You are on page 1of 199

‫دیوانن غالبب کامل‬

‫) نسخۂ رضاب(‬

‫تاریخی ترتیب سے‬

‫کالی داس گپتا رضا‬


‫تحقیق‪ ،‬ترتیب اور ٹائپنگ‪ :‬اویس قرنی )المعروف بہ چھوٹا غالب(‬

‫فہرست‬

‫از ۔۔۔ ۔۔۔ تا ‪ 1812‬ء‬ ‫‪7‬‬


‫‪ 16‬تا ‪1816‬ء ‪1813‬‬
‫‪ 273‬رباعیات‬
‫بعد از ‪1816‬‬ ‫‪277‬‬
‫‪ 296‬ء ‪1821‬‬
‫قصائد‬ ‫‪297‬‬
‫‪ 317‬غزلیات‬
‫‪ 379‬رباعیات‬
‫‪ 380‬بعد از ‪1821‬ء‬
‫‪ 401‬ء ‪1826‬‬
‫بعد از ‪1826‬‬ ‫‪409‬‬
‫ء ‪1828/29‬‬ ‫‪424‬‬
‫‪ 429‬ء ‪1833‬‬
‫‪ 431‬غزلیات‬
‫‪ 439‬رباعیات‬
‫‪ 440‬ء ‪1835‬‬
‫‪ 443‬بعد از ‪ 1838‬ء‬
‫‪ 445‬غزلیات‬
‫‪ 447‬رباعیات‬
‫‪ 448‬ء ‪1841‬‬
‫‪ 450‬ء ‪1845‬‬
‫‪ 453‬ء ‪1847‬‬
‫‪ 455‬غزلیات‬
‫‪ 463‬بعد از ‪ 1847‬ء‬
‫‪ 467‬غزلیات‬
‫فروری ‪ 1848‬ء ‪21/22‬‬ ‫‪488‬‬
‫‪ 490‬ء ‪1849‬‬
‫‪ 495‬غزلیات‬
‫‪ 497‬ء ‪1850‬‬
‫‪ 499‬رباعیات‬
‫‪ 501‬ء ‪1851‬‬
‫‪ 502‬غزلیات‬
‫‪ 504‬ء ‪1852‬‬
‫قصیدہ‬ ‫‪505‬‬
‫قصیدہ‬ ‫‪511‬‬
‫سہرا‬ ‫‪517‬‬
‫سہرا‬ ‫‪521‬‬
‫‪ 533‬رباعیات‬
‫‪ 534‬ء ‪1853‬‬
‫در مدنح شاہ‬ ‫‪535‬‬
‫‪ 537‬مخمس‬
‫‪ 541‬غزلیات‬
‫سلم‬ ‫‪556‬‬
‫‪1853/54‬‬ ‫‪559‬‬
‫‪ 561‬ء ‪1854‬‬
‫‪ 568‬دسمبر ‪ 1854‬ء تا اپریل ‪ 1857‬ء‬
‫مطلع‬ ‫‪569‬‬
‫‪ 570‬ء ‪1855‬‬
‫مثنوی‬ ‫‪577‬‬
‫‪ 581‬غزلیات‬
‫‪ 585‬رباعیات‬
‫‪ 587‬ء ‪1856‬‬
‫‪ 587‬قادر نامہ‬
‫‪ 600‬ء ‪1857‬‬
‫‪ 602‬بعد از ‪1857‬ء‬
‫‪ 605‬قبل از ‪ 8‬فروری ‪ 1858‬ء‬
‫سہرا‬ ‫‪606‬‬
‫‪ 607‬ء ‪1858‬‬
‫قصیدہ‬ ‫‪608‬‬
‫ء تا دسمبر ‪ 1865‬ء ‪1858‬‬ ‫‪611‬‬
‫‪ 613‬قبل از ‪ 1860‬ء‬
‫مرثیہ‬ ‫‪614‬‬
‫‪ 616‬ء ‪1860‬‬
‫قطعہ‬ ‫‪617‬‬
‫ء ‪1860/61‬‬ ‫‪618‬‬
‫قطعہ‬ ‫‪619‬‬
‫‪ 621‬ء ‪1862‬‬
‫‪ 624‬رباعیات‬
‫‪ 625‬ء ‪1863‬‬
‫قصیدہ‬ ‫‪626‬‬
‫‪ 629‬ء ‪1864‬‬
‫مثنوی‬ ‫‪630‬‬
‫‪ 632‬دسمبر ‪ 1864‬ء تا ‪ 8‬جنوری ‪ 1868‬ء ‪25‬‬
‫قصیدہ‬ ‫‪633‬‬
‫‪ 637‬قبل از ‪ 1865‬ء‬
‫‪ 639‬ء ‪1865‬‬
‫قطعہ‬ ‫‪640‬‬
‫‪ 641‬غزلیات‬
‫ء تا ‪ 1867‬ء ‪1865‬‬ ‫‪644‬‬
‫‪ 646‬ء ‪1866‬‬
‫‪ 647‬غزلیات‬
‫‪ 648‬ء ‪1867‬‬
‫قصیدہ‬ ‫‪653‬‬
‫‪ 656‬اکتوبر ‪ /‬نومبر ‪ 1867‬ء‬
‫‪ 659‬بعد از ‪ 13‬جولئی ‪ 1867‬ء‬
‫شعر‬ ‫‪660‬‬
‫غالبب کے کچھ ہنگامی مصرعے اور شعر‬ ‫‪661‬‬
‫ف نا معتبر‬ ‫حر ن‬ ‫‪672‬‬
‫‪ 685‬لو صاحبو! میں بھی اپنی بھیرویں الپتا ہوں‬

‫از ۔۔۔ ۔۔۔ تا ‪ 1812‬ء‬

‫مثنوی‬
‫ایک دن مثل پتنگ کاغذی‬
‫لے کے دل سر رشتہ آزادگی‬
‫خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا‬
‫اس قدر بگڑا کہ سر کھانے گا‬
‫میں نے کہا اے دل‪ ،‬ہوائے دلبراں‬
‫بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں‬
‫پیچ میں ان کے نہ آنا زینہار‬
‫یہ نہیں ہیں گے کسو کے یار غار‬
‫گورے پنڈے پر‪ ،‬نہ کر‪ ،‬ان کے نظر‬
‫کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر‬
‫اب تو مل جائے گی تیری ان سے سانٹھ‬
‫لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ‬
‫سخت مشکل ہو گا سلجھانا تجھے‬
‫قہر ہے دل ان سے الجھانا تجھے‬
‫یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے‬
‫بھول مت اس پر اڑاتے ہیں تجھے‬
‫ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں‬
‫مفت میں نا حق کٹا دیں گے کہیں‬
‫دل نے سن کر‪ ،‬کانپ کر‪ ،‬کھا پیچ و تاب‬
‫غوطے میں جا کر دیا‪ ،‬کٹ کر جواب‬

‫"رشتہ در گردنم افگندہ دوست ٭٭ می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست"‬


‫٭٭٭‬

‫غزلیات‬

‫ب ہوس بہتر‬
‫نیاز عشق‪ ،‬خرمن سونز اسبا ن‬
‫جو ہو جاوے نثار برق مشت خار و خس بہتر‬

‫یاد آیا جو وہ کہنا‪ ،‬کہ نہیں‪ ،‬واہ غلط‬


‫کی تصور نے بہ صحرائے ہوس راہ غلط‬
‫٭٭‬

‫آئے ہیں پارہ ہائے جگر درمیان اشک‬


‫لیا ہے لعل بیش بہا‪ ،‬کاروان اشک‬
‫ظاہر کرے ہے جنبش مژگاں سے مدعا‬
‫طفلنہ ہاتھ کا ہے اشارہ‪ ،‬زبانن اشک‬
‫میں وادی طلب میں ہوا جملہ تن غرق‬
‫از بس کہ قطرہ زنی تھا بسانن اشک‬
‫رونے نے طاقت اتنی نہ چھوڑی کہ ایک بار‬
‫مژگاں کو دوں فشار‪ ،‬پئے امتحانن اشک‬
‫ب صد چمن بہار‬ ‫دل خستگاں کو ہے طر ن‬
‫ب روانن اشک‬ ‫بانغ بخون تپیدن‪ ،‬و آ ن‬
‫سیل بنائے ہستنی شبنم ہے آفتاب‬
‫چھوڑے نہ چشم میں‪ ،‬تپنش دل نشانن اشک‬
‫ہنگانم انتظانر قدونم بتاں‪ ،‬اسدب‬
‫ہے بر سر مژہ نگراں‪ ،‬دید بان اشک‬
‫٭٭‬

‫آنسو کہوں کہ‪ ،‬آہ‪ ،‬سوانر ہوا کہوں‬


‫ایسا عناں گسیختہ آیا کہ کیا کہوں‬
‫ت دنل بے مدعا رسا‬ ‫اقبانل کلف ن‬
‫اختر کو دانغ ساینہ بال ہما کہوں‬
‫مضمون وصل ہاتھ نہ آیا مگر اسے‬
‫اب طائر پریدہ رنگ حنا کہوں‬
‫عہدے سے مدنح ناز کے باہر نہ آ سکا‬
‫گر ایک ادا ہو‪ ،‬تو اسے اپنی قضا کہوں‬
‫حلقے ہیں‪ ،‬چشم ہائے کشادہ بسوئے دل‬
‫ہر تار زلف کو نگہ سرمہ سا کہوں‬
‫ظالم میرے گمان سے مجھے منفعل نہ چاہ‬
‫ہے ہے خدا نہ کردہ‪ ،‬تجھے بے وفا کہوں‬
‫دزدیدنن دنل ستم آمادہ ہے محال‬
‫مژگاں کہوں کہ جوہر تینغ قضا کہوں‬
‫طرز آفرینن نکتہ سرائی طبع ہے‬
‫آئینہ خیال کو طوطی نما کہوں‬
‫میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش‬
‫تو اور وہ ایک نشنیدن کہ کیا کہوں‬
‫غالبب ہے رتبہ فہم تصور سے کچھ پرے‬
‫ہے عجز بندگی کہ علی کو خدا کہوں‬
‫٭٭‬

‫ہوں‬ ‫مجلس شعلہ عذاراں میں جو آ جاتا‬


‫ہوں‬ ‫شمع ساں میں تہہ دامان صبا جاتا‬
‫گام‬ ‫ہووے ہے ‪ ،‬جادہ راہ‪ ،‬رشتہ گوہر ہر‬
‫ہوں‬ ‫جس گزرگاہ سے میں آبلہ پا جاتا‬
‫رہو‬ ‫سر گراں مجھ سے سسبک رو کے ‪ ،‬نہ‪ ،‬رہنے سے‬
‫ہوں‬ ‫کہ بیک جنبش لب‪ ،‬مثل صدا جاتا‬
‫٭٭‬

‫دیکھتا ہوں اسے ‪ ،‬تھی جس کی تمنا مجھ کو‬


‫ب زلیخا مجھ کو‬
‫آج بیداری میں ہے خوا ن‬
‫٭٭‬

‫شمشیر صا ن‬
‫ف یار‪ ،‬جو زہراب دادہ ہو‬
‫وہ خط سبز ہے کہ بہ رخسانر سادہ ہو‬
‫٭٭‬

‫ہنستے ہیں‪ ،‬دیکھ دیکھ کے ‪ ،‬سب‪ ،‬ناتواں مجھے‬


‫یہ رن ن‬
‫گ زرد‪ ،‬ہے چمنن زعفراں مجھے‬
‫٭٭‬

‫دیکھ وہ برنق تبسم‪ ،‬بس کہ‪ ،‬دل بیتاب ہے‬


‫دیدہ گریاں میرا‪ ،‬فوارہ سیماب ہے‬
‫کھول کر دروازۂ میخانہ‪ ،‬بول مے فروش‬
‫اب شکست توبہ میخواروں کو فتح الباب ہے‬
‫٭٭٭‬

‫جلے‬ ‫کے گھر‬ ‫اک گرم آہ کی تو ہزاروں‬


‫جلے‬ ‫ہم جگر‬ ‫رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر‬
‫اسدب‬ ‫کس لیے‬ ‫پروانے کا نہ غم ہو تو پھر‬
‫جلے‬ ‫تا سحر‬ ‫ہر رات‪ ،‬شمع‪ ،‬شام سے لے‬
‫٭٭‬

‫زخم دل تم دکھایا ہے کہ جی جانے ہے‬


‫ایسے ہنستے کو رلیا ہے کہ جی جانے ہے‬
‫٭٭‬

‫صبا لگا وہ طمانچے طرف سے بلبل کی‬


‫کہ روئے غنچہ گل‪ ،‬سوئے آشیاں پھر جائے‬
‫٭٭‬
‫بتو! توبہ کرو‪ ،‬تم کیا ہو؟ جب وہ ادبار آتا ہے‬
‫تو یوسف سا حسیں‪ ،‬بکنے سنر بازار آتا ہے‬
‫٭٭‬

‫طرز بیدل میں ریختہ کہنا‬


‫اسد االلہ خان قیامت ہے‬
‫٭٭٭‬

‫تا ‪1816‬ء ‪1813‬‬

‫نقش فریادی ہے کس کی شوخنی تحریر کا‬


‫کاغذی ہے پیرہن‪ ،‬ہر پیکنر تصویر کا‬
‫کاو کا نو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ‬
‫صبح کرنا شام کا‪ ،‬لنا ہے جوئے شیر کا‬
‫جذبہ بے اختیانر شوق دیکھا چاہیے‬
‫سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا‬
‫آگہی دانم شنیدن جس قدر چاہے بچھائے‬
‫مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا‬
‫ت طاؤس ہے‬ ‫شوخنی نیرنگ‪ ،‬صید وحش ن‬
‫دام‪ ،‬سبزے میں ہے ‪ ،‬پروانز چمن تسخیر کا‬
‫لذت ایجاد ناز‪ ،‬افسونن عرنض ذونق قتل‬
‫نعل‪ ،‬آتش میں ہے تینغ یار سے ‪ ،‬نخچیر کا‬
‫ت عجز و قالب آغونش وداع‬ ‫ت دس ن‬ ‫خشت پش ن‬
‫پر ہوا ہے سیل سے ‪ ،‬پیمانہ کس تعمیر کا‬
‫ب عدم‪ ،‬شور تماشا ہے ‪ ،‬اسدب‬ ‫ت خوا ن‬ ‫وحش ن‬
‫جز مژہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا‬
‫بسکہ ہوں غالبب اسیری میں بھی آتش زینر پا‬
‫موئے آتش دیدہ ہے ‪ ،‬حلقہ میری زنجیر کا‬
‫٭٭‬

‫جنوں گرم انتظار‪ ،‬و نالہ بیتابی کمند آیا‬


‫سسویدا‪ ،‬تا بلب‪ ،‬زنجیری دوند سپند آیا‬
‫مہ اختر فشاں کی بہنر استقبال آنکھوں سے‬
‫تماشا‪ ،‬کشونر آئینہ میں آئینہ بند آیا‬
‫تغافل‪ ،‬بدگمانی‪ ،‬بلکہ میری سخت جانی سے‬
‫نگانہ بے حجا ن‬
‫ب ناز کو‪ ،‬بینم گزند آیا‬
‫فضائے خندہ گل تنگ و ذونق عیش بے پرواہ‬
‫فراغت گانہ آغونش ودانع دل‪ ،‬پسند آیا‬
‫عدم ہے خیر خوانہ جلوہ کو زندانن بیتابی‬
‫خرانم ناز‪ ،‬برنق خرمنن سعنی سپند آیا‬
‫جراحت تحفہ‪ ،‬الماس ارمغان‪ ،‬دانغ جگر ہدیہ‬
‫مبارکباد اسدب ‪ ،‬غمخوانر جانن درد مند آیا‬
‫٭‬

‫ت مشکل پسند آیا‬ ‫ب ب ن‬


‫شمانر سبحہ‪ ،‬مرغو ن‬
‫تماشائے بیک کف بردن صد دل پسند آیا‬
‫بہ فینض بے دلی‪ ،‬نومیدی جاوید آساں ہے‬
‫کشائش کو‪ ،‬ہمارا عقدۂ مشکل‪ ،‬پسند آیا‬
‫ہوائے سینر گل‪ ،‬آئینہ بے مہری قاتل‬
‫کہ اندانز بخون غلطیدن بسمل پسند آیا‬
‫ب نقطہ آرائی‬‫سواند چشنم بسمل‪ ،‬انتخا ن‬
‫خرانم نانز بے پروائنی قاتل پسند آیا‬
‫روانی ہائے مونج خونن بسمل سے ٹپکتا ہے‬
‫کہ لطنف بے تحاشا رفتنن قاتل پسند آیا‬
‫ہوئی جس کو بہانر ہستنی فرصت سے آگاہی‬
‫گ للہ‪ ،‬جانم بادہ پر محمل پسند آیا‬ ‫برن ن‬
‫اسد‪ ،‬ہر جا سخن نے طرنح بانغ تازہ ڈالی ہے‬
‫گ بہار ایجادی بیدل پسند آیا‬ ‫مجھے رن ن‬
‫٭٭‬

‫ت چشنم پری سے شب وہ بد خو تھا‬ ‫خود آرا وحش ن‬


‫کہ موم‪ ،‬آئینۂ تمثال کو تعویذ بازو تھا‬
‫بشیریننی خواب آلودہ مژگاں‪ ،‬نشتنر زنبور‬
‫خود آرائی سے ‪ ،‬آئینہ‪ ،‬طلسنم مونم جادو تھا‬
‫ت سیل غیر از جاننب دریا‬ ‫نہیں ہے باز گش ن‬
‫ب رفتہ در جو تھا‬ ‫ہمیشہ دیدہ نئ گریاں کو‪ ،‬آ ن‬
‫ت بے نقابی‪ ،‬آپ پر لرزاں‬ ‫رہانظارہ وق ن‬
‫سرشک آگیں مژہ سے ‪ ،‬دست از جاں شستہ برو تھا‬
‫غنم مجنوں‪ ،‬عزادارانن لیلیی کا پرستش گر‬
‫گ سیاہ‪ ،‬پیمانہ ہر چشنم آہو تھا‬ ‫خنم رن ن‬
‫رکھا غفلت نے دور افتادہ‪ ،‬ذونق فنا ورنہ‬
‫اشارت فہم کو‪ ،‬ہر ناخنن بریدہ‪ ،‬ابرو تھا‬
‫ک دنر میخانہ اب سر پر اڑاتا ہوں‬ ‫اسدب خا ن‬
‫گئے وہ دن کہ پانی‪ ،‬جانم مے سے زانو زانو تھا‬
‫٭٭٭‬

‫دویدن کے کمیں‪ ،‬جوں ریشہ زینر زمیں پایا‬


‫بہ گرند سرمہ‪ ،‬اندانز نگانہ شرمگیں پایا‬
‫اگی اک پنبۂ روزن سے ہی چشم چشنم سفید آخر‬
‫حیا کو‪ ،‬انتظانر جلوہ ریزی کے کمیں پایا‬
‫بہ حسرت گانہ نانز کشتہ جاں بخشنی خوباں‬
‫ب بقا سے تر جبیں پایا‬ ‫خضر کو چشمۂ آ ن‬
‫پریشانی سے ‪ ،‬مغنز سر‪ ،‬ہوا ہے پنبۂ بالش‬
‫خیانل شوخنی خوباں کو راحت آفریں پایا‬
‫ت طرنز ناگیرائنی مژگاں‬ ‫نفس‪ ،‬حیرت پرس ن‬
‫مگر یک دست و دامانن نگانہ واپسیں پایا‬
‫ب طبنع برق آہنگ مسکن سے‬ ‫اسدب کو پیچ تا ن‬
‫حصانر شعلہ جوالہ میں عزلت گزیں پایا‬
‫٭٭‬

‫نزاکت‪ ،‬ہے فسونن دعو ن یی طاقت شکستن ہا‬


‫شرانر سنگ‪ ،‬اندانز چراغ از چشنم جستن ہا‬
‫سیہ مستنی چشنم شوخ سے ہیں‪ ،‬جوہر مژگاں‬
‫گ سرمہ یکسر بانر جستن ہا‬ ‫شرار آسا‪ ،‬زسن ن‬
‫ہوا نے ابر سے کی موسنم گل میں نمد بافی‬
‫ب زنگ بستن ہا‬ ‫کہ تھا آئینہ خود بے نقا ن‬
‫دل از اضطراب آسودہ‪ ،‬طاعت گانہ داغ آیا‬
‫گ شعلہ ہے ‪ ،‬مہنر نماز‪ ،‬از پا نشستن ہا‬ ‫بہ رن ن‬
‫تکلف عاقبت میں ہے ول‪ ،‬بنند قبا وا کر‬
‫نفس ہا بعند وصنل دوست‪ ،‬تاوانن گسستن ہا‬
‫اسد ہر اشک ہے یک حلقہ بر زنجیر افزودن‬
‫بہ بنند گریہ ہے ‪ ،‬نقش بر آب‪ ،‬امیند رستن ہا‬
‫٭٭‬
‫بسانن جوہنر آئینہ از ویراننی دل ہا‬
‫ک ساحل ہا‬ ‫غبانر کوچہ ہائے موج ہے خاشا ن‬
‫نگہ کی ہم نے پیدا رشتۂ ربنط علئق سے‬
‫ہوئے ہیں پردہ ہائے چشنم عبرت جلوہ حائل ہا‬
‫نہیں ہے باوجوند ضعف سینر بے خودی آساں‬
‫رنہ خوابیدہ میں افگندنی ہے طرنح منزل ہا‬
‫غریبی بہنر تسکینن ہوس درکار ہے ورنہ‬
‫بہ وہنم زرگرہ میں باندھتے ہیں برنق حاصل ہا‬
‫تماشا کردنی ہے انتظار آباند حیرانی‬
‫نہیں غیر از نگہ جوں نرگسستاں فرنش محفل ہا‬
‫اسد تانر نفس ہے نا گزینر عقدہ پیرائی‬
‫ک ناخنن شمشیر کیجئے حنل مشکل ہا‬ ‫بہ نو ن‬
‫٭٭‬

‫ت شب ہا‬ ‫بہ شغنل انتظانر مہ وشاں در خلو ن‬


‫سنر تانر نظر ہے رشتۂ تسبینح کوکب ہا‬
‫کرے گر فکر تعمینر خرابی ہائے دل گردوں‬
‫نہ نکلے خشت مثنل استخواں بیرونن قالب ہا‬
‫عیادت ہائے طعن آلوند یاراں زہنر قاتل ہے‬
‫ک نینش عقرب ہا‬ ‫رفوئے زخم کرتی ہے بہ نو ن‬
‫کرے ہے حسنن خوباں پردے میں مشاطگی اپنی‬
‫کہ ہے تہ بندۂ خط سبزۂ خط در تنہ لب ہا‬
‫فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں‬
‫نہیں رفتانر عمنر تیز رو پابنند مطلب ہا‬
‫اسد کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے‬
‫نہاں ہیں نالۂ ن ناقوس میں در پردہ "یا رب"ہا‬
‫٭٭‬

‫بہ رہنن شرم ہے با وصنف شہرت اہتمام اس کا‬


‫نگیں میں جوں شرانر سنگ نا پیدا ہے نام ساس کا‬
‫سرو کانر تواضع تا خنم گیسو رسانیدن‬
‫ت سلم ساس کا‬ ‫بسانن شانہ زینت ریز ہے دس ن‬
‫مسی آلودہ ہے مہنر نوازش نامہ‪ ،‬پیدا ہے‬
‫کہ دانغ آرزوئے بوسہ لیا ہے پیام ساس کا‬
‫بہ امیند نگانہ خاص ہوں محمل کنش حسرت‬
‫مبادا ہو عناں گینر تغافل لطنف عام ساس کا‬
‫لڑاوے گر وہ بزنم میکشی میں قہر و شفقت کو‬
‫بھرے پیمانۂ صد زندگانی ایک جام ساس کا‬
‫اسد سودائے سر سبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر‬
‫ت خشک ساس کا ابنر بے پروا خرام ساس کا‬ ‫کہ کش ن‬
‫٭٭‬

‫یاند روزے کہ نفس سلسلۂ ن یارب تھا‬


‫نالۂ ن دل‪ ،‬بہ کمر دامنن قطع شب تھا‬
‫ت آرائنش وصل‬ ‫بہ تحییر کدۂ فرص ن‬
‫دنل شب‪ ،‬آئینہ دانر تپنش کوکب تھا‬
‫ت ذونق دیدار‬ ‫بہ تمنا کدۂ حسر ن‬
‫دیدہ گو خوں ہو‪ ،‬تماشائے چمن مطلب تھا‬
‫گ خیال‬ ‫جوہنر فکر پر افشاننی نیرن ن‬
‫حسن آئینہ و آئینہ چمن مشرب تھا‬
‫گ نشاط‬ ‫پردۂ درند دل آئینۂ صد رن ن‬
‫بخیۂ زخنم جگر خندۂ زینر لب تھا‬
‫ت سپند‬ ‫نالہ ہا حاصنل اندیشہ کہ جوں گش ن‬
‫دنل نا سوختہ آتش کدۂ صد تب تھا‬
‫عشق میں ہم نے ہی ابرام سے پرہیز کیا‬
‫ب تمنا سب تھا‬ ‫ورنہ جو چاہیے ‪ ،‬اسبا ن‬
‫آخر کار گرفتانر سنر زلف ہوا‬
‫دنل دیوانہ کہ وارستۂ ہر مذہب تھا‬
‫شوق سامان فضولی ہے وگرنہ غالبب‬
‫ہم میں سرمایۂ ن ایجاند تمنا کب تھا‬
‫اسدب افسردگی آوارۂ ن کفر و دیں ہے‬
‫یاند روزے کہ نفس در گرنہ "یا رب" تھا‬
‫٭٭‬

‫شب کہ دل زخمی عرنض دو جہاں تیر آیا‬


‫نالہ بر خود غلنط شوخنی تاثیر آیا‬
‫ت جینب جنونن تپنش دل مت پوچھ‬ ‫وسع ن‬
‫محمنل دشت بدونش رنم نخچیر آیا‬
‫گ تماشا ہستی‬ ‫ہے گرفتارنی نیرن ن‬
‫پنر طاؤس سے ‪ ،‬دل پائے بہ زنجیر آیا‬
‫دید حیرت کش‪ ،‬و خورشید چراغانن خیال‬
‫عرنض شبنم سے ‪ ،‬چمن آئنہ تعمیر آیا‬
‫عشنق ترسا بچہ و نانز شہادت مت پوچھ‬
‫کہ کلہ گوشہ‪ ،‬بہ پروانز پنر تیر آیا‬
‫اے خوشا ذونق تمنائے شہادت کہ اسد‬
‫بے تکلف بہ سجوند خنم شمشیر آیا‬
‫٭٭‬

‫سیر آں سوئے تماشا ہے طلب گاروں کا‬


‫خضر مشتاق ہے اس دشت کے آواروں کا‬
‫سر خنط بند ہوا‪ ،‬نامہ گنہگاروں کا‬
‫خونن ہدہد سے لکھا نقش گرفتاروں کا‬
‫فرند آئینہ میں بخشیں شکنن خندۂ گل‬
‫دنل آزردہ پسند‪ ،‬آئنہ رخساروں کا‬
‫داد خوانہ تپش و مہنر خموشی بر لب‬
‫کاغنذ سرمہ ہے ‪ ،‬جامہ ترے بیماروں کا‬
‫ت نالہ بہ واماندگنی وحشت ہے‬ ‫وحش ن‬
‫جرنس قافلہ‪ ،‬یاں دل ہے گراں باروں کا‬
‫! پھر وہ سوئے چمن آتا ہے ‪ ،‬خدا خیر کرے‬
‫رنگ ساڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا‬
‫جلوہ مایوس نہیں دل‪ ،‬نگرانی غافل‬
‫چشنم امید ہے ‪ ،‬روزن تری دیواروں کا‬
‫اسدب ‪ ،‬اے ہرزہ درا‪ ،‬نالہ بہ غوغا تا چند !‬
‫حوصلہ تنگ نہ کر‪ ،‬بے سبب آزاروں کا‬
‫٭٭‬

‫طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا‬


‫یارب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا‬
‫عزلت گزینن بزم ہیں واماندگانن دید‬
‫مینائے مے ہے ‪ ،‬آبلہ پائے نگاہ کا‬
‫ہر گام آبلے سے ہے ‪ ،‬دل‪ ،‬در تنہ قدم‬
‫کیا بیم اہنل درد کو سختنی راہ کا‬
‫غافل بہ وہنم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں‬
‫بے شانۂ صبا نہیں‪ ،‬طرہ گیاہ کا‬
‫جینب نیانز عشق نشاں دانر ناز ہے‬
‫ف کلم کا‬ ‫آئینہ ہوں‪ ،‬شکستنن طر ن‬
‫بزنم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ‬
‫صیند ز دام جستہ ہے ‪ ،‬اس دام گاہ کا‬
‫رحمت اگر قبول کرے ‪ ،‬کیا بعید ہے‬
‫شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا‬
‫مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے‬
‫سپر گل‪ ،‬خیانل زخم سے دامن نگاہ کا‬
‫جاں‪ ،‬در ہوائے یک نگنہ گرم ہے اسدب‬
‫پروانہ‪ ،‬ہے وکیل ترے داد خواہ کا‬
‫٭٭‬

‫یک ذیرہ زمیں نہیں بیکار‪ ،‬باغ کا‬


‫یاں جادہ بھی‪ ،‬فتیلہ ہے للے کے داغ کا‬
‫ب آگہی‬ ‫ت آشو ن‬ ‫بے مے ‪ ،‬کسے ہے طاق ن‬
‫کھینچا ہے عجنز حوصلہ نے خط ایاغ کا‬
‫بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہائے گل‬
‫کہتے ہیں جس کو عشق‪ ،‬خلل ہے دماغ کا‬
‫تازہ نہیں ہے نشۂ فکنر سخن مجھے‬
‫تریاکنی قدیم ہوں دوند چراغ کا‬
‫سو بار بنند عشق سے آزاد ہم ہوئے‬
‫پر کیا کریں؟کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا‬
‫بے خونن دل ہے چشم میں‪ ،‬مونج نگہ غبار‬
‫یہ میکدہ‪ ،‬خراب ہے مے کے سراغ کا‬
‫بانغ شگفتہ‪ ،‬تیرا بسانط ہوائے دل‬
‫ابنر بہار‪ ،‬خم کدہ کس کے دماغ کا؟‬
‫ت نظارہ ہے اسد‬ ‫جونش بہار کلف ن‬
‫ہے ابر پنبہ روزنن دیوانر باغ کا‬
‫٭٭‬

‫ب دم شماری‪ ،‬انتظار اپنا‬ ‫نہ بھول اضطرا ن‬


‫کہ آخر شیشۂ ساعت کے کام آیا غبار اپنا‬
‫گ دگر پایا‬ ‫ز بس آتش نے فصنل رنگ میں رن ن‬
‫چرانغ گل سے ڈھونڈے ہے چمن میں شمع خار اپنا‬
‫اسینر بے زباں ہوں‪ ،‬کاشکے ! صیاند بے پروا‬
‫بہ دانم جوہنر آئینہ‪ ،‬ہو جاوے شکار اپنا‬
‫مگر ہو ماننع دامن کشی‪ ،‬ذونق خود آرائی‬
‫گ مزار اپنا‬ ‫ہوا ہے نقش بنند آئنہ‪ ،‬سن ن‬
‫دریغ! اے ناتوانی‪ ،‬ورنہ ہم ضبط آشنایاں نے‬
‫طلسنم رنگ میں باندھا تھا عہند استوار اپنا‬
‫اگر آسودگی ہے مدعائے رننج بے تابی‬
‫نیانز گردنش پیمانۂ مے روزگار اپنا‬
‫اسدب ! ہم وہ جنون جولں گدائے بے سر و پا ہیں‬
‫کہ ہے ‪ ،‬سر پنجۂ مژگانن آہو‪ ،‬پشت خار اپنا‬
‫٭٭‬

‫بس کہ جونش گریہ سے زیرو زبر ویرانہ تھا‬


‫ک مونج سیل‪ ،‬تا پیراہنن دیوانہ تھا‬ ‫چا ن‬
‫دانغ مہنر ضبنط بے جا مستنی سعئ سپند‬
‫دوند مجمر‪ ،‬للہ ساں‪ ،‬سدزند تنہ پیمانہ تھا‬
‫ت سیہ نے سنبلستاں گل کیا‬ ‫وصل میں بخ ن‬
‫گ شب‪ ،‬تہ بندنی دوند چرانغ خانہ تھا‬ ‫رن ن‬
‫شب‪ ،‬تری تاثینر سحنر شعلۂ آواز سے‬
‫ب پنر پروانہ تھا‬ ‫گ مضرا ن‬‫تانر شمع‪ ،‬آہن ن‬
‫موسنم گل میں مئے گلگوں حلنل مے کشاں‬
‫ت رز‪ ،‬انگور کا ہر دانہ تھا‬‫عقند وصنل دخ ن‬
‫انتظانر جلوۂ ن کاکل میں شمشاند باغ‬
‫صورنت مژگاں عاشق‪ ،‬صرف عرنض شانہ تھا‬
‫حیرت‪ ،‬اپنے نالۂ بے درد سے ‪ ،‬غفلت بنی‬
‫رانہ خوابیدہ کو غوغائے جرس افسانہ تھا‬
‫ت قتل حنق آشنائی‪ ،‬اے نگاہ‬ ‫!سکو بہ وق ن‬
‫خنجنر زہراب دادہ‪ ،‬سبزۂ بیگانہ تھا‬
‫جونش بے کیفیتی ہے اضطراب آرا‪ ،‬اسدب‬
‫ورنہ بسمل کا تڑپنا‪ ،‬لغزنش مستانہ تھا‬
‫٭٭‬

‫رات‪ ،‬دل گرنم خیانل جلوۂ جانانہ تھا‬


‫گ روئے شمع‪ ،‬برنق خرمنن پروانہ تھا‬ ‫رن ن‬
‫ت محفل بیاند روئے یار‬ ‫شب کہ تھی کیفی ن‬
‫ہر نظرمیں‪ ،‬دانغ مے ‪،‬ئے خانل لنب پیمانہ تھا‬
‫شب کہ باندھا خواب میں آنے کا قاتل نے ‪ ،‬جناح‬
‫وہ فسونن وعدہ میرے واسطے افسانہ تھا‬
‫دود کو آج ساس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی‬
‫وہ دنل سوزاں کہ کل تک شمنع ماتم خانہ تھا‬
‫ساتھ جنبش کے بہ یک برخاستن طے ہو گیا‬
‫تو کہے ‪ ،‬صحرا غبانر دامنن دیوانہ تھا‬
‫ت پر نگار‬ ‫دیکھ ساس کے ساعند سیمین و دس ن‬
‫شانخ گل جلتی تھی مثنل شمع‪ ،‬گل پروانہ تھا‬
‫شکوہ یاراں‪ ،‬غبانر دل میں پنہاں کر دیا‬
‫غالبب ‪ ،‬ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا‬
‫ت غم میں میں حیرت زدہ‬ ‫اے اسدب ! رویا جو دش ن‬
‫آئنہ خانہ زسینل اشک‪ ،‬ہر ویرانہ تھا‬
‫٭٭‬

‫پئے نذنر کرم تحفہ ہے ‪ ،‬شرنم نارسائی کا‬


‫بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ دعویی پارسائی کا‬
‫جہاں مٹ جائے سعنی دید خضر آباند آسائش‬
‫بہ جینب ہر نگہ پنہاں ہے ‪ ،‬حاصل رہنمائی کا‬
‫بہ عجز آباند وہنم مدعا تسلیم شوخی ہے‬
‫تغافل کو نہ کر مغرور تمکین آزمائی کا‬
‫زکیونۃ حسن دے ‪ ،‬اے جلوۂ بینش کہ مہر آسا‬
‫چرانغ خانۂ درویش ہو‪ ،‬کاسہ گدائی کا‬
‫نہ مارا جان کر بے جرم‪ ،‬غافل‪ ،‬تیری گردن پر‬
‫رہا ماننند خونن بے گنہ‪ ،‬حق آشنائی کا‬
‫ت پیغارہ جو‪ ،‬زنجینر رسوائی‬‫دہانن ہر ب ن‬
‫عدم تک‪ ،‬بے وفا‪ ،‬چرچا ہے تیری بے وفائی کا‬
‫ت گل ہے‬ ‫وہی اک بات جو ہے یاں نفس‪ ،‬واں نکہ ن‬
‫چمن کا جلوہ‪ ،‬باعث ہے ‪ ،‬میری رنگیں نوائی کا‬
‫نہ دے نامے کو اتنا طول‪ ،‬غالبب !مختصر لکھ دے‬
‫کہ حسرت سنج ہوں‪ ،‬عرنض ستم ہائے جدائی کا‬
‫٭٭‬

‫نہ ہو حسنن تماشا دوست‪ ،‬رسوا بے وفائی کا‬


‫بہ مہنر صد نظر ثابت ہے دعویی پارسائی کا‬
‫ہوس گستاخنی آئینہ‪ ،‬تکلینف نظر بازی‬
‫بہ جینب آرزو پنہاں ہے ‪ ،‬حاصل دلربائی کا‬
‫نظر بازی طلسنم وحشت آباند پرستاں ہے‬
‫رہا بیگانۂ تاثیر افسوں آشنائی کا‬
‫نہ پایا درد منند دورنی یارانن یک دل نے‬
‫سواند خنط پیشانی سے نسخہ مومیائی کا‬
‫تمنائے زباں‪ ،‬محنو سپانس بے زبانی ہے‬
‫مٹا‪ ،‬جس سے ‪ ،‬تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا‬
‫اسد یہ عجز و بے ساماننی فرعون توام ہے‬
‫جسے تو بندگی کہتا ہے ‪ ،‬دعویی ہے خدائی کا‬
‫٭٭‬

‫کرے گر حیرنت نظارہ‪ ،‬طوفاں نکتہ گوئی کا‬


‫ب چشمۂ آئینہ ہو وے ‪ ،‬بیضہ طوطی کا‬ ‫حبا ن‬
‫ت شرم‪ ،‬ہے مژگانن آہو سے‬ ‫بروئے قیس‪ ،‬دس ن‬
‫مگر رونز عروسی گم ہوا تھا شانہ لیلی کا‬
‫گ جراحت ہے‬ ‫فسانن تینغ نازک قاتلں‪ ،‬سن ن‬
‫دنل گرنم تپش‪ ،‬قاصد ہے پیغانم تسلی کا‬
‫نہیں گرداب جز سر گشتگی ہائے طلب ہرگز‬
‫ب بحر کے ‪ ،‬ہے ‪ ،‬آبلوں میں خار ماہی کا‬ ‫حبا ن‬
‫ت بالیں شکستن ہا‬ ‫نیانز جلوہ ریزی‪ ،‬طاق ن‬
‫تکلف کو خیال آیا ہو گر بیمار پرسی کا‬
‫ت یک شبنمستاں جلوۂ خور نے‬ ‫نہ بخشی فرص ن‬
‫تصور نے کیا ساماں ہزار آئینہ بندی کا‬
‫اسد تاثینر صافی ہائے حیرت جلوہ پرور ہو‬
‫ب چشمۂ آئینہ دھوئے عکس زنگی کا‬ ‫گر آ ن‬
‫٭٭٭‬

‫ک وفا تھا وہم بسمل کا‬ ‫ز بس خوں گشتۂ رش ن‬


‫چرایا زخم ہائے دل نے پانی تینغ قاتل کا‬
‫نگانہ چشنم حاسد وام لے ‪ ،‬اے ذونق خود بینی‬
‫تماشائی ہوں‪ ،‬وحدت خانۂ آئینۂ دل کا‬
‫شرر فرصت نگہ‪ ،‬سامانن یک عالم چراغاں ہے‬
‫بقدنر رنگ یاں گردش میں ہے پیمانہ محفل کا‬
‫سراسر تاختن کو شش جہت یک عرصہ جولں تھا‬
‫ہوا واماندگی سے رہرواں کی‪ ،‬فرق منزل کا‬
‫ت ہستی‬ ‫سراپا رہنن عشق و نا گزینر الف ن‬
‫عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا‬
‫بہ قدنر ظرف ہے ساقی خمانر تشنہ کامی بھی‬
‫جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا‬
‫ف گمراہی نہیں غالبب‬ ‫مجھے رانہ سخن میں خو ن‬
‫عصائے خضنر صحرائے سخن ہے ‪ ،‬خامہ بیدلب کا‬
‫٭٭‬

‫فرو پیچیدنی ہے فرش بزنم عیش گستر کا‬


‫دریغا! گردش آمونز فلک ہے ‪ ،‬دور ساغر کا‬
‫خنط نوخیز کی‪ ،‬آئینے میں دی کس نے ‪ ،‬آرائش‬
‫کہ ہے تہ بندنی پر ہائے طوطی رنگ جوہر کا‬
‫گ باختہ آیا‬‫گیا جو نامہ بر‪ ،‬واں سے برن ن‬
‫ت کبوتر کا‬‫خطونط روئے قالیں‪ ،‬نقش ہے پش ن‬
‫ت گوشہ گیراں‪ ،‬ہے فلک کو حاصل گردش‬ ‫شکس ن‬
‫صدف سے آسیائے آب میں ہے دانہ گوہر کا‬
‫فزوں ہوتا ہے ہر دم جونش خونباری‪ ،‬تماشا ہے‬
‫نفس کرتا ہے رگ ہائے مژہ پر کام نشتر کا‬
‫ت عیسیی‪ ،‬گدانز تر جبینی ہے‬ ‫خیانل شرب ن‬
‫اسدب ! ہوں مس ن‬
‫ت دریا‪ ،‬بخشنی ساقنی کوثر کا‬
‫٭٭‬

‫کیا کس شوخ نے ناز از سنر تمکیں نشستن کا‬


‫کہ شانخ گل کا خم‪ ،‬انداز ہے بالیں شکستن کا‬
‫نہاں ہے ‪ ،‬مردمک میں‪ ،‬شونق رخسانر فروزاں سے‬
‫سپنند شعلہ نادیدہ صفت‪ ،‬انداز جستن کا‬
‫گدانز دل کو کرتی ہے ‪ ،‬کشوند چشم‪ ،‬شب پیما‬
‫نمک ہے ‪ ،‬شمع میں جوں مونم جادو‪ ،‬خواب بستن کا‬
‫نفس در سینہ ہائے ہم د گر رہتا ہے پیوستہ‬
‫نہیں ہے رشتۂ الفت کو اندیشہ گسستن کا‬
‫ہوا نے ابر سے کی موسم گل میں نمدبانی‬
‫کہ تھا آئینۂ خور پر تصور رنگ بستن کا‬
‫تکلف عافیت میں ہے ‪ ،‬دل !بند قبا وا کر‬
‫نفس‪ ،‬بعد از وصانل دوست تاواں ہے گسستن کا‬
‫ک چشم سے یک حلقۂ زنجیر بڑھتا ہے‬ ‫ہر اش ن‬
‫بہ بنند گریہ ہے نقنش بر آب‪ ،‬اندیشہ رستن کا‬
‫عیادت سے ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬میں بیشتر بیمار رہتا ہوں‬
‫سبب ہے ناخنن دخنل عزیزاں‪ ،‬سینہ خستن کا‬
‫٭٭‬

‫عیادت سے زبس ٹوٹا ہے دل‪ ،‬یارانن غمگیں کا‬


‫نظر آتا ہے موئے شیشہ‪ ،‬رشتہ شمنع بالیں کا‬
‫صدا ہے کوہ میں حشر آفریں‪ ،‬اے غفلت اندیشاں‬
‫ب سنگیں کا‬ ‫پئے سنجیدنن یاراں ہوں‪ ،‬حامل خوا ن‬
‫بجائے غنچہ و گل ہے ‪ ،‬ہجونم خار و خس‪ ،‬یاں تک‬
‫ف بخیۂ دامن ہوا ہے خندہ گلچیں کا‬ ‫کہ صر ن‬
‫نصینب آستیں ہے ‪ ،‬حاصنل روئے عرق آگیں‬
‫چنے ہے کہکشاں‪ ،‬خرمن سے مہ کے خوشہ پرویں کا‬
‫ت کعبہ جوئی ہا‪ ،‬جرس کرتا ہے ناقوسی‬ ‫بہ وق ن‬
‫کہ صحرا فصنل گل میں رشک ہے ‪ ،‬بتخانۂ چیں کا‬
‫ب فرامش ہے‬ ‫تپیدن دل کو سونز عشق میں خوا ن‬
‫رکھا اسپند نے مجمر میں پہلو گرم تمکیں کا‬
‫ب فطرت قدر دانن لفظ و معنیی ہیں‬ ‫اسد ب ! اربا ن‬
‫سخن کا بندہ ہوں‪ ،‬لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا‬
‫٭٭‬

‫گ خونن گل ہے ‪ ،‬ساماں اشک باری کا‬ ‫بہانر رن ن‬


‫گ ابنر بہاری کا‬‫جنونن برق‪ ،‬نشتر ہے ر ن‬
‫برائے حنل مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت‬
‫بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا‬
‫ت سرنگونی ہے ‪ ،‬تصور انتظارستاں‬ ‫بہ وق ن‬
‫نگہ کو آبلوں سے شغل ہے اختر شماری کا‬
‫لطافت‪ ،‬بے کثافت‪ ،‬جلوہ پیدا کر نہیں سکتی‬
‫چمن زنگار ہے آئینۂ باند بہاری کا‬
‫حرینف جوشنش دریا نہیں‪ ،‬خود دارنی ساحل‬
‫جہاں ساقی ہو تو‪ ،‬باطل ہے دعویی ہوشیاری کا‬
‫اسدب ساغر کنش تسلیم ہو گردش سے گردوں کی‬
‫گ فہنم مستاں ہے ‪ ،‬گلہ بد روزگاری کا‬ ‫کہ نن ن‬
‫٭٭‬
‫ورند اسنم حق سے ‪ ،‬دیدانر صنم حاصل ہوا‬
‫رشتۂ تسبیح‪ ،‬تانر جادۂ منزل ہوا‬
‫محتسب سے تنگ ہے ‪ ،‬از بس کہ کانر مے کشاں‬
‫رز میں جو انگور نکل‪ ،‬عقدۂ مشکل ہوا‬
‫قیس نے از بس کہ کی سینر گریبانن نفس‬
‫یک دو چیں دامانن صحرا‪ ،‬پردۂ محمل ہوا‬
‫ت شب ساس شمع رو کے شعلۂ آواز پر‬ ‫وق ن‬
‫گونش نسریں عارضاں‪ ،‬پروانۂ محفل ہوا‬
‫ک عاشق بس کہ ہے ‪ ،‬فرسودہ پروانز شوق‬ ‫خا ن‬
‫جادہ ہر دشت‪ ،‬تانر دامنن قاتل ہوا‬
‫عیب کا دریافت کرنا ہے ہنر مندی اسدب‬
‫نقص پر اپنے ہوا جو میطلع‪ ،‬کامل ہوا‬
‫٭٭‬

‫قطرۂ مے ‪ ،‬بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا‬


‫خنط جانم مے ‪ ،‬سراسر رشتۂ گوہر ہوا‬
‫اعتبانر عشق کی خانہ خرابی دیکھنا‬
‫غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا‬
‫گرمنئ دولت ہوئی آتش زنن نانم نکو‬
‫خانۂ خاتم میں‪ ،‬یاقونت نگیں‪ ،‬اخگر ہوا‬
‫ت فتنہ خو‬ ‫نشے میں گم کردہ رہ آیا‪ ،‬وہ مس ن‬
‫گ رفتہ‪ ،‬دونر گردنش ساغر ہوا‬ ‫آج رن ن‬
‫درد سے در پردہ دی‪ ،‬مژگاں سیاہاں نے شکست‬
‫ریزہ ریزہ استخواں کا‪ ،‬پوست میں نشتر ہوا‬
‫زہد گر دیدن ہے گرند خانہ ہائے منعماں‬
‫دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا‬
‫اے بہ ضبنط حال خو ناکردگاں‪ ،‬جونش جنوں‬
‫نشۂ مے ہے ‪ ،‬اگر یک پردہ نازک تر ہوا‬
‫اس چمن میں ریشہ داری جس نے سر کھینچا اسدب‬
‫تر زبانن شکنر لطنف ساقنی کوثر ہوا‬
‫٭٭‬

‫وحشی بن صیاد نے ہم رم خور دوں کو کیا رام کیا‬


‫ف قمانش دام کیا‬ ‫ک جینب دریدہ‪ ،‬صر ن‬ ‫رشتۂ چا ن‬
‫ت آئینہ‬ ‫عکنس رنخ افروختہ تھا تصویر بہ پش ن‬
‫ت سحسن طرازی تمکیں سے آرام کیا‬ ‫شوخ نے وق ن‬
‫ساقی نے از بہنر گریباں چاکنی مونج بادۂ ناب‬
‫تانر نگانہ سوزنن مینا‪ ،‬رشتۂ خنط جام کیا‬
‫ک نامہ رساں‬ ‫مہر بجائے نامہ لگائی بر لنب پی ن‬
‫قاتنل تمکیں سنج نے یوں خاموشی کا پیغام کیا‬
‫شانم فرانق یار میں جونش خیرہ سری سے ہم نے اسدب‬
‫ماہ کو‪ ،‬در تسبینح کواکب‪ ،‬جائے نشینن امام کیا‬

‫گر نہ اندونہ شنب فرقت بیاں ہو جائے گا‬


‫بے تکلف دانغ مہ سمہنر دہاں ہو جائے گا‬
‫زہرہ گر ایسا ہی شانم ہجر میں ہوتا ہے آب‬
‫پرتنو مہتاب سینل خانماں ہو جائے گا‬
‫لے تو لوں سوتے میں ساس کے پاؤں کا بوسہ‬
‫ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا‬
‫ف وفا سمجھے تھے ‪ ،‬کیا معلوم تھا‬ ‫دل کو ہم صر ن‬
‫یعنی یہ پہلے ہی نذنر امتحاں ہو جائے گا‬
‫سب کے دل میں ہے جگہ تیری جو تو راضی ہوا‬
‫مجھ پہ‪ ،‬گویا‪ ،‬اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا‬
‫گر نگانہ گرم فرماتی رہی تعلینم ضبط‬
‫شعلہ خس میں جیسے ‪ ،‬خوں رگ میں نہاں ہو جائے گا‬
‫باغ میں مجھ کو نہ لے جا‪ ،‬ورنہ میرے حال پر‬
‫ہر گل تر‪ ،‬ایک خوں فشاں ہو جائے گا‬
‫وائے ! گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو‬
‫اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا‬
‫ت نانز تمکیں دیوے گا صلئے عرنض حال‬ ‫گر وہ مس ن‬
‫خانر گل‪ ،‬بہنر د ہانن سگل‪ ،‬زباں ہو جائے گا‬
‫گر شہادت آرزو ہے ‪ ،‬نشے میں گستاخ ہو‬
‫گ فساں ہو جائے گا‬ ‫گ سن ن‬‫بال شیشے کا‪ ،‬ر ن‬
‫فائدہ کیا؟ سوچ‪ ،‬آخر تو بھی دانا ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫دوستی ناداں کی ہے ‪ ،‬جی کا زیاں ہو جائے گا‬
‫٭٭‬

‫تنگ ظرفوں کا رتبہ جہد سے برتر نہیں ہوتا‬


‫ب مے بصد بالیدنی ساغر نہیں ہوتا‬ ‫حبا ن‬
‫عجب‪ ،‬اے آبلہ پایانن صحرائے نظر بازی‬
‫کہ تانر جادہ رہ رشتہ گوہر نہیں ہوتا‬
‫خوشا! عجزے کہ عاشق جل بجھے جوں شعلہ خامش‬
‫ت خاکستر نہیں ہوتا‬ ‫کہ کم از سرمہ اس کا مش ن‬
‫ت سر بجیبی ہا‬ ‫تماشائے ‪ ،‬گل و گلشن ہے مف ن‬
‫ک گریباں‪ ،‬گلستاں کا در نہیں ہوتا‬‫بہ ازچا ن‬
‫نہ رکھ چشنم حصونل نفع‪ ،‬صحبت ہائے ممسک سے‬
‫ب گہر سے تر نہیں ہوتا‬ ‫ک صدف‪ ،‬آ ن‬ ‫لنب خش ن‬
‫نہ دیکھا کوئی ہم نے آشیاں بلبل کاگلشن میں‬
‫کہ جس کے در پہ غنچہ شکنل قفنل زر نہیں ہوتا‬
‫صفا کب جمع ہو سکتی ہے غیر از گوشہ گیری ہا‬
‫صدف بن قطرہ نیساں‪ ،‬اسدب ‪ ،‬گوہر نہیں ہوتا‬
‫٭٭‬

‫لنب خشک در تشنگی مردگاں کا‬


‫زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا‬
‫ہمہ نا امیدی‪ ،‬ہمہ بدگمانی‬
‫میں دل ہوں فرینب وفا خوردگاں کا‬
‫شگفتن کمیں گانہ تقریب جوئی‬
‫تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا‬
‫غرینب ستم دیدۂ ن باز گشتن‬
‫سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا‬
‫سراپا یک آئینہ دانر شکستن‬
‫ارادہ ہوں‪ ،‬یک عالم افسردگاں کا‬
‫بہ صورت تکلف‪ ،‬بہ معنی تاسف‬
‫اسد میں تبسم ہوں‪ ،‬پژمردگاں کا‬
‫٭٭‬

‫ہے تنگ نز واماندہ شدن حوصلۂ پا‬


‫جو اشک گرا خاک میں‪ ،‬ہے آبلۂ پا‬
‫سر منزنل ہستی سے ہے صحرائے طلب دور‬
‫جو خط ہے کنف پا پہ‪ ،‬سو ہے سلسلۂ پا‬
‫دیدار طلب ہے دنل واماندہ کہ آخر‬
‫ک سنر مژگاں سے رقم ہو گلۂ پا‬ ‫نو ن‬
‫آیا نہ بیابانن طلب گانم زباں تک‬
‫تبخالۂ لب ہو نہ سکا آبلۂ پا‬
‫فریاد سے پیدا ہے اسد گرمنئ وحشت‬
‫تبخالۂ لب ہے جرنس آبلۂ پا‬

‫وہ فلک رتبہ کہ بر توسنن چالک چڑھا‬


‫ماہ پر‪ ،‬ہالہ صفت‪ ،‬حلقۂ ن فتراک چڑھا‬
‫نشہ مے کے اتر جانے کے غم سے انگور‬
‫گ تاک چڑھا‬ ‫صورنت اشک‪ ،‬بہ مژگانن ر ن‬
‫ت حال‬ ‫بوسہ لب سے ملی طبع کیفی ن‬
‫مے کشیدن سے مجھے نشہ تریاک چڑھا‬
‫میں جو گردوں کو بہ میزانن طبیعت تول‬
‫گ کنف خاک چڑھا‬ ‫تھا یہ کم وزن کہ ہم سن ن‬
‫اے اسدب ! وا شدنن عقدۂ غم گر چاہے‬
‫حضرنت زلف میں جوں شانہ دنل چاک چڑھا‬
‫٭٭‬

‫شب کہ ذونق گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا‬


‫شوخنی وحشت سے افسانہ فسونن خواب تھا‬
‫شب کہ برنق سونز دل سے زہرہ ابر آب تھا‬
‫شعلۂ جوالہ‪ ،‬ہر یک حلقۂ گرداب‪ ،‬تھا‬
‫واں کرم کو عذنر بارش تھا عناں گینر خرام‬
‫گریے سے یاں پنبۂ بالش کنف سیلب تھا‬
‫لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں‬
‫شوخنی بارش سے مہ فوارۂ سیماب تھا‬
‫واں ہجونم نغمہ ہائے سانز عشرت تھا اسدب‬
‫ناخنن غم‪ ،‬یاں سر تانر نفس‪ ،‬مضراب تھا‬
‫واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال‬
‫یاں ہجونم اشک سے تانر نگہ نایاب تھا‬
‫جلوۂ ن گل نے کیا تھا واں چراغاں‪ ،‬آبجو‬
‫یاں رواں مژگان چشنم ترسے خونن ناب تھا‬
‫یاں سنر پر شور‪ ،‬بے خوابی سے تھا دیوار سجو‬
‫واں وہ فرنق ناز‪ ،‬محنو بالنش کمخواب تھا‬
‫یاں نفس کرتا تھا روشن‪ ،‬شمنع بزنم بے خودی‬
‫ت احباب تھا‬ ‫جلوۂ ن گلواں بسانط صحب ن‬
‫فرش سے تا عرش‪ ،‬واں طوفان تھا مونج رنگ کا‬
‫یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا‬
‫ناگہاں اس رنگ سے خونابہ ٹپکانے لگا‬
‫دل کہ ذونق کاونش ناخن سے لذت یاب تھا‬
‫٭٭‬

‫نالۂ دل میں شب اندانز اثر نایاب تھا‬


‫تھا سپنند بزنم وصنل غیر گو بیتاب تھا‬
‫دیکھتے تھے ہم بچشنم خود وہ طوفانن بل‬
‫آسمانن سفلہ جس میں یک کنف سیلب تھا‬
‫موج سے پیدا ہوئے پیراہنن دریا میں خار‬
‫گریہ وحشت بے قرانر جلوۂ مہتاب تھا‬
‫جونش تکلینف تماشا محشر آباند نگاہ‬
‫ت آب تھا‬ ‫فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مش ن‬
‫بے خبر مت کہہ ہمیں بیدرد‪ ،‬خود بینی سے پوچھ‬
‫قلزنم ذونق نظر میں آئنہ پایاب تھا‬
‫بیدلی ہائے اسدب افسردگی آہنگ تر‬
‫ت احباب تھا‬ ‫یاند اییامے کہ ذونق صحب ن‬
‫مقدنم سیلب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے‬
‫خانۂ عاشق مگر سانز صدائے آب تھا‬
‫نازنش ایانم خاکستر نشینی کیا کہوں‬
‫پہلوئے اندیشہ وقنف بستنر سنجاب تھا‬
‫کچھ نہ کی اپنے جنونن نارسا نے ورنہ یاں‬
‫ذرہ ذرہ رو کنش خورشیند عالم تاب تھا‬
‫آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے‬
‫کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا‬
‫یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا‬
‫انتظانر صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا‬
‫میں نے روکا رات غالبب کو وگرنہ دیکھتے‬
‫اس کی سینل گریہ میں گردوں کنف سیلب تھا‬
‫٭٭‬

‫ت ناموس تھا‬ ‫شب کہ وہ مجلس فرونز خلو ن‬


‫ت فانوس تھا‬ ‫رشتۂ ن ہر شمع‪ ،‬خانر کسو ن‬
‫بت پرستی ہے بہانر نقش بندی ہائے دہر‬
‫ہر صرینر خامہ میں‪ ،‬یک نالۂ ناقوس تھا‬
‫مشہند عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا‬
‫ت پا بوس تھا‬ ‫ک حسر ن‬ ‫کس قدر‪ ،‬یارب‪ ،‬ہل ن‬
‫ت آرزو‬‫حاصنل الفت نہ دیکھا جز شکس ن‬
‫دل بہ دل پیوستہ‪ ،‬گویا‪ ،‬یک لنب افسوس تھا‬
‫کیا کہوں بیمارنی غم کی فراغت کا بیاں‬
‫ت کیموس تھا‬ ‫جو کہ کھایا خونن دل بے من ن‬
‫گ گلستاں یک گل کیا‬ ‫طبع کی وا شد نے رن ن‬
‫یہ دل وابستہ‪ ،‬گویا‪ ،‬بیضۂ ن طاؤس تھا‬
‫کل اسد کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں‬
‫دست برسر‪ ،‬سر بہ زانوئے دنل مایوس تھا‬
‫٭٭‬

‫شنب اختر قدنح عیش نے محمل باندھا‬


‫باریک قافلۂ آبلہ منزل باندھا‬
‫سبحہ واماندگنی شوق و تماشا منظور‬
‫جادے پر زیونر صد آئنہ منزل باندھا‬
‫ضبنط گریہ‪ ،‬سگہنر آبلہ لیا آخر‬
‫پائے صد موج بہ طوفان کدۂ دل باندھا‬
‫گ تمنا‪ ،‬کہ پے عرنض حیا‬ ‫حیف ! اے نن ن‬
‫یک عرق آئینہ‪ ،‬بر جبۂ سائل باندھا‬
‫حسن آشفتگنی جلوہ‪ ،‬ہے عرنض اعجاز‬
‫ت موسیی بہ سنر دعونی باطل باندھا‬ ‫دس ن‬
‫تپنش آئینہ‪ ،‬پروانز تمنا لئی‬
‫نامۂ شوق‪ ،‬بہ بانل پنر بسمل باندھا‬
‫دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں‪ ،‬کس نے‬
‫خلونت ناز پہ پیرایۂ محفل باندھا؟‬
‫نا سامیدی نے ‪ ،‬بہ تقرینب مضامینن خمار‬
‫کوچۂ موج کو خمیازۂ ساحل باندھا‬
‫ب دل نے مرے تانر نفس سے غالبب‬ ‫مطر ن‬
‫ساز پر رشتہ‪ ،‬پے نغمۂ بیدل باندھا‬
‫٭٭‬
‫عرنض نیانز عشق کے قابل نہیں رہا‬
‫جس دل پہ ناز تھا مجھے ‪ ،‬وہ دل نہیں رہا‬
‫ت ہستی لیے ہوئے‬ ‫جاتا ہوں دانغ حسر ن‬
‫ہوں شمنع کشتہ‪ ،‬در خونر محفل نہیں رہا‬
‫مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں‬
‫شایانن دست و بازوئے قاتل نہیں رہا‬
‫بر روئے شش جہت دنر آئینہ باز ہے‬
‫یاں امتیانز ناقص و کامل نہیں رہا‬
‫ب حسن‬ ‫وا کر دیے ہیں شوق نے بنند نقا ن‬
‫غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا‬
‫گو میں رہا رہینن ستم ہائے روزگار‬
‫لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا‬
‫ت وفا مٹ گئی کہ واں‬ ‫دل سے ہوائے کش ن‬
‫ت حاصل نہیں رہا‬ ‫حاصل‪ ،‬سوائے حسر ن‬
‫جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے‬
‫یاں عرصۂ طپیدنن بسمل نہیں رہا‬
‫ہوں قطرہ زن بمرحلہ یاس روز و شب‬
‫جز تانر اشک جادۂ منزل نہیں رہا‬
‫اے آہ !میری خاطنر وابستہ کے سوا‬
‫دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا‬
‫ہر چند ہوں میں طوطنی شیریں سخن‪ ،‬ولے‬
‫آئینہ‪ ،‬آہ‪! ،‬میرے مقابل نہیں رہا‬
‫بیداند عشق سے نہیں ڈرتا‪ ،‬مگر‪ ،‬اسب د‬
‫جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا‬
‫٭٭‬

‫خلونت آبلۂ پا میں ہے ‪ ،‬جولں میرا‬


‫خوں ہے دل تنگنی وحشت سے بیاباں میرا‬
‫ذونق سرشار سے بے پردہ ہے طوفاں میرا‬
‫مونج خمیازہ ہے ہر زخنم نمایاں میرا‬
‫ت جاوید رسا‬ ‫عینش بازی کدۂ حسر ن‬
‫خونن آدینہ سے رنگیں ہے دبستاں میرا‬
‫حسرنت نشۂ وحشت نہ بسعنی دل ہے‬
‫عرنض خمیازۂ مجنوں ہے گریباں میرا‬
‫عالنم بے سر و ساماننی فرصت مت پوچھ‬
‫ت مجنوں ہے بیاباں میرا‬ ‫لنگنر وحش ن‬
‫بے دمانغ تپنش رشک ہوں اے جلوۂ حسن‬
‫تشنۂ خونن دل و دیدہ ہے پیماں میرا‬
‫فہم زنجیرنی بے ربطنی دل ہے یارب‬
‫ب پریشاں میرا‬ ‫کس زباں میں ہے لقب خوا ن‬
‫بہ ہوس درند سنر اہنل سلمت تا چند؟‬
‫مشکنل عشق ہوں‪ ،‬مطلب نہیں آساں میرا‬
‫سرمۂ مفت نظر ہوں‪ ،‬مری قیمت یہ ہے‬
‫کہ رہے چشنم خریدار پہ احساں میرا‬
‫ت نالہ مجھے دے کہ مبادا !ظالم‬ ‫رخص ن‬
‫تیرے چہرے سے ہو ظاہر غنم پنہاں میرا‬
‫بوئے یوسف مجھے گلزار سے آتی تھی اسدب‬
‫ددے نے برباد کیا پیر ہنستاں میرا‬
‫٭٭‬

‫بہ مہنر نامہ جو بوسہ گنل پیام رہا‬


‫ہمارا کام ہوا اور تمہارا نام رہا‬
‫ہوا نہ مجھ سے بجز درد حاصنل صیاد‬
‫بسانن اشک‪ ،‬گرفتانر چشنم دام رہا‬
‫دل و جگر تف فرقت سے جل کے خاک ہوئے‬
‫ولے ہنوز خیانل وصال خام رہا‬
‫ت رنگ کی لئی سحر شنب سنبل‬ ‫شکس ن‬
‫پہ زلنف یار کا افسانہ ناتمام رہا‬
‫دہانن تنگ مجھے کس کا یاد آیا تھا‬
‫کہ شب خیال میں بوسوں کا ازدحام رہا‬
‫نہ پوچھ حال شب و رونز ہجر کا غالبب‬
‫خیانل زلف و رنخ دوست صبح و شام رہائے‬
‫٭٭‬

‫خط جو رخ پر‪ ،‬جانشینن ہالۂ ن مہ ہو گیا‬


‫ہالہ دوند شعلہ جوالۂ ن مہ ہو گیا‬
‫حلقۂ ن گیسو کھل دونر خنط رخسار پر‬
‫ہالۂ دیگر بہ گرند ہالۂ مہ ہو گیا‬
‫ت دیدن مہتاب تھا وہ جامہ زیب‬ ‫شب کہ مس ن‬
‫ک کتاں‪ ،‬پر کالۂ ن مہ ہو گیا‬ ‫پارہ چا ن‬
‫! شب کہ وہ باغ میں تھا جلوہ فرما‪ ،‬اے اسدب‬
‫دانغ مہ جونش چمن سے ‪ ،‬للۂ ن مہ ہو گیا‬
‫٭٭‬

‫بس کہ عاجز نارسائی سے کبوتر ہو گیا‬


‫ف بالنش پر ہو گیا‬ ‫صفحۂ نامہ‪ ،‬غل ن‬
‫صورنت دیبا تپش سے میری‪ ،‬غرنق خوں ہے آج‬
‫گ بستر کو نشتر ہو گیا‬ ‫خانر پیراہن ر ن‬
‫بس کہ آئینے نے پایا گرمنی رخ سے گداز‬
‫گ گل‪ ،‬تر ہو گیا‬ ‫دامنن تمثال‪ ،‬مثنل بر ن‬
‫شعلہ رخسارا! تحیر سے تیری رفتار کے‬
‫خانر شمنع آئنہ‪ ،‬آتش میں جوہر ہو گیا‬
‫ت گریہ نکل تیرہ کاری کا غبار‬ ‫بس کہ وق ن‬
‫دامنن آلودۂ عصیاں‪ ،‬گراں تر ہو گیا‬
‫ت اندانز رہبر ہے عناں گیر ائے اسدب‬ ‫حیر ن‬
‫نقنش پائے خضر یاں‪ ،‬سنید سکندر ہو گیا‬
‫٭٭‬

‫یک گانم بے خودی سے لوٹیں بہانر صحرا‬


‫آغونش نقنش پا میں کیجے فشانر صحرا‬
‫وحشت اگر رسا ہے بے حاصلی ادا ہے‬
‫ت غبانر صحرا‬ ‫پیمانۂ ہوا ہے ‪ ،‬مش ن‬
‫اے آبلہ کرم کر‪ ،‬یاں رنجہ یک قدم کر‬
‫اے نونر چشنم وحشت‪ ،‬اے یادگانر صحرا‬
‫ب صحرا‬ ‫ب صحرا‪ ،‬خانہ خرا ن‬‫دل در رکا ن‬
‫ب صحرا‪ ،‬عرنض خمانر صحرا‬ ‫مونج سرا ن‬
‫ہر ذرہ یک دنل پاک‪ ،‬آئینہ خانہ بے خاک‬
‫تمثانل شونق بیباک‪ ،‬صد جا دو چانر صحرا‬
‫دیوانگی اسدب کی حسرت کنش طرب ہے‬
‫سر میں ہوائے گلشن‪ ،‬دل میں غبانر صحرا‬
‫٭٭‬
‫دنل بے تاب کہ سینے میں دنم چند رہا‬
‫بہ دنم چند‪ ،‬گرفتانر غنم چند رہا‬
‫زندگی کے ہوئے ناگہ نفس چند تمام‬
‫کوچۂ ن یار جو مجھ سے قدنم چند رہا‬
‫لکھ سکا نہ میں اسے شکوہ پیماں شکنی‬
‫ل جرم‪ ،‬توڑ کے ‪ ،‬عاجز‪ ،‬قلم چند رہا‬
‫ت زر ہمہ نقصان ہے ‪ ،‬کہ آخر قارون‬ ‫الف ن‬
‫زیر بانر غنم دام و درم چند رہا‬
‫عمر بھر ہوش نہ یک جا ہوئے میرے کہ‪ ،‬اسدب‬
‫میں پرستندہ روئے صنم چند رہا‬
‫٭٭‬

‫جگر سے ٹوٹی ہوئی ہو گئی سناں پیدا‬


‫دہانن زخم میں آخر ہوئی زباں پیدا‬
‫گ خواب ہے زباں ایجاد‬ ‫بسانن سبزہ ر ن‬
‫کرے ہے خامشی احوانل بے خوداں پیدا‬
‫صفا و شوخی و اندانز حسن پا بہ رکاب‬
‫خط سیاہ سے ہے ‪ ،‬گرند کارواں پیدا‬
‫نہیں ہے آہ کو ایمائے تیرہ بالیدن‬
‫وگرنہ ہے خنم تسلیم سے کماں پیدا‬
‫نصینب تیرہ‪ ،‬بل گردش آفریں ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫زمیں سے ہوتے ہیں‪ ،‬صد دامن آسماں پیدا‬
‫٭٭‬

‫دل میرا سونز نہاں سے بے محابا جل گیا‬


‫آتنش خاموش کی مانند گویا جل گیا‬
‫دل میں ذونق وصل و یاند یار تک باقی نہیں‬
‫آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا‬
‫میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا‬
‫میری آنہ آتشیں سے بانل عنقا جل گیا‬
‫عرض کیجے جوہنر اندیشہ کی گرمی کہاں‬
‫کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا‬
‫دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار‬
‫اس چراغاں کا کروں کیا‪ ،‬کارفرما جل گیا‬
‫دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری‬
‫بسکہ شونق آتنش سگل سے سراپا جل گیا‬
‫ت حنائی دیکھ کر‬ ‫شمع رویوں کی سر انگش ن‬
‫غنچۂ گل پر فشاں پروانہ آسا جل گیا‬
‫خانمانن عاشقاں دوکانن آتش باز ہے‬
‫شعلہ رو یاں جب ہو گئے گرنم تماشا جل گیا‬
‫تا کجا افسونس گرمی ہائے صحبت؟ اے خیال‬
‫دل بہ سونز آتنش دانغ تمنا‪ ،‬جل گیا‬
‫میں ہوں اور افسردگی کی آرزو‪ ،‬غالبب ‪ ،‬کہ دل‬
‫ک اہنل دنیا جل گیا‬ ‫دیکھ کر طرنز تپا ن‬
‫٭٭‬

‫ت مے میں ہے سامانن حجاب اس کا‬ ‫نہاں کیفی ن‬


‫سبنا ہے پنبۂ ن سینا سے ساقی نے نقاب اس کا‬
‫اگر اس شعلہ رو کو دوں پیانم مجلس افروزی‬
‫زبانن شمنع خلوت خانہ دیتی ہے جواب اس کا‬
‫عیاں کیفیت میخانہ ہے جوئے گلستاں میں‬
‫کہ مے عکس شفق ہے ‪ ،‬اور ساغر ہے حباب اس کا‬
‫اٹھائے ہیں جو میں افتادگی میں متصل صدمے‬
‫کروں گا اشک ہائے وا چکیدہ سے حساب اس کا‬
‫اسدب کے واسطے رنگے بروئے کار ہو پیدا‬
‫غبار‪ ،‬آواہ و سر گشتہ ہے یا بو تراب اس کا‬
‫٭٭‬

‫نز بس ہے ناز پروانز غرونر نشہ صہبا‬


‫گ بالیدہ‪ ،‬گردن ہے ‪ ،‬مونج بادہ در مینا‬ ‫ر ن‬
‫ب آئینہ از جونش عکنس گیسوئے مشکیں‬ ‫در آ ن‬
‫بہانر سنبلستان جلوہ گر ہے آں سوئے دریا‬
‫کہاں ہے دیدہ روشن کہ دیکھے بے حجابانہ‬
‫ب یار ہے از پردہ ہائے چشنم نابینا‬ ‫نقا ن‬
‫ت شکستن بھی‬ ‫نہ دیجئے پانس ضبنط آبرو‪ ،‬وق ن‬
‫تحمل پیشہ تمکیں رہیے آئینہ آسا‬
‫اسدب ‪ ،‬طبع متیں سے گر نکالوں شعر برجستہ‬
‫گ خارا‬ ‫شرر‪ ،‬ہو قطرہ خونن فسردہ در ر ن‬
‫٭٭‬

‫گرفتاری میں فرمانن خنط تقدیر ہے پیدا‬


‫کہ طونق قمری از ہر حلقۂ زنجیر ہے پیدا‬
‫زمیں کو صفحۂ گلشن بنایا خونچکانی نے‬
‫چمن بالیدنی ہا‪ ،‬از رنم نخچیر ہے پیدا‬
‫مگر وہ شوخ ہے طوفاں طرانز شونق خونریزی‬
‫کہ در بحنر کہاں بالیدہ مونج تیر ہے پیدا‬
‫نہیں ہے کف لنب نازک پہ فرنط نشۂ مے سے‬
‫لطافت ہائے جونش حسن کا سر شیر ہے پیدا‬
‫عرونج سامیدی چشم زخنم چرخ کیا جانے ؟‬
‫بہانر بے خزاں از آنہ بے تاثیر ہے پیدا‬
‫اسد جس شوق سے ذرے تپش فرسا ہوں روزن میں‬
‫جراحت ہائے دل سے جوہنر شمشیر ہے پیدا‬
‫٭٭‬

‫ت گلزار ہو پیدا‬‫سحر گہ باغ میں وہ حیر ن‬


‫گ گل اور آئینۂ دیوار ہو پیدا‬ ‫ساڑے رن ن‬
‫بتاں!زہر آب اس شدت سے دو پیکانن ناوک کو‬
‫ت لنب سوفار ہو پیدا‬ ‫کہ خنط سبز تا پش ن‬
‫لگے گر سنگ سر پر یار کے دست نگاریں سے‬
‫بجائے زخم گل بر گوشۂ دستار ہو پیدا‬
‫کروں گر عرض سنگیننی کہسار اپنی بے تابی‬
‫گ ہر سنگ سے نبنض دنل بیمار ہو پیدا‬ ‫ر ن‬
‫گ شیشہ توڑوں‪ ،‬ساقیا !پیمانۂ پیماں‬ ‫بہ سن ن‬
‫اگر ابنر سیہ مست از سوئے کہسار ہو پیدا‬
‫اسد مایوس مت ہو‪ ،‬گرچہ رونے میں اثر کم ہے‬
‫کہ غالب ہے کہ بعد از زارنی بسیار ہو پیدا‬
‫٭٭‬

‫بس کہ ہے میخانہ ویراں‪ ،‬جوں بیابانن خراب‬


‫عکنس چشنم آہوئے رم خوردہ ہے دانغ شراب‬
‫تیرگنی ظاہری ہے طبنع آگہ کا نشاں‬
‫غافلں عکنس سواند صفحہ ہے گرند کتاب‬
‫یک نگانہ صاف‪ ،‬صد آئینۂ‪ ،‬تاثیر ہے‬
‫گ یاقوت عکنس خنط جانم آفتاب‬ ‫ہے ر ن‬
‫ہے عرق افشاں مشی سے ادہنم مشکینن یار‬
‫ت شب اختر گنے ہے چشنم بیدانر رکاب‬ ‫وق ن‬
‫ہے شفق سوز جگر کی آگ کی بالیدگی‬
‫ک کباب‬ ‫ہر یک اختر سے فلک پر قطرۂ اش ن‬
‫بس کہ شرنم عارنض رنگیں سے حیرت جلوہ ہے‬
‫ت رن ن‬
‫گ گل آئینہ پروانز نقاب‬ ‫ہے شکس ن‬
‫شب کہ تھا نظارگی روئے بتاں کا اے اسدب‬
‫ت ماہتاب‬ ‫گر گیا بانم فلک سے صبح‪ ،‬طش ن‬
‫٭٭‬

‫ہے بہاراں میں خزاں پرور خیال عندلیب‬


‫گ گل آتش کدہ ہے زینر بانل عندلیب‬ ‫رن ن‬
‫عشق کو ہر رنگ شانن حسن ہے مند نظر‬
‫مصرنع سرنو چمن ہے حسنب حانل عندلیب‬
‫گ گل‬ ‫ت حسنن چمن پیرا سے تیرے رن ن‬ ‫حیر ن‬
‫بسمل ذونق پریدن ہے بہ بانل عندلیب‬
‫ف بہانر حسنن یاد‬ ‫عمر میری ہو گئی صر ن‬
‫گ چمن ہے ماہ و سانل عندلیب‬ ‫گردنش رن ن‬
‫منع مت کر حسن کی ہم کو پرستش سے کہ ہے‬
‫بادۂ نظارۂ گلشن‪ ،‬حلنل عندلیب‬
‫ت دگر‪ ،‬کانر اسدب‬‫ہے مگر موقوف بر وق ن‬
‫اے شنب پروانہ و رونز وصانل عندلیب‬
‫٭٭‬

‫آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازانر دوست‬


‫دوند شمع کشتہ تھا شاید‪ ،‬خنط رخسانر دوست‬
‫اے دنل نا عاقبت اندیش ضبنط شوق کر‬
‫ب جلوہ دیدانر دوست‬ ‫کون ل سکتا ہے تا ن‬
‫خانہ ویراں سازی حیرت تماشا کیجئے‬
‫ت نقنش قدم‪ ،‬ہوں رفتۂ رفتانر دوست‬ ‫صور ن‬
‫ک غیر نے مارا مجھے‬ ‫عشق میں بیداند رش ن‬
‫کشتہ دشمن ہوں آخر‪ ،‬گرچہ تھا بیمانر دوست‬
‫چشنم ما روشن! کہ اس بیدرد کا دل شاد ہے‬
‫دیدہ پر خوں ہمارا‪ ،‬ساغنر سرشانر دوست‬
‫غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں‬
‫بے تکلف دوست ہو جیسے کوئی‪ ،‬غمخوانر دوست‬
‫تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک‬
‫مجھ کو دیتا ہے پیانم وعدۂ ن دیدانر دوست‬
‫جبکہ میں کرتا ہوں اپنا شکوہ ضعنف دماغ‬
‫سر کرے ہے وہ حدیث زلف عنبر بانر دوست‬
‫چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر‬
‫ہنس کے کرتا ہے بیانن شوخنی گفتانر دوست‬
‫مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجئے‬
‫ت آزانر دوست‬ ‫یا بیاں کیجئے سپانس لذ ن‬
‫یہ غزل اپنی‪ ،‬مجھے جی سے پسند آئی ہے آپ‬
‫ہے ردینف شعر میں‪ ،‬غالب‪ ،‬ز بس تکرانر دوست‬
‫چشم بنند خلق غیر از نقنش خود بینی نہیں‬
‫ت در و دیوانر دوست‬ ‫آئنہ ہے قالنب خش ن‬
‫برنق خرمن زانر گوہر ہے نگانہ تیزیاں‬
‫اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمنی رفتانر دوست‬
‫ت نوخیز سے‬ ‫ہے سوا نیزے پہ اس کے قام ن‬
‫ب رونز محشر ہے گنل دستانر دوست‬‫آفتا ن‬
‫لغزنش مستانہ و جوش تماشا ہے اسد‬
‫آتنش مے سے بہانر گرمنی بازار دوست‬
‫٭٭‬

‫جاتا ہوں جدھر سب کی ساٹھے ہے سادھر انگشت‬


‫یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے ‪ ،‬مگر انگشت‬
‫ت مژگاں میں جو انگشت نما ہوں‬ ‫الف ن‬
‫لگتی ہے مجھے تیر کے مانند‪ ،‬ہر انگشت‬
‫ہر غنچۂ گل صورنت یک قطرۂ خوں ہے‬
‫دیکھا ہے کسو کا جو حنا بستہ‪ ،‬سر انگشت‬
‫گرمی ہے زباں کی سبنب سوختنن جاں‬
‫ہر شمع شہادت کو ہے یاں سر بسر انگشت‬
‫خوں دل میں جو میر ے نہیں باقی تو پھر اس کی‬
‫جوں ماہی بے آب تڑپتی ہے ہر انگشت‬
‫شوخی تری کہہ دیتی ہے احوال ہمارا‬
‫رانز دنل صد پارہ کی ہے پردہ در انگشت‬
‫بس رتبے میں باریکی و نرمی ہے کہ جوں گل‬
‫آتی نہیں پنجے میں بس اس کے نظر انگشت‬
‫افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے‬
‫جن لوگوں کی تھی درخونر عقند گہر انگشت‬
‫کافی ہے نشانی تری چھیلے کا نہ دینا‬
‫خالی مجھے دکھل کے بہ وقت سفر انگشت‬
‫لکھتا ہوں اسد سوزنش دل سے سخنن گرم‬
‫تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت‬
‫٭٭‬

‫دوند شمنع کشتۂ گل بزم سامانی عبث‬


‫یک شبہ آشفتہ نانز سنبلستانی عبث‬
‫ہے ہوس محمل بہ دونش شوخنی ساقی مست‬
‫نشۂ مے کے تصور میں نگہبانی عبث‬
‫باز ماندن ہائے مژگاں ہے یک آغونش وداع‬
‫عید در حیرت سوانر چشنم قربانی عبث‬
‫جز غبانر کردہ سیر آہنگنی پرواز سکو ؟‬
‫بلبنل تصویر و دعوائے پر افشانی عبث‬
‫ت خلق ہے طغرائے عجنز اختیار‬ ‫سر نوش ن‬
‫آرزوہا خار خانر چینن پیشانی عبث‬
‫جب کہ نقنش مدعا ہووے نہ جز مونج سراب‬
‫وادنی حسرت میں پھر آشفتہ جولنی عبث‬
‫دست برہم سودہ ہے مژگانن خوابیدہ اسدب‬
‫اے دل از کف دادۂ غفلت پیشمانی عبث‬
‫٭٭‬

‫نانز لطنف عشق با وصنف توانائی عبث‬


‫گ محک دعوائے مینائی عبث‬ ‫رنگ ہے سن ن‬
‫ناخنن دخنل عزیزاں یک قلم ہے نقب زن‬
‫پاسباننی طلسنم کننج تنہائی عبث‬
‫محمنل پیمانۂ فرصت ہے بر دونش حباب‬
‫دعوئ دریا کشی و نشہ پیمائی عبث‬
‫جانن عاشق حامنل صد غلبۂ تاثیر ہے‬
‫دل کو اے بیداد خو تعلینم خارائی عبث‬
‫یک نگانہ گرم ہے ‪ ،‬جوں شمع‪ ،‬سر تا پا گداز‬
‫بہنر از خود رفتگاں‪ ،‬رننج خود آرائی عبث‬
‫قیس بھاگا شہر سے شرمندہ ہو کر سوئے دشت‬
‫بن گیا تقلید سے میری یہ سودائی عبث‬
‫اے اسد ب ‪ ،‬بے جا ہے نانز سجدہ‪ ،‬عرض نیاز‬
‫عالنم تسلیم میں یہ دعویی آرائی عبث‬
‫٭٭‬

‫گ دگر ہے آج‬ ‫گلشن میں بندوبست بہ رن ن‬


‫قمری کا طوق حلقۂ بیرونن در ہے آج‬
‫آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ‬
‫تانر نفس کمنند شکانر اثر ہے آج‬
‫اے عافیت کنارہ کر‪ ،‬اے انتظام چل‬
‫ب گریہ دشمنن دیوار و در ہے آج‬ ‫سیل ن‬
‫معزولنی تپش ہوئی افرانط انتظار‬
‫چشنم کشودہ حلقۂ بیرونن در ہے آج‬
‫حیرت فرونش صد نگرانی ہے اضطرار‬
‫ک جیب کا تانر نظر ہے آج‬ ‫ہر رشتہ چا ن‬
‫ہوں دانغ نینم رنگنی شانم وصانل یار‬
‫نونر چرانغ بزم سے جونش سحر ہے آج‬
‫کرتی ہے عاجزی سفنر سوختن تمام‬
‫پیراہنن خسک میں غبانر شرر ہے آج‬
‫تا صبح ہے بہ منزنل مقصد رسیدنی‬
‫دوند چرانغ خانہ غبانر سفر ہے آج‬
‫دور اوفتادۂ چمنن فکر ہے اسدب‬
‫مرنغ خیال بلبنل بے بال و پر ہے آج‬
‫٭٭‬

‫جنبنش ہر برگ سے ہے گل کے لب کو اختلج‬


‫ب شبنم سے صبا ہر صبح کرتی ہے علج‬ ‫دح ن ی‬
‫شانخ گل جنبش میں ہے گہوارہ آسا ہر نفس‬
‫طفنل شونخ غنچۂ گل بسکہ ہے وحشی مزاج‬
‫ک حسن کر‪ ،‬میخانہ ہا نذنر خمار‬ ‫سینر مل ن‬
‫ت یار سے ہے گردنن مینا پہ باج‬ ‫چشنم مس ن‬
‫گریہ ہائے بیدلں گننج شرر در آستیں‬
‫قہرمانن عشق میں حسرت سے لیتے ہیں خراج‬
‫رنگریز جسم و جاں نے ‪ ،‬از خمستانن عدم‬
‫گ احتیاج‬ ‫خرقۂ نہستی نکال ہے برن ن‬
‫ہے سواند چشنم قربانی میں یک عالم مقیم‬
‫حسرنت فرصت جہاں دیتی ہے حیرت کو رواج‬
‫اے اسد ب ‪ ،‬ہے مستعند شانہ گیسو شدن‬
‫پنجۂ مژگاں بخود بالیدنی رکھتا ہے آج‬
‫٭٭‬

‫ت جینب دریدہ کھینچ‬ ‫بیدل‪ ،‬نہ نانز وحش ن‬


‫جوں بوئے غنچہ‪ ،‬یک نفنس آرمیدہ کھینچ‬
‫ت خوں ہے پرتنو خور سے تمام دشت‬ ‫یک مش ن‬
‫درند طلب بہ آبلۂ نا دمیدہ کھینچ‬
‫پیچیدگی‪ ،‬ہے حامنل طومانر انتظار‬
‫پائے نظر بہ دامنن شونق دویدہ کھینچ‬
‫برنق بہار سے ہوں میں پا در حنا ہنوز‬
‫اے خانر دشت‪ ،‬دامنن شونق رمیدہ کھینچ‬
‫ک عبرت ہے ‪ ،‬چشنم صید‬ ‫بیخود بہ لطنف چشم ن‬
‫ت نفنس نا کشیدہ کھینچ‬ ‫یک دانغ حسر ن‬
‫بزنم نظر ہیں بیضۂ طاؤس خلوتاں‬
‫فرنش طرب بہ گلشنن نا آفریدہ کھینچ‬
‫ت سیلب ہے اسدب‬ ‫دریا بسانط دعو ن‬
‫ساغر بہ بارگانہ دمانغ رسیدہ کھینچ‬
‫٭٭‬

‫قطنع سفنر ہستی و آرانم فنا ہیچ‬


‫رفتار نہیں بیشتر از لغزنش پا ہیچ‬
‫حیرت ہمہ اسرار پہ مجبونر خموشی‬
‫ہستی نہیں جز بستنن پیمانن وفا ہیچ‬
‫ت بینش‬ ‫تمثال گداز آئنہ‪ ،‬ہے عبر ن‬
‫نظارہ تحیر‪ ،‬چمنسانن بقا ہیچ‬
‫گلزانر دمیدن‪ ،‬شررستانن رمیدن‬
‫فرصت تپش و حوصلۂ نشو و نما ہیچ‬
‫گ عدم نالہ بہ کہسار گرو ہے‬ ‫آہن ن‬
‫ہستی میں نہیں شوخنی ایجاند صدا ہیچ‬
‫کس بات پہ مغرور ہے اے عجنز تمنا؟‬
‫سامانن دعا وحشت و تاثینر دعا‪ ،‬ہیچ‬
‫گ اسدب میں نہیں جز نغمۂ بیدلب‬ ‫آہن ن‬
‫عالم ہمہ افسانۂ ما دارد و ما ہیچ‬
‫٭٭‬

‫دعوئ عشنق بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح‬


‫ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح‬
‫سانق گلرنگ سے ‪ ،‬اور آئنۂ زانو سے‬
‫جامہ زیبوں کے سدا ہیں‪ ،‬تنہ داماں گل و صبح‬
‫وصنل آئینہ رخاں ہم نفنس یک دیگر‬
‫ہیں دعا ہائے سحر گاہ سے خواہاں گل و صبح‬
‫آئنہ خانہ ہے صحنن چمنستاں یکسر‬
‫بسکہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیراں گل و صبح‬
‫زندگانی نہیں بیش از نفنس چند اسدب‬
‫غفلت آرامنی یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح‬
‫٭٭‬

‫بس کہ وہ پا کوبیاں در پردۂ وحشت ہیں یاد‬


‫ف دفچۂ خورشید‪ ،‬ہر یک گرد باد‬ ‫ہے غل ن‬
‫ف جنگجوئی ہائے یار‬ ‫طرفہ موزونی ہے صر ن‬
‫ف تیغ‪ ،‬خنجر‪ ،‬مستزاد‬ ‫ہے سنر مصرانع صا ن‬
‫ہاتھ آیا زخنم تینغ یار سا پہلو نشیں‬
‫کیوں نہ ہو وے آج کے دن‪ ،‬بیکسی کی روح شاد‬
‫کیجے آہوئے ختن کو خضنر صحرائے طلب‬
‫مشک ہے سنبلستانن زلف ہیں‪ ،‬گرند سواد‬
‫ہم نے سو زخنم جگر پر بھی زباں پیدا نہ کی‬
‫گل ہوا ہے ایک زخنم سینہ پر خواہانن داد‬
‫ف سیہ کاری تمام‬ ‫بس کہ ہیں در پردہ مصرو ن‬
‫ف مداد‬ ‫آستر ہے خرقۂ زہاد کا‪ ،‬صو ن‬
‫تیغ در کف‪ ،‬کف بلب‪ ،‬آتا ہے قاتل اس طرف‬
‫گ غالب ب ‪ ،‬مژدہ باد‬ ‫مژدہ باد‪ ،‬اے آرزوئے مر ن‬
‫٭٭‬
‫تو پست فطرت اور خیانل بسا بلند‬
‫اے طفنل خود معاملہ‪ ،‬قد سے عصا‪ ،‬بلند‬
‫ت نفس نہیں‬ ‫ویرانے سے ‪ ،‬جز آمد و رف ن‬
‫ہے کوچہ ہائے دنے میں‪ ،‬غبار صدا‪ ،‬بلند‬
‫رکھتا ہے انتظانر تماشائے حسنن دوست‬
‫ت دعا‪ ،‬بلند‬ ‫مژگانن باز ماندہ سے ‪ ،‬دس ن‬
‫موقوف کیجیے یہ تکلف نگاریاں‬
‫گ حنا‪ ،‬بلند‬ ‫ہوتا ہے ‪ ،‬ورنہ‪ ،‬شعلۂ رن ن‬
‫قربانن اوج ریزنی چشنم حیا پرست‬
‫ت پا‪ ،‬بلند‬ ‫یک آسماں ہے ‪ ،‬مرتبۂ پش ن‬
‫ہے دلبری‪ ،‬کمیں گر ایجاند یک نگاہ‬
‫کانر بہانہ جوئی چشنم حیا‪ ،‬بلند‬
‫بالیدگی نیانز قند جاں فزا‪ ،‬اسدب‬
‫در ہر نفس‪ ،‬بقدنر نفس ہے ‪ ،‬قبا‪ ،‬بلند‬
‫٭٭‬

‫حسرنت دست گہ و پائے تحمل تا چند؟‬


‫گ گردن‪ ،‬خنط پیمانۂ بے سمل تا چند؟‬ ‫ر ن‬
‫ت پریشاں کاکل‬ ‫ہے گلینم سینہ بخ ن‬
‫موئنہ بافتنن ریشۂ سنبل تا چند؟‬
‫کوکنب بخت‪ ،‬بجز روزنن پر دود نہیں‬
‫ک چشنم جنوں‪ ،‬حلقۂ کاکل تا چند؟‬ ‫عین ن‬
‫چشم بے خونن دل‪ ،‬و دل تہی از جونش نگاہ‬
‫بزباں عرنض فسونن ہونس سگل تا چند؟‬
‫بزم دانغ طرب و باغ کشاند پنر رنگ‬
‫شمع و گل تاکے ؟ و پروانہ و بلبل تا چند؟‬
‫نالہ دانم ہوس و درند اسیری معلوم‬
‫شرنح بر خود غلطی ہائے تحمل تا چند؟‬
‫جوہنر آئنہ فکنر سخنن ہوئے دماغ‬
‫عرنض حسرت‪ ،‬پنس زانوئے تامل تا چند؟‬
‫ت ایجاند غنا‬‫سادگی ہے عدنم قدر ن‬
‫نا کسی‪ ،‬آئنۂ نانز توکل تا چند؟‬
‫اس ندب خستہ‪ ،‬گرفتانر دو عالم اوہام‬
‫مشکل آساں کنن یک خلق‪ ،‬ے غافل تا چند؟‬
‫٭٭‬

‫بہ کانم دل کریں کس طرح گمرہاں فریاد؟‬


‫ت زباں فریاد‬‫!ہوئی ہے ‪ ،‬لغزنش پا‪ ،‬لکن ن‬
‫کمانل بندگنی گل ہے رہنن آزادی‬
‫ت پر و خانر آشیاں فریاد‬ ‫ت مش ن‬ ‫ز دس ن‬
‫نواز نش نفنس آشنا کہاں ؟ ورنہ‬
‫گ دنے ہے نہاں در ہر استخواں فریاد‬ ‫برن ن‬
‫تغافل‪ ،‬آئنہ دانر خموشنی دل ہے‬
‫ہوئی ہے محو بہ تقرینب امتحاں فریاد‬
‫ک بے خبری‪ ،‬نغمۂ وجود و عدم‬ ‫ہل ن‬
‫جہاں و اہنل جہاں سے ‪ ،‬جہاں جہاں فریاد‬
‫ب سنگدلی ہائے دشمناں‪ ،‬ہمت‬ ‫جوا ن‬
‫ز دست شیشۂ دلی ہائے دوستاں فریاد‬
‫ہزار آفت و یک جانن بے نوائے اسدب‬
‫خدا کے واسطے ‪ ،‬اے شانہ بے کساں !فریاد‬
‫٭٭‬

