Professional Documents
Culture Documents
پیش لفظ
اِبتدائیہ
.1قانون کی نظر میں اقلیتوں کا مساوی مقام
.2قانون کے نفاذ میں مساوات کا حق
.3نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق
.4مذہبی آزادی کا حق
مرتد کی سزا اورآزادی عقیدہ
.5اقتصادی اور معاشی آزادی کا حق
.6اجتماعی کفالت میں اقلیتوں کا حق
.7روزگار کی آزادی کا حق
.8تحفظ اور سلمتی کا حق
.9تمدنی اور معاشرتی آزادی کا حق
مہ داری
.10اقلیتوں کی حفاظت اِسلمی رِیاست کی ذِ ّ
ہے
.11عسکری خدمات سے اِستثناء کا حق
.12اَقلیتوں سے معاہدے کی پاسداری اِسلمی رِیاست
کا فرض ہے
.13جنگی قیدیوں کے حقوق
ت نبوی اور اقلیتوں کے حقوق
.14معاہدا ِ
نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ
ت صدیقی اور اقلیتوں کے حقوق
.15خلف ِ
عانات سے معاہدہ لاہ ِ
حیرہ سے معاہدہ ل
اہ ِ
حضرت ابوبکر صدیق ص کی ہدایات
ت فاروقی اور اقلیتوں کے حقوق
.16خلف ِ
ل ماہ بہر اذان سے معاہدہ
اہ ِ
ت عثمانی اور اقلیتوں کے حقوق
.17خلف ِ
ت مرتضوی اور اقلیتوں کے حقوق .18خلف ِ
مآخذ و مراجع
پیش لفظ
ا ِمسلم حقیقمی تصمور میمں اَعلیمٰ اِنسمانی اَقدار کمے حاممل
معاشرہ کے قیام کا پیغام لے کر آیا۔ ا ِسلم کی آمد سے قبل
معاشرے کا ہر طبقہ طاقت ور کے ظلم و ستم کا شکار ت ھا۔
دیگمر اَفرادِ معاشرہ کمی طرح ا ِمسلم سمے قبمل اَقلیتوں کمے
حقوق کما بھ ھی کوئی تصمور موجود نمہ تھ ھا۔ حضور نبمی اکرم
صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے اَقلیتوں کمو معاشرے میمں وہی
مقام عطا کیا جو معاشرے کے بنیادی شہریوں کو حاصل ہے۔
آپ صمملی اللہ علیممہ وآلہ وسمملم نممے اَقلیتوں کممی جان ،مال،
عزت ،آبرو ناموس حتمی کمہ ان کمے مذہبمی حقوق کمے تحفمظ
کو ب ھی ریاست مدینہ کے آئین کا حصہ بنایا۔ آج دنیا ب ھر میں
اَقلتیوں کا مسئلہ ایک اہم سوال بن کر سامنے آیا ہے۔ اگرچہ
دنیما بھھر میمں اَقلیتیمں اِبتلء و آزمائش کما شکار ہیمں۔ ایسمے
نظائر بمشکل ہی ملیں گے جہاں دنیا میں اَقلتیوں کو ان کے
اپنمے ثقافتمی ،مذہبمی و سمماجی تحفمظ کمے سماتھ سماتھ ان
ممالک میمں بھ ھی برابر سمیاسی ،انتظاممی اور آئینمی حقوق
حاصل ہوں۔
یمہ ا َممر قابمل غور ہے کمہ اَقلتیوں کما معاملہ صمرف ا ِمسلم کمے
تناظمر میمں معر ضِم تنقیمد رہا ہے۔ حالں کمہ تاریمخ اسملم اس
ا َممر کمی گواہ ہے کمہ اسملم کمی تعلیمات کمی روشنمی میمں
اسملمی مملکمت میمں اَقلیتوں کمو وہ بلنمد مقام حاصمل رہا کمہ
بغداد و اسممپین اور برصممغیر میممں اقلیتیممں ہر سممطح کممے
ریاسمتی امور میمں بھھی شریمک رہیمں اور مملکمت کمی اعلیمٰ
تریمن ذممہ داریوں پمر فائز رہی ہیمں۔ یمہ سمب کچمھ ان تعلیمات
کما اثمر تھھا جمو غیمر مسملموں کمے حقوق کمے بارے میمں حضور
نبممی اکرم صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم ن مے عطمما فرمائے۔ آپ
صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے فرمایما کمہ مومنوں کمے حقوق
آپمس میمں برابر اور ان کمے ذممہ کمی ادائیگمی کمے لیمے ان میمں
سمے جمو اَدنیمٰ ہیمں وہ بھھی کوشمش کریمں۔ کسمی غیمر مسملم
کے بدلے کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور کسی معاہد
ت معاہدہ میمں قتمل نہیمں کیما جائے گما۔ غیمرکمو اس کمی مد ِم
مسلموں کے حقوق کی َاہممیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جن نے کسی معاہد کو قتل کیا
وہ جنت کی خوشبو بھھی نہ یں سونگھے گا حالں کہ اس کی
خوشبمو چالیمس برس کمی مسمافت تمک محسموس ہوتمی ہے۔
گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کے حقوق
کی ادائیگی کے اثرات کے دنیا سے آخرت تک کے احاطے کو
بیان فرما دیا۔
حضرت شیمخ السملم پروفیسمر ڈاکٹمر محممد طاہر القادری
مدظلہ کمی زیمر نظمر تصمنیف اسملم میمں غیمر مسملموں کمے
حقوق کمی مختلف جہات کما اِحاطمہ کرتمی ہے۔ اس کتاب کمے
مطالعہ سے یہ ا َمر واضح ہو جاتا ہے کہ اَقلیتوں کے حقوق کے
باب میمں تمام تمر جدیمد اقدامات بھ ھی اس اتمامیمت ،کمال
اور جامعیت کے حامل نہ یں ہ یں جو اسلم کی تعلیمات میں
ل علم
نظر آتی ہے۔ امید ہے اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف اہ ِ
کے ہاں اہمیت کا حامل ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلم
ن انسانیت ہونے کے تشخص کو نمایاں کرنے کا باعث کے دی ِ
بنے گا۔
(ڈاکٹر طاہر حمید تنولی)
ناظم ِ تحقیق
ج القرآنک منہا ُ
تحری ِ
ابتدائی ہ
ف اِنسممانیت کمما علمممبردار دیممن ہے۔ ہر فرد سمےاسمملم شر ِم
حسممن سمملوک کممی تعلیممم دین مے والے دیممن میممں کوئی ایسمما
اصمول یما ضابطمہ روا نہیمں رکھھا گیما جمو شرف انسمانیت کمے
منافمی ہو۔ دیگمر طبقات معاشرہ کمی طرح اسملمی ریاسمت
میں اقلیتوں کو ب ھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا
ہے ،جمن کما ایمک مثالی معاشرے میمں تصمور کیما جاسمکتا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملت دین میں جبر و اکراہ
کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی:
.1ابوداؤد ،السنن ،کتاب الراج ،باب ف تعشي ،170 : 3 ،رقم 3052 :
.2ابن اب حات ،الرح والتعديل201 : 1 ،
.3منذري ،الترغيب والترهيب ،7 : 4 ،رقم 4558 :
.4قرطب ،الامع لحکام القرآن115 : 8 ،
.5عجلون ،کشف الفاء ،285 : 2 ،رقم 2341 :
حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم اقلیتوں کمے بارے
مسملمانوں کمو ہمیشمہ متنبمہ فرماتمے تھھے ،چنانچمہ ایمک دن آپ
صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے معاہدیمن کمے بارے میمں گفتگمو
کرتے ہوئے فرمایا :
من ق تل معاهدا ل يرح رائ حة ال نة وان ري ها تو جد من
مسية اربعي عاما.
’’جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل
کیما وہ جنمت کمی خوشبمو بھھی نہیمں پائے گما حالنکمہ
جنمت کمی خوشبمو چالیمس برس کمی مسمافت تمک
پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
.1باري ،الصحيح ،کتاب الزيه ،باب إث من قتل ،1154 : 3 ،رقم 2995 :
.2ابن ماجه ،السنن ،کتاب الديات ،باب من قتل معاهدا ،896 : 2رقم 2686 :
.3ربيع ،السند ،367 : 1 ،رقم 956 :
.4بيهقي ،السنن الکبيٰ133 : 8 ،
.5منذري ،الترغيب والترهيب ،204 : 3 ،رقم 3693 :
.6صنعان ،سبل السلم69 : 4 ،
.7شوکان ،نيل الوطار155 : 7 ،
اس کما مطلب یمہ ہوا کمہ وہ جنمت سمے بہت دُور رکھھا جائے گما
دراصمل یمہ تنبیہات اس قانون پمر عممل درآممد کروانمے کمے لیمے
ہ یں جو اسلم نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عطا
کیا۔
غیمر مسملموں کمے جمو بیرونمی وفود حضور نبمی اکرم صملی
اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمی خدممت میمں آتمے ان کمی حضور نبمی
اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم خود میزبانمی فرماتمے چنانچمہ
جممب مدینممہ منورہ میممں آپ صمملی اللہ علیممہ وآلہ وسمملم کممی
خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان
کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا :
انم کانوا لصحابنا مکرمي ،و ان أحب أن أکافئهم.
