You are on page 1of 66

‫تفصیلی ف ہرست‬

‫پیش لفظ‬
‫اِبتدائیہ‬
‫‪.1‬قانون کی نظر میں اقلیتوں کا مساوی مقام‬
‫‪.2‬قانون کے نفاذ میں مساوات کا حق‬
‫‪.3‬نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق‬
‫‪.4‬مذہبی آزادی کا حق‬
‫‪‬مرتد کی سزا اورآزادی عقیدہ‬
‫‪.5‬اقتصادی اور معاشی آزادی کا حق‬
‫‪.6‬اجتماعی کفالت میں اقلیتوں کا حق‬
‫‪.7‬روزگار کی آزادی کا حق‬
‫‪.8‬تحفظ اور سلمتی کا حق‬
‫‪.9‬تمدنی اور معاشرتی آزادی کا حق‬
‫مہ داری‬
‫‪.10‬اقلیتوں کی حفاظت اِسلمی رِیاست کی ذِ ّ‬
‫ہے‬
‫‪.11‬عسکری خدمات سے اِستثناء کا حق‬
‫‪.12‬اَقلیتوں سے معاہدے کی پاسداری اِسلمی رِیاست‬
‫کا فرض ہے‬
‫‪.13‬جنگی قیدیوں کے حقوق‬
‫ت نبوی اور اقلیتوں کے حقوق‬
‫‪.14‬معاہدا ِ‬
‫‪‬نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ‬
‫ت صدیقی اور اقلیتوں کے حقوق‬
‫‪.15‬خلف ِ‬
‫عانات سے معاہدہ‬ ‫ل‬‫‪‬اہ ِ‬
‫حیرہ سے معاہدہ‬ ‫ل‬
‫‪‬اہ ِ‬
‫‪‬حضرت ابوبکر صدیق ص کی ہدایات‬
‫ت فاروقی اور اقلیتوں کے حقوق‬
‫‪.16‬خلف ِ‬
‫ل ماہ بہر اذان سے معاہدہ‬
‫‪‬اہ ِ‬
‫ت عثمانی اور اقلیتوں کے حقوق‬
‫‪.17‬خلف ِ‬
‫ت مرتضوی اور اقلیتوں کے حقوق‬ ‫‪.18‬خلف ِ‬

‫مآخذ و مراجع‬

‫پیش لفظ‬
‫ا ِمسلم حقیقمی تصمور میمں اَعلیمٰ اِنسمانی اَقدار کمے حاممل‬
‫معاشرہ کے قیام کا پیغام لے کر آیا۔ ا ِسلم کی آمد سے قبل‬
‫معاشرے کا ہر طبقہ طاقت ور کے ظلم و ستم کا شکار ت ھا۔‬
‫دیگمر اَفرادِ معاشرہ کمی طرح ا ِمسلم سمے قبمل اَقلیتوں کمے‬
‫حقوق کما بھ ھی کوئی تصمور موجود نمہ تھ ھا۔ حضور نبمی اکرم‬
‫صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے اَقلیتوں کمو معاشرے میمں وہی‬
‫مقام عطا کیا جو معاشرے کے بنیادی شہریوں کو حاصل ہے۔‬
‫آپ صمملی اللہ علیممہ وآلہ وسمملم نممے اَقلیتوں کممی جان‪ ،‬مال‪،‬‬
‫عزت‪ ،‬آبرو ناموس حتمی کمہ ان کمے مذہبمی حقوق کمے تحفمظ‬
‫کو ب ھی ریاست مدینہ کے آئین کا حصہ بنایا۔ آج دنیا ب ھر میں‬
‫اَقلتیوں کا مسئلہ ایک اہم سوال بن کر سامنے آیا ہے۔ اگرچہ‬
‫دنیما بھھر میمں اَقلیتیمں اِبتلء و آزمائش کما شکار ہیمں۔ ایسمے‬
‫نظائر بمشکل ہی ملیں گے جہاں دنیا میں اَقلتیوں کو ان کے‬
‫اپنمے ثقافتمی‪ ،‬مذہبمی و سمماجی تحفمظ کمے سماتھ سماتھ ان‬
‫ممالک میمں بھ ھی برابر سمیاسی‪ ،‬انتظاممی اور آئینمی حقوق‬
‫حاصل ہوں۔‬
‫یمہ ا َممر قابمل غور ہے کمہ اَقلتیوں کما معاملہ صمرف ا ِمسلم کمے‬
‫تناظمر میمں معر ضِم تنقیمد رہا ہے۔ حالں کمہ تاریمخ اسملم اس‬
‫ا َممر کمی گواہ ہے کمہ اسملم کمی تعلیمات کمی روشنمی میمں‬
‫اسملمی مملکمت میمں اَقلیتوں کمو وہ بلنمد مقام حاصمل رہا کمہ‬
‫بغداد و اسممپین اور برصممغیر میممں اقلیتیممں ہر سممطح کممے‬
‫ریاسمتی امور میمں بھھی شریمک رہیمں اور مملکمت کمی اعلیمٰ‬
‫تریمن ذممہ داریوں پمر فائز رہی ہیمں۔ یمہ سمب کچمھ ان تعلیمات‬
‫کما اثمر تھھا جمو غیمر مسملموں کمے حقوق کمے بارے میمں حضور‬
‫نبممی اکرم صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم ن مے عطمما فرمائے۔ آپ‬
‫صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے فرمایما کمہ مومنوں کمے حقوق‬
‫آپمس میمں برابر اور ان کمے ذممہ کمی ادائیگمی کمے لیمے ان میمں‬
‫سمے جمو اَدنیمٰ ہیمں وہ بھھی کوشمش کریمں۔ کسمی غیمر مسملم‬
‫کے بدلے کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور کسی معاہد‬
‫ت معاہدہ میمں قتمل نہیمں کیما جائے گما۔ غیمر‬‫کمو اس کمی مد ِم‬
‫مسلموں کے حقوق کی َاہممیت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جن نے کسی معاہد کو قتل کیا‬
‫وہ جنت کی خوشبو بھھی نہ یں سونگھے گا حالں کہ اس کی‬
‫خوشبمو چالیمس برس کمی مسمافت تمک محسموس ہوتمی ہے۔‬
‫گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کے حقوق‬
‫کی ادائیگی کے اثرات کے دنیا سے آخرت تک کے احاطے کو‬
‫بیان فرما دیا۔‬
‫حضرت شیمخ السملم پروفیسمر ڈاکٹمر محممد طاہر القادری‬
‫مدظلہ کمی زیمر نظمر تصمنیف اسملم میمں غیمر مسملموں کمے‬
‫حقوق کمی مختلف جہات کما اِحاطمہ کرتمی ہے۔ اس کتاب کمے‬
‫مطالعہ سے یہ ا َمر واضح ہو جاتا ہے کہ اَقلیتوں کے حقوق کے‬
‫باب میمں تمام تمر جدیمد اقدامات بھ ھی اس اتمامیمت‪ ،‬کمال‬
‫اور جامعیت کے حامل نہ یں ہ یں جو اسلم کی تعلیمات میں‬
‫ل علم‬
‫نظر آتی ہے۔ امید ہے اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف اہ ِ‬
‫کے ہاں اہمیت کا حامل ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلم‬
‫ن انسانیت ہونے کے تشخص کو نمایاں کرنے کا باعث‬ ‫کے دی ِ‬
‫بنے گا۔‬
‫(ڈاکٹر طاہر حمید تنولی)‬
‫ناظم ِ تحقیق‬
‫ج القرآن‬‫ک منہا ُ‬
‫تحری ِ‬
‫ابتدائی ہ‬
‫ف اِنسممانیت کمما علمممبردار دیممن ہے۔ ہر فرد سمے‬‫اسمملم شر ِم‬
‫حسممن سمملوک کممی تعلیممم دین مے والے دیممن میممں کوئی ایسمما‬
‫اصمول یما ضابطمہ روا نہیمں رکھھا گیما جمو شرف انسمانیت کمے‬
‫منافمی ہو۔ دیگمر طبقات معاشرہ کمی طرح اسملمی ریاسمت‬
‫میں اقلیتوں کو ب ھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا‬
‫ہے‪ ،‬جمن کما ایمک مثالی معاشرے میمں تصمور کیما جاسمکتا ہے۔‬
‫اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملت دین میں جبر و اکراہ‬
‫کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی‪:‬‬

‫ّنن الرّ ْشدُ مِن َن اْلغَيّ َفمَن ْن يَكْفُرْ‬


‫ّينن قَد ّتَبي َ‬
‫لَ إِكْرَاه َن فِي الد ِ‬
‫اسنَت ْمسَكَ بِالْعُ ْر َوةِ اْل ُوثْقَىَ لَ‬
‫ّهن فَ َقدِ ْ‬
‫ُوتن وَُيؤْم ِن بِالل ِ‬
‫بِالطّاغ ِ‬
‫‪ O‬القرآن‪ ،‬البقرة‪256 : 2 ،‬‬ ‫ان ِفصَامَ لَهَا وَاللّهُ َسمِيعٌ عَلِيمٌ‬
‫’’دیمن میمں کوئی زبردسمتی نہیمں‪ ،‬بمے شمک ہدایمت‬
‫گمراہی سمے واضمح طور پمر ممتاز ہوچکمی ہے‪ ،‬سمو‬
‫ن باطل کا انکار کردے اور اللہ پر‬ ‫جو کوئی معبودا ِ‬
‫ایمان لے آئے تممو اس نمے ایممک ایسمما مضبوط حلقمہ‬
‫تھام لیما جمس کمے لیمے ٹوٹنما (ممکمن) نہیمں‪ ،‬اور اللہ‬
‫خوب جاننے وال ہے ‪’’o‬‬
‫دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ‪:‬‬

‫‪O‬‬ ‫لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ‬


‫’’(سمو) تمہارا دیمن تمہارے لیمے اور میرا دیمن میرے‬
‫القرآن‪ ،‬الکافرون‪6 : 109 ،‬‬ ‫لیے ہے ‪‘‘o‬‬
‫اسمملمی معاشرے میممں اقلیتوں کممے حقوق کممو کتنممی زیادہ‬
‫اہمیمت دی گئی ہے اس کما اندازہ حضور نبمی اکرم صملی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے ‪:‬‬

‫أل من ظلم معاهدا او انتقصه او کلفه فوق طاقته او اخذ‬


‫منه شيئا بغي طيب نفس فانا حجيجه يوم القيامة‪.‬‬
‫’’خممبردار! جممس کسممی ن مے کسممی معاہد (اقلیتممی‬
‫فرد) پمر ظلم کیما یما اس کما حمق غصمب کیما یما اُس‬
‫کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس‬
‫کمی رضما کمے بغیمر اس سمے کوئی چیمز لی تمو بروز‬
‫قیامممت میممں اس کممی طرف س مے (مسمملمان ک مے‬
‫خلف) جھگڑوں گا۔‘‘‬

‫‪ .1‬ابوداؤد‪ ،‬السنن‪ ،‬کتاب الراج‪ ،‬باب ف تعشي‪ ،170 : 3 ،‬رقم ‪3052 :‬‬
‫‪ .2‬ابن اب حات‪ ،‬الرح والتعديل‪201 : 1 ،‬‬
‫‪ .3‬منذري‪ ،‬الترغيب والترهيب‪ ،7 : 4 ،‬رقم ‪4558 :‬‬
‫‪ .4‬قرطب‪ ،‬الامع لحکام القرآن‪115 : 8 ،‬‬
‫‪ .5‬عجلون‪ ،‬کشف الفاء‪ ،285 : 2 ،‬رقم ‪2341 :‬‬

‫یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہ یں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور نبی‬


‫اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمے دورِ مبارک میمں اسملمی‬
‫مملکمت میمں جاری تھھا‪ ،‬جمس پمر بعمد میمں بھھی عممل درآممد‬
‫ہوتما رہا اور اب بھھی یمہ اسملمی دسمتورِ مملکمت کما ایمک حصمہ‬
‫ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے‪:‬‬
‫ان رجل من السلمي قتل رجل من أهل الکتاب‪ ،‬فرفع ال‬
‫ال نب صلي ال عل يه وآله وسلم‪ ،‬فقال ر سول ال صلي ال‬
‫عليه وآله وسلم ‪ :‬أنا أحق من وف بذمته‪ ،‬ث أمر به فقتل‪.‬‬
‫’’ایمک مسملمان نمے ایمک اہل کتاب کمو قتمل کمر دیما‬
‫اور وہ مقدممہ حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ‬
‫وسملم کمے پاس فیصملہ کمے لیمے آیما تمو آپ صملی اللہ‬
‫علیمہ وآلہ وسملم نمے فرمایما کمہ میمں اہل ذممہ کما حمق‬
‫ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ‬
‫صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے قاتمل کمے بارے میمں‬
‫قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔‘‘‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪30 : 8 ،‬‬


‫‪ .2‬شافعي‪ ،‬السند‪343 : 1 ،‬‬
‫‪ .3‬ابو نعيم‪ ،‬مسند اب حنيفه‪104 : 1 ،‬‬
‫‪ .4‬شافعي‪ ،‬الم‪320 : 7 ،‬‬
‫‪ .5‬شيبان‪ ،‬السبوط‪488 : 4 ،‬‬
‫‪ .6‬ابن رشد‪ ،‬بداية الجتهد‪299 : 2 ،‬‬
‫‪ .7‬ابن رجب‪ ،‬جامع العلوم والکم‪126 : 1 ،‬‬
‫‪ .8‬زيلعي‪ ،‬نصب الرايه‪336 : 4 ،‬‬
‫‪ .9‬مبارکپوري‪ ،‬تفة الحوذي‪557 : 4 ،‬‬

‫حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم اقلیتوں کمے بارے‬
‫مسملمانوں کمو ہمیشمہ متنبمہ فرماتمے تھھے‪ ،‬چنانچمہ ایمک دن آپ‬
‫صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے معاہدیمن کمے بارے میمں گفتگمو‬
‫کرتے ہوئے فرمایا ‪:‬‬
‫من ق تل معاهدا ل يرح رائ حة ال نة وان ري ها تو جد من‬
‫مسية اربعي عاما‪.‬‬
‫’’جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل‬
‫کیما وہ جنمت کمی خوشبمو بھھی نہیمں پائے گما حالنکمہ‬
‫جنمت کمی خوشبمو چالیمس برس کمی مسمافت تمک‬
‫پھیلی ہوئی ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬باري‪ ،‬الصحيح‪ ،‬کتاب الزيه‪ ،‬باب إث من قتل‪ ،1154 : 3 ،‬رقم ‪2995 :‬‬
‫‪ .2‬ابن ماجه‪ ،‬السنن‪ ،‬کتاب الديات‪ ،‬باب من قتل معاهدا ‪ ،896 : 2‬رقم ‪2686 :‬‬
‫‪ .3‬ربيع‪ ،‬السند‪ ،367 : 1 ،‬رقم ‪956 :‬‬
‫‪ .4‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪133 : 8 ،‬‬
‫‪ .5‬منذري‪ ،‬الترغيب والترهيب‪ ،204 : 3 ،‬رقم ‪3693 :‬‬
‫‪ .6‬صنعان‪ ،‬سبل السلم‪69 : 4 ،‬‬
‫‪ .7‬شوکان‪ ،‬نيل الوطار‪155 : 7 ،‬‬

‫اس کما مطلب یمہ ہوا کمہ وہ جنمت سمے بہت دُور رکھھا جائے گما‬
‫دراصمل یمہ تنبیہات اس قانون پمر عممل درآممد کروانمے کمے لیمے‬
‫ہ یں جو اسلم نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عطا‬
‫کیا۔‬
‫غیمر مسملموں کمے جمو بیرونمی وفود حضور نبمی اکرم صملی‬
‫اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمی خدممت میمں آتمے ان کمی حضور نبمی‬
‫اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم خود میزبانمی فرماتمے چنانچمہ‬
‫جممب مدینممہ منورہ میممں آپ صمملی اللہ علیممہ وآلہ وسمملم کممی‬
‫خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی‬
‫اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان‬
‫کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا ‪:‬‬
‫انم کانوا لصحابنا مکرمي‪ ،‬و ان أحب أن أکافئهم‪.‬‬
‫’’ی مہ لوگ ہمارے سمماتھیوں ک مے لی مے ممتاز و منفرد‬
‫حیثیمت رکھتمے ہیمں۔ اس لیمے میمں نمے پسمند کیما کمہ‬
‫میمں بذات خود ان کمی تعظیمم و تکریمم اور مہمان‬
‫نوازی کروں۔‘‘‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬شعب اليان‪ ،518 : 6 ،‬رقم ‪9125 :‬‬