‫شیشۂ آتشیں‪ ،‬رنخ سپر نور‬


‫عرق از خط چکیدہ‪ ،‬روغنن مور‬
‫بس کہ ہوں بعند مرگ بھی نگراں‬
‫مردمک سے ہے خال بر لنب گور‬
‫بار لتی ہے دانہ ہائے سرشک‬
‫مژہ ہے ریشۂ رنز انگور‬
‫ظلم کرنا گدائے عاشق پر‬
‫نہیں شاہانن سحسن کا دستور‬
‫دوستو‪ ،‬مجھ ستم رسیدہ سے‬
‫دشمنی ہے ‪ ،‬وصال کا مذکور‬
‫زندگانی پہ اعتماد غلط‬
‫ہے کہاں قیصرب اور کہاں فغفورب ؟‬
‫کیجے ‪ ،‬جوں اشک اور قطرہ زنی‬
‫اے اسد ب ‪ ،‬ہے ہنوز دلی دور‬
‫٭٭‬

‫ک ماہتاب آئینے پر‬ ‫بس کہ مائل ہے وہ رش ن‬


‫ہے نفس‪ ،‬تانر شعانع آفتاب آئینے پر‬
‫ت جادہ پیمائے رنہ حیرت کہاں؟‬ ‫بازگش ن‬
‫غافلں غش جان کر‪ ،‬چھڑکے ہیں آب آئینے پر‬
‫بدگماں کرتی ہے عاشق کو خود آرائی تری‬
‫ت اضطراب آئینے پر‬ ‫بے دلوں کو ہے برا ن‬
‫نانز خود بینی کے باعث مجرم صد بے گناہ‬
‫جوہنر شمشیر کو ہے پیچ و تاب آئینے پر‬
‫ناتوانی نے نہ چھوڑا بس کہ بیش از عکنس جسم‬
‫مفت وا گستردنی ہے ‪ ،‬فرنش خواب آئینے پر‬
‫مدعی میرے صفائے دل سے ہوتا ہے خجل‬
‫ہے تماشا زشت رویوں کا عتاب آئینے پر‬
‫سد اسکندر بنے بہنر نگاہ گل رخاں‬
‫گر کرے یوں امر‪ ،‬نہی بو تراب‪ ،‬آئینے پر‬
‫دل کو توڑا جونش بیتابی سے ‪ ،‬غالبب کیا کیا؟‬
‫ت اضطراب آئینے پر؟‬ ‫رکھ دیا پہلو بہ وق ن‬
‫٭٭‬

‫دنداں کا خیال‪ ،‬چشنم تر‪ ،‬کر‬


‫ہر دانۂ ن اشک کو گہر کر‬
‫آتی نہیں نیند‪ ،‬اے شنب تار‬
‫افسانۂ ن زلنف یار سر کر‬
‫اے دل‪ ،‬بہ خیانل عارض یار‬
‫یہ شانم غم آپ پر سحر کر‬
‫ہر چند امیند دور تر ہو‬
‫اے حوصلے ! سعنی بیشتر کر‬
‫میں آپ سے جا چکا ہوں اب بھی‬
‫اے بے خبری‪ ،‬اسے خبر کر‬
‫افسانہ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬بایں درازی‬
‫اے غمزدہ! قصہ مختصر کر‬
‫٭٭‬

‫بینش بہ سعنی ضبنط جنوں‪ ،‬نو بہار تر‬


‫دل‪ ،‬در گدانز نالہ‪ ،‬نگہ آبیار تر‬
‫قاتل بہ عزنم ناز و دل از زخم در گداز‬
‫شمشیر آب دار و نگاہ آب دار تر‬
‫ت عرونج تغافل‪ ،‬کمانل حسن‬ ‫ہے کسو ن‬
‫گ نگہ‪ ،‬سوگوار تر‬ ‫چشنم سیہ بہ مر ن‬
‫سعنی خرام‪ ،‬کاونش ایجاند جلوہ ہے‬
‫جونش چکیدنن عرق‪ ،‬آئینہ کار تر‬
‫ک بے خودی‬ ‫ہر گرد باد‪ ،‬حلقۂ فترا ن‬
‫ت عشق‪ ،‬تحیر شکار تر‬ ‫مجنونن دش ن‬
‫اے چرخ !خاک برسنر تعمینر کائنات‬
‫لیکن بنائے عہند وفا استوار تر‬
‫سمجھا ہوا ہوں عشق میں نقصاں کو فائدہ‬
‫جتنا کہ ناامید تر‪ ،‬امیدوار تر‬
‫آئینہ دانغ حیرت و حیرت شکننج یاس‬
‫سیماب بے قرار و اسدب بے قرار تر‬
‫٭٭‬

‫ت بیداد دشمن پر‬ ‫فسونن یک دلی ہے لذ ن‬


‫کہ وجند برق چوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر‬
‫تکلف خار خانر التمانس بے قراری ہے‬
‫ت سوزن پر‬ ‫کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگش ن‬
‫یہ کیا وحشت ہے ؟ اے دیوانے ! پیش از مرگ واویل‬
‫رکھی بے جا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر‬
‫جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی‬
‫گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر‬
‫گ بے تابی‬ ‫گ کاغنذ آتش زدہ‪ ،‬نیرن ن‬
‫برن ن‬
‫ہزار آئینہ دل باندھے ہے بانل یک تپیدن پر‬
‫فلک سے ہم کو عینش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے‬
‫متانع بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر‬
‫ہم اور وہ بے سبب رنج‪ ،‬آشنا دشمن کہ رکھتا ہے‬
‫شعانع مہر سے ‪ ،‬تہمت نگہ کی‪ ،‬چشنم روزن پر‬
‫فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا‬
‫فرونغ طالنع خاشاک ہے موقوف گلخن پر‬
‫اسدب بسمل ہے کس انداز کا؟ قاتل سے کہتا ہے‬
‫"کہ" مشنق ناز کر‪ ،‬خونن دو عالم میری گردن پر‬
‫٭٭‬

‫ت آئینہ‪ ،‬ہے سامانن زنگ آخر‬‫صفائے حیر ن‬


‫ب بر جا ماندہ کا‪ ،‬چلتا ہے رنگ آخر‬ ‫تغیر آ ن‬
‫نہ کی سامانن عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی‬
‫ہوا جام زمرد بھی مجھے ‪ ،‬دانغ پلنگ آخر‬
‫خنط نوخیز نینل چشم زخنم صافنی عارض‬
‫لیا آئینے نے حرنز پنر طوطی بچنگ آخر‬
‫ہلل آسا تہی رہ‪ ،‬گر کشادن ہائے دل چاہے‬
‫ہوا مہ کثرنت سرمایہ اندوزی سے تنگ آخر‬
‫تڑپ کر مرگیا وہ صیند بال افشاں کہ مضطر تھا‬
‫ہوا ناسونر چشنم تعزیت‪ ،‬چشنم خدنگ‪ ،‬آخر‬
‫لکھی یاروں کی بدمستی نے میخانے کی پامالی‬
‫ہوئی قطرہ فشانی ہائے مے بارانن سنگ آخر‬
‫اسدب پیری میں بھی آہن ن‬
‫گ شونق یار قائم ہے‬
‫نہیں ہے نغمے سے خالی‪ ،‬خمیدن ہائے چنگ آخر‬
‫٭٭‬

‫دیا یاروں نے بے ہوشی میں درماں کا فریب آخر‬


‫ت طبیب آخر‬ ‫ہوا سکتے سے میں آئینۂ دس ن‬
‫س‬
‫گ گل‪ ،‬جادۂ تانر نگہ سے حد موافق ہے‬ ‫ر ن‬
‫ملیں گے منزنل الفت میں ہم اور عندلیب آخر‬
‫ت نزع ٹوٹا بے قراری سے‬ ‫غرونر ضبط‪ ،‬وق ن‬
‫نیاز پر افشانی ہو گیا صبر و شکیب آخر‬
‫ستم کش مصلحت سے ہوں‪ ،‬کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں‬
‫تکلف برطرف‪ ،‬مل جائے گا تجھ سا رقیب‪ ،‬آخر‬
‫اسدب کی طرح میری بھی بغیر از صبح رخساراں‬
‫ہوئی شانم جوانی‪ ،‬اے دنل حسرت نصیب‪ ،‬آخر‬
‫٭٭‬

‫حسنن خود آرا کو ہے مشنق تغافل ہنوز‬


‫ہے کنف مشاطہ میں آئنۂ گل ہنوز‬
‫سادگنی یک خیال‪ ،‬شوخنی صد رنگ نقش‬
‫ت آئینہ ہے جینب تامل ہنوز‬ ‫حیر ن‬
‫سادہ و پرکار تر‪ ،‬غافل و ہشیار تر‬
‫مانگے ہے شمشاد سے شانۂ سنبل ہنوز‬
‫ساقی و تعلینم رنج‪ ،‬محفل و تمکیں گراں‬
‫سیلنی استاد ہے ساغنر بے سمل ہنوز‬
‫شغنل ہوس در نظر‪ ،‬لیک حیا بے خبر‬
‫شانخ گنل نغمہ ہے ‪ ،‬نالۂ بلبل ہنوز‬
‫دل کی صدائے شکست‪ ،‬سانز طرب ہے اسدب‬
‫شیشۂ بے بادہ سے چاہے ہے قلقل ہنوز‬
‫٭٭‬

‫ک گریباں کو ہے ربنط تامل ہنوز‬ ‫چا ن‬


‫غنچے میں دل تنگ ہے حوصلۂ گل ہنوز‬
‫ت تغافل ہنوز‬ ‫دل میں ہے سودائے ‪ ،‬زلف مس ن‬
‫ہے مژنہ خواب ناک ریشۂ سنبل ہنوز‬
‫ت پرواز سے‬ ‫پرورنش نالہ ہے وحش ن‬
‫ہے تنہ بانل پری بیضۂ بلبل ہنوز‬
‫ت دل دور گرد‬ ‫عشق کمیں گانہ درد‪ ،‬وحش ن‬
‫دانم تنہ سبزہ ہے حلقۂ کاکل ہنوز‬
‫ت تقرینر عشق‪ ،‬پردگنی گونش دل‬ ‫لذ ن‬
‫جوہنر افسانہ ہے عرنض تحمل ہنوز‬
‫آئنۂ امتحاں‪ ،‬نذنر تغافل‪ ،‬اسدب‬
‫شش جہت اسباب ہے وہنم توکل ہنوز‬
‫٭٭‬

‫بیگانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز‬


‫وہ سبزہ سنگ پر نہ ساگا کوہ کن ہنوز‬
‫فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر‬
‫ہے دانغ عشق‪ ،‬زینت جینب کفن ہنوز‬
‫ہے نانز مفلساں زنر از دست رفتہ پر‬
‫ہوں گل فرونش شوخنی دانغ کہن ہنوز‬
‫مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں‬
‫خمیازہ کھینچے ہے بت بے داد فن ہنوز‬
‫یارب! یہ دردمند ہے کس کی نگاہ کا؟‬
‫ہے ربنط مشک و دانغ سواند ختن ہنوز‬
‫جوں جادہ سر بکوئے تمنائے بیدلی‬
‫زنجینر پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز‬
‫ب بسانط نگاہ تھا‬ ‫میں دور گرند قر ن‬
‫بیرونن دل نہ تھی تپنش انجمن ہنوز‬
‫تھا مجھ کو خار خانر جنونن وفا‪ ،‬اسدب‬
‫سوزن میں تھا‪ ،‬نہفتہ گنل پیرہن ہنوز‬
‫٭٭‬

‫ب یک تپش آموختن ہنوز‬ ‫میں ہوں سرا ن‬


‫زخنم جگر ہے تشنۂ لب دوختن ہنوز‬
‫اے شعلہ فرصتے کہ سویدائے دل سے ہوں‬
‫ت سپنند صد جگر اندوختن ہنوز‬ ‫کش ن‬
‫فانونس شمع ہے کفنن کشتگانن شوق‬
‫در پردہ ہے معاملۂ سوختن ہنوز‬
‫مجنوں‪ ،‬فسونن شعلہ خرامی فسانہ ہے‬
‫ہے شمنع جادہ دانغ نیفروختن ہنوز‬
‫سکویک شرر؟ کہ سانز چراغاں کروں اسدب‬
‫بزنم طرب ہے پردگنی سوختن ہنوز‬
‫٭٭‬

‫دانغ اطفال ہے دیوانہ بہ کہسار ہنوز‬


‫خلونت سنگ میں ہے نالہ طلبگار ہنوز‬
‫خانہ ہے سیل سے سخو کردۂ دیدار ہنوز‬
‫دور بیں درزدہ ہے رخنۂ دیوار ہنوز‬
‫آئی یک عمر سے معذونر تماشا نرگس‬
‫چشنم شبنم میں نہ ٹوٹا مژنہ خار ہنوز‬
‫ف آبلۂ پا‪ ،‬یا رب؟‬ ‫کیوں ہوا تھا طر ن‬
‫جادہ ہے واشدنن پیچنش طومار ہنوز‬
‫ت سعنی کرم دیکھ کہ سر تا سنر خاک‬ ‫وسع ن‬
‫گزرے ہے آبلہ پا‪ ،‬ابنر گہر بار ہنوز‬
‫یک قلم کاغنذ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت‬
‫پ گرمنی رفتار ہنوز‬ ‫نقنش پا میں ہے ت ن‬
‫ت دیدار‪ ،‬اسدب‬ ‫ہوں خموشی چمنن حسر ن‬
‫مژہ ہے شانہ کنش طرۂ گفتار ہنوز‬
‫٭٭‬

‫نہ بندھا تھا بہ عدم نقنش دنل مور ہنوز‬


‫تب سے ہے یاں دہنن یار کا مذکور ہنوز‬
‫ک زبانن دہنن گور ہنوز‬‫سبزہ ہے نو ن‬
‫ت عرنض تمنا میں ہوں رنجور ہنوز‬ ‫حسر ن‬
‫ف جبینن غربت‬ ‫صد تجلی کدہ ہے صر ن‬
‫پیرہن میں ہے غبانر شرنر طور ہنوز‬
‫زخنم دل میں ہے نہاں غنچۂ پیکانن نگار‬
‫جلوۂ باغ ہے در پردۂ ناسور ہنوز‬
‫پا سپر از آبلہ رانہ طلنب مے میں ہؤا‬
‫ہاتھ آیا نہیں یک دانۂ انگور ہنوز‬
‫گل کھلے ‪ ،‬غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی‬
‫سر خونش خواب ہے ‪ ،‬وہ نرگس مخمور ہنوز‬
‫ت سیہ ظاہر ہے‬ ‫اے اسدب ‪ ،‬تیرگی بخ ن‬
‫نظر آتی نہیں صبنح شنب دیجور ہنوز‬
‫٭٭‬

‫سکو بیابانن تمنا و کجا جولنن عجز؟‬


‫آبلے پا کے ہیں یاں رفتار کو دندانن عجز‬
‫ہو قبونل کم نگاہی‪ ،‬تحفۂ اہنل نیاز‬
‫اے دل و اے جانن ناز‪ ،‬اے دین و اے ایمانن عجز‬
‫ب بدگمانی ہائے حسن‬ ‫بوسۂ پا انتخا ن‬
‫یاں ہجونم عجز سے تا سجدہ ہے جولنن عجز‬
‫حسن کو غنچوں سے ہے پوشیدہ چشمی ہائے ناز‬
‫عشق نے وا کی ہے ہر یک خار سے مژگانن عجز‬
‫ب نارسائی‪ ،‬مایۂ شرمندگی‬ ‫اضطرا ن‬
‫ہے عرق ریزنی خجلت جوشنش طوفانن عجز‬
‫وہ جہاں مسند نشینن بارگانہ ناز ہو‬
‫ب نیازستانن عجز‬ ‫ت خوباں‪ ،‬ہو محرا ن‬‫قام ن‬
‫ببس کہ بے پایاں ہے صحرائے محبت‪ ،‬اے اسدب‬
‫گرد باد اس راہ کا‪ ،‬ہے عقدۂ پیمانن عجز‬
‫٭٭‬

‫حاصنل دل بستگی ہے عمنر کوتہ اور بس‬


‫وقنف عرنض عقدہ ہائے متیصل تانر نفس‬
‫کیوں نہ طوطنی طبیعت نغمہ پیرائی کرے‬
‫ک قفس‬ ‫گ گل آئینہ تا چا ن‬ ‫باندھتا ہے رن ن‬
‫اے ا دافہماں‪ ،‬صدا ہے تنگنی فرصت سے خوں‬
‫ہے بہ صحرائے تحیر چشنم قربانی‪ ،‬جرس‬
‫تیز تر ہوتا ہے خشنم تند خویاں عجز سے‬
‫گ فسانن تینغ شعلہ‪ ،‬خار و خس‬ ‫گ سن ن‬ ‫ہے ر ن‬
‫سختنی رانہ محبت‪ ،‬مننع دخنل غیر ہے‬
‫ب جادہ ہے یاں جوہنر تینغ عسس‬ ‫پیچ و تا ن‬
‫اے اسد ب ‪ ،‬ہم خود اسینر رنگ و بوئے باغ ہیں‬
‫ظاہرا‪ ،‬صیاند ناداں ہے گرفتانر ہوس‬
‫٭٭‬

‫ک کشتگاں محبوس و بس‬ ‫ت الفت میں ہے خا ن‬ ‫دش ن‬


‫ب جادہ ہے ‪ ،‬خنط کنف افسوس و بس‬ ‫ن‬ ‫تا‬ ‫و‬ ‫پیچ‬
‫نیم رنگی ہائے شمع محفنل خوباں سے ہے‬
‫ک پردۂ فانوس و بس‬ ‫ف چا ن‬ ‫پیچ ن‬
‫ک مہ‪ ،‬صر ن‬
‫ہے تصور میں نہاں سرمایۂ صد گلستاں‬
‫کاسۂ زانو ہے مجھ کو بیضۂ طاؤس و بس‬
‫کفر ہے غیر از وفونر شوق رہبر ڈھونڈھتا‬
‫رانہ صحرائے حرم میں ہے ‪ ،‬جرس‪ ،‬ناقوس و بس‬
‫یک جہاں گل تختۂ مشق شگفتن ہے اسدب‬
‫غنچۂ خاطر رہا افسردگی مانوس و بس‬
‫٭٭‬

‫ت رنگیں دنل مایوس‬ ‫کرتا ہے بہ یاند ب ن‬


‫گ ز نظر رفتہ حنائے کنف افسوس‬ ‫رن ن‬
‫تھا خواب میں کیا جلوہ پرستانر زلیخا؟‬
‫ہے بالنش دل سوختگاں میں پنر طاؤس‬
‫حیرت سے ترے جلوے کی از بس کہ‪ ،‬ہیں بیکار‬
‫خور‪ ،‬قطرۂ شبنم میں ہے جوں شمع بہ فانوس‬
‫ت اغیار غرض ہے‬ ‫دریافتنن صحب ن‬
‫اے نامہ رساں! نامہ رساں چاہیے جاسوس‬
‫ہے مشق‪ ،‬اسدب ‪ ،‬دستگنہ وصل کی منظور‬
‫ک قدم بوس‬ ‫ہوں خاک نشیں از پئے ادرا ن‬
‫٭٭‬

‫ف مشنق تمکینن بہار آتش‬ ‫ہوئی ہے بس کہ صر ن‬


‫ت چنار آتش‬ ‫بہ اندانز حنا ہے روننق دس ن‬
‫ب جلوہ تمکیں‬ ‫شرر ہے رنگ بعد اظہانر تا ن‬
‫ب روئے کار آتش‬ ‫کرے ہے سنگ پر‪ ،‬خرشید‪ ،‬آ ن‬
‫گدانز موم ہے افسونن ربط پیکر آرائی‬
‫نکالے کب‪ ،‬نہانل شمع‪ ،‬بے تخم شرار آتش‬
‫نہ لیوے گر خنس جوہر‪ ،‬طراوت‪ ،‬سبزۂ خط سے‬
‫لگاوے خانۂ آئینہ میں روئے نگار‪ ،‬آتش‬
‫فرونغ حسن سے ہوتی ہے حنل مشکنل عاشق‬
‫نہ نکلے شمع کے پا سے ‪ ،‬نکالے گر نہ خار‪ ،‬آتش‬
‫خیانل دود تھا‪ ،‬سر جونش سودائے غلط فہمی‬
‫اگر رکھتی نہ خاکستر نشینی کا غبار‪ ،‬آتش‬
‫ہوائے پر فشانی‪ ،‬برنق خرمن ہائے خاطر ہے‬
‫بہ بانل شعلۂ بیتاب ہے ‪ ،‬پروانہ زار‪ ،‬آتش‬
‫نہیں برق و شرر‪ ،‬جز وحشت و ضبنط تپیدن ہا‬
‫بل گردانن بے پروا‪ ،‬خرامی ہائے یار آتش‬
‫دھوئیں سے آگ کے ‪ ،‬اک ابنر دریا بار ہو پیدا‬
‫اسدب ‪ ،‬حیدر پرستوں سے اگر ہووے دو چار آتش‬
‫٭٭‬

‫بہ اقلینم سخن ہے جلوۂ گرند سواد‪ ،‬آتش‬


‫کہ ہے دوند چراغاں سے ‪ ،‬ہیولئے مداد‪ ،‬آتش‬
‫اگر مضمون خاکستر کرے دیباچہ آرائی‬
‫نہ باندھے شعلۂ جوالہ غیر از گرد باد‪ ،‬آتش‬
‫کرے ہے لطنف اندانز برہنہ گوئنی خوباں‬
‫بہ تقرینب نگارش ہائے سطر شعلہ باد آتش‬
‫دیا دانغ جگر کو آہ نے ساماں شگفتن کا‬
‫نہ ہو بالیدہ‪ ،‬غیر از جنبنش دامانن باد‪ ،‬آتش‬
‫اسدب ‪ ،‬قدرت سے حیدر کی‪ ،‬ہوئی ہر گبر و ترسا کو‬
‫گ بت‪ ،‬بہنر بنائے اعتقاد‪ ،‬آتش‬ ‫شرانر سن ن‬
‫٭٭‬
‫ت شام ہے ‪ ،‬تانر شعاع‬ ‫جادۂ رہ خور کو وق ن‬
‫چرخ وا کرتا ہے ‪ ،‬مانہ نو سے آغونش وداع‬
‫ت تحیر در دہن‬ ‫شمع سے ہے ‪ ،‬بزم انگش ن‬
‫شعلۂ آوانز خوباں پر بہنگانم سماع‬
‫جوں پنر طاؤس‪ ،‬جوہر‪ ،‬تختہ مشنق رنگ ہے‬
‫بس کہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محنو اختراع‬
‫رنجنش حیرت سرشتاں‪ ،‬سینہ صافی پیشکش‬
‫جوہنر آئینہ ہے یاں‪ ،‬گرند میدانن نزاع‬
‫چار سوئے دہر میں بازانر غفلت گرم ہے‬
‫عقل کے نقصان سے ساٹھتا ہے خیال انتفاع‬
‫آشنا‪ ،‬غالبب ‪ ،‬نہیں ہیں درند دل کے آشنا‬
‫ب استماع؟‬ ‫ورنہ کس کو میرے افسانے کی تا ن‬
‫٭٭‬

‫رنخ نگار سے ہے سونز جاوداننی شمع‬


‫ب زندگاننی شمع‬‫ہوئی ہے آتنش گل‪ ،‬آ ن‬
‫زبانن اہنل زباں میں ہے مرگ خاموشی‬
‫یہ بات بزم میں روشن ہوئی زباننی شمع‬
‫کرے ہے صرف بایمائے شعلہ قصہ تمام‬
‫بہ طرنز اہنل فنا ہے فسانہ خواننی شمع‬
‫غم ناس کو حسرنت پروانہ کا ہے اے شعلے‬
‫ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتواننی شمع‬
‫ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے‬
‫بجلوہ ریزنی باد و بپر فشاننی شمع‬
‫نشانط دانغ غنم عشق کی بہار نہ پوچھ‬
‫شگفتگی‪ ،‬ہے شہیند گنل خزاننی شمع‬
‫جلے ہے دیکھ کے بالینن یار پر مجھ کو‬
‫نہ کیوں ہو دل پہ مرے دانغ بدگماننی شمع‬
‫٭٭‬

‫ک چشم سے دھوویں ہزار داغ‬ ‫عشاق اش ن‬


‫دیتا ہے اور‪ ،‬جوں گل و شبنم‪ ،‬بہار داغ‬
‫جوں چشنم‪ ،‬باز ماندہ ہے ہر یک بسوئے دل‬
‫رکھتا ہے دانغ تازہ کا یاں انتظار‪ ،‬داغ‬
‫ت باغ میں‬ ‫بے للہ عارضاں مجھے گلگش ن‬
‫دیتی ہے ‪ ،‬گرمنی گل و بلبل‪ ،‬ہزار داغ‬
‫جوں اعتماد نامہ و خط کا ہو مہر سے‬
‫یوں عاشقوں میں ہے سبنب اعتبار‪ ،‬داغ‬
‫ہوتے ہیں محو جلوۂ خور سے ‪ ،‬ستارگاں‬
‫دیکھ ساس کو دل سے مٹ گئے بے اختیار داغ‬
‫ت خیانل جلوۂ حسنن بتاں اسدب‬ ‫وق ن‬
‫دکھلئے ہے مجھے دو جہاں للہ زار داغ‬
‫٭٭‬

‫بلبلوں کو دور سے کرتا ہے مننع بانر باغ‬


‫ہے زبانن پاسباں خانر سنر دیوانر باغ‬
‫ب استقبال ہے ؟‬ ‫کون آیا جو چمن بیتا ن‬
‫جنبنش مونج صبا‪ ،‬ہے شوخنی رفتانر باغ‬
‫ب دورانن خمار‬ ‫میں ہمہ حیرت‪ ،‬جنوں بیتا ن‬
‫مردنم چشنم تماشا‪ ،‬نقطۂ پرکانر باغ‬
‫گ رنخ ہر گل کو بخشے ہے فروغ‬ ‫آتنش رن ن‬
‫ہے دنم سرند صبا سے ‪ ،‬گرمنی بازانر باغ‬
‫کون گل سے ضعف و خاموشنی بلبل کہہ سکے ؟‬
‫نے زبانن غنچہ‪ ،‬گویا نے زبانن خانر باغ‬
‫جونش گل‪ ،‬کرتا ہے استقبانل تحرینر اسدب‬
‫زینر مشنق شعر‪ ،‬ہے نقش از پئے احضانر باغ‬
‫٭٭‬

‫!نامہ بھی لکھتے ہو‪ ،‬تو بخنط غبار‪ ،‬حیف‬


‫!رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت‪ ،‬ہزار حیف‬
‫بیش از نفس‪ ،‬بتاں کے کرم نے وفا نہ کی‬
‫!تھا محمنل نگاہ بدونش شرار‪ ،‬حیف‬
‫تھی میرے ہی جلنے کو‪ ،‬اے آہ شعلہ ریز‬
‫!گھر پر پڑا نہ غیر کے کوئی شرار‪ ،‬حیف‬
‫گل چہرہ ہے کسو خفقانی مزاج کا‬
‫!گھبرا رہی ہے بینم خزاں سے بہار‪ ،‬حیف‬
‫بینم رقیب سے نہیں کرتے ودانع ہوش‬
‫!مجبور یاں تلک ہوئے ‪ ،‬اے اختیار‪ ،‬حیف‬
‫جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے‬
‫!اے ناتمامنی نفنس شعلہ بار‪ ،‬حیف‬
‫ت خاک سے ساس کو کدورتیں‬ ‫ہیں میری مش ن‬
‫!پائی جگہ بھی دل میں تو ہو کر غبار‪ ،‬حیف‬
‫ب یار‬‫بنتا‪ ،‬اسد ب ‪ ،‬میں سرمۂ چشنم رکا ن‬
‫!آیا نہ میری خاک پہ وہ شہسوار‪ ،‬حیف‬
‫٭٭‬

‫عیس ن یی مہرباں ہے شفا ریز یک طرف‬


‫درد آفریں ہے طبنع الم خیز یک طرف‬
‫سنجیدنی ہے ایک طرف رننج کوہ کن‬
‫ب گرانن خسرنو پرویز یک طرف‬‫خوا ن‬
‫خرمن بباد دادۂ دعوے ہیں‪ ،‬ہو سو ہو‬
‫ہم یک طرف ہیں برنق شرر بیز‪ ،‬یک طرف‬
‫ت دل و جگر خلنش غمزہ ہائے ناز‬ ‫مف ن‬
‫کاوش فروشنی مژنہ تیز یک طرف‬
‫ہر مو بدن پہ شہپر پرواز ہے مجھے‬
‫بے تابنی دنل تپش انگیز یک طرف‬
‫یک جانب‪ ،‬اے اسدب ‪ ،‬شنب فرقت کا بیم ہے‬
‫دانم ہوس ہے ‪ ،‬زلنف دلویز‪ ،‬یک طرف‬
‫٭٭‬

‫گر تجھ کو ہے یقینن اجابت‪ ،‬دعا نہ مانگ‬


‫یعنی‪ ،‬بغینر یک دنل بے مدعا نہ مانگ‬
‫اے آرزو! شہیند وفا !خوں بہا نہ مانگ‬
‫جز بہنر دست و بازوئے قاتل‪ ،‬دعا نہ مانگ‬
‫گستاخنی وصال‪ ،‬ہے مشاطۂ نیاز‬
‫یعنی دعا بجز خنم زلنف دوتا نہ مانگ‬
‫برہم ہے ‪ ،‬بزنم غنچہ‪ ،‬بیک جنبنش نشاط‬
‫کاشانہ بس کہ تنگ ہے ‪ ،‬غافل ہوا نہ مانگ‬
‫عیسیی !طلسنم حسن تغافل ہے ‪ ،‬زینہار‬
‫ت چشم‪ ،‬نسخۂ عرنض دوانہ مانگ‬ ‫جز پش ن‬
‫میں دور گرند عرنض رسونم نیاز ہوں‬
‫دشمن سمجھ‪ ،‬ولے نگنہ آشنا نہ مانگ‬
‫نظارہ دیگر و دنل خونیں نفس دگر‬
‫آئینہ دیکھ‪ ،‬جوہنر برگ حنا نہ مانگ‬
‫آتا ہے دانغ حسرنت دل کا شمار یاد‬
‫مجھ سے مرے گنہ کا حساب‪ ،‬اے خدا نہ مانگ‬
‫ت اوج‪ ،‬نذنر سبک باری‪ ،‬اسدب‬ ‫یک بخ ن‬
‫سر پر‪ ،‬وبانل سایۂ بانل ہما نہ مانگ‬
‫٭٭‬

‫بدر‪ ،‬ہے آئینۂ طانق ہلل‬


‫غافلں‪ ،‬نقصان سے پیدا ہے کمال‬
‫ہے بیاند زلنف مشکیں سال و ماہ‬
‫رونز روشن شانم آں سوئے خیال‬
‫بس کہ ہے اصنل دمیدن ہا‪ ،‬غبار‬
‫ہے نہانل شکوہ‪ ،‬ریحانن سفال‬
‫صافنی رخ سے تر ے ‪ ،‬ہنگانم شب‬
‫عکنس دانغ مہ ہوا عارض پہ خال‬
‫نور سے تیرے ہے اس کی روشنی‬
‫ت سوال‬ ‫ورنہ ہے خورشید یک دس ن‬
‫شونر حشر ساس فتنہ قامت کے حضور‬
‫سایہ آسا ہو گیا ہے پائمال‬
‫ہو جو بلبل پیرنو فکنر اسد‬
‫غنچۂ منقانر سگل ہو زینر بال‬
‫٭٭‬

‫ت خیال‬ ‫ہوں بہ وحشت‪ ،‬انتظار آوارۂ دش ن‬


‫اک سفیدی مارتی ہے دور سے ‪ ،‬چشنم غزال‬
‫ہے نفس پروردہ‪ ،‬گلشن‪ ،‬کس ہوائے بام کا؟‬
‫طونق قمری میں ہے ‪ ،‬سرنو باغ‪ ،‬ریحانن سفال‬
‫ہم غلط سمجھے تھے ‪ ،‬لیکن زخنم دل پر رحم کر‬
‫آخر اس پردے میں تو ہنستی تھی‪ ،‬اے صبنح وصال‬
‫بیکسی افسردہ ہوں‪ ،‬اے ناتوانی‪ ،‬کیا کروں؟‬
‫جلوۂ خرشید سے ہے گرم‪ ،‬پہلوئے ہلل‬
‫شکوہ درد و درد داغ‪ ،‬اے بے وفا‪ ،‬معذور رکھ‬
‫خوں بہائے یک جہاں سامید ہے ‪ ،‬تیرا خیال‬
‫ت اندیشہ ہے‬ ‫عرنض درند بے وفائی‪ ،‬وحش ن‬
‫خوں ہوا دل تا جگر‪ ،‬یا رب زبانن شکوہ لل‬
‫ساس جفا مشرب پہ عاشق ہوں کہ سمجھے ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫مانل سسینی کو مباح اور خونن صوفی کو حلل‬
‫٭٭‬

‫ہر عضو‪ ،‬غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل‬


‫جوں زلنف یار‪ ،‬ہوں میں سراپا شکستہ دل‬
‫ہے سر نوشت میں رقنم وا شکستگی‬
‫ہوں‪ ،‬جوں خنط شکستہ‪ ،‬بہر جا شکستہ دل‬
‫امواج کی جو یہ شکنیں آشکار ہیں‬
‫ہے چشنم اشک ریز سے ‪ ،‬دریا‪ ،‬شکستہ دل‬
‫ناسازنی نصیب و درشتنی غم سے ہے‬
‫امید ونا امید و تمنا شکستہ دل‬
‫گ ظلنم چرخ سے میخانے میں‪ ،‬اسدب‬ ‫ہے سن ن‬
‫صہبا فتادہ خاطر و مینا شکستہ دل‬
‫٭٭‬

‫بہنر عرنض حانل شبنم‪ ،‬ہے رقم ایجاد گل‬


‫ظاہرا ہے اس چمن میں لنل مادر زاد‪ ،‬گل‬
‫گر کرے انجام کو آغاز ہی میں یاد‪ ،‬گل‬
‫غنچے سے منقانر بلبل وار ہو فریاد‪ ،‬گل‬
‫گر بہ بزنم باغ‪ ،‬کھینچے نقنش روئے یار کو‬
‫شمع ساں ہو جائے قنیط خامۂ بہزاد‪ ،‬گل‬
‫دست رنگیں سے جو سرخ پروا کرے زلنف رسا‬
‫شانخ گل میں ہو نہاں جوں شانہ در شمشاد گل‬
‫ب روئے کار‬ ‫سعنی عاشق ہے فروغ افزائے آ ن‬
‫ت فرہاد‪ ،‬گل‬ ‫ہے شرانر تیشہ بہنر ترب ن‬
‫ہے تصور صافنی قطنع نظر از غینر یار‬
‫ت دل سے لوے ہے ‪ ،‬شمنع خیال آباد‪ ،‬گل‬ ‫لخ ن‬
‫گلشن آباند دنل مجروح میں ہو جائے ہے‬
‫ک صیاد‪ ،‬گل‬ ‫غنچۂ پیکانن شانخ ناو ن‬
‫ک حسن‬ ‫برنق سامانن نظر ہے ‪ ،‬جلوۂ بے با ن‬
‫شمنع خلوت خانہ کیجے ‪ ،‬ہر چہ بادا باد‪ ،‬گل‬
‫خاک ہے عرنض بہانر صد نگارستاں‪ ،‬اسدب‬
‫حسرتیں کرتی ہے ‪ ،‬میری خاطنر آزاد‪ ،‬گل‬
‫٭٭‬
‫٭٭‬

‫گر چہ ہے یک بیضۂ طاؤس آسا تنگ‪ ،‬دل‬


‫ہے چمن سرمایۂ بالیدنن صد رنگ‪ ،‬دل‬
‫بے دلوں سے ہے ‪ ،‬تپش‪ ،‬جوں خواہنش آب از سراب‬
‫ہے شرر موہوم‪ ،‬اگر رکھتا ہووے سنگ دل‬
‫رشتۂ فہمیند ممسک ہے بہ بنند کوتہی‬
‫عقدہ ساں ہے کیسۂ زر پر خیانل تنگ دل‬
‫ہوں زپا افتادۂ اندانز یاند حسنن سبز‬
‫کس قدر ہے نشہ فرسائے خمانر بنگ‪ ،‬دل‬
‫شونق بے پروا کے ہاتھوں مثنل سانز نادرست‬
‫کھینچتا ہے آج نالے خارج از آہنگ‪ ،‬دل‬
‫اے اسد خاسمش ہے طوطنی شکر گفتانر طبع‬
‫ظاہرا رکھتا ہے آئینہ اسینر زنگ دل‬
‫٭٭‬

‫اثر کمندنی فریاند نارسا معلوم‬


‫غبانر نالہ کمیں گانہ مدعا معلوم‬
‫بقدنر حوصلۂ عشق جلوہ ریزی ہے‬
‫وگرنہ خانۂ آئینہ کی فضا معلوم‬
‫بہار در گرنو غنچہ‪ ،‬شہر جولں ہے‬
‫طلسنم ناز بجز‪ ،‬تنگنی قبا معلوم‬
‫بنالہ حاصنل دل بستگی فراہم کر‬
‫متانع خانۂ زنجیر‪ ،‬جز صدا معلوم‬
‫طلسنم خاک‪ ،‬کمیں گانہ یک جہاں سودا‬
‫بہ مرگ‪ ،‬تکیۂ آسائنش فنا معلوم‬
‫تکلف‪ ،‬آئنۂ دوجہاں مدارا ہے‬
‫سسرانغ یک نگنہ قہر آشنا معلوم‬
‫ب طرنز جفا‬‫اسد فریفتۂ انتخا ن‬
‫وگرنہ دلبرنی وعدۂ وفا معلوم‬
‫٭٭‬

‫ازاں جا کہ حسرت کنش یار ہیں ہم‬


‫رقینب تمنائے دیدار ہیں ہم‬
‫رمیدن‪ ،‬گنل بانغ واماندگی ہے‬
‫عبث محمل آرائے رفتار ہیں ہم‬
‫نفس ہو نہ معزونل شعلہ درودن‬
‫کہ ضبنط تپش سے شرر کار ہیں ہم‬
‫تغافل‪ ،‬کمیں گاہ‪ ،‬وحشت شناسی‬
‫تماشائے گلشن‪ ،‬تمینائے چیدن‬
‫بہار آفرینا ! گنہگار ہیں ہم‬
‫نہ ذونق گریباں‪ ،‬نہ پروائے داماں‬
‫نگہ آشنائے گل و خار ہیں ہم‬
‫اسد ب ‪ ،‬شکوہ کفر‪ ،‬و دعا نا سپاسی‬
‫ہجونم تمنا سے لچار ہیں ہم‬
‫٭٭‬

‫یاں اشک جدا گرم ہے ‪ ،‬اور آہ جدا گرم‬


‫حسرت کدہ عشق کی ہے آب و ہوا گرم‬
‫اس شعلے نے گلگوں کو جو گلشن میں کیا گرم‬
‫پھولوں کو ہوئی باد بہاری‪ ،‬وہ ہوا گرم‬
‫وا کر سکے یاں کون بجز کاونش شوخی‬
‫جوں برق ہے پیچیدگنی بنند قبا گرم‬
‫گر ہے سر دریوزگی جلوہ دیدار‬
‫ت دعا‪ ،‬گرم‬ ‫جوں پنجہ خرشید ہو‪ ،‬اے دس ن‬
‫یہ آتنش ہمسایہ کہیں گھر نہ جل دے‬
‫کی ہے دنل سوزاں نے مرے پہلو میں جا گرم‬
‫غیروں سے اسے گرنم سخن دیکھ کے ‪ ،‬غالبب‬
‫میں رشک سے ‪ ،‬جوں آتنش خاموش‪ ،‬رہا گرم‬
‫٭٭‬

‫ت بشکن بشکنن میخانہ ہم‬ ‫بس کہ ہیں بد مس ن‬


‫موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خنط پیمانہ ہم‬
‫بس کہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تانر شعاع‬
‫ت شانہ ہم‬ ‫پنجۂ خرشید کو سمجھے ہیں دس ن‬
‫ہے فرونغ ماہ سے ہر موج‪ ،‬اک تصوینر خاک‬
‫سیل سے ‪ ،‬فرنش کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم‬
‫مشنق از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزانر خیال‬
‫ب سبزۂ بیگانہ ہم‬ ‫آشنا تعبیر خوا ن‬
‫فرنط بے خوابی سے ہیں شب ہائے ہجنر یار میں‬
‫جوں زبانن شمع‪ ،‬دانغ گرمنی افسانہ ہم‬
‫جانتے ہیں‪ ،‬جوشنش سودائے زلنف یار میں‬
‫سنبنل بالیدہ کو موئے سنر دیوانہ ہم‬
‫بس کہ وہ چشم و چرانغ محفنل اغیار ہے‬
‫چپکے چپکے جلتے ہیں‪ ،‬جوں شمنع ماتم خانہ ہم‬
‫شانم غم میں سونز عشنق آتنش رخسار سے‬
‫ت پروانہ ہم‬ ‫پر فشانن سوختن ہیں‪ ،‬صور ن‬
‫غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس‬
‫برق سے کرتے ہیں روشن شمنع ماتم خانہ ہم‬
‫محفلیں برہم کرے ہے ‪ ،‬گنجفہ بانز خیال‬
‫گ یک بتخانہ ہم‬ ‫ہیں ورق گرداننی نیرن ن‬
‫باوجود یک جہاں ہنگامہ‪ ،‬پیدائی نہیں‬
‫ہیں چراغانن شبستانن دنل پروانہ ہم‬
‫ک جستجو‬ ‫ضعف سے ہے ‪ ،‬نے قناعت سے ‪ ،‬یہ تر ن‬
‫ہیں وبانل تکیہ گانہ ہمت مردانہ ہم‬
‫دائم الحبس اس میں ہیں لکھوں تمنائیں اسدب‬
‫جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم‬
‫٭٭‬

‫جس دم کہ جادہ وار ہو تانر نفس تمام‬


‫پیمائنش زمینن رنہ عمر بس تمام‬
‫ت گم گشتگاں سے ‪ ،‬آہ‬ ‫کیا دے صدا ؟کہ الف ن‬
‫ہے سرمہ‪ ،‬گرند رہ‪ ،‬بہ گلوئے جرس تمام‬
‫ڈرتا ہوں کوچہ گردنی بازانر عشق سے‬
‫ہیں‪ ،‬خانر راہ‪ ،‬جوہنر تینغ عسس تمام‬
‫اے بانل اضطراب! کہاں تک فسردگی؟‬
‫یک پر زدن تپش میں ہے ‪ ،‬کانر قفس تمام‬
‫ت بند‬‫گذرا جو آشیاں کا تصور بہ وق ن‬
‫مژگانن چشنم دام ہوئے ‪ ،‬خار و خس تمام‬
‫کرنے نہ پائے ضعف سے شونر جنوں‪ ،‬اسدب‬
‫اب کے بہار کا یہیں گزرا برس تمام‬
‫٭٭‬

‫خوش وحشتے کہ عرنض جنونن فنا کروں‬


‫جوں گرند راہ‪ ،‬جامۂ ہستی قبا کروں‬
‫ت دل کا گلہ کروں‬ ‫گر بعند مرگ وحش ن‬
‫مونج غبار سے پنر یک دشت وا کروں‬
‫آ‪ ،‬اے بہانر ناز! کہ تیرے خرام سے‬
‫دستار گرند شانخ گنل نقنش پا کروں‬
‫خوش اوفتادگی ! کہ بہ صحرائے انتظار‬
‫جوں جادہ‪ ،‬گرند رہ سے نگہ سرمہ سا کروں‬
‫صبر اور یہ ادا کہ دل آوے اسینر چاک‬
‫درد اور یہ کمیں کہ رنہ نالہ وا کروں‬
‫ت اقبال ہوں کہ میں‬ ‫وہ بے دمانغ من ن‬
‫وحشت بہ دانغ سایۂ بانل ہما کروں‬
‫وہ التمانس لذنت بیداد ہوں کہ میں‬
‫ت خنم التجا کروں‬ ‫تینغ ستم کو پش ن‬
‫وہ رانز نالہ ہوں کہ بشرنح نگانہ عجز‬
‫افشاں غبانر سرمہ سے فرند صدا کروں‬
‫ب خوش‪ ،‬ولے‬ ‫ت خفتہ سے ‪ ،‬یک خوا ن‬ ‫لوں وام بخ ن‬
‫غالبب !یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں‬
‫٭٭‬
‫جہاں تیرا نقنش قدم دیکھتے ہیں‬
‫خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں‬
‫کسو کو زخود رستہ کم دیکھتے ہیں‬
‫کہ آہو کو پابنند رم دیکھتے ہیں‬
‫ت دل یک قلم دیکھتے ہیں‬ ‫خنط لخ ن‬
‫مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں‬
‫دل آشفتگاں خانل کننج دہن کے‬
‫سویدا میں سینر عدم دیکھتے ہیں‬
‫ترے سرنو قامت سے اک قنید آدم‬
‫قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں‬
‫!تماشا کہ‪ ،‬اے محنو آئینہ داری‬
‫تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں‬
‫سرانغ تنف نالہ لے دانغ دل سے‬
‫کہ شب رو کا نقنش قدم دیکھتے ہیں‬
‫ب یقین ہیں پریشان نگاہاں‬ ‫سرا ن‬
‫اسدب کو گر از چشنم کم دیکھتے ہیں‬
‫کہ ہم بیضۂ ن طوطنی ہند‪ ،‬غافل‬
‫تنہ بانل شمنع حرم دیکھتے ہیں‬
‫بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب‬
‫تماشائے اہنل کرم دیکھتے ہیں‬
‫٭٭‬

‫مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں‬


‫ہیں جمع سویدائے دنل چشم میں‪ ،‬آہیں‬
‫ک چشم میں ہوں جمع نگاہیں‬ ‫جوں مردم ن‬
‫خوابیدہ بہ حیرت کدۂ داغ ہیں آہیں‬
‫پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں‬
‫جوں دود‪ ،‬فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں‬
‫پایا سنر ہر ذیرہ جگر گوشۂ وحشت‬
‫ہیں داغ سے معمور شقایق کی کلہیں‬
‫کس دل پہ ہے عزنم صنف مژگانن خود آرا؟‬
‫آئینے کی پایاب سے اتری ہیں سپاہیں‬
‫دیر و حرم‪ ،‬آئینۂ تکرانر تمنا‬
‫واماندگنی شوق تراشے ہے پناہیں‬
‫یہ مطلع‪ ،‬اسدب ‪ ،‬جوہنر افسونن سخن ہو‬
‫ک نفنس سوختہ چاہیں‬ ‫گر عرنض تپا ن‬
‫حسرت کنش یک جلوۂ معنی ہیں نگاہیں‬
‫کھینچوں ہوں سویدائے دنل چشم سے آہیں‬
‫٭٭‬

‫جس جا کہ پائے سینل بل درمیاں نہیں‬


‫دیوانگاں کو واں ہونس خانماں نہیں‬
‫ت قبول‬ ‫کس جرم سے ہے چشم تجھے حسر ن‬
‫گ حنا مگر مژنہ خوں فشاں نہیں‬ ‫بر ن‬
‫ہر رنگ گردش‪ ،‬آئنہ ایجاند درد ہے‬
‫ک سحاب‪ ،‬جز بودانع خزاں‪ ،‬نہیں‬ ‫اش ن‬
‫!جز عجز کیا کروں بہ تمنائے بے خودی‬
‫ب گراں نہیں‬ ‫طاقت‪ ،‬حرینف سختنی خوا ن‬
‫عبرت سے پوچھ درند پریشاننی نگاہ‬
‫یہ گرند وہم جز بسنر امتحاں نہیں‬
‫گل‪ ،‬غنچگی میں غرقۂ دریائے رنگ ہے‬
‫اے آگہی‪ ،‬فرینب تماشا کہاں نہیں‬
‫برنق بجانن حوصلہ آتش فگن‪ ،‬اسدب‬
‫ت ضبنط فغاں نہیں‬
‫اے دل فسردہ! طاق ن‬
‫٭٭‬

‫گ شیریں ہو گئی تھی کوہکن کی فکر میں‬ ‫مر ن‬


‫تھا‪ ،‬حرینر سنگ سے ‪ ،‬قطنع کفن کی فکر میں‬
‫ت یک چشنم حیرت‪ ،‬شش جہت آغوش ہے‬ ‫فرص ن‬
‫ہوں سپند آسا ودانع انجمن کی فکر میں‬
‫وہ غرینب وحشت آباند تسلی ہوں‪ ،‬جسے‬
‫کوچہ دے ہے زخنم دل‪ ،‬صبنح وطن کی فکر میں‬
‫ت گل مونج سدود‬ ‫سایۂ گل داغ و جونش نکہ ن‬
‫رنگ کی گرمی ہے تارانج چمن کی فکر میں‬
‫ت اندیشہ ہے‬ ‫فانل ہستی‪ ،‬خار خانر وحش ن‬
‫شوخنی سوزن ہے ساماں پیرہن کی فکر میں‬
‫ت دیوانہ‪ ،‬جز تمہیند آگاہی نہیں‬
‫غفل ن‬
‫ب پریشاں ہے ‪ ،‬سخن کی فکر میں‬ ‫مغنز سر‪ ،‬خوا ن‬
‫مجھ میں اور مجنوں میں‪ ،‬وحشت سانز دعویی ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫گ بید ہے ناخن زدن کی فکر میں‬ ‫برگ بر ن‬
‫٭٭‬

‫ہے ترحم آفریں‪ ،‬آرائنش بیداد‪ ،‬یاں‬


‫ک چشنم دام ہے ‪ ،‬ہر دانۂ صیاد‪ ،‬یاں‬ ‫اش ن‬
‫ہے ‪ ،‬گدانز موم‪ ،‬اندانز چکیدن ہائے خوں‬
‫نینش زنبونر عسل‪ ،‬ہے نشتنر فصاد‪ ،‬یاں‬
‫ناگوارا ہے ہمیں‪ ،‬احسانن صاحب دولتاں‬
‫ہے ‪ ،‬زنر گل بھی‪ ،‬نظر میں جوہنر فولد‪ ،‬یاں‬
‫جنبنش دل سے ہوئے ہیں‪ ،‬عقدہ ہائے کار‪ ،‬وا‬
‫کمتریں مزدونر سنگیں دست ہے ‪ ،‬فرہاد‪ ،‬یاں‬
‫دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا‬
‫بارے اپنی بیکسی کی ہم نے پائی داد‪ ،‬یاں‬
‫ہیں زوال آمادہ‪ ،‬اجزا آفرینش کے تمام‬
‫مہنر گردوں‪ ،‬ہے چرانغ رہگزانر باد‪ ،‬یاں‬
‫قطرہ ہائے خونن بسمل زینب داماں ہیں‪ ،‬اسدب‬
‫ہے تماشا کردنی گل چیننی جلد‪ ،‬یاں‬
‫٭٭‬

‫اے نوا سانز تماشا‪ ،‬سر بکف جلتا ہوں میں‬


‫یک طرف جلتا ہے دل‪ ،‬اور یک طرف جلتا ہوں میں‬
‫شمع ہوں‪ ،‬لیکن بپا در رفتہ خانر جستجو‬
‫مدعا گم کردہ‪ ،‬ہر سو‪ ،‬ہر طرف جلتا ہوں میں‬
‫ت افسوس‪ ،‬آتش انگینز تپش‬ ‫ہے ‪ ،‬مسانس دس ن‬
‫بے تکلف آپ پیدا کر کے تف جلتا ہوں میں‬
‫ہے تماشا گانہ سونز تازہ‪ ،‬ہر یک عضنو تن‬
‫جوں چراغانن دوالی‪ ،‬صف بہ صف جلتا ہوں میں‬
‫شمع ہوں‪ ،‬تو بزم میں جا پاؤں غالبب کی طرح‬
‫بے محل‪ ،‬اے مجلس آرائے نجف! جلتا ہوں میں‬
‫٭٭‬
‫فتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیں‬
‫گ جادہ‪ ،‬سنر کوئے یار رکھتے ہیں‬ ‫برن ن‬
‫برہنہ مستنی صبنح بہار رکھتے ہیں‬
‫جنونن حسرنت یک جامہ دار رکھتے ہیں‬
‫طلسنم مستنی دل آں سوئے ہجونم سرشک‬
‫ہم ایک میکدہ دریا کے پار رکھتے ہیں‬
‫ف سنگ‪ ،‬خلعت ہے‬ ‫ہمیں‪ ،‬حرینر شرر با ن‬
‫یہ ایک پیرہنن زرنگار رکھتے ہیں‬
‫نگانہ دیدۂ نقنش قدم ہے جادۂ راہ‬
‫گزشتگاں‪ ،‬اثنر انتظار رکھتے ہیں‬
‫ہوا ہے ‪ ،‬گریۂ بے باک‪ ،‬ضبط سے تسبیح‬
‫ہزار دل پہ ہم ایک اختیار رکھتے ہیں‬
‫گ رواں‬ ‫بسانط ہیچ کسی میں‪ ،‬برن ن‬
‫گ ری ن‬
‫ہزار دل بہ ودانع قرار رکھتے ہیں‬
‫برنگ سایہ سروکانر انتظار نہ پوچھ‬
‫سرانغ خلونت شب ہائے تار رکھتے ہیں‬
‫ت یارانن رفتہ ہے ‪ ،‬غالبب‬ ‫جنونن فرق ن‬
‫بسانن دشت‪ ،‬دنل سپر غبار رکھتے ہیں‬
‫٭٭‬

‫تنن بہ بنند ہوس در ندادہ رکھتے ہیں‬


‫دنل زکانر جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں‬
‫تمینز زشتی و نیکی میں لکھ باتیں ہیں‬
‫بہ عکنس آئنہ یک فرند سادہ رکھتے ہیں‬
‫گ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم‬ ‫برن ن‬
‫کہ دانغ دل بہ جبینن کشادہ رکھتے ہیں‬
‫گ گردن‪ ،‬ہے رشتۂ زنار‬ ‫بزاہداں‪ ،‬ر ن‬
‫سنر بپائے بتے نا نہادہ رکھتے ہیں‬
‫ف بیسہدہ گوئی ہیں ناصحانن عزیز‬ ‫معا ن‬
‫ت نگارے نہ دادہ رکھتے ہیں‬ ‫دلے بہ دس ن‬
‫گ سبزہ‪ ،‬عزیزانن بد زباں یک دست‬ ‫برن ن‬
‫ہزار تیغ بہ زہراب دادہ رکھتے ہیں‬
‫ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائنی حیرت‬
‫زبانن بستہ و چشنم کشادہ رکھتے ہیں‬
‫زمانہ سخت کم آزار ہے بجانن اسدب‬
‫وگر نہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں‬
‫٭٭‬

‫بہ غفلت عطنر گل‪ ،‬ہم آگہی مخمور‪ ،‬دملتے ہیں‬


‫چراغانن تماشا‪ ،‬چشنم صد ناسور دملتے ہیں‬
‫رہا کس جرم سے میں بے قرانر دانغ ہم طرحی؟‬
‫سمندر کو پنر پروانہ سے کافور دملتے ہیں‬
‫چمن نا محرنم آگاہنی دیدانر خوباں ہے‬
‫سحر گلہائے نرگس چند چشنم کور دملتے ہیں‬
‫ت خود آرائی‬‫کجا جوہر؟ چہ عکنس خط؟ بتاں‪ ،‬وق ن‬
‫دنل آئینہ زینر پائے خینل مور دملتے ہیں‬
‫تماشائے بہار آئینۂ پردانز تسلی ہے‬
‫کنف گل برگ سے پائے دنل رنجور دملتے ہیں‬
‫گراں جانی سبک سار‪ ،‬و تماشا بے دماغ آیا‬
‫گ کونہ طور دملتے ہیں‬ ‫کنف افسونس فرصت‪ ،‬سن ن‬
‫اسد ب حیرت کنش یک دانغ مشک اندودہ ہے ‪ ،‬یا رب‬
‫لبانس شمع پر عطنر شنب دیجور دملتے ہیں‬
‫٭٭٭‬

‫سرشک آشفتہ سر تھا قطرہ زن مژگاں سے جانے میں‬


‫رہے یاں‪ ،‬شوخنی رفتار سے ‪ ،‬پا آستانے میں‬
‫ہجونم مژدۂ دیدار‪ ،‬و پردانز تماشا ہا‬
‫گنل اقبانل خس ہے چشنم بلبل‪ ،‬آشیانے میں‬
‫ہوئی یہ بیخودی چشم و زباں کو تیرے جلوے سے‬
‫کہ طوطی قفنل زنگ آلودہ ہے آئینہ خانے میں‬
‫ترے کوچے میں ہے ‪ ،‬مشاطۂ واماندگی‪ ،‬قاصد‬
‫پنر پرواز‪ ،‬زلنف باز ہے ہد ہد کے شانے میں‬
‫ک خود آرائی؟‬ ‫کجا معزولنی آئینہ؟ سکو تر ن‬
‫نمد در آب ہے ‪ ،‬اے سادہ سپرکار‪ ،‬اس بہانے میں‬
‫بحکنم عجز‪ ،‬ابروئے منہ نو حیرت ایما ہے‬
‫کہ یاں گم کر جبینن سجدہ فرسا آستانے میں‬
‫ت قیس میں آنا‬ ‫قیامت ہے ‪ ،‬کہ سن لیلیی کا دش ن‬
‫"تعجب سے وہ بول"یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟‬
‫دنل نازک پہ ساس کے رحم آتا ہے مجھے غالبب‬
‫نہ کر سرگرم اس کافر کو الفت آزمانے میں‬
‫٭٭‬

‫فزوں کی دوستوں نے حرنص قاتل ذونق کشتن میں‬


‫ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم‪ ،‬جوہر تینغ دشمن میں‬
‫نہیں ہے ‪ ،‬زخم کوئی‪ ،‬بخیے کے در خور مرے تن میں‬
‫ک یاس‪ ،‬رشتہ چشنم سوزن میں‬ ‫ہوا ہے تانر اش ن‬
‫تماشا کردنی ہے لطنف زخنم انتظار‪ ،‬اے دل‬
‫سویدا دانغ مرہم‪ ،‬مردمک ہے چشنم سوزن میں‬
‫دل و دین و خرد‪ ،‬تارانج نانز جلوہ پیرائی‬
‫ہوا ہے جوہنر آئینہ‪ ،‬خینل مور خرمن میں‬
‫نکوہش‪ ،‬ماننع بے ربطی شونر جنوں آئی‬
‫ہوا ہے ‪ ،‬خندۂ احباب‪ ،‬بخیہ جیب و دامن میں‬
‫ہوئی ہے ماننع ذونق تماشا‪ ،‬خانہ ویرانی‬
‫گ پنبہ روزن میں‬ ‫کنف سیلب باقی ہے ‪ ،‬برن ن‬
‫ودیعت خانہ بے داند کاوشہائے مژگاں ہوں‬
‫نگینن نانم شاہد ہے مرے ‪ ،‬ہر قطرہ خوں‪ ،‬تن میں‬
‫یہاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی؟‬
‫شنب مہ ہو‪ ،‬جو رکھ دیں‪ ،‬پنبہ دیواروں کے روزن میں‬
‫ہوئے اس مہر وش کے جلوہ تمثال کے آگے‬
‫پر افشاں جوہر آئینے میں‪ ،‬مثنل ذرہ روزن میں‬
‫نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں‪ ،‬پر صحبت مخالف ہے‬
‫جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں‪ ،‬جو خس ہوں‪ ،‬تو ہوں گلشن میں‬
‫ہزاروں دل دیے جونش جنونن عشق نے مجھ کو‬
‫سیہ ہو کر سویدا ہو گیا‪ ،‬ہر قطرہ خوں‪ ،‬تن میں‬
‫اسد زنداننی تاثینر الفت ہائے خوباں ہوں‬
‫ت نوازش‪ ،‬ہو گیا ہے طوق گردن میں‬ ‫خنم دس ن‬
‫٭٭‬

‫خوں در جگر نہفتہ‪ ،‬بہ زردی رسیدہ ہوں‬


‫گ پریدہ ہوں‬‫خود آشیانن طائنر رن ن‬
‫ت رد بہ سینر جہاں‪ ،‬بستنن نظر‬ ‫ہے دس ن‬
‫پائے ہوس بہ دامنن مژگاں کشیدہ ہوں‬
‫میں چشم وا کشادہ و گلشن نظر فریب‬
‫لیکن عبث کہ شبننم خرشید دیدہ ہوں‬
‫تسلیم سے یہ نالۂ موزوں ہوا حصول‬
‫گ خمیدہ ہوں‬ ‫اے بے خبر‪ ،‬میں نغمۂ چن ن‬
‫پیدا نہیں ہے اصنل تگ و تانز جستجو‬
‫ماننند مونج آب‪ ،‬زبانن بریدہ ہوں‬
‫سر پر مرے وبانل ہزار آرزو رہا‬
‫ت رمیدہ ہوں‬ ‫یارب‪ ،‬میں کس غریب کا بخ ن‬
‫میں بے ہنر کہ جوہنر آئینہ تھا‪ ،‬عبث‬
‫پائے نگانہ خلق میں خانر خلیدہ ہوں‬
‫ت بتاں‪ ،‬اسدب‬ ‫میرا نیاز و عجز ہے مف ن‬
‫یعنی کہ بندۂ بہ درم نا خریدہ ہوں‬
‫٭٭‬

‫سودائے عشق سے دنم سرند کشیدہ ہوں‬


‫شانم خیانل زلف سے صبنح دمیدہ ہوں‬
‫دورانن سر سے گردنش ساغر ہے متصل‬
‫خمخانۂ جنوں میں دمانغ رسیدہ ہوں‬
‫کی متصل ستارہ شماری میں عمر‪ ،‬صرف‬
‫تسبینح اشک ہائے ز مژگاں چکیدہ ہوں‬
‫ظاہر ہیں مری شکل سے افسوس کے نشاں‬
‫خانر الم سے ‪ ،‬پشت بدنداں گزیدہ ہوں‬
‫ہوں گرمنی نشانط تصور سے نغمہ سنج‬
‫میں عندلینب گلشنن نا آفریدہ ہوں‬
‫دیتا ہوں کشتگاں کو سخن سے سنر تپش‬
‫ب تار ہائے گلوئے بریدہ ہوں‬ ‫مضرا ن‬
‫ہے جنبنش زباں بدہن سخت ناگوار‬
‫خونابۂ ہلہنل حسرت چشیدہ ہوں‬
‫ت زر‬ ‫جوں بوئے گل‪ ،‬ہوں گر چہ گرانبانر مش ن‬
‫ت گزشتن جریدہ ہوں‬ ‫لیکن‪ ،‬اسدب ‪ ،‬بہ وق ن‬
‫٭٭‬

‫ہوئی ہیں آب‪ ،‬شرنم کوشنش بے جا سے ‪ ،‬تدبیریں‬


‫عرق رینز تپش ہیں‪ ،‬موج کی مانند‪ ،‬زنجیریں‬
‫خیانل سادگی ہائے تصور‪ ،‬نقنش حیرت ہے‬
‫گ رفتہ سے کھینچی ہیں تصویریں‬ ‫پنر عنقا پہ رن ن‬
‫زبس ہر شمع یاں آئینۂ حیرت پرستی ہے‬
‫کرے ہیں غنچۂ منقانر طوطی نقش گل گیریں‬
‫سپند‪ ،‬آہنگنی ہستی و سعنی نالہ فرسائی‬
‫غبار آلودہ ہیں‪ ،‬جوں دوند شمنع کشتہ‪ ،‬تقریریں‬
‫ہجونم سادہ لوحی‪ ،‬پنبۂ گونش حریفاں ہے‬
‫وگرنہ خواب کی مضمر ہیں افسانے میں‪ ،‬تعبیریں‬
‫بتانن شوخ کی تمکینن بعد از قتل کی حیرت‬
‫بیانض دیدۂ نخچیر پر کھینچے ہے تصویریں‬
‫ب دل کو کیا کہیے‬ ‫اسد ب ‪ ،‬طرنز عرونج اضطرا ن‬
‫ت قاتل کی تاثیریں‬ ‫سمجھتا ہوں تپش کو الف ن‬
‫٭٭‬
‫ک تنہائی نہیں‬ ‫بے دماغی‪ ،‬حیلہ جوئے تر ن‬
‫ورنہ کیا مونج نفس‪ ،‬زنجینر رسوائی نہیں؟‬
‫وحشنی خو کردۂ نظارہ ہے ‪ ،‬حیرت‪ ،‬جسے‬
‫حلقۂ زنجیر‪ ،‬جز چشنم تماشائی نہیں‬
‫قطرے کو جونش عرق کرتا ہے دریا دستگاہ‬
‫جز حیا‪ ،‬پر کانر سعنی بے سروپائی نہیں‬
‫چشنم نرگس میں نمک بھرتی ہے شبنم سے ‪ ،‬بہار‬
‫ت نشو و نما‪ ،‬سانز شکیبائی نہیں‬ ‫فرص ن‬
‫ب سوزناکی ہائے دل؟‬ ‫ن‬ ‫حسا‬ ‫رب‪،‬‬ ‫کس کو دوں‪ ،‬یا‬
‫ت نفس‪ ،‬جز شعلہ پیمائی نہیں‬ ‫آمد و رف ن‬
‫مت رکھ‪ ،‬اے انجام غافل! سانز ہستی پر غرور‬
‫گ خود آرائی نہیں‬ ‫چیونٹی کے پر‪ ،‬سر و بر ن‬
‫سایۂ افتادگی بالین و بستر ہوں‪ ،‬اسدب‬
‫جوں صنوبر‪ ،‬دل سراپا قامت آرائی نہیں‬
‫٭٭‬

‫ظاہرا سر پنجۂ افتادگاں گیرا نہیں‬


‫ورنہ کیا حسرت کنش دامن پہ نقنش پا نہیں‬
‫آنکھیں پتھرائی نہیں‪ ،‬نا محسوس ہے تانر نگاہ‬
‫ہے زمیں از بس کہ سنگیں جادہ بھی پیدا نہیں‬
‫ہو چکے ہم جادہ ساں صد بار قطع‪ ،‬اور پھر ہنوز‬
‫ت یک پیرہن جوں دامنن صحرا نہیں‬ ‫زین ن‬
‫ہو سکے ہے ‪ ،‬پردۂ جوشیدنن خونن جگر‬
‫اشک‪ ،‬بعند ضبط‪ ،‬غیر از پنبۂ مینا نہیں‬
‫ت دل‪ ،‬ماننع طوفانن اشک‬ ‫ہو سکے کب کلف ن‬
‫گ رانہ جوشنش دریا نہیں‬ ‫گرند ساحل‪ ،‬سن ن‬
‫ہے طلسنم دہر میں‪ ،‬صد حشنر پادانش عمل‬
‫آگہی غافل‪ ،‬کہ یک امروز بے فردا نہیں‬
‫بسمل اس تینغ دو دستی کا نہیں بچتا‪ ،‬اسدب‬
‫عافیت بیزار‪ ،‬ذونق کعبتین اچھا نہیں‬
‫٭٭‬

‫ضبط سے مطلب‪ ،‬بجز وارستگی‪ ،‬دیگر نہیں‬


‫ب آئنہ سے تر نہیں‬ ‫دامنن تمثال‪ ،‬آ ن‬
‫ہے وطن سے باہر اہنل دل کی قدر و منزلت‬
‫ت گوہر نہیں‬ ‫عزلت آباند صدف میں قیم ن‬
‫ث ایذا ہے ‪ ،‬برہم خوردنن بزنم سرور‬ ‫باع ن‬
‫ت شیشۂ بشکستہ‪ ،‬جز نشتر نہیں‬ ‫لخت لخ ن‬
‫واں سیاہی مردمک ہے ‪ ،‬اور یاں دانغ شراب‬
‫مہ‪ ،‬حرینف نازنش ہم چشمنی ساغر نہیں‬
‫ہے فلک بال نشینن فینض خم گردیدنی‬
‫عاجزی سے ‪ ،‬ظاہرا رتبہ کوئی برتر نہیں‬
‫دل کو اظہانر سخن‪ ،‬اندانز فتح الباب ہے‬
‫ک در نہیں‬ ‫یاں صرینر خامہ‪ ،‬غیر از اصطکا ن‬
‫ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر‬
‫عشق کا‪ ،‬اس کو گماں‪ ،‬ہم بے زبانوں پر نہیں‬
‫کب تلک پھیرے اسدب لب ہائے تفتہ پر زباں‬
‫ب عرنض تشنگی‪ ،‬اے ساقنی کوثر‪ ،‬نہیں‬ ‫تا ن‬
‫٭٭‬
‫ضمانن جادہ رویاندن ہے خنط جانم مے نوشاں‬
‫وگرنہ منزنل حیرت سے کیا وقف ہیں مدہوشاں؟‬
‫نہیں ہے ضبط‪ ،‬جز مشاطگی ہائے غم آرائی‬
‫کہ مینل سرمہ چشنم داغ میں ہے ‪ ،‬آنہ خاموشاں‬
‫بہ ہنگانم تصور ساغنر زانو سے پیتا ہوں‬
‫ت خمیازہ ہائے صبح آغوشاں‬ ‫مئے کیفی ن‬
‫نشانن روشننی دل نہاں ہے تیرہ بختوں کا‬
‫نہیں محسوس‪ ،‬دوند مشعنل بزنم سیہ پوشاں‬
‫پریشانی‪ ،‬اسدب ‪ ،‬در پردہ ہے سامانن جمیعت‬
‫کہ آبادنی صحرا‪ ،‬ہجونم خانہ بر دوشاں‬
‫٭٭‬

‫نہیں ہے بے سبب قطرے کو‪ ،‬شکنل گوہر‪ ،‬افسردن‬


‫ت آبے بروئے کار آورن‬ ‫گرہ ہے حسر ن‬
‫مہ نو سے ہے ‪ ،‬رہزن وار‪ ،‬نعنل واژگوں باندھا‬
‫نہیں ممکن بجولں ہائے گردوں دخنل پے بردن‬
‫خمانر ضبط سے بھی نشۂ اظہار پیدا ہے‬
‫ت افشردن‬ ‫تراوش شیرہ انگور کی ہے مف ن‬
‫خراب آباند غربت میں عبث‪ ،‬افسونس ویرانی‬
‫ک پژمردن‬ ‫گل از شانخ دور افتادہ ہے نزدی ن‬
‫فغان و آہ سے حاصل بجز درند سنر یاراں‬
‫خوشا! اے غفلت آگاہاں‪ ،‬نفس دزدیدن و مردن‬
‫ت سفر سے ہوکے میں غافل‬ ‫دریغا!بستنن رخ ن‬
‫رہا پامانل حسرت ہائے فرنش بزم گستردن‬
‫اسدب ‪ ،‬ہے طبع مجبونر تمنا آفرینی ہا‬
‫فغاں! بے اختیاری و فرینب آرزو خوردن‬
‫٭٭‬

‫دیکھیے مت چشنم کم سے سوئے ضبط افسردگاں‬


‫جوں صدف سپر سدر ہیں‪ ،‬دنداں در جگر افشردگاں‬
‫گرنم تکلینف دنل رنجیدہ ہے از بس کہ‪ ،‬چرخ‬
‫قرنص کافوری ہے ‪ ،‬مہر‪ ،‬از بہنر سرما خوردگاں‬
‫رنجنش دل یک جہاں ویراں کرے گی‪ ،‬اے فلک‬
‫دشت ساماں ہے ‪ ،‬غبانر خاطنر آزردگاں‬
‫ہاتھ پر ہو ہاتھ‪ ،‬تو درنس تاسف ہی سہی‬
‫ت زندگی ہے ‪ ،‬اے بہ غفلت سمردگاں‬ ‫شوق مف ن‬
‫خار سے گل سینہ افگانر جفا ہے ‪ ،‬اے اسدب‬
‫برگ ریزی ہے پر افشاننی ناوک خوردگاں‬
‫٭٭‬

‫سازنش صلنح بتاں میں ہے نہاں جنگیدن‬


‫نغمہ و چنگ‪ ،‬ہیں جوں تیر و کماں فہمیدن‬
‫بس کہ شرمندہ بوئے خونش گل رویاں ہے‬
‫ت گل کو ہے غنچے میں نفس دزدیدن‬ ‫نکہ ن‬
‫ہے فرونغ رنخ افروختہ خوباں سے‬
‫شعلہ شمع‪ ،‬پر افشانن بخود لرزیدن‬
‫گلشنن زخم کھلتا ہے جگر میں‪ ،‬پیکاں‬
‫گرنہ غنچہ ہے ‪ ،‬سامانن چمن بالیدن‬
‫چمنن دہر میں ہوں سبزہ بیگانہ‪ ،‬اسدب‬
‫وائے ! اے بے خودی و تہمت آرامیدن‬
‫٭٭‬

‫صاف ہے از بس کہ عکنس گل سے ‪ ،‬گلزانر چمن‬


‫جانشینن جوہنر آئینہ ہے ‪ ،‬خانر چمن‬
‫ہے نزاکت بس کہ فصنل گل میں معمانر چمن‬
‫ت دیوانر چمن‬ ‫قالنب گل میں ڈھلی ہے خش ن‬
‫برشگال گریہ عاشق ہے ‪ ،‬دیکھا چاہیے‬
‫کنھل گئی‪ ،‬ماننند گل سو جا سے دیوانر چمن‬
‫ت گل سے غلط ہے دعونی وارستگی‬ ‫الف ن‬
‫سرو ہے ‪ ،‬با وصنف آزادی‪ ،‬گرفتانر چمن‬
‫تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار‬
‫جوہنر آئینہ‪ ،‬ہے یاں نقنش احضانر چمن‬
‫بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست‬
‫ہے کلنہ نانز گل‪ ،‬بر طانق دیوانر چمن‬
‫وقت ہے ‪ ،‬گر بلبنل مسکیں زلیخائی کرے‬
‫یوسنف گل جلوہ فرما ہے بہ بازانر چمن‬
‫ف فصنل گل‪ ،‬اسدب‬ ‫وحشت افزا گریہ ہا موقو ن‬
‫ب سرکانر چمن‬ ‫چشنم دریا بار ہے میزا ن‬
‫٭٭‬

‫ک قفس کو‬ ‫منقار سے رکھتا ہوں بہم چا ن‬


‫تا گل ز جگر زخم میں ہے رانہ نفس کو‬
‫بیباک ہوں از بس کہ بہ بازانر محبت‬
‫سمجھا ہوں زرہ جوہنر شمشینر عسس کو‬
‫رہنے دو گرفتار بہ زندانن خموشی‬
‫چھیڑو نہ مجھ افسردہ دزدیدہ نفس کو‬
‫پیدا ہوئے ہیں ہم الم آباند جہاں میں‬
‫ت ہوس کو‬ ‫فرسودنن پائے طلب و دس ن‬
‫نالں ہو‪ ،‬اسدب ‪ ،‬تو بھی سنر راہ گزر پر‬
‫کہتے ہیں کہ تاثیر ہے فریاند جرس کو‬
‫٭٭‬

‫ت نظارہ جلوہ گستر ہو‬ ‫اگر وہ آف ن‬


‫ک دیدہ ہائے اختر ہو‬ ‫ہلل‪ ،‬ناخن ن‬
‫بہ یاند قامت‪ ،‬اگر ہو بلند آتنش غم‬
‫ب محشر ہو‬ ‫ہر ایک دانغ جگر‪ ،‬آفتا ن‬
‫ستم کشی کا‪ ،‬کیا دل نے ‪ ،‬حوصلہ پیدا‬
‫اب ساس سے ربط کروں جو بہت ستمگر ہو‬
‫عجب نہیں‪ ،‬پئے تحرینر حانل گریۂ چشم‬
‫بروئے آب جو‪ ،‬ہر موج‪ ،‬نقنش مسطر ہو‬
‫امیدوار ہوں‪ ،‬تاثینر تلخ کامی سے‬
‫کہ قنند بوسۂ شیریں لباں مکرر ہو‬
‫صدف کی‪ ،‬ہے ترے نقنش قدم میں‪ ،‬کیفییت‬
‫سرش ن‬
‫ک چشنم اسد ب ‪ ،‬کیوں نہ اس میں گوہر ہو‬
‫٭٭‬
‫بے درد سر بہ سجدۂ الفت فرو نہ ہو‬
‫جوں شمع غوطہ داغ میں کھا‪ ،‬گر وضو نہ ہو‬
‫دل دے کنف تغافنل ابروئے یار میں‬
‫آئینہ ایسے طاق پہ گم کر کہ تو نہ ہو‬
‫زلنف خیال نازک و اظہار بے قرار‬
‫یا رب‪ ،‬بیان شانہ کنش گفتگو نہ ہو‬
‫گ اعتبار‬‫تمثانل ناز‪ ،‬جلوۂ نیرن ن‬
‫ہستی عدم ہے ‪ ،‬آئنہ گر روبرو نہ ہو‬
‫گ ابنر بہار ہے‬ ‫مژگاں خلیدۂ ر ن‬
‫نشتر بہ مغز‪ ،‬پنبۂ مینا فرو نہ ہو‬
‫عرنض نشانط دید ہے ‪ ،‬مژگانن انتظار‬
‫یارب کہ خانر پیرہنن آرزو نہ ہو‬
‫واں پر فشانن دانم نظر ہوں جہاں‪ ،‬اسدب‬
‫صبنح بہار بھی‪ ،‬قفنس رنگ و بو نہ ہو‬
‫٭٭‬

‫حسد سے دل اگر افسردہ ہے ‪ ،‬گرنم تماشا ہو‬


‫کہ چشنم تنگ‪ ،‬شاید کثرنت نظارہ سے وا ہو‬
‫بہم بالیدنن سنگ و گنل صحرا یہ چاہے ہے‬
‫کہ تانر جادہ بھی کہسار کو زنانر مینا ہو‬
‫ت نانز نسینم عشق جب آؤں‬ ‫حرینف وحش ن‬
‫کہ مثنل غنچہ‪ ،‬سانز یک گلستاں دل مہیا ہو‬
‫بجائے دانہ خرمن یک بیابان بیضۂ قمری‬
‫مرا حاصل وہ نسخہ ہے کہ جس سے خاک پیدا ہو‬
‫کرے کیا سانز بینش وہ شہیند درند آگاہی‬
‫ب زلیخا ہو‬ ‫جسے موئے دمانغ بے خودی‪ ،‬خوا ن‬
‫ت دل چاہیے ذونق معاصی بھی‬ ‫بہ قدنر حسر ن‬
‫ب ہفت دریا ہو‬ ‫بھروں یک گوشۂ دامن‪ ،‬گر آ ن‬
‫ت نظارہ ل‪ ،‬جس سے‬ ‫دنل چوں شمع‪ ،‬بہنر دعو ن‬
‫نگہ لبرینز اشک و سینہ معمونر تمنا ہو‬
‫اگر وہ سر و قد‪ ،‬گرنم خرانم ناز آ جاوے‬
‫ک گلشن‪ ،‬شکنل قمری‪ ،‬نالہ فرسا ہو‬ ‫کنف ہر خا ن‬
‫نہ دیکھیں روئے یک دل سر د‪ ،‬غیر از شمنع کافوری‬
‫خدایا‪ ،‬اس قدر بزنم اسد ب گرنم تماشا ہو‬
‫٭٭‬

‫مبادا ! بے تکلف فصل کا برگ و نوا گم ہو‬


‫مگر طوفانن مے میں پیچنش مونج صبا گم ہو‬
‫گ ہمت ہے ‪ ،‬خداوندا‬ ‫سبب وارستگاں کو نن ن‬
‫اثر سر مے سے اور لب ہائے عاشق سے صدا گم ہو‬
‫نہیں جز درد‪ ،‬تسکینن نکوہش ہائے بے درداں‬
‫کہ مونج گریہ میں صد خندۂ دنداں نما گم ہو‬
‫ہوئی ہے ناتوانی‪ ،‬بے دمانغ شوخنی مطلب‬
‫فرو ہوتا ہے سر سجدے میں اے دست دعا گم ہو‬
‫تجھے ہم مفت دیویں یک جہاں چینن جبیں‪ ،‬لیکن‬
‫ب طبع‪ ،‬نقنش میدعا گم ہو‬ ‫مباد‪ ،‬اے پیچ تا ن‬
‫بل گردانن تمکینن بتاں‪ ،‬صد موجۂ گوہر‬
‫عرق بھی جن کے عارض پر بہ تکلینف حیا گم ہو‬
‫ساٹھا وے کب وہ جانن شرم تہمت قتنل عاشق کی‬
‫گ حنا گم ہو‬ ‫کہ جس کے ہاتھ میں‪ ،‬ماننند خوں‪ ،‬رن ن‬
‫کریں خوباں جو سینر حسن‪ ،‬اسدب ‪ ،‬یک پردہ ناز ک تر‬
‫دنم صبنح قیامت‪ ،‬در گریبانن قبا گم ہو‬
‫٭٭‬

‫خشکنی مے نے تلف کی مے کدے کی آبرو‬


‫ت سبو‬ ‫کاسۂ دریوزہ ہے ‪ ،‬پیمانۂ دس ن‬
‫بہنر جاں پروردنن یعقوب‪ ،‬بانل چاک سے‬
‫وام لیتے ہیں پنر پرواز‪ ،‬پیراہن کی بو‬
‫گرند ساحل‪ ،‬ہے ننم شرنم جبینن آشنا‬
‫گر نہ باندھے قلزنم الفت میں سر‪ ،‬جائے کدو‬
‫ک وصال‬ ‫گرمنی شونق طلب‪ ،‬ہے عین تا پا ن‬
‫غافلں‪ ،‬آئینہ داں ہے ‪ ،‬نقنش پائے جستجو‬
‫رہن خاموشی میں ہے ‪ ،‬آرائنش بزنم وصال‬
‫گ رفتۂ خوں‪ ،‬گفتگو‬ ‫ہے پنر پروانز رن ن‬
‫ہے تماشا‪ ،‬حیرت آباند تغافل ہائے شوق‬
‫گ خواب و سراسر جونش خونن آرزو‬ ‫یک ر ن‬
‫خوئے شرنم سرد بازاری‪ ،‬ہے سینل خانماں‬
‫ہے ‪ ،‬اسد ب نقصاں میں مفت اور صاحنب سرمایہ تو‬
‫٭٭‬

‫گ پریدہ‬ ‫ک چکیدہ‪ ،‬رن ن‬‫اش ن‬


‫ہر طرح ہوں میں از خود رمیدہ‬
‫گو‪ ،‬یاد مجھ کو کرتے ہیں خوباں‬
‫لیکن بسانن درند کشیدہ‬
‫ہے رشتہ جاں فرنط کشش سے‬
‫ت بریدہ‬ ‫ماننند نبنض دس ن‬
‫ٹوٹا ہے ‪ ،‬افسوس!موئے خنم زلف‬
‫ت گزیدہ‬ ‫ہے شانہ یکسر دس ن‬
‫خانل سیاہ رنگیں رخاں سے‬
‫ہے دانغ للہ در خوں طپیدہ‬
‫ت گل‬ ‫جونش جنوں سے جوں کسو ن‬
‫سر تا بہ پا ہوں جینب دریدہ‬
‫یارو‪ ،‬اسدب کا نام و نشان کیا؟‬
‫بیدل‪ ،‬فقینر آفت رسیدہ‬
‫٭٭‬

‫خوشا! طوطی و کننج آشیانہ‬


‫نہاں در زینر بال آئینہ خانہ‬
‫ک بر زمیں افتادہ آسا‬ ‫سرش ن‬
‫اٹھا یاں سے نہ میرا آب و دانہ‬
‫حرینف عرنض سونز دل نہیں ہے‬
‫زباں ہر چند ہو جاوے زبانہ‬
‫دنل نالں سے ہے بے پردہ پیدا‬
‫نوائے بربط و چنگ و چغانہ‬
‫کرے کیا دعونی آزادنی عشق‬
‫گرفتانر الم ہائے زمانہ‬
‫اسدب ‪ ،‬اندیشہ ششدر شدن ہے‬
‫نہ پھریے مہرہ ساں خانہ بخانہ‬
‫٭٭‬

‫رفتار سے شیرازۂ اجزائے قدم باندھ‬


‫اے آبلے ! محمل پئے صحرائے عدم باندھ‬
‫بے کارنی تسلیم‪ ،‬بہر رنگ چمن ہے‬
‫گر خاک ہو‪ ،‬گلدستۂ صد نقنش قدم باندھ‬
‫اے جادے بسر رشتۂ یک ریشہ دویدن‬
‫شیرازۂ صد آبلہ جوں سبحہ بہم باندھ‬
‫حیرت‪ ،‬حند اقلینم تمنائے پری ہے‬
‫آئینے پہ آئینن گلستانن ارم باندھ‬
‫ت ہستی‬ ‫پامرند یک انداز نہیں‪ ،‬قام ن‬
‫ت خم باندھ‬ ‫طاقت اگر اعجاز کرے ‪ ،‬تہم ن‬
‫دیباچۂ وحشت ہے ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬شکوۂ خوباں‬
‫خوں کر دنل اندیشہ و مضمونن ستم باندھ‬
‫٭٭‬

‫خلق ہے صفحۂ عبرت سے سبق ناخواندہ‬


‫ورنہ ہے چرخ و زمیں یک ورنق گرداندہ‬
‫دیکھ کر بادہ پرستوں کی دل افسردگیاں‬
‫مونج مے ‪ ،‬مثنل خنط جام‪ ،‬ہے برجا ماندہ‬
‫خواہنش دل ہے زباں کو سبنب گفت و بیاں‬
‫ہے ‪ ،‬سخن‪ ،‬گرد ز دامانن ضمیر افشاندہ‬
‫کوئی آگاہ نہیں باطنن ہم دیگر سے‬
‫ہے ‪ ،‬ہر اک فرد جہاں میں ورنق ناخواندہ‬
‫حیف ! بے حاصلنی اہنل ریا پر‪ ،‬غالبب‬
‫یعنی ہیں ماندہ ا زا ں سو و ازیں سو راندہ‬
‫٭٭‬

‫ب فنا پوشیدہ‬ ‫بس کہ مے پیتے ہیں اربا ن‬


‫خنط پیمانۂ مے ‪ ،‬ہے نفنس دزدیدہ‬
‫بہ غرونر طرنح قامت و رعنائنی سرو‬
‫گ بالیدہ‬‫طوق ہے گردنن قمری میں ر ن‬
‫کی ہے وا اہنل جہاں نے بہ گلستانن جہاں‬
‫چشنم غفلت نظنر شبننم خور نادیدہ‬
‫اے دریغا! کہ نہیں طبنع نزاکت ساماں‬
‫ورنہ کانٹے میں ستلے ہے سخنن سنجیدہ‬
‫یاس آئینۂ پیدائنی استغنا ہے‬
‫نا امیدی ہے پرستانر دنل رنجیدہ‬
‫واسطے فکنر مضامینن متیں کے ‪ ،‬غالبب‬
‫چاہیے خاطنر جمع و دنل آرامیدہ‬
‫٭٭‬

‫از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ‬


‫طوطی کو‪ ،‬شش جہت سے ‪ ،‬مقابل ہے آئنہ‬
‫ت غلطاننی تپش‬ ‫حیرت‪ ،‬ہجوم لذ ن‬
‫سیماب بالش‪ ،‬و کمنر دل ہے آئنہ‬
‫غفلت‪ ،‬بہ بانل جوہنر شمشینر پرفشاں‬
‫ت چشنم شوخنی قاتل ہے آئنہ‬ ‫یاں پش ن‬
‫حیرت نگاہ برق‪ ،‬تماشا بہار شوخ‬
‫در پردۂ ہوا پنر بسمل ہے آئنہ‬
‫یاں رہ گئے ہیں ناخنن تدبیر ٹوٹ کر‬
‫جوہنر طلسنم عقدۂ مشکل ہے آئنہ‬
‫ہم زانوئے تامل و ہم جلوہ گانہ گل‬
‫آئینہ بنند خلوت و محفل ہے آئنہ‬
‫دل کارگانہ فکر و اسدب بے نوائے دل‬
‫یاں سن ن‬
‫گ آستانۂ بیدل ہے آئنہ‬
‫٭٭‬

‫ت بیدل نہ پوچھ‬ ‫جونش دل ہے مجھ سے حسنن فطر ن‬


‫قطرے سے میخانہ دریائے بے ساحل نہ پوچھ‬
‫پہنن گشتن ہائے دل بزنم نشانط گرند باد‬
‫ت عرنض کشاند عقدۂ مشکل نہ پوچھ‬ ‫لذ ن‬
‫آبلہ پیمانۂ اندازۂ تشویش تھا‬
‫اے دمانغ نارسا! خم خانۂ منزل نہ پوچھ‬
‫نے صبا بانل پری‪ ،‬نے شعلہ سامانن جنوں‬
‫شمع سے جز عرنض افسونن گدانز دل نہ پوچھ‬
‫یک مژہ برہم زدن‪ ،‬حشنر دو عالم فتنہ ہے‬
‫یاں سرانغ عافیت‪ ،‬جز دیدۂ بسمل نہ پوچھ‬
‫بزم ہے یک پنبۂ مینا‪ ،‬گدانز ربط سے‬
‫ب نشۂ محفل نہ پوچھ‬ ‫عیش کر‪ ،‬غافل‪ ،‬حجا ن‬
‫تا تخلص جامۂ شنگرفی ارزانی‪ ،‬اسدب‬
‫شاعری جز سانز درویشی نہیں‪ ،‬حاصل نہ پوچھ‬
‫٭٭‬

‫جز‪ ،‬دل سرانغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھ‬


‫آئینہ عرض کر‪ ،‬خط و خانل بیاں نہ پوچھ‬
‫پ غنم تسخینر نالہ ہے‬ ‫پرواز‪ ،‬یک ت ن‬
‫گرمنی نبنض خار و خنس آشیاں نہ پوچھ‬
‫ہے سبزہ زار ہر در و دیوانر غم کدہ‬
‫جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ‬
‫ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا‬
‫جاہ و جلنل عہد وصنل بتاں نہ پوچھ‬
‫تو مشنق ناز کر‪ ،‬دنل پروانہ ہے بہار‬
‫بے تابنی تجلنی آتش بجاں نہ پوچھ‬
‫غفلت متاع کفۂ میزانن عدل ہیں‬
‫ب گراں نہ پوچھ‬ ‫ب سختنی خوا ن‬ ‫یارب‪ ،‬حسا ن‬
‫ہر دانغ تازہ یک دنل داغ انتظار ہے‬
‫عرنض فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ‬
‫ناچار بے کسی کی بھی حسرت اٹھائیے‬
‫دشوارنی رہ و ستنم ہمرہاں نہ پوچھ‬
‫کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ‬
‫درند جدائنی اسداللہ خاں نہ پوچھ‬
‫٭٭‬

‫ضبط سے ‪ ،‬جوں مردمک‪ ،‬اسپند اقامت گیر ہے‬


‫مجمنر بزنم فسردن‪ ،‬دیدۂ نخچیر ہے‬
‫آشیاں بنند بہانر عیش ہوں ہنگانم قتل‬
‫یاں پنر پروانز رن ن‬
‫گ رفتہ‪ ،‬بانل تیر ہے‬
‫ہے جہاں فکنر کشیدن ہائے نقنش روئے یار‬
‫ب ہالہ پیرا گردۂ تصویر ہے‬ ‫ماہتا ن‬
‫ت حسن افروزنی زینت طرازاں‪ ،‬جائے گل‬ ‫وق ن‬
‫ہر نہانل شمع میں ا ک غنچۂ گل گیر ہے‬
‫گریے سے بنند محبت میں ہوئی نام آوری‬
‫ت دل‪ ،‬مکینن خانۂ زنجیر ہے‬‫لخت لخ ن‬
‫ریزنش خونن وفا ہے جرعہ نوشی ہائے یار‬
‫یاں گلوئے شیشۂ مے ‪ ،‬قبضۂ شمشیر ہے‬
‫بجو بشانم غم چرانغ خلونت دل تھا‪ ،‬اسدب‬
‫وصل میں وہ سوز‪ ،‬شمنع مجلنس تقریر ہے‬
‫٭٭‬

‫کرے ہے رہرواں سے خضنر رانہ عشق جلدی‬


‫گ رواں شمشینر فولدی‬ ‫ہوا ہے موجۂ ن ری ن‬
‫نظر بنند تصور ہے قفس میں‪ ،‬لطنف آزادی‬
‫ت آرزو کے رنگ کی کرتا ہوں صیادی‬ ‫شکس ن‬
‫کرے ہے حسنن ویراں کار سروئے سادہ رویاں پر‬
‫غبانر خط سے تعمینر بنائے خانہ بربادی‬
‫چنار آسا عدم سے با دنل سپر آتش آیا ہوں‬
‫ت تمنا کا ہوں فریادی‬ ‫تہی آغوشنی دش ن‬
‫اسدب ‪ ،‬از بس کہ فونج درد و غم سرگرنم جولں ہے‬
‫ک دل کی آبادی‬ ‫غبانر راہ ویرانی ہے مل ن‬
‫٭٭‬

‫یہ سر نوشت میں میری ہے ‪ ،‬اشک افشانی‬


‫کہ مونج آب ہے ‪ ،‬ہر ایک چینن پیشانی‬
‫ت ہستی‪ ،‬یہ عام ہے کہ بہار‬ ‫جنونن وحش ن‬
‫رکھے ہے کسونت طاؤس میں پر افشانی‬
‫ب حیات‬ ‫لنب نگار میں آئینہ دیکھ‪ ،‬آ ن‬
‫بہ گمرہنی سکندر ہے ‪ ،‬محنو حیرانی‬
‫ت اہنل جہاں‪ ،‬ہوا ظاہر‬ ‫نظر بہ غفل ن‬
‫کہ عیند خلق پہ حیراں ہے چشنم قربانی‬
‫کہوں وہ مصرنع برجستہ وصنف قامت میں‬
‫کہ سرو ہو نہ سکے ساس کا مصرنع ثانی‬
‫اسد نے کثرنت دل ہائے خلق سے جانا‬
‫کہ زلنف یار ہے مجموعۂ پریشانی‬
‫٭٭‬

‫ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے‬


‫صبنح وطن‪ ،‬ہے خندۂ دنداں نما مجھے‬
‫ب رشتۂ شمنع سحر گہی‬ ‫ہے پیچ تا ن‬
‫خجلت گدازنی نفنس نارسا مجھے‬
‫واں رنگ ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز‬
‫گ حنا مجھے‬ ‫یاں شعلۂ چراغ ہے ‪ ،‬بر ن‬
‫ڈھونڈھے ہے اس مغنی آتنش نفس کو‪ ،‬جی‬
‫جس کی صدا‪ ،‬ہو جلوۂ برنق فنا مجھے‬
‫مستانہ طے کروں ہوں رنہ وادنی خیال‬
‫تا بازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے‬
‫پرواز ہا نیانز تماشائے حسنن دوست‬
‫بانل کشادہ ہے ‪ ،‬نگنہ آشنا مجھے‬
‫کرتا ہے ‪ ،‬بس کہ باغ میں تو‪ ،‬بے حجابیاں‬
‫ت گل سے حیا مجھے‬ ‫آنے لگی ہے نکہ ن‬
‫از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے‬
‫مونج غبانر سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے‬
‫کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ؟‬
‫شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‬
‫تا چند پست فطرتنی طبنع آرزو؟‬
‫ت دعا مجھے‬ ‫یا رب ملے بلندنی دس ن‬
‫یاں آب و دانہ‪ ،‬موسنم گل میں‪ ،‬حرام ہے‬
‫زنانر واگسستہ ہے ‪ ،‬مونج صبا مجھے‬
‫یکبار امتحانن ہوس بھی ضرور ہے‬
‫اے جونش عشق‪ ،‬بادۂ مرد آزما مجھے‬
‫میں نے جنوں سے کی جو‪ ،‬اسدب ‪ ،‬التمانس رنگ‬
‫خونن جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے‬
‫٭٭‬

