Professional Documents
Culture Documents
Videoplayback
Videoplayback
m4a
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بیٹی کی شہادت دشمن کے حملے کی وجہ سے حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بیٹی
حضرت زینب شہید ہوئی
اور پھر قبر میں اتارنے کے لیے حضور صلی ہللا علیہ وسلم خود ہی قبر میں اترے اور اپنی بیٹی زینب کو جیسے ہی
ہاتھ میں لے کر قبر میں رکھا تو بے قابو ہو کر روتے ہوئے کہنے لگے
کہ میری بیٹی زینب میری تمام بیٹیوں میں سب سے اچھی بیٹی تھی اسے میری خاتے دشمنوں کی طرف سے بہت
تکلیفیں دی گئیں پھر حضور صلی ہللا علیہ وسلم کہنے لگے بسم ہللا الرحمن الرحیم
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بیٹی کی وفات حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی چار لڑکیوں میں سب سے بڑی لڑکی
حضرت زینب تھی انہوں نے حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی خاطر
بہت سی مسئیبتیں جھیلی ہیں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے لڑکے تو تھے نہیں
نہیں اس لیے جب لڑکے نہ ہو تو گھر کی بڑی لڑکی ہی پورے گھر والوں کے لیے ایک سہارہ بنتی ہے یہ اس وقت کی
بات ہے کہ جب ابھی بعد کی تین لڑکیوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا صرف حضرت زینب ہی تھی اور وہ بھی بہت
چھوٹی تھی ایک دن حضور صلی ہللا علیہ وسلم صبح کے وقت مکہ کے لوگوں کو ہللا کی طرف دعوت دینے کے لیے
نکلے ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا لیکن میں دور کھڑا محمد صاحب کی حالت دیکھ رہا
تھا
لوگوں کو سمجھائے جا رہے تھے کہ اے میرے بھائیوں میری بات مان جاؤ میں تمہارے فائدے کی بات کر رہا ہوں تم
ایک ہللا کو اپنا خدا مان لو کامیاب ہو جاؤ گے
وہ صحابی کہتی ہیں کہ میں شام تکیون سر دیکھتا رہا کہ محمد صاحب کس قدر پریشان ہو کر لوگوں کو سمجھا رہے ہیں
لیکن کوئی ان کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہو رہا تھا
شام کو وہ بیچارے محمد صاحب خاموشی سے اپنے گھر کی طرف چل دیئے جب حضور صلی ہللا علیہ وسلم مغرب کے
وقت اپنے گھر پہنچے تو دروازہ کھٹ کھٹ آیا
حضرت زینب نے آ کر دروازہ کھوال تو دیکھا کہ میرے باپ کی حالت اتنی بری ہو چکی ہے کہ کسی نے تو ان پر تھوکا
ہے
کسی نے ان کے چہرے پر تماشا مارا ہے کسی نے ان پر مٹی پھینکی ہے ان کے سارے کپڑے گندے ہو چکی ہیں اور
وہ بہت پریشان دروازے پر کھڑے ہیں
باپ کی یہ حالت دیکھ کر بیٹی زینب کا دل پسیج گیا لیکن بیٹی نے اپنے باپ کے سامنے اپنے آنسو پر کابو کیا
اور خاموشی سے افسوس کے نگاہوں سے اپنے باپ کو دیکھنے لگی حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے کہا کہ بیٹی جاؤ
اور کسی برتن میں پانی بھر الؤ
تاکہ میں اپنے ہاتھ پیر دھولوں حضرت زینب ایک برتن میں پانی بھر کر لے آئی اور حضور کے ہاتھوں پر پانی ڈالنی
لگی
حضرت زینب پانی ڈالتی جا رہی تھی اور باپ کی یہ حالت دیکھ کر روتی جا رہی تھی شاید وہ دلی دل میں کہہ رہی تھی
کہ اے کاش ہمارا کوئی بڑا بھائی ہوتا
جو آج ہمارے لیے سہارا بنتا میرے بڑھے باپ کی مدد کرتا اور ان ظالموں سے میرے باپ کو بچاتا حضور صلی ہللا
علیہ وسلم نے جب بیٹی کو اس قدر روتا ہوا دیکھا