‫‪ .2‬صيداوي‪ ،‬معجم الشيوخ‪97 : 1 ،‬‬
‫‪ .3‬ابن کثي‪ ،‬السية النبوية‪31 : 2 ،‬‬

‫ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ‬


‫آیا۔ آپ نے اس وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اس وفد‬
‫میمں شاممل مسمیحیوں کمو اجازت دی کمہ وہ اپنمی نماز اپنمے‬
‫طریق مہ پممر مسممجد نبوی میممں ادا کریممں چنانچ مہ ی مہ مسممیحی‬
‫حضرات مسمجد نبوی کمی ایمک جانمب مشرق کمی طرف رخ‬
‫کر کے نماز پڑھتے۔‬

‫‪ .1‬ابن سعد‪ ،‬الطبقات الکبيٰ‪357 : 1 ،‬‬


‫‪ .2‬قرطب‪ ،‬الامع لحکام القرآن‪4 : 4 ،‬‬
‫‪ .3‬ابن قيم‪ ،‬زادالعاد‪629 : 3 ،‬‬

‫حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمی ان تعلیمات‬
‫کی روشنی میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ صلی‬
‫اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر اسلمی حکومت‬
‫میں غیر مسلموں کو حقوق کا تحفظ حاصل رہا۔‬
‫اقلیتوں سمے حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمے‬
‫حسمن سملوک کما نتیجمہ تھھا کمہ ان کما برتاؤ بھھی آپ صملی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احترام پر مبنی تھھا۔ ایک جنگ میں‬
‫آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیف ایک یہودی جب مرنے‬
‫لگا تو لوگوں نے اس سے پوچ ھا کہ تیری بڑی جائیداد ہے اس‬
‫کما وارث کون ہو گما؟ تمو اس یہودی نمے کہا محممد رسمول اللہ‬
‫صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم میری جائیداد کمے وارث ہوں گمے۔‬
‫اسلمی ریاست میں اقلیتوں سے حسن سلوک کا ایک غیر‬
‫مسلم کی طرف سے اعتراف تھا۔‬
‫ل کتاب کے علوہ مشرکین‬ ‫آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہ ِ‬
‫(بت پرست اقوام) سے بھی جو برتاؤ رہا اس کی بھی تاریخ‬
‫میمں نظیمر نہیمں ملتمی۔ مشرکیمن مکمہ و طائف نمے آپ صملی‬
‫اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے‪ ،‬لیکن جب مکہ‬
‫مکرم مہ فتممح ہوا تممو آپ صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم ک مے ایممک‬
‫انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا ‪:‬‬

‫اليوم يوم اللحمة‪.‬‬


‫’’آج لڑائی کا دن ہے۔‘‘‬
‫یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ صلی‬
‫اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان‬
‫کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا ‪:‬‬

‫اليوم يوم الرحة‪.‬‬


‫’’(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے‬
‫(اور معاف کر دینے) کا دن ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬ابن حجر عسقلن‪ ،‬فتح الباري‪9 : 8 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن عبدالب‪ ،‬الستيعاب‪597 : 2 ،‬‬
‫‪ .3‬حلب‪ ،‬انسان العيون‪22 : 3 ،‬‬
‫‪ .4‬خزاعي‪ ،‬تريج الدللت السمعيه‪345 : 1 ،‬‬

‫پ ھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچ ھا‬


‫کمہ بتاؤ میمں آج تمہارے سماتھ کیما برتاؤ کروں گما؟ تمو اُنہوں نمے‬
‫کہا کمہ جیسمے حضرت یوسمف علیمہ السملم نمے اپنمے خطما کار‬
‫بھائیوں کمے سماتھ برتاؤ کیما تھھا آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم‬
‫سمے بھھی وہی توقمع ہے۔ اس جواب پمر آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ‬
‫وسملم نمے وہی جملہ ارشاد فرمایما جمو حضرت یوسمف علیمہ‬
‫السلم نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا ‪:‬‬

‫ل تثريب عليکم اليوم‪ ،‬اذهبوا فانتم الطلقاء‬


‫(یعنی تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب‬
‫آزاد ہو)۔‬

‫‪ .1‬سيوطي‪ ،‬الامع الصغي‪ ،220 : 1 ،‬رقم ‪368 :‬‬


‫‪ .2‬عسقلن‪ ،‬فتح الباري‪18 : 8 ،‬‬
‫‪ .3‬مناوي‪ ،‬فيض القدير‪171 : 5 ،‬‬

‫حضور نبممی اکرم صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم کمما بڑا دُشمممن‬
‫ابوسمفیان تھھا۔ آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے فرمایما ممن‬
‫دخل دار ابی سفیان فہو آمن (جو ابوسفیان کے گھر میں آج‬
‫داخمل ہوا وہ اممن میمں ہے)۔ اللہ تعالیمٰ نمے حضور نبمی اکرم‬
‫صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمے اس فرمان کمو اس طرح پورا‬
‫کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے‬
‫امان مل گئی۔‬

‫‪ .1‬مسلم‪ ،‬الصحيح‪ ،‬کتاب الهاد‪ ،‬باب فتح مکه ‪ ،1406 : 3‬رقم ‪1780 :‬‬
‫‪ .2‬ابو داؤد‪ ،‬السنن‪ ،‬کتاب الراج‪ ،‬باب ماجاء ف خب مکه‪ ،162 : 3 ،‬رقم ‪:‬‬
‫‪3021‬‬
‫‪ .3‬ابن اب شيبه‪ ،‬الصنف‪ ،398 : 7 ،‬رقم ‪36900 :‬‬
‫‪ .4‬عبدالرزاق‪ ،‬الصنف‪376 : 5 ،‬‬
‫‪ .5‬دارقطن‪ ،‬السنن‪ ،60 : 3 ،‬رقم ‪233 :‬‬
‫‪ .6‬ابو عوانه‪ ،‬السند‪290 : 4 ،‬‬
‫‪ .7‬البزار‪ ،‬السند‪ ،122 : 4 ،‬رقم ‪1292 :‬‬
‫‪ .8‬طحاوي‪ ،‬شرح معان الثار‪321 : 3 ،‬‬
‫‪ .9‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪ ،34 : 6 ،‬رقم ‪10961 :‬‬
‫‪ .10‬طبان‪ ،‬العجم الکبي‪8 : 8 ،‬‬
‫‪ .11‬هيثمي‪ ،‬ممع الزوائد‪175 : 6 ،‬‬
‫‪ .12‬عسقلن‪ ،‬فتح الباري‪12 : 8 ،‬‬
‫‪ .13‬فاکهي‪ ،‬اخبار مکه‪277 : 3 ،‬‬

‫مکمہ مکرممہ میمں حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم‬
‫کمی مخالفمت کرنمے میمں سمب سمے زیادہ دو اشخاص کما دخمل‬
‫تھھا وہ ابولہب کمے بیٹمے تھھے جنہوں نمے حضور نبمی اکرم صملی‬
‫اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمو ایذائیمں دی تھیمں۔ فتمح مکمہ کمے روز یمہ‬
‫دونوں گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچ ھے جا چھ پے۔ حضور‬
‫نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو خود کعبۃ‬
‫اللہ کے پردوں کے پیچھے سے نکال اور معاف کر دیا۔‬

‫زيلعي‪ ،‬نصب الرايه‪336 : 3 ،‬‬

‫‪ 1‬قانون کی نظر میں اقلیتوں کا‬


‫مساوی مقام‬
‫امام ابممو یوسممف اپنممی شہرۂ آفاق تصممنیف ’’کتاب الخراج‘‘‬
‫ت راشدہ میں تعزیرات‬ ‫میں لکھ تے ہ یں کہ عہدِ نبوی اور خلف ِ‬
‫اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت‬
‫کا درجہ مساوی تھا۔‬

‫ابو يوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪187 :‬‬

‫حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمے عہد میمں ایمک‬
‫دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور‬
‫صمملی اللہ علیممہ وآلہ وسمملم نممے قصمماص کممے طور پممر اس‬
‫مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا‪:‬‬

‫أنا أحق من أوف بذمته‪.‬‬


‫’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت‬
‫میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪30 : 8 ،‬‬


‫‪ .2‬شافعي‪ ،‬السند‪343 : 1 ،‬‬
‫‪ .3‬مبارکپوري‪ ،‬تفة الحوذي‪557 : 4 ،‬‬
‫‪ .4‬زيلعي‪ ،‬نصب الراية‪336 : 4 ،‬‬
‫‪ .5‬ابونعيم‪ ،‬مسند اب حنيفة‪104 : 1 ،‬‬
‫‪ .6‬ابن رجب‪ ،‬جامع العلوم والکم‪126 : 1 ،‬‬
‫‪ .7‬شيبان‪ ،‬البسوط‪488 : 4 ،‬‬
‫‪ .8‬شافعي‪ ،‬الم‪320 : 7 ،‬‬
‫‪ .9‬ابن رشد‪ ،‬بداية الجتهد‪299 : 2 ،‬‬

‫دوسمری روایمت کمے مطابمق آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے‬
‫انا اکرم من وفی ذمتہ فرمایا۔‬
‫آپ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم کمی اس تعلیمم پمر عممل درآممد‬
‫کے بے شمار نظائر دور خلفت راشدہ میں بھی ملتے ہیں ‪:‬‬
‫‪1‬۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ‬
‫کمر لیما گیما جمس نمے ایمک غیمر مسملم کمو قتمل کیما تھھا۔ پورا‬
‫ثبوت موجود تھھھا۔ اس لی مے حضرت علی رضممی اللہ عن مہ ن مے‬
‫قصماص میمں اس مسملمان کمو قتمل کیمے جانمے کما حکمم دیما۔‬
‫قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف‬
‫کرنمے پمر راضمی کمر لیما۔ حضرت علی رضمی اللہ عنمہ کمو جمب‬
‫اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا ‪:‬‬

‫لعلهم فزعوک او هددوک‪.‬‬


‫’’شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا‬
‫کر تجھ سے یہ کہلوایا ہو۔‘‘‬

‫‪ .1‬دار قطن‪ ،‬السنن‪134 : 3 ،‬‬


‫‪ .2‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪30 : 8 ،‬‬
‫‪ .3‬عسقلن‪ ،262 : 2 ،‬رقم ‪1009 :‬‬
‫‪ .4‬صنعان‪ ،‬سبل السلم‪235 : 3 ،‬‬
‫‪ .5‬شوکان‪ ،‬نيل الوطار‪153 : 7 ،‬‬

‫اس نے کہا نہ یں بات دراصل یہ ہے کہ قتل کیے جانے سے میرا‬


‫بھائی تو واپس آنے سے رہا اور اب یہ مجھے اس کی دیت دے‬
‫رہے ہیمں‪ ،‬جمو پسمماندگان کمے لیمے کسمی حمد تمک کفایمت کرے‬
‫گی۔ اس لیے خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے میں‬
‫معافمی دے رہا ہوں۔ اس پمر حضرت علی رضمی اللہ عنمہ نمے‬
‫فرمایا اچھھا تمہاری مرضی۔ تم زیادہ بہ تر سمجھتے ہو۔ لیکن‬
‫بہرحال ہماری حکومت کا اُصول یہی ہے کہ‪:‬‬
‫من کان له ذمتنا فدمه‪ ،‬کدمنا‪ ،‬و ديته‪ ،‬کديتنا‪.‬‬
‫’’جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا‬
‫خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت‬
‫ہماری دیت ہی کی طرح ہے‘‘‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪34 : 8 ،‬‬


‫‪ .2‬ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪187 :‬‬
‫‪ .3‬شافعي‪ ،‬السند ‪344 :‬‬
‫‪ .4‬شافعي‪ ،‬الم‪321 : 7 ،‬‬
‫‪ .5‬شيبان‪ ،‬الجه‪355 : 4 ،‬‬
‫‪ .6‬زيلعي‪ ،‬نصب الرايه‪337 : 4 ،‬‬
‫‪ .7‬عسقلن‪ ،‬الدرايه‪263 : 2 ،‬‬
‫‪ .8‬شوکان‪ ،‬نيل الوطار‪154 : 7 ،‬‬

‫‪2‬۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ‬
‫نے فرمایا ‪:‬‬

‫إذا قتل السلم النصران قتل به‪.‬‬


‫’’اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو‬
‫مسلمان (عوضاً) قتل کیا جائے گا۔‘‘‬

‫‪ .1‬شيبان‪ ،‬الجة‪349 : 4 ،‬‬


‫‪ .2‬شافعي‪ ،‬الم‪320 : 7 ،‬‬

‫‪3‬۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ‪:‬‬


‫دية اليهودي والنصران والجوسي مثل دية الر السلم‪.‬‬
‫’’یہودی‪ ،‬عیسائی اور مجوسی کی دیت آزاد‬
‫مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬شيبان‪ ،‬الجة‪322 : 4 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن اب شيبة‪ ،‬الصنف‪ ،407 : 5 ،‬رقم ‪27448 :‬‬
‫‪ .3‬عبدالرزاق‪ ،‬الصنف‪99 ،97 ،95 : 10 ،‬‬
‫‪ .4‬ابن رشد‪ ،‬بداية الجتهد‪310 : 2 ،‬‬
‫‪ .5‬صنعان‪ ،‬سبل السلم‪251 : 3 ،‬‬
‫‪ .6‬زيلعي‪ ،‬نصب الراية‪368 : 4 ،‬‬
‫‪ .7‬عسقلن‪ ،‬الدراية ف تريج احاديث الداية‪276 : 2 ،‬‬

‫اسمی قول کمی بنما پمر فقہا نمے یمہ اصمول تشکیمل دیما کمہ اگمر‬
‫مسلمان کسی ذمی کو بل ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت‬
‫ب ھی وہی ہوگی جو مسلمان کو بل ارادہ قتل کرنے سے لزم‬
‫آتی ہے۔‬

‫‪ .1‬حصکفي‪ ،‬در الختار‪223 : 2 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن عابدين شامي‪ ،‬رد الحتار‪273 : 3 ،‬‬

‫‪4‬۔ ایمک دفعمہ حضرت عمرو بمن عاص والی مصمر کمے بیٹمے نمے‬
‫ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین‬
‫حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کمے پاس جمب اس کمی شکایمت‬
‫ہوئی تمو اُنہوں نمے سمرعام گورنمر مصمر کمے بیٹمے کمو اس غیمر‬
‫مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا ‪:‬‬

‫متی استعبدت الناس وقد ولدتم امهاتم احرارا‪.‬‬


‫’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلم سمجھ لیا ہے‬
‫حالنکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘‬

‫‪ .1‬حسام الدين‪ ،‬کن العمال‪455 : 2 ،‬‬


‫‪ .2‬اساعيل ممد ميقا‪ ،‬مبادي اسلم ومنهجه ‪27 :‬‬

‫‪5‬۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلفت میں قبیلہ بکر‬
‫بمن وائل کمے ایمک شخمص نمے حیرہ کمے ایمک ذممی کمو قتمل کمر‬
‫دیا‪ ،‬اس پر ‪:‬‬

‫فکتب فيه عمر بن الطاب رضي ال عنه ان يدفع ال اولياء‬


‫القتول فان شاؤوا قتلوا و ان شاؤوا اعفوا فدفع الرجل إل‬
‫ول القتول إل رجل فقتله‪.‬‬
‫’’آپ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے وارثوں کے‬
‫حوالہ کیمما جائے۔ اگممر وہ چاہیمں قتممل کممر دیممں ورنمہ‬
‫معاف کمر دیمں۔ چنانچمہ وہ مقتول کمے وارث کمو دے‬
‫دیا گیا اور اس نے اسے قتل کر دیا۔‘‘‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبي‪32 : 8 ،‬‬


‫‪ .2‬شافعي‪ ،‬الم‪321 : 7 ،‬‬
‫‪ .3‬شيبان‪ ،‬الجة‪335 : 4 ،‬‬
‫‪ .4‬زيلعي‪ ،‬نصب الراية‪337 : 4 ،‬‬

‫‪6‬۔ حضرت عثمان رضمی اللہ عنمہ کمے زمانمہ میمں عبیداللہ بمن‬
‫عمر رضی اﷲ عنہ ما کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھھا‪ ،‬کیونکہ‬
‫انہوں نمے ہر مزان‪ ،‬جفینمہ اور ابمو لولو کمی بیٹمی کمو اس شبمہ‬
‫میمں قتمل کمر دیما تھھا کمہ شایمد وہ حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ‬
‫کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔‬
‫‪ .1‬ابن سعد‪ ،‬الطبقات الکبيٰ‪17 : 5 ،‬‬
‫‪ .2‬عسقلن‪ ،‬الدرايه‪263 : 2 ،‬‬

‫‪7‬۔ حضرت عثمان رضممی اللہ عنممہ کممے دور میممں ابممن شاس‬
‫جذامی نے شام کے کسی علقے میں ایک شخص کو قتل کر‬
‫دیا‪ ،‬معاملہ حضرت عثمان تک پہنچنے پر آپ نے اس کے قتل‬
‫کما حکمم دے دیما۔ صمحابہ کرام رضمی اللہ عنمہ کمی مداخلت پمر‬
‫آپ نے ایک ہزار دینار دیت مقرر کی۔‬