‫گ سوز‪ ،‬پردۂ یک ساز ہے مجھے‬ ‫ہر رن ن‬


‫بال سمندر‪ ،‬آئنۂ ناز ہے مجھے‬
‫طاؤنس خاک‪ ،‬حسنن نظر باز ہے مجھے‬
‫ک نگنہ ناز ہے مجھے‬ ‫ہر ذرہ‪ ،‬چشم ن‬
‫آغونش گل ہے آئنۂ ذیرہ ذیرہ خاک‬
‫عرنض بہار‪ ،‬جوہنر پرداز ہے مجھے‬
‫ہے بوئے گل غرینب تسلی گنہ وطن‬
‫ہر جزنو آشیاں‪ ،‬پنر پرواز ہے مجھے‬
‫ہے جلوۂ خیال‪ ،‬سویدائے مردمک‬
‫جوں داغ‪ ،‬شعلہ سر خنط آغاز ہے مجھے‬
‫وحشت بہانر نیشہ و گل ساغنر شراب‬
‫چشنم پری‪ ،‬شفق کدۂ راز ہے مجھے‬
‫فکنر سخن بہانۂ پردانز خامشی‬
‫دوند چراغ‪ ،‬سرمۂ آواز ہے مجھے‬
‫ت بیدل بکف‪ ،‬اسدب‬ ‫ہے خامہ فینض بیع ن‬
‫یک نیستاں قلمرنو اعجاز ہے مجھے‬
‫٭٭‬

‫کہوں کیا گرمجوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی‬


‫کہ شمنع خانۂ دل‪ ،‬آتنش مے سے فروزاں کی‬
‫سیاہی جیسے گر جاوے دنم تحریر کاغذ پر‬
‫میری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہائے ہجراں کی‬
‫بہ زلنف مہ وشاں‪ ،‬رہتی ہے ‪ ،‬شب بیدار‪ ،‬ظاہر ہے‬
‫ب پریشاں کی‬ ‫زبانن شانہ سے تعبینر صد خوا ن‬
‫ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشنق تیرہ روزی تھی‬
‫سیاہی ہے مرے ایام میں‪ ،‬لونح دبستاں کی‬
‫دریغ! آنہ سحر گہ کانر باند صبح کرتی ہے‬
‫کہ ہوتی ہے زیادہ‪ ،‬سرد مہری شمنع رویاں کی‬
‫مجھے اپنے جنوں کی‪ ،‬بے تکلف‪ ،‬پردہ داری تھی‬
‫ولیکن کیا کروں‪ ،‬آوے جو رسوائی گریباں کی‬
‫ہنر پیدا کیا ہے میں نے ‪ ،‬حیرت آزمائی میں‬
‫کہ جوہر آئینے کا‪ ،‬ہر پلک ہے ‪ ،‬چشنم حیراں کی‬
‫! خدایا‪ ،‬کس قدر اہنل نظر نے خاک چھانی ہے‬
‫کہ ہیں صد رخنہ‪ ،‬جوں غربال‪ ،‬دیواریں گلستاں کی‬
‫ہوا شرنم تہی دستی سے وہ بھی سرنگوں آخر‬
‫بس‪ ،‬اے زخنم جگر‪ ،‬اب دیکھ لی شورش نمک داں کی‬
‫گ شعلہ دہکے ہے‬ ‫بیاند گرمنی صحبت‪ ،‬برن ن‬
‫چھپاؤں کیونکہ غالبب ‪ ،‬سوزشیں دانغ نمایاں کی‬
‫٭٭‬

‫جنوں تہمت کنش تسکیں نہ ہو‪ ،‬گو شادمانی کی‬


‫نمک پانش خرانش دل ہے لذت زندگانی کی‬
‫کشاکش ہائے ہستی سے کرے کیا سعنی آزادی‬
‫ہوئی زنجیر مونج آب کو‪ ،‬فرصت روانی کی‬
‫نہ کھینچ اے سعنی دس ن‬
‫ت نارسا‪ ،‬زلنف تمنا کو‬
‫پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانی کی‬
‫کماں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں انصاف بہتر ہے‬
‫ت خمیازہ‪ ،‬تہمت ناتوانی کی‬ ‫نہ کھینچے ‪ ،‬طاق ن‬
‫تکلف بر طرف‪ ،‬فرہاد اور اتنی سبک دستی‬
‫ب خسرو نے گرانی کی‬ ‫خیال آساں تھا‪ ،‬لیکن خوا ن‬
‫پس از سمردن بھی‪ ،‬دیوانہ‪ ،‬زیارت گانہ طفلں ہے‬
‫شرانر سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی‬
‫اسدب کو بوریے میں دھر کے پھونکا مونج ہستی نے‬
‫فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی‬
‫٭٭‬

‫نکوہش ہے سزا فریادنی بیداند دلبر کی‬


‫مبادا !خندۂ دنداں نما ہو‪ ،‬صبح محشر کی‬
‫ت مجنوں ریشگی بخشے‬ ‫ک دش ن‬ ‫ر ن‬
‫گ لیلیی کو‪ ،‬خا ن‬
‫اگر بو دے بجائے دانہ‪ ،‬دہقاں‪ ،‬نوک نشتر کی‬
‫مرا دل مانگتے ہیں عاریت اہل ہوس‪ ،‬شاید‬
‫یہ جایا چاہتے آج دعوت میں سمندر کی‬
‫پنر پروانہ شاید بادبانن کشتنی مے تھا‬
‫ہوئی مجلس کی گرمی سے ‪ ،‬روانی دونر ساغر کی‬
‫!کروں بیداند ذونق پر فشانی عرض‪ ،‬کیا قدرت‬
‫کہ طاقت اڑ گئی اڑنے سے پہلے ‪ ،‬میرے شہپر کی‬
‫غرونر لطنف ساقی نشۂ بے باکنی مستاں‬
‫ننم دامانن عصیاں ہے ‪ ،‬طراوت مونج کوثر کی‬
‫! کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے ؟ قیامت ہے‬
‫مری قسمت میں یا رب‪ ،‬کیا نہ تھی دیوار پتھر کی؟‬
‫تھکا جب قطرہ بے دست و پا بال دویدن سے‬
‫نز بہنر یادگاری ہا گرہ دیتا ہے گوہر کی‬
‫بجز دیوانگی ہوتا نہ انجانم خود آرائی‬
‫اگر پیدا نہ کرتا آئنہ زنجیر جوہر کی‬
‫!اسد ب ‪ ،‬جز آب بخشیدن ز دریا خضر کو کیا تھا‬
‫ڈبوتا چشمۂ حیواں میں‪ ،‬گر‪ ،‬کشتی سکندر کی‬
‫٭٭‬

‫آنکھوں میں انتظار سے جاں پر شتاب ہے‬


‫آتا ہے آ‪ ،‬وگرنہ یہ پا در رکاب ہے‬
‫حیراں ہوں‪ ،‬دامنن مژہ کیوں جھاڑتا نہیں‬
‫خط صفحۂ ن عذار پہ گرند کتاب ہے‬
‫جوں نخنل ماتم‪ ،‬ابر سے مطلب نہیں مجھے‬
‫گ سیانہ نیل‪ ،‬غبانر سحاب ہے‬ ‫رن ن‬
‫ممکن نہیں کہ ہو دنل خوباں میں کارگر‬
‫تاثیر جستن اشک سے نقش بر آب ہے‬
‫ظاہر ہے ‪ ،‬طرنز قید سے ‪ ،‬صیاد کی غرض‬
‫ک کباب ہے‬ ‫جو دانہ دام میں ہے ‪ ،‬سو اش ن‬
‫بے چشنم دل نہ کر ہونس سینر للہ زار‬
‫یعنی یہ ہر ورق‪ ،‬ورنق انتخاب ہے‬
‫دیکھ‪ ،‬اے اسدب ‪ ،‬بہ دیدہ باطن کہ ظاہرا‬
‫ہر ایک ذرہ غیرنت صد آفتاب ہے‬
‫٭٭‬
‫بے خود نز بس خاطنر بے تاب ہو گئی‬
‫گ خواب ہو گئی‬ ‫مژگانن باز ماندہ‪ ،‬ر ن‬
‫مونج تبسنم لب آلودہ مسی‬
‫میرے لیے تو تینغ سیہ تاب ہو گئی‬
‫رخسانر یار کی جو کھلی جلوہ گستری‬
‫زلنف سیاہ بھی‪ ،‬شنب مہتاب ہو گئی‬
‫بیداند انتظار کی طاقت نہ ل سکی‬
‫اے جانن بر لب آمدہ‪ ،‬بے تاب ہو گئی‬
‫غالبب ‪ ،‬نز بس کہ سوکھ گئے چشم میں سرشک‬
‫آنسو کی بوند گوہنر نایاب ہو گئی‬
‫٭٭‬

‫ہجونم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے‬


‫کہ تانر دامن و تانر نظر میں فرق مشکل ہے‬
‫ہوا ہے ماننع عاشق نوازی‪ ،‬نانز خود بینی‬
‫تکلف بر طرف‪ ،‬آئینۂ تمییز حائل ہے‬
‫ت دل ہے دامن گیر مژگاں کا‬ ‫بہ سینل اشک‪ ،‬لخ ن‬
‫ک ساحل ہے‬ ‫غرینق بحر جویائے خس و خاشا ن‬
‫نکلتی ہے تپش میں بسملوں کی‪ ،‬برق کی شوخی‬
‫غرض اب تک خیانل گرمنی رفتانر قاتل ہے‬
‫ت خاطر‬ ‫بہا ہے یاں تک اشکوں میں‪ ،‬غبانر کلف ن‬
‫کہ چشنم تر میں ہر اک پارۂ دل پائے در گل ہے‬
‫رفوئے زخم سے مطلب‪ ،‬ہے لذت زخنم سوزن کی‬
‫سمجھیو مت کہ پانس درد سے دیوانہ غافل ہے‬
‫ب بوہ سگل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبب‬
‫چٹکنا غنچۂ سگل کا صدائے خندۂ دل ہے‬
‫٭٭‬

‫جنوں رسوائنی وارستگی؟ زنجیر بہتر ہے‬


‫بقدنر مصلحت دل بستگی‪ ،‬تدبیر بہتر ہے‬
‫خوشا خود بینی و تدبیر و غفلت نقد اندیشہ‬
‫بہ دینن عجز اگر بد نامنی تقدیر بہتر ہے‬
‫ف اندانز تغافل ہو‬‫کمانل حسن اگر موقو ن‬
‫تکلف برطرف‪ ،‬تجھ سے تری تصویر بہتر ہے‬
‫!دنل آگاہ تسکیں خینز بے دردی نہ ہو یا رب‬
‫نفس آئینہ دانر آنہ بے تاثیر بہتر ہے‬
‫!خدایا‪ ،‬چشم تا دل درد ہے ‪ ،‬افسونن آگاہی‬
‫ب بے تعبیر بہتر ہے‬ ‫نگہ‪ ،‬حیرت سواند خوا ن‬
‫گ حنا‪ ،‬خوں ہے‬ ‫درونن جوہنر آئینہ‪ ،‬جوں بر ن‬
‫بتاں‪ ،‬نقنش خود آرائی‪ ،‬حیا تحریر بہتر ہے‬
‫تمنا ہے ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬قتنل رقیب اور شکر کا سجدہ‬
‫ب خنم شمشیر بہتر ہے‬ ‫دعائے دل بہ محرا ن‬
‫٭٭‬

‫مژہ‪ ،‬پہلوئے چشم‪ ،‬اے جلوۂ ادراک باقی ہے‬


‫ہوا وہ شعلہ داغ‪ ،‬اور شوخنی خاشاک باقی ہے‬
‫چمن میں کچھ نہ چھوڑا تو نے غیر از بیضۂ قمری‬
‫ت خاک باقی ہے‬ ‫عدم میں‪ ،‬بہنر فرنق سرو‪ ،‬مش ن‬
‫گدانز سعنی بینش شست و شو ے نقنش خود کامی‬
‫سراپا شبنم آئیں‪ ،‬یک نگانہ پاک باقی ہے‬
‫ک لبانس زعفرانی دلکشا‪ ،‬لیکن‬ ‫ہوا تر ن‬
‫ہنوز آفت نسب یک خندہ‪ ،‬یعنی چاک‪ ،‬باقی ہے‬
‫ف خزاں‪ ،‬لیکن‬‫چمن زانر تمنا ہو گئی صر ن‬
‫گ آنہ حسرت ناک باقی ہے‬ ‫بہانر نیم رن ن‬
‫نہ حیرت چشنم ساقی کی‪ ،‬نہ صحبت دونر ساغر کی‬
‫مری محفل میں‪ ،‬غالبب ‪ ،‬گردنش افلک باقی ہے‬
‫٭٭‬

‫خموشیوں میں "تماشا ادا "نکلتی ہے‬


‫نگاہ‪ ،‬دل سے ترے سرمہ سا نکلتی ہے‬
‫بہ حلقۂ خنم گیسو ہے راستی آموز‬
‫دہانن مار سے گویا صبا نکلتی ہے‬
‫گ شیشہ ہوں یک گوشۂ دنل خالی‬ ‫بہ رن ن‬
‫کبھی پری مری خلوت میں آ نکلتی ہے‬
‫فشانر تنگنی خلوت سے بنتی ہے شبنم‬
‫صبا جو غنچے کے پردے میں جا نکلتی ہے‬
‫ب تینغ نگاہ‬
‫نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آ ن‬
‫کہ زخنم روزنن در سے ہوا نکلتی ہے‬
‫گ گل دلچسپ‬ ‫بہار شوخ و چمن تنگ و رن ن‬
‫نسیم‪ ،‬باغ سے پا در حنا نکلتی ہے‬
‫ت عرنض نیاز تھی دنم قتل‬ ‫اسد کو حسر ن‬
‫ہنوز‪ ،‬یک سخنن بے صدا نکلتی ہے‬
‫٭٭‬

‫ز بس کہ‪ ،‬مشنق تماشا‪ ،‬جنوں علمت ہے‬


‫ت مژہ‪ ،‬سیلنی ندامت ہے‬ ‫کشاد و بس ن‬
‫نہ جانوں‪ ،‬کیونکہ مٹے دانغ طعنن بد عہدی‬
‫تجھے کہ آئنہ بھی ورطۂ ملمت ہے‬
‫ک عافیت مت توڑ‬ ‫ب ہوس‪ ،‬سل ن‬ ‫بہ پیچ و تا ن‬
‫نگانہ عجز‪ ،‬سنر رشتۂ سلمت ہے‬
‫وفا مقابل و دعوائے عشق بے بنیاد‬
‫جنونن ساختہ و فصنل گل‪ ،‬قیامت ہے‬
‫اسدب ‪ ،‬بہانر تماشائے گلستانن حیات‬
‫وصانل للہ عذارانن سرو قامت ہے‬
‫٭٭‬

‫تر جبیں رکھتی ہے ‪ ،‬شرنم قطرہ سامانی مجھے‬


‫ب حیا ہے ‪ ،‬چینن پیشانی مجھے‬ ‫مونج گردا ن‬
‫شبنم آسا سکو مجانل سبحہ گردانی مجھے ؟‬
‫ہے ‪ ،‬شعانع مہر‪ ،‬زنانر سلیمانی مجھے‬
‫ب اظہانر تپش‬ ‫بلبنل تصویر ہوں بیتا ن‬
‫جنبنش نانل قلم‪ ،‬جونش پریشانی مجھے‬
‫ت اظہانر حال‬‫ضبنط سونز دل ہے وجنہ حیر ن‬
‫داغ ہے سمہنر دہن‪ ،‬جوں چشنم قربانی مجھے‬
‫شوخ‪ ،‬ہے مثنل حباب از خویش بیروں آمدن‬
‫ہے گریباں گینر‪ ،‬فرصت ذونق عریانی مجھے‬
‫وا کیا ہرگز نہ میرا عقدۂ تانر نفس‬
‫ناخنن بریدہ ہے تینغ صفاہانی مجھے‬
‫ہوں ہیولئے دو عالم‪ ،‬صورنت تقریر‪ ،‬اسدب‬
‫فکر نے سونپی خموشی کی گریبانی مجھے‬
‫٭٭‬

‫ہم زباں آیا نظر فکنر سخن میں ستو مجھے‬


‫مردمک‪ ،‬ہے طوطنی آئینۂ زانو مجھے‬
‫ث واماندگی ہے عمنر فرصت سجو مجھے‬ ‫باع ن‬
‫کر دیا ہے پا بہ زنجینر رنم آہو مجھے‬
‫پا بدامن ہو رہا ہوں‪ ،‬بس کہ‪ ،‬میں صحرا نورد‬
‫خانر پا ہیں جوہنر آئینۂ زانو مجھے‬
‫ک فرصت بر سنر ذونق فنا ! اے انتظار‬ ‫خا ن‬
‫ہے غبانر شیشۂ ساعت‪ ،‬رنم آہو مجھے‬
‫یاند مژگاں میں بہ نشتر رانز صحرائے خیال‬
‫ت تپش یک دست صد پہلو مجھے‬ ‫چاہیے وق ن‬
‫دیکھنا حالت مرے دل کی‪ ،‬ہم آغوشی کے وقت‬
‫ہے نگانہ آشنا‪ ،‬تیرا سنر ہر مو‪ ،‬مجھے‬
‫کثرنت جور و ستم سے ‪ ،‬ہو گیا ہو ں بے دماغ‬
‫خوبرویوں نے بنایا عاقبت بد خو مجھے‬
‫گ شکایت کچھ نہ پوچھ‬ ‫ہوں سراپا سانز آہن ن‬
‫ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے‬
‫ب عمر بے مطلب نہیں آخر‪ ،‬کہ ہے‬ ‫اضطرا ن‬
‫ت ربنط سنر زانو مجھے‬ ‫جستجوئے فرص ن‬
‫چاہیے درمانن رینش دل بھی تینغ ناز سے‬
‫مرہنم زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے‬
‫ت آرام غش‪ ،‬ہستی ہے بحرانن عدم‬ ‫فرص ن‬
‫گ امکاں‪ ،‬گردنش پہلو مجھے‬ ‫ت رن ن‬
‫ہے شکس ن‬
‫سانز ایمائے فنا ہے عالنم پیری‪ ،‬اسدب‬
‫ت خم سے ہے حاصل شوخنی ابرو مجھے‬ ‫قام ن‬
‫٭٭‬

‫یاد ہے شادی میں بھی ہنگامہ " یارب" مجھے‬


‫سبحۂ زاہد ہوا ہے خندہ زینر لب مجھے‬
‫ہے کشاند خاطنر وابستہ‪ ،‬در رہنن سخن‬
‫تھا طلسنم قفنل ابجد‪ ،‬خانۂ مکتب مجھے‬
‫یا رب‪ ،‬اس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے ؟‬
‫رشک آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے‬
‫صبح‪ ،‬نا پیدا ہے کلفت خانۂ ادبار میں‬
‫گ یک نفس‪ ،‬ہر شب مجھے‬ ‫توڑنا ہوتا ہے رن ن‬
‫شومنی طالع سے ہوں ذونق معاصی میں اسیر‬
‫نامۂ اعمال ہے ‪ ،‬تاریکنی کوکب مجھے‬
‫ت وارستگی‬ ‫درد نا پیدا و بے جا تہم ن‬
‫ت مشرب مجھے‬ ‫پردہ دانر یاوگی ہے ‪ ،‬وسع ن‬
‫!طبع ہے مشتانق لذت ہائے حسرت کیا کروں‬
‫ت آرزو‪ ،‬مطلب مجھے‬ ‫آرزو سے ہے ‪ ،‬شکس ن‬
‫دل لگا کر آپ بھی‪ ،‬غالبب ‪ ،‬مجھی سے ہو گئے‬
‫عشق سے آتے تھے مانع‪ ،‬میرزا صاحب مجھے‬
‫٭٭‬
‫کاونش دزند حنا پوشیدہ افسوں ہے مجھے‬
‫ت خوباں‪ ،‬لعنل واژوں ہے مجھے‬ ‫ناخنن انگش ن‬
‫ریشۂ شہرت دوانیدن ہے ‪ ،‬رفتن زینر خاک‬
‫گ بیند مجنوں‪ ،‬ہے مجھے‬ ‫خنجنر جلد‪ ،‬بر ن‬
‫ساقیا! دے ایک ہی ساغر میں سب کو مے ‪ ،‬کہ آج‬
‫آرزوئے بوسۂ لب ہائے مے گوں ہے مجھے‬
‫ہو گئے باہم دگر‪ ،‬جونش پریشانی سے ‪ ،‬جمع‬
‫گردنش جانم تمنا‪ ،‬دونر گردوں‪ ،‬ہے مجھے‬
‫دیکھ لی جونش جوانی کی تریقی بھی کہ اب‬
‫بدر کے مانند‪ ،‬کاہش روز افزوں ہے مجھے‬
‫غنچگی ہے ‪ ،‬بر نفس پیچیدنن فکر‪ ،‬اے اسدب‬
‫وا شگفتن ہائے دل در رہنن مضموں ہے مجھے‬
‫٭٭‬

‫دیکھ تری خوئے گرم‪ ،‬دل بہ تپش رام ہے‬


‫گ دام ہے‬ ‫طائنر سیماب کو‪ ،‬شعلہ‪ ،‬ر ن‬
‫شوخنی چشنم حبیب‪ ،‬فتنۂ ایام ہے‬
‫ت رقیب‪ ،‬گردنش صد جام ہے‬ ‫ت بخ ن‬ ‫قسم ن‬
‫جلوۂ بینش پناہ بخشے ہے ذونق نگاہ‬
‫کعبۂ پوشش سیاہ مردمک احرام ہے‬
‫ت عجز آشکار‬ ‫سکو نفس و چہ غبار؟ جرأ ن‬
‫در تپش آباند شوق‪ ،‬سرمہ‪ ،‬صدا نام ہے‬
‫ت تمکیں نہ ہو‬ ‫ت افسردگی‪ ،‬تہم ن‬ ‫غفل ن‬
‫ب گراں‪ ،‬حوصلہ بدنام ہے‬ ‫اے ہمہ خوا ن‬
‫ب نامہ بر‬‫بزنم ودانع نظر‪ ،‬یاس طر ن‬
‫ت رقنص شرر‪ ،‬بوسہ بہ پیغام ہے‬ ‫فرص ن‬
‫گریۂ طوفاں رکاب‪ ،‬نالۂ محشر عناں‬
‫بے سر و ساماں اسدب ‪ ،‬فتنہ سر انجام ہے‬
‫٭٭‬

‫بس کہ سودائے خیانل زلف‪ ،‬وحشت ناک ہے‬


‫تا دنل شب‪ ،‬آبنوسی شانہ آسا‪ ،‬چاک ہے‬
‫یاں‪ ،‬فلخن باز‪ ،‬کس کا نالۂ بے باک ہے ؟‬
‫جادہ تا کہسار‪ ،‬موئے چیننی افلک ہے‬
‫ہے دو عالم ناز یک صیند شنہ سدلدل سوار‬
‫یاں‪ ،‬خنط پرکانر ہستی‪ ،‬حلقۂ فتراک ہے‬
‫ت بال و پنر قمری میں وا کر رانہ شوق‬ ‫خلو ن‬
‫گ ریشہ‪ ،‬زینر خاک ہے‬ ‫جادۂ گلشن‪ ،‬بہ رن ن‬
‫عیش گرنم اضطراب و اہنل غفلت سرد مہر‬
‫دونر ساغر‪ ،‬یک گلستاں برگ رینز تاک ہے‬
‫عرنض وحشت پر ہے ‪ ،‬نانز ناتوانی ہائے دل‬
‫شعلۂ بے پردہ‪ ،‬چینن دامنن خاشاک ہے‬
‫ک بیتابی‪ ،‬اسدب‬‫ہے کمنند مونج گل‪ ،‬فترا ن‬
‫رنگ یاں سبو سے ‪ ،‬سوانر توسنن چالک ہے‬
‫٭٭‬

‫چشنم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے‬


‫سرمہ ستو کہوے کہ سدوند شعلۂ آواز ہے‬
‫پیکنر عشاق‪ ،‬سانز طالنع ناساز ہے‬
‫نالہ‪ ،‬گویا‪ ،‬گردنش سیار‪ ،‬کی آواز ہے‬
‫ہے صرینر خامہ‪ ،‬ریز ش ہائے استقبانل ناز‬
‫نامہ خود پیغام کو بال و پنر پرواز ہے‬
‫ت اضطراب انجامنی الفت نہ پوچھ‬ ‫سر نوش ن‬
‫نانل خامہ‪ ،‬خار خانر خاطنر آغاز ہے‬
‫ب یک نگاہ‬ ‫شرم ہے طرنز تلنش انتخا ن‬
‫ب چشنم برپا دوختہ غیماز ہے‬ ‫اضطرا ن‬
‫نغمہ ہے کانوں میں اس کے ‪ ،‬نالہ مرنغ اسیر‬
‫رشتۂ پا‪ ،‬یاں نوا سامانن بنند ساز ہے‬
‫دستگاہ دیدہ خونبانر مجنوں دیکھنا‬
‫یک بیاباں جلوہ گل‪ ،‬فرنش پا انداز ہے‬
‫نقنش سطنر صد تبسم ہے بر آب زینر گاہ‬
‫حسن کا خط پر نہاں خندیدنی انداز ہے‬
‫ت مجنوں نہیں‬ ‫شوخنی اظہار غیر از وحش ن‬
‫لیل ن یی معنی‪ ،‬اسدب ‪ ،‬محمل نشینن راز ہے‬
‫٭٭‬

‫بس کہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے‬


‫ناخنن انگشت‪ ،‬بتخانل لنب بیمار ہے‬
‫جی جلے ذونق فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں؟‬
‫ہم نہیں جلتے ‪ ،‬نفس ہر چند آتشبار ہے‬
‫!زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ‬
‫ورنہ‪ ،‬صد محشر بہ رہنن جلوہ رخسار ہے‬
‫ہے وہی بد مستنی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ‬
‫جس کے جلوے سے ‪ ،‬زمیں تا آسماں سرشار ہے‬
‫بسکہ ویرانی سے کفر و دیں ہوئے زیر و زبر‬
‫گرند صحرائے حرم تا کوچۂ زنار ہے‬
‫!اے سنر شوریدہ‪ ،‬ذونق عشق و پانس آبرو‬
‫ت دستار ہے‬ ‫جونش سودا کب حرینف من ن‬
‫مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی‬
‫زندگی سے بھی‪ ،‬مرا جی ان دنوں بیزار ہے‬
‫آنکھ کی تصویر‪ ،‬سر نامے پہ کھینچی ہے ‪ ،‬کہ تا‬
‫ت دیدار ہے‬ ‫تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسر ن‬
‫وصل میں دل انتظانر طرفہ رکھتا ہے ‪ ،‬مگر‬
‫فتنہ‪ ،‬تارانج تمنا کے لیے درکار ہے‬
‫ف وفا لکھا تھا‪ ،‬سو بھی مٹ گیا‬ ‫ایک جا حر ن‬
‫ظاہرا‪ ،‬کاغذ ترے خط کا‪ ،‬غلط بردار ہے‬
‫آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا‬
‫ہر کوئی‪ ،‬درماندگی میں‪ ،‬نالے سے ناچار ہے‬
‫در خیال آباند سودائے سنر مژگانن دوست‬
‫گ جاں‪ ،‬جادہ آسا‪ ،‬وقنف نشتر زار ہے‬ ‫صد ر ن‬
‫خانماں ہا‪ ،‬پائمانل شوخنی دعویی‪ ،‬اسدب‬
‫ب در و دیوار ہے‬ ‫سایۂ دیوار‪ ،‬سیل ن‬
‫٭٭‬

‫کوہ کے ہوں بانر خاطر‪ ،‬گر صدا ہو جائیے‬


‫بے تکلف‪ ،‬اے شرانر جستہ‪ ،‬کیا ہو جائیے ؟‬
‫یاد رکھیے ناز ہائے التفا ن‬
‫ت اولیں‬
‫گ حنا ہو جائیے‬ ‫آشیانن طائنر رن ن‬
‫گ بال و پر پہ ہے کننج قفس‬ ‫بیضہ آسا‪ ،‬تن ن‬
‫از سنر نو زندگی ہو‪ ،‬گر رہا ہو جائیے‬
‫لطنف عشنق ہر یک اندانز دگر دکھلئے گا‬
‫بے تکلف یک نگانہ آشنا ہو جائیے‬
‫ت جفائے صدمۂ ضرب المثل‬ ‫!داد از دس ن‬
‫گر ہمہ سافتادگی‪ ،‬جوں نقنش پا ہو جائیے‬
‫از دنل ہر درد مندے جونش بے تابی زدن‬
‫اے ہمہ بے مدعائی‪ ،‬یک دعا ہو جائیے‬
‫ت وحشت‪ ،‬اسدب‬ ‫ت مشرب‪ ،‬نیانز کلف ن‬ ‫وسع ن‬
‫یک بیاباں سایۂ بانل سہما ہو جائیے‬
‫٭٭‬

‫ب تردد شکنی ہے‬ ‫کوشش‪ ،‬ہمہ بے تا ن‬


‫صد جنبنش دل‪ ،‬یک مژہ برہم زدنی ہے‬
‫گو حوصلہ پامرند تغافل نہیں‪ ،‬لیکن‬
‫خاموشنی عاشق‪ ،‬گلۂ کم سخنی ہے‬
‫دی لطنف ہوا نے بہ جنوں‪ ،‬طرفہ نزاکت‬
‫تا آبلہ‪ ،‬دعوائے تنک پیرہنی ہے‬
‫ب فنا‪ ،‬نالۂ زنجیر‬
‫رامشگنر اربا ن‬
‫عینش ابد‪ ،‬از خویش بروں تا ختنی ہے‬
‫از بس کہ ہے محنو بہ چمن تکیہ زدن پا‬
‫گل برگ‪ ،‬پنر بالنش سرنو چمنی ہے‬
‫آئینہ و شانہ‪ ،‬ہمہ دست و ہمہ زانو‬
‫ت پیماں شکنی ہے‬ ‫اے حسن‪ ،‬مگر حسر ن‬
‫فریاد‪ ،‬اسدب ‪ ،‬بے نگہی ہائے بتاں سے‬
‫سچ کہتے ہیں‪ ،‬واللہ‪ ،‬کہ اللہ غنی ہے‬
‫٭٭‬

‫کاشانۂ ہستی کہ برانداختنی ہے‬


‫یاں سوختنی‪ ،‬اور وہاں ساختنی ہے‬
‫ہے شعلۂ شمشینر فنا‪ ،‬حوصلہ پرداز‬
‫اے دانغ تمنا‪ ،‬سپر انداختنی ہے‬
‫جز خاک بسر کردنن بے فائدہ حاصل؟‬
‫ہر چند بہ میدانن ہوس تاختنی ہے‬
‫اے بے ثمراں! حاصنل تکلینف دمیدن‬
‫گردن‪ ،‬بہ تماشائے گل‪ ،‬افراختنی ہے‬
‫ہے سادگنی ذہن‪ ،‬تمنائے تماشا‬
‫گ چمن باختنی ہے‬ ‫جائے کہ‪ ،‬اسد ب ‪ ،‬رن ن‬
‫٭٭‬

‫حکنم بیتابی نہیں‪ ،‬اور آرمیدن منع ہے‬


‫باوجوند مشنق و حشت ہا‪ ،‬رمیدن منع ہے‬
‫شرم‪ ،‬آئینہ ترانش جبۂ طوفان ہے‬
‫آب گردیدن روا‪ ،‬لیکن چکیدن منع ہے‬
‫بیخودی‪ ،‬فرمانروائے حیرت آباند جنوں‬
‫زخم دوزی جرم و پیراہن دریدن منع ہے‬
‫مژدۂ دیدار سے رسوائنی اظہار سدور‬
‫آج کی شب‪ ،‬چشنم کوکب تک پریدن منع ہے‬
‫ت سینر باغ‬ ‫ک خوباں سے ‪ ،‬وق ن‬ ‫بینم طبنع ناز ن‬
‫ریشۂ زینر زمیں کو بھی دویدن منع ہے‬
‫! یار معذونر تغافل ہے ‪ ،‬عزیزاں شفقتے‬
‫نالۂ بلبل بگونش گل شنیدن منع ہے‬
‫ماننع بادہ کشی ناداں ہے ‪ ،‬لیکن‪ ،‬اسدب‬
‫بے ولئے ساقنی کوثر کشیدن منع ہے‬
‫٭٭‬

‫چار سوئے عشق میں صاحب دکانی مفت ہے‬


‫نقد ہے دانغ دل‪ ،‬اور آتش زبانی مفت ہے‬
‫زخنم دل پر باندھیے حلوائے مغنز استخواں‬
‫تندرستی فائدہ‪ ،‬اور ناتوانی مفت ہے‬
‫نقند انجم تا بکے از کیسہ بیروں ریختن؟‬
‫یعنی‪ ،‬اے پینر فلک‪ ،‬شانم جوانی مفت ہے‬
‫گر نہیں پاتا درونن خانہ‪ ،‬ہر بیگانہ‪ ،‬جا‬
‫بر دنر نکشودۂ دل‪ ،‬پاسبانی مفت ہے‬
‫چونکہ بالئے ہوس پر ہر قبا کوتاہ ہے‬
‫بر ہوس ہائے جہاں دامن فشانی مفت ہے‬
‫یک نفس‪ ،‬ہر یک نفس‪ ،‬جاتا ہے قسنط عمر میں‬
‫حیف ہے سان کو جو سمجھیں زندگانی مفت ہے‬
‫مال و جاہ دست و پا بے زر خریدہ ہیں‪ ،‬اسدب‬
‫پس بہ دل ہائے دگر راحت رسانی مفت ہے‬
‫٭٭‬

‫گ تسلی ہے‬ ‫بے تابنی یاند دوست‪ ،‬ہم رن ن‬


‫غافل‪ ،‬تپنش مجنوں‪ ،‬محمل کنش لیلی ہے‬
‫کلفت کشنی ہستی‪ ،‬بدنانم دو رنگی ہے‬
‫یاں تیرگنی اختر‪ ،‬خانل رنخ زنگی ہے‬
‫دیدن ہمہ بالیدن‪ ،‬کردن ہمہ افسردن‬
‫خوشتر ز گل و غنچہ‪ ،‬چشم و دنل ساقی ہے‬
‫ب ہستی‪ ،‬ایجاند سیہ مستی‬ ‫وہنم طر ن‬
‫تسکیں دنہ صد محفل‪ ،‬یک ساغنر خالی ہے‬
‫زندانن تحمل میں مہمانن تغافل ہیں‬
‫بے فائدہ یاروں کو فرنق غم و شادی ہے‬
‫ہو وے نہ غبانر دل تسلینم زمیں گیراں‬
‫مغرور نہ ہو‪ ،‬ناداں‪ ،‬سر تا سنر گیتی ہے‬
‫رکھ فکنر سخن میں تو معذور مجھے ‪ ،‬غالبب‬
‫یاں زورنق خود داری‪ ،‬طوفاننی معنی ہے‬
‫٭٭‬

‫گلشن کو تری صحبت‪ ،‬از بس کہ خوش آئی ہے‬


‫ہر غنچے کا گل ہونا‪ ،‬آغوش کشائی ہے‬
‫واں کنگنر استغنا‪ ،‬ہر دم ہے بلندی پر‬
‫یاں نالے کو اور الٹا دعوائے رسائی ہے‬
‫آئینہ‪ ،‬نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش‬
‫عاشق کو‪ ،‬غبانر دل‪ ،‬اک وجنہ صفائی ہے‬
‫از بس کہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے‬
‫جو داغ نظر آیا‪ ،‬اک چشم نمائی ہے‬
‫ہنگانم تصور ہوں دریوزہ گنر بوسہ‬
‫یہ کاسۂ زانو بھی اک جانم گدائی ہے‬
‫! وہ‪ ،‬دیکھ کے حسن اپنا‪ ،‬مغرور ہوا‪ ،‬غالبب‬
‫صد جلوۂ آئینہ‪ ،‬یک صبنح جدائی ہے‬
‫٭٭‬

‫دریوزۂ ساماں ہا‪ ،‬اے بے سر و سامانی‬


‫ایجاند گریباں ہا‪ ،‬در پردۂ عریانی‬
‫تمثانل تماشا ہا‪ ،‬اقبانل تمنا ہا‬
‫عجنز عرنق شرمے ‪ ،‬اے آئنہ حیرانی‬
‫دعوائے جنوں باطل‪ ،‬تسلیم عبث حاصل‬
‫پروانز فنا مشکل‪ ،‬میں عجنز تن آسانی‬
‫بیگانگنی خو ہا‪ ،‬مونج رنم آہو ہا‬
‫دانم گلۂ سالفت‪ ،‬زنجینر پشیمانی‬
‫پرواز تپش رنگی‪ ،‬گلزار ہمہ تنگی‬
‫خوں ہو قفنس دل میں‪ ،‬اے ذونق پر افشانی‬
‫سنگ آمد و سخت آمد‪ ،‬درند سنر خود داری‬
‫معذونر سبکساری‪ ،‬مجبونر گراں جانی‬
‫گلزانر تمنا ہوں‪ ،‬گلچینن تماشا ہوں‬
‫صد نالہ اسدب ‪ ،‬بلبل در بنند زباں دانی‬
‫٭٭‬

‫نظر بہ نقنص گدایاں‪ ،‬کمانل بے ادبی ہے‬


‫کہ خانر خشک کو بھی دعوئ چمن نسبی ہے‬
‫ہوا وصال سے شونق دنل حریص زیادہ‬
‫لنب قدح پہ‪ ،‬کنف بادہ‪ ،‬جونش تشنہ لبی ہے‬
‫خوشا! وہ دل کہ سراپا طلسنم بے خبری ہو‬
‫جنونن یاس و الم‪ ،‬رزنق مدعا طلبی ہے‬
‫تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو‬
‫حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے‬
‫چمن میں کس کی‪ ،‬یہ برہم ہوئی ہے ‪ ،‬بزنم تماشا؟‬
‫گ سمن‪ ،‬شیشہ ریزۂ حلبی ہے‬ ‫کہ برگ بر ن‬
‫دل!یہ درد و الم بھی تو سممغتدن دمم ہے ‪ ،‬کہ آخر‬
‫نہ گریۂ سحری ہے ‪ ،‬نہ آنہ نیم شبی ہے‬
‫امانم ظاہر و باطن‪ ،‬امینر صورت و معنی‬
‫علی‪ ،‬ولی‪ ،‬اسداللہ‪ ،‬جانشینن نبیی ہے‬
‫٭٭‬

‫دل‪ ،‬عبث ہے تمنائے خاطر افروزی‬


‫کہ بوسۂ لنب شیریں ہے اور گلو سوزی‬
‫طلسنم آئنہ زانوئے فکر ہے ‪ ،‬غافل‬
‫ہنوز حسن کو ہے ‪ ،‬سعنی جلوہ اندوزی‬
‫ہوئی ہے سوزنش دل‪ ،‬بس کہ دانغ بے اثری‬
‫ساگی ہے دوند جگر سے شنب سیہ روزی‬
‫!بہ پرفشاننی پروانۂ چرانغ مزار‬
‫ت جگر سوزی‬ ‫کہ بعند مرگ بھی ہے لذ ن‬
‫تپش تو کیا‪ ،‬نہ ہوئی مشنق پرفشانی بھی‬
‫رہا میں ضعف سے شرمندۂ نو آموزی‬
‫اسدب ‪ ،‬ہمیشہ پئے کفنش پائے سیم تناں‬
‫شعانع مہر سے کرتا ہے چرخ زر دوزی‬
‫٭٭‬
‫خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے‬
‫وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے‬
‫نفس بہ نالہ رقیب و نگہ بہ اشک عدو‬
‫زیادہ ساس سے گرفتار ہوں کہ تو جانے‬
‫ت عرنق شرم قطرہ زن ہے خیال‬ ‫بہ کسو ن‬
‫مباد‪ ،‬حوصلہ معذونر جستجو جانے‬
‫جنوں فسردۂ تمکیں ہے ‪ ،‬کاش !عہند وفا‬
‫گدانز حوصلہ کو پانس آبرو جانے‬
‫نہ ہووے کیونکہ ساسے فرض قتنل اہنل وفا‬
‫لہو میں ہاتھ کے بھرنے کو جو وضو جانے‬
‫زباں سے عرنض تمنائے خامشی معلوم‬
‫مگر وہ خانہ بر انداز گفتگو جانے‬
‫مسینح کشتۂ سالفت ببر علی خاں ہے‬
‫کہ جو‪ ،‬اسدب ‪ ،‬تپنش نبنض آرزو جانے‬
‫٭٭‬

‫اگر سگل حسن و سالفت کی بہم جو شیدنی جانے‬


‫پنر بلبل کے افسردن کو دامن چیدنی جانے‬
‫فسونن سحسن سے ہے ‪ ،‬شوخنی گلگونہ آرائی‬
‫بہار‪ ،‬اس کی کنف مشاطہ میں بالیدنی جانے‬
‫نوائے بلبل و گل‪ ،‬پاسبانن بے دماغی ہے‬
‫بہ یک مژگانن خوباں‪ ،‬صد چمن خوابیدنی جانے‬
‫زہے ! شب زندہ دانر انتظارستاں‪ ،‬کہ وحشت سے‬
‫مژہ‪ ،‬پیچک میں مہ کی سوزن آسا‪ ،‬چیدنی جانے‬
‫ت اندانز قاتل سے‬ ‫خوشا! مستی‪ ،‬کہ جونش حیر ن‬
‫نگہ‪ ،‬شمشیر میں جوں جوہر‪ ،‬آرامیدنی جانے‬
‫جفا شوخ و ہوس گستانخ مطلب ہے ‪ ،‬مگر عاشق‬
‫ت لحد دزدیدنی جانے‬ ‫نفس‪ ،‬در قالنب خش ن‬
‫نوائے طائرانن آشیاں گم کردہ آتی ہے‬
‫گ رفتہ بر گردیدنی جانے‬ ‫تماشا ہے کہ رن ن‬
‫اسدب ‪ ،‬جاں نذنر الطافے کہ ہنگانم ہم آغوشی‬
‫زبانن ہر سنر سمو‪ ،‬حانل دل پرسیدنی جانے‬
‫٭٭‬

‫گلستاں‪ ،‬بے تکلف پینش پا افتادہ مضموں ہے‬


‫جو تو باندھے کنف پا پر حنا‪ ،‬آئینہ موزوں ہے‬
‫بہانر گنل دمانغ نشۂ ایجاند مجنوں ہے‬
‫ہجونم برق سے ‪ ،‬چرخ و زمیں‪ ،‬یک قطرۂ خوں ہے‬
‫رجونع گریہ سوئے دل‪ ،‬خوشا! سرمایۂ طوفاں‬
‫ب اشک‪ ،‬ناخن‪ ،‬نعنل واژوں ہے‬ ‫ت حسا ن‬ ‫بر انگش ن‬
‫عدم وحشت سراغ و ہستی آئیں بنند رنگینی‬
‫دمانغ دو جہاں پر‪ ،‬سنبل و گل‪ ،‬یک شبے خوں ہے‬
‫تماشا ہے علنج بے دماغی ہائے دل‪ ،‬غافل‬
‫سویدا مردنم چشنم پری‪ ،‬نیظارہ افسوں ہے‬
‫ت ہستی‬ ‫ت کلف ن‬‫فنا‪ ،‬کرتی ہے زائل سر نوش ن‬
‫سحر‪ ،‬از بہنر شست و شوئے دانغ ماہ‪ ،‬صابوں ہے‬
‫اسدب ‪ ،‬ہے آج مژگانن تماشا کی حنا بندی‬
‫ک جگر گوں ہے‬ ‫چراغانن نگاہ و شوخنی اش ن‬
‫٭٭‬

‫صبح سے معلوم‪ ،‬آثانر ظہونر شام‪ ،‬ہے‬


‫غافلں‪ ،‬آغانز کار‪ ،‬آئینۂ انجام ہے‬
‫بس کہ ہے صیاد رانہ عشق میں محنو کمیں‬
‫جادۂ رہ سر بسر‪ ،‬مژگانن چشنم دام ہے‬
‫بس کہ تیرے جلوۂ دیدار کا ہے اشتیاق‬
‫ب بام ہے‬ ‫ت خرشید طلعت‪ ،‬آفتا ن‬ ‫ہر ب ن‬
‫مستعند قتنل یک عالم ہے ‪ ،‬جلند فلک‬
‫کہکشاں‪ ،‬مونج شفق میں تینغ خوں آشام ہے‬
‫کیا کمانل عشق نقص آباند گیتی میں ملے‬
‫پختگی ہائے تصور‪ ،‬یاں خیانل خام ہے‬
‫ہو جہاں‪ ،‬وہ ساقنی خرشید سرو‪ ،‬مجلس فروز‬
‫واں‪ ،‬اسد‪ ،‬ب تانر شعانع مہر خنیط جام ہے‬
‫٭٭‬

‫ت شونق خروش آمادہ سے‬ ‫دیکھتا ہوں وحش ن‬


‫ک سر بصحرا دادہ سے‬ ‫فانل رسوائی‪ ،‬سرش ن‬
‫دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو‬
‫گ بہانر عرنض صحرا دادہ سے‬ ‫جونش نیرن ن‬
‫ب طوفانن صدائے آب ہے‬ ‫آمند سیل ن‬
‫نقنش پا‪ ،‬جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے‬
‫بزنم مے ‪ ،‬وحشت کدہ ہے کس کی چشنم مست کا؟‬
‫شیشے میں‪ ،‬نبنض پری‪ ،‬پنہاں ہے مونج بادہ سے‬
‫خیمۂ لیلیی سیاہ و خانۂ مجنوں خراب‬
‫جونش ویرانی ہے عشنق داغ بیروں دادہ سے‬
‫بزنم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم‪ ،‬اسدب‬
‫ب عدم نکشادہ سے‬ ‫دیکھتے ہیں چشنم از خوا ن‬
‫٭٭‬

‫اے خیانل وصل‪ ،‬نادر ہے مے آشامی تری‬


‫ب دل ہوئی خامی تری‬ ‫پختگی ہائے کبا ن‬
‫رچ گیا جونش صفائے زلف کا‪ ،‬اعضا میں‪ ،‬عکس‬
‫ہے نزاکت جلوہ‪ ،‬اے ظالم‪ ،‬سیہ فامی تری‬
‫برگ ریزی ہائے گل‪ ،‬ہے وضنع زر افشاندنی‬
‫باج لیتی ہے گلستاں سے گل اندامی تری‬
‫بس کہ ہے عبرت ادینب یاوگی ہائے ہوس‬
‫میرے کام آئی دنل مایوس ناکامی تری‬
‫ہم نشیننی رقیباں‪ ،‬گرچہ ہے سامانن رشک‬
‫لیکن اس سے ناگوارا تر ہے بدنامی تری‬
‫تجھ کو‪ ،‬اے غفلت نسب پروائے مشتاقاں کہاں‬
‫یاں نگہ آلودہ ہے دستانر بادامی تری‬
‫سر بزانوئے کرم رکھتی ہے شرنم ناکسی‬
‫اے اسد ب ‪ ،‬بے جا نہیں ہے غفلت آرامی تری‬
‫٭٭‬
‫چشنم گریاں‪ ،‬بسمنل شونق بہانر دید ہے‬
‫اشک ریزی‪ ،‬عرنض بال افشاننی امید ہے‬
‫دامنن گردوں میں رہ جاتا ہے ہنگانم وداع‬
‫ک دیدۂ خرشید ہے‬ ‫گوہنر شب تاب‪ ،‬اش ن‬
‫رتبۂ تسلینم خلت مشرباں‪ ،‬عالی سمجھ‬
‫چشنم قربانی‪ ،‬گنل شانخ ہلنل عید ہے‬
‫کچھ نہیں حاصل تعلق میں بغیر از کشمکش‬
‫اے خوشا! رندے کہ مرنغ گلشنن تجرید ہے‬
‫کثرنت اندوہ سے حیران و مضطر ہے اسدب‬
‫ت عنایات و دنم تائید ہے‬‫یا علی‪ ،‬وق ن‬
‫٭٭‬

‫دل سراپا وقنف سودائے نگانہ تیز ہے‬


‫یہ زمیں‪ ،‬مثنل نیستاں‪ ،‬سخت ناوک خیز ہے‬
‫ہو سکے کیا خاک دست و بازوئے فرہاد سے ؟‬
‫ب گرانن خسرنو پرویز ہے‬ ‫بیستوں‪ ،‬خوا ن‬
‫ان ستم کیشوں کے کھائے ہیں‪ ،‬زبس‪ ،‬تینر نگاہ‬
‫پردۂ بادام‪ ،‬یک غربانل حسرت بیز ہے‬
‫گ سودائیاں‬ ‫خوں چکاں ہے جادہ‪ ،‬ماننند ر ن‬
‫سبزۂ صحرائے سالفت‪ ،‬نشتنر خوں ریز ہے‬
‫ہے بہانر تیز رو‪ ،‬گلگونن نکہت پر سوار‬
‫گ گل‪ ،‬صد جنبش مہمیز ہے‬ ‫ت رن ن‬
‫یک شکس ن‬
‫کیوں نہ ہو‪ ،‬چشنم بتاں‪ ،‬محنو تغافل‪ ،‬کیوں نہ ہو؟‬
‫یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے‬
‫مرتے مرتے دیکھنے آرزو رہ جائے گی‬
‫وائے ناکامی!کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے‬
‫عارنض گل دیکھ‪ ،‬روئے یار یاد آیا‪ ،‬اسدب‬
‫جوشنش فصنل بہاری‪ ،‬اشتیاق انگیز ہے‬
‫٭٭‬

‫نظر پرستی و بے کاری و خود آرائی‬


‫ت تماشائی‬ ‫رقینب آئنہ ہے ‪ ،‬حیر ن‬
‫ز خود گزشتنن دل‪ ،‬کاروانن حیرت ہے‬
‫نگہ‪ ،‬غبانر ادب گانہ جلوہ فرمائی‬
‫ت تکلیف‬ ‫نہیں ہے حوصلہ‪ ،‬پامرند کثر ن‬
‫جنونن ساختہ‪ ،‬حرنز فسونن دانائی‬
‫گ خواب‬ ‫بہ چشم درشدہ مژگاں‪ ،‬ہے جوہنر ر ن‬
‫ت شکیبائی‬ ‫نہ پوچھ نازکنی وحش ن‬
‫ب نالۂ بلبل‪ ،‬شہیند خندۂ گل‬ ‫خرا ن‬
‫ہنوز دعونی تمکین و بینم رسوائی‬
‫ت سانز خیال‪ ،‬آں سوئے گریوۂ غم‬ ‫شکس ن‬
‫ہنوز نالہ پر افشانن ذونق رعنائی‬
‫ہزار قافلۂ آرزو‪ ،‬بیاباں مرگ‬
‫ہنوز محمنل حسرت بہ دونش خود رائی‬
‫ودانع حوصلہ‪ ،‬توفینق شکوہ‪ ،‬عجنز وفا‬
‫!اسدب ہنوز‪ ،‬گمانن غرونر دانائی‬
‫٭٭‬

‫ت تقریر ہے ‪ ،‬زباں‪ ،‬تجھ سے‬‫گدائے طاق ن‬


‫کہ خامشی کو ہے پیرایۂ بیاں تجھ سے‬
‫فسردگی میں ہے فریاند بے دلں تجھ سے‬
‫چرانغ صبح و گنل موسنم خزاں تجھ سے‬
‫بہانر حیرنت نظارہ‪ ،‬سخت جانی ہے‬
‫حنائے پائے اجل‪ ،‬خونن کشتگاں‪ ،‬تجھ سے‬
‫پری بہ شیشہ و عکنس رخ اندر آئینہ‬
‫نگانہ حیرنت مشاطہ‪ ،‬خوں فشاں تجھ سے‬
‫طراونت سحر ایجادی اثر یک سسو‬
‫بہانر نالہ و رنگیننی فغاں تجھ سے‬
‫چمن چمن گنل آئینہ در کنانر ہوس‬
‫امید‪ ،‬محنو تماشائے گلستاں تجھ سے‬
‫نیاز‪ ،‬پردۂ اظہانر خود پرستی ہے‬
‫جبینن سجدہ فشاں تجھ سے ‪ ،‬آستاں تجھ سے‬
‫بہانہ جوئنی رحمت‪ ،‬کمیں گنر تقریب‬
‫وفائے حوصلہ و رننج امتحاں تجھ سے‬
‫اسدب طلسنم قفس میں رہے ‪ ،‬قیامت ہے‬
‫خرام تجھ سے ‪ ،‬صبا تجھ سے ‪ ،‬گلستاں تجھ سے‬
‫٭٭‬

‫شکنل طاؤس‪ ،‬گرفتار بنایا ہے مجھے‬


‫ہوں وہ گلدام کہ سبزے میں چھپایا ہے مجھے‬
‫پنر طاؤس‪ ،‬تماشا نظر آیا ہے مجھے‬
‫ایک دل تھا کہ بصد رنگ دکھایا ہے مجھے‬
‫عکنس خط‪ ،‬تا سخنن ناصنح دانا سر سبز‬
‫آئنہ‪ ،‬بیضۂ طوطی نظر آیا ہے مجھے‬
‫ت زلف‬ ‫سسنبلستانن جنوں ہوں‪ ،‬ستنم نسب ن‬
‫سموکشاں خانۂ زنجیر میں لیا ہے مجھے‬
‫ک مجنوں‬ ‫گرد باد‪ ،‬آئنۂ محشنر خا ن‬
‫یک بیاباں دنل بیتاب ساٹھایا ہے مجھے‬
‫ت کاغنذ آتش زدہ ہے ‪ ،‬جلوۂ عمر‬ ‫حیر ن‬
‫تنہ خاکستنر صد آئنہ پایا ہے مجھے‬
‫للہ و گل بہم آئینۂ اخلنق بہار‬
‫ہوں میں وہ داغ کہ پھولوں میں بسایا ہے مجھے‬
‫!درند اظہانر تپش کسوتی گل معلوم‬
‫ہوں میں وہ چاک کہ کانٹوں سے سلیا ہے مجھے‬
‫بے دمانغ تپش و عرنض دو عالم فریاد‬
‫ہوں میں وہ خاک کہ ماتم میں ساڑایا ہے مجھے‬
‫جانم ہر ذرہ ہے سرشانر تمنا مجھ سے‬
‫کس کا دل ہوں ؟کہ دو عالم سے لگایا ہے مجھے‬
‫ت خواب‪ ،‬اسدب‬ ‫جونش فریاد سے لوں گا دی ن‬
‫شوخنی نغمۂ بیدل نے جگایا ہے مجھے‬
‫٭٭‬

‫باغ تجھ بن گنل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے‬


‫چاہوں گر سینر چمن‪ ،‬آنکھ دکھاتا ہے مجھے‬
‫مانہ نو‪ ،‬ہوں کہ فلک عجز سکھاتا ہے مجھے‬
‫عمر بھر ایک ہی پہلو پہ سلتا ہے مجھے‬
‫باغ‪ ،‬پا کرخفقانی‪ ،‬یہ ڈراتا ہے مجھے‬
‫سایہ شانخ گل‪ ،‬افعی نظر آتا ہے مجھے‬
‫نالہ‪ ،‬سرمایۂ یک عالم و عالم‪ ،‬کنف خاک‬
‫آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے‬
‫جوہنر تیغ بسر چشمۂ دیگر معلوم‬
‫ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب ساگاتا ہے مجھے‬
‫ت دل ہے‬ ‫مدعا‪ ،‬محنو تماشائے شکس ن‬
‫آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے‬
‫ک چمن کا‪ ،‬یارب؟‬ ‫شونر تمثال ہے کس رش ن‬
‫آئنہ‪ ،‬بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے‬
‫ت آئنہ انجانم جنوں ہوں جوں شمع‬ ‫حیر ن‬
‫کس قدر دانغ جگر شعلہ ساٹھاتا ہے مجھے‬
‫میں ہوں اور حیرنت جاوید‪ ،‬مگر ذونق خیال‬
‫بہ فسونن نگنہ ناز ستاتا ہے مجھے‬
‫زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے‬
‫دیکھوں‪ ،‬اب مر گئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے‬
‫ت فکنر سخن‪ ،‬ساز سلمت ہے ‪ ،‬اسدب‬ ‫حیر ن‬
‫دل پنس زانوئے آئینہ بٹھاتا ہے مجھے‬
‫٭٭‬

‫قتنل عشاق نہ غفلت کنش تدبیر آوے‬


‫یارب‪ ،‬آئینہ بہ طانق خنم شمشیر آوے‬
‫بانل طاؤس ہے رعنائنی ضعنف پرواز‬
‫کون ہے داغ کہ شعلے کا عناں گیر آوے‬
‫عرنض حیراننی بیمانر محبت معلوم‬
‫عیسیی‪ ،‬آخر بکنف آئینہ تصویر آوے‬
‫ذونق راحت اگر احرانم تپش ہو‪ ،‬جوں شمع‬
‫پائے خوابیدہ‪ ،‬بہ دلجوئنی شبگیر آوے‬
‫ساس بیاباں میں گرفتانر جنوں ہوں کہ جہاں‬
‫موجۂ ریگ سے دل‪ ،‬پائے بہ زنجیر آوے‬
‫وہ گرفتانر خرابی ہوں کہ فیوارہ نمط‬
‫سیل‪ ،‬صیاند کمیں خانۂ تعمیر آوے‬
‫سنر معنی بہ گریبانن شنق خامہ‪ ،‬اسدب‬
‫ک دل‪ ،‬شانہ کنش طیرۂ تحریر آوے‬ ‫چا ن‬
‫٭٭‬

‫تشنۂ خونن تماشا جو وہ پانی مانگے‬


‫آئنہ‪ ،‬رخص ن‬
‫ت اندانز روانی مانگے‬
‫رنگ نے سگل سے دنم عرنض پریشاننی بزم‬
‫گ سگل‪ ،‬ریزۂ مینا کی نشانی مانگے‬ ‫بر ن‬
‫زلف تحرینر پریشانن تقاضا ہے ‪ ،‬مگر‬
‫شانہ ساں‪ ،‬سمو بہ زباں خامۂ مانی مانگے‬
‫!آمند خط ہے ‪ ،‬نہ کر خندۂ شیریں کہ‪ ،‬مباد‬
‫چشنم مور‪ ،‬آئنۂ دل نگرانی مانگے‬
‫ہوں گرفتانر کمیں گانہ تغافل کہ جہاں‬
‫ب صیاد سے ‪ ،‬پرواز‪ ،‬گرانی مانگے‬ ‫خوا ن‬
‫چشنم پرواز و نفس خفتہ‪ ،‬مگر ضعنف امید‬
‫شہپنر کاہ‪ ،‬پئے مژدہ رسانی مانگے‬
‫تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے‬
‫غم وہ‪ ،‬افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے‬
‫ت گل‬ ‫ت شونر تماشا ہے کہ جوں نکہ ن‬ ‫وحش ن‬
‫ک زخنم جگر بال فشانی مانگے‬ ‫نم ن‬
‫ت طناز بآغونش رقیب‬ ‫نقنش نانز ب ن‬
‫پائے طاؤس‪ ،‬پئے خامۂ مانی مانگے‬
‫ت شمع‬ ‫وہ تنب عشنق تمنا ہے کہ پھر‪ ،‬صور ن‬
‫شعلہ‪ ،‬تا نبنض جگر ریشہ دوانی مانگے‬
‫ت بیدل کا خنط لونح مزار‬ ‫گر ملے حضر ن‬
‫اسد ب ‪ ،‬آئینۂ پردانز معانی مانگے‬
‫٭٭‬

‫ت مخمل ہے پریشان مجھ سے‬ ‫ب جمعی ی ن‬ ‫خوا ن‬


‫گ بستر کو ملی شوخنی مژگاں مجھ سے‬ ‫ر ن‬
‫غنم عشاق نہ ہو سادگی آمونز بتاں‬
‫کس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے‬
‫کننج تاریک و کمیں گیری اختر شمری‬
‫ک چشم بنا روزنن زنداں مجھ سے‬ ‫عین ن‬
‫ن‬
‫اے تسلی‪ ،‬ہوس وعدہ فریب افسوں ہے‬
‫ورنہ کیا ہو نہ سکے نالہ بہ ساماں مجھ سے‬
‫بستنن عہند محبت ہمہ نادانی تھا‬
‫چشنم نکشودہ رہا عقدۂ پیماں مجھ سے‬
‫آتش افروزنی یک شعلۂ ایما تجھ سے‬
‫چشمک آرائنی صد شہنر چراغاں مجھ سے‬
‫اے اسدب ‪ ،‬دسترنس وصنل تمنا‪ ،‬معلوم‬
‫ت برچیدنن داماں مجھ سے‬ ‫کاش! ہو قدر ن‬
‫٭٭‬

‫گ خود آرائی ہے‬ ‫فرصت‪ ،‬آئینۂ صد رن ن‬


‫روز و شب‪ ،‬یک کنف افسونس تماشائی ہے‬
‫ت زخنم وفا دیکھ کہ سرتا سنر دل‬ ‫وحش ن‬
‫ت گیرائی ہے‬ ‫بخیہ‪ ،‬جوں جوہنر تیغ‪ ،‬آف ن‬
‫شمع آسا‪ ،‬چہ سنر دعوی؟ و سکو پائے ثبات؟‬
‫گنل صد شعلہ‪ ،‬بیک جینب شکیبائی ہے‬
‫نالہ خونیں ورق‪ ،‬و دل گنل مضمونن شفق‬
‫ت تنہائی ہے‬ ‫چمن آرائے نفس‪ ،‬وحش ن‬
‫بوئے گل فتنۂ بیدار و چمن جامۂ خواب‬
‫ت رسوائی ہے‬ ‫گ جنوں کسو ن‬ ‫وصل ہر رن ن‬
‫گ طرب گانہ بہار‬ ‫شرم طوفانن خزاں رن ن‬
‫گنل مہتاب بہ کف چشنم تماشائی ہے‬
‫گ طرب گانہ بہار‬ ‫شرم‪ ،‬طوفانن خزاں رن ن‬
‫ماہتابی بکنف چشنم تماشائی ہے‬
‫بانغ خاموشنی دل سے سخنن عشق‪ ،‬اسدب‬
‫نفنس سوختہ رمنز چمن ایمائی ہے‬
‫ساگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالبب‬
‫ہم بیاباں میں ہیں‪ ،‬اور گھر میں بہار آئی ہے‬
‫٭٭‬

‫کارگانہ ہستی میں للہ‪ ،‬داغ ساماں ہے‬


‫برنق خرمنن راحت‪ ،‬خونن گرنم دہقاں ہے‬
‫ہم سے رننج بے تابی کس طرح اٹھایا جائے ؟‬
‫ت عجز‪ ،‬شعلہ‪ ،‬خس بہ دنداں ہے‬ ‫ت دس ن‬ ‫داغ‪ ،‬پش ن‬
‫حیرنت تپیدن ہا‪ ،‬خوں بہائے دیدن ہا‬
‫گ گل کے پردے میں آئنہ پرافشاں ہے‬ ‫رن ن‬
‫عشق کے تغافل سے ‪ ،‬ہرزہ گرد ہے عالم‬
‫ت چشنم زنداں ہے‬ ‫روئے شش جہت آفاق‪ ،‬پش ن‬
‫گ عافیت معلوم‬ ‫!غنچہ تا شگفتن ہا‪ ،‬بر ن‬
‫ب گل‪ ،‬پریشاں ہے‬ ‫باوجوند دل جمعی‪ ،‬خوا ن‬
‫ت انجمن ہے گل‪ ،‬دیکھ للے کا عالم‬ ‫وحش ن‬
‫مثنل دوند مجمر کے ‪ ،‬داغ بال افشاں ہے‬
‫اے کرم نہ ہو غافل‪ ،‬ورنہ ہے اسدب بیدل‬
‫ت چشنم نیساں ہے‬ ‫بے سگہر صدف گویا‪ ،‬پش ن‬
‫ب خاموشی‬ ‫جونر زلف کی تقریر پیچتا ن‬
‫ہند میں اسدب نالں‪ ،‬نالہ در صفاہاں ہے‬
‫٭٭‬

‫گریہ‪ ،‬سرشاری شوق بہ بیاباں زدہ ہے‬


‫ک طوفاں زدہ ہے‬ ‫قطرۂ خونن جگر‪ ،‬چشم ن‬
‫ت شوق‬ ‫گریہ بے لیذنت کاوش نہ کرے جرأ ن‬
‫قطرۂ اشک‪ ،‬دل بر صنف مژگاں زدہ ہے‬
‫ت چشنم بسمل‬ ‫بے تماشا نہیں جمعی ی ن‬
‫ب پریشاں زدہ ہے‬ ‫مژہ فانل دو جہاں خوا ن‬
‫فرصت آئینہ و پروانز عدم تا ہستی‬
‫یک شرر بانل دل و دیدہ چراغاں زدہ ہے‬
‫نقنش رنگیننی سعنی قلنم مانی ہے‬
‫بکمر دامنن صد رنگ گلستان زدہ ہے‬
‫درنس نیرنگ ہے کس مونج نگہ کا‪ ،‬یا رب؟‬
‫غنچہ‪ ،‬صد آئنہ زانوئے گلستاں زدہ ہے‬
‫سانز وحشت رقمی ہا‪ ،‬کہ باظہانر اسدب‬
‫دشت و ریگ آئنۂ صفحۂ افشاں زدہ ہے‬
‫٭٭‬

‫ب غفلت بہ کمیں گانہ نظر پنہاں ہے‬ ‫خوا ن‬


‫شام‪ ،‬سائے میں بہ تارانج سحر پنہاں ہے‬
‫دو جہاں‪ ،‬گردنش یک سبحۂ اسرانر نیاز‬
‫نقند صد دل بہ گریبانن سحر پنہاں ہے‬
‫خلونت دل میں نہ کر دخل‪ ،‬بجز سجدۂ شوق‬
‫ت آئنہ در پنہاں ہے‬ ‫آستاں میں‪ ،‬صف ن‬
‫فکنر پروانز جنوں ہے ‪ ،‬سبنب ضبط نہ پوچھ‬
‫اشک‪ ،‬جوں بیضہ‪ ،‬مژہ سے تنہ پر پنہاں ہے‬
‫ت بے دردی چند‬ ‫!ہوش‪ ،‬اے ہرزہ درا‪ ،‬تہم ن‬
‫نالہ‪ ،‬در گرند تمنائے اثر پنہاں ہے‬
‫وہنم غفلت‪ ،‬مگر‪ ،‬احرانم فسردن باندھے‬
‫ورنہ‪ ،‬ہر سنگ کے باطن میں شرر پنہاں ہے‬
‫گ نشاط‬ ‫ت دل ہے ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬عالنم نیرن ن‬ ‫وحش ن‬
‫خندۂ گل‪ ،‬بہ لنب زخنم جگر پنہاں ہے‬
‫٭٭‬

‫دامانن دل بہ وہنم تماشا نہ کھینچیے‬


‫ت بے جا نہ کھینچیے‬ ‫اے مدعی‪ ،‬خجال ن‬
‫گل‪ ،‬سر بسر‪ ،‬اشارۂ جینب دریدہ ہے‬
‫نانز بہار جز بہ تقاضا نہ کھینچیے‬
‫ب جلوہ و وحشت غبانر چشم‬ ‫حیرت حجا ن‬
‫پائے نظر بہ دامنن صحرا نہ کھینچیے‬
‫واماندگی بہانہ‪ ،‬و دل بستگی فریب‬
‫درند طلب بہ آبلۂ پا نہ کھینچیے‬
‫کرتے ہوئے تصونر یار آئے ہے حیا‬
‫ت بیگانہ کھینچیے‬‫کیا فائدہ کہ من ن‬
‫گر صفحے کو نہ دیجیے پروانز سادگی‬
‫جز خنط عجز‪ ،‬نقنش تمنا نہ کھینچیے‬
‫دیدانر دوستانن لباسی ہے ناگوار‬
‫صورت بہ کارخانۂ دیبا نہ کھینچیے‬
‫ہے بے خمار نیشۂ خونن جگر‪ ،‬اسدب‬
‫ت ہوس بہ گردنن مینا نہ کھینچیے‬ ‫دس ن‬
‫٭٭‬

‫تا چند نانز مسجد و بت خانہ کھینچیے‬


‫ت جانانہ کھینچیے‬ ‫جوں شمع‪ ،‬دل بہ خلو ن‬
‫بہزاد‪ ،‬نقنش یک دنل صد چاک عرض کر‬
‫گر زلنف یار کھینچ نہ سکے ‪ ،‬شانہ کھینچیے‬
‫راحت کمینن شوخنی تقرینب نالہ ہے‬
‫پائے نظر بہ دامنن افسانہ کھینچیے‬
‫زلنف پری‪ ،‬بہ سلسلۂ آرزو رسا‬
‫یک عمر‪ ،‬دامنن دنل دیوانہ کھینچیے‬
‫ت ساقی رسیدہ تر‬ ‫یعنی دمانغ غفل ن‬
‫خمیازۂ خمار سے پیمانہ کھینچیے‬
‫پرواز آشیانۂ عنقائے ناز ہے‬
‫ت بے جا نہ کھینچیے‬ ‫بانل پری بہ وحش ن‬
‫عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر‬
‫دامن کو ساس کے آج حریفانہ کھینچیے‬
‫ہے ذونق گریہ‪ ،‬عزنم سفر کیجیے ‪ ،‬اسدب‬
‫ت جنونن سیل بہ ویرانہ کھینچیے‬ ‫رخ ن‬
‫٭٭‬

‫آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے‬


‫ایسا کہاں سے لؤں کہ تجھ سا کہیں جسے‬
‫ہے انتظار سے شرر آباند رستخیز‬
‫گ خارا کہیں جسے‬ ‫مژگانن کوہکن‪ ،‬ر ن‬
‫حسرت نے ل رکھا تری بزنم خیال میں‬
‫گلدستۂ نگاہ‪ ،‬سویدا کہیں جسے‬
‫ت وصال پہ ہے گل کو‪ ،‬عندلیب‬ ‫کس فرص ن‬
‫زخنم فراق‪ ،‬خندۂ بے جا کہیں جسے‬
‫درکار ہے شگفتنن گل ہائے عیش کو‬
‫صبنح بہار‪ ،‬پنبۂ مینا کہیں جسے‬
‫!پھونکا ہے کس نے گونش محبت میں‪ ،‬اے خدا‬
‫افسونن انتظار‪ ،‬تمنا کہیں جسے‬
‫یارب‪ ،‬ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو‬
‫یہ محشنر خیال کہ دنیا کہیں جسے‬
‫سر پر ہجونم درند غریبی سے ‪ ،‬ڈالیے‬
‫ت خاک کہ صحرا کہیں جسے‬ ‫وہ ایک مش ن‬
‫ت دیدار سے نہاں‬ ‫ہے چشنم تر میں‪ ،‬حسر ن‬
‫شونق عناں گسیختہ‪ ،‬دریا کہیں جسے‬
‫غالبب برا نہ مان‪ ،‬جو واعظ برا کہے‬
‫ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے ؟‬
‫٭٭‬
‫منت کشی میں حوصلہ بے اختیار ہے‬
‫گ مزار ہے‬ ‫دامانن صد کفن‪ ،‬تنہ سن ن‬
‫کس کا سرانغ جلوہ ہے ‪ ،‬حیرت کو‪ ،‬اے خدا؟‬
‫ت انتظار ہے‬ ‫آئینہ‪ ،‬فرنش شش جہ ن‬
‫عبرت طلب ہے ‪ ،‬حنل معمائے آگہی‬
‫شبنم‪ ،‬گدانز آئنۂ اعتبار ہے‬
‫ہے ذرہ ذرہ‪ ،‬تنگنی جا سے ‪ ،‬غبانر شوق‬
‫ت صحرا شکار ہے‬ ‫گر دام یہ ہے ‪ ،‬وسع ن‬
‫دل مدعی‪ ،‬و دیدہ بنا مدعی علیہ‬
‫نظارے کا مقدمہ پھر روبکار ہے‬
‫گ گل پہ‪ ،‬آب‬ ‫چھڑ کے ہے شبنم‪ ،‬آئنۂ بر ن‬
‫ت ودانع بہار ہے‬ ‫اے عندلیب! وق ن‬
‫خجلت کنش وفا کو شکایت نہ چاہیے‬
‫اے مدعی‪ ،‬طلسنم عرق بے غبار ہے‬
‫پچ آ پڑی ہے وعدہ دلدار کی مجھے‬
‫وہ آئے یا نہ آئے ‪ ،‬پہ یاں انتظار ہے‬
‫ت ہجونم تمنا رسا‪ ،‬اسدب‬ ‫کیفی ن‬
‫خمیازہ‪ ،‬ساغنر مئے رننج خمار ہے‬
‫٭٭‬

‫ت ساقی‪ ،‬ہلک ہے‬ ‫مستی‪ ،‬بہ ذونق غفل ن‬


‫مونج شراب‪ ،‬یک مژنہ خواب نا ک ہے‬
‫ت دگر‬ ‫کلفت‪ ،‬طلسنم جلوۂ کیفی ی ن‬
‫گ تاک ہے‬ ‫زنگار خوردہ آئنہ‪ ،‬یک بر ن‬
‫ہے عرنض جوہنر خط و خانل ہزار عکس‬
‫لیکن ہنوز دامنن آئینہ پاک ہے‬
‫ت فسردگنی انتظار میں‬ ‫ہوں‪ ،‬خلو ن‬
‫وہ بے دماغ جس کو ہوس بھی تپاک ہے‬
‫جز زخنم تینغ ناز‪ ،‬نہیں دل میں آرزو‬
‫جینب خیال بھی‪ ،‬ترے ہاتھوں سے چاک ہے‬
‫جونش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں‪ ،‬اسدب‬
‫ت خاک ہے‬ ‫صحرا ہماری آنکھ میں یک مش ن‬
‫٭٭‬

‫حسنن بے پروا‪ ،‬خریدانر متانع جلوہ ہے‬


‫آئنہ‪ ،‬زانوئے فکنر اخترانع جلوہ ہے‬
‫عجنز دیدن ہا بہ ناز‪ ،‬و نانز رفتن ہا بہ چشم‬
‫جادۂ صحرائے آگاہی‪ ،‬شعانع جلوہ ہے‬
‫ف رنگ و بو‪ ،‬طرنح بہانر بے خودی‬ ‫اختل ن‬
‫صلنح کل‪ ،‬گرند ادب گانہ نزانع جلوہ ہے‬
‫گ تماشا باختن؟‬ ‫تا کجا‪ ،‬اے آگہی‪ ،‬رن ن‬
‫چشنم وا گردیدہ‪ ،‬آغونش ودانع جلوہ ہے‬
‫حسنن خوباں بس کہ بے قدنر تماشا ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫آئنہ یک دس ن‬
‫ت رنید امتنانع جلوہ ہے‬
‫٭٭‬

‫خود فروشی ہائے ہستی بس کہ جائے خندہ ہے‬


‫ت دل میں صدائے خندہ ہے‬ ‫ت قیم ن‬‫ہر شکس ن‬
‫عرنض نانز شوخنی دندان‪ ،‬برائے خندہ ہے‬
‫ت احباب‪ ،‬جائے خندہ ہے‬ ‫دعوئ جمعی ی ن‬
‫ت انجانم گل‬‫ہیں عدم میں‪ ،‬غنچہ‪ ،‬محنو عبر ن‬
‫یک جہاں زانو تایمل‪ ،‬درقفائے خندہ ہے‬
‫ت افسردگی کو عینش بے تابی حرام‬ ‫کلف ن‬
‫ورنہ دنداں در دل افشردن‪ ،‬بنائے خندہ ہے‬
‫نقنش عبرت در نظر‪ ،‬یا نقند عشرت در بساط‬
‫دو جہاں وسعت‪ ،‬بہ قدنر یک فضائے خندہ ہے‬
‫شورنش باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں‬
‫دل‪ ،‬محینط گریہ و لب‪ ،‬آشنائے خندہ ہے‬
‫جائے استہزا ہے ‪ ،‬عشرت کوشنی ہستی‪ ،‬اسدب‬
‫ت نشو و نمائے خندہ ہے‬ ‫صبح و شبنم‪ ،‬فرص ن‬
‫٭٭‬

‫ب جولں‪ ،‬آبیانر نغمہ ہے‬ ‫شوخنی مضرا ن‬


‫بر گ رینز ناخنن مطرب‪ ،‬بہانر نغمہ ہے‬
‫کس سے ‪ ،‬اے غفلت‪ ،‬تجھے تعبینر آگاہی ملے ؟‬
‫گوش ہا سیمابی‪ ،‬و دل بے قرانر نغمہ ہے‬
‫سانز عینش بے دلی ہے ‪ ،‬خانہ ویرانی‪ ،‬مجھے‬
‫ک صدائے آبشانر نغمہ ہے‬ ‫سیل‪ ،‬یاں کو ن‬
‫سنبلی خواں ہے ‪ ،‬بہ ذونق تانر گیسوئے دراز‬
‫نالۂ زنجینر مجنوں‪ ،‬رشتہ دانر نغمہ ہے‬
‫شوخنی فریاد سے ہے پردۂ زنبور‪ ،‬گل‬
‫ت ایجاند بلبل‪ ،‬خار خانر نغمہ ہے‬ ‫کسو ن‬
‫ت طرب‬ ‫ب رنگ و ساز ہا مس ن‬ ‫نشہ ہا‪ ،‬شادا ن‬
‫شیشۂ مے ‪ ،‬سرنو سبنز جوئبانر نغمہ ہے‬
‫"ہم نشیں‪ ،‬مت کہہ کہ" برہم کر نہ بزنم عینش دوست‬
‫واں تو‪ ،‬میرے نالے کو بھی‪ ،‬اعتبانر نغمہ ہے‬
‫غفلت استعداد ذوق‪ ،‬و مدعا غافل اسدب‬
‫پنبۂ گونش حریفاں‪ ،‬پود و تانر نغمہ ہے‬
‫٭٭‬

‫نشۂ مے ‪ ،‬بے چمن‪ ،‬دوند چرانغ کشتہ ہے‬


‫جام‪ ،‬دانغ شعلہ اندوند چرانغ کشتہ ہے‬
‫رحم کر‪ ،‬ظالم‪ ،‬کہ کیا بوند چرانغ کشتہ ہے‬
‫نبنض بیمانر وفا‪ ،‬دوند چرانغ کشتہ ہے‬
‫دانغ ربنط ہم ہیں اہنل باغ‪ ،‬گر سگل ہو شہید‬
‫للہ‪ ،‬چشنم حسرت آلوند چرانغ کشتہ ہے‬
‫شور ہے کس بزم کی عرنض جراحت خانہ کا؟‬
‫صبح‪ ،‬یک زخنم نمک سوند چرانغ کشتہ ہے‬
‫نامراند جلوہ‪ ،‬ہر عالم میں حسرت سگل کرے‬
‫للہ‪ ،‬دانغ شعلہ فرسوند چرانغ کشتہ ہے‬
‫ت بے خودی‬ ‫ہو جہاں‪ ،‬تیرا دمانغ ناز‪ ،‬مس ن‬
‫ب نانز گلرخاں‪ ،‬دوند چرانغ کشتہ ہے‬ ‫خوا ن‬
‫ہے دنل افسردہ‪ ،‬دانغ شوخنی مطلب‪ ،‬اسدب‬
‫شعلہ‪ ،‬آخر فانل مقصوند چرانغ کشتہ ہے‬
‫٭٭‬

‫تپش سے میری وقنف کشمکش‪ ،‬ہر تانر بستر ہے‬


‫مرا سر رننج بالیں ہے ‪ ،‬مرا تن بانر بستر ہے‬
‫بہ ذونق شوخنی اعضا تکلف بانر بستر ہے‬
‫ب کشمکش‪ ،‬ہر تانر بستر ہے‬ ‫ف پیچ و تا ن‬‫معا ن‬
‫خوشا!اقبانل رنجوری کہ عیادت کو تم آئے ہو‬
‫فرونغ شمنع بالیں‪ ،‬طالنع بیدانر بستر ہے‬
‫معمائے تکلف‪ ،‬سر بسمہنر چشم پوشیدن‬
‫گدانز شمنع محفل پیچنش طومانر بستر ہے‬
‫مژہ فرنش رہ و دل ناتوان و آرزو مضطر‬
‫بپائے خفتہ سینر وادنی سپر خانر بستر ہے‬
‫ک سر بہ صحرا دادہ‪ ،‬نور العینن دامن ہے‬ ‫سرش ن‬
‫دنل بے دست و پا افتادہ‪ ،‬برخوردانر بستر ہے‬
‫ب شانم تنہائی‬ ‫بہ طوفاں گانہ جونش اضطرا ن‬
‫ب صبنح محشر تانر بستر ہے‬ ‫شعانع آفتا ن‬
‫ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی زلنف مشکیں کی‬
‫ب زلیخا‪ ،‬عانر بستر ہے‬ ‫ہماری دید کو خوا ن‬
‫کہوں کیا‪ ،‬دل کی کیا حالت ہے ہجنر یار میں‪ ،‬غالبب‬
‫کہ بیتابی سے ہر یک تانر بستر‪ ،‬خانر بستر ہے‬
‫٭٭‬

‫گ گردن نہ ہو جاوے‬ ‫خطر ہے ‪ ،‬رشتۂ الفت‪ ،‬ر ن‬


‫غرونر دوستی آفت ہے ‪ ،‬ستو دشمن نہ ہو جاوے‬
‫بہ پانس شوخنی مژگاں‪ ،‬سنر ہر خار سوزن ہے‬
‫گ گل کو‪ ،‬بخیۂ دامن نہ ہو جاوے‬ ‫تبسم بر ن‬
‫جراحت دوزنی عاشق ہے ‪ ،‬جائے رحم‪ ،‬ترساں ہوں‬
‫ک دیدۂ سوزن نہ ہو جاوے‬ ‫کہ‪ ،‬رشتہ‪ ،‬تانر اش ن‬
‫غضب شرم آفریں ہے رنگ ریزی ہائے خود بینی‬
‫سفیدی آئنے کی پنبۂ روزن نہ ہو جاوے‬
‫سمجھ اس فصل میں کوتاہنی نشو و نما غالبب‬
‫اگر گل‪ ،‬سرمو کے قامت پہ‪ ،‬پیراہن نہ ہو جاوے‬
‫٭٭‬

‫نوائے خفتۂ الفت‪ ،‬اگر بے تاب ہو جاوے‬


‫پنر پروانہ‪ ،‬تانر شمع پر مضراب ہو جاوے‬
‫اگر وحشت عرق افشانن بے پروا خرامی ہو‬
‫بیانض دیدۂ آہو‪ ،‬کنف سیلب ہو جاوے‬
‫! ز بس طوفانن آب و نگل ہے ‪ ،‬غافل‪ ،‬کیا تعجب ہے‬
‫کہ ہر یک گرد باند گلستاں گرداب ہو جاوے‬
‫ت دعا‪ ،‬دخنل تصرف کر‬ ‫اثر میں یاں تک‪ ،‬اے دس ن‬
‫کہ سجدہ قبضۂ تینغ خنم محراب ہو جاوے‬
‫گ گل‪ ،‬اگر‪ ،‬شیرازہ بنند بے خودی رہیے‬ ‫برن ن‬
‫ہزار آشفتگی‪ ،‬مجموعۂ یک خواب ہو جاوے‬
‫نمک بر داغ‪ ،‬مشک آلودہ وحشت تماشا ہے‬
‫سواند دیدنہ آہو‪ ،‬شنب مہتاب ہو جاوے‬
‫اسدب ‪ ،‬با وصنف مشق بے تکلف خاک گردیدن‬
‫غضب ہے ‪ ،‬گر غبانر خاطنر احباب ہو جاوے‬
‫٭٭‬

‫دنل بیمانر از خود رفتہ‪ ،‬تصوینر نہالی ہے‬


‫کہ مژگاں ریشہ دانر نیستانن شینر قالی ہے‬
‫سرونر نشۂ گردش‪ ،‬اگر‪ ،‬کیفیت افزا ہو‬
‫نہاں ہر گرد باند دشت میں جانم سفالی ہے‬
‫عرونج نشہ ہے سر تا قدم‪ ،‬قند چمن رویاں‬
‫بجائے خود‪ ،‬وگرنہ‪ ،‬سرو بھی مینائے خالی ہے‬
‫ہوا آئینہ‪ ،‬جانم بادہ عکنس روئے گلگوں سے‬
‫ب پرتگالی ہے‬ ‫نشانن خانل رخ‪ ،‬دانغ شرا ن‬
‫بپائے خامۂ مو‪ ،‬طے رنہ وصنف کمر کیجے‬
‫کہ تانر جادۂ سر منزنل نازک خیالی ہے‬
‫ت آرائش‬ ‫اسدب ‪ ،‬ساٹھنا قیامت قامتوں کا وق ن‬
‫لبانس نظم میں بالیدنن مضمونن عالی ہے‬
‫٭٭‬

‫شبنم‪ ،‬بہ گنل للہ‪ ،‬نہ خالی ز ادا ہے‬


‫دانغ دنل بے درد‪ ،‬نظر گانہ حیا ہے‬
‫ت دیدار‬‫دل خوں شدۂ کشمکنش حسر ن‬
‫ت حنا ہے‬ ‫ت بد مس ن‬‫ت ب ن‬
‫آئینہ‪ ،‬بدس ن‬
‫تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق‬
‫آئینہ‪ ،‬بہ اندانز سگل‪ ،‬آغوش کشا ہے‬
‫قمری کنف خاکستر‪ ،‬و بلبل قفنس رنگ‬
‫اے نالہ! نشانن جگنر سوختہ کیا ہے ؟‬
‫مجبوری و دعوائے گرفتارنی سالفت‬
‫ت تنہ سنگ آمدہ‪ ،‬پیمانن وفا ہے‬ ‫دس ن‬
‫سر رشتۂ بے تابنی دل‪ ،‬در گرنہ عجز‬
‫پرواز بہ خوں خفتہ و فریاد رسا ہے‬
‫اے پرتنو خرشیند جہاں تاب‪ ،‬ادھر بھی‬
‫سایے کی طرح‪ ،‬ہم پہ عجب وقت پڑا ہے‬
‫معلوم ہوا حانل شہیدانن گزشتہ‬
‫تینغ ستم‪ ،‬آئینۂ تصویر نما ہے‬
‫شعلے سے نہ ہوتی‪ ،‬ہونس شعلہ نے جو کی‬
‫جی‪ ،‬کس قدر افسردگنی دل پہ جل ہے‬
‫ت دل کو‬ ‫خو نے تری افسردہ کیا وحش ن‬
‫معشوقی و بے حوصلگی‪ ،‬طرفہ بل ہے‬
‫ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد‬
‫یارب‪ ،‬اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے‬
‫بیگانگنی خلق سے بیدل نہ ہو‪ ،‬غالبب‬
‫کوئی نہیں تیرا‪ ،‬تو‪ ،‬مری جان خدا ہے‬
‫٭٭‬

‫زلنف سیہ‪ ،‬افعی نظنر بد قلمی ہے‬


‫ہر چند خنط سبز و زمرد رقمی ہے‬
‫ہے مشنق وفا‪ ،‬جانتے ہیں‪ ،‬لغزنش پا تک‬
‫اے شمع‪ ،‬تجھے دعونی ثابت قدمی ہے‬
‫ت عاشق‬ ‫ہے عرنض شکست‪ ،‬آئنۂ جرأ ن‬
‫عدلمی ہے‬ ‫جز آہ کہ سر لشکنر وحشت د‬
‫ب وصل نہیں ہوں‬ ‫واماندۂ ذونق طر ن‬
‫اے حسرنت بسیار‪ ،‬تمنا کی کمی ہے‬
‫وہ پردہ نشیں‪ ،‬اور اسد ب آئینۂ اظہار‬
‫شہرت چمنن فتنہ و عنقا ارمی ہے‬
‫٭٭‬
‫ت رعنا کی جہاں جلوہ گری ہے‬ ‫اس قام ن‬
‫تسلیم فروشی‪ ،‬رونش کبک دری ہے‬
‫شرمندہ الفت ہوں مداوا طلبی سے‬
‫ک شکری ہے‬ ‫ہر قطرہ شربت مجھے اش ن‬
‫سرمایہ وحشت ہے ‪ ،‬دل‪ ،‬سایہ گلزار‬
‫ہر سبزہ نو خاستہ یاں بانل پری ہے‬
‫روشن ہوئی یہ بات دنم نزع کہ آخر‬
‫فانوس‪ ،‬کفن بہنر چرانغ سحری ہے‬
‫ہم آئے ہیں‪ ،‬غالبب ‪ ،‬رہ اقلینم عدم سے‬
‫یہ تیرگی حانل لبانس سفری ہے‬
‫٭٭‬

‫ت ہستی سے بر آوے‬ ‫تا چند‪ ،‬نفس‪ ،‬غفل ن‬


‫! قاصد تپنش نالہ ہے ‪ ،‬یا رب‪ ،‬خبر آوے‬
‫ہے طانق فراموشنی سودائے دو عالم‬
‫وہ سنگ کہ گلدستۂ جونش شرر آوے‬
‫ت صد رنگ ہے ‪ ،‬یا رب‬ ‫درد‪ ،‬آئنہ کیفی ن‬
‫خمیازہ طرب‪ ،‬ساغنر زخنم جگر آوے‬
‫ت آوارگنی دید نہ پوچھو‬ ‫جمعیی ن‬
‫دل تا مژہ‪ ،‬آغونش ودانع نظر آوے‬
‫ت تمکینن جنوں کھینچ‬ ‫اے ہر زہ دری‪ ،‬من ی ن‬
‫تا آبلہ محمل کنش مونج سگہر آوے‬
‫وہ تشنۂ سرشانر تمنا ہوں کہ جس کو‬
‫ت ساغر نظر آوے‬ ‫ہر ذرہ بہ کیفی ن‬
‫زاہد کہ جنوں سبحۂ تحقیق ہے ‪ ،‬یا رب‬
‫زنجیرنی صد حلقۂ بیرونن در آوے‬
‫تمثانل بتاں گر نہ رکھے پنبۂ مرہم‬
‫آئینہ بہ عریاننی زخنم جگر آوے‬
‫ت گل ہے‬ ‫ہر غنچہ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬بارگنہ شوک ن‬
‫دل فرنش رنہ ناز ہے ‪ ،‬بیدل اگر آوے‬
‫٭٭‬

‫نگہ ساس چشم کی‪ ،‬افزوں کرے ہے نا توانائی‬


‫ت دید‪ ،‬مژگانن تماشائی‬ ‫پنر بالش ہے وق ن‬
‫ت دل‪ ،‬آں سوئے عذنر شناسائی‬ ‫ت قیم ن‬ ‫شکس ن‬
‫طلسنم نا سامیدی ہے ‪ ،‬خجالت گانہ پیدائی‬
‫گ دانغ حیرت انشائی‬ ‫پنر طاؤس ہے نیرن ن‬
‫دو عالم دیدۂ بسمل چراغاں جلوہ پیمائی‬
‫تحییر ہے گریباں گینر ذونق جلوہ پیرائی‬
‫ملی ہے جوہنر آئینہ کو‪ ،‬جوں بخیہ گیرائی‬
‫شرانر سنگ سے پا در حنا گلگونن شیریں ہے‬
‫ہنوز اے تیشۂ فرہاد‪ ،‬عرنض آتشیں پائی‬
‫ت رد نے شانہ توڑا فرنق سہدسہد پر‬ ‫غرونر دس ن‬
‫گ بے دماغانن خود آرائی‬ ‫سلیمانی‪ ،‬ہے نن ن‬
‫جنوں افسردہ و جاں ناتواں‪ ،‬اے جلوہ شوخی کر‬
‫گئی یک عمنر خود داری باستقبانل رعنائی‬
‫نگانہ عبرت افسوں‪ ،‬گاہ برق و گاہ مشعل ہے‬
‫ہوا ہر خلوت و جلوت سے حاصل‪ ،‬ذونق تنہائی‬
‫جنونن بیکسی ساغر کنش دانغ پلنگ آیا‬
‫ت مے ‪ ،‬سنگ محنو نانز مینائی‬ ‫شرر کیفی ن‬
‫گ امتیاز اور نالہ موزوں ہو‬ ‫خدایا‪ ،‬خوں ہو رن ن‬
‫جنوں کو سخت بیتابی ہے ‪ ،‬تکلیف شکیبائی‬
‫ت قدح نوشی‬ ‫خرابانت جنوں میں ہے ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬وق ن‬
‫بہ عشنق ساقنی کوثر‪ ،‬بہانر بادہ پیمائی‬
‫٭٭‬

‫غم و عشرت‪ ،‬قدم بونس دنل تسلیم آئیں ہے‬


‫دعائے میدعا گم کردگاں‪ ،‬لبرینز آمیں ہے‬
‫تماشا ہے کہ نامونس وفا رسوائے آئیں ہے‬
‫نفس تیری گلی میں خوں ہو‪ ،‬اور بازار رنگیں ہے‬
‫لنب عیسیی کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی‬
‫ب سنگیں ہے‬ ‫قیامت‪ ،‬کشتۂ لعنل بتاں کا خوا ن‬
‫ہمارا دیکھنا گر ننگ ہے ‪ ،‬سینر گلستاں کر‬
‫شرانر آہ سے ‪ ،‬مونج صبا‪ ،‬دامانن گلچیں ہے‬
‫پیانم تعزیت پیدا ہے اندانز عیادت سے‬
‫شنب ماتم‪ ،‬تنہ دامانن دوند شمنع بالیں ہے‬
‫زبس جز حسن‪ ،‬منت ناگوارا ہے طبیعت پر‬
‫ت نگاریں ہے‬ ‫کشاند عقد‪ ،‬محنو ناخنن دس ن‬
‫ت عشق‪ ،‬غیر از بے دماغی ہا‬ ‫نہیں ہے ‪ ،‬سر نوش ن‬
‫جبیں پر میری‪ ،‬منید خامۂ قدرت خنط چیں ہے‬
‫بہانر باغ‪ ،‬پامانل خرانم جلوہ فرمایاں‬
‫حنا سے دست‪ ،‬و خونن کشتگاں سے تیغ رنگیں ہے‬
‫بیابانن فنا ہے بعند صحرائے طلب‪ ،‬غالبب‬
‫پسینہ توسنن ہمت کا سینل خانۂ زیں ہے‬
‫٭٭‬

‫محنو آرامیدگی‪ ،‬سامانن بے تابی کرے‬


‫چشم میں توڑے نمک داں‪ ،‬تا شکر خوابی کرے‬
‫آرزوئے خانہ آبادی نے ویراں تر کیا‬
‫کیا کروں‪ ،‬گر سایۂ دیوار سیلبی کرے‬
‫نغمہ ہا‪ ،‬وابستۂ یک عقدۂ تانر نفس‬
‫ناخنن تینغ بتاں‪ ،‬شاید کہ مضرابی کرے‬
‫صبح دم وہ جلوہ رینز بے نقابی ہو اگر‬
‫گ رخسانر گنل خرشید‪ ،‬مہتابی کرے‬ ‫رن ن‬
‫زخم ہائے کہنۂ دل رکھتے ہیں جوں مردگی‬
‫ب تینغ ناز تیزابی کرے‬‫اے خوشا !گر آ ن‬
‫بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو‪ ،‬غالبب ‪ ،‬تو پھر‬
‫کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرے‬
‫٭٭‬