تو اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ اے میری پیاری بیٹی پریشان نہ ہو ایک دن ایسا آئے گا کہ تیرے باپ کا
کلمہ دنیا کے ایک ایک کونے تک پہنچ جائے گا
اور اگر کوئی انسان ساتھ سمندر پار بھی رہتا ہوگا تو اس تک تیرے باپ کا یہ کلمہ پہنچ کر رہے گا یہ میرے ہللا کا وعدہ
ہے
حضرت زینب بہت زیادہ خوبصورت تھی حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا سارا حسن اتر کر حضرت زینب کے اندر آ گیا
تھا
جوان لڑکے حضرت زینب سے شادی کرنا چاہتے تھے ابھی حضور کو نبی نہیں بنایا گیا تھا اس لیے مکہ والے ہمارے
حضور کی سچائی اور امانتداری کی وجہ سے ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے
ایک رات میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی بیوی حضرت خدیجہ سے کہا کہ اے خدیجہ مجھے محلے میں ابو
العاص لڑکا بہت پسند ہے اور وہ بہت شریف اور نیک لڑکا ہے
میں چاہتا ہوں کہ اپنی بڑی بیٹی زینب کا رشتہ ابو العاص کے ساتھ کر دو حضرت خدیجہ نے کہا کہ ہاں مجھے بھی وہ
پسند ہے اور پھر حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے ابو العاص کے باپ سے بات کر کے اپنی بیٹی زینب کی شادی ابو
العاص کے ساتھ کر دی
شادی کے کچھ سالوں کے بعد حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو ہللا کی طرف سے نبوت کا نور عطا کر دیا گیا اور ہللا کی
طرف سے حکم ہو گیا کہ آپ ان غیر مسلموں کو جا کر دین کی باتیں سمجھاؤ اور انہیں بتاؤ
دنیا کا بنانے واال صرف ایک ہللا ہے اسی نے اس ساری کائنات کو بنایا ہے اور وہی سب کا معبود ہے اس کے عالوہ
کسی کی عبادت نہ کرو حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے جب یہ باتیں مکہ والوں کو سمجھانا شروع کی تو سارے مکہ
والے آپ کے دشمن بن گئے اور آپ کو ہر طرح سے پریشان کرنے لگے
یہاں تک کہ مکہ والے ایک دن ٹولی بنا کر حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے داماد ابو العاص کے گھر پہنچے اور کہا کہ
اے ابو العاص تم محمد کی
لڑکی کو طالق دے دو ہم چاہتے ہیں کہ محمد کو اس قدر تکلیف دیں ان کی لڑکیوں کو اور ان کی گھر والوں کو اتنا
پریشان کریں کہ وہ مجبور ہو کر کلمنے کی دعوت دینا چھوڑ دیں اور ہمارے معبودوں کو برا بھال نہ کہیں
ابو العاص اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن پھر بھی مکہ والوں کو جواب دیا کہ اے مکہ والوں میری زینب بہت
اچھی ہے اور اگر مجھے ساری دنیا کی عورتیں دے دی جائیں پھر بھی میں اپنی زینب کو نہیں چھوڑوں گا
میرے ساتھ اس کا برتاو اتنا زیادہ اچھا ہے کہ شاید دوسری عورت مجھے ایسا سکون نہ دے سکے اس لیے میں مرنا تو
گوارہ کروں گا لیکن میں اپنی زینب کو کبھی نہیں چھوڑوں گا
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر ہوئی کہ ابو العاص نے مکہ والوں کے مطالبے پر یہ جواب دیا ہے
کہ میں اپنی زینب کو کبھی نہیں چھوڑوں گا تو حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو بھی بہت زیادہ خوشی ہوئی اور آپ نے ابو
العاص کی حمد کی تعریف کی
وقت گزرتا گیا مکہ والے حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو تکلیف دینے میں کوئی بھی قصر نہیں چھوڑتے تھے یہاں تک
کہ مجبور ہو کر حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف حجرت فرمائی لیکن حضور کی بیٹی حضرت زینب
ابھی مکہ ہی میں اپنے شوہر ابو العاص کے ساتھ ہی رہتی تھی