‫شافعي‪ ،‬السند‪344 : 1 ،‬‬

‫‪8‬۔ عظیم محدث ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں‬
‫‪:‬‬

‫ان د ية العا هد ف ع هد ا ب ب کر و ع مر و عثمان ر ضي ال‬


‫عنهم مثل دية الر السلم‪.‬‬
‫’’بے شک ابوبکر‪ ،‬عمر اور عثمان رضی اللہ عنھھم‬
‫کے دور میں ذمی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت‬
‫کے برابر تھی۔‘‘‬

‫‪ .1‬شيبانی‪ ،‬الجة‪351 : 4 ،‬‬


‫‪ .2‬شافعی‪ ،‬الم‪321 : 7 ،‬‬

‫‪ 2‬۔ قانون ک ے نفاذ میں مساوات کا‬


‫حق‬
‫اسملمی ریاسمت میمں تعزیرات میمں ذممی اور مسملمان کما‬
‫درجمہ مسماوی ہے۔ جرائم کمی جمو سمزا مسملمان کمو دی جائے‬
‫گمی وہی ذممی کمو بھھی دی جائے گمی۔ ذممی کما مال مسملمان‬
‫چرائے یما مسملمان کما مال ذممی چرائے دونوں صمورتوں میمں‬
‫سزا یکساں ہوگی۔‬

‫ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪109 ،108 :‬‬

‫دیوانی قانون میں بھھی ذمی اور مسلمان کے درمیان کامل‬


‫مسماوات ہے۔ حضرت علی رضمی اللہ عنمہ کمے ارشاد اموالھھم‬
‫کاموالنما (‪ )1‬کمے معنمی ہی یمہ ہیمں کمہ ان کمے مال کمی ویسمی‬
‫ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی‬
‫ہے۔ اس باب میں ذمیوں کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھھا گیا ہے‬
‫کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی‬
‫تلف کمر دے تمو اس پمر ضمان لزم آئے گما۔ در المختار میمں‬
‫ہے‪:‬‬

‫و يضمن السلم قيمة خره و خنيره اذا اتلفه‪)2(.‬‬


‫’’مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی‬
‫قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔‘‘‬

‫(‪ )1‬ابن قدامه‪ ،‬الغن‪289 : 9 ،‬‬

‫(‪ .1 )2‬حصکفي‪ ،‬الدرالختار‪223 : 2 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن عابدين شامي‪ ،‬رد الحتار‪273 : 3 ،‬‬

‫ذممی کمو زبان یما ہاتمھ پاؤں سمے تکلیمف پہنچانما‪ ،‬اس کمو گالی‬
‫دینما‪ ،‬مارنما پیٹنما یما اس کمی غیبمت کرنما‪ ،‬اسمی طرح ناجائز ہے‬
‫جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے۔ ‪:‬‬

‫و يب کف الذي عنه و ترم غيبته کالسلم‪.‬‬


‫’’غیر مسلم سے اذیت کو روکنا اسی طرح واجب‬
‫ہے جممس طرح مسمملمان س مے اور اس کممی غیبممت‬
‫کرنا بھی اسی طرح حرام ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬حصکفي‪ ،‬الدرالختار‪223 : 2 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن عابدين شامي‪ ،‬الدالحتار‪274 .273 : 3 ،‬‬

‫‪ 3‬۔ نجی زندگی اور شخصی‬


‫رازداری کا حق‬
‫مملکت اسلمیہ میں ہر فرد کو نجمی زندگمی گزارنے کا حق‬
‫حاصممل ہے ک مہ کوئی شخممص بغیممر اس کممی اجازت اور رضمما‬
‫مندی کمے اس کمے گھھر میمں داخمل نہیمں ہو سمکتا‪ ،‬اس لیمے کمہ‬
‫ہر شخص کا مکان نجی اور پرائیویٹ معاملت کا مرکز اور‬
‫اس کمے بال بچوں کمما مسممتقر ہوتمما ہے۔ اس حممق پممر دسممت‬
‫درازی خود فرد کممی شخصممیت پممر دسممت درازی ہے اور یممہ‬
‫کسمی طرح جائز نہیمں۔ گھروں میمں بغیمر اجازت داخمل ہونمے‬
‫کی صریح ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‪:‬‬

‫ستَأِْنسُوا وَُتسَ ّلمُوا‬


‫يَا َأيّهَا الّذِينَ آ َمنُوا لَا تَدْخُلُوا ُبيُوتًا َغيْرَ ُبيُوتِ ُكمْ َحتّى َت ْ‬
‫عَلَى َأهْلِهَا ذَلِكُمْ َخيْرٌ لّكُمْ َلعَلّكُمْ َتذَكّرُونَ‪ O‬فَإِن لّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا‬
‫فَلَا تَدْخُلُوهَا َحتّى ُيؤْذَنَ لَكُمْ َوإِن قِيلَ لَكُمُ ارْ ِجعُوا فَارْ ِجعُوا ُهوَ أَ ْزكَى‬
‫‪O‬‬ ‫لَكُمْ وَاللّهُ ِبمَا تَ ْعمَلُونَ عَلِيمٌ‬
‫’’اے لوگمو! جمو ایمان لئے ہو‪ ،‬اپنمے گھروں کمے سموا‬
‫دوسمرے گھروں میمں داخمل نمہ ہوا کرو‪ ،‬جمب تمک کمہ‬
‫گھھھر والوں کممی رضمما ن مہ لے لو اور گھھھر والوں پممر‬
‫سلم نہ بھ یج لو۔ یہ طریقہ تمہارے لیے بہ تر ہے‪ ،‬توقع‬
‫ہے کمہ تمم اس کما خیال رکھ ھو گمے ‪ o‬پھ ھر اگمر وہاں‬
‫کسمی کمو نمہ پاؤ تمو وہاں داخمل نمہ ہو جمب تمک کمہ‬
‫تمہیمں اجازت نمہ دی جائے اور اگمر تمم سمے کہا جائے‬
‫کمہ واپمس چلے جاؤ تمو واپمس ہو جاؤ یمہ تمہارے لیمے‬
‫زیادہ پاکیزہ طریقمہ ہے اور جمو کچمھ تمم کرتمے ہو اللہ‬
‫اسے خوب جانتا ہے ‪’’o‬‬

‫القرآن‪ ،‬النور‪28 ،27 : 24 ،‬‬

‫اسمملمی ریاسممت میممں اقلیتوں کممو بھھھی نجممی زندگممی اور‬


‫شخصمی رازداری کما حمق اسمی طرح حاصمل ہے جمس طرح‬
‫مسملمانوں کمو؛ اس لیمے کمہ اسملمی قانون نمے ان کمے لیمے یمہ‬
‫ا ُصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہ یں وہ‬
‫ان کو بھھی حاصل ہوں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر‬
‫ڈالی گئی ہ یں وہ ان پر بھھی ہ یں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ‬
‫کے بقول ان سے جزیہ اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ ان کے جان و‬
‫مال کمی اسمی طرح حفاظمت کمی جاسمکے جمس طرح ہمارے‬
‫جان و مال کی حفاظت ہوتی ہے۔‬

‫ابن قدامه‪ ،‬الغنی‪289 : 9 ،‬‬

‫‪ 4‬۔ مذ ہبی آزادی کا حق‬


‫اسمملم خدائے واحممد کممی بندگممی کممی دعوت دیتمما ہے لیکممن‬
‫دوسمرے مذاہب کمے لوگوں پمر اپنمے عقائد بدلنمے اور اسمملم‬
‫قبول کرنمے کمے لیمے دباؤ نہیمں ڈالتما‪ ،‬نمہ کسمی جمبر و اکراہ سمے‬
‫ت حمق اور جمبر و اکراہ بالکمل الگ حقیقتیمں‬ ‫کام لیتما ہے۔ دعو ِم‬
‫ن حکیمم نمے یوں‬ ‫ہیمں۔ اسملم کمے پیغام حمق کمے ابلغ کما قرآ ِم‬
‫بیان کیا‪:‬‬
‫سنَةِ وَجَادِلْهُم بِاّلتِي هِيَ‬
‫حَ‬‫اُ دْعُ ِإلَى َسبِيلِ رَبّكَ بِالْحِ ْك َمةِ وَاْل َم ْوعِ َظةِ اْل َ‬
‫‪O‬‬ ‫ضلّ عَن َسبِيلِهِ َو ُهوَ َأعْلَمُ بِاْلمُ ْهتَدِينَ‬
‫أَ ْحسَنُ إِنّ رَبّكَ ُهوَ َأعْلَمُ ِبمَن َ‬
‫’’(اے رسممول معظممم!) آپ اپن مے رب کممی راہ کممی‬
‫طرف حکمممت اور عمدہ نصممیحت ک مے سمماتھ بلیئے‬
‫اور ان سے بحث (ب ھی) ایسے انداز سے کیجئے جو‬
‫نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو‬
‫(ب ھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھ ٹک گیا‬
‫اور وہ ہدایمت یافتمہ لوگوں کمو (بھھی) خوب جانتما ہے‬
‫‪’’o‬‬

‫القرآن‪ ،‬النحل‪125 : 16 ،‬‬

‫اسلم نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی‬


‫فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو‪ ،‬دوسرے مقام پر‬
‫ارشاد فرمایا ‪:‬‬

‫لَ إِكْرَاهَ فِي الدّينِ قَد ّتَبيّنَ الرّشْدُ مِنَ اْلغَيّ‪.‬‬


‫’’دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت‬
‫گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے۔‘‘‬

‫القرآن‪ ،‬البقره‪256 : 2 ،‬‬

‫شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے‬


‫مذہب و مسمملک پممر برقرار رہنممے کممی پوری آزادی ہوگممی۔‬
‫اسملمی مملکمت ان کمے عقیدہ و عبادت سمے تعرض نمہ کرے‬
‫ل نجران کممو حضور نبممی اکرم صمملی اللہ علیممہ وآلہ‬
‫گممی۔ اہ ِ‬
‫وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا ‪:‬‬
‫ولنجران وحاشيتهم جوار ال و ذمة ممد النب رسول ال علي انفسهم‬
‫وملتهم و ارضهم و اموالم و غائبهم و شاهدهم و بيعهم و صلواتم ل‬
‫يغيوا اسقفاعن اسقفيته ول راهبا عن رهبانية ول و اقفا عن و قفانيته‬
‫وکل ما تت ايديهم من قليل اوکثي‪.‬‬
‫’’نجران اور ان کممے حلیفوں کممو اللہ اور اُس کممے‬
‫رسممول محمممد صمملی اللہ علیمہ وآلہ وسمملم کممی پناہ‬
‫حاصل ہے۔ ان کی جانیمں‪ ،‬ان کی شریعت‪ ،‬زمیمن‪،‬‬
‫اموال‪ ،‬حاضمممر و غائب اشخاص‪ ،‬ان کمممی عبادت‬
‫گاہوں اور ان کمے گرجما گھروں کمی حفاظمت کمی‬
‫جائے گمی۔ کسمی پادری کمو اس کمے مذہبمی مرتبمے‪،‬‬
‫کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب‬
‫منصمب کمو اس کمے منصمب سمے ہٹایما نہیمں جائے گما‬
‫اور ان کمی زیمر ملکیمت ہر چیمز کمی حفاظمت کمی‬
‫جائے گی۔‘‘‬

‫‪ .1‬ابن سعد‪ ،‬الطبقات الکبيٰ‪358 ،228 : 1 ،‬‬


‫‪ .2‬ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪78 :‬‬

‫مختلف ادوار میمں گرجما گھ ھر اور کلیسمے اسملمی حکوممت‬


‫میمں موجود رہے ہیمں۔ کبھھی بھھی انہیمں ادنیمٰ گزنمد تمک نہیمں‬
‫پہنچائی گئی بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے اور غیر‬
‫مسممملموں کمممو ان میمممں عبادات کمممی انجام دہی کمممے لیمممے‬
‫سہولیات فراہم کی ہیں۔‬
‫اقلیتوں کمممے شخصمممی معاملت بھھھھھی ان کمممی شریعمممت (‬
‫‪ )personal law‬کمے مطابمق طمے کیمے جائیمں گمے‪ ،‬اسملمی‬
‫قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ جن افعال کی حرمت ان‬
‫کمے مذہب میمں بھھی ثابمت ہے ان سمے تمو وہ ہر حال میمں منمع‬
‫کیمے جائیمں گمے‪ ،‬البتمہ جمو افعال ان کمے ہاں جائز اور اسملم‬
‫میمں ممنوع ہیمں انہیمں وہ اپنمی بسمتیوں میمں آزادی کمے سماتھ‬
‫کرسممکیں گممے اور خالص اسمملمی آبادیوں میممں حکومممت‬
‫اسلمیہ کو اختیار ہوگا کہ انہیں آزادی دے یا نہ دے ‪:‬‬

‫ول ينعون من اظهار شيئ ما ذکرنا من بيع المر والنير والصليب‬


‫وضرب الناقوس ف قرية او موضع ليس من امصار السلمي ولو کان‬
‫فيه عدد کثي من أهل السلم وانا يکره ذلک ف امصار السلمي و‬
‫هي الت يقام فيها المع والعياد و الدود‪ ،‬و اما اظهار فسق يعتقدون‬
‫حرمته کا لزنا و سائر الفواحش الت هي حرام ف دينهم فانم ينعون‬
‫من ذلک سواء کانوا ف امصار السلمي او ف امصارهم‪.‬‬
‫’’جمو بسمتیاں اور مقامات مسملمانوں کمے شہروں‬
‫میممں سمے نہیممں ہیممں ان میممں ذمیوں کممو شراب و‬
‫خنزیمر بیچنمے اور صملیب نکالنمے اور ناقوس بجانمے‬
‫سمے نہیمں روکما جائے گما خواہ وہاں مسملمانوں کمی‬
‫کتنی ہی کثیر تعداد آباد ہو۔ البتہ یہ افعال مسلمان‬
‫آبادی کمے شہر میمں مکروہ ہیمں جہاں جمعمہ وعیدیمن‬
‫اور حدود قائم کمی جاتمی ہوں۔ رہا وہ فسمق جمس‬
‫کممی حرمممت کممے وہ بھھھھی قائل ہیممں‪ ،‬مثل زنمما اور‬
‫دوسمرے تمام فواحمش جمو ان کمے دیمن میمں بھھی‬
‫حرام ہ یں تو اس کے اظہار سے ان کو ہرحال میں‬
‫روکما جائیگما خواہ مسملمانوں کمے شہر میمں ہوں یما‬
‫خود ان کے اپنے شہر میں۔‘‘‬

‫کاسانی‪ ،‬بدائع الصنائع‪113 : 7 ،‬‬


‫یعنمی اقلیتیمں اپنمی قدیمم عبادت گاہوں کمے اندر رہ کمر اپنمے‬
‫ت اسمملمیہ اس‬ ‫تمام مذہبممی اُمور بجمما ل سممکتے ہیممں‪ ،‬حکوم ِم‬
‫میں دخل دینے کی مجاز نہ یں ہے۔ تاہم اس ذیل میں اقلیتوں‬
‫کو مسلمانوں کے شعائر مذہ بی کے احترام کو ملحوظ رکھ نا‬
‫ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ‪:‬‬

‫أيا مصر مصرته العرب فليس للعجم ان يبنوا فيه بناء بيعة ول يضربوا‬
‫فيه ناقوسا ول يشربوا فيه خرا ول يتخذوا فيه خنيرا أيا مصر کانت‬
‫العجم مصرته يفتحه ال علي العرب فنلوا علي حکمهم فللعجم ما ف‬
‫عهدهم وللعجم علي العرب ان يوفوا بعهدهم‪.‬‬
‫’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں‬
‫ذمیوں کمو یمہ حمق نہیمں ہے کمہ نئی عبادت گاہیمں اور‬
‫کنائس تعمیممر کریممں‪ ،‬یمما ناقوس بجائیممں‪ ،‬شرابیممں‬
‫پئیمممں اور سمممور پالیمممں۔ باقمممی رہے وہ شہر جمممو‬
‫عجمیوں کمے آباد کیمے ہوئے ہیمں اور جمن کمو اللہ نمے‬
‫عربوں (یعنمی مسملمانوں) کمے ہاتمھ پمر فتحیاب کیما‬
‫اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم پر اطاعت قبول‬
‫کر لی تو عجم کے لیے وہی حقوق ہ یں جو ان کے‬
‫معاہدے میمں طمے ہو جائیمں اور عرب پمر ان کما ادا‬
‫کرنا لزم ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬ابن اب شيبه‪ ،‬الصنف‪ ،467 : 6 ،‬رقم ‪32982 :‬‬