‫اے خوشا! وقتے کہ ساقی یک خمستاں وا کرے‬


‫تار و پوند فرنش محفل‪ ،‬پنبۂ مینا کرے‬
‫گر تنب آسودۂ مژگاں تصرف وا کرے‬
‫رشتۂ پا‪ ،‬شوخنی بانل نفس پیدا کرے‬
‫گ رفتہ کو‬‫گر دکھاؤں صفحۂ بے نقنش رن ن‬
‫ت رد سطنر تبسم یک قلم انشا کرے‬ ‫دس ن‬
‫جو عزا دانر شہیدانن نفس دزدیدہ ہو‬
‫نوحۂ ماتم بہ آوانز پنر عنقا کرے‬
‫ب جوہر کو بنا ڈالے تنور‬ ‫حلقہ گردا ن‬
‫عکس‪ ،‬گر طوفاننی آئینۂ دریا کرے‬
‫یک دنر بر روئے رحمت بستہ دونر شش جہت‬
‫نا امیدی ہے ‪ ،‬خیانل خانہ ویراں کیا کرے‬
‫توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو‪ ،‬پھر ہم کو کیا؟‬
‫آسمان سے بادہ گلفام گر برسا کرے‬
‫ناتوانی سے نہیں سر در گریبانی‪ ،‬اسدب‬
‫ہوں سراپا یک خنم تسلیم‪ ،‬جو مول کرے‬
‫٭٭‬

‫چاک کی خواہش‪ ،‬اگر وحشت‪ ،‬بہ عریانی کرے‬


‫صبح کے مانند‪ ،‬زخنم دل‪ ،‬گریبانی کرے‬
‫ہے شکستن سے بھی دل نومید‪ ،‬یارب‪ ،‬کب تلک‬
‫آبگینہ‪ ،‬کوہ پر عرنض گراں جانی کرے‬
‫ت ناز سے پاوے شکست‬ ‫میکدہ گر چشنم مس ن‬
‫موئے شیشہ‪ ،‬دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے‬
‫خنیط عارض سے لکھا ہے ‪ ،‬زلف کو سالفت نے ‪ ،‬عہد‬
‫یک قلم منظور ہے ‪ ،‬جو کچھ پریشانی کرے‬
‫ہاتھ پر گر ہاتھ مارے یار وق ن‬
‫ت قہقہہ‬
‫ک شب تاب آسا‪ ،‬مہ پرافشانی کرے‬ ‫کرم ن‬
‫جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ گر کیجئے خیال‬
‫دیدہ دل کو زیارت گانہ حیرانی کرے‬
‫وقت ساس افتادہ کا خوش‪ ،‬جو قناعت سے ‪ ،‬اسدب‬
‫ت سلیمانی کرے‬ ‫نقنش پائے مور کو تخ ن‬
‫٭٭‬

‫گ کمانل طبع‪ ،‬پنہاں ہے‬ ‫بہ نقنص ظاہری‪ ،‬رن ن‬


‫کہ بہنر مدعائے دل‪ ،‬زبانن لل‪ ،‬زنداں ہے‬
‫خموشی‪ ،‬خانہ زاند چشنم بے پروا نگاہاں ہے‬
‫غبانر سرمہ‪ ،‬یاں گرند سواند نرگسستاں ہے‬
‫صفائے اشک میں دانغ جگر جلوہ دکھاتے ہیں‬
‫پنر طاؤس‪ ،‬گویا‪ ،‬برنق ابنر چشنم گریاں ہے‬
‫بہ بوئے زلنف مشکیں یہ‪ ،‬دماغ‪ ،‬آشفتۂ رم ہیں‬
‫کہ شانخ آہواں‪ ،‬دوند چراغ آسا پریشاں ہے‬
‫!تکلف بر طرف‪ ،‬ہے جانستاں تر لطنف بدخویاں‬
‫ب ناز‪ ،‬تینغ تیز عریاں ہے‬ ‫نگانہ بے حجا ن‬
‫ت شادی‬ ‫اسدب ‪ ،‬یہ فرنط غم نے کی تلف کیفی ن‬
‫ک گریباں ہے‬ ‫کہ صبنح عید مجھ کو بدتر از چا ن‬
‫٭٭‬

‫تمام اجزائے عالم صیند دانم چشنم گریاں ہے‬


‫ب طوفاں ہے‬ ‫طلسنم شش جہت‪ ،‬یک حلقہ گردا ن‬
‫نہیں ہے مردنن صاحب دلں‪ ،‬جز کسنب جمیعت‬
‫سویدا میں نفس‪ ،‬ماننند خط نقطے میں‪ ،‬پنہاں ہے‬
‫ت وحشت‪ ،‬سرمہ سانز انتظار آیا‬ ‫غبانر دش ن‬
‫کہ چشنم آبلہ میں‪ ،‬طونل مینل راہ‪ ،‬مژگاں ہے‬
‫ز بس دونش رنم آہو پہ ہے محمل تمنا کا‬
‫جنونن قیس سے بھی شوخنی لیلیی نمایاں ہے‬
‫ب یار ہے ‪ ،‬غفلت نگاہی اہنل بینش کی‬ ‫نقا ن‬
‫مژہ پوشیدنی ہا‪ ،‬پردہ تصویر عریاں ہے‬
‫اسد بنند قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ‬
‫اگر وا ہو‪ ،‬تو دکھل دوں کہ یک عالم گلستاں ہے‬
‫٭٭‬

‫ہجونم نالہ‪ ،‬حیرت عاجنز عرنض یک افغاں ہے‬


‫خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے‬
‫دل و دیں نقد ل ساقی‪ ،‬سے گر سودا کیا چاہے‬
‫کہ اس بازار میں ساغر‪ ،‬متانع دستگرداں ہے‬
‫غنم آغونش بل میں پرورش دیتا ہے عاشق کو‬
‫چرانغ روشن اپنا‪ ،‬قلزم صرصر کا مرجاں ہے‬
‫کجا مے ؟ سکو عرق؟ سعنی عرونج نیشہ رنگیں تر‬
‫خنط رخسانر ساقی‪ ،‬تا خنط ساغر چراغاں ہے‬
‫رہا بے قدر دل‪ ،‬در پردۂ جونش ظہور آخر‬
‫گل و نرگس بہم‪ ،‬آئینہ و اقلینم کوراں ہے‬
‫تکلف سانز رسوائی ہے ‪ ،‬غافل‪ ،‬شرنم رعنائی‬
‫ت حنا آلودہ عریاں ہے‬ ‫دنل خوں گشتہ‪ ،‬در دس ن‬
‫تماشا‪ ،‬سرخونش غفلت ہے با وصنف حضونر دل‬
‫ہنوز آئینہ‪ ،‬خلوت گانہ نانز ربنط مژگاں ہے‬
‫تکلف برطرف‪ ،‬ذونق زلیخا جمع کر‪ ،‬ورنہ‬
‫پریشاں خواب آغونش و دانع یوسفستاں ہے‬
‫ت دل در کنانر بے خودی خوشتر‬ ‫اسد ب ‪ ،‬جمعی ی ن‬
‫ب پریشاں ہے‬ ‫دو عالم آگہی‪ ،‬سامانن یک خوا ن‬
‫٭٭‬

‫تغافل مشربی سے ‪ ،‬نا تمامی بس کہ پیدا ہے‬


‫نگانہ ناز‪ ،‬چشنم یار میں زنانر مینا ہے‬
‫تصرف وحشیوں میں ہے تصور ہائے مجنوں کا‬
‫سواند چشنم آہو‪ ،‬عکنس خانل روئے لیلیی ہے‬
‫محبت‪ ،‬طرنز پیونند نہانل دوستی جانے‬
‫ب زلیخا ہے‬ ‫ت ر ن‬
‫گ خوا ن‬ ‫دویدن‪ ،‬ریشہ ساں‪ ،‬مف ن‬
‫کیا یکسر گدانز دل نیانز جوشنش حسرت‬
‫سویدا‪ ،‬نسخۂ تہہ بندنی دانغ تمنا ہے‬
‫ہجونم ریزنش خوں کے سبب رنگ ساڑ نہیں سکتا‬
‫حنائے پنجہ صیاد‪ ،‬مرنغ رشتہ بر پا ہے‬
‫اسدب ‪ ،‬گر نانم والئے علی تعوینذ بازو ہو‬
‫غرینق بحنر خوں‪ ،‬تمثال در آئینہ رہتا ہے‬
‫٭٭‬

‫اثر سونز محبت کا‪ ،‬قیامت بے محابا ہے‬


‫کہ رگ سے سنگ میں تخنم شرر کا ریشہ پیدا ہے‬
‫نہاں ہے گوہنر مقصود جینب خود شناسی میں‬
‫کہ یاں غیواص ہے تمثال‪ ،‬اور آئینہ دریا ہے‬
‫عزیزو‪ ،‬ذکنر وصنل غیر سے ‪ ،‬مجھ کو نہ بہلؤ‬
‫ب زلیخا ہے‬ ‫کہ یاں افسونن خواب‪ ،‬افسانۂ خوا ن‬
‫تصونر بہر تسکینن تپیدن ہائے طفنل دل‬
‫ببانغ رنگ ہائے رفتہ‪ ،‬گلچینن تماشا ہے‬
‫بہ سعنی غیر ہے ‪ ،‬قطنع لبانس خانہ ویرانی‬
‫کہ تانر جادۂ رہ‪ ،‬رشتۂ دامانن صحرا ہے‬
‫ک فرانق شعلہ رویاں میں‬ ‫مجھے شب ہائے تاری ن‬
‫چرانغ خانۂ دل‪ ،‬سوزنش دانغ تمنا ہے‬
‫ترے نوکر ترے در پر اسدب کو ذبح کرتے ہیں‬
‫ستمگر‪ ،‬ناخدا ترس‪ ،‬آشنا کش‪ ،‬ماجرا کیا ہے ؟‬
‫٭٭‬

‫بہ بزنم مے پرستی‪ ،‬حسرنت تکلیف بے جا ہے‬


‫کہ جانم بادہ‪ ،‬کف بر لب بتقرینب تقاضا ہے‬
‫مری ہستی‪ ،‬فضائے حیرت آباند تمنا ہے‬
‫جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے‬
‫ب درند نومیدی‬ ‫نہ لئی شوخنی اندیشہ تا ن‬
‫کنف افسوس سودن عہند تجدیند تمنا ہے‬
‫نشانط دیدۂ بینا ہے ‪ ،‬سکو خواب؟ و چہ بیداری؟‬
‫بہم آوردہ مژگاں‪ ،‬روئے بر روئے تماشا ہے‬
‫ک دیدۂ نم سے‬ ‫نہ سووے آبلوں میں گر‪ ،‬سرش ن‬
‫بجولں گانہ نومیدی‪ ،‬نگانہ عاجزاں پا ہے‬
‫وفائے دلبراں ہے اتفاقی‪ ،‬ورنہ‪ ،‬اے ہمدم‬
‫اثر فریاند دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے‬
‫نگہ معمانر حسرت ہا‪ ،‬چہ آبادی ؟چہ ویرانی؟‬
‫کہ مژگاں جس طرف وا ہو‪ ،‬بکف دامانن صحرا ہے‬
‫بہ سختی ہائے قیند زندگی‪ ،‬معلوم آزادی‬
‫شرر بھی صیند دانم رشتۂ رگ ہائے خارا ہے‬
‫خزاں کیا؟فصنل گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو‬
‫وہی ہم ہیں‪ ،‬قفس ہے ‪ ،‬اور ماتم بال و پر کا ہے‬
‫اسدب ‪ ،‬پانس تمنا سے نہ رکھ امیند آزادی‬
‫گدانز ہر تمنا آبیانر صد تمنا ہے‬
‫٭٭‬

‫بہنر پروردن سراسر لطف گستر‪ ،‬سایہ‪ ،‬ہے‬


‫ت دایہ ہے‬ ‫پنجۂ مژگاں‪ ،‬بہ طفنل اشک دس ن‬
‫فصنل گل میں‪ ،‬دیدۂ خونیں نگاہانن جنوں‬
‫ت نیظارۂ گل سے شفق سرمایہ ہے‬ ‫دول ن‬
‫!شورنش باطن سے یاں تک مجھ کو غفلت ہے ‪ ،‬کہ آہ‬
‫شیونن دل‪ ،‬یک سروند خانۂ ہمسایہ ہے‬
‫کیوں نہ تینغ یار کو مشاطۂ الفت کہوں؟‬
‫زخم‪ ،‬مثنل گل‪ ،‬سراپا کا مرے پیرایہ ہے‬
‫اے اسدب ‪ ،‬آباد ہے مجھ سے جہانن شاعری‬
‫ت سلطانن سخن کا پایہ ہے‬ ‫خامہ میرا تخ ن‬
‫٭٭‬

‫ب گل سے ‪ ،‬سایہ گل کے تلے‬ ‫وہ نہا کر آ ن‬


‫بال کس گرمی سے نسکھلتا تھا‪ ،‬سنبل کے تلے‬
‫ت جونش سویدا سے نہیں تل کی جگہ‬ ‫کثر ن‬
‫خال کب مشاطہ دے سکتی ہے کاکل کے تلے‬
‫ت مے شکست‬ ‫بس کہ خوباں باغ کو دیتے ہیں وق ن‬
‫گ گل کے تلے‬ ‫بال اگ جاتا ہے شیشے کا ر ن‬
‫ہے پر افشانن طپیدن ہا بہ تکلینف ہوس‬
‫ورنہ صد گلزار ہے یک بانل بلبل کے تلے‬
‫پے بمقصد بردنی ہے خضنر مے سے ‪ ،‬اے اسدب‬
‫جادہ منزل ہے خنط ساغر مل کے تلے‬
‫٭٭‬
‫جوہنر آئینہ ساں‪ ،‬مژگاں بدل آسودہ ہے‬
‫قطرہ جو آنکھوں سے ٹپکا‪ ،‬سو نگاہ آلودہ ہے‬
‫دام گانہ عجز میں سامانن آسائش کہاں؟‬
‫پرفشانی بھی فرینب خاطنر آسودہ ہے‬
‫اے ہوس‪ ،‬عرنض بسانط نانز مشتاقی نہ مانگ‬
‫جوں پنر طاؤس‪ ،‬یکسر دانغ مشک اندودہ ہے‬
‫ہے ریا کا رتبہ بال تر تصور کردنی‬
‫تیرگی سے داغ کی‪ ،‬مہ سینم مس اندودہ ہے‬
‫کیا کہوں پرواز کی آوارگی کی کشمکش؟‬
‫عافیت‪ ،‬سرمایۂ بال و پنر نکشودہ ہے‬
‫پنبۂ مینائے مے رکھ لو تم اپنے کان میں‬
‫مے پرستاں ناصنح بے صرفہ گو بیہودہ ہے‬
‫جس طرف سے آئے ہیں‪ ،‬آخر سادھر ہی جائیں گے‬
‫مرگ سے وحشت نہ کر‪ ،‬رانہ عدم پیمودہ ہے‬
‫ہے سواند خط پریشاں موئنی اہنل عزا‬
‫خامہ میرا شمنع قبنر کشتگاں کا دودہ ہے‬
‫ت انشائے مضمونن تحیر سے ‪ ،‬اسدب‬ ‫کثر ن‬
‫ک خامۂ فرسودہ ہے‬ ‫ہر سنر انگشت‪ ،‬نو ن‬
‫٭٭‬

‫بہانر تعزیت آباند عشق‪ ،‬ماتم ہے‬


‫کہ تینغ یار‪ ،‬ہلنل منہ محرم ہے‬
‫ت دل کا‬ ‫نہ پوچھ نسخہ مرہم جراح ن‬
‫کہ اس میں ریزہ الماس جزو اعظم ہے‬
‫بہ رہنن ضبط ہے ‪ ،‬آئینہ بندنی گوہر‬
‫وگرنہ بحر میں ہر قطرہ چشنم سپر نم ہے‬
‫چمن میں کون ہے طرز آفرینن شیوۂ عشق؟‬
‫کہ گل ہے بلبنل رنگین و بیضہ شبنم ہے‬
‫ف شیرازہ‬‫گ خواب صر ن‬ ‫اگر نہ ہو وے ر ن‬
‫تمام دفتنر ربنط مزاج‪ ،‬درہم ہے‬
‫بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی‬
‫وہ اک نگہ جو بظاہر نگانہ کم ہے‬
‫!اسدب بہ نازکنی طبنع آرزو انصاف‬
‫کہ ایک وہنم ضعیف و غنم دو عالم ہے‬
‫٭٭‬

‫عذانر یار‪ ،‬نظر بنند چشنم گریاں ہے‬


‫عجب کہ پرتنو خور‪ ،‬شمنع شبنمستاں ہے‬
‫ہجونم ضبنط فغاں سے ‪ ،‬مری زبانن خاموش‬
‫گ بستہ‪ ،‬بہ زہراب دادہ پیکاں ہے‬ ‫برن ن‬
‫قبائے جلوہ فزا ہے ‪ ،‬لبانس عریانی‬
‫گ جاں مجھ کو تانر داماں ہے‬ ‫بطرنز گل‪ ،‬ر ن‬
‫لنب گزیدۂ معشوق ہے دنل افگار‬
‫کہ بخیہ جلوہ آثانر زخنم دنداں ہے‬
‫کشوند غنچۂ خاطر عجب نہ رکھ غافل‬
‫صبا خرامنی خوباں‪ ،‬بہار ساماں ہے‬
‫فغاں! کہ بہنر شفائے حصونل ناشدنی‬
‫ت طبیباں ہے‬ ‫دماغ‪ ،‬ناز کنش من ی ن‬
‫ت یک خلق سے رہائی دی‬ ‫طلسنم من ن‬
‫جہاں جہاں مرے قاتل کا مجھ پہ احساں ہے‬
‫میرا‬ ‫جنوں نے مجھ کو بنایا ہے مدعی‬
‫ہے‬ ‫ہمیشہ ہاتھ میں میرے مرا گریباں‬
‫لیتا‬ ‫اسدب کو زیست تھی مشکل‪ ،‬اگر نہ سن‬
‫ہے‬ ‫کہ قتنل عاشنق دلدادہ تجھ کو آساں‬
‫٭٭‬

‫شفق بہ دعونی عاشق گوانہ رنگیں ہے‬


‫کہ ماہ دزند حنائے کنف نگاریں ہے‬
‫گ فروغ‬ ‫کرے ہے ‪ ،‬بادہ ترے لب سے ‪ ،‬کسنب رن ن‬
‫خنط پیالہ‪ ،‬سراسر‪ ،‬نگانہ گلچیں ہے‬
‫عیاں ہے پائے حنائی برنگ پرتنو خور‬
‫رکاب‪ ،‬روزنن دیوانر خانۂ زیں ہے‬
‫جبینن صبنح امیند فسانہ گویاں پر‬
‫ب بتاں خنط چیں ہے‬ ‫درازنی ر ن‬
‫گ خوا ن‬
‫ہوا‪ ،‬نشانن سواند دیانر حسن‪ ،‬عیاں‬
‫کہ خط‪ ،‬غبانر زمیں خینز زلنف مشکیں ہے‬
‫بجا ہے ‪ ،‬گر نہ سنے نالہ ہائے بلبنل زار‬
‫کہ گونش گل‪ ،‬ننم شبنم سے پنبہ آگیں ہے‬
‫کبھی تو اس شوریدہ سنر شوریدہ کی بھی ملے داد‬
‫کہ اک عمر سے حسرت پرست بالیں ہے‬
‫! نہ پوچھ کچھ سر و ساما ن کاروبانر اسدب‬
‫جنوں معاملہ‪ ،‬بیدل‪ ،‬فقیر مسکیں ہے‬
‫اسدب ہے نزع میں‪ ،‬چل بے وفا‪ ،‬برائے خدا‬
‫ک حجاب و ودانع تمکیں ہے‬ ‫مقانم تر ن‬
‫٭٭‬

‫روتا ہوں بس کہ در ہونس آرمیدگی‬


‫جوں گوہر‪ ،‬اشک کو ہے فرامش چکیدگی‬
‫بر خاک اوفتادگنی کشتگانن عشق‬
‫ہے سجدہ سپانس بمنزل رسیدگی‬
‫انسان نیاز منند ازل ہے کہ جوں کماں‬
‫مطلب ہے ربط سے رگ و پے کی خمیدگی‬
‫ہے بسمنل ادائے چمن عارضاں‪ ،‬بہار‬
‫گ گل سے ہے در خوں طپیدگی‬ ‫گلشن کو رن ن‬
‫دیکھا نہیں ہے ہم نے بعشنق بتاں‪ ،‬اسدب‬
‫غیر از شکستہ حالی و حسرت کشیدگی‬
‫٭٭‬

‫ب جلوۂ جانانہ چاہیے‬ ‫عاشق‪ ،‬نقا ن‬


‫فانونس شمع کو پنر پروانہ چاہیے‬
‫ہے وصل ہجر عالنم تمکین و ضبط میں‬
‫معشونق شوخ و عاشنق دیوانہ چاہیے‬
‫پیدا کریں دمانغ تماشائے سرو و گل‬
‫حسرت کشوں کو ساغر و مینا نہ چاہیے‬
‫دیوانگاں ہیں حامنل رانز نہانن عشق‬
‫اے بے تمیز‪ ،‬گنج کو ویرانہ چاہیے‬
‫ساس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو‪ ،‬ہاں‬
‫ت رندانہ چاہیے‬ ‫شونق فضول و جرأ ن‬
‫ساقی‪ ،‬بہانر موسنم گل ہے سرور بخش‬
‫پیماں سے ہم گزر گئے ‪ ،‬پیمانہ چاہیے‬
‫جادو ہے یار کی رونش گفتگو‪ ،‬اسدب‬
‫یاں جز فسوں نہیں‪ ،‬اگر افسانہ چاہیے‬
‫٭٭‬

‫یوں‪ ،‬بعند ضبنط اشک‪ ،‬پھروں گرد یار کے‬


‫پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے‬
‫سیماب‪ ،‬پشت گرمنی آئینہ دے ہے ‪ ،‬ہم‬
‫حیراں کیے ہوئے ہیں‪ ،‬دنل بے قرار کے‬
‫بعد از ودانع یار‪ ،‬بخوں در تپیدہ ہیں‬
‫نقنش قدم ہیں‪ ،‬ہم‪ ،‬کنف پائے نگار کے‬
‫ت سیاہ روز‬ ‫ت بخ ن‬
‫ظاہر ہے ہم سے ‪ ،‬کلف ن‬
‫گویا کہ تختۂ مشق ہیں خنیط غبار کے‬
‫گ سگل‬ ‫حسرت سے دیکھ رہتے ہیں‪ ،‬ہم‪ ،‬آب و رن ن‬
‫ماننند شبنم‪ ،‬اشک ہیں مژگانن خار کے‬
‫آغونش گل‪ ،‬کشودہ برائے وداع ہے‬
‫اے عندلیب‪ ،‬چل کہ چلے دن بہار کے‬
‫ہم‪ ،‬مشنق فکنر وصل و غنم ہجر سے ‪ ،‬اسدب‬
‫لئق نہیں رہے ہیں‪ ،‬غنم روزگار کے‬
‫٭٭‬

‫بہ فکنر حیرنت رم‪ ،‬آئنہ پرداز زانو ہے‬


‫ک نافہ تمثانل سواند چشنم آہو ہے‬ ‫کہ مش ن‬
‫تریحم میں ستم کوشوں کے ہے ‪ ،‬سامانن خونریزی‬
‫ب دنم شمشینر ابرو ہے‬ ‫ک چشنم یار‪ ،‬آ ن‬ ‫سرش ن‬
‫کرے ہے دست فرسوند ہوس‪ ،‬وہنم توانائی‬
‫پنر افشاندہ در کننج قفس‪ ،‬تعوینذ بازو ہے‬
‫ہوا چرنخ خمیدہ‪ ،‬ناتواں بانر علئق سے‬
‫ت زینر پہلو ہے‬ ‫کہ ظاہر‪ ،‬پنجۂ خرشید‪ ،‬دس ن‬
‫ت ضبنط الم لوے ؟‬ ‫اسدب ‪ ،‬تا کے طبیعت طاق ن‬
‫فغانن دل بہ پہلو‪ ،‬نالۂ بیمانر بد خو ہے‬
‫٭٭‬
‫٭٭‬

‫نہ چھوڑ و محفنل عشرت میں جا‪ ،‬اے میکشاں‪ ،‬خالی‬


‫کمیں گانہ بل ہے ‪ ،‬ہو گیا شیشہ‪ ،‬جہاں خالی‬
‫نہ دوڑا ریشہ دیوانگی صحنن بیاباں میں‬
‫گ رواں خالی‬ ‫کہ تانر جادہ سے ہے سلجۂ ری ن‬
‫ک تاثیر ہے ‪ ،‬از خود تہی ماندن‬ ‫دکانن ناو ن‬
‫سراسر عجز ہو‪ ،‬کر خانہ ماننند کماں خالی‬
‫محبت‪ ،‬ہے نوا سانز فغاں در پردہ دل ہا‬
‫کرے ہے مغز سے مانند نے کے استخواں خالی‬
‫عبث ہے ‪ ،‬خنط ساغر جلوہ‪ ،‬طونق گردنن قمری‬
‫مئے الفت سے ہے مینائے سرنو بوستاں خالی‬
‫نہ پھولو ریزنش اعداد کی قطرہ فشانی پر‬
‫گ صفر جانم آسماں خالی‬ ‫عزیزاں‪ ،‬ہے برن ن‬
‫اسدب ‪ ،‬ہنستے ہیں میرے گریہ ہائے زار پر مردم‬
‫بھرا ہے دہر بے دردی سے ‪ ،‬دل کیجئے کہاں خالی‬
‫٭٭‬
‫ہوا جب حسن کم‪ ،‬خط بر عذانر سادہ آتا ہے‬
‫ف مے ‪ ،‬ساغر میں سدرند بادہ آتا ہے‬ ‫کہ بعد از صا ن‬
‫نہیں ہے مزرنع الفت میں حاصل غینر پامالی‬
‫ک بر زمیں افتادہ‪ ،‬آتا ہے‬ ‫نظر دانہ‪ ،‬سرش ن‬
‫محینط دہر میں بالیدن‪ ،‬از ہستی گزشتن ہے‬
‫کہ یاں ہر یک حباب آسا‪ ،‬شکست آمادہ آتا ہے‬
‫دیانر عشق میں جاتا ہے جو سوداگری ساماں‬
‫متانع زندگانی ہا بغاوت دادہ آتا ہے‬
‫اسدب ‪ ،‬وارستگاں با وصنف ساماں بے تعلق ہیں‬
‫صنوبر گلستاں میں با دنل آزادہ آتا ہے‬
‫٭٭‬

‫نگانہ یار نے جب عرنض تکلینف شرارت کی‬


‫دیا ابرو کو چھیڑ‪ ،‬اور ساس نے فتنے کو اشارت کی‬
‫روانی مونج مے کی‪ ،‬گر خنط جام آشنا ہووے‬
‫لکھے کیفیت ساس سطنر تبسم کی عبارت کی‬
‫ت گلشن آرائی‬ ‫شنہ گل نے کیا جب بندوبس ن‬
‫عصائے سبز دے نرگس کو دی خدمت نظارت کی‬
‫نہیں ریزش عرق کی‪ ،‬اب اسے ذوبانن اعضا ہے‬
‫گ گل میں حرارت کی‬ ‫تنب خجلت نے یہ نبنض ر ن‬
‫ت گریہ آنکھوں سے‬ ‫ز بس نکل غبانر دل بہ وق ن‬
‫اسدب ‪ ،‬کھائے ہوئے سر مے نے آنکھوں میں بصارت کی‬
‫٭٭‬

‫خدایا‪ ،‬دل کہاں تک دن بصد رنج و تعب کاٹے‬


‫! خنم گیسو ہو شمشینر سیہ تاب اور شب کاٹے‬
‫کریں گر قدنر اش ن‬
‫ک دیدۂ عاشق‪ ،‬خود آرایاں‬
‫صدف‪ ،‬دندانن گوہر سے ‪ ،‬بہ حسرت اپنے لب کاٹے‬
‫دریغا! وہ مرینض غم کہ فرنط ناتوانی سے‬
‫بقدنر یک نفس جادہ‪ ،‬بصد رنج و تعب کاٹے‬
‫یقیں ہے ‪ ،‬آدمی کو دست گانہ فقر حاصل ہو‬
‫دنم تینغ توکل سے اگر پائے سبب کاٹے‬
‫ہوے یہ رہرواں دل خستہ شرنم نا رسائی سے‬
‫ت آرزو سے یک قلم پائے طلب کاٹے‬ ‫کہ دس ن‬
‫اسدب مجھ میں ہے ساس کے بوسۂ پاکی کہاں جرأت؟‬
‫کہ میں نے دست و پا باہم بہ شمشینر ادب کاٹے‬
‫٭٭‬

‫ت نظر ہے‬ ‫تماشائے جہاں مف ن‬


‫کہ یہ گلزار بانغ رہ گزر ہے‬
‫جہاں شمنع خموشی جلوہ گر ہے‬
‫پنر پروانگاں بانل شرر ہے‬
‫ک چشم سرمہ آلود‬ ‫بہ جینب اش ن‬
‫مسی مالیدہ دندانن گہر ہے‬
‫گ خواب‬ ‫شفق ساں موجۂ خوں ہے ‪ ،‬ر ن‬
‫کہ مژگانن کشودہ نیشتر ہے‬
‫کرے ہے روئے روشن آفتابی‬
‫غبانر خنط رخ‪ ،‬گرند سحر ہے‬
‫ف مشنق نالہ‬‫ہوئی یک عمر صر ن‬
‫اثر موقوف بر عمنر دگر ہے‬
‫اسدب ‪ ،‬ہوں میں پر افشانن رمیدن‬
‫سواند شعر در گرند سفر ہے‬
‫٭٭‬

‫ب طراوت راہ ہے‬ ‫بس کہ زینر خاک با آ ن‬


‫ریشے سے ہر تخم کا ددملو‪ ،‬اندرونن چاہ ہے‬
‫عکنس گل ہائے سمن سے چشمہ ہائے باغ میں‬
‫فلنس ماہی آئنہ پردانز دانغ ماہ ہے‬
‫واں سے ہے تکلینف عرنض بیدماغی ہائے دل‬
‫یاں صرینر خامہ‪ ،‬مجھ کو نالۂ جانکاہ ہے‬
‫حسن و رعنائی میں وہنم صد سر و گردن ہے فرق‬
‫سرو کے قامت پہ‪ ،‬گل‪ ،‬یک دامنن کوتاہ ہے‬
‫ب غفلت پر‪ ،‬اسدب‬ ‫رشک ہے آساینش اربا ن‬
‫ب دل‪ ،‬نصینب خاطنر آگاہ ہے‬ ‫پیچ تا ن‬
‫اسے اسدب ‪ ،‬مایوس مت ہو از دنر شانہ نجف‬
‫ت اللہ ہے‬‫صاحب دل ہا وکینل حضر ن‬
‫٭٭‬

‫بس کہ چشم از انتظانر خوش خطاں بے نور ہے‬


‫یک قلم‪ ،‬شانخ گنل نرگس‪ ،‬عصائے کور ہے‬
‫بزنم خوباں‪ ،‬بس کہ‪ ،‬جونش جلوہ سے سپر نور ہے‬
‫گ نخنل طور ہے‬ ‫ت عجزیاں ہر بر ن‬ ‫ت دس ن‬
‫سپش ن‬
‫ت شراب‬ ‫ہوں‪ ،‬تصور ہائے ہمدوشی سے ‪ ،‬بدمس ن‬
‫ت آغونش خوباں‪ ،‬ساغنر بلور ہے‬ ‫حیر ن‬
‫ہے عجب سمردوں کو غفلت ہائے اہل دہر سے‬
‫ت حیرت در دہانن گور ہے‬ ‫سبزہ جوں انگش ن‬
‫حسرت آباند جہاں میں ہے ‪ ،‬الم‪ ،‬غم آفریں‬
‫نوحہ‪ ،‬گویا خانہ زاند نالۂ رنجور ہے‬
‫کیا کروں ؟غم ہائے پنہاں لے گئے صبر و قرار‬
‫دزد گر ہو خانگی‪ ،‬تو پاسباں معذور ہے‬
‫ہے ز پا افتادگنی نشہ بیماری مجھے‬
‫بے سخن‪ ،‬تبخالہ لب‪ ،‬دانہ انگور ہے‬
‫یجس جگہ ہو مسند آرا جانشینن مصطفے‬
‫ت سلیماں‪ ،‬نقنش پائے مور ہے‬ ‫اس جگہ تخ ن‬
‫واں سے ہے تکلینف عرنض بیدماغی‪ ،‬اور‪ ،‬اسدب‬
‫یاں صرینر خامہ مجھ کو نالۂ رنجور ہے‬
‫٭٭‬

‫سوختگاں کی خاک میں ریزنش نقنش داغ ہے‬


‫آئنۂ نشانن حال مثنل گنل چراغ ہے‬
‫لطنف خمانر مے کو ہے در دنل ہمدگر اثر‬
‫پنبۂ شیشۂ شراب‪ ،‬کف بلنب ایاغ ہے‬
‫ت صفائے طبع ہے ‪ ،‬جلوۂ نانز سوختن‬ ‫مف ن‬
‫دانغ دنل سیہ دلں‪ ،‬مردنم چشنم زاغ ہے‬
‫رنجنش یانر مہرباں‪ ،‬عیش و طرب کا ہے نشاں‬
‫دل سے ساٹھے ہے ‪ ،‬جو غبار گرند سواند باغ ہے‬
‫شعر کی فکر کو‪ ،‬اسد ب ‪ ،‬چاہیے ہے دل و دماغ‬
‫وائے !کہ یہ فسردہ دل‪ ،‬بیدل و بیدماغ ہے‬
‫٭٭٭‬

‫رباعیات‬

‫ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا‬


‫ممکن نہیں یک زبان و یک دل ہونا‬
‫میں تجھ سے ‪ ،‬اور مجھ سے ستو پوشیدہ‬
‫ہے مفت‪ ،‬نگاہ کا مقابل ہونا‬
‫٭٭‬

‫بعد از اتمانم بزنم عیند اطفال‬


‫ایانم جوانی رہے ساغر کنش حال‬
‫آ پہنچے ہیں تا سواند اقلینم عدم‬
‫اے عمنر گزشتہ یک قدم استقبال‬
‫٭٭‬

‫شب زلف و رنخ عرق فشاں کا غم تھا‬


‫کیا شرح کروں ؟ کہ طرفہ تر عالم تھا‬
‫رویا میں ہزار آنکھ سے صبح تلک‬
‫ہر قطرۂ اشک‪ ،‬دیدہ پرنم تھا‬
‫٭٭‬

‫دل تھا کہ جو جانن درد تمہید سہی‬


‫ت دید سہی‬‫بیتابنی رشک و حسر ن‬
‫!ہم اور فسردن‪ ،‬اے تجلی‪ ،‬افسوس‬
‫تکرار روا نہیں‪ ،‬تو تجدید سہی‬
‫٭٭‬

‫دل‬ ‫!سامانن ہزار جستجو‪ ،‬یعنی‪،‬‬


‫دل‬ ‫ساغر کنش خونن آرزو‪ ،‬یعنی‬
‫دنیا‬ ‫پشت و رنخ آئنہ ہے ‪ ،‬دین و‬
‫دل‬ ‫منظور ہے دو جہاں سے ستو‪ ،‬یعنی‬
‫٭٭‬

‫اے کاش بتاں کا خنجنر سینہ شگاف‬


‫پہلوئے حیات سے گزر جاتا صاف‬
‫ایک تسمہ لگا رہا کہ تا روزے چند‬
‫ت گدائی سے معاف‬ ‫رہیے نہ مشق ن‬
‫٭٭‬

‫ت فہنم بے شمار اندیشہ‬ ‫اے کثر ن‬


‫ہے اصنل خرد سے شرمسار اندیشہ‬
‫ت صد نشتر‬ ‫یک قطرۂ خون‪ ،‬و دعو ن‬
‫ت ہزار اندیشہ‬ ‫یک وہم و عباد ن‬
‫٭٭‬

‫ہے مجھے‬ ‫بے گریہ کمانل تر جبینی‬


‫ہے مجھے‬ ‫در بزنم وفا خجل نشینی‬
‫از یک تار‬ ‫محرونم صدا رہا بغیر‬
‫ہے مجھے‬ ‫ابریشنم ساز‪ ،‬موئے چینی‬
‫٭٭‬
‫گر جوہنر امتیاز ہوتا ہم میں‬
‫رسوا کرتے نہ آپ کو عالم میں‬
‫ہیں نام و نگیں‪ ،‬کمیں گنہ نقنب شعور‬
‫یہ چور پڑا ہے خانۂ خاتم میں‬
‫٭٭‬

‫کے لیے‬ ‫ہے خلنق حسد قماش لڑنے‬


‫کے لیے‬ ‫وحشت کدۂ تلش لڑنے‬
‫کاغنذ باد‬ ‫ت‬‫یعنی‪ ،‬ہر بار صور ن‬
‫کے لیے‬ ‫ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے‬
‫٭٭‬

‫گلخن‪ ،‬شرر اہتمام بستر ہے آج‬


‫یعنی تنب عشق شعلہ پرور ہے آج‬
‫ک نامہ بر سے بیمار‬‫ہوں درند ہل ن‬
‫قارورہ مرا خونن کبوتر ہے آج‬
‫٭٭٭‬

‫بعد از ‪1816‬‬

‫غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں‬


‫بوسے کو پو چھتا ہوں میں‪ ،‬منہ سے مجھے بتا کہ یوں‬
‫پرسنش طرنز دلبری کیجیے کیا ؟کہ نبن کہے‬
‫ساس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں‬
‫رات کے وقت مے پیے ‪ ،‬ساتھ رقیب کو لیے‬
‫آئے وہ یاں‪ ،‬خدا کرے ‪ ،‬پر نہ کرے خدا کہ یوں‬
‫غیر سے رات کیا بنی ؟یہ جو کہا‪ ،‬تو دیکھیے‬
‫سامنے آن بیٹھنا‪ ،‬اور یہ دیکھنا کہ یوں‬
‫بزم میں ساس کے روبرو‪ ،‬کیوں نہ خموش بیٹھیے ؟‬
‫ساس کی تو خامشی میں بھی‪ ،‬ہے یہی مدعا کہ یوں‬
‫"میں نے کہا کہ "بزنم ناز چاہیے غیر سے تہی‬
‫سن کے ستم ظریف نے مجھ کو ساٹھا دیا کہ یوں‬
‫"مجھ سے کہا جو یار نے "جاتے ہیں ہوش کس طرح؟‬
‫دیکھ کے میری بیخودی‪ ،‬چلنے لگی ہوا کہ یوں‬
‫کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی؟‬
‫ت نقنش پا کہ یوں‬ ‫آئنہ دار بن گئی حیر ن‬
‫گر ترے دل میں ہوں خیال‪ ،‬وصل میں شوق کا زوال‬
‫موج‪ ،‬محینط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں‬
‫ک فارسی؟‬ ‫"جو یہ کہے کہ "ریختہ کیونکہ ہو رش ن‬
‫گفتہ غالبب ایک بار پڑھ کے ساسے سنا کہ یوں‬
‫٭٭‬

‫وہ فراق اور وہ وصال کہاں؟‬


‫وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں؟‬
‫ت کاروبانر شوق کسے ؟‬ ‫فرص ن‬
‫ذونق نظارۂ جمال کہاں؟‬
‫دل تو دل‪ ،‬وہ دماغ بھی نہ رہا‬
‫شونر سودائے خط و خال کہاں؟‬
‫تھی وہ اک شخص کے تصور سے‬
‫اب وہ رعنائنی خیال کہاں؟‬
‫ایسا آساں نہیں لہو رونا‬
‫دل میں طاقت‪ ،‬جگر میں حال کہاں؟‬
‫ہم سے چھوٹا قمار خانۂ عشق‬
‫واں جو جاویں‪ ،‬گرہ میں مال کہاں؟‬
‫ک سفلہ بے محابا ہے‬ ‫فل ن‬
‫اس ستمگر کو انفعال کہاں؟‬
‫بوسے میں وہ مضائقہ نہ کرے‬
‫ت سوال کہاں؟‬ ‫پر مجھے طاق ن‬
‫فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں‬
‫میں کہاں اور یہ وبال کہاں؟‬
‫مضمحل ہو گئے قویی‪ ،‬غالبب‬
‫وہ عناصر میں اعتدال کہاں؟‬
‫٭٭‬

‫وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو‬


‫کیجے ہمارے ساتھ‪ ،‬عداوت ہی کیوں نہ ہو‬
‫چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلط کا‬
‫ہے دل پہ بار‪ ،‬نقنش محبت ہی کیوں نہ ہو‬
‫ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ‬
‫ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو‬
‫"پیدا ہوئی ہے " کہتے ہیں" ہر درد کی دوا"‬
‫یوں ہو‪ ،‬تو چارۂ غنم الفت ہی کیوں نہ ہو‬
‫ڈال نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ‬
‫اپنے سے کھینچتا ہوں‪ ،‬خجالت ہی کیوں نہ ہو‬
‫ہے آدمی‪ ،‬بجائے خود اک محشنر خیال‬
‫ہم انجمن سمجھتے ہیں‪ ،‬خلوت ہی کیوں نہ ہو‬
‫ہنگامۂ زبوننی ہمت ہے انفعال‬
‫حاصل نہ کیجے دہر سے ‪ ،‬عبرت ہی کیوں نہ ہو‬
‫وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں‬
‫اپنے سے کر‪ ،‬نہ غیر سے ‪ ،‬وحشت ہی کیوں نہ ہو‬
‫ت ہستی کا غم کوئی‬ ‫ت فرص ن‬ ‫مٹتا ہے فو ن‬
‫ف عبادت ہی کیوں نہ ہو‬ ‫عمنر عزیز‪ ،‬صر ن‬
‫ساس فتنہ خو کے در سے اب ساٹھتے نہیں اسدب‬
‫اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو‬
‫٭٭‬

‫سمجھاؤ اسے ‪ ،‬یہ وضع چھوڑے‬


‫جو چاہے کرے ‪ ،‬پہ دل نہ توڑے‬
‫تقریر کا اس کی حال مت پوچھ‬
‫معنیی ہیں بہت‪ ،‬تو لفظ تھوڑے‬
‫نذنر مژہ کر دل و جگر کو‬
‫چیرے ہی سے جائیں گے یہ پھوڑے‬
‫عاشق کو یہ چاہیے کہ ہر گز‬
‫اندوہ سے )ڈر کے (منھ نہ موڑے‬
‫آ جا لنب بام‪ ،‬کوئی کب تک‬
‫دیوار سے اپنے سر کو پھوڑے‬
‫جاتے ہیں رقیب کو خط اس کے‬
‫کاغذ کے دوڑتے ہیں گھوڑے‬
‫ق‬
‫غم خوار کو ہے قسم کہ زنہار‬
‫غالب کو نہ تشنہ کام چھوڑے‬
‫حسرت زدہ طرب ہے یہ شخص‬
‫ت نزع توڑے‬ ‫دم جب کہ بہ وق ن‬
‫پانی نہ چوائے اس کے منھ میں‬
‫گل مے میں بھگو بھگو نچوڑے‬
‫یہ غزل نسخہ بھوپال کے حاشیے پر کسی دوسرے کے قلم سے درج ہے ‪ ،‬اس لیے اسے ‪ 1816‬کے بعد کے کلم میں رکھا (‬
‫گیا۔ مگر غزل کا اسلوب غالبب کے اسلوب سے میل نہیں کھاتا۔ اگر یہ غالبب ہی کا کلم ہے تو ابتدائی مشق کا نمونہ‬
‫)سمجھنا چاہیے ‪ ،‬کیونکہ ‪ 20‬سال کی عمر تک غالبب کے فکر و فن کی توانائی ظاہر ہو چکی تھی‬
‫٭٭‬

‫کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے‬


‫جس میں کہ ایک بیضۂ سمور‪ ،‬آسمان ہے‬
‫ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے‬
‫پرتو سے ‪ ،‬آفتاب کے ‪ ،‬ذرے میں جان ہے‬
‫حال آں کہ ہے یہ سیلی خارا سے للہ رنگ‬
‫غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے‬
‫کی ساس نے گرم‪ ،‬سینۂ اہنل ہوس میں‪ ،‬جا‬
‫آوے نہ کیوں پسند‪ ،‬کہ ٹھنڈا مکان ہے‬
‫کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا؟‬
‫بس چپ رہو‪ ،‬ہمارے بھی منہ میں زبان ہے‬
‫بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوانر یار میں‬
‫فرماں روائے کشونر ہندوستان ہے‬
‫!ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا‬
‫کس سے کہوں کہ "داغ" جگر کا نشان ہے‬
‫ہے ‪ ،‬بارے ‪ ،‬اعتماند وفاداری اس قدر‬
‫غالب ب ‪ ،‬ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے‬
‫دلی کے رہنے والو‪ ،‬اسدب کو ستاؤ مت‬
‫بے چارہ‪ ،‬چند روز کا یاں میہمان ہے‬
‫٭٭‬

‫! درد سے میرے ‪ ،‬ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے‬


‫! کیا ہوئی‪ ،‬ظالم‪ ،‬تری غفلت شعاری ہائے ہائے‬
‫ب غم کا حوصلہ‬ ‫تیرے دل میں گر نہ تھا آشو ن‬
‫! ستو نے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے‬
‫کیوں مری غمخوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال؟‬
‫! دشمنی اپنی تھی‪ ،‬میری دوستداری ہائے ہائے‬
‫عمر بھر کا تو نے پیمانن وفا باندھا تو کیا؟‬
‫! عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے‬
‫زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی‬
‫! یعنی‪ ،‬تجھ سے تھی اسے ناسازگاری ہائے ہائے‬
‫گلفشانی ہائے نانز جلوہ کو کیا ہو گیا؟‬
‫! خاک پر ہوتی ہے تیری للہ کاری ہائے ہائے‬
‫ب خاک میں‬ ‫شرنم رسوائی سے جا چھپنا نقا ن‬
‫! ختم ہے سالفت کی‪ ،‬تجھ پر‪ ،‬پردہ داری ہائے ہائے‬
‫خاک میں نامونس پیمانن محبت مل گئی‬
‫! ساٹھ گئی دنیا سے راہ و رسنم یاری ہائے ہائے‬
‫!ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا‬
‫! دل پہ اک لگنے نہ پایا‪ ،‬زخنم کاری ہائے ہائے‬
‫کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تانر برشکال؟‬
‫! ہے ‪ ،‬نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے‬
‫گوش مہجونر پیام و چشم محرونم جمال‬
‫! ایک دل‪ ،‬نتس پر یہ نا امیدواری ہائے ہائے‬
‫عشق نے پکڑا نہ تھا‪ ،‬غالبب ابھی وحشت کا رنگ‬
‫! رہ گیا‪ ،‬تھا دل میں جو کچھ ذونق خواری ہائے ہائے‬
‫گر مصیبت تھی‪ ،‬تو غربت میں ساٹھا لیتا‪ ،‬اسدب‬
‫! میری دلی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے‬
‫٭٭‬

‫عشق مجھ کو نہیں‪ ،‬وحشت ہی سہی‬


‫میری وحشت‪ ،‬تری شہرت ہی سہی‬
‫قطع کیجے نہ تعلق ہم سے‬
‫کچھ نہیں ہے ‪ ،‬تو عداوت ہی سہی‬
‫میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی؟‬
‫اے وہ مجلس نہیں‪ ،‬خلوت ہی سہی‬
‫ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے‬
‫غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی‬
‫اپنی ہستی ہی سے ہو‪ ،‬جو کچھ ہو‬
‫آگہی گر نہیں‪ ،‬غفلت ہی سہی‬
‫عمر‪ ،‬ہر چند کہ ہے برق خرام‬
‫دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی‬
‫ک وفا کرتے ہیں‬‫ہم کوئی تر ن‬
‫نہ سہی عشق‪ ،‬مصیبت ہی سہی‬
‫ک ناانصاف‬‫کچھ تو دے ‪ ،‬اے فل ن‬
‫آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی‬
‫ہم بھی تسلیم کی سخو‪ ،‬ڈالیں گے‬
‫بے نیازی‪ ،‬تری عادت ہی سہی‬
‫یار سے چھیڑ چلی جائے ‪ ،‬اسدب‬
‫گر نہیں وصل‪ ،‬تو حسرت ہی سہی‬
‫٭٭‬

‫چاہیے اچھوں کو‪ ،‬جتنا چاہیے‬


‫یہ اگر چاہیں‪ ،‬تو پھر کیا چاہیے‬
‫ت رنداں سے واجب ہے حذر‬ ‫صحب ن‬
‫جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے‬
‫دل تو ہو اچھا‪ ،‬نہیں ہے گر دماغ‬
‫ب تمنا چاہیے‬ ‫کچھ تو اسبا ن‬
‫چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟‬
‫بارے ‪ ،‬اب اس سے بھی سمجھا چاہیے‬
‫چاک مت کر جیب بے اییانم گل‬
‫کچھ سادھر کا بھی اشارا چاہیے‬
‫دوستی کا پردہ ہے ‪ ،‬بیگانگی‬
‫منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے‬
‫اپنی رسوائی میں کیا چلتی ہے سعی‬
‫یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے‬
‫دشمنی نے میری کھویا غیر کو‬
‫کس قدر دشمن ہے ؟ دیکھا چاہیے‬
‫منحصر مرنے پہ ہو جس کی سامید‬
‫نا سامیدی ساس کی دیکھا چاہیے‬
‫قطعہ‬
‫چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسدب‬
‫آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے‬
‫غافل ان مہ طلعتوں کے واسطے‬
‫چاہنے وال بھی اچھا چاہیے‬
‫٭٭‬

‫پھر کچھ اک‪ ،‬دل کو بے قراری ہے‬


‫سینہ‪ ،‬جویائے زخنم کاری ہے‬
‫پھر جگر کھودنے لگا ناخن‬
‫آمند فصنل للہ کاری ہے‬
‫قبلۂ مقصند نگانہ نیاز‬
‫پھر وہی پردۂ عماری ہے‬
‫چشم‪ ،‬دلنل جننس رسوائی‬
‫دل خریدانر ذونق خواری ہے‬
‫وہ ہی صد رنگ نالہ فرسائی‬
‫وہ ہی صد گونہ اشک باری ہے‬
‫دل‪ ،‬ہوائے خرانم ناز سے پھر‬
‫محشرستانن بے قراری ہے‬
‫جلوہ‪ ،‬پھر عرنض ناز کرتا ہے‬
‫روز بازانر جاں سپاری ہے‬
‫پھر ساسی بے وفا پہ مرتے ہیں‬
‫پھر وہی زندگی ہماری ہے‬
‫قطعہ‬
‫ت ناز‬‫پھر کھل ہے دنر عدال ن‬
‫گرم‪ ،‬بازانر فوجداری ہے‬
‫ہو رہا ہے جہان میں اندھیر‬
‫زلف کی پھر سرشتہ داری ہے‬
‫پھر دیا پارۂ جگر نے سوال‬
‫ایک فریاد و آہ و زاری ہے‬
‫پھر ہوئے ہیں گوانہ عشق طلب‬
‫اشک باری کا حکم جاری ہے‬
‫دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا‬
‫آج پھر اس کی روبکاری ہے‬
‫بے خودی بے سبب نہیں غالبب‬
‫کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‬
‫٭٭‬

‫مدت ہوئی ہے ‪ ،‬یار کو مہماں کیے ہوئے‬


‫جونش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے‬
‫کرتا ہوں جمع‪ ،‬پھر‪ ،‬جگنر لخت لخت کو‬
‫ت مژگاں کیے ہوئے‬ ‫عرصہ ہوا ہے ‪ ،‬دعو ن‬
‫پھر‪ ،‬وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم‬
‫برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے‬
‫پھر‪ ،‬گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نفس‬
‫مدت ہوئی ہے سینر چراغاں کیے ہوئے‬
‫ت دل کو چل ہے عشق‬ ‫پھر‪ ،‬پرسنش جراح ن‬
‫سامانن صد ہزار نمکداں کیے ہوئے‬
‫پھر‪ ،‬بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بخونن دل‬
‫سانز چمن طرازنی داماں کیے ہوئے‬
‫باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب‬
‫نظارہ و خیال کا سامان کیے ہوئے‬
‫ف کوئے ملمت کو جائے ہے‬ ‫دل پھر‪ ،‬طوا ن‬
‫پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے‬
‫پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب‬
‫عرنض متانع عقل و دل و جاں کیے ہوئے‬
‫دوڑے ہے ‪ ،‬پھر‪ ،‬ہر ایک گل و للہ پر خیال‬
‫صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے‬
‫پھر‪ ،‬چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا‬
‫جاں نذنر دل فریبنی عنواں کیے ہوئے‬
‫ڈھونڈے ہے پھر‪ ،‬کسی کو لنب بام پر‪ ،‬ہوس‬
‫زلنف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے‬
‫چاہے ہے ‪ ،‬پھر‪ ،‬کسی کو مقابل میں‪ ،‬آرزو‬
‫سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے‬
‫اک نو بہانر ناز کو چاہے ہے پھر‪ ،‬نگاہ‬
‫چہرہ‪ ،‬فرونغ مے سے گلستاں کیے ہوئے‬
‫پھر‪ ،‬جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں‬
‫ت درباں کیے ہوئے‬ ‫سر زینر بانر من ن‬
‫جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت‪ ،‬کہ رات دن‬
‫بیٹھے رہیں تصونر جاناں کیے ہوئے‬
‫غالب ب ‪ ،‬ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جونش اشک سے‬
‫بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے‬
‫٭٭‬

‫بے اعتدالیوں سے ‪ ،‬سسبک سب میں ہم ہوئے‬


‫جتنے زیادہ ہو گئے ‪ ،‬اتنے ہی کم ہوئے‬
‫پنہاں تھا دام‪ ،‬سخت قریب آشیان کے‬
‫اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‬
‫ہستی ہماری‪ ،‬اپنی فنا پر دلیل ہے‬
‫یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی دقسم ہوئے‬
‫سختی کشانن عشق کی‪ ،‬پوچھے ہے کیا خبر‬
‫وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے‬
‫تیری وفا سے کیا ہو تلفی؟ کہ دہر میں‬
‫تیرے سوا بھی‪ ،‬ہم پہ بہت سے ستم ہوئے‬
‫ت خونچکاں‬ ‫لکھتے رہے جنوں کی حکایا ن‬
‫ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‬
‫اللہ رے ! تیری تندنی خو‪ ،‬جس کے بیم سے‬
‫اجزائے نالہ‪ ،‬دل میں مرے رزنق ہم ہوئے‬
‫ک نبرند عشق‬ ‫اہنل ہوس کی فتح ہے ‪ ،‬تر ن‬
‫جو پاؤں اٹھ گئے ‪ ،‬وہی ان کے علم ہوئے‬
‫نالے ‪ ،‬عدم میں‪ ،‬چند ہمارے سپرد تھے‬
‫جو واں نہ کھنچ سکے ‪ ،‬سو وہ یاں آ کے دم ہوئے‬
‫چھوڑی‪ ،‬اسدب ‪ ،‬نہ ہم نے گدائی میں دل لگی‬
‫سائل ہوئے ‪ ،‬تو عاشنق اہنل کرم ہوئے‬
‫٭٭‬

‫جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی‬


‫لکھ دیجیو‪ ،‬یا رب‪ ،‬اسے قسمت میں عدو کی‬
‫ت حنائی کا تصیور‬ ‫ایچھا ہے سر انگش ن‬
‫دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی‬
‫کیوں ڈرتے ہو عیشاق کی بے حوصلگی سے ؟‬
‫یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی‬
‫اے بے خبراں‪ ،‬میرے لنب زخنم جگر پر‬
‫بخیہ جسے کہتے ہو‪ ،‬شکایت ہے رفو کی‬
‫گو زندگنی زاہد بے چارہ عبث ہے‬
‫اتنا ہے کہ رہتی تو ہے تدبیر وضو کی‬
‫صد حیف! وہ نا کام کہ اک عمر سے ‪ ،‬غالبب‬
‫ت عربدہ جو کی‬ ‫حسرت میں رہے ‪ ،‬ایک ب ن‬
‫دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو‬
‫خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی‬
‫٭٭‬

‫رونے سے ‪ ،‬اور عشق میں بے باک ہو گئے‬


‫دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے‬
‫ت میکشی‬ ‫ف بہائے مے ہوئے ‪ ،‬آل ن‬‫صر ن‬
‫تھے یہ ہی دو حساب‪ ،‬سو یوں پاک ہو گئے‬
‫رسوائے دہر گو ہوئے ‪ ،‬آوارگی سے ‪ ،‬تم‬
‫بارے ‪ ،‬طبیعتوں کے تو چالک ہو گئے‬
‫?کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر‬
‫پردے میں سگل کے ‪ ،‬لکھ جگر چاک ہو گئے‬
‫پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہنل شوق کا؟‬
‫آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے‬
‫کرنے گئے تھے اس سے تغاسفل کا‪ ،‬ہم نگلہ‬
‫کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے‬
‫پوچھے ہے کیا معانش جگر‪ ،‬تفتگانن عشق‬
‫جوں شمع‪ ،‬آپ اپنی وہ خوراک ہو گئے‬
‫اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدب کی نعش‬
‫دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے‬
‫٭٭٭‬

‫ء ‪1821‬‬

‫قصائد‬

‫سانز یک ذریہ نہیں‪ ،‬فینض چمن سے ‪ ،‬بے کار‬


‫سایۂ للۂ بے داغ‪ ،‬سویدائے بہار‬
‫مستنی باند صبا سے ہے ‪ ،‬بہ عرنض سبزہ‬
‫ریزۂ شیشۂ مے ‪ ،‬جوہنر تینغ سکہسار‬
‫سنگ‪ ،‬یہ کارگنہ ربنط نزاکت ہے ‪ ،‬کہ ہے‬
‫خندۂ بے خودنی کبک‪ ،‬بہ دندانن شرار‬
‫سبز ہے جانم زمرد کی طرح‪ ،‬دانغ پلنگ‬
‫تازہ ہے ‪ ،‬ریشۂ نارنج صفت روئے شرار‬
‫کشتۂ افعنی زلنف سینہ شیریں کو‬
‫گ زمرد کا مزار‬ ‫بے ستوں‪ ،‬سبزے سے ‪ ،‬ہے سن ن‬
‫حسرنت جلوۂ ساقی ہے کہ ہر پارۂ ابر‬
‫سینہ‪ ،‬بیتابی سے ‪ ،‬ملتا ہے بہ تیغ سکہسار‬
‫گ ابنر سیاہ‬ ‫دشمنن حسرنت عاشق ہے ‪ ،‬ر ن‬
‫جس نے برباد کیا ریشۂ چندیں شنب تار‬
‫مستنی ابر سے گلچینن طرب ہے حسرت‬
‫کہ اس آغوش میں ممکن ہے دو عالم کا فشار‬
‫کوہ و صحرا ہمہ‪ ،‬معمورنی شونق بلبل‬
‫رانہ خوابیدہ ہوئی خندۂ گل سے بیدار‬
‫چشم بر چشم چنے ہے بہ تماشا‪ ،‬مجنوں‬
‫ہر دو سو خانۂ زنجیر‪ ،‬نگہ کا بازار‬
‫خانۂ تنگ‪ ،‬ہجونم دو جہاں کیفیت‬
‫ت دیوار‬ ‫جانم جمشید ہے یاں قالنب خش ن‬
‫سونپے ہے فینض ہوا‪ ،‬صورت مژگانن یتیم‬
‫ت دو جہاں ابر‪ ،‬بہ یک سطنر غبار‬ ‫سرنوش ن‬
‫کنف ہر خاک بگردوں شدہ‪ ،‬قمری پرواز‬
‫دانم ہر کاغنذ آتش زدہ‪ ،‬طاؤس شکار‬
‫ب صیاد‬ ‫سنبل و دانم کمیں خانۂ خوا ن‬
‫نرگس و جام سیہ مستنی چشنم بیدار‬
‫طرہ ہا‪ ،‬بس کہ‪ ،‬گرفتانر صبا ہیں‪ ،‬شانہ‬
‫ت بے کار‬ ‫زانوئے آئنہ پر مارے ہے دس ن‬
‫بس کہ یکرنگ ہیں دل‪ ،‬کرتی ہے ایجاد نسیم‬
‫للے کے داغ سے ‪ ،‬جوں نقطہ و خط‪ ،‬سنبنل زار‬
‫اے خوشا! فینض ہوائے چمنن نشو و نما‬
‫بادہ سپر زور و نفس مست و مسیحا بیمار‬
‫کاٹ کر پھینکیے ناخن‪ ،‬تو باندانز ہلل‬
‫قوت نامیہ اس کو بھی نہ چھوڑے بیکار‬
‫ت نشو و نما میں یہ بلندی ہے کہ سرو‬ ‫ہم ن‬
‫پنر قمری سے کرے صیقنل تینغ کہسار‬
‫گ ظہور‬ ‫ہر کنف خاک‪ ،‬جگر تشنۂ صد رن ن‬
‫ت تامل‪ ،‬ہے بہار‬ ‫غنچے کے میکدے میں مس ن‬
‫کس قدر عرض کروں ساغنر شبنم‪ ،‬یا رب؟‬
‫موجۂ سبزۂ نوخیز‪ ،‬ہے لبرینز خمار‬
‫ت جوانی ہے ہنوز‬ ‫غنچۂ للہ‪ ،‬سیہ مس ن‬
‫شبننم صبح‪ ،‬ہوئی رعشۂ اعضائے بہار‬
‫جونش بیداند تپش سے ہوئی عریاں آخر‬
‫شانخ گلبن پہ‪ ،‬صبا‪ ،‬چھوڑ کے پیراہنن خار‬
‫ت دل ہے ‪ ،‬لیکن‬ ‫سانز عریاننی کیفی ن‬
‫یہ مئے تند‪ ،‬نہیں مونج خرانم اظہار‬
‫ت نگرانی امید‬ ‫مونج مے پر ہے ‪ ،‬برا ن‬
‫گنل نرگس سے کنف جام پہ ہے ‪ ،‬چشنم بہار‬
‫گلشن و میکدہ‪ ،‬سیلبی یک مونج خیال‬
‫نشہ و جلوۂ گل‪ ،‬برسنر ہم فتنہ عیار‬
‫میکدے میں ہو اگر‪ ،‬آرزوئے گل چینی‬
‫بھول جا یک قدنح بادہ بہ طانق گلزار‬
‫مونج گل ڈھونڈھ بہ خلوت کدۂ غنچۂ باغ‬
‫گم کرے ‪ ،‬گوشۂ میخانہ میں گر تو‪ ،‬دستار‬
‫ت خط کھینچے ہے بے جا یعنی‬ ‫ت لب‪ ،‬تہم ن‬
‫پش ن‬
‫سبز ہے مونج تبسم بہ ہوائے گفتار‬
‫کھینچے گر ماننی اندیشہ چمن کی تصویر‬
‫سبز‪ ،‬مثنل خنط نوخیز‪ ،‬ہو خنط پرکار‬
‫جائے حیرت ہے کہ گلبازنی اندیشۂ شوق‬
‫اس زمیں میں نہ کرے سبز قلم کی رفتار‬
‫٭٭‬

‫مطلنع ثانی‬

‫ت شاہ‬ ‫لعل سی‪ ،‬کی ہے پے زمزمہ مدح ن‬


‫طوطنی سبزۂ سکہسار نے پیدا‪ ،‬منقار‬
‫کسونت تاک میں ہے نشۂ ایجاند ازل‬
‫سبحۂ عرنض دو عالم‪ ،‬بکنف آبلہ دار‬
‫بہ نظر گانہ گلستانن خیانل ساقی‬
‫گ گل سے ہے پیمانہ شکار‬ ‫بیخودی‪ ،‬دانم ر ن‬
‫بہ ہوائے چمنن جلوہ‪ ،‬ہے طاؤس پرست‬
‫باندھے ہے پینر فلک مونج شفق سے زینار‬
‫یک چمن جلوۂ یوسف ہے بہ چشنم یعقوب‬
‫للہ ہا داغ برافگندہ‪ ،‬و گل ہا بے خار‬
‫بیضۂ قمری کے آئینے میں پنہاں صیقل‬
‫سرنو بیدل سے عیاں‪ ،‬عکنس خیانل قند یار‬
‫عکنس مونج گل و سرشارنی اندانز حباب‬
‫ت دل سے دوچار‬ ‫نگنہ آئینۂ‪ ،‬کیفی ن‬
‫ت ناز‬ ‫کس قدر سانز دو عالم کو ملی جرأ ن‬
‫کہ ہوا‪ ،‬ساغنر بے حوصلۂ دل‪ ،‬سرشار‬
‫ورنہ وہ ناز ہے ‪ ،‬جس گلشنن بیداد سے تھا‬
‫طور‪ ،‬مشعل بکف از جلوۂ تنزیہنہ بہار‬
‫سایۂ تیغ کو دیکھ ساس کے ‪ ،‬بہ ذونق یک زخم‬
‫سینۂ سنگ پہ کھینچے ہے الف‪ ،‬بانل شرار‬
‫بت کدہ‪ ،‬بہنر پرستش گرنی قبلۂ ناز‬
‫گ سنگ‪ ،‬میانن سکہسار‬ ‫باندھے زنانر ر ن‬
‫سبحہ گرداں ہے اسی کی کنف امید کا‪ ،‬ابر‬
‫بیم سے جس کے ‪ ،‬صبا‪ ،‬توڑے ہے صد جا زنار‬
‫رنگرینز گل و جانم دو جہاں ناز و نیاز‬
‫اولیں دونر امامت‪ ،‬طرب ایجاند بہار‬
‫جونش طوفانن کرم‪ ،‬ساقنی کوثر ساغر‬
‫سنہ فلک‪ ،‬آئنہ ایجاند کنف گوہر بار‬
‫پہنے ہے پیرہنن کاغنذ ابری‪ ،‬نیساں‬
‫یہ ستنک مایہ‪ ،‬ہے فریادنی جونش ایثار‬
‫وہ شہنشاہ کہ جس کی پئے تعمینر سرا‬
‫ت دیوار‬ ‫چشنم جبریل‪ ،‬ہوئی قالنب خش ن‬
‫فلک العرش‪ ،‬ہجونم خنم دونش مزدور‬
‫ب معمار‬ ‫رشتۂ فینض ازل‪ ،‬سانز طنا ن‬
‫ت لنب بام‬ ‫سبزۂ سنہ چمن‪ ،‬و یک خنط پش ن‬
‫ت صد عارف‪ ،‬و یک اونج حصار‬ ‫ت ہم ن‬ ‫رفع ن‬
‫واں کے خاشاک سے حاصل ہو جسے ‪ ،‬یک پنر کاہ‬
‫وہ رہے نمروحۂ بانل پری سے بیزار‬
‫پر یہ دولت تھی‪ ،‬نصینب نگنہ معننی ناز‬
‫کہ ہوا صورنت آئینہ میں‪ ،‬جوہر‪ ،‬بیدار‬
‫ذرہ اس گرد کا خورشید کو‪ ،‬آئینۂ ناز‬
‫گرد ساس دشت کی‪ ،‬امید کو‪ ،‬احرانم بہار‬
‫عرفا‬‫ک صحرائے نجف‪ ،‬جوہنر سینر س‬ ‫خا ن‬
‫ت بیدار‬ ‫چشنم نقنش قدم‪ ،‬آئینۂ بخ ن‬
‫اے خوشا! مکتنب شوق و بلدستانن مراد‬
‫سبنق نازکی‪ ،‬ہے عجز کو صد جا‪ ،‬تکرار‬
‫ب حیواں‬ ‫مشقنی نقنش قدم‪ ،‬نسخہ آ ن‬
‫ت نجف‪ ،‬عمنر خضر کا طومار‬ ‫جادۂ دش ن‬
‫جلوہ تمثال ہے ‪ ،‬ہر ذرۂ نیرنگ سواد‬
‫ت غبار‬ ‫بزنم آئینۂ تصویر نما‪ ،‬مش ن‬
‫دو جہاں طالنب دیدار تھا‪ ،‬یا رب کہ‪ ،‬ہنوز‬
‫ک ذرہ سے ہے گرم‪ ،‬نگہ کا بازار‬ ‫چشم ن‬
‫گ رواں‬ ‫ہے ‪ ،‬نفس مایہ شونق دو جہاں ری ن‬
‫ت جولں بسیار‬ ‫پائے رفتار کم‪ ،‬و حسر ن‬
‫آفرینش کو ہے ‪ ،‬واں سے ‪ ،‬طلنب مستنی ناز‬
‫عرنض خمیازۂ ایجاد ہے ہر مونج غبار‬
‫ت الفت چمن‪ ،‬و آبلہ مہماں پرور‬ ‫دش ن‬
‫دنل جبریل‪ ،‬کنف پا پہ ملے ہے رخسار‬
‫یاں تک انصاف نوازی کہ اگر ریزۂ سنگ‬
‫بے خبر دے بکنف پائے مسافر آزار‬
‫یک بیاباں تپنش بانل شرر سے ‪ ،‬صحرا‬
‫مغنز سکہسار میں کرتا ہے فرو‪ ،‬نشتنر خار‬
‫ت تمنا میں نہ ہوتا‪ ،‬گر‪ ،‬عدل‬ ‫فرش ناس دش ن‬
‫گرمنی شعلۂ رفتار سے جلتے خس و خار‬
‫ابنر نیساں سے ملے مونج سگہر کا تاواں‬
‫خلونت آبلہ میں گم کرے ‪ ،‬گر تو‪ ،‬رفتار‬
‫یک جہاں بسمنل اندانز پر افشانی ہے‬
‫دام سے ساس کے ‪ ،‬قضا کو ہے رہائی دشوار‬
‫مونج طوفانن غضب چشمۂ سنہ چرنخ حباب‬
‫ذوالفقانر شنہ مرداں‪ ،‬خنط قدرت آثار‬
‫مونج ابروئے قضا‪ ،‬جس کے تصور سے ‪ ،‬دونیم‬
‫بیم سے جس کے ‪ ،‬دنل شحنہ تقدیر‪ ،‬فگار‬
‫ک قضا‬ ‫شعلہ تحریر سے ساس بر ق کی‪ ،‬ہے کل ن‬
‫بانل جبریل سے مسطر کنش سطنر زنہار‬
‫مونج طوفاں ہو‪ ،‬اگر خونن دو عالنم ہستی‬
‫ہے حنا کو سنر ناخن سے گزرنا دشوار‬
‫ت تسخیر ہو‪ ،‬گر گرند خرانم سدلدل‬ ‫دش ن‬
‫نعنل در آتنش ہر ذرہ ہے ‪ ،‬تینغ کہسار‬
‫بانل رعنائنی سدم‪ ،‬موجۂ گلبنند قبا‬
‫گردنش کاسۂ سسم‪ ،‬چشنم پری آئنہ دار‬
‫گرند راہ اس کی بھریں شیشۂ ساعت میں اگر‬
‫ہر نفس راہ میں ٹوٹے ‪ ،‬نفنس لیل و نہار‬
‫نرم رفتار ہو جس کوہ پہ وہ برق گداز‬
‫گ حنا ہے ‪ ،‬تپنش بانل شرار‬ ‫رفتنن رن ن‬
‫ہے سراسر رونی عالنم ایجاد ساسے‬
‫دجینب خلوت کدۂ غنچہ میں‪ ،‬جولنن بہار‬
‫جس کے حیرت کدۂ نقنش قدم میں‪ ،‬مانی‬
‫خونن صد برق سے باندھے بکنف دست نگار‬
‫ذونق تسلینم تمنا سے بہ گلزانر حضور‬
‫عرنض تسخینر تماشا سے بہ دانم اظہار‬
‫ت دل‬ ‫مطلنع تازہ ہوا موجۂ کیفی ن‬
‫جانم سرشانر مے و غنچۂ لبرینز بہار‬
‫٭٭‬

‫طلنع ثالث‬

‫فیض سے تیرے ہے ‪ ،‬اے شمنع شبستانن بہار‬


‫دنل پروانہ چراغاں‪ ،‬پنر بلبل سگلزار‬
‫شکنل طاؤس کرے ‪ ،‬آئنہ خانہ پرواز‬
‫ذوق میں جلوے کے تیرے بہ ہوائے دیدار‬
‫گرند جولں سے ہے تیری‪ ،‬بگریبانن خرام‬
‫جلوۂ طور‪ ،‬نمک سودۂ زخنم تکرار‬
‫جس چمن میں ہو‪ ،‬ترا جلوۂ محروم نواز‬
‫پنر طاؤس‪ ،‬کرے گرم نگہ کا بازار‬
‫جس ادب گاہ میں تو آئنۂ شوخی ہو‬
‫ب دیوار‬ ‫جلوہ‪ ،‬ہے ساقنی مخمورنی تا ن‬
‫تو وہ ساقی ہے کہ ہر مونج محینط تنزیہہ‬
‫کھینچے خمیازے میں تیرے لنب ساغر کا خمار‬
‫ک دمانغ دل ہا‬ ‫گرد باد آئنہ فترا ن‬
‫تیرا صحرائے طلب‪ ،‬محفنل پیمانہ شکار‬
‫ذونق بیتابنی دیدار سے تیرے ‪ ،‬ہے ہنوز‬
‫جونش جوہر سے ‪ ،‬دنل آئنہ‪ ،‬گلدستۂ خار‬
‫تیری اولد کے غم سے ہے بروئے گردوں‬
‫ک اختر میں منہ نو‪ ،‬مژنہ گوہر بار‬ ‫سل ن‬
‫مدح میں تیری نہاں‪ ،‬زمزمۂ نعت نبیی‬
‫جام سے تیرے عیاں‪ ،‬بادۂ جونش اسرار‬
‫ہم عبادت کو‪ ،‬ترا نقنش قدم‪ ،‬سمہنر نماز‬
‫ہم ریاضت کو‪ ،‬ترے حوصلے سے استظہار‬
‫تیرا پیمانۂ مے ‪ ،‬نسخۂ ادوانر ظہور‬
‫تیرا نقنش قدم‪ ،‬آئینۂ شانن اظہار‬
‫ت حق‪ ،‬بسملۂ مصحنف ناز‬ ‫ت رحم ن‬ ‫آی ن‬
‫مسطنر موجۂ دیباچۂ درنس اسرار‬
‫قبلۂ نونر نظر‪ ،‬کعبۂ ایجاند مسیح‬
‫مژنہ دیدۂ نخچیر سے ‪ ،‬نبنض بیمار‬
‫ت بے خودنی کفر نہ کھینچے ‪ ،‬یارب‬ ‫تہم ن‬
‫کمنی ربنط نیاز‪ ،‬و خنط نانز بسیار‬
‫گ تمنا ہوں‪ ،‬ولے‬ ‫ناز پروردۂ صد رن ن‬
‫پرورش پائی ہے ‪ ،‬جوں غنچہ‪ ،‬بہ خونن اظہار‬
‫ب دو عالم آداب‬ ‫تنگنی حوصلہ‪ ،‬گردا ن‬
‫دیند یک غنچہ سے ہوں بسمنل نقصانن بہار‬
‫ک نظارہ تھی یک برنق تجلی کہ ہنوز‬ ‫رش ن‬
‫تشنۂ خونن دو عالم ہوں‪ ،‬بہ عرنض تکرار‬
‫ت یک جینب کشش نے کھویا‬ ‫ت فرص ن‬ ‫وحش ن‬
‫گ حنا‪ ،‬ہاتھ سے دامانن بہار‬ ‫ت رن ن‬‫صور ن‬
‫ت دانغ انجام‬ ‫شعلہ آغاز ولے حیر ن‬
‫مونج مے لیک ز سر تا قدم آغونش خمار‬
‫ہے اسینر ستنم کشمکنش دانم وفا‬
‫دنل وارستۂ ہفتاد و دو ملت بیزار‬
‫مژنہ خواب سے کرتا ہوں‪ ،‬بآسائنش درد‬
‫بخیۂ زخنم دنل چاک‪ ،‬بہ یک دستہ شرار‬
‫محرنم درند گرفتارنی مستی معلوم‬
‫گ تار‬ ‫ت نغمہ‪ ،‬بہ بنند ر ن‬ ‫ہوں نفس سے ‪ ،‬صف ن‬
‫تھا سنر سلسلہ جنباننی صد عمنر ابد‬
‫ت بہ ریشم کدۂ نالۂ زار‬ ‫ساز ہا مف ن‬
‫لیکن اس رشتۂ تحریر میں سرتا سنر فکر‬
‫ف علیی سبحہ شمار‬ ‫ہوں بقدنر عدند حر ن‬
‫ت دعا آئنہ‪ ،‬یعنی تاثیر‬ ‫جوہنر دس ن‬
‫یک طرف نازنش مژگاں‪ ،‬و دگر سو غنم خار‬
‫مردمک سے ہو‪ ،‬عزا خانۂ اقبانل نگاہ‬
‫ک درکی ترے ‪ ،‬جو چشم‪ ،‬نہ ہو آئنہ دار‬ ‫خا ن‬
‫دشمنن آل نبی کو‪ ،‬بہ طرب خانۂ دہر‬
‫عرنض خمیازۂ سیلب ہو‪ ،‬طانق دیوار‬
‫دوست اس سلسلۂ ناز کے جوں سنبل و گل‬
‫ابنر میخانہ کریں ساغنر خورشید شکار‬
‫لنگنر عیش پہ سرشانر تماشائے دوام‬
‫کہ رہے خونن خزاں سے بہ حنا پائے بہار‬
‫ت ناز‬ ‫زلنف معشوق کشش‪ ،‬سلسلۂ وحش ن‬
‫دنل عاشق‪ ،‬شکن آمونز خنم طرۂ یار‬
‫مئے تمثانل پری‪ ،‬نشۂ مینا آزاد‬
‫ت بیدار‬ ‫دنل آئینہ طرب‪ ،‬ساغنر بخ ن‬
‫دیدہ تا دل‪ ،‬اسد ب آئینۂ یک پرتنو شوق‬
‫فینض معنی سے ‪ ،‬خنط ساغنر راقم سرشار‬
‫٭٭‬

‫دہر‪ ،‬جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں‬


‫ہم کہاں ہوتے ‪ ،‬اگر حسن نہ ہوتا خود بیں‬
‫توڑے ہے عجنز ستنک حوصلہ‪ ،‬بر روئے زمیں‬
‫سجدہ تمثال وہ آئینہ‪ ،‬کہیں جس کو جبیں‬
‫توڑے ہے نالہ‪ ،‬سنر رشتۂ پانس انفاس‬
‫سر کرے ہے ‪ ،‬دنل حیرت زدہ‪ ،‬شغنل تسکین‬
‫بیدلی ہائے تماشا‪ ،‬کہ نہ عبرت ہے ‪ ،‬نہ ذوق‬
‫بیکسی ہائے تمنا‪ ،‬کہ نہ دنیا ہے نہ دیں‬
‫ہر زہ ہے ‪ ،‬نغمۂ زیر و بنم ہستی و عدم‬
‫لغو ہے ‪ ،‬آئنۂ فرنق جنون و تمکیں‬
‫یاس‪ ،‬تمثانل بہار آئنۂ استغنا‬
‫وہم‪ ،‬آئینۂ پیدائنی تمثانل یقیں‬
‫خوں ہوا‪ ،‬جونش تمنا سے دو عالم کا دماغ‬
‫بزنم یاس‪ ،‬آں سوئے پیدائنی و اخفا رنگیں‬
‫ت تسلیم‬ ‫مثنل مضمونن وفا‪ ،‬باد بدس ن‬
‫ت نقنش قدم‪ ،‬خاک بفرنق تمکیں‬ ‫صور ن‬
‫خانہ ویراننی امید و پریشاننی بیم‬
‫جونش دوزخ‪ ،‬ہے خوانن چمنن خلند بریں‬
‫ف دانش غلط‪ ،‬و نفنع عبادت معلوم‬ ‫ل ن‬
‫سدرند یک ساغنر غفلت ہے ‪ ،‬چہ دنیا‪ ،‬وچہ دیں‬
‫باند افسانۂ بیمار ہے ‪ ،‬عیسیی کا نفس‬
‫استخواں ریزۂ موراں ہے ‪ ،‬سلیماں کا نگیں‬
‫نقنش معنی ہمہ‪ ،‬خمیازۂ عرنض صورت‬
‫سخنن حق ہمہ‪ ،‬پیمانۂ ذونق تحسیں‬
‫عشق‪ ،‬بے ربطنی شیرازۂ اجزائے حواس‬
‫وصل‪ ،‬زنگانر رنخ آئینۂ حسنن یقیں‬
‫کوہ کن‪ ،‬گرسنہ مزدونر طرب گانہ رقیب‬
‫ب گرانن شیریں‬ ‫بے ستوں‪ ،‬آئینۂ خوا ن‬
‫مونج خمیازۂ یک نیشہ‪ ،‬چہ اسلم‪ ،‬و چہ کفر‬
‫کجنی یک خنط مسطر‪ ،‬چہ تویہم‪ ،‬چہ یقیں‬
‫قبلہ و ابروئے بت‪ ،‬یک رنہ خوابیدۂ شوق‬
‫ب سنگیں‬ ‫کعبہ و بتکدہ‪ ،‬یک محمنل خوا ن‬
‫کس نے دیکھا‪ ،‬نفنس اہنل وفا آتش خیز؟‬
‫کس نے پایا‪ ،‬اثنر نالۂ دل ہائے حزیں‬
‫عینش بسمل کدۂ عیند حریفاں معلوم‬
‫خوں ہو آئینہ‪ ،‬کہ ہو جامۂ طفلں رنگیں‬
‫سامنع زمزمۂ اہنل جہاں ہوں‪ ،‬لیکن‬
‫گ ستائش‪ ،‬نہ دمانغ نفریں‬ ‫نہ سر و بر ن‬
‫نزنع مخمور ہوں ساس دید کی دھن میں کہ مجھے‬
‫رشتۂ سانز ازل ہے ‪ ،‬نگنہ باز پسیں‬
‫حیرت‪ ،‬آفت زدۂ عرنض دو عالم نیرنگ‬
‫مونم آئینۂ ایجاد ہے ‪ ،‬مغنز تمکیں‬
‫ت دل سے پریشاں ہیں‪ ،‬چراغانن خیال‬ ‫وحش ن‬
‫باندھوں ہوں آئنے پر چشنم پری سے آئیں‬
‫کوچہ دیتا ہے پریشاں نظری پر‪ ،‬صحرا‬
‫رنم آہو کو ہے ہر ذرے کی چشمک میں کمیں‬
‫چشنم امید سے گرتے ہیں‪ ،‬دو عالم‪ ،‬جوں اشک‬
‫یاس پیمانہ کنش گریۂ مستانہ نہیں‬
‫کس قدر فکر کو ہے نانل قلم موئے دماغ‬
‫کہ ہوا خونن نگہ شوق میں نقنش تمکیں‬
‫ت جولنن ہوس ہے ‪ ،‬یارب‬ ‫عذنر لنگ‪ ،‬آف ن‬
‫جل ساٹھے گرمنی رفتار سے ‪ ،‬پائے چوبیں‬
‫نہ تمنا‪ ،‬نہ تماشا‪ ،‬نہ تحیر‪ ،‬نہ نگاہ‬
‫گرند جوہر میں ہے ‪ ،‬آئینۂ دل پردہ نشیں‬
‫کھینچوں ہوں آئنے پر خندۂ گل سے مسطر‬
‫نامہ‪ ،‬عنوانن بیانن دنل آزردہ نہیں‬
‫رننج تعظیم مسیحا نہیں ساٹھتا مجھ سے‬
‫درد ہوتا ہے مرے دل میں‪ ،‬جو توڑوں بالیں‬
‫ب جہاں سے ہوں ملول‬ ‫بسکہ گستاخنی اربا ن‬
‫پنر پروانہ‪ ،‬مری بزم میں ہے خنجنر کیں‬
‫اے عبارت‪ ،‬تجھے کس خط سے ہے درنس نیرنگ‬
‫اے نگہ‪ ،‬تجھ کو ہے کس نقطے میں مشنق تسکیں؟‬
‫!کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذا ا باللہ‬
‫ب وقار و تمکیں‬ ‫یک قلم خارنج آدا ن‬
‫گ رواں دیکھ کہ گردوں ہر صبح‬ ‫جلوۂ ری ن‬
‫خاک پر توڑے ہے آئینۂ نانز پرویں‬
‫شونر اوہام سے ‪ ،‬مت ہو شنب خونن انصاف‬
‫گفتگو بے مزہ‪ ،‬و زخنم تمنا نمکیں‬
‫ت نیاز‬ ‫ختم کر ایک اشارت میں عبارا ن‬
‫جوں منہ نو‪ ،‬ہے نہاں گوشۂ ابرو میں‪ ،‬جبیں‬
‫نقنش "لحول" لکھ‪ ،‬اے خامۂ ہذیاں تحریر‬
‫ت وسواس قریں"‬ ‫یا علی "عرض کر‪ ،‬اے فطر ن‬
‫معننی لفنظ کرم‪ ،‬بسملۂ نسخۂ حسن‬
‫ب یقیں‬ ‫قبلۂ اہنل نظر‪ ،‬کعبۂ اربا ن‬
‫جلوہ رفتانر سنر جادۂ شرنع تسلیم‬
‫نقنش پا جس کا ہے توحید کو معرانج جبیں‬
‫کس سے ممکن ہے تری مدح‪ ،‬بغیر از واجب؟‬
‫شعلۂ شمع‪ ،‬مگر شمع پہ باندھے آئیں‬
‫ہو‪ ،‬وہ سرمایۂ ایجاد‪ ،‬جہاں ناز خرام‬
‫ہر کنف خاک ہے واں گردۂ تصوینر زمیں‬
‫مظہنر فینض خدا‪ ،‬جان و دنل ختنم رسل‬
‫قبلۂ آنل نبی‪ ،‬کعبۂ ایجاند یقیں‬
‫ت نام سے اس کی ہے یہ رتبہ کہ رہے‬ ‫نسب ن‬
‫ت فلک‪ ،‬خم شدۂ نانز زمیں‬ ‫ابداا‪ ،‬پش ن‬
‫جلوہ پرداز ہو‪ ،‬نقنش قدم ساس کا‪ ،‬جس جا‬
‫وہ کنف خاک ہے نامونس دو عالم کی امیں‬
‫فینض خلق ساس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا‬
‫بوئے گل سے ‪ ،‬نفنس باند صبا‪ ،‬عطر آگیں‬
‫بسیرنش تیغ کا ساس کی‪ ،‬ہے جہاں میں چرچا‬
‫قطع ہو جائے نہ‪ ،‬سر رشتۂ ایجاد کہیں‬
‫کوہ کو‪ ،‬بیم سے ‪ ،‬ساس کے ہے جگر باختگی‬
‫نہ کرے نذنر صدا‪ ،‬ورنہ‪ ،‬متانع تمکیں‬
‫کفر سوز ساس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے‬
‫گ عاشق کی طرح‪ ،‬روننق بت خانۂ چیں‬ ‫رن ن‬
‫وصنف سدلسدل‪ ،‬ہے مرے مطلنع ثانی کی بہار‬
‫ت نقنش قدم سے ہوں‪ ،‬میں اس کے گلچیں‬ ‫جن ن‬

‫مطلع‬

‫ب یقیں‬‫گرند رہ‪ ،‬سرمہ کنش دیدۂ اربا ن‬


‫نقنش ہر گام‪ ،‬دو عالم صفہاں زینر نگیں‬
‫گ گل کا‪ ،‬ہو جو طوفانن ہوا میں عالم‬ ‫بر ن‬
‫ساس کے جولں میں نظر آئے ہے یوں‪ ،‬دامنن دیں‬
‫ساس کی شوخی سے بہ حسرت کدۂ نقنش خیال‬
‫ت ادراک نہیں‬ ‫فکر کو حوصلۂ فرص ن‬
‫جلوۂ برق سے ہو جائے نگہ‪ ،‬عکس پذیر‬
‫ت صورت گنر چیں‬ ‫اگر آئینہ بنے حیر ن‬
‫!جاں پناہا! دل و جاں فیض رسانا!شاہا‬
‫وصنی ختنم رسل تو ہے ‪ ،‬بفتوائے یقیں‬
‫ذونق گل چیننی نقنش کنف پاسے تیرے‬
‫عرش چاہے ہے کہ ہو در پہ ترے خاک نشیں‬
‫تجھ میں اور غیر میں نسبت ہے ‪ ،‬ولیکن بہ تضاد‬
‫ت یقیں‬ ‫وصنی ختنم رسل تو ہے بہ اثبا ن‬
‫جسنم اطہر کو ترے ‪ ،‬دونش پیمبر‪ ،‬منبر‬
‫نانم نامی کو ترے ناصیۂ عرش‪ ،‬نگیں‬
‫تیری مدحت کے لیے ہیں دل و جاں‪ ،‬کام و زباں‬
‫تیری تسلیم کو ہیں لوح و قلم‪ ،‬دست و جبیں‬
‫آستاں پر ہے ترے جوہنر آئینۂ سنگ‬
‫ت جبرینل امیں‬ ‫رقنم بندگنی حضر ن‬
‫ب نثار‪ ،‬آمادہ‬ ‫تیرے در کے لیے ‪ ،‬اسبا ن‬
‫خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں‬
‫داند دیوانگنی دل کہ ترا مدحت گر‬
‫ذیرے سے باندھے ہے خورشیند فلک پر آئیں‬
‫کس سے ہو سکتی ہے ‪ ،‬مداحنی ممدونح خدا؟‬
‫کس سے ہو سکتی ہے ‪ ،‬آرائنش فردونس بریں؟‬
‫جننس بازانر معاصی‪ ،‬اسد اللہ اسدب‬
‫کہ سوا تیرے کوئی ساس کا خریدار نہیں‬
‫شوخنی عرض مطالب میں ہے گستاخ طلب‬
‫ہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بسکہ‪ ،‬یقیں‬
‫دے دعا کو مری وہ مرتبۂ سحسنن قبول‬
‫"کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار" آمیں‬
‫غنم شبیری سے ہو سینہ یہاں تک لبریز‬
‫کہ رہیں خونن جگر سے مری آنکھیں رنگیں‬
‫ت سدلدل میں‪ ،‬یہ سرگرمنی شوق‬ ‫طبع کو‪ ،‬الف ن‬
‫کہ جہاں تک چلے ‪ ،‬ساس سے قدم اور مجھ سے جبیں‬
‫دنل سالفت نسب‪ ،‬و سینۂ توحید فضا‬
‫نگنہ جلوہ پرست‪ ،‬و نفنس صدق گزیں‬
‫ف اعدا‪ ،‬اثنر شعلۂ دوند دوزخ‬ ‫صر ن‬
‫وقنف احباب‪ ،‬گل و سنبنل فردونس بریں‬
‫٭٭‬

‫بہ گمانن قطنع زحمت نہ دو چانر خامشی ہو‬


‫کہ زبانن سرمہ آلود‪ ،‬نہیں تینغ اصفہانی‬
‫بہ فرینب آشنائی‪ ،‬بہ خیانل بے وفائی‬
‫نہ رکھ آپ سے تعلق‪ ،‬مگر ایک بدگمانی‬
‫نظرے سوئے کہستان نہیں غینر شیشہ ساماں‬
‫جو گدانز دل ہو مطلب‪ ،‬تو چمن ہے سنگ جانی‬
‫بہ فراز گانہ عبرت‪ ،‬چہ بہار و سکو تماشا؟‬
‫کہ نگاہ ہے سیہ پوش بہ عزائے زندگانی‬
‫پہ فرانق رفتہ یاراں‪ ،‬خط و حرف‪ ،‬مو پریشاں‬
‫دنل غافل از حقیقت ہمہ ذونق قیصہ خوانی‬
‫تپنش دنل شکستہ‪ ،‬پئے عبرت آگہی ہے‬
‫کہ نہ دے عنانن فرصت بہ کشاکنش زبانی‬
‫نہ وفا کو آبرو ہے ‪ ،‬نہ جفا تمیز سجو ہے‬
‫ب جانفشانی؟ چہ غرونر دلستانی؟‬ ‫چہ حسا ن‬
‫ب گفتگو ہا‬ ‫بہ شکننج جستجو ہا‪ ،‬بہ سرا ن‬
‫تگ و تانز آرزو ہا‪ ،‬بہ فرینب شادمانی‬
‫نہیں شاہرانہ اوہام‪ ،‬بجز آں سوئے سیدن‬
‫تری سادگی ہے ‪ ،‬غافل‪ ،‬دنر دل پہ پاسبانی‬
‫چہ امید و نا امیدی ؟چہ نگاہ و بے نگاہی؟‬
‫ہمہ عرنض ناشکیبی؟ ہمہ سانز جانستانی‬
‫اگر آرزو ہے راحت‪ ،‬تو عبث بہ خوں تپیدن‬
‫کہ خیال ہو تعب کش بہ ہوائے کامرانی‬
‫ب عجز بہتر‬ ‫شر و شونر آرزو سے ‪ ،‬تب و تا ن‬
‫نہ کرے اگر ہوس پر‪ ،‬غنم بیدلی‪ ،‬گرانی‬
‫ب سوختن ہا‬ ‫ہونس فروختن ہا‪ ،‬تب و تا ن‬
‫سنر شمع نقنش پا ہے ‪ ،‬بسپانس ناتوانی‬
‫شرنر اسینر دل کو ملے اونج عرنض اظہار‬
‫جو بہ صورنت چراغاں کرے ‪ ،‬شعلہ نردبانی‬
‫ہوئی مشنق جرأت ناز‪ ،‬رہ و رسنم طرنح آداب‬
‫خنم پشت خوش نما تھا بہ گزارنش جوانی‬
‫اگر آرزو رسا ہو‪ ،‬پئے درند دل دوا ہو‬
‫وہ اجل کہ خوں بہا ہو بہ شہیند ناتوانی‬
‫غنم عجز کا سفینہ بہ کنانر بیدلی ہے‬
‫مگر ایک شہپنر مور کرے سانز بادبانی‬
‫مجھے انتعانش غم نے پئے عرنض حال بخشی‬
‫ہونس غزل سرائی‪ ،‬تپنش فسانہ خوانی‬
‫اس قصیدے کے سکل ‪ 29‬اشعار میں سے ‪ 3‬شعرغزل؎ "جو نہ نقند دانغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی" کے طور پر الگ سے (‬
‫) متداول دیوان میں درج ہوئے ہیں ۔ اس لیے اب یہ قصیدہ ‪ 26‬اشعار پر مشتمل ہے‬
‫٭٭‬

‫دنل نا سامید کیونکر‪ ،‬بہ تسلی آشنا ہو‬


‫جو امیدوار رہیے ‪ ،‬نہ بہ مرگ نا گہانی‬
‫مجھے بادۂ طرب سے بہ خمار گانہ قسمت‬
‫جو ملی تو تلخ کامی‪ ،‬جو ہوئی تو سر گرانی‬
‫نہ ستم کراب تو مجھ پر کہ وہ دن گئے کہ ہاں تھی‬
‫مجھے طاقت آزمانی‪ ،‬تجھے سالفت آزمانی‬
‫بہ ہزار سامید واری رہی ایک اشک باری‬
‫نہ ہوا حصونل زاری‪ ،‬بجز آستیں فشانی‬
‫ک صحبت‪ ،‬سو کہاں وہ بے دماغی؟‬ ‫کروں عذنر تر ن‬
‫نہ غرونر میرزائی‪ ،‬نہ فرینب ناتوانی‬
‫ب ہجر مت پوچھ‬ ‫ہمہ یک نفس تپش سے تب و تا ن‬
‫کہ ستم کنش جنوں ہوں‪ ،‬نہ بقدنر زندگانی‬
‫کنف موجۂ حیا ہوں بہ گذانر عرنض مطلب‬
‫کہ سرشک قطرہ زن ہے بہ پیانم دل رسانی‬
‫یہی بار بار جی میں مرے آئے ہے کہ غالبب‬
‫کروں خوانن گفتگو پر دل و جاں کی مہمانی‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫عالم‪ ،‬جہاں بہ عرنض بسانط وجود تھا‬