’’ی مہ لوگ ہمارے سمماتھیوں ک مے لی مے ممتاز و منفرد
حیثیمت رکھتمے ہیمں۔ اس لیمے میمں نمے پسمند کیما کمہ
میمں بذات خود ان کمی تعظیمم و تکریمم اور مہمان
نوازی کروں۔‘‘
حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمی ان تعلیمات
کی روشنی میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر اسلمی حکومت
میں غیر مسلموں کو حقوق کا تحفظ حاصل رہا۔
اقلیتوں سمے حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمے
حسمن سملوک کما نتیجمہ تھھا کمہ ان کما برتاؤ بھھی آپ صملی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احترام پر مبنی تھھا۔ ایک جنگ میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیف ایک یہودی جب مرنے
لگا تو لوگوں نے اس سے پوچ ھا کہ تیری بڑی جائیداد ہے اس
کما وارث کون ہو گما؟ تمو اس یہودی نمے کہا محممد رسمول اللہ
صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم میری جائیداد کمے وارث ہوں گمے۔
اسلمی ریاست میں اقلیتوں سے حسن سلوک کا ایک غیر
مسلم کی طرف سے اعتراف تھا۔
ل کتاب کے علوہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہ ِ
(بت پرست اقوام) سے بھی جو برتاؤ رہا اس کی بھی تاریخ
میمں نظیمر نہیمں ملتمی۔ مشرکیمن مکمہ و طائف نمے آپ صملی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے ،لیکن جب مکہ
مکرم مہ فتممح ہوا تممو آپ صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم ک مے ایممک
انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا :
حضور نبممی اکرم صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم کمما بڑا دُشمممن
ابوسمفیان تھھا۔ آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے فرمایما ممن
دخل دار ابی سفیان فہو آمن (جو ابوسفیان کے گھر میں آج
داخمل ہوا وہ اممن میمں ہے)۔ اللہ تعالیمٰ نمے حضور نبمی اکرم
صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمے اس فرمان کمو اس طرح پورا
کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے
امان مل گئی۔
.1مسلم ،الصحيح ،کتاب الهاد ،باب فتح مکه ،1406 : 3رقم 1780 :
.2ابو داؤد ،السنن ،کتاب الراج ،باب ماجاء ف خب مکه ،162 : 3 ،رقم :
3021
.3ابن اب شيبه ،الصنف ،398 : 7 ،رقم 36900 :
.4عبدالرزاق ،الصنف376 : 5 ،
.5دارقطن ،السنن ،60 : 3 ،رقم 233 :
.6ابو عوانه ،السند290 : 4 ،
.7البزار ،السند ،122 : 4 ،رقم 1292 :
.8طحاوي ،شرح معان الثار321 : 3 ،
.9بيهقي ،السنن الکبيٰ ،34 : 6 ،رقم 10961 :
.10طبان ،العجم الکبي8 : 8 ،
.11هيثمي ،ممع الزوائد175 : 6 ،
.12عسقلن ،فتح الباري12 : 8 ،
.13فاکهي ،اخبار مکه277 : 3 ،
مکمہ مکرممہ میمں حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم
کمی مخالفمت کرنمے میمں سمب سمے زیادہ دو اشخاص کما دخمل
تھھا وہ ابولہب کمے بیٹمے تھھے جنہوں نمے حضور نبمی اکرم صملی
اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمو ایذائیمں دی تھیمں۔ فتمح مکمہ کمے روز یمہ
دونوں گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچ ھے جا چھ پے۔ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو خود کعبۃ
اللہ کے پردوں کے پیچھے سے نکال اور معاف کر دیا۔
حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمے عہد میمں ایمک
دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور
صمملی اللہ علیممہ وآلہ وسمملم نممے قصمماص کممے طور پممر اس
مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا:
دوسمری روایمت کمے مطابمق آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے
انا اکرم من وفی ذمتہ فرمایا۔
آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمی اس تعلیمم پمر عممل درآممد
کے بے شمار نظائر دور خلفت راشدہ میں بھی ملتے ہیں :
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ
کمر لیما گیما جمس نمے ایمک غیمر مسملم کمو قتمل کیما تھھا۔ پورا
ثبوت موجود تھھھا۔ اس لی مے حضرت علی رضممی اللہ عن مہ ن مے
قصماص میمں اس مسملمان کمو قتمل کیمے جانمے کما حکمم دیما۔
قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف
کرنمے پمر راضمی کمر لیما۔ حضرت علی رضمی اللہ عنمہ کمو جمب
اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا :
2۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ
نے فرمایا :
اسمی قول کمی بنما پمر فقہا نمے یمہ اصمول تشکیمل دیما کمہ اگمر
مسلمان کسی ذمی کو بل ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت
ب ھی وہی ہوگی جو مسلمان کو بل ارادہ قتل کرنے سے لزم
آتی ہے۔
4۔ ایمک دفعمہ حضرت عمرو بمن عاص والی مصمر کمے بیٹمے نمے
ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین
حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کمے پاس جمب اس کمی شکایمت
ہوئی تمو اُنہوں نمے سمرعام گورنمر مصمر کمے بیٹمے کمو اس غیمر
مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا :
5۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلفت میں قبیلہ بکر
بمن وائل کمے ایمک شخمص نمے حیرہ کمے ایمک ذممی کمو قتمل کمر
دیا ،اس پر :
6۔ حضرت عثمان رضمی اللہ عنمہ کمے زمانمہ میمں عبیداللہ بمن
عمر رضی اﷲ عنہ ما کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھھا ،کیونکہ
انہوں نمے ہر مزان ،جفینمہ اور ابمو لولو کمی بیٹمی کمو اس شبمہ
میمں قتمل کمر دیما تھھا کمہ شایمد وہ حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ
کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔
.1ابن سعد ،الطبقات الکبيٰ17 : 5 ،
.2عسقلن ،الدرايه263 : 2 ،
7۔ حضرت عثمان رضممی اللہ عنممہ کممے دور میممں ابممن شاس
جذامی نے شام کے کسی علقے میں ایک شخص کو قتل کر
دیا ،معاملہ حضرت عثمان تک پہنچنے پر آپ نے اس کے قتل
کما حکمم دے دیما۔ صمحابہ کرام رضمی اللہ عنمہ کمی مداخلت پمر
آپ نے ایک ہزار دینار دیت مقرر کی۔
8۔ عظیم محدث ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
:
ذممی کمو زبان یما ہاتمھ پاؤں سمے تکلیمف پہنچانما ،اس کمو گالی
دینما ،مارنما پیٹنما یما اس کمی غیبمت کرنما ،اسمی طرح ناجائز ہے
جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے۔ :
أيا مصر مصرته العرب فليس للعجم ان يبنوا فيه بناء بيعة ول يضربوا
فيه ناقوسا ول يشربوا فيه خرا ول يتخذوا فيه خنيرا أيا مصر کانت
العجم مصرته يفتحه ال علي العرب فنلوا علي حکمهم فللعجم ما ف
عهدهم وللعجم علي العرب ان يوفوا بعهدهم.
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں
ذمیوں کمو یمہ حمق نہیمں ہے کمہ نئی عبادت گاہیمں اور
کنائس تعمیممر کریممں ،یمما ناقوس بجائیممں ،شرابیممں
پئیمممں اور سمممور پالیمممں۔ باقمممی رہے وہ شہر جمممو
عجمیوں کمے آباد کیمے ہوئے ہیمں اور جمن کمو اللہ نمے
عربوں (یعنمی مسملمانوں) کمے ہاتمھ پمر فتحیاب کیما
اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم پر اطاعت قبول
کر لی تو عجم کے لیے وہی حقوق ہ یں جو ان کے
معاہدے میمں طمے ہو جائیمں اور عرب پمر ان کما ادا
کرنا لزم ہے۔‘‘
و اذا ارتد السلم عن السلم عرض عليه السلم فان اسلم وال قتل
مکانه ال ان يطلب ان يوجله ،فان طلب ذلک اجل ثلثة ايام.
’’اگر کوئی مسلمان اسلم سے برگشتہ ہوجائے تو
اسے دوبارہ اسلم کی دعوت دی جائے گی۔ اگر وہ
اسمملم قبول کرلے تممو خوب ،بصممورت دیگممر اسمے
فورا ً قتمل کردیما جائے گما ،تاہم اگمر وہ غور و فکمر
کے لیے کچھ مہلت طلب کرے تو اسے تین دن کی
مہلت دی جائے گی۔‘‘
احکام القرآن میں آیت وأخذهم الربا و قد نوا عنه و اکلهم اموال
کے الناس بالباطل اور يايها الذين امنوا ل تکلوا اموالکم بينکم بالباطل
تحت امام جصاص فرماتے ہیں :
اس ا ُمصول کمے علوہ جمو تجارت ان کمو پسمند ہوا کریمں ،یہاں
تک کہ وہ اپنے محلوں اور شہروں میں خنزیر اور شراب ب ھی
در
رکمھ سمکتے ہیمں ،ان کمی خریمد و فروخمت کمر سمکتے ہیمں۔ ِ
مختار میں ہے :
ما أکل أحد طعاما قط ،خيا من أن يأکل من عمل يديه ،و
إن نب ال داؤد عليه السلم کان يأکل من عمل يديه.
’’کوئی بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی
کھانمما نہیممں کھھھا سممکتا اور اللہ ک مے نبممی داؤد علی مہ
السلم اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔‘‘
وَإِن كَا نَ مِن َقوْ مٍ َب ْينَكُ مْ وََب ْينَهُ مْ مّيثَا قٌ فَدِيَةٌ مّ سَ ّلمَةٌ إِلَى َأهْلِ هِ
وََتحْرِيرُ رَ َقبَةٍ ّمؤْ ِمنَةٍ.
