نہیں۔ چھ وت چھ ات س ے
چھٹکارا ہر ذی روح کے لیے جب معراج کا درجہ اختی ار ک ر ج ائے تب علیح دگی کے
طوفان کا سمندر امڈ آنا بھی الزمی ٹھہرتا ہے۔
تاریخ کے صفحات کی سطروں میں غ وطہ زن ہ ونے س ے معل وم ہوت ا ہے کہ یہی ہ وا
ہندوستان میں اور ایک الگ ملک موجود میں آی ا جس کی بنی اد مس اوات کے اص ول پ ر
رکھی گئی۔ وقت ہر غم کو بھال دیتا ہے اور ہر مقصد کو فراموش ک ر دیت ا ہے۔ ایس ا ہی
ہوا اس نئی مساواتی دھرتی پر ،لوگ آہستہ آہستہ اسی نظام کی طرف لوٹتے گئے جو ان
کے پرکھوں کی میراث تھا۔ بظاہر ذات پات کے نظام سے چھٹکارا حاص ل ہ و چک ا تھ ا
مگر دلوں میں ناسور کی مانند موجود تھا۔
10
لوگوں نے آبا و اجداد کی میراث کو قابل استعمال بناتے ہوئے ایک ایسا نظام ت رتیب دی ا
جس میں ذات پات کا تصور نئے رنگ ،نئی امنگ اور نئے ولولے کی چاشنی کے س اتھ
موجود تھا۔
اور پھر ان کو آزاد کروا کر احسان کا پہاڑ کھڑا ک رنے والے بھی وہی ل وگ ہ وتے جن
کے کہنے پ ر وہ اس ص حرا کی تپ تی ریت پ ر ننگے پ أوں نکلے تھے۔ جب احس ان ک ا
وزن کمر پر آ جایا کرتا ہے تو کمر جھک جایا کرتی ہے۔ ایسا ہی ان کے س اتھ ہوت ا اور
وہ احسان کا وزن کمر پر ل یے غالمی ک ا ط وق گلے میں ڈالے اپ نے مال ک کے تل وے
چاٹنے پر مجبور ہو جاتے۔
خطرناک حربہ جو اکثر اس پاک زمین کے باشندوں کا پسندیدہ رہا وہ ہے لوگوں کو آرام
و سکون کے خواب دکھاتے ہوئے بے روزگاری کے سمندر ک ا رس تہ ناص ح کے روپ
میں آ کر بتانا۔ وطن عزیز کے کونے کونے پر اور ہر ش ہر کے چ وراہے میں ،ہ ر گلی
کی نکڑ پر ایسے کئی لوگ نظر سے گزرتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد دیگر لوگ وں،
جو محنت کو اپنا شعار بنائے عزت کے نوالے کی خاطر آرام ک و س ر ع ام نیالم ک رتے
ہیں ،سے مانگ کر کھان ا ہے۔ س تم ت و یہ ہے کہ ام راء اپ نی بے ج ا دولت و ث روت کی
نمائش کی خاطر ایسے بیکار لوگوں میں اضافہ کا سب سے بڑا باعث بنتے ہیں۔
وہ غریب لوگوں کے لئے علم و ہنر کی راہیں کھولنے کے عالوہ ہ ر وہ ک ام ک رتے ہیں
جن سے غریب کو روکھی سوکھی روٹی تو ملے مگر وہ بے کار رہے۔ اس نم ائش کے
پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہو سکتا ہے ،آپ خوب جانتے ہیں۔ اگ ر غ ریب علم و ہ نر ک ا
متالشی ٹھہرا ،امیر کو صاحب کہنے واال اور خدا کا درجہ دینے واال کون ہو گا؟ ک ون؟
میں آپ سے جواب طلب ہوں ،کون؟
11
دنیا دار کمینے
19/11/2021
مزار اقبال پر حاضری کے دوران ایک عجیب منظر دیکھا ،جو دیکھنے والوں کے لیے
نظر کا دھوکا مگر سمجھنے والوں کے لئے سچائی پر مبنی ایک داستان تھ ا۔ پ ر رون ق
شہر کے مرد و زن مزار اقب ال پ ر حاض ری کی تمن ا دل میں اور م زار کی زی ارت کی
خواہش چہروں پر سجائے خرام اں خرام اں م زار کی ج انب رواں دواں تھے۔ م زار ک ا
احاطہ قریب آیا تو ادب کے لباس میں ملبوس ہو کر ،جوتیاں اتار کر مزار اقبال کے اندر
حاضر ہونے اور فاتحہ خوانی کی خاطر آگے بڑھے تو عجیب منظر دیکھ کر ح یران و
پریشان ہو کر ایسے کھڑے ہو گئے جیسے بجلی کا بل دیکھ کر غریب آدمی۔
م زار کے ان در لوگ وں ک ا جم غف یر تھ ا ،وہ س فید لب اس میں ملب وس ،ہ اتھوں میں س بز
جھنڈے بلند کیے نعرے لگا رہے تھے۔ ہر منٹ بعد نع رے کی ص دا بجلی کی ک ڑک کی
مانند بلند ہوتی اور پھر سکوت۔ نئے آنے والے لوگ اس انتظار میں کھ ڑے ہ و گ ئے کہ
کچھ لمحات بعد ان لوگوں ،جو پہلے س ے ہی م زار کے ان در موج ود ہیں ،کی حاض ری
مکمل ہو جائے گی ،تو ہم داخل ہ و ک ر اقب ال س ے اپ نی عقی دت ک ا اظہ ار انس انیت کے
درجے میں رہتے ہوئے کریں گے۔ نعرے بار بار لگائے جا رہے تھے ،آواز بلند ہو ک ر
مدھم اور پھر بلند ہوتی رہی۔
لوگ مزار کے اندر جانے کی خواہش کو دل میں دبائے احاطہ میں خاموش کھڑے مح و
انتظار رہے ،مگر ان کی حالت صرف وہ آدمی ہی س مجھ س کتا ہے ج و ش دید پیاس ا ہ و
اور دریا اس کے سامنے اور پانی پینے سے روک لیا جائے۔ مزار کے اندر والے ل وگ
ب اہر نکل نے ک ا ن ام ت ک نہیں لے رہے تھے اور غض ب ت و یہ تھ ا کہ س فید لب اس میں
ملبوس ،ہاتھ میں سبز جھنڈا اٹھائے جو بھی آتا ،سیدھا اندر داخل ہو کر نعرے ب ازی میں
حصہ دار ٹھہرتا۔ ہر نعرے کے ساتھ مزار کے احاطہ میں کھڑے لوگ وں کے خ ون کی
گردش میں غصہ کی بدولت تالطم پیدا ہو جاتا مگر وہ اپنے آپ پر قابو پا لیتے۔
12
آخرکار ان لوگوں نے جو باہر احاطہ میں کھڑے تھے ای ک ش خص ک و ان در بھیج ا اور
کہا کہ وہ اندر جاکر ان لوگوں کو یہ بتائے کہ باہر کچھ لوگ کھڑے ہیں ،جن کے ہم راہ
لڑکیاں بھی ہیں اور مرزا میں حاضری کے خواہشمند ہیں ،ب رائے مہرب انی ان ک و ان در
آنے کی اجازت دی جائے۔ وہ شخص ہمت کر کے مزار کے اندر داخل ہوا اور انہیں کہا
کہ ”ہم مزار کے اندر حاض ری کے خواہش مند ہیں اور ہم ارے س اتھ لڑکی اں بھی ش امل
ہیں ،آپ برائے مہربانی پانچ منٹ ہمیں بھی موقع دیں کہ ہم اقبال کے س اتھ اپ نی عقی دت
کا اظہار کر سکیں۔
“ الفاظ ختم ہوئے تو ای ک معم ر آدمی غص ہ س ے گرج ا” ،ایتھے بیبی اں دا کی کم اے“
اور اپنی جماعت کو حکم صادر فرمایا” ،نعرے بازی جاری رکھ و!“ ۔ نع رے بلن د ہون ا
شروع ہوئے ،شروع کیا ہوئے ایک طوفان سا برپا ہو گیا۔ چند لوگوں نے مزار سے باہر
آ کر ،ٹھیک ان لوگوں کے سامنے جو مزار اقبال کے اندر داخ ل ہ ونے کی اج ازت کے
خواہاں تھے ،نعرے بازی شروع کردی۔ یہ نعرے بازی تو نہ تھی مگر طعنہ زنی۔ ای ک
ایک نع رے کے س اتھ ج ذبات مش تعل ہ و ج اتے اور نع رے ب ازوں ک و قت ل ک رنے کی
خواہش کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے مگر شرافت مانع آتی۔ آخر ان لوگوں نے باہر سے
ہی فاتحہ خوانی کی اور مزار اقبال کے اندر حاض ری کی خ واہش دل میں دب ائے واپس
چل دیے۔ آپ سب سوچ ہی رہے ہو گئے کہ ،ایسا کیا نعرہ تھا ج و غص ہ ،اور خ ون کی
گردش میں تالطم کا باعث بن جاتا تھا؟ نعرہ تھا” ،قدر نبی ﷺ دا اے کی ج انن دنی ا
دار کمینے! ،دنیا دار کمینے!“ ،کمینے!
27/11/2021
13
مسخر کرتے ہوئے ان لوگوں کو اپنا موضوع بنایا جو غلیظ آدمی اور معاشرے کے لئے
ناسور تصور کیے جاتے تھے۔
یہ سعادت حسن منٹو کا کمال ہے کہ انہوں نے بغیر کسی کی پ رواہ ک یے بے ب اکی کے
ساتھ وہ سب کچھ لکھ ڈاال جو انہ وں نے دیکھ ا ،بے ب اکی کے س اتھ لکھن ا ان کے ل یے
سزا کا باعث ضرور بنا ،مگر وہ لکھتے رہے اور معاشرے کو بے نقاب کرتے رہے۔
اگر ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے جو معاشرے کی گندگی صاف کرتی ہیں ،ت و پھ ر
ان کرداروں کا وجود بھی ضروری ہے ج و معاش رے کی غالظت ک و اٹھ اتے ہیں۔ اور
اگر یہ کردار نہ ہوتے تو ہمارے سب گلی کوچے لوگوں کی غلیظ حرک ات س ے بھ رے
ہوئے ہوتے۔ اس لیے سعادت حسن منٹو نے انہیں لوگ وں ک و اپ نے افس انوں بلکہ س چی
کہانیوں ک ا موض وع بنای ا۔ ان کے افس انوں میں ہمیں ایس ے ک ئی ک ردار مل تے ہیں ج و
افسانے کی ابتدا میں جس روپ میں نظر آتے ہیں آخ ر ت ک وہ روپ ب دل چک ا ہوت ا ہے
اور اسے پڑھتے ہوئے منہ سے ایک جملہ نکلتا ہے کہ ایسا بھی ہو س کتا ہے کی ا؟ اگ ر
بات کریں سعادت حسن منٹو کے کردار بابو گ وپی ن اتھ کی ت و وہ افس انے کی ابت دا میں
نہایت غلیظ اور برا کردار ہے ،مگر افسانے کی انتہا تک وہ ایک نفیس اور عمدہ کردار
14
کے روپ میں ہماری نظر کے سامنے آتا ہے۔ ایسے اور کئی ک ردار منٹ و کے افس انوں
کی شان ہیں۔
2021/12/04
”وقت ان کا ہوتا ہے جو وقت کے ہوتے ہیں۔“ دوسرے الفاظ میں ”وقت ان کا س اتھ دیت ا
ہے جو وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔“ یہ مقولہ صدیوں محو گردش رہ ا اور ہے۔ یہ اص ول
اس عالم مادی میں سب اقوام میں مقبول رہا ہے کہ اگر کچھ پا لینے کی تمن ا دل میں اور
حاصل کرنے کے لئے قوت بازوں میں موجود ہ و ت و وقت کے بے ک راں دری ا میں بہہ
کر ہی وہ تمنا تکمیل ہوتی ہے۔ وہ اق وام ،ف رد اور ل وگ ہمیش ہ ناک امی س ے دو چ ار ہی
ہوئے جنہوں نے زمانے کی رفتار کو چھوڑ کر سست روی کو اپنا شعار بنایا اور ک اہلی
کا دامن تھام کر مستی میں ہستی کو مگن رکھا۔
جب ان دو تجربات کو مدنظر رکھا جائے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کے ”تم
چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو ،پأوں رکتے نہیں زمانے کے۔“ اگر ہم تاریخ کے تن اظر میں
اس فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا کیوں ضروری
ہے تو ہم با آسانی اس حقیقت کا ادراک حاصل ک ر لیں گے کہ آخ ر وہ کی ا وجوہ ات ہیں
جو ہمیں ،یعنی ان لوگوں کو جو پیدائشی آزاد پی دا ہ وئے ہیں ،وقت ک ا قی دی بن ا ک ر اس
کے بہأو میں بہہ جانے کا درس دیتی ہیں۔
بات شروع کرتے ہیں جنگ آزادی س ے کی ونکہ یہ وہ جن گ ہے جس نے ہندوس تان کی
قسمت کا اصل فیصلہ کیا تھا۔ اس جنگ میں ہندوس تان کے آخ ری مغ ل بادش اہ کے پ اس
مادی قوت بہت زیادہ تھی کیونکہ جنگ ہندوستان میں رہ ک ر انگری ز ق وم ،ج و کہ ای ک
نئی وارد قوم تھی ،کے خالف لڑی گئی اور دوسری طرف انگری ز ق وم کے پ اس م ادی
15
قوت گو بہادر شاہ ظفر کی نس بت کم تھی مگ ر اس کے پ اس اس وقت کے جدی د ہتھی ار
اور وقت کی گردش کی دھول سے سینچا ہوا دماغ تھا۔
اس وجہ سے وہ جنگ جیت گئے اور بہادر شاہ ظفر قوم سمیت ہار گیا۔ اس کی یہی وجہ
تھی کہ مغل شان و شوکت کا آخری چراغ ہستی کی مستی میں کھو کر وقت کے س مندر
کی ان لہروں ج و ع روج کی پاس باں تھیں س ے پیچھے رہ گی ا۔ جب ان ح االت ک ا قتی ل
شفائی نے عمیق نظر سے جائزہ لیا تو یہ کہنے پر مجبور ہ و گ ئے کہ ”ہم ک و چلن ا ہے
مگر وقت کی رفتار کے ساتھ۔“
اگر ہم بات کریں جنگ عظیم دوم کی تو اس جنگ میں بھی وقت کے ساتھ نہ چلنے سے
جو نقصان برپا ہ وا اس ک ا نقش ہ واض ح نظ ر آت ا ہے۔ جاپ ان جس کی ف وجی ق وت انتہ ا
درجے کی مضبوط تھی مگر وہ جن گ اس وجہ س ے ہ ار گ ئے کہ انہ وں نے وقت کے
ساتھ چلتے ہوئے اس وقت ایٹم بم بنانے پر توجہ مرکوز نہ کی جب امریکہ اس قوت ک و
حاصل کرنے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔ اسی وجہ سے امریکہ نے ہاری ہوئی جنگ
کو جیت میں بدل کر فتح کا تمغہ اپنے نام کر لیا کی ونکہ وہ وقت کی رفت ار ک و بھ انپتے
ہوئے اس کے ساتھ ہو لیے تھے۔
ان دو امثال سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اگر خواہش ہو گوہر نایاب کی تو جسم میں
تیرنے کی قوت اور روح میں سمندر میں کود جانے کا ج ذبہ بھی ہون ا چ اہیے۔ اس وقت
دنیا میں جتنی قومیں بھی سرخرو ہیں اگر ان کی تاریخ کی کتب کے پنوں کو پلٹ ا ج ائے
تو سب سے اہم نکتہ جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہو گا کہ انہوں نے وقت کی رفتار اور
ضرورت کے مطابق خود کو ڈھاال اور آہس تہ آہس تہ پیت ل س ے س ونے میں تب دیل ہ وتی
گئیں۔ ان قوموں کی ترقی کے راز کو ندا فاضلی یوں عیاں کرتی ہیں کہ ہم نے اپنا لیا ہر
رنگ زمانے واال۔ اگ ر موج ودہ دور میں ہم کامی اب و ک امران ہون ا چ اہتے ہیں ت و ہمیں
وقت کے سمندر میں چھالنگ لگاتے ہوئے ان لہروں کا تعاقب کرن ا چ اہیے ج و ہم اری
منزل کی جانب رواں دواں ہوں۔
16
09/12/2021
کٹاس راج الہور سے شمال مغرب کی جانب اڑھ ائی س و کلومی ٹر کے فاص لے پ ر چن د
قدیم عمارتوں کا مجموعہ ہے جن کو ع رف ع ام میں من در کہ ا جات ا ہے۔ اس من در ک و
زمان و مکان کا صید ہوتے ہوئے ،مادی آنکھ سے دیکھنے سے قبل میں اسے اینٹوں پر
مشتمل ایک کھنڈر تصور کرتا تھا ،بس ایک کھنڈر۔
جب راقم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی الہ ور کی ادبی مجلس ،مجلس اقب ال کے ہم راہ کل ر
کہار کی پراسرار سرزمین سے گزرتا ہوا کٹاس راج پہنچا ،نظر مندر کی قدیم عم ارتوں
پر یوں گری جیسے سورج کی روشنی سے دیوار کا سایہ زمین پر ،میں دنگ رہ گیا۔ وہ
ایک کھنڈر نہ تھی بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عہ د رفتہ کی تہ ذیب ت اریخ کے لب اس،
وہ لباس جس نے اس کی شکل و صورت پر اپنی بربریت کی مہر ثبت ک ر دی تھی ،میں
ملبوس کھڑی ہو۔
آگے بڑھنے ہی واال تھا کہ مجلس اقبال کے جنرل سیکرٹری ثمر کو وہاں کھڑا پایا۔ ثمر
نے مجھے دیکھ تے ہی مس کراتے ہ وئے کہ ا حس ن من در کتن ا پراس رار ہے۔ اس کے
چہرے سے عیاں تھا کہ وہ بھی چند لمحات زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر پانچ ہ زار
سالہ قدیم تاریخ میں ضم ہو جانے کا منتظر ہے۔ ثمر ک و ی وں دیکھ ک ر خوش ی کی ہلکی
سی لہر میرے چہرے پر رقص کرنے لگی۔ اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے میں نے کہا ثم ر
چلو اس مقدس تاالب کی جانب چلتے ہیں جس کے متعل ق مش ہور ہے کہ وہ ت االب ش یو
کے ان آنسؤوں سے وجود میں آیا جو انہوں نے اپنی بیوی س تی ،ج و ان ک و چھ وڑ ک ر
ہمیشہ کے لیے اجل کی وادی میں اتر گئی تھی ،سے جدائی کے غم میں بہائے۔
17
ہم دونوں تاالب کی جانب ،جو سب سے بلندی پر واقع عم ارت س ے نچلی ج انب مش رق
کی طرف موجود تھا ،چل نکلے۔ راستے میں چند عمارتیں اپنی قدیمیت میں چھپی ہ وئی
تہذیب کو عیاں کرنے کی خاطر یوں سلیقے سے خاموش کھڑی تھیں جیسے غ ریب ک و
مالی ام داد دی نے کی غ رض س ے نم ود و نم ائش س ے بے نی از ام یر آدمی۔ ہم ی وں ان
عمارتوں کی جانب بڑھے جیسے ام یر آدمی س ے م الی تحفہ وص ول ک رنے کی خ اطر
غریب۔ اندر داخل ہو کر طرز تعمیر ک و دیکھ نے کے س اتھ س اتھ اس تہ ذیب کے ب ود و
باش اور رہن سہن کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے جو آج سے پانچ ہ زار س ال قب ل
صفحہ قرطاس پر موجود تھی۔
ہنومان کے مندر ،جس کی دی واریں مورتی وں کی تص اویر اور ب االئی گنب د ک ا ان درونی
حصہ مینا کاری سے آراستہ تھا ،نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آج س ے پ انچ
ہزار سال قبل لوگ کن عقائد کو بنیاد بن ائے ،کن خواہش ات ک و س ینے س ے لگ ائے ،اس
میں آ کر ہنومان کی عبادت کس انداز س ے ک رتے تھے اور ہنوم ان کس ط رح کھ ڑا ان
کی بے بسی پر قہقہے لگاتا تھا۔
تاالب کی جانب بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ قدرتی خشکی تاالب ک ا مق در بن چکی ہے
مگر مصنوعی طریقے سے اس میں پانی ڈاال جا رہا ہے ت اکہ ق دیم عقائ د ک و جال مل تی
رہے۔ ہم نے اس کے درمیان میں پڑے ہوئے ایک پتھر پ ر ج ا ک ر اس کی آنکھ وں میں
جھانکتے ہوئے عہد قدیم کی تہذیب و ثقافت کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہی مگ ر
وہ آنکھیں سپاٹ کیے بے حس پڑھا رہا۔
تاالب کے مشرق ،شمال اور شمال مغرب میں کھ ڑی ہ وئی چن د عم ارتیں جن کے ان در
جھانکنا ہمارے لئے باعث اضطراب بنتا جا رہا تھا ،ان کی جانب چلنے لگے۔ وش نو کی
مورتی دیکھنے کے ساتھ ساتھ ترشول پر بھی نگاہ پ ڑی ،دون وں ت اریخ کی چاش نی کے
ساتھ قدیم تہذیب کے عقائد پر گواہ کھڑے تھے۔
ایک عمارت دیکھی اس کی طرز تعمیر نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ دربار کا س ا نقش ہ،
دیواریں مورتی وں کی تص اویر س ے م زین ،روش ن دان س لیقے س ے بن ائے ہ وئے اور
س یڑھیاں ایس ی کے جدی د ط رز تعم یر ک و بھی خ اطر میں نہ الئیں۔ ہم اس میں کھ ڑے
حیرت میں گم ہو کر تاریخ کے آئینہ کو دیکھتے ہوئے پ انچ ہ زار س الہ تہ ذیب میں کھ و
گئے۔
18
غاروں میں بسیرا کرنے واال الو
21/12/2021
عالمہ اقبال نے تخیل کی پرواز میں محو ہوتے ہوئے نوجوان ( یاد رہے یہ نوج وان اس
وقت کا نوجوان ہے جس وقت موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا سے خ اکی دنی ا بے خ بر
تھی) کو شاہین کا تمغہ عطا کرتے ہوئے کہا تھا کہ
اقبال نے ایسا اس لئے کہ ا تھ ا کہ اس ے نوج وان میں وہ خصوص یات نظ ر آئیں ج و کہ
شاہین نام کے پرندے کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہیں۔ اگ ر ان تم ام خصوص یات
کو قلم کی نوک سے گزار کر زب ان دی نے کی کوش ش کی گ ئی ت و اص ل مض مون پ ایہ
تکمیل تک پہنچنے کی سعی میں ہی دم توڑ کر بھٹک جانے والے گمنام مسافر کی طرح
بے منزل رہ جائے گا۔ اسی لیے یہاں صرف دو تین خصوصیات ،ج و ہم ارے موض وع
سے براہ راست رشتہ قائم کرتی ہیں ،کو احاطہ تحری ر میں التے ہ وئے اص ل موض وع
کی طرف بڑھنے کی کوشش ک ریں گے۔ پہلی ص فت یہ ہے کہ ش اہین رات ک و آرام اور
دن کے وقت طعام اور باقی معامالت سرانجام دیتا ہے ،دوسری صفت ج و ب اقی پرن دوں
سے اسے ممیز ک رتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپن ا رزق ،ج و خ دا کی ط رف س ے اس کے
نصیب میں پہلے ہی لکھا جاچکا ہے ،خود تالش کرتا ہے اور کسی دوس رے پرن دے ک ا
سہارا نہیں لیتا بلکہ اپنی قوت اور طاقت پر بھروس ہ ک رتے ہ وئے راس تہ اکیال ہی طے
کرت ا ہے۔ جس وقت اقب ال نے نوجوان وں ک و ش اہین کہ ا اس وقت نوج وان میں کچھ ک ر
جانے کی تڑپ اور کچھ پالینے کا حوصلہ موجود تھا۔ اقب ال کے الف اظ ان نوجوان وں پ ر
ایسے منطبق ہوتے تھے جیسے دیودار کی لکڑی میں کیل۔
اقبال سے معذرت کرتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہ وں کہ موج ودہ تن اظر میں جب
دنیا کا تصور انٹر نیٹ کی دنیا کے بغیر تقریب ا ن اممکن ہوت ا ج ا رہ ا ہے درج ب اال ش عر
نوجوانوں کے کردار کو پرکھتے ہوئے ان کے کردار پر پورا نہیں اترتا۔ اور میں غ الب
یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج اقبال اس عالم فانی میں موجود ہوتے تو وہ
19
” تو ش اہیں ہے بس یرا ک ر پہ اڑوں کی چٹ انوں میں” کی بج ائے کہ تے کہ ت و ال و ہے
بسیرا کر پہاڑوں کی غاروں میں۔ آپ کو میرا یہ تخیل پر مبنی جملہ گ راں گ زرا ہوگ ا،
کوئی بات نہیں گراں گزرنا بھی ضروری تھا۔ ایسا اقبال کیوں کہتے؟ ،اس س وال نے آپ
کے ذہن کی کسی گمنام خ الی جگہ میں س ر اٹھ انے کی کوش ش ض رور کی ہ وگی۔ اس
س وال ک ا ج واب تالش ک رنے س ے قب ل ،ج واب تالش ک رنے ہی کے ل یے ،ال و کی
خصوصیات کا تذکرہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
ال و ص بح ک و س وتا ہے اور رات ک و جاگت ا ہے ،کس ی دوس رے پرن دے ،س وائے اپ نی
برادری کے چند پرندوں کے ،کے ساتھ کچھ واسطہ نہیں رکھت ا۔ ان دو خصوص یات ک و
ہی بنیاد بنائے اگر موجودہ نوجوان کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پہال
ثبوت ہمیں یہی ملے گا کہ دور جدید کا نوجوان دن کو سوتا ہے اور رات ک و جاگت ا ہے۔
شام پ ڑتے ہی ان کی آنکھیں ایس ے کھ ل ج اتی ہیں جیس ے روٹی ک و دیکھ ک ر بھ وکے
غریب کا منہ۔ کوئی فلم دیکھنے میں محو ہے ،تو کوئی گیم کی تخیالتی دنی ا میں کھوی ا
دشمن کو ختم کرنے میں سرگرداں۔ ان ک و کچھ خ بر نہیں ہ وتی کہ س اتھ والے کم رے،
بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ساتھ والے بستر پر پڑے ہوئے انسان کے کیا مزاج اور
حاالت ہیں۔ یعنی سیدھے الفاظ میں الوؤں کی طرح انہیں ایسا محسوس ہوت ا ہے کہ س اتھ
واال ان کی برادری کا نہیں اور اگر انہوں نے اس سے کالم کر لیا تو برادری سے نک ال
کر دربدر کر دیا جائے گا۔ اس لیے ای ک دوس رے س ے گفتگ و ہرگ ز نہیں ہ و پ اتی اور
دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن صبح کی پو پھوٹنے کے ساتھ ہی سو جاتے ہیں۔
آخری صفحہ
03/01/2022
لفظ ”آخری“ ابدی گھ ر س ے درب در ک ر دیے ج انے والے خ اکی پتل وں کی چ ار روزہ
حیات میں وہ کردار نبھاتا ہے جو ان کے دلوں کی گہرائی میں پنہ اں خواہش ات ک و س ر
20
بازار الکر پارہ پارہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ زندگی کے کینوس کو سمیٹ ک ر ای ک
لفظ میں بیان کرنے کی سعی لفظ آخری پر اختتام ہوتی ہے۔ زندگی کا ہ ر لمحہ ،ہ ر پہل و
اور ہر سانس اسی لفظ کا منتظر اور متالشی ہوت ا ہے۔ ازل س ے لے ک ر اب ت ک انس ان
کہ انی ،کت اب ،نظ ریہ ،فلس فہ اور فلم بلکہ زن دگی کے ہ ر پہل و کے س اتھ ج ڑے ہ وئے
لمحات میں میں ہمیشہ لفظ آخری کا ہی خواہاں رہا۔ اور یہ سلسلہ ابد تک ی وں ہی ج اری
و ساری رہے گا۔
کتاب کا آخری صفحہ ،ڈرامہ کی آخری قسط اور فلم کے آخ ری چن د منٹ ہی وہ لمح ات
ہیں جن میں یقینی فیصلہ ہوتا ہے کہ ک ل مال ک ر فلم ،ڈرامہ اور کت اب اچھی تھی ی ا کے
انسان کے بنائے ہوئے اس معیار سے تعلق رکھتی تھی جسے عرف عام میں برا تص ور
کیا جاتا ہے۔ کیونکہ قانون فطرت ہے ،انت بھال سو بھال۔
اگر بات کی جائے ان انسانی احساسات ،نظری ات ،فلس فیات اور تجرب ات کی جن ک و قلم
کی نوک سے گزار کر سپاٹ صفحات پر رقم کرتے ہوئے کتاب کی شکل دی ج اتی ہے
تو صفحات کی گہرائیوں میں کھو کر ہمیشہ اس صفحہ کی تالش کی جاتی ہے ج و س ب
سے آخری اور حتمی ہوتا ہے۔ کیونکہ آخری ص فحہ ہی وہ ص فحہ ہوت ا ہے ج و یہ راز
فاش کرنے کا گر جانتا ہے کہ انجام کیا ہوا۔
زندگی بھی ایک کتاب کی مانند ہے اور اس بے عنوان کتاب کا آغاز اس چیخ س ے ہوت ا
ہے جب بچہ ماں کے بہشت نما شکم سے ظالم دنیا میں قدم رکھتے ہوئے عالم خاکی کی
بربریت پر نوحہ خواں ہوتا ہے۔ ہر لمحہ ایک لفظ ،ہر دن ایک صفحہ ،ہر ماہ ای ک ب اب
اور ہر سال ایک حصہ کا نمائندہ بن کر زندگی کی کتاب کے سفید صفحات کو کاال کرت ا
ہوا گ زر جات ا ہے۔ م اں ب اپ ،رش تہ دار ،دوس ت احب اب اور ی ار بیلی اس کت اب کے وہ
کردار ہوتے ہیں جن سے کتاب میں رحمت ،اداسی ،حقارت ،نفرت ،حسد ،خوش ی ،غمی
اور محبت کے عناصر کا اضافہ ہوتا ہے۔
ہر کردار اپنی نوعیت کا منفرد اور اعلی کردار بننے اور اپنے الگ معیار کی مہر کتاب
میں ثبت کرنے کی کوشش میں س رگرداں نظ ر آت ا ہے۔ اوپ ر بی ان ک ردہ ک رداروں کے
عالوہ بھی کئی کردار ہوتے ہیں جن کا کوئی نام نہ حلیہ اور نہ ہی ک وئی نش اں مگ ر وہ
موجود ہوتے ہیں۔ کبھی خوشگوار آغاز بن کر زندگی کے پہلے صفحے کی زینت بن تے
ہیں تو کبھی پراسراریت کا لبادہ اوڑھ کر آخری صفحہ میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔
21
زندگی کی ہر کتاب منفرد اسلوب ،الگ طرز بیان اور جدا ج دا ک رداروں ک ا اپ نے ان در
سمیٹے ہوئے عجب لمحات کا مجم وعہ ہ وتی ہے مگ ر گمن ام اور بے نش ان ک ردار ہ ر
کتاب کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ کردار انسان کو کبھی خوابیدہ دنیا میں لے جاکر پرستان کی
سیر کرواتے ہیں تو کبھی حقیقی دنیا کے مسخرے ب ازاروں میں س ر ع ام نیالم ک ر کے
بے بسی کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ان کرداروں کا زندگی کی نایاب کت اب میں آن ا اور کت اب
سے گم ہو جانا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔
مگر جب یہ کردار آخری صفحہ میں اپنی پراسراریت کا لبادہ چ اک ک ر کے انس ان کے
روبرو ہو کر اپنے اصلی اور حقیقی روپ کی نمائی کرتے ہیں تو انس ان پ ر اپ نے ف انی
ہونے کا ایسا راز عیاں ہوتا ہے ہے کہ وہ پ ارہ پ ارہ ہ و ک ر اپ نی زن دگی کی کت اب کے
آخری صفحہ میں اپنے آپ کو دفن کرتے ہوئے ابدی نیند سو جاتا ہے۔ ابدی نیند!