‫ک جیب‪ ،‬مجھے تار و پود تھا‬ ‫جوں صبح‪ ،‬چا ن‬
‫بازی خونر فریب ہے اہنل نظر کا ذوق‬
‫ہنگامہ‪ ،‬گرنم حیرنت بود و نبود تھا‬
‫عالم‪ ،‬طلسنم شہنر خموشاں ہے سر بسر‬
‫یا میں غرینب کشونر گفت و شنود تھا‬
‫جز قیس اور کو ئی نہ آیا بروئے کار‬
‫صحرا‪ ،‬مگر‪ ،‬بہ تنگنی چشنم حسود تھا‬
‫آشفتگی نے نقنش سویدا کیا درست‬
‫ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا‬
‫تھا‪ ،‬خواب میں‪ ،‬خیال کو تجھ سے معاملہ‬
‫جب آنکھ کھل گئی‪ ،‬نہ زیاں تھا‪ ،‬نہ سود تھا‬
‫تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن‪ ،‬اسدب‬
‫سر گشتۂ خمانر رسوم و قیود تھا‬
‫٭٭‬
‫تنگی رفینق رہ تھی‪ ،‬عدم یا وجود تھا‬
‫میرا سفر بہ طالنع چشنم حسود تھا‬
‫تو یک جہاں قمانش ہوس جمع کر‪ ،‬کہ میں‬
‫حیرت متانع عالنم نقصان و سود تھا‬
‫گردش محینط ظلم رہا جس قدر‪ ،‬فلک‬
‫میں پائمانل غمزۂ چشنم کبود تھا‬
‫پوچھا تھا گر چہ یار نے احوانل دل‪ ،‬مگر‬
‫ت گفت و شنود تھا‬ ‫کس کو دمانغ من ن‬
‫لیتا ہوں‪ ،‬مکتنب غنم دل میں‪ ،‬سبق ہنوز‬
‫لیکن یہی کہ "رفت" گیا اور "بود" تھا‬
‫ب برہنگی‬ ‫ڈھانپا کفن نے دانغ عیو ن‬
‫گ وجود تھا‬ ‫میں ورنہ ہر لباس میں نن ن‬
‫خور شبنم آشنا نہ ہوا‪ ،‬ورنہ میں اسدب‬
‫سر تا قدم گزارنش ذونق سجود تھا‬
‫٭٭‬

‫کہتے ہو‪ ":‬نہ دیں گے ہم" دل اگر پڑا پایا‬


‫دل کہاں کہ گم کیجے ؟ ہم نے مدعا پایا‬
‫شونر پنند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا‬
‫"آپ سے کوئی پوچھے ‪" ،‬تم نے کیا مزا پایا؟‬
‫ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب؟‬
‫ت امکاں کو ایک نقنش پا پایا‬ ‫ہم نے دش ن‬
‫ک امتحاں تاکے ؟‬ ‫بے دمانغ خجلت ہوں‪ ،‬رش ن‬
‫ایک بے کسی‪ ،‬تجھ کو عالم آشنا پایا‬
‫سادگی و پرکاری‪ ،‬بے خودی و ہشیاری‬
‫سحسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا‬
‫خاکبازنی سامید‪ ،‬کارخانۂ طفلی‬
‫یاس کو دو عالم سے لب بخندہ وا پایا‬
‫ت غالبب باج خوانہ تسکیں ہو؟‬ ‫کیوں نہ وحش ن‬
‫کشتۂ تغافل کو خصنم خوں بہا پایا‬
‫٭٭‬

‫عشق سے طبیعت نے ‪ ،‬زیست کا مزہ پایا‬


‫درد کی پائی‪ ،‬درند بے دوا پایا‬
‫غنچہ پھر لگا کھلنے ‪ ،‬آج ہم نے اپنا دل‬
‫خوں کیا ہوا دیکھا‪ ،‬سگم کیا ہوا پایا‬
‫فکنر نالہ میں‪ ،‬گویا‪ ،‬حلقہ ہوں ز سر تا پا‬
‫عضو عضو‪ ،‬جوں زنجیر‪ ،‬یک دنل صدا پایا‬
‫حانل دل نہیں معلوم‪ ،‬لیکن اس قدر یعنی‬
‫ہم نے بارہا ڈھونڈا‪ ،‬تم نے بارہا پایا‬
‫شب‪ ،‬نظارہ پرور تھا‪ ،‬خواب میں خرام ساس کا‬
‫صبح‪ ،‬موجۂ سگل کو نقنش بوریا پایا‬
‫جس قدر جگر خوں ہو‪ ،‬کوچہ دادنن دل ہے‬
‫زخنم تینغ قاتل کو طرفہ دلکشا پایا‬
‫ہے نگیں کی پا داری‪ ،‬نانم صاحنب خانہ‬
‫ہم سے تیرے کوچے نے ‪ ،‬نقنش مدعا پایا‬
‫دوست دانر دشمن ہے ‪ ،‬اعتماند دل معلوم‬
‫آہ بے اثر دیکھی‪ ،‬نالہ نارسا پایا‬
‫نے اسد جفا سائل‪ ،‬نے ستنم جنوں مائل‬
‫تجھ کو جس قدر ڈھونڈا‪ ،‬سالفت آزما پایا‬
‫٭٭‬
‫کارخانے سے جنوں کے بھی‪ ،‬میں عریاں نکل‬
‫میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکل‬
‫ساغنر جلوۂ سرشار ہے ‪ ،‬ہر ذرۂ خاک‬
‫شونق دیدار بل آئنہ ساماں نکل‬
‫!زخم نے داد نہ دی تنگنی دل کی‪ ،‬یا رب‬
‫تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکل‬
‫بوئے گل‪ ،‬نالہ دل‪ ،‬دوند چرانغ محفل‬
‫جو تری بزم سے نکل‪ ،‬سو پریشاں نکل‬
‫کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں‪ ،‬لیکن آخر‬
‫جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکل‬
‫کس قدر خاک ہوا ہے دنل مجنوں‪ ،‬یا رب‬
‫نقنش ہر ذرہ‪ ،‬سویدائے بیاباں نکل‬
‫دل میں پھر گریے نے اک شور ساٹھایا‪ ،‬غالبب‬
‫آہ !جو قطرہ نہ نکل تھا‪ ،‬سو طوفاں نکل‬
‫٭٭‬

‫دہر میں نقنش وفا وجنہ تسلی نہ ہوا‬


‫ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا‬
‫ت خنط رنخ یار‬‫نہ ہوئی ہم سے رقم حیر ن‬
‫صفحہ آئنہ‪ ،‬جولں نگہ طوطی نہ ہوا‬
‫ت حق دیکھ کہ بخشا جاوے‬ ‫ت رحم ن‬
‫وسع ن‬
‫مجھ سا کافر کہ جو ممنونن معاصی نہ ہوا تھا‬
‫سبزۂ خط سے ترا کاکنل سرکش نہ دبا‬
‫یہ زمرد بھی حرینف دنم افعی نہ ہوا‬
‫میں نے چاہا تھا کہ اندونہ وفا سے چھوٹوں‬
‫وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا‬
‫دل گزر گاہ خیانل مے و ساغر ہی سہی‬
‫گر ندفس‪ ،‬جادۂ سر منزنل تقوی نہ ہوا‬
‫ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی‬
‫گ تسیلی نہ ہوا‬ ‫گوش‪ ،‬منت کنش گلبان ن‬
‫کس سے محرومئ قسمت کی شکایت کیجیے ؟‬
‫ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں‪ ،‬سو وہ بھی نہ ہوا‬
‫مر گیا صدمۂ یک جنبنش لب سے غالبب‬
‫ناتوانی سے ‪ ،‬حریف دنم عیسی نہ ہوا‬
‫٭٭‬

‫جب بہ تقرینب سفر‪ ،‬یار نے محمل باندھا‬


‫تپنش شوق نے ہر ذیرے پہ اک دل باندھا‬
‫ناتوانی ہے تماشائی عمنر رفتہ‬
‫رنگ نے آئنہ آنکھوں کے مقابل باندھا‬
‫اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخئ ناز‬
‫جوہنر آئینہ کو طوطنی بسمل باندھا‬
‫ت اسیرانن تغافل مت پوچھ‬ ‫اصطلحا ن‬
‫جو گرہ آپ نہ کھولی‪ ،‬اسے مشکل باندھا‬
‫یاس و امید نے اک عدربدہ میداں مانگا‬
‫عجنز ہمت نے نطنلسنم دنل سائل باندھا‬
‫نہ بندھے نتشنگنی ذوق کے مضموں‪ ،‬غالبب‬
‫گرچہ دل کھول کے ‪ ،‬دریا کو بھی ساحل باندھا‬
‫ک ہر خار سے تھا بس کہ سر دزدنی زخم‬ ‫نو ن‬
‫جوں نمد‪ ،‬ہم نے کنف پا پہ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬دل باندھا‬
‫٭٭‬
‫شوق‪ ،‬ہر رنگ رقینب سر و ساماں نکل‬
‫قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکل‬
‫ت درد‬‫دنل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذ ن‬
‫کام یاروں کا بہ قدرر لب و دنداں نکل‬
‫شونر رسوائنی دل دیکھ کہ یک نالہ شوق‬
‫لکھ پردے میں چھپا‪ ،‬پر وہی عریاں نکل‬
‫گ حنا‪ ،‬خونن وفا سے ‪ ،‬کب تک؟‬ ‫شوخنی رن ن‬
‫آخر‪ ،‬اے عہد شکن‪ ،‬تو بھی پشیماں نکل‬
‫ت دشوار پسند‬ ‫ہے نو آمونز فنا‪ ،‬ہم ن‬
‫سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکل‬
‫میں بھی معذونر جنوں ہوں‪ ،‬اسدب ‪ ،‬اے خانہ خراب‬
‫پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکل‬
‫٭٭‬

‫نہ ہو گا‪ ،‬یک بیاباں ماندگی سے ‪ ،‬ذوق کم میرا‬


‫ب موجۂ رفتار ہے ‪ ،‬نقنش قدم میرا‬ ‫حبا ن‬
‫رنہ خوابیدہ‪ ،‬تھی گردن کنش یک درس آگاہی‬
‫زمیں کو سیلنی استاد ہے ‪ ،‬نقنش قدم میرا‬
‫محبت تھی چمن سے ‪ ،‬لیکن اب یہ بیدماغی ہے‬
‫کہ مونج بوئے گل سے ‪ ،‬ناک میں آتا ہے ‪ ،‬دم میرا‬
‫سراغ آوارہ عرنض دو عالم شونر محشر ہوں‬
‫پر افشاں ہے غبار‪ ،‬آں سوئے صحرائے عدم‪ ،‬میرا‬
‫ب سطنر آگاہی‬ ‫ت کنش درنس سرا ن‬‫نہ ہو وحش ن‬
‫غبانر رہ ہوں‪ ،‬بے مدعا ہے پیچ و خم میرا‬
‫ہوائے صبح‪ ،‬یک عالم گریباں چاکنی گل ہے‬
‫دہانن زخم پیدا کر‪ ،‬اگر کھاتا ہے غم میرا‬
‫ت گوشہ تنہائنی دل ہوں‬ ‫اسدب ‪ ،‬وحشت پرس ن‬
‫گ مونج مے ‪ ،‬خمیازہ ساغر ہے ‪ ،‬رم میرا‬ ‫برن ن‬
‫٭٭‬

‫ت تپش‪ ،‬در بھی دور تھا‬ ‫ضعنف جنوں کو‪ ،‬وق ن‬


‫اک‪ ،‬گھر میں‪ ،‬مختصر سا بیاباں ضرور تھا‬
‫ت نگنہ شوق! ورنہ یاں‬ ‫اے وائے غفل ن‬
‫ت دنل کونہ طور تھا‬ ‫ہر پارہ سنگ لخ ن‬
‫درنس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے‬
‫وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا‬
‫شاید کہ مر گیا ترے رخسار دیکھ کر‬
‫پیمانہ رات‪ ،‬ماہ کا لبرینز نور تھا‬
‫آئینہ دیکھ‪ ،‬اپنا سا منہ لے کے رہ گئے‬
‫صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا‬
‫قاصد کو‪ ،‬اپنے ہاتھ سے ‪ ،‬گردن نہ ماریے‬
‫اس کی خطا نہیں ہے ‪ ،‬یہ میرا قصور تھا‬
‫جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر‬
‫جوہر سواد‪ ،‬جلوۂ مژگانن حور تھا‬
‫ہر رنگ میں جل اسدب فتنہ انتظار‬
‫پروانہ تجلی شمنع ظہور تھا‬
‫٭٭‬
‫خود پرستی سے رہے باہمدگر نا آشنا‬
‫بیکسی میری شریک‪ ،‬آئینہ تیرا آشنا‬
‫آتنش موئے دمانغ شوق ہے ‪ ،‬تیرا تپاک‬
‫ورنہ ہم کس کے ہیں‪ ،‬اے دانغ تمنا‪ ،‬آشنا؟‬
‫!رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلص حیف‬
‫عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا ؟‬
‫ک ہم دیگر نہیں‬ ‫بے دماغی شکوہ سننج رش ن‬
‫یار تیرا جانم مے ‪ ،‬خمیازہ میرا آشنا‬
‫جوہنر آئینہ‪ ،‬جز رمنز سنر مژگاں نہیں‬
‫آشنا کی‪ ،‬ہمدگر سمجھے ہے ‪ ،‬ایما آشنا‬
‫ربنط یک شیرازہ وحشت ہیں‪ ،‬اجزائے بہار‬
‫!سبزہ بیگانہ‪ ،‬صبا آوارہ‪ ،‬گل نا آشنا‬
‫ذیرہ ذیرہ ساغنر مے خانۂ نیرنگ ہے‬
‫گردنش مجنوں بہ چشمکہاے لیلیی آشنا‬
‫ب عجز‬ ‫شوق ہے ساماں طرانز نازنش اربا ن‬
‫ذیرہ صحرا دست گاہ‪ ،‬و قطرہ دریا آشنا‬
‫میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دنل وحشی‪ ،‬کہ ہے‬
‫عافیت کا دشمن‪ ،‬اور آوارگی کا آشنا‬
‫ک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے‬ ‫شکوہ سننج رش ن‬
‫میرا زانو مونس‪ ،‬اور آئینہ تیرا آشنا‬
‫کوہکن نیقانش یک تمثانل شیریں تھا‪ ،‬اسدب‬
‫سنگ سے ‪ ،‬سر مار کر‪ ،‬ہووے نہ پیدا آشنا‬
‫٭٭‬

‫شب خمانر شونق ساقی رستخیز اندازہ تھا‬


‫تا محینط بادہ‪ ،‬صورت خانۂ خمیازہ تھا‬
‫یک قدم وحشت سے ‪ ،‬درنس دفتر امکاں کھل‬
‫جادہ‪ ،‬اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا‬
‫ہوں چراغانن ہوس‪ ،‬جوں کاغنذ آتش زدہ‬
‫داغ‪ ،‬گرنم کوشنش ایجاند دانغ تازہ تھا‬
‫ماننع وحشت خرامی ہائے لیلیی کون ہے ؟‬
‫خانۂ مجنونن صحرا گرد‪ ،‬بے دروازہ تھا‬
‫پوچھ مت رسوائنی اندانز استغنائے حسن‬
‫دست مرہونن حنا‪ ،‬رخسار رہنن غازہ تھا‬
‫ت دل‪ ،‬بہ باد‬ ‫نالۂ دل نے دیئے ‪ ،‬اورانق لخ ن‬
‫یادگانر نالہ‪ ،‬اک دیوانن بے شیرازہ تھا‬
‫بے نوائی تر صدائے نغمہ شہرت‪ ،‬اسدب‬
‫بوریا‪ ،‬یک نیستاں عالم بلند آوازہ تھا‬
‫٭٭‬

‫وہ میری چینن جبیں سے ‪ ،‬غنم پنہاں سمجھا‬


‫رانز مکتوب‪ ،‬بہ بے ربطنی عنواں سمجھا‬
‫یک الف بیش نہیں‪ ،‬صیقنل آئینہ ہنوز‬
‫چاک کرتا ہوں‪ ،‬میں جب سے کہ گریباں سمجھا‬
‫ب گرفتارنئ خاطر مت پوچھ‬ ‫شرنح اسبا ن‬
‫اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا‬
‫ہم نے وحشت کدہ بزنم جہاں میں‪ ،‬جوں شمع‬
‫شعلہ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا‬
‫تھا گریزاں مژنہ یار سے ‪ ،‬دل‪ ،‬تا دنم مرگ‬
‫دفنع پیکانن قضا ناس قدر آساں سمجھا‬
‫عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہو گا‬
‫نبنض خس سے ‪ ،‬تپنش شعلۂ سوزاں سمجھا‬
‫سفنر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی‬
‫ہر قدم‪ ،‬سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا‬
‫بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرنم خرام‬
‫رخ پہ ہر قطرہ عرق‪ ،‬دیدۂ حیراں سمجھا‬
‫دل دیا جان کے ‪ ،‬کیوں‪ ،‬اس کو وفادار‪ ،‬اسدب‬
‫غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا‬
‫٭٭‬

‫گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگنی جا کا‬


‫گہر میں محو ہوا‪ ،‬اضطراب دریا کا‬
‫یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسنخ مکتوب‬
‫مگر ستم زدہ ہوں‪ ،‬ذونق خامہ فرسا کا‬
‫حنائے پائے خزاں ہے ‪ ،‬بہار اگر ہے یہی‬
‫ت خاطر‪ ،‬ہے عیش دنیا کا‬ ‫دوانم کلف ن‬
‫ت جولنن یک جنوں ہم کو‬ ‫ملی نہ وسع ن‬
‫عدم کولے گئے دل میں غبار صحرا کا‬
‫مرا شمول ہر اک دل کے پیچ تاب میں ہے‬
‫میں مدعا ہوں تپش نامہ تمنا کا‬
‫غنم فراق میں تکلینف سینر باغ نہ دو‬
‫مجھے ‪ ،‬دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا‬
‫ہنوز محرمنی حسن کو ترستا ہوں‬
‫کرے ہے ‪ ،‬ہر بسنن مو‪ ،‬کام چشنم بینا کا‬
‫دل اس کو‪ ،‬پہلے ہی ناز و ادا سے ‪ ،‬دے بیٹھے‬
‫ہمیں دماغ کہاں‪ ،‬حسن کے تقاضا کا؟‬
‫ت دل ہے‬ ‫نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدانر حسر ن‬
‫مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا‬
‫فلک کو دیکھ کے ‪ ،‬کرتا ہوں ساس کو یاد‪ ،‬اسدب‬
‫جفا میں اس کی‪ ،‬ہے انداز کارفرما کا‬
‫٭٭‬

‫کس کا خیال‪ ،‬آئنہ انتظار تھا‬


‫گ گل کے پردے میں دل بیقرار تھا‬ ‫ہر بر ن‬
‫کس کا جنونن دید‪ ،‬تمنا کا شکار تھا‬
‫آئینہ خانہ‪ ،‬وادنی جوہنر غبار تھا‬
‫ت فانل نظر نہ پوچھ‬ ‫جوں غنچہ و گل‪ ،‬آف ن‬
‫پیکاں سے تیرے ‪ ،‬جلوہ زخم‪ ،‬آشکار تھا‬
‫ایک ایک قطرے کا‪ ،‬مجھے دینا پڑا‪ ،‬حساب‬
‫ت مژگانن یار تھا‬‫خونن جگر‪ ،‬ودیع ن‬
‫اب میں ہوں اور ماتنم یک شہنر آرزو‬
‫توڑا جو تو نے آئنہ‪ ،‬تمثال دار تھا‬
‫کم جانتے تھے ہم بھی غنم عشق کو‪ ،‬پر اب‬
‫دیکھا‪ ،‬تو کم ہوئے پہ‪ ،‬غنم روزگار تھا‬
‫ت رنج و نشانط دہر‬ ‫دیکھی وفائے فرص ن‬
‫خمیازہ‪ ،‬یک درازنی عمنر خمار تھا‬
‫گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو‪ ،‬کہ میں‬
‫جاں دادۂ ہوائے سنر رہگزار تھا‬
‫ت وفا کا نہ پوچھ حال‬ ‫ب دش ن‬
‫مونج سرا ن‬
‫ہر ذرہ‪ ،‬مثنل جوہنر تیغ‪ ،‬آب دار تھا‬
‫صبنح قیامت ایک سدنم گرگ تھی‪ ،‬اسدب‬
‫جس دشت میں وہ شونخ دو عالم شکار تھا‬
‫٭٭‬

‫بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا‬


‫آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‬
‫گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی‬
‫در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا‬
‫وائے دیوانگنی شوق! کہ ہر دم مجھ کو‬
‫آپ جانا سادھر‪ ،‬اور آپ ہی حیراں ہونا‬
‫جلوہ از بسکہ‪ ،‬تقاضائے نگہ کرتا ہے‬
‫جوہنر آئنہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا‬
‫ت قتل گنہ اہنل تمنا مت پوچھ‬ ‫عشر ن‬
‫عیند نظارہ ہے ‪ ،‬شمشیر کا عریاں ہونا‬
‫لے گئے خاک میں ہم دانغ تمنائے نشاط‬
‫تو ہو اور آپ بصد رنگ گلستاں ہونا‬
‫عشرنت پارۂ دل‪ ،‬زخنم تمنا کھانا‬
‫ت رینش جگر‪ ،‬غرنق نمکداں ہونا‬ ‫لذ ن‬
‫کی مرے قتل کے بعد‪ ،‬ساس نے جفا سے توبہ‬
‫ہائے !ساس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‬
‫حیف! ساس چار گرہ کپڑے کی قسمت‪ ،‬غالبب‬
‫جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا‬
‫٭٭‬

‫پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‬


‫دل جگر تشنۂ فریاد آیا‬
‫دم لیا تھا نہ قامت نے ہنوز‬
‫ت سفر یاد آیا‬ ‫پھر ترا وق ن‬
‫سادگی ہائے تمنا‪ ،‬یعنی‬
‫گ نظر یاد آیا‬ ‫پھر وہ نیرن ن‬
‫ت دل‬ ‫عذنر واماندگی‪ ،‬اے حسر ن‬
‫نالہ کرتا تھا‪ ،‬جگر یاد آیا‬
‫زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی‬
‫کیوں ترا راہ گزر یاد آیا‬
‫کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی‬
‫گھر ترا‪ ،‬خلد میں گر یاد آیا‬
‫ت فریاد کہاں‬ ‫آہ وہ جرأ ن‬
‫دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا‬
‫پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال‬
‫دنل گم گشتہ‪ ،‬مگر یاد آیا‬
‫کوئی ویرانی سی ویرانی ہے‬
‫دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا‬
‫میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں‪ ،‬اسدب‬
‫سنگ ساٹھایا تھا کہ سر یاد آیا‬
‫٭٭‬

‫تو دوست کسی کا بھی‪ ،‬ستمگر‪ ،‬نہ ہوا تھا‬


‫اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا‬
‫ت قضا نے‬ ‫چھوڑا‪ ،‬منہ نخشب کی طرح‪ ،‬دس ن‬
‫خورشید‪ ،‬ہنوز‪ ،‬اس کے برابر نہ ہوا تھا‬
‫توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ‪ ،‬ازل سے‬
‫آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا‬
‫جب تک کہ نہ دیکھا تھا قند یار کا عالم‬
‫میں معتقند فتنۂ محشر نہ ہوا تھا‬
‫میں سادہ دل‪ ،‬آزردگنی یار سے خوش ہوں‬
‫یعنی‪ ،‬سبنق شونق مکیرر نہ ہوا تھا‬
‫دریائے معاصی ستنک آبی سے ہوا خشک‬
‫میرا سنر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا‬
‫جاری تھی اسدب ! دانغ جگر سے مری تحصیل‬
‫آ تشکدہ‪ ،‬جاگینر دسدمندر نہ ہوا تھا‬
‫٭٭‬

‫نفس نہ انجمنن آرزو سے باہر کھینچ‬


‫اگر شراب نہیں‪ ،‬انتظانر ساغر کھینچ‬
‫کمانل گرمنی سعنی تلنش دید نہ پوچھ‬
‫گ خار‪ ،‬مرے آئنے سے جوہر کھینچ‬ ‫برن ن‬
‫تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار‪ ،‬اے دل‬
‫کیا ہے کس نے اشارہ کہ نانز بستر کھینچ‬
‫تری طرف ہے بہ حسرت‪ ،‬نظارۂ نرگس‬
‫بہ کورنی دل و چشنم رقیب‪ ،‬ساغر کھینچ‬
‫ت ناز‬ ‫بہ نیم غمزہ ادا کر حنق ودیع ن‬
‫نیانم پردۂ زخنم جگر سے خنجر کھینچ‬
‫مرے قدح میں ہے صہبائے آتنش پنہاں‬
‫ب دنل سمندر کھینچ‬ ‫بہ روئے سفرہ‪ ،‬کبا ن‬
‫ت رسوائنی وصال نہیں‬ ‫نہ کہہ کہ طاق ن‬
‫اگر یہی عرنق فتنہ ہے ‪ ،‬مکرر کھینچ‬
‫جنونن آئنہ‪ ،‬مشتانق یک تماشا ہے‬
‫ہمارے صفحے پہ بانل پری سے مسطر کھینچ‬
‫ت ساقی اگر یہی ہے ‪ ،‬اسدب‬ ‫خمانر من ن‬
‫دنل گداختہ کے میکدے میں ساغر کھینچ‬
‫٭٭‬

‫سحسن‪ ،‬غمزے کی کشاکش سے چسھٹا میرے بعد‬


‫بارے آرام سے ہیں اہنل جفا‪ ،‬میرے بعد‬
‫منصنب شیفتگی کے ‪ ،‬کوئی‪ ،‬قابل نہ رہا‬
‫ہوئی معزولنی انداز و ادا‪ ،‬میرے بعد‬
‫شمع بجھتی ہے ‪ ،‬تو ساس میں سے دسھواں ساٹھتا ہے‬
‫شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا‪ ،‬میرے بعد‬
‫خوں ہے دل خاک میں احوانل بتاں پر‪ ،‬یعنی‬
‫سان کے ناخن ہوئے محتانج حنا‪ ،‬میرے بعد‬
‫در خونر عرض نہیں‪ ،‬جوہنر بیداد کو‪ ،‬جا‬
‫نگنہ ناز ہے سسرمے سے خفا‪ ،‬میرے بعد‬
‫ہے جنوں‪ ،‬اہنل جنوں کے لیے ‪ ،‬آغونش وداع‬
‫چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا‪ ،‬میرے بعد‬
‫کون ہوتا ہے حرینف مئے مرد افگنن عشق‬
‫ہے مکرر لنب ساقی میں صل‪ ،‬میرے بعد‬
‫غم سے مرتا ہوں‪ ،‬کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی‬
‫ت مہر و وفا‪ ،‬میر ے بعد‬ ‫کہ کرے تعزی ن‬
‫تھی‪ ،‬نگہ میری نہاں خانہ دل کی نقاب‬
‫ب ریا‪ ،‬میرے بعد‬ ‫بے خطر جیتے ہیں اربا ن‬
‫تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ‬
‫متفرق ہوئے میرے رفقا‪ ،‬میرے بعد‬
‫آئے ہے بیکسنی عشق پہ رونا‪ ،‬غالبب‬
‫ب بل‪ ،‬میرے بعد‬ ‫کس کے گھر جائے گا سیل ن‬
‫٭٭‬

‫بل سے ‪ ،‬ہیں جو یہ پینش نظر در و دیوار‬


‫نگانہ شوق کو ہیں بال و پر‪ ،‬در و دیوار‬
‫وفونر اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ‬
‫کہ ہو گئے مرے دیوار و در‪ ،‬در و دیوار‬
‫نہیں ہے سایہ کہ سسن کر نویند مقدنم یار‬
‫گئے ہیں چند قدم پیشتر‪ ،‬در و دیوار‬
‫ہوئی ہے کس قدر ارزاننی مئے جلوہ‬
‫کہ مست ہے ترے کوچے میں‪ ،‬ہر در و دیوار‬
‫جو ہے تجھے سنر سودائے انتظار‪ ،‬تو آ‬
‫کہ ہیں دکانن متانع نظر‪ ،‬در و دیوار‬
‫ہجونم گریہ کا سامان کب کیا میں نے ؟‬
‫کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر‪ ،‬در و دیوار‬
‫وہ آ رہا مرے ہمسایے میں‪ ،‬تو سایے سے‬
‫ہوئے فدا در و دیوار پر‪ ،‬در و دیوار‬
‫نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی‬
‫ہمیشہ روتے ہیں ہم‪ ،‬دیکھ کر‪ ،‬در و دیوار‬
‫نہ پوچھ بے خودنی عینش مقدنم سیلب‬
‫کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر‪ ،‬در و دیوار‬
‫نہ کہہ کسی سے کہ غالبب ‪ ،‬نہیں زمانے میں‬
‫حرینف رانز محبت‪ ،‬مگر‪ ،‬در و دیوار‬
‫٭٭‬

‫ت مہنر درخشاں پر‬ ‫لرزتا ہے مرا دل زحم ن‬


‫میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خانر بیاباں پر‬
‫نہ چھوڑی حضرت یوسفف نے یاں بھی خانہ آرائی‬
‫سفیدی دیدۂ یعقوبف کی پھرتی ہے زنداں پر‬
‫!دنل خونیں جگر بے صبر‪ ،‬و فینض عشق مستغنی‬
‫ایلہی یک قیامت خاور آ ٹوٹے بدخشاں پر‬
‫فنا تعلینم درنس بیخودی ہوں ساس زمانے سے‬
‫کہ مجنوں" لم الف" لکھتا تھا دیوانر دبستاں پر‬
‫فراغت کس قدر رہتی مجھے ‪ ،‬تشوینش مرہم سے‬
‫بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمکداں پر‬
‫نہیں اقلینم الفت میں کوئی طومانر ناز ایسا‬
‫ت چشم سے جس کے ‪ ،‬نہ ہووے مسہر عنواں پر‬ ‫کہ پش ن‬
‫!مجھے اب دیکھ کر ابنر شفق آلودہ‪ ،‬یاد آیا‬
‫کہ فرقت میں تری‪ ،‬آتش برستی تھی گلستاں پر‬
‫!بجز پروانز شونق ناز کیا باقی رہا ہو گا‬
‫ک شہیداں پر‬ ‫قیامت اک ہوائے تند ہے خا ن‬
‫نہ لڑ ناصح سے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬کیا ہوا گر اس نے شدت کی‬
‫ہمارا بھی تو‪ ،‬آخر‪ ،‬زور چلتا ہے گریباں پر‬
‫٭٭‬

‫حرینف مطلنب مشکل نہیں‪ ،‬فسونن نیاز‬


‫"!دعا قبول ہو‪ ،‬یارب‪ ،‬کہ "عمنر خضر دراز‬
‫نہ ہو‪ ،‬بہ ہرزہ‪ ،‬بیاباں نورند وہنم وجود‬
‫ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز‬
‫ت ایجاد کا تماشا دیکھ‬ ‫فرینب صنع ن‬
‫نگاہ عکس فروش‪ ،‬و خیال آئنہ ساز‬
‫وصال‪ ،‬جلوہ تماشا ہے ‪ ،‬پر دماغ کہاں؟‬
‫کہ دیجے آئنۂ انتظار کو پرواز‬
‫گ رسوائی‬ ‫ہنوز‪ ،‬اے اثنر دید‪ ،‬نن ن‬
‫نگاہ فتنہ خرام‪ ،‬و دنر دو عالم باز‬
‫ز بس کہ جلوۂ صیاد حیرت آرا ہے‬
‫ت پرواز‬‫اڑی ہے صفحۂ خاطر سے صور ن‬
‫ہجونم فکر سے دل مثنل موج لرزاں ہے‬
‫کہ شیشہ نازک‪ ،‬و صہبا ہے آبگینہ گداز‬
‫ہر ایک ذرۂ عاشق ہے آفتاب پرست‬
‫گئی نہ‪ ،‬خاک ہوئے پر‪ ،‬ہوائے جلوۂ ناز‬
‫ت میخانۂ جنوں‪ ،‬غالبب‬‫نہ پوچھ وسع ن‬
‫جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز‬
‫ک وفا کا گماں وہ معنی ہے‬ ‫اسدب سے تر ن‬
‫کہ کھینچیے پنر طائر سے صور ن‬
‫ت پرواز‬
‫٭٭‬

‫نہ گنل نغمہ ہوں‪ ،‬نہ پردۂ ساز‬


‫میں ہوں اپنی شکست کی آواز‬
‫تو اور آرائنش خنم کاکل‬
‫میں اور اندیشہ ہائے دور دراز‬
‫ف تمکیں‪ ،‬فرینب سادہ دلی‬ ‫ل ن‬
‫ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز‬
‫ت صیاد‬ ‫ہوں گرفتانر سالف ن‬
‫ن‬
‫ورنہ باقی ہے طاقت پرواز‬
‫وہ بھی دن ہو! کہ ساس ستمگر سے‬
‫ت ناز‬ ‫ناز کھینچوں‪ ،‬بجائے حسر ن‬
‫نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں‬
‫جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز‬
‫!اے ترا غمزہ‪ ،‬یک قلم انگیز‬
‫اے ترا ظلم! سر بسر انداز‬
‫ستو ہوا جلوہ گر‪ ،‬مبارک ہو‬
‫ریزنش سجدۂ جبینن نیاز‬
‫مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا‬
‫میں غریب اور تو غریب نواز‬
‫اسد اللہ خاں تمام ہوا‬
‫!اے دریغا‪ ،،‬وہ رنند شاہد باز‬
‫٭٭‬

‫زخم پر چھڑکیں کہاں‪ ،‬طفلنن بے پروا نمک‬


‫کیا مزہ ہوتا‪ ،‬اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک‬
‫گرند رانہ یار‪ ،‬ہے سامانن نانز زخنم دل‬
‫ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک‬
‫!مجھ کو ارزانی رہے ‪ ،‬تجھ کو مبارک ہو جیو‬
‫نالۂ بلبل کا درد‪ ،‬اور خندۂ گل کا نمک‬
‫شونر جولں تھا کنانر بحر پر کس کا؟ کہ آج‬
‫گرند ساحل ہے بہ زخنم موجۂ دریا نمک‬
‫چھوڑ کر جانا تنن مجرونح عاشق حیف ہے‬
‫دل طلب کرتا ہے زخم‪ ،‬اور مانگیں ہیں اعضا نمک‬
‫!داد دیتا ہے مرے زخنم جگر کی‪ ،‬واہ وا‬
‫یاد کرتا ہے مجھے ‪ ،‬دیکھے ہے وہ جس جا نمک‬
‫!غیر کی منت نہ کھینچوں گا‪ ،‬پئے توفینر درد‬
‫زخنم‪ ،‬مثنل خندۂ قاتل‪ ،‬ہے سر تا پا نمک‬
‫یاد ہیں‪ ،‬غالبب ‪ ،‬تجھے وہ دن کہ وجند ذوق میں‬
‫زخم سے گرتا‪ ،‬تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک‬
‫اس عمل میں عیش کی لذت نہیں ملتی‪ ،‬اسدب‬
‫زور نسبت مے سے رکھتا ہے ‪ ،‬نصارا کا نمک‬
‫٭٭‬

‫آہ کو چاہیے اک عمر‪ ،‬اثر ہوتے تک‬


‫کون جیتا ہے ‪ ،‬تری زلف کے سر ہوتے تک؟‬
‫دانم ہر موج میں ہے ‪ ،‬حلقۂ صد کانم نہنگ‬
‫دیکھیں‪ ،‬کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک‬
‫عاشقی صبر طلب‪ ،‬اور تمنا بے تاب‬
‫دل کا کیا رنگ کروں خونن جگر ہوتے تک‬
‫تا قیامت شنب فرقت میں گزر جائے گی عمر‬
‫سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں‪ ،‬سحر ہوتے تک‬
‫ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ‪ ،‬لیکن‬
‫خاک ہو جائیں گے ہم‪ ،‬تم کو خبر ہوتے تک‬
‫پرتنو خور سے ‪ ،‬ہے شبنم کو فنا کی تعلیم‬
‫میں بھی ہوں‪ ،‬ایک عنایت کی نظر ہوتے تک‬
‫ت ہستی‪ ،‬غافل‬ ‫یک نظر بیش نہیں‪ ،‬فرص ن‬
‫گرمنی بزم ہے ‪ ،‬اک رقنص شرر ہوتے تک‬
‫غنم ہستی کا‪ ،‬اسدب ‪ ،‬کس سے ہو‪ ،‬جز مرگ علج؟‬
‫شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک‬
‫٭٭‬

‫رہتے ہیں افسردگی سے سخت بیدردانہ‪ ،‬ہم‬


‫شعلہ ہا نذنر سمندر‪ ،‬بلکہ آتش خانہ‪ ،‬ہم‬
‫ت عرنض تمنا یاں سے سمجھا چاہیے‬ ‫حسر ن‬
‫دو جہاں حشنر زبانن خشک ہیں‪ ،‬جوں شانہ‪ ،‬ہم‬
‫کشتنی عالم بہ طوفانن تغافل دے ‪ ،‬کہ ہیں‬
‫ب گدانز جوہنر افسانہ‪ ،‬ہم‬
‫عالنم آ ن‬
‫ت بے ربطی پیچ و خنم ہستی نہ پوچھ‬ ‫وحش ن‬
‫گ بالیدن ہیں‪ ،‬جوں موئے سنر دیوانہ ہم‬ ‫نن ن‬
‫٭٭‬

‫پاؤں میں جب وہ حنا باندھتے ہیں‬


‫میرے ہاتھوں کو جدا باندھتے ہیں‬
‫آہ کا‪ ،‬کس نے ‪ ،‬اثر دیکھا ہے ؟‬
‫ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں‬
‫حسنن افسردہ دلی ہا رنگیں‬
‫شوق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں‬
‫تیرے بیمار پہ ہیں فریادی‬
‫وہ جو کاغذ میں دوا باندھتے ہیں‬
‫قید میں بھی ہے ‪ ،‬اسیری‪ ،‬آزاد‬
‫چشنم زنجیر کو وا باندھتے ہیں‬
‫شیخ جی کعبے کا جانا معلوم‬
‫آپ مسجد میں گدھا باندھتے ہیں‬
‫کس کا دل زلف سے بھاگا ؟ کہ اسدب‬
‫ت شانہ بہ قفا باندھتے ہیں‬ ‫دس ن‬
‫٭٭‬

‫تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں‬


‫ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں‬
‫تیری فرصت کے مقابل‪ ،‬اے عمر‬
‫برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں‬
‫قیند ہستی سے رہائی معلوم‬
‫اشک کو بے سرو پا باندھتے ہیں‬
‫نشۂ رنگ سے ہے ‪ ،‬واشند گل‬
‫مست کب بنند قبا باندھتے ہیں‬
‫غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ‬
‫لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں‬
‫اہنل تدبیر کی واماندگیاں‬
‫آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں‬
‫سادہ سپر کار ہیں خوباں‪ ،‬غالبب‬
‫ہم سے پیمانن وفا باندھتے ہیں‬
‫٭٭‬

‫طاؤس نمط‪ ،‬داغ کے گر رنگ نکالوں‬


‫یک فرند نسب نامۂ نیرنگ نکالوں‬
‫سکو تیزنی رفتار؟ کہ صحرا سے زمیں کو‬
‫جوں قمرنی بسمل‪ ،‬تپش آہنگ نکالوں‬
‫ب منہ نو ہے‬ ‫دامانن شفق‪ ،‬طر ن‬
‫ف نقا ن‬
‫ناخن کو جگر کاوی میں بے رنگ نکالوں‬
‫ت دیگر ہے ‪ ،‬فشانر دنل خونیں‬ ‫!کیفی ن‬
‫یک غنچہ سے صد سخم مے گلرنگ نکالوں‬
‫پیمانۂ وسعت کدۂ شوق ہوں‪ ،‬اے رشک‬
‫محفل سے مگر شمع کو دل تنگ نکالوں‬
‫گر ہو بلند شوق مری خاک کو وحشت‬
‫صحرا کو بھی گھر سے کئی فرسنگ نکالوں‬
‫ت رسوائنی دل سے‬ ‫فریاد! اسدب غفل ن‬
‫کس پردے میں فریاد کی آہنگ نکالوں‬
‫٭٭‬

‫کیا ضعف میں امید کو دل تنگ نکالوں؟‬


‫میں خار ہوں‪ ،‬آتش میں چبھوں‪ ،‬رنگ نکالوں‬
‫نے کوچۂ رسوائی و زنجیر پریشاں‬
‫کس پردے میں فریاد کی آہنگ نکالوں‬
‫یک نشو و نما جا نہیں جولنن ہوس کو‬
‫ہر چند بمقدانر دنل تنگ نکالوں‬
‫گر جلوۂ خورشید خریدانر وفا ہو‬
‫جوں ذرۂ صد آئینہ بے زنگ نکالوں‬
‫افسردۂ تمکیں ہے ‪ ،‬نفس گرمی احباب‬
‫پھر شیشے سے عطنر شرنر سنگ نکالوں‬
‫ت دگراں ہے‬ ‫ضعف‪ ،‬آئنہ پردازنی دس ن‬
‫تصویر کے پردے میں مگر رنگ نکالوں‬
‫ہے غیرنت الفت کہ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬ساس کی ادا پر‬
‫گر دیدہ و دل صلح کریں‪ ،‬جنگ نکالوں‬
‫٭٭‬

‫بقدنر لفظ و معنی‪ ،‬فکرت احرانم گریباں ہیں‬


‫وگرنہ کیجیے جو ذرہ عریاں‪ ،‬ہم نمایاں ہیں‬
‫عرونج نشۂ واماندگی پیمانہ محمل تر‬
‫گ ریشۂ تاک‪ ،‬آبلے جادے میں پنہاں ہیں‬ ‫برن ن‬
‫بہ وحشت گانہ امکاں اتفانق چشم مشکل ہے‬
‫ب پریشاں ہیں‬ ‫مہ و خورشید باہم سانز یک خوا ن‬
‫طلسنم آفرینش‪ ،‬حلقۂ یک بزنم ماتم ہے‬
‫زمانے کے ‪ ،‬شنب یلدا سے ‪ ،‬موئے سر پریشاں ہیں‬
‫یہ کس بے مہر کی تمثال کا ہے جلوہ سیمابی‬
‫کہ مثنل ذرہ ہائے خاک‪ ،‬آئینے پر افشاں ہیں‬
‫ت موزوں‬‫نہ انشا معننی مضموں‪ ،‬نہ امل صور ن‬
‫عنایت نامہ ہائے اہنل دنیا‪ ،‬ہرزہ عنواں ہیں‬
‫مگر آتش ہمارا کوکنب اقبال چمکاوے‬
‫وگرنہ‪ ،‬مثنل خانر خشک‪ ،‬مردوند گلستاں ہیں‬
‫اسد ب ‪ ،‬بزنم تماشا میں تغافل پردہ داری ہے‬
‫اگر ڈھانپے ‪ ،‬تو آنکھیں ڈھانپ‪ ،‬ہم تصوینر عریاں ہیں‬
‫٭٭‬

‫ت مے پرستی‪ ،‬ایک دن‬ ‫ہم سے کسھل جاؤ بوق ن‬


‫ورنہ ہم چھیڑیں گے ‪ ،‬رکھ کر عذنر مستی‪ ،‬ایک دن‬
‫غرۂ اونج بنائے عالنم امکاں نہ ہو‬
‫اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی‪ ،‬ایک دن‬
‫قرض کی پیتے تھے مے ‪ ،‬لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں‬
‫رنگ لوے گی ہماری فاقہ مستی‪ ،‬ایک دن‬
‫نغمہ ہائے غم کو بھی‪ ،‬اے دل غنیمت جانیے‬
‫بے صدا ہو جائے گا‪ ،‬یہ سانز ہستی‪ ،‬ایک دن‬
‫دھول دھیپا‪ ،‬اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں‬
‫ہم ہی کر بیٹھے تھے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬پیش دستی‪ ،‬ایک دن‬
‫٭٭‬

‫ت عہند وفا گرو‬ ‫گ طرب ہے صور ن‬ ‫رن ن‬


‫تھا کس قدر شکستہ کہ ہے جا بجا گرو‬
‫پروانز نقد‪ ،‬دانم تمنائے جلوہ تھا‬
‫طاؤس نے اک آئنہ خانہ رکھا گرو‬
‫عرنض بسانط انجمنن رنگ مفت ہے‬
‫مونج بہار رکھتی ہے اک بوریا گرو‬
‫ہر ذیرہ خاک‪ ،‬عرنض تمنائے رفتگاں‬
‫آئینہ ہا شکستہ‪ ،‬و تمثال ہا گرو‬
‫ہے تاک میں سلم ہونس صد قدح شراب‬
‫تسبینح زاہداں‪ ،‬بکنف مدعا گرو‬
‫گ دمیدہ ہوں‬ ‫ت رن ن‬ ‫برق آبیانر فرص ن‬
‫جوں نخنل شمع‪ ،‬ریشے میں نشو و نما گرو‬
‫طاقت‪ ،‬بسانط دستگنہ یک قدم نہیں‬
‫جوں اشک‪ ،‬جب تلک نہ رکھوں دست و پا گرو‬
‫ت جنونن بہار اس قدر کہ ہے‬ ‫ہے وحش ن‬
‫بانل پری‪ ،‬بہ شوخنی مونج صبا گرو‬
‫ب سینر دل ہے سنر ناخنن نگار‬ ‫بے تا ن‬
‫گ حنا گرو‬ ‫یاں نعل ہے بہ آتنش رن ن‬
‫ہوں سخت جانن کاونش فکنر سخن اسدب‬
‫تیشے کی‪ ،‬کوہسار میں ہے ‪ ،‬یک صدا گرو‬
‫٭٭‬

‫شکوہ و شکر کو ثمر بیم و امید کا سمجھ‬


‫خانۂ آگہی خراب! دل نہ سمجھ‪ ،‬بل سمجھ‬
‫گ روان و ہر تپش درنس تسل ینی شعاع‬ ‫ری ن‬
‫آئنہ توڑ‪ ،‬اے خیال جلوے کو خوں بہا سمجھ‬
‫ت درند بیکسی‪ ،‬بے اثر اس قدر نہیں‬ ‫وحش ن‬
‫رشتۂ عمنر خضر کو نالۂ نا رسا سمجھ‬
‫شونق عناں گسل اگر درنس جنوں ہوس کرے‬
‫ب پا سمجھ‬ ‫جادۂ سینر دوجہاں‪ ،‬یک مژہ خوا ن‬
‫گاہ بخلد امیدوار‪ ،‬گہ بہ جحیم بیم ناک‬
‫ت ماسوا سمجھ‬ ‫گر چہ خدا کی یاد ہے ‪ ،‬کلف ن‬
‫شوخنی حسن و عشق ہے آئنہ دانر ہمدگر‬
‫خار کو بے نیام جان‪ ،‬ہم کو برہنہ پا سمجھ‬
‫ب حسنن خلق تشنۂ سعنی امتحاں‬ ‫اے بہ سرا ن‬
‫شوق کو منفعل نہ کر‪ ،‬ناز کو التجا سمجھ‬
‫نغمۂ بے دلں‪ ،‬اسدب ‪ ،‬سانز فسانگی نہیں‬
‫بسمنل درند خفتہ ہوں‪ ،‬گریے کو ماجرا سمجھ‬
‫٭٭‬

‫ت مدعا سمجھ‬ ‫ت ربنط این و آں‪ ،‬غفل ن‬‫کلف ن‬


‫ب پا سمجھ‬ ‫شوق کرے جو سرگراں‪ ،‬محمنل خوا ن‬
‫جلوہ نہیں ہے درند سر‪ ،‬آئنہ صندلی نہ کر‬
‫عکس کجا ؟و سکو نظر؟ نقش کو میدعا سمجھ‬
‫حیرت اگر خرام ہے ‪ ،‬کانر نگہ تمام ہے‬
‫گر کنف دست بام ہے ‪ ،‬آئنے کو ہوا سمجھ‬
‫ہے خنط عجنز ما و ستو‪ ،‬اونل درنس آرزو‬
‫ہے یہ سیانق گفتگو‪ ،‬کچھ نہ سمجھ‪ ،‬فنا سمجھ‬
‫شیشہ شکست اعتبار‪ ،‬رنگ بگردش استوار‬
‫گر نہ مٹیں یہ کوہسار‪ ،‬آپ کو تو صدا سمجھ‬
‫نغمہ ہے ‪ ،‬محنو ساز رہ‪ ،‬نشہ ہے ‪ ،‬بے نیانز رہ‬
‫رنند تمام ناز رہ‪ ،‬خلق کو پارسا سمجھ‬
‫چربنی پہلوئے خیال‪ ،‬رزنق دو عالم احتمال‬
‫کل ہے جو وعدۂ وصال‪ ،‬آج بھی‪ ،‬اے خدا‪ ،‬سمجھ‬
‫گ آرزو‪ ،‬نے رہ و رسنم گفتگو‬ ‫نے سرو بر ن‬
‫اے دل و جانن خلق‪ ،‬تو ہم کو آشنا سمجھ‬
‫"لغزنش پا کو ہے بلد‪ ،‬نغمۂ" یا علی مدد‬
‫ٹوٹے گر آئنہ‪ ،‬اسد ب ‪ ،‬سبحہ کو خوں بہا سمجھ‬
‫٭٭‬

‫ت درباں ساٹھائیے‬ ‫دل ہی نہیں کہ من ن‬


‫کس کو وفا کا سلسلہ جنباں ساٹھائیے ؟‬
‫تا چند داغ بیٹھیے ‪ ،‬نقصاں ساٹھائیے ؟‬
‫اب چار سوئے عشق سے دوکاں ساٹھائیے‬
‫صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں ساٹھائیے‬
‫طاقت کہاں کہ دید کا احساں ساٹھائیے‬
‫ہستی‪ ،‬فریب نامۂ مونج سراب ہے‬
‫یک عمر نانز شوخنی عنواں ساٹھائیے‬
‫ت معانش جنونن عشق‬ ‫ہے سنگ پر‪ ،‬برا ن‬
‫ت طفلں ساٹھائیے‬ ‫یعنی‪ ،‬ہنوز من ن‬
‫ضبنط جنوں سے ‪ ،‬ہر سنر مو ہے ترانہ خیز‬
‫یک نالہ بیٹھیے تو‪ ،‬نیستاں ساٹھائیے‬
‫ک نمک اثر‬ ‫نذنر خرانش نالہ‪ ،‬سرش ن‬
‫ت مہماں ساٹھائیے‬ ‫لطنف کرم‪ ،‬بدول ن‬
‫ت مزدور سے ہے خم‬ ‫دیوار‪ ،‬بانر من ن‬
‫اے خانماں خراب‪ ،‬نہ احساں ساٹھائیے‬
‫یا میرے زخنم رشک کو رسوا نہ کیجیے‬
‫یا پردۂ تبسنم پنہاں ساٹھائیے‬
‫انگور‪ ،‬سعنی بے سرو پائی سے سبز ہے‬
‫غالب ب ‪ ،‬بدونش دل سخنم مستاں ساٹھائیے‬
‫٭٭‬
‫ہے بزنم بتاں میں‪ ،‬سخن آزردہ لبوں سے‬
‫تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے‬
‫ہے دونر قدح‪ ،‬وجنہ پریشاننی صہبا‬
‫یک بار لگا دو سخنم مے میرے لبوں سے‬
‫رندانن دنر میکدہ گستاخ ہیں‪ ،‬زاہد‬
‫زنہار‪ ،‬نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے‬
‫بیداند وفا دیکھ‪ ،‬کہ جاتی رہی آخر‬
‫ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے‬
‫کیا پوچھے ہے بر خود غلطی ہائے عزیزاں؟‬
‫خواری کو بھی اک عار ہے ‪ ،‬عالی نسبوں سے‬
‫گو تم کو رضا جوئنی اغیار ہے ‪ ،‬لیکن‬
‫جاتی ہے ملقات کب ایسے سببوں سے ؟‬
‫مت پوچھ‪ ،‬اسدب ‪ ،‬غصۂ کم فرصتنی زیست‬
‫دو دن بھی جو کاٹے ‪ ،‬تو قیامت تعبوں سے‬
‫٭٭‬

‫غنم دنیا سے ‪ ،‬گر پائی بھی‪ ،‬فرصت سر ساٹھانے کی‬


‫فلک کا دیکھنا‪ ،‬تقریب تیرے یاد آنے کی‬
‫کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا‪ ،‬یارب؟‬
‫قسم کھائی ہے ساس کافر نے کاغذ کے جلنے کی‬
‫لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے‬
‫ولے مشکل ہے حکمت دل میں سونز غم چھپانے کی‬
‫سانہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا‬
‫ساٹھے تھے سینر گل کو‪ ،‬دیکھنا شوخی بہانے کی‬
‫ت ناز پر مرنا‬‫ہماری سادگی تھی‪ ،‬التفا ن‬
‫ترا آنا نہ تھا‪ ،‬ظالم‪ ،‬مگر تمہید جانے کی‬
‫ب حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی‬ ‫لکدکو ن‬
‫مری طاقت کہ ضامن تھی‪ ،‬بتوں کے ناز ساٹھانے کی‬
‫کہوں کیا خوبنی اوضانع ابنائے زماں‪ ،‬غالبب‬
‫بدی کی ساس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی‬
‫٭٭‬

‫بسانط عجز میں تھا ایک دل‪ ،‬یک قطرہ خوں وہ بھی‬
‫سو رہتا ہے بہ اندانز چکیدن سر نگوں‪ ،‬وہ بھی‬
‫رہے ساس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سے‬
‫تکلف بر طرف‪ ،‬تھا ایک اندانز جنوں‪ ،‬وہ بھی‬
‫خیانل مرگ کب تسکین دنل آزردہ کو بخشے ؟‬
‫مرے دانم تمنا میں ہے اک صیند زبوں‪ ،‬وہ بھی‬
‫نہ کرتا کاش! نالہ‪ ،‬مجھ کو کیا معلوم تھا‪ ،‬ہمدم‬
‫کہ ہو گا باع ن‬
‫ث افزائنش درند دروں‪ ،‬وہ بھی‬
‫مئے ‪ ،‬عشرت کی خواہش‪ ،‬ساقنی گردوں سے کیا کیجے ؟‬
‫لیے بیٹھا ہے اک دو چار جانم واژگوں‪ ،‬وہ بھی‬
‫مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے‬
‫کہیں ہو جائے جلد اے گردنش گردونن دوں‪ ،‬وہ بھی‬
‫نظر راحت پہ میری‪ ،‬کر نہ وعدہ شب کے آنے کا‬
‫کہ میری خواب بندی کے لئے ہو گا فسوں‪ ،‬وہ بھی‬
‫میرے دل میں ہے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬شونق وصل و شکوۂ ہجراں‬
‫خدا وہ دن کرے ‪ ،‬جو ساس سے میں یہ بھی کہوں‪ ،‬وہ بھی‬
‫٭٭‬
‫سرگشتگی میں‪ ،‬عالنم ہستی سے یاس ہے‬
‫تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے‬
‫لیتا نہیں مرے دنل آوارہ کی خبر‬
‫اب تک وہ جانتا ہے کہ‪ ،‬میرے ہی پاس ہے‬
‫کیجے بیاں سرونر تنب غم کہاں تلک؟‬
‫ہر مو‪ ،‬مرے بدن پہ‪ ،‬زبانن سپاس ہے‬
‫ہے وہ‪ ،‬غرونر سحسن سے بیگانۂ وفا‬
‫ہر چند ساس کے پاس دنل حق شناس ہے‬
‫پی‪ ،‬جس قدر ملے ‪ ،‬شنب مہتاب میں شراب‬
‫اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے‬
‫کیا غم ہے ساس کو‪ ،‬جس کا علی سا امام ہو‬
‫اتنا بھی اے فلک زدہ‪ ،‬کیوں بے حواس ہے‬
‫ہر ایک مکان کو ہے مکیں سے شرف‪ ،‬اسدب‬
‫مجنوں جو مرگیا ہے ‪ ،‬تو جنگل ساداس ہے‬
‫٭٭‬

‫گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے‬


‫خوش ہوں کہ‪ ،‬میری بات سمجھنی محال ہے‬
‫ت اظہار کا گلہ؟‬ ‫کس کو سناؤں حسر ن‬
‫دل‪ ،‬فرند جمع و خرنچ زباں ہائے لل ہے‬
‫کس پردے میں ہے آئنہ پرداز؟ اے خدا‬
‫رحمت‪ ،‬کہ عذر خوانہ لنب بے سوال ہے‬
‫ہے ہے ! خدا نخواستہ‪ ،‬وہ اور دشمنی‬
‫اے شوق‪ ،‬منفعل‪ ،‬یہ تجھے کیا خیال ہے‬
‫مشکیں‪ ،‬لبانس کعبہ‪ ،‬علی کے قدم سے جان‬
‫ف غزال ہے‬ ‫ف زمین ہے ‪ ،‬نہ کہ نا ن‬
‫نا ن‬
‫وحشت پہ میری عرصہ آفاق‪ ،‬تنگ تھا‬
‫دریا‪ ،‬زمین کو عرنق انفعال ہے‬
‫ہستی کے مت فریب میں آ جائیو‪ ،‬اسدب‬
‫عالم تمام‪ ،‬حلقہ دانم خیال ہے‬
‫پہلو تہی نہ کر غم و اندوہ سے ‪ ،‬اسدب‬
‫دل وقنف درد رکھ کہ فقیروں کا مال ہے‬
‫٭٭‬

‫رفتانر عمر‪ ،‬قطنع رنہ اضطراب ہے‬


‫ناس سال کے حساب کو‪ ،‬برق‪ ،‬آفتاب ہے‬
‫مینائے مے ہے ‪ ،‬سرو‪ ،‬نشانط بہار سے‬
‫بانل تدرو‪ ،‬جلوۂ مونج شراب ہے‬
‫زخمی ہوا ہے ‪ ،‬پاشنہ پائے ثبات کا‬
‫نے بھاگنے کی گوں‪ ،‬نہ اقامت کی تاب ہے‬
‫جاداند بادہ نوشنی رنداں ہے ‪ ،‬شش جہت‬
‫غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے‬
‫نظارہ کیا حریف ہو ساس برنق حسن کا‬
‫جونش بہار‪ ،‬جلوے کو جس کے نقاب ہے‬
‫میں نامراد دل کی تسلی کو کیا کروں‬
‫مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے‬
‫گزرا اسدب ‪ ،‬مسر ن‬
‫ت پیغانم یار سے‬
‫ک سوال و جواب ہے‬ ‫قاصد پہ مجھ کو رش ن‬
‫٭٭‬
‫جس جا نسیم شانہ کنش زلنف یار ہے‬
‫ت تتار ہے‬ ‫نافہ‪ ،‬دمانغ آہوئے دش ن‬
‫دل مت گنوا‪ ،‬خبر نہ سہی‪ ،‬سیر ہی سہی‬
‫اے بے دماغ‪ ،‬آئنہ تمثال دار ہے‬
‫زنجیر یاد پڑتی ہے ‪ ،‬جادے کو دیکھ کر‬
‫ساس چشم سے ہنوز نگہ یادگار ہے‬
‫بے پردہ‪ ،‬سوئے وادنی مجنوں گزر نہ کر‬
‫ہر ذرے کے نقاب میں‪ ،‬دل بے قرار ہے‬
‫سودائنی خیال ہے طوفانن رنگ و بو‬
‫یاں ہے کہ دانغ للہ‪ ،‬دمانغ بہار ہے‬
‫بھونچال میں گرا تھا یہ آئینہ طاق سے‬
‫حیرت شہیند جنبنش ابروئے یار ہے‬
‫گ یاقوت دیکھ کر‬ ‫حیراں ہوں شوخنی ر ن‬
‫ت خس و آتش برار ہے‬ ‫یاں ہے کہ صحب ن‬
‫اے عندلیب‪ ،‬یک کنف خس بہنر آشیاں‬
‫طوفانن آمد آمند فصنل بہار ہے‬
‫غفلت کفینل عمر‪ ،‬و اسدب ضامنن نشاط‬
‫گ ناگہاں‪ ،‬تجھے کیا انتظار ہے‬ ‫اے مر ن‬
‫٭٭‬

‫حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ‪ ،‬اے آرزو خرامی‬


‫دل‪ ،‬جونش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی‬
‫کرتے ہو شکوہ کس کا؟ تم اور بے وفائی‬
‫سر پیٹتے ہیں اپنا‪ ،‬ہم اور نیک نامی‬
‫صد رنگ گل کترنا‪ ،‬درپردہ قتل کرنا‬
‫تینغ ادا نہیں ہے پابنند بے نیامی‬
‫اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے‬
‫میں بھی‪ ،‬جلے ہوؤں میں‪ ،‬ہوں دانغ ناتمامی‬
‫ف سخن نہیں ہے مجھ سے ‪ ،‬خدا نکردہ‬ ‫طر ن‬
‫ہے نامہ بر کو ساس سے دعوائے ہم کلمی‬
‫طاقت فسانۂ باد‪ ،‬اندیشہ شعلہ ایجاد‬
‫!اے غم‪ ،‬ہنوز آتش‪ ،‬اے دل ہنوز خامی‬
‫ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن‬
‫ہے شرنح شوق کو بھی‪ ،‬جوں شکوہ‪ ،‬ناتمامی‬
‫ہے یاس میں اسد ب کو ساقی سے بھی فراغت‬
‫دریا سے خشک گزری مستوں کی تشنہ کامی‬
‫٭٭‬

‫تغافل دوست ہوں‪ ،‬میرا دمانغ عجز عالی ہے‬


‫اگر پہلو تہی کیجے ‪ ،‬تو جا میری بھی خالی ہے‬
‫!بتانن شوخ کا دل سخت ہو گا کس قدر‪ ،‬یار ب‬
‫مری فریاد کو‪ ،‬کہسار‪ ،‬سانز عجز نالی ہے‬
‫نشان بے قرانر شوق‪ ،‬جز مژگاں نہیں باقی‬
‫کئی کانٹے ہیں‪ ،‬اور پیراہنن شکنل نہالی ہے‬
‫جنوں کر‪ ،‬اے چمن تحرینر درنس شغنل تنہائی‬
‫نگانہ شوق کو‪ ،‬صحرا بھی‪ ،‬دیوانن غزالی ہے‬
‫سیہ مستی ہے اہنل خاک کو ابنر بہاری سے‬
‫زمیں جونش طرب سے ‪ ،‬جانم لبرینز سفالی ہے‬
‫رہا آباد عالم‪ ،‬اہنل ہمت کے نہ ہونے سے‬
‫بھرے ہیں جس قدر جام و سبو‪ ،‬میخانہ خالی ہے‬
‫اسدب ‪ ،‬مت رکھ تعجب خر دماغی ہائے منعم کا‬
‫کہ یہ نامرد بھی شیر افگنن میدانن قالی ہے‬
‫٭٭‬

‫ہر قدم‪ ،‬دورنی منزل ہے نمایاں مجھ سے‬


‫میری رفتار سے ‪ ،‬بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‬
‫درنس عنوانن تماشا‪ ،‬بہ تغافل خوشتر‬
‫ہے نگہ‪ ،‬رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے‬
‫ت آتنش دل سے ‪ ،‬شنب تنہائی میں‬ ‫وحش ن‬
‫ت سدود‪ ،‬رہا سایہ گریزاں مجھ سے‬‫صور ن‬
‫اثنر آبلہ سے جادہ صحرائے جنوں‬
‫صورنت رشتۂ گوہر‪ ،‬ہے چراغاں مجھ سے‬
‫!بے خودی بستنر تمہیند فراغت ہو جو‬
‫سپر ہے سائے کی طرح‪ ،‬میرا شبستاں مجھ سے‬
‫شونق دیدار میں‪ ،‬گر تو مجھے گردن مارے‬
‫ہو نگہ‪ ،‬مثنل گنل شمع‪ ،‬پریشاں مجھ سے‬
‫! بیکسی ہائے شنب ہجر کی وحشت‪ ،‬ہے ہے‬
‫سایہ‪ ،‬خورشیند قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے‬
‫گردنش ساغنر صد جلوۂ رنگیں‪ ،‬تجھ سے‬
‫آئنہ دارنی یک دیدۂ حیراں مجھ سے‬
‫نگنہ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫ک گلستاں مجھ سے‬ ‫ہے چراغاں‪ ،‬خس و خاشا ن‬
‫٭٭‬

‫وحشت کہاں کہ بے خودی انشا کرے کوئی؟‬


‫ہستی کو لفنظ معننی عنقا کرے کوئی‬
‫گ ہر خار‪ ،‬شانخ گل‬ ‫ت جگر سے ہے ‪ ،‬ر ن‬ ‫لخ ن‬
‫تا چند باغباننی صحرا کرے کوئی‬
‫جو کچھ ہے ‪ ،‬محنو شوخنی ابروئے یار ہے‬
‫آنکھوں کو رکھ کے طاق پہ دیکھا کرے کوئی‬
‫ف گوہنر شکست‬ ‫ہر سنگ و خشت‪ ،‬ہے صد ن‬
‫نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی‬
‫ت طبیعت ایجاد‪ ،‬یاس خیز‬ ‫ہے وحش ن‬
‫یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی‬
‫ناکامنی نگاہ‪ ،‬ہے برنق نظارہ سوز‬
‫تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی‬
‫عرنض سرشک پر ہے ‪ ،‬فضائے زمانہ‪ ،‬تنگ‬
‫ت دریا کرے کوئی‬ ‫صحرا کہاں کہ دعو ن‬
‫خوانا نہیں ہے خط رقم اضطرار کا‬
‫ب نفس کیا کرے کوئی‬ ‫تدبینر پیچ تا ن‬
‫وہ شوخ اپنے حسن پہ مغرور ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫دکھل کے اس کو آئنہ توڑا کرے کوئی‬
‫٭٭‬

‫جب تک دہانن زخم نہ پیدا کرے کوئی‬


‫مشکل کہ تجھ سے رانہ سخن وا کرے کوئی‬
‫سر بر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عمر‬
‫فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی‬
‫ت مجنوں ہے ‪ ،‬سر بسر‬ ‫عالم غبانر وحش ن‬
‫کب تک خیانل طرۂ لیل کرے کوئی‬
‫افسردگی‪ ،‬نہیں طرب انشائے التفات‬
‫ہاں‪ ،‬درد بن کے دل میں‪ ،‬مگر‪ ،‬جا کرے کوئی‬
‫رونے سے ‪ ،‬اے ندیم‪ ،‬ملمت نہ کر مجھے‬
‫آخر‪ ،‬کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی‬
‫تمثانل جلوہ عرض کر‪ ،‬اے حسن‪ ،‬کب تلک‬
‫آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی‬
‫ک جگر سے ‪ ،‬جب رنہ پرسش نہ وا ہوئی‬ ‫چا ن‬
‫کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے کوئی‬
‫بے کارنی جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل‬
‫جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی‬
‫حسنن فرونغ شمنع سخن دور ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫پہلے دنل گداختہ پیدا کرے کوئی‬
‫٭٭‬

‫جو نہ نقند دانغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی‬


‫تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینن بے زبانی‬
‫مجھے اس سے کیا تویقع بہ زمانۂ جوانی‬
‫کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی‬
‫یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب‪ ،‬ورنہ کہتا‬
‫"کہ "مرے عدو کو‪ ،‬یا رب‪ ،‬ملے میری زندگانی‬
‫یہ اشعار نسخہ حمیدیہ کے ایک قصیدے کے ہیں۔ غالبب نے وہیں سے الگ کر کے اپنے دیوان)اشاعت اول(میں بطور غزل (‬
‫) شامل کر لیے‬
‫٭٭‬

‫آ‪ ،‬کہ مری جان کو قرار نہیں ہے‬


‫طاق ن‬
‫ت بیداند انتظار نہیں ہے‬
‫ت دہر کے بدلے‬ ‫دیتے ہیں جنت حیا ن‬
‫نیشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے‬
‫گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو‬
‫ہائے !کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے‬
‫ہم سے عبث ہے گمانن رنجنش خاطر‬
‫خاک میں عیشاق کی غبار نہیں ہے‬
‫دل سے ساٹھا لطنف جلوہ ہائے معانی‬
‫غینر گل! آئینۂ بہار نہیں ہے‬
‫قتل کا میرے کیا ہے عہد تو‪ ،‬بارے‬
‫وائے !اگر عہد ساستوار نہیں ہے‬
‫تو نے قسم میکشی کی کھائی ہے ‪ ،‬غالبب‬
‫تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے‬
‫٭٭‬

‫نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی‪ ،‬نہ سہی‬


‫امتحاں اور بھی باقی ہو‪ ،‬تو یہ بھی نہ سہی‬
‫ت دیدار تو ہے‬‫خار خانر النم حسر ن‬
‫شوق‪ ،‬گلچینن گلستانن تسلی نہ سہی‬
‫مے پرستاں سخنم مے منہ سے لگائے ہی بنے‬
‫ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی‪ ،‬نہ سہی‬
‫نفنس قیس کہ ہے چشم و چرانغ صحرا‬
‫گر نہیں شمنع سیہ خانۂ لیلی‪ ،‬نہ سہی‬
‫ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‬
‫نوحۂ غم ہی سہی‪ ،‬نغمۂ شادی‪ ،‬نہ سہی‬
‫نہ ستائش کی تمنا‪ ،‬نہ صلے کی پروا‬
‫گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی‪ ،‬نہ سہی‬
‫ت خوباں ہی غنیمت سمجھو‬ ‫ت صحب ن‬‫عشر ن‬
‫نہ ہوئی‪ ،‬غالبب ‪ ،‬اگر عمنر طبیعی‪ ،‬نہ سہی‬
‫٭٭‬

‫پھونکتا ہے نالہ ہر شب صور اسرافیل کی‬


‫ہم کو جلدی ہے ‪ ،‬مگر تو نے قیامت ڈھیل کی‬
‫کی ہیں کس پانی سے یاں یعقوبف نے آنکھیں سفید‬
‫ہے جو آبی پیرہن‪ ،‬ہر موج روند نیل کی‬
‫عرش پر تیرے قدم سے ہے ‪ ،‬دمانغ گرند راہ‬
‫آج تنخوانہ شکستن ہے سکلہ جبریل کی‬
‫مدعا درپردہ‪ ،‬یعنی جو کہوں باطل سمجھ‬
‫وہ فرنگی زادہ کھاتا ہے قسم انجیل کی‬
‫خیر خوانہ دید ہوں از بہنر دفنع چشم زخم‬
‫کھینچتا ہوں اپنی آنکھوں میں سلئی نیل کی‬
‫نالہ کھینچا ہے ‪ ،‬سراپا دانغ جرأت ہوں‪ ،‬اسدب‬
‫کیا سزا ہے میرے جرنم آرزو تاویل کی؟‬
‫٭٭‬

‫ک دنیا کاہلی سے‬ ‫کیا ہے تر ن‬


‫ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے‬
‫خرانج دیہنہ ویراں‪ ،‬یک کنف خاک‬
‫بیاباں خوش ہوں تیری عاملی سے‬
‫پرافشاں ہو گئے شعلے ہزاروں‬
‫رہے ہم داغ‪ ،‬اپنی کاہلی سے‬
‫خدا‪ ،‬یعنی پدر سے مہرباں تر‬
‫پھرے ہم در بدر ناقابلی سے‬
‫اسدب قربانن لطنف جونر بیدل‬
‫خبر لیتے ہیں‪ ،‬لیکن بیدلی سے‬
‫٭٭‬

‫ربنط تمینز اعیاں‪ ،‬سدرند مئے صدا ہے‬


‫اعمیی کو سرمۂ چشم‪ ،‬آوانز آشنا‪ ،‬ہے‬
‫موئے دمانغ وحشت‪ ،‬سر رشتۂ فنا ہے‬
‫شیرازۂ دو عالم‪ ،‬یک آنہ نارسا‪ ،‬ہے‬
‫دیوانگی ہے ‪ ،‬تجھ کو درنس خرام دینا‬
‫مونج بہار یکسر زنجینر نقنش پا‪ ،‬ہے‬
‫پروانے سے ہو‪ ،‬شاید‪ ،‬تسکینن شعلۂ شمع‬
‫آساینش وفا ہا‪ ،‬بیتابنی جفا‪ ،‬ہے‬
‫ب سرکش‪ ،‬یک سجدہ وار تمکیں‬ ‫اے اضطرا ن‬
‫میں بھی ہوں شمنع کشتہ‪ ،‬گر داغ خوں بہا ہے‬
‫ت تسلی‪ ،‬نے ذونق بے قراری‬ ‫نے حسر ن‬
‫یک درد و صد دوا ہے ‪ ،‬یک دست و صد دعا ہے‬
‫دریائے مے ہے ساقی‪ ،‬لیکن خمار باقی‬
‫تا کوچہ دادنن موج خمیازہ آشنا ہے‬
‫وحشت نہ کھینچ‪ ،‬قاتل‪ ،‬حیرت نفس ہے بسمل‬
‫جب نالہ خوں ہو‪ ،‬غافل‪ ،‬تاثیر کیا بل ہے‬
‫بت خانے میں اسدب بھی بندہ تھا گاہ گاہے‬
‫حضرت چلے حرم کو‪ ،‬اب آپ کا خدا ہے‬
‫٭٭‬

‫گر یاس سر نہ کھینچے ‪ ،‬تنگی عجب فضا ہے‬


‫وسعت گنہ تمنا‪ ،‬یک بام و صد ہوا ہے‬
‫برہم زنن دو عالم‪ ،‬تکلینف یک صدا‪ ،‬ہے‬
‫مینا شکستگاں کو کہسار خوں بہا ہے‬
‫فکنر سخن یک انشا زنداننی خموشی‬
‫دوند چراغ‪ ،‬گویا‪ ،‬زنجینر بے صدا ہے‬
‫موزوننی دو عالم‪ ،‬قربانن سانز یک درد‬
‫مصرانع نالۂ دنے ‪ ،‬سکتہ ہزار جا ہے‬
‫درنس خرام تا دکے خمیازۂ روانی؟‬
‫ناس مونج مے کو‪ ،‬غافل‪ ،‬پیمانہ نقنش پا ہے‬
‫!گردش میں ل‪ ،‬تجلی‪ ،‬صد ساغنر تسلی‬
‫چشنم تحیر آغوش‪ ،‬مخمونر ہر ادا ہے‬
‫ت نیستاں‬‫گ بے نوائی‪ ،‬صد دعو ن‬ ‫یک بر ن‬
‫طوفانن نالۂ دل‪ ،‬تا مونج بوریا ہے‬
‫اے غنچۂ تمنا‪ ،‬یعنی کنف نگاریں‬
‫دل دے ‪ ،‬تو ہم بتا دیں‪ ،‬مٹھی میں تیری کیا ہے‬
‫ہر نالۂ اسد ب ہے مضمونن داد خواہی‬
‫یعنی‪ ،‬سخن کو کاغذ احرانم مدعا ہے‬
‫٭٭‬

‫ت تسخیر ہے‬ ‫ب وحش ن‬ ‫ذونق خود داری‪ ،‬خرا ن‬


‫آئنہ خانہ‪ ،‬مری تمثال کو‪ ،‬زنجیر ہے‬
‫ذرہ دے مجنوں کے کس کس داغ کو پردانز عرض؟‬
‫ت تعمیر ہے‬ ‫ہر بیاباں‪ ،‬یک بیاباں حسر ن‬
‫میکنش مضموں کو حسنن ربنط خط کیا چاہیے ؟‬
‫لغزنش رفتانر خامہ‪ ،‬مستنی تحریر ہے‬
‫!خانمانن جبریانن غافل از معننی خراب‬
‫جب ہوئے ہم بے گنہ‪ ،‬رحمت کی کیا تقصیر ہے ؟‬
‫چاہے گر جنت‪ ،‬جز آدم وارنث آدم نہیں‬
‫شوخنی ایمانن زاہد‪ ،‬سسستنی تدبیر ہے‬
‫!شب دراز و آتنش دل تیز‪ ،‬یعنی‪ ،‬مثنل شمع‬
‫مہ‪ ،‬ز سر تا ناخنن پا‪ ،‬رزنق یک شبگیر ہے‬
‫ت باطل سے ‪ ،‬مرد‬ ‫گ ہم ن‬ ‫آب ہو جاتے ہیں‪ ،‬نن ن‬
‫اشک پیدا کر‪ ،‬اسدب ‪ ،‬گر آہ بے تاثیر ہے‬
‫٭٭‬

‫رباعیات‬

‫دل‪ ،‬سونز جنوں سے جلوہ منظر ہے آج‬


‫نیرن ن‬
‫گ زمانہ‪ ،‬فتنہ پرور ہے آج‬
‫ب صباغ‬
‫یک تانر نفس میں‪ ،‬جوں طنا ن‬
‫گ دیگر ہے آج‬‫ہر پارۂ دل‪ ،‬بہ رن ن‬
‫٭٭‬

‫مشکل ہے ‪ ،‬ز بس‪ ،‬کلم میرا‪ ،‬اے دل‬


‫سسن سسن کے ساسے سخنورانن کامل‬
‫آساں کہنے کی‪ ،‬کرتے ہیں فرمائش‬
‫"گویم مشکل‪ ،‬وگر نہ گویم مشکل"‬
‫٭٭٭‬

‫بعد از ‪1821‬ء‬

‫ب نبرد تھا‬ ‫دھمکی میں مر گیا‪ ،‬جو نہ با ن‬


‫عشنق نبرد پیشہ‪ ،‬طلب گانر مرد تھا‬
‫تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا‬
‫اڑنے سے پیشتر بھی‪ ،‬مرا رنگ‪ ،‬زرد تھا‬
‫تالینف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں‬
‫مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا‬
‫دل تا جگر‪ ،‬کہ ساحنل دریائے خوں ہے اب‬
‫اس رہ گزر میں‪ ،‬جلوۂ گل‪ ،‬آگے گرد تھا‬
‫جاتی ہے کوئی کشمکش اندونہ عشق کی‬
‫دل بھی اگر گیا‪ ،‬تو سوہی دل کا درد تھا‬
‫احباب چارہ سازنی وحشت نہ کر سکے‬
‫زنداں میں بھی‪ ،‬خیال‪ ،‬بیاباں نورد تھا‬
‫یہ لنش بے کفن‪ ،‬اسدب خستہ جاں کی ہے‬
‫حق مغفرت کرے ! عجب آزاد مرد تھا‬
‫٭٭‬

‫محرم نہیں ہے تو ہی‪ ،‬نوا ہائے راز کا‬


‫یاں ورنہ جو حجاب ہے ‪ ،‬پردہ ہے ساز کا‬
‫گ شکستہ‪ ،‬صبنح بہانر نظارہ ہے‬ ‫رن ن‬
‫یہ وقت ہے ‪ ،‬شگفتنن گل ہائے ناز کا‬
‫!تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز‬
‫میں اور سدکھ تری نمژہ ہائے دراز کا‬
‫صرفہ ہے ضبنط آہ میں میرا‪ ،‬وگرنہ میں‬
‫سطعمہ ہوں‪ ،‬ایک ہی ندفنس جاں گداز کا‬
‫ہیں‪ ،‬بسکہ جونش بادہ سے شیشے اچھل رہے‬
‫ہر گوشۂ بساط‪ ،‬ہے سر شیشہ باز کا‬
‫کاوش کا دل کرے ہے تقاضا‪ ،‬کہ ہے ہنوز‬
‫ناخن پہ قرض‪ ،‬اس‪ ،‬گرنہ نیم باز کا‬
‫تارانج کاونش غنم ہجراں ہوا‪ ،‬اسدب‬
‫سینہ‪ ،‬کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا‬
‫٭٭‬

‫دوست‪ ،‬غمخواری میں میری‪ ،‬سعی فرماویں گے کیا؟د‬


‫?زخم کے بھرنے تلک‪ ،‬ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا‬
‫بے نیازی حد سے گزری‪ ،‬بندہ پرور‪ ،‬کب تلک‬
‫ہم کہیں گے حانل دل‪ ،‬اور آپ فرماویں گے "کیا"؟‬
‫حضرنت ناصح گر آویں‪ ،‬دیدہ و دل فرنش راہ‬
‫کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا؟‬
‫آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں‬
‫عذر‪ ،‬میرے قتل کرنے میں وہ اب لویں گے کیا؟‬
‫گر کیا ناصح نے ہم کو قید‪ ،‬اچھا‪ ،‬یوں‪ ،‬سہی‬
‫یہ جنونن عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟‬
‫خانہ زاند زلف ہیں‪ ،‬زنجیر سے بھاگیں گے کیوں؟‬
‫ہیں گرفتانر وفا‪ ،‬زنداں سے گھبراویں گے کیا؟‬
‫ہے اب اس معمورے میں قحنط غنم الفت‪ ،‬اسدب‬
‫ہم نے یہ مانا کہ دیلی میں رہیں‪ ،‬کھاویں گے کیا؟‬
‫٭٭‬

‫عشرنت قطرہ ہے ‪ ،‬دریا میں فنا ہو جانا‬


‫درد کا حد سے گزرنا‪ ،‬ہے دوا ہو جانا‬
‫ت قفنل ابجد‬ ‫تجھ سے ‪ ،‬قسمت میں مری‪ ،‬صور ن‬
‫تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا‬
‫دل ہوا‪ ،‬کشمکنش چارۂ زحمت میں تمام‬
‫نمٹ گیا‪ ،‬گھسنے میں‪ ،‬ساس سعقدے کا وا ہو جانا‬
‫!اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم‪ ،‬اللہ‪ ،‬اللہ‬
‫ب وفا ہو جانا‬ ‫اس قدر دشمنن اربا ن‬
‫ضعف سے ‪ ،‬گریہ‪ ،‬مبیدل بدنم سرد ہوا‬
‫باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا‬
‫ت حنائی کا خیال‬ ‫ندل سے نمٹنا تری انگش ن‬
‫ہو گیا گوشت سے ناخن کا سجدا ہو جانا‬
‫ہے مجھے ‪ ،‬ابنر بہاری کا برس کر کسھلنا‬
‫روتے روتے غنم سفرقت میں فنا ہو جانا‬
‫ت گل کو ترے کوچے کی ہوس‬ ‫گر نہیں نکہ ن‬
‫کیوں ہے گرند رنہ دجولنن صبا ہو جانا‬
‫تاکہ تجھ پر کسھلے اعجانز ہوائے دصیقل‬
‫دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا‬
‫بخشے ہے جلوۂ سگل‪ ،‬ذونق تماشا‪ ،‬غالبب‬
‫چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا‬
‫٭٭‬

‫پھر ہوا وقت کہ ہو بال سکشا مونج شراب‬


‫ت شنا‪ ،‬مونج شراب‬ ‫دے بنط مے کو دل و دس ن‬
‫ب چمن‬ ‫پوچھ مت وجہ سیہ مستنی اربا ن‬
‫سایۂ تاک میں ہوتی ہے ‪ ،‬دہوا‪ ،‬مونج شراب‬
‫ت رسا رکھتا ہے‬ ‫جو ہوا غرقۂ مئے ‪ ،‬بخ ن‬
‫سر پہ گزرے پہ بھی ہے بانل ہما‪ ،‬مونج شراب‬
‫ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے ‪ ،‬اگر‬
‫مونج ہستی کو کرے ‪ ،‬فینض ہوا‪ ،‬مونج شراب‬
‫چار موج اٹھتی ہے ‪ ،‬طوفانن طرب سے ہر سو‬
‫مونج گل‪ ،‬مونج شفق‪ ،‬مونج صبا‪ ،‬مونج شراب‬
‫جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز‬
‫ب بقا‪ ،‬مونج شراب‬ ‫دے ہے تسکیں‪ ،‬بدددنم آ ن‬
‫گ تاک میں‪ ،‬خوں ہو ہو کر‬ ‫بس کہ دوڑے ہے ر ن‬
‫شہپنر رنگ سے ہے بال کشا‪ ،‬مونج شراب‬
‫موجۂ گل سے چراغاں ہے گزرگانہ خیال‬
‫ہے تصیور میں ز بس جلوہ نما‪ ،‬مونج شراب‬
‫نیشے کے پردے میں ہے محنو تماشائے دماغ‬
‫بس کہ رکھتی ہے سنر نشو و نما مونج شراب‬
‫ت فصل‬ ‫ایک عالم پہ ہے طوفاننی کیفی ی ن‬
‫موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا مونج شراب‬
‫شرنح ہنگامۂ مستی ہے ‪ ،‬زہے ! موسنم گل‬
‫رہبنر قطرہ بدریا ہے ‪ ،‬خوشا !مونج شراب‬
‫ہوش اڑتے ہیں مرے ‪ ،‬جلوۂ گل دیکھ‪ ،‬اسدب‬
‫پھر ہوا وقت‪ ،‬کہ ہو بال سکشا‪ ،‬مونج شراب‬
‫٭٭‬
‫رہا گر کوئی تا قیامت سلمت‬
‫پھر اک روز مرنا ہے ‪ ،‬حضرت سلمت‬
‫جگر کو مرے ‪ ،‬عشنق خوں نابہ مشرب‬
‫!"لکھے ہے "خداونند نعمت سلمت‬
‫دو عالم کی ہستی پہ خنط وفا کھینچ‬
‫ب ہمت سلمت‬ ‫! دل و دس ن‬
‫ت اربا ن‬
‫علی الیلرغنم دشمن‪ ،‬شہیند وفا ہوں‬
‫!مبارک !مبارک! سلمت! سلمت‬
‫نہیں گر بہ کانم دنل خستہ‪ ،‬گردوں‬
‫!جگر خائنی جونش حسرت سلمت‬
‫گ ادراک معنی‬ ‫نہیں گر سر و بر ن‬
‫تماشائے نیرنگ صورت سلمت‬
‫نہ اوروں کی سنتا‪ ،‬نہ کہتا ہوں اپنی‬
‫!سنر خستہ و شونر وحشت سلمت‬
‫وفونر بل ہے ‪ ،‬ہجونم وفا ہے‬
‫!سلمت ملمت‪ ،‬ملمت سلمت‬
‫نہ فکر سلمت‪ ،‬نہ بیم ملمت‬
‫!ز خود رفتگی ہائے حیرت سلمت‬
‫ب گردوں‬‫رہے غالنب خستہ‪ ،‬مغلو ن‬
‫یہ کیا بے نیازی ہے ‪ ،‬حضرت سلمت؟‬
‫٭٭‬

‫ت میخوار کے پاس‬ ‫کب فقیروں کو رسائی ب ن‬


‫تونبے بو دیجیے میخانے کی دیوار کے پاس‬
‫! سمژدہ‪ ،‬اے دذونق اسیری ! کہ نظر آتا ہے‬
‫دانم خالی‪ ،‬قدفنس سمرنغ نگرفتار کے پاس‬
‫! جگنر تشنۂ آزار‪ ،‬تسلی نہ ہوا‬
‫سجوئے سخوں ہم نے بہائی بسنن ہر خار کے پاس‬
‫! سمند گئیں‪ ،‬کھولتے ہی کھولتے ‪ ،‬آنکھیں‪ ،‬دہے دہے‬
‫سخوب وقت آئے تم ناس عاشنق بیمار کے پاس‬
‫دمیں بھی سرک سرک کے نہ مرتا‪ ،‬جو زباں کے بدلے‬
‫دشنہ ناک تیز سا ہوتا نمرے غمخوار کے پاس‬
‫دددہنن شیر میں جا بیٹھیے ‪ ،‬لیکن‪ ،‬اے دل‬
‫خوبانن دل آزار کے پاس‬ ‫نہ کھڑے ہو جیے س‬
‫دیکھ کر تجھ کو‪ ،‬چمن بسکہ سنمو کرتا ہے‬
‫سخود بخود پہنچے ہے سگل‪ ،‬گوشۂ دستار کے پاس‬
‫! مر گیا پھوڑ کے سر‪ ،‬غالبب وحشی‪ ،‬دہے دہے‬
‫بیٹھنا ساس کا وہ‪ ،‬آ کر‪ ،‬تری دیوار کے پاس‬
‫٭٭‬

‫ک فرینب وفائے سگل‬ ‫! ہے کس قدر ہل ن‬


‫سبلسبل کے کاروبار پہ ہیں‪ ،‬خندہ ہائے سگل‬
‫آزادنی نسیم مبارک !کہ ہر طرف‬
‫ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دانم ہوائے سگل‬
‫جو تھا‪ ،‬سو مونج رنگ کے دھوکے میں مر گیا‬
‫اے وائے ‪ ،‬نالۂ لنب خونیں نوائے سگل‬
‫دیوانگاں کا چارہ فرونغ بہار ہے‬
‫ہے شانخ گل میں‪ ،‬پنجۂ خوباں‪ ،‬بجائے گل‬
‫خوش حال ساس حرینف سیہ مست کا‪ ،‬کہ جو‬
‫رکھتا ہو‪ ،‬مثنل سایۂ سگل‪ ،‬سر بہ پائے سگل‬
‫ایجاد کرتی ہے ساسے تیرے لیے ‪ ،‬بہار‬
‫میرا رقیب ہے ‪ ،‬ن ددفنس عطر سائے سگل‬
‫ت جگر کہاں؟‬ ‫مژگاں تلک رسائنی لخ ن‬
‫اے وائے !گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل‬
‫شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باند بہار سے‬
‫مینائے بے شراب‪ ،‬و دنل بے ہوائے سگل‬
‫سطوت سے تیرے جلوۂ سحسنن غیور کی‬
‫گ ادائے سگل‬‫خوں ہے مری نگاہ میں‪ ،‬رن ن‬
‫تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک‬
‫بے اختیار دوڑے ہے سگل در قفائے سگل‬
‫غالبب ! مجھے ہے ساس سے ہم آغوشی آرزو‬
‫جس کا خیال‪ ،‬ہے گ سنل جینب قبائے سگل‬
‫٭٭‬

‫اپنا احوانل دنل زار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬


‫ہے حیا ماننع اظہار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬
‫نہیں کرنے کا‪ ،‬میں‪ ،‬تقریر ادب سے باہر‬
‫میں بھی ہوں محرنم اسرار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬
‫شکر سمجھو اسے ‪ ،‬یا کوئی شکایت سمجھو‬
‫اپنی ہستی سے ہوں بیزار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬
‫اپنے دل ہی سے ‪ ،‬میں‪ ،‬احوال گرفتاری دل‬
‫جب نہ پاؤں کوئی غم خوار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬
‫دل کے ہاتھوں سے ‪ ،‬کہ ہے دشمنن جانی میرا‬
‫ہوں اک آفت میں گرفتار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬
‫میں تو دیوانہ ہوں‪ ،‬اور ایک جہاں ہے غماز‬
‫گوش ہیں در پنس دیوار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬
‫آپ سے وہ مرا احوال نہ پوچھے ‪ ،‬تو‪ ،‬اسدب‬
‫حسنب حال اپنے پھر اشعار‪ ،‬کہوں یا نہ کہوں؟‬
‫یہ غزل دیوانن نواب الہی بخش خان معروفب متوفی ‪ 1826‬کے ایک مخمس میں ملتی ہے ۔ قیاس ہے کہ یہ ‪ 1821‬کے بعد(‬
‫)ہی کہی گئی ہو گی کیونکہ یہ نسخہ بھوپال )قدیم( بخنط غالب)‪ (1816‬اور نسخہ بھوپال)‪ (1821‬دونوں میں شامل نہیں‬
‫٭٭‬

‫مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں‬


‫کر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں‬ ‫ایک چ ی‬
‫شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو‪ ،‬کہ جہاں‬
‫جادہ‪ ،‬غیر از نگنہ دیدۂ تصویر‪ ،‬نہیں‬
‫ت آزار رہی جاتی ہے‬ ‫ت لیذ ن‬ ‫حسر ن‬
‫جادۂ رانہ وفا‪ ،‬جز دنم شمشیر‪ ،‬نہیں‬
‫! رننج نو میدنی جاوید گوارا رہیو‬
‫خوش ہوں‪ ،‬گر نالہ زبونی کنش تاثیر‪ ،‬نہیں‬
‫سر کھجاتا ہے ‪ ،‬جہاں زخنم سر اچھا ہو جائے‬
‫لیذنت سنگ‪ ،‬بہ اندازۂ تقریر‪ ،‬نہیں‬
‫آئنہ دام کو سبزے میں چھپاتا ہے عبث‬
‫کہ پری زاند نظر‪ ،‬قابنل تسخیر‪ ،‬نہیں‬
‫مثنل گل‪ ،‬زخم ہے میرا بھی سناں سے توام‬
‫تیرا ترکش ہی کچھ آبستننی تیر‪ ،‬نہیں‬
‫ت بیباکی و گستاخی دے‬ ‫جب کرم رخص ن‬
‫ت تقصیر‪ ،‬نہیں‬ ‫جز خجل ن‬ ‫کوئی تقصیر‪ ،‬ب س‬
‫میرب کے شعر کا احوال کہوں کیا‪ ،‬غالبب‬
‫جس کا دیوان کم از گلشنن کشمیر نہیں‬
‫بغالبب ‪ ،‬اپنا یہ عقیدہ ہے بقونل ناسخ‬
‫"آپ بے بہرہ ہے ‪ ،‬جو معتقند میر‪ ،‬نہیں"‬
‫٭٭‬
‫دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے‬
‫میں اسے دیکھوں‪ ،‬بھل کب مجھ سے دیکھا جائے ہے‬
‫ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے‬
‫آبگینہ‪ ،‬تندنئ صہبا سے پگھل جائے ہے‬
‫غیر کو‪ ،‬یا رب‪ ،‬وہ کیوں کر مننع گستاخی کرے ؟‬
‫گر حیا بھی اس کو آتی ہے ‪ ،‬تو شرما جائے ہے‬
‫شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے‬
‫دل کی وہ حالت‪ ،‬کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے‬
‫! دور‪ ،‬چشنم بد تری بزنم طرب سے ! واہ‪ ،‬واہ‬
‫نغمہ ہو جاتا ہے ‪ ،‬واں گر نالہ میرا جائے ہے‬
‫گرچہ ہے طرنز تغافل‪ ،‬پردہ دانر رانز عشق‬
‫پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے‬
‫اس کی بزم آرائیاں سن کر‪ ،‬دنل رنجور‪ ،‬یاں‬
‫مثنل نقنش میدعائے غیر‪ ،‬بیٹھا جائے ہے‬
‫ہو کے عاشق‪ ،‬وہ پری رخ اور نازک بن گیا‬
‫رنگ کسھلتا جائے ہے ‪ ،‬جتنا کہ اڑتا جائے ہے‬
‫! نقش کو اس کے ‪ ،‬مصیور پر بھی کیا کیا ناز ہیں‬
‫کھینچتا ہے ‪ ،‬جس قدر‪ ،‬اتنا ہی کھنچتا جائے ہے‬
‫! سایہ میرا‪ ،‬مجھ سے ‪ ،‬مثنل دود بھاگے ہے ‪ ،‬اسدب‬
‫پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے ؟‬
‫٭٭‬