حضرت زینب مسلمان ہو چکی تھی لیکن ابو العاص ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اس وقت تک غیر مسلم کے ساتھ
نکاح میں رہنے سے منع نہیں کیا گیا تھا
حضرت زینب مسلم نے اپنے شوہر کی خدمت کر دی
ناظرین آپ کو ایک بات کا اندازہ بہت اچھی طرح ہوگا جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو ان کی ماں اپنے قیمتی گہنوں اور
سونے ساندھی کے ہاروں میں سے کوئی نہ کوئی قیمتی ہار اپنی لڑکی کو دہیج کے طور پر دیتی ہے
اور شاید وہ ہار اس لڑکی کو اپنے سارے جہیز میں سب سے زیادہ پسند ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کی ماں کی ایک قیمتی
نشانی ہوتی ہے
تو ایسا ہی ہمارے حضور کی بیٹی حضرت زینب کے ساتھ ہوا کہ جب ان کی شادی ہوئی تھی تو ان کی ماں حضرت
خدیجہ نے اپنا ایک بہت قیمتی ہار اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا
اور پھر کچھ دنوں کے بعد حضرت خدیجہ کی وفات ہو گئی اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم حجرت کر کے مدینہ آ گئے
تو ایک جنگ ہوئی جس کا نام جنِگ بدر تھا
اس جنگ میں دو ایسے لوگ بھی آئے تھے جو حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے لڑنا نہیں چاہتے تھے اور ان کو اس
جنگ میں آنا پڑا تھا
ان میں ایک تو حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی چچا حضرت عباس تھے اور دوسرے حضور کے داماد حضرت عبالعاص
تھے
اس جنگ میں مسلمانوں کی جیت ہوئی اور پھر بہت سے غیر مسلموں کو قیدی بنا کر حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے
سامنے پیش کیا گیا ان قیدیوں میں حضور کے داماد عبالعاص بھی تھے
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے داماد کو دیکھا تو خاموش رہے اور لوگوں سے کچھ بھی نہ کہا تین دنوں کے بعد
ان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مکہ کی طرف سے ان کے گھر والوں نے بہت سے پیسے اور زیورات بھیجے تاکہ اپنے
گھر کی قیدیوں کو آزاد کرا سکے حضور صلی ہللا علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے
کہ اتنی دیر میں ایک صحابی کسی کپڑے میں کچھ لپیٹ کر الئے اور حضور کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اے ہللا
کے نبی یہ آپ کے داماد عبالعاص کو چھڑانے کے لیے مکہ کی طرف سے کسی نے کچھ بھیجا ہے
جب حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے اس کپڑے کو کھوال تو اسے دیکھ کر آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کیونکہ اس کپڑے
کے اندر وہ ہار تھا جو حضور کی بیوی حضرت خدیجہ نے اپنی بڑی بیٹی حضرت زینب کو دیا تھا
اس ہار کو ہاتھ میں لے کر حضور صلی ہللا علیہ وسلم بہت دیر تک روتے رہے اور اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کو یاد
کرتے رہے
صحابہ اکرام سمجھ گئے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم اتنا کیوں رو رہے ہیں آخر حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے
صحابہ اکرام سے کہا کہ اے میرے ساتھیوں
عبالعاص میرا داماد ہے لیکن میں تمہارے سامنے کوئی سفارش نہیں کروں گا کہ تم اسے چھوڑ دو بس میری خواہش ہے
کہ تم میری بیٹی کا ہار اسے واپس کر دو اور عبالعاص کو بھی آزاد کر دو