11/01/2022
نظیر اک بر آب ادی ک ا اس م گ رامی ولی محم د اور تخلص نظ یر ک رتے تھے۔ جنم دن کے
متعلق حتمی فیصلہ کرنا کہ وہ کب پیدا ہوئے مشکل ہے کی ونکہ ت اریخ حتمی فیص لہ ک ا
سراغ وا کرنے سے قاصر ہے۔ ہاں مگر ”زندگانی بے نظ یر“ میں پروفیس ر عب دالغفور
شہباز نظیر اکبر آبادی کی دہلی میں پیدائش محمد شاہ رنگیال کے عہ د میں اور رام ب ابو
سکسینہ نادر شاہ کے حملہ کے وقت بیان کرتے ہیں۔ مبہم اشارات کی روشنی میں ق رین
قیاس یہی ہے کہ ان کی پیدائش 1740ء۔ 1735ء کے دوران دہلی میں ہوئی۔ وال د محم د
فاروق کے ہمراہ آپ بچپن میں ہی اکبر آباد (آگرہ) منتقل ہو گ ئے۔ اس ی وجہ س ے نظ یر
22
اکبر آبادی کہالئے۔ عام حاالت و واقعات اور احساسات ک و س ادہ اور ع ام فہم زب ان میں
پیش کرنے کا فن نظیر کا خاصہ ہے۔ اسی بنا پر انہیں عوامی شاعر تس لیم کی ا جات ا ہے۔
ان کی چند معروف نظموں میں آدمی نامہ ،روٹی اں ،بنج ارا ن امہ ،مفلس ی اور ہنس ن امہ
وغیرہ شامل ہیں۔ 1830ء میں فالج کے باعث ان کا انتقال آگرہ میں ہوا۔
تمثیل نگاری:
ایسا انداز تحریر جس میں موضوع پر براہ راست بحث ک رنے کے بج ائے اس تعارات و
تشبیہات اور تخیلی کرداروں (غیر ذی روح یا غیر ذی عقلی) کو اس تعمال ک رتے ہ وئے
اصل موضوع بیان کیا جائے تمثیل نگاری کہالتا ہے۔
فکری جائزہ:
نظیر اکبر آبادی نے نظم بعنوان ”ہنس نامہ“ میں تمثیل نگاری کو استعمال ک رتے ہ وئے
انسان کی اس عالم مستعجل میں اکیلے آمد اور اس جہان فانی سے ابدی ع الم کی ط رف
اکیلے کوچ کی حقیقت کو ہنس کے روپ میں بیان کیا ہے۔
جب آدمی اس دنیا میں تشریف التا ہے تو اس کے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ اس محلے
میں جہاں وہ پیدا ہوتا ہے ،خوشی کا سماں ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ جوانوں کی صف میں
قدم رکھتا ہے اور سب اس پر فدا ہونے لگتے ہیں۔
وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں اس قدر گھل مل جاتا ہے کہ اس کے دوست احباب اس س ے
جدائی کا تصور کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ دوست احباب ،رش تہ دار اور چن د محبت
میں اعلٰی مقام کے حام ل ذی وق ار اس کے س اتھ جی نے م رنے کی قس میں کھ اتے ہیں۔
23
مگر ایک دن اسے ازل سے بالوا آ ہی جاتا ہے اور جب وہ اپنے احباب س ے راز عی اں
کرتا ہے تو وہ گویا ہوتے ہیں کہ اگر تم چلے گئے تو ہمارا جین ا ممکن نہ ہ و گ ا۔ ہم بھی
تمہارے ساتھ چلیں گے۔
آخرکار وہ فانی دنیا سے عالم حقیقت کی جانب کوچ کر جاتا ہے اور تمام دوست اس کے
جنازے کے ساتھ چلتے ہیں کوئی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد تو کوئی ق بر پ ر مٹھی
بھر مٹی ڈال کر پہلی ہی منزل سے واپس لوٹ آتا ہے اور وہ آخری منزل یع نی ق بر میں
اکیال ہی جاتا ہے۔
فنی تجزیہ:
نظیر اکبر آبادی کی زیر تجزیہ نظم کا عنوان ہے ”ہنس ن امہ“ ۔ ن امہ کے مع نی خ ط ی ا
چٹھی کے ہیں۔ نظم کے متن میں ہنس کو تمثیل کے طور پر استعمال کیا گی ا ہے ج و کہ
انسان کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس بنا پر ہنس نامہ کے معنی ہوئے انسانی خط دیگر الف اظ
میں انسانی زندگی کا خط۔
کیونکہ یہ نظم اٹھارہویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل کی تص نیف ہے اس
وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کا استعمال نظر آتا ہے جو موجودہ دور میں متروک ہو چکے
ہیں مثًال ایدھر اور ہووے وغیرہ۔
مجموعی تاثر:
24
نظ یر اک بر آب ادی کی نظم ”ہنس ن امہ“ تم ثیلی نظم ہے جس میں خوبص ورت ق افیہ اور
محاورات کا استعمال کرتے ہوئے انسان کی عالم فانی میں اکیلے آمد و انتق ال کی حقیقت
کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔
حواشی:
:1۔ پروفیسر محمد عبدالغفور شہباز” ،زن دگانی بے نظ یر“ ،لکھن ٔو ،منش ی ن ول کش ور
مطبع 1900 ،ء ،ص 411۔
:2۔ نظیر اکبر آبادی” ،قاصد نامہ و ہنس نامہ“ ،مطبع آئینہ سکندر ،ص 4۔
30/01/2022
کالی شلوار سعادت حسن منٹو ک ا وہ افس انہ ہے ج و 1942ء میں ش اہد احم د دہل وی کے
جریدے ” ساقی ” میں ش ائع ہ وا۔ اس افس انہ پ ر فحاش ی کے ال زام میں الہ ور کی کس ی
عدالت میں مقدمہ چالیا گیا جہاں یہ افس انہ فحاش ی پ ر مب نی داس تان ٹھہ را مگ ر سیش ن
کورٹ الہور میں سزا کے خالف اپیل کی گئی تو اسے غیر فحش قرار دے کر منٹ و ک و
بری کر دیا گیا۔ عدالتی ریکارڈ ناپید ہونے کے سبب اس بات ک ا ثب وت پیش کرن ا کہ کن
وجوہات کی بنا پر اسے فحش اور غیر فحش قرار دیا گیا تھا ناممکن ہے۔ مگ ر اس پ ارہ
میں میں نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر بحث کی ہے۔
کالی شلوار کا پس منظر ویشیا عورت ،جس کا نام سلطانہ ہے جو خدا بخش (س لطانہ ک ا
چاہنے واال اور سلطانہ کے نزدیک خوش بختی کی عالمت) کے ہمراہ انب الہ چھ وڑ ک ر
دہلی میں آن بسی ،کا گھر ہے۔ دہلی میں سلطانہ کا کاروبار نہیں چلتا مگر آہستہ آہستہ وہ
سرمایہ بھی ختم ہو جاتا ہے جو وہ انبالہ س ے کم ا ک ر الئی تھی۔ مح رم ق ریب ہوت ا ہے
مگر اس کے پاس محرم کے دنوں میں پہننے کے لئے کالے کپڑے موج ود نہیں ہ وتے۔
وہ سفید دوپٹہ اور قمیض رنگوانے کے لیے دکان پر دے دیتی ہے مگر ک الی ش لوار ک ا
کچھ بندوبست نہیں ہو پاتا۔ آخر شنکر نامی شخص سلطانہ کے چاندی کے ُبندے لے جاتا
ہے اور کچھ دنوں بعد ایک کالی شلوار دے جاتا ہے۔ جب سلطانہ کالے ک پڑے پہن لی تی
25
ہے ت و اس کی دوس ت مخت ار آتی ہے جس کے ک انوں میں وہی ُبن دے ہ وتے ہیں ج و
سلطانہ سے شنکر لے گیا تھا۔ یہاں پر افسانے کا اختتام ہو جاتا ہے۔
تنقیدی نکتہ نگاہ س ے ک وئی بھی حتمی رائے ق ائم ک رنے س ے قب ل افس انہ کے متن ک ا
عمیق نظر سے تجزیہ کرنا الزمی ہے۔
افسانہ کے شروع میں ہی یہ معلوم ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ افسانہ کی کہ انی چکلہ کی
عورت پر مبنی ہے اور جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے یہ یقین اور پختہ ہوتا چال جات ا
ہے۔
افسانہ میں منٹو لکھتے ہیں کہ" ،تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر بیس
تیس روپے پی دا ک رتی تھی۔” اور اقتب اس مالحظہ ہ و ” ،ان چھ گ اہکوں س ے اس نے
ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کئے۔ تین روپے سے زی ادہ پ ر ک وئی مانت ا ہی نہیں تھ ا۔”
دونوں اقتباسات کے متن پ ر گہ رائی س ے س وچنے پ ر یہ فحش معل وم پ ڑتے ہیں مگ ر
بظاہر ایسے الفاظ کا استعمال نظر نہیں آتا جو کہ فحاشی کا عنصر نمایاں کرسکیں۔ بلکہ
حقیقت کا بیان ملتا ہے کیونکہ معاشرے کے ہر چکلہ کی عورت کے پاس لوگ آتے اور
پیسے ہی کے عوض نفسانی لذت حاصل کرتے ہیں۔
اقتباس ” ،خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت ض عیف
االعتقاد تھی اس لئے اس نے س مجھا کہ خ دا بخش ب ڑا بھ اگوان ہے جس کے آنے س ے
اتنی ترقی ہو گئی۔” منٹو نے اس جملہ کے ذریعے اس حقیقت کو عیاں ک رنے کی س عی
کی ہے کہ لوگ کیسے عقل کو توہم پرستی کی لونڈی بنا کر فضول عقائد ک و اعلی مق ام
بخشتے ہیں۔
اقتباس دیکھیے ” ،جب نیچے النڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگایا ت و اس
کو ایک پکی نشانی م ل گ ئی۔ ” یہ اں میلے ک پڑوں کی دھالئی کی ج اتی ہے۔” یہ ب ورڈ
پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تالش کر لیا کرتی تھی۔” اقتباس میں بیان کردہ بورڈ پر کندہ الفاظ
اک عجب حقیقت کا بی ان ہیں۔ س لطانہ کی عین مک ان کے نیچے ک پڑوں کی دھالئی اور
عین مکان میں گناہ کا پلندا ایک جنس سے دوسری جنس میں منتقل ہوتا ہے۔ س ادہ الف اظ
میں نیچے گندے کپڑے اور اوپر گندے آدمی آتے ہیں۔
26
اقتباس ” ،سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال
اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کاال لباس پہن رکھا ہے۔” جیسی انس انی ان درونی
کیفیت ہوتی ہے انسان کو بیرونی دنی ا بھی ویس ے ہی نظ ر آتی ہے کی ونکہ س لطانہ ک و
محرم کے لیے کالے کپڑے درکار ہوتے ہیں اور وہ ان کے متعل ق س وچ رہی ہ وتی ہے
اس لیے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریل گاڑی کا انجن بھی کاال لب اس زیب تن ک یے
کھڑا ہے۔
اقتباس ” ،تم عورت ہو۔۔۔۔۔کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے،
اس دنی ا میں ص رف دکان داری نہیں ،کچھ اور بھی ہے۔” ص نِف ن ازک اس کائن ات میں
صنف کرخت کا دل بہالنے اور بے رنگ ص فحہ قرط اس میں رن گ بھ رنے کے ل یے
پیدا کی گئی ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک درج باال سطر میں منٹو کرتے نظر آتے ہیں۔
ان تمام اقتباسات جو میں نے آپ جیسے قارئین کے سامنے پیش کیے کہ عالوہ اور ک ئی
ایسے جملے ہیں جو اس بات پر گواہی پیش کرتے نظ ر آتے ہیں کہ افس انہ ک الی ش لوار
فحاشی کا پلندا نہیں بلکہ معاشرے کی سچائیوں پر مبنی حقیقت کی روداد ہے۔ مگر پھ ر
بھی فحاشی اور حقیقت کا سوال میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ کیونکہ ق اری ہی بہ تر
فیصلہ کر سکتا ہے کہ افسانہ کالی شلوار حقیقت پر مبنی روداد ہے یا فحاشی کا پلندا۔
03/02/2022
گوہر کو اپنے شکم میں پرورش کی مسند عطا کرنے کی خاطر سیپ ازل سے فانی دنی ا
کے وسیع و عریض سمندر کی اوپری سطح پر قطرہ شبنم کی تالش میں س رگرداں ہے۔
اسی تالش میں کسی سیپ کو شبنم کی بوند اور کسی کو سمندر کے کھاری پانی کا قطرہ
نصیب ہ وا۔ دنی ا وس یع و ع ریض ہے اور اس کے ہ ر حص ہ میں ک وئی نہ ک وئی س یپ
ہمیشہ ایسے موتی کی تالش میں رہتی ہے جو اس کی شان کو چار چاند لگا کر فضا کی
بلندیوں کی سیر کروا سکے۔
27
ایسی ہی ایک سیپ کا ظہور پچھلی صدی کے وسط میں خاکی دنیا کے نقش ے پ ر ای ک
الگ نام کے ساتھ ہوا۔ اپنے وجود میں ڈھلتے ہی یہ سیپ بھی اپ نی ن وع کے ب اقی س یپ
کی طرح گوہر کی افزائش کی خاطر شبنم کے قطرے کے حص ول کے ل ئے س رگرداں
رہنے لگی۔ خوش بختی سے اس سیپ کو شبنم کا وہ قطرہ نصیب ہوا جو گ وہر ک ا روپ
اختیار کرنے کے بعد اس کی شان و شوکت کو چار چاند لگ ا ک ر ب اقی تم ام س یپ س ے
نمایاں مقام عطا کرنے کی صالحیت رکھت ا تھ ا۔ مگ ر ق درت نے اس ش بنم کی بون د ک و
ایک سال بعد ہی اس سے چھین لیا اور اسے اتن ا وقت نہ م ل س کا کہ وہ گ وہر ک ا روپ
اختیار کر پاتا۔
شبنم کی گزشتہ بوند چھین جانے کے بعد سیپ نئی بوند کے حصول کے لئے سمندر کی
سطح پر ماری ماری پھ رنے لگی۔ وقت کے س اتھ س اتھ ش بنم کی تالش میں س مندر کے
کھاری قطرے مل تے گ ئے ج و کچھ عرص ہ بع د ہی س یپ کی ان درونی ح الت کی اپ نی
صالحیت کے مطابق تباہی کا باعث بن کر پھر سمندر کی آغوش میں چلے جاتے۔
ساٹھ کی دہائی میں صدف کے شکم میں ایک ایس ی بون د پہنچ گ ئی جس نے ص دف کے
ہر عضو کو اپنی قوت کے زور پر اپنے قبضہ میں لے کر اپنی مرض ی ک ا برت أو کرن ا
شروع کر دیا۔ ستر کی دہائی تک وہ بوند سیپ کے تمام اعضاء کو ات نی ش دت س ے بے
ترتیب کر چکی تھی کہ سیپ کے مختلف اعضاء ایک دوسرے سے الگ ہونے کی پکار
میں محو ہ وتے گ ئے۔ وقت گزرت ا گی ا اور س یپ کی کھ وٹی قس مت کی ب دولت اس کے
نصیب میں ہمیشہ گوہر کی بجائے سمندر کے کھاری پانی کا قطرہ ہی آیا۔
کیونکہ یہ اصول کائنات ہے کہ قدرتی عمل میں کوئی بیرونی قوت کا دخل ان داز ہ و ت و
فطرتی عمل میں بگاڑ آ جایا کرتا ہے۔ ایسا ہی ہوا اس سیپ کے ساتھ۔ مگ ر س یپ ہمیش ہ
گوہر کی تالش میں سرگرداں رہی۔ سیپ نے اس بات کو تسلیم ک ر لی ا تھ ا کہ اگ ر تالش
ہوں گوہر کی تو سمندر کے کھاری پانی سے واسطہ ضرور پڑت ا ہے مگ ر وہ س یپ ہی
موتی کی تالش میں کامیاب رہتی ہے جو کھاری پانی س ے نبردآزم ا ہ وتے ہ وئے اپ نی
تالش اور کھوج سے منہ نہ موڑے۔ اسی لئے س یپ نے گ وہر کی تالش میں اپ نی ہمت،
جذبہ ،اور حوصلہ کو ہمیشہ جوان کیے رکھا۔
اسی کی دہائی میں سیپ سمندری پ انی کی کھ اری بون دیں ب ار ب ار س میٹنے اور ان ک و
گوہر میں تبدیل کرنے کی سعی میں اپنے دونوں ب ازوں ک و یکج ا نہ رکھ س کی اور اس
28
کے دو ٹکڑے ہونے کا تماشا پوری دنیا نے دیکھا۔ دو ٹکڑے ہو جانے کے ب اعث س یپ
کی ہیئت ،شکل و شباہت میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں مگ ر اس نے اپ نی تالش ک و لف ظ
اختتام سے نا آشنا رکھا۔ اسی دوران ایک بون د اس ے ایس ی نص یب ہ وئی جس کے ان در
سمندری پانی اور شبنم کی آمیزش کی۔
شبنم نے اپ نی مق دار کے مط ابق اپن ا اث ر دکھان ا ش روع کی ا اور ای ک ایس ے گ وہر کی
افزائش ہونا شروع ہوئی جس نے ق انون کی ت رتیب عط ا ک رتے ہ وئے س یپ کے آدھے
حصے ،جو کہ مکمل تصور کیا جا رہا تھا ،کو یکجا کر کے ترقی کی منازل کی ط رف
گامزن کرنا شروع کر دیا۔ مگر گوہر وہ ہی مکمل ہو پات ا ہے جس کی بنی اد مکم ل ش بنم
کے قطرے پر ہو۔ مگر وہاں تو معاملہ الٹ تھا کیونکہ شبنم کی بوند میں کھاری پانی کی
آمیزش بھی تھی۔ اسی وجہ سے افزائش کا عمل مکمل ہونے سے قبل ہی وہ آدھا ادھ ورا
موتی سمندر کی جانب واپس بہہ گیا۔
جن کا مقدر ہی ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر اپنی موج ودگی ک ا احس اس نہ دل وائے ان
کے حصے میں ہمیشہ کھاری بوندیں ہی آیا کرتی ہیں۔ یہی ہوا س یپ س اتھ۔ وہ جب ش بنم
کی بوند کے حصول کے لیے بحر کی موجوں پر سوار ہو کر ساغر کی س ب س ے بلن د
سطح پر نمودار ہوئی اور منہ شبنم کے قطرے کو اپنے اندر ضم کرنے کے لیے کھ وال
تو سمندر کے کھاری پانی کا خطرہ چاالکی سے س یپ کے ش کم میں ات ر کی ا اور س یپ
منہ کو بند کرتے ہیں واپس گہرائیوں کی جانب چلی گئی۔
ازل سے لوگوں کے دلوں میں ای ک نظ ریہ یقین کی مانن د پختہ اور پوش یدہ ہے کہ وقت
ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح سیپ کے مقدر میں بھی ایک ایسا ہی
قطرہ آیا جیسا ساٹھ کی دہائی میں اس کے دامن کو تار تار کر چکا تھا۔ مگر عجیب ب ات
یہ ہوئی کہ اس قطرہ کو پرکھنے کے دوران سیپ کو اعلی مقام بھی نصیب ہون ا ش روع
ہوا مگر کب تک۔ اگر قطرے نے اپنی خصوصیات کو ظاہر کرن ا ش روع کیں اور س یپ
کے ہر ہر ٹکڑے میں ہنگامے برپا ہونے لگے اور آخر کار اس قطرے سے چھٹکارا تو
مل گیا مگر سیپ کی حالت ابتر ہو چکی تھی۔
تب سے آج تک سیپ کو تین قطرے نصیب ہ و چکے ہیں ،ان تین وں کے خ واص بالک ل
ایک دوسرے کے خواص س ے مش ابہ ہیں۔ مگ ر کس ی نے س یپ کے ان در بس نے والی
خوردبینی مخلوق کے حقوق کا سہارا لے کر سیپ کے اندر جانے کا راستہ ہموار کیا تو
29
کسی نے سیپ کے چار مختلف حصوں ک و براب ر حق وق مراع ات اور ق وت دی نے کے
وعدے کا سہارا لیتے ہوئے سیپ کے اندر جانے کے لیے دروازہ غیر مقفل کی ا۔ آخ ری
قطرے نے بالکل الگ راستہ اختیار کرتے ہوئے س یپ ک و وہ مق ام ،ج و بیس ویں ص دی
کے وسط میں تھا ،عطا کرنے کا خواب خوردبینی مخلوق کی آنکھوں میں اتارتے ہوئے
س یپ کے ش کم کی مس ند حاص ل کی۔ یہ قط رہ ابھی ت ک س یپ کے ش کم کی مس ند پ ر
براجمان ہے ،ہو سکتا ہے کہ یہ قطرہ وہ گوہر ثابت ہو جس کے حصول کے ل ئے س یپ
تقریبًا اسی سال سے سرگرداں ہے۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔
04/02/2022
بات کچھ اور ہی تخیل میں محو گردش تھی مگر ایک واقعہ یاد آ گیا ،چلو آپ س ے بی ان
کرتا ہی چلوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مسجد میں باجم اعت نم از مکم ل ہ ونے کے
بعد کچھ افراد نے کہا کہ ابھی تین رکعات ہوئی ہیں اور ای ک ب اقی ہے جبکہ کچھ اف راد
اس خیال ( ج و یقین کی ح د ت ک پختہ تھ ا) پ ر متف ق ٹھہ رے کہ نم از مکم ل ہ و چکی۔
مولوی صاحب کی نظ ر اچان ک مس جد کے گوش ہ میں بیٹھے ب اریش ب زرگ پ ر پ ڑی۔
30
مولوی صاحب سب نمازیان نظر سے گویا ہوئے” ،آپ سب خاموش رہیں ہم اس بزرگ،
جو مسجد کے گوشہ میں تشریف رکھ تے ہیں ،س ے دری افت فرم ا لی تے ہیں کی ونکہ وہ
معتبر معلوم پڑتے ہیں“ ۔
جب بزرگ سے پوچھا گیا تو انہ وں نے کہ ا” ،ابھی تین رکع ات ہی ہ وئی ہیں اور ای ک
باقی ہے۔“ زاہدوں نے استفسار کیا کہ آپ اتنے یقین کے ساتھ کیس ے کہہ س کتے ہیں کہ
ایک رکعت ب اقی ہے ت و موص وف ریش س فید پ ر ہ اتھ پھ یرتے ہ وئے لب کش ا ہ وئے،
”بازار کے کونے پر میری چار دکانیں ہیں ،ہ ر رکعت میں ای ک ای ک دک ان ک ا حس اب
کرتا ہوں مگر آج صرف تین دکانوں ہی کا حساب ہو پایا تھا کہ سالم پھ یر دی ا گی ا جبکہ
ایک دکان کا حساب کرنا ابھی باقی ہے ،اس لحاظ سے تین رکعات ہوئی ہیں۔“
عام چال چلن میں تبدیلی کی نئی جنبش پیدا کرنا یقینًا آسان نہیں ہوتا مگر جنبش ک ا ہوی دا
ہونا الزمی ہے۔ ایک ایسی جنبش پیدا ک رنے کی ض رورت ہے ج و ض میر کی رگ میں
ارتعاش کا باعث بن کر دل کی مسند پر براجمان مورتی کو زمین بوس کرتے ہوئے پارہ
پارہ کرنے کی وجہ ثابت ہو سکے۔
بال جبریل میں شامل مثنوی ”ساقی نامہ“ میں ڈاکٹر اقبال یوں قلم اٹھاتے ہیں۔
کاروبار کا دیو ہیتوں کی تبدیلی کے ساتھ ازل سے آدم خاکی کی فانی زندگانی کے س اتھ
منسلک ہے۔ سر کو دو قدموں پ ر کھ ڑا ک رنے کی خ اطر اس دی و س ے چھٹک ارا ہرگ ز
ممکن نہیں۔ ہاں ممکن نہیں مگ ر خ دا کی بارگ اہ میں حاض ر ہ ونے س ے قب ل اس س ے
چھٹکارا حاصل نہ کرن ا انس انیت کی ش ان میں گس تاخی کی مانن د ہے۔ کی ونکہ انس انیت
31
واحد کا نغمہ االپتی ہے اور واحد کا نغمہ االپنے واال دوی کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے۔
کیسے؟
عادت سے لت تک
20/02/2022
معاشرتی حیوانیت کے تاج کو سر پر سجانے والے خاکی پتلے کے ایک ہی کام ک و ب ار
بار دہرانے کے عمل کو وہ درجہ حاصل ہے جسے سادہ الفاظ میں ع ادت کہ ا جات ا ہے۔
عادت بذات خود اچھی ہے نہ بری مگر اس کی برائی اور اچھ ائی ک ا انحص ار اس چ یز
کی نوعیت پر ہے جس کے ساتھ یہ پوست ہ وتی ہے۔ ع ادت س ے لت ت ک کے س فر ک ا
گہرائی سے جائزہ لینے سے قب ل ع ادت کی وجوہ ات ک و زی ر بحث الن ا ض روری ہے
کیونکہ عین ممکن ہے کہ عادت سے لت تک کے سفر کا آغ از ع ادت کی وجوہ ات میں
ہی پنہاں ہو۔
سب سے بڑی وجہ کسی ش خص کے ایس ے عم ل ک و اپن انے کی کوش ش کرن ا ج و اس
شخص کی شخصیت کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے گر ک ا مال ک ہ و۔ ل وگ اس
عمل کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کی خ اطر ب ار ب ار دہ راتے ہیں ت و اس عم ل کی
نوعیت میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ عادت کا سا روپ دھارنے لگت ا
ہے۔ اگر وہ عمل دوسرے لوگوں کی شخصیت کے موافق آئے تو سٹائل ورنہ بری عادت
یا خامی کا گواہ بن کر اپنے نقلی پن کا راگ االپنا شروع کر دیتا ہے۔
دوسری وجہ لوگوں کو اپنی شخصیت ،اعلٰی خاندان ،اعلٰی نسل وغیرہ سے متاثر ک رنے
کی خاطر کچھ ایسی چیزوں کی طرف مائل ہونا ہے جن کا بار ب ار اس تعمال ع ادت میں
بدل جایا کرتا ہے۔ مثًال ایک شخص جس کا تعلق امیر خاندان سے ہے وہ لوگوں کو اپنی
امیری دکھانے کی خاطر سگریٹ ،تمباکو اور شراب کا استعمال کرنا شروع کر دیت ا ہے
اور بار بار کرتا ہی چال جاتا ہے تو ایک خاص وقت کے بعد وہ اس کی عادت کا حص ہ
بننا شروع ہو جاتا ہے۔
عادت کی معراج کو لت کہا جاتا ہے۔ جب آدمی عادت سے مجبور ہو کر اس کو بار ب ار
سر انجامی سے ہمکنار کرتا رہتا ہے تو ایک درجہ ایسا آت ا ہے کہ وہ ع ادت ک و مکم ل
32
کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ اس حالت کو عادت کی معراج اور لت ک ا پہال درجہ
کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی جس کا ذکر درج واال حص ہ میں پہلے ہی کہہ
چکا ہوں وہ اپنی دولت کی نمائش کرنے کی خاطر ہر روز سگریٹ اور شراب وغیرہ کا
استعمال کرتا ہے تو ہو گا یوں کہ دو تین ہفتہ کے بعد وہ مجبور ہونا شروع ہو جائے گ ا
اور ایک ماہ کے اندر اندر سگریٹ اور ش راب پ ئے بغ یر چن د لمحے بھی س کون س ے
نہیں بیٹھ پائے گا۔ اسی حالت کو عادت کی انتہا اور لت کی ابتدا کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک بچہ کو کتب بینی کی عادت ہے اور وہ روز کتب کا مطالعہ کرت ا
ہے۔ یہ عادت بہت اعلٰی ہے مگر کتب بینی کی لت اس سانپ س ے بھی زہ ریلی ہے جس
کے ایک وار سے ہی آدمی عالم ثبات کی جانب کوچ کر جایا کرتا ہے۔
قرآن پاک میں خدا تعالی نے بار بار میانہ روی اختیار ک رنے ک ا حکم ص ادر فرمای ا۔ ہم
سب نے پڑھا مگر سمجھنے سے قاصر۔ اسی وجہ سے ہی تو فرمایا گی ا ہے کہ غ ور و
فکر کرو۔ اگر غور کیا جائے کہ میانہ روی کیا ہے ت و معل وم ہ و گ ا ،ع ادت اور لت ک ا
درمیانی نقطہ۔
اگر آپ ایک کام کو ہر روز سر انجام دیتے ہیں مگر کچھ وجوہات کی بن ا پ ر دو تین دن
دہرانے سے قاصر رہتے ہیں ،مگر آپ کو بے چینی کا سامنا نہیں کرن ا پڑت ا ت و اس ک ا
مطلب یہ ہے کہ عادت ابھی لت میں تبدیل نہیں ہوئی۔ اگر معاملہ الٹ ہے تو پھر غ ور و
فکر کی ضرورت ہے
آخر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کوئی کام عادتًا ہر روز سر انجام دی تے ہیں ت و
تنہائی میں ایک مرتبہ بیٹھ کر یہ تجزیہ ضرور کیجئے گا کہ وہ عادت ہی ہے کیا؟
21/02/2022
33
اردو زبان وہ زب ان ہے جس کی ج ڑیں برص غیر س ے پھ وٹیں اور رفتہ رفتہ پ ودے کی
شکل اختیار کرتے ہوئے بیسویں صدی عیسوی میں زبان کی حیثیت میں نم ودار ہ و ک ر
برص غیر کی آزادی اور پاکس تان کے ع دم س ے وج ود میں آنے کی وجوہ ات میں س ے
ایک اہم وجہ ق رار پ ائی۔ پاکس تان اس الم کے ن ام کے س اتھ س اتھ زب ان کے ن ام پ ر بھی
حاصل کیا گیا۔ اور وہ زبان اردو تھی ص رف اردو۔ جب پاکس تان اپ نے علیح دہ تش خص
کے ساتھ دنیا کے نقش ے پ ر ابھ را ت و ض رورت اس ام ر کی تھی کہ اس کی س رکاری
زبان کا درجہ کس زبان کے دامن میں ڈاال جائے۔ غور و خوض کے بع د اردو ہی ایس ی
زبان ٹھہری جو اس قابل تھی کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان ک ا تمغہ اپ نے دامن
میں سمیٹ لے۔ کیونکہ اس وقت یہ ہی ایس ی ب ڑی زب ان تھی ج و لوگ وں کی اجتم اعی،
سماجی ،مذہبی ،علمی ،ادبی اور فکری روایات کی واحد ذمہ دار تھی۔
قائداعظم محمد علی جناح ،بانی پاکستان ،نے ق رارداد الہ ور کے منظ ور ہ ونے اور اس
کی کامیابی کے بعد سے ہی اس مسئلہ پر تحقیق شروع ک ر دی تھی کہ ج و نی ا مل ک ہم
مسلمان حاصل کرنے جا رہے ہیں اس کی قومی و سرکاری زبان کون سی زب ان ہ وگی۔
قائد اعظم کی نظر میں سب سے ضروری یہ تھا کہ سرکاری اور ق ومی زب ان ک ا درجہ
اس زبان کو دینا چاہیے جو عالقائی تشخص سے بلند قومی تشخص کی حام ل ہ و۔ ق رآن
مجید میں بھی یہ نقطہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
”ہم نے ہر رسول اس کی ہی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔“ ۔ (سورۃ ابراہیم :آیت ) 4
ایسی زبان صرف ایک ہی تھی جس کا رشتہ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ اس طرح
منسلک کر دیا گیا تھ ا کہ وہ عالق ائی قی د کی زنج یر س ے بالک ل آزاد ہ و چکی تھی۔ وہ
زبان صرف اور صرف اردو ہی تھی۔ قائداعظم کی دور اندیش اور تجربہ پرست نظروں
نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اردو ایک تہذیب کی حامل اور عالقائیت کی پابندیوں سے آزاد
زبان ہے اور اگر ہم اسے قومی و س رکاری زب ان ک ا درجہ دیں گے ت و ہم متح د رہ ک ر
ترقی کی من ازل حاص ل ک رنے کے قاب ل ہ و ج ائیں گے۔ روش ص دیقی اردو کی اص ل
اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیں :
34
قائداعظم کو اچھی ط رح معل وم تھ ا کہ اگ ر ہم نے کس ی ایس ی زب ان ج و عالق ائیت کی
پاسباں ہو کو قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تو ملک تباہ ہو کر رہ ج ائے گ ا۔
اس وجہ سے انہوں نے برمال کہا:
قائد اعظم محم د علی جن اح نے ای ک اور اجالس میں بالک ل س ادہ اور ص اف الف اظ میں
ارشاد فرمایا کہ جو ملک ہم حاصل کرنے ج ا رہے ہیں اس کی ق ومی و س رکاری زب ان
صرف اردو ہی ہو گی۔
”میں اعالن کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔“ ( 10اپریل 1946ء)
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی ( آنند نرائن مال)
”میں واضح طور پر آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہ و گی
اور صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی زبان نہیں۔ جو آپ کو گمراہ کرنے کی کوش ش
کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔“ ( ڈھاکہ 21 :مارچ 1948ء)
قائد اعظم محمد علی جناح اس بات کے قائل تھے کہ جب تک پ ورے مل ک کی مش ترکہ
زبان نہیں ہوگی ملک کسی بھی صورت ترقی کی شاہراہ پ ر گ امزن نہیں ہ و س کتا ۔ اس
وجہ سے ایک اجالس میں انہوں نے یوں ارشاد فرمایا:
35
”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے
تو ان کی سرکاری زبان ای ک ہی ہ و س کتی ہے اور وہ م یری ذاتی رائے میں اردو اور
صرف اردو ہے۔“
مگر افسوس کہ ہم نے قائداعظم کے ارشادات کو تسلیم نہ ک رتے ہ وئے پاکس تان ک و دو
حصوں میں تقسیم کر دی ا اور اگ ر ہم موج ودہ وقت میں بھی ان ارش ادات پ ر عم ل نہیں
کریں گے تو ایک ایسا نقصان ہو گا جس کی تالفی ناممکن ہوگی۔ اس بات کو من ور ران ا
یوں بیان کرتے ہیں :
اختتامیہ:
اگر ہم دور جدید میں ترقی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپ نے ب انی اور عظیم
قائد کے ارشادات پر بغیر کسی حجت کے عمل کرنا ہو گا۔ آج اگر ہم ت رقی کی دوڑ میں
کئی ممالک سے پیچھے ہیں ت و اس کی س ب س ے ب ڑی وجہ ق ومی زب ان ک و س رکاری
درجہ سے محروم رکھنا ہے۔ ہمیں اس امر کی ضرورت ہے ،اگر ہم معاشرے کی صف
میں نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ،کہ ہم متح د ہ و ک ر ص حیح معن وں میں اردو
کے سرکاری سطح پر نفاذ کے لئے کوشاں ہو جائیں۔
27/02/2022
مشاہدہ کا انسانی زندگی میں اہم کردار ہے۔ تاریخ ع الم گ واہ ہے کہ ب ڑے ب ڑے واقع ات
کے نتائج کا رخ مشاہدات کی ب دولت یکس ر ب دل گی ا۔ روزم رہ کی زن دگی میں اگ ر اس
نقطہ پر غور کیا جائے کہ مشاہدہ کی کیا اہمیت ہے تو س و ب ات کی ای ک ب ات ہی تخی ل
سے زبان تک ک ا س فر طے ک رتی ہے اور وہ ہے اگ ر کامی ابی کی م نزل س ے ہمکن ار
ہونے کی تمنا ہے تو ہاتھ کی ایک انگلی مشاہدہ کے ہاتھ میں دے دینی چاہیے۔
مثال کے طور پر ایک ط الب علم بے ح د محنت کرت ا ہے بہت زی ادہ مط العہ کرت ا ہے۔
اپنی اصل منزل سے نا آش نا ہے ہی مگ ر معاش رے میں موج ود اس ی ش عبہ س ے تعل ق
رکھنے والے کامیاب لوگوں کی منزل کی تالش میں کی جانے والی محنت سے بے خبر
بھی رہتا ہے۔ اس وجہ سے وہ کامی ابی کی دوڑ میں پیچھے رہ ج انے وال وں میں ش مار
ہوتا ہے۔
دوسرا طالب علم درج باال طالب علم کی زندگی ک ا مش اہدہ ک رتے ہ وئے س ب س ے قب ل
اپنے اصل مقصد کی کھوج لگائے گا اور اصل منزل کا تعین کرنے کے بعد ان راس توں
کی تالش میں سرگرداں ہو جائے گا جو اس کی جستجو کو منزل س ے مالتے ہ وں گے۔
یوں وہ کامیابی کے پھل کو حاصل کرنے والوں میں شمار ہو گا۔
37
مشاہدہ کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی کامیابی کے لوازم میں شامل ہے۔
برطانیہ کی ہی مثال لے لیجیے۔ اس کی فوج امریکہ میں امریکی ریاستوں کے باش ندوں
کے ہاتھوں ناکامی سے بری طرح دوچار ہوئی ت و اس نے اپن ا رخ ہندوس تان کی ط رف
موڑا اور تجربہ کی بنا پر وہ غلطیاں دہرانے سے باز رہی جو وہ امریکہ میں ک ر چکی
تھی اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ انگریز کا راج ہندوستان کی سر زمین پر عالم نے دیکھ ا
اور موجودہ دور تک اس کا راج بالواسطہ قائم و دائم ہے۔
تجربہ اور مشاہدہ آپس میں الزم و مل زوم ہیں۔ تج ربہ کے بغ یر مش اہدہ بے ک ار ہے ت و