‫مسجد کے زینر سایہ‪ ،‬خرابات چاہیے‬


‫دبھوں پاس آنکھ‪ ،‬قبلۂ حاجات چاہیے‬
‫وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے‬
‫صاحب کے ہم نشیں کو کرامات چاہیے‬
‫عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر‬
‫آخر‪ ،‬ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے‬
‫دے داد‪ ،‬اے فلک دنل حسرت پرست کی‬
‫ہاں‪ ،‬کچھ نہ کچھ تلفنی مافات چاہیے‬
‫سیکھے ہیں‪ ،‬مہ رخوں کے لیے ہم مصوری‬
‫تقریب کچھ تو بہنر ملقات چاہیے‬
‫مے سے غرض نشاط ہے ‪ ،‬کس روسیاہ کو؟‬
‫اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے‬
‫قطعہ‬
‫نشو و نما ہے اصل سے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬فروع کو‬
‫خاموشی ہی سے نکلے ہے ‪ ،‬جو بات چاہیے‬
‫گ للہ و گل و نسریں جدا جدا‬ ‫ہے رن ن‬
‫ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے‬
‫سر‪ ،‬پائے سخم پہ چاہیے ہنگانم بیخودی‬
‫ت مناجات چاہیے‬ ‫رو‪ ،‬سوئے قبلہ وق ن‬
‫یعنی‪ ،‬بحسنب گردنش پیمانۂ صفات‬
‫ت مے ذات چاہیے‬ ‫عارف ہمیشہ مس ن‬
‫٭٭‬

‫گرنم فریاد رکھا شکنل نہالی نے مجھے‬


‫تب اماں ہجر میں دی برند لیالی نے مجھے‬
‫نسیہ و نقد دو عالم کی حقیقت معلوم‬
‫ت عالی نے مجھے‬ ‫لے لیا مجھ سے مری ہم ن‬
‫کثرت آرائی وحدت‪ ،‬ہے پرستارنی وہم‬
‫کر دیا کافر ان اصنانم خیالی نے مجھے‬
‫زندگی میں بھی رہا ذوق فنا کا مارا‬
‫نشہ بخشا غضب اس ساغنر خالی نے مجھے‬
‫نہ رہا‬ ‫ہونس گل کا تصور میں بھی کھٹکا‬
‫مجھے‬ ‫عجب آرام دیا بے پر و بالی نے‬
‫سخن‬ ‫بسکہ تھی فصنل خزانن چمنستانن‬
‫مجھے‬ ‫گ شہرت ننہ دیا تازہ خیالی نے‬‫رن ن‬
‫غالبب‬ ‫جلوۂ خور سے ‪ ،‬فنا ہوتی ہے شبنم‪،‬‬
‫مجھے‬ ‫کھو دیا سطونت اسمائے جللی نے‬
‫٭٭‬

‫کبھی نیکی بھی ساس کے جی میں‪ ،‬گر آ جائے ہے ‪ ،‬سمجھ سے‬


‫جفائیں کر کے اپنی یاد‪ ،‬شرما جائے ہے ‪ ،‬سمجھ سے‬
‫سخدایا ! جذبۂ دل کی مگر تاثیر سالٹی ہے ؟‬
‫کہ جتنا کھینچتا ہوں‪ ،‬اور کنھنچتا جائے ہے سمجھ سے‬
‫وہ دبد سخو‪ ،‬اور میری داستانن عشق سطولنی‬
‫عبارت سمختصر‪ ،‬قاصد بھی گھبرا جائے ہے ‪ ،‬سمجھ سے‬
‫سادھر وہ بدگمانی ہے ‪ ،‬نادھر یہ ناتوانی ہے‬
‫نہ سپوچھا جائے ہے ساس سے ‪ ،‬نہ بول جائے ہے مجھ سے‬
‫سنبھلنے دے مجھے ‪ ،‬اے نا سامیدی‪ ،‬کیا قیامت ہے‬
‫کہ دامانن خیانل یار‪ ،‬چسھوٹا جائے ہے سمجھ سے‬
‫تکلف بر طرف‪ ،‬نظارگی میں بھی سہی‪ ،‬لیکن‬
‫وہ دیکھا جائے ‪ ،‬کب یہ سظلم دیکھا جائے ہے ‪ ،‬سمجھ سے‬
‫ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے ‪ ،‬نبرند عشق میں زخمی‬
‫نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ‪ ،‬نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے‬
‫قیامت ہے کہ ہووے سمدعی کا ہمسفر‪ ،‬غالبب‬
‫وہ کافر‪ ،‬جو سخدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے سمجھ سے‬
‫٭٭‬

‫وہ آ کے ‪ ،‬خواب میں‪ ،‬تسکینن اضطراب تو دے‬


‫ولے مجھے تپنش دل‪ ،‬مجانل خواب تو دے‬
‫کرے ہے قتل‪ ،‬لگاوٹ میں تیرا رو دینا‬
‫تری طرح کوئی تینغ نگہ کو آب تو دے‬
‫ندکھا کے جنبنش لب ہی‪ ،‬تمام کر ہم کو‬
‫نہ دے جو بوسہ‪ ،‬تو منہ سے کہیں جواب تو دے‬
‫پل دے اوک سے ساقی‪ ،‬جو ہم سے نفرت ہے‬
‫پیالہ گر نہیں دیتا‪ ،‬نہ دے ‪ ،‬شراب تو دے‬
‫یہ کون کہوے ہے آباد کر ہمیں؟ لیکن‬
‫کبھی زمانہ مراند دنل خراب تو دے‬
‫اسدب ! خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پسھول گئے‬
‫‘‘ کہا جو ساس نے ‪’’ ،‬ذرا میرے پاؤں داب تو دے‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1826‬‬

‫عشق‪ ،‬تاثیر سے نومید نہیں‬


‫جاں سپاری‪ ،‬شجنر بید نہیں‬
‫سلطنت دست بدددست آئی ہے‬
‫جانم مے ‪ ،‬خاتنم جمشید نہیں‬
‫ہے تجلی تری‪ ،‬سامانن وجود‬
‫ذیرہ‪ ،‬بے پرتنو خورشید نہیں‬
‫رانز معشوق نہ رسوا ہو جائے‬
‫ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں‬
‫گ طرب سے ڈر ہے‬ ‫گردنش رن ن‬
‫غنم محرومئ جاوید نہیں‬
‫"کہتے ہیں "جیتے ہیں ا سیمید پہ لوگ‬
‫ہم کو جینے کی بھی ایمید نہیں‬
‫مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل‬
‫بادہ‪ ،‬غالبب ! عرنق بید نہیں‬
‫٭٭‬

‫دیوانگی سے ‪ ،‬دوش پہ زینار بھی نہیں‬


‫یعنی ہمارے جیب میں اک تار بھی نہیں‬
‫ت دیدار کر چکے‬ ‫دل کو نیانز حسر ن‬
‫ت دیدار بھی نہیں‬ ‫دیکھا تو ہم میں طاق ن‬
‫ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے‬
‫دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں‬
‫بے عشق سعمر کٹ نہیں سکتی ہے ‪ ،‬اور یاں‬
‫ت آزار بھی نہیں‬ ‫طاقت بہ قدنر لیذ ن‬
‫شوریدگی کے ہاتھ سے ہے ‪ ،‬سر‪ ،‬وبانل دوش‬
‫صحرا میں‪ ،‬اے خدا‪ ،‬کوئی دیوار بھی نہیں‬
‫ت اغیار یک طرف‬ ‫گنجائنش عداو ن‬
‫یاں دل میں‪ ،‬ضعف سے ‪ ،‬ہونس یار بھی نہیں‬
‫ڈر نالہ ہائے زار سے میرے ‪ ،‬سخدا کو مان‬
‫آخر‪ ،‬نوائے مرنغ گرفتار بھی نہیں‬
‫دل میں ہے ‪ ،‬یار کی صنف مژگاں سے روکشی‬
‫ت خلنش خار بھی نہیں‬ ‫حالنکہ طاق ن‬
‫اس سادگی پہ کون نہ مر جائے ‪ ،‬اے سخدا؟‬
‫لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں‬
‫دیکھا اسدب کو خلوت و جلوت میں بارہا‬
‫دیوانہ گر نہیں ہے ‪ ،‬تو ہشیار بھی نہیں‬
‫٭٭‬

‫مزے جہان کے ‪ ،‬اپنی نظر میں خاک نہیں‬


‫سوائے خونن جگر‪ ،‬سو جگر میں خاک نہیں‬
‫مگر غبار سہوے پر‪ ،‬دہوا ساڑا لے جائے‬
‫وگرنہ تاب و تواں‪ ،‬بال و پر میں خاک نہیں‬
‫یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے ؟‬
‫کہ غینر جلوۂ سگل‪ ،‬رہ گزر میں خاک نہیں‬
‫بھل ساسے نہ سہی‪ ،‬کچھ مجھی کو رحم آتا‬
‫اثر‪ ،‬مرے نفنس بے اثر میں خاک نہیں‬
‫خیانل جلوۂ سگل سے خراب ہیں میکش‬
‫شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں‬
‫سہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ‬
‫سوائے حسرنت تعمیر‪ ،‬گھر میں خاک نہیں‬
‫ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے ‪ ،‬اسدب‬
‫کسھل‪ ،‬کہ فائدہ عرنض سہنر میں خاک نہیں‬
‫٭٭‬

‫لد کے ‪ ،‬چلے ہیں ہم‪ ،‬آگے‬ ‫عجب نشاط سے ج ی‬


‫کہ اپنے سائے سے سر‪ ،‬پاؤں سے ہے دو قدم آگے‬
‫ب بادۂ الفت‬
‫قضا نے تھا مجھے چاہا خرا ن‬
‫فقط "خراب" لکھا‪ ،‬بس نہ چل سکا قلم آگے‬
‫غنم زمانہ نے جھاڑی نشانط عشق کی مستی‬
‫ت الم آگے‬‫وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لیذ ن‬
‫خدا کے واسطے ! داد اس جنونن شوق کی دینا‬
‫کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ‪ ،‬ہم‪ ،‬آگے‬
‫یہ‪ ،‬عمر بھر‪ ،‬جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے‬
‫تمہارے آئیو‪ ،‬اے طیرہ ہائے خم بہ خم‪ ،‬آگے‬
‫دل و جگر میں دپر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے‬
‫ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے‬
‫قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں‪ ،‬غالبب‬
‫ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے‬
‫٭٭‬

‫فریاد کی کوئی دلے نہیں ہے‬


‫نالہ‪ ،‬پابنند دنے نہیں ہے‬
‫کیوں بوتے ہیں باغبان تونبے ؟‬
‫گر باغ گدائے دمے نہیں ہے‬
‫ہر چند ہر ایک شے میں ستو ہے‬
‫دپر ستجھ سی کوئی شے نہیں ہے‬
‫!ہاں‪ ،‬کھائیو مت فرینب ہستی‬
‫ہر چند کہیں کہ "ہے "‪ ،‬نہیں ہے‬
‫شادی سے سگذر کہ‪ ،‬غم نہ ہووے‬
‫ساردی جو نہ ہو‪ ،‬تو ددے نہیں ہے‬
‫انجانم شمانر غم نہ پوچھو‬
‫ف تابکے نہیں ہے‬ ‫یہ مصر ن‬
‫! کیوں رند قدح کرے ہے ‪ ،‬زاہد‬
‫دمے ہے یہ مگس کی دقے نہیں ہے‬
‫جس دل میں کہ "تابکے " سما جائے‬
‫ت کے نہیں ہے‬ ‫ت تخ ن‬ ‫واں عز ن‬
‫ہستی ہے ‪ ،‬نہ کچھ دعدم ہے ‪ ،‬غالبب‬
‫‘‘ آخر ستو کیا ہے ‪’’ ،‬داے نہیں ہے‬
‫٭٭‬

‫دیکھ کر در پردہ گرنم دامن افشانی مجھے‬


‫کر گئی وابستۂ تن‪ ،‬میری سعریانی‪ ،‬مجھے‬
‫گ دفساں‬ ‫بن گیا تینغ نگانہ یار کا سن ن‬
‫مرحبا !دمیں‪ ،‬کیا مبارک ہے ‪ ،‬گراں جانی مجھے‬
‫کیوں نہ ہو بے التفاتی ؟ ساس کی خاطر جمع ہے‬
‫جانتا ہے محنو سپرسش ہائے پنہانی مجھے‬
‫میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی‬
‫ب ویرانی مجھے‬ ‫نلکھ دیا منجملۂ اسبا ن‬
‫! بدگماں ہوتا ہے وہ کافر‪ ،‬نہ ہوتا‪ ،‬کاشکے‬
‫ناس قدر ذونق نوائے سمرنغ سبستانی مجھے‬
‫وائے ! واں بھی شونر محشر نے نہ ددم لینے دیا‬
‫لے گیا تھا گور میں‪ ،‬ذونق تن آسانی مجھے‬
‫وعدہ آنے کا وفا کیجے ‪ ،‬یہ کیا انداز ہے ؟‬
‫تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے ؟‬
‫! ہاں‪ ،‬نشانط آمند فصنل بہاری‪ ،‬واہ‪ ،‬واہ‬
‫پھر سہوا ہے تازہ‪ ،‬سودائے غزل خوانی مجھے‬
‫دی مرے بھائی کو حق نے از سنر دنو زندگی‬
‫میرزا یوسف ہے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬یوسنف ثانی مجھے‬
‫اس غزل کے دو شعر)تیسرا اور چوتھا(نسخہ شیرانی)‪(1826‬میں موجود ہیں۔ اور جس غزل میں یہ دو شعر اضافہ کیے گئے (‬
‫ہیں۔ وہ اص لا نسخہ بھوپال میں ہے اور اس کی جداگانہ حیثیت ہے ۔ اس لیے اصول کے مطابق اس غزل کو نسخہ شیرانی‬
‫میں ہی رکھا جائے گا۔ تاہم مکمل غزل گ نل رعنا میں شامل ہے ۔ آخری شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے متداول غزل‬
‫کے باقی شعر اپنے بیمار بھائی یوسف کی صحت یابی کی خبر )اپریل ‪182‬ء( سن کر کلکتے کے قیام کے دوران فکر کیے‬
‫) ہوں گے ۔ چونکہ گ نل رعنا کلم کا انتخاب ہے اس لیے تین شعر )مطلع‪ ،‬مقطع اور پانچواں شعر(انتخاب نہیں کیے گئے‬
‫٭٭٭‬

‫بعد از ‪1826‬‬

‫ستائش گر ہے زاہد‪ ،‬اس قدر جس بانغ رضواں کا‬


‫وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طانق نسیاں کا‬
‫بیاں کیا کیجئے بیداند کاوش ہائے مژگاں کا‬
‫کہ ہر یک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبینح مرجاں کا‬
‫نہ آئی سطونت قاتل بھی مانع‪ ،‬میرے نالوں کو‬
‫لیا دانتوں میں جو تنکا‪ ،‬ہوا ریشہ ن ددیستاں کا‬
‫دکھاؤں گا تماشہ‪ ،‬دی اگر فرصت زمانے نے‬
‫نمرا ہر دانغ دل‪ ،‬ناک تخم ہے سرنو چراغاں کا‬
‫کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے‬
‫کرے جو‪ ،‬پرتنو سخورشید عالم شبنمستاں کا‬
‫مری تعمیر میں سمضمر ہے اک صورت خرابی کی‬
‫ہیولیی برنق خرمن کا‪ ،‬ہے خونن گرم دہقاں کا‬
‫ساگا ہے گھر میں ہر سسو سبزہ‪ ،‬ویرانی تماشہ کر‬
‫مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے ‪ ،‬میرے درباں کا‬
‫خموشی میں نہاں‪ ،‬خوں گشتہ‪ ،‬لکھوں آرزوئیں ہیں‬
‫چرانغ سمردہ ہوں‪ ،‬میں بے زباں‪ ،‬گونر غریباں کا‬
‫ہنوز اک پرتنو نقنش خیانل یار باقی ہے‬
‫دنل افسردہ‪ ،‬گویا‪ ،‬حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا‬
‫بغل میں غیر کی‪ ،‬آج آپ سوتے ہیں کہیں‪ ،‬ورنہ‬
‫سبب کیا‪ ،‬خواب میں آ کر‪ ،‬تبسم ہائے پنہاں کا؟‬
‫! نہیں معلوم‪ ،‬کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا‬
‫قیامت ہے ‪ ،‬سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا‬
‫نظر میں ہے ہماری‪ ،‬جادۂ رانہ فنا‪ ،‬غالبب‬
‫کہ یہ شیرازہ ہے عادلم کے اجزائے پریشاں کا‬
‫٭٭‬

‫ہوس کو ہے نشانط کار کیا کیا؟‬


‫?نہ ہو مرنا‪ ،‬تو جینے کا مزا کیا‬
‫?تجاہل پیشگی سے مدعا کیا‬
‫"کہاں تک اے سراپا ناز‪" ،‬کیا‪ ،‬کیا؟‬
‫نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں‬
‫شکایت ہائے رنگیں کا گل کیا؟‬
‫نگانہ بے محابا چاہتا ہوں‬
‫تغافل ہائے تمکیں آزما کیا؟‬
‫فرونغ شعلۂ خس‪ ،‬یک ندفس ہے‬
‫?ہوس کو پانس نامونس وفا کیا‬
‫نفس مونج محینط بیخودی ہے‬
‫تغافل ہائے ساقی کا گل کیا؟‬
‫دمانغ عطر پیراہن نہیں ہے‬
‫غنم آوارگی ہائے صبا کیا؟‬
‫"دنل ہر قطرہ ہے سانز "انا البحر‬
‫ہم اس کے ہیں‪ ،‬ہمارا پوچھنا کیا؟‬
‫محابا کیا ہے ؟ دمیں ضامن‪ ،‬نادھر دیکھ‬
‫شہیدانن نگہ کا خوں بہا کیا؟‬
‫سن‪ ،‬اے غارت گنر جننس وفا‪ ،‬سن‬
‫ت دل کی صدا کیا؟‬ ‫ت قیم ن‬
‫شکس ن‬
‫کیا کس نے جگر داری کا دعویی؟‬
‫شکینب خاطنر عاشق بھل کیا؟‬
‫یہ‪ ،‬قاتل‪ ،‬وعدۂ صبر آزما کیوں؟‬
‫یہ‪ ،‬کافر‪ ،‬فتنۂ طاقت ربا کیا؟‬
‫بلئے جاں ہے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬اس کی ہر بات‬
‫عبارت کیا‪ ،‬اشارت کیا‪ ،‬ادا کیا؟‬
‫٭٭‬

‫آبرو کیا خاک ساس سگل کی‪ ،‬کہ گلشن میں نہیں؟‬
‫گ پیراہن‪ ،‬جو دامن میں نہیں‬ ‫ہے گریبان نن ن‬
‫ضعف سے اے گریہ‪ ،‬کچھ باقی مرے تن میں نہیں‬
‫رنگ ہو کر اڑ گیا‪ ،‬جو خوں کہ دامن میں نہیں‬
‫ہو گئے ہیں جمع‪ ،‬اجزائے نگانہ آفتاب‬
‫ذیرے ‪ ،‬ساس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں‬
‫کیا کہوں تاریکنئ زندانن غم‪ ،‬اندھیر ہے‬
‫پنبہ‪ ،‬نونر صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں‬
‫روننق ہستی ہے عشنق خانہ ویراں ساز سے‬
‫انجمن بے شمع ہے ‪ ،‬گر برق خرمن میں نہیں‬
‫زخم نسلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن‬
‫غیر سمجھا ہے کہ لیذت زخنم سوزن میں نہیں‬
‫بس کہ ہیں‪ ،‬ہم اک بہانر ناز کے مارے ہوئے‬
‫جلوۂ سگل کے نسوا‪ ،‬گرد اپنے مدفن میں نہیں‬
‫قطرہ قطرہ اک ہیولیی ہے نئے ناسور کا‬
‫سخوں بھی‪ ،‬ذونق درد سے ‪ ،‬فارغ مرے تن میں نہیں‬
‫لے گئی ساقی کی نخوت‪ ،‬قلزم آشامی مری‬
‫مونج مے کی‪ ،‬آج‪ ،‬رگ مینا کی گردن میں نہیں‬
‫ہو فشانر ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟‬
‫قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں‬
‫تھی وطن میں شان کیا‪ ،‬غالبب ‪ ،‬کہ ہو غربت میں قدر‬
‫ت خس کہ گلخن میں نہیں‬ ‫بے تکیلف‪ ،‬ہوں وہ مش ن‬
‫٭٭‬

‫ذکر میرا‪ ،‬بہ بدی بھی‪ ،‬ساسے منظور نہیں‬


‫غیر کی بات بگڑ جائے ‪ ،‬تو کچھ سدور نہیں‬
‫وعدۂ سینر گلستاں ہے ‪ ،‬خوشا! طالنع شوق‬
‫مژدۂ قتل مقیدر ہے ‪ ،‬جو مذکور نہیں‬
‫شاہند ہستنی مطلق کی کمر ہے ‪ ،‬عادلم‬
‫لوگ کہتے ہیں کہ ہے ‪ ،‬پر ہمیںمنظور نہیں‬
‫قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا‪ ،‬لیکن‬
‫ہم کو تقلیند ستنک ظرفنی منصور نہیں‬
‫حسرت! اے ذونق خرابی‪ ،‬کہ وہ طاقت نہ رہی‬
‫عشنق سپر عردبدہ کی گوں تنن رنجور نہیں‬
‫ظلم کر ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو‬
‫ستو تغافل میںکسی رنگ سے معذور نہیں‬
‫میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمھیں‬
‫‘‘کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم حور نہیں‬
‫پیٹھ محراب کی قبلے کی طرف رہتی ہے‬
‫محنو نسبت ہیں‪ ،‬تکلف ہمیں منظور نہیں‬
‫صاف سدردی کنش پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ‬
‫وائے ! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں‬
‫سہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبب‬
‫جت ہے کہ مشہور نہیں‬ ‫میرے دعوے پہ یہ ح ی‬
‫٭٭‬
‫نالہ سجز حسنن طلب‪ ،‬اے ستم ایجاد نہیں‬
‫ہے تقاضائے جفا‪ ،‬شکوۂ بیداد نہیں‬
‫!عشق و مزدورنی عشرت گنہ خسرو‪ ،‬کیا سخوب‬
‫ہم کو تسلیم‪ ،‬نکو نامنی فرہاد‪ ،‬نہیں‬
‫کم نہیں وہ بھی خرابی میں‪ ،‬پہ وسعت معلوم‬
‫دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں‬
‫اہنل بینش کو ہے ‪ ،‬طوفانن حوادث‪ ،‬مکتب‬
‫لطمۂ موج‪ ،‬کم از سیلنئ استاد نہیں‬
‫وائے ‪ ،‬محرومنی تسلیم‪ ،‬و بدا! حانل وفا‬
‫ت فریاد نہیں‬ ‫جانتا ہے کہ ہمیں طاق ن‬
‫گ تمکینن سگل و للہ پریشاں کیوں ہے ؟‬ ‫رن ن‬
‫گر چراغانن سنر رہ سگزنر باد نہیں‬
‫دسبدند سگل کے تلے بند کرے ہے گلچیں‬
‫مژدہ‪ ،‬اے مرغ‪ ،‬کہ گلزار میں صییاد نہیں‬
‫نفی سے کرتی ہے ‪ ،‬اثبات‪ ،‬طراوش‪ ،‬گویا‬
‫دی ہی جائے دہن‪ ،‬اس کو دنم ایجاد‪ ،‬نہیں‬
‫کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے ‪ ،‬بہشت‬
‫یہی نقشہ ہے ‪ ،‬ولے اس قدر آباد نہیں‬
‫کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت‪ ،‬غالبب‬
‫تم کو بے مہرنی یارانن وطن یاد نہیں؟‬
‫٭٭‬

‫واں پہنچ کر‪ ،‬جو غش آتا پے ہم ہے ہم کو‬


‫گ زمیں بونس قدم ہے ہم کو‬ ‫صد رہ آہن ن‬
‫دل کو میں اور مجھے دل محنو وفا رکھتا ہے‬
‫کس قدر ذونق گرفتارنی ہم ہے ہم کو‬
‫ضعف سے نقنش پئے مور‪ ،‬ہے طونق گردن‬
‫ت رم ہے ہم کو‬ ‫ترے کوچے سے کہاں طاق ن‬
‫جان کر کیجے تغافل‪ ،‬کہ کچھ ایمید بھی ہو‬
‫یہ نگانہ غلط انداز تو دسم ہے ہم کو‬
‫گ حزیں‬ ‫ک ہم طرحی و درند اثنر بان ن‬ ‫رش ن‬
‫نالۂ مرنغ سحر‪ ،‬تینغ دو دم ہے ہم کو‬
‫سر اڑانے کے جو وعدے کو مکیرر چاہا‬
‫"ہنس کے بولے کہ "ترے سر کی قسم ہے ہم کو‬
‫دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ ولیکن ناچار‬
‫پانس بے رونقنی دیدہ اہم ہے ہم کو‬
‫تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو‬
‫ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو‬
‫لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا‪ ،‬یعنی‬
‫ہونس سیر و تماشا‪ ،‬سو وہ کم ہے ہم کو‬
‫مقطنع سلسلۂ شوق نہیں ہے ‪ ،‬یہ شہر‬
‫ف حرم ہے ہم کو‬ ‫عزنم سینر نجف و طو ن‬
‫لیے جاتی ہے کہیں ایک تویقع غالبب‬
‫ف کرم ہے ہم کو‬ ‫جادۂ رہ‪ ،‬کشنش کا ن‬
‫ابر روتا ہے ‪ ،‬کہ بزنم طرب آمادہ کرو‬
‫برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو‬
‫ت رننج سفر بھی نہیں پاتے اتنی‬ ‫طاق ن‬
‫ہجنر یارانن وطن کا بھی الم ہے ہم کو‬
‫لئی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید‬
‫ف کرم ہے ہم کو‬ ‫جادۂ رہ‪ ،‬کشنش کا ن‬
‫٭٭‬
‫ظلمت کدے میں میرے ‪ ،‬شنب غم کا جوش ہے‬
‫اک شمع ہے دلینل سحر‪ ،‬سو خموش ہے‬
‫نے مژدۂ وصال‪ ،‬نہ نیظارۂ جمال‬
‫میدت ہوئی کہ آشتنی چشم و گوش ہے‬
‫ہو کر شہید عشق میں‪ ،‬پائے ہزار جسم‬
‫ہر مونج گرند رہ‪ ،‬مرے سر کو دووش ہے‬
‫مے نے نکیا ہے حسنن خود آرا کو بے حجاب‬
‫ت تسلینم ہوش ہے‬ ‫اے شوق‪ ،‬ہاں‪ ،‬اجاز ن‬
‫گوہر کو عقند گردنن خوباں میں دیکھنا‬
‫کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے‬
‫دیدار بادہ‪ ،‬حوصلہ ساقی‪ ،‬نگاہ مست‬
‫بزنم خیال‪ ،‬مے کدۂ بے خروش ہے‬
‫ق‬
‫!اے تازہ واردانن بسانط ہوائے دل‬
‫زنہار !اگر تمہیں ہونس نائے و نوش ہے‬
‫دیکھو مجھے ‪ ،‬جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‬
‫میری سنو! جو گونش نصیحت نیوش ہے‬
‫ساقی بہ جلوہ‪ ،‬دشمنن ایمان و آگہی‬
‫مطرب بہ نغمہ‪ ،‬رہزنن تمکین و ہوش ہے‬
‫یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط‬
‫دامانن باغبان و کنف گل فروش ہے‬
‫یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں‬
‫نے وہ سرور و سوز‪ ،‬نہ جوش و خروش ہے‬
‫ت شب کی جلی ہوئی‬ ‫دانغ فرانق صحب ن‬
‫اک شمع رہ گئی ہے ‪ ،‬سو وہ بھی خموش ہے‬
‫لطنف خرانم ساقی و ذونق صدائے چنگ‬
‫ت نگاہ‪ ،‬وہ فردونس گوش ہے‬ ‫یہ جن ی ن‬
‫آتے ہیں غیب سے ‪ ،‬یہ مضامیں خیال میں‬
‫غالبب ‪ ،‬صرینر خامہ‪ ،‬نوائے سروش ہے‬
‫٭٭‬

‫کب وہ سنتا ہے کہانی میری‬


‫اور پھر وہ بھی زبانی میری‬
‫خلنش غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ‬
‫دیکھ خوننابہ فشانی میری‬
‫کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار؟‬
‫مگر آشفتہ بیانی میری‬
‫ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال‬
‫بھول جانا ہے نشانی میری‬
‫متقابل ہے ‪ ،‬مقابل میرا‬
‫رک گیا‪ ،‬دیکھ روانی میری‬
‫گ سنر رہ رکھتا ہوں‬ ‫قدنر سن ن‬
‫سخت ارزاں ہے ‪ ،‬گرانی میری‬
‫گرد باند رنہ بیتابی ہوں‬
‫صرصنر شوق‪ ،‬ہے بانی میری‬
‫دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا‬
‫کھل گئی ہیچمدانی میری‬
‫کر دیا ضعف نے عاجز‪ ،‬غالبب‬
‫گ پیری ہے ‪ ،‬جوانی میری‬ ‫نن ن‬
‫٭٭‬
‫سادگی پر اس کی‪ ،‬مر جانے کی حسرت دل میں ہے‬
‫بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کنف قاتل میں ہے‬
‫دیکھنا تقریر کی لیذت‪ ،‬کہ جو اس نے کہا‬
‫میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‬
‫گرچہ ہے کس کس برائی سے ‪ ،‬ولے با ایں ہمہ‬
‫ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے‬
‫بس ہجونم نا امیدی‪ ،‬خاک میں مل جائے گی‬
‫یہ جو اک لیذت ہماری سعنی بے حاصل میں ہے‬
‫! رننج رہ کیوں کھینچیے ؟ واماندگی کو عشق ہے‬
‫اٹھ نہیں سکتا‪ ،‬ہمارا جو قدم منزل میں ہے‬
‫جلوہ زانر آتنش دوزخ‪ ،‬ہمارا دل سہی‬
‫فتنۂ شونر قیامت کس کی آب و نگل میں ہے ؟‬
‫ہے دنل شوریدۂ غالبب طلسنم پیچ و تاب‬
‫رحم کر اپنی تمینا پر کہ کس مشکل میں ہے‬
‫٭٭٭‬

‫ء ‪1828/29‬‬

‫قطعہ‬

‫دیکھنے میں ہیں گرچہ دو‪ ،‬پر ہیں یہ دونوں یار ایک‬
‫وضع میں گو ہوئی دو سر‪ ،‬تیغ ہے ذوالفقار ایک‬
‫ت قاسم و طپاں‬ ‫ہم سخن اور ہم زباں‪ ،‬حضر ن‬
‫ایک تپش کا جانشین‪ ،‬درد کا یادگار ایک‬
‫نقند سخن کے واسطے ‪ ،‬ایک عیانر آگہی‬
‫شعر کے فن کے واسطے ‪ ،‬مایۂ اعتبار ایک‬
‫ایک وفا و مہر میں‪ ،‬تازگنی بسانط دہر‬
‫ت روزگار ایک‬ ‫لطف و کرم کے باب میں‪ ،‬زین ن‬
‫سگل کدۂ تلش کو‪ ،‬ایک ہے رنگ‪ ،‬اک ہے بو‬
‫ریختے کے قماش کو‪ ،‬پود ہے ایک‪ ،‬تار ایک‬
‫ت کمال میں‪ ،‬ایک امینر نامور‬ ‫مملک ن‬
‫عرصۂ قیل و قال میں‪ ،‬خسرنو نامدار ایک‬
‫گلشنن ایتفاق میں‪ ،‬ایک بہانر بے خزاں‬
‫مے کدۂ وفاق میں‪ ،‬بادۂ بے خمار ایک‬
‫زندۂ شونق شعر کو‪ ،‬ایک چرانغ انجمن‬
‫سکشتۂ ذونق شعر کو‪ ،‬شمنع سنر مزار ایک‬
‫دونوں کے دل حق آشنا‪ ،‬دونوں رسولی پر نفدا‬
‫ب چار یار‪ ،‬عاشنق ہشت و چار ایک‬ ‫ایک سمح ن ی‬
‫جانن وفا پرست کو‪ ،‬ایک شمینم نو بہار‬
‫گ بار ایک‬ ‫فرنق ستیزہ مست کو‪ ،‬ابنر تگر ن‬
‫لیا ہے کہہ کے یہ غزل‪ ،‬شائبۂ نریا سے دور‬
‫کر کے دل و زبان کو‪ ،‬غالبب ن خاکسار‪ ،‬ایک‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫ہے جو صاحب کے کنف دست پہ یہ چکنی ڈلی‬
‫زیب دیتا ہے ‪ ،‬ساسے جس قدر اچیھا کہیے‬
‫خامہ‪ ،‬انگشت بدنداں‪ ،‬کہ اسے کیا لکھیے‬
‫ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے‬
‫ب عزیزانن گرامی لکھیے‬‫سمہنر مکتو ن‬
‫حرنز بازوئے شگرفانن خود آرا کہیے‬
‫ت حسیناں لکھیے‬ ‫مسی آلود ہ سر انگش ن‬
‫ف جگنر عاشنق شیدا‪ ،‬کہیے‬ ‫دانغ طر ن‬
‫ت سلیماں کے مشابہ لکھیے‬ ‫خاتنم دس ن‬
‫سنر پستانن پریزاد سے مانا کہیے‬
‫اختنر سوختۂ قیس سے نسبت دیجے‬
‫خانل مشکینن سرنخ دل کنش لیلیی کہیے‬
‫حجر السوند دیوانر حرم کیجے فرض‬
‫نافہ‪ ،‬آہوئے بیابانن سختن کا کہیے‬
‫ف تریاق‬ ‫وضع میں اس کو اگر سمجھیے قا ن‬
‫رنگ میں‪ ،‬سبزۂ نو خینز مسیحا کہیے‬
‫دصومعے میں‪ ،‬اسے ٹھہرائیے گر سمہنر نماز‬
‫ت سخنم صہبا کہیے‬ ‫مے کدے میں اسے خش ن‬
‫کیوں اسے سقفنل دنر گننج محیبت لکھیے ؟‬
‫کیوں اسے نقطۂ دپرکانر تمینا کہیے ؟‬
‫کیوں اسے گوہنر نایاب تصیور کیجے ؟‬
‫ک دیدۂ دعنقا کہیے ؟‬ ‫کیوں اسے مرسدم ن‬
‫کیوں اسے تکمۂ پیراہنن لیل لکھیے ؟‬
‫کیوں اسے نقنش پئے ناقۂ سلما کہیے ؟‬
‫بندہ پرور کے کنف دست کو دل کیجے فرض‬
‫! اور ناس نچکنی سسپاری کو سسویدا کہیے‬

‫ء ‪1833‬‬

‫قطعہ‬
‫کلکتے کا جو ذکر کیا ستو نے ہم نشیں‬
‫! ان ک نتیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے !ہائے‬
‫! وہ سبزہ زار ہائے سمطیرا کہ‪ ،‬ہے غضب‬
‫! سوہ نازنیں سبتانن خود آرا کہ ہائے !ہائے‬
‫! صبر آزما وہ سان کی نگاہیں کہ حف نظر‬
‫! طاقت سربا وہ سان کا اشارا کہ ہائے !ہائے‬
‫!وہ میوہ ہائے تازۂ شیریں کہ‪ ،‬واہ !واہ‬
‫ب گوارا کہ ہائے !ہائے‬‫! وہ بادہ ہائے نا ن‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫مند گئیں‪ ،‬کھولتے ہی کھولتے ‪ ،‬آنکھیں غالبب‬


‫!یار لئے مری بالیں پہ اسے ‪ ،‬پر کس وقت‬
‫٭٭‬

‫لو‪ ،‬ہم مرینض عشق کے بیمار دار ہیں‬


‫اچھا ی اگر نہ ہو‪ ،‬تو مسیحا کا کیا علج‬
‫٭٭‬

‫ب رنخ یار دیکھ کر؟‬ ‫کیوں جل گیا نہ‪ ،‬تا ن‬


‫ت دیدار دیکھ کر‬‫جلتا ہوں‪ ،‬اپنی طاق ن‬
‫آتش پرست کہتے ہیں اہنل جہاں مجھے‬
‫سرگرنم نالہ ہائے شرربار دیکھ کر‬
‫کیا آبروئے عشق‪ ،‬جہاں عام ہو جفا؟‬
‫رکتا ہوں‪ ،‬تم کو بے سبب آزار دیکھ کر‬
‫آتا ہے میرے قتل کو‪ ،‬دپر جونش رشک سے‬
‫مرتا ہوں‪ ،‬اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر‬
‫ثابت ہوا ہے گردنن مینا پہ خونن خلق‬
‫لرزے ہے مونج مے ‪ ،‬تری رفتار دیکھ کر‬
‫وا حسرتا! کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ‬
‫ت آزار دیکھ کر‬‫ہم کو حرینص لیذ ن‬
‫نبک جاتے ہیں ہم آپ‪ ،‬متانع سخن کے ساتھ‬
‫لیکن عیانر طبنع خریدار دیکھ کر‬
‫سزینار باندھ‪ ،‬سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال‬
‫رہرو چلے ہے ‪ ،‬راہ کو ہموار دیکھ کر‬
‫ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں‬
‫جی خوش ہوا ہے ‪ ،‬راہ کو سپر خار دیکھ کر‬
‫کیا بد گماں ہے مجھ سے ! کہ آئینے میں مرے‬
‫طوطی کا عکس سمجھے ہے ‪ ،‬زنگار دیکھ کر‬
‫گرنی تھی ہم پہ برنق تجیلی‪ ،‬نہ طور پر‬
‫ف قدح خوار دیکھ کر‬ ‫دیتے ہیں بادہ‪ ،‬ظر ن‬
‫سر پھوڑنا وہ‪ ،‬غالبب شوریدہ حال کا‬
‫یاد آگیا مجھے ‪ ،‬تری دیوار دیکھ کر‬
‫٭٭‬

‫مجھ کو دیانر غیر میں مارا‪ ،‬وطن سے دور‬


‫رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم‬
‫وہ حلقۂ ہائے زلف کمیں میں ہیں‪ ،‬اے خدا‬
‫رکھ لیجو‪ ،‬میرے دعونی وارستگی کی شرم‬
‫٭٭‬

‫مہرباں ہو کے بل لو مجھے ‪ ،‬چاہو جس وقت‬


‫میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں‬
‫ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے ؟‬
‫بات کچھ دسر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں‬
‫زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو‪ ،‬ستمگر‪ ،‬ورنہ‬
‫کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں‬
‫٭٭‬

‫یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں‬


‫کبھی صبا کو‪ ،‬کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں‬
‫وہ آئے گھر میں ہمارے ‪ ،‬خدا کی قدرت ہے‬
‫کبھی ہم ان کو‪ ،‬کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‬
‫نظر لگے نہ کہیں ساس کے دست و بازو کو‬
‫یہ لوگ کیوں مرے زخنم جگر کو دیکھتے ہیں‬
‫ترے جواہنر طر ن‬
‫ف سکلہ کو کیا دیکھیں ؟‬
‫ہم اونج طالنع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں‬
‫٭٭‬

‫واں اس کو ہونل دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار‬


‫یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو‬
‫اپنے کو دیکھتا نہیں‪ ،‬ذونق ستم کو دیکھ‬
‫آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو‬
‫٭٭‬

‫نہ ہو‬ ‫کوئی‬ ‫رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں‬


‫نہ ہو‬ ‫کوئی‬ ‫ہم سخن کوئی نہ ہو‪ ،‬اور ہم زباں‬
‫چاہیے‬ ‫بنایا‬ ‫بے در و دیوار سا اک گھر‬
‫نہ ہو‬ ‫کوئی‬ ‫کوئی ہم سایہ نہ ہو‪ ،‬اور پاسباں‬
‫پڑیے گر بیمار‪ ،‬تو کوئی نہ ہو تیمار دار‬
‫اور اگر مر جائیے ‪ ،‬تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو‬
‫٭٭‬

‫گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا‬


‫وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسر ن‬
‫ت تعمیر‪ ،‬سو ہے‬
‫٭٭‬

‫پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے ‪ ،‬وہ‪ ،‬میرے‬


‫کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے‬
‫٭٭‬

‫دل سے تری نگاہ‪ ،‬جگر تک اتر گئی‬


‫دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی‬
‫ت فراغ‬‫شق ہو گیا ہے سینہ‪ ،‬خوشا! لیذ ن‬
‫تکلینف پردہ دارنی زخنم جگر گئی‬
‫وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں؟‬
‫ب سحر گئی‬ ‫ت خوا ن‬ ‫اٹھیے بس اب کہ لیذ ن‬
‫اڑتی پھرے ہے ‪ ،‬خاک مری کوئے یار میں‬
‫بارے اب‪ ،‬اے ہوا‪ ،‬ہونس بال و پر گئی‬
‫دیکھو تو دل فریبنی اندانز نقنش پا‬
‫مونج خرانم یار بھی کیا گل کتر گئی‬
‫ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی‬
‫اب آبروئے شیوہ اہنل نظر گئی‬
‫نیظارے نے بھی کام نکیا واں نقاب کا‬
‫مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی‬
‫فردا و دی کا تفنرقہ یک بار مٹ گیا‬
‫کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی‬
‫مارا زمانے نے ‪ ،‬اسدب اللہ خاں‪ ،‬تمہیں‬
‫وہ ولولے کہاں‪ ،‬وہ جوانی کدھر گئی؟‬
‫٭٭‬

‫جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے‬


‫ت دیوار میں آوے‬ ‫جاں‪ ،‬کالبند صور ن‬
‫سائے کی طرح ساتھ پھریں‪ ،‬سرو و صنوبر‬
‫تو اس قند دلکش سے جو گلزار میں آوے‬
‫تب نانز گراں مایگنی اشک بجا ہے‬
‫ت جگر دیدۂ خونبار میں آوے‬ ‫جب لخ ن‬
‫!دے مجھ کو شکایت کی اجازت‪ ،‬کہ ستمگر‬
‫کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے‬
‫اس چشنم فسوں گر کا‪ ،‬اگر پائے ‪ ،‬اشارہ‬
‫طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے‬
‫کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے ‪ ،‬یا رب‬
‫اک آبلہ پا وادنی پر خار میں آوے‬
‫مر جاؤں نہ کیوں رشک سے ؟ جب وہ تنن نازک‬
‫آغونش خنم حلقۂ سزینار میں آوے‬
‫غارت گنر ناموس نہ ہو‪ ،‬گر ہونس زر‬
‫کیوں شاہند گل باغ سے بازار میں آوے‬
‫ک گریباں کا مزا ہے ‪ ،‬دنل نالں‬ ‫!تب چا ن‬
‫جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے‬
‫نہاں سے‬ ‫آتش کدہ ہے سینہ مرا‪ ،‬رانز‬
‫میں آوے‬ ‫اے وائے ! اگر معرنض اظہار‬
‫سمجھیے‬ ‫گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو‬
‫میں آوے‬ ‫جو لفظ کہ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬مرے اشعار‬
‫٭٭‬

‫رباعیات‬

‫ہے جیسے شغنل اطفال‬ ‫آتشبازی‬


‫بھی اسی طور کا حال‬ ‫ہے سونز جگر کا‬
‫عشق بھی قیامت کوئی‬ ‫تھا سموجند‬
‫گیا ہے کیا کھیل نکال‬ ‫لڑکوں کے لئے‬
‫٭٭‬

‫گویا‬ ‫دل‪ ،‬سخت نژند ہو گیا ہے ‪،‬‬


‫گویا‬ ‫ساس سے نگلہ مند ہو گیا ہے ‪،‬‬
‫نہیں‬ ‫دپر یار کے آگے بول سکتے ہی‬
‫گویا‬ ‫غالبب ‪ ،‬منہ بند ہو گیا ہے ‪،‬‬
‫٭٭‬

‫‪ ،‬غالبب‬ ‫دکھ‪ ،‬جی کے پسند ہو گیا ہے‬


‫‪ ،‬غالبب‬ ‫دل‪ ،‬سرک سرک کر بند ہو گیا ہے‬
‫ہی نہیں‬ ‫!واللہ‪ ،‬کہ شب کو نیند آتی‬
‫‪ ،‬غالبب‬ ‫سونا‪ ،‬دسوگند ہو گیا ہے‬
‫٭٭٭‬

‫ء ‪1835‬‬

‫اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے‬


‫فقط اک شعر میں اندانز رسا رکھتے تھے‬
‫اس کا یہ حال کہ کوئی نہ ادا سنج مل‬
‫آپ لکھتے تھے ہم اور آپ اٹھا رکھتے تھے‬
‫زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری‪ ،‬غالبب‬
‫ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے‬
‫٭٭‬

‫دھوتا ہوں جب میں‪ ،‬پینے کو‪ ،‬اس سیم تن کے پاؤں‬


‫رکھتا ہے ‪ ،‬ضد سے کھینچ کے ‪ ،‬باہر لگن کے پاؤں‬
‫دی سادگی سے جان‪ ،‬پڑوں کوہکن کے پاؤں‬
‫ہیہات !کیوں نہ ٹوٹ گئے پیر زن کے پاؤں‬
‫بھاگے تھے ہم بہت‪ ،‬سو اسی کی سزا ہے یہ‬
‫ہو کر اسیر‪ ،‬دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں‬
‫مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور‬
‫تن سے سوا نفگار ہیں‪ ،‬اس خستہ تن کے پاؤں‬
‫اللہ رے !ذونق دشت نوردی کہ بعند مرگ‬
‫ہلتے ہیں خود بہ خود مرے ‪ ،‬اندر کفن کے پاؤں‬
‫ہے جونش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف‬
‫اڑتے ہوئے ‪ ،‬الجھتے ہیں مرنغ چمن کے پاؤں‬
‫بیچارہ کتنی دور سے آیا ہے ‪ ،‬شیخ جی‬
‫کعبے میں‪ ،‬کیوں دبائیں نہ ہم برہمن کے پاؤں‬
‫شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں؟‬
‫ت نازک بدن کے پاؤں‬ ‫دکھتے ہیں‪ ،‬آج‪ ،‬اس ب ن‬
‫غالبب ‪ ،‬مرے کلم میں کیوں کر مزا نہ ہو‬
‫پیتا ہوں دھو کے خسرنو شیریں سخن کے پاؤں‬
‫٭٭‬

‫بعد از ‪ 1838‬ء‬

‫قطعہ‬
‫گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری‬
‫کیا کرتے تھے تم تقریر‪ ،‬ہم خاموش رہتے تھے‬
‫بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی ! جانے دو‪ ،‬مل جاؤ‬
‫" دقسم لو ہم سے ‪ ،‬گر یہ بھی کہیں "کیوں ہم نہ کہتے تھے‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے ‪ ،‬جا‬


‫سن لیتے ہیں‪ ،‬گو ذکر ہمارا نہیں کرتے‬
‫غالبب ‪ ،‬ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو‬
‫وہ سن کے بل لیں‪ ،‬یہ اجارا نہیں کرتے‬
‫٭٭‬

‫ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے‬


‫مرتے ہیں‪ ،‬ولے ‪ ،‬سان کی تمنا نہیں کرتے‬
‫در پردہ سانھیں غیر سے ہے ربنط نہانی‬
‫ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے‬
‫ب ہوس ہے‬ ‫یہ باع ن‬
‫ث نومیدنی اربا ن‬
‫غالبب کو سبرا کہتے ہو‪ ،‬اچھا نہیں کرتے‬
‫٭٭‬

‫لغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے‬


‫میرا ذمہ‪ ،‬دیکھ کر گر کوئی بتل دے مجھے‬
‫کیا تعجب ہے ‪ ،‬کہ ساس کو دیکھ کر آ جائے رحم؟‬
‫وا ں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے‬
‫منہ نہ دکھلوے ‪ ،‬نہ دکھل‪ ،‬پر بہ اندانز عتاب‬
‫کھول کر پردہ‪ ،‬ذرا آنکھیں ہی دکھل دے مجھے‬
‫یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خو ش ہے کہ دمیں‬
‫زلف گر بن جاؤں‪ ،‬تو شانے میں سالجھا دے مجھے‬
‫٭٭‬

‫رباعیات‬

‫بھیجی ہے جو مجھ کو شانہ دجنمجاہ نے دال‬


‫ت شہنشانہ پہ دال‬ ‫ہے سلطف و عنای ن‬
‫یہ شاہ پسند دال‪ ،‬بے بحث و نجدال‬
‫ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1841‬‬
‫باہم‬ ‫ہیں شہ میں صفانت ذوالجللی‬
‫باہم‬ ‫آثانر جللی و جمالی‬
‫باہم‬ ‫ہوں شاد نہ کیوں‪ ،‬سافل و عالی‬
‫باہم‬ ‫ہے اب کے شنب قدر و ندوالی‬
‫٭٭٭‬

‫ء ‪1845‬‬

‫نویند امن ہے بیداند دوست‪ ،‬جاں کے لئے‬


‫رہی نہ‪ ،‬طرنز ستم کوئی آسماں کے لئے‬
‫بل سے ‪ ،‬گر مژنہ یار تشنۂ خوں ہے‬
‫رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانن خونفشاں کے لئے‬
‫وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشنانس خلق‪ ،‬اے خضر‬
‫نہ تم کہ چور بنے عمنر جاوداں کے لئے‬
‫ت رشک‬ ‫رہا بل میں بھی‪ ،‬میں مبتلئے آف ن‬
‫بلئے جاں ہے ‪ ،‬ادا‪ ،‬تیری اک جہاں کے لئے‬
‫فلک‪ ،‬نہ دور رکھ ساس سے مجھے ‪ ،‬کہ میں ہی نہیں‬
‫دراز دستنی قاتل کے امتحاں کے لئے‬
‫مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرنغ اسیر‬
‫کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے‬
‫گدا سمجھ کے وہ چپ تھا‪ ،‬مری جو شامت آئے‬
‫اٹھا اور اٹھ کے قدم‪ ،‬میں نے پاسباں کے لئے‬
‫ف تنگنائے غزل‬ ‫بہ قدنر شوق نہیں ظر ن‬
‫کچھ اور چاہیے وسعت‪ ،‬مرے بیاں کے لئے‬
‫دیا ہے خلق کو بھی‪ ،‬تا اسے نظر نہ لگے‬
‫بنا ہے عیش تج یسمل حسین خاں کے لئے‬
‫زباں پہ‪ ،‬بانر خدایا‪ ،‬یہ کس کا نام آیا؟‬
‫کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لئے‬
‫نصینر دولت و دیں اور معینن میلت و ملک‬
‫بنا ہے چرنخ بریں‪ ،‬جس کے آستاں کے لئے‬
‫زمانہ عہد میں ساس کے ‪ ،‬ہے محنو آرائش‬
‫بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے‬
‫ورق تمام ہوا‪ ،‬اور مدح باقی ہے‬
‫سفینہ چاہیے ‪ ،‬اس بحنر بیکراں کے لئے‬
‫ادائے خاص سے ‪ ،‬غالبب ہوا ہے نکتہ سرا‬
‫صلئے عام ہے ‪ ،‬یارانن نکتہ داں کے لئے‬
‫غزل میں نواب تجمل حسین خاں فرخ آبادی سے متعلق مدحیہ اشعار ہیں۔ نواب صاحب کا انتقال ‪ 9‬نومبر ‪ 1846‬کو ہوا (‬
‫تھا۔ غزل نسخہ کراچی مکتوبہ ‪ 30‬اگست ‪ 1845‬میں نہیں ہے لہذا اسے ‪ 30‬اگست ‪ 1845‬تا ‪ 9‬نومبر ‪ 1846‬کی فکر کردہ‬
‫تسلیم کرنا چاہیے ۔ دیوا نن ذوقب مرتبہ آزادب میں درج ہے کہ یہ غزل نواب اصغر علی خاں نسیمب رام پوری مقیم دہلی کے طرحی‬
‫مشاعرہ منعقدہ ‪ 1845‬میں پڑھی گئی تھی۔ ذوق ب ‪ ،‬مومنب ‪ ،‬داغب وغیرہ بھی موجود تھے ۔ گویا مشاعرہ ‪ 1845‬ء میں بعد از‬
‫)‪ 30‬اگست منعقد ہوا تھا۔ ظاہر ہے غزل بھی اسی زمانے میں کہی گئی ہو گی‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1847‬‬

‫قطعہ‬
‫نہ سپوچھ ناس کی حقیقت‪ ،‬سحسضونر وال نے‬
‫غنی روٹی‬
‫مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی درو د‬
‫نہ کھاتے گیہوں‪ ،‬نکلتے نہ سخلد سے باہر‬
‫جو کھاتے حضر ن‬
‫ت آدم یہ بیدسنی روٹی‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫جس دن سے کہ ہم غمزدہ زنجیر بپا ہیں‬


‫کپڑوں میں جویں‪ ،‬بخیے کے ٹانکوں سے سوا ہیں‬
‫٭٭‬

‫کی وفا ہم سے ‪ ،‬تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں‬


‫ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں‬
‫آج ہم اپنی پریشاننی خاطر ان سے‬
‫کہنے جاتے تو ہیں‪ ،‬پر دیکھئے ‪ ،‬کیا کہتے ہیں‬
‫اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ‪ ،‬انہیں کچھ نہ کہو‬
‫جو مے و نغمہ کو اندوہ سربا کہتے ہیں‬
‫دل میں آ جائے ہے ‪ ،‬ہوتی ہے جو فرصت غش سے‬
‫اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں‬
‫ہے پرے سرحند ادراک سے ‪ ،‬اپنا مسجود‬
‫قبلے کو‪ ،‬اہنل نظر‪ ،‬قبلہ نما کہتے ہیں‬
‫پائے افگار پہ‪ ،‬جب سے تجھے ‪ ،‬رحم آیا ہے‬
‫خانر رہ کو ترے ‪ ،‬ہم مہنر گیا کہتے ہیں‬
‫اک شرر دل میں ہے ‪ ،‬ساس سے کوئی گھبرائے گا کیا؟‬
‫آگ مطلوب ہے ہم کو‪ ،‬جو دہوا کہتے ہیں‬
‫دیکھیے ‪ ،‬لتی ہے ساس شوخ کی نخوت کیا رنگ‬
‫ساس کی ہر بات پہ‪ ،‬ہم "نانم خدا"کہتے ہیں‬
‫وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید‬
‫مر گیا غالبب آشفتہ نوا"کہتے ہیں"‬
‫٭٭‬

‫ک وفا کا گماں نہیں‬ ‫ہم پر جفا سے ‪ ،‬تر ن‬


‫ناک چھیڑ ہے ‪ ،‬وگرنہ مراد امتحاں نہیں‬
‫کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا؟‬
‫پرسش ہے ‪ ،‬اور پائے سخن درمیاں نہیں‬
‫ہم کو ستم عزیز‪ ،‬ستم گر کو ہم عزیز‬
‫نا مہرباں نہیں ہے ‪ ،‬اگر مہرباں نہیں‬
‫بوسہ نہیں‪ ،‬نہ دیجیے ‪ ،‬دشنام ہی سہی‬
‫آخر زباں تو رکھتے ہو تم‪ ،‬گر دہاں نہیں‬
‫ہر چند جاں گدازنی قہر و عتاب ہے‬
‫ہر چند پشت گرمنئ تاب و تواں نہیں‬
‫ب ترانہ" دہل نمن دمنزید" ہے‬ ‫جاں‪ ،‬مطر ن‬
‫لماں" نہیں‬ ‫لب پر دہ سننج زمزمۂ" ا د‬
‫خنجر سے چیر سینہ‪ ،‬اگر دل نہ ہو دو نیم‬
‫دل میں چسھری چبھو‪ ،‬مژہ گر خونچکاں نہیں‬
‫گ سینہ‪ ،‬دل اگر آتش کدہ نہ ہو‬ ‫ہے نن ن‬
‫ہے عانر دل‪ ،‬نفس اگر آذر فشاں نہیں‬
‫نقصاں نہیں‪ ،‬جنوں میں بل سے ہو گھر خراب‬
‫سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں‬
‫“کہتے ہو “ کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں؟‬
‫گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں‬
‫پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلم کی‬
‫سروح السقسدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں‬
‫جاں ہے بہائے بوسہ‪ ،‬ولے کیوں کہے ابھی؟‬
‫غالبب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاںنہیں‬
‫٭٭‬

‫ملتی ہے سخوئے یار سے ‪ ،‬نار‪ ،‬التہاب میں‬


‫کافر ہوں‪ ،‬گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں‬
‫کب سے سہوں‪ ،‬کیا بتاؤں جہانن خراب میں؟‬
‫شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں‬
‫تا پھر نہ‪ ،‬انتظار میں‪ ،‬نیند آئے عمر بھر‬
‫آنے کا عہد کر گئے ‪ ،‬آئے جو خواب میں‬
‫قاصد کے آتے آتے ‪ ،‬خط اک اور لکھ رکھوں‬
‫میں جانتا ہوں‪ ،‬جو وہ لکھیں گے جواب میں‬
‫مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دونر جام؟‬
‫ساقی نے کچھ مل نہ دیا ہو شراب میں‬
‫جو منکنر وفا ہو‪ ،‬فریب اس پہ کیا چلے ؟‬
‫کیوں بدگماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں‬
‫ف رقیب سے ؟‬ ‫میں مضطرب سہوں‪ ،‬وصل میں‪ ،‬خو ن‬
‫ڈال ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں؟‬
‫میں اور حنیظ وصل‪ ،‬خدا ساز بات ہے‬
‫جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں‬
‫ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے‬
‫ف نقاب میں‬ ‫ہے اک شکن پڑی ہوئی طر ن‬
‫لکھوں لگاؤ‪ ،‬ایک سچرانا نگاہ کا‬
‫لکھوں بناؤ‪ ،‬ایک بگڑنا عتاب میں‬
‫! وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے‬
‫جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں‬
‫! وہ سحر‪ ،‬مدعا طلبی میں نہ کام آئے‬
‫جس نسحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں‬
‫غالبب چسھٹی شراب‪ ،‬پر اب بھی کبھی کبھی‬
‫پیتا ہوں رونز ابر و شنب ماہتاب میں‬
‫٭٭‬

‫کل کے لئے ‪ ،‬کر آج نہ خیست شراب میں‬


‫یہ سسوء ظن ہے ‪ ،‬ساقئ کوثر کے باب میں‬
‫ہیں آج کیوں ذلیل ؟کہ کل تک نہ تھی پسند‬
‫گستاخنی فرشتہ‪ ،‬ہماری جناب میں‬
‫جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دنم سماع؟‬
‫گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں‬
‫درو میںہے رخنش عمر‪ ،‬کہاں‪ ،‬دیکھیے ‪ ،‬تھمے‬
‫نے ہاتھ باگ پر ہے ‪ ،‬نہ پا ہے رکاب میں‬
‫اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے سبعد ہے‬
‫جتنا کہ وہنم غیر سے سہوں پیچ و تاب میں‬
‫اصنل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے‬
‫حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں‬
‫ہے مشتمل نسموند سصدور پر وجوند بحر‬
‫یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں‬
‫شرم اک ادائے ناز ہے ‪ ،‬اپنے ہی سے سہی‬
‫ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں سیوں حجاب میں‬
‫آرائنش جمال سے فارغ نہیں ہنوز‬
‫پینش نظر ہے آئنہ‪ ،‬دائم نقاب میں‬
‫ہے غینب غیب‪ ،‬جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود‬
‫ہیںخواب میں ہنوز‪ ،‬جو جاگے ہیں خواب میں‬
‫غالبب ‪ ،‬ندینم دوست سے آتی ہے بوئے دوست‬
‫مشغونل حق ہوں‪ ،‬بندگنی بو تراب میں‬
‫٭٭‬

‫بعد از ‪ 1847‬ء‬

‫قطعہ‬
‫اے شہنشانہ فلک منظنر بے مثل و نظیر‬
‫اے جہاندانر کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل‬
‫پاؤں سے تیرے دملے فرنق ارادت‪ ،‬داورنگ‬
‫فرق سے تیرے کرے کسنب سعادت‪ ،‬ان کلیل‬
‫تیرا اندانز سسخن‪ ،‬شانۂ سزلنف نالہام‬
‫تیری رفتانر قلم‪ ،‬سجنبنش بانل جبریل‬
‫ب کلیم‬ ‫تجھ سے ‪ ،‬عالم پہ کسھل رابطۂ سقر ن‬
‫ستجھ سے ‪ ،‬دنیا میں نبچھا مائدۂ دبذنل خلیل‬
‫خن‪ ،‬داونج دنہ مرتبۂ معنی و لفظ‬ ‫بہ سس د‬
‫بہ کرم‪ ،‬دانغ ننہ ناصیۂ سقلسزم و ننیل‬
‫تا‪ ،‬ترے وقت میں ہو دعیش و طرب کی توفیر‬
‫تا‪ ،‬ترے عہد میں ہو رنج و ا ددلم کی تقلیل‬
‫ماہ نے چھوڑ دیا دثور سے جانا باہر‬
‫سزہرہ نے ترک کیا سحوت سے کرنا تحویل‬
‫تیری دانش‪ ،‬مری اصلنح دمفاسد کی درہین‬
‫تیری بخشش‪ ،‬نمرے نانجانح مقاصد کی کفیل‬
‫تیرا اقبانل تددر یسحم‪ ،‬نمرے جینے کی ن دنوید‬
‫تیرا اندانز دتغاسفل‪ ،‬نمرے مرنے کی دلیل‬
‫ق‬
‫ت ناساز نے چاہا کہ نہ دے سمجھ کو اماں‬ ‫بخ ن‬
‫چرنخ کج باز نے چاہا کہ کرے سمجھ کو ذلیل‬
‫پیچھے ڈالی ہے ‪ ،‬سنر رشتۂ اوقات میں گانٹھ‬
‫پہلے ٹھونکی ہے بسنن ناسخنن تدبیر میں کیل‬
‫ف عظیم‬ ‫تدنپنش دل نہیں بے رابطۂ دخو ن‬
‫کشنش دم نہیں بے ضابطۂ دجنیر ثقیل‬
‫سدنر معنی سے نمرا صفحہ‪ ،‬لقا کی ڈاڑھی‬
‫غنم گیتی سے نمرا سینہ عمر کی زنبیل‬ ‫د‬
‫ت کثیر‬ ‫فکر میری‪ ،‬سگہر اندونز اشارا ن‬
‫ت قلیل‬ ‫نکلک میری ردقم آمونز عبارا ن‬
‫میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصسدق‪ ،‬توضیح‬
‫میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش‪ ،‬تفصیل‬
‫نیک ہوتی نمری حالت تو نہ دیتا تکلیف‬
‫جمع ہوتی نمری خاطر‪ ،‬تو نہ کرتا تعجیل‬
‫قبلۂ کون و مکاں‪ ،‬خستہ نوازی میں یہ دیر؟‬
‫کعبۂ امن و اماں‪ ،‬سعقدہ سکشائی میں یہ ڈھیل؟‬
‫٭٭‬

‫میں اور بزنم مے سے یوں تشنہ کام آؤں‬


‫گر میں نے کی تھی توبہ‪ ،‬ساقی کو کیا ہوا تھا؟‬
‫ہے ایک تیر جس میں دونوں چنھدے پڑے ہیں‬
‫وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا‬
‫درماندگی میں غالبب کچھ بن پڑے تو جانوں‬
‫جب رشتہ بے گرہ تھا‪ ،‬ناخن گرہ کشا تھا‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫!میں اور بزنم مے سے یوں تشنہ کام آؤں‬


‫گر میں نے کی تھی توبہ‪ ،‬ساقی کو کیا ہوا تھا؟‬
‫ہے ایک تیر‪ ،‬جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں‬
‫وہ دن گئے کہ اپنا‪ ،‬دل سے ‪ ،‬جگر جدا تھا‬
‫در ماندگی میں‪ ،‬غالبب ‪ ،‬کچھ بن پڑے ‪ ،‬تو جانوں‬
‫جب رشتہ بے گرہ تھا‪ ،‬ناخن گرہ کشا تھا‬
‫٭٭‬

‫گھر ہمارا‪ ،‬جو نہ روتے بھی تو‪ ،‬ویراں ہوتا‬


‫بحر گر بحر نہ ہوتا‪ ،‬تو بیاباں ہوتا‬
‫تنگنی دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے‬
‫کہ اگر تنگ نہ ہوتا‪ ،‬تو پریشاں ہوتا‬
‫بعد یک عمنر دورع‪ ،‬بار تو دیتا‪ ،‬بارے‬
‫کاش! نرضواں ہی دنر یار کا درباں ہوتا‬
‫٭٭‬

‫ث تاخیر بھی تھا‬ ‫ہوئی تاخیر‪ ،‬تو کچھ باع ن‬


‫آپ آتے تھے ‪ ،‬مگر کوئی عناں گیر بھی تھا‬
‫تم سے بے جا ہے ‪ ،‬مجھے اپنی تباہی کا گلہ‬
‫اس میں کچھ شائبۂ خوبنی تقدیر بھی تھا‬
‫تو مجھے بھول گیا ہو‪ ،‬تو پتا بتل دوں‬
‫کبھی فتراک میں تیرے ‪ ،‬کوئی نخچیر بھی تھا؟‬
‫قید میں ہے ‪ ،‬ترے وحشی کو‪ ،‬وہی زلف کی یاد‬
‫ہاں! کچھ اک رننج گرانبارنی زنجیر بھی تھا‬
‫بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے ‪ ،‬تو کیا؟‬
‫بات کرتے ‪ ،‬کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا‬
‫یوسف اس کو کہوں‪ ،‬اور کچھ نہ کہے ‪ ،‬خیر ہوئی‬
‫گر بگڑ بیٹھے ‪ ،‬تو میں لئنق تعزیر بھی تھا‬
‫دیکھ کر غیر کو‪ ،‬ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا؟‬
‫نالہ کرتا تھا‪ ،‬ولے طالنب تاثیر بھی تھا‬
‫پیشے میں عیب نہیں‪ ،‬رکھیے نہ فرہاد کو نام‬
‫ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا‬
‫ہم تھے مرنے کو کھڑے ‪ ،‬پاس نہ آیا‪ ،‬نہ سہی‬
‫آخر‪ ،‬ساس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا‬
‫پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق‬
‫آدمی کوئی ہمارا دنم تحریر بھی تھا؟‬
‫ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو‪ ،‬غالبب‬
‫کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا‬
‫٭٭‬

‫ہوتا‬ ‫یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصانل یار‬


‫ہوتا‬ ‫اگر اور جیتے رہتے ‪ ،‬یہی انتظار‬
‫جانا‬ ‫ترے وعدے پر جئے ‪ ،‬ہم تو یہ جان‪ ،‬جھوٹ‬
‫ہوتا‬ ‫کہ خوشی سے مر نہ جاتے ‪ ،‬اگر اعتبار‬
‫تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا‬
‫کبھی تو نہ توڑ سکتا‪ ،‬اگر استوار ہوتا‬
‫کوئی میرے دل سے پوچھے ‪ ،‬ترے تینر نیم کش کو‬
‫یہ خلش کہاں سے ہوتی‪ ،‬جو جگر کے پار ہوتا‬
‫یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح؟‬
‫کوئی چارہ ساز ہوتا‪ ،‬کوئی غم گسار ہوتا‬
‫گ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا‬ ‫ر ن‬
‫جسے غم سمجھ رہے ہو‪ ،‬یہ اگر شرار ہوتا‬
‫غم اگر چہ جاں گسل ہے ‪ ،‬پہ کہاں بچیں ؟کہ دل ہے‬
‫غنم عشق گر نہ ہوتا‪ ،‬غم روزگار ہوتا‬
‫کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ؟شب غم بری بل ہے‬
‫مجھے کیا برا تھا مرنا‪ ،‬اگر ایک بار ہوتا‬
‫ہوئے مر کے ہم جو رسوا‪ ،‬ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟‬
‫نہ کبھی جنازہ اٹھتا‪ ،‬نہ کہیں مزار ہوتا‬
‫اسے کون دیکھ سکتا‪ ،‬کہ یگانہ ہے وہ یکتا‬
‫جو دوئی کی بو بھی ہوتی‪ ،‬تو کہیں دو چار ہوتا‬
‫یہ مسائل تیصوف یہ ترا بیان‪ ،‬غالبب‬
‫تجھے ہم ولی سمجھتے ‪ ،‬جو نہ بادہ خوار ہوتا‬
‫٭٭‬

‫نہ تھا کچھ تو خدا تھا‪ ،‬کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا‬


‫سڈبویا مجھ کو ہونے نے ‪ ،‬نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا؟‬
‫سہوا جب غم سے یوں بے نحس تو غم کیا سر کے کٹنے کا؟‬
‫نہ ہوتا گر جدا تن سے ‪ ،‬تو زانو پر دھرا ہوتا‬
‫ہوئی مدت کہ غالبب مرگیا‪ ،‬پر یاد آتا ہے‬
‫"وہ ہر اک بات پر کہنا کہ" یوں ہوتا تو کیا ہوتا‬
‫٭٭‬

‫گھر جب بنا لیا ترے در پر‪ ،‬کہے بغیر‬


‫جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر‪ ،‬کہے بغیر؟‬
‫ت سخن‬ ‫کہتے ہیں‪ ،‬جب رہی نہ مجھے طاق ن‬
‫جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر‪ ،‬کہے بغیر‬
‫کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں‬
‫لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر‬
‫جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے ‪ ،‬وگرنہ ہم‬
‫سر جائے یا رہے ‪ ،‬نہ رہیں پر کہے بغیر‬
‫ت کافر کا پوجنا‬‫چھوڑوں گا میں نہ اس ب ن‬
‫چھوڑے نہ خلق‪ ،‬گو‪ ،‬مجھے کادفر کہے بغیر‬
‫مقصد ہے ناز و غمزہ‪ ،‬ولے گفتگو میں کام‬
‫چلتا نہیں ہے ‪ ،‬سدشنہ و خنجر کہے بغیر‬
‫ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو‬
‫بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‬
‫بہرا ہوں میں‪ ،‬تو چاہیے دونا ہو التفات‬
‫سنتا نہیں ہوں بات‪ ،‬مکیرر کہے بغیر‬
‫غالبب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض‬
‫ظاہر ہے تیرا حال سب سان پر‪ ،‬کہے بغیر‬
‫٭٭‬

‫تم جانو‪ ،‬تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو‬


‫مجھ کو بھی پوچھتے رہو‪ ،‬تو کیا گناہ ہو‬
‫بچتے نہیں مواخذۂ رونز حشر سے‬
‫قاتل اگر رقیب ہے ‪ ،‬تو تم گواہ ہو‬
‫کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا سپاس ہیں ؟‬
‫مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو‬
‫ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ‪ ،‬ایک تار‬
‫مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو‬
‫جب مے کدہ چھٹا‪ ،‬تو پھر اب کیا جگہ کی قید‬
‫مسجد ہو‪ ،‬مدرسہ ہو‪ ،‬کوئی خانقاہ ہو‬
‫سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف‪ ،‬سب درست‬
‫لیکن‪ ،‬خدا کرے ‪ ،‬وہ ترا جلوہ گاہ ہو‬
‫غالبب بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں‬
‫دنیا ہو‪ ،‬یا رب‪ ،‬اور مرا بادشاہ ہو‬
‫٭٭‬

‫تسکیں کو ہم نہ روئیں‪ ،‬جو ذونق نظر ملے‬


‫حورانن خلد میں تری صورت‪ ،‬مگر‪ ،‬ملے‬
‫اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن‪ ،‬بعند قتل‬
‫میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے ؟‬
‫ساقی گری کی شرم کرو آج‪ ،‬ورنہ ہم‬
‫ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے ‪ ،‬جس قدر ملے‬
‫تجھ سے تو کچھ کلم نہیں‪ ،‬لیکن‪ ،‬اے ندیم‬
‫میرا سلم کہیو‪ ،‬اگر نامہ بر ملے‬
‫تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا نکیا‬
‫فرصت‪ ،‬کشاکنش غنم پنہاں سے گر‪ ،‬ملے‬
‫لزم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں‬
‫جانا* کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے‬
‫اے ساکنانن کوچۂ دلدار‪ ،‬دیکھنا‬
‫تم کو کہیں جو غالبب ن آشفتہ سر ملے‬
‫٭٭‬

‫کوئی دن گر زندگانی اور ہے‬


‫اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے‬
‫آتنش دوزخ میں یہ گرمی کہاں؟‬
‫سونز غم ہائے نہانی اور ہے‬
‫بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں‬
‫پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے‬
‫دے کے خط‪ ،‬منہ دیکھتا ہے نامہ بر‬
‫کچھ تو پیغانم زبانی اور ہے‬
‫قاطنع اعمار ہیں‪ ،‬اکثر نجوم‬
‫وہ بلئے آسمانی اور ہے‬
‫ہو چکیں‪ ،‬غالبب ‪ ،‬بلئیں سب تمام‬
‫گ ناگہانی اور ہے‬ ‫ایک مر ن‬
‫٭٭‬

‫کوئی ایمید بر نہیں آتی‬


‫کوئی صورت نظر نہیں آتی‬
‫موت کا ایک دن معین ہے‬
‫نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟‬
‫آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی‬
‫اب کسی بات پر نہیں آتی‬
‫ب طاعت و زہد‬ ‫جانتا ہوں ثوا ن‬
‫پر طبیعت ادھر نہیں آتی‬
‫ہے کچھ ایسی ہی بات‪ ،‬جو چپ ہوں‬
‫ورنہ‪ ،‬کیا بات کر نہیں آتی‬
‫کیوں نہ چیخوں؟ کہ یاد کرتے ہیں‬
‫میری آواز‪ ،‬گر‪ ،‬نہیں آتی‬
‫دانغ دل گر نظر نہیں آتا‬
‫بو بھی‪ ،‬اے چارہ گر !نہیں آتی‬
‫ہم وہاں ہیں‪ ،‬جہاں سے ہم کو بھی‬
‫کچھ ہماری خبر نہیں آتی‬
‫مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی‬
‫موت آتی ہے ‪ ،‬پر‪ ،‬نہیں آتی‬
‫کعبے کس منہ سے جاؤ گے ‪ ،‬غالبب ؟‬
‫شرم تم کو مگر نہیں آتی‬
‫٭٭‬

‫دنل ناداں‪ ،‬تجھے ہوا کیا ہے ؟‬


‫آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟‬
‫ہم ہیں مشتاق‪ ،‬اور وہ بے زار‬
‫یا ایلہی! یہ ماجرا کیا ہے ؟‬
‫میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں‬
‫" کاش! پوچھو کہ" میدعا کیا ہے‬
‫ق‬
‫جب کہ تجھ بن نہیں‪ ،‬کوئی موجود‬
‫پھر یہ ہنگامہ‪ ،‬اے خدا کیا ہے ؟‬
‫یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟‬
‫غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے ؟‬
‫شکنن زلنف عنبریں کیوں ہے ؟‬
‫نگنہ چشنم سرمہ سا کیا ہے ؟‬
‫سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟‬
‫ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے ؟‬
‫ہم کو ان سے وفا کی ہے ایمید‬
‫جو نہیں جانتے ‪ ،‬وفا کیا ہے ؟‬
‫ہاں‪ ،‬بھل کر‪ ،‬ترا بھل ہو گا‬
‫داور درویش کی صدا کیا ہے ؟‬
‫جان تم پر نثار کرتا ہوں‬
‫میں نہیں جانتا‪ ،‬دعا کیا ہے ؟‬
‫میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبب‬
‫مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ؟‬
‫٭٭‬

‫حسنن مہ‪ ،‬گرچہ بہ ہنگانم کمال‪ ،‬ایچھا ہے‬


‫اس سے میرا منہ خورشید جمال ایچھا ہے‬
‫بوسہ دیتے نہیں‪ ،‬اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ‬
‫" جی میں کہتے ہیں کہ" مفت آئے تو مال ایچھا ہے‬
‫اور بازار سے لے آئے ‪ ،‬اگر ٹوٹ گیا‬
‫ساغنر جم سے ‪ ،‬مرا جانم سفال‪ ،‬ایچھا ہے‬
‫بے طلب دیں‪ ،‬تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے‬
‫وہ گدا‪ ،‬جس کو نہ ہو خوئے سوال‪ ،‬ایچھا ہے‬
‫ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق‬
‫وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال ایچھا ہے‬
‫دیکھیے ‪ ،‬پاتے ہیں عیشاق بتوں سے کیا فیض‬
‫" اک برہمن نے کہا ہے کہ" یہ سال ایچھا ہے‬
‫ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے ‪ ،‬کیا‬
‫! جس طرح کا کہ کسی میں ہو‪ ،‬کمال ایچھا ہے‬
‫قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے‬
‫کام ایچھا ہے وہ‪ ،‬جس کا کہ مآل ایچھا ہے‬
‫خضر سلطاں کو رکھے ‪ ،‬خالنق اکبر‪ ،‬سر سبز‬
‫شاہ کے باغ میں‪ ،‬یہ تازہ نہال ایچھا ہے‬
‫ہم کو معلوم ہے جینت کی حقیقت‪ ،‬لیکن‬
‫دل کے خوش رکھنے کو‪ ،‬غالبب ‪ ،‬یہ خیال ایچھا ہے‬
‫٭٭‬

‫شکوے کے نام سے ‪ ،‬بے مہر‪ ،‬خفا ہوتا ہے‬


‫یہ بھی مت کہہ‪ ،‬کہ جو کہیے ‪ ،‬تو نگل ہوتا ہے‬
‫سپر ہوں میں‪ ،‬شکوے سے یوں‪ ،‬راگ سے جیسے باجا‬
‫اک ذرا چھیڑیے ‪ ،‬پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے‬
‫گو سمجھتا نہیں پر حسنن تلفی دیکھو‬
‫شکوۂ جور سے ‪ ،‬سر گرنم جفا ہوتا ہے‬
‫عشق کی راہ میں ہے ‪ ،‬چرنخ مکوکب کی وہ چال‬
‫سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے‬
‫ک بیداد؟ کہ ہم‬ ‫ف ناو ن‬
‫کیوں نہ ٹھہریں‪ ،‬ہد ن‬
‫آپ اٹھا لتے ہیں‪ ،‬گر تیر خطا ہوتا ہے‬
‫خوب تھا‪ ،‬پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ‬
‫کہ بھل چاہتے ہیں‪ ،‬اور برا ہوتا ہے‬
‫نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا‪ ،‬اور اب‬
‫لب تک آتا ہے ‪ ،‬جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے‬
‫۔ق۔‬
‫خامہ میرا کہ وہ ہے باربند بزنم سخن‬
‫شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے‬
‫!اے شہنشانہ کواکب سپہ و مہنر علم‬
‫تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے‬
‫سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے‬
‫تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے‬
‫ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلل‬
‫آستاں پر ترے ‪ ،‬مہ‪ ،‬ناصیہ سا ہوتا ہے‬
‫میں جو گستاخ ہوں‪ ،‬آئینن غزل خوانی میں‬
‫یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے‬
‫رکھیو غالبب ‪ ،‬مجھے اس تلخ نوائی میں معاف‬
‫آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے‬
‫٭٭‬

‫"ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ" تو کیا ہے ؟‬


‫تمہیں کہو کہ یہ اندانز گفتگو کیا ہے ؟‬
‫نہ شعلے میں یہ کرشمہ‪ ،‬نہ برق میں یہ ادا‬
‫کوئی بتاؤ کہ وہ شونخ تند خو کیا ہے ؟‬
‫یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے‬
‫ف بد آموزنی عدو کیا ہے ؟‬ ‫وگرنہ خو ن‬
‫چپک رہا ہے بدن پر لہو سے ‪ ،‬پیراہن‬
‫ت رفو کیا ہے ؟‬ ‫ہمارے دجیب کو اب حاج ن‬
‫جل ہے جسم جہاں‪ ،‬دل بھی جل گیا ہو گا‬
‫کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے ؟‬
‫رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل‬
‫جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‪ ،‬تو پھر لہو کیا ہے ؟‬
‫وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز‬
‫سوائے بادۂ گلفانم مشک بو کیا ہے ؟‬
‫پیوں شراب‪ ،‬اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار‬
‫یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے ؟‬
‫ت گفتار‪ ،‬اور اگر ہو بھی‬‫رہی نہ طاق ن‬
‫تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے ؟‬
‫ہوا ہے شہ کا مصاحب‪ ،‬پھرے ہے اتراتا‬
‫وگرنہ شہر میں غالبب کی آبرو کیا ہے ؟‬
‫٭٭‬
‫ابنن مریم ہوا کرے کوئی‬
‫میرے دکھ کی دوا کرے کوئی‬
‫شرع و آئین پر مدار سہی‬
‫ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی‬
‫چال جیسے کڑی کمان کا تیر‬
‫دل میں ایسے کے ‪ ،‬جا کرے کوئی‬
‫بات پر واں زبان کٹتی ہے‬
‫وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‬
‫بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‬
‫کچھ نہ سمجھے ‪ ،‬خدا کرے کوئی‬
‫نہ سنو اگر برا کہے کوئی‬
‫نہ کہو‪ ،‬گر برا کرے کوئی‬
‫روک لو‪ ،‬گر غلط چلے کوئی‬
‫بخش دو‪ ،‬گر خطا کرے کوئی‬
‫کون ہے جو نہیں ہے حاجتمند؟‬
‫کس کی حاجت روا کرے کوئی‬
‫! کیا کیا خضر نے سکندر سے‬
‫اب کسے رہنما کرے کوئی‬
‫جب توقع ہی اٹھ گئی‪ ،‬غالبب‬
‫کیوں کسی کا گل کرے کوئی‬
‫٭٭‬

‫اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے‬


‫بیٹھا رہا‪ ،‬اگرچہ اشارے ہوا کیے‬
‫ت درباں سے ڈر گیا‬ ‫دل ہی تو ہے سیاس ن‬
‫میں اور جاؤں در سے ترے نبن صدا کیے ؟‬
‫جادہ رہنن مے‬
‫رکھتا پھروں ہوں‪ ،‬خرقہ و س ی‬
‫ت آب و ہوا کیے‬ ‫میدت ہوئی ہے ‪ ،‬دعو ن‬
‫بے صرفہ ہی گزرتی ہے ‪ ،‬ہو گرچہ عمنر خضر‬
‫" حضرت بھی کل کہیں گے کہ "ہم کیا کیا کیے‬
‫مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ" اے لئیم‬
‫"تو نے وہ گنجہائے گرانمایہ کیا کیے ؟‬
‫کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو ؟‬
‫کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چل کیے ؟‬
‫صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو‪ ،‬کہیں یہ‪ ،‬خو‬
‫دینے لگا ہے بوسہ‪ ،‬بغیر التجا کیے‬
‫ضد کی ہے اور بات‪ ،‬مگر خو بری نہیں‬
‫بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے‬
‫غالبب ‪ ،‬تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا‬
‫مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے‬
‫٭٭‬

‫میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں‬


‫چل نکلتے ‪ ،‬جو مے پیے ہوتے‬
‫قہر ہو یا بل ہو‪ ،‬جو کچھ ہو‬
‫کاشکے ! تم مرے لیے ہوتے‬
‫میری قسمت میں غم‪ ،‬گر‪ ،‬اتنا تھا‬
‫دل بھی یا رب‪ ،‬کئی دیے ہوتے‬
‫! آ ہی جاتا وہ راہ پر‪ ،‬غالبب‬
‫کوئی دن اور بھی جیے ہوتے‬
‫٭٭٭‬

‫فروری ‪ 1848‬ء ‪21/22‬‬


‫ذکر اس پری وش کا‪ ،‬اور پھر بیاں اپنا‬
‫بن گیا رقیب آخر‪ ،‬تھا جو راز داں اپنا‬
‫مے وہ کیوں بہت پیتے ‪ ،‬بزنم غیر میں‪ ،‬یا رب‬
‫آج ہی ہوا منظور سان کو امتحاں اپنا‬
‫منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے‬
‫عرش سے سادھر ہوتا‪ ،‬کاشکے ! مکاں اپنا‬
‫دے وہ جس قد ر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے‬
‫بارے ‪ ،‬آشنا نکل‪ ،‬ان کا پاسباں‪ ،‬اپنا‬
‫درند دل لکھوں کب تک؟جاؤں ان کو دکھل دوں‬
‫انگلیاں فگار اپنی‪ ،‬خامہ خونچکاں اپنا‬
‫گھستے گھستے مٹ جاتا‪ ،‬آپ نے عبث بدل‬
‫گ آستاں اپنا‬ ‫گ سجدہ سے میرے ‪ ،‬سن ن‬ ‫نن ن‬
‫تا کرے نہ غمازی‪ ،‬کر لیا ہے دشمن کو‬
‫دوست کی شکایت میں‪ ،‬ہم نے ‪ ،‬ہم زباں اپنا‬
‫ہم کہاں کے دانا تھے ‪ ،‬کس ہنر میں یکتا تھے‬
‫بے سبب ہوا‪ ،‬غالبب !دشمن آسماں اپنا‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1849‬‬

‫قطعہ‬
‫مژدہ! اے رہروانن رانہ سخن‬
‫پایہ سنجانن دست گانہ سخن‬
‫طے کرو رانہ شوق‪ ،‬زودا زود‬
‫آن پہنچی ہے منزنل مقصود‬
‫پاس ہے اب‪ ،‬سواند اعظنم نثر‬
‫دیکھیے ‪ ،‬چل کے ‪ ،‬نظنم عالنم نثر‬
‫!سب کو اس کا سواند ارزانی‬
‫چشنم بینش ہو جس سے نورانی‬
‫یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا‬
‫جلوۂ مدعا نظر آیا‬
‫ہاں‪ ،‬یہی شاہرانہ دہلی ہے‬
‫مطبنع بادشانہ دہلی ہے‬
‫منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ‬
‫گل و ریحان و للہ رنگا رنگ‬
‫ہے یہ وہ گلشنن ہمیشہ بہار‬
‫بارور جس کا سرو‪ ،‬بے خار‬
‫نہیں اس کا جواب‪ ،‬عالم میں‬
‫نہیں ایسی کتاب‪ ،‬عالم میں‬
‫ت تحریر‬ ‫اس سے اندانز شوک ن‬
‫اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر‬
‫مرحبا! طرنز نغز گفتاری‬
‫حبذا! رسم و رانہ نثاری‬
‫نثر مدحت سرائے ابراہیم‬
‫ہے مقرر جو‪ ،‬اب‪ ،‬پئے تعلیم‬
‫اس کے فقروں میں کون آتا ہے‬
‫کیا کہیں‪ ،‬کیا وہ راگ گاتا ہے‬
‫تین نثروں سے کام کیا نکلے ؟‬
‫ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے ؟‬
‫ورزنش قصۂ کہن کب تک؟‬
‫داستانن شنہ دکن کب تک؟‬
‫تا کجا درنس نثر ہائے کہن؟‬
‫تازہ کرتا ہے دل کو‪ ،‬تازہ سخن‬
‫تھے ظہوریب و عرفیب و طالبب‬
‫اپنے اپنے زمانے میں غالب‬
‫نہ ظہوری ہے اور نہ طالبب ہے‬
‫اسد اللہ خان غالبب ہے‬
‫قول حافظب کا ہے بجا‪ ،‬اے دوست‬
‫"ہر کرا پنج روز‪ ،‬نوبت اوست"‬
‫کل وہ سرگرنم خود نمائی تھے‬
‫شمنع بزنم سخن سرائی تھے‬
‫آج یہ قدر دانن معنی ہے‬
‫بادشانہ جہانن معنی ہے‬
‫نثر اس کی‪ ،‬ہے کارنامہ راز‬
‫نظم اس کی‪ ،‬نگار نامہ راز‬
‫دیکھو اس دفتنر معانی کو‬
‫سیکھو آئینن نکتہ دانی کو‬
‫اس سے جو کوئی بہرہ ور ہو گا‬
‫سینہ گنجینہ گہر ہو گا‬
‫ہو سخن کی جسے طلب گاری‬
‫کرے اس نسخے کی خریداری‬
‫آج جو دیدہ ور کرے درخواست‬
‫تین بھیجے سرپے ‪ ،‬وہ بے کم و کاست‬
‫منطبع جب کہ ہو چکے گی کتاب‬
‫زنر قیمت کا اور ہو گا حساب‬
‫چار سے ‪ ،‬پھر نہ ہو گی کم قیمت‬
‫اس سے لیویں گے ‪ ،‬کم‪ ،‬نہ ہم‪ ،‬قیمت‬
‫جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے‬
‫احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے‬
‫وہ بہانر ریاض و مہر و وفا‬
‫جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما‬
‫میں جو ہوں درپے حصونل شرف‬
‫نام عاصی کا ہے غلم نجف‬
‫ہے یہ‪ ،‬القصہ‪ ،‬حاصنل تحریر‬
‫کہ نہ ارسانل زر میں ہو تاخیر‬
‫چشمہ انطباع جاری ہے‬
‫ابتدائے ورق شماری ہے‬
‫)منظوم اشتہار)اسعد الخبار آگرہ۔‪12‬مارچ ‪ 1849‬ء(یہ اشتہار غالبب کے شاگرد غلم نجف خاں کے نام سے چھپا تھا(‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫حیراں ہوں‪ ،‬دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو دمیں‬


‫مقدور ہو تو‪ ،‬ساتھ رکھوں نوحہ گر کو دمیں‬
‫چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں‬
‫ہر یک سے سپوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو دمیں‬
‫جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار‬
‫اے کاش جانتا نہ ترے رہ گزر کو دمیں‬
‫ہے کیا جو کس کے باندھیے ؟ میری بل ڈرے‬
‫کیا جانتا نہیں سہوں تمھاری کمر کو دمیں؟‬
‫" لو‪ ،‬وہ بھی کہتے ہیں کہ "یہ بے ننگ و نام ہے‬
‫یہ جانتا اگر‪ ،‬تو سلٹاتا نہ گھر کو دمیں‬
‫چلتا ہوں تھوڑی سدور ہر اک تیز درو کے ساتھ‬
‫پہچانتا نہیں سہوں ابھی راہبر کو دمیں‬
‫خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار‬
‫ت بیداد گر کو دمیں‬ ‫کیا سپوجتا ہوں اس بس ن‬
‫پھر بے خودی میں بھول گیا رانہ کوئے یار‬
‫جاتا‪ ،‬وگرنہ‪ ،‬ایک دن اپنی خبر کو دمیں‬
‫اپنے پہ کر رہا سہوں قیاس اہنل دہر کا‬
‫سمجھا ہوں دل پذیر متانع ہنر کو میں‬
‫غالبب ‪ ،‬خدا کرے کہ سوانر سمنند ناز‬
‫دیکھوں علی بہادر عالی گہر کو میں‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1850‬‬

‫دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں‬


‫خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں‬
‫کیوں گردنش مدام سے گھبرا نہ جائے دل؟‬
‫انسان ہوں‪ ،‬پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں‬
‫یارب‪ ،‬زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے ؟‬
‫ف مکرر نہیں ہوں میں‬ ‫لونح جہاں پہ حر ن‬
‫حد چاہیے سز امیں عقوبت کے واسطے‬
‫آخر کناہ گار ہوں‪ ،‬کافر نہیں ہوں میں‬
‫کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے ؟‬
‫لعل و زمرد و زر و گوہر نہیں ہوں میں‬
‫رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟‬
‫رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہوں میں‬
‫کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے ؟‬
‫کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں؟‬
‫غالبب ‪ ،‬وظیفہ خوار ہو‪ ،‬دو شاہ کو دعا‬
‫"وہ دن گئے کہ کہتے تھے "نوکر نہیں ہوں میں‬
‫) غالب ‪ 4‬جولئی ‪ 1850‬ء کو بادشاہ کے با قاعدہ ملزم ہوئے تھے(*‬
‫٭٭‬

‫رباعیات‬

‫جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری‬


‫کہتے ہیں وہ مجھ کو رافضی او ردہری‬
‫دہری کیونکر ہو‪ ،‬جو کہ ہو صوفی؟‬
‫شیعی کیونکر ہو‪ ،‬ماورا النہری؟‬
‫٭٭‬

‫کہتے ہیں‬ ‫اصحاب کو جو نا سزا‬


‫کہتے ہیں‬ ‫سمجھیں تو ذرا د ل میں کہ کیا‬
‫اپنا ہمدم‬ ‫سمجھا تھا نبیی نے ان کو‬
‫کہتے ہیں‬ ‫ہے ‪ ،‬ہے ! نہ کہو‪ ،‬کسے برا‬
‫٭٭‬

‫ب کبار‬‫یارانن رسولی‪ ،‬یعنی اصحا ن‬


‫ہیں گرچہ بہت‪ ،‬خلیفہ ان میں ہیں چار‬
‫ان چار میں ایک سے ہو جس کو انکار‬
‫غالبب ‪ ،‬وہ مسلماں نہیں ہے زنہار‬
‫٭٭‬

‫نبیی میں تھی لڑائی کس میں؟‬ ‫یارانن‬


‫نہ تھی جلوہ نمائی کس میں؟‬ ‫الفت کی‬
‫وہ عدل‪ ،‬وہ حیا)اور( وہ علم‬ ‫وہ صدق‪،‬‬
‫کوئی کہ تھی برائی کس میں؟‬ ‫بتلؤ‬
‫٭٭‬

‫!یارانن نبیی سے رکھ تول‪ ،‬باللہ‬


‫!ہر یک ہے کمانل دیں میں یکتا‪ ،‬باللہ‬
‫وہ دوست نبیی ‪ ،‬اور تم ان کے دشمن‬
‫!ل حول ول قوۃ ال باللہ‬

‫)یہ پانچوں رباعیاں سید الخبار دہلی‪ ،‬جلد ‪ ،8‬شمارہ ‪ 16 ،28‬نومبر ‪1850‬ء میں شائع ہوئی تھیں(‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1851‬‬

‫غزلیات‬
‫منظور تھی یہ شکل‪ ،‬تجیلی کو‪ ،‬نور کی‬
‫قسمت کھلی‪ ،‬ترے قد و رخ سے ‪ ،‬ظہور کی‬
‫ناک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں‬
‫پڑتی ہے آنکھ‪ ،‬تیرے شہیدوں پہ‪ ،‬حور کی‬
‫واعظ! نہ تم پیو‪ ،‬نہ کسی کو پل سکو‬
‫ب طہور کی‬ ‫کیا بات ہے تمہاری شرا ن‬
‫لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل‪ ،‬کہ کیوں اٹھا؟‬
‫گویا‪ ،‬ابھی سنی نہیں آواز صور کی‬
‫آمد بہار کی ہے ‪ ،‬جو بلبل ہے نغمہ سنج‬
‫اڑتی سی اک خبر ہے ‪ ،‬زبانی طیور کی‬
‫گو واں نہیں‪ ،‬پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں‬
‫کعبے سے نان بتوں کو بھی‪ ،‬نسبت ہے د ور کی‬
‫کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب؟‬
‫آؤ نہ‪ ،‬ہم بھی سیر کریں کونہ طور کی‬
‫گرمی سہی کلم میں‪ ،‬لیکن نہ اس قدر‬
‫کی جس سے بات‪ ،‬ساس نے شکایت ضرور کی‬
‫غالبب ‪ ،‬گر ناس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں‬
‫حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی‬
‫٭٭‬