’’اور اگممر وہ (مقتول) تمہاری دشمممن قوم س مے ہو
اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلم /باندی
کما آزاد کرنما (ہی لزم) ہے اور اگمر وہ (مقتول) اس
قوم میممں سممے ہو کممہ تمہارے اور ان کممے درمیان
(صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (ب ھی) جو اس کے
گھھھھھر والوں کمممے سمممپرد کیممما جائے اور اور ایمممک
مسلمان غلم /باندی کا آزاد کرنا (بھی لزم) ہے۔‘‘
خ اسملم میمں اس ا ُمصول کمی متعدد عملی مثالیمں ملتمی تاری ِم
ہیمں ایمک دفعمہ حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ نمے ایمک بوڑھھھے
یہودی کمو بڑی خسمتہ حالت میمں دیکھھا۔ آپ رضمی اللہ عنمہ نمے
فرمایما :خدا کمی قسمم! یمہ انصماف کما تقاضما نہیمں کمہ ہم اس
کمی جوانمی میمں تمو اس سمے فائدہ اُٹھائیمں اور ا ُمسے بڑھاپمے
میمں اس طرح رسموا ہونمے دیمں چنانچمہ آپ نمے حکمم صمادر
فرمایما کمہ اس بوڑھھے کمو زندگمی بھھر اس کمی ضرورت کمے
مطابق بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ
نے ملک کے گورنروں کو لکھھا کہ وہ غیر مسلم کے رعایا کے
مسممتحق اور غریممب افراد کممو بیممت المال سممے پابندی اور
باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں دیں۔
اسمی طرح غیمر مسملموں کمو وظائف دینمے کمی کئی مثالیمں
خ اسلم میں موجود ہ یں۔ ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق تاری ِ
کے تحفظ کے لیے اسلم کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا اور
جمب کبھھی سمرکش امراء نمے اس کمے خلف عممل کیما ہے تمو
علماء و فقہا نمے انہیمں اس سمے باز رکھنمے یما کمم از کمم ان
سمے اس کمی تلفمی کرانمے کمی کوشمش کمی ہے۔ تاریمخ کما
مشہور واقعمہ ہے کمہ ولیمد بمن عبدالملک اموی نمے دمشمق کمے
کنیسمہ یوحنما کمو زبردسمتی عیسمائیوں سمے چھیمن کمر مسمجد
میں شامل کر لیا۔ بلذری کے مطابق :
فل ما ا ستخلف ع مر بن عبدالعز يز ش کي الن صاري إل يه ما
ف عل الول يد ب م ف کني ستهم فک تب ال عامله يامره برد ما
زاده ف السجد.
ت خلفت پر ’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تخ ِ
متمکمن ہوئے اور عیسمائیوں نمے ان سمے ولیمد کمے
کنیسمہ پمر کیمے گئے ظلم کمی شکایمت کمی تمو انہوں
نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ
گرجما کمی زمیمن پمر تعمیمر کیما گیما ہے اسمے منہدم
کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔‘‘
جمب ولیمد بمن یزیمد نمے روممی حملہ کمے خوف سمے قمبرص کمے
ذمی باشندوں کو جل وطن کر کے شام میں آباد کیا تو اس
پممر فقہائے اسمملم اور عام مسمملمان سممخت ناراض ہوئے اور
اسمے گناہ عظیمم سممجھا۔ پھھر جمب یزیمد بمن ولیمد نمے ان کمو
دوبارہ قبرص میں لے جا کر آباد کر دیا تو اسے عوام الناس
نمے بنظمر احسمن دیکھھا اور کہا کمہ یہی انصماف کما تقاضما ہے۔
اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ :
ل لبنان کمے باشندوں میمں بلذری کما بیان ہے کمہ ایمک مرتبمہ جب ِ
سمے ایمک گروہ نمے بغاوت کمر دی۔ اس پمر صمالح بمن علی بمن
عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی ،جس نے
ان کمے ہتھیار اُٹھانمے والے مردوں کمو قتمل کمر دیما اور باقمی
لوگوں میممں س مے ایممک جماعممت کممو جل وطممن کیمما اور ایممک
جماعمت کمو وہیمں آباد رہنمے دیما۔ امام اَوزاعمی رحممۃ اللہ علیمہ
اس زمانمہ میممں زندہ تھھھے۔ اُنہوں نمے صمالح کمو اس ظلم پممر
سخت تنبیہ کرتے ہوئے بغاوت میں حصہ نہ لینے والوں کو قتل
کرنمے اور گھروں سمے نکالنمے کمی مذممت کمی اور ایمک طویمل
خط لکھا ،جس کے چند فقرے یہ ہیں :
” ما قد مت عل مت فک يف تؤ خذ عا مة بذنوب خا صة ح ت
يرجوا منن ديارهنم واموالمن .وحکنم ال تعال ﴿ :لتزر
وازرة وزر اخري﴾ .وأحق الوصايا أن تفظ و ترعي وصية
ر سول ال صلي ال عل يه وآله و سلم ’’ :من ظلم معاهدا
وکلفه فوق طاقته فأنا حجيه‘‘.