مشاہدے کے بغیر تجربہ کی مث ال اس پھ ول جیس ی ہے جس کے ان در خوبص ورتی ت و
موجود ہوتی ہے مگر خوشبو کا نام ت ک موج ود نہیں۔ ج و ل وگ مش کالت کے دری ا ک ا
سامنا کرتے ہوئے کامیابی کے س مندر میں غ وطہ زن ہون ا چ اہتے ہیں انہیں تج ربہ کی
کشتی میں بیٹھ کر مشاہدہ کے چپو سے حاالت کی تیز لہروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
13/03/2022
چوکور نما احاطہ ،جس میں اگی ہوئی گھاس کا سبز اور گرے ہوئے سنبل کے پت وں ک ا
گہرا زرد رنگ حسین نظارہ پیش کر رہے ہیں ،میں پڑے دو بنچوں پر س ے اس بنچ پ ر
بیٹھے جو تاریخ کی ایسی نگری جو اپنی دنی ا میں ای ک کائن ات ہے ،کی ط رف بڑھ تی
راہداری کے کنارے زمین سے پیوست ہے ،مجھ پر فاختہ ،چڑی ا ،ک وے اور کب وتر کی
آواز کے امتزاج کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی جسم سے ٹکراتی ہوا نے ایسا اث ر کی ا کہ قلم
38
اٹھائے بغیر نہ رہ سکا۔ سوچا حسن پرست ساتھیوں کو ایک ایسی بستی کی سیر کروائی
جائے جو اپنی ذات میں کائنات ہے۔
یہ بستی عرف عام میں گورنمنٹ کالج کے نام سے اپنی پہچان رکھتی ہے مگ ر میں اس
کائنات کے اندر ایک ایسی گمنام نگری کی س یر ک روانے ج ا رہ ا ہ وں جس کے متعل ق
بہت کم حسن پرست جانتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کی علمی ،ادبی اور تاریخی روایات سے
ماوراء ہو کر اس قدرتی حسن کی بات کرنے ج ا رہ ا ہ وں ج و اس نگ ری کی رگ رگ
میں پنہاں ہے۔
سبز گھاس اور نرم نرم شاخیں ایسا نظارہ پیش کرتی ہیں جس میں بال تکلف کھ و ج انے
کو دل چاہتا ہے۔ اگر زندگی کی مس کراہٹ اور خوش ی کی کھلکھالہٹ محس وس ک رنے
کی خواہش ہو تو اس کے گھاس پر دو زانو ہو کر چند پل ضرور گزارنے چ اہئیں۔ یہ اں
سے نظر بلند کیے تھوڑا باہر نکل کر چند ق دم ش مال مغ رب کی ط رف ب ڑھیں ت و نگ اہ
ایک ایسے مین ار ( )Towerپ ر پ ڑتی ہے جس کی بنی اد میں لم بی لم بی س یڑھیوں کے
پیچھے ایک دروازہ ہے۔ فجر کی نم از س ے چن د لمح ات قب ل اور مغ رب کی نم از کے
فورًا بعد اس کے اندر جلتی سبز اور گالبی روشنی ایک ایسی الکھ نگری کا نظ ارہ پیش
کرتی ہے جس کے رموز کی تالش کی خاطر اس میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے۔ یہ اں
سے مغرب کی جانب کچھ فاصلے پر لور گارڈن ( )lover gardenاپنی ط رف مت وجہ
کرتا نظر آتا ہے۔
لور گارڈن کی راہداریوں کے کنارے چھوٹے چھ وٹے حس ین و جمی ل پ ودوں اور س بز
گھاس کی کونپلوں سے مزین ہیں۔ درمیان میں ایک اونچا فوارہ ہے جس کے مغ رب کی
طرف کھڑے ہو کر کالج کی مرکزی عمارت پر نظر دوڑائی جائے تو مینار آسمان سے
39
محو گفتگو نظر آتا ہے۔ یہاں چند لمحات گزارنے کے بعد محبت کی اس روح کا احساس
ہوتا ہے جو عظیم لوگوں نے پروان چڑھائی تھی۔
مرکزی عمارت کے بالکل عقب میں دو الن ہیں جنہیں ان کے مرکز س ے گ زرتی ای ک
راہداری ،جس کے دونوں جانب سبزہ کی دیوار ہے ،الگ کرتی ہے۔ رات کے وقت جب
ہلکی ہلکی دھند زمین پ ر ات ر چکی ہ و اردو الن میں درخت وں کی جھکی ہ وئی ش اخوں
کے نیچے پڑے ہوئے کسی بھی بینچ پر بیٹھ ک ر مرک زی عم ارت کے اوپ ر آس مان پ ر
چمکتے ستاروں کا نظارہ کرنے سے ایسی خوشی کا احساس ہوتا ہے جیسا بچہ ک و جب
اس کی ماں اس کا ماتھا چومتی ہے۔
پرندوں کی چہچہاہٹ کی ترنم کو سنتے ،ہلکی ہلکی فضا کے لمس ک و محس وس ک رنے
کے ساتھ ساتھ سنبل کے درخت کی شاخوں سے اوپر آسمان کی جانب نگاہ بلند کریں ت و
سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا نظر آت ا ہے۔ یہ نظ ارہ دیکھ تے ہی انس ان ای ک
ایسی الکھ نگری میں کھو جات ا ہے جس کی ای ک ای ک چ یز حس ن کی ش اہکار ہے اور
چمکتا سورج ہر چیز کو رعنائی بخش رہا ہے۔
20/03/2022
جوں جوں زبان کو فروغ حاصل ہوتا گیا ،ادب ترقی کی من ازل طے کرت ا گی ا اور ای ک
وقت ایسا آیا جب تمام معاشرتی قدروں کا پاسبان ادب ٹھہرا۔ ادب نے انس انی زن دگی میں
انقالب برپا کرتے ہوئے انسانیت ک و مع راج کی مع راج ک ا راس تہ دکھ انے کی کوش ش
جاری رکھی۔ زندگی کا ہر پہل و ادب س ے توان ائی حاص ل کرت ا ہ وا نم و پات ا رہ ا۔ مگ ر
معاش رتی رواداری کے تن اظر میں ادب نے وہ کارن امے س ر انج ام دی نے کی بھرپ ور
کوشش کی جو آدمی کو انسان کا روپ عط ا ک رتے ہ وئے انس انیت کے پھ ول کے ان در
پنہاں خوشبو تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہو س کیں۔ پختہ اور اٹ ل عقائ د کے مال ک ہ وتے
ہوئے دوسرے لوگوں کے مخالف نظریات کو تحم ل س ے س ننا اور برداش ت ک رنے کی
کوش ش کرن ا رواداری کہالت ا ہے۔ اس چن د ح رفی مض مون میں ادب کی معاش رتی
رواداری کے فروغ کی جہت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر بات کی جائے اس ادب کی جو خدائے برحق کی طرف سے پیامبر ص لی ہللا علیہ و
آلہ و سلم کے ہاتھوں خاکی پتلوں کی ہدایت کے لئے فانی دنیا میں بھیجا گی ا ت و اس میں
خدائے لم یزل رواداری کے موضوع پر ارشاد فرماتے ہیں :
(سورت الحجرات)
نبی اعظم صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم وجہ تخلیق ادب ،معاشرتی رواداری پر لب ک و ی وں
جنبش سے آراستہ کرتے ہیں :
”تم لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔“
اگر بات کی جائے اس ادب کی جو خیموں میں پیدا ہوا ،لشکر میں پال بڑھا اور سپاہ کے
موجب تاریک دنیا میں شمع کی مانند روشن ہوا ت و وہ بھی معاش رتی رواداری ک و ای ک
اہم موضوع قرار دیتا ہے۔ اس ادب میں شاعری اور شاعری میں غزل کو روز اول سے
41
ہی اہم مقام حاصل ہے۔ ہندوستانی شعراء کرام غزل کے چراغ کی ل و میں رواداری کے
عنصر کو خوبصورتی سے روشن کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ:
(چکبست)
ادب کے ساتھ ساتھ ادبی مشاعروں کا بھی معاشرتی رواداری کے ف روغ میں اہم ک ردار
رہا ہے۔ ہندوستانی ت اریخ گ واہ ہے کہ جہ اں بھی ادبی مش اعرہ منعق د ہوت ا اونچے طبقہ
س ے لے ک ر نچلے طبقہ ت ک کے ش عرا ای ک دوس رے کے پہل و بہ پہل و بیٹھ تے اور
رواداری کے تن وع رنگ وں کے پھ ول کی آبی اری ک رتے۔ ان مش اعروں کی ای ک مث ال
مشاعرہ ”آئینہ ہندوستان“ تھا جو ہری سرن داس کے دولت خانہ پر منعقد ہوا کرتا تھا۔
اردو ادب کی تاریخ میں کئی ادبی تحریکیں اٹھیں ،ان تحریک وں میں تحری ک علی گ ڑھ
سرفہرست ہے۔ اس تحریک کے سرخیل سرسید احمد خان نے جس نقطہ پر اس تحریک
کی بنیاد رکھی وہ رواداری تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ ادب کو ایسے ڈھاال جائے کہ وہ ہندو
مسلم اتحاد کا باعث بنتا ہوا دونوں کی انگریزوں کے ساتھ دوستی کی وجہ بھی ثابت ہ و۔
اس ل ئے 1857ء کے بع د تخلی ق ہ ونے والے ادب میں معاش رتی رواداری ک ا عنص ر
نمایاں ہے۔
ن ثری ادب میں افس انہ ک و اہم مق ام حاص ل ہے۔ افس انہ نگ اروں نے ادب ک و معاش رتی
رواداری ک ا ذریعہ بن اتے ہ وئے م زدور س ے لے ک ر س یٹھ ،مس لم س ے لے ک ر ہن دو،
یہودی ،سکھ ،عیسائی بلکہ ہر طبقہ اور مذہب کے لوگوں کو اپ نی کہ انیوں ک ا موض وع
بنایا۔ سعادت حسن منٹو نے معاش رتی رواداری کے تن اظر میں جنس یت پ ر قلم اٹھای ا ت و
راجندر س نگھ بی دی نے معاش رتی رش توں کے ات ار چڑھ أو کے بے ک راں س مندر میں
غوطہ زنی کی۔ ہر ادیب نے اپنے قلم کو الگ انداز پرواز سے روشناس ک رواتے ہ وئے
رواداری کی مختلف جہات کو اجاگر کیا اور لوگوں کو رواداری اختیار کرنے پر ابھارا۔
نہ صرف ادب بلکہ ادبی تعلیم بھی معاشرتی رواداری کے ف روغ میں اپن ا منف رد ک ردار
ادا کرتی رہی ،اور کر رہی ہے۔ ہندو اساتذہ کے ہ اں مس لم ش اگرد اور مس لم اس اتذہ کے
ہاں ہندو شاگرد ادبی تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرتی رواداری کی شمع کو روش ن رکھ نے
42
کا باعث بنتے رہے۔ مثًال میر کے شاگرد منور الل صفا اور غالب کے شاگرد ب ال مکن د
بے صبر وغیرہ۔
حرف اختتام:
ادب معاشرتی رواداری کے فروغ میں ہمیشہ صف اول میں کھڑا رہا چ اہے وہ ش اعری
ہو یا نثر۔ ادب نے معاشرے کو رواداری کی انواع سے متع ارف ک روانے اور اس س ے
اصل روح سے آہنگ پیدا کرنے کے لیے کئی رنگ بدلے مگر اپنا ف رض بخ وبی نبھات ا
رہا۔ سادہ الفاظ میں معاشرے میں رواداری کے پرندے کو مح و پ رواز ک رنے ک ا س ہرا
ادب کے سر ہے۔
حواشی:
)3گوپی چند نارنگ ،مضمون” :اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات“ ۔
)4ان ور س دید ،ڈاک ٹر” ،اردو ادب کی تح ریکیں“ انجمن ت رقی اردو پاکس تان ،ک راچی،
2021ء۔
24/03/2022
43
اس ضمن میں ”میرے آئیڈیل“ اور ”مجلس یادگار نظیر حسین زی دی“ بط ور نم ونہ پیش
کیے جا سکتے ہیں۔ ادب کی روح معاشرے کی روح کو زندگی سے آشنا کروانے کا گر
جانتی ہے اور ادب کا خالق ادیب ہوت ا ہے ،اگ ر ادیب ہی ادبی روح ک ا قات ل ٹھہ رے ت و
معاشرے کو مردہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس اصول کو گردان تے ہ وئے ش اہین
زیدی ”فروغ علم و ادب ،ٹھٹھرتی اندھیر نگ ری ،بہ روپ کی زن دگی۔ کت نی؟ ،بے س بز
بہار ادب ،جبر کا ادب ،اور بند کواڑوں کا ادب“ میں ان ادیبوں سے خ ائف نظ ر آتی ہیں
ج و ادب تخلی ق ک رنے کی بج ائے گروہ وں میں بٹ ک ر کچ ا ادب اگل تے ہ وئے تمغ ات
وصول کرنے کی سعی میں سرگرداں ہیں۔
اور ساتھ ہی ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں“ میں پ ر امی د بھی ہیں کہ موج ودہ دور میں راکھ
میں کہیں نہ کہیں چنگاری بھر رمق ،جو معاش رے ک و روش ن رکھ نے کی ض امن ہے،
باقی ہے۔ اداریہ ”اردو والوں کے بغیر اردو کانفرنس“ میں اس بات پ ر گ ریہ ک رتی ہیں
کہ موجودہ دور میں ادب کے نام پر جو کانفرنسیں ہو رہی ہیں ان ک ا ادب س ے در کن ار
ادب کے معنی تک سے تعلق نہیں۔ یار دوست ادبی کانفرنس کا ڈھونگ رچا ک ر مالق ات
کا بہانہ تالش کرتے ہیں اور ان لوگوں کو محفل میں مدعو کرنا کسر شان س مجھتے ہیں
جو حقیقی معنوں میں ادبی روح کے پاسباں ہیں۔
بیشتر اداریے اس بات کا پرچ ار ک رتے ہیں کہ اردو کی بق ا حقیقی معن وں میں پاکس تان
کی بقا ہے۔ اداریہ ”لمحہ فکریہ“ میں انہوں نے یہ موقف اپنای ا ہے کہ پاکس تان وہ مل ک
ہے جہاں ہر زبان کو ف روغ پ انے کے مواق ع میس ر ہیں س وائے اردو زب ان کے۔ ش اہین
زیدی کے لئے ان کے شوہر کی موت کا صدمہ بہت بڑا تھا جس سے وہ باہر تو نہ نک ل
سکیں مگر ان کی یاد کی شمع کو کبھی ”اہل علم و دانش“ تو کبھی ”ی ادوں کے چ راغ“
میں روشن کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔
اس کتاب کا بہ ترین اداریہ ”ٹھٹھ رتی کت ابیں اور بھ اگتے درخت“ ہے جس میں مص نفہ
نے درخت کو بطور عالمت استعمال کرتے ہوئے ان لوگ وں ک ا ت ذکرہ ک رنے کی س عی
کی ہے ج و ادب کے برگ د ہیں۔ اس کے عالوہ ای ک ط رف معاش رے کی سیاس ی
صورتحال ،دہشت گردی ،ٹارگیٹ کلنگ پر قلم اٹھاتی ہیں ت و دوس ری ط رف نوجوان وں
کو تخلیق اور تحقیق کی طرف راغب کرنے کی خواہش من د بھی ہیں۔ آخ ر میں بس اتن ا
ہی کہنا چاہوں گا کہ یہ کتاب بعنوان ”بند کواڑوں کا ادب“ متنوع رنگوں ک ا گلدس تہ ہے
جس کی خوشبو سے ادبی طالب علم کو ضرور لطف اندوز ہونا چاہیے۔
44
نمرود کی خدائی
06/04/2022
دوسرا افسانہ بعنوان ”سوراج کے لئے“ ہے۔ اس افسانہ میں مذہب کے لب ادے میں پنہ اں
اس چہرے سے نقاب اٹھانے کی سعی کی گئی ہے جو پس پردہ رہ ک ر سیاس ت کے مہ ا
گرو کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اس پنہاں س چ س ے بھی پ ردہ اٹھای ا
گیا ہے کہ مہا گرو اپنے مفاد کی تکمیل کی خاطر کس طرح لوگوں ک و اپ نے س حر میں
گرفتار کرتے ہوئے ان سے کٹھ پتلی کا سا کردار ادا کرواتے ہیں۔
چند افسانوں جن میں ”ڈرلنگ ،بدتمیز ،عزت کے لئے ،اور ش ریفن“ وغ یرہ ش امل ہیں،
میں منٹو نے خوبصورت چہروں سے نقاب اٹھاتے ہوئے اس ہوس ک و بے نق اب ک رنے
کی کامیاب کوشش کی ہے جو فسادات کے دنوں میں لوگ وں کی نس نس میں س ما چکی
تھی۔ مصنف اس ہوس ک ا تعل ق کبھی م ادیت کے س اتھ ت و کبھی جنس یت کے س اتھ ق ائم
کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دامن عصمت سے جب ف ریب ک ا نق اب اٹھای ا
جاتا ہے تو اندرونی کہانیاں وحشی حیوان کی روداد معلوم پڑتی ہیں۔
45
”شیر آیا ،شیر آیا ،دوڑنا“ ایک ایسی کہانی ہے جس میں منٹو کا مخصوص رنگ مفق ود
ہے مگر قدیمیت میں جدیدیت کا رنگ شامل کرتے ہوئے ایسا ام تزاج بنای ا گی ا ہے جس
کی ہر جھلک سے ایک ہی صدا بلند ہ وتی ہے کہ کس ی بھی ذی روح ک و ،اس کی ب ات
کو سنے بغیر ،اس کے آبا و اجداد کی غلطی کی بنا پر مجرم نہیں ٹھہران ا چ اہیے ،بلکہ
تحمل سے اس کی بات کو درجہ سماعت عط ا ک رنے کے بع د ،ح االت کے تن اظر ک و
پیش نظر رکھے معاملہ ک ا تج زیہ ک رنے کے بع د ،رائے ق ائم ک رنی چ اہیے کہ آی ا وہ
مجرم ہے یا محرم۔
والدین اپنی اوالد سے غلط توقعات کی امید لگائے انہیں وہ منزلیں ،ج و وہ خ ود حاص ل
نہیں کر پائے تھے ،حاص ل ک رنے کی خ اطر ای ک خ اص ڈگ ر پ ر چالنے کی کوش ش
کرتے ہیں۔ مگر جب ان کی اوالد مخصوص رستہ پر چلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی ت و
والدین کس طرح خود کو مایوسی کے جام کی اتھاہ گہرائیوں میں م دہوش ک ر لی تے ہیں
کو منٹو نے افسانہ ”ہرنام کور“ میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
زمانہ چاہے کتنا ہی تاریک کیوں نہ ہو کچھ ایسے لوگ ض رور ہ وتے ہیں ج و مایوس ی
میں بھی امید کی کرن کو روشن رکھنے کی ہ ر ممکن کوش ش ک رتے ہیں ،چ اہے انہیں
اس مقص د کے حص ول کے ل یے ح االت کے بے ڈھنگے پن پ ر قہقہے لگان ا پ ڑیں ی ا
حاالت کی ستم گری پر واویال کرنے کی نوبت آ پہنچے۔ وہ اپنے مقص د ک و واض ح اور
روشن رکھے امید کی کرن سے راستہ ہم وار ک رنے کی جس تجو میں س رگرداں رہ تے
ہیں۔ ایسے ہی ایک کردار ،جو حاالت کی نزاکت ک و بھ انپتے ہ وئے بہ تری کی جس تجو
میں لگا رہتا ہے ،ک ا ح ال منٹ و نے افس انہ ”دیکھ کب یرا آی ا“ میں بی ان کی ا ہے۔ اس کے
عالوہ اس مجموعہ ہے میں کچھ ایسے بھی کردار ہیں جو ہمیں اپنے موج ودہ معاش رے
کے افراد معلوم پڑتے ہیں اور ایسا محس وس ہوت ا ہے کہ راہ چل تے ہ وئے ہمیں کہیں نہ
کہیں یہ کردار ضرور مل جائیں گے ،یا مل چکے ہیں۔ ان ک رداروں میں ش ہید س از ،بی
زمانی بیگم اور شہزادہ غالم علی کے کردار نمایاں ہیں۔
آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اگ ر ہندوس تانی آزادی کے دوران برپ ا ہ ونے والے فس ادات
اور فسادات کی بدولت ذہنیت کی تبدیلی کو سمجھنے کی تمنا ہو تو ایک بار اس افسانوی
مجموعہ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
46
درگاہ سے درگاہ تک کا سفر
09/04/2022
اشفاق احمد فرماتے ہیں” ،گورنمنٹ کالج الہور (موجودہ یونیورس ٹی) ای ک درس گاہ ہے
جس میں“ س ”کا حرف اضافی ہے۔ عالم گواہ ہے کہ اس جہ ان ف انی میں فق ر ک ا گ وہر
درگاہوں سے ہی نصیب ہوتا چال آ رہا ہے۔ جس فقیر کے کاسہ کو وہ انمول صدف عط ا
ہوتا ہے اسے درویشی کا وہ جوہر ،جس کی چمک دمک سے دنیا کی نس نس روشن ہو
جاتی ہے ،نصیب ہو جاتا ہے۔ مگر یہ قیمتی رتن حاصل کرنا ہ ر ای ک کے بس کی ب ات
نہیں ،بلکہ صرف وہ خاص لوگ جنہیں خدائے بر حق کی طرف سے منتخب کر لیا جاتا
ہے ،اسے حاصل کرنے کی صالحیت رکھتے ہیں۔
گورنمنٹ کالج الہور دیگر درگاہوں سے قدرے مختلف نوعیت کی درگ اہ ہے۔ اس درگ اہ
میں زندگی کی چند خوبصورت سال گزارنے کا موقع تو صرف خاص خاص لوگوں ک و
ہی میسر آتا ہے ،مگر اس درگاہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر فق یر کے کش کول میں اتن ا
فیض ضرور ڈال دیتی ہے جتنا فقیر کی استطاعت کے موافق ہوتا ہے۔
ہر درگاہ میں بہت سی کمیٹیاں یا تنظیمیں ،جو معامالت ک و س نبھالتی ہیں ،موج ود ہ وتی
ہیں۔ گ ورنمنٹ ک الج الہ ور میں بھی ایس ی ک ئی تنظیمیں ،جنہیں سوس ائٹی کے ن ام س ے
موسوم کیا جاتا ہے ،موجود ہیں۔ ہر سوسائٹی کا حلقہ جدا جدا ہے۔ ک وئی سائنس ی تحقی ق
میں مح و ت و ک وئی حق وق ع امہ کی پاس داری ک و عملی ج امہ پہن انے کی کوش ش میں
س رگرداں۔ ان میں س ے ای ک سوس ائٹی ”مجلس اقب ال“ ،ج و ادبی تحقی ق و تخلی ق میں
گورنمنٹ کالج کا طرہ امتیاز ہے ،کے نام س ے علمی ش ان و ش وکت کی حام ل ہے۔ اس
سوسائٹی کی ہمیش ہ یہ کوش ش رہی ہے کہ طلبہ ک و ادبی ورثہ س ے روش ناس ک روانے
کے مقصد کو مقدم رکھا جائے۔ چند دن قبل مجلس اقبال طلباء کو پنج ابی ورثہ کی ای ک
جہت س ے روش ناس ک روانے کی خ اطر پنج ابی زب ان کے شیکس پیئر ،ہ یر کے خ الق،
حضرت وارث شاہ کی درگاہ پر لے گئی۔
گورنمنٹ کالج الہور کی شان و شوکت کی عالمت ”مینار“ کے سامنے سے گاڑی صبح
آٹھ بجے روانہ ہوئی۔ گاڑی کے اندر سپیکرز پ ر ہلکی ہلکی ت رنم ،ج و دل وں ک و م ترنم
کرنے کی صالحیت سے لبریز تھی ،بج رہی تھی۔ ناشتے کا انتظام ش یخو پ ورہ میں کی ا
گیا تھ ا۔ س اڑھے ن و بجے کے ق ریب مق رر ک ردہ ہوٹ ل کے دروازے کے عین س امنے
47
گاڑی کو روکا گیا اور طلباء کو ہوٹل کے اندر سندر کرسیوں پر ذی شان کے ساتھ بٹھایا
گیا۔ ناشتہ میں وہ تمام روایتی اشیاء ،جن کے بغ یر الہوری وں ک ا ناش تہ مکم ل نہیں ہوت ا
موجود تھیں ،کے عالوہ مجلس اقبال کے مشیر اعلٰی جناب ڈاکٹر س فیر حی در کی محبت
اور کابینہ کے خلوص نے کھانے میں وہ لذت گھول دی تھی جس کو احاطہ تحری ر میں
النا میرے تئیں ناممکن نہیں تو مشکل ض رور ہے۔ یہ اں س ے گ اڑی میں س وار ہ و ک ر
ناچتے گاتے ایک بجے کے قریب ہم محبت کے وارث کی درگاہ پر موجود تھے۔
چند لمحات بعد ڈھول منگوایا گیا جس کی تھاپ پر ہم س ب ن اچتے ،جھوم تے اور رقص
کرتے درگاہ کی جانب ب ڑھے۔ ق دم ق دم پ ر ای ک ایس ی خوش بو ،جس کے ذرہ ذرہ س ے
عظیم محبت کی س وندھی س وندھی مہ ک اٹھ رہی تھی ،روح میں س رایت ک رتی گ ئی۔
درگ اہ کے ص در دروازے کے ان درونی ب ائیں ج انب محبت پی ار کے ب ازوں میں مح و
رقص تھی اور دائیں ط رف عش ق کھ ڑا ان کی بالئیں لے رہ ا تھ ا۔ درگ اہ کی مرک زی
عمارت کے چھت کے اندرونی حصے میں مین ا ک اری نے م یرے قلب میں ای ک ایس ی
ترنگ ک و ابھ ارا جس ک ا احس اس مجھے زن دگی میں اس س ے قب ل کبھی نہیں ہ وا تھ ا۔
مرکزی کمرے کے عین درمی ان دو ق بریں تھیں ای ک وارث کے وارث ( وال د) کی اور
دوسری ہیر کے وارث کی۔ درگاہ پر کسی نے محبت کے حصول میں کامیابی پ ر پھ ول
چڑھائے تو کسی نے اپنی ہیر کو حاصل کرنے کی خاطر پھول اٹھائے۔
ہم مرکزی عمارت کے عین عقب میں واق ع اس الئ بریری میں بھی گ ئے جس کے ای ک
حصے میں پنجاب کی ثقافت ،جس کا تعلق براہ راست ہیر رانجھا سے تھا ،دکھ ائی گ ئی
تھی۔ الئبریری کی دوسری جانب کتاب کے پنوں پر ہ یر اپ نی محبت کے ام ر ہ ونے ک ا
جشن منانے میں محو تھی۔ جشن اس قدر شاندار تھا کہ ہم اس میں کھو ک ر رہ گ ئے اور
یہ بالکل بھول گئے کہ جہاں ہیر ہوتی ہے وہاں کیدو کا وجود الزم ہے۔ وقت نے کیدو کا
سا کردار ادا کیا اور ہمیں چار و ناچار جشن عشق کو الوداع کہنا پڑا۔ الوداع!
48
پانی ،مسکراہٹوں کا پاسباں
19/04/2022
بات شروع کی جائے اگر کتابوں کے پنوں میں کھو ک ر مس کراتی زن دگی ک ا س راغ ک ا
تالش کرنے سے تو سب سے قبل جس کت اب کے ص فحہ س ے یہ س راغ وا ہوت ا ہے وہ
کتاب انسانیت کی بھالئی کی امین قرآن مجید ہے۔
49
حضرت محمد صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم وہ ہستی ہیں جنہیں آخری رسول ﷺ ہونے
کے ساتھ ساتھ دنیا کی سو عظیم ترین شخصیات میں بھی اول درجہ حاص ل ہے۔ دون وں
لحاظ سے آپ صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مستند ترین ہے۔
(صحیح مسلم)
پانی وہ نعمت ہے جس کی شفافیت پہاڑوں کی فضا کو نمی عطا ک رتی ہ وئی ان پ ر اگی
ہوئی جڑی بوٹیوں اور انواع و اقسام کے رنگوں کے پھولوں کی خرام ناز کا باعث بنتی
ہے تو ساتھ ساتھ دیو قامت درختوں پ ر مش تمل جنگ ل کی بق ا ک و دوام بھی بخش تی ہے۔
انسان اس سے اپنے جگر کو ٹھنڈک بخشتے ہوئے سکون کی مس ند پ ر براجم ان ہ وتے
ہیں۔ پرندے اس کی بوند بوند سے مخمور ہو کر درختوں پ ر بیٹھے نغمہ االپ تے ہیں ت و
جانور پانی سے سرور حاصل کرتے ہوئے قدرت کی نعمت پ ر اظہ ار تش کر بج ا التے
ہیں۔
جہاں پانی لذت ،سکون اور رعنائی کا باعث ہے وہاں دنی ا کی تم ام ذی ارواح اش یاء ک و
بیماریوں س ے بھی بچات ا ہے۔ اگ ر ب ات کی ج ائے اش رف ت رین مخل وق کی ت و اس کی
زندگی کو بیماری کی آغوش سے نا واقف رکھنے میں پانی کا اہم کردار ہے۔
جاپانی طبی ماہرین کے مطابق شدید سردرد ،ہائی بلڈ پریشر ،خون کی کمی ،جوڑوں ک ا
درد ،دل کی دھڑکن کا ایک دم تیز یا آہستہ ہو جان ا اور م رگی ک ا عالج گ رم پ انی س ے
ممکن ہے۔ کچھ م اہرین ک ا یہ بھی کہن ا ہے کہ نہ ار منہ پ انی پی نے س ے میٹ ابولزم کی
کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے اور جسم سے زہریلے مادے خارج ہ ونے ک ا عم ل ت یز ہ و
جاتا ہے۔
کائنات کی کوئی بھی ذی روح جب پیاسی ہوتی ہے تو اس کی ح الت ایس ی ہ وتی ہے کہ
اس کے حواس خود اس کے اپنے قابو میں نہیں ہوتے اور ایسی حالت بیماروں سے بھی
ابتر ہوتی ہے۔ مگر پانی کے چند گھونٹ حواس کے ٹھکانے میں آنے کی وجہ بن جاتے
ہیں۔ F۔ Batmanghelidjاس حوالے سے کہتے ہیں :۔
18/06/2022
ہاسٹل ایک ایسی نگری کا نام ہے جو ماؤں کے الل کو بے حال ک رنے کے ق انونی ہ نر
سے ماالمال ہوتی ہے۔ ہاس ٹل کے اس ق انونی ہ نر کے س انچے س ے گزرن ا ان طلب اء و
طالبات پ ر ف رض عین کی مانن د الگ و ہوت ا ہے ج و دل میں اعلٰی تعلیم کے حص ول کی
خواہش کے موتی کے لمس کو سلگائے گھر سے دور اعلٰی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے
ہیں۔ ہاسٹل کے در و دیوار کے اندر داخل ہوتے ہی تمام کام کی ذمہ داری خود پ ر عائ د
ہو جاتی ہے اور ان بچوں کا حال دیکھنے الئق ہوتا ہے جو گھر کے راج میں کبھی تنکا
تک نہیں اٹھاتے۔
ہاسٹل کی زندگی کے جہاں بے شمار مسائل ہیں وہاں چھوٹی چھوٹی خوش یاں ،دوس توں
کے س اتھ س ارا س ارا دن گزارن ا ،ای ک دوس رے ک و ب ات ب ات پ ر چڑھان ا ،ن ئے ن ئے
موضوعات کی کھوج ،آئے دن نئی شرارتیں ،دوستوں کے گروہ میں کھڑے ہ و ک ر ہل ڑ
بازی اور عجیب قسم کے مذاق جیسی رونقیں بھی شامل ہیں۔ اگر ہاس ٹل کی زن دگی کے
بنیادی مسائل کو زیر بحث الیا جائے ت و وہ ص رف دو ہیں ،پ انی اور کھ انے ک ا مس ئلہ۔
گاؤں کا ٹھنڈا میٹھا پانی جن کی گھٹی میں شامل ہو انہیں ہاسٹل کا کھ اری پ انی راس آن ا
سچ میں عجوبہ اور معجزے کی بات ہے۔
گاؤں کے کھیت کو سیراب کرتے ٹیوب ویل کا صاف و شفاف آب اور م اں کے ہ اتھ کی
مک ئی کی روٹی ،لس ی اور س اگ کے ع ادی ہاس ٹل کے بے نم ک کھ انے اور نمکین و
51
بدمزہ پانی سے آئے روز بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہاسٹل میں بیماری کا مطلب ہوتا ہے عذاب
اٰل ہی کیوں کہ ہاسٹل میں زیادہ تر لوگ الو صفت ہوتے ہیں جو دوسرے لوگوں کے س اتھ
میل مالپ رکھنا اپنی فطرت کے عین منافی سمجھتے ہیں۔ بعض اوق ات مع املہ اس کے
برعکس بھی ہوتا ہے اور خوش قسمتی سے ایسے لوگ بھی میسر آ جاتے ہیں جو خی ال
رکھنے والے ہوتے ہیں۔ مگر دوسرے گروہ کے اف راد کی ش رح پہلے گ روہ کی نس بت
بہت کم ہے۔ اگر انسان ہاسٹل میں موسِم امتحان کے دوران بیمار پ ڑ ج ائے ت و ج و اذیت
برداشت کرنا پڑتی ہے وہ عذاب عظیم سے کسی صورت بھی کم نہیں ہوتی۔
چوتھے میقات کے فائنل امتحان کے دنوں میں میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ رونما
ہوا۔ ُادھر امتحان شروع ہوئے اور ِادھ ر مع دہ میں ش دید قس م کی ٹھیس اٹھ نے لگیں۔ دو
تین روز تک میڈیکل سٹور سے دوائی وغیرہ لیتا رہا اور کمرے کے س اتھیوں ک و خ بر
تک نہ ہونے دی۔ میرا یہ اصول ہے کہ اپنے ساتھیوں کو کس ی ص ورت نہ پریش ان کی ا
جائے اور نہ ہی ان کے معامالت میں دخل ان داز ہ وا ج ائے اور امتح ان کے دن وں میں
اس اصول پر سختی سے کار بند رہا جائے۔
چوتھے روز درد کی شدت سے چہرہ کا رنگ پھیکا اور آنکھیں زرد ہونا شروع ہوگئیں۔
چہرے کے تاثرات اور مسکراہٹ کے پھیکے پن سے کمرے کے ساتھیوں کا ش ک یقین
میں بدلتا گیا کہ حسن کی طبیعت ناساز ہے۔ ان سے نہ رہا گیا اور انہوں نے سختی سے
دریافت کیا تو میرے بتانے پر برہم ہوئے اور مجھے کمرے میں بستر پر لیٹنے ک ا حکم
صادر کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔ آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرنے پایا تھا ،ہاتھ میں دوائی کا
پیکٹ لئے کمرے میں واپس داخل ہوئے۔ چن د منٹ بع د ڈاک ٹر بھی آ نکال اور م یرا ہلک ا
پھلکا عالج کروایا گیا۔ پانچویں دن طبیعت کی زیادہ خ رابی کی ب دولت ہس پتال بھی جان ا
ہوا۔ واپس آتے ہی دونوں ساتھی مجھے سختی سے آرام ک رنے کی ہ دایت ک رتے ہ وئے
پرچہ کی تیاری میں جٹ گئے۔ کیونکہ میرا اگلی صبح پرچہ نہیں تھا اس وجہ س ے آرام
سے سو گیا۔
اگلی صبح بیدار ہوا تو درد کی شدت میں کمی ضرور تھی مگر اتنا درد باقی تھا کہ پانچ
منٹ مسلسل بیٹھ نہ پاتا تھا۔ بارہ بجے کے قریب یونیورسٹی کے ای ک س خن فہم دوس ت
کا میسج آیا اور عی ادت کی غ رض س ے م یرے ہاس ٹل آنے کی اطالع دی۔ تقریب ا ای ک
بجے کال آئی اور دوسری ج انب س ے دوس ت کی آواز آئی” ،میں ب ازار میں کھ ڑا ہ وں
اور سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کا ہاسٹل کس طرف ک و ہے۔“ میں نے اس ے وہیں رک نے ک ا
52
کہا اور بنفس نفیس اسے لینے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں ،جناب ہاتھ میں لسی اور کھانے کا ڈبہ
پکڑے چلے آرہے ہیں۔ ہاسٹل لے کر آیا اور اپنی طبیعت کے ناساز پن کو اس پ ر عی اں
نہ ہونے دیا۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں اور پھر اس دوست نے ایک دوس رے دوس ت ک و
کال کر کے کہا” ،میں حسن کے پ اس ہ وں ،تم بھی آ ج اؤ“۔ چن د لمح ات بع د وہ دوس ت
اپنے ایک دوست کو ساتھ لیے آ پہنچا۔
پہلے سے تشریف الئے ہوئے دوست نے وہ کھانا پیش کیا جو وہ اپنے ساتھ الیا تھ ا۔ اس
کے باوجود کہ ڈاکٹر نے مجھے روٹی سالن کھانا سختی سے منع کیا تھ ا ،دوس توں کے
لحاظ کی خاطر چند لقمے تن اول ک یے۔ گپ ش پ ش روع ہ وئی ت و ب ات یونیورس ٹی کے
مع امالت ،یونیورس ٹی کے اس اتذہ ،اردو ادب اور خان دانی روای ات س ے ہ وتی ہ وئی
پاکستانی سیاست تک جا پہنچی۔ میری حالت ایسی کہ مسلسل بیٹھے رہنے اور چند لقمے
روٹی کی وجہ سے درد کی شدت بڑھتی گ ئی۔ ایس ی ح الت کے ب اوجود مس کراہٹ کے
جھومر کو چہرے پر سجائے رکھا اور اپنی طبیعت کی اصل حالت دوستوں پ ر عی اں نہ
ہونے دی۔
وہ ساتھی پیچھے مڑا اور میرے جامعہ کے ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہ وئے ب وال۔ ”
کیا آپ سب پنجابی ہیں؟“ سب نے یک زب ان کہ ا” ،جی الحم دہللا! ہم س ب پنج ابی ہیں۔“
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا اور پوچھا ” ،حسن رات تمہیں کتنے انجکش ن لگے تھے۔“
میں نے جواب دیا” ،تمہیں معلوم ہے“ وہ پھر میرے جامعہ کے دوستوں س ے مخ اطب
ہوا اور کہا۔ ” اگر تسی برا نہ مناؤ تے حسن نوں آرام کرن دیو۔ توساں نوں ای دی ح الت
دا اندازہ نیں۔ ایہنوں آرام دی سخت ضرورت اے۔“ یہ سن ک ر دوس توں کے ت اثرات میں
کچھ خاص تبدیلی نہ آئی اور انہوں نے کہا کہ ہم ابھی جانے لگے ہیں۔ مجھے قدرے برا
بھی لگا مگر کمرے کے ساتھی کی میری طبیعت کو لے ک ر اض طرابی نے خوش ی ک ا
احساس بھی دالیا۔ وہ رخصت ہوئے اور میں درد کے کرب سے نج ات کی خ اطر بس تر
53
پر دراز ہو گیا۔ جیسے جیس ے ط بیعت میں بہ تری آتی گ ئی ای ک امن گ دل میں پ روان
چڑھتی گئی کہ دوستوں کو کال کر کے کہوں!