صحابہ اکرام نے ایک آواز ہو کر کہا کہ اے ہللا کی رسول آپ ہمارے پیشوہ اور حاکم ہیں فیصلہ کریں گے وہ ہمارے
سناکھوں پر ہیں اور ہمیں بالکل منظور ہے پھر حضور صلی ہللا علیہ وسلم
نے عبالعاص کو اپنے پاس بالیا اور کہا کہ تم مکہ پہنچتے ہی میری بیٹی زینب کو میرے پاس مدینہ بھیج دینا عبالعاص
نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ پریشان نہ ہو میں پہنچتے ہی زینب کو
مدینہ روانہ کر دوں گا اور پھر عبالعاص وہاں لے کر مکہ کی طرف چل دیئے مکہ پہنچ کر عبالعاص نے اپنا وعدہ نبھایا
اور اسی شام کو حضرت زینب کو ایک اونٹ پر بٹھا کر اپنے ایک
رشتے دار احبار من اسوت کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کر دیا حضرت احبار اپنے گھوڑے پر بیٹھے اور حضرت
زینب اونٹ پر بیٹھ کر مدینہ کی طرف چلنے لگیں جاتے جاتے عبالعاص نے
حضرت احبار سے کہا کہ اے احبار تم کو تو پتہ ہے کہ تم میرا سب سے بھروسے مند انسان ہو اور تمہیں پتہ ہے کہ میں
اپنی زینب سے کتنی محبت کرتا ہوں اس لیے اگر کوئی غیر
مسلم میری زینب کو روکنا چاہے تو تم اپنی جان کو داؤ پر لگا دینا لیکن میری زینب کو کچھ نہ ہونے دینا حضرت احبار
نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہو کچھ بھی ہو جائے میں زینب
کو صحیح سالمت مدینہ پہنچا کر رہوں گا پھر حضرت احبار نے اپنا تیر کمان لیا اور گھوڑے پر بیٹھ کر حضرت زینب
کے ساتھ چلنے لگے حضرت زینب ان دنوں حمل سے تھی مکہ والوں
کو جیسے ہی خبر ہوئی کہ حضور کی بیٹی حضرت زینب مدینہ کی طرف ہجرت کر کے جا رہی ہیں تو وہ اپنی تلواریں
لے کر ان کو روکنے نکل پڑے مکہ سے کچھ دور جا کر بہت زیادہ
لڑائی ہونے لگی مکہ کے کافروں نے حضرت زینب کو کوئی چیز اتنی تیز ماری کہ وہ اسی جگہ پر گر پڑی اور ان کا
حمل ضائع ہو گیا حضرت احبار جو ابھی تک ان کافروں
کا مقابلہ کر رہے تھے جب انہوں نے حضرت زینب کی حالت دیکھی تو اپنی تلوار نکال کر پورے زوروں کے ساتھ ان
کافروں کا مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے ہٹنے پر
مجبور کر دیا یہ کافر مکہ لوٹ گئے حضرت زینب کی حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی حمل ضائع ہونے کی وجہ
سے ان کی حالت بگڑتی جا رہی تھی حضرت احبار
نے کسی طرح انہیں اونٹ پر بھی سوار کیا اور تیزی سے مدینہ کی طرف چل پڑے دو دنوں کے سفر کے بعد حضرت
زینب اپنے باپ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت
میں پہنچی اپنی سب سے الدلی زینب کو دیکھ کر حضور صلی ہللا علیہ وسلم بہت زیادہ خوش ہوئے لیکن حضرت زینب
کو بہت چوٹ لگ چکی تھی اس لیے فوراں
دوا عالج کا انتظام کیا اور ایک ہفتے کے بعد حضرت زینب کی طبیعت صحیح ہو گئی اور وہ تندرست ہو گئی اس واقعے
کے چار سال کے بعد سن چھ ہجری میں حضور
صلی ہللا علیہ وسلم کے داماد ابوالس کاروبار کیلئے شام شہر کی طرف سے بہت سا مکہ والوں کا سامان لے کر مکہ کی
طرف واپس ہو رہے تھے راستے میں
انہیں کچھ مسلمانوں نے پکڑ لیا اور ان کا سامان ضبط کر لیا لیکن حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے داماد ابوالس کو کچھ
بھی نہ کہا اور انہیں جانے
دیا ابوالس اپنے گھر مکہ میں جا کر سیدھے حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچے حضور کی بیٹی اور
ابوالس کی بیوی حضور زینب پر جیسے ہی خبر ہوئی کہ میرے شوہر مدینہ پہنچے ہیں تو انہیں در ہوا
کہ کہیں کوئی مسلمان انہیں قتل نہ کر دے اس لیے صبح کی نماز کے وقت جب حضور صلی ہللا علیہ وسلم مسلح پر
فجرگی نماز پڑھانے جا رہے تھے
تو حضور زینب نے کمرے کے اندر سے تیز آواز میں پکار کر صحابہ اکرام سے کہا کہ اے لوگو میں اپنے شوہر
ابوالس کو پناہ دیتی ہوں اس لیے
اب کوئی انہیں قتل نہیں کر سکتا یہ آواز سن کر حضور صلی ہللا علیہ وسلم اپنی جگہ پر رکھ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر
نماز پڑھائے اور
صحابہ اکرام سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے بھی ابھی وہ آواز سنی تھی جو میں نے سنی کہ زینب کہہ رہی تھی کہ میں
اپنے شوہر ابوالس کو پناہ دیتی ہوں خدا کی قسم مجھے اس بارے میں کوئی خبر نہیں اور
میری زینب سے اس سلسلے میں کوئی بات بھی نہیں ہوئی اس نے خود ہی سے اس بات کا اعالن کیا ہے تو کیا تم لوگوں
نے بھی ابھی یہ آواز سنی صحابہ اکرام نے کہا ہاں ہللا کی رسول ہم نے بھی سنا جو
زینب نے کہا اور ہم اس پر راضی ہیں صحابہ اکرام کا یہ جواب سن کر حضور صلی ہللا علیہ وسلم اپنے گھر میں
تشریف الئے اور اپنی بیٹی زینب کو بال کر کہا کہ اے زینب اپنے شوہر ابوالس کا خیال
رکھنا اور انہیں کسی چیز کی کمی نہ ہونے دینا لیکن ایک بات کا خیال رکھنا کہ اس کے قریب نہ آنا کیونکہ جب تک وہ
مسلمان نہیں ہو جاتا تو اس کے لیے حالل نہیں ہو حضرت زینب نے جواب دیا
کہ اے ابباجان ان کا بہت سارا مال آپ کے کچھ صحابہ اکرام نے ضبط کر لیا ہے اس لیے وہ اپنا مال لینے آئے ہیں تو
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ سن کر صحابہ اکرام سے جا کر فرمایا کہ
اے میرے ساتھی ہو اس آدمی یعنی ابوالس کا میرے ساتھ جو رشتہ ہے وہ تو تم جانتے ہو اور ان کا آج جو مال تمہارے
ہاتھ لگ گیا ہے وہ تمہارے لیے ہللا کی عطا ہے اور تم اس کے مالک ہو لیکن میں
چاہتا ہوں کہ تم لوگ اس آدمی پر احسان کرو اور اسے اس کا مال واپس کر دو لیکن اگر تم انکار کرتے ہو اور مال واپس
نہیں کرتے تو یہ تمہاری مرضی ہے کیونکہ اس مال کہ تم زیادہ حق دار ہو
صحابہ اکرام نے کہا کہ نہیں اے ہللا کے رسول آپ کو جو پسند ہے وہی ہماری مرضی ہے اس لیے ہم ابوالس کا سارا
مال واپس کرتے ہیں اور پھر ابوالس اپنا سارا مال لے کر مکہ پہنچے اور جتنے
لوگوں نے انہوں نے جتنا جتنا قرضہ لے رکھا تھا ہر ایک کو اس کی ایک ایک چیز واپس کر دی اور پھر دوپہر کے
وقت مکہ میں کھڑے ہو کر لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگوں اب کسی کا مجھ پر کوئی قرض تو
نہیں بچا اگر ہو تو مجھے بتا دو لوگوں نے جواب دیا کہ اے ابوالس ہللا تیرا بھال کرے تو تو بڑا نیک اور حساب کا بڑا
پکا آدمی ہے تم نے ہم سبی لوگوں کی ایک ایک چیز واپس کر دی ہے یہ سن کر
حضرت ابوالس نے تیز آواز سے کلمہ پڑھا اور کہا کہ اب میں مسلمان ہوتا ہوں کیونکہ یہی مال مجھے مسلمان ہونے
سے رکھتا تھا کہ کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ میں اس وجہ سے مسلمان ہو گیا تاکہ
تمہیں تمہارا مال واپس نہ کرنا پڑے لیکن آج میں نے تم سب کا مال واپس کر دیا ہے اور اب میں مسلمان ہو کر اپنی بیوی
زینب کے پاس مدینہ جا رہا ہوں اتنا کہہ کر حضرت ابوالس مدینہ کی طرف چل دیئے
جب مدینہ پہنچے تو حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے مالقات کی اور اپنے مسلمان ہونے کی بارے میں بتایا حضور صلی
ہللا علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر ہوئی کہ میرے داماد ابوالس مسلمان ہو گئے
ہیں تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو بہت زیادہ خوشی ہوئی اور آپ نے اپنی بیٹی حضرت زینب سے کہا کہ اے زینب اب تم
اپنے شوہر ابوالس کے ساتھ رہ سکتی ہو حضرت ابوالس نے مدینہ ہی میں اپنا
ایک گھر بنوایا اور پھر اپنی بیوی زینب کو اپنے گھر الکر رہنے لگے حضرت زینب کی جدائی میں وہ بہت زیادہ
پریشان رہتے تھے آج چھ سال کے بعد انہیں اپنی سب سے محبوب بیوی حضرت زینب سے مالقات
کا موقع مال تھا دونہ میاں بیوی خوشی خوشی اپنی زندگی گزارنے لگے وقت گزرتا گیا لیکن شاید قدرت کو کچھ اور
منظور تھا کہ حضرت زینب کو ہجرت کے موقع پر کافروں کے ماننے پر جو چھوٹ لگی
تھی وہ آج آٹھ سالوں کے بعد بھی ٹھیک نہیں ہوئی تھی اس لیے اسی چھوٹ میں حضرت زینب کی شہادت ہوئی حافظ ابن
کسیر نے حضرت زینب کو شہید لکھا ہے صرف دو سال اپنے شوہر ابوالس کے ساتھ حضرت
زینب مدینہ میں رہ سکی اور پھر اپنے ہللا کے پاس چلی گئی حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو جب خبر ہوئی کہ میری بیٹی
زینب کی وفات ہو گئی ہے تو حضور صلی ہللا علیہ وسلم بہت زیادہ پریشان ہوئے
اور عورتوں کو حکم دیا کہ میری بیٹی کو نہالنے کا انتظام کیا جائے جب مدینہ کی عورتیں حضرت زینب کو نہال چکی
تو حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو خبر کر دی گئی تو آپ نے اپنا تہبت نکال کر اپنی
بیٹی زینب کے لیے بھیجوایا اور فرمایا کہ اسے کفن کے اندر سے پہنا دینا ایک صحابی عورت فرماتی ہے کہ حضور
صلی ہللا علیہ وسلم نے مجھے بال کر کہا کہ میری بیٹی زینب کو اچھی طرح کفن
پہنانا غصل اور کفن کی بعد جب نماز جنازہ پڑھانے کے لیے حضرت زینب کو الیا گیا تو حضور صلی ہللا علیہ وسلم
نے خود ہی اپنی بیٹی کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد قبر میں اتارنے کے لیے
یہ خود ہمارے حضور صلی ہللا علیہ وسلم قبر میں اترے اور اپنے ساتھ عزیز زینب کے شوہر ابوالس کو نیچے قبر میں
بالیا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو اپنی بیٹی کی وفات کا غم بہت زیادہ تھا
لیکن برداشت کیے جا رہے تھے آخر جب حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ہاتھ میں لے کر قبر میں
رکھا تو اپنے آنسو کو نہ روک سکے اور زارو کتار رونے لگے حضور صلی ہللا علیہ
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے روتے ہوئے فرمایا کہ میری بیٹی زینب میری پیاری زینب میری لڑکیوں میں سب سے
اچھی بیٹی میری زینب تھی اسے میری خاطر دشمنوں کی طرف سے بہت تکلیفیں دی گئیں
مجھے اس چیز کا بہت دکھ ہے ہللا پاک ہمیں بہتر عامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیک و کاروں میں شامل
ناموں میں سے ایک نام99 کریں آمین ناظرین کمنٹ باکس میں ہللا تعالٰی کے
ضرور ٹائپ کریں
That’s the end of your recording! We hope our transcription made your workday more enjoyable.
If it did, consider trying out our pro version on goodtape.io:
*) Well, up to 20 hours/month, which is kind of a lot. If you need to transcribe more let us know
on yourfriends@goodtape.io