’’میمں نہیمں سممجھ سمکتا کمہ عام لوگوں کمو بعمض
خاص لوگوں کمممے جرم کمممی سمممزا کیوں کمممر دی
جاسمکتی ہے۔ اور کمس بنما پمر انہیمں ان کمے گھروں
اور انکمی جائیدادوں سمے بمے دخمل کیما جاسمکتا ہے۔
حالنکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ ل تزر وازرۃ وزر اخری
اور ی مہ ایممک واجممب التعمیممل حکممم ہے۔ تمہارے لی مے
بہتریمن نصمیحت یمہ ہے کمہ تمم رسمول اللہ صملی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کو یاد رک ھو کہ ’’جو
کوئی کسممی معاہد پممر ظلم کرے گمما اور اس کممی
طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا اس کے خلف
میں خود مدعی بنوں گا۔‘‘
َمن
ّينن وَل ْ
ُمن فِي الد ِ
َمن يُقَاتِلُوك ْ
ِينن ل ْ
َنن الّذ َ
ّهن ع ِ
ُمن الل ُ
لَا َينْهَاك ُ
يُخْرِجُوكُم مّن دِيَا ِركُ مْ أَن َتبَرّوهُ مْ وَُتقْ سِطُوا إَِليْهِ مْ إِنّ اللّ هَ
يُحِبّ اْل ُم ْقسِطِيَO
’’(اے مسمملمانو!) اللہ تممم کممو ان لوگوں ک مے سمماتھ
نیکی کا برتاؤ اور انصاف کرنے سے منع نہ یں کرتا
جمو تمم سمے دیمن کمے بارے میمں نمہ لڑے اور نمہ انہوں
نمے تمم کمو تمہارے گھروں سمے نکال (بلکمہ) اللہ تمو
انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ’’o
چونکمہ اسملمی ریاسمت اقلیتوں کمو جان و مال اور آبرو کما
تحفظ فراہم کرتے ہے اور ان پر کوئی دفاعی ذمہ داری بھھی
عائد نہ یں کرتی لہٰذا اس کے عوض اقلیتیں اسلمی ریاست
کمو مالیاتمی طور پمر contributeکرتمے ہیمں جسمے اسملمی
قانون میں جزیہ کہا گیا ہے۔ اسلمی ریاست میں اقلیتوں پر
جزی مہ عائد کرن مے ک مے معاملے میممں بھھھی عدل و انصمماف اور
حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے امرائے لشکر کو لکھا :
حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کما ایمک مقام سمے گزر ہوا تمو آپ
نمے ایمک بوڑھھے نابینما یہودی بھیمک مانگتمے ہوئے دیکھھا۔ آپ نمے
اس سے پوچھا :
فما ألأک ال ما اري؟ قال :أسأل الزية والاجة والسن .فأخذ عمر
بيده و ذهب به ال منله فرضخ له بشئ من النل .ث ارسل ال خازن
بيت الال فقال :انظر هذا و ضرباء ه ،فو ال! ما أنصفناه أن أکلنا
شبيبته ث نذله عندالرم.
تمہیمں اس پمر کمس بات نمے مجبور کیما؟اس نمے کہا کمہ بوڑھھا
ضرورت منمد ہوں اور جزیمہ بھھی دینما ہے۔ حضرت عممر رضمی
اللہ عنمہ نمے اس کما ہاتمھ پکڑا اور گھھر لئے اور اسمے اپنمے گھھر
سمے کچمھ دیما ،پھھر اسمے بیمت المال کمے خازن کمے پاس بھیجما
اور حکمم دیما کمہ اس کما اور اس جیسمے اور لوگوں کما خیال
رکھھھو اور ان سمے جزیمہ لینمما موقوف کردو۔ کیونکمہ یمہ کوئی
انصاف کی بات نہ یں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے
جزیمہ وصمول کیما اور اب بڑھاپمے میمں ان کمو اس طرح رسموا
کریں۔‘‘
.1ابن قدامه ،الغن509 : 8 ،
.2ابو يوسف ،کتاب الراج 150 :
جزیمہ کمی مقدار مقرر کرنمے میمں بھھی ذمیوں پمر تشدد کرنما
ممنوع ہے۔ حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کمی وصمیت ہے کمہ ل
یکلفوا فوق طاقت ھم جتنا مال دینا ان کی طاقت سے باہر ہو
انہیں اس کے ادا کرنے کی تکلیف نہ دو۔
ایمک اور موقمع پمر اپنمے عاممل کمو بھیجتمے وقمت حضرت علی
رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
حضرت عمممر رضممی اللہ عنممہ نممے شام کممے گورنممر حضرت
ابوعبیدہ رضممی اللہ عنممہ کممو جممو فرمان لکھھھا تھھھا اس میممں
منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ :
فرعو هم ،ل تکلفو هم مال يطيقون ،فا ن سعت ر سول ال
صنلي ال علينه وآله وسنلم يقول :ل تعذبوا الناس فان
الذينن يعذبون الناس فن الدنينا يعذبمن ال يوم القيامنة و
أمربم فخلي سبيلهم.