22/06/2022
اتنے میں فریادرس ،سفید رنگ کے لباس میں ملب وس ،ک ا وہ اں س ے گ زر ہ وا۔ اس نے
جب ستمگر کو ہاتھ میں بندوق ،جو خون کی طالب تھی ،اور ستمکش کو ستون کی مانند
سامنے کھڑا اور حق ح ق کی ص دا بلن د ک رتے پای ا ت و ان کے درمی ان آ کھ ڑا ہ وا اور
ستمگر سے محبت بھرے انداز میں ہلکی سی مسکراہٹ کو چہرے پر سجائے سوال کیا،
54
”ستمگر ،اتنے غصے میں کیوں ہو تم؟“ ستمگر نے جابرانہ ان داز میں بن دوق کی ن الی
کو ستمکش کے سینہ کے مزید قریب کرتے ہوئے کہا” ،کبھی یہ سرزمین جس پر آج یہ
،اس نے ستمکش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،اپنا ح ق جم ائے بیٹھے ہیں ہم ارے
آباؤاجداد کی تھی مگر ان کے جابر آباؤاجداد نے ہماری نسلوں پ ر ظلم ڈھ اتے ہ وئے ہم
سے چھین لی تھی۔ اور آج جب ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ اپ نی ملکیت ک و واپس حاص ل
کر سکیں تو یہ اپنے آباؤاجداد کی روش پر چلتے ہوئے ہم کو ہمارا جائزحق دینے س ے
انک اری ہیں۔ اب آپ ہی ہم ارا فیص لہ ک ریں اور ہم ارا ح ق ہم ارے دامن میں ڈال دیں“۔
فریادرس ستمکش کی طرف پلٹا اور آنکھوں میں خون اور چہرے پر غصہ نمایاں ک یے
بیک وقت کئی سوال داغ دئیے” ،تم لوگ کیوں غاصب بنے بیٹھے ہ و؟ لوگ وں ک ا ح ق
مارنے کی روش کو تم کب چھوڑو گے؟ تمہارے آباؤاجداد نے بھی لوگ وں ک و م ارنے
کو اپنا مقصِد عظیم قرار دیا تھا اور اب تم بھی ان کی روش اور اسی راس تے پ ر چل تے
ہوئے دنیا کا امن تباہ کرنے پر آمادہ ہو اور لوگوں کا وہ حق ،جو تمہ ارے آباؤاج داد نے
غصب کیا تھا ،دینے سے انکاری ہو؟“
ستمکش ،ستمگر کی بندوق کی نالی ک و پیچھے جھٹک تے ہ وئے ،فری ادرس کی آنکھ وں
میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوا۔ ”ع الِم ف انی گ واہ ہے کہ ہم ارے آباؤاج داد نے ص رف اور
صرف امِن عالم کی خاطر ان لوگوں کی مخالفت کی جو امن کو تب اہ ک رنے کے در پے
تھے۔ اور جب وہ ل وگ ت وبہ کرلی تے تھے کہ وہ ظلم اور ظ الم کی حم ایت نہیں ک ریں
گے ،ہمارے آباؤاجداد انہیں تمام حق وق ع زت کی رح ل میں س جا ک ر عط ا ک رتے اور
انہیں وہ مقام دیتے جس کی مثال آج کی دنی ا پیش ک رنے س ے قاص ر ہے۔ رہی ب ات اس
سرزمین کی تو یہ سرزمین ہم ارے آباؤاج داد کی تھی۔ انہ وں نے نہ کس ی س ے چھی نی
تھی اور نہ ظلم کی حم ایت کے ص لے میں حاص ل کی تھی۔ یہ ہم اری تھی ،ہے اور
انشاءہللا کل بھی ہماری ہی ہوگی۔“
”تو پھر؟“
55
”موت کو ایسے گلے لگاؤ جیسے تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلنے واال جوتے کو۔“
ستمکش سے چپ نہ رہا گیا اور دالئل کے لمس ک و س لگائے کہ نے لگ ا” ،یہ س ر زمین
ہمارے لیے ماں کی گود کی مانند ہے اور دنیا کا کوئی بے وقوف بھی یہ نہیں چاہے گ ا
کہ ماں کی محبت بھری گود کو چھوڑ کر یتیم ہو جائے۔ ہم بھی یتیم نہیں ہونا چ اہتے۔ یہ
سرزمین ،وہ سرزمین ہے جس کی مٹی ہم اری ج ڑوں کی چوکی دار ہے۔ اگ ر ہم اس ک و
چھوڑ کر یہاں سے نکل گئے تو ہم زندہ نہ رہ سکیں گے۔“
23/06/2022
علی اکبر ناطق موجودہ دوِر ترقی کے ایسے عمدہ لکھاری ہیں جن کی وجہ شہرت ناول
ن ولکھی ک وٹھی ہے۔ مگ ر اس کے عالوہ ش اعری اور افس انہ نگ اری میں اپ نی پہچ ان
56
بنانے میں بھی سرگرداں ہیں۔ اگ ر ب ات کی ج ائے ان کے افس انوی ک رداروں کی ت و وہ
زی ادہ ت ر ایس ے ک رداروں ک و پیش ک رتے ہیں جنہیں پ ڑھ ک ر معل وم ہوت ا ہے ایس ے
کرداروں سے ہم بھی مل چکے ہیں اور شاید بچھ ڑ بھی چکے ہیں۔ ایس ے ہی ک رداروں
میں سے ایک کردار کا نام منشی فضل حسین ہے جسے افسانہ بعنوان ”سفید موتی“ میں
پیش کیا گیا ہے۔ اس کردار کی شخصیت کو ایک ایس ی پراس رار فض ا کے س انچے میں
رکھ کر پیش کیا گیا ہے کہ افسانہ شروع ہوتے ہی تجسس کی لہ ر کھ وج کی مہ ک میں
تبدیل ہو کر اس کردار کی شخصیت کے راز کی تالش میں مح و ج اتی ہے۔ افس انہ کے
شروع میں کردار کو قارئین کے سامنے یوں پیش کیا جاتا ہے:
” وہ کھلے گراؤنڈ میں کرسی پر بیٹھا اتنا ُپرسکون تھا جتنا کوئی خزاں رسیدہ درخت ہو
سکتا ہے “
اس جملے کو پڑھتے ہی تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایسا کردار ہے ج و زم انے کے س فاک
پن کے ہاتھوں لوٹا ج ا چک ا ہے مگ ر اس کے ب اوجود وہ ُپرس کون ہے اور اس ے اپ نی
حالت پر کچھ مالل نہیں۔ آخر یہ کیسا کردار ہے۔
جیسے ہی افسانہ کی کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے تجّسس کی چمک میں ت یزی آتی ج اتی
ہے۔
”ہر کوئی جانتا تھا کہ اس کے پاس ایک انڈے کے براب ر س فید رن گ ک ا م وتی ہے اور
اس موتی میں ایک جن بند ہے۔ وہ جن اسے لوگوں کے راز اور غیب کی باتیں بتات ا ہے
اور گیت بھی سناتا ہے۔“
انڈے کے برابر سفید رنگ کے موتی اور اس میں بند جن جیس ے الف اظ س ے جہ اں اس
کردار کی ُپرسراریت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ایس ا بھی محس وس ہوت ا ہے کہ یہ ک وئی
داستانوی ہیرو ہے جس کے پاس ای ک جن ہے ج و اس کی ہ ر خ واہش کی تکمی ل کرت ا
ہے۔
اس کہانی ”سفید موتی“ کا کردار منشی فضل حسین ہمیشہ سکول میں بیٹھا رہتا ہے مگر
کسی کو پڑھاتا نہیں۔ جب سکول کے طلبہ فضل حسین کے بچوں س ے اس س فید م وتی،
جو ان کے مطابق منشی فضل حسین کے پاس موجود ہے ،کے بارے میں س وال ک رتے
57
ہیں تو وہ ایسا جواب دیتے ہیں جس سے پراسراریت میں جہاں اضافہ ہوتا ہے وہ اں اس
کی شخصیت کے اسرار سے پردہ کِھ سکتا بھی معلوم پڑتا ہے۔
”اس کے پاس پھ ٹی پ رانی کت ابوں ک ا ای ک ڈھ یر ہے ،جس میں عجیب و غ ریب ب اتیں
لکھی ہیں۔ دلچسپی سے یکسر خالی ،مکمل نہ سمجھ آنے والی۔ ب ڑے بی ٹے ک ا کہن ا تھ ا
سفید موتی ان کتابوں میں کہیں چھپا کر رکھا ہو تو اور ب ات ہے۔ ورنہ پ ورے گھ ر میں
موجود نہیں۔“
سفید موتی کی حقیقت اور اس کے اصل رمز سے شناسائی کی لہر اس وقت بی دار ہ وتی
ہے جب ایک طالب علم منشی فضل حسین سے س فید م وتی کے متعل ق س وال کرت ا ہے
اور پوچھتا ہے کہ وہ موتی کہاں ہے؟ منشی صاحب یوں جواب دیتے ہیں۔
”استاد جی لڑکے کہتے ہیں آپ کے پاس انڈے برابر موتی ہے۔ ہاں بیٹا وہ ٹھی ک کہ تے
ہیں میرے پاس موتی ہے ،لیکن یہاں کوئی اس کے دیکھنے کا اہل نہیں۔“
فضل حسین کے جواب سے جہاں اصل راز سے پردہ اٹھنا شروع ہوتا ہے وہ اں ح یرت
بھی ہوتی ہے کہ موتی میں ایسا کیا راز ہے جس کی ب دولت ل وگ اس ک و دیکھ نے کے
اہل نہیں۔
فضل حسین ایک طالب علم جو فضل حسین کے دوست کا بیٹا ہوتا ہے اسے پڑھانے کی
ذمہ داری لیتا ہے اور اسے اپنے ساتھ پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھانا ش روع
کرتا ہے۔ مگر اس سادہ واقعہ ک و ایس ے طلس ماتی الف اظ کے س اتھ بی ان کی ا گی ا ہے کہ
افسانہ کے کردار پر داستانوی ہیرو کا شک گہرا ہوتا جاتا ہے۔
”اس جگہ کو پہچان ل و۔ روزانہ میں تمہیں یہیں تین گھن ٹے ت ک کچھ من تر پڑھ اؤں گ ا۔
جب تک تم یاد نہیں کر لیتے ،میں وہ سفید موتی تم کو نہیں دکھا سکتا۔“
”دو منتر وہیں بیٹھے بیٹھے یاد بھی کرا دیے۔ اس کا نام اس نے مجھے امیر خس رو کی
پہیلیاں بتایا تھا۔“
58
قدرتی مناظر کی خوبصورتی کے رموز کو فضل حسین جس ط رح بی ان کرت ا ہے ،اس
سے اس کی شخصیت پر پڑے وہ سارے پردے ،جو اس کی شخص یت ک و پراس رار بن ا
رہے تھے ،اٹھ جاتے ہیں اور ایک ایسا کردار ابھرتا ہے جسے حقیقی معن وں میں اس تاد
کہا جاتا ہے۔
”اس پھول کی پتیوں کے اندر جو یہ نیلے نیلے اور گالبی ریشے نظر آتے ہیں یہ اص ل
میں خ دا کی ن رم روحیں ہیں اور یہ ج و ہلکی ہلکی خوش بو س ونگھ رہے ہ و ،جس ے تم
دیکھ نہیں سکتے ،یہ خدا ہے۔ یہی وجہ ہے جو انسان جتنے زیادہ پھول اور درخت لگاتا
ہے ،ہّٰللا میاں اس سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے اور اسے بڑے بڑے سفید موتی دیتا ہے۔“
منشی صاحب نہ صرف طالب علم پر ایسا جادو کر دیت ا ہے ج و ط الب علم کے ل ئے ان
موتیوں سے محبت کا باعث بنتا ہے جو کتابوں کی نگری میں جابجا بکھ رے ہ وتے ہیں
بلکہ اس گر کے رمز کو بھی طالب علم پر عیاں ک ر دی نے کے ہ نر ک و جانت ا ہے ،ج و
کتب نگری میں بکھ رے موتی وں کے چن نے میں کلی دی حی ثیت رکھت ا ہے اور اس کے
بغیر موتیوں کو چننا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن۔
”دن کیا رات کیا ،میں منتر پڑھتے تھکتا نہیں تھا۔ ایسی ہ ڑک لگی کہ بعض دف ع س اری
ساری رات جاگتا اور ج ادو کے ملک وں کی س یر کرت ا۔…… ال ف لیلہ ،ام یر حم زہ ک ا
عمرو عیار ،سامری جادوگر اور قصہ چہ ار درویش ،طوط ا کہ انی ،قص ہ ح اتم ط ائی،
مثنوی سحر البیان اور زہر عشق کے منتروں نے وہ رونق پیدا کی اور ایسے سفید موتی
دیکھا دیے کہ ان کے آگے منشی جی کے موتی کی کچھ حیثیت نہ رہی۔“
المختصر سفید موتی استعارہ ہے علم کا۔ اور فضل حسین کی شخصیت کا رم زیہ ہے کہ
وہ نہ صرف عالم ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ایک ایسا استاد بھی ہے جو نہ صرف طلبہ
کو علم سے ماال مال کرتا ہے اور قدرتی رموز سے آشنا کرتا ہے بلکہ ان کے ان در علم
کی سچی تڑپ پیدا کرتے ہوئے انہیں اس راستے سے آگاہ بھی کرتا ہے جس کا ذرہ ذرہ
انہیں ان کی تڑپ کی گہرائی کو علم سے پر کرنے کے ہنر سے اٹا ہوا ہے۔
لڑکیاں خدا کی عجب مخلوق ہے۔ کہتے ہیں کہ ہ ر کامی اب م رد کے پیچھے ع ورت ک ا
ہاتھ ہوتا ہے ،جس کی پشت پناہ یہ مخلوق ہوتی ہے وہ زن دگی کے می دان میں ہ ار س ے
دو چار ہونے کی بجائے پھولوں کے ہار کا مستحق ق رار پات ا ہے۔ جبکہ دوس ری ج انب
جب یہ مخلوق کسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہے وہ بچارا پھر ہاتھ دھ ونے کے
قابل بھی نہیں رہتا۔
مگر میری تئیں معاملہ بالکل جدا نوعیت ک ا ہے۔ م یرے پیچھے ت و یہ طلس ماتی مخل وق
بغیر ہاتھ دھوئے ہی پڑ گئی ہے اور ایسی پ ڑی ہے کہ ہ اتھ دھون ا ت و درکن ار میں پ انی
کے نام تک سے التعلق سا ہو گیا ہوں۔ بات تو سحر انگیز اور حیرت کی ہے مگ ر ش اید
میرے تئیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک اس حیرت اور سحر انگ یزی کی کچھ اہمیت نہ
ہو۔ ممکن ہے کیونکہ جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑے۔
میں ایک تیسرے درجے کا عام اور گمنام لکھ اری ہ وں مگ ر چھ وٹے چھ وٹے مق ابلوں
میں شرکت کرنا اور اپنا ن ام ب اقیوں س ے ج دا ک رنے کی کوش ش کرن ا لت کی ح د ت ک
میری عادت ہے۔ مقابلہ میں شرکت اس وجہ س ے نہیں کی ج اتی کہ جیت ک ر انع ام اور
داد پائیں گے بلکہ اس غرض سے کی جاتی ہے کہ دوڑ میں شریک ہو کر قل بی تس کین
حاصل ہوگی۔ میرا اصول بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ میں مقابلہ میں شرکت اس غرض س ے
نہیں کرتا کہ جیت کے ہ ار ک و م اتھے ک ا جھ ومر اور س ینے کی ش ان بن ا س کوں بلکہ
صرف ذہنی اور قلبی سکون کی خاطر۔
بطور یونیورسٹی کے طالب علم مقابلہ مضمون نویسی میں میری ش رکت تب ہ وئی جب
جی سی یونیورسٹی الہور نے تم ام یونیورس ٹیز سوس ائٹیز کے س مٹ ک ا انعق اد کی ا۔ اس
مقابلہ میں میری تیس ری پوزیش ن رہی ،جبکہ پہال انع ام جی س ی یونیورس ٹی الہ ور کی
لڑکی کے نام ہوا۔ مجھے تیس رے انع ام ک و اپ نے ن ام ک رنے کی ات نی خوش ی نہیں تھی
جتنی اس بات کی کہ پہلی سیڑھی پر قدم جمانے والے کا تعلق صنف آہن سے ہے۔
دوسری مرتبہ میں نے اس مقابلہ ،جو یو ای ٹی ( )UETنے منعقد کروایا تھا ،میں بطور
سو لفظی کہانی کے لکھاری شرکت کی۔ خوش قسمتی سے دوسرا درجہ م یرے ن ام ہ وا
اور پہلی منزل کو سر کرنے کا سہرا اپنے سر پر سجانے ک ا اع زاز ی وواس ()UVAS
کی صنف نازک کو حاصل رہا۔ مجھے دوہ ری خوش ی ہ وئی۔ ای ک اس ب ات کی کہ میں
60
خود میں کچھ بہتری النے میں کامی اب رہ ا اور دوس ری اس ب ات کی کہ جدی د نس ل کی
لڑکی کے قلم میں طاقت تو ہے۔ ساتھ ہی کہیں نہ کہیں اداسی کی ہلکی سی لہ ر بھی س ر
اٹھانے لگی کہ دوسری مرتبہ بھی لڑکی سے ہارا۔
تیسری مرتبہ راقم نے اس قومی سطح کے مقابلے میں شرکت کی جو قائد اعظم کے یوم
پیدائش کے حوالے سے تحریک نفاذ اردو نے منعقد کروای ا تھ ا۔ میں نے کوش ش کی کہ
اچھا اور معیاری مضمون لکھ سکوں اور اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی رہ ا
ہے۔ نتائج کا اعالن ہوا اور دوسرا استھان م یرے ن ام ہ وا اور مق ابلہ کے می دان میں پہال
انعام حاص ل ک رتے ہ وئے ای ک ل ڑکی نے م یرے ط وطے اڑا دیے۔ نت ائج دیکھ تے ہی
میرے منہ سے اچانک نکلنے واال لفظ تھا ”پھر لڑکی!“ اب کی بار اداسی کی ہلکی س ی
لہر غصہ کے تالطم سے غم میں تبدیل ہوتی گئی۔
ایک دور تھا جب لڑکی گھر کی چوکھٹ پر کسی ناکام خ واہش کی تکمی ل کی خ اطر دم
سادھے گھٹ گھٹ کر ازلی دشمن موت کے ہاتھوں شکار ہو کر ابدی منزل ق بر میں ج ا
پہنچتی ،اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔ مگ ر اب وہ دور ہے جب ص نف ن ازک کے پ ر
کھول کر انہیں آزادی کا پروانہ دیا جا چکا ہے اور وہ ہر میدان میں یہ ثابت کر رہی ہیں
کہ وہ صنف کرخت سے کسی بھی صورت کم نہیں۔ مگر ایک پہلو!
نتائج کا اعالن کیا گیا۔ نتیجہ دیکھتے ہی غص ہ چہ رے پ ر الل پیال ہوت ا گی ا اور دل میں
جنگ کی ترنگ پروان چڑھنے لگی۔ خود تو جناب دوسری منزل کے پاسبان تھے مگ ر
پہلی منزل کے چوکھٹ پر بیٹھنے والے کا تعلق عورت ذات تھا۔ قومی سطح کی کامیابی
پر جتنی خوشی تھی اس سے زیادہ غصہ اس بات پ ر تھ ا کہ ہ ر ب ار ہی ل ڑکی ہ اتھ ک ر
جاتی ہے۔
61
میری لڑکیوں سے کوئی دشمنی نہیں اور نہ ہی میں انہیں کسی سے کم تصور کرتا ہوں۔
بلکہ میرے لیے یہ باعث فخ ر ہے کہ ہم ارے دور کی ع ورت اس قاب ل ہ و گ ئی ہے کہ
کسی بھی مقام پر اپ نی اہلیت کے ج وہر دکھ ا ک ر اعلٰی مق ام حاص ل کرس کے۔ اس کے
باوجود دل سے کہیں نہ کہیں سے یہ آواز بھی بلند ہوتی ہے کہ ہر بار لڑکی۔ لڑکی!
نوبل انعام الفریڈ نوبل سے وابستہ ایک ایسا انعام ہے جو طبیعی ات ،طب ،معاش یات ،امن
اور ادب کے میدان میں ان لوگوں کے دامن میں ڈاال جاتا ہے جو ایسا کارنامہ س ر انج ام
دیں جو کہ نہ صرف لوگوں کی زن دگیوں ک و مت اثر ک رے بلکہ اس ک ام کی ن وعیت اس
کے متعلقہ میدان کے دیگر شہ سواروں سے الگ اہمیت بھی رکھتی ہ و۔ بیس ویں ص دی
کے آخری عشروں میں نوبل انعام کو احمقانہ کوشش اور موت کے بوسے جیسے الف اظ
سے بیان کیا جاتا رہا ،مگر اکیسویں صدی کی ابتداء کے ساتھ ہی اس کی اہمیت میں اس
قدر اضافہ ہوا کہ اسے بین االقوامی عزت و وقار کی عالمت سمجھا جانے لگا۔
اگر ب ات کی ج ائے ادب کے می دان میں نوب ل انع ام ی افتہ لوگ وں پ ر ت و ان کی فہرس ت
خاصی طویل ہے۔ بہت سے لکھاری قلم تھام لیتے ہیں ،انگلیوں کو قلم ک ا ع ادی بھی بن ا
لیتے ہیں ،مگر عمر بھر وفا نبھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ک ئی لکھ اری نوب ل انع ام
62
کی دوڑ میں حص ہ لی تے ہیں مگ ر ط بیعت کی ک اہلی اور غ یر س نجیدگی ،معاش ی اور
سماجی مجبوریوں یا رجحانات کے بدالٔو کے ہاتھوں مجبور ہو ک ر رخ ب دل ج اتے ہیں۔
نتیجے میں زمانہ کی سفاکی کا شکار ہو کر گمنامی کی گہرائی میں گ رتے چلے ج اتے
ہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایک مرتبہ قلم تھام کر اس سے تاحیات وفا کا رش تہ اس توار ک یے
رکھتے ہیں ،آخر نوبل انعام یافتہ کہالتے ہیں۔
انہیں لوگوں میں سے ایک نام اورح ان پ اموک ک ا ہے۔ لکھ اری کے ل یے لکھن ا ،لم بے
عرصے تک لکھنا اور دس دس گھنٹے مسلسل لکھن ا ،ش وق کی ک ڑی آزم ائش ہے اور
اس آزمائش سے تیس سال سے زائد عرصہ تک کامی ابی س ے ن برد آزم ا ہون ا اورح ان
پاموک کا ہ نر اور خاص ہ ہے۔ ان کی خ دمات کے اع تراف میں انہیں 2006ء میں نوب ل
انعام سے نوازا گیا۔
لکھاری معاشرے کا دماغ اور اس کا قلم معاشرے کی زبان ہوتا ہے۔ بے باک اور باہمت
دماغ سے حکم وصول کرنے والی زبان وہی بول تی ہے ج و دم اغ س وچتا ،س مجھتا اور
تجزیہ کرتا ہے۔ یہی اصول اورحان پاموک پر صادق آتا ہے۔ اورح ان پ اموک ت رکی ک ا
پیدائش ی اور ت رک ق ومیت ک ا حام ل ہے۔ مگ ر اس کے ب اوجود انہ وں نے ت رکی کے
متنازعہ مسائل کو اپنے ناولوں کا موضوع بناتے ہوئے ترک سفاک پن کی سچی تصویر
دنیا کے سامنے رکھی ،اور یہ بیان کیا کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران ان کے ملک میں
تیس ہزار کرد اور دس الکھ آرمینیائی باشندوں کا قتل عام ہوا۔
لیکن کسی نے بھی اس حقیقت کو ریاستی پابندی کی وجہ سے عیاں نہ ہونے دیا۔ اس پر
انہیں ریاست اور قومی اسمبلی کی توہین کے الزام میں مق دمے ک ا س امنا بھی کرن ا پ ڑا
مگر انہوں نے اپنے سفر کو ج اری رکھ ا۔ ان کے کچھ ن اول جیس ا کہ My Name Is
Red، White Castle، Snowاور حال ہی میں Other Colorsاردو کے قالب میں
ڈھ الے ج ا چکے ہیں۔ ان کے دو ن اولوں Snowاور My Name Is Redکے اردو
تراجم بالترتیب ”جہاں برف رہتی ہے“ اور ”سرخ میرا نام“ میری نظر سے گزرے۔
”سرخ میرا نام“ ایک شاندار ناول ہے جس میں تاریخ ،فن اور تہ ذیب ک و اکٹھ ا ک ر کے
ایک شاندار کہانی تش کیل دی گ ئی ہے۔ اس ن اول میں جہ اں تہ ذیبی تص ادم اور دنی اوی
کینوس میں آدم ذات کی اہمیت اور اس کے کردار کو تمثیلی کرداروں سے واضح کرنے
کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ،وہ اں پ ر ت رکی کے اس ع روج کی تص ویر کش ی بھی
63
نظر آتی ہے جب وہ جمود کا شکار ہو چکا تھا۔ بنیادی طور پ ر اس ن اول میں اہ ل ت رک
کو خبردار کرتے ہوئے اورحان پاموک نے ان حقائق سے پردہ اٹھانے کی سعی کی ہے
جو سلطنت عثمانیہ کے زوال کی وجہ قرار پائے۔ فن مصوری ک و جس کم ال کے س اتھ
بیان کیا گیا ہے وہ اورحان پاموک کے مشاہدہ کی پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اورحان پاموک ایک باکمال اور حقیقی معنوں میں فنکار شخصیت کا حامل ہے ،ریاس تی
پابندی کے باوجود متنازعہ مسائل کو دنیا کے روب رو پیش کرن ا اس ک ا خاص ہ اور اس
کی بے باکی ،حوصلہ مندی ،اور ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جن قارئین کو قدرتی من اظر
س ے لگ أو ہے اور معاش رے کے متن ازعہ مس ائل کے س اتھ س اتھ تہ ذیبی تص ادم ،فن
مصوری ،سیاسی مذہب اور ترک تاریخ کے متعلق کچھ جانن ا چ اہتے ہیں ،انہیں ”جہ اں
برف رہتی ہے“ اور ”سرخ میرا نام“ ایک بار الزمی دیکھنے چاہئیں۔
عصر موجود میں کون ایسا ہے جو عطاء الح ق قاس می کے ن ام س ے واق ف نہیں۔ وہ نہ
صرف ادیب اور مزاح نگار بلکہ سفر نامہ نگار اور ک الم نگ ار بھی ہیں۔ ان کی خ دمات
کو نا صرف ادبی حلقوں میں تس لیم کی ا ج ا چک ا ہے بلکہ حک ومت پاکس تان بھی ان کی
خدمات ک ا اع تراف ک رتی ہے اور اع تراف کے ثب وت میں یہی ک افی ہے کہ انہیں تمغہ
حسن کارکردگی ،ستارہ امتیاز اور ہالل امتیاز جیسے قومی میڈل سے نوازا جا چکا ہے۔
ایک عرصہ سے عطاء الحق قاسمی روز نامہ جنگ میں ”روزن دیوار س ے“ کے تحت
کالم نگاری کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
64
کالم کو تنقید کی ہلکی آنچ پر تیار کرتے ہوئے دالئل کا مسالہ ڈالنا اور مزاح کی طشتری
میں قارئین کو پیش کرنا عطاء الحق قاسمی کا خاصہ ہے۔ اس طریقہ کالم نگاری سے نہ
صرف قاری دماغی رگوں کے تنأو سے محفوظ رہتا ہے بلکہ وہ مسائل کی نوعیت ،اس
کے نازک پن اور اس کی اصل وجوہات سے آگاہ بھی ہو جات ا ہے اور نہ ص رف آگ اہی
بلکہ کالم پڑھنے کے بعد خود کو ت ازہ دم بھی محس وس کرت ا ہے۔ ان کے ک الم ہفتہ میں
دو ،تین بار لگتے ہیں اور جن قارئین کو مزاح کی چاش نی س ے لط ف ان دوز ہ ونے کی
عادت پڑ چکی ہے ،وہ ان کے کالم کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔
آج مورخہ 24جوالئی 2022ء ہے اور عطاء صاحب ک ا ک الم بعن وان ”جہ اں میں تھ ا“
روز نامہ جنگ میں شائع ہوا ہے۔ مختصر الف اظ میں م ذہبی ،سیاس ی س ماجی ،اجتم اعی
اور انفرادی منافقت کو جس انداز سے ایک ہی لڑی میں پرو ک ر ہ ار کی ش کل دی گ ئی
ہے وہ انہی کا ہنر ہے۔
موج ودہ دور میں م ذہبی من افقت روپیہ کم انے ک ا ہ نر بن چکی ہے۔ ن ام نہ اد مالء اپ نی
خواہش ک و پ ایہ تکمی ل ت ک پہنچ انے کی خ اطر دین کی پڑی ا میں ب دعت کے زہ ر کی
مالوٹ کرتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو متاثر ک رتے ہیں ،بلکہ ان کے ل یے ،ج و اوپ ر
بیٹھے ڈوری ہال کر مالء اکرام سے کٹھ پتلی سا کردار ادا کرواتے ہیں ،خوشی کا باعث
بھی بنتے ہیں۔
مذہبی منافقت کو عطاء الحق قاسمی یوں منظر عام پر النے کی کوشش کرتے ہیں :
”رات کو میں ایک ریستوران میں کھانے کے لئے گیا تو دیکھا وہ عالم دین اور حض ور
صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کے ذکر پر سر دھننے والے بہت سے لوگ ابوجہل کے س اتھ
بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ یہ لوگ بھرپور قہقہوں سے ریستوران کی فض ا ک و بوجھ ل
کیے ہوئے تھے۔ میں نے جاتی دفعہ ابوجہل کو کھانے کا بل ادا کرتے دیکھا۔“
ایسی ہی ایک اور کہانی بیان کرتے ہ وئے وہ ذاک ر لوگ وں کے ق ولی و فعلی تض اد پ ر
پڑے پردے کو فاش کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کو اس لیے وج ود کی ش کل دی گ ئی ت ا کہ
مذہبی سرپرست اپنی اپنی مذہبی پھکی جس میں انہوں نے ش یعہ ،س نی اور وہ ابی ن امی
زہر کی مالوٹ کر رکھی ہے کو بآسانی بیچ سکیں۔ مگر اصلیت وہی ہے کہ ان کی ڈور
کسی اور ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہتا ہے ڈور ہال کر مذہبی رہنمأوں کو تگ نی
کا ناچ نچاتا ہے۔
65
عطاء صاحب ذکر کرتے ہیں ایک مجلس عزا کا جس میں ایک ذاکر غم حسین پر زار و
قطار رو رہا تھا اور سامعین کو بھی رال رہا تھا۔
”اگلے روز میں ایک فلم دیکھنے گیا تو یہ ذاکر گیلری میں شمر کے ساتھ بیٹھا فلم دیکھ
رہا تھا۔“
”رہنما فرط جذبات سے اپنی تقریر مکمل نہ کر سکا اور اسے ادھوری چھ وڑ ک ر وہ اں
سے جانا پ ڑا۔ اس ے ویس ے بھی ج انے کی جل دی تھی کی ونکہ ش ہر کی وہ تم ام مقت در
شخصیتیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی ،ای ک ڈن ر میٹن گ پ ر
اس کی منتظر تھیں جہاں عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنانے کے ایجنڈے کو حتمی
شکل دی جانا تھی۔“
اصل منافقت بہت چھوٹے درجے سے شروع ہوتی ہے۔ دور ترقی میں ہر اس شخص کو
تنقید کا نشانہ بنایا جات ا ہے ج و اپن ا س ب کچھ مغ ربی ممال ک میں لے جات ا ہے۔ ان کے
متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی اوالد نہ صرف بگڑ جائے گی بلکہ تباہ ہو ج ائے گی۔ اور
66
اپنے تہذیب و تمدن کو پس پشت ڈال کر مغ ربیت کی دل دادہ ہ و ک ر رہ ج ائے گی۔ مگ ر
تنقید کرنے والوں میں سے جب کسی کو یہ موقع ملت ا ہے کہ وہ مغ ربی ممال ک ک ا رخ
کر سکے تو وہ نہ صرف فورًا تیار ہو جاتا ہے بلکہ تنقیدی پہلو کو بھال کر مغربیت کے
گن گانے لگتا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی کو قاسمی صاحب نے اپنے آرٹیکل میں بیان کی ا
ہے۔
آرٹیکل کے آخر میں عطاء الح ق قاس می ص احب ان لی ڈروں کی قلعی کھول تے ہیں ج و
عوامی مسائل کی آڑ میں ذاتی وسائل بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بی ان ک رتے ہیں
کہ آج کل کے لیڈر عوامی مسائل کو بنیاد بنائے ،حکومت ک و دھرن ا دی نے کی وارنن گ
دیتے ہیں اور پھر حکومت سے مفاہمت کرتے ہوئے کس ی وزارت کے ل ئے منتخب ہ و
جاتے ہیں۔ اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے پر دھرنا منسوخ ک رتے ہ وئے کہ تے ہیں ،ان
مسائل میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ حکومت تو مسائل کو وسائل سے ح ل ک رنے
کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ایسے ہی ایک سیاسی دوست ،جو دھرن ا کی منص وبہ
بندی کرتا ہے اور پھر اچانک منسوخ کر دیتا ہے ،کی کہانی وہ یوں بیان کرتے ہیں :
”اگلے روز میں اپنے دوست کے انتظار میں بیٹھا تھ ا کہ اچان ک ف ون کی گھن ٹی بجی،
میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف میرا دوس ت تھ ا “،آئی ایم س وری ی ار میں تمہ اری
طرف نہیں آ سکوں گا۔ میں وزیراعظم ہأوس وزارت کا حلف اٹھانے جا رہا ہوں۔ ”“
مجھے یقین ہے کہ سمجھنے والوں کے لئے یہی کافی ہے ،اور شاید اب اور کچھ کہنے
کی ضرورت بھی نہیں۔ جون ایلیاء کے شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا:
جس روز عناصر اربعہ؛ پانی ،ہوا ،مٹی اور آگ کا مرکب تیار کر کے پتال بنای ا گی ا اور
اس کے اندر روح پھونکی گئی ،اسی روز لفظ ”جنگ“ کو وجود حاصل ہو گیا۔ اس لف ظ
67
کو مفہوم کا پیراہن تب نصیب ہوا جب آدم کو مسجوِد مالئک ٹھہرایا گیا اور عزازیل نے
آدم کو خلیفہ کے روپ میں مسند نشین دیکھ کر تکبر کا ورد کیا۔ لفظ ”جنگ“ ک و مفہ وم
کا پیراہن ملتے ہی یہ خدشہ الحق ہ وا کہ کہیں ایس ا نہ ہ و ،جن گ کے س تم و ج بر س ے
نظام کائنات درہم برہم ہو جائے۔ نظاِم کائنات میں توازن برق رار رکھ نے کے ل یے ای ک
ایسے جذبے کی ضرورت محسوس کی گئی ،جو جنگ کی ضد ہوتے ہوئے کائن ات کے
کینوس میں راحت کا رنگ بھ ر س کے۔ یہی ج ذبہ لف ظ ”محبت“ کی رگ رگ میں نہ اں
مال۔
جب دو طاقتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں ت و ہ ر ط اقت دوس ری پ ر غلبہ پ انے کے ل ئے ت انے
بانے بنتی ہے اور اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کی ہر ممکن سعی کرتی ہے۔ ایس ا ہی ہ وا
جنگ اور محبت کے درمیان اور روِز روشن س ے آج ت ک جن گ اور محبت میں ل ڑائی
جاری ہے۔
جنگ اور محبت دو ایسے آفاقی ج ذبے ہیں جن ک ا وج ود کائن ات کے ذرہ ذرہ میں اپ نی
موجودگی کا پتہ دیتا ہے۔ لکھاری کائنات کی زب ان ہوت ا ہے اور یہ کیس ے ممکن ہے کہ
زبان ُاس رمز ،جو اس کے وجود کی گہرائی میں پنہاں ہے ،سے دنی ا ک و ناآش نا رہ نے
دے۔ ایسا ہی ہوا اور دنیا کے تم ام لکھ اریوں نے ان دو ج ذبوں کے متعل ق خ وب لکھ ا۔
کس ی نے محبت کے نغمے گ ائے ،ت و کس ی نے جن گ کے س تم و ج بر کی ت اروں ک و
چھیڑا۔
محبت اور جنگ میں کشمکش کی ای ک ایس ی ہی کہ انی ک و ن اولٹ ”زلف وں کے س ائے
میں“ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ناولٹ چینی زبان کے ُاس ناولٹ ک ا اردو ت رجمہ ہے ،جس
کا انگریزی زبان میں IT HAPPENED AT WILLOW CASTLEکے عنوان
سے ترجمہ ہوا تھا۔ اس کا خالق شہیہ ین ہے جبکہ اردو کے قالب میں ڈھ النے ک ا س ہرا
ظ۔ انصاری کے سر ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ چین میں جنِگ عظیم ُد وم کے دوران چینی فوجی ایک گ اؤں میں
کسان کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ پلٹن کا فوجی ،لی جن ،جس کی عمر اٹھارہ برس ہ وتی ہے،
کسان کی بیٹی ،ارہمی ،کی زلفوں ک ا اس یر ہ و جات ا ہے۔ وہ اس س ے ش ادی کے خ واب