‫‪ .2‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪202 : 9 ،‬‬
‫‪ .3‬ابن قدامه‪ ،‬الغن‪283 : 9 ،‬‬
‫‪ .4‬زرعي‪ ،‬احکام اهل الذمه‪1235 ،1195 ،1181 : 3 ،‬‬
‫‪ .5‬ابن ضويان‪ ،‬منار السبيل‪283 : 1 ،‬‬
‫مرتد کی سزا اور آزادیء عقید ہ‬
‫وہ مسلمان جو دائرہ اسلم سے خارج ہو جائے اس کا معاملہ‬
‫اقلیتوں سے مختلف ہو گا۔ اگر کوئی مسلمان احکام اسلم‬
‫کما پابنمد ہونمے اور اس کمے عقیدہ پمر ایمان لنمے کمے بعمد اگمر‬
‫اس سمے پلٹتما ہے تمو وہ گویما اس ارتداد سمے فتنمہ کما دروازہ‬
‫کھول دیتمما ہے اور مملکممت س مے بغاوت کرتمما ہے جممو موجممب‬
‫سمزا ہے اس لیمے کمہ وفائے عہد سمے برگشتگمی ملکمی قانون‬
‫سمممے بغاوت اور بہت بڑا جرم ہے اور یمممہ امردورِ جدیمممد کمممے‬
‫قانون میممں بھھھی معروف و متعیممن ہے۔ جسممکی سممزا اکثممر‬
‫ریاستی قوانین میں موت مقررکی گئی ہے۔‬
‫ارتداد کمی سمزا کمے نظائر دنیما کمے اکثمر آئینمی و دسماتیری‬
‫قوانیمن میمں موجود ہیمں۔ اسملم نمے مرتمد کمو بھھی سمزا دینمے‬
‫سے قبل راہ راست کی قبولیت کا موقع پانے کا حق عطا کیا‬
‫ہے۔ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫و اذا ارتد السلم عن السلم عرض عليه السلم فان اسلم وال قتل‬
‫مکانه ال ان يطلب ان يوجله‪ ،‬فان طلب ذلک اجل ثلثة ايام‪.‬‬
‫’’اگر کوئی مسلمان اسلم سے برگشتہ ہوجائے تو‬
‫اسے دوبارہ اسلم کی دعوت دی جائے گی۔ اگر وہ‬
‫اسمملم قبول کرلے تممو خوب‪ ،‬بصممورت دیگممر اسمے‬
‫فورا ً قتمل کردیما جائے گما‪ ،‬تاہم اگمر وہ غور و فکمر‬
‫کے لیے کچھ مہلت طلب کرے تو اسے تین دن کی‬
‫مہلت دی جائے گی۔‘‘‬

‫شيبان‪ ،‬السيالصغي ‪38 :‬‬


‫اگر ارتداد کا ارتکاب عورت نے کیا ہو تو اسے مرد مرتد کی‬
‫نسبت رجوع الی الحق کے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں گے‬
‫‪:‬‬

‫ول تق تل الرتدة ولکن ها ت بس ابدا ح ت ت سلم بلع نا عن ا بن عباس ا نه‬


‫قال ‪ :‬اذا ارتدت الرأة عن السلم حبست ول تقتل و بلغنا عن رسول‬
‫ال صلي ال عليه وآله وسلم انه ني عن قتل نساء الشرکي ف الرب‬
‫فادر ألقتل عنها بذا ومالا و کسوتا کله لا‪ .‬وافعالا ف البيع والشر يٰ‬
‫والعتق والبة کلها جائزة‪.‬‬
‫’’مرتمد ہوجانمے والی عورت کمو سمزائے موت نہیمں‬
‫دی جائے گی بلکہ اسے عمر قید کی سزا دی جائے‬
‫گی یا اس وقت تک قیمد رکھھا جائے گا جب تک وہ‬
‫دوبارہ اسمملم قبول نممہ کرلے۔ ہم تممک حضرت ابممن‬
‫عباس رضمی اللہ عنمہ کما یمہ فرماں پہنچما ہے کمہ جمب‬
‫کوئی عورت ارتداد اختیار کرے تمو اسمے قتمل نہیمں‬
‫کیا جائے گا بلکہ قید کیا جائے گا۔ حضور نبی اکرم‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھھی میدان جنگ میں‬
‫مشرکیممن کممی عورتوں کممو قتممل کرن مے س مے منممع‬
‫فرمایا۔ اس معاملے میں بھھی میں انہ یں قتمل سے‬
‫بچانما چاہوں گما۔ اس کمی املک و اموال اس کمی‬
‫ملکیمت رہیمں گمے۔ اور اس کمے خریمد و فروخمت‪،‬‬
‫غلموں کممی آزادی‪ ،‬اور ہدیمہ سمے متعلق معاہدے و‬
‫افعال معتبر ہوں گے۔‘‘‬

‫شيبان‪ ،‬السي الصغي ‪41 :‬‬


‫واذا رفعت الرتدة ال المام فقالت ‪ :‬ما ارتددت‪ ،‬و انا اشهد ان ل اله‬
‫ال ال و ان ممد رسول ال کان هذا توبة منها‪.‬‬
‫’’جمب کسمی مرتدہ کمو حاکمم کمے سمامنے پیمش کیما جائے‬
‫اور وہ اپنمے ارتداد کما انکار کرتمے ہوئے کہے میمں اس کمی‬
‫گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہ یں اور بے‬
‫شمک محممد اللہ کمے رسمول ہیمں تمو یمہ اس کمی توبمہ تصمور‬
‫کی جائے گی (اور اسے سزا نہیں ہوگی)۔‘‘‬

‫شيبان‪ ،‬السي الصغي ‪42 :‬‬

‫‪ 5‬۔ اِقتصادی اور معاشی آزادی کا‬


‫حق‬
‫غیممر مسمملم پممر اسمملمی حکومممت میممں کسممب معاش ک مے‬
‫سلسلہ میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے‪ ،‬وہ ہر کاروبار کر‬
‫سکتا ہے جو مسلمان کرتے ہوں۔ سوائے اس کاروبار کے جو‬
‫ریاسمت کمے لیمے اجتماعمی طور پمر نقصمان کما سمبب ہو۔ وہ‬
‫جمس طرح مسملمانوں کمے لیمے ممنوع ہوگما‪ ،‬ا ُمسی طرح ان‬
‫کمے لیمے بھھھی ممنوع ہوگمما‪ ،‬مثل ً سممودی کاروبار‪ ،‬جممو بالخممر‬
‫پوری سموسائٹی کمے لیمے ہلکمت کما باعمث بنتما ہے یما دیگمر اس‬
‫نوعیت کے کام وغیرہ۔‬
‫حضور نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے اہل نجران کمو‬
‫لکھا ‪:‬‬

‫إما أن تذروا الربا و إما أن تأذنوا برب من ال ورسوله‪.‬‬


‫’’سممود چھوڑ دو یمما اللہ اور اس کممے رسممول سممے‬
‫جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘‬
‫‪ .1‬جصاص‪ ،‬احکام القرآن‪89 : 4 ،‬‬
‫‪ .2‬جصاص‪ ،‬الفصول ف الصول‪37 : 2 ،‬‬

‫احکام القرآن میں آیت وأخذهم الربا و قد نوا عنه و اکلهم اموال‬
‫کے‬ ‫الناس بالباطل اور يايها الذين امنوا ل تکلوا اموالکم بينکم بالباطل‬
‫تحت امام جصاص فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫فسوي بينهم و بي السلمي ف النع من الربا‪.‬‬


‫’’اللہ تعالیممٰ نممے ان (ذمیوں) اور مسمملمانوں کممے‬
‫درمیان سود کی ممانعت کو برابر قرار دیا ہے۔‘‘‬

‫جصاص‪ ،‬احکام القرآن‪89 : 4 ،‬‬

‫اس ا ُمصول کمے علوہ جمو تجارت ان کمو پسمند ہوا کریمں‪ ،‬یہاں‬
‫تک کہ وہ اپنے محلوں اور شہروں میں خنزیر اور شراب ب ھی‬
‫در‬
‫رکمھ سمکتے ہیمں‪ ،‬ان کمی خریمد و فروخمت کمر سمکتے ہیمں۔ ِ‬
‫مختار میں ہے ‪:‬‬

‫ويضمن السلم قيمة خره و خنير اذا اتلفه‪.‬‬


‫’’ یعنی اگر کوئی مسلمان غیر مسلم اقلیتی فرد‬
‫کی شراب یا خنزیر کو نقصان پہنچائے گا تو اسے‬
‫اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔‘‘‬

‫‪ .1‬علؤ الدين حصکفي‪ ،‬الدر الختار‪223 : 2 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن عابدين شامي‪ ،‬رد الحتار‪273 : 3 ،‬‬

‫لیکن یہ چیزیں وہ مسلمانوں کے شہروں میں نہ لئیں گے اور‬


‫نہ ہی مسلمانوں کے ہاتھ بیچیں گے۔‬
‫کاسان‪ ،‬بدائع الصنائع‪113 : 7 ،‬‬

‫پیشوں کمے اعتبار سمے وہ کوئی بھ ھی پیشمہ اختیار کمر سمکتے‬


‫ہیمں اور مسملمانوں کمو اُجرت پمر ان سمے کام کروانمے کمی‬
‫کسی قسم کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلم میں کسی پیشہ کی‬
‫وجہ سے کسی غیر مسلم سے کسی ب ھی نوعیت کی کوئی‬
‫دوری رکھنممے کمما ہلکمما سمما اشارہ بھھھی نہیممں ملتمما‪ ،‬تجارتممی‬
‫معاملت میمں جمو ٹیکمس مسملمان دیتمے ہیمں وہ ان کمو بھھی‬
‫دینا ہو گا۔‬

‫‪ 6‬۔ اِجتماعی کفالت میں اقلیتوں‬


‫کا حق‬
‫جس طرح اسلمی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو‬
‫جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر‬
‫کفالت کمی ذممہ داری لیتما ہے اسمی طرح اسملمی بیمت المال‬
‫پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت‬
‫میں اس کی کفالت لزم ہے۔‬
‫کتاب الموال میممں ابوعبیممد ن مے حضرت سممعید بممن مسممیب‬
‫رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے ‪:‬‬

‫أن رسول ال صلي ال عليه وآله وسلم تصدق صدقه علي‬


‫اهل بيت من اليهود فهي تري عليهم‪.‬‬
‫’’رسمول اﷲ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے یہودیوں‬
‫کمے ایمک گھرانمہ کمو صمدقہ دیما اور (حضور صملی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی) وہ انہیں دیا‬
‫جارہا ہے۔‘‘‬
‫‪ .1‬ابو عبيد‪ ،‬کتاب الموال ‪1992 :‬‬
‫‪ .2‬زيلعي‪ ،‬نصب الرايه‪398 : 2 ،‬‬
‫‪ .3‬سيواسي‪ ،‬شرح فتح القدير‪267 : 2 ،‬‬
‫‪ .4‬عسقلن‪ ،‬الدرايه ف تريج احاديث الدايه‪266 : 1 ،‬‬

‫حضرت زید بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‪:‬‬

‫إن صفية زوج ال نب صلي ال عل يه وآله و سلم‪ ،‬ت صدقت‬


‫علي ذوي قرابة لا‪ ،‬فهما يهوديان‪ ،‬فبيع ذلک بثلثي الفا‪.‬‬
‫’’بے شک ام المومنین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ‬
‫وسلم کی زوجہ مطہرۃ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا‬
‫نے اپنے رشتہ داروں کو صدقہ دیا حالنکہ وہ دونوں‬
‫یہودی تھے جو تیس ہزار (درہم) کے عوض فروخت‬
‫کیا گیا۔‘‘‬

‫ابوعبيد‪ ،‬کتاب الموال‪1993 ،‬‬

‫عمرو بن میمون‪ ،‬عمرو بن شرجیل اور مرۃ ہمذانی سے‬


‫روایت کیا گیا ہے کہ ‪:‬‬

‫انم کانوا يعطون الرهبان من صدقة الفطر‪.‬‬


‫ابوعبيد‪ ،‬کتاب الموال ‪1996 :‬‬

‫اسی طرح کتاب الخراج ابو یوسف میں ہے ‪:‬‬


‫وجعلت ل م اي ا ش يخ ض عف عن الع مل او ا صابته ا فة من‬
‫الفات او کان غنيا فافتقر وصار اهل دينه يتصدقون عليه‬
‫طرحت جزيته و عيل من بيت مال السلمي و عياله ما اقام‬
‫بدار الجرة و دارالسلم‪.‬‬
‫’’وہ راہبوں کو صدقہ فطر میں سے دیتے تھے۔‘‘‬
‫’’ اگممر ان ک مے ضعیممف العمممر اور ناکارہ لوگوں یمما‬
‫آفمت رسمیدہ یما بعمد ازغنمی فقیمر ہو جانمے والوں‪ ،‬کمہ‬
‫ان کمے مذہب کمے لوگ ان کمو خیرات دینمے لگیمں‪،‬‬
‫سمے جزیمہ ہٹما لیما جائے گما اور مسملمانوں کمے بیمت‬
‫المال سے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست کیا جائے‬
‫گا جب تک وہ اسلمی ملک میں رہیں۔‘‘‬

‫‪ .1‬ابو يوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪155 :‬‬


‫‪ .2‬ممد حيد ال‪ ،‬الوثائق السياسية ‪ ،317 :‬وثيقه ‪291 :‬‬

‫عملی طور پر اس کی تاریخ اسلمی میں بہت سی مثالیں‬


‫ملتی ہ یں کہ غیر مسلم اقلیتوں کے معذور افراد کو اسلمی‬
‫بیممت المال س مے باقاعدہ الؤنممس ملتمما رہا ہے۔ حضرت عمممر‬
‫رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک یہودی کو دیکھھا جو اندھھا ہو‬
‫چکما تھھا تمو آپ نمے اس کمے لیمے ماہانمہ وظیفمہ مقرر فرمما دیما۔‬
‫اجتماعممی کفالت کممے حممق اور حقوق عامممہ میممں اسمملمی‬
‫حکوممت کمی نگاہ میمں مسملم اور غیمر مسملم کما کوئی فرق‬
‫نہیں ہے بلکہ وہ بالکل برابر کے شہری ہیں۔‬

‫‪ 7‬۔ روزگار کی آزادی کا حق‬


‫اسلم میں ہر جائز ذریعہ روزگار کو مستحسن قرار دیا گیا‬
‫ہے حدیث مبارکہ ہے ‪:‬‬

‫ما أکل أحد طعاما قط‪ ،‬خيا من أن يأکل من عمل يديه‪ ،‬و‬
‫إن نب ال داؤد عليه السلم کان يأکل من عمل يديه‪.‬‬
‫’’کوئی بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی‬
‫کھانمما نہیممں کھھھا سممکتا اور اللہ ک مے نبممی داؤد علی مہ‬
‫السلم اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔‘‘‬

‫ممد حسي هيکل‪ ،‬الفاروق عمر‪202 : 2 ،‬‬

‫اسمملمی مملکممت میممں اقلیتوں سمممیت ہر فرد کممو ی مہ حممق‬


‫حاصل ہے کہ تجارت‪ ،‬صنعت و زراعت غرضیکہ جو کام بھھی‬
‫وہ کرنما چاہے کمر سمکتا ہے‪ ،‬بشرطیکمہ ان چیزوں کمے قریمب نمہ‬
‫جائے‪ ،‬جنہیمں شریعمت نمے حرام قرار دیما ہے‪ ،‬جیسمے سمودی‬
‫معاملت ہیممں اور جائز حدود میممں بھھھی اخلقممی قدروں کمما‬
‫لحاظ رکھے‪ ،‬اپنے کام کی وجہ سے کسی دوسرے کی تجارت‬
‫یا صنعت کے درپے آزار نہ ہو۔ یہ اسلمی شریعت میں ناجائز‬
‫ہے۔ جب فرد جائز کام کرے گا تو اس کا حاصل اور ثمر اس‬
‫کما حمق ہو گما‪ ،‬اس لیمے کمہ یمہ اس کمی محنمت اور پسمینہ کمی‬
‫کمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ‪:‬‬

‫‪O‬‬ ‫وَأَن ّليْسَ لِلْإِنسَانِ ِإلّا مَا سَعَى‬


‫’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس‬
‫کی اس نے سعی کی ہے ‪’’o‬‬

‫القرآن‪ ،‬النّجْم‪39 : 53 ،‬‬


‫حکومممت کممے لیممے جائز نہیممں ہے کممہ وہ کسممی فرد کممو جائز‬
‫کاموں کممے کرنممے سممے روک دے‪ ،‬البتممہ اگممر کوئی شرعممی‬
‫ضرورت ہو تمو ایسما کمر سمکتی ہے۔ مثال کمے طور پمر وہ اپنمے‬
‫ملزمیممن کممو تجارت اور کمائی کرنمے سمے روک سممکتی ہے‪،‬‬
‫تاک مہ وہ اپن مے اثممر و نفوذ اور منصممب کمما ناجائز فائدہ ن مہ اُٹھھھا‬
‫سکیں۔ اس لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے گورنروں‬
‫کمی مالیمت کما محاسمبہ کرتمے تھھے‪ ،‬اگمر ان میمں سمے کوئی یمہ‬
‫جواز پیمش کرتما کہ میمں نے تجارت سمے نفمع کمما کمر یمہ دولت‬
‫اکٹھی کی ہے تو آپ فرماتے ‪:‬‬