‫ت غالیہ مو آئے‬ ‫کہتے تو ہو تم سب کہ ب ن‬


‫" یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ" وو آئے‬
‫ب محیبت‬ ‫ہوں کشمکنش نزع میں‪ ،‬ہاں جذ ن‬
‫کچھ کہہ نہ سکوں‪ ،‬پر وہ مرے پوچھنے کو آئے‬
‫ہے زلزلہ و صرصر و سیلب کا عالم٭‬
‫آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں‪ ،‬گو آئے‬
‫ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین‬
‫ہاں‪ ،‬منہ سے مگر بادۂ دو شینہ کی بو آئے‬
‫لد سے ڈرتے ہیں‪ ،‬نہ واعظ سے جھگڑتے‬ ‫ج ی‬
‫ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے ‪ ،‬جس بھیس میں جو آئے‬
‫ہاں اہنل طلب‪ ،‬کون سنے طعنۂ نا یافت؟‬
‫دیکھا کہ وہ ملتا نہیں‪ ،‬اپنے ہی کو کھو آئے‬
‫اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں‬
‫اس در پہ نہیں بار‪ ،‬تو کعبے ہی کو ہو آئے‬
‫کی ہم نفسوں نے اثنر گریہ میں‪ ،‬تقریر‬
‫ایچھے رہے آپ اس سے ‪ ،‬مگر مجھ کو ڈبو آئے‬
‫! اس انجمنن ناز کی کیا بات ہے ‪ ،‬غالبب‬
‫ہم بھی گئے واں‪ ،‬اور تری تقدیر کو رو آئے‬

‫ب غالبب مکتوبہ ‪1866‬ءمیں غالبب نے یہ مصرعہ بدل دیا تھا‬


‫٭ یہ مصرعہ ؎ "صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم" تھا مگر انتخا ن‬
‫٭٭‬
‫ء ‪1852‬‬

‫قصیدہ‬

‫ہاں‪ ،‬منہ نو‪ ،‬سنیں ہم اس کا نام‬


‫جس کو تو‪ ،‬جھک کے ‪ ،‬کر رہا ہے سلم‬
‫دو دن آیا ہے تو نظر دنم صبح‬
‫یہی انداز اور یہی اندام‬
‫بارے دو دن کہاں رہا غائب؟‬
‫بندہ عاجز ہے ‪ ،‬گردنش اییام‬
‫اڑ کے جاتا کہاں ؟کہ تاروں کا‬
‫آسماں نے بچھا رکھا تھا دام‬
‫مرحبا !اے سرونر خانص خواص‬
‫حیبذا! اے نشانط عانم عوام‬
‫عذر میں‪ ،‬تین دن نہ آنے کے‬
‫لے کے آیا ہے عید کا پیغام‬
‫اس کو بھول نہ چاہیئے کہنا‬
‫صبح جو جائے اور آئے شام‬
‫ایک میں کیا؟ سب نے جان لیا‬
‫تیرا آغاز اور ترا انجام‬
‫رانز دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے ؟‬
‫مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نیمام؟‬
‫جانتا ہوں کہ آج دنیا میں‬
‫ایک ہی ہے امید گانہ انام‬
‫میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش‬
‫غالبب اس کا‪ ،‬مگر نہیں ہے ‪ ،‬غلم؟‬
‫جانتا ہوں کہ جانتا ہے ستو‬
‫تب کہا ہے بہ طرنز استفہام‬
‫!مہنر تاباں کو ہو تو ہو‪ ،‬اے ماہ‬
‫ب ہر روزہ بر سبینل دوام‬ ‫قر ن‬
‫ق‬
‫تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا؟‬
‫جز بہ تقرینب عیند مانہ صیام‬
‫جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو‬
‫پھر بنا چاہتا ہے مانہ تمام‬
‫ماہ بن‪ ،‬ماہتاب بن‪ ،‬میں کون؟‬
‫مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام‬
‫میرا اپنا جدا معاملہ ہے‬
‫اور کے لین دین سے کیا کام‬
‫ہے مجھے آرزوئے بخشنش خاص‬
‫ت عام‬ ‫گر تجھے ہے امیند رحم ن‬
‫جو کہ بخشے گا تجھ کو فنیر فروغ‬
‫کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام؟‬
‫جبکہ چودہ منازنل فلکی‬
‫کر چکے قطع‪ ،‬تیری‪ ،‬تیزنی گام‬
‫تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر‬
‫کوئے و مشکوئے و صحن و منظر و بام‬
‫دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز‬
‫اپنی صورت کا‪ ،‬اک بلوریں جام‬
‫پھر غزل کی رنوش پہ چل نکل‬
‫توسنن طبع چاہتا تھا لگام‬
‫زہنر غم کر چکا تھا میرا کام‬
‫تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام‬
‫مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں؟‬
‫غم سے جب ہو گئی ہو‪ ،‬زیست‪ ،‬حرام‬
‫بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے‬
‫ت دشنام‬ ‫کہ نہ سمجھیں وہ لیذ ن‬
‫کعبے میں جا‪ ،‬بجائیں گے ناقوس‬
‫اب تو باندھا ہے ددیر میں احرام‬
‫اس قدح کا‪ ،‬ہے ‪ ،‬ددور مجھ کو نقد‬
‫چرخ نے لی ہے ‪ ،‬جس سے گردنش اییام‬
‫بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار‬
‫دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام‬
‫چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے‬
‫کیوں رکھوں‪ ،‬ورنہ‪ ،‬غالبب اپنا نام؟‬
‫کہ چکا میں تو سب کچھ‪ ،‬اب ستو کہہ‬
‫ک تیز خرام‬ ‫!اے پری چہرہ پی ن‬
‫کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا‬
‫ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام‬
‫ستو نہیں جانتا تو مجھ سے سن‬
‫نانم شاہنشنہ بلند مقام‬
‫قبلۂ چشم و دل‪ ،‬بہادر شاہ‬
‫مظہنر ذوالجلل والکرام‬
‫شہسوانر طریقۂ انصاف‬
‫نوبہانر حدیقۂ اسلم‬
‫ت اعجاز‬ ‫جس کا ہر فعل صور ن‬
‫جس کا ہر قول‪ ،‬معننی الہام‬
‫بزم میں‪ ،‬میزبانن قیصر و جم‬
‫رزم میں‪ ،‬اوستاند رستم و سام‬
‫!اے ترا لطف‪ ،‬زندگی افزا‬
‫اے ترا عہد‪ ،‬فرخی فرجام‬
‫چشنم بد دور! خسروانہ شکوہ‬
‫لوحش اللہ! عارفانہ کلم‬
‫جاں نثاروں میں تیرے ‪ ،‬قیصنر روم‬
‫سجرعہ خواروں میں تیرے ‪ ،‬مرشند جام‬
‫وارنث ملک جانتے ہیں تجھے‬
‫ایرج و تور و خسرو و بہرام‬
‫زونر بازو میں مانتے ہیں تجھے‬
‫گیو و گودرز و بیزن و دریہام‬
‫!مرحبا مو شگافئ ناوک‬
‫! آفریں آب دارئ صمصام‬
‫تیر کو تیرے ‪ ،‬تینر غیر ہدف‬
‫تیغ کو تیری‪ ،‬تینغ خصم نیام‬
‫۔ق۔‬
‫!رعد کا‪ ،‬کر رہی ہے کیا‪ ،‬دم بند‬
‫برق کو دے رہا ہے کیا الزام‬
‫تیرے فینل گراں جسد کی صدا‬
‫تیرے رخنش سبک عناں کا خرام‬
‫۔ق۔‬
‫فنن صورت گری میں‪ ،‬تیرا سگرز‬
‫گر نہ رکھتا ہو دست گانہ تمام‬
‫اس کے مضروب کے سر و تن سے‬
‫ت ادغام؟‬ ‫کیوں نمایاں ہو صور ن‬
‫جب ازل میں رقم پذیر ہوئے‬
‫صفحہ ہائے لیالی و اییام‬
‫ک قضا‬ ‫اور ان اوراق میں بہ کل ن‬
‫مجمل ا مندرج ہوئے احکام‬
‫"لکھ دیا شاہدوں کو "عاشق سکش‬
‫"لکھ دیا عاشقوں کو" دشمن کام‬
‫آسماں کو کہا گیا کہ کہیں‬
‫"گنبند تیز گرند نیلی فام"‬
‫حکنم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں‬
‫"خال کو" دانہ" اور زلف کو" دام‬
‫آتش و آب و باد و خاک نے لی‬
‫وضنع سوز و نم و رم و آرام‬
‫"مہنر رخشاں کا نام "خسرنو روز‬
‫"مانہ تاباں کا اسم "شحنۂ شام‬
‫تیری توقینع سلطنت کو بھی‬
‫ت ارقام‬ ‫دی بدستور‪ ،‬صور ن‬
‫کاتنب حکم نے ‪ ،‬بموجنب حکم‬
‫اس رقم کو دیا طرانز دوام‬
‫ہے ازل سے روائی آغاز‬
‫ہو ابد تک رسائنی انجام‬
‫٭٭‬

‫قصیدہ‬

‫صبح دم‪ ،‬دروازۂ خاور کھل‬


‫مہنر عالمتاب کا منظر کھل‬
‫خسرنو انجم کے ‪ ،‬آیا‪ ،‬صرف میں‬
‫شب کو تھا گنجینۂ گوہر‪ ،‬کھل‬
‫وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود‬
‫صبح کو‪ ،‬رانز مہ و اختر کھل‬
‫ہیں کواکب کچھ‪ ،‬نظر آتے ہیں کچھ‬
‫دیتے ہیں دھوکا‪ ،‬یہ بازی گر‪ ،‬کھل‬
‫سطنح گردوں پر پڑا تھا‪ ،‬رات کو‬
‫موتیوں کا‪ ،‬ہر طرف‪ ،‬زیور کھل‬
‫صبح آیا‪ ،‬جاننب مشرق‪ ،‬نظر‬
‫اک نگانر آتشیں سرخ‪ ،‬سر کھل‬
‫تھی نظر بندی‪ ،‬نکیا جب رنید نسحر‬
‫بادۂ گل رنگ کا ساغر کھل‬
‫ل کے ‪ ،‬ساقی نے صبوحی کے لیے‬
‫رکھ دیا ہے ایک جانم زر کھل‬
‫بزنم سلطانی ہوئی آراستہ‬
‫کعبۂ امن و اماں کا در کھل‬
‫تانج زیریں‪ ،‬مہنر تاباں سے سوا‬
‫خسرنو آفاق کے منہ پر کھل‬
‫شانہ روشن دل‪ ،‬بہادر شہ‪ ،‬کو ہے‬
‫رانز ہستی ساس پہ سر تا سر کھل‬
‫ت تکوین میں‬ ‫وہ کہ جس کی صور ن‬
‫مقصند سنہ چرخ و ہفت اختر کھل‬
‫وہ کہ جس کے ناخنن تاویل سے‬
‫عقدۂ احکانم پیغمبر کھل‬
‫پہلے دارا کا‪ ،‬نکل آیا ہے ‪ ،‬نام‬
‫سان کے دسرہنگوں کا جب دفتر کھل‬
‫رسو شناسوں کی جہاں فہرست ہے‬
‫واں لکھا ہے ‪ ،‬چہرۂ قیصر کھل‬
‫۔ق۔‬
‫تسوسنن شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب‬
‫ت صرصر کھل‬ ‫تھان سے وہ غیر ن‬
‫نقنش پا کی صورتیں وہ دل فریب‬
‫تسو کہے ‪ ،‬بت خانۂ آزر کھل‬
‫مجھ پہ‪ ،‬فینض تربیت سے شاہ کے‬
‫منصنب مہر و مہ و محور کھل‬
‫لکھ سعقدے دل میں تھے ‪ ،‬لیکن ہر ایک‬
‫میری حنید سوسع سے باہر کھل‬
‫تھا‪ ،‬دنل وابستہ‪ ،‬سقفنل بے کلید‬
‫کس نے کھول؟کب کھل؟ کیوں کر کھل؟‬
‫بانغ معنی کی‪ ،‬دکھاؤں گا بہار‬
‫مجھ سے ‪ ،‬گر‪ ،‬شانہ سخن گستر کھل‬
‫ہو جہاں گرنم غزل خوانی دن‪ ،‬دفس‬
‫لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھل‬
‫٭٭‬

‫سکنج میں بیٹھا رہوں‪ ،‬یوں دپر کھل‬


‫کاش کے ! ہوتا قفس کا در کھل‬
‫ہم پکاریں‪ ،‬اور کھلے ‪ ،‬یوں کون جائے‬
‫یار کا دروازہ پاویں‪ ،‬گر‪ ،‬کھل‬
‫ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ‬
‫دوست کا‪ ،‬ہے راز‪ ،‬دشمن پر‪ ،‬کھل‬
‫واقعی‪ ،‬دل پر بھل لگتا تھا داغ‬
‫زخم‪ ،‬لیکن‪ ،‬داغ سے بہتر کھل‬
‫!ہاتھ سے رکھ دی‪ ،‬کب ابرو نے ‪ ،‬کماں‬
‫کب کمر سے ‪ ،‬غمزے کی‪ ،‬خنجر کھل‬
‫سمفت کا‪ ،‬کس کو سبرا ہے ‪ ،‬بدردقہ‬
‫رہروی میں‪ ،‬پردۂ رہبر کھل‬
‫سونز دل کا کیا کرے بارانن اشک؟‬
‫آگ بھڑکی‪ ،‬مینہ اگر دم بھر کھل‬
‫نامے کے ساتھ آ گیا پیغانم مرگ‬
‫رہ گیا‪ ،‬خط میری چھاتی پر‪ ،‬کھل‬
‫دیکھیو‪ ،‬غالبب سے گر الجھا کوئی‬
‫ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھل‬
‫٭‬

‫پھر‪ ،‬ہوا مدحت طرازی کا خیال‬


‫پھر‪ ،‬مہ و خورشید کا دفتر کھل‬
‫خامے سے پائی‪ ،‬طبیعت نے ‪ ،‬مدد‬
‫بادباں بھی‪ ،‬اٹھتے ہی لنگر‪ ،‬کھل‬
‫مدح سے ‪ ،‬ممدوح کی دیکھی شکوہ‬
‫عدرض سے سرتبۂ جوہر کھل‬ ‫یاں‪ ،‬د‬
‫کر کھا گیا‬‫مہر کانپا‪ ،‬چرخ چ ی‬
‫ت لشکر کھل‬ ‫بادشہ کا رائ ن‬
‫بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب‬
‫علنیو پایۂ نمنبر کھل‬‫اب‪ ،‬س‬
‫نسکۂ شہ کا‪ ،‬ہوا ہے رو شناس‬
‫اب‪ ،‬نعیانر آبروئے زر کھل‬
‫شاہ کے آگے دھرا ہے آئنہ‬
‫کندر کھل‬‫اب‪ ،‬مآنل سعنی ناس د‬
‫ملک کے وارث کو دیکھا‪ ،‬دخلق نے‬
‫اب‪ ،‬فرینب طغرل و سنجر کھل‬
‫ہو سکے کیا مدح؟ ہاں‪ ،‬اک نام ہے‬
‫دفتنر مدنح جہاں داور کھل‬
‫فکر اچیھی‪ ،‬پر ستائش نا تمام‬
‫عجنز اعجانز ستائش گر کھل‬
‫جانتا ہوں‪ ،‬ہے خنط لونح ازل‬
‫تم پہ‪ ،‬اے خاقانن نام آور‪ ،‬کھل‬
‫تم کرو صاحب نقرانی‪ ،‬جب تلک‬
‫ہے طلسنم روز و شب کا در کھل‬
‫٭٭‬

‫سہرا‬
‫خوش ہو‪ ،‬داے بخت‪ ،‬کہ ہے آج نترے سر سہرا‬
‫باندھ‪ ،‬شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا‬
‫کیا ہی ناس چاند سے سمکھڑے پہ بھل لگتا ہے‬
‫ہے نترے سحسنن دل افروز کا زیور سہرا‬
‫ف سکلہ‬ ‫!سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے ‪ ،‬پر اے طر ن‬
‫مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے نترا لمبر‪ ،‬سہرا‬
‫ناؤ بھر کر ہی‪ ،‬پروئے گئے ہوں گے موتی‬
‫ورنہ‪ ،‬کیوں لئے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا‬
‫سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی‬
‫تب بنا ہو گا ناس انداز کا گز بھر نسہرا‬
‫سرخ پہ سدولھا کے جو‪ ،‬گرمی سے ‪ ،‬پسینا ٹپکا‬
‫گ ابنر سگہر بار دسرادسر‪ ،‬نسہرا‬‫ہے ر ن‬
‫یہ بھی ناک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے‬
‫رہ گیا‪ ،‬آن کے دامن کے برابر‪ ،‬نسہرا‬
‫جی میں ناترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں ناک چیز‬
‫چاہیے ‪ ،‬پسھولوں کا بھی ایک‪ ،‬مقیرر‪ ،‬سہرا‬
‫جب کہ اپنے میں سماویں نہ‪ ،‬خوشی کے مارے‬
‫گوندھے پسھولوں کا بھل پھر کوئی کیونکر‪ ،‬نسہرا؟‬
‫سرخ روشن کی ددمک‪ ،‬گوہنر غلطاں کی چمک‬
‫کیوں نہ دکھلئے وے فرونغ مہ و اختر سہرا ؟‬
‫گ ابنر بہار‬ ‫تار ریشم کا نہیں‪ ،‬ہے یہ در ن‬
‫ب گراں بارنی گوہر‪ ،‬نسہرا ؟‬ ‫لئے گا تا ن‬
‫ہم سسخن فہم ہیں‪ ،‬غالبب کے طرفدار نہیں‬
‫دیکھیں‪ ،‬اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا‬
‫)مرزا جواں بخت کی شادی کی تاریخیں یکم و دوم مانہ اپریل ‪ 1852‬بتائی جاتی ہیں(‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬

‫منسظور ہے سگزارنش احوانل واقعی‬


‫اپنا بیانن سحسنن طبیعت نہیں مجھے‬
‫دسو سپشت سے ‪ ،‬ہے پیشۂ آبا سپہ گری‬
‫کچھ شاعری‪ ،‬ذریعۂ عزت نہیں مجھے‬
‫آزادہ درو ہوں‪ ،‬اور نمرا مسلک ہے صلنح سکل‬
‫ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے‬
‫کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلم ہوں؟‬
‫مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے‬
‫ساستاند شہ سے ہو‪ ،‬مجھے دپرخاش کا خیال؟‬
‫یہ تاب‪ ،‬یہ مجال‪ ،‬یہ طاقت نہیں مجھے‬
‫جانم جہاں سنما ہے شہنشاہ کا ضمیر‬
‫دسوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے‬
‫میں کون‪ ،‬اور ریختہ ؟ ہاں ناس سے مدعا‬
‫سجز انبسانط خاطنر حضرت نہیں مجھے‬
‫نسہرا لکھا گیا ز رنہ امتثانل دامر‬
‫دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے‬
‫مقطع میں آ پڑی ہے سسخن سگسترانہ بات‬
‫مقصود اس سے قطنع محبت نہیں مجھے‬
‫سروئے سسخن کسی کی طرف ہو‪ ،‬تو سرو سیاہ‬
‫سودا نہیں‪ ،‬سجنوں نہیں‪ ،‬وحشت نہیں مجھے‬
‫قسمت سبری سہی‪ ،‬دپہ طبیعت سبری نہیں‬
‫ہے سشکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے‬
‫صادق ہوں اپنے قول میں‪ ،‬غالبب ‪ ،‬خدا گواہ‬
‫کہتا ہوں سچ کہ جسھوٹ کی عادت نہیں مجھے‬
‫)یہ قطعہ دہلی اردو اخبارجلد ‪ 14‬نمبر ‪13‬مورخہ ‪ 28‬مارچ ‪ 1852‬ء میں شائع ہوا تھا(‬
‫٭٭‬

‫سہرا‬
‫!چرخ تک دھوم ہے ‪ ،‬کس دھوم سے آیا سہرا‬
‫چاند کا دائرہ لے ‪ ،‬زہرہ نے گایا سہرا‬
‫جسے کہتے ہیں خوشی‪ ،‬ا س نے بلئیں لے کر‬
‫کبھی چوما‪ ،‬کبھی آنکھوں سے لگایا سہرا‬
‫رشک سے لڑتی ہیں آپس میں سالجھ کر لڑیاں‬
‫باندھنے کو جو ترے سر پہ‪ ،‬ساٹھایا سہرا‬
‫ب گہر کی لہریں‬ ‫صاف آتی ہیں نظر آ ن‬
‫جنبنش باند سحر نے جو ہلیا سہرا‬
‫٭٭‬

‫بزنم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھل‬


‫رکھیو‪ ،‬یا رب‪ ،‬یہ دنر گنجینۂ گوہر کھل‬
‫شب ہوئی‪ ،‬پھر انجنم رخشندہ کا منظر کھل‬
‫ناس تکیلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھل‬
‫گرچہ ہوں دیوانہ‪ ،‬پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب؟‬
‫آستیں میں دشنہ پنہاں‪ ،‬ہاتھ میں نشتر کھل‬
‫گو نہ سمجھوں اس کی باتیں‪ ،‬گونہ پاؤں اس کا بھید‬
‫پر یہ کیا کم ہے ؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھل‬
‫ہے خیانل سحسن میں سحسنن عمل کا سا خیال‬
‫خلد کا اک در ہے ‪ ،‬میری گور کے اندر کھل‬
‫منہ نہ کھلنے پر‪ ،‬ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں‬
‫زلف سے بڑھ کر نقاب ساس شوخ کے منہ پر کھل‬
‫!در پہ رہنے کو کہا‪ ،‬اور کہہ کے کیسا پھر گیا‬
‫جتنے عرصے میں نمرا لپٹا ہوا بستر کھل‬
‫کیوں اندھیری ہے شنب غم؟ ہے بلؤں کا نزول‬
‫آج سادھر ہی کو رہے گا‪ ،‬دیدۂ اختر کھل‬
‫کیا رہوں غربت میں خوش‪ ،‬جب ہو حوادث کا یہ حال‬
‫نامہ لتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھل‬
‫اس کی ایمت میں ہوں دمیں‪ ،‬میرے رہیں کیوں کام بند؟‬
‫واسطے جس شہ کے ‪ ،‬غالبب ! گنبند بے در کھل‬
‫٭٭‬

‫ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور‬


‫کرتے ہیں دمحیبت‪ ،‬تو گزرتا ہے گماں اور‬
‫یا رب‪ ،‬وہ نہ سمجھے ہیں‪ ،‬نہ سمجھیں گے مری بات‬
‫دے اور دل ان کو‪ ،‬جو نہ دے مجھ کو زباں اور‬
‫ابرو سے ہے کیا‪ ،‬اس نگنہ ناز کو پیوند‬
‫ہے تیر مقیرر‪ ،‬مگر اس کی ہے کماں اور‬
‫تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم؟ جب اٹھیں گے‬
‫لے آئیں گے بازار سے ‪ ،‬جا کر‪ ،‬دل و جاں اور‬
‫ہر چند سسسبک دست ہوئے بت شکنی میں‬
‫گ گراں اور‬‫ہم ہیں‪ ،‬تو ابھی راہ میں ہیں سن ن‬
‫ہے خونن جگر جوش میں‪ ،‬دل کھول کے روتا‬
‫ہوتے جو کئی دیدۂ خونبانہ فشاں اور‬
‫مرتا ہوں اس آواز پہ‪ ،‬ہر چند سر اڑ جائے‬
‫لد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ "ہاں اور‬ ‫"ج ی‬
‫لوگوں کو ہے خورشیند جہاں تاب کا دھوکا‬
‫ہر روز دکھاتا ہوں میں اک دانغ نہاں اور‬
‫لیتا‪ ،‬نہ اگر دل تمھیں دیتا‪ ،‬کوئی دم چین‬
‫کرتا‪ ،‬جو نہ مرتا‪ ،‬کوئی دن آہ و فغاں اور‬
‫پاتے نہیں جب راہ‪ ،‬تو چڑھ جاتے ہیں نالے‬
‫سرکتی ہے مری طبع‪ ،‬تو ہوتی ہے رواں اور‬
‫ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچیھے‬
‫کہتے ہیں کہ غالبب کا ہے اندانز بیاں اور‬
‫٭٭‬

‫لزم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی ندن اور‬


‫تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور‬
‫مٹ جائے گا دسر‪ ،‬گر‪ ،‬ترا پتھر نہ گنھسے گا‬
‫ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور‬
‫"آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ "جاؤں؟‬
‫مانا کہ ہمیشہ نہیں‪ ،‬اچھا کوئی دن اور‬
‫" جاتے ہوئے کہتے ہو "قیامت کو ملیں گے‬
‫کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور‬
‫ک پیر! جواں تھا ابھی عارف‬ ‫ہاں‪ ،‬اے فل ن‬
‫کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور‬
‫تم مانہ شنب چار دہم تھے ‪ ،‬مرے گھر کے‬
‫پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور‬
‫تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے ؟‬
‫ک الموت تقاضا کوئی دن اور‬ ‫کرتا مل س‬
‫مجھ سے تمہیں نفرت سہی‪ ،‬نیر سے لڑائی‬
‫بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور‬
‫گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش‬
‫کرنا تھا جواں مرگ‪ ،‬گزارا کوئی دن اور‬
‫" ناداں ہو جو کہتے ہو کہ "کیوں جیتے ہیں غالبب‬
‫قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور‬
‫) مرزا زین العابدین خان عارف اپریل ‪ 1852‬میں فوت ہوئے تھے ‪ ،‬یہ غزل انہی کا مرثیہ ہے(‬
‫٭٭‬

‫دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا‬


‫یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں‬
‫تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے‬
‫تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں‬
‫کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ‪ ،‬اہنل بزم؟‬
‫ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟‬
‫٭٭‬

‫سب کہاں؟ کچھ للہ و گل میں نمایاں ہو گئیں‬


‫خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں‬
‫یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں‬
‫لیکن اب نقش و نگانر طانق نسیاں ہو گئیں‬
‫تھیں بنات النعنش گردوں دن کو پردے میں نہاں‬
‫شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں؟‬
‫قید میں یعقوب نے لی گو‪ ،‬نہ یوسف کی خبر‬
‫لیکن آنکھیں روزنن دیوانر زنداں ہو گئیں‬
‫سب رقیبوں سے ہوں ناخوش‪ ،‬پر زنانن مصر سے‬
‫ہے زلیخا خوش کہ محنو مانہ کنعاں ہو گئیں‬
‫سجوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شانم فراق‬
‫میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں‬
‫ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام‬
‫قدرنت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں‬
‫نیند ساس کی ہے ‪ ،‬دماغ ساس کا ہے ‪ ،‬راتیں ساس کی ہیں‬
‫تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں‬
‫میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کسھل گیا‬
‫بلبلیں سسن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں‬
‫وہ نگاہیں کیوں سہوئی جاتی ہیں یا رب دل کے پار؟‬
‫جو مری کوتاہئ قسمت سے مژگاں ہو گئیں‬
‫بس کہ روکا میں نے اور سینے میں سابھریں دپے بہ دپے‬
‫ک گریباں ہو گئیں‬ ‫میری آہیں بخیۂ چا ن‬
‫واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب؟‬
‫ف درباں ہو گئیں‬ ‫یاد تھیں جتنی دعائیں صر ن‬
‫جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا‬
‫گ جاں ہو گئیں‬ ‫سب لکیریں ہاتھ کی گویا‪ ،‬ر ن‬
‫ک رسسوم‬‫ہم مویحد ہیں ہمارا کیش ہے تر ن‬
‫میلتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں‬
‫رنج سے سخوگر سہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج‬
‫مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‬
‫یوں ہی گر روتا رہا غالبب ‪ ،‬تو اے اہل جہاں‬
‫دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں‬
‫)یہ غزل دہلی اردو اخبارجلد ‪ 14‬نمبر ‪32‬مورخہ ‪ 28‬اگست ‪ 1852‬میں چھپی تھی(‬
‫٭٭‬

‫حضونر شاہ میں اہنل سخن کی آزمائش ہے‬


‫چمن میں خوش نوایانن چمن کی آزمائش ہے‬
‫قد و گیسو میں‪ ،‬قیس و کوہکن کی آزمائش ہے‬
‫جہاں ہم ہیں‪ ،‬وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے‬
‫کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں‪ ،‬آخر‬
‫ہنوز ساس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے‬
‫!نسینم مصر کو کیا پینر کنعاں کی ہوا خواہی‬
‫ساسے یوسف کی سبوئے پیرہن کی آزمائش ہے‬
‫‘‘ وہ آیا بزم میں‪ ،‬دیکھو‪ ،‬نہ کہیو پھر کہ ’’غافل تھے‬
‫شکیب و صبنر اہنل انجمن کی آزمائش ہے‬
‫رہے دل ہی میں تیر‪ ،‬اچھا‪ ،‬جگر کے پار ہو‪ ،‬بہتر‬
‫ت ناوک فگن کی آزمائش ہے‬ ‫ت بس ن‬ ‫غرض نشس ن‬
‫جہ و سزینار کے پھندے میں گیرائی‬ ‫نہیں کچھ س ی‬
‫س‬
‫وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے‬
‫پڑا رہ‪ ،‬اے دنل وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل؟‬
‫ب سزلنف سپر شکن کی آزمائش ہے‬ ‫مگر پھر تا ن‬
‫رگ و دپے میں جب ساترے زہنر غم‪ ،‬تب دیکھیے کیا ہو‬
‫ابھی تو تلخنی کام و دہن کی آزمائش ہے‬
‫! وہ آویں گے نمرے گھر‪ ،‬وعدہ کیسا‪ ،‬دیکھنا‪ ،‬غالبب‬
‫نئے فتنوں میں اب چرنخ سکہن کی آزمائش* ہے‬
‫٭٭‬

‫غم کھانے میں بودا دنل ناکام بہت ہے‬


‫یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام‪ ،‬بہت ہے‬
‫کہتے ہوئے ساقی سے ‪ ،‬حیا آتی ہے ورنہ‬
‫ہے یوں کہ مجھے سدرند تنہ جام بہت ہے‬
‫دنے تیر کماں میں ہے ‪ ،‬نہ صیاد کمیں میں‬
‫گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے‬
‫کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی‬
‫پادانش عمل کی دطمنع خام بہت ہے‬
‫ہیں اہنل خرد کس رونش خاص پہ نازاں؟‬
‫پابستگنی رسم و رنہ عام بہت ہے‬
‫ف حرم سے ؟‬ ‫زمزم ہی پہ چھوڑو‪ ،‬مجھے کیا طو ن‬
‫آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے‬
‫ہے قہر‪ ،‬گر اب بھی نہ بنے بات‪ ،‬کہ ان کو‬
‫انکار نہیں‪ ،‬اور مجھے نابرام بہت ہے‬
‫خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ‬
‫رہنے دے مجھے یاں‪ ،‬کہ ابھی کام بہت ہے‬
‫ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالبب کو نہ جانے ؟‬
‫شاعر تو وہ اچھا ہے ‪ ،‬پہ بدنام بہت ہے‬
‫٭٭‬

‫نکتہ چیں ہے ‪ ،‬غنم دل ساس کو سسنائے نہ بنے‬


‫کیا بنے بات‪ ،‬جہاں بات بنائے نہ بنے‬
‫میں سبلتا تو ہوں ساس کو‪ ،‬مگر اے جذبۂ دل‬
‫ساس پہ بن جائے سکچھ ایسی کہ نبن آئے نہ بنے‬
‫کھیل سمجھا ہے ‪ ،‬کہیں چھوڑ نہ دے ‪ ،‬بھول نہ جائے‬
‫کاش ! سیوں بھی ہو کہ نبن میرے ستائے نہ بنے‬
‫غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ‪ ،‬اگر‬
‫کوئی سپوچھے کہ "یہ کیا ہے " تو چسھپائے نہ بنے‬
‫ناس نزاکت کا سبرا ہو‪ ،‬وہ بھلے ہیں‪ ،‬تو کیا؟‬
‫ہاتھ آویں‪ ،‬تو سانھیں ہاتھ لگائے نہ بنے‬
‫کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے ؟‬
‫پردہ چھوڑا ہے وہ ساس نے کہ ساٹھائے نہ بنے‬
‫موت کی راہ نہ دیکھوں ؟ کہ نبن آئے نہ رہے‬
‫تم کو چاہوں ؟ کہ نہ آؤ‪ ،‬تو سبلئے نہ بنے‬
‫بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ ساٹھائے نہ ساٹھے‬
‫کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے‬
‫! عشق پر زور نہیں‪ ،‬ہے یہ وہ آتش غالبب‬
‫کہ لگائے نہ لگے ‪ ،‬اور سبجھائے نہ بنے‬
‫٭٭‬

‫رباعیات‬

‫کرے‬ ‫حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد‬


‫کرے‬ ‫تا شاہ شیونع دانش و داد‬
‫گانٹھ‬ ‫یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں‪،‬‬
‫کرے‬ ‫ہے نصفر کہ افزائنش اعداد‬
‫٭٭‬

‫ہوں‪ ،‬بلکہ نسوا‬ ‫! ناس رشتے میں لکھ تار‬


‫ہوں‪ ،‬بلکہ نسوا‬ ‫! ناتنے ہی برس سشمار‬
‫گرہ فرض کریں‬ ‫ہر سیکڑے کو ایک‬
‫ہوں‪ ،‬بلکہ نسوا‬ ‫!ایسی گرہیں ہزار‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1853‬‬

‫در مدنح شاہ‬

‫اے شانہ جہانگیر جہاں بخنش جہاں دار‬


‫ہے غیب سے ہر دم تجھے صد سگونہ بشارت‬
‫عقدۂ سدشوار کہ کوشش سے نہ وا ہوا‬‫جو س‬
‫تو دوا کرے ساس سعقدے کو‪ ،‬سو بھی بہ اشارت‬
‫ممکن ہے ‪ ،‬کرے خضر سکندر سے ترا ذ کر؟‬
‫گر لب کو نہ دے ‪ ،‬چشمۂ حیواں سے طہارت‬
‫آصف کو سسلیماں کی وزارت سے شرف تھا‬
‫ہے فخنر سسلیماں‪ ،‬جو کرے تیری وزارت‬
‫ہے نقنش سمریدی ترا‪ ،‬فرمانن ایلہی‬
‫غلمی نترا‪ ،‬توقینع امارت‬ ‫ہے دانغ س‬
‫ت سیلں‬ ‫ستو آب سے گر سلب کرے طاق ن‬
‫ب شرارت‬ ‫تو آگ سے گر دفع کرے تا ن‬
‫ڈسھونڈے نہ نملے ‪ ،‬موجۂ دریا میں‪ ،‬روانی‬
‫باقی نہ رہے آتنش سوزاں میں‪ ،‬حرارت‬
‫غل‬‫ہے گر چہ مجھے سنکتہ سرائی میں تو س‬
‫ہے ‪ ،‬گر چہ‪ ،‬مجھے سحر طرازی میں مہارت‬
‫کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم سدعا پر؟‬
‫قاصر ہے ‪ ،‬ستائش میں نتری‪ ،‬میری عبارت‬
‫دنو روز ہے آج‪ ،‬اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں‬
‫ت حق‪ ،‬اہنل بصارت‬ ‫نظارگنی صنع ن‬
‫ف مہنر جہاں تاب سمبارک‬ ‫تجھ کو شر ن‬
‫غالبب کو‪ ،‬ترے عتبۂ عالی کی زیارت‬
‫یہ قطعہ نوروز کی مبارک باد پر مشتمل ہے ‪ ،‬ا ور نو روز‪ ،‬آفتاب کے برنج حمل میں داخلے پر منایا جاتا ہے ۔ مرزا صاحب‪"،‬‬
‫سرور کو لکھتے ہیں‪":‬تحوینل آفتاب بہ حمل کے باب میں موٹی بات یہ ہے کہ ‪ 22‬مارچ کو واقع ہوتی ہے ۔ کبھی ‪ 21‬اور‬
‫کبھی ‪ 23‬بھی آ پڑتی ہے ۔اس سے تجاوز نہیں") عود‪( 32 :‬‬
‫دہلی اردو اخبارجلد ‪ 15‬نمبر ‪13‬مورخہ جمادی الخرہ ‪ 1269‬ھ مطابق ‪ 27‬مارچ ‪ 1863‬ء میں حضور وال کی نیاز معمولی‬
‫دسترخوان کا ذکر ہے ‪ ،‬جو یکشنبہ ‪ 9‬جمادی الخرہ کو نوروز کے دن منائی گئی تھی۔ یہ واقعہ میرزا سلیمان شکوہ بہادر کے‬
‫پوتے میرزا نور الدین شاہیب تخلص کی آم ند دہلی کے بعد کا ہے ۔ جن کی صحبت نے بہادر شاہ کو متہم بہ تشیع کیا تھا۔اس‬
‫لیے میری دانست میں یہ قطعہ مارچ ‪ 1853‬ء کا لکھا ہوا ہے ")مولنا عرشی‪ ،‬نسخہ عرشی‪ ،‬اشاعت دوم‪ ،‬صفحہ ‪( 140‬‬
‫٭٭‬

‫مخمس‬

‫گئی‬ ‫رہ‬ ‫آدھی‬ ‫گھستے گھستے ‪ ،‬پاؤں میں زنجیر‬


‫گئی‬ ‫رہ‬ ‫آدھی‬ ‫مر گئے پر‪ ،‬قبر کی تعمیر‬
‫گئی‬ ‫رہ‬ ‫آدھی‬ ‫سب ہی پڑھتا‪ ،‬کاش! کیوں تکبیر‬
‫گئی‬ ‫رہ‬ ‫آدھی‬ ‫کھنچ کے ‪ ،‬قاتل‪ ،‬جب تری شمشیر‬
‫گئی‬ ‫رہ‬ ‫آدھی‬ ‫غم سے ‪ ،‬جانن عاشنق دل گیر‪،‬‬

‫بیٹھ رہتا‪ ،‬لے کے چشنم سپر نم‪ ،‬اس کے روبرو‬


‫"کیوں کہا تو نے کہ" کہہ دل کا غم اس کے روبرو‬
‫بات کرنے میں نکلتا ہے دم‪ ،‬اس کے روبرو‬
‫کہہ سکے ساری حقیقت ہم نہ اس کے روبرو٭‬
‫ہم نشیں‪ ،‬آدھی ہوئی تقریر‪ ،‬آدھی رہ گئی‬

‫تو نے دیکھا؟ مجھ پہ کیسی بن گئی‪ ،‬اے راز دار‬


‫خواب و بیداری پہ‪ ،‬کب ہے ‪ ،‬آدمی کو اختیار‬
‫مثنل زخم آنکھوں کو سی دیتا‪ ،‬جو ہوتا ہوشیار‬
‫کھینچتا تھا‪ ،‬رات کو میں خواب میں‪ ،‬تصوینر یار‬
‫جاگ اٹھا میں‪ ،‬کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی‬

‫غم نے جب گھیرا‪ ،‬تو چاہا ہم نے یوں‪ ،‬اے دل نواز‬


‫مستنی چشنم سیہ سے ‪ ،‬چل کے ‪ ،‬ہوویں چارہ ساز‬
‫ب ناز‬‫تسو صدائے پاسے جاگا‪ ،‬تھاجو محنو خوا ن‬
‫دیکھتے ہی‪ ،‬اے ستم گر‪ ،‬تیری چشنم نیم باز‬
‫کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر‪ ،‬آدھی رہ گئی‬

‫ت مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات؟‬ ‫اس ب ن‬


‫جس کے حسنن روز افزوں کی یہ اک ادنیی ہے بات‬
‫مانہ نو نکلے پہ‪ ،‬گزری ہوں گی راتیں پان سات‬
‫اس سرنخ روشن کے آگے مانہ یک ہفتہ کی رات‬
‫تابنش خورشیند سپر تنویر آدھی رہ گئی‬
‫میں‬ ‫ت بد ہے گھات‬ ‫تا مجھے پہنچائے کاہش‪ ،‬بخ ن‬
‫میں‬ ‫ہاں‪ ،‬فراوانی اگر کچھ ہے ‪ ،‬تو ہے آفات‬
‫میں‬ ‫سجز غنم داغ و الم‪ ،‬گھاٹا ہے ہر اک بات‬
‫میں‬ ‫کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات‬
‫گئی‬ ‫ت اکسیر آدھی رہ‬‫آتے ہی‪ ،‬خاصیی ن‬

‫مرے‬ ‫جا‬ ‫لگ‬ ‫سب سے ‪ ،‬یہ گوشہ کنارے ہے ‪ ،‬گلے‬


‫مرے‬ ‫جا‬ ‫لگ‬ ‫آدمی کو کیا پکارے ہے ؟ گلے‬
‫مرے‬ ‫جا‬ ‫لگ‬ ‫سر سے گر چادر اتارے ہے ‪ ،‬گلے‬
‫مرے‬ ‫جا‬ ‫لگ‬ ‫مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے ؟گلے‬
‫گئی‬ ‫رہ‬ ‫آدھی‬ ‫وصل کی شب‪ ،‬اے ب ن‬
‫ت بے پیر‪،‬‬

‫پنھر گئے‬ ‫میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں‬


‫پھر گئے‬ ‫پھر نصیب اپنا‪ ،‬انھیں جاتے سنا جوں‪،‬‬
‫پنھر گئے‬ ‫دیکھنا قسمت‪ ،‬وہ آئے ‪ ،‬اور پھر یوں‬
‫پنھر گئے‬ ‫آ کے آدھی دور‪ ،‬میرے گھر سے وہ کیوں‬
‫رہ گئی؟‬ ‫کیا کشش میں دل کی اب تاثیر آدھی‬

‫ناگہاں یاد آ گئی ہے مجھ کو‪ ،‬یا رب! کب کی بات؟‬


‫کچھ نہیں کہتا کسی سے ‪ ،‬سن رہا ہوں سب کی بات‬
‫کس لیے تجھ سے چھپاؤں‪ ،‬ہاں! وہ پرسوں شب کی بات‬
‫نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات‬
‫خط میں آدھی ہو سکی‪ ،‬تحریر آدھی رہ گئی‬

‫ہو تجیلی برق کی صورت میں‪ ،‬ہے یہ بھی غضب‬


‫ت عیش و طرب‬ ‫پانچ چھہ گھنٹے تو ہوتی‪ ،‬فرص ن‬
‫شام سے آتے ‪ ،‬تو کیا اچھی گزرتی رات سب‬
‫پاس میرے وہ جو آئے بھی‪ ،‬تو بعد از نصف شب‬
‫نکلی آدھی حسرت تقریر‪ ،‬آدھی رہ گئی‬

‫تم جو فرماتے ہو‪ ،‬دیکھ اے غالبب آشفتہ سر‬


‫ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے ؟ گیا کیوں ساس کے گھر؟‬
‫جان کی پاؤں اماں!باتیں یہ سب سچ ہیں‪ ،‬مگر‬
‫دل نے کی ساری خرابی‪ ،‬لے گیا مجھ کو‪ ،‬ظفرب‬
‫واں کے جانے میں‪ ،‬مری توقیر آدھی رہ گئی‬
‫) تتمہ دہلی اردو اخبار۔ ‪ 17‬اپریل ‪ 1853‬ء۔ یہ شاہ ظفر کی غزل پر غالبب کی تضمین ہے(‬
‫٭عرشی صاحب نے جب دیکھاکہ دیوا نن ظفر اور دہلی اردو اخبار میں "ہم نہ"لکھا ہے اور قوافی نم‪ ،‬غم‪ ،‬دم وغیرہ ہیں تو انہوں‬
‫نے اسے "نہ ہم "کر دیا۔عرشی صاحب کی یہ ترمیم درست نہیں۔ ترمیم سے "نہ" فع کے وزن پر آ گیا ہے جو جائز نہیں۔‬
‫"معلوم ہوتا ہے یہاں ظفرب نے "کب" کہا ہو گا۔ یعنی "کب ہم اس کے روبرو‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت‪ ،‬درد سے بھر نہ آئے کیوں؟‬


‫روئیں گے ہم ہزار بار‪ ،‬کوئی ہمیں ستائے کیوں؟‬
‫ددیر نہیں‪ ،‬حرم نہیں‪ ،‬در نہیں‪ ،‬آستاں نہیں‬
‫بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم‪ ،‬غیر ہمیں ساٹھائے کیوں؟‬
‫ت مہنر نیم روز‬ ‫جب وہ جمانل دل فروز‪ ،‬صور ن‬
‫آپ ہی ہو نظارہ سوز‪ ،‬پردے میں منہ چھپائے کیوں؟‬
‫ک ناز بے پناہ‬ ‫دشنۂ غمزہ جاں ستاں‪ ،‬ناو ن‬
‫تیرا ہی عکس سرخ سہی‪ ،‬سامنے تیرے آئے کیوں؟‬
‫قیند حیات و بنند غم اصل میں دونوں ایک ہیں‬
‫موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟‬
‫حسن اور اس پہ حسنن ظن‪ ،‬رہ گئی بوالہوس کی شرم‬
‫اپنے پہ اعتماد ہے ‪ ،‬غیر کو آزمائے کیوں؟‬
‫ب پاس وضع‬ ‫واں وہ غرونر عیز و ناز‪ ،‬یاں یہ حجا ن‬
‫راہ میں ہم ملیں کہاں؟ بزم میں وہ بلئے کیوں؟‬
‫ہاں‪ ،‬وہ نہیں خدا پرست‪ ،‬جاؤ‪ ،‬وہ بے وفا سہی‬
‫جس کو ہو دین و دل عزیز‪ ،‬اس کی گلی میں جائے کیوں؟‬
‫غالبب خستہ کے بغیر‪ ،‬کون سے کام بند ہیں‬
‫روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟‬
‫٭ دہلی اردو اخبار‪ ،‬جلد ‪15‬نمبر ‪7‬مورخہ ‪ 13‬فروری ‪ 1853‬ء‬
‫٭٭‬

‫گئی وہ بات کہ ہو گفتگو‪ ،‬تو کیوں کر ہو؟‬


‫کہے سے کچھ نہ ہوا‪ ،‬پھر کہو تو کیوں کر ہو؟‬
‫ہمارے ذہن میں‪ ،‬اس فکر کا ہے نام وصال‬
‫کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو؟‬
‫ادب ہے اور یہی کشمکش‪ ،‬تو کیا کیجے ؟‬
‫حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو؟‬
‫!تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا‬
‫بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو؟‬
‫الجھتے ہو تم‪ ،‬اگر دیکھتے ہو آئینہ‬
‫جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو‪ ،‬تو کیوں کر ہو؟‬
‫جسے نصیب ہو رونز سیاہ میرا سا‬
‫وہ شخص دن نہ کہے رات کو‪ ،‬تو کیوں کر ہو؟‬
‫ہمیں پھر ان سے امید‪ ،‬اور انہیں ہماری قدر‬
‫ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو‪ ،‬تو کیوں کر ہو؟‬
‫غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسیلی کا‬
‫نہ مانے دیدۂ دیدار جو‪ ،‬تو کیوں کر ہو؟‬
‫بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر‪ ،‬کہ مجھ کو قرار‬
‫گ جاں میں نفرو‪ ،‬تو کیوں کر ہو؟‬ ‫یہ نیش ہو ر ن‬
‫‪:‬مجھے جنوں نہیں غالبب ولے بہ قونل حضور‬
‫"فرانق یار میں تسکین ہو‪ ،‬تو کیوں کر ہو"‬
‫٭دہلی اردو اخبار‪ ،‬مطابق ‪ 6‬مارچ ‪ 1853‬ء‬
‫٭٭‬

‫قفس میں ہوں‪ ،‬گر ایچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو‬
‫مرا ہونا برا کیا ہے ‪ ،‬نوا سنجانن گلشن کو؟‬
‫نہیں گر ہمدمی آساں‪ ،‬نہ ہو‪ ،‬یہ رشک کیا کم ہے‬
‫نہ دی ہوتی خدا یا آرزوئے دوست‪ ،‬دشمن کو‬
‫نہ نکل آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر‬
‫کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانن سوزن کو‬
‫خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں‬
‫کبھی میرے گریباں کو‪ ،‬کبھی جاناں کے دامن کو‬
‫ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں‬
‫نہیں دیکھا شناور‪ ،‬جوئے خوں میں‪ ،‬تیرے توسن کو‬
‫ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا‬
‫کیا بیتاب کاں میں جنبنش جوہر نے آہن کو‬
‫! خوشی کیا‪ ،‬کھیت پر میرے ‪ ،‬اگر سو بار ابر آوے‬
‫سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو‬
‫وفاداری بہ شرنط استواری اصنل ایماں ہے‬
‫دمرے بت خانے میں‪ ،‬تو کعبے میں گاڑو برہمن کو‬
‫شہادت تھی مری قسمت میں‪ ،‬جو دی تھی یہ خو مجھ کو‬
‫جہاں تلوار کو دیکھا‪ ،‬جھکا دیتا تھا گردن کو‬
‫نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا ؟‬
‫رہا کھٹکا نہ چوری کا‪ ،‬دعا دیتا ہوں رہزن کو‬
‫سخن کیا کہہ نہیں سکتے ‪ ،‬کہ جویا ہوں جواہر کے ؟‬
‫جگر کیا ہم نہیں رکھتے ‪ ،‬کہ کھودیں جا کے معدن کو‬
‫مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبب‬
‫فریدون و جم و کیخسرو‪ ،‬و داراب و بہمن کو‬
‫٭ دہلی اردو اخبار‪ 8 ،‬مئی ‪ 1853‬ء‬
‫٭٭‬

‫دیا ہے دل اگر ساس کو‪ ،‬بشر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬


‫ہوا رقیب‪ ،‬تو ہو‪ ،‬نامہ بر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫یہ ضد کہ آج نہ آوے ‪ ،‬اور آئے نبن نہ رہے‬
‫قضا سے شکوہ ہمیں نکس قدر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫رہے ہے یوں نگہ و بے گنہ‪ ،‬کہ سکوئے دوست کو اب‬
‫اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب‬
‫کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫سمجھ کے کرتے ہیں‪ ،‬بازار میں وہ سپرسنش حال‬
‫"کہ یہ کہے کہ " سنر رہگزر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫تمہیں نہیں ہے سنر رشتۂ وفا کا خیال‬
‫ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ‪ ،‬مگر ہے کیا؟ کہیے ؟‬
‫سانہیں سوال پہ زعنم جنوں ہے ‪ ،‬کیوں لڑیئے ؟‬
‫ہمیں جواب سے قطنع نظر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫دحسد‪ ،‬سزائے کمانل سخن ہے ‪ ،‬کیا کیجے ؟‬
‫نستم‪ ،‬بہائے متانع سہنر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫کہا ہے نکس نے کہ غالبب سبرا نہیں ؟لیکن‬
‫سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ‪ ،‬کیا کہیے ؟‬
‫٭ یہ غزل قلعے کے مشاعرے منعقدہ ‪ 3‬جمادی الثانی ‪ 1269‬ھ‪ ،‬مطابق ‪ 10‬اپریل ‪1853‬ء کے لئے کہی گئی تھی)خط بنام‬
‫حقی بر بحوالہ غالب کے خطوط صفحہ ‪ (1145‬۔ اور دہلی اردو اخبار)تتمہ(جلد ‪15‬نمبر ‪17‬میں ‪ 24‬اپریل ‪ 1853‬ء کو شائع‬
‫ہوئی تھی‬
‫٭٭‬

‫" کہوں جو حال تو کہتے ہو ‪":‬مدعا کہیے‬


‫تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو‪ ،‬تو کیا کہیے ؟‬
‫" نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں‬
‫مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو "بجا" کہیے‬
‫وہ نیشتر سہی‪ ،‬پر دل میں جب اتر جاوے‬
‫نگانہ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے ؟‬
‫ت پیکاں‬‫نہیں ذریعۂ راحت‪ ،‬جراح ن‬
‫وہ زخنم تیغ ہے ‪ ،‬جس کو کہ دلکشا کہیے‬
‫جو مدعی بنے ‪ ،‬اس کے نہ مدعی بنیے‬
‫جو نا سزا کہے ‪ ،‬اس کو نہ نا سزا کہیے‬
‫ت جانکاہنی مرض لکھیے‬ ‫کہیں حقیق ن‬
‫کہیں مصیب ن‬
‫ت نا سازنی دوا کہیے‬
‫ت رننج گراں نشیں کیجے‬ ‫کبھی شکای ن‬
‫ت صبنر گریز پا کہیے‬‫کبھی حکای ن‬
‫رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے‬
‫کٹے زبان‪ ،‬تو خنجر کو مرحبا کہیے‬
‫نہیں نگار کو الفت‪ ،‬نہ ہو‪ ،‬نگار تو ہے‬
‫رواننئ روش و مستنی ادا کہیے‬
‫نہیں بہار کو فرصت‪ ،‬نہ ہو بہار تو ہے‬
‫ت چمن و خوبنی ہوا کہیے‬ ‫طراو ن‬
‫سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا‪ ،‬غالبب‬
‫خدا سے کیا ستم و جونر ناخدا کہیے‬
‫ت غالبب صفحہ ‪35‬‬ ‫٭ خط بنام حقیر‪ ،‬اپریل ‪ ،1853‬نادرا ن‬
‫٭٭‬

‫بازیچۂ اطفال ہے دنیا‪ ،‬مرے آگے‬


‫ہوتا ہے شب و روز‪ ،‬تماشا مرے آگے‬
‫گ سلیماں‪ ،‬مرے نزدیک‬ ‫اک کھیل ہے ‪ ،‬اورن ن‬
‫اک بات ہے اعجاز مسیحا‪ ،‬مرے آگے‬
‫جز نام‪ ،‬نہیں صورنت عالم مجھے منظور‬
‫جز وہم نہیں‪ ،‬ہستنئ اشیا مرے آگے‬
‫ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا‪ ،‬مرے ہوتے‬
‫گنھستا ہے جبیں خاک پہ‪ ،‬دریا مرے آگے‬
‫مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا تیرے پیچھے‬
‫تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے‬
‫سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں‪ ،‬نہ کیو ں ہوں؟‬
‫ت آئنہ سیما مرے آگے‬ ‫بیٹھا ہے ب ن‬
‫پھر دیکھیے اندانز گل افشاننی گفتار‬
‫رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے‬
‫نفرت کا گماں گزرے ہے ‪ ،‬میں رشک سے گزرا‬
‫" کیونکر کہوں‪ ":‬لو نام نہ ان کا مرے آگے‬
‫ایماں مجھے روکے ہے ‪ ،‬جو کھینچے ہے مجھے کفر‬
‫کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‬
‫عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام‬
‫مجنوں کو برا کہتی ہے لیل مرے آگے‬
‫خوش ہوتے ہیں‪ ،‬پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے‬
‫آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے‬
‫ہے موجزن اک قلزنم خوں‪ ،‬کاش! یہی ہو‬
‫آتا ہے ابھی‪ ،‬دیکھیے کیا کیا مرے آگے‬
‫گو ہاتھ کو جنبش نہیں‪ ،‬آنکھوں میں تو دم ہے‬
‫رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے‬
‫ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا‬
‫غالبب کو برا کیوں‪ ،‬کہو اچھا‪ ،‬مرے آگے‬

‫٭ یہ غزل بھی "بشر ہے ‪ ،‬کیا کہیے "والی غزل کے ساتھ کہی گئی تھی‪ 10 ،‬اپریل ‪ 1853‬ء کو یا اس سے ایک دو روز‬
‫پہلے ۔ مگر دہلی اردو اخبار )تتمہ( میں ‪ 22‬مئی ‪ 1853‬ء کو شائع ہوئی تھی‬
‫٭٭‬

‫ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‬


‫بہت نکلے مرے ارمان‪ ،‬لیکن پھر بھی کم نکلے‬
‫ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا ساس کی گر د ن پر‬
‫وہ خوں‪ ،‬جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے ؟‬
‫نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫بہت بے آبرو ہو کر‪ ،‬ترے کوچے سے ہم نکلے‬
‫بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا‬
‫اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے‬
‫مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے*‬
‫ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے‬
‫ہوئی ناس دور میں منسوب مجھ سے ‪ ،‬بادہ آشامی‬
‫پھر آیا وہ زمانہ‪ ،‬جو جہاں میں جانم جم نکلے‬
‫ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی‬
‫وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تینغ ستم نکلے‬
‫محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا‬
‫اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں‪ ،‬جس کافر پہ دم نکلے‬
‫کہاں میخانے کا دروازہ غالبب ! اور کہاں واعظ‬
‫پر ناتنا جانتے ہیں‪ ،‬کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے‬

‫٭ تتمہ دہلی اردو اخبار ۔ ‪ 19‬جون ‪ 1853‬ء‬

‫خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم ٭٭ کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے )یہ شعر نسخہ رضا میں موجود‬
‫نہیں‪ ،‬لیکن چونکہ متداول دیوان میں شامل ہے اس لیے یہاں ذکر کر دیا ( چھوٹا غالبب‬
‫٭٭‬

‫غیر لیں محفل میں بوسے جام کے‬


‫ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے‬
‫خستگی کا تم سے کیا شکوہ ؟کہ یہ‬
‫ہتھکنڈے ہیں‪ ،‬چرنخ نیلی فام کے‬
‫خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو‬
‫ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے‬
‫رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم‬
‫دھوئے دھیبے جامۂ احرام کے‬
‫دل کو آنکھوں نے پھنسایا‪ ،‬کیا مگر‬
‫یہ بھی‪ ،‬حلقے ہیں تمہارے دام کے‬
‫حت کی خبر‬ ‫شاہ کی ہے غسنل ص ی‬
‫دیکھیے ‪ ،‬کب دن پھریں حیمام کے ٭‬
‫عشق نے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬نکیما کر دیا‬
‫ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے‬
‫٭ دہلی اردو اخبار‪ 4 ،‬دسمبر ‪ 1853‬ءمیں درج ہے کہ بادشاہ نے "‪ 21‬صفر ‪ 1270‬ھ کو غسنل صحت فرمایا"۔ یہ مطابق ہے‬
‫‪ 23‬نومبر ‪ 1853‬ء کے‬
‫٭٭‬

‫سلم‬

‫سلم اسے کہ اگر بادشا کہیں ساس کو‬


‫تو پھر کہیں کچھ ناس سے سوا کہیں ساس کو‬
‫نہ بادشاہ‪ ،‬نہ سلطاں‪ ،‬یہ کیا ستائش ہے ؟‬
‫کہو کہ خامنس آنل عبا کہیں ساس کو‬
‫خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی؟‬
‫کہو کہ رہبنر رانہ خدا کہیں ساس کو‬
‫خدا کا بندہ‪ ،‬خداوندگار بندوں کا‬
‫اگر کہیں نہ خداوند‪ ،‬کیا کہیں ساس کو؟‬
‫فرونغ جوہنر ایماں‪ ،‬حسین ابنن علی‬
‫کہ شمنع انجمنن کبریا کہیں ساس کو‬
‫کفینل بخشنش ا سیمت ہے ‪ ،‬بن نہیں پڑتی‬
‫اگر نہ شافنع رونز جزا کہیں ساس کو‬
‫مسیح جس سے کرے اخنذ فینض جاں بخشی‬
‫ستم ہے سکشتۂ تینغ جفا کہیں ساس کو‬
‫وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل‪ ،‬سبیل‬
‫شہیند تشنہ لنب کربل کہیں ساس کو‬
‫عدو کی سمنع رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات‬
‫کہ جین و انس و مدلک سب بجا کہیں ساس کو‬
‫بہت ہے پایۂ گرند رنہ حسین بلند‬
‫بقدنر فہم ہے گر کیمیا کہیں ساس کو‬
‫نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذیرۂ خاک‬
‫کہ لوگ جوہنر تینغ قضا کہیں ساس کو‬
‫ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے‬
‫اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں ساس کو‬
‫ہمارا منہ ہے کہ ددیں اس کے حسنن صبر کی داد؟‬
‫مگر نبیی و علی مرحبا کہیں ساس کو‬
‫زمانم ناقہ کف ساس کے میں ہے کہ اہنل یقیں‬
‫پس از حسینن علی پیشوا کہیں ساس کو‬
‫گ تفتہ وادی پہ گام فرسا ہے‬ ‫وہ ری ن‬
‫کہ طالبانن خدا رہنما کہیں ساس کو‬
‫امانم وقت کی یہ قدر ہے کہ اہنل عناد‬
‫پیادہ لے چلیں اور نا سزا کہیں ساس کو‬
‫یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنن دیں‬
‫علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں ساس کو‬
‫یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ‬
‫سبرا نہ مانئے ‪ ،‬گر ہم سبرا کہیں ساس کو‬
‫علی کے بعد حسن‪ ،‬اور حسن کے بعد حسین‬
‫کرے جو ان سے سبرائی‪ ،‬بھل کہیں ساس کو؟‬
‫نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد‪ ،‬کافر ہے‬
‫رکھے امام سے جو بغض‪ ،‬کیا کہیں ساس کو؟‬
‫بھرا ہے غالبب ندل خستہ کے کلم میں درد‬
‫غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں ساس کو‬
‫٭٭‬

‫‪1853/54‬‬

‫درد نمینت کنش دوا نہ ہوا‬


‫میں نہ اچھا ہوا‪ ،‬برا نہ ہوا‬
‫جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو؟‬
‫اک تماشا ہوا‪ ،‬گل نہ ہوا‬
‫ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں؟‬
‫تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا‬
‫کتنے شیریں ہیں تیرے لب‪ ،‬کہ رقیب‬
‫گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا‬
‫ہے خبر گرم ان کے آنے کی‬
‫آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا‬
‫کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟‬
‫بندگی میں مرا بھل نہ ہوا‬
‫جان دی‪ ،‬دی ہوئی اسی کی تھی‬
‫حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا‬
‫زخم گر دب گیا‪ ،‬لہو نہ تھما‬
‫کام گر رک گیا‪ ،‬روا نہ ہوا‬
‫رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے ؟‬
‫لے کے دل‪ ،‬دلستاں روانہ ہوا‬
‫‪:‬کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں‬
‫"آج غالبب غزل سرا نہ ہوا"‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1854‬‬

‫درخونر قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا‬


‫پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا‬
‫بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں‪ ،‬کہ ہم‬
‫الٹے پھر آئے ‪ ،‬دنر کعبہ اگر وا نہ ہوا‬
‫سب کو مقبول ہے دعویی تری یکتائی کا‬
‫ت آئینہ سیما نہ ہوا‬ ‫روبرو کوئی ب ن‬
‫کم نہیں نازنش ہم نامنی چشنم خوباں‬
‫تیرا بیمار‪ ،‬برا کیا ہے ؟ گر اچھا نہ ہوا‬
‫سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا‬
‫خاک کا رزق ہے ‪ ،‬وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا‬
‫نام کا میرے ہے ‪ ،‬جو دکھ کہ کسی کو نہ مل‬
‫کام میں میرے ہے ‪ ،‬جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا‬
‫ہر بسنن مو سے ‪ ،‬دنم ذکر نہ ٹپکے خونناب‬
‫حمزہ کا نقیصہ ہوا‪ ،‬عشق کا چرچا نہ ہوا‬
‫قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں سکل‬
‫کھیل لڑکوں کا ہوا‪ ،‬دیدۂ بینا نہ ہوا‬
‫تھی خبر گرم کہ غالبب کے ساڑیں گے پرزے‬
‫دیکھنے ہم بھی گئے تھے ‪ ،‬پہ تماشا نہ ہوا‬
‫ت غالبب ‪ ،‬صفحہ ‪56‬‬ ‫٭ خط بنام نبی بخش حقیرب )بعد از ‪ 18‬جون ‪ 1854‬ء( نادرا ن‬
‫٭٭‬

‫جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا؟‬


‫"کہتے ہیں‪ ":‬ہم تجھ کو منہ دکھلئیں کیا؟‬
‫رات دن گردش میں ہیں سات آسماں‬
‫ہو رہے گا کچھ نہ کچھ‪ ،‬گھبرائیں کیا؟‬
‫لگ‪ ،‬ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ‬
‫جب نہ ہو کچھ بھی‪ ،‬تو دھوکا کھائیں کیا؟‬
‫ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ؟‬
‫یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا؟‬
‫مونج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے‬
‫آستانن یار سے اٹھ جائیں کیا؟‬
‫عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ‬
‫مر گئے پر‪ ،‬دیکھیے ‪ ،‬دکھلئیں کیا‬
‫"پوچھتے ہیں وہ کہ" غالبب کون ہے ؟‬
‫کوئی بتلؤ کہ ہم بتلئیں کیا؟‬
‫ب غالبب بنام منشی نبی بخش حقیرب مورخہ ‪ 3‬اکتوبر ‪ 1854‬میں اس غزل کا دوسرا شعر درج ہوا ہے‬
‫٭ مکتو ن‬
‫٭٭‬

‫کسی کو دے کے دل‪ ،‬کوئی نوا سننج فغاں کیوں ہو؟‬


‫نہ ہو جب دل ہی سینے میں‪ ،‬تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو‬
‫وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ‪ ،‬ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں؟‬
‫"سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ" ہم سے سر گراں کیوں ہو؟‬
‫! نکیا غم خوار نے رسوا‪ ،‬لگے آگ اس محیبت کو‬
‫نہ لوے تاب جو غم کی‪ ،‬وہ میرا راز داں کیوں ہو؟‬
‫وفا کیسی؟ کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا‬
‫گ آستاں کیوں ہو؟‬ ‫تو پھر‪ ،‬اے سنگ دل! تیرا ہی سن ن‬
‫قفس میں مجھ سے روداند چمن کہتے نہ ڈر‪ ،‬ہمدم‬
‫گری ہے جس پہ کل بجلی‪ ،‬وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟‬
‫یہ کہہ سکتے ہو‪" :‬ہم دل میں نہیں ہیں" پر یہ بتلؤ‬
‫کہ جب دل میں تمہیں تم ہو‪ ،‬تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو ؟‬
‫غلط ہے جذنب دل کا شکوہ‪ ،‬دیکھو‪ ،‬جرم کس کا ہے ؟‬
‫نہ کھینچو گر تم اپنے کو‪ ،‬کشاکش درمیاں کیوں ہو؟‬
‫یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ؟‬
‫ہوئے تم دوست جس کے ‪ ،‬دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟‬
‫یہی ہے آزمانا‪ ،‬تو ستانا کس کو کہتے ہیں؟‬
‫عدو کے ہو لیے جب تم‪ ،‬تو میرا امتحاں کیوں ہو؟‬
‫"کہا تم نے کہ "کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی؟‬
‫"بجا کہتے ہو‪ ،‬سچ کہتے ہو‪ ،‬پھر کہیو کہ" ہاں کیوں ہو؟‬
‫نکال چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے ستو‪ ،‬غالبب ؟‬
‫ترے بے مہر کہنے سے ‪ ،‬وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو؟‬
‫٭ خط بنام نبی بخش حقیرب مورخہ بعد از ‪ 18‬جون ‪ 1854‬ء‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫سخجستہ انجمن سطوئے میرزا جعفر‬
‫کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ‬
‫ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبب‬
‫*"نہ کیوں ہو مادۂ سانل عیسوی " محظوظ‬
‫ء ‪*1854‬‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی‬
‫ہوا بزنم طرب میں رقنص ناہید‬
‫" کہا غالبب سے ‪ " :‬تاریخ اس کی کیا ہے ؟‬
‫تو بول ‪ " :‬نانشرانح جشنن جمشید"٭‬
‫٭‪ 1270‬ہجری‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫افطانر صوم کی کچھ‪ ،‬اگر‪ ،‬دستگاہ ہو‬
‫ساس شخص کو ضرور ہے ‪ ،‬روزہ رکھا کرے‬
‫جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو‬
‫روزہ اگر نہ کھائے ‪ ،‬تو ناچار کیا کرے‬
‫٭٭‬

‫رباعی‬
‫سامانن خور و خواب کہاں سے لؤں ؟‬
‫آرام کے اسباب کہاں سے لؤں ؟‬
‫روزہ نمرا نایمان ہے غالبب ! لیکن‬
‫دخسخانہ و برفاب کہاں سے لؤں ؟‬

‫٭ خط بنام منشی نبی بخش حقیرب مورخہ ‪ 4‬جون ‪ 1854‬ء۔ خط سے ظاہر ہے کہ یہ قطعہ اور رباعی ‪ 3‬جون یا اس سے‬
‫ایک دو روز پہلے کہے ہوں گے‬
‫٭٭‬

‫دسمبر ‪ 1854‬ء تا اپریل ‪ 1857‬ء‬

‫مطلع‬

‫ملے ‪ ،‬دو مرشدوں کو قدرنت حق سے ‪ ،‬ہیں دو طالب‬


‫نظام الدین کو خسرو‪ ،‬سراج الدین کو غالبب‬
‫٭ قیاس ہے کہ یہ شعر وفانت ذوق کے بعد اور مئی ‪ 1857‬ء کے ہنگامے سے پہلے کسی وقت کہا گیا ہو گا۔ ذوق ‪ 15‬نومبر‬
‫‪ 1854‬ء کو فوت ہوئے‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1855‬‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫داے دشہنشانہ آسماں داورنگ‬
‫داے جہاندانر آفتاب آثار‬
‫تھا میں ناک بے ن ددوائے گوشہ نشیں‬
‫تھا میں ناک درد منند سینہ فگار‬
‫ستم نے مجھ کو جو آبسرو بخشی‬
‫ہوئی میری وہ گرمئ بازار‬
‫کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز‬
‫سروشنانس ثوابت و سییار‬
‫گر چہ‪ ،‬از سروئے ننگ و بے سہنری‬
‫ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار‬
‫کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی‬
‫جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار‬
‫شاد ہوں لیکن اپنے جی میں‪ ،‬کہ ہوں‬
‫بادشہ کا غلنم کار گزار‬
‫خانہ زاد اور سمرید اور مداح‬
‫تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ گزار‬
‫!بارے نوکر بھی ہو گیا‪ ،‬صد سشکر‬
‫خص چار‬ ‫نسبتیں‪ ،‬ہو گئیں سمش ی‬
‫نہ کہوں آپ سے ‪ ،‬تو کس سے کہوں؟‬
‫سمدعائے ضروری الظہار‬
‫نپیر و سمرشد ! اگرچہ مجھ کو نہیں‬
‫ذونق آرائنش سر و دستار‬
‫کچھ تو جاڑے میں چاہیے ‪ ،‬آخر‬
‫تا نہ دے ‪ ،‬باند دزمہریر‪ ،‬آزار‬
‫کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش ؟‬
‫جسم رکھتا ہوں‪ ،‬ہے اگرچہ دنزار‬
‫کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال‬
‫کچھ بنایا نہیں ہے ‪ ،‬اب کی بار‬
‫!رات کو آگ اور دن کو دسھوپ‬
‫! بھاڑ میں جائیں ایسے دلیل و نہار‬
‫! آگ تاپے کہاں تلک نانسان‬
‫دسھوپ کھاوے کہاں تلک جاندار‬
‫! دسھوپ کی تانبش‪ ،‬آگ کی گرمی‬
‫ب ال ی دنار‬ ‫! دونقدنا دربی ددنا د‬
‫عدذا د‬
‫میری تنخواہ جو مقرر ہے‬
‫ساس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار‬
‫رسم ہے سمردے کی چھ ماہی ایک‬
‫خلق کا ہے ناسی چلن پہ مدار‬
‫مجھ کو دیکھو تو‪ ،‬سہوں بہ قیند حیات‬
‫! اور چھ ماہی ہو سال میں دو بار‬
‫بس کہ لیتا ہوں‪ ،‬ہر مہینے قرض‬
‫اور رہتی ہے سسود کی تکرار‬
‫میری تنخواہ میں تہائی کا‬
‫ہو گیا ہے شریک ساسہو کار‬
‫آج مجھ سا نہیں زمانے میں‬
‫شاعنر نغز گوئے خوش سگفتار‬
‫رزم کی داستان گر سنیے‬
‫ہے زباں میری تینغ جوہر دار‬
‫بزم کا التزام گر کیجے‬
‫ہے قلم میری ابنر گوہر بار‬
‫سظلم ہے گر نہ دو سسخن کی داد‬
‫قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار‬
‫آپ کا بندہ‪ ،‬اور پنھروں ننگا ؟‬
‫آپ کا نوکر‪ ،‬اور کھاؤں سادھار ؟‬
‫میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ‬
‫تا‪ ،‬نہ ہو مجھ کو زندگی سدشوار‬
‫ختم کرتا سہوں اب سدعا پہ کلم‬
‫شاعری سے نہیں مجھے سروکار‬
‫ستم سلمت رہو ہزار برس‬
‫ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫سنصرت الملک بہاسدر مجھے بتل کہ مجھے‬
‫تجھ سے جو اتنی نارادت ہے ‪ ،‬تو کس بات سے ہے ؟‬
‫گرچہ ستو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے‬
‫روننق بزم مہ و مہر تری ذات سے ہے‬
‫اور میں وہ ہوں کہ‪ ،‬گر جی میں کبھی غور کروں‬
‫غیر کیا‪ ،‬خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے‬
‫خستگی کا ہو بھل‪ ،‬جس کے سبب سے سنر دست‬
‫نسبت ناک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے‬
‫ہاتھ میں تیرے رہے توسنن ددولت کی نعناں‬
‫یہ سدعا شام و سحر قاضنی حاجات سے ہے‬
‫ستو سکندر ہے ‪ ،‬نمرا فخر ہے ملنا تیرا‬
‫گو شرف خضر کی بھی مجھ کو ملقات سے ہے‬
‫ناس پہ سگزرے نہ گماں نریو و نریا کا نزنہار‬
‫غالبب خاک نشیں اہنل خرابات سے ہے‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫ہے چار شنبہ آخنر مانہ دصدفر چلو‬
‫رکھ دیں چمن میں‪ ،‬بھر کے مئے سمشک سبو کی ناند‬
‫جو آئے ‪ ،‬جام بھر کے پیے ‪ ،‬اور ہو کے مست‬
‫سبزے کو دروندتا پھرے ‪ ،‬پسھولوں کو جائے پھاند‬
‫جز مدنح بادشاہ‬ ‫غالبب ‪ ،‬یہ کیا بیاں ہے ‪ ،‬ب س‬
‫ت خواند‬ ‫بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوش ن‬
‫دبٹتے ہیں سونے سروپے کے چھلے سحسضور میں‬
‫ہے ‪ ،‬جن کے آگے سیم و زر و مہر و ماہ‪ ،‬ماند‬
‫یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے‬
‫لکھوں ہی آفتاب ہیں‪ ،‬اور بے شمار چاند‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫سہل تھا سمسہل ولے یہ سخت سمشکل آ پڑی‬
‫مجھ پہ کیا سگزرے گی‪ ،‬اتنے روز حاضر نبن ہوئے‬
‫تین دن مسہل سے پہلے ‪ ،‬تین دن مسہل کے بعد‬
‫تین سمسہل‪ ،‬تین دتبریدیں‪ ،‬یہ سب دکے ندن ہوئے ؟‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫نام نہ لے‬ ‫سیہ گلیم ہوں‪ ،‬لزم ہے ‪ ،‬میرا‬
‫طالب ہے‬ ‫جہاں میں‪ ،‬جو کوئی فتح و ظفر کا‬
‫پہ مجھے‬ ‫ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی‬
‫غالبب ہے‬ ‫ک‬ ‫کہ جو شریک ہو میرا‪ ،‬شری ن‬
‫٭٭‬

‫قطعہ‬
‫گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں‬
‫دربار دار لوگ بہم آشنا نہیں‬
‫کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں‪ ،‬کرتے ہوئے سلم‬
‫اس سے ہے یہ سمراد کہ ہم آشنا نہیں‬
‫٭٭‬

‫مثنوی‬
‫ت انبہ‬‫در صف ن‬

‫ہاں‪ ،‬دنل درد منند زمزمہ ساز‬


‫کیوں نہ کھولے دنر خزینۂ راز؟‬
‫خامے کا صفحے پر رواں ہونا‬
‫شانخ گل کا ہے گلفشاں ہونا‬
‫مجھ سے کیا پوچھتا ہے ‪ ،‬کیا لکھیے ؟‬
‫نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے‬
‫بارے ‪ ،‬آموں کا کچھ بیاں ہو جائے‬
‫خامہ‪ ،‬نخنل رطب فشاں ہو جائے‬
‫آم کا کون مرند میدان ہے ؟‬
‫ثمر و شاخ‪ ،‬گوئے و چوگاں ہے‬
‫تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں؟‬
‫آئے ‪ ،‬یہ گوئے اور یہ میداں‬
‫آم کے آگے پیش جاوے خاک‬
‫پھوڑتا ہے ‪ ،‬جلے پھپھولے تاک‬
‫نہ چل جب کسی طرح مقدور‬
‫بادۂ ناب بن گیا‪ ،‬انگور‬
‫یہ بھی‪ ،‬ناچار‪ ،‬جی کا کھونا ہے‬
‫شرم سے پانی پانی ہونا ہے‬
‫مجھ سے پوچھو‪ ،‬تمہیں خبر کیا ہے ؟‬
‫آم کے آگے نیشکر کیا ہے ؟‬
‫نہ گل اس میں‪ ،‬نہ شاخ و برگ‪ ،‬نہ بار‬
‫جب خزاں آئے ‪ ،‬تب ہو اس کی بہار‬
‫اور دوڑائیے قیاس کہاں؟‬
‫جانن شیریں میں یہ مٹھاس کہاں؟‬
‫جان میں ہوتی‪ ،‬گر یہ شیرینی‬
‫کوہکن‪ ،‬باوجوند غمگینی‬
‫جان دینے میں اس کو یکتا جان‬
‫دپر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان‬
‫نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر‬
‫کہ دوا خانۂ ازل میں‪ ،‬مگر‬
‫آتنش گل پہ قند کا ہے قوام‬
‫شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام‬
‫یا یہ ہو گا‪ ،‬کہ فرط رافت سے‬
‫باغبانوں نے بانغ جنت سے‬
‫انگبیں کے ‪ ،‬بہ حکم رب الناس‬
‫بھر کے بھیجے ہیں‪ ،‬سر بمہر گلس‬
‫یا لگا کر خضر نے شانخ نبات‬
‫ب حیات‬ ‫مدتوں تک دیا ہے آ ن‬
‫تب ہوا ہے ثمر فشاں‪ ،‬یہ نخل‬
‫ہم کہاں‪ ،‬ورنہ‪ ،‬اور کہاں یہ نخل‬
‫تھا ترننج زر ایک خسرو پاس‬
‫رنگ کا زرد‪ ،‬پر کہاں بو باس‬
‫آم کو دیکھتا اگر اک بار‬
‫پھینک دیتا طلئے دست افشار‬
‫روننق کارگانہ برگ و نوا‬
‫نازنش دودمانن آب و ہوا‬
‫رہرنو رانہ خلد کا توشہ‬
‫طوبیی و نسدرہ کا جگر گوشہ‬
‫صاحنب شاخ و برگ و بار ہے آم‬
‫ناز پروردۂ بہار ہے آم‬
‫خاص وہ آم‪ ،‬جو نہ ارزاں ہو‬
‫نو بنر نخنل بانغ سلطاں ہو‬
‫ت عہد‬ ‫وہ کہ ہے والنی ولی ن‬
‫ت عہد‬ ‫عدل سے اس کے ‪ ،‬ہے حمای ن‬
‫فخنر دیں‪ ،‬عنز شان‪ ،‬و جانہ جلل‬
‫ت طینت و جمانل کمال‬ ‫زین ن‬
‫کار فرمائے دین و دولت و بخت‬
‫چہرہ آرائے تاج و مسند و تخت‬
‫سایہ ساس کا ہما کا سایہ ہے‬
‫خلق پر‪ ،‬وہ خدا کا سایہ ہے‬
‫اے مفینض وجوند سایہ و نور‬
‫جب تلک ہے نموند سایہ و نور‬
‫ناس خداونند بندہ پرور کو‬
‫وارنث گنج و تخت و افسر کو‬
‫شاد و دلشاد و شادماں رکھیو‬
‫اور غالبب پہ مہرباں رکھیو‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں‬


‫شنب فراق سے ‪ ،‬رونز جزا زیاد نہیں‬
‫کوئی کہے کہ شنب دمہ میں کیا سبرائی ہے ؟‬
‫بل سے ‪ ،‬آج اگر دن کو ابر و باد نہیں‬
‫جو آؤں سامنے سان کے تو "مرحبا" نہ کہیں‬
‫جو جاؤں واں سے کہیں کو تو" خیر باد" نہیں‬
‫کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں‪ ،‬تو کہتے ہیں‬
‫"کہ "آج بزم میں کچھ فتنۂ و فساد نہیں‬
‫علوہ عید کے ‪ ،‬ملتی ہے اور دن بھی شراب‬
‫گدائے سکوچۂ مے خانہ نامراد نہیں‬
‫جہاں میں ہو غم و شادی بہم‪ ،‬ہمیں کیا کام ؟‬
‫دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں‬
‫تم سان کے وعدے کا ذکر سان سے کیوں کرو‪ ،‬غالبب‬
‫"یہ کیا‪ ،‬کہ تم کہو‪ ،‬اور وہ کہیں کہ "یاد نہیں‬
‫٭٭‬

‫آئی اگر بل‪ ،‬تو جگہ سے ٹلے نہیں‬


‫ایر اہی دے کے ہم نے بچایا ہے کشت کو٭‬
‫کعبے میں جا رہا‪ ،‬تو نہ دو طعنہ‪ ،‬کیا کہیں‬
‫ت اہنل ک سننشت کو‬
‫بھول ہوں حنیق صحب ن‬
‫طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لگ‬
‫دوزخ میں ڈال دو‪ ،‬کوئی لے کر بہشت کو‬
‫ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسنم ثواب سے ؟‬
‫ٹیڑھا لگا ہے قط‪ ،‬قلنم سرنوشت کو‬
‫غالبب ‪ ،‬کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے‬
‫خرمن جلے ‪ ،‬اگر نہ دملخ کھائے کشت کو‬
‫٭ یہ شعر یادگانر غالبب میں درج ہے‬
‫٭٭‬

‫پھر اس انداز سے بہار آئی‬


‫کہ ہوئے ‪ ،‬مہر و مہ‪ ،‬تماشائی‬
‫دیکھو‪ ،‬اے ساکنانن خیطۂ خاک‬
‫اس کو کہتے ہیں عالم آرائی‬
‫کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر‬
‫رو کنش سطنح چرنخ مینائی‬
‫سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی‬
‫بن گیا‪ ،‬روئے آب پر کائی‬
‫سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے‬
‫چشنم نرگس کو دی ہے بینائی‬
‫ہے ہوا میں شراب کی تاثیر‬
‫بادہ نوشی ہے ‪ ،‬باد پیمائی‬
‫کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی‪ ،‬غالبب‬
‫شانہ دیندار نے شفا پائی‬
‫٭٭‬

‫روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی‬


‫اترائے کیوں نہ‪ ،‬خاک سنر رہگزار کی‬
‫جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ‬
‫لوگوں میں کیوںنمود نہ ہو للہ زار کی‬
‫بسھوکے نہیں ہیں‪ ،‬سینر گلستاں کے ہم‪ ،‬ولے‬
‫کیوں کر نہ کھائیے ؟کہ ہوا ہے بہار کی‬
‫٭٭‬

‫رباعیات‬

‫نان سیم کے نبیجوں کو کوئی کیا جانے‬


‫بھیجے ہیں جو دارسمغاں شنہ وال نے‬
‫نگن کر دیویں گے ہم سدعائیں دسو بار‬
‫فیروزے کی تسبیح کے ‪ ،‬ہیں یہ دانے‬
‫٭٭‬

‫٭کہتے ہیں کہ اب وہ دمرسدم آزار نہیں‬


‫عیشاق کی سپرسش سے ساسے عار نہیں‬ ‫س‬
‫جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہو گا‬
‫کیونکر مانوں کہ ساس میں تلوار نہیں‬
‫٭٭‬
‫٭ہم گر چہ بنے سلم کرنے والے‬
‫کرتے ہیں ندرنگ‪ ،‬کام کرنے والے‬
‫کہتے ہیں ‪":‬کہیں خدا سے " اللہ اللہ‬
‫سوہ آپ ہیں سصبح و شام کرنے والے‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1856‬‬

‫قادر نامہ‬

‫قادر" اور" اللہ "اور "یزداں"‪ ،‬خدا"‬


‫ہے "نبی‪ ،‬سمرسل‪ ،‬پیمبر"‪ ،‬رہنما‬
‫"پیشوائے دیں کو کہتے ہیں" امام‬
‫وہ رسول اللہی کا قائم مقام‬
‫ہے "صحابی" دوست‪ ،‬خالص" ناب" ہے‬
‫جمع اس کی یاد رکھ "اصحاب" ہے‬
‫بندگی کا ہاں" عبادت "نام ہے‬
‫نیک بختی کا" سعادت" نام ہے‬
‫"کھولنا "افطار "ہے اور روزہ" صوم‬
‫"لیل "یعنی رات‪ ،‬دن اور روز‪ " ،‬یوم"‬
‫ہے "صلیوۃ" اے مہرباں اسنم نماز‬
‫جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز‬
‫جا نماز اور پھر "مصیلا "ہے وہی‬
‫جادہ" بھی گویا ہے وہی‬ ‫اور "س ی‬
‫اسم" وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام"‬
‫کہ" وہ جو ہے " بیت الحرام"‬ ‫"کعبہ‪ ،‬م ی‬
‫"گرد پھرنے کو کہیں گے ہم" طواف‬
‫"بیٹھ رہنا گوشے میں ہے " اعتکاف‬
‫"پھر "فلک‪ ،‬چرخ "اور" گردوں" اور" سپہر‬
‫ک مہر‬ ‫آسماں کے نام ہیں اے رش ن‬
‫""مہر "سورج‪ ،‬چاند کو کہتے ہیں" ماہ‬
‫ہے محبت" مہر"‪ ،‬لزم ہے نباہ‬
‫غرب "پچیھم اور پورب "شرق "ہے"‬
‫" ابر" بدلی اور بجلی" برق" ہے‬
‫آگ کا "آتش" اور "آذر" نام ہے‬
‫اور انگارے کا" اخگر" نام ہے ٭‬
‫" تیغ "کی ہندی اگر تلوار ہے‬
‫فارسی پگڑی کی بھی" دستار" ہے‬
‫نیول "راسسو" ہے اور" طاؤس" مور‬
‫کبک" کو ہندی میں کہتے ہیں چکور"‬
‫"سخم" ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے "سبو"‬
‫"آب" پانی‪" ،‬بحر" دریا‪ ،‬نہر" سجو"‬
‫چاہ "کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں"‬
‫سدود" کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں"‬
‫دودھ جو پینے کا ہے وہ" شیر" ہے‬
‫طفل" لڑکا اور بوڑھا "پیر "ہے"‬
‫سینہ" چھاتی‪" ،‬دست" ہاتھ اور "پائے " پاؤں"‬
‫"شاخ" ٹہنی‪" ،‬برگ" پتا‪ " ،‬سایہ" چھاؤں‬
‫"ماہ" چاند‪" ،‬اختر"ہیں تارے ‪ ،‬رات" شب"‬
‫"دانت" دنداں"‪ ،‬ہونٹ کو کہتے ہیں" لب‬
‫استخواں" ہیڈی ہے اور ہے " پوست" کھال"‬
‫""سگ" ہے کیتا اور گیدڑ ہے "شغال‬
‫نتل کو" کنجد" اور" سرخ "کو گال کہہ‬
‫گال پر جو تل ہو اس کو" خال" کہہ‬
‫"کیکڑا "سرطان ہے "‪ ،‬کچھوا "سنگ پشت‬
‫"ساق "پنڈلی‪ ،‬فارسی مٹھی کی" مشت"‬
‫ہے "شکم "پیٹ‪ ،‬اور بغل "آغوش "ہے‬
‫کہنی "آرنج "اور کندھا "دوش" ہے‬
‫ہندی میں "عقرب" کا بچیھو نام ہے‬
‫فارسی میں بھوں کا "ابرو" نام ہے‬
‫ہے وہی "کژسدم "جسے "عقرب "کہیں‬
‫نیش" ہے وہ ڈنک جس کو سب کہیں"‬
‫ہے لڑائی‪ " ،‬حرب "اور" جنگ" ایک چیز‬
‫"کعب"‪ ،‬ٹخنہ اور "شتالنگ" ایک چیز‬
‫ناک" بینی"‪" ،‬پیرہ "نتھنا‪" ،‬گوش" کان‬
‫کان کی لو" نرمہ" ہے ‪ ،‬اے مہربان‬
‫چشم "ہے آنکھ اور "مژگاں" ہے دپلک"‬
‫"آنکھ کی پتلی کو کہیے "مردمک‬
‫منہ پر گر جسھری پڑے "آژنگ" جان‬
‫فارسی چھینکے کی تو "آونگ" جان‬
‫"مسا‪" ،‬آژخ "اور چھالہ‪" ،‬آبلہ‬
‫"اور ہے دائی‪ ،‬جنائی‪ " ،‬قابلہ‬
‫اونٹ "ساشتر" اور" ساشغر "سییہ ہے‬
‫گوشت ہے " لحم "اور چربی "پییہ "ہے‬
‫"ہے "زنخ "ٹھوڑی‪ ،‬گل ہے "خنجرہ‬
‫"سانپ ہے " مار" اور جھینگر" زنجرہ‬
‫ہے " زنخ" ٹھوڑی‪" ،‬ذقن" بھی ہے وہی‬
‫خاد" ہے چیل اور "زغن" بھی ہے وہی"‬
‫پھر "غلیواز" اس کو کہیے جو ہے چیل‬
‫"چیونٹی ہے "مور" اور ہاتھی ہے "پیل‬
‫لومڑی" روباہ" اور" آہو" ہرن‬
‫شمس "سورج اور" شعاع" اس کی کرن"‬
‫اسپ "جب ہندی میں گھوڑا نام پائے"‬
‫تازیانہ "کیوں نہ کوڑا نام پائے"‬
‫"گربہ" بیلی‪ " ،‬موش" چوہا‪" ،‬دام" جال‬
‫"رشتہ" تاگا‪ " ،‬جامہ" کپڑا‪ ،‬قحط "کال"‬
‫"خر" گدھا اور اس کو کہتے ہیں "سالغ"‬
‫"دیگداں" چولہا جسے کہیے " ساجاغ"‬
‫ہندی چڑیا‪ ،‬فارسی "کنجشک" ہے‬
‫مینگنی جس کو کہیں وہ "پشک" ہے‬
‫تابہ" ہے بھائی توے کی فارسی"‬
‫اور " تیہو "ہے لوے کی فارسی‬
‫"نام مکڑی کا" کلش" اور "عنکبوت‬
‫"کہتے ہیں مچھلی کو" ماہی" اور "حوت‬
‫"پیشہ" مچیھر‪ ،‬اور مکیھی ہے "مگس"‬
‫"آشیانہ "گھونسل‪ ،‬پنجرہ "قفس"‬
‫"بھیڑیا "گرگ" اور بکری "گوسپند‬
‫میش" کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند"‬
‫نام "سگل" کا پھول‪" ،‬شبنم" اوس ہے‬
‫جس کو نیقارہ کہیں وہ "کوس" ہے‬
‫خار کانٹا‪ ،‬داغ دھیبا‪ ،‬نغمہ راگ‬
‫سیم چاندی‪ ،‬مس ہے تانبا‪ ،‬بخت بھاگ‬
‫"سقف" چھت ہے ‪ " ،‬سنگ" پتیھر‪ ،‬اینٹ "خشت"‬
‫"جو سبرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں "زشت‬
‫زر" ہے سونا اور "زرگر" ہے سنار"‬
‫""موز "کیل اور ککڑی ہے " خیار‬
‫"ریش" داڑھی‪ ،‬مونچھ "سلبت" اور" سبروت"‬
‫"احمق اور نادان کو کہتے ہیں" ساوت‬
‫زندگانی ہے "حیات" اور" مرگ "موت‬
‫"شوے " خاوند اور ہے "انباغ" دسوت‬
‫جملہ سب‪ ،‬اور نصف آدھا‪ ،‬ربع پاؤ‬
‫صرصر" آندھی‪" ،‬سیل "نال‪" ،‬باد" باؤ"‬
‫"ہے "جراحت" اور "زخم" اور گھاؤ" ریش‬
‫"بھینس کو کہتے ہیں بھائی "گاؤمیش‬
‫ہفت" سات اور "ہشت" آٹھ اور" بست" بیس"‬
‫سی" اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس"‬
‫ہے " چہل" چالیس اور "پنجہ" پچاس‬
‫ناامیدی" یاس‪ ،‬اور "ا سیمید" آس"‬
‫دوش" کل کی رات اور "امروز" آج"‬
‫آرد" آٹا اور "غیلہ" ہے اناج"‬
‫چاہیے ہے ماں کو "مادر "جاننا‬
‫اور بھائی کو "برادر "جاننا‬
‫پھاؤڑا "بیل" اور درانتی" واس" ہے‬
‫فارسی "کاہ" اور ہندی گھاس ہے‬
‫"سبز ہو جب تک اسے کہیے " گیاہ‬
‫"خشک ہو جاتی ہے جب‪ ،‬کہتے ہیں" کاہ‬
‫چکسہ" پڑیا‪" ،‬کیسہ" کا تھیلی ہے نام"‬
‫فارسی میں دھیپے کا "سیلی "ہے نام‬
‫اخلگندو "جھجھنا‪" ،‬نیرو "ہے زور"‬
‫بادفر"‪ ،‬پنھرکی اور ہے "سدزد" چور"‬
‫انگبیں" شہد اور "عسل"‪ ،‬یہ اے عزیز"‬
‫نام کو ہیں تین‪ ،‬پر ہے ایک چیز‬
‫آسجل" اور "آروغ" کی ہندی ڈکار"‬
‫"مے " شراب اور پینے وال "میگسار"‬
‫روئی کو کہتے ہیں "پنبہ" سن رکھو‬
‫آم کو کہتے ہیں "انبہ" سن رکھو‬
‫خانہ" گھر ہے اور کوٹھا" بام" ہے"‬
‫قلعہ" دژ"‪ ،‬کھائی کا "خندق" نام ہے‬
‫گر "دریچہ" فارسی کھڑکی کی ہے‬
‫سرزنش" بھی فارسی جھڑکی کی ہے"‬
‫ہے بنول‪" ،‬پنبہ دانہ " ل کلم‬
‫اور ترسبز‪" ،‬ہندوانہ"‪ ،‬ل کلم‬
‫ہے کہانی کی" فسانہ" فارسی‬
‫اور شعلہ کی "زبانہ" فارسی‬
‫نعل در آتش" اسی کا نام ہے"‬
‫جو کہ بے چین اور بے آرام ہے‬
‫"پست" اور سیتو کو کہتے ہیں "سویق"‬
‫"ژرف" اور گہرے کو کہتے ہیں" عمیق"‬
‫تار"‪ ،‬تانا‪" ،‬پود" بانا‪ ،‬یاد رکھ"‬
‫آزمودن"‪ ،‬آزمانا یاد رکھ"‬
‫"یوسہ"‪ ،‬مچیھی‪ ،‬چاہنا ہے "خواستن"‬
‫"کم ہے " اندک" اور گھٹنا "کاستن‬
‫خوش رہو‪ ،‬ہنسنے کو" خندیدن" کہو‬
‫گر ڈرو‪ ،‬ڈرنے کو "ترسیدن" کہو‬
‫ہے "ہراسیدن" بھی ڈرنا‪ ،‬کیوں ڈرو؟‬
‫اور "جنگیدن" ہے لڑنا‪ ،‬کیوں لڑو؟‬
‫ہے گزرنے کی "گزشتن" فارسی‬
‫اور پھرنے کی ہے "گشتن "فارسی‬
‫وہ "سرودن "ہے جسے گانا کہیں‬
‫ہے وہ "آوردن" جسے لنا کہیں‬
‫زیستن" کو جانن من جینا کہو"‬
‫اور "نوشیدن" کو تم پینا کہو‬
‫"دوڑنے کی فارسی ہے " تاختن‬
‫"کھیلنے کی فارسی ہے " باختن‬
‫دوختن "سینا‪ " ،‬دریدن "پھاڑنا"‬
‫کاشتن "بونا ہے ‪" ،‬سرفتن" جھاڑنا"‬
‫کاشتن" بونا ہے اور "کشتن "بھی ہے"‬
‫کاتنے کی فارسی "نرشتن" بھی ہے‬
‫ہے ٹپکنے کی" چکیدن" فارسی‬
‫اور سننے کی "شنیدن" فارسی‬
‫کودنا "جستن"‪" ،‬بریدن" کاٹنا‬
‫اور "لیسیدن" کی ہندی چاٹنا‬
‫"سوختن" جلنا‪ ،‬چمکنا "تافتن"‬
‫"ڈھونڈنا "جستن" ہے ‪ ،‬پانا "یافتن‬
‫دیکھنا "دیدن"‪" ،‬رمیدن" بھاگنا‬
‫جان لو‪" ،‬بیدار بودن"‪ ،‬جاگنا‬
‫"آمدن" آنا‪ ،‬بنانا "ساختن"‬
‫"ڈالنے کی فارسی" انداختن‬
‫باندھنا "بستن"‪" ،‬کشادن" کھولنا‬
‫داشتن" رکھنا ہے ‪" ،‬سسختن" تولنا"‬
‫تولنے کو اور جو "سنجیدن" کہو‬
‫پھر خفا ہونے کو "رنجیدن" کہو‬
‫فارسی سونے کی "خفتن" جانیے‬
‫منہ سے کچھ کہنے کو "گفتن" جانیے‬
‫کھینچنے کی ہے "کشیدن" فارسی‬
‫اور ساگنے کی" دمیدن" فارسی‬
‫اونگھنا پوچھو‪" ،‬غنودن" جان لو‬
‫مانجھنا چاہو‪" ،‬زدودن" جان لو‬
‫ہے قلم کا فارسی میں" خامہ" نام‬
‫ہے غزل کا فارسی میں" چامہ" نام‬
‫کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو‬
‫ہاں غزل پڑھیے ‪ ،‬سبق گر یاد ہو‬