دیکھتا ہے۔ مگر ُاصول آڑے آ جاتے ہیں اور وہ اص ولوں پ ر محبت ک و قرب ان ک ر دیت ا
ہے۔
68
ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں“ جنگی تناظر میں رومان کی ایسی داس تان ہے جس س ے
ہندوستانی مٹی کی بو آتی ہے۔ یہ بات باعِث تعجب ہے کہ چینی سرزمین پر تخلیق ہونے
واال ناولٹ اپ نے ان در وہ تم ام خصوص یات س موئے ہ وئے ہے ج و ہندوس تانی ادب کی
پہچان تسلیم کی جاتی ہیں۔
ناولٹ میں جب لکھاری محبت پ ر قلم اٹھات ا ہے ،اص ول کی زنج یر اس کے ہ اتھوں ک و
دبوچ لیتی ہے ،کسان کی ع زت پرس تی اس ک ا رس تہ روک تی ہے ،اور روای ات کی قی د
اسے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔
اس ناولٹ میں یہ بھی دکھای ا گی ا ہے کہ مش رق میں زمین داری نظ ام کتن ا مض بوط ہے۔
ن اولٹ کے ک ردار ہ اؤ ،ج و کہ زمین دار ہے ،کے ذریعے یہ واض ح کی ا گی ا ہے کہ
زمینداری نظام کا سرخیل کس طرح لوگوں کو اپنا غالم بنائے رکھتا ہے اور اپ نی دولت
کی ہوس کی خاطر سفاک پن کی نئی داستان کو کس انداز میں رقم کرتا ہے۔
محبت ،ایک رنگارنگ ش ش جہت موض وع ہے۔ اور اس ی رنگ ا رنگی ک و پ وری آب و
تاب کے ساتھ شہیہ ین نے ناولٹ ”زلفوں کے سائے میں “ میں نکھ ارا ہے۔ محبت کہیں
عاشق معش وق کے روپ میں مل تی ہے ،ت و کہیں لی ڈر اور م اتحت کی ش کل میں۔ کہیں
69
ُاصولوں سے محبت کا رنگ غالب ہے ،تو کہیں عزت سے محبت کا چراغ روشن۔ کہیں
یہی محبت باپ بیٹے کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے ،تو کہیں وطن سے محبت کا پیراہن۔
قصہ یا کہانی انسانی زندگی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ کائنات کے کینوس میں کہ انی کے
جرثومے اس وقت ظاہر ہوئے جب آدم کو مس جوِد مالئ ک ٹھہرای ا گی ا اور عزازی ل نے
آدم کو مسند نشین دیکھ کر تکبر کا ورد کیا۔ کہانی کی تخلیق کے بع د انس ان نے اس ک و
بیان کرنے کے کئی ڈھنگ اپنائے۔ کس ی نے داس تان ک و چھ یڑا ت و کس ی نے ن اول کے
پنوں میں زندگی کی شمع روشن کی۔ کوئی کہانی کا رخ موڑ ک ر اس ے ڈرام ا کے آنگن
میں لے گیا تو کسی نے اسے افسانے کی فضا سے متعارف کروایا۔ ان چار عناصر کے
مجموعے کو افسانوی ادب کا نام دیا جاتا ہے ،کیونکہ ان سب کا مرک ز ای ک ہے اور وہ
ہے کہانی۔ انسانی زندگی بہت پیچی دہ اور متن وع جہ ات ک ا عکس ہ وتی ہے اور انس انی
زندگی کی انہی متنوع جہات کے عکس کو پیش کرنے کا نام ناول ہے۔
اردو ادب میں ناول ک ا آغ از تب ہ وا جب ڈپ ٹی ن ذیر احم د دہل وی نہیں 1869ء میں پہال
ناول مراۃ العروس برصغیر میں پیش کیا۔ ناول کی کئی اقسام ہیں اور ہ ر قس م اپ نی ج دا
اہمیت رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک اہم قسم کو نفسیاتی ناول کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اردو ادب میں نفسیاتی ناول کی بنیاد ڈالنے کا سہرا مرزا ہادی رسوا کے سر ہے۔ انہ وں
نے 1899ء میں امراؤ جان ادا ناول لکھ کر اردو ناول کو نفسیاتی میدان سے آشنا کیا۔
امراؤ جان ادا کے مرکزی کردار امراؤ جان کی زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا
سکتا ہے۔ امیرن ،جب وہ ماں باپ کی دنیا کی شہزادی ہ وتی ہے۔ ام راؤ ،جب وہ لکھن ؤ
کے بازار میں رنڈی کے ہاں بیچ دی جاتی ہے۔ امراؤ جان ،جب وہ رنڈی کے ہاں خاص
تعلیم و تربیت کے بعد طوائف کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اور آخری حص ہ وہ ،جس
میں امراؤ جان طوائف کے س اتھ س اتھ ش اعری کے ص حن میں ق دم رکھ تی ہے اور ادا
تخلص کرتی ہے۔ اس مضمون میں امراؤ جان ادا کی زندگی کے پہلے حصے ”ام یرن“
کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ام یرن جب وال دین کی کائن ات کی ش ہزادی تھی ،اس ے ہ ر وہ خوش ی ،ج و بچپن میں
مسکراہٹ اور کھلکھالہت کا ب اعث ہ وتی ہے ،میس ر تھی۔ اس ک ا وال د جمع دار تھ ا اور
اسے شدت سے پیار کرتا تھ ا۔ اس وقت ام یرن کی دنی ا گڑی ا ،مٹھ ائی ،ن ئے ک پڑے اور
نئے جوتوں تک مح دود تھی۔ روای ات کی قی د ض رور تھی مگ ر وہ قی د ،ایس ی قی د تھی
جسے وہ اپنی راحت کا سامان سمجھتی تھی۔ اور وہ قید تھی اس کی منگنی ،جو اس کے
پھوپھی کے لڑکے کے ساتھ اس وقت طے پائی تھی جب وہ نو برس کی تھی۔ امیرن کی
دنیا بہت سادہ اور شاندار تھی اور سب س ے اہم ب ات یہ کہ تب اس ے کس ی بھی قس م کی
گمشدگی ک ا خ وف ( 1)FOMOنہیں تھ ا۔ گمش دگی کے خ وف س ے اس کی آش نائی تب
ہوئی جب کھلتے وقت اس کا چھال (انگوٹھی) کہیں گم ہو جاتا ہے اور وہ رو رو کر اپن ا
برا حال کر لیتی ہے۔ نقصان کا احس اس کھ و ج انے والی چ یز کی قیمت س ے نہیں بلکہ
اس قیامت سے ہوتا ہے جو گمشدہ چیز کے مال ک پ ر ٹوٹ تی ہے۔ بچپن میں چھال گم ہ و
جانے پر جو اتنا روئے کہ اس کی آنکھیں سوج جائیں ،اندازہ کریں اس پر تب کیا قیامت
ٹوٹی ہوگی جب اس کی کل کائنات اندھیر نگ ری میں کہیں کھ و گ ئی اور اس ے رس یوں
سے جکڑ کر بیل گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ امیرن پر ٹوٹنے والی قیامت سے اسے جان کے
خوف ( 2)Thanatophobiaکا علم ہوا اور وہ خوف اس کا بچپنا تار تار کرت ا ہ وا ای ک
ایسے زخم کا باعث بنا جو تاحیات رستہ رہا اور کبھی مندمل نہ ہو سکا۔
نفسیاتی تناظر میں اگر امراؤ جان ادا کے پہلے حص ے ام یرن ک ا تج زیہ کی ا ج ائے ت و
ہمیں دو نفسیاتی اصطالحیں ملتی ہیں۔
71
.1نرگسیت ()Narcissism
نرگس یت نفس یات کی اہم اص طالح ہے ج و الفت ذات اور خودپس ندی کے معن وں میں
استعمال کی جاتی ہے۔
”تحلیل نفسی کی اصطالح میں نرگسیت اپنی ذات سے بے انتہ ا الفت کے ل ئے اس تعمال
ہوتا ہے۔“۔ 3
”نرگسیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ فرد کا لیبیڈو اپنی انا پر مرکوز ہ و ک ر اپ نی ہی
ذات میں گم ہو جاتا ہے۔“ 4
”اچھے س ے اچھ ا کھ اتی تھی اور بہ تر س ے بہ تر پہن تی تھی۔ کی ونکہ ہمج ولی ل ڑکے
لڑکیوں میں کوئی مجھے اپنے سے بہتر نظر نہ آتا۔۔۔۔۔۔۔ پاؤں میں الل گ ل ب دن ک ا پ ائے
جامہ۔۔۔۔۔۔۔ تن زیب کی اوڑھنی ،ہاتھوں میں چاندی کی تین تین چوڑیاں ،گلے میں ط وق،
ناک میں سونے کی نتھنی اور سب لڑکیوں کی نتھنیاں چاندی کی۔“ 5
نرگسیت کا تعلق صرف اپنی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز س ے ہوت ا ہے ج و ذات
سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہوتی ہے ،چاہے وہ کھانا ہ و ،ک پڑا ہ و ی ا ک وئی رش تہ۔
امیرن کی زندگی میں نرگسیت کے عنصر ک ا غ الب پن دیکھ یے کہ وہ احس اس برت ری
کے اظہار کے لیے اپنے ہونے والے شوہر کا تقابل کریمن کی لڑکی سے کرتی ہے اور
احساس برتری کو یوں پیش کرتی ہے۔
”واہ! میرے دولہا کی صورت کریمن ( ایک دھینے کی ل ڑکی ک ا ن ام تھ ا ج و م یرے ہم
سن تھی) کے دولہا سے اچھی ہے۔ وہ کاال کاال ہے م یرا دولہ ا گ ورا گ ورا ہے۔ ک ریمن
کے دولہا کے منہ پر کیا بڑی بڑی سی داڑھی ہے ،اور میرے دولہا کے ابھی م ونچھیں
بھی اچھی طرح سے نہیں نکلیں۔“ 6
72
دوسری اصطالح ایڈی پس الجھاؤ ہے۔ اس اصطالح کو فرائ ڈ نے لڑک وں کی م اں س ے
محبت اور وابستگی اور باپ سے مخالفت اور اسے رقیب سمجھنا کے لیے اس تعمال کی
ہے۔ یہ عم ل الٹ بھی ہوت ا ہے یع نی ل ڑکی کی ب اپ س ے محبت۔ ام یرن بھی ای ڈی پس
الجھاؤ کی شکار ہے۔
المختصر امیرن کی دنیا جو اجڑ گئی تھی وہ بہت سادہ تھی۔ روایات کی قید ض رور تھی
مگر امیرن کی زندگی کسی قسم کے خ وف س ے بالک ل ناآش نا تھی۔ اور یہی ام یرن کی
اجڑی ہوئی کائنات کا حسن تھا ،رعنائی تھی۔ اسی رعنائی کی تباہی کا غم تھا ج و اس ے
تاحیات گمشدہ دنیا کی یاد دالتا رہا اور ناسور بن کر ڈستا رہا۔
حواشی:
www.techtarget.com :1
www.verywellmind.com :2
3محمد اکرم چغتائی ،تشریحی لغت ،الہور ،اردو سائنس بورڈ2001 ،ء ،ص 557
:4ڈاکٹر سلیم اختر ،تین بڑے نفسیات دان ،الہور ،سنگ میل پبلی کیش نز2016 ،ء ،ص
83
:5مرزا ہادی رسواء ،امراؤ جان ادا ،الہور ،ری اض ش ہباز پ ریس2003 ،ء ،ص -33
34
:6ایضًا ص 34
:7ایضًا ص 35
73
کہانی کے بیج کی تخلیق اسی روز ہی ہوئی تھی جس روز خدائے واح د نے کائن ات ک و
وجود بخشا تھا۔ مگر کہانی کے اس بیج کو جڑ تب نصیب ہوئی جب خ دا کے حکم س ے
عزرائیل نے آدم کی تخلیق کی خاطر مٹی سے مٹی کو جدا کیا۔ کہانی کو وجود کا پ یرہن
تب نصیب ہوا ،جب آدم کو مسجود مالئک دیکھ کر عزازیل نے تکبر کا قصد کیا۔ کہ انی
کو بیان کرنے کے مختلف ڈھنگ اپنائے ج اتے رہے۔ کس ی نے داس تان کی آغ وش میں
کہانی کے رموز پر گفتگو کی تو کسی نے ناول کے کینوس کو بیان کا ذریعہ بنایا۔
1۔ امیرن
2۔ امرأو
اس مضمون میں کردار امرأو جان ادا کی زندگی کے تیسرے مرحلے ”امرأو ج ان“ ک و
زیر بحث الیا گیا ہے۔
امیرن آنگن میں کھلے ہوئے ایسے پھول کی مانند تھی ج و ب اد خ زاں س ے ن ا آش نا تھ ا۔
مگر جب اسے چمن سے توڑ کر قفس میں ڈال دیا گیا ،اسے حوادث زم انہ س ے واقفیت
ہوئی اور قیامت یہ ٹوٹی کہ وہ اپنا نام اور اپنی پہچان تک نہ بچ ا س کی۔ ام یرن ک و جب
74
امرأو کا روپ مال ،اس کی زندگی میں رعنائی شامل ہوئی اور وہ بس م ہللا ،خورش ید اور
گوہر مرزا کے گروہ میں شامل ہو کر امیرن کو بھولنے کی س عی میں س رگرداں ہ وئی۔
مگر اداسیوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ خانم کے کوٹھے پر امرأو ن امی پھ ول پ ل بھ ر
میں کھل اٹھتا اور پل بھر میں اداسی کی یلغار سے مرجھا جاتا۔
امرأو جان کی زندگی ک ا المیہ یہ ہے کہ وہ حقیقی معن وں میں کبھی طوائ ف نہ بن پ ائی
اور اس میں وہ ناز و ادا نہ چمکی جو رنڈیوں ک ا خاص ہ ہ وتی ہے۔ اس کے پیچھے اس
ال ش عور کی ک ار فرم ائی معل وم پ ڑتی ہے ،جس کے خم یر میں گھریل و ع ورت کے
صدیوں پرانے جذبات ش امل تھے۔ وہ حقیقی معن وں میں کبھی طوائ ف نہ بن پ ائی مگ ر
فلسفہ تربیت کے تحت وہ چند لوگوں سے جھوٹی س چی محبت ک ا اظہ ار ض رور ک رتی
ہے۔
امرأو جان کی زندگی حوادث زمانہ کا شکار ہے۔ ای ک لمحے اس کی زن دگی میں ن واب
سلطان ایسی خوشی کی ش مع روش ن ہ وتی ہے ،ت و دوس رے لمحے اداس یوں ک ا خی ال،
محرومیوں کا احساس اور پناہ گاہ نہ ہونے کا غم ،خوشی کی شمع کو گل ک ر دی تے ہیں۔
پناہ گاہ نہ ہونے کا غم اس کے اندر گھر بسانے کی تمنا پروان چڑھات ا ہے۔ اس تمن ا کی
تکمی ل کی خ اطر وہ کبھی ن واب س لطان س ے ت و کبھی فیض علی ڈاک و س ے محبت ک ا
اظہار کرتی ہے۔ اسی کوشش میں وہ اکبر علی خ اں کے گھ ر بیٹھ بھی ج اتی ہے ،مگ ر
اس کی آرزو تکمیل نہیں ہ وتی۔ وہ خ واب س جاتی ہے مگ ر فیض علی ڈاک و کی دھ وکہ
دہی ،خانم کی قید ،بے بسی کا غم اور معاشرتی پابندیاں اس کی خوابوں کی تج وری ک و
درہم برہم کرتے ہوئے اس کے خوابوں کو سولی پر لٹکا دیتے ہیں۔
75
اس کا بھائی نادیدہ دبأو کے باعث اسے اپنانے س ے انک ار ک ر دیت ا ہے۔ اس وقت ام رأو
جان کو دوسری بار جالوطنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پہلی جالوطنی جسمانی تھی اور اس میں امرأو ج ان ک ا قص ور نہیں تھ ا۔ مگ ر دوس ری
جالوطنی روحانی جالوطنی ہے جس کا محرک معاش رتی روای ات اور نادی دہ دب أو ہے۔
روحانی جالوطنی سے دوچار ہونے کے ب اعث وہ م رہم ،ج و فیض علی ڈاک و نے امی د
کی کرن دکھا کر امرأو جان کے زخم پر رکھا تھا ،زہر بن جاتا ہے اور ام رأو ج ان کے
گھأو کو سدا بہار بنانے کی وجہ ثابت ہوتا ہے۔
امرأو جان کی زندگی متضاد جذبات کی کش مکش میں گھ ری ہ وئی ہے۔ ای ک ط رف وہ
گھ ر بس انے کی تمن ا ک رتی ہے ،دوس ری ج انب خ انم ک و اپ نی زن دگی ک ا واح د وارث
سمجھتی ہے۔ کبھی خانم کی قید سے چھٹکارا چاہتی ہے ت و کبھی ک وٹھے میں خ ود ک و
محفوظ سمجھتی ہے۔ نفسیات میں اس کے لئے ایک اصطالح اس تعمال ہ وتی ہے جس ے
جاذبیت ( )Ambivalenceکہتے ہیں۔
امرأو جان ادا کی نفسیاتی کیفیت کے متعلق ڈاکٹر غالم حسین اظہر تحریر کرتے ہیں :
”طوائف زادی کے اندر ہمیشہ ایک شریف عورت زن دہ رہ تی ہے ،کی ونکہ ع ورت کی
فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ چار دیواری کے اندر ہی تحفظ محس وس ک رتی ہے اور پی ار
سے بھری فضا اس کے لئے باعث سکون ہے۔“
المختص ر ام رأو ج ان کی زن دگی اداس یوں ،محرومی وں ،خواب وں کے خس اروں ،تش نہ
تمنأوں اور جھ وٹی س چی محبت وں ای ک ایس ا مجم وعہ ہے ج و اس ے کبھی زن دگی کی
رعنائی سے متعارف کرواتا ہے تو کبھی معاشرتی پابن دیوں کے س تم اور روای اتی ج بر
سے۔
زنجیر (افسانہ)
22/09/2022
76
بارش کے پانی سے لت پت سڑک کے کنارے لوہے کے پنج روں میں مقی د ،آزادی کے
خواہشمند ،پنچھی فٹ پاتھ پر چلنے والی خ اک ک و دیکھ دیکھ ک ر م دد پک ار رہے تھے۔
لوگ پرندوں کی پکار کو خوشی کا ترانہ سمجھ کر محظوظ ہوتے ہوئے چپ چاپ گ زر
رہے تھے۔ مگر کسی بھی آدِم خاکی ک و پرن دوں کی آہ و بک ا میں پوش یدہ درد محس وس
نہیں ہو رہا اور پرندوں کی آزادی کی تمنا انہیں پریشان نہیں کر رہی تھی۔
نعمان ،کشادہ پیشانی اور بڑی بڑی آنکھوں ک ا حام ل ب ارعب ش خص ج و احم د آب اد ک ا
زمیندار تھا اور پورے عالقے میں زمیندار صاحب کے ن ام س ے مش ہور تھ ا ،کے چ ار
بیٹے تھے اور دنیا کی ہر نعمت ،سوائے بیٹی ایسی نعمت کے ،اسے میسر تھی۔ اس کی
آرزو تھی کہ اس کی بھی ای ک بی ٹی ہ وتی ،ج و اس ے باب ا باب ا کہہ ک ر پک ارتی اور وہ
”میری بیٹی“” ،میری پری“ کہہ کر الڈ کرتا۔ اس نے بیٹی ایس ی نعمت کے حص ول کی
غ رض س ے ک ئی پ یروں فق یروں کے در کھٹکھٹ ائے اور ک ئی درگ اہوں کے س فر میں
جوتیاں گھسا ڈالیں مگر طویل عرصہ تک مراد مراد ہی رہی اور کوئی بھی دعا ُپر تاثیر
ثابت نہ ہوئی۔آخر اس کی کوششیں بار آور ہوئیں اور درویش کی دعا س ے آرزو تکمی ل
ہوئی۔ خداوند کریم نے نعمان کو بیٹی ایسی نعمت سے نوازا۔ وہ جب اپ نی بی ٹی ک و گ ود
میں اٹھاتا اور اس سے الڈ پیار کرتا تو نہ صرف اپنی قسمت پر نازاں بلکہ خدا کا ش کر
بھی ادا کرتا۔ اس کے بی ٹے بھی اپ نی بہن س ے بے ح د پی ار ک رتے اور اس ے ذرا س ی
تکلی ف ہ ونے پ ر بلبال اٹھ تے۔ ننھی ج ان ک ا ن ام آرزو رکھ ا گی ا کی ونکہ وہ وال دین اور
بھ ائیوں کی آرزو تھی۔ اور آرزو بھی وہ جس کی تکمی ل کے ل یے انہ وں نے م اتھے
گھیسا ڈالے تھے اور ہر در کھٹکھٹایا تھا۔دس سال کی عم ر ت ک آرزو ،س انولی رنگت،
معمولی نین نقش کی حامل تندرست لڑکی ،کی ہر تمنا پوری کی جاتی رہی ،اس کے منہ
سے نکلنے واال ہر لفظ والدین اور بھائیوں کے لئے حرف آخر ہوتا۔ تعلیم کا سلس لہ گھ ر
پر ہی جاری رکھا گیا اور استانی صاحب باقاع دہ آرزو کے گھ ر آ ک ر اس ے تعلیم دی تی
رہی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد کچھ سال گاؤں کے سکول میں بھی اسے بھیجا جاتا رہا۔ مگ ر
جوں جوں آرزو بڑی ہوتی گئی اس کی دنیا تنگ اور خواہشیں وسیع ہوتی گئیں۔
دن گزرتے گئے ،آرزو کی تمنائیں لفظ تکمیل سے نا آشنا ہونا شروع ہوئیں اور پابن دیاں
بڑھتی گئیں۔ سولہ کے عدد کو پہنچتے ہی نہ صرف اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کردی ا
گیا بلکہ گھر کی چوکھٹ سے ب اہر ق دم رکھ نے س ے بھی روک دی ا گی ا۔ جب آرزو نے
اپنے باپ نعمان سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے ش ہر جان ا
77
چاہتی ہے ،تو نعمان ،جو خاندانی روایات کا غالم تھا ،نے یوں جواب دیتے ہوئے انک ار
کر دیا”:بیٹی گھر کی عزت ہوتی ہے۔ عزت در و دیوار کے اندر ہی رہے ت و اچھ ا ہے،
اگر دہلیز تک پہنچ جائے تو وہ عزت نہیں رہتی بلکہ ماتھے کا کلنک بن جایا کرتی ہے۔
اور ماتھے کے کلنک کو ہمیشہ مٹایا جاتا رہا ہے۔“انکار سن کر آرزو خ اموش ہ و گ ئی۔
آئے دن آرزو کی کوئی نہ کوئی خواہش قت ل ک ر دی ج اتی مگ ر وہ ع زت کی دی وی دم
سادھے پڑی رہتی ہے۔ اٹھارہ سال کو پہنچتے ہی اس کی شادی کے متعلق چی منگوی اں
ہونا شروع ہوئیں۔
سال گزرتے گئے ،نعمان کی موت ہوگئی ،تمام بھائیوں کی شادیاں ہوئیں اور وہ ص احب
اوالد ہو گئے۔ مگر آرزو کی تمنا کا کسی کو خیال تک نہ آیا۔آرزو ،خاندانی روای ات کے
درودیوار میں مقید ،بھائیوں کی چوکھٹ پ ر پ ڑی ،رس م و رواج کی زنج یر س ے آزادی
کی تمنا کے لمس کو دل میں سلگائے سڑک کنارے پنجروں میں مقی د پرن دوں کی مان د،
مدد مدد پکار رہی ہے ،مگر وہاں ایسا کوئی نہیں جو اس کی آہ و پکار سن سکے ،کوئی
نہیں کوئی نہیں۔
78
پاک چین دوستی ،عوامی محبت اور قومی ترقی کا سسنگم
03/10/2022
تعارف:
جب آدمیت کے خمیر میں انسانیت کی آمیزش ہوئی اور نئے مرکب میں محبت کا عنصر
شامل کیا گیا ،تب دوستی کو جنم نصیب ہوا۔ دوستی کئی اقسام انفرادی ،اجتم اعی ،ق ومی
اور بین االقوامی ہیں۔ پاک چین دوس تی وہ دوس تی ہے ج و بین االق وامی س طح پ ر اپ نی
مثال آپ ہے۔ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے اس وقت ق ریب ائے جب پاکس تان چین
کو تسلیم کرنے واال پہال اس المی مل ک ق رار پای ا۔ پ اک چین دوس تی کی ابت داء 21م ئی
1951کو سفارتی تعلقات کی شروعات سے ہوئی۔ مثالی مراسم تب قائم ہوئے جب چی نی
وزیراعظم چو ین الئی کی کوششوں س ے 1955ء میں انڈونیش یا کے ش ہر بن ڈونگ میں
کانفرنس منعقد کی گئی ،اور پاکستان کو مدعو کیا گیا ۔
جب 1949ء میں چین وجود میں آیا تو اسے بین االقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش
کی گئی۔ مگر پاکستان نے مسلم ممالک میں سب س ے قب ل چین ک و تس لیم ک رتے ہ وئے
پاک چین فضائی معاہدہ کیا اور یہ ث ابت کردی ا کہ چین تنہ ا نہیں ہے۔ 1971ء میں اق وام
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چینی رکنیت کا ب ل پاکس تانی وف د کے س ربراہ محم ود علی
نے پیش کیا اور اس ے منظ ور بھی کروای ا۔ پاکس تان نے ام ریکہ ک ا اتح ادی ہ ونے کے
باوجود کبھی امریکہ کی چین مخالف پالیسی کو منظور نہیں کیا اور ہمیش ہ چین دوس تی
ک و مق دم رکھ ا۔ دوس ری ج انب چین نے 1965ء1971 ،ء اور 1992ء کی پ اک بھ ارت
جنگوں میں پاکستان کی بھرپور دفاعی امداد کرتے ہ وئے اپ نی دوس تی ک ا ثب وت دی ا۔ ء
2005کے زلزلے اور ء 2010کے س یالب کے دوران چین نے پاکس تان ک و 247ملین
ڈالرز کی امداد دی۔ چین کے دنیا کو زمینی راستے س ے مالنے کے منص وبے ون بیلٹ
اینڈ روڈ اینیشیٹیو کے تحت پاکستان اور چین کے درمی ان 2013ء میں Cpecمنص وبے
کی شروعات ہوئی۔ جس میں زمینی روابط قائم کرنے کے س اتھ س اتھ ص نعتی ،تج ارتی
اور توان ائی می دان میں ترقی اتی منص وبے ش امل ہیں۔ چین نے پاکس تان میں پچیس س ے
زائد بڑے منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن میں
79
China Pakistan Economic Corridor , Heavy Mechanical Complex
Taxilaاور
پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں مگر ع وامی تعلق ات میں مزی د بہ تری
اور ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے سی پیک کو عملی جامہ پہنانا مش کل ہ و ج ائے گ ا۔
درج ذیل تجاویز عوامی تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
)5طلبا کا باہمی تبادلہ تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ثقافت اور رسم و رواج میں مطابقت پی دا
ہو سکے۔
)6پاکستان اور چائنا کی اسناد دونوں ممالک میں قابل قبول ہونی چاہیے
)7ووکیشنل ایجوکیشن پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ،تا کہ پاکستانی چینی کمپ نیوں
میں کام کرنے کے اہل ہو سکیں۔
)8دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی زبان سیکھنے کے لئے کورسز کا اجراء۔
حواشی:
81
. 5مسلم انسٹیٹیوٹ ،پاک چین تعلقات علمی سماجی اور ثقافتی تناظر میں ،مراۃ العارفین،
مارچ 2008ء
.7یوسف سرور میر ،پاک چین دوستی کی تاریخ ،روزنامہ پاکستان 15 ،اپریل 2015ء
.8محفوظ النبی خان ،پاک چین دوستی کا سفر ،ایکسپریس نیوز 20 ،جون 2021ء
آسمان کے آنگن میں سفید رنگ کے بادل جن میں گہری س بز مائ ل جھی ل کے پ انی نے
ہلچل مچا دی تھی تیر رہے تھے۔ پہ اڑ کی چ وٹی ب ادل ک و گدگ دا ک ر مس کرا دی تی اور
پہاڑوں پر لیٹا سبزہ یہ کھیل دیکھ کر خوش ہوتا ہوا بادلوں کی روانی کو تکتا رہتا۔ ای ک
جانب پہاڑ خوش تھے کہ ان میں بادل کا سینہ چیرنے کی ط اقت ہے ت و دوس ری ج انب
بادل اس رمز پر نازاں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں اسے چیر کر مزید وسعت دی نے ک ا ب اعث
بنتی ہیں۔
جالل بابا اپنے گھ ر ،پہ اڑی ڈھل وان پ ر ہ ونے کی وجہ س ے جس ک ا آنگن ہمس ایہ کے
چھت کے برابر تھا ،کے دائیں کونے میں پڑے پانی کے مٹکے کی طرف ج اتے ہ وئے
ودیعہ اور ائمہ کی سرگوشیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کے گ أوں میں آج
جش ن ک ا س ماں تھ ا۔ کی ونکہ وہ اں ای ک ش ادی تھی۔ اور وہ لمحہ آنے واال تھ ا جب دو
روحوں کو ایک بندھن میں باندھا جانا تھ ا۔ ب ارات آنے والی تھی اور ودیعہ اور آئمہ کی
سرگوشیوں کا محور وہی بارات تھی۔ شہنائی بجی اور شہنائی کی آواز کے ساتھ ہی ائمہ
نے خوشی میں چیخ کر کہا” ،ودیعہ بارات!“ ودیعہ نے ائمہ کا ہاتھ پکڑ ک ر کہ ا” ،چل و
ائمہ ،دولہا کو دیکھنے چلتے ہیں۔ “
”دیکھی تو بارات جاتی ہے کیونکہ اس میں لوگ ناچ رہے ہوتے ہیں اور شہنائی بج ائی
جا رہی ہوتی ہے ،مگر دولہا کو بھی دیکھا جاتا ہے؟“
82
ودیعہ ،آسمان کے آنگن میں اڑتے شاہین ،جو پہاڑ کی چوٹی سے بادلوں کی وس عت کی
جانب محو پرواز تھا ،کو دیکھتے ہ وئے ائمہ کے س وال ک ا ج واب نہ دے پ ائی تھی کہ
جیالل بابا نے پانی پیتے ہوئی پیچھے مڑ کر دیکھا اور پانی کا گھونٹ حلق سے اتارتے
ہوئے کہا” :ہاں میری پری ،دولہا بھی دیکھ ا جات ا ہے۔ بلکہ دولہ ا ہی دیکھ ا جات ا ہے۔“
ائمہ بات کو سمجھ نا پائی اور سوال کر دیا” ،دولہا کیوں دیکھا جاتا ہے؟ نانا ابو“
مٹی کا گالس مٹکے پر رکھتے ہوئے ،جیالل گویا ہوا” :دیکھ ائمہ ،ہر آدمی کے اس کی
زن دگی میں تین دی دار ک یے ج اتے ہیں اور بعض اوق ات ص رف دو۔ اور ش ادی کے دن
دولہا کو دیکھنا ان تین دیداروں میں دوسرا دیدار ہے ،اس وجہ سے دولہا کو دیکھا جات ا
ہے۔ “
تین دیدار ،دو دیدار ،دوسرا دی دار یہ الف اظ ائمہ کے بچگ انہ ذہن میں س ما نہ س کے اور
دیر تک اس کے کانوں میں گونجتے رہے اور وہ ان الفاظ کو سمجھنے کی ناکام کوشش
کرتی رہی۔ کچھ دیر بعد بولی” ،تین دیدار! صرف تین دیدار ہی کیوں کیے جاتے ہیں؟“
ودیعہ ،جو بارات اور دولہا کو دیکھنے کے لیے بے ت اب کھ ڑی تھی ،نے ائمہ ک ا ہ اتھ
پکڑ کر اسے باہر لے جانا چاہ۔ مگر ائمہ جواب کے انتظار میں وہیں کھڑی رہی۔
” دیکھ میری بیٹی ،ہ ر آدمی کے تین دی دار ک یے ج اتے ہیں اور حقیقی معن وں میں یہی
تین دیدار آدمی کی زندگی کی کل کتھا ہے۔ پہال دیدار اس وقت کیا جاتا ہے جب بچہ عالم
روحانی سے عالم خاکی میں بطور مسافر پہال قدم رکھتا ہے۔ میرا مطلب ہے جب وہ پیدا
ہوتا ہے۔ پھر وہ بچپن ،لڑکپن ،نوعمر اور جوانی کے پڑأو عبور کرتا ہ وا اس م نزل پ ر
پہنچتا ہے جہاں اس کا دوسرا دیدار کیا جانا ہوتا ہے۔ اس دی دار کی اہمیت اس وجہ س ے
ہے کہ یہی وہ دیدار ہے جس کا اختیار کسی حد تک خود فرد کے ہاتھ میں ہوت ا ہے اور
اس منزل کا نام ہے بیاہ“
”شادی“
جیالل بابا جو اپنے دوسرے دیدار کی یادوں کی وادی میں کھو گ ئے تھے چون ک اٹھے
اور بتانا شروع کیا” ،ہاں بیٹی ائمہ تیسرا دیدار۔ تیسرے دیدار کو دیدار مردہ کہتے ہیں۔“
83
ائمہ نے سوال بھری نظروں سے جیالل نانا کو دیکھ ا ت و جیالل باب ا نے س وال بھ انپتے
ہوئے آئمہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور بولتے گئے۔
”جب بندہ عالم مادی سے عالم برزخ کی جانب کوچ کرت ا ہے ،یع نی اس کی م وت واق ع
ہو جاتی ہے ،اس وقت جو دیدار کیا جاتا ہے ،اسے کہتے ہیں دیدار م ردہ اور یہی دی دار
کی سب سے اعلٰی قسم ہے۔“
ودیعہ جو شہنائی کی آواز کی طرف بار بار متوجہ ہو رہی تھی ،دروازے تک گئی مگر
پھر واپس لوٹ آئی۔ کیونکہ وہ ائمہ کے بغیر نہیں جانا چاہتی تھی۔
”اس وجہ سے بیٹی کہ اس دیدار پر بندہ اس سفر ک و ختم ک رتے ہ وئے ج و پہلے دی دار
سے شروع ہوا تھا انتظار گاہ میں پہنچ جاتا ہے۔“ جیالل باب ا نے ب اہر ڈھل وان پ ر رن گ
برنگے ملبوسات میں ملبوس مرد و زن کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”انتظار گاہ؟ نانا جان انتظار گاہ تو نئے سفر کی ابتدا یا کسی سے مالقات کی خ اطر اس
کا انتظار کرنے کے لیے ہوتی ہے۔“
”ہ اں م یری الل ،تم ص حیح کہہ رہی ہ و“ جیالل نے کس ی س وچ کے آنگن میں ات رتے
ہوئے کہا۔
” نانا جان ،مرنے کے بعد بندے کو کس کا انتظار ہوتا ہے اور کیسا انتظار ہوت ا ہے اور
وہ انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟“
”انتظار!“ جیالل بابا نے آہ بھرتے ہوئے کہا” ،بیٹی بعد میں بتأوں گا ،لمبا واقعہ ہے ،تم
ودیعہ کے ساتھ بارات دیکھنے جأو۔“
مگر ائمہ چند قدم نانا کی طرف بڑھی اور کہا” ،نانا جان مجھے ابھی بت ائیں ،میں ت و نہ
جأوں گی۔“
ائمہ کی ضد دیکھ کر جیالل بابا نے بتانا شروع کیا” ،میری بی ٹی اس ے انتظ ار ہوت ا ہے
رب العالمین سے مالقات ک ا۔ جب ہللا نے آدم ک و تخلی ق کی ا ت و اس ے حکم دی ا کے ج و
چاہے کھائے پیئے مگر ایک شجر کو شجر ممنوعہ ق رار دی تے ہ وئے رب کائن ات نے
آدم سے کہا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا ،ورنہ تم ظالم ٹھہ رو گے۔ آدم نے عزازی ل
84
کے بہکاوے میں آ کر شجر ممنوعہ کا پھل کھایا ،تو رب کائنات نے غلطی کی سزا کے
طور پر آدم کو عالم بقا سے در بدر کرتے ہوئے عالم فانی میں بھیج دیا۔
عالم فانی انسان کے لیے زنداں یعنی جیل کی مانند ہے۔ اور جیل میں حسرتیں لفظ تکمیل
سے نا آشنا ہوتیں۔ عالم فانی میں آ کر انسان کے اندر خدا کا دیدار کرنے کی حسرت پیدا
ہوئی۔ پہلے جب آدم عالم بقا میں تھا باآسانی خدا تعالی کا دیدار کر لیا کرت ا تھ ا۔ مگ ر اب
خدا کی تخلیق کی گئی جیل یعنی دنیا میں سزا یافتہ تھا ،اس وجہ سے دی دار کی حس رت
تکمیل نہ ہو پائی اور رفتہ رفتہ شوق میں بدلتی گئی اور شوق عشق کا روپ اختی ار ک ر
گیا۔
عشق میں انتظار کا وقفہ بہت طویل محسوس ہوت ا ہے۔ جب ت ک س زا ختم نہیں ہ وتی وہ
انتظار گاہ میں نہیں جا سکتا۔ اور انتظار گ اہ میں جب ت ک نہیں ج ائے گ ا اس کے ل یے
خدا کا دیدار کرنا ممکن نہیں۔ انسان زن دگی کی ص ورت میں س زا ک اٹ رہ ا ہے اور تب
سے اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب سزا کا آخری دیدار کی ا ج ائے اور وہ ع الم ب رزخ،
میرا مطلب ہے انتظار گاہ ،میں پہنچے۔ یہ انتظار بہت طویل ہے۔“ یہ کہتے ہوئے جیالل
کی آنکھیں بھر آئیں۔
باہر شہنائی بجی ،گوال پھٹا جھومر سے گھنگھرو چھنکے۔ ودیعہ جو اب تک بارات اور
دولہا دیکھنے کے انتظار میں بیٹھی تھی ،مزید انتظار نہ کر پائی اور ائمہ کو کھینچ ک ر
باہر لے گ ئی۔ آنگن میں دی ر ت ک الف اظ گونج تے رہے ،یہ انتظ ار بہت طوی ل ہے! بہت
طویل! طویل!