‫نن انا بعثناکم ولة ول نبعثکم تارا‪.‬‬


‫’’ہم تمہیں والی بنا کر بھیجتے ہیں تاجر بنا کر‬
‫نہیں۔‘‘‬

‫ممد حسي هيکل‪ ،‬الفاروق عمر‪202 : 2 ،‬‬

‫‪ 8‬۔ تحفظ اور سلمتی کا حق‬


‫اسلمی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلمتی کی ذمہ دار‬
‫ہے۔ اگر اسلمی ریاست کا کسی دوسری قوم سے معاہدہ ہو‬
‫تو اس قوم کے تحفظ و سلمتی کی ذمہ داری بھی اسلمی‬
‫ریاست پر ہوگی ‪:‬‬

‫وَإِن كَا نَ مِن َقوْ مٍ َب ْينَكُ مْ وََب ْينَهُ مْ مّيثَا قٌ فَدِيَةٌ مّ سَ ّلمَةٌ إِلَى َأهْلِ هِ‬
‫وََتحْرِيرُ رَ َقبَةٍ ّمؤْ ِمنَةٍ‪.‬‬
‫’’اور اگممر وہ (مقتول) تمہاری دشمممن قوم س مے ہو‬
‫اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلم‪ /‬باندی‬
‫کما آزاد کرنما (ہی لزم) ہے اور اگمر وہ (مقتول) اس‬
‫قوم میممں سممے ہو کممہ تمہارے اور ان کممے درمیان‬
‫(صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (ب ھی) جو اس کے‬
‫گھھھھھر والوں کمممے سمممپرد کیممما جائے اور اور ایمممک‬
‫مسلمان غلم‪ /‬باندی کا آزاد کرنا (بھی لزم) ہے۔‘‘‬

‫القرآن‪ ،‬النساء‪92 : 4 ،‬‬

‫اقلیتوں کی جان کی حرمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ‬


‫وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے ‪:‬‬

‫دية اليهودي والنصران وکل ذمي مثل دية السلم‪.‬‬


‫’’یہودی‪ ،‬عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان‬
‫کی دیت کی طرح ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬عبدالرزاق‪ ،‬الصنف‪98 ،97 : 10 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن رشد‪ ،‬بداية الجتهد‪310 : 2 ،‬‬

‫خلفائے راشدین کے دور میں اس اصول پر عمل کیا جاتا رہا‬


‫اور ذمیوں کمی دیمت مسملمانوں کمی دیمت کمے برابر ادا کمی‬
‫جاتی تھی۔‬
‫ن فتوحات غیمر مسملم اقوام سمے جمو معاہدات ہوئے ان‬ ‫دورا ِم‬
‫میمں ایمک شرط یمہ بھھی تھھی کمہ غیمر مسملم رعایما کمے تحفمظ‪،‬‬
‫سملمتی اور بنیادی ضروریات کمی حکوممت ذممہ دار ہو گمی۔‬
‫چنانچمہ حیرہ کمے باشندوں کمو جمو پروانمہ امان دیما گیما اس کما‬
‫ایک حصہ یہ ہے ‪:‬‬
‫’’جمو غیمر مسملم بوڑھھا ہو جائے اور کام نمہ کمر سمکے یما کوئی‬
‫ناگہانمی آفمت اسمے ناکارہ بنما دے یما پہلے دولتمنمد ہو‪ ،‬بعمد میمں‬
‫کسی حادثہ کی وجہ سے غریب ہو جائے تو ایسے آفت رسیدہ‬
‫لوگوں سے نہ صرف یہ کہ حکومت کوئی ٹیکس وصول نہ یں‬
‫کرے گممی بلک مہ ان کممو اور ان کممی اہل و عیال کممو سممرکاری‬
‫خزانہ سے گزارہ الؤنس بھی مہیا کیا جائے گا۔‘‘‬

‫ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪155 :‬‬

‫خ اسملم میمں اس ا ُمصول کمی متعدد عملی مثالیمں ملتمی‬ ‫تاری ِم‬
‫ہیمں ایمک دفعمہ حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ نمے ایمک بوڑھھھے‬
‫یہودی کمو بڑی خسمتہ حالت میمں دیکھھا۔ آپ رضمی اللہ عنمہ نمے‬
‫فرمایما ‪ :‬خدا کمی قسمم! یمہ انصماف کما تقاضما نہیمں کمہ ہم اس‬
‫کمی جوانمی میمں تمو اس سمے فائدہ اُٹھائیمں اور ا ُمسے بڑھاپمے‬
‫میمں اس طرح رسموا ہونمے دیمں چنانچمہ آپ نمے حکمم صمادر‬
‫فرمایما کمہ اس بوڑھھے کمو زندگمی بھھر اس کمی ضرورت کمے‬
‫مطابق بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ‬
‫نے ملک کے گورنروں کو لکھھا کہ وہ غیر مسلم کے رعایا کے‬
‫مسممتحق اور غریممب افراد کممو بیممت المال سممے پابندی اور‬
‫باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں دیں۔‬

‫ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪150 :‬‬

‫اسمی طرح غیمر مسملموں کمو وظائف دینمے کمی کئی مثالیمں‬
‫خ اسلم میں موجود ہ یں۔ ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق‬ ‫تاری ِ‬
‫کے تحفظ کے لیے اسلم کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا اور‬
‫جمب کبھھی سمرکش امراء نمے اس کمے خلف عممل کیما ہے تمو‬
‫علماء و فقہا نمے انہیمں اس سمے باز رکھنمے یما کمم از کمم ان‬
‫سمے اس کمی تلفمی کرانمے کمی کوشمش کمی ہے۔ تاریمخ کما‬
‫مشہور واقعمہ ہے کمہ ولیمد بمن عبدالملک اموی نمے دمشمق کمے‬
‫کنیسمہ یوحنما کمو زبردسمتی عیسمائیوں سمے چھیمن کمر مسمجد‬
‫میں شامل کر لیا۔ بلذری کے مطابق ‪:‬‬
‫فل ما ا ستخلف ع مر بن عبدالعز يز ش کي الن صاري إل يه ما‬
‫ف عل الول يد ب م ف کني ستهم فک تب ال عامله يامره برد ما‬
‫زاده ف السجد‪.‬‬
‫ت خلفت پر‬ ‫’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تخ ِ‬
‫متمکمن ہوئے اور عیسمائیوں نمے ان سمے ولیمد کمے‬
‫کنیسمہ پمر کیمے گئے ظلم کمی شکایمت کمی تمو انہوں‬
‫نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ‬
‫گرجما کمی زمیمن پمر تعمیمر کیما گیما ہے اسمے منہدم‬
‫کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔‘‘‬

‫بلذري‪ ،‬فتوح البلدان ‪150 :‬‬

‫جمب ولیمد بمن یزیمد نمے روممی حملہ کمے خوف سمے قمبرص کمے‬
‫ذمی باشندوں کو جل وطن کر کے شام میں آباد کیا تو اس‬
‫پممر فقہائے اسمملم اور عام مسمملمان سممخت ناراض ہوئے اور‬
‫اسمے گناہ عظیمم سممجھا۔ پھھر جمب یزیمد بمن ولیمد نمے ان کمو‬
‫دوبارہ قبرص میں لے جا کر آباد کر دیا تو اسے عوام الناس‬
‫نمے بنظمر احسمن دیکھھا اور کہا کمہ یہی انصماف کما تقاضما ہے۔‬
‫اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ ‪:‬‬

‫فا ستقطع ذلک ال سلمون وا ستعظمه الفقهاء فل ما ول يز يد‬


‫بنن الوليند بنن عبداللک ردهنم ال قنبس فاسنتحسن‬
‫السلمون ذلک من فعله و رأوه عدل‪.‬‬
‫’’اس فعل کو عام مسلمانوں اور فقہا نے غلط قرار دیا‬
‫اور جممب یزیممد بممن الولیممد بممن عبدالملک آیمما تممو اس ن مے‬
‫قمبرص کمے باشندوں کمو واپمس کردیما اس کمے اس عممل‬
‫کممی عام مسمملمانوں نممے تعریممف کممی اور اسممے عدل و‬
‫انصاف پر مبنی قرار دیا۔‘‘‬

‫بلذري‪ ،‬فتوح البلدان ‪180 :‬‬

‫ل لبنان کمے باشندوں میمں‬ ‫بلذری کما بیان ہے کمہ ایمک مرتبمہ جب ِ‬
‫سمے ایمک گروہ نمے بغاوت کمر دی۔ اس پمر صمالح بمن علی بمن‬
‫عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی‪ ،‬جس نے‬
‫ان کمے ہتھیار اُٹھانمے والے مردوں کمو قتمل کمر دیما اور باقمی‬
‫لوگوں میممں س مے ایممک جماعممت کممو جل وطممن کیمما اور ایممک‬
‫جماعمت کمو وہیمں آباد رہنمے دیما۔ امام اَوزاعمی رحممۃ اللہ علیمہ‬
‫اس زمانمہ میممں زندہ تھھھے۔ اُنہوں نمے صمالح کمو اس ظلم پممر‬
‫سخت تنبیہ کرتے ہوئے بغاوت میں حصہ نہ لینے والوں کو قتل‬
‫کرنمے اور گھروں سمے نکالنمے کمی مذممت کمی اور ایمک طویمل‬
‫خط لکھا‪ ،‬جس کے چند فقرے یہ ہیں ‪:‬‬

‫” ما قد مت عل مت فک يف تؤ خذ عا مة بذنوب خا صة ح ت‬
‫يرجوا منن ديارهنم واموالمن‪ .‬وحکنم ال تعال ‪﴿ :‬لتزر‬
‫وازرة وزر اخري﴾‪ .‬وأحق الوصايا أن تفظ و ترعي وصية‬
‫ر سول ال صلي ال عل يه وآله و سلم ‪ ’’ :‬من ظلم معاهدا‬
‫وکلفه فوق طاقته فأنا حجيه‪‘‘.‬‬
‫’’میمں نہیمں سممجھ سمکتا کمہ عام لوگوں کمو بعمض‬
‫خاص لوگوں کمممے جرم کمممی سمممزا کیوں کمممر دی‬
‫جاسمکتی ہے۔ اور کمس بنما پمر انہیمں ان کمے گھروں‬
‫اور انکمی جائیدادوں سمے بمے دخمل کیما جاسمکتا ہے۔‬
‫حالنکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ ل تزر وازرۃ وزر اخری‬
‫اور ی مہ ایممک واجممب التعمیممل حکممم ہے۔ تمہارے لی مے‬
‫بہتریمن نصمیحت یمہ ہے کمہ تمم رسمول اللہ صملی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کو یاد رک ھو کہ ’’جو‬
‫کوئی کسممی معاہد پممر ظلم کرے گمما اور اس کممی‬
‫طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا اس کے خلف‬
‫میں خود مدعی بنوں گا۔‘‘‬

‫بلذري‪ ،‬فتوح البلدان ‪186 :‬‬

‫‪ 9‬۔ تمدنی اور معاشرتی آزادی کا‬


‫حق‬
‫اسلمی ریاست میں اقلیتیں اپنی قومی اور تہذیبی روایات‬
‫کممے مطابممق رہ سممکیں گممی یہاں تممک کممہ ان کممے شخصممی‬
‫معاملت یعنممی نکاح طلق بایممں حممد کمہ نکاح محرمات بھھھی‬
‫اگر ان کے تہذیبی شعائر میں رائج ہو تو اس سے ب ھی کوئی‬
‫تعرض نہ کیا جائے گا۔‬
‫ایممک دفع مہ حضرت عمممر بممن عبدالعزیممز ن مے حضرت حسممن‬
‫بصری رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت فرمایا کہ خلفائے راشدین‬
‫نمے اہل ذممہ کمو نکاح محرمات کمی کیوں اجازت دے دی تھھی‬
‫اور شایمد آپ اس پمر پابندی لگانما چاہتمے تھھے کیونکمہ یمہ فعمل‬
‫شناعمت کمے اعتبار اس قدر شنیمع ہے کمہ فطرت سملیمہ اسمے‬
‫ہرگممز قبول نہیممں کرتممی۔ جواب میممں حضرت حسممن بصممری‬
‫رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ‪:‬‬

‫ان ا بذلوا الز ية ليترکوا علي ما يعتقدون و ان ا ا نت مت بع‬


‫ول مبتدع والسلم‪.‬‬
‫’’انہوں نمے جزیمہ اس لیمے دیمما ہے کمہ انہیممں ان کمے‬
‫اعتقادات پمممر چھوڑ دیممما جائے اور آپ تمممو خلفائے‬
‫راشدیمن کمی پیروی کرنمے والے ہیمں نمہ کمہ نئی راہ‬
‫بنانے والے۔‘‘‬

‫‪ .1‬سيواسي‪ ،‬شرح فتح القدير‪417 : 3 ،‬‬


‫‪ .2‬سرخسي‪ ،‬البسوط‪39 : 5 ،‬‬

‫اسملمی ریاسمت میمں اندر سموائے حرم کمے وہ جہاں چاہیمں‬


‫سمکونت اختیار کمر سمکتے ہیمں اور اسمی طرح ترک سمکونت‬
‫کما بھ ھی انہیممں اختیار ہے۔ حرم سمے مراد مکمہ مکرممہ ہے اور‬
‫اس میمں مشرک کمے داخلہ پمر پابندی نمص سمے ثابمت ہے اس‬
‫لیے وہ وہاں نہ رہ سکیں گے۔‬
‫اسلمی معاشرے میں مسلمانوں پر بھی یہ ذمہ داری تھی کہ‬
‫وہ اقلیتوں سے نیکی‪ ،‬انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ‬
‫اختیار کریں‬

‫َمن‬
‫ّينن وَل ْ‬
‫ُمن فِي الد ِ‬
‫َمن يُقَاتِلُوك ْ‬
‫ِينن ل ْ‬
‫َنن الّذ َ‬
‫ّهن ع ِ‬
‫ُمن الل ُ‬
‫لَا َينْهَاك ُ‬
‫يُخْرِجُوكُم مّن دِيَا ِركُ مْ أَن َتبَرّوهُ مْ وَُتقْ سِطُوا إَِليْهِ مْ إِنّ اللّ هَ‬
‫يُحِبّ اْل ُم ْقسِطِيَ‪O‬‬
‫’’(اے مسمملمانو!) اللہ تممم کممو ان لوگوں ک مے سمماتھ‬
‫نیکی کا برتاؤ اور انصاف کرنے سے منع نہ یں کرتا‬
‫جمو تمم سمے دیمن کمے بارے میمں نمہ لڑے اور نمہ انہوں‬
‫نمے تمم کمو تمہارے گھروں سمے نکال (بلکمہ) اللہ تمو‬
‫انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ‪’’o‬‬

‫القرآن‪ ،‬المتحنة‪8 : 60 ،‬‬


‫‪ 10‬۔ اقلیتوں کی حفاظت اِسلمی‬
‫م ہ داری ہے‬
‫ریاست کی ِذ ّ‬
‫ِ‬
‫ا ِسلمی ریاست میں اقلیتوں کو دفاعی ذمہ داریاں ادا کرنے‬
‫پر مجبور نہ یں کیا جا سکتا بلکہ ان کا دفاع ا ِسلمی حکومت‬
‫کی ذمہ داری ہے اور اسلمی حکومت غیر مسلموں کے جان‬
‫و مال اور آبرو کی حفاظت کرے گی۔‬

‫‪ .1‬کاسان‪ ،‬بدائع الصنائع‪111 : 7 ،‬‬


‫‪ .2‬شربين‪ ،‬مغن الحتاج‪243 : 4 ،‬‬
‫‪ .3‬منصور بن يونس‪ ،‬کشاف القناع‪92 : 3 ،‬‬
‫‪ .4‬زحيلي‪ ،‬الفقه السلمي و ادلته‪446 : 6 ،‬‬

‫چونکمہ اسملمی ریاسمت اقلیتوں کمو جان و مال اور آبرو کما‬
‫تحفظ فراہم کرتے ہے اور ان پر کوئی دفاعی ذمہ داری بھھی‬
‫عائد نہ یں کرتی لہٰذا اس کے عوض اقلیتیں اسلمی ریاست‬
‫کمو مالیاتمی طور پمر ‪ contribute‬کرتمے ہیمں جسمے اسملمی‬
‫قانون میں جزیہ کہا گیا ہے۔ اسلمی ریاست میں اقلیتوں پر‬
‫جزی مہ عائد کرن مے ک مے معاملے میممں بھھھی عدل و انصمماف اور‬
‫حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ‬
‫عنہ نے امرائے لشکر کو لکھا ‪:‬‬