‫غزل‬
‫صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا‬
‫جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا‬
‫وہ سچراوے باغ میں میوہ‪ ،‬جسے‬
‫پھاند جانا یاد ہو دیوار کا‬
‫سپل ہی پر سے پھیر لئے ہم کو لوگ‬
‫ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا‬
‫شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے بھیڑ‬
‫آج عالم اور ہے بازار کا‬
‫لل نڈگی پر کرے گا جا کے کیا؟‬
‫سپل پہ چل‪ ،‬ہے آج دن اتوار کا‬
‫گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلئیں تمھیں‬
‫کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا‬
‫واہ بے !لڑکے ‪ ،‬پڑھی اچیھی غزل‬
‫شوق‪ ،‬ابھی سے ہے تجھے ‪ ،‬اشعار کا‬
‫لو سنو کل کا سبق‪ ،‬آ جاؤ تم‬
‫"پوزی" افسار اور دمچی "پاردم"‬
‫چھلنی کو "غربال‪ ،‬پرویزن" کہو‬
‫چھید کو تم "رخنہ" اور" روزن" کہو‬
‫چہ "کے معنی کیا‪" ،‬چگویم" کیا کہوں"‬
‫من دشدوم خاموش"‪ ،‬میں سچپ ہو رہوں"‬
‫بازخواہم رفت"‪ ،‬میں پھر جاؤں گا"‬
‫نان خواہم خورد"‪ ،‬روٹی کھاؤں گا"‬
‫فارسی کیوں کی" چرا "ہے یاد رکھ‬
‫اور گھنٹال "درا "ہے یاد رکھ‬
‫دشت‪ ،‬صحرا "اور جنگل ایک ہے"‬
‫پھر "سہ شنبہ" اور منگل ایک ہے‬
‫جس کو "ناداں "کہیے وہ انجان ہے‬
‫فارسی بینگن کی" بادنجان "ہے‬
‫جس کو کہتے ہیں جمائی" فازہ "ہے‬
‫جو ہے انگڑائی‪ ،‬وہی "خمیازہ "ہے‬
‫بارہ "کہتے ہیں کڑے کو‪ ،‬ہم سے پوچھ"‬
‫پاڑ ہے "تالر"‪ ،‬اک عالم سے پوچھ‬
‫جس طرح گہنے کی" زیور "فارسی‬
‫اسی طرح ہنسلی کی" پرگر" فارسی‬
‫بنھڑ کی بھائی‪ ،‬فارسی "زنبور" ہے‬
‫دسپنا" سانبر" ہے اور "انبور "ہے‬
‫فارسی "آئینہ"‪ ،‬ہندی آرسی‬
‫اور ہے کنگھے کی" شانہ" فارسی‬
‫ہینگ" انگوزہ" ہے اور "ارزیر" رانگ‬
‫"ساز" باجا اور ہے آواز" بانگ"‬
‫زوجہ" جورو‪ " ،‬یزنہ "بہنوئی کو جان"‬
‫خشم" غصے اور بدخوئی کو جان"‬
‫"لوہے کو کہتے ہیں "آہن" اور "حدید‬
‫"جو نئی ہے چیز اسے کہیے "جدید‬
‫ہے "نوا "آواز‪ ،‬ساماں اور ساول‬
‫نرخ"‪ ،‬قیمت اور" بہا"‪ ،‬یہ سب ہیں مول"‬
‫سیر" لہسن‪" ،‬سترب" مولی‪" ،‬ترہ" ساگ"‬
‫کھا "بخور"‪" ،‬برخیز" ساٹھ‪" ،‬بگریز "بھاگ‬
‫غند" نام‬ ‫روئی کی پونی کا ہے " پا س‬
‫سدوک" تکلے کو کہیں گے ‪ ،‬ل کلم"‬
‫گیتی" اور "گیہاں" ہے دنیا یاد رکھ"‬
‫اور ہے "نیداف"‪ ،‬دسھنیا یاد رکھ‬
‫کوہ "کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ"‬
‫فارسی "گلخن" ہے اور ہندی ہے بھاڑ‬
‫تکیہ" بالش" اور بچھونا بسترا‬
‫اصل "بستر" ہے سمجھ لو تم ذرا‬
‫بسترا بولیں سپاہی اور فقیر‬
‫ورنہ "بستر "کہتے ہیں برنا و پیر‬
‫پیر "بوڑھا اور" برنا "ہے جواں"‬
‫"جان کو البتہ کہتے ہیں" رواں‬
‫اینٹ کے گارے کا نام "آژند" ہے‬
‫ہے نصیحت بھی وہی جو "پند" ہے‬
‫پند کو" اندرز" بھی کہتے ہیں‪ ،‬ہاں‬
‫ارض" ہے ‪ ،‬پر‪" ،‬مرز" بھی کہتے ہیں ہاں"‬
‫کیا ہے " ارض" اور" مرز" تم سمجھے ؟ زمیں‬
‫"عنق" گردن اور پیشانی "جبیں"‬
‫کی‪" ،‬آسیا "مشہور ہے"‬ ‫آس" چ ی‬
‫اور "دفوفل "چھالیا مشہور ہے‬
‫بانسلی "نے "اور" جلجل" جانجھ ہے‬
‫پھر "سدتردون" اور "عقیمہ" بانجھ ہے‬
‫سکحل" سرمہ اور سلئی" نمیل" ہے"‬
‫جس کو جھولی کہیے ‪ ،‬وہ " زنبیل" ہے‬
‫پایا قادر نامے نے آج اختتام‬
‫!اک غزل اور پڑھ لو‪ ،‬والیسلم‬
‫غزل‬
‫شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں‬
‫مانتا لیکن ہمارا دل‪ ،‬نہیں‬
‫علم ہی سے قدر ہے انسان کی‬
‫ہے وہی انسان جو جاہل نہیں‬
‫کیا کنہیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟‬
‫آج ہنستے آپ جو کنھل کنھل نہیں‬
‫کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق؟‬
‫ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں‬
‫جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا‬
‫اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں‬

‫٭مثنوی قدر نامہ‪ ،‬غالبب کی زندگی میں پہلی بار ‪ 1272‬ھ )‪ 1856‬ء( میں مطبع سلطانی دہلی سے ۔ اور دوسری بار ‪ 22‬محرم‬
‫‪ 1280‬ھ مطابق ‪ 9‬جولئی ‪ 1863‬ءکو محبس پریس دہلی سے چھپی‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1857‬‬
‫قطعہ‬
‫بس کہ فیعانل ما یرید ہے آج‬
‫ہر سلحشور انگلستاں کا‬
‫گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے‬
‫زہرہ‪ ،‬ہوتا ہے آب انساں کا‬
‫چوک جس کو کہیں‪ ،‬وہ مقتل ہے‬
‫گھر‪ ،‬بنا ہے نمونہ زنداں کا‬
‫شہنر دہلی کا ذیرہ ذیرہ خاک‬
‫تشنۂ خوں ہے ‪ ،‬ہر مسلماں کا‬
‫کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک‬
‫آدمی‪ ،‬واں نہ جا سکے ‪ ،‬یاں کا‬
‫میں نے مانا کہ مل گئے ‪ ،‬پھر کیا؟‬
‫وہی رونا تن و دل و جاں کا‬
‫گاہ جل کر کیا کیے شکوہ‬
‫سوزنش داغ ہائے پنہاں کا‬
‫گاہ رو کر کہا کیے باہم‬
‫ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا‬
‫!اس طرح کے وصال سے ‪ ،‬یا رب‬
‫کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا؟‬
‫٭٭‬

‫بعد از ‪1857‬ء‬

‫قطعہ‬
‫مسلمانوں کے میلوں کا ہوا قل‬
‫پجے ہے جوگ مایا اور دیبی‬
‫نشاں باقی نہیں ہے سلطنت کا‬
‫مگر‪ ،‬ہاں‪ ،‬نام کو اورنگ زیبی‬
‫٭٭‬

‫غزل‬
‫آپ نے دم ی دسنی ال یسض یسر‪ ،‬کہا ہے تو سہی‬
‫ت اییوبف! نگل ہے تو سہی‬ ‫یہ بھی‪ ،‬یا حضر ن‬
‫رنج‪ ،‬طاقت سے سوا ہو‪ ،‬تو نہ پیٹوں کیونکر‬
‫ذہن میں‪ ،‬خوبنئ تسلیم و رضا‪ ،‬ہے تو سہی‬
‫عمر‬‫ہے غنیمت کہ با سیمید گزر جائے گی س‬
‫نہ ملے داد‪ ،‬مگر رونز جزا ہے تو سہی‬
‫دوست گر کوئی نہیں ہے ‪ ،‬جو کرے چارہ گری‬
‫نہ سہی‪ ،‬لیک تمینائے دوا ہے تو سہی‬
‫غیر سے ‪ ،‬دیکھیے ‪ ،‬کیا خوب نباہی ساس نے‬
‫نہ سہی ہم سے ‪ ،‬پر ساس سبت میں وفا ہے تو سہی‬
‫نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں‪ ،‬دمیں‬
‫کچھ نہ کچھ رونز ازل تم نے لکھا ہے تو سہی‬
‫کبھی آ جائے گی !کیوں کرتے ہو جلدی‪ ،‬غالبب ؟‬
‫شہرۂ تیزنی شمشینر قضا ہے تو سہی‬
‫٭٭‬

‫قبل از ‪ 8‬فروری ‪ 1858‬ء‬

‫سہرا‬

‫ہم نشیں تارے ہیں‪ ،‬اور چاند شہاب الدیں خاں‬


‫بزنم شادی ہے فلک‪ ،‬کاہ کشاں ہے سہرا‬
‫ان کو لڑیاں نہ کہو‪ ،‬بحر کی موجیں سمجھو‬
‫ہے تو کشتی میں‪ ،‬ولے بحنر رواں ہے سہرا‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1858‬‬

‫قصیدہ‬

‫ملنذ کشور و لشکر‪ ،‬پنانہ شہر و سپاہ‬


‫ب عالی ایلن برون وال جاہ‬ ‫جنا ن‬
‫بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر‬
‫ف کلہ‬ ‫کہ‪ ،‬باج تاج سے لیتا ہے ‪ ،‬جس کا طر ن‬
‫وہ محض رحمت و رافت‪ ،‬کہ بہنر اہنل جہاں‬
‫ت دنم عیسیی کرے ہے ‪ ،‬جس کی نگاہ‬ ‫نیاب ن‬
‫وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی‬
‫بنے ہے ‪ ،‬شعلۂ آتش‪ ،‬انینس پدیرۂ کاہ‬
‫زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے ‪ ،‬بجائے غبار‬
‫جہاں ہو توسنن حشمت کا اس کے جولں گاہ‬
‫"وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں " ایلہی شکر‬
‫"وہ خشمگیں ہو تو گردوں کہے " خدا کی پناہ‬
‫۔ق۔‬
‫یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش‬
‫کہ دشت و کوہ کے اطراف میں‪ ،‬بہر سنر راہ‬
‫ہزبر‪ ،‬پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا‬
‫کبھی جو‪ ،‬ہوتی ہے الجھی ہوئی‪ ،‬سدنم رو باہ‬
‫نہ آفتاب‪ ،‬ولے آفتاب کا ہم چشم‬
‫نہ بادشاہ‪ ،‬ولے مرتبے ہیں ہمسنر شاہ‬
‫خدا نے اس کو دیا ایک خوبرو فرزند‬
‫ستارہ جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوئے ماہ‬
‫زہے ستارۂ روشن کہ جو اسے دیکھے‬
‫شعانع مہنر درخشاں ہو‪ ،‬اس کا تانر نگاہ‬
‫خدا سے ہے یہ توقع کہ عہند طفلی میں‬
‫بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاہ‬
‫جوان ہوکے کرے گا یہ وہ جہانبانی‬
‫کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاہ‬
‫"کہے گی خلق اسے " داونر سپہر شکوہ‬
‫"لکھیں گے لوگ اسے "خسرو ستارہ سپاہ‬
‫عطا کرے گا خداونند کارساز اسے‬
‫روانن روشن و خوئے خوش و دنل آگاہ‬
‫ملے گی اس کو وہ عقنل نہفتہ داں کہ اسے‬
‫پڑے نہ‪ ،‬قطنع خصومت میں‪ ،‬احتیانج گواہ‬
‫یہ ترکتاز سے ‪ ،‬برہم کرے گا کشونر روس‬
‫یہ لے گا‪ ،‬بادشنہ چیں سے چھین‪ ،‬تخت و کلہ‬
‫سنینن عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون‬
‫یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے ‪ ،‬شام و پگاہ‬
‫یہ جتنے سیکڑے ہیں‪ ،‬سب ہزار ہو جاویں‬
‫دراز اس کی ہو عمر اس قدر‪ ،‬سخن کوتاہ‬
‫"امید وانر عنایات "شیو نرائن‬
‫کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواہ‬
‫یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عیز و جاہ کے ساتھ‬
‫!تمہیں اور اس کو سلمت رکھے سدا‪ ،‬اللہ‬
‫٭یہ قصیدہ مرزا صاحب نے منشی شیو نرائن کی طرف سے مسٹر ایلن برون کے یہاں بیٹا پیدا ہونے کی مبارک باد پر لکھا تھا‬
‫٭٭‬
‫ء تا دسمبر ‪ 1865‬ء ‪1858‬‬

‫بہت سہی غنم گیتی‪ ،‬شراب کم کیا ہے ؟‬


‫غل نم ساقئ کوثر ہوں‪ ،‬مجھ کو غم کیا ہے ؟‬
‫س‬
‫تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم‪ ،‬کیا ہے‬
‫رقیب پر ہے اگر لطف‪ ،‬تو ستم کیا ہے ؟‬
‫نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و ملت کا‬
‫خدا کے واسطے ! ایسے کی پھر قسم کیا ہے ؟‬
‫وہ داد و دید گرانمایہ شرط ہے ہمدم‬
‫وگرنہ سمہنر سلیمان و جانم جم کیا ہے ؟‬
‫کٹے تو شب کہیں‪ ،‬کاٹے تو سانپ کہلوے‬
‫کوئی بتاؤ کہ وہ سزلنف خم بخم کیا ہے ؟‬
‫لکھا کرے کوئی احکانم طالنع مولود‬
‫کسے خبر ہے کہ واں جنبنش قلم کیا ہے ؟‬
‫سخن میں خامۂ غالبب کی آتش افشانی‬
‫یقین ہے ہم کو بھی‪ ،‬لیکن اب اس میں دم کیا ہے ؟‬
‫٭٭‬

‫قبل از ‪ 1860‬ء‬

‫مرثیہ‬

‫ہاں! اے نفنس باند سحر شعلہ فشاں ہو‬


‫اے دجلۂ خوں! چشنم ملئک سے رواں ہو‬
‫اے زمزمۂ سقم! لنب عیسیی پہ فغاں ہو‬
‫اے ماتمیانن شنہ مظلوم کہاں ہو؟‬

‫بگڑی ہے بہت بات‪ ،‬بنائے نہیں بنتی‬


‫اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی‬

‫کو‬ ‫ہم‬ ‫نہیں‬ ‫ت غوغا‬ ‫ب سخن و طاق ن‬‫تا ن‬


‫کو‬ ‫ہم‬ ‫نہیں‬ ‫ماتم میں شنہ دیں کے ہیں‪ ،‬سودا‬
‫کو‬ ‫ہم‬ ‫نہیں‬ ‫گھر پھونکنے میں اپنے ‪ ،‬سمحابا‬
‫کو‬ ‫ہم‬ ‫نہیں‬ ‫گر چرخ بھی جل جائے تو پروا‬

‫یہ خرگہ سنہ پایہ جو میدت سے دبپا ہے‬


‫کیا خیمۂ شیبیر سے رتبے میں نسوا ہے ؟‬

‫کا‬ ‫کچھ اور ہی عالم ہے دل و چشم و زباں‬


‫کا‬ ‫کچھ اور ہی نقشا‪ ،‬نظر آتا ہے ‪ ،‬جہاں‬
‫کا‬ ‫کیسا فلک؟اور مہنر جہاں تاب کہاں‬
‫کا‬ ‫ہو گا دنل بے تاب کسی سوختہ جاں‬

‫اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے‬


‫نگرتا نہیں اس رسو سے کہو برق نہیں ہے‬

‫ء ‪1860‬‬
‫قطعہ‬

‫جب کہ سید غلم بابا نے‬


‫مسنند عیش پر جگہ پائی‬
‫ایسی رونق ہوئی برات کی رات‬
‫کہ کواکب ہوئے تماشائی‬

‫قطعہ‬
‫ہزار شکر کہ سید غلم بابا نے‬
‫فرانز مسنند عیش و طرب جگہ پائی‬
‫زمیں پہ ایسا تماشا ہوا برات کی رات‬
‫کہ آسماں پہ کواکب بنے تماشائی‬

‫٭ خط بنام سیاحب ‪ 31‬جولئی ‪ 1860‬ء‬


‫٭٭‬

‫ء ‪1860/61‬‬

‫قطعہ‬

‫ب طرب نصاب نے جب‬ ‫ناس کتا ن‬


‫آب و تاب انطباع کی پائی‬
‫فکنر تارینخ سال میں‪ ،‬مجھ کو‬
‫ایک صورت نئی نظر آئی‬
‫ہندسے پہلے سات سات کے دو‬
‫دیے ناگاہ مجھ کو دکھلئی‬
‫اور پھر ہندسہ تھا بارہ کا‬
‫با ہزاراں ہزار زیبائی‬
‫سانل ہجری تو ہو گیا معلوم‬
‫بے شمونل عبارت آرائی‬
‫مگر اب ذونق بذلہ سنجی کو‬
‫ہے جداگانہ کار فرمائی‬
‫سات اور سات ہوتے ہیں چودہ‬
‫بہ سامیند سعادت افزائی‬
‫غرض ناس سے ہیں چاردہ معسصوم‬
‫جس سے ہے چشنم جاں کو زیبائی‬
‫اور بارہ امام ہیں بارہ‬
‫جس سے ایماں کو ہے توانائی‬
‫سان کو غالبب یہ سال اچھا ہے‬
‫جو انئیمہ کے ہیں تو ی‬
‫لئی‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1862‬‬

‫سلیم خاں کہ وہ ہے نور چشنم واصل خاں‬


‫حکیم حاذق و دانا ہے ‪ ،‬وہ لطیف کلم‬
‫تمام دہر میں اس کے مطب کا چرچا ہے‬
‫کسی کو یاد بھی لقمان کا نہیں ہے نام‬
‫اسے فضائنل علم و ہنر کی افزائش‬
‫ہوئی ہے مبدنع عالم سے ‪ ،‬اس قدر انعام‬
‫ث علم میں‪ ،‬اطفال ابجدی اس کے‬ ‫کہ بح ن‬
‫ہزار بار فلطوں دے چکے الزام‬
‫عجیب نسخہ نادر‪ ،‬لکھا ہے ‪ ،‬ایک اس نے‬
‫کہ جس میں حکمت و طب ہی کے مسئلے ہیں تمام‬
‫ت بدیع‬ ‫نہیں کتاب‪ ،‬ہے اک منبنع نکا ن‬
‫نہیں کتاب‪ ،‬ہے اک معدنن جواہر کام‬
‫کل ا س کتاب کے سانل تمام میں‪ ،‬جو مجھے‬
‫کمانل فکر میں دیکھا‪ ،‬خرد نے ‪ ،‬بے آرام‬
‫کہا یہ جلد کہ تو اس میں سوچتا کیا ہے ؟‬
‫لکھا ہے نسخہ تحفہ" یہی ہے سانل تمام٭"‬
‫٭ ‪ 1279‬ھ )‪ 1862‬ء(‬
‫٭٭‬

‫کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز؟‬


‫کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز‬
‫دل سے نکل‪ ،‬پہ نہ نکل دل سے‬
‫ہے ترے تیر کا پیکان عزیز‬
‫تاب لئے ہی بنے گی غالبب‬
‫واقعہ سخت ہے اور جان عزیز‬
‫٭٭‬

‫رباعیات‬

‫نے ؟‬ ‫رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم‬


‫تم نے‬ ‫ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا‬
‫جواب‬ ‫حاجی کیلو کو دے کے بے وجہ‬
‫تم نے‬ ‫غالبب کا پکا دیا ہے کلیجا‬
‫٭٭‬

‫اے روش نین دیدہ شہاب الدیں خاں‬


‫کٹتا ہے ‪ ،‬بتاؤ‪ ،‬س طرح سے دردمضاں؟‬
‫ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک؟‬
‫سسنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1863‬‬

‫قصیدہ‬

‫گئی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ‬


‫ابھی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرہ‬
‫گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بہ رونز شمار‬
‫ہوا کرے گی ہر اک سال‪ ،‬آشکار گرہ‬
‫یقین جان! برس گانٹھ کا جو تاگا ہے‬
‫یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گرہ‬
‫گرہ سے داور گرہ کی امید کیوں نہ بڑھے ؟‬
‫کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ‬
‫دکھا کے رشتہ کسی جوتشی سے پوچھا تھا‬
‫"کہ" دیکھو کتنی اٹھا لئے گا یہ تار گرہ؟‬
‫کہا کہ" چرخ پہ ہم نے گنی ہیں نو گرہیں‬
‫"جو یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرہ‬
‫خود آسماں ہے مہا راجا راؤ پر صدقے‬
‫کرے گا سیکڑوں‪ ،‬اس تار پر نثار گرہ‬
‫وہ راؤ راجا بہادر کہ حکم سے جن کے‬
‫رواں ہو تار پہ فی الفور دانہ وار گرہ‬
‫انہیں کی سالگرہ کے لئے ہے سال بہ سال‬
‫کہ لئے غیب سے غنچوں کی نو بہار گرہ‬
‫انہیں کی سالگرہ کے لئے بناتا ہے‬
‫ہوا میں بوند کو ابنر تگرگ بار گرہ‬
‫انہیں کی سالگرہ کی یہ شادمانی ہے‬
‫کہ ہو گئے ہیں گہر ہائے شاہوار گرہ‬
‫انہیں کی سالگرہ کے لئے ہے یہ توقیر‬
‫کہ بن گئے ہیں ثمر ہائے شاخسار گرہ‬
‫سن‪ ،‬اے ندیم‪ ،‬برس گانٹھ کے یہ تاگے نے‬
‫تجھے بتاؤں کہ کیوں کی ہے یہ اختیار گرہ؟‬
‫ب فیض مآب‬ ‫پئے دعائے بقائے جنا ن‬
‫لگے گی اس میں ثوابت کی استوار گرہ‬
‫ہزار دانہ کی تسبیح چاہتا ہے بنے‬
‫بل مبالغہ درکار ہے ہزار گرہ‬
‫عطا کیا ہے خدا نے یہ جاذبہ اس کو‬
‫کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گرہ‬
‫کشادہ رخ نہ پھرے کیوں جب اس زمانے میں‬
‫ب یار گرہ‬ ‫بچے نہ از پے بنند نقا ن‬
‫متانع عیش کا ہے قافلہ چل آتا‬
‫کہ جادہ رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گرہ‬
‫خدا نے دی ہے وہ غالبب کو‪ ،‬دستگانہ سخن‬
‫کروڑوں ڈھونڈ کے لتا یہ خاکسار گرہ‬
‫کہاں مجانل سخن؟ سانس لے نہیں سکتا‬
‫پڑی ہے دل میں مرے ‪ ،‬غم کی پیچ دار گرہ‬
‫گرہ کا نام لیا پر نہ کر سکا کچھ بات‬
‫زباں تک آ کے ‪ ،‬ہوئی اور استوار گرہ‬
‫کھلے یہ گانٹھ‪ ،‬تو البیتہ دم نکل جاوے‬
‫بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گرہ‬
‫نادھر نہ ہو گی‪ ،‬توجہ حضور کی جب تک‬
‫کبھی کسے سے کھلے گی نہ‪ ،‬زینہار گرہ‬
‫دعا ہے یہ کہ مخالف کے دل میں‪ ،‬از رنہ بغض‬
‫پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گرہ‬
‫دل اس کا پھوڑ کے نکلے ‪ ،‬بہ شکل پھوڑے کی‬
‫خدا کرے کہ کرے اس طرح سابھار گرہ‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1864‬‬

‫مثنوی‬

‫اے جہاں آفریں خدائے کریم‬


‫صانع ہفت چرخ‪ ،‬ہفت اقلیم‬
‫نام میکلوڈ جن کا ہے مشہور‬
‫یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور‬
‫عمرو دولت سے شادمان رہیں‬
‫اور غالبب پہ مہربان رہیں‬
‫٭ یہ مثنوی مرزا غالبب کے مرتبہ اس بے نام اردو کتابچے کے دیباچے کے آخر میں ملتی ہے ‪ ،‬جو شاید انہوں نے ہندوستان‬
‫میں مقیم انگریزوں کو اردو سکھانے کے لئے اپنے منتخب رقعات اور اشعار پر مشتمل ترتیب دیا تھا‬
‫٭٭‬

‫شعر‬
‫ان دلفریبیوں سے نہ کیوں اس پہ پیار آئے ؟‬
‫روٹھا جو بے گناہ‪ ،‬تو بے عذر من گیا‬
‫٭ خط بنام بے خبرب مورخہ ‪ 7‬مارچ ‪ 1864‬ء‬
‫٭٭‬

‫رباعی‬
‫اے منشئ خیرہ سر‪ ،‬سخن ساز نہ ہو‬
‫عصفور ہے تو‪ ،‬مقابنل باز نہ ہو‬
‫آواز تیری نکلے اور آواز کے ساتھ‬
‫لٹھی وہ لگے کہ جس میں آواز نہ ہو‬
‫٭ لطائنف غیبی مطبوعہ ‪ ،1864‬صفحہ ‪15‬‬
‫٭٭‬

‫دسمبر ‪ 1864‬ء تا ‪ 8‬جنوری ‪ 1868‬ء ‪25‬‬

‫قصیدہ‬

‫مرحبا !سانل فیرخی آئیں‬


‫عیند شیوال و مانہ فروردیں‬
‫شب و روز افتخانر لیل و نہار‬
‫ف شہور و نسنیں‬ ‫مہ و سال اشر ن‬
‫گرچہ ہے بعد عید کے نوروز‬
‫لیک‪ ،‬بیش از سہ ہفتہ بعد نہیں‬
‫سسو اس ایکیس دن میں ہولی کی‬
‫مجلسیں‪ ،‬جا بجا ہوئیں رنگیں‬
‫شہر میں‪ ،‬کو بہ کو‪ ،‬عبیر و گلل‬
‫باغ میں‪ ،‬سو بہ سو‪ ،‬گل و نسریں‬
‫شہر‪ ،‬گویا‪ ،‬نمونۂ گلزار‬
‫باغ‪ ،‬گویا‪ ،‬نگار خانۂ چیں‬
‫تین تیوہار اور ایسے خوب‬
‫جمع ہرگز ہوئے نہ ہوں گے کہیں‬
‫پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں‬
‫منعقد‪ ،‬محفنل نشاط قریں‬
‫ت نیواب‬ ‫ح ن‬
‫محفنل غسنل ص ی‬
‫رونق افزائے مسنند تمکیں‬
‫بزم گہ میں‪ ،‬امینر شاہ نشاں‬
‫رزم گہ میں‪ ،‬حرینف شینر کمیں‬
‫پیش گانہ حضور‪ ،‬شوکت و جاہ‬
‫خیر خوانہ جناب‪ ،‬دولت و دیں‬
‫جن کی مسند کا‪ ،‬آسماں‪ ،‬گوشہ‬
‫جن کی خاتم کا‪ ،‬آفتاب نگیں‬
‫جن کے دیوانر قصر کے نیچے‬
‫آسماں‪ ،‬ہے گدائے سایہ نشیں‬
‫دہر میں اس طرح کی بزنم سرور‬
‫نہ ہوئی ہو‪ ،‬کبھی بروئے زمیں‬
‫انجنم چرخ‪ ،‬گوہر آگیں فرش‬
‫نور‪ ،‬مے ‪ ،‬ماہ‪ ،‬ساغنر سیمیں‬
‫راجا نانددر کا جو اکھاڑا ہے‬
‫ہے وہ بالئے سطنح چرنخ بریں‬
‫وہ نظرگانہ اہنل وہم و خیال‬
‫یہ ضیاء بخنش چشنم اہنل یقیں‬
‫واں کہاں یہ عطاء و بذل و کرم؟‬
‫کہ جہاں گدیہ گر کا نام نہیں‬
‫ہاں زمیں پر نظر جہاں تک جائے‬
‫ژالہ آسا‪ ،‬بچھے ہیں دنیر ثمیں‬
‫نغمۂ مطربانن زہرہ نوا‬
‫جلوۂ لولیانن ماہ جبیں‬
‫اس اکھاڑے میں جو کہ ہے مظنون‬
‫یاں‪ ،‬وہ دیکھا بچشنم صورت بیں‬
‫‪-‬ق‪-‬‬
‫سرونر مہر فر ہوا جو سوار‬
‫بہ کمانل تجمل و تزئیں‬
‫سب نے جانا کہ ہے پری توسن‬
‫اور بانل پری ہے دامنن زیں‬
‫نقنش س ینم سمند سے ‪ ،‬یکسر‬
‫بن گیا‪ ،‬دشت‪ ،‬دامنن گلچیں‬
‫فوج کی گرند راہ مشک فشاں‬
‫رہروؤں کے مشام‪ ،‬عطر آگیں‬
‫بس کہ بخشی ہے فوج کو عیزت‬
‫فوج کا ہر پیادہ‪ ،‬ہے فرزیں‬
‫موکنب خاص‪ ،‬یوں زمیں پر تھا‬
‫جس طرح ہے سپہر پر‪ ،‬پرویں‬
‫‪-‬ق‪-‬‬
‫چھوڑ دیتا تھا گور کو‪ ،‬بہرام‬
‫ران پر داغ تازہ دے کے ‪ ،‬وہیں‬
‫اور داغ آپ کی غلمی کا‬
‫خاص بہرام کا ہے زیب سسریں‬
‫بندہ پرور ثنا طرازی سے‬
‫میدعا‪ ،‬عرنض فنین شعر نہیں‬
‫آپ کی مدح اور میرا منہ‬
‫گر کہوں بھی‪ ،‬تو کس کو آئے یقیں‬
‫اور پھر اب‪ ،‬کہ ضعنف پیری سے‬
‫ہو گیا ہوں نزار و زار و حزیں‬
‫!پیری و نیستی‪ ،‬خدا کی پناہ‬
‫ت خالی و خاطنر غمگیں‬ ‫دس ن‬
‫صرف‪ ،‬اظہار ہے ‪ ،‬ارادت کا‬
‫ہے قلم کی‪ ،‬جو سجدہ ریز‪ ،‬جبیں‬
‫مدح گستر نہیں‪ ،‬دعاگو ہے‬
‫غالبب ن عاجز نیاز آگیں‬
‫ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں‬
‫تم رہو زندہ جاوداں‪ ،‬آمیں‬
‫٭٭‬

‫قبل از ‪ 1865‬ء‬

‫شعر‬
‫خوشی جینے کی کیا‪ ،‬مرنے کا غم کیا‬
‫ہماری زندگی کیا‪ ،‬اور ہم کیا‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1865‬‬

‫قطعہ‬
‫مقانم شکر ہے ‪ ،‬اے ساکنانن خطہ خاک‬
‫رہا ہے زور سے ‪ ،‬ابر ستارہ بار‪ ،‬برس‬
‫کہاں ہے ساقی مہوش‪ ،‬کہاں ہے ابنر سمطیر‬
‫بیار " ل مئے گلنار گوں‪" ،‬ببار" برس"‬
‫خدا نے تجھ کو عطا کی ہے گوہر افشانی‬
‫دنر حضور پر‪ ،‬اے ابر‪ ،‬بار بار برس‬
‫ہر ایک قطرے کے ساتھ آئے جو ملک‪ ،‬وہ کہے‬
‫"امیر کلب علی خاں جئیں ہزار برس"‬
‫فقط ہزار برس پر کچھ انحصار نہیں‬
‫کئی ہزار برس‪ ،‬بلکہ بے شمار برس‬
‫ب قبلہ حاجات‪ ،‬اس بل کش نے‬ ‫جنا ن‬
‫بڑے عذاب سے کاٹے ہیں‪ ،‬پانچ چار برس‬
‫شفا ہو آپ کو‪ ،‬غالبب کو بنند غم سے نجات‬
‫خدا کرے کہ یہ ایسا ہو سازگار برس‬
‫٭یہ قطعہ‪ ،‬خط بنام نواب کلب علی خاں‪ ،‬مورخہ ‪ 11‬اگست ‪ 1865‬ء کے ساتھ بھیجا گیا تھا‬
‫٭٭‬

‫غزلیات‬

‫لطنف نیظارۂ قانتل‪ ،‬دنم بسمل آئے‬


‫جان جائے ‪ ،‬تو بل سے ‪ ،‬پہ کہیں ندل آئے‬
‫ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری؟‬
‫دوست جو ساتھ مرے تا لنب ساحل آئے‬
‫وہ نہیں ہم‪ ،‬کہ چلے جائیں حرم کو‪ ،‬اے شیخ‬
‫جاج کے اکثر کئی مننزل آئے‬ ‫ساتھ سح ی‬
‫آئیں جس بزم میں وہ‪ ،‬لوگ پکار اٹھتے ہیں‬
‫لو‪ ،‬وہ برہم زنن ہنگامۂ محفل آئے‬
‫دیدہ خوں بار ہے میدت سے ‪ ،‬ولے آج‪ ،‬ندیم‬
‫دل کے ٹکڑے بھی کئی‪ ،‬خون کے شامل آئے‬
‫سامنا حور و پری نے نہ کیا ہے ‪ ،‬نہ کریں‬
‫عکس تیرا ہی‪ ،‬مگر‪ ،‬تیرے مقانبل آئے‬
‫موت بس ان کی ہے ‪ ،‬جو مر کے وہیں دفن ہوئے‬
‫زیست ان کی ہے ‪ ،‬جو اس کے کوچے سے گھائل آئے‬
‫! بن گیا سبحہ وہ زنار‪ ،‬خدا خیر کرے‬
‫وہ جو نازک ہے کمر‪ ،‬اس پہ بہت دل آئے‬
‫اب ہے ندیلی کی طرف کوچ ہمارا غالبب‬
‫ت نیواب سے بھی نمل آئے‬ ‫آج ہم حضر ن‬
‫٭"یہ غزل مرزا صاحب نے اپنے دوسرے سفنر رام پورمیں ‪ 28‬دسمبر ‪ 1865‬ء کو یہاں سے رخصت ہونے سے پہلے کہی تھی۔‬
‫اس زمانے میں کلب علی خاں بہادر رام پور کے نواب تھے ۔" نسخہ عرشی طبع دوم‪ ،‬صفحہ ‪433‬‬
‫٭٭‬

‫میں ہوں مشتانق جفا‪ ،‬مجھ پہ جفا اور سہی‬


‫تم ہو بیداد سے خوش‪ ،‬اس سے سوا اور سہی‬
‫غیر کی مرگ کا غم کس لیے ‪ ،‬اے غیر ن‬
‫ت ماہ؟‬
‫ہیں ہوس پیشہ بہت‪ ،‬وہ نہ سہوا‪ ،‬اور سہی‬
‫تم ہو بت‪ ،‬پھر تمھیں پندانر سخدائی کیوں ہے ؟‬
‫تم خداوند ہی کہلؤ‪ ،‬خدا اور سہی‬
‫سحسن میں سحور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی‬
‫آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی‬
‫تیرے کوچے کا ہے مائل‪ ،‬دنل مضطر میرا‬
‫کعبہ اک اور سہی‪ ،‬قبلہ نما اور سہی‬
‫کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے ‪ ،‬واعظ؟‬
‫خلد بھی باغ ہے ‪ ،‬خیر آب و ہوا اور سہی‬
‫کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو مل لیں‪ ،‬یا رب؟‬
‫سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی‬
‫مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں‬
‫ب بقا اور سہی‬ ‫زہر کچھ اور سہی‪ ،‬آ ن‬
‫مجھ سے ‪ ،‬غالبب ‪ ،‬یہ علئی نے غزل لکھوائی‬
‫ایک بیداد گنر رنج فزا اور سہی‬
‫٭خط بنام نواب امین الدین احمد خاں‪ ،‬مورخہ ‪ 26‬جولئی ‪ 1865‬ء‬
‫٭٭‬

‫ء تا ‪ 1867‬ء ‪1865‬‬

‫قطعہ‬
‫خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے‬
‫پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں‬
‫سر آغانز موسم میں‪ ،‬اندھے ہیں ہم‬
‫کہ ندیلی کو چھوڑیں‪ ،‬لوہارو کو جائیں‬
‫ب جاں‬ ‫نسوا اناج کے ‪ ،‬جو ہے مقلو ن‬
‫نہ واں آم پائیں‪ ،‬نہ انگور پائیں‬
‫ہوا حکم باورچیوں کو کہ ہاں‬
‫"ابھی جا کے پوچھو کہ" کل کیا پکائیں؟‬
‫وہ کھیٹے ‪ ،‬کہاں پائیں‪ ،‬ناملی کے پھول‬
‫وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں؟‬
‫فقط گوشت‪ ،‬سو بھیڑ کا ریشہ دار‬
‫کہو اس کو‪ ،‬کیا‪ ،‬کھا کے ہم نحظ ساٹھائیں؟‬
‫٭ یہ قطعہ نواب علئی کی بیاض سے لیا گیا ہے ۔ بیاض کے اندراجات میں ترتینب تاریخی کا لحاظ نہیں ہے ‪ ،‬چنانچہ ان‬
‫سے پہلے ‪ 27‬جنوری ‪ 1867‬ءکا اور ان کے بعد ‪ 5‬اپریل ‪ 1865‬ء کا اندراج ملتا ہے ۔ اس لیے انہیں تقریبا ا اسی زمانے کا‬
‫مان لیا ہے‬

‫ء ‪1866‬‬

‫غزلیات‬

‫مقیم‬ ‫در پر امیر کلب علی خاں کے ہوں‬


‫میں‬ ‫شائستہ گدائی ہر در نہیں ہوں‬
‫اسدب‬ ‫بوڑھا ہوا ہوں‪ ،‬قابنل خدمت نہیں‪،‬‬
‫میں‬ ‫خیرات خوانر محض ہوں‪ ،‬نوکر ہوں‬

‫٭ مرزا صاحب نے اس زمین میں اپنی برسوں پرانی غزل کا مقطع حذف کر کے اور آخر میں یہ دو شعر بڑھا کر‪ ،‬نواب کلب‬
‫علی خاں بہادر والنی رامپور کی خدمت میں ‪ 9‬جون ‪ 1866‬ء کو بھیجی تھی‬
‫٭٭‬
‫مسجد کے زینر سایہ‪ ،‬اک گھر‪ ،‬بنا لیا ہے‬
‫یہ بندہ کمینہ‪ ،‬ہمسایہ خدا ہے‬
‫٭٭‬

‫ء ‪1867‬‬

‫قلم‬ ‫گوڑگانویں کی ہے جتنی رعییت‪ ،‬وہ یک‬


‫کی‬ ‫عاشق ہے اپنے حاکنم عادل کے نام‬
‫ہے‬ ‫سو یہ نظر فروز قلمدان نذر‬
‫کی‬ ‫مسٹر کووان صاحنب عالی مقام‬
‫٭٭‬

‫ہندوستان کی بھی عجب سر زمین ہے‬


‫جس میں وفا و مہر و محبت کا ہے وفور‬
‫جیسا کہ آفتاب نکلتا ہے شرق سے‬
‫اخلص کا ہوا ہے اسی ملک سے ظہور‬
‫ہے اصل تخنم ہند سے ‪ ،‬اور اس زمیں سے‬
‫پھیل ہے سب جہاں میں‪ ،‬یہ میوہ دور دور‬
‫٭٭‬

‫شنب وصال میں‪ ،‬مونس گیا ہے ‪ ،‬دبن تکیہ‬


‫ہوا ہے موجنب آرانم جان و تن‪ ،‬تکیہ‬
‫خراج بادشنہ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟‬
‫کہ بن گیا ہے ‪ ،‬خنم جعند سپر شکن تکیہ‬
‫بنا ہے تختۂ گل ہائے یاسمیں‪ ،‬بستر‬
‫ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن‪ ،‬تکیہ‬
‫فرونغ حسن سے روشن ہے ‪ ،‬خوابگاہ تمام‬
‫ت خواب ہے پرویں‪ ،‬تو ہے پرن تکیہ‬ ‫جو رخ ن‬
‫مزا ملے کہو‪ ،‬کیا خاک ساتھ سونے کا؟‬
‫رکھے جو بیچ میں وہ شونخ سیم تن تکیہ‬
‫!اگرچہ تھا یہ ارادہ‪ ،‬مگر خدا کا شکر‬
‫اٹھا سکا نہ نزاکت سے ‪ ،‬گلبدن تکیہ‬
‫ہوا ہے کاٹ کے چادر کو‪ ،‬ناگہاں غائب‬
‫اگر چہ زانوئے نل پر رکھے ‪ ،‬دمن‪ ،‬تکیہ‬
‫ب تیشہ وہ !اس واسطے ہلک ہوا‬ ‫بضر ن‬
‫ب تیشہ پہ رکھتا تھا‪ ،‬کوہکن تکیہ‬ ‫کہ ضر ن‬
‫یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ‪ ،‬صبح ہونے تک‬
‫رکھو نہ شمع پر‪ ،‬اے اہنل انجمن‪ ،‬تکیہ‬
‫اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے ‪ ،‬لیکن‬
‫اٹھائے کیونکے یہ رنجونر خستہ تن تکیہ‬
‫غش آ گیا جو پس از قتل‪ ،‬میرے قاتل کو‬
‫ہوئی ہے اس کو مری لنش بے کفن تکیہ‬
‫جو بعند قتل‪ ،‬مرا دشت میں مزار بنا‬
‫لگا کے بیٹھتے ہیں‪ ،‬اس سے راہ زن‪ ،‬تکیہ‬
‫شنب فراق میں یہ حال ہے اذییت کا‬
‫کہ سانپ فرش ہے ‪ ،‬اور سانپ کا ہے من تکیہ‬
‫"روا رکھو نہ رکھو‪ ،‬تھا جو لفظ "تکیہ کلم‬
‫"اب اس کو کہتے ہیں اہنل سخن "سخن تکیہ‬
‫ک پیر جس کو کہتے ہیں‬ ‫ہم اور تم‪ ،‬فل ن‬
‫فقیر غالبب مسکیں کا ہے کہن تکیہ‬
‫٭٭‬
‫ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں‬
‫ت غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں‬ ‫میں دش ن‬
‫ہوں درد مند‪ ،‬جبر ہو یا اختیار ہو‬
‫گہ نالہ کشیدہ‪ ،‬گہ اشک چکیدہ ہوں‬
‫جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن‬
‫از بسکہ تلخی غنم ہجراں چشیدہ ہوں‬
‫نے سبحہ سے علقہ‪ ،‬نہ ساغر سے واسطہ‬
‫میں معرض مثال میں دست بریدہ ہوں‬
‫ہوں خاکسار‪ ،‬پر نہ کسی سے ہے مجھ کو لگ‬
‫نے دانہ فتادہ ہوں‪ ،‬نے دام چیدہ ہوں‬
‫جو چاہیے ‪ ،‬نہیں وہ مری قدر و منزلت‬
‫میں یوسف بہ قیمت اول خریدہ ہوں‬
‫ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ‬
‫ہوں میں کلنم نغز‪ ،‬ولے ناشنیدہ ہوں‬
‫اہل ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل‬
‫پر عاصیوں کے زمرے میں‪ ،‬میں برگزیدہ ہوں‬
‫پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدب‬
‫ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں‬
‫٭٭‬

‫قصیدہ‬

‫کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام‬


‫فرماں روائے کشونر پنجاب کو سلم‬
‫حق گو و حق پرست و حق اندیش و حق شناس‬
‫نیواب مستطاب‪ ،‬امینر شہ احتشام‬
‫ت رزم‬ ‫جم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وق ن‬
‫ک فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں سحسام‬ ‫ستر ن‬
‫گ میکشی‬ ‫جس بزم میں کہ ہو انہیں آہن ن‬
‫واں آسمان شیشہ بنے ‪ ،‬آفتاب جام‬
‫چاہا تھا میں نے تم کو منہ چار دہ کہوں‬
‫"دل نے کہا کہ" یہ بھی ہے تیرا خیانل خام‬
‫دو رات میں تمام ہے ‪ ،‬ہنگامہ ماہ کا‬
‫حضرت کا عیز و جاہ رہے گا علی الیدوام‬
‫سچ ہے تم آفتاب ہو‪ ،‬جس کے فروغ سے‬
‫ک آبگینہ فام‬ ‫دریائے نور ہے ‪ ،‬فل ن‬
‫میری سنو‪ ،‬کہ آج تم اس سر زمیں پر‬
‫حق کے تفیضلت سے ‪ ،‬ہو مرجنع انام‬
‫اخبانر لودھیانہ میں‪ ،‬میری نظر پڑی‬
‫تحریر ایک‪ ،‬جس سے ہوا بندہ تلخ کام‬
‫ٹکڑے ہوا ہے ‪ ،‬دیکھ کے تحریر کو‪ ،‬جگر‬
‫کاتب کی آستیں ہے ‪ ،‬مگر‪ ،‬تینغ بے نیام‬
‫وہ فرد جس میں نام ہے میرا غلط لکھا‬
‫جب یاد آ گئی ہے ‪ ،‬کلیجا لیا ہے تھام‬
‫سب صورتیں بدل گئیں‪ ،‬ناگاہ‪ ،‬یک قلم‬
‫لمبر رہا‪ ،‬نہ نذر‪ ،‬نہ خلعت کا انتظام‬
‫سیتر برس کی عمر میں یہ دانغ جاں گداز‬
‫جس نے ‪ ،‬جل کے ‪ ،‬راکھ مجھے کر دیا تمام‬
‫تھی جنوری مہینے کی تاریخ‪ ،‬تیرھویں‬
‫استادہ ہو گئے لنب دریا پہ جب خیام‬
‫اس بزنم سپر فروغ میں‪ ،‬اس تیرہ بخت کو‬
‫لمبر مل نشیب میں‪ ،‬از روئے اہتمام‬
‫سمجھا اسے گراب‪ ،‬ہوا پاش پاش‪ ،‬دل‬
‫ک عوام‬ ‫دربار میں‪ ،‬جو مجھ پہ چلی‪ ،‬چشم ن‬
‫عزت پہ‪ ،‬اہنل نام کی ہستی کی‪ ،‬ہے ‪ ،‬بناء‬
‫عزت جہاں گئی‪ ،‬تو نہ ہستی رہی‪ ،‬نہ نام‬
‫تھا ایک گونہ ناز‪ ،‬جو اپنے کمال پر‬
‫اس ناز کا‪ ،‬فلک نے لیا مجھ سے ‪ ،‬انتقام‬
‫آیا تھا‪ ،‬وقت ریل کے کھلنے کا بھی‪ ،‬قریب‬
‫تھا بارگانہ خاص میں خلقت کا ازدحام‬
‫اس کشمکش میں آپ کا میدانح دردمند‬
‫آقائے نامور سے نہ کچھ کر سکا کلم‬
‫جو واں نہ کہہ سکا‪ ،‬وہ لکھا ہے حضور کو‬
‫دیں آپ میری داد‪ ،‬کہ ہوں فائز المرام‬
‫ملک و سپہ نہ ہو تو نہ ہو‪ ،‬کچھ ضرر نہیں‬
‫سلطانن یبر و بحر کے در کا ہوں میں‪ ،‬غلم‬
‫وکٹوریہ کا‪ ،‬دہر میں جو‪ ،‬مداح خوان ہو‬
‫شاہانن عصر‪ ،‬چاہیئے لیں عزت اس سے وام‬
‫خود‪ ،‬ہے تدارک اس کا‪ ،‬گورنمنٹ کو ضرور‬
‫بے وجہ کیوں ذلیل ہو‪ ،‬غالبب ہے جس کا نام‬
‫امنر جدید کا‪ ،‬تو نہیں ہے مجھے ‪ ،‬سوال‬
‫بارے قدیم قاعدے کا‪ ،‬چاہیئے ‪ ،‬قیام‬
‫ہے بندے کو اعادۂ عزت کی آرزو‬
‫چاہیں اگر حضور‪ ،‬تو مشکل نہیں یہ کام‬
‫دستونر فنین شعر یہی ہے ‪ ،‬قدیم سے‬
‫یعنی‪ ،‬دعا پہ مدح کا‪ ،‬کرتے ہیں اختتام‬
‫ہے یہ دعا کہ زینر نگیں آپ کے رہے‬
‫ک روم و شام‬ ‫اقلینم ہند و سند سے تا مل ن‬

‫٭ اس شعر سے ظاہر ہے کہ مرزا نے جب یہ شعر کہا تو وہ ستر برس کے ہو چکے تھے ۔ لہذا اس کلم کو ‪ 1867‬کا کہا‬
‫ہوا تسلیم کرنا چاہیے‬
‫٭٭‬

‫اکتوبر ‪ /‬نومبر ‪ 1867‬ء‬

‫قطعہ‬
‫ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں‬
‫ک گلستانن ارم‬ ‫حیدرآباد دکن‪ ،‬رش ن‬
‫رامپور‪ ،‬اہنل نظر کی ہے نظر میں وہ شہر‬
‫کہ جہاں ہشت بہشت آ کے ہوئے ہیں باہم‬
‫حیدرآباد بہت دور ہے ‪ ،‬اس ملک کے لوگ‬
‫ساس طرف کو نہیں جاتے ہیں‪ ،‬جو جاتے ہیں تو کم‬
‫رام پور آج ہے وہ بقعہ معمور کہ ہے‬
‫ف نژاند آدم‬‫مرجع و مجمع‪ ،‬اشرا ن‬
‫رام پور اک بڑا باغ ہے ‪ ،‬از روئے مثال‬
‫دلکش و تازہ‪ ،‬و شاداب و وسیع و خرم‬
‫جس طرح باغ میں ساون کی گھٹائیں برسیں‬
‫ت کرم‬ ‫ہے اسی طور پہ یاں‪ ،‬دجلہ فشاں دس ن‬
‫ابنر دست کرم کلب علی خاں سے مدام‬
‫دنر شہوار ہیں‪ ،‬جو گرتے ہیں قطرے پیہم‬
‫صبح دم باغ میں آ جائے ‪ ،‬جسے نہ ہو یقیں‬
‫گ گل و للہ پہ دیکھے شبنم‬ ‫سبزہ و بر ن‬
‫حبذا! بانغ ہمایوں تقدس آثار‬
‫کہ جہاں چرنے کو آتے ہیں غزالنن حرم‬
‫ک شرع کے ہیں‪ ،‬راہرو و راہ شناس‬ ‫مسل ن‬
‫خضر بھی یاں اگر آ جائے ‪ ،‬تو لے ان کے قدم‬
‫مدح کے بعد دعا چاہیے اور اہل سخن‬
‫کو کرتے ہیں بہت بڑھ کے بہ اغراق‪ ،‬رقم‬ ‫اس‬
‫کیا مانگیے ؟ ان کے لیے جب ہو موجود‬ ‫حق سے‬
‫سکوس و علم‬ ‫و گنجینہ و خیل و سپہ و‬ ‫ملک‬
‫ہم نہ تبلیغ کے مائل‪ ،‬نہ غلو کے قائل‬
‫دعائیں ہیں کہ وہ دیتے ہیں نواب کو ہم‬ ‫دو‬
‫یا خدا!غالبب ن عاصی کے خداوند کودے‬
‫وہ وہ چیزیں کہ طلبگار ہے جن کا‪ ،‬عالم‬
‫ل‪ ،‬عمنر طبیعی بہ دوانم اقبال‬ ‫او ا‬
‫ت دیدانر شہنشانہ امم‬‫ثانیاا‪ ،‬دول ن‬

‫٭یہ قطعہ‪ ،‬مکتونب غالبب بنام نواب کلب علی خاں بہادر مورخہ ‪ 5‬رجب ‪ 1284‬ھ)‪ 3‬نومبر ‪ 1867‬ء(کے ساتھ بھیجا گیا تھا‪،‬‬
‫اور یہ مرزا غالبب کا آخری کلم ہے جو تا حال دریافت ہوا ہے‬
‫٭٭‬

‫بعد از ‪ 13‬جولئی ‪ 1867‬ء‬

‫شعر‬
‫دنم واپسیں بر سنر راہ ہے‬
‫عزیزو‪ ،‬اب اللہ ہی اللہ ہے‬
‫٭ خط بنام مولنا احمد حسین میناب مرزا پوری‪ ،‬مورخہ ‪ 13‬جولئی ‪ 1867‬ء‬
‫٭٭٭‬

‫غالبب کے کچھ ہنگامی مصرعے اور شعر‬

‫۔‪1:‬‬
‫گاتی تھیں شمرو کی بیگم‪ ،‬تن نا ہا یا ہو‬
‫دودھ میں پکے تھے شلغم‪ ،‬تن نا ہا یا ہو‬

‫مولوی احتشام الدین مرحوم نے اپنے مضمون "غالبب کے بعض غیر مطبوعہ اشعار اور لطیفے " )مانہ نو‪ ،‬فروری ‪ 1950‬ء(میں‬
‫لکھا ہے کہ" یہ مطلع مرزا کی ایک مہمل غزل کا ہے جو بچوں کے جھولے میں گانے کے لئے موزوں فرمائی تھی"اندازہ ہے‬
‫کہ شعر ‪ 1865‬ء کے ابتدائی مہینوں میں کہا گیا ہو گا)خط نمبر ‪ 112‬بنام منشی ہر گوپال تفتہ‪ ،‬آخر مئی ‪ 1865‬ء(‬
‫٭ زیب النسا عرف بیگم شمرو‬

‫۔‪2:‬‬
‫تم سلمت رہو قیامت تک‬
‫دولت و عز و جاہ‪ ،‬روز افزوں‬

‫اس شعر کا پہل مصرع مرزا نے نواب یوسف علی خاں ناظمب کے نام خط مورخہ ‪ 15‬فروری ‪ 1857‬ء میں‬
‫اور پورا شعر انہیں کے نام کے خط مورخہ ‪ 14‬اگست ‪ 1863‬ء میں لکھا ہے‬

‫۔‪3:‬‬
‫درم و دام اپنے پاس کہاں‬
‫چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں‬

‫آ نب حیات میں درج ہے کہ حسین علی خاں )عارف کا چھوٹا لڑکا(ایک دن کھیلتا کھیلتا آیا کہ دادا جان )غالبب ( مٹھائی‬
‫منگا دو۔ آپ نے فرمایا کہ پیسے نہیں ۔ وہ صندوقچہ کھول کر ادھر ادھر ٹٹولنے لگا اور آپ نے یہ شعر فرمایا‬
‫حسین علی خاں شاداںب کا سانل ولدت ‪1850‬ء ہے ۔ اندازہ ہے کہ اس واقعے کے وقت)آغانز ‪ 1857‬ء( وہ سات آٹھ برس کا‬
‫ہو گا‬
‫٭٭‬

‫۔‪4:‬‬
‫سات جلدوں کا پارسل پہنچا‬
‫واہ کیا خوب‪ ،‬بر محل پہنچا‬
‫یہ شعر میرزا حاتم علی مہرب کے نام خط مورخہ ‪ 20‬نومبر ‪ 1858‬ء میں درج ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪5:‬‬
‫یہ خبط نہیں تو اور کیا ہے‬

‫برہانن قاطع کا وہ نسخہ جس کے حاشیوں پر ابتد اا مرزا صاحب نے اپنے اختلفی نوٹ لکھے اور جو بعد کو قاطع برہان کے نام‬
‫سے مرتب ہو کر چھپے‬
‫لفظ "خسک"پر حاشیہ لکھتے ہوئے یہ مصرع بھی مرزا صاحب کے قلم سے نکل گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ‪ 1858‬ء میں ہی‬
‫لکھا گیا ہو گا‬
‫٭٭‬

‫۔‪6:‬‬
‫روز اس شہر میں حکم نیا ہوتا ہے‬
‫کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے‬

‫غالبب نے یہ شعر اپنے خط بنام میر مہدی مجروحب مورخہ ‪ 2‬فروری ‪ 1859‬ء میں لکھا ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪7:‬‬
‫دیکھئے کیا جواب آتا ہے‬

‫مندرجہ خط بنام مجروحب ‪ 13 ،‬دسمبر ‪ 1859‬ء‪ ،‬یہ پورے جملے کا ایک ٹکڑا ہے جو از خود موزوں ہو گیا ہے‬
‫میں نے اس کا اپیل لیفٹیننٹ گورنر کے یہاں کیا ہے ‪ ،‬دیکھئے کیا جواب آتا ہے "۔"‬
‫٭٭‬

‫۔‪8:‬‬
‫خدا سے بھی میں چاہوں از رنہ مہر‬
‫" فرونغ میرزا حاتم علی مہرب"‬

‫مندرجہ خط بنام مہرب ‪ ،‬اپریل ‪ 1859‬ء ۔ اس شعر کا دوسرا مصرع کود مہرب کا ہے جو ان کی مثنوی "شعانع مہر" میں درج‬
‫ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪9:‬‬
‫پیر و مرشد معاف کیجئے گا‬
‫میں نے جمنا کا کچھ نہ لکھا حال‬

‫مندرجہ خط بنام نواب انور الدولہ بہادر شفقب ‪ 19 ،‬جولئی ‪ 1860‬ء ۔ عوند ہندی میں یہ اسی طرح درج ہے مگر اردوئے معلیی‬
‫میں اسے نثر کی شکل دے دی گئی ہے اگرچہ اسے منظوم بھی پڑھا جا سکتا ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪10:‬‬
‫خدا کے بعد نبی‪ ،‬اور نبی کے بعد امام‬
‫یہی ہے مذہنب حق‪ ،‬والسلم والکرام‬

‫مندرجہ خط بنام مجروحب ‪ ،‬مئی ‪ 1861‬ء‬


‫٭٭‬

‫۔‪11:‬‬
‫تھا تو خط پر جواب طلب نہ تھا‬
‫کوئی ا س کا جواب کیا لکھتا‬

‫یہ شعر چودھری عبدالغفور سرورب کے نام خط میں لکھا ہے ۔ خط پر تاریخ درج نہیں‪ ،‬مگر قرائن سے پتا چلتا ہے کہ ‪ 1862‬ء‬
‫کا لکھا ہوا ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪12:‬‬
‫میں بھول نہیں تجھ کو‪ ،‬اے میری جاں‬
‫کروں کیا‪ ،‬کہ یاں گر رہے ہیں مکاں‬

‫مندرجہ خط بنام مجروحب ‪ ،‬مورخہ ‪ 26‬ستمبر ‪ 1862‬ء‬


‫٭٭‬

‫۔‪13:‬‬
‫جویائے حانل دہلی و الور سلم لو‬

‫یہ مصرع خط مورخہ ‪ 16‬دسمبر ‪1862‬ء‪ ،‬بنام مجروحب ‪ ،‬کا سر نامہ ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪14:‬‬
‫ولی عہدی میں شاہی ہو مبارک‬
‫عنایا ن‬
‫ت الہی ہو مبارک‬

‫مندرجہ خط بنام علئی‪ ،‬اپریل مئی ‪ 1863‬ء‬


‫٭٭‬

‫‪15:‬‬
‫معلوم ہوا خبر کا ٹھینگا باجا‬

‫مندرجہ خط بنام علئی‪ 18 ،‬مئی ‪ 1864‬ء‬


‫٭٭‬

‫۔‪16:‬‬
‫کوئی اس کو جواب دو صاحب‬
‫سائلوں کا ثواب لو صاحب‬

‫مندرجہ لطائنف غیبی‪ ،‬مطبوعہ ‪ 1864‬ء‪ ،‬صفحہ ‪22‬‬


‫اب یہ عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ لطائنف غیبی‪ ،‬سیاحب کی نہیں بلکہ خود مرزا کی تصنیف ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪17:‬‬
‫خوشنودی احباب کا طالب‪ ،‬غالبب‬

‫ظاہر ہے کہ یہ مصرع خط کے خاتمے کے الفاظ پر مبنی ہے ‪ ،‬صحیح سانل تحریر کا علم نہیں مگر یہ ایک خط بنام قدرب‬
‫بلگرامی کے آخر میں )تاریخ درج نہیں صرف دن اور وقت لکھا ہے ‪ ،‬چہار شنبہ‪ 12 ،‬پر ‪ 3‬بجے (‬
‫اور مثنوی "شعانع مہرب " کی تقریظ کو تمام کرتے ہوئے لکھا ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪18:‬‬
‫کھانا نہ انہیں‪ ،‬کہ یہ پرائے ہیں آم‬

‫یہ غالبب کی ایک رباعی کا چوتھا مصرعہ ہے ‪ ،‬جو جلوہ خضر میں درج ہے ۔ اس کے ‪ 3‬مصرعے صفیرب بلگرامی کو یاد نہیں‬
‫رہے ۔ صفیرب ‪ 1865‬ء میں غالبب سے ملنے دلی آئے تھے‬
‫٭٭‬

‫۔‪19:‬‬
‫میں قائنل خدا و نبی و امام ہوں‬
‫بندہ خدا کا اور علی کا غلم ہوں‬

‫مندرجہ خط بنام صفیر ب بلگرامی‪ ،‬مورخہ ‪ 3‬مئی ‪ 1865‬ء‬


‫٭٭‬

‫۔‪20:‬‬
‫ہاتنف غیب سن کے یہ چیخا‬
‫ان کی تاریخ میرا تاریخا‬
‫جناب احسن مارہروی مرحوم نے اپنی کتاب "مکاتیب الغالبب " صفحہ ‪ 35‬پر لکھا ہے‬
‫راقم الحروف کے پردادا شاہ سید عالم صاحب )صاحب عالم مارہروی‪ ،‬ولدت ‪ 6‬ربیع الثانی‪ 1211 ،‬ھ بمطابق ‪ 8‬اکتوبر ‪"1796‬‬
‫ء(سے مرزا کی اکثر خط و کتابت ہوتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت صاحب نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ آپ کی ولدت‬
‫کس سن میں ہوئی اور ساتھ ہی یہ اطلع بھی دی کہ میری ولدت لفظ "تاریخ" سے نکلتی ہے جس کے عدد ‪ 1211‬ہوتے‬
‫"ہیں ۔ مرزا نے جواب میں یہ شعر لکھ بھیجا‬

‫اور تین سال بعد فوت‬ ‫جناب صاحب عالم مارہروی جن کی مرزا بہت عزت کرتے تھے ‪ ،‬مرزا سے ایک سال پہلے پیدا ہوئے‬
‫صاحبزادے شاہ عالم‪ ،‬اور‬ ‫ہوئے یعنی ان کی وفات ‪ 2‬محرم ‪ 1288‬ھ )‪ 24‬مارچ ‪ 1871‬ء( کو ہوئی۔ صاحنب عالم‪ ،‬ان کے‬
‫تک دستیاب ہوئے ہیں‪،‬‬ ‫عبدالغفور سرورب )جن کے خطوں میں صاح نب عالم کے کئی خط شامل ہیں(کے نام کے خطوط جو آج‬
‫ہو سکتا ہے انہی دنوں‬ ‫وہ ‪ 1858‬ء سے ‪1866‬ء تک کے عرصے میں لکھے گئے ہیں۔ یہ شعر ان خطوں میں درج نہیں ۔‬
‫سے پہلے کا کہا ہوا ہی‬ ‫میں کبھی لکھا گیا ہو مگر خط محفوظ نہ رہا ہو۔ اس لیے اس شعر کو ‪ 1858‬ءکے بعد اور ‪ 1866‬ء‬
‫کہا جا سکتا ہے‬
‫٭٭‬

‫۔‪21:‬‬
‫غالبب یزداں پرست کی‬
‫ن‬ ‫تحریر ہے یہ‬
‫تاریخ اس کی آج نویں ہے اگست کی‬

‫مندرجہ خمخانہ جاوید جلد اول صفحہ ‪ 82‬۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ شعر کا زمانہ فکر ‪ 1866‬ء کے لگ بھگ ہو گا‬
‫٭٭‬

‫۔‪22:‬‬
‫سنین عمر کے ستر ہوئے شمار برس‬
‫بہت جیوں تو جیوں اور تین چار برس‬

‫غالبب کا سانل ولدت ‪ 1797‬ءہے ۔ اس طرح یہ شعر ‪ 1867‬ء میں کہا گیا ہو گا‬
‫ہجری حساب سے ستر برس ‪ 1282‬ھ )‪ 1865 ،66‬ء( میں پڑیں گے‬
‫٭٭‬

‫۔‪23:‬‬
‫آج یک شنبے کا دن ہے آؤ گے ؟‬
‫یا فقط رستا ہمیں بتلؤ گے‬

‫خمخانہ جاوید‪ ،‬جلد اول صفحہ ‪ 81‬میں للہ سری رام نے لکھا ہے کہ پیارے لل آشوب دہلی میں ہوتے تھے ‪ ،‬تو کوئی ہفتہ‬
‫مرزا صاحب کی ملقات سے خالی نہ جاتا تھا۔ دیر ہو جاتی تو مرزا ایک نہ ایک شعر لکھ کر آشوب کے پاس بھیج دیتے ‪،‬‬
‫ت عرفی کا مقدمہ‬ ‫جس کا مضمون حس نن طلب ہوتا۔ ان میں سے ا یک یہ شعر ہے ۔ غالبب نے دسمبر ‪ 1867‬ء کو ازالہ حیثی ن‬
‫دائر کیا تھا‪ ،‬اس مقدمے میں پیارے لل آشوبب )جو ابھی ‪ 36‬سال کے بھی نہ تھے ( گواہوں میں سے ایک تھے ۔ شاید یہ‬
‫شعر انہی دنوں کا ہو‬
‫٭٭‬

‫مندرجہ بال اشعار کی کوئی ادبی حیثیت نہیں‪ ،‬یہ غالبب کی شوخی طبع اور حاضر دماغی کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی قدر و‬
‫قیمت اس پر منحصر ہے کہ یہ غالبب کے کہے ہوئے ہیں اور یہ کسی نہ کسی واقعے کی نشاندہی میں معاون ثابت ہو سکتے‬
‫ہیں‬
‫٭٭٭‬

‫حر ن‬
‫ف نا معتبر‬

‫دیوا نن غالبب کامل‪ ،‬تاریخی ترتیب سے" کے پہلے ایڈیشنوں میں بعض اشعار ایسے ہیں جنہیں حتمی طور پر غالبب کے فکر "‬
‫کردہ تسلیم کرنے میں مجھے جھجک محسوس ہو تی رہی ہے ۔ اب میں نے ان اشعار کو متن سے الگ کر لیا ہے۔ تاہم‬
‫مقدمے میں محفوظ رکھا ہے تاکہ اگر قاری ان پر مزید غور کرنا چاہے تو اشعار اس کی نظروں سے اوجھل نہ رہیں۔ روایتیں‬
‫بیشتر وہی ہیں جو نسخہ عرشیب میں بیان ہوئی ہیں۔‬

‫۔‪1:‬‬
‫دو رنگیاں یہ زمانے کی ‪ ،‬جیتے جی ہیں سب‬
‫کہ مردوں کو نہ بدلتے ہوئے کفن دیکھا‬
‫۔‪2:‬‬
‫پیری میں بھی کمی نہ ہوئی تاک جھانک کی‬
‫روزن کی طرح دید کا آزار رہ گیا‬

‫۔‪3:‬‬
‫وہ مرغ ہے خزاں کی صعوبت سے بے خبر‬
‫آئندہ٭ سال تک جو گرفتار رہ گیا‬
‫‪---------------------------‬‬
‫کتاب میں لفظ آیندہ درج ہے مگر یہاں مروج امل کے مطابق آئندہ لکھا ‪:‬۔ چھوٹا غالبب‬

‫پہلے شعر میں جیتے اور مردوں کے آخری حروف بری طرح دیتے ہیں۔ ایسے نا پختہ کلم کو غالبب سے منسوب کرنا درست‬
‫معلوم نہیں ہوتا۔ دوسرے دونوں شعر صاف ہیں۔دیوا نن غالبب)صدی ایڈیشن(مرتبہ مالک رام میں یہ اشعار بیانض علئی کے حوالے‬
‫سے نقل کیے گئے ہیں۔ مگر جناب عرشیب مرحوم فرماتے ہیں کہ "اس بیاض سے متعلق میری یادداشتوں میں ان شعروں کا‬
‫"حوالہ نہیں‬

‫۔‪4:‬‬

‫اٹھا اک دن بگول سا جو کچھ‪ ،‬دمیں جونش وحشت میں‬


‫پھرا آسیمہ سر‪ ،‬گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے‬
‫نظر آیا‪ ،‬مجھے اک طائنر مجرونح پر بستہ‬
‫ٹپکتا تھا سنر شوریدہ دیوانر گلستاں سے‬
‫کہا میں نے کہ 'او گمنام' آخر ماجرا کیا ہے؟‬
‫پڑا ہے کام تجھ کو کس ستمگر آفت جاں سے‬
‫ہنسا کچھ کھلکھل کر پہلے‪ ،‬پھر مجھ کو جو پہچانا‬
‫تو یہ رویا کہ جوئے خون بہی‪ ،‬پلکوں کے داماں سے‬
‫کہا‪":‬میں صید ہوں اس کا کہ جس دانم گیسو میں‬
‫پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر بانغ رضواں سے‬
‫اسی کے زلف و رخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو‬
‫"نہ مطلب کفر سے ہے‪ ،‬نہ ہے کچھ کام ایماں سے‬
‫بچشنم غور جو دیکھا‪ ،‬تو مرا ہی طائنر دل تھا‬
‫کہ جل کر‪ ،‬ہو گیا یوں خاک میری آنہ سوزاں سے‬

‫یہ قطعہ رسالہ مخزن اپریل ‪ 1907‬ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع ہوا تھا‪:‬۔ "تھوڑے دن ہوئے میجر سید حسن صاحب‬
‫بلگرامی سے تذکرہ شعرا ہو رہا تھا جس میں انہوں نے غالبب کا ایک قطعہ سنایا ۔ قطعے کے عمدہ ہونے میں کیا شک ہے۔‬
‫مگر اس کے ساتھ ہی ان کے اس بیان نے کہ یہ قطعہ ان کے والد مرحوم سے ان کو پہنچا اور اب تک غالبب کے کسی کلم‬
‫میں شائع نہیں ہوا‪ ،‬اس کی خوبی زیادہ کر دی۔ میں نے اسے لکھ لیا اور ان کی اجازت سے مخزن کو بھیجتا ہوں۔ شیداب از‬
‫"کیمبرج۔‬

‫۔‪5:‬‬

‫ایک اہنل درد نے سنسان جو دیکھا قفس‬


‫"یوں کہا"آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب‬
‫بال و پر دو چار دکھل کر‪ ،‬کہا صیاد نے‬
‫"یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب"‬

‫مولنا نظامیب بدایونی مرحوم نے اپنی شرح دیوانن غالبب صفحہ نمبر ‪ 248‬میں قطعہ ‪ 4#‬اور قطعہ ‪ 5#‬کے متعلق لکھا ہے‪ ،‬کہ‬
‫سب سے پہلے ان قطعات کا اضافہ طبنع سوم میں اس ریمارک کے ساتھ ہوا تھا کہ بعض نقادانن سخن ان قطعات کے طرنز‬
‫بیان کو حضرنت غالبب کے رنگ سے جداگانہ سمجھتے ہیں۔ اس پر طبنع سوم کے ناظرین میں سے بعض اہل الرائے حضرات نے‬
‫شکایت کی کہ ان قطعات کو دیوا نن غالبب میں جگہ دینا غالبب کے کلم کی توہین کرنا ہے۔ ہم نے نواب عماد الملک )میجر‬
‫سید حسن بلگرامی کے بھائی(سے ان کے متعلق دریافت کیا۔ وہ فرمانے لگے کہ وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ‬
‫غالبب کے مصنفہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بزرگ سے سنے تھے جو ان کو غالبب سے منسوب کرتے تھے‪ ،‬ممکن ہے کہ یہ‬
‫غالبب کا ابتدائی کلم ہو۔‬
‫یعنی )‪(1‬شیداب نے ان اشعار کو میجر سید حسن بلگرامی سے لیا اور سید حسن صاحب کو یہ ان کے والد گرامی سے پہنچے‬
‫اور )‪(2‬نظامی بدایونی کے دریافت کرنے پر سید حسن صاحب کے بھائی نے تصدیق کی کہ انہوں نے اپنے ایک بزرگ‬
‫سے)اپنے والد مرحوم سے نہیں(سنا تھا اور اس لیے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غالبب کے مصنفہ ہیں۔ یہ روایت‬
‫خاصی ضعیف ہے‬
‫جناب قاضی عبدالودود نے اپنے مضمون "کتب خانہ خدا بخش اور غالبب" مشمولہ اردوئے معلیی دہلی‪ ،‬غالبب نمبر‪ ،‬حصہ دوم‪،‬‬
‫صفحہ ‪78‬میں لکھا ہے کہ"دیوانن غالبب اردو کے ان نسخوں میں سے جو غالبب کے دورانن حیات میں طبع ہو چکے تھے‪ ،‬یہاں‬
‫موجود ہیں‪ :‬نسخہ مطبع احمدی‪ ،‬مطبع نظامی۔۔ مقدم الذکر کے یہاں دو نسخے تھے‪ ،‬جن میں سے ایک کا باوجوند تلش اس‬
‫وقت کچھ پتا نہ مل۔ اس کے آخر میں جناب قاسم حسن خان و برادر زادہ خدا بخش خان منتظنم کتب خانہ کے قول کے‬
‫مطابق غالبب کا ایک قطعہ ہے جو محمد بخش خاں پد نر خدا بخش خاں کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ یہ قطعہ وہی ہے جو عماد‬
‫الملک کی روایت پر غالبب سے منسوب کیا گیا ہے۔ نیز مخزن میں اس قطعے کو شائع کرنے والے صاحب کا نام شیدا لکھا‬
‫"گیا ہے۔ یہ عبدالحمید خواجہ ہیں جو ان دنوں کیمبرج میں مقیم تھے۔۔۔ ۔‬
‫نوٹ‪ :‬اب میں نے معلوم کر لیا ہے کہ قطعہ نمبر ‪" 5‬صدائے عندلیب"غالبب کے شاگرد مرزا عبدالصمد بیگ ذاکرب کا ہے (‬
‫)دیکھو دیوانن ذاکرب صفحہ ‪(21‬‬

‫۔‪6:‬‬

‫جو حند تقویی ادا نہ ہووے تو اپنا مذہب یہی ہے غالبب‬


‫ہوس نہ رہ جائے کوئی باقی‪ ،‬گناہ کیجئے تو خوب کیجئے‬

‫رضا لئبریری‪ ،‬رام پور کے نسخہ تذکرہ گلزانر سخن مولفہ جگن ناتھ فیض کے‪ ،‬جو ‪1908‬ء میں نول کشور پریس میں طبع ہوا ہے‬
‫‪ ،‬صفحہ ‪ 297‬پر غالبب کا تذکرہ ہے۔ اس صفحے کے زیریں حاشیے میں چنی لل عاصیب نے مطالعہ کرتے وقت غالبب کے‬
‫تحت یہ شعر لکھا ہے۔‬

‫۔‪7:‬‬

‫اگر ہوتا تو کیا ہوتا‪ ،‬یہ کہیے‬


‫نہ ہونے پر ہیں یہ باتیں دہن کی‬

‫اردوئے معلیی ‪ ،‬دہلی کے غالبب نمبر حصہ دوم ‪ 1960‬ء میں چھاپا ہے‪ ،‬ان‬ ‫یہ شعر ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی صاحب نے رسالہ‬
‫حسین صاحب جو بھوپال میں ملزم تھے۔ نواب صدیق حسن خاں سے ان‬ ‫کا بیان ہے کہ میرے ایک بزرگ تھے سید عنایت‬
‫سید احمد حسن)متوفی ‪ 1277‬ھ بمطابق ‪ 1860‬ء(غالبب کے شاگرد تھے‬ ‫کے خصوصی تعلقات تھے۔ نواب صاحب کے بھائی‬
‫صاحب نے اپنے منتخب اشعار کی ایک بیاض چھوڑی ہے۔ اس میں پہلے‬ ‫اور عرشیب تخلص کرتے تھے۔ سید عنایت حسین‬
‫عرشیب کا یہ شعر لکھا ہے‪:‬۔‬
‫کہیں کچھ ہے ‪ ،‬دعا دو گالیوں کو‬
‫بنا لی بات باتوں میں دہن کی‬
‫اس کے بعد غالبب کا یہ شعر درج کیا ہے‪ ،‬اگر ہوتا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔الخ‬

‫۔‪8:‬‬

‫نسخہ سوزنش دل درخور عناب نہیں‬


‫سنر سودا زدہ‪ ،‬آتش کدہ تاب نہیں‬
‫ہمت و حوصلہ شورنش شبنم معلوم‬
‫قلزنم اشک‪ ،‬ننم دیدہ خوناب نہیں‬
‫پرسنش عشق سے ہے ان کو فراغت مقصود‬
‫ہدیہ پارہ دل‪ ،‬نازنش جلباب نہیں‬
‫ہمت و شونق طلبگاری ن مقصود کہاں‬
‫برنق خرمن‪،‬زنن بے تابنی سیماب نہیں‬
‫گلشنن ہستی عالم ہے دبستانن نشاط‬
‫نقنش گل‪ ،‬روننق بے مشقنی طلب نہیں‬

‫اس غزل کا پہل اور تیسرا شعر سب سے پہلے رسالہ الناظر لکھنؤ بابت مارچ ‪ 1929‬ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع ہوا‬
‫تھا‪:‬۔ "مولوی عبدالرزاق صاحب ایڈیٹر رسالہ تحفہ حیدرآباد دکن‪ ،‬مؤلنف کلیانت اقبال نے عرصہ ہوا از رانہ کرم الناظر میں شائع‬
‫ہونے کے لئے اشعا نر بال ارسال فرمائے تھے‪ ،‬اور ان کے متعلق اپنے گرامی نامے میں تحریر فرمایا تھا کہ یہ شعر بھوپال کے‬
‫مطبوعہ نسخے میں نہیں ہیں اور نہ کہیں چھپے ہیں ۔میرے کتب خانے میں دیوانن غالبب کے مختلف نسخے ہیں‪ ،‬ایک نسخہ‬
‫نول کشور کا مطبوعہ ہے ۔ اس کے حاشیے پر اشعا نر بال اس تقریب کے ساتھ کسی صاحب نے لکھے ہیں کہ مرزا غالبب کے‬
‫قلمی دیوان سے یہ غزل نقل کی گئی‪ ،‬دو شعروں کے علوہ غزل کے اور شعر بھی ہیں‪ ،‬لیکن بے درد جلد ساز نے حاشیہ‬
‫کاٹ دیا ہے۔جس کے سبب سے بعض مصرعے بالکل کٹ گئے ہیں ‪ ،‬اور بعض پڑھے نہیں جاتے کہیں اور پتا چلے ‪ ،‬تو بقیہ‬
‫"اشعار بھی ارسال کر دوں گا‬
‫بعد ازاں یہ شعر "مانہ نو"فروری ‪1953‬ء مع چند اضافوں کے اس تمہید کے ساتھ چھپے‪:‬۔ "پچھلے صفحہ پر غالبب کی جو‬
‫مبینہ غزل درج ہے ہمیں جناب ناظر عالم نے حیدرآباد دکن سے ارسال کی ہے۔ موصوف نے اس سلسلے میں ایک خط بھی‬
‫لکھا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس حد تک مستند ہے۔ خط میں ناظر عالم صاحب ناس غزل کی دریافت‬
‫اور ضائع شدہ حصوں کے بارے میں عبد الرزاق راشدب صاحب کا یہ بیان نقل کیا ہے۔ موصوف نے کہا کہ میاں داد سیاح شاگرند‬
‫مرزا غالبب کے ایک رشتے دار ظفر یاب خاں ریاست حیدرآباد کے صیغہ تعمیرات میں ملزم تھے۔ آج سے ‪ 42 ،40‬سال پہلے‬
‫رسالہ ادیب نکالتے تھے۔ خان موصوف کے کتب خانے میں ایک مجلد کتاب ملی جس کے اندر دیوانن غالبب اور دیوانن ذوق کے‬
‫علوہ ناسخب‪ ،‬آتشب‪ ،‬آبابد کا کلم تھا۔ دیوانن غالبب کے ایک حاشیے پر "غزنل غیر مطبوعہ غالبب دہلوی"عنوان سے ‪ 9‬شعر لکھے‬
‫تھے‪ ،‬مگر کسی بے درد جلد ساز نے جلد بناتے وقت حاشیے کا یک حصہ اس بری طرح کتر دیا تھا کہ ‪ 4‬مصرعے کٹ گئے‬
‫‪ ،‬اس تحقیق کے لئے کہ یہ کلم مرزا غالبب ہی کا ہے ‪ ،‬ظفریاب‬ ‫جو اشعار اور مصرعے باقی تھے‪ ،‬ان کی نقل کر لی گئی‬
‫نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ غالبب کے سوا اور کون ایسے‬ ‫خان ایڈیٹر ادیب سے رجوع کیا گیا‪ ،‬خان صاحب موصوف‬
‫اشعار تصنیف کر سکتا ہے۔۔۔ ۔‬
‫طباطبائی شارنح غالبب سے رجوع کیا جائے‪ ،‬موصوف نے غزل دیکھ‬ ‫تحقیق کا دوسرا ذریعہ یہ تھا کہ حضرت استاذی علمہ نظم‬
‫"کر فرمایا کہ یہ یقینی مرزا غالبب کا کلم معلوم ہوتا ہے‬
‫ساز کی غلطی سے کٹ گئے تھے‪ ،‬ان کئ مصرع ہائے ثانی یہ ہیں‬ ‫جو چار اشعار جلد‬
‫شنب تاریک‪ ،‬خیانل دنل مہتاب نہیں ؎‬
‫۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔‬
‫شمع یہ‪ ،‬زیب دنہ مجلنس احباب نہیں ؎‬
‫۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔‬
‫تانر تمکیں‪ ،‬حرینف سنر مضراب نہیں ؎‬
‫۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔‬
‫غم ہی ایک چیز ہے دنیا میں جو کمیاب نہیں ؎‬

‫جب تک پہلے مصرعے نہ مل جائیں ‪ ،‬ان مصرعوں کو متن سے خرج کر دینا ہی مناسب ہوگا۔ لیکن اس کلم کو معتبر‬
‫سمجھنے سے پہلے‪ ،‬جناب عرشیب مرحوم کا یہ بیان مطالعہ کر لینا ضروری ہے‪ ،‬جو انہوں نے دیوانن غالبب‪ ،‬نسخہ عرشیب‪،‬‬
‫اشاعت دوم کے صفحہ نمبر ‪ 522‬پر درج کیا ہے۔ لکھتے ہیں ‪:‬۔ "تمکین کاظمی مرحوم نے مجھے لکھا تھا کہ ناظر عالم نام‬
‫کی کسی ہستی کا خارج میں وجود نہیں اور اس پردے میں خود عبدالرزاق حیدرآبادی جلوہ فرما ہیں۔ اس اطلع نے غزل اور‬
‫" اس سے متعلق روایت کو ناقابنل اعتبار بنا دیا۔۔۔ ۔۔۔‬

‫۔‪9:‬‬

‫اس قدر ضبط کہاں ہے ‪ ،‬کہ کبھی آ بھی نہ سکوں‬


‫ستم اتنا تو نہ کیجئے کہ اٹھا بھی نہ سکوں‬
‫لگ گئی آگ اگر گھر کوتو اندیشہ کیا‬
‫شعلہ دل تو نہیں ہے کہ بجھا بھی نہ سکوں‬
‫تم نہ آؤ گے تو مرنے کی ہیں سو تدبیریں‬
‫موت کچھ تم تو نہیں ہو‪ ،‬کہ سبل بھی نہ سکوں‬
‫ہنس کے بلوائیے مٹ جائے گا سب دل کا گلہ‬
‫کیا تصور ہے تمہارا کہ مٹا بھی نہ سکوں‬

‫اس غزل کے سلسلے میں مولنا حامد حسن قادری مرحوم نے بہت دلچسپ اطلع بہم پہنچائی ہے۔ اپنے مکتوب بنام حیرتب‬
‫شملوی مرحوم میں رقم طراز ہیں‪:‬۔ " میرے پاس بزرگوں کے وقت کا دیوانن غالبب ہے‪ ،‬مطبوعہ ‪ 1823‬ء جو مطبع مفید خلئق‬
‫آگرہ میں منشی شیو نرائن کے اہتمام سے چھپا تھا۔ اس میں میرے والد مرحوم کے قلم سے )نیرنگ میں لکھا ہے کہ ان‬
‫اشعار کے کاتب و ناقل دونوں صادق علی صاحب ہیں ۔ عرشیب( دو شعر یہ لکھے ہوئے ہیں ‪ ،‬جو کسی مطبوعہ دیوان میں‬
‫نہیں ملتے ‪ :‬لگ گئی آگ۔۔۔ ۔۔۔ الخ ‪ ،‬تم نہ آؤ گے تو۔۔۔ ۔۔الخ۔ غزل کے تین مطبوعہ شعر ہر دیوان میں موجود ہیں ۔‬
‫میں نے غالبا ا ‪ 1930‬ء )صحیح خاص نمبر جنوری ‪ 1928‬ء ہے ۔ عرشیب (میں عزیز اللہ خاں رام پوری مرحوم کے رسالہ‬
‫نیرنگ میں ان اشعار کے متعلق ایک مختصر مضمون چھپوایا تھا۔ اس میں لکھا تھا ‪:‬۔‬
‫ان اشعار کے ناقل مولو ی صادق علی تاباں ب ‪ ،‬ساکن گڑھ مکتیشر‪ ،‬ضلع میرٹھ ‪ ،‬انسپکٹر محکمہ نمک ہیں ۔ مولوی صاحب "‬
‫غالبب کے زمانے کے بزرگ تھے۔ غالبب سے چند بار ملے تھے۔ خود اچھے شاعر اور عمدہ سخن سنج تھے۔ گورنمنٹ سے‬
‫سالہا سال پنشن پا کر ‪ 1909‬ء یا ‪ 1910‬ء میں انتقال کیا۔ میری تحقیق کے مطابق اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ مولوی‬
‫صاحب نے خود غالبب سے یا اسی زمانے کے کسی شخص نے یہ اشعار نقل کیے ہیں ۔ ممکن ہے کہ غالبب نے دیوان کی‬
‫ت آخری کے بعد یہ شعر کہے ہوں۔ دونوں شعر بالکل اسی رتبے کے ہیں جیسے پہلے تین شعر ہیں اور ایسے نہیں ہیں‬ ‫طباع ن‬
‫کہ پانچوں شعر ایک ساتھ کہنے کے بعد غالبب کاٹ دیتے اور پہلے تین شعر باقی رکھتے ۔ اب نقادانن غالبب فیصلہ کریں اور‬
‫" اس اضافے سے لطف اندوز ہوں‬
‫اور اس کے ایک عرصے بعد میں یہی مضمون دوسری طرح لکھ کر "رسالہ سب رس" حیدرآباد دکن بابت مارچ ‪ 1942‬ء میں‬
‫چھپوایا تھا ۔ سب رس وال مضمون مولوی عبدالماجد صاحب دریابادی کی نظر سے گزرا ‪ ،‬تو انہوں نے مجھے لکھا‪:‬۔‬
‫ان میں سے ایک شعر کوئی تیس سال قبل سنا ہوا میرے حافظے میں ان الفاظ میں ہے"‬
‫تم نہ آؤ گے تو مر رہنے کی سو راہیں ہیں‬
‫موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بل بھی نہ سکوں‬
‫ایک یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت یہ شعر میں نے جالبب کی جانب منسوب سنا تھا۔ سید جالبب دہلوی سے تو‬
‫آپ وقف ہوں گے ۔ "ہمدم" لکھنؤ کے ایڈیٹر ‪ ،‬حالیب کے شاگرد اور اس طرح غالبب کے شاگرد در شاگرد۔ آپ کی اطلع اور‬
‫" تحقیق مزید کے لئے لکھ رہا ہوں‬
‫اس کے بعد مجھے مزید تحقیق کا موقع نہیں مل کہ سید جالبب کے کلم میں تلش کرتا ‪ ،‬یا ان کے دوستوں سے پوچھتا ۔‬
‫اب یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرا شعر بھی جالبب ہی کا ہو ۔ عبدالماجد صاحب نے ایک سنا ‪ ،‬ایک نہ سنا اور یہ بھی ممکن‬
‫ہے کہ ایک شعر میں غالبب و جالبب کو توارد ہو گیا ہو ۔ اس لیے یہ قافیہ سوچتے وقت جب "بل بھی نہ سکوں" ذہن میں‬
‫آئے گا تو ایسی ہی دو چیزیں ہیں موت اور دوست ‪ ،‬اس لیے یہ مصرع تو بنا رکھا ہے ‪" :‬موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بل‬
‫بھی نہ سکوں "اب پہلے مصرعہ میں وہی بات کہنے کی تھی جو دونوں نے کہی۔ لیکن اپنے اپنے الفاظ میں کہی ۔ میرے‬
‫خیال میں غالبب کی یہ زبان نہیں ہے‪" ،‬مر رہنے کی سو راہیں ہیں" بہر حال اب آپ جانیں اور عرشیب صاحب جانیں ۔ میرا‬
‫"سلم کہیے گا‬
‫مولنا حامد حسن قادری کے اس بیان کے علوہ ایک اور شہادت بھی ہمارے سامنے ہے ۔ اس سے جہاں اس خیال کو تقویت‬
‫پہنچتی ہے کہ زی نر بحث اشعار غالبب ہی کے ہیں ‪ ،‬وہاں مطلع اور شعر "ہنس کے بلوائیے۔۔۔ ۔۔۔ الخ "مزید دریافت ہوئے‬
‫ہیں‬
‫کلیا نت اقبال کے مرتب عبدالرزاق راشد بحیدرآبادی مرحوم نے رسالہ تحفہ حیدرآباد کی جلد ‪ 6‬شمارہ ‪ 8،9‬بابت شعبان ‪ ،‬رمضان‬
‫‪ 1344‬ھ میں ایک نوٹ کے ساتھ یہ مکمل غزل شائع فرمائی تھی۔ انہوں نے اس کے متعلق جو معلومات "کلنم غالبب غیر‬
‫مطبوعہ"کے زی نر عنوان درج کی تھیں ‪ ،‬انہیں یہاں نقل کیا جاتا ہے۔‬
‫میرزا غالبب کا یہ کلم جسے ہم ذیل میں تبرک ا ا درج کرتے ہیں ہمیں ان کے ایک شاگرد قاضی عنایت حسین مرحوم کی بیاض"‬
‫سے دستیاب ہوا ہے۔ مولنا حسرتب موہانی اپنے مرتبہ دیوان میں غالبب کے شاگردوں کا ذکر کرتے ہیں ‪ ،‬لیکن قاضی مرحوم کا‬
‫نام نہیں لیتے۔ شعرا کے تذکروں میں بھی جو ہماری نظر سے گزرے ہیں ان کے حالت کا پتہ نہیں چلتا ۔ ہم اپنی معلومات‬
‫کی بنیاد پر چند باتیں یہاں بیان کرتے ہیں ‪:‬۔ خاندانن بنی سحمید کے ایک بزرگ علی نقی الدین کے بیٹے قاضی عنایت حسین‬
‫مرحوم بدایوں کے رہنے والے تھے ۔رشکیب تخلص کرتے تھے ۔ اچھے خاصے شعر کہتے تھے۔ ملزمت کے تعلق سے ہندوستان‬
‫کے مختلف شہروں میں قیام کیا‪ ،‬کچھ عرصے تک ریاست ٹونک میں ملزم رہے۔ اسی مقام پر مرزا غالبب سے تلمذ اختیار‬
‫کیا)مرزا صاحب کا سف نر ٹونک محل نظر ہے۔ عرشیب(جبکہ والی ٹونک کی خواہش پر ان سے ایک دو دفعہ ملنے گئے تھے۔‬
‫‪ 1883‬ء میں حیدرآباد آئے اور ‪ 1908‬ء تک یہیں مقیم رہ کر رود موسی کی مشہور طغیانی کے زمانے میں وطن مالوف چلے‬
‫گئے ‪ ،‬مگر وہاں ان کا جی نہ لگا ‪1912‬ء میں پھر عازنم دکن ہوئے‪ ،‬دکن پہنچ کر جام باغ کے محلے میں سکونت اختیار کی‬
‫۔ ‪ 1918‬ء میں قضا ان کو ہندوستان کھینچ لے گئی ۔ وہیں پیونند خاک ہوئے اور ایک اگلے وقتوں کی