مرزا اطہر بیگ دنیا سے التعلقی انداز میں تعلق رکھنے واال ایک ایس ا قلم ک ار ہے ج و
”دھند میں راستہ“ پر چلتے ہ وئے س یر کے ل یے ”غالم ب اغ“ میں داخ ل ہ وا۔ س یر کے
دوران ”دوسرا آسمان“ تکتے ہوئے ”صفر سے ایک تک“ کے نظ ریہ پ ر غ ور و فک ر
کرتا ہوا ”گہرے پانی“ کا رخ کیا۔ راستے میں اس کی نظر ”دلدل“ پر پڑتی ہے تو اسے
اچانک کچھ ”روگ“ یاد آ جاتے ہیں۔ ”روگ“ کے ”حصار“ سے نکلنے کی کوشش میں
اس کی واقفیت ”حسن کی صورت حال“ سے ہوتی ہے۔ کہیں لوگوں کے ہج وم ک و دیکھ
85
کر وہ ”بے وزن لوگ“ کا نوحہ کہنے لگتا ہے تو کبھی ”خفیف مخفی کی خ واب بی تی“
سنانے لگ جاتا ہے۔
مرزا اطہر بیگ الہور سے 35کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ش رقپور ن امی قص بے میں
مارچ 1950ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا طاہر بیگ تھ ا۔ ان کے وال دین ک ا
تعلق شعبہ تدریس سے تھ ا اور وہ دون وں س کول میں پڑھ اتے تھے۔ ان کے وال د م رزا
طاہر بیگ تصوف اور مذہب کے مض مون پ ر گہ ری گ رفت رکھ تے تھے۔ م رزا ط اہر
بیگ خود صاحب کتاب بھی تھے۔ والدین ک ا تعل ق ش عبہ ت دریس س ے اور وال د ص احب
کتاب بھی۔ اس سے صاف طور پر بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے گھر علمی و ادبی
ماحول تھا اور اسی ماحول ہی کا اثر تھا کہ مرزا اطہر بی گ کی کت ابوں کی وادی س ے
بچپن میں ہی آشنائی ہو گئی۔ ابتدائی تعلیم شرقپور سے حاصل کی۔ اور میٹرک کا امتحان
پاس کرنے کے بعد مرزا اطہر بیگ الہور چلے آئے۔ اور انٹرمیڈیٹ کے لیے گ ورنمنٹ
ک الج الہ ور میں داخ ل ہ وئے۔ انٹرمی ڈیٹ کے بع د آپ نے بی ایس س ی ( )BScکی س ند
حاص ل کی۔ ( )BScکے بع د آپ آرٹس کے مض امین کی ط رف جھکے اور پنج اب
یونیورسٹی میں فلسفہ میں داخل لیا۔ وہاں فلسفہ میں ماس ٹرز ک رنے کے بع د آپ 1979ء
میں گورنمنٹ ک الج الہ ور (موج ودہ یونیورس ٹی) س ے منس لک ہ و گ ئے۔ 1999ء س ے
2010ء تک گورنمنٹ ک الج یونیورس ٹی الہ ور میں ش عبہ فلس فہ کے س ربراہ بھی رہے۔
اپنے گھر کے علمی و ادبی ماحول کے متعلق ایک انٹرویو میں انہوں نے یوں بیان دیا۔
”میری والدہ بھی ایک سکول میں پڑھاتی تھیں ،پس ہمارا گھر کتابوں سے بھرا ہ وا تھ ا۔
گھر میں ہر طرف ہر طرح کے ادبی رسالے بکھرے رہ تے تھے۔ گرمی وں کی چھ ٹیوں
میں میں کتابوں کے اس ڈھیر میں گھس جاتا تھا۔ اب اس ساری صورت حال کو اس امر
سے جوڑیے کہ میرے والد ایک صوفی مزاج آدمی تھے۔ یہ مزاج بنیادی طور پ ر ب ڑی
دعائیں دینے واال اور انسانی معامالت کو احساس جرم کے بغیر دیکھنے واال ہے۔“
مرزا اطہر بیگ سائنس کے طالب علم تھے اور اس س ے بھی واض ح ہے کہ انہ وں نے
گریجویشن سائنس یعنی BScمیں کی۔ مگر اس کے بعد آرٹس کی جانب چلے گ ئے اور
فلسفہ میں ماسٹرز کیا۔ ای ک ان ٹرویو میں ان س ے س وال کی ا گی ا کہ آپ س ائنس پڑھ تے
پڑھتے فلسفے کے س نجیدہ ط الب علم کیس ے بن گ ئے؟ ت و م رزا اطہ ر بی گ نے ی وں
جواب دیا۔
86
”جب میں نے گورنمنٹ کالج الہ ور میں پ ری انجینئرن گ پڑھ نی ش روع کی ت و مجھے
محسوس ہوا کہ میرے ہم جماعت انجنیئرن گ س ے بہت س طحی ان داز س ے وابس تہ ہیں۔
انہیں اس حیرت سے کوئی واسطہ نہیں تھا جو ہمیں اشیا کی م اہیت پ ر غ ور ک رنے پ ر
ابھارتا ہے۔ وہ مختلف مضامین اس ل یے پ ڑھ رہے تھے ت اکہ اچھے گری ڈز حاص ل ک ر
سکیں اور اساتذہ بھی طلبا کے اندر کسی قسم کے حساس حیرانی کو جگانے کی کوشش
نہیں کر رہے تھے۔ انہی دنوں (امریکی فلس فی اور نفس یات دان) ولیم جیم ز (William
)Jamesکی کتاب“ مذہبی تجربے کا تنوع :انسان فطرت ک ا ای ک مط العہ ”کس ی ط رح
میرے ہاتھ آ گئی۔ انگریزی زبان میں فلسفیانہ تحریر سے یہ میرا تع ارف تھ ا۔ اس کت اب
کے ساتھ ہی میں نصاب کی مجوزہ کتابوں سے دور ہو گیا۔“
مرزا اطہر بیگ کو حیرت میں بہت زیادہ دلچسپی ہے اور وہ اپنی تصانیف میں بھی اس
عنصر کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اس کے متعلق وہ یوں بیان دیتے ہیں۔
اسی طرح کا سوال ایک انٹرویور اختر مرزا نے بھی مرزا اطہر بیگ سے ایک انٹرویو
کے دوران کیا۔ مرزا اطہر بیگ نے یوں جواب دیا۔
”میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں! اور یہ کوئی استعاراتی بیان نہیں ہے۔ یہ حرف ًا درس ت
ہے :میں ہمیشہ حیرت میں رہتا ہوں۔ میں نہیں جانت ا کہ یہ کی ا ہ و رہ ا ہے۔ ارس طو نے
کہا تھا کہ فلسفہ حیرت سے شروع ہوتا ہے اور م یرا مانن ا ہے کہ یہ ختم بھی ح یرت پہ
ہوتا ہے۔ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ مجھے کسی جگہ قرار نہیں۔ میں خود کو کس ی ای ک
جگہ روک نہیں سکتا۔ میں یقینیت کے کسی خی ال س ے خ ود ک و مطمئن نہیں ک ر س کتا۔
میں ایسا کروں بھی کیوں؟ یقینیت مجھے مائل نہیں کر پاتی۔ ح یرت کے بغ یر کچھ نہیں۔
کہ نے ک ا مطلب یہ ہے کہ آپ علم ،ادب ،فلس فے کے س فر میں آگے ب ڑھ نہیں س کتے۔
حیرت ہر لمحے میں ہے۔ اگر کوئی فنکار یا کوئی سائنسدان ،حیران ہونے کی صالحیت
نہیں رکھتا تو وہ تخلیقی نہیں ہو سکتا۔ وہ چیزوں کو ج وڑ س کتا ہے۔ انہیں س مجھ س کتا
ہے۔ لیکن یہ حیرت ہی ہے جو آپ کو نامعلوم میں گھس نے دی تی ہے۔ اور وہ اں آپ پھ ر
سے حیرت میں ہوتے ہیں۔“
مرزا اطہر بیگ کے ہاں ناول کے روایتی طریقوں سے انحراف ملتا ہے اور وہ روای تی
کلیوں کو توڑتے ہوئے ن ئے ن ئے تجرب ات ک رتے ہیں اور تحری ر ک و ن ئے ڈھن گ اور
87
کلیوں سے متعارف بھی کرواتے ہیں۔ مگر اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ وہ جان ب وجھ
کر معاشرے میں قائم کلیوں کو ت وڑنے کی کوش ش نہیں ک رتے۔ بلکہ یہ ک ام تحری ر کی
نوعیت خود سر انجام دیتی ہے اور اپنے لیے ایک نئی ڈھنگ ک و متع ارف ک رواتی ہے۔
اپنے طرز ناول نگاری سے متعلق مرزا اطہر بیگ یوں بیان دیتے ہیں۔
”میں یہ عزم لے کر نہیں لکھتا کہ مجھے کل یے ت وڑنے ہیں۔ ج و بھی موض وع م یرے
سامنے آتا ہے ،وہ خود اپنی ساخت اور ہیئت کا انتخاب کرتا ہے۔“
مرزا اطہر بیگ ناول میں مشاہدہ اور علم سے زیادہ تجربات کو اہمیت دی تے ہیں اور ان
کے نزدیک ایسا کوئی ناول ادبی ناول نہیں بن سکتا جس میں تجربات کا لمس موج ود نہ
ہو۔
”اگر ناول میں تجربات نہیں ہیں۔ تو یہ پاپولر ناول ( )Papular Novelتو ہ و س کتا ہے
مگر ادبی ناول نہیں ہو گا۔ ادبی ناول میں کسی نہ کسی سطح پر تجربہ ضرور ہوت ا ہے۔
یہ حیرت انگیز صنف ادب ہے۔ یہاں امکانات المحدود ہیں۔ اس میں کمال ہے کہ تغیر کو
گرفت میں النے کے لیے خود تغیر سے گزرتا ہے۔ “
مرزا اطہر بیگ انسان کی داخلی کشمکش ،جذبات اور ان کے انسانی زن دگی پ ر اث رات
کو سب سے زیادہ اہمیت دی تے ہیں۔ ان کے ہ اں خ وف ،ح یرت اور پوش یدہ چ یزوں ک و
ظاہر کرنے کی جستجو بنیادی ہتھیار کا کام دیتے ہیں۔ وہ ادب کے لکھاریوں سے خائف
بھی نظر آتے ہیں کہ لکھاری خارجی عوامل کو تو بیان کرتے ہیں مگر داخل ک و ک وئی
اہمیت نہیں دیتے۔ ادب میں چن د ن اول داخلی مع امالت ک و بھرپ ور اہمیت دی تے ہیں مثًال
”امرأو جان ادا“ میں مرزا ہ ادی رس واء نے فلس فہ الش عور ج و کہ نفس یاتی ن وعیت ک ا
مسئلہ ہے اور فلسفہ تربیت کو مال کر ایک ایسا جہاں تخلیق کیا ہے ج و ان درونی جن گ
کی لفظی تصویریں پیش کرتا ہے۔ اور دوسری طرف قرة العین حی در ت اریخ اور تہ ذیب
س ے دوہ ری منظ ر نگ اری ،ان درونی اور ب یرونی” ،آگ ک ا دری ا“ کے روپ میں پیش
کرتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمارے ہاں اندرونی معامالت کو زیادہ اہم خیال نہیں کی ا
جاتا۔ اس کے متعلق مرزا اطہر بیگ یوں بیان دیتے ہیں :
”بیرونی دنیا میں ناول کے می دان میں بہت تجرب ات ہ وئے۔ مگ ر ہم اردو ن اول کی ب ات
کریں تو میں کہوں گا کہ ہمارے ہاں فوٹو گرافکس تو بنائے۔ گئے ،مگر ایکس ری ز نہیں
بنائے۔“
88
مرزا اطہر بیگ کے نزدیک ناول نگاری متوازی دنی ا میں زن دہ رہ نے ک ا ن ام ہے۔ جب
دنیا میں کوئی ح ادثہ /واقعہ رونم ا ہوت ا ہے ت و اس کی بازگش ت ن اول کی دنی ا میں بھی
سنی جا سکتی۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ ہر ب ڑے واقعہ کے بع د ک وئی ن اول اس
تناظر کو پیش کرتا ہوا سامنے آتا ہے۔
المختصر مرزا اطہر بیگ کے نزدیک ناول نام ہے تنہائی میں س فر ک رنے ک ا۔ اور جب
ناول مکمل ہو جاتا ہے تو وہ آباد دنیا کا حصہ بنتے ہوئے لکھاری کو پھ ر تنہ ا ک ر دیت ا
ہے اور لکھاری کا وہ جہاں بھی ختم ہو جاتا ہے جو ناول کی تخلی ق س ے قب ل لکھ اری
کی تخیلی دنیا میں آباد تھا۔
سڑک (افسانہ)
16/11/2022
نرم و مالئم اور آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہوئے ،یوذاسیف خیال کی تنہ ائی میں مح و تھ ا۔
آفس کا دروازہ ہلکا سا کھوال ہوا تھا جہاں سے اس کا چہرہ جو بالکل سپاٹ تھا دیکھا جا
سکتا تھا۔ وہ خیال ہی خیال میں اپنے بچپن کی حسین یادوں میں اس قدر مستغرق ہ و گی ا
کہ اسے آفس کے ممبران کی بے معنی گفتگو بالکل سنائی نہ دے رہی تھی۔ باہر س ورج
روشن تھا جس کی روشنی کھڑکی کے ص اف و ش فاف شیش ے س ے ان در جھان ک رہی
تھی۔ آسمان بادلوں کی کمی محسوس کر رہا تھ ا اور چن د ہلکے نیلے رن گ کے پرن دے
آسمان کی وسعت میں کسی کی تالش میں سرگرداں تھے۔ باہر گلی سے خراماں خراماں
گزرتے لوگ ایک دوسرے کو اجنبیوں کی طرح گھور رہے تھے۔ یوذاسیف کو ب اہر کی
دنیا سے کچھ واسطہ نہ تھا ،وہ تو بس اپنے خیاالت کی گہرائی سے چند ی ادیں س میٹنے
کی کوشش کر رہا تھا۔
اچانک ایک یاد اس کے ذہن کی گہرائی سے اٹھی اور دل کو روشن کرتی ہوئی چہ رے
پر مسکراہٹ کے لمس کے س اتھ پھی ل گ ئی۔ وہ اچان ک اس درخت کے نیچے پہنچ گی ا
جہاں اس کے استاد ایک ہاتھ میں چاک اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹی سی کتاب لیے سیاہ
تختے پر کچھ لکھ رہے تھے ،اور وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت ہاتھوں میں قاعدہ پک ڑے
89
اس تاد ک و دیکھ رہ ا تھ ا۔ اس تاد لکھ تے ج ا رہے ہیں ،لکھ تے ج ا رہے ہیں اور س اتھ
س مجھاتے بھی ج ا رہے ہیں کہ تین اور س ات دس ہ وتے ہیں اور پ انچ اور دو س ات۔ وہ
یادوں میں کھویا رہا ،اور یادوں ہی یادوں میں اپنے آپ کو نوج وان بن تے ہ وئے دیکھت ا
رہا۔ اس تاد پڑھ ا رہے ہیں ،زن دگی کے ُگ ر س یکھا رہے ہیں اور وہ اور اس کے س اتھی
بڑے ہو رہے ہیں۔ اچانک بجنے والی فون کی گھنٹی نے اسے چونکا دیا جس کی بدولت
یادوں کا تالطم تھم سا گیا۔ اور اس نے اپنے آپ ک و ای ک ن رم و مالئم کرس ی پ ر بیٹھے
اور رسیور کو کان سے لگایا ہوا پایا۔ دوسری ط رف س ے آواز آئی” ،س ر ای ک معم ر
آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ اس نے اپنے ہاتھ سے بالوں کو سنوارا اور کہ ا ” ،ان در
آنے دیں “ اور ریسیور رکھ دیا۔ کچھ لمحات بع د معم ر آدمی اس کم رے میں داخ ل ہ وا
جس کا اندرونی رنگ ہلکا پیال اور دروازے کے باہر دو گلدان پڑے ہوئے تھے۔ جیسے
ہی وہ آدمی کمرے میں داخل ہ وا ت و یوذاس یف ک و جھٹک ا س ا لگ ا اور حل ق س ے الف اظ
اچانک پھوٹ پڑے ” ،استاد محترم آپ؟“ اس کے الفاظ سے معلوم ہو رہا تھ ا کہ جیس ے
اسے یقین نہ آ رہا ہو۔
انہیں بٹھایا گیا اور خاطر تواضع کی گ ئی۔ دوراِن گفتگ و یوذاس یف نے ادب س ے س وال
کیا ” ،جناب آج کل آپ کہاں رہتے ہیں اور کس ادارہ میں پڑھاتے ہیں؟“ اس تاد نے نگ اہ
کو بلند کیا اور اپنے سابق شاگرد ،جو آج افس ر کے روپ میں قیم تی لب اس میں ملب وس
اس کے سامنے والی نشست پر بیٹھا ہوا تھ ا ،کے چہ رے پ ر نظ ر دوڑائی ،اور ج واب
دیاُ ” ,اسی گاؤں میں رہتا ہوں اور ُاس ی درخت کے نیچے بچ وں ک و پڑھات ا ہ وں جہ اں
سے میرے سامنے بیٹھنے والے افسر کا گہرا اور سنہرا تعلق ہے۔“
90
الہوری بلیاں
()28/11/2022
تعلیم کے سلسلے میں گاؤں سے الہور ہجرت کی اور ہاس ٹل میں مقیم ہ وئے۔ گ اؤں میں
کھال ماحول اور وسیع درودیوار ،جن میں درخت موس موں کے تغ یر ک ا پتہ دی تے تھے
اور پرندے ہر موسم کا ترانہ سنایا کرتے تھے ،چھوڑ الہ ور آئے تھے۔ الہ ور کی تن گ
گلیاں کیسے راس آ سکتی تھیں۔ ہاسٹل کی گھٹن اور درودیوار کی بوجھل خاموشی س ے
دل گھبراتا اور گاؤں کا ماحول ،پرندوں کی بولیاں ،بلیوں کا رات کے تیسرے پہر ای ک
دوسرے سے لڑنا ،گیدڑوں کا کماد کے کھیت سے طرح مصرعہ دینا ،کتوں ک ا ج وابی
دو غزلے سنانا اور مرغے کا وقت سے قبل اذان دے کر محفِل مشاعرہ برخاست ک رنے
کی کوشش کرنا شدت سے یاد آتا۔ اور الشعور میں ان کی بازگشت گونجتی۔
یاد کی شدت سے دو طرح سے نمٹا جا سکتا تھا۔ یا تو یاد کو محو کر دیا جائے ی ا ک وئی
متبادل راہ تالش لی جائے۔ یاد کو محو تو نہ کر سکا اور نہ ہی مح و کی ج ا س کتی تھی
کیونکہ زندگی کا بیس سالہ عرصہ گاؤں کی گلیوں میں گھومتے گزرا تھا اور بیس س ال
کی یادوں کو چند لمحوں میں جال کر راکھ کر دینا کسی صورت میں ممکن نہ تھا۔
دوسرا رستہ چنتے ہوئے ،دل بہالنے نزدیکی پارک پہنچ جایا کرتا ہ وں۔ یہ اں اک ثر تین
ط رح کے پرن دے اور ای ک ج انور دیکھ ائی دی تے ہیں۔ پرن دوں میں ک وا وہ بھی ک اال،
چیل ،چڑیا ،اور جانور ہے بلی۔ چیل اور کوے ہ ر وقت دکھ ائی دی تے ہیں مگ ر چڑی ا
شام سورج ڈھلنے سے ذرا قبل ،جب وہ سرخ مائل ہو جات ا ہے ،ت و مغ رب س ے مش رق
کی جانب اڑتی دکھ ائی دی تی ہیں۔ اور ص بح جب س ورج طل وع ہ و رہ ا ہوت ا ہے ان کی
چہچہ اہٹ ک انوں میں رس گھول تی ہے۔ کبھی کبھ ار بھ یڑ اور میمن ا جن کی گ ردن میں
91
رس ی ہ وتی ہے ،اپ نے خاون د کے س اتھ نظ ر آتے ہیں اور ہفتہ میں ای ک آدھ دن ای ک
لیورے کتا ،جسے مالک سیر کروا رہا ہوتا ہے ،دیکھا جاتا ہے۔
پطرس بخاری نے کہا تھا الہور میں طلباء کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مگر میری جدی د
تحقیق کے مطابق الہور میں آلودگی کے بعد س ب س ے زی ادہ بلی اں پ ائی ج اتی ہیں۔ ہ ر
گلی ،در ،دیوار ،س ڑک اور پ ارک میں یہ نس ل س وتی ،خ راٹے لی تی ،ج اگتی ،اچھل تی
بھاگتی نظر آتی ہے اور ہوٹل مالکان کن انکھیوں سے انہیں گھورتے۔ یہ منظر دیکھ ک ر
اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں گدھوں کی طرح انہیں بھی ہوٹل مالکان کی نظ ر نہ ل گ ج ائے۔
الہور میں بلیوں کی اتنی کثرت ہے کہ وہ روایات کو بدل کر نیا مفروضہ پیش ک ر چکی
ہیں۔ بلی وں کے مش ترکہ عالم یے میں یہ س امنے آی ا ہے کہ جب الہ وری ان ک ا راس تہ
کاٹیں ،انہیں سفر ترک کر دینا چاہیے۔ کیونکہ الہوریوں کا راستہ کاٹنا بلی وں کی زن دگی
میں تالطم النے کا باعث ہے۔
عمومًا بلیوں میں تین طرح کے عوامل پ ائے ج اتے ہیں۔ کھ انے کی تالش ،کھی ل ک ود
اور خیال رکھے جانے کی تمنا۔ مگر الہ وری بلی اں عجب بلکہ غض ب بلی اں ہیں۔ ایس ی
بلیاں میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھیں۔ پیچھے بھ اگنے وال وں کے آگے بھ اگتی ہیں اور
آگے بھاگنے والوں کے پیچھے۔
الہوری بلیوں کے رنگوں میں بہت تنوع ہے۔ کالی ،بھوری ،سفید ،مٹیالی ،سرمئی ،ہلکی
پیلی اور سبز مائل بلیاں ہ ر گلی ک وچے میں دیکھی ج ا س کتی ہیں۔ رنگ وں کے اختالط
سے اور بھی کئی رنگ جھلکتے نظر آتے ہیں۔ جلد کے رنگوں کے ساتھ س اتھ آنکھ وں
کی رنگت بھی الجواب ہے۔ اس میں ہلکی سبز مائل آنکھیں ،سرمئی ،کالی ،ہلکی پیلی،
سرخ ،سنہری چمکدار اور ہلکی نیلی آنکھ وں والی بلی اں ادھ ر ادھ ر بھ اگتی مل تی ہیں۔
ایک روز پارک گیا ،شام کا وقت ،فضا میں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ای ک ہلکی ک الی بلی،
جس پر بھورے رنگ کا شبہ ہوتا تھا ،درخت کے نیچے بیٹھی ہڈی چب ا رہی تھی۔ اس ے
دیکھتے ہی میں اس جانب چل دی ا۔ ہ ڈی چب اتے ہ وئے اس نے مجھے ایس ے گھ ور ک ر
92
دیکھا جیسے میں اس سے ہڈی چھیننے آ رہا ہوں۔ اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ وہ ہڈی
لے کر بھاگ گئی۔ مگر بھاگنے سے قبل ” غورررر ( “)purrکی آواز سے مجھے کچھ
کہہ بھی گئی۔ شاید یہی کہا تھا۔ ”آج کل تم بلیوں کو بہت تاڑ رہے ہو باز آجاؤ“ اس س ے
میں نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو وہ بلی نہیں بال تھا۔
ایک رات ،نو کا عمل ہوگا ،چہل قدمی کی غرض سے نہرو پارک گیا۔ وہاں ای ک س فید
رنگ کی بلی کو پودے کی اوٹ میں بیٹھے دیکھا۔ اس کی سرخ مخمور آنکھوں نے ایسا
متاثر کیا کہ اس کے پاس جا کر تھپکی دینے کو دل چاہ ا۔ ق ریب گی ا ت و اس نے دو ق دم
پیچھے ہٹ ک ر ات نی خوفن اک آواز نک الی کہ میں ف ورًا دور ہٹ گی ا۔ س ائیکالوجی کے
مطابق جب بلی پیچھے ہٹ کر گھورتی ہے تو وہ حملہ کرنے کی تی اری میں ہ وتی ہے۔
مگر اس بلی کی خوفناک آواز نکالنے سے شک گزرا کے اس پر کسی پیرا نارم ل چ یز
کا اثر ہے۔ جسے پیرا نارمل سائیکالوجی میں anpsiکہا جاتا ہے۔
ایک روز میں اور میرا روم میٹ سیماب نہرو پارک سے پ انی بھ ر ک ر ب اہر نک ل رہے
تھے۔ ایک بھورے رنگے کا بلی کا بچہ راستہ کاٹتے ہوئے درخت پر چ ڑھ گی ا۔ راویت
کے مطابق مطلب تھا کہ سفر ت رک ک ر دی ا ج ائے۔ مگ ر ہم نے س وچا کہ بلی ہ وتی ت و
روایت کے متعلق سوچا جا سکتا تھا۔ مگر وہ تو بلونگڑا تھا۔ اور بلونگڑا لون ڈوں ک ا کی ا
بگاڑ سکتا ہے۔ سو ہم نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ دو قدم چلے
ہوں گے کہ اچان ک کس ی چ یز کے گ رنے کی آواز آئی۔ پیچھے م ڑ دیکھ ا ت و بل ونگڑا
93
درخت سے گرا تھا۔ بلیوں کا مشترکہ اعالمیہ ذہن میں گردش کرنے لگا۔ مگر تعجب اس
بات پر ہے کہ ہم دونوں الہوری نہ تھے۔
اور بھی کئی قصے بلکہ معرکے ہیں جنہیں پھ ر کس ی وقت کے ل یے اٹھ ا رکھ تے ہیں۔
البتہ اتنا ضرور کہنا چاہوں گا ،جس نے الہور دیکھا مگر الہ وری بلی اں نہ دیکھیں ،ت و
اس نے پھر کیا دیکھا۔
انتساب
جرمن لکھاری ہرمن ہیسے کے قلم س ے تخلی ق پ انے واال ن اول س دھارتھ 1922ء میں
جرمنی میں شائع ہوا۔ 1951ء میں اس کا انگریزی ترجمہ امریکہ سے شائع ہ وا۔ 1960
ء تک اس کی شہرت ع ام ہ و چکی تھی۔ یعق وب ی اور نے 1982ء میں اس ے اردو کے
قالب میں ڈھال کر ہندوستان کو اس سے متعارف کروایا۔ سدھارتھ سنسکرت زبان کا لفظ
ہے جو سدھ اور ارتھ کا مجموعہ ہے۔ سدھ کا مطلب ”حاصل ش دہ“ اور ارتھ کے مع نی
”کوشش کرنا“ کے ہیں۔
اس لحاظ سے سدھارتھ کے معنی ”وہ حاصل ہو جانا جس کے لیے کوشش کی گئی ہ و“
بنتے ہیں۔ اس ناول کے مرکزی کردار کا نام بھی سدھارتھ ہے۔ اس طرح ناول کا عن وان
ذو معنویت کا حامل بن جات ا ہے۔ اس ن اول ک ا مرک زی موض وع تناس خ (آواگ ون) س ے
نروان حاصل کرنا اور حقیقی سچائی جو کہ غ یر ف انی ہے ک و پہچانن ا ہے۔ دیگ ر تم ام
موضوعات اس موضوع سے منسلک ہو ک ر ن اول کی فک ر ک و مض بوطی بخش تے ہیں۔
درج ذیل بحث انہی موضوعات کے متعلق ہے۔
نصیحت اور مش ورہ میں ح د تف اوق کھینچ تے ہ وئے اس نکتہ پ ر بحث کی گ ئی ہے کہ
نصیحت کی بنیاد حکم پر ہوتی ہے ،جبکہ مشورہ کی فصیل راہ دکھ انے پ ر کھ ڑی ہے۔
نصیحت میں ای ک راہ پ ر چالی ا جات ا ہے۔ جبکہ مش ورہ میں دو راہیں دکھ ا ک ر فیص لہ
94
مشار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ن اول کے ک ردار س دھارتھ کے مط ابق نص یحت بے مع نی
ہے ،اس ک ا کچھ فائ دہ نہیں ،ص رف وقت اور الف اظ ک ا ض یاع ہے۔ مش ورہ کے متعل ق
سدھارتھ کے عمل سے اس رمز سے بھی پ ردہ چ اک ہوت ا ہے کہ مش ورہ ہمیش ہ متعلقہ
آدمی س ے کی ا جان ا چ اہیے۔ اس وجہ س ے س دھارتھ دولت اور محبت کے حص ول ک ا
مشورہ طوائف سے کرتا ہے۔
علم اور سیکھنے کے عمل کے متعلق اس ناول میں مفصل تفص یل موج ود ہے۔ علم کے
حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کوئی بھی معلم اس وقت تک متعلم ک و تعلم کے
عمل میں نہیں ڈھال سکتا جب تک متعلم خود علم سیکھنے پر رضا مند نہ ہ و۔ اگ ر آدمی
سیکھنے کی تمنا رکھتا ہو تو اسے کسی مخصوص معلم کی ض رورت نہیں رہ تی ،بلکہ
وہ دنیا کی ہر چیز سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے۔ سوال یہ پی دا ہوت ا ہے کہ س یکھنے
کی بنی اد کس عم ل پ ر ہے؟ اس ک ا ج واب بھی ن اول کے ان در موج ود ہے اور وہ ہے
”حیرت“ ۔ جب آدمی کسی بھی چیز کو ایسے دیکھے کہ پہلی مرتبہ دیکھی ہو تو حیرت
جنم لیتی ہے۔ حیرت کی کوکھ سے تجسس پیدا ہوتا ہے۔ اور تجسس علم کے حص ول کی
پہلی سیڑھی ہے۔
انسان ایک کتاب کی مانند ہے اور اس کتاب کی زبان کائناتی زب ان ہے۔ ف رد اپ نے ان در
جھانک تو سکتا ہے۔ مگر اس وقت تک اندرونی /وج ود میں پنہ اں علم حاص ل نہیں ک ر
سکتا جب تک وہ کائناتی زبان سے آشنا نہ ہو۔ کائناتی زبان کا منبع ،فطرت سے دوستی،
دنیاوی مشاہدات اور تجربات ہیں اور انہی سے ہی یہ زبان س یکھی ج ا س کتی ہے۔ جس
طرح ای ک تحری ر ک و پڑھ تے ہ وئے اس کے ان در موج ود تش بیہات و اس تعارات س ے
صرف نظر ممکن نہیں۔ اسی طرح روحانی وجود کو پڑھنے کے لئے کائناتی زبان سے
صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
کائناتی زبان کو سمجھنے کے لئے خیال ،احساس اور غور و فکر کو مرکزی اہمیت دی
گئی ہے۔ جب انسان خود میں غور و فکر کرتا ہے تو کائنات کی روح کے ساتھ ہم آہنگی
ہو جاتی ہے۔ اور وہ معنی جو کسی ایک وجود میں نہیں بلکہ ہ ر وج ود میں موج ود ہیں
وا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے غور و فکر اور کائناتی مط العہ ک و بنی اد بن ا
کر پیش کیا گیا ہے تا کہ انسان اپنی زندگی عین فطرت کے مطابق گزار سکے۔
علم ،مقصد کے حصول میں اہم عنص ر ہے۔ اس وجہ س ے مقص د کے متعل ق ن اول میں
لکھا گیا ہے کہ مقصد کے حصول کے لیے بھوک ،س وچ اور انتظ ار الزم ہیں۔ اور جب
یہ تین چیزیں ہمنوا ہو جائیں تو مقصد ت ک پہنچ ا ج ا س کتا ہے۔ مقص د کی راہ میں آنے
والی رکاوٹیں ،چائے وہ مخفی مغلظ نجس ہوں یا صریحًا سبک ،من کی راہ میں حائل نہ
ہونے دیں اور پانی میں پھینکے گئے پتھر کی مانند ڈوب تے ج ائیں ت و م نزل م ل ج ائے
گی۔
اس فانی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان مقدر کا بہ انہ بن ا ک ر اپ نی شکس ت ک ا ملبہ
خدا پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ناول میں اس نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہ ا
گی ا ہے کہ انس ان اپ نے مق در ک و تب دیل ک ر س کتا ہے اور ک وئی دوس را ش خص کس ی
دوسرے آدمی کے لئے ہزاروں سال کوشش ک رے ت و بھی مق در کی تب دیلی ممکن نہیں۔
سادہ الفاظ میں” ،ہ ر ف رد ہے اپ نی ملت کے مق در ک ا س تارہ“ ۔ اور ملت تب ہی مع راج
حاصل کرتی ہے جب ہر فرد اپنا مقدر خود بناتا ہے۔
ن اول میں ض میر کی آواز ک و مرک زی حی ثیت حاص ل ہے۔ اور یہ بتای ا گی ا ہے کہ جب
انسان ”ضمیر کی آواز“ خاموش کر دیتا ہے تو دنی اوی ہ وس کہ ر کی مانن د اس کے دل
پر چھا جاتی ہے اور وہ فانی دھندے میں جکڑ جاتا ہے۔
محبت کے متعلق ایک اچھوتا نظریہ اس ناول میں پیش کی ا گی ا ہے۔ انس ان ،مان گ ک ر،
مول لے کر محبت پا سکتا ہے۔ دے بھی سکتا ہے۔ لیکن وہ چرائی نہیں جا س کتی۔ جس م
ای ک راز ہے اور جنس ی تن اظر میں ان رازوں س ے محبت ک رنے واال ہی مس رت
محسوس کر سکتا ہے۔
اس ناول میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہر شخص وہی چیز دے سکتا ہے
جو اس کے پاس ہ وتی ہے۔ جیس ا کہ کس ان چ اول دے س کتا ہے ت و معلم علم اور ت اجر
دولت۔ اس لیے غیر مطلقہ شخص سے خاص چیز کی درخواست نہیں کرنی چاہیے۔ اور
درخواست کرنا یا امید رکھنا بے وقوفی ہے۔
بات کو کس طرح سنا جاتا ہے اور کسی کو قائل کرنے کے لئے کون س ی زب ان ک ارگر
ہے اس ناول سے سیکھی جا سکتی ہے۔
96
ممتا کو ایک احساس ،ایک جذبے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مصنف اس راز کو بی ان
کرتا ہے کہ ممتا والد میں بھی ہو سکتی ہے۔ ب انو قدس یہ نے بھی یہی کہ ا تھ ا کہ ک وئی
ماں بن کر بھی ممتا نہیں ہوتی۔ اور کوئی بانجھ ہو کر بھی ممتا ہوتی ہے۔
ضخامت کے لحاظ سے یہ ناول وسیع نہیں مگر فکری لحاظ سے وقیع ضرور ہے۔ علم،
مقصد ،غور و فکر ،احساس ،جذبات ،کائناتی زب ان کے س اتھ س اتھ محبت کے موض وع
پ ر بہت کچھ موج ود ہے ج و پڑھ نے واال ہی حاص ل ک ر س کتا ہے۔ اقتب اس کے س اتھ
اجازت چاہوں گا۔