‫أل يضربوا الزية علي النساء ول علي الصبيان وأن يضربوا‬


‫الزية علي من جرت عليه الوسي من الرجال‪.‬‬
‫’’عورتوں اور بچوں پممر جزیممہ عایممد نممہ کریممں اور‬
‫صرف ان مردوں پر جزیہ عاید کریں‪ ،‬جن کے بال‬
‫اگ آئے ہوں (بالغ ہوگئے ہوں)۔‘‘‬
‫‪ .1‬عبدالرزاق‪ ،‬الصنف‪ ،331 : 10 ،‬رقم ‪19273 :‬‬
‫‪ .2‬عبدالرزاق‪ ،‬الصنف‪ ،85 : 6 ،‬رقم ‪10090 :‬‬
‫‪ .3‬ابن اب شيبه‪ ،‬الصنف‪ ،429 ،428 : 6 ،‬رقم ‪32640 ،32636 :‬‬
‫‪ .4‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪198 ،195 : 9 ،‬‬
‫‪ .5‬ابن حزم‪ ،‬الحلي‪247 : 7 ،‬‬
‫‪ .6‬ابن قدامه‪ ،‬الغن‪507 ،476 : 8 ،‬‬
‫‪ .7‬عسقلن‪ ،‬تلخيص البي‪123 : 4 ،‬‬

‫حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کما ایمک مقام سمے گزر ہوا تمو آپ‬
‫نمے ایمک بوڑھھے نابینما یہودی بھیمک مانگتمے ہوئے دیکھھا۔ آپ نمے‬
‫اس سے پوچھا ‪:‬‬

‫فما ألأک ال ما اري؟ قال ‪ :‬أسأل الزية والاجة والسن‪ .‬فأخذ عمر‬
‫بيده و ذهب به ال منله فرضخ له بشئ من النل‪ .‬ث ارسل ال خازن‬
‫بيت الال فقال ‪ :‬انظر هذا و ضرباء ه‪ ،‬فو ال! ما أنصفناه أن أکلنا‬
‫شبيبته ث نذله عندالرم‪.‬‬
‫تمہیمں اس پمر کمس بات نمے مجبور کیما؟اس نمے کہا کمہ بوڑھھا‬
‫ضرورت منمد ہوں اور جزیمہ بھھی دینما ہے۔ حضرت عممر رضمی‬
‫اللہ عنمہ نمے اس کما ہاتمھ پکڑا اور گھھر لئے اور اسمے اپنمے گھھر‬
‫سمے کچمھ دیما‪ ،‬پھھر اسمے بیمت المال کمے خازن کمے پاس بھیجما‬
‫اور حکمم دیما کمہ اس کما اور اس جیسمے اور لوگوں کما خیال‬
‫رکھھھو اور ان سمے جزیمہ لینمما موقوف کردو۔ کیونکمہ یمہ کوئی‬
‫انصاف کی بات نہ یں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے‬
‫جزیمہ وصمول کیما اور اب بڑھاپمے میمں ان کمو اس طرح رسموا‬
‫کریں۔‘‘‬
‫‪ .1‬ابن قدامه‪ ،‬الغن‪509 : 8 ،‬‬
‫‪ .2‬ابو يوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪150 :‬‬

‫جزیمہ کمی مقدار مقرر کرنمے میمں بھھی ذمیوں پمر تشدد کرنما‬
‫ممنوع ہے۔ حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کمی وصمیت ہے کمہ ل‬
‫یکلفوا فوق طاقت ھم جتنا مال دینا ان کی طاقت سے باہر ہو‬
‫انہیں اس کے ادا کرنے کی تکلیف نہ دو۔‬

‫بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪206 : 9 ،‬‬

‫جزی مہ ک مے عوض ان کممی املک کمما نیلم نہیممں کیمما جاسممکتا۔‬


‫حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حکم ہے ‪:‬‬

‫ل تبيعن لم ف خراجهم حارا ول بقرة ولکسوة شتاء ول‬


‫صيف‪.‬‬
‫’’خراج میمں ان کما گدھھا یما ان کمی گائے یما ان کمے‬
‫سردی و گرمی سے بچانے والے کپڑے نہ بیچنا۔‘‘‬

‫ابن قدامه‪ ،‬الغن‪291 : 9 ،‬‬

‫ایمک اور موقمع پمر اپنمے عاممل کمو بھیجتمے وقمت حضرت علی‬
‫رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‪:‬‬

‫ل تبيعن ل م ک سوة شتاء ول صيفا‪ ،‬ول رز قا ياکلو نه‪ ،‬ول‬


‫دابة يعملون عليها‪ ،‬ول تضربن أحدا منهم سوطا و احدا ف‬
‫در هم ول تق مه علي رجله ف طلب در هم‪ ،‬ول ت بع ل حد‬
‫منهم عرضا ف شيئ من الراج‪ ،‬فإنا انا أمرنا أن ناخذ منهم‬
‫العفو‪ ،‬فإن انت خالفت ما أمرتک به ياخذک ال به دون‪،‬‬
‫و إن بلغن عنک خلف ذلک عزلتک‪.‬‬
‫’’ان کے جاڑے گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا‬
‫سمامان اور ان کمے جانور جمن سمے وہ کھیتمی باڑی‬
‫کرتے ہ یں خراج وصول کرنے کی خاطر نہ بیچنا نہ‬
‫کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا‪ ،‬نہ‬
‫کسی کو کھڑا رکھ نے کی سزا دینا اورنہ خراج کے‬
‫عوض کسی چیز کا نیلم کرنا کیوں کہ ہم‪ ،‬جو ان‬
‫کممے حاکممم بنائے گئے ہیممں‪ ،‬ہمارا کام نرمممی سممے‬
‫وصمول کرنما ہے۔ اگمر تمم نمے میرے حکمم کمے خلف‬
‫عممل کیما تمو اللہ میرے بجائے تمہیمں سمزا دے گما اور‬
‫اگمر مجھھے تمہاری خلف ورزی کمی خمبر پہنچمی تمو‬
‫میں تمہیں معزول کر دوں گا۔‘‘‬

‫ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪17 :‬‬

‫حضرت عمممر رضممی اللہ عنممہ نممے شام کممے گورنممر حضرت‬
‫ابوعبیدہ رضممی اللہ عنممہ کممو جممو فرمان لکھھھا تھھھا اس میممں‬
‫منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ ‪:‬‬

‫وام نع ال سلمي من ظلم هم والضرارب م وا کل اموال م إل‬


‫بلها‪.‬‬
‫’’مسملمانوں کمو ان پمر ظلم کرنمے اور انہیمں ضرر‬
‫پہنچانمے اور ناجائز طریقمہ سمے ان کمے مال کھانمے‬
‫سے منع کرنا۔‘‘‬

‫ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪152 :‬‬


‫شام کمے سمفر میمں حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ نمے دیکھھا کمہ‬
‫ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمیوں کو دھوپ میں‬
‫کھڑا کمر کمے اور ان کمے سمروں پمر تیمل ڈال کمر سمزائیں دے‬
‫رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا ‪:‬‬

‫فرعو هم‪ ،‬ل تکلفو هم مال يطيقون‪ ،‬فا ن سعت ر سول ال‬
‫صنلي ال علينه وآله وسنلم يقول ‪ :‬ل تعذبوا الناس فان‬
‫الذينن يعذبون الناس فن الدنينا يعذبمن ال يوم القيامنة و‬
‫أمربم فخلي سبيلهم‪.‬‬
‫’’ان کو چھوڑ دو‪ ،‬تم ان کو تکلیف نہ دو جس کی‬
‫وہ طاقمت نہیمں رکھتمے‪ ،‬میمں نمے حضور نبمی اکرم‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ‬
‫لوگوں کمو عذاب نمہ دو بمے شمک وہ لوگ جمو لوگوں‬
‫کمو دنیما میمں عذاب دیتمے ہیمں اللہ انہیمں قیاممت کمے‬
‫دن عذاب دے گما۔ آپ رضمی اللہ عنمہ کمے حکمم پمر‬
‫انہیں چھوڑ دیا گیا۔‘‘‬

‫امام ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪135 :‬‬

‫ہشام بن حکم نے حمص کے ایک سمرکاری افسمر عیاض بن‬


‫غنم کو دیک ھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے‬
‫دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے۔ اس پر انہوں نے اسے ملمت کی‬
‫اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ‬
‫فرماتے سنا ہے ‪:‬‬

‫ان ال يعذب الذين يعذبون الناس ف الدنيا‪.‬‬


‫’’اﷲ عزوجمل ان لوگوں کمو عذاب دے گما جمو دنیما‬
‫میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔‘‘‬

‫‪ .1‬مسلم‪ ،‬الصحيح‪ ،‬کتاب الب‪ ،‬باب الوعيد الشديد‪ ،2018 : 4 ،‬رقم ‪2613 :‬‬
‫‪ .2‬ابوداؤد‪ ،‬السنن‪ ،‬کتاب الراج‪ ،‬باب ف التشديد‪ ،106 : 3 ،‬رقم ‪3045 :‬‬
‫‪ .3‬نسائي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪ ،236 : 5 ،‬رقم ‪8771 :‬‬
‫‪ .4‬احد بن حنبل‪ ،‬السند‪468 ،404 ،403 : 3 ،‬‬
‫‪ .5‬ابن حبان‪ ،‬الصحيح‪ ،429 ،427 ،426 : 12 ،‬رقم ‪،5612 :‬‬
‫‪5613‬‬
‫‪ .6‬طبان‪ ،‬العجم الکبي‪ ،171 : 22 ،‬رقم ‪441 :‬‬
‫‪ .7‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪205 : 9 ،‬‬
‫‪ .8‬هيثمي‪ ،‬موارد الظمآن ‪ ،377 :‬رقم ‪1567 :‬‬

‫فقہائے اسملم نمے نادہندگان کمے حمق میمں صمرف اتنمی اجازت‬
‫دی ہے کمہ انہیمں تادیبا ً قیمد بمے مشقمت کمی سمزا دی جاسمکتی‬
‫ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے ‪:‬‬

‫ولکن يرفق بم و يبسون حت يؤدوا ما عليهم‪.‬‬


‫’’اور ان سممے نرمممی سممے پیممش آیمما جائے گمما اور‬
‫ادائیگی جزیہ تک انہیں قید کیا جائے گا۔‘‘‬

‫ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪133 :‬‬

‫جممو ذمممی محتاج اور فقیممر ہو جائیممں انہیممں صممرف جزی مہ ہی‬
‫معاف نہیمں کیما جائیگما بلکمہ ان کمے لیمے اسملمی خزانمہ سمے‬
‫وظائف بھھھی مقرر کی مے جائیممں گ مے۔ حضرت خالد بممن ولیممد‬
‫رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس‬
‫میں لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫وجعلت ل م اي ا ش يخ ض عف عن الع مل او ا صابته آ فة من‬
‫آلفات اوکان غنيا فافتقروصنارا هنل ديننه يتصندقون علينه‬
‫طرحت جزيته و عيل من بيت مال السلمي وعياله‪.‬‬
‫’’میمں نمے ان کمے لیمے یمہ حمق بھھی رکھھا ہے کمہ جمو‬
‫کوئی شخمص بڑھاپمے کمے سمبب ازکار رفتمہ ہو جائے‬
‫یما اس پمر کوئی آفمت نازل ہو جائے‪ ،‬یما وہ پہلے مال‬
‫دار تھھھا پھھھر فقیممر ہو گیمما یہاں تممک ک مہ اس ک مے ہم‬
‫مذہب لوگ اس کمو صمدقہ و خیرات دینمے لگمے‪ ،‬تمو‬
‫اس کاجزیمہ معاف کمر دیما جائیگما اور اسمے اور اس‬
‫کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ‬
‫دیا جائے گا۔‘‘‬

‫‪ .1‬ممد حيد ال‪ ،‬الوثائق السياسة ‪ ،317 :‬وثيقه ‪291 :‬‬


‫‪ .2‬ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪155 :‬‬

‫اگرکوئی ذممی مرجائے اور اس کمے حسماب میمں مکممل جزیمہ‬


‫یا جزیہ کا بقایا واجب الدا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول‬
‫نہیمں کیما جائے گما اور نمہ اس کمے ورثما پمر اس کما بار ڈال جائے‬
‫گا۔ کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ‬
‫علیہ لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫إن وجبنت علينه الزينة فمات قبنل ان تؤخنذ مننه اوأخنذ‬


‫بعض ها وب قي الب عض ل يو خذ بذلک ورث ته ول تو خذ من‬
‫ترکته لن ذلک ليس بدين عليه‪.‬‬
‫’’اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ‬
‫ادائیگمی سے قبمل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب‬
‫الدا جزیممہ وارثوں سممے وصممول نہیممں کیمما جائیگمما‬
‫کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔‘‘‬

‫ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪132 :‬‬

‫‪ 11‬۔ عسکری خدمات س ے اِستثناء‬


‫کا حق‬
‫اسلمی ریاست میں ذمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہ یں‬
‫اور دشمن سے ملک کی حفاظت تنہا مسلمانوں کے فرائض‬
‫میں شامل ہے چونکہ ان سے جزیہ اسی حفاظت کے معاوضہ‬
‫میمں وصمول کیما جاتما ہے‪ ،‬اس لیمے اسملم نمہ تمو ان کمو فوجمی‬
‫خدمممت کممی تکلیممف دینمما جائز سمممجھتا ہے اور نممہ ان کممی‬
‫حفاظت سے عاجز ہونے کی صورت میں جزیہ وصول کرنا۔‬
‫اگر مسلمان ان کی حفاظت نہ کرسکیں توانہ یں ذمیوں کے‬
‫اموال جزیہ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہ یں۔ جنگ‬
‫یرموک کے موقع پر رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ پر ایک‬
‫زبردسممت فوج جمممع کممی اور مسمملمانوں کممو شام کمے تمام‬
‫مفتوح علقے چھوڑ کر ایک مرکز پر جمع ہونے کی ضرورت‬
‫پیش آئی تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے امراء کو‬
‫لکھا کہ ‪:‬‬
‫’’ جمو کچمھ جزیمہ و خراج تمم نمے ذمیوں سمے وصمول‬
‫کیما ہے انہیمں واپمس کردو اور ان سمے کہو کمہ اب ہم‬
‫تمہاری حفاظمت سمے عاجمز ہیمں اس لیمے تمم اپنمے‬
‫معاملے کمے لحاظ سمے آزاد ہو۔ اس لیمے ہم نمے جمو‬
‫مال تمہاری حفاظمت کمے معاوضمہ میمں وصمول کیما‬
‫تھا اسے واپس کرتے ہیں۔‘‘‬
‫اس حکم کے مطابق تمام لشکروں کے امراء نے جمع شدہ‬
‫رقم واپس کر دی۔‬
‫‪ .1‬ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪150 :‬‬
‫‪ .2‬بلذري‪ ،‬فتوح البلدان ‪161 :‬‬

‫‪ 12‬۔ اقلیتوں سککککک ے معا ہد ے ککککککی‬


‫ریاست کا فرض‬ ‫پاسداری اِسلمی ِ‬
‫ہے‬
‫اگمر اقلیتوں نمے اسملمی ریاسمت سمے کوئی معاہدہ کیما ہو تمو‬
‫اسلمی ریاست اسے ہر حال میں پورا کرنے کی پابند ہوگی‬
‫‪:‬‬

‫الع قد ف هو ا نه لزم ف حق نا ح ت ليلک ال سلمون نق ضه‬


‫بال من الحوال واما ف حقهم فغي لزم‪.‬‬
‫’’عقمد ذممہ مسملمانوں کمی جانمب ابدی لزوم رکھتما‬
‫ہے‪ ،‬یعنمی وہ میثاق کرنمے کمے بعمد پھھر توڑ دینمے کمے‬
‫مختار نہیمں ہیمں۔ لیکمن دوسمری جانمب ذمیوں کمو‬
‫اختیار ہے کمہ جمب تمک چاہیمں اس پمر قائم رہیمں اور‬
‫جب چاہیں توڑ دیں۔‘‘‬

‫کاسانی‪ ،‬بدائع الصنائع‪112 : 7 ،‬‬

‫ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ‬


‫نہیں ٹوٹتا‪ ،‬حتی کہ جزیہ بند کر دینا‪ ،‬مسلمان کو قتل کرنا‪ ،‬یا‬
‫کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق‬
‫میں ناقض ذمہ نہیں ہے البتہ صرف تین صورتیں ایسی ہیں‬
‫جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا‪ ،‬ایک یہ کہ وہ مسلمان ہو‬
‫جائے دوسری یہ کہ وہ دارالسلم سے نکل کر دشمنوں سے‬
‫ت اسلمیہ کے خلف علنیہ بغاوت‬
‫جا ملے‪ ،‬تیسری یہ کہ حکوم ِ‬
‫کر دے۔‬

‫کاسان‪ ،‬بدائع الصنائع‪113 : 7 ،‬‬

‫‪ 13‬۔ جنگی قیدیوں ک ے حقوق‬


‫اسلم نے جنگی قیدیوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔‬
‫جنمگ بدر کمے ایمک قیدی کما بیان ہے اللہ تعالیمٰ مسملمانوں پمر‬
‫رحم کرے‪ ،‬یہ اپنے اہل و عیال سے اچھا کھانا ہمیں کھلتے تھے‬
‫اور اپنمے گھ ھر کمے لوگوں سمے کہیمں زیادہ ہماری آسمائش کما‬
‫خیال رکھتے تھے۔ مخالفین سے یہ سلوک اس لیے کیا جاتا تھا‬
‫کہ اسلم دُشمن کو بھی تکریم انسانیت کا مستحق سمجھتا‬
‫ہے اور کسمی کمے فکمر اور عقیدے میمں جمبر و جور کمے ذریعمے‬
‫تبدیلی پسند نہیں کرتا‪ ،‬اس کا واضح ارشاد ہے ‪:‬‬

