Professional Documents
Culture Documents
سرکنډو افسانه
سرکنډو افسانه
ایک اچھی ماں کا تصور ابھارنے پر بار بار مجبور کرتی ہے کہ نواب کی ماں اپنی بیٹی نواب سے ” دھندا“
کرواتی ہے اور اس کی خواہشات کو ” سر کنڈوں کے پیچھے “ بنی کوٹھڑی میں دفن کر دیتی ہے۔ بس ہمہ
وقت امیر گاہک ہیبت خان کو استعمال کر کے پیسہ جمع کرنے کی دھن میں لگی رہتی ہے۔ یہاں منٹو معاشرے
کے بقاءکی خاطر ماں کی تربیت اور ذمہ داری کو قارئین کے ال شعور میں التا ہے۔ آج کا موجودہ معاشرہ اپنے
اخبارات کی سرخیوں میں ایسی کئی خبریں چھاپتا ہے جہاں ماں نائکہ اور بیٹی طوائف بن کر ”دھندا“ کرتے
ہوئے پکڑی جاتی ہے۔
یہ افسانہ منٹو صاحب نے کسی تیاری کے بغیر لکھا تب ہی تو اس کا بیانیہ سست ،پھسپھسا اور کہانی میں سو
طرح کے َرخنے ہیں ۔ آپ کی طرح مجھے بھی یہ افسانہ اچھا نہیں لگا بل کہ میں تو اِسے منٹوصاحب کے
اعلی درجے کے
ٰ کمزور ترین افسانوں میں سے ایک سمجھتا ہوں(اور ایسا ممکن بھی نہیں ہے کہ سب افسانے
ہوتے) ۔ اچھا ،جیسا کہ آپ نے تجویز کیا(ص )۳۱؛اگر منٹو صاحب کہانی کے اِسی مواد کے ساتھ ،رقابت کی
بنا پر ہیبت خان کو شاہینہ کے ہاتھوں قتل کروا بھی دیتے تو بھی یہ کہانی اتنی ہی ناکام رہتی(ص )۴۵:۔منٹو
صاحب نے سرکنڈوں کے پیچھے چھپے ہوئے گھر میں دھندا کرنے والی سردار اور اس کی بیٹی (یا وہ جو
بھی اس کی تھی )نواب کے کردار اگرچہ جان دار بنائے ہیں مگر ان کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے ،اس پر
بہ سہولت اعتبار ممکن نہیں ۔ مثالً نواب اور سردار کا اپنے گاہکوں کے سوا ،کسی بھی قریبی آبادی اور اس
کے مکینوں سے کوئی رابطہ نہ ہونا؛ جب کہ گھرداری چالنے کے لیے سودا سلف النا اور ایک جوان لڑکی کا
ضد کرکے کچھ اور مقامات دیکھنے کی خواہش رکھنا اور وہاں سے اثرات لینا وغیرہ جیسے امکانات کو نظر
اَنداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہاں ایسا ہوا ہے اور جس بے دردی سے ہوا ہے ،اُس کی ضرورت نہ تھی ۔ اچھا،
جس طرح شاہینہ نے نواب کا خون کیا اورسردار کو خبر ہی نہ ہوئی؛ گھر میں ایک عورت مہمان ہے ،گھروالی
الکھ باورچی خانے میں مصروف سہی ،کیا اُس طرف اس کا دھیان بالکل نہیں رہے گا؟ منٹو صاحب نے
سردار کو باورچی خانے میں داخل کرکے اُس کا باقی گھر سے یوں رابطہ منقطع کردیا جس طرح سرکنڈے
والے گھر اور اس کے مکینوں کا قریبی بستی اور اس کے مکینوں سے رابطہ کٹا ہوا تھا۔ یہ بیان بھی الئق
اعتبار نہیں رہتا کہ سردار کے گھر ہی میں اسی کی نواب کو قتل کرکے اس کی بوٹیاں پکانے کے لیے پیش کی
جا ئیں اور وہ بالکل نہ چونکے۔ یادرہے منٹو صاحب نے پہلے ہی اس بات کا التزام متن میں َرکھ چھوڑا ہے کہ
گھر میں پکانے کو گوشت نہیں ہے اور سرکنڈوں کے پیچھے واال یہ گھر آبادی سے کٹا ہوا ہے:
’’اُس عورت [شاہینہ]کی ٹانگ ہلنا بند ہوئی اور وہ سردار سے مخاطب ہوئی’’:ہم آئے ہیں۔ کھانے پینے کا
بندوبست کرو۔‘‘
سردار نے سر تا پا مہمان نواز بن کر کہا ’’:جو تم کہو ،ابھی تیار ہو جائے گا۔‘‘[۔۔۔۔۔۔]۔
[شاہینہ نے] سردار سے کہا’’:تو چلو باورچی خانے میں ،چولہا سلگاؤ؛ بڑی دیگچی ہے گھر میں؟‘‘
’’ہے!‘‘ سردار نے اپنا وزنی سر ہالیا۔
’’تو جاؤ اس کو دھو کر صاف کرو ۔ [۔۔۔۔]۔
سردار نے معذرت بھرے لہجے میں اُس سے کہا’’:گوشت وغیرہ تو یہاں نہیں ملے گا‘‘[۔۔۔۔]۔
’’مل جائے گا۔ تم سے جو کہا ہے ،وہ کرو۔۔۔اور دیکھو آگ کافی ہو۔‘‘
)افسانہ’’:سرکنڈوں کے پیچھے‘‘(
گھر میں گوشت تھا نہیں،اور شاہینہ بڑی دیگچی اور بہت سی آگ کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ چلو مان لیا شاہینہ قتل
کرنے اور الش کے’’ بہترین حصے‘‘ کی بوٹیاں بنانے میں طاق ہوگی مگر کچھ تو وقت لگا ہوگا اس قتل میں۔
یہ بھی مان لیا کہ سردار افیونی تھی مگر باورچی خانے میں تو اس نے افیون کی گولی نہیں نگل رکھی تھی
وغیرہ وغیرہ ؛ تو یوں ہے صاحب کہ میں آپ ہی کی زبان سے بے ساختہ نکال ہوا ’’الحول وال قوۃ‘‘ دہرا دیتا
ہوں اور آگے چلتا ہوں