”لفظ بہتر ہے مگر فکر بہترین ،ہوشیاری بہتر ہے مگر صبر بہترین۔“
انہیں اقتدار میں ایک قدر ”امرد پرستی“ بھی تھی۔ اردو غزل فارسی س ے مس تعار ش دہ
ہے۔ اور ہندوستان میں اسے پروان چڑھ انے میں ان لوگ وں ہی ک ا عم ل دخ ل ہے ،ج و
فارس ی کے ب ڑے اس اتذہ اور م رد می دان تھے۔ اس وجہ س ے فارس ی ش اعری کی ق در
”شاہد بازی“ کو اردو غزل میں بار پانے میں دشواری پیش نہ آئی اور ہندوس تانی ام راء
کے ہاں معاشرتی حی ثیت س ے پ روان چڑھ تی گی۔ ” 1151ہ ( 1729ء ) میں دہلی کے
امراء اور رٔوسا میں شاہد بازی کا کیا عالم تھ ا اس کی تفص یل ن واب ذوالق در درگ اہ قلی
خان کی مشہور تصنیف“ مرقع دہلی ”میں واضح طور پر ملتی ہے۔ “
97
1700ء کے بعد دہلی میں شاہد بازی ش عراء کے کالم میں اس ق در داخ ل ہ و چکی تھی
کہ اس وقت کے ہر تذکرہ نگار نے شعراء کے متعل ق لکھ تے وقت اس عنص ر ک ا ذک ر
ضرور کیا۔ عبدالغفور نساخ اپنے تذکرہ ”س خن ش عرا“ میں داغ دہل وی کے متعل ق ی وں
لکھتے ہیں :
”داغ تخلص ،میر مہدی دہلوی مقیم لکھنٔو ،فرزند شاگرد میر س وز ب تیس ب رس کی عم ر
میں ایک نونہال گلشن خوبی پر شیدا ہو کر کچھ دنوں اس کے باغ وصال سے زندگی ک ا
مزا چکھا اور گل مراد سے اپنا دامان تمنا بھر لیا۔“
میر تقی میر اپنے تذکرہ ”نکات الشعراء“ میں رسواء کے متعلق یوں لکھتے ہیں :
”رسوا تخلص کا ایک ہندو شخص تھا۔ فی الحال مذہب کی قی د س ے آزاد ہے۔ ای ک ہن دو
لڑکے پر عاشق تھا۔ حکم خدا سے وہ لڑکا انتقال کر گیا اور اس کا عش ق ہ وس میں ب دل
گیا۔“
میر تقی میر دیوان ششم میں اپنے متعلق شعر موزوں کرتے ہیں کہ :
میر تقی میر کے ہم عصر شاعر خواجہ م یر درد جنہیں ص وفی ش اعر کہ ا جات ا ہے۔ ان
کے ہاں بھی امرد پرستی پر مبنی کئی درجن اشعار موجود ہیں۔
ان بیانات اور اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہندوس تان اور
خصوصًا دہلی میں امرد پرستی کا کس قدر چرچا تھا اور اڑتے چ ڑے پھانس نے ک ا کس
قدر شوق۔ وہ ش عراء جن کی س ماجی حی ثیت مس لم تھی ،کھلے بن دوں ام رد پرس تی کی ا
کرتے تھے اور ہر گلی محلے ،شادی بیاہ اور دیگر محفل وں میں ام رد پرس تی پ ر مب نی
98
غ زلیں گ ائی ج اتی تھیں۔ اردو غ زل میں س بزہ خ ط ،ش وخ ،گ ل ب دن ،س ادہ رو ،ص نم،
خوبرو ،ستم گر ،خوب اں ،ی ار ،پی ارے ،لڑک ا ،چنچ ل ص نم ،س تم پیش ہ اور قات ل جیس ی
اصطالحیں شاہد بازی ہی کی مرہون منت ہیں۔ اردو غزل میں شاہد بازی کے عنصر ک و
ظہور شہزاد اظہر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
”ابتداء میں غزل سادہ رو اور شوخ لڑکوں کے ساتھ منس لک رہی ہے۔ اور ج و ل وگ یہ
کہتے ہیں غزل کے لغوی معنی ہیں ’ع ورت کے س اتھ ب ات کرن ا‘ وہ اپ نی جہ الت کے
گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ عورت کہاں ہے؟“
چند اور شعرا کا کالم بطور نم ونہ درج ک یے دیت ا ہ وں۔ ت اکہ اردو غ زل کی ابت داء میں
امرد پرستی کا مقام واضح ہو جائے۔
99
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا (غالب)
ان امثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب ہندوستان میں اردو غزل پ روان چ ڑھی
تو امرد پرستی اس کا مرکزی موضوع تھا۔ تو اس سے یہ ن تیجہ نکلت ا ہے کہ غ زل کے
معنی ”عورت کے ساتھ باتیں کرنا“ کی بجائے” ،لون ڈوں س ے ب اتیں کرن ا“ حقیقت کے
قریب معلوم ہوتا ہے۔
خاک کے خمیر میں ظلم اور رحم کی حدت کے س اتھ ،جب ج ذبات کی آم یزش کی گ ئی
تب قرطاس کائنات پر آدمیت کا ظہور ہوا اور اس ک ا مس کن جنت ق رار پای ا۔ انس ان ظلم
کے حصار میں آ کر ظالم ٹھہرا اور جنت سے زمین پ ر ایس ے پھین ک دی ا گی ا ،جیس ے
ٹوٹا تارا آسمان سے زمین کی طرف گرتا ہے۔ دوبارہ مہ کام ل بن نے کے ل یے رحم ک و
ظلم پر حاوی کرنا الزم تھا۔ آدمیت کی اس کوش ش میں ظلم اور رحم کے درمی ان جن گ
شروع ہوئی ،اور آدمیت تقسیم ہو کر طبقات میں بٹ گئی۔
کوئی عالمی طاقت کا روپ اختیار کرتے ہوئے دنیا کے منظر نامہ پر چاند کی مانند چھا
گیا تو کوئی غریب محکوم ٹھہرا۔ عالمی طاقت نے خود کو غ ریب ک ا ح اکم ق رار دی تے
ہوئے محکوم کو دبانا شروع کر دیا ،تاکہ وہ طاقت حاصل نہ کر پائے۔ دب أو کے ن تیجے
میں شعور کا جنم ہوا ،جس نے محکوم کو ترقی کی راہ دکھائی۔ اسی راہ پر چلتے ہوئے
محک وم سیاس ت کے می دان میں ذوالفق ار علی بھٹ و ،کاروب ار میں ش اہد خ ان ،تعلیم میں
ماللہ یوسف زئی ،ف زکس میں عبدالس الم ،کیمس ٹری میں عبدالق دیر خ ان ،ص حافت میں
کامران خان ،کھیل میں عمران خان ،بابر اعظم ،اور انسانی خدمت کے میدان میں ایدھی
اور امجد ثاقب بن کر نکلے۔ ان ٹوٹے ہوئے تاروں کی کوش ش ،محنت اور قرب انیوں ک و
دیکھ کر حاکم سہم گئے ہیں کہ کہیں یہ مہ کام ل کی ص ورت ع المی عن بر پ ر چمک تے
ہوئے ہماری چمک ماند نہ کر دیں۔
رحم کو جب عبدالستار ایدھی جیسے جانباز سپاہی ملے تو وہ ظلم پ ر ح اوی ہ ونے لگ ا۔
اس معاملہ کو دیکھ کر عزازیل سہم گیا اور محو حیرت ہے کہ کہیں ایس ا نہ ہ و کہ جس
100
چاند کو اس نے تارے کی مانند جنت سے ت وڑا تھ ا ،وہ پھ ر س ے مہ کام ل بن ک ر وہی
مقام حاصل نہ کر لے۔
موج ودہ وقت سائنس ی زم انہ ہے۔ انس ان نے اس می دان میں ات نی ت رقی ک ر لی ہے کہ
فضأوں سے خالٔوں تک کا سفر کرت ا ہ وا چان د پ ر پہنچ ا اور اب م ریخ کی دھ رتی ک و
مس کن بن انے کی جدوجہ د میں مش غول ہے۔ بلین س ال قب ل چمک نے والے س تاروں کی
تصاویر حاصل کر کے اپنی کائنات سے نکل کر دوسری دنی أوں میں چان د کی ص ورت
چمکنے کے خواب کی تعب یر میں س رگرداں ہے۔ اس نے ایس ے ہتھی ار بن ا ڈالے ہیں کہ
دشمن ک و ختم ک رنے کے ل یے ای ک انچ بھی س فر کی ض رورت نہیں۔ گھ ر بیٹھے ج و
چاہے کر سکتا ہے۔ مشت بھر خاک کی اتنی ترقی دیکھ کر کائناتی ستارے مح و ح یرت
ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اور سہم گئے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہ وا ت ارا مہ کام ل نہ
بن جائے۔
رنگ ،انسانی زن دگی میں رن گ بکھ یرنے کے عم ل میں بنی ادی اہمیت کے حام ل ہیں۔
رن گ کائن اتی ہ وں ی ا ج ذباتی ،یہ حقیقت ہے کہ رنگ وں ہی کی ب دولت اس کائن ات اور
انسانی شخصیات میں تنوع ہے۔ اگر اس کائنات میں رنگ نہ ہوتے ت و زن دگی بے کی ف
ہو کر رہ جاتی ،اور انسان اس بے کیفی سے گھبرا کر زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتا۔ آس مان
میں سنہرا سورج چمکتا ہے تو چرخ کا رنگ نیال اور چاند کی روشنی سفید۔ سبز پ ودے
سے جب سرخ ،گالبی ،نیلے ،پیلے ،کالے ،جامنی ،سفید ،زرد ،کیسری اور بنفشی رنگ
پھولوں کی صورت کھلتے ہیں تو ج ذبات میں بہ ار آ ج اتی ہے اور زن دگی مچ ل اٹھ تی
ہے۔
اگر رنگ کا وجود نہ ہوتا تو یہ تنوع ،یہ تضاد وجود نہ رکھ تے اور کائن ات ی ک رخی،
یک رنگی بن کر بے حیثی تی کی تص ویر بن ج اتی۔ کی وں کہ زن دگی ن ام ہے تض اد ک ا۔
کائناتی وج ود میں رنگ وں کی وہی اہمیت ہے ج و انس انی وج ود میں زن دگی کی اونچی
نیچی دوڑتی سانسوں کی۔ رنگ اور ج ذبات ک ا گہ را تعل ق ہے۔ جت نے زمین میں رن گ
101
ہیں ،اتنے ہی رنگوں کو انسانی وجود میں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ انسانی وجود کا
ہر رنگ ایک نئے اور انوکھے جذبہ کی کوکھ ہے۔
شاعر معاشرے کی زبان ہوتا ہے۔ وہ ج و کچھ دیکھت ا ہے ،س نتا ہے اور محس وس کرت ا
ہے اس کو بیان کرتا چال جاتا ہے۔ دیکھنے کی دو اقسام ہیں۔ ای ک دیکھن ا ہے وہ دیکھن ا
ہے جس میں نظر باطن پ ر ہ وتی ہے اور ج ذبات و احساس ات دیکھے ج اتے ہیں۔ س ادہ
لفظ وں میں ان درونی کائن ات میں جھانک ا جات ا ہے اور اس میں موج ود راز عی اں ک یے
جاتے ہیں۔ اس کی مثال اس واقعہ کو بنایا ج ا س کتا ہے کہ جب لکھن ٔو کے ای ک ن واب،
میر تقی میر کو ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں ایک طرف گھر تھ ا اور دوس ری ط رف
باغ۔ باغ کا نظارہ کھڑکی کھول کر کیا جا سکتا تھا۔ میر جس دن وہاں تشریف لے گ ئے،
اس روز کھڑکی بند تھی۔ انہوں نے اسے کبھی نہ کھوال۔ اور جب ای ک دن ای ک دوس ت
نے آ کر بتایا کہ دوسری طرف باغ ہے تو میر نے کچھ غزلیں دکھاتے ہوئے جواب دی ا۔
”اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ “ دوس ری قس م وہ ہے
جس میں شاعر خدا کی تخلیقات کو دیکھتا ہے ،مشاہدہ کرتا ہے اور اس ے اپ نی ش اعری
میں بیان کرتا جاتا ہے۔ اس قسم کی شاعری میں موسم ،پہاڑ ،ندیاں ،دریا ،برکھا ،خزاں،
پرند ،انساں ،بہار ،رنگ ،پودے ،پھول الغرض مظاہر ق درت ک ا بی ان ملت ا ہے۔ اس قس م
کے دیکھ نے کی روایت ہمیں اردو غ زل کے ب اوا آدم ،ولی دک نی کے ہ اں بھ ر پ ور
رعنائی کے ساتھ مل تی ہے۔ ڈاک ٹر تبس م کاش میری لکھ تے ہیں۔ ”ولی کے ہ اں فک ر و
فلسفہ کی جگہ حواس ،محسوسات اور ج ذبات کی ش اعری ہے۔ اس ش اعری کے منظ ر
نامہ میں فطرت کا کردار بہت اہم ہے۔ زمین ،آسمان ،چاند ،س ورج ،پھ ول ،رن گ ،ب اغ،
میدان ،پہاڑ اور خوشبو کے مظاہر چاروں طرف بکھ رے نظ ر آتے ہیں۔ ولی ان مظ اہر
کا ان تھک تماشائی ہے۔“ جب شاعر اندرونی کائن ات کی ط رف دیکھت ا ہے ت و انس انی
ج ذبات کے رنگ وں ک و معاش رے کے س امنے پیش کرت ا ہے۔ اور ب یرونی کائن ات ک و
دیکھتا ہے تو فطرت کے مظاہر کے رنگ چار سو بکھیر دیتا ہے۔ اس مضمون کا تعل ق
دیکھنے کی دوسری قسم سے وابستہ ہے ،اور مقص د کائن اتی رنگ وں کے اس تعمال اور
بی ان کی جھلکی اں پیش کرن ا۔ اردو کے ہ ر دور کے ش عرا کے ہ اں کائن اتی رنگ وں ک ا
استعمال نظر آتا ہے۔ اردو کے ابتدائی دور میں اس کی مث ال قلی قطب ش اہ کی ش اعری
سے پیش کی جا سکتی ہے۔
102
قلی قطب شاہ نے اپنے عہد کے ہر موسم ،تہوار اور میلے وغیرہ کو بیان کیا ہے اور ان
موقعوں پر کون سے رنگوں کو زیادہ اہمیت حاصل تھی کو اپنی شاعری میں واضح کی ا
ہے۔ برسات کے موسم میں سبز رنگ کا مخمل ف رش پ ر بچھ ا دی ا جات ا اور س بز لب اس
زیب تن کیے جاتے تو دوسری طرف بسنت اور جش ن ن وروز میں س رخ رن گ ک ا راج
ہوتا۔ ان کی شاعری سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
مرزا محمد رفیع سودا کی شاعری میں ع روس مع نی ،رنگی نی مع نی ،اور حس ن مع نی
ایسی تراکیب سے جمالیاتی حس ک ا پتہ چلت ا ہے۔ ان کی جمالی اتی حس کی ت یزی ہی کی
بدولت رنگ ،روشنی ،بہار ،گلزار ،صبح ،شادابی ،شعلہ ،سرخی اور آئینہ جیسے لفظوں
س ے کی گ ئی مص وری مل تی ہے۔ اور س نہرا ،ص ندلی ،حن ائی ،چمپ ئی ،ش فقی ،س فید،
گالبی ،نیال ،بادامی ،سبز ،سرخ ،کبودی اور پیال رنگ اپنی بہار دکھاتے ہیں۔
103
م یر تقی م یر کے متعل ق کہ ا جات ا ہے کہ ان کی ش اعری ب یرونی من اظر کی بج ائے
اندرونی منظر کشی پیش کرتی ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ م یر تقی
میر کو ابتدائی ناقدین نے ہمارے سامنے پیش ہی ایس ے کی ا ہے کہ ہمیں ان پ ر ب دھ مت
کے بھکشو کا گماں ہوتا ہے ،جو ہمیشہ مراقبے میں رہت ا ہے۔ ڈاک ٹر احتش ام حس ین اس
بات کو یوں بیان کرتے ہیں۔ ”اکثر لکھنے وال وں نے ان کی داخلیت پ ر اتن ا زور دی ا کہ
بیرونی دنیا سے میر کا جو تعلق تھا وہ نظر انداز ہو گیا۔“
میر تقی میر کے دیوان میں کشمیر کی وادی کے آس مانی رن گ س ے لے ک ر زعف رانی
رنگ تک ،کئی طرح کے بے ش مار رن گ موج ود ہیں۔ اس ی راز کی ب دولت غ الب نے
میر تقی میر کے متعلق یوں کہا تھا۔
میر تقی میر کے دیوان میں سرخ ،سبز ،گالبی ،نیال ،زرد ،کاہی ،زعفرانی ،آبی ،آتش ی،
حنائی ،عنابی ،شفقی ،سفید اور سیاہ وغیرہ کے انوکھے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان
مناظر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ میر تقی میر مصور کی طرح مختلف رنگوں کے اختالط
سے لفظی تصویریں کینوس پر اتار رہے ہیں۔
104
اردو شاعری کے ہر شاعر کے یہاں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ وہ رنگ ک و کیس ے
دیکھتے ،محسوس کرتے اور اپنی شخصیت میں جذب کرتے ہوئے ،مناظر کی تص اویر
کشی کرتے۔ شاعری میں رنگوں کے استعمال کے حوالے سے نظیر اکبر آبادی (عوامی
شاعر) بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نظیر اکبر آبادی ایسا شاعر ہے جس نے معاشرے
میں جس چیز ک ا مش اہدہ کی ا ،اس ے ش اعری کی ص ورت پیش کی ا۔ ان کی ش اعری میں
طالئی ،سفید ،چمپئی ،سرخ ،نیال ،س بز ،ک اال ،ج امنی ،دھ انی ،بس نتی ،س رمئی ،گالبی،
گلناری ،زرد ،مہندی ،کاہی ،آتشی ،شمعی ،خاکس تری ،کشمش ی ،غ رض بے ش مار قس م
کے رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ مگ ر وہ ان رنگ وں کے بس ن ام ہی گن واتے ہیں ،تص اویر
پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
سو عیش و طرب کی دھومیں ہیں اور محفل میں مے نوشوں کی
مے نکلی جام گالبی سے کچھ لہک لہک کچھ چھلک چھلک
ان کو عوامی شاعر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ ماحول اور عوامی مس ائل ک و بی ان
کرتے ہیں۔ ان دونوں چ یزوں ک و بی ان ک رنے کے ل یے مش اہدہ الزمی عنص ر ہے۔ اور
مشاہدے کے بعد تنوع پیدا کرنے اور چیزوں کے درمیان حد تف اوق کھینچ نے کے ل یے
مختلف رنگوں کا استعمال ناگزیر۔
چیزیں تضاد کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں اور تض اد واض ح ک رنے میں رن گ بنی ادی
کردار ادا کرتے ہیں۔ شاعری کی اصل بنیاد تض اد ہے۔ ش اعر من اظر کش ی اور ج ذباتی
منظر نگاری کرنے کے لئے رنگ استعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اردو ش اعری میں
رنگوں کی بہتات ہے اور ہر سو گلشن کھلے نظر آتے ہیں۔
”مرزا اطہر بیگ سے میرا اولین تعارف فلسفہ کے استاد کی حی ثیت س ے ہ وا۔ ہمیں آپ
نے نفسیات اور جدید فلسفہ پڑھای ا۔ س ویرا (ادبی رس الہ) کے ش ماروں میں ہم اس تاد اور
شاگرد دونوں کی کہانیاں ایک ساتھ شائع ہوئیں۔ تو انہیں دن وں پتہ چال کہ آپ ای ک ن اول
پر کام کر رہے ہیں یا ایسا ارادہ ک یے ہ وئے ہیں۔ یہ ب ات ہے ن وے کی دہ ائی کے آغ از
کی۔“ 2
”غالم باغ“ منظر عام پر آیا تو ادبی حلق وں میں کھلبلی مچ گ ئی کی ونکہ یہ ادبی س مندر
کے ٹھہرے پانی میں پتھ ر کی مانن د گ را اور س مندر کی ک وکھ میں تالطم برپ ا ہ وا اور
لہریں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ اس ن اول کی خ وبی یہ ہے کہ یہ ن اول کے روای تی طریق وں
اور زب ان س ے اختالف کرت ا ہ وا ن ئی ط رز تحری ر ک و متع ارف کروات ا ہے۔ یہ ن اول
Amorphousہوتے ہوئے بھی Amorphousنہیں ہے۔ اس کی کوئی فارم متعین نہیں۔
یہ بے ہیئت بھی ہے اور بے شکل بھی۔
یہ ناول بھی ہے اور ناول نہیں بھی۔ اس کا پالٹ دلچسپ ہے اور اس میں جیتے ج اگتے
کردار بھی موجود ہیں ،ایسے کردار جن کی زن دگی میں ن ئے اور ان وکھے واقع ات جنم
لیتے رہتے ہیں۔ اس ناول میں ہمیں نہ صرف اسلوب اور فارم کی روایتی ص ورت س ے
بغ اوت نظ ر آتی ہے ،بلکہ ن اول کے م واد اور اس س ے ج ڑے تجرب ات ،خی االت اور
مشاہدات کے حوالے سے بھی شدت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ابت داء میں ن اول ”غالم ب اغ“
106
کا مرکزی کردار کبیر مہدی جب یہ کہتا ہے ”وقت کا کوئی وج ود نہیں ،یہ محض ای ک
واہمہ ہے۔“ 3تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب مل گی ا ہے ج و ق رۃ
العین حیدر نے ”آگ کا دریا“ میں اٹھایا تھ ا کہ وقت کی ا ہے؟ اور ج واب یہ ہے کہ وقت
صرف ایک واہمہ ہے۔ اس ناول میں طویل مک الموں اور خ ود کالمی ک و دیکھ ک ر ہمیں
دوستو فسکی یاد آ جاتے ہیں ،جن کے ہاں طویل مک المہ اور ک ردار خ ود کالمی ک رتے
ہوئے ملتے ہیں۔
یہ ناول مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی دو اصطالحوں کے گرد گھومتا ہے۔ ایک
ہے ”ارزل نسلیں“ اور دوسری ”خصی کلب“ ۔ پہلی اصطالح ان لوگوں ک و بی ان ک رتی
ہے جو پست طبقہ ہے اور اس کا ف رض اونچے طبقہ کے آرام کی خ اطر اپ نے آرام ک ا
قتل کرنا ہے۔ اور دوس ری اص طالح اس اونچے طبقہ ک و بی ان ک رتی ہے ج و کلب میں
ایک دوسرے سے خلوت میں ملتا ہے۔ اس میں صاحب ثروت لوگ اور ک ئی پ ردہ نش ین
میں ش امل ہیں۔ ”غالم ب اغ“ کے متعل ق رف اقت حی ات ن امی ش خص (بالگ رای ٹر) ی وں
لکھتے ہیں :
”غالم باغ میں استعمال ہونے والی زبان اردو فکشن کے دل دادگان کے لیے انتہائی غیر
متوق ع ہے۔ م رزا اطہ ر بی گ ص احب نے اس میں ج و زب ان ب رتی ہے ،وہ نہ ص رف
بھرپ ور ط ور پ ر ن اول کے من اظر ،ک رداروں کی کیفی ات ،ان کی ذہ نی ح الت ،ان کے
خیاالت و تصورات کا پوری طرح ابالغ ک رتی ہے اور اس کے س اتھ س اتھ بہت کچھ ان
کہی بھی چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ ان کہی قاری کے ذہن میں ہیجان برپا ک رتی ہے۔ “
4
”غالم باغ“ کا سب سے اہم موضوع وقت ہے اور اس کے لیے مرزا اطہر بیگ صاحب
نے لفظ ”لمحہ“ استعمال کیا ہے۔ کہانی حال ،ماضی اور مستقبل ک و س اتھ لے ک ر چل تی
ہے۔ کہانی کے کرداروں کی کیفیات اور مرزا صاحب کی طرز تحری ر س ے واض ح ہ و
جاتا ہے کہ کہانی حال کی بتائی جا رہی ہے یا ماضی کی سنائی جا رہی ہے۔
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے۔ (منیر نیازی) 5
107
غالم ب اغ اردو ادب کے ن اول میں ایس ا اض افہ ہے جس نے ن اول کی تکنی ک ک و ن ئی
راہوں کی خبر دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایک لڑکی کا کردار بھی ن اول میں ش امل ہے ،ج و زلیخ ا کے ن ام کے س اتھ منظ ر میں
داخل ہوتی ہے۔ زلیخا پیرس میں مقیم ہے اور زکی کمپیوٹر پر اس س ے ب ات چیت کرت ا
ہے۔ یہ ن اول 1970س ے ش روع ہوت ا ہے۔ اور اس میں مص نف نے ق دیم اور جدی د کے
تضاد کو دکھای ا ہے۔ مص نف نے یہ واض ح ک رنے کی کوش ش کی ہے کہ موج ودہ دور
میں ہم سب عالمی وقت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ای ک ایس ا وقت جس میں فاص لوں
کا تصور مٹ چکا ہے۔ مصنف اس ب ات ک ا ثب وت زکی کی زلیخ ا س ے ب ات چیت س ے
دیتے ہیں۔ زکی ایک طرف اپنے گاؤں کی لڑکی سے محبت کرتا ہے ،تو دوسری ط رف
ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھی زلیخا سے بھی گفتگو کر رہا ہے۔
108
صفر اور ایک ،دراصل کمپیوٹر کا کل نظام ہے۔ جسے مرزا اطہر بیگ نے قدیمیت اور
جدیدیت کے تناظر میں رکھ کر یہ بی ان ک رنے کی کوش ش کی ہے کہ ص فر س ے ای ک
تک پہنچنے میں کتنا وقت درکار ہے۔ مرزا اطہر بیگ لکھتے ہیں :
”کمپیوٹر فالتو باتیں کرنے کی صالحیت نہیں رکھتا جبکہ انسان یہ صالحیت رکھت ا ہے۔
کمپیوٹنگ ،پروگرامنگ۔ مجھے دو اور دو چار بلکہ اب تو کہنا چاہیے کہ ون زیرو اور
ون زیرو ون زیرو زیرو کی جکڑ بند میں واپس کھینچ التے ہیں۔ اصل جکڑ بند ت و تم ام
دنیا میں اسی زیرو ون کی ہے۔ سارا کھیل ہی صفر سے ایک تک کا ہے۔ “ 6
مرزا اطہر بیگ کا تیسرا ناول 2014ء میں ”حسن کی صورت حال ،خ الی جگہیں۔ پ ر۔
کرو“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس ناول میں مرزا اطہر بیگ نے انسانی زندگی کے اہم
لوازمات اور بنیادی انسانی خواہشات دولت ،شہرت ،ع زت اور جنس ک و موض وع بنای ا
ہے۔ ناول میں تھیٹر اور فلم کا ایک جہ اں آب اد ہے۔ اس جہ اں میں میل وں کی رون ق میں
سٹیج کے پر لطف من اظر اور س ٹیج کے پیچھے دردن اک واقع ات ہیں۔ اس ن اول میں یہ
دکھایا گیا ہے کہ انسان خواہشات کی تکمیل میں کیسے کیسے پاپڑ بیلت ا ہے اور کی ا کی ا
کر جاتا ہے۔ یہ ساری صورت حال زن دہ ،گوش ت پوس ت کے ک رداروں کے س اتھ س اتھ
کچھ غیر جاندار کردار مثًال پیپر ویٹ ،میگا ویٹ ،بوتل ،انگ وٹھی اور گ ول م یز وغ یرہ
ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اقبال خورشید (بالگ رائٹر) ”حسن کی صورت حال“ پر کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں۔
109
”یہ ناول م رزا اطہ ر بی گ کے دیگ ر ن اولوں س ے مختل ف ہے۔ مم اثلت بس ای ک کلیہ
شکنی کی خواہش جو اور شدید ہو گئی ہے۔ ناول میں کئی کردار ایک جیسے ناموں کے
حامل ہیں۔ یہ یکسانیت انتشار کو مہم یز ک رتی ہے۔ آپ ک و س ررئیلزم کی جھلکی اں ملیں
گی ،کچھ عجیب و غریب ادارتی نوٹ۔ سب سے اہم بیانیے میں فلم میکن گ کی تکنی ک،
جس نے ناول کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔ دراصل اندرون ن اول ای ک فلم بن رہی ہے۔
جو یہ فلم نہیں بن سکے گی اور یہ فلم ضرور بنے گی کے درمی ان جھول تی ہے ،لط ف
دیتی ہے۔ “ 8
اس ن اول ک ا ذیلی عن وان ہے خ الی جگہیں پ ر ک رو۔ انس ان بہت پیچی دہ ہے اور اس کی
حقیقی زن دگی اور ظ اہری زن دگی میں ف رق ک ا تعل ق اس کے ذہن س ے ہوت ا ہے۔ بعض
اوقات انسان کے ساتھ کچھ ایس ے واقع ات رونم ا ہ وتے ہیں کہ اس کی زن دگی میں خال
پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ اپنے اس خال کو پر کرنے کے لئے مختلف قسم کے ح ربے
اپناتا ہے اور طرح طرح کے پاپڑ بیلت ا ہے۔ یہی کش مکش ہمیں اس ن اول کے ک رداروں
میں نظر آتی ہے۔ ان کی حقیقی اور ظاہری زندگی میں اتنا ف رق ہے کہ اس س ے ان کی
زندگیوں میں خال پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقی اور ظاہری زندگی پر ایک کردار یوں بی ان دیت ا
ہے :
”اس ناول سے میں کافی مطمئن ہوں کہ جو میں کرنا چاہتا تھا وہ میں نے کیا۔“ 10
مرزا اطہر بیگ کا ایک افسانوی مجموعہ ”بے افسانہ“ کے عن وان س ے ش ائع ہ و چک ا
ہے۔ اس کے متعلق بی بی سی نے رپورٹ شائع کی تھی ،رپورٹ میں یوں لکھا ہے :
”کتاب بے افسانہ میں شامل کچھ کہانیاں سن 70کی دہائی میں لکھی گ ئی تھیں اور کچھ
حالیہ دنوں میں تحری ر کی گ ئیں۔ اس ط رح کت اب ک ا دائ رہ ک ار تیس ب رس س ے زی ادہ
عرصہ پر محیط ہے۔ کتاب میں کہانیوں کی ترتیب بہت حد تک زمانی ہے یع نی ش روع
میں پرانی کہانیاں ہیں اور آخر میں تازہ تخلیقات اور یوں افس انوں ک ا یہ مجم وعہ ای ک
110
طرح سے مصنف کے ذہنی اور فنی ارتقاء کی دستاویز بھی بن جاتا ہے۔ “ ایک ناممکن
کہانی ”راقم کے نزدی ک مجم وعہ کی س ب س ے دلچس پ اور مکم ل ت رین کہ انی ہے،
حاالنکہ یہ ایک انتہائی تشنہ موڑ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔“ 11
حال ہی میں مرزا اطہر بیگ کا ایک نیا ناول ”خفیف مخفی کی خواب بیتی“ کے عن وان
س ے ش ائع ہ و چک ا ہے۔ اس ک ا موض وع بھیان ک م اورائے عم ومی واقع ات پ ر مب نی
یادداشتیں ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار سلطان زمان ہے جو خفیف مخفی کے نام س ے
مختلف رسائل میں مضامین لکھتا ہے۔ اور پ یرا س یکالوجیکل ریس رچر بھی ہے۔ دوس را
اہم ترین کردار محکم دین ہے جو کہ خفیف مخفی ک ا مالزم ہے۔ ای ک فرانسیس ی ک ردار
موسیو الفاں کو بھی ناول کے مرک زی ک رداروں میں ش امل کی ا گی ا ہے۔ اس ن اول میں
پالٹ موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ای ک پالٹ موج ود ہے۔ اور یہی اس ن اول کی خاص یت
ہے۔
اس کے عالوہ مرزا اطہ ر بی گ ک ئی طوی ل اور مختص ر پنج ابی اور اردو ڈرامے لکھ
چکے ہیں۔ ان کی خدمات کی بدولت انہیں حک ومت پاکس تان کی ج انب س ے تمغہ حس ن
کارکردگی اور pride of performanceسے نوازا جا چکا ہے۔
حواشی:
)1انور س دید ،ڈاک ٹر” ،اردو ادب کی تح ریکیں“ ،ک راچی انجمن ت رقی اردو پاکس تان،
2021ء ،ص 496
” )2ممتاز ناول نگار و کہانی نویس مرزا اطہر بیگ“ روز نامہ اٹک نیوز۔
)3مرزا اطہر بیگ” ،غالم باغ“ ،الہور ،سانجھ پبلیکیشنز 2018 ،ء ،ص 11
)5منیر نیازی” ،آغ از زمس تاں میں دوب ارہ“ ،الہ ور ،ش رکت پرنٹن گ پ ریس ،اش اعت
اول ،ص 14
)6مرزا اطہر بیگ” ،صفر سے ایک تک“ ،الہ ور ،س انجھ پبلی کیش نز 2012 ،ء ،ص
10
111
)7عارف وقار” ،مرزا اطہ ر ک ا تیس را ن اول ’حس ن کی ص ورت ح ال‘ “ ،بی بی س ی
نیوز 4 ،جون 2014ء۔
)8اقبال خورشید” :مرزا اطہر بیگ کی صورت حال“ مشمولہ سنڈے ایکسپریس (فیصل
آباد 2نومبر 2014ء) ص 21۔
)9مرزا اطہر بیگ” ،حسن کی صورت حال“ ،الہ ور س انجھ پبلیکیش نز 2014 ،ء ،ص
21۔
) 10عاطف بلوچ ‘’ ،حسن کی صورت حال ’مرزا اطہر بیگ کا ناول “،ڈی ڈبلیو نیوز،
24جون 2014ء
) 11عارف وق ار” ،اطہ ر بی گ ک ا افس انوی مجم وعہ“ ،بی بی س ی اردو 11 ،اکت وبر
2008ء۔
فیض صاحب!
میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں۔ ایک اس بنا پر کہ آپ اولڈ راوین ہیں اور دوسری وجہ یہ
کہ آپ نے زندگی میں ”کچھ عشق کیا ،کچھ کام کیا“ اور ادب والوں ک و محنت ک ا درس
دے گئے۔ آپ شاعر ہیں اور ادب میں آپ کا مق ام بلن د ہے ،مگ ر اس ک ا ہرگ ز یہ مطلب
نہیں کہ آپ اپنی من مانی کرتے پھریں۔
مگر ایک بات تو بتائیے کہ اس جش ن میں امج د اس الم امج د اور ض یاء محی ال دین ک و
بالنے کی کیا ضرورت تھی۔ ناصر کاظمی ،اقب ال ،ن م راش د ،اور زی ادہ ش وق ہوت ا ت و
پطرس بخ اری ک و م دعو ک ر لی تے۔ آپ نے اپ نی محف ل میں لفظی ج ادوگری ک ا رن گ
جمانے کے لیے ضیاء محی الدین کو دعوت نامہ بھیج دیا۔ آپ کا خط ملے اور وہ انک ار
کر دیں ،ایسا تو ممکن نہ تھا۔ مگر دعوت نامہ بھیجنے سے قبل آپ کو سوچنا چاہیے تھا
کہ اس رن سے جسے ایک بار بالوا آ جاتا ہے وہ واپس نہیں آیا کرتے۔
آج آپ کے لیے ”جشن کا دن“ ہے۔ آپ ضیاء صاحب کی آمد پ ر کہہ رہے ہ وں گے ”اج
آ ویہڑے وچھڑے یار میرے“ اور محفل کے بعد آپ ان کے سامنے اپنے غم عیاں کریں
گے اور ان کی آواز فکر رف و میں ہ و گی۔ مگ ر ہم ارے ل یے ”یہ م اتم وقت کی گھ ڑی
ہے۔“ ہم ساکنان جہان خراب بھال کس کی آواز سے روح کے گھأو بھ ریں گے۔ آپ اپ نی
کرنی تو کر گزرے ،کاش ”میرے درد کو جو زباں ملے“ تو آپ کو بتأوں کہ آپ نے کیا
کیا ہے۔ اردو ادب کو ایک ہی تو قاری مال تھا ،اسے بھی آپ نے چراغ محفل بن ا لی ا۔ آج
سے آپ کی راتیں روشن اور شعلہ ادب سیاہ پوش ہو گی ا۔ آپ نے ض یاء محی ال دین ک و
کیوں دعوت نامہ بھیجا ،اور ہماری دنیا کی آواز کیوں س لب ک ر لی؟ اب یہ نہ کہ یے گ ا
کہ ”اب کوئی چارہ نہیں“ اور ”غم نہ کر“ کی صورت جھوٹی تسلی نہ دیجیے گا۔
جواب کا منتظر
اویس
اجالسی روحیں
21/02/2023
مأوں کے شہزادوں کو بے حال کرنے کے قانونی ہنر س ے ماالم ال جگہ ہاس ٹل کہالتی
ہے۔ ہاسٹل ہر اس جگہ پائے جاتے ہیں ،جہاں گھر نہ ہوں۔ سول انجینئرز کی نئی تحقی ق
کے مطابق ہر وہ جگہ ہاسٹل کہالتی ہے ،جہاں چار پ انچ لون ڈے ہ ر وقت موج ود ہ وں۔
113
الہور میں وہ طلبہ کثرت سے پائے جاتے ہیں ،جو آوارہ منش ہ وتے ہیں۔ ان کی ط بیعت
پر فاصلے گراں گ زرتے ہیں ،اس وجہ س ے ان کی آوارگی ہوٹ ل ،س ینما اور دوس توں
کے ہاسٹل تک محدود ہوتی ہے۔ ان کے اسی طبیعتی وصف ک و م دنظر رکھ تے ہ وئے،
الہور انتظامیہ نے ہر گلی محلے میں ہاس ٹل کی ای ک ای ک ب رانچ کھ ول دی ہے۔ مزی د
سہولت کے پیش نظر ہاسٹل کو ہاسٹل سے راہ دی گئی ہے۔ انہی راہوں میں پائے ج انے
والی مخلوق عام معنوں میں لونڈے لپاڑی کہالتی ہے۔ اور خاص معن وں میں اس ے کچھ
کہنے کی ہماری ہمت نہیں ہوتی۔ انہی راہداریوں پر کسی ک ا ف ون بجت ا ہے ،ک وئی ک ال
اٹھائی جاتی ہے ،گالی گونجتی ہے اور جگت لگائی جاتی ہے۔ مخلوِق م ذکور ک ا اص ل
مشغلہ تو سیر سپاٹے ہوتا ہے ،کبھی کبھار منہ کا سواد تبدیل کرنے کو کتاب س ے ہ وتی
ہوئی یونیورسٹی تک کا چکر کاٹ لیتی ہے۔ سیر سپاٹوں کی کئی اقسام ہیں جن ک و ف ردًا
فردًا بیان کرنا ضروری ہے ،مگر دوستانہ تشدد کے پیش نظر موقوف کرتے ہیں۔
انہیں اقسام میں سے ایک قسم ”ادبی اجالس“ کے نام سے اپنی مقبولیت رکھ تی ہے۔ اس
قسم کا سفر اشتہار کی تشہیر سے شروع ہوتا ہے اور لونڈوں کی چی مگوئیوں میں س ر
پٹختا ،تنقید برائے قت ل ت ک پہنچ ک ر ،چ ائے پ ر اختت ام پ ذیر ہوت ا ہے۔ اس وجہ س ے یہ
چائے ”چائے برائے اصالح“ کہالتی ہے۔
جنوری کی پہلی ٹھنڈی سہ پہر ،عبدل کا برقی پیغام آی ا کہ ادبی اجالس کے سلس لے میں
ادبی چائے خانہ جانے ک ا مغل ظ ارادہ رکھ تے ہیں۔ س فر ش ام میں ش روع ہوگ ا ،ہم ارے
ہاسٹل پہنچ جائیے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ مغلظ ارادہ س ے کی ا م راد ہے۔ خ دا مع اف
کرے اس سے کوئی خراب مع نی نہ نک الیے گ ا۔ البتہ اگ ر آپ نکلن ا بھی چ اہتے ہیں ت و
ایسی کوئی قباحت بھی نہیں۔
اصل میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہم ارے ای ک دوس ت ہیں انع ام ص احب۔ دیکھ نے میں
چنگے بھلے اور رفت ار میں رکش ہ کے ہم پلہ۔ بق ول عب دل ،انع ام کے کم رہ میں داخ ل
ہونے سے قبل ،درودیوار مغلظ نجس فضا بناتے ہیں۔ اور ان کے داخل ہ وتے ہی گالی اں
گونجتی ہیں۔ یہاں پر گالیاں سے مراد غلیظ گالی اں نہیں بلکہ انتہ ائی مہ ذب غلی ظ گالی اں
ہیں۔ مغلظ ارادہ سے عبدل کی مراد یہی تھی کہ انعام بھی ساتھ ہوگا۔
114
شام کے وقت جب میں ان کے ہاس ٹل کے دروازے پ ر پہنچ ا ،ت و کی ا دیکھت ا ہ وں چ ار
لونڈے چلے آتے ہیں۔ دو کا ذکر کر چکا اور ب اقی دو میں ای ک ش ہروز تھ ا اور دوس را
راحت۔
شہروز اکثر ایک ہی کوٹ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو س ے ش عراء ٹپک تے ہیں اور
آنکھوں سے شعر۔ رفتار میں یہ انعام سے بھی دو الت آگے ہے ،یعنی موٹر سائیکل کے
ہم پایہ۔ آواز اچھی ہے اس وجہ سے اکثر گنگناتا رہتا ہے ،مگر تان دوسرے ہی مص رع
پر ٹوٹ جاتی ہے۔ تان ٹوٹنے کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔
راحت اچھا خاصا پٹھان ہے اور پٹھان کی تعری ف ادب میں بہت مل تی ہے ،پ ڑھ لیج ئے
گا۔ ایک خصوصیت یہ ہے کہ تصویر کشی کرتا ہے۔ بس کرتا ہی ہے ،تصویریں اص لی
حق دار کو بھیجنا ،ان کی طبیعت کے منافی ہے۔
ہاسٹل سے نکلے اور مال روڈ پر چمک تی پیلی روش نیوں تلے چل تے چل تے ادبی چ ائے
خانہ پہنچے ،دروازے پر ایک دوست ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ ن ام ب ڑا پ اکیزہ ،گفتگ و
سے علمیت ٹپکتی ہے اور مجازًا مرد ہے۔ مض مون کی ابت داء میں اس تعمال ہ ونے والی
اصطالح لونڈے لپاڑی کو موجودہ بحث کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں مفہوم واضح ہ و
جائے گا۔
خیاالت اور نظریات میں بلندی پیدا کرنے کے ل یے اجالس ہمیش ہ ادبی چ ائے خ انہ کی
دوسری م نزل پ ر منعق د ہوت ا ہے۔ وہ ال گ ب ات ہے کہ نظری ات بلن د ہ ونے کی بج ائے
جذبات اور آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ ہم بھی وہاں تشریف لے گئے ،م احول خالف توق ع ب ڑا
دستانہ تھا ،یعنی سب کچھ دست و دستی ہ و رہ ا تھ ا۔ ہم ارے یونیورس ٹی کے اس تاد کی
ترجمہ شدہ کتاب پر ایک مضمون پڑھا جانا تھا اور اسی کی سماعت ہمارا مقص ود۔ کچھ
اور کت ابیں بھی عت اِب مض امین کی زد میں آن ا تھیں مگ ر ان واقع ات اور ص وتیات ک و
دیکھنے اور ضبِط سماعت میں النے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھ ا۔ ہم کی وں وہ مض امین
سننا نہ چاہتے تھے ،اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ بات ذکر س ے اوص اِف حمی دہ
تک پہنچے گی اور کپڑے اتر جانے کا خدشہ الحق ہو جائے گا۔ خدشہ مضامین نویسوں
کو تو نہیں ،بلکہ ہمیں ہے ،کہ کپڑے اترنے کے بع د ہم کیس ے لگیں گے۔ کچھ دی ر میں
اجالس شروع ہوا اور مضمون ختم ہوتے ہی استاد مح ترم چ ل دی ئے۔ ہم بھی اٹھ نے ہی
کو تھے کہ سر نے زیِر لب کہا ،کچھ دیر بعد آئیے گا ،ادب کا مضمون ہے۔ شاید وہ بھی
115
یہی چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ ہمارے ادبی خیاالت کے ساتھ ہاتھ ہ و ج ائے ،اور
کپڑے اتارنے کی نوبت آپہنچے ،ادب سے باہر آجائیں۔
کبھی کبھار یونیورسٹی جانے اور کالس میں بیٹھ نے س ے ادب کی ج و س مجھ ہمیں آئی
تھی ،وہ یہی تھی کہ سرد راتوں میں جب دھند فض ا میں معل ق ہ و چکی ہ و ،س ڑک پ ر
چلتے ہوئے کسی ہوٹل پہنچ کر چائے پینا اور قہقہے لگانا۔ سر کے منہ س ے لف ظ ’ادب‘
سنتے ہی ہماری روح پھڑک اٹھی اور ہم مال روڈ پر اٹکیلیاں کرتے پ رانی ان ارکلی میں
واقع ایک ہوٹل میں جا دھمکے۔ سردی بڑھ گئی تھی اور شہروز کی ٹوپی سر سے ہ اتھ
تک کا سفر طے کرتی دس تانہ بن چکی تھی۔ م یز کے گ رد کرس یوں پ ر بیٹھ تے ہ وئے
چائے کا حکم دیا۔ حکم ہم صرف چائے ک ا ہی دی تے ہیں ک وئی اور ہم س ے س رزد نہیں
ہوتا۔ ہماری مجازًا مرد دوس ت انع ام س ے واق ف نہ تھی۔ جب ای ک چ ائے میں میٹھ ا کم
رکھنے کو کہا گیا ،تو وہ حیرانی سے ہماری طرف دیکھتے ہ وئے ب ولی ،پھیکی چ ائے
کون پیتا ہے۔
عبدل نے انعام کا تعارف کرواتے ہوئے کہا ،یہ انعام ص احب ہیں۔ انتہ ائی مہ ذب گفتگ و
فرمایا کرتے ہیں۔ باتوں میں اتنی مٹھاس ہے کہ سامع کو شوگر ہونے کا خطرہ الحق ہ و
جاتا ہے۔ اس وجہ سے پھیکی چ ائے ن وش کی ا ک رتے ہیں ،ت اکہ کچھ ک ڑواہٹ در آئے۔
ایک دو زی ر لب مس کراہٹیں مس کرائیں اور ب ات دب گ ئی۔ ش ہروز گان ا گنگن انے لگ ا۔
پھیکی پھیکی واہ واہ ہونے لگی اور ماحول بے تکلف ہوتا گیا۔ مگر دوسرے ہی مص رع
پر شہروز نے تان توڑ کر پوچھ ا ،اس کے مع نی کس ی کی س مجھ میں آئے۔ ہلکی ہلکی
ہنسی کے ساتھ انعام سے لہریں نکلنا شروع ہوئیں۔ ہ وائی ب اتیں ہ ونے لگیں ،قہقہے بلن د
اور فض ا نجس ہ وتی گ ئی۔ کچھ دی ر بع د جب ہم اری دوس ت پ ر ’مہ ذب‘ کے مع نی وا
ہوئے ،تو ہاسا پڑ گیا۔ راحت کھ ڑا ہ و ک ر قہقہے لگ انے لگ ا۔ چن د لمحے محف ل مہک تی
رہی۔ چائے پی چکنے کے بعد جب بل دی نے کی ب اری آئی ت و س ب خ واہش ک و دب اتے
ہوئے بل ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے لگے۔ چائے برائے چ ائے کے معاہ دہ پ ر اتف اق
کرتے ہوئے شہروز نے بل ادا کیا ،اور ہم ہاسٹل کی جانب چل پڑے۔
مضمون دوستوں کی خدمت میں پیش کیا اور ہر ایک سے الگ الگ پوچھا کہ اگ ر انہیں
کچھ اعتراض ہے تو بتا دیں ،تا کہ قابِل اع تراض م واد ح ذف ک ر دی ا ج ائے۔ کس ی نے
ہنسی کی رم جھم کے ساتھ فورًا شائع کروانے کا مشورہ دیا۔ تو کسی نے جھڑک دی ا کہ
آئندہ اعتراض کی ب ات مت کرن ا۔ تمہ ارے لکھے ہ وئے الف اظ پ ر ہمیں ک وئی اع تراض
کیسے ہو سکتا ہے۔ (وہ الگ بات ہے کہ میرے بولے ہوئے الف اظ پ ر اک ثر ن وبت تھ پڑ
تک پہنچ جاتی ہے) اور کہا ،ادبی مزاح اسی ک ا ن ام ہے کہ مغل ظ چ یزوں س ے پ اکیزہ
مسکراہٹ تخلیق کی جائے۔
عبدل اور انعام ایک ہی ہاسٹل ،بلکہ ایک ہی کمرے کے باسی ہیں۔ (باس ی ت و عب دل کے
کان ہو چکے ہیں ،انعام تو نت نئی مغلظ تخلیقات کرتا رہتا ہے)۔ عبدل کو مضمون بھیج ا
اور رائے چاہی۔ عبدل حسب معمول مضمون کو بآواز بلند پڑھ نے لگ ا ،ت اکہ انع ام بھی
سن سکے۔ مضمون میں بکھری پاکیزگی کو سن کر انع ام بھ ڑک اٹھ ا ،مجھے ص لواتیں
سناتا ،عبدل کی جانب متوجہ ہوا ،عبدل مسکرا رہا تھا۔ اچانک گ الیوں کی آن دھی ک ا رخ
عبدل کی طرف مڑ گیا۔ آخر بات مجھ تک پہنچی اور نام تبدیل کرنے کی تجویز پر غور
و خوض ہونے لگا۔ خدا سے دعا ہے ،کہ اب انعام تین چار گالیوں کی س المی کے س اتھ
ہمارے دیے گئے تحفظ کو سند قبولیت عط ا فرم ائے۔ اور آئن دہ ہمیں مغل ظ آن دھی س ے
محفوظ رکھے۔
لونڈے لپاڑے
25/02/2023
نوعمری سے بالغ پن کی راہ میں پڑنے والی منزل ک و نوج وانی کہ ا جات ا ہے۔ نوج وان
ایسا عجوبہ ہے جس ے س مجھے کے ل یے ش اعر اور ادیب دی وان کے دی وان لکھ گ ئے
مگر نتیجہ اخذ کرنے سے ناکام رہے۔ کسی نے قاتل رو کہ ا ت و کس ی نے ص یاد پیش ہ ۔
کوئی گل رو کہہ گیا تو کوئی چنچل ص نم۔ ش اعر لکھ لکھ تھ ک گ ئے مگ ر تس لی بخش
نتیجہ اخذ نہ کر پائے۔ اس مسلہ پر غور و خوض کرنے اور نتائج تک پہنچنے کے لئے
کمی ٹی ت رتیب دی گ ئی۔ کمی ٹی نے تحقیقی بنی ادوں پ ر مس لہ ک و ح ل ک رنے کے ل یے
ہنگامی اجالس بالیا۔ تمام شرکاء جن میں فلسفی ،ش اعر ،ادیب ،عاش ق ،آوارہ گ رد اور
کئی عام لوگ شامل تھے ،سر جوڑ بیٹھ گ ئے۔ غ وروفکر ش روع ہ وئی۔ ک ئی ہف تے بع د
117
اجالس کے شرکاء ایک نکتہ پ ر متف ق ہ وئے۔ ص در کمی ٹی نے نت ائج ک ا اعالن ک رتے
ہوئے کہا کہ تمام شرکاء کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ نوجوان ”لون ڈے لپ اڑے“ ہ وتے
ہیں۔ اور لونڈے لپاڑے کی وض احت کرن ا ایس ا ہی ہے جیس ا اس ب ات پ ر بحث کرن ا کہ
مرغی پہلے آئی یا انڈا۔ نوجوان کی یہ تعریف جامع ہ ونے کے ب اوجود کچھ لوگ وں کے
ہاں سطحی قرار پائی اور ہر کوئی نوجوان کو ایک راہ پر چال کر ایک منزل دیکھ ا ک ر
نئی تعریف پیش کرنے کی سعی میں سرگرداں ہو گیا۔ ہم ارے عالمہ اقب ال ،ش اعر اور
عاشق مزاج ہونے کے ساتھ فلسفی بھی تھے۔ انہوں نے تخیل کی پرواز میں محو ہوتے
ہوئے نوجوان کو پہاڑوں کی چوٹیوں کی راہ دیکھاتے ہوئے۔ کہا
اور نوجوان کی نئی تعریف ” نوجوان شاہین ہے“ پیش کر دی۔ نئی تعری ف ہنگ امہ خ یز
ثابت ہوئی اور تنقیدی حلقوں میں کہرام مچ گیا۔ نئی تعریف پر تنقید میں نی ا م وڑ آی ا اور
نئی بحث چھڑ گئی۔ کوئی اقبال کے حق میں تو کوئی خالف تھا۔ نیام دین عرف ایرا غیرا
نے کھل کر اقبال کے حق میں بیان دیے اور اپنا تحقیقی مقالہ پیش کر دیا جس میں اقب ال
کی کی گئی تعریف کو جامع اور موزوں قرار دیا گیا تھا۔ نی ام دین ع رف ای را غ یرا نے
ایک اجالس میں اپنا تنقیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا:
”اقبال ،ای ک فلس فیانہ اور زرخ یز ذہ نیت کے حام ل ش اعر ہیں۔ انہ وں نے نوج وان کی
تعریف میں جو نیا مفروضہ پیش کیا ہے۔ اس کے درپردہ وہ خصوص یات مخفی ہیں ج و
شاہین نام کے پرندے ک و ق درت کی ط رف س ے عط ا ک ردہ ہیں۔ اور وہی خصوص یات
مخفی آج کے نوجوان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ “
اتنے میں مسٹر جلد باز نے نیام دین عرف ایرا غیرا کو ہ اتھ کے اش ارہ س ے ای ک منٹ
خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اپنا منہ ان کے کان کے قریب کرتے ہوئے کہا ” جن اب
جلدی اپنا مدعا بیان کریں۔ ابھی آپ کو حجام مانی کی دوکان ک ا افتت اح ک رنے بھی جان ا
ہے۔ “
مسڑ جلد باز کی بات سن کر نی ام دین ع رف ای را غ یرا دوب ارہ ع وام کی ج انب مت وجہ
ہوئے اور کہنا شروع کیا۔
118
اگر ان تمام خصوصیات کو فردًا فردًا بیان کیا گیا تو اصل مدعا پایہ تکمیل تک پہنچ نے
کی سعی میں ہی دم توڑ ک ر بھٹ ک ج انے والے گمن ام مس افر کی ط رح ،بے م نزل رہ
جائے گا۔ اسی لیے یہاں صرف دو تین خصوص یات کی ج انب آپ کی ت وجہ دالت ا ہ وں۔
پہلی ص فت یہ ہے کہ ش اہین رات ک و آرام اور دن کے وقت طع ام اور ب اقی مع امالت
سرانجام دیتا ہے ،دوسری صفت جو باقی پرندوں سے اسے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ
وہ اپنا رزق ،جو خدا کی طرف سے اس کے نصیب میں پہلے ہی لکھا جاچکا ہے ،خ ود
تالش کرتا ہے اور کسی دوسرے پرندے کا سہارا نہیں لیتا بلکہ اپنی قوت اور طاقت پ ر
بھروسہ ک رتے ہ وئے راس تہ اکیال ہی طے کرت ا ہے۔ یہی خصوص یات آج کے نوج وان
میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کا نظریہ انتہ ائی م وزوں ہے کہ
”نوجوان شاہین ہے۔“ “ ہال تالیوں کی گونج سے مہ ک اٹھ ا۔ اور نی ام دین ع رف ای را
غیرا سٹیج سے اترتے ہوئے حجام کی دوکان کا افتتاح کرنے چل دئیے۔
کئی سال اس تعریف کو قانون کی سی حیثیت حاصل رہی اور ہ ر تحقیقی مق الہ کی بنی اد
قرار پاتی رہی۔ ستر اسّی سال بعد شکیل چتروتی عرف سوش ی نے نوج وان کی تعری ف
پر مقالہ لکھتے ہوئے نیا مفروضہ پیش کر دیا۔ ایک اخباری رپوٹر کو بیان دیتے ہ وئے
انہوں نے کہا۔
”جس وقت اقبال نے نوجوانوں کو شاہین کہا ،اس وقت نوج وان میں کچھ ک ر ج انے کی
تڑپ اور کچھ پا لینے کا جذبہ اور حوصلہ موجود تھا۔ مگر موجودہ تناظر میں جب دنیا
کا تصور انٹرنیٹ کے بغیر تقریبا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اقبال کا پیش کیا گی ا مفروض ہ
”نوجوان شاہین ہے“ ادھورا ہے اور نا صرف ادھورا ہے بلکہ رد کئے جانے کے قابل۔
اور میں غالب یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگ ر آج اقب ال اس ع الم ف انی میں موج ود
ہوتے تو وہ اپنے مفروضہ پر نظ ر ث انی ک رتے ہ وئے ،خ ود ہی اس ے قط ع ک ر دی تے۔
موجودہ تناظر میں میں ”تو الو ہے بسیرا کر پہاڑوں کی غاروں میں۔ “ کہتا ہوا نوجوان
کی تعریف میں نیا مفروضہ پیش کرتا ہوں کہ ” نوج وان ال و ہے“ اب س وال یہ ہے کہ
ایسا کیوں؟ اس سوال نے آپ کے ذہن کی کسی گمن ام جگہ میں س ر اٹھ انے کی کوش ش
ضرور کی ہوگی۔ اس سوال کا جواب دی نے س ے قب ل میں ال و کی چن د خصوص یات ک ا
تذکرہ کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔“
رپ وٹر” :اج ازت! دنی ا بے ت اب ہے۔ ن ئے مفروض ہ کی وض احت چ اہتی ہے۔ آپ بی ان
کرتے جائیں۔“
119
”الو صبح کو سوتا ہے اور رات کو جاگتا ہے ،کسی دوسرے پرندے کے ساتھ ،س وائے
اپنی برادری کے چند پرن دوں کے ،کچھ واس طہ نہیں رکھت ا۔ ان دو خصوص یات ک و ہی
بنیاد بنائے اگر موجودہ نوجوان کی زندگی ک و س مجھنے کی کوش ش کی ج ائے ت و پہال
ثبوت ہمیں یہی ملے گا کہ دوِر جدید کا نوجوان دن کو سوتا ہے اور رات ک و جاگت ا ہے۔
شام پ ڑتے ہی ان کی آنکھیں ایس ے کھ ل ج اتی ہیں جیس ے روٹی ک و دیکھ ک ر بھ وکے
غریب کا منہ۔ کوئی فلم دیکھنے میں مح و ہوت ا ہے ،ت و ک وئی گیم کی تخیالتی دنی ا میں
کھویا دشمن کو ختم کرنے کی سعی میں سرگرداں۔ ان کو کچھ خ بر نہیں ہ وتی کہ س اتھ
والے کمرے ،بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ س اتھ والے بس تر پ ر پ ڑے ہ وئے انس ان
کے کی ا م زاج اور ح االت ہیں۔ یع نی س یدھے الف اظ میں ال وؤں کی ط رح انہیں ایس ا
محسوس ہوتا ہے کہ ساتھ واال ان کی برادری ک ا نہیں اور اگ ر انہ وں نے اس س ے کالم
کر لیا تو برادری بدر کر دیا جائے گا۔ اس لیے ایک دوس رے س ے گفتگ و نہیں ہ و پ اتی
اور دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن پو پھوٹ نے کے س اتھ ہی س و ج اتے ہیں۔ اس س ے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ ” نوجوان الو ہے۔“ بلکہ ہم سب الو ہیں۔ “
”لکھاری “
22/03/2023
120
مجھے یہ دکھ ہے کہ شب کی دہلیز پر سورج مر گی ا اور رات نے خ بر ت ک نہ لی۔ اس
سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ سورج کی روشنی سے چمکنے واال چاند اس کا ہمدرد بننے
کی بجائے اس کی جگہ نمودار ہوا اور اپنی دھاک بٹھانے لگا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ دریا سسک سسک کر مرتا رہا اور بارش نے ادھر کا رخ نہ کیا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک گلی میں صف ماتم بچھی تھی تو دوسری گلی رقص و سرور
کا جشن منایا جا رہا تھا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ایک گھڑی کی وجہ س ے مل ک میں ہنگ امے برپ ا ہ و گ ئے ،اور
پنتالیس ہزار ایکڑ زمین کی منتقلی پر مکمل سکوت رہا۔
مجھ یہ دکھ ہے کہ ایک کونج اپنے ڈار سے بچھڑ گ ئی اور تنہ ائی کی س ولی چ ڑ گ ئی۔
اور ڈار نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ معاشرے نے خواجہ سرا کو قبول نہ کیا اور وہ جنسی درن دگی ک ا
شکار بن کر اپنی زندگی کی شمع کی روشنی سے محروم رہ گیا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ دو بھائیوں کی ماں کی بے کفن الش کم رے میں پ ڑی تھی اور وہ
نشہ کرنے میں مشغول تھے۔
121
مجھے یہ دکھ ہے کہ فقیر کی مزار پر چادر چڑھائی گئی مگر اس بیٹی کی چ ادر کھینچ
لی گئی ،جو جہیز لے کر نہ آئی تھی۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ ہوس کو محبت کا نام دیا گیا اور ایک ناج ائز بچہ اس کی نش انی ،
گلیوں میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا۔
مجھے یہ غم ہے کہ میں کسی کو اپن ا دوس ت نہ بن ا س کا۔ اور المیہ ہے م یرے ل یے کہ
میں خود کو اس کام کا اہل بھی نہیں پاتا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں۔ دوستی روح سے آشنائی کا نام ہے۔ مجھے
جو بھی مال کام سے آشنا مال۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ گاڑی خریدنے کے بعد اس پر لکھوا دیا گی ا "م اں کی دع ا" ،اور
باپ کے ان چھالوں پر مرہم نہ رکھا گیا جو اوالد کو کامیاب دیکھنے کے ل یے کی گ ئی
محنت کی وجہ سے پڑے تھے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ غلط وقت پر ل وگ چیخ تے رہے اور جب بول نے ک ا وقت آی ا ،ان
کی زبانوں کو قفل لگ گئے۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ اس لڑکے کا کیا بنے گا جس کا سارا مستقبل لیپ ٹاپ میں بن د تھ ا
اور لیپ ٹاپ چوری ہو گیا۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ واقعہ زمان پارک میں ہوتا ہے اور عذاب جی سی یونی ورسٹی پر
ٹوٹ پڑتا ہے اور تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی جاتی ہیں۔
مجھے یہ دکھ ہے کہ انفرادی خرابی کو خرابی تسلیم کیا جاتا ہے مگر اجتم اعی خ رابی
فیشن قرار پاتی ہے۔
122
چھاننے میں سر گرداں ہے۔ مگ ر ج وں ج وں علمیت میں اض افہ ہوت ا جات ا ہے وہ اپ نی
اصلیت سے مزید دور ہوتی جاتی ہے۔
میں اس سوچ میں محو اور پریشان ہوں کہ کیا یہ سب ازلی ہے یا زمینی۔ مجھے یہ فکر
ہے کہ یہ زمینی ہے۔ اور زمینی چیز جب ایک بار وجود میں آ جاتی ہے اس ے ختم نہیں
کیا جا سکتا۔
فاصلوں کا ہم نشیں
01/04/2023
زندگی میں کچھ ایسے عجب واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ،جنہیں انس ان کبھی فرام وش
نہیں کر پاتا۔ ایک پ ل میں ص دیوں کے رش تے بکھ ر ج اتے ہیں۔ ت و کبھی راہ گ زر پ ر
ایسے لوگوں سے سامنا ہو جاتا ہے جن سے مل کر محس وس ہوت ا ہے کہ ص دیوں س ے
آشنائی ہو۔ زندگی ،وقت کی بہتی لہروں کا ن ام ہے۔ واقع ات ،ان لہ روں میں تالطم برپ ا
کرنے کا باعث بنتے ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک عجب مگر دلچسپ حادثہ ہوا۔
بات ہے بیس سو اٹھارہ کی۔ میں گورنمنٹ ہائی سکول میں جماعت دہم سائنس ک ا ط الب
علم تھا۔ وقت خوشی سے گزرتا تھا۔ پریشانی تھی نہ کوئی آرزو۔
ای ک روز م یرے ہم جم اعت س اتھی نے مجھے بتای ا کہ دہم آرٹس ک ا ای ک ط الب علم
تمہارا دوست بننا چاہتا ہے۔ تب میں قدرے شرمیال ہوا کرت ا تھ ا اور دوس ت بنان ا مجھے
اچھا نہیں لگتا تھا۔ یوں سمجھیے کہ دوستی کے فن سے عاری تھا۔ بات ہنس کر ٹال دی۔
یعنی
ایک دو بار یہی ب ات دوب ارہ چھ ڑی ،کبھی کبھ ار راس تے میں مالق ات ہ و ج اتی۔ مگ ر
دوستی نہ ہو س کی۔ وقت گزرت ا گی ا ،آج ک ل ہوت ا گی ا اور دن ہ وا ہ وتے گ ئے ،ہم ارے
123
امتحان مکمل ہوئے اور سکول سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ای ک م اہ بع د ای ک ل ڑکے نے
مجھے فون کیا اور کہا کہ ”میں نے تمہارا نمبر جماعت دہم آرٹس کے طالب علم اب وذر
کو دیا ہے اور اس کا نمبر تمہیں بھیج رہا ہوں۔“ میں نے کہا ”اچھ ا۔“ اور ف ون رکھ دی ا۔
اور موصول شدہ نمبر پر میسج کیا۔ دن تھا 21اپریل 2018ء۔ چن د ب اتیں ہ وئیں ،مجھے
وہ کافی معقول لگا۔ اور تعلیم میں بھی اچھا تھا۔ یوں ہماری دوستی کی شروعات ہوئی۔
شکل و صورت سے ،کافی سے زیادہ خوبصورت ہے۔ گول چہرہ ،کشادہ پیش انی ،لم بی
آنکھیں ،اجال گن دمی رن گ ،مناس ب ن اک ،لب نہ ہی زی ادہ پتلے اور نہ زی ادہ م وٹے،
ٹھوڑی کے بائیں جانب تل ،ہلکی داڑھی ،گھنی مونچھیں ،سر کے بال چھوٹے ،ق د پ انچ
فٹ تین انچ ،اور عمر یہی کوئی بیس بائیس برس۔ کل مال کر ،آنکھوں کو بھا جانے والی
صورت اور دکھنے میں قدرتی معصوم۔
کھانے میں اسے کچھ زیادہ پسند نہیں ،ناشتے میں دہی اور پراٹھا م ل ج ائے ت و خوش ی
سے کھا لیتا ہے۔ البتہ کوئی ممانعت بھی نہیں کہ ناش تے میں یہی چ یزیں ہون ا الزم ہے۔
چکن پالؤں شوق سے کھاتا ہے۔ اس کے عالوہ جو مل جائے ،بغیر ناک بھوں چڑھائے
کھا لیتا ہے۔
خوش لباسی اس کی خاصیت ہے۔ اکثر ک رتہ پاج امہ میں پای ا جات ا ہے۔ جب کھیت وں کی
ط رف جات ا ہے ت و ٹی ش رٹ پہن رکھی ہ وتی ہے۔ ٹ راؤزرز اور ٹی ش رٹ کے س اتھ
کرکٹ کھیلنے جاتا ہے۔ سردی کے موسم میں ہر لب اس کے س اتھ ک وٹ پہ نے رہت ا ہے۔
چشمہ کا اس تعمال بہت کم کرت ا ہے۔ گرمی وں میں ہ ر قس م کے لب اس کے س اتھ کیپ ک ا
استعمال اضافی ہے۔ جب ل و چل تی ہے ت و پنج ابی ص افحہ (چ ادر) ش انہ پ ر ہ وتی ہے۔
جوتوں میں جوگرز ،سنیکرز اور کھیڑی کا استعمال بکثرت کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ رشتے اور دوستی وہاں مضبوط ہ وتی ہیں جہ اں فاص لے نہ ہ وں۔ مگ ر
ہماری دوستی پر یہ منطق منطبق نہیں ہوتا۔ ہماری دوستی ک و پ انچ س ال ہ ونے ک و آئے
ہیں ،اس دوران ہم نے شاید ہی گھنٹہ بھر ایک جگہ اکٹھے بیٹھ ک ر گ زارا ہ و۔ مگ ر اس
کے باوجود دوستی کی مضبوطی اور شدت میں کمی نہیں آئی۔ م یری بچپن س ے ع ادت
124
ہے کہ دوستوں سے ملنے نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں اپنے ہاں مدعو کرت ا ہ وں۔ اس وجہ
سے مہینوں ،دوستوں سے مالقات نہیں ہو پاتی۔ سال بیس س و ب ائیس میں ،میں نے ای ک
ساتھ تین چار کامیابیاں سمیٹیں تو سوچا دوستوں کے ساتھ خوشیاں ب انٹی ج ائیں۔ دع وت
کا اہتمام کیا اور اپنے تمام دوستوں کو ،جو بمشکل تین چار ہیں ،م دعو کی ا۔ ان ص احب
کو خصوصی دعوت دی اور بار بار تاکید کی کہ وقت مقرر پر پہنچ جائیے گا۔
سب دوست بیٹھے ہیں اور ابوذر کا انتظار ہو رہا ہے۔ کوئی پ ون گھن ٹے کی دی ری کے
بعد ،کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک پر س ے چلے آتے ہیں۔ اٹھ ک ر اس تقبال کی ا اور گلے ملے۔
ملنے کے انداز سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے
اگلے ملنے کی طرح بھول گئے ،وہ طرح جو فون پر باتوں س ے عی اں ہ وتی ہے۔ ش اید
اس کی وجہ بھی چہرہ بہ چہرہ ،رو برو مالقات کا نہ ہونا ہو۔
چار پانچ منٹ بعد تکلف کی فضا چھٹنے لگی۔ اور ع ام گفتگ و ش روع ہ وئی۔ اس دن پتہ
چال کہ اس کی رگ رگ میں گاؤں کی مٹی سرائیت کیے ہوئے ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں ای ک ہی جگہ ،ای ک دوس رے کے س اتھ ہم نے بہت کم
وقت گزارا ہے۔ ہاں البتہ فون پ ر ہ ر دوس رے دن ب ات ہ وتی ہے۔ اس کی شخص یت میں
ایک شرمیال پن ہے ،اس وجہ سے وہ اپنے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا۔ اس کا اندازہ
اس بات سے لگائیے کہ فیس بک پر اپنا اصلی نام استعمال نہیں کرتا ،صرف اپنی ذات (
کھرل) کے نام سے اکاؤنٹ بنایا ہوا ہے۔
اس کے اندر دوسروں کو کنٹرول کرنے کا مادہ زی ادہ ہے۔ ش اید یہ خاص یت وراثت کی
دین ہے۔ میرے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی وہ اپنی ب ات من وانے اور اپ نے نظری ات ک و
صحیح ثابت کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کی حرکات ،مذاق اور باتوں ک ا انحص ار م زاج
پر ہوتا ہے۔ اگر اس کا بات کرنے کا من ہے تو فون کرے گا اور ب اتیں کرت ا چال ج ائے
گا۔ اور اگر کسی وجہ سے کال اٹینڈ نہ کی جائے ،تو تین چار بار مسلسل کال ک رے گ ا۔
اس سے بھی بات نہ بنی تو میسج کرے گا۔ اور اگر بات کرنے کا من نہیں تو ک ال اٹھان ا
تک مناسب نہیں سمجھتا۔ مذاق بہت کم کرتا ہے اور اگر م ذاق ک رنے ک ا م وڈ نہ ہ و ت و
دوسروں کے مذاق کرنے پر برہم ہ و جات ا ہے۔ اور م زاج کب ب دل ج ائے کچھ پتہ نہیں
چلتا۔ یعنی
125
مزاج یار کا عالم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
کھی ل میں ک رکٹ پس ند ہے۔ ہ ر روز تین چ ار گھن ٹے اس ک ا ش غل فرم اتے ہیں۔ اس
پس ندیدگی کے س وتے چن د کھالڑی وں س ے پھوٹ تے ہیں جن میں انگلس تان کے Jason
Royاور پاکس تان کے ب ابر اعظم س ر فہرس ت ہیں۔اس کے س اتھ دو ای ک خ واتین
کھالڑیوں کو بھی پسند کرتا ہے۔
ہماری جب بھی بات ہوتی ہے تو گفتگو کا محور تین چار مخصوص موض وعات ہ وتے
ہیں۔ اور پانچ سالوں میں ان موضوعات میں کسی قسم کی رد و ب دل اور تب دیلی نہیں کی
گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوت ا ہے کہ وہ چن د موض وعات اس کی شخص یت ک ا مس تقل
حصہ ہیں ،اس وجہ سے وہ بات کو گھما پھرا کر انہی موض وعات کی ط رف م وڑ دیت ا
ہے۔
اس کے ساتھ جو لمحات گزرتے ہیں ،ان کا بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ بس اتن ا کہ ا ج ا
سکتا ہے کہ:
فن پر روشنی ڈالنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ اخالقیات کس چیز
ک ا ن ام ہے۔ اخالقی ات ،اخالق کی جم ع ہے ج و کہ فلس فہ کی ای ک ش اخ ہے جس میں
معاشرے کی اخالقی اقدار پر بحث کی جاتی ہے۔ بعض مفکرین اخالقیات کو زندگی کے
فن کی داستان قرار دیتے ہیں۔ اخالقیات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اواللذکر میں کوتاہی گناہ اور موخر الذکر میں جرم قرار پاتی ہے۔ یہ بحث بھی یہاں غیر
موزوں معلوم پڑتی ہے کہ یہ بیان کیا جائے کہ کس ط رح اخالقی ات م ذہبی تن اظر س ے
سیکولر تناظر میں داخ ل ہ وئیں۔ البتہ اتن ا بی ان ک ر دین ا ض روری ہے کہ اس عم ل میں
سگمنڈ فرائڈ ،کارل مارکس ،یووال ہراری ،ابراہم ماسلو ،وکٹر فرینکل اور کارل روجرز
جیسے ماہرین کا ہاتھ ہے۔
)2فنی اخالقیات
”اور شعرا ،تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے ل وگ چل تے ہیں۔ کی ا تم دیکھ تے نہیں کہ وہ
ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو ک رتے نہیں۔“ (الش عراء آی ات
224۔ ) 226
اور اگر کوئی ایسی بات بیان کرنا الزم ہو جس میں جنسیت کا عنص ر ہ و ت و اس تعاراتی
اسلوب اختیار کیا جائے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں میاں بیوی کے جنسی تعل ق کے متعل ق
ارشاد ہے :
”وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“ ( سورۃ البقرہ) 187 :
فن کو آفاقی ہونا چاہیے اور ہر ایک مسئلہ کو اس کے اندر سمونے کی کوشش کی جانی
چاہیے۔ یہ بات اخالقیات کے خالف ہے کہ فن کو ایک موضوع تک محدود کرتے ہوئے
باقی تمام موضوعات سے کنارہ کش رہا جائے۔ برص غیر کے فن ون میں ای ک وقت ایس ا
بھی آیا جب وہ جنسیت تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اقبال فرماتے ہیں :
128
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
فنون لطیفہ میں اس بات ک و ملح وظ خ اطر رکھ ا جان ا بھی ض روری ہے کہ کس ی بھی
شخص کی بے جا تعریف یا ہجو نہ کی جائے۔ یہ بات معاشرتی اخالقیات کے خالف ہے
کہ کسی بھی شخص پر بالوجہ الزام لگایا ج ائے اور اس کی ع زت و آب رو ک و داغ دار
کیا جائے۔
فنون لطیفہ کا سب سے اہم کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان دوستی کو پروان چڑھائیں اور
قومیت سے رشتہ استوار کرنے کے بجائے آف اقیت ک ا رش تہ پ روان چڑھ ائیں۔ اس وجہ
سے فن کے ذریعے کسی بھی ایسے جذبہ کو ابھارنا جو قومی ،م ذہبی اور ملکی مس ائل
تک محدود رہ جائے یا خاص قوم میں احساس تفاخر قائم کرتے ہوئے باقی تمام اقوام ک و
کم تر قرار دے ،انسانی اخالقیات کے منافی ہے۔ فن کو انسان سے مخ اطب ہون ا چ اہیے
نہ کہ ای ک خ اص گ روہ س ے۔ ہ اں یہ ب ات بھی درس ت ہے کہ زم انہ ق دیم میں فن کے
ذریعے قومی جذبات ک و ابھ ارا جات ا تھ ا اور جنگیں ل ڑی ج اتی تھی۔ ع رب میں رزمیہ
شاعری اس کی مثال ہے۔ مگر موجودہ زمانہ آفاقیت ک ا زم انہ ہے۔ اس وجہ س ے فن ک ا
قومیت سے آفاقیت تک سفر کرنا ضروری ہے۔
اب دوسرے سوال پر بات کرتے ہیں کہ فنی اخالقیات سے کیا مراد ہے۔
فنی اخالقیات سے مراد ہے کہ فن میں نقالی کے بجائے مروجہ فنی امثال میں جدت پی دا
کرتے ہوئے فنی نقطٔہ کمال کی جانب بڑھنا۔ اور پہلے سے طے شدہ معیارات اور جدی د
معیار میں حد تفاوق کھینچتے ہوئے امتیاز کو واضح کرنا۔
فن داخلی تحرک کا نام ہے اور فنکار کی یہ اخالقی ذمہ داری ہے کہ وہ خ دا تع الٰی کے
ودیعت کردہ فن میں ہنر کی آمیزش کرتے ہوئے ،عروج کی جانب محو س فر ہ ونے کے
لیے محنت کرے۔ محنت فن ،جو ودیعت کی ا گی ا ہے ،کے بنی ادی علم کے بغ یر نہیں کی
129
جا سکتی۔ اس وجہ سے فنکار کی یہ اخالقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے متعلقہ فن ک ا علم
حاصل کرے۔
مجموعی جائزہ:
وہ عمل جو انسان کی جمالیاتی حس کو تسکین پہنچاتے ہوئے اسے زن دگی گ زارنے ک ا
ہ نر س کھاتا ہے ،فن ہے۔ اور فن کہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ م روجہ معاش رتی مس لمات
کے منافی نہ ہو۔ اگ ر فن معاش رتی مس لمات کے خالف ہ و گ ا ت و اس س ے دو رد عم ل
ظاہر ہوں گے۔ پہال یہ کہ لوگوں میں اش تعال انگ یزی پ روان چ ڑھے گی اور وہ فن اور
فنکار کے دشمن ٹھہریں گے۔ دوسرا یہ کہ ل وگ اخالقی ات س ے منہ م وڑنے لگیں گے۔
دونوں عوامل ہی معاش رے کی بق ا اور امن و س المتی کے من افی ہیں۔ اس وجہ س ے یہ
ضروری ہے کہ فنون لطیفہ کو اخالقیات کے منافی ہونے کے بجائے ان میں مض بوطی
النے کا باعث ہونا چاہیے۔
130