‫لَ إِكْرَاهَ فِي الدّينِ‪.‬‬


‫’’دین کے معاملہ میں جبر روا نہیں۔‘‘‬

‫القرآن‪ ،‬البقرة‪256 : 2 ،‬‬

‫جب دین کے معاملے میں جبر روا نہیں تو یہ کیونکر ممکن‬


‫ہے کہ غیر مسلموں کو انسانی حقوق سے محروم کر دیا‬
‫جائے؟‬

‫ت نبوی اور اقلیتوں‬


‫‪ 14‬۔ معا ہدا ِ‬
‫ک ے حقوق‬
‫حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جن‬
‫غیر مسلم قبائل نے غیر مسلم ہوتے ہوئے جزیرۃ العرب میں‬
‫اسلمی حکومت کی رعایا کے طور پر رہ نا پسند کیا حضور‬
‫نبمی اکرم صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم نمے اُن سمے کئی معاہدے‬
‫کیے جو اسلمی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی مختلف‬
‫جہات کما اظہار کرتمے ہیمں ان میمں سمے چنمد معاہدات حسمب‬
‫ذیل ہیں ‪:‬‬

‫نجران ک ے عیسائیوں س ے معا ہد ہ‬


‫بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔‬
‫ی مہ معاہدہ محمممد رسممول اللہ صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم کممی‬
‫ل نجران کے لیے ہے۔‬ ‫طرف سے اہ ِ‬
‫‪.1‬ان ک مے پھلوں‪ ،‬سممونے چاندی‪ ،‬غلم اور اُن اشیاء ک مے‬
‫سماتھ ہر قسمم کمے مال کمے عوض میمں ان پمر مندرجمہ‬
‫ذیل خراج عائد کیا جاتا ہے۔‬
‫‪‬ا) دو ہزار یمنممی حلے (دو قسممطوں میممں) ماہ رجممب‬
‫میں ایک ہزار‪ ،‬ماہ صفر میں ایک ہزار۔‬
‫‪‬ب) اور ایک حلہ کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی۔‬
‫‪.2‬مقررہ مقدار خراج میممں کسممی شممے کممی کمممی اور‬
‫دوسری شے کی بیشی پر جمع و منہا لزم ہو گا۔‬
‫ل نجران عائد شدہ نصمممممماب (حلہ جات اور‬ ‫‪.3‬اگممممممر اہ ِ‬
‫چاندی) کے عوض میں اجناس داخل کرنا چاہئیں۔ تو‬
‫بدل مبدل منمہ دونوں کمی قیممت میمں کممی بیشمی کما‬
‫لحاظ ضرور ہو گا۔‬
‫ل نجران پمر میرے تحصمیلدارو ں کمی مہمان نوازی‬ ‫‪.4‬اہ ِ‬
‫اور تکریمم بیمس سمے لے کمر تیمس دن تمک واجمب ہے۔‬
‫اس کے بعد اُنہیں اپنے ہاں روکا نہ جائے۔‬
‫‪.5‬ہماری طرف سمے یمممن اور معرہ پممر حملہ کمے وقممت‬
‫اُنہیں ہم کو ‪:‬‬
‫‪‬الف۔ تیس گھوڑے‬
‫‪‬ب۔ ‪ 30‬زرہیں عاریتہ دینا ہوں گی۔‬
‫جمن کمے اتلف پمر ان کمی قیممت اور شکسمت و ریخمت کمے‬
‫ہمارے تحصیل دار ذمہ دار ہوں گے۔‬
‫ل نجران کمے سماتھ ان کمے ہمسمایہ حلیفوں کمے لیمے‬ ‫‪.6‬اہ ِ‬
‫بھھی محممد رسمول اﷲ صملی اللہ علیمہ وآلہ وسملم اپنمی‬
‫طرف سے مندرجہ ذیل اشیاء میں تلفی کے ذمہ دار‬
‫ہیں۔‬
‫‪‬الف۔ وطمن اور وطمن کمے باہر ہر دو جگہوں میمں ان‬
‫کے اموال و نفوس کے اتلف پر۔‬
‫‪‬ب۔ ان کے مذہب اور ان کے قرابت داروں کی تذلیل‬
‫و تحقیر پر۔‬
‫‪.7‬ان کمے پادری‪ ،‬گوشمہ نشینوں اور کاہنوں پمر گرفمت نمہ‬
‫ہو گی۔‬
‫‪.8‬ان کمی ماتحتمی کمی وجمہ سمے ان پمر کسمی قسمم کمی‬
‫کہتری عائد نہ ہوگی۔‬
‫‪.9‬وہ قبل از اسلم کے قتل کے مواخذہ سے بری ہیں۔‬
‫‪.10‬وہ ہماری جنگوں میں شرکت سے مستثنیٰ ہیں۔‬
‫‪.11‬ہمارا لشکر ان پر حملہ نہ کرے گا۔‬
‫‪.12‬ہماری عدالت میممں دعوے پیممش کرن مے پممر ان س مے‬
‫انصاف کیا جائے گا۔‬
‫‪.13‬ان میں سے جو شخص اپنے خاندان سے سود لے گا‬
‫وہ ہماری ذمہ داری سے محروم ہے۔‬
‫‪.14‬کسی فرد کی دوسرے فرد کے عوض میں گرفت نہ‬
‫ہو گی۔‬

‫‪ .1‬بلذري ‪ :‬فتوح البلدان ‪90 - 89 :‬‬


‫‪ .2‬ممد حيد ال‪ ،‬الوثائق السياسة ‪ ،140 :‬وثيقه ‪94 :‬‬
‫ل نجران سے ہوا کہ جس‬ ‫بالکل اسی طرح کا ایک عہد نامہ اہ ِ‬
‫میمں مذہبمی آزادی کمی اس سمے بھھی زیادہ وضاحمت کمی گئی‬
‫ہے۔ جس کو بلذری نے فتوح البلدان میں تحریر کیا ہے۔ جس‬
‫میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ لکھ کر‬
‫دیا ‪:‬‬

‫ولنجران و حاشيت ها جوار ال و ذ مة م مد ال نب ر سول ال‬


‫(صنلي ال علينه وآله وسنلم) علي انفسنهم و ملتهنم و‬
‫ارضهم و اموالم و غائبهم و شاهدهم و غيهم و بعثهم و‬
‫أمثلت هم ل يغ ي ما کانوا عل يه ول يغ ي حق من حقوق هم و‬
‫امثلتهم ل يفت اسقف من اسقفيته ول راهب من رهبانيته‬
‫ول واقه من وقاهيته علي ما تت ايديهم من قليل او کثي‬
‫وليس عليهم رهق‪.‬‬
‫ل نجران اور ان کممے حلیفوں کممے لیممے اللہ اور‬‫’’اہ ِ‬
‫محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی‬
‫جانوں ان کے مذہب ان کی زمینوں ان کے اموال۔‬
‫ان کمے موجود اور غیمر موجود‪ ،‬ان کمے مواشمی اور‬
‫قافلے اور اُن کے استہان وغیرہ کے ذمہ دار ہ یں اور‬
‫جمس دیمن پمر وہ ہیمں اس سمے ان کمو نمہ پھیرا جائے‬
‫گمما۔ ان کممے حقوق اور اُن کممی عبادت گاہوں کممے‬
‫حقوق میمں کوئی تبدیلی نمہ کمی جائے گمی۔ کسمی‬
‫پادری‪ ،‬راہب یما سمردار کمو اس کمے عہدے سمے نمہ‬
‫ہٹایا جائے اور ان کو کوئی خوف نہ ہو گا۔‘‘‬

‫بلذري‪ ،‬فتوح البلدان ‪90 :‬‬


‫ان معاہدات سے اقلیتوں کے حقوق کا جو خاکہ سامنے آتا ہے‬
‫وہ یہ کہ ‪:‬‬
‫‪‬ا) اسلمی حکومت کے ماتحت رہ نے والی غیر مسلم‬
‫رعایا کو مساوی قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫‪‬ب) ان کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض نہ یں کیا‬
‫جا سکتا۔‬
‫‪‬ج) ان کمممے اموال‪ ،‬ان کمممی جان اوران کمممی عزت و‬
‫آبرو کی حفاظت اسلمی حکومت کے ذمہ ہوتی ہے۔‬
‫‪‬د) اسلمی حکومت کے اندرونی استحکام کی خاطر‬
‫خلیفمہ یما سمربراہ مملکمت ل یفتمن واقمہ ممن واقھیمۃ کمے‬
‫ماتحمت انہیمں انتظاممی اُمور کمے عہدے جمس حمد تمک‬
‫مناسب سمجھے تفویض کر سکتا ہے۔‬
‫‪‬ہ) اپنے مذہ بی عہدے دار وہ خود متعین کرنے کے مجاز‬
‫ل احترام ہیں۔‬‫ہیں اور ان کی عبادت گاہیں قاب ِ‬
‫حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ‬
‫ل یغیمر حمق ممن حقوقھھم و امثلتھھم۔ تمو اس کما مطلب بھھی‬
‫یہی ہے کمہ ان کمی عبادت گاہوں میمں کسمی قسمم کما تغیمر نمہ‬
‫کیا جائے اور ان کا احترام بہر حال قائم رکھا جائے گا۔‬
‫ان سب چیزوں کے عوض غیر مسلم رعایا اسلمی حکومت‬
‫کمو کیما دے گمی؟ وہی کچمھ جمو مسملم رعایما دیتمی ہے۔ جمو‬
‫محاصل مسلم دے گا اس کا نام زکوٰۃ و عشر ہو گا اور جو‬
‫محاصل غیر مسلم رعایا دے گی وہ جزیہ یا خراج کہلئے گا۔‬
‫یمہ اسملمی بیمت المال میمں جممع ہونمے والی رقوم کمی الگ‬
‫الگ دو مدوں کے نام ہیں‪ ،‬اس میں کسی کہتری یا برتری کا‬
‫کوئی تصمور نہیمں ہے‪ ،‬جزیمہ محافظمت کمی جزا ہے جسمے ادا‬
‫کرنمے کمے بعمد غیمر مسملم رعایما جنگمی خدمات سمے مسمتثنیٰ‬
‫ہو جاتمی ہے اور اسملمی حکوممت ان کمے مال‪ ،‬جان اور آبرو‬
‫کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔‬
‫ت صدیقی اور اقلیتوں‬
‫‪ 15‬۔ خلف ِ‬
‫ک ے حقوق‬
‫وہ معاہدات جمو دورِ صمدیقی میمں ہوئے اگرچمہ ان کمی تعداد‬
‫کثیمر ہے۔ یہاں ان میمں سمے چنمد ایسمے معاہدے نقمل کیمے جاتمے‬
‫ہیمں جمن میمں تمام کما خلصمہ آجاتما ہے۔ حضرت خالد بمن ولیمد‬
‫ب فرمان خلیفمۂ اوّل دمشمق اور‬ ‫رضمی اللہ عنمہ نمے جمب حسم ِ‬
‫شام کمی سمرحدوں سمے عراق اور ایران کمی طرف لوٹمے تمو‬
‫راستے میں باشندگان عانات کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ‪:‬‬

‫ل عانات س ے معا ہد ہ‬
‫( ‪ )1‬ا ہ ِ‬
‫‪.1‬ان کے گرجے اور خانقاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی۔‬
‫‪.2‬وہ ہماری نماز پنجگانمہ کمے سموا ہر وقمت اپنما ناقوس‬
‫بجاسکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں۔‬
‫‪.3‬وہ اپنی عید پر صلیب نکال سکتے ہیں۔‬
‫‪.4‬مسلمان مسافر کی تین دن ضیافت کریں اور‬
‫‪.5‬وقممت پڑنممے پممر مسمملمانوں کممی جان و مال کممی‬
‫نگہداشت کریں‪.‬‬

‫‪ .1‬ممد حيد ال‪ ،‬الوثائق السياسة‪ ،323 ،‬وثيقه ‪298 :‬‬


‫‪ .2‬امام ابو يوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪145 :‬‬

‫ل حیر ہ س ے معا ہد ہ‬
‫( ‪ )2‬ا ہ ِ‬
‫ل حیرہ سمے حضرت خالد بممن ولیممد رضممی اللہ عنمہ نمے جممو‬
‫اہ ِ‬
‫ب ذیل ہیں ‪:‬‬‫معاہدہ کیا اس کی دفعات حس ِ‬
‫‪.1‬کسمی کافمر کمی مسملمانوں کمے خلف اعانمت ممت‬
‫کرو۔‬
‫‪.2‬مسلمانوں کی مخالفت نہ کرو۔‬
‫‪.3‬ہمارے دُشمن کو ہمارے خفیہ راز مت بتاؤ۔‬
‫‪.4‬اگمر وہ ان دفعات کمی پابندی نمہ کریمں گمے تمو ہماری‬
‫طرف سمے بھ ھی ان کمی امان دہی کما معاہدہ ختمم ہو‬
‫جائے گا۔‬
‫‪.5‬اور ایفائے عہد کی صورت میں جس میںادائے ٹیکمس‬
‫(جزیمہ) بھھی شاممل ہے۔ ہم ان کمی کسمی بھھی وقمت‬
‫امانمت اور حمایمت میمں سمبقت کرنمے سمے دریمغ نمہ‬
‫کریں گے۔‬
‫‪.6‬اگر وہ ہمارے ماتحت رہے تو ان کے لیے جملہ مراعات‬
‫ل ذمہ کے لیے ہیں۔‬
‫ہوں گی‪ ،‬جو اہ ِ‬
‫درج ذیل اشخاص کا جزیہ (محاصل) معاف ہے ‪:‬‬
‫‪.1‬ان بوڑھوں کا جو کام کاج نہیں کر سکتے۔‬
‫‪.2‬آسمانی آفات کے ہاتھوں تباہ شدگان کا۔‬
‫‪.3‬اس فقیر کا جو خیرات پر گذر اوقات کرتا ہے۔‬
‫‪.4‬متذکرہ بال تیمن قسمم کمے اشخاص کمو اسملمی بیمت‬
‫المال سے وظیفہ ملے گا‪ ،‬بشرطیکہ وہ مفتوحہ علقے‬
‫سمے کسممی غیممر جگ مہ منتقممل ن مہ ہوں (اگرچ مہ وہ غیممر‬
‫مسلم ہی رہیں)۔‬
‫‪.5‬لباس میں ذمی لوگ فوجی لباس کے سوا جو چاہیں‬
‫پہنیں۔‬
‫‪.6‬فوجی لباس پہننے کی صورت میں مقدمہ چلے گا اگر‬
‫وہ عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو جرم کے مطابق‬
‫ان کو سزا دی جائے گی۔‬
‫‪.7‬اگمر وہ مسملمانوں سمے کسمی قسمم کمی اعانمت کمے‬
‫طلب گار ہوں‪ ،‬خواہ مال ہی ہو اس سمے دریمغ نمہ کیما‬
‫جائے گا۔‬
‫‪ .1‬ممد حيد ال‪ ،‬الوثائق السياسة‪ ،316 ،‬وثيقه ‪291 :‬‬
‫‪ .2‬ابويوسف‪ ،‬کتاب الراج ‪155 :‬‬

‫(‪ )3‬حضرت ابوبکر صدیق رضی‬


‫الل ہ عن ہ کی ہدایات‬
‫حضرت ابوبکمر صمدیق رضمی اللہ عنمہ کمی بہت سمی ہدایات‬
‫ہمیں ملتی ہ یں جو آپ نے لشکر اسلم کے سپہ سالروں کو‬
‫تحریری طور پممر یمما زبانممی دیممں۔ ان میممں سممب سمے جامممع‬
‫ہدایات وہ ہیممں جممو آپ نمے شام بھیجممی جانمے والی فوج کمے‬
‫سالروں کو دی تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا ‪:‬‬