’’ان کو چھوڑ دو ،تم ان کو تکلیف نہ دو جس کی
وہ طاقمت نہیمں رکھتمے ،میمں نمے حضور نبمی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
لوگوں کمو عذاب نمہ دو بمے شمک وہ لوگ جمو لوگوں
کمو دنیما میمں عذاب دیتمے ہیمں اللہ انہیمں قیاممت کمے
دن عذاب دے گما۔ آپ رضمی اللہ عنمہ کمے حکمم پمر
انہیں چھوڑ دیا گیا۔‘‘
.1مسلم ،الصحيح ،کتاب الب ،باب الوعيد الشديد ،2018 : 4 ،رقم 2613 :
.2ابوداؤد ،السنن ،کتاب الراج ،باب ف التشديد ،106 : 3 ،رقم 3045 :
.3نسائي ،السنن الکبيٰ ،236 : 5 ،رقم 8771 :
.4احد بن حنبل ،السند468 ،404 ،403 : 3 ،
.5ابن حبان ،الصحيح ،429 ،427 ،426 : 12 ،رقم ،5612 :
5613
.6طبان ،العجم الکبي ،171 : 22 ،رقم 441 :
.7بيهقي ،السنن الکبيٰ205 : 9 ،
.8هيثمي ،موارد الظمآن ،377 :رقم 1567 :
فقہائے اسملم نمے نادہندگان کمے حمق میمں صمرف اتنمی اجازت
دی ہے کمہ انہیمں تادیبا ً قیمد بمے مشقمت کمی سمزا دی جاسمکتی
ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
جممو ذمممی محتاج اور فقیممر ہو جائیممں انہیممں صممرف جزی مہ ہی
معاف نہیمں کیما جائیگما بلکمہ ان کمے لیمے اسملمی خزانمہ سمے
وظائف بھھھی مقرر کی مے جائیممں گ مے۔ حضرت خالد بممن ولیممد
رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس
میں لکھتے ہیں :
وجعلت ل م اي ا ش يخ ض عف عن الع مل او ا صابته آ فة من
آلفات اوکان غنيا فافتقروصنارا هنل ديننه يتصندقون علينه
طرحت جزيته و عيل من بيت مال السلمي وعياله.
’’میمں نمے ان کمے لیمے یمہ حمق بھھی رکھھا ہے کمہ جمو
کوئی شخمص بڑھاپمے کمے سمبب ازکار رفتمہ ہو جائے
یما اس پمر کوئی آفمت نازل ہو جائے ،یما وہ پہلے مال
دار تھھھا پھھھر فقیممر ہو گیمما یہاں تممک ک مہ اس ک مے ہم
مذہب لوگ اس کمو صمدقہ و خیرات دینمے لگمے ،تمو
اس کاجزیمہ معاف کمر دیما جائیگما اور اسمے اور اس
کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ
دیا جائے گا۔‘‘
ل عانات س ے معا ہد ہ
( )1ا ہ ِ
.1ان کے گرجے اور خانقاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی۔
.2وہ ہماری نماز پنجگانمہ کمے سموا ہر وقمت اپنما ناقوس
بجاسکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں۔
.3وہ اپنی عید پر صلیب نکال سکتے ہیں۔
.4مسلمان مسافر کی تین دن ضیافت کریں اور
.5وقممت پڑنممے پممر مسمملمانوں کممی جان و مال کممی
نگہداشت کریں.
ل حیر ہ س ے معا ہد ہ
( )2ا ہ ِ
ل حیرہ سمے حضرت خالد بممن ولیممد رضممی اللہ عنمہ نمے جممو
اہ ِ
ب ذیل ہیں :معاہدہ کیا اس کی دفعات حس ِ
.1کسمی کافمر کمی مسملمانوں کمے خلف اعانمت ممت
کرو۔
.2مسلمانوں کی مخالفت نہ کرو۔
.3ہمارے دُشمن کو ہمارے خفیہ راز مت بتاؤ۔
.4اگمر وہ ان دفعات کمی پابندی نمہ کریمں گمے تمو ہماری
طرف سمے بھ ھی ان کمی امان دہی کما معاہدہ ختمم ہو
جائے گا۔
.5اور ایفائے عہد کی صورت میں جس میںادائے ٹیکمس
(جزیمہ) بھھی شاممل ہے۔ ہم ان کمی کسمی بھھی وقمت
امانمت اور حمایمت میمں سمبقت کرنمے سمے دریمغ نمہ
کریں گے۔
.6اگر وہ ہمارے ماتحت رہے تو ان کے لیے جملہ مراعات
ل ذمہ کے لیے ہیں۔
ہوں گی ،جو اہ ِ
درج ذیل اشخاص کا جزیہ (محاصل) معاف ہے :
.1ان بوڑھوں کا جو کام کاج نہیں کر سکتے۔
.2آسمانی آفات کے ہاتھوں تباہ شدگان کا۔
.3اس فقیر کا جو خیرات پر گذر اوقات کرتا ہے۔
.4متذکرہ بال تیمن قسمم کمے اشخاص کمو اسملمی بیمت
المال سے وظیفہ ملے گا ،بشرطیکہ وہ مفتوحہ علقے
سمے کسممی غیممر جگ مہ منتقممل ن مہ ہوں (اگرچ مہ وہ غیممر
مسلم ہی رہیں)۔
.5لباس میں ذمی لوگ فوجی لباس کے سوا جو چاہیں
پہنیں۔
.6فوجی لباس پہننے کی صورت میں مقدمہ چلے گا اگر
وہ عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو جرم کے مطابق
ان کو سزا دی جائے گی۔
.7اگمر وہ مسملمانوں سمے کسمی قسمم کمی اعانمت کمے
طلب گار ہوں ،خواہ مال ہی ہو اس سمے دریمغ نمہ کیما
جائے گا۔
.1ممد حيد ال ،الوثائق السياسة ،316 ،وثيقه 291 :
.2ابويوسف ،کتاب الراج 155 :
ل ما ہ ب ہر اذان س ے معا ہد ہ
اہ ِ
ل ماہ بہر اذان سممے سممیدنا
حضرت نعمان بممن مقرن نممے اہ ِ
حضرت عمرِ فاروق رضممی اللہ عنممہ کممے دورِ خلفممت میممں
معاہدہ کیا ،جس کی توثیق آپ نے فرمائی۔ اس معاہدے میں
اقلیتوں کے متعلق درج ذیل دفعات شامل تھیں :
.1ان ک مے اموال ،نفوس اور اراضممی ہر ایممک پممر ان کمما
قبضہ بدستور تسلیم کیا جاتا ہے۔
.2انہ یں نہ تو ان کے دین سے ہٹایا جائے گا اور نہ ان کی
شریعت سے تعرض کیا جائے گا۔
.3اُنہ یں ہر سال ایک مرتبہ جزیہ (حکومتی محاصل) ادا
کرنما ہو گما ،یمہ جزیمہ ہمارے مقرر کردہ امیمر کمو دینما ہو
گما۔ جزیمہ کمے عوض ان کمی حمایمت و حفاظمت کمی
جائے گی۔
.4جزیہ ہر شخص کی وسعت مالی کے مطابق ہو گا۔
.5جزیہ کے مکلّف صرف بالغ مرد ہوں گے۔
.6اُنہیں نووارد مسافروں کی رہنمائی کرنا ہو گی۔
.7گذر گاہوں کی حفاظت ان کے ذمہ ہو گی۔
.8مسلمان فوجی دستوں کی ایک دن کی مہمانی اور
قیام کا انتظام کرنا ہو گا۔
.9اگممر اُنہوں نممے کسممی معاملہ میممں دھوکمما دیمما یمما اُن
شرائط میں کمی کی تو امان کی ذمہ داری ختم ہو
جائے گی۔
حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کمو آخری لمحمے تمک اقلیتوں کما
خیال تھ ھا۔ حالنکمہ ایمک اقلیتمی فرقمہ ہی کمے فرد نمے آپ کمو
شہید کیا۔ اس کے باوجود آخری وقت ارشاد فرمایا :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ باہر سے آنے والے لوگوں سے
وہاں کی اقلیتوں کے بارے میں برابر پوچھتے رہتے تھے۔ ایک
دفعہ بصرہ سے آنے والے اقلیتوں کے ایک وفد سے دریافت
فرمایا :
اس سمے معلوم ہوا کمہ اسملمی ریاسمت میمں مسملمانوں اور
غیمر مسملم اقلیتوں کمے خون کمی حرممت برابر ہے۔ حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانۂ خلفت بھھی اقلیتوں کے حقوق
ک مے تحفممظ ک مے شاندار ریکارڈ کمما حامممل ہے۔ آپ ک مے زمان مہ
خلفت میں کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ کے دربار میں ایک
یہودی شعبدہ بازی کے کرتب دکھھا رہا تھھا ،حضرت جندب بن
کعممب ازدی بھھھھی تماشائیوں میممں تھھھھے ،آپ کمما شمار کبار
تابعیمن میمں ہوتما تھ ھا ،آپ نمے ان شعبدوں کمو شیطانمی اثمر
سمجھا اور یہودی کو قتل کر دیا۔ ولید نے اسی وقت آپ کو
گرفتار کمر لیما اور قصماص میمں قتمل کرنمے کمے لیمے جیمل بھیمج
دیا۔ آپ نے داروغہ جیل ابوسنان سے پوچھھا کہ کیا تو بھاگنے
میممں میری مدد کرے گمما۔ اس ن مے کہا :ہاں اور پھھھر حضرت
جندب کو جیل سے بھاگنے میں مدد دیتے ہوئے کہا :یہاں سے
بھاگ جا اللہ تعالیٰ تیرے بارے مجھ سے کچھ نہ پوچھے گا۔
جب ولید نے آپ کو قتل کرنے کے لیے طلب کیا تو معلوم ہوا
کمہ آپ تمو بھاگ گئے ہیمں۔ ولیمد نمے داروغمہ کمو نگرانمی میمں
کوتاہی کرنے کے جرم میں قتل کر دیا۔