‫أوصيکم بتقوي ال اغزوا ف سبيل ال فقاتلوا من کفر بال‬


‫نننردينه ول تغلوا ول تغدروا ول تبنوا ول‬
‫فإن ال ناصن‬
‫تفسندوا فن الرض ول تعصنوا ماتؤمرون‪ . . .‬ول تغرقنن‬
‫نل ول ترقنها ول تعقروا بيمة ول شجرة تثمر ول تدموا‬
‫بي عة ول تقتلوا الولدان ول الشيوخ ول الن ساء و ستجدون‬
‫اقوا ما حب سوا انف سهم ف ال صوامع فد عو هم و ما حب سوا‬
‫انف سهم له و ستجدون آخر ين ات ذ الشيطان ف رؤو سهم‬
‫أفحاصا فإذا وجدت اولئک فاضربوا اعناقهم‪.‬‬
‫’’میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرتے رہنے کی وصیت‬
‫کرتما ہوں اللہ کمے راسمتے میمں جہاد کرو جمن لوگوں‬
‫نمے خدا کمو ماننمے سمے انکار کردیما ہے ان سمے جنمگ‬
‫کرو۔ یقینا ً اللہ تعالیمٰ اپنمے دیمن کمی نصمرت فرمائے‬
‫گما غلول (مال غنیممت میمں چوری کرنما) نمہ کرنما‪،‬‬
‫غداری نہ کرنا‪ ،‬بزدلی نہ دکھانا زمین میں فساد نہ‬
‫مچانما اور احکامات کمی خلف ورزی نمہ کرنما‪ ،‬۔ ۔ ۔‬
‫کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ انہیں جلنا چوپایوں‬
‫کو ہلک نہ کرنا اور نہ پھلدار درخت کو کاٹنا‪ ،‬کسی‬
‫عبادت گاہ کمو ممت گرانما اور نمہ ہی بچوں‪ ،‬بوڑھوں‬
‫اور عورتوں کمو قتمل کرنما‪ ،‬تمہیمں بہت سمے ایسمے‬
‫لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ‬
‫کمو محبوس کمر رکھھا ہے اور دنیما سمے ان کما کوئی‬
‫تعلق نہیمں ہے انہیمں ان کمے حال پمر چھوڑ دینما۔ ان‬
‫کمے علوہ تمہیمں کچمھ دوسمرے لوگ ملیمں گمے جمو‬
‫شیطانی سوچ کے حامل ہیں (یہ لوگ گرجا گھروں‬
‫کمے خدام کہلتمے ہیمں لیکمن لوگ جنمگ میمں ان کمے‬
‫مشوروں پمر عممل کرتمے ہیمں) جمب تمہیمں ایسمے‬
‫لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑا دو۔‘‘‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪85 : 9 ،‬‬


‫‪ .2‬مالک‪ ،‬موطا‪247 : 2 ،‬‬
‫‪ .3‬عبدالرزاق‪ ،‬الصنف‪199 : 5 ،‬‬
‫‪ .4‬سعيد بن منصور‪ ،‬السنن‪5800 : 3 .2 ،‬‬
‫‪ .5‬حسام الدين‪ ،‬کنالعمال‪296 : 1 ،‬‬
‫‪ .6‬ابن قدامه‪ ،‬الغن‪477 ،452 .451 : 8 ،‬‬
‫‪ .7‬ابن حزم ‪ :‬الحلي‪297 ،296 ،294 : 7 ،‬‬

‫ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‪:‬‬

‫ل تربوا عامرا ول تذبوا بعيا ول بقرة إل لأکل‪.‬‬


‫’’کسمی آباد جگمہ کمو ممت اجاڑو اور کسمی گائے یما‬
‫اونممٹ کممو ہلک نمہ کرو سمموائے اسممکے کمہ اس کمے‬
‫گوشت کی تمہیں ضرورت ہو‘‘۔‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪90 : 9 ،‬‬


‫‪ .2‬ابن حزم‪ ،‬الحلي‪297 ،296 ،294 : 7 ،‬‬
‫‪ .3‬حسام الدين‪ ،‬کن العمال‪296 : 1 ،‬‬

‫ت فاروقی اور اقلیتوں‬


‫‪ 16‬۔ خلف ِ‬
‫ک ے حقوق‬
‫حضرت عممر فاروق رضمی اللہ عنمہ کمے دورخلفمت میمں بھھی‬
‫اقلیتوں کے حقوق کا قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق‬
‫تحفمظ کیما گیما۔ آپ کمے دور خلفمت میمں بھ ھی اقلیتوں سمے‬
‫ل ماہ بہر اذان سممے‬
‫کئی معاہدے ہوئے جممن میممں سممے اہم اہ ِ‬
‫معاہدہ ہے ‪:‬‬

‫ل ما ہ ب ہر اذان س ے معا ہد ہ‬
‫اہ ِ‬
‫ل ماہ بہر اذان سممے سممیدنا‬
‫حضرت نعمان بممن مقرن نممے اہ ِ‬
‫حضرت عمرِ فاروق رضممی اللہ عنممہ کممے دورِ خلفممت میممں‬
‫معاہدہ کیا‪ ،‬جس کی توثیق آپ نے فرمائی۔ اس معاہدے میں‬
‫اقلیتوں کے متعلق درج ذیل دفعات شامل تھیں ‪:‬‬
‫‪.1‬ان ک مے اموال‪ ،‬نفوس اور اراضممی ہر ایممک پممر ان کمما‬
‫قبضہ بدستور تسلیم کیا جاتا ہے۔‬
‫‪.2‬انہ یں نہ تو ان کے دین سے ہٹایا جائے گا اور نہ ان کی‬
‫شریعت سے تعرض کیا جائے گا۔‬
‫‪.3‬اُنہ یں ہر سال ایک مرتبہ جزیہ (حکومتی محاصل) ادا‬
‫کرنما ہو گما‪ ،‬یمہ جزیمہ ہمارے مقرر کردہ امیمر کمو دینما ہو‬
‫گما۔ جزیمہ کمے عوض ان کمی حمایمت و حفاظمت کمی‬
‫جائے گی۔‬
‫‪.4‬جزیہ ہر شخص کی وسعت مالی کے مطابق ہو گا۔‬
‫‪.5‬جزیہ کے مکلّف صرف بالغ مرد ہوں گے۔‬
‫‪.6‬اُنہیں نووارد مسافروں کی رہنمائی کرنا ہو گی۔‬
‫‪.7‬گذر گاہوں کی حفاظت ان کے ذمہ ہو گی۔‬
‫‪.8‬مسلمان فوجی دستوں کی ایک دن کی مہمانی اور‬
‫قیام کا انتظام کرنا ہو گا۔‬
‫‪.9‬اگممر اُنہوں نممے کسممی معاملہ میممں دھوکمما دیمما یمما اُن‬
‫شرائط میں کمی کی تو امان کی ذمہ داری ختم ہو‬
‫جائے گی۔‬

‫ممد حيد ال‪ ،‬الوثائق السياسة ‪ ،358 :‬وثيقه ‪331 :‬‬

‫حضرت عممر رضمی اللہ عنمہ کمو آخری لمحمے تمک اقلیتوں کما‬
‫خیال تھ ھا۔ حالنکمہ ایمک اقلیتمی فرقمہ ہی کمے فرد نمے آپ کمو‬
‫شہید کیا۔ اس کے باوجود آخری وقت ارشاد فرمایا ‪:‬‬

‫او صي اللي فة من بعدي بذ مة ال و ذ مة ر سوله صلي ال‬


‫عليه وآله وسلم أن يوف لم بعهدهم و أن يقاتل من ورائهم‬
‫و أن ل يکلفوا فوق طاقتهم‪.‬‬
‫’’یعنی میں اپنے بعد والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے‬
‫رسممول صمملی اللہ علی مہ وآلہ وسمملم ک مے ذم مہ میممں‬
‫آنیوالوں (اقلیتوں) ک مے بارے میممں ی مہ وصممیت کرتمما‬
‫ہوں کممہ وہ ان سممے کیممے ہوئے وعدے پورے کرے اور‬
‫ان کممی حفاظممت کمے لیمے لڑے اور اُن کممو اُن کممی‬
‫طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے۔‘‘‬
‫‪ .1‬باري‪ ،‬الصحيح‪ ،‬کتاب النائز‪ ،‬باب ما جاء ف قب النب صلي ال عليه وآله وسلم‪1 ،‬‬
‫‪ ،469 :‬رقم ‪1328 :‬‬
‫‪ .2‬باري‪ ،‬الصحيح‪ ،‬کتاب الناقب‪ ،‬باب قصة البيعة‪ ،1356 : 3 ،‬رقم ‪3497 :‬‬
‫‪ .3‬ابن اب شيبه‪ ،‬الصنف‪ ،436 : 7 ،‬رقم ‪37059 :‬‬
‫‪ .4‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪150 : 8 ،‬‬
‫‪ .5‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪206 : 9 ،‬‬
‫‪ .6‬ازدي‪ ،‬الامع‪109 : 11 ،‬‬
‫‪ .7‬ابن سعد‪ ،‬الطبقات الکبيٰ‪339 : 3 ،‬‬
‫‪ .8‬خلل‪ ،‬السنه‪ ،116 : 1 ،‬رقم ‪62 :‬‬
‫‪ .9‬شوکان‪ ،‬نيل الوطار‪160 ،159 : 6 ،‬‬

‫حضرت عمر رضی اللہ عنہ باہر سے آنے والے لوگوں سے‬
‫وہاں کی اقلیتوں کے بارے میں برابر پوچھتے رہتے تھے۔ ایک‬
‫دفعہ بصرہ سے آنے والے اقلیتوں کے ایک وفد سے دریافت‬
‫فرمایا ‪:‬‬

‫لعل السلمي يفضون ال اهل الذمة بأذي‪ . . .‬فقالوا ‪ :‬ما‬


‫نعلم ال وفاء‪.‬‬
‫’’شاید مسلمان اقلیتوں کو کچھ تکالیف دیتے ہیں۔‬
‫ل ذممہ نمے) کہا ہم نمے عہد کمی پابندی کمے‬
‫۔ ۔ (تمو اہ ِ‬
‫علوہ ان میں کچھ نہیں دیکھا۔‘‘‬

‫طبي‪ ،‬تاريخ المم واللوک‪503 : 2 ،‬‬

‫یعنی مسلمانوں نے ہم سے جو معاہدہ کیا ہے اُسے پورا کر‬


‫رہے ہیں۔‬
‫ت عثمانی اور اقلیتوں‬
‫‪ 17‬۔ خلف ِ‬
‫ک ے حقوق‬
‫ت راشدہ کمما تیسممرا دور شروع ہی ایممک ایس مے المناک‬‫خلف ِ م‬
‫حادثہ سے ہوا کہ ایک غیر مسلم نے خلیفۂ وقت پر قاتلنہ حملہ‬
‫کیما اور خلیفمہ جانمبر نمہ ہو سمکے‪ ،‬آپ کمے صماحبزادے حضرت‬
‫عبید اللہ نے غصہ میں آ کر قتل کی سازش میں ملوث تین‬
‫آدمیوں کمو قتمل کمر دیما‪ ،‬جمن میمں سمے ایمک مسملمان اور دو‬
‫غیر مسلم عیسائی تھھے‪ ،‬حضرت عبید اللہ کو گرفتار کر لیا‬
‫گیا۔ خلیفہ ثالث نے مسند خلفت پر بیٹھ تے ہی سب سے پہلے‬
‫اس معاملہ کممے بارے میممں صممحابہ کرام سممے رائے لی‪ ،‬تمام‬
‫صحابہ کی رائے یہ تھی کہ عبید اللہ کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن‬
‫بعد میں خون بہا پر مصالحت ہو گئی اور خون بہا (دیت) کی‬
‫رقم تینوں مقتولین کے لیے برابر برابر مقرر کی گئی۔‬

‫ابن سعد‪ ،‬الطبقات الکبيٰ‪17 : 5 ،‬‬

‫اس سمے معلوم ہوا کمہ اسملمی ریاسمت میمں مسملمانوں اور‬
‫غیمر مسملم اقلیتوں کمے خون کمی حرممت برابر ہے۔ حضرت‬
‫عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانۂ خلفت بھھی اقلیتوں کے حقوق‬
‫ک مے تحفممظ ک مے شاندار ریکارڈ کمما حامممل ہے۔ آپ ک مے زمان مہ‬
‫خلفت میں کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ کے دربار میں ایک‬
‫یہودی شعبدہ بازی کے کرتب دکھھا رہا تھھا‪ ،‬حضرت جندب بن‬
‫کعممب ازدی بھھھھی تماشائیوں میممں تھھھھے‪ ،‬آپ کمما شمار کبار‬
‫تابعیمن میمں ہوتما تھ ھا‪ ،‬آپ نمے ان شعبدوں کمو شیطانمی اثمر‬
‫سمجھا اور یہودی کو قتل کر دیا۔ ولید نے اسی وقت آپ کو‬
‫گرفتار کمر لیما اور قصماص میمں قتمل کرنمے کمے لیمے جیمل بھیمج‬
‫دیا۔ آپ نے داروغہ جیل ابوسنان سے پوچھھا کہ کیا تو بھاگنے‬
‫میممں میری مدد کرے گمما۔ اس ن مے کہا ‪ :‬ہاں اور پھھھر حضرت‬
‫جندب کو جیل سے بھاگنے میں مدد دیتے ہوئے کہا ‪ :‬یہاں سے‬
‫بھاگ جا اللہ تعالیٰ تیرے بارے مجھ سے کچھ نہ پوچھے گا۔‬
‫جب ولید نے آپ کو قتل کرنے کے لیے طلب کیا تو معلوم ہوا‬
‫کمہ آپ تمو بھاگ گئے ہیمں۔ ولیمد نمے داروغمہ کمو نگرانمی میمں‬
‫کوتاہی کرنے کے جرم میں قتل کر دیا۔‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪136 : 8 ،‬‬


‫‪ .2‬مزي‪ ،‬تذيب الکمال‪146 : 5 ،‬‬

‫ت مرتضوی اور اقلیتوں‬


‫‪ 18‬۔ خلف ِ‬
‫ک ے حقوق‬
‫حضرت علی المرتضمی رضمی اللہ عنمہ کما دور بہت پمر آشوب‬
‫تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ کے دور خلفت میں اقلیتوں کے‬
‫حقوق کو کوئی گزند نہ یں پہنچنے دی گئی۔ ایک دفعہ آپ کے‬
‫پاس ایمک مقدممہ آیما جمس میمں قاتمل مسلمان تھھا اور مقتول‬
‫غیر مسلم ت ھا۔ آپ نے قاتل کو مقتول کے وارثوں کے سپرد‬
‫کر دینے کا حکم دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتویٰ‬
‫پر فیصلہ کیا۔ مگر مقتول کے وارثوں نے دیت لے کر قاتل کو‬
‫چھوڑ دینما چاہا۔ جمب حضرت علی رضمی اللہ عنمہ کمو یمہ بات‬
‫معلوم ہوئی تمو آپ نمے مقتول کمے ورثاء کمو بل کمر پوچھھا کمہ‬
‫تمہارے اُوپر کوئی دباؤ تو نہ یں ڈال گیا‪ ،‬تو اُنہوں نے عرض کیا‬
‫کمہ نہیمں ہم پمر کوئی دباؤ نہیمں ڈال گیما۔ تب آپ نمے وہ دیمت دل‬
‫دی جو مسلمانوں کی دیت کے برابر تھی اور فرمایا ‪:‬‬

‫من کان له ذمتنا فدمه کدمنا و ديته کديتنا‪.‬‬


‫’’یعنی جو غیر مسلم ہماری ذمہ داری میں ہے اس‬
‫کمما خون ہمارے خون جیسمما ہے اور اس کممی دیممت‬
‫بھ ھی ہماری یعنمی مسملمانوں کمی دیمت کمے برابر‬
‫ہے۔‘‘‬

‫‪ .1‬بيهقي‪ ،‬السنن الکبيٰ‪34 : 8 ،‬‬


‫‪ .2‬شافعي‪ ،‬السند‪344 : 1 ،‬‬
‫‪ .3‬شيبان‪ ،‬الجة‪355 : 4 ،‬‬
‫‪ .4‬زيلعي‪ ،‬نصب الراية‪337 : 4 ،‬‬
‫‪ .5‬شافعي‪ ،‬الم‪321 : 7 ،‬‬
‫‪ .6‬عسقلن‪ ،‬الدرايه ف تريج احاديث الدايه‪263 : 2 ،‬‬

‫اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی‬


‫گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلفممممممت راشدہ میممممممں‬
‫اقلیتوں کمے حقوق کمے احترام و تحفمظ کمے ان روشمن نظائر‬
‫سمے یمہ حقیقمت واضمح ہوجاتمی ہے کمہ مسملم ریاسمت میمں‬
‫اقلیتوں کو وہ تحفظ اور حقوق حاصل ہیں جن کا تصور بھی‬
‫کسممی دوسممرے معاشرے میممں نہیممں کیمما جمما سممکتا۔ معروف‬
‫مستشرق واٹ اس کا اعتراف یوں کرتا ہے ‪:‬‬
‫‪The Christian were probably better off as Dhimis under Muslim Arab rulers than‬‬
‫(‪they had been under the Byzantine Greek.)1‬‬

‫’’(مسملمانوں کمے دور اقتدار میمں)‬


‫عیسممائی‪ ،‬عرب مسمملم حکمرانوں‬
‫کے اقتدار میں بطور ذمی اپنے آپ‬
‫کو یونانی بازنطینی حکمرانوں کی‬
‫رعیت میں رہ نے سے زیادہ محفوظ‬
‫اور بہتر سمجھتے تھے۔‘‘‬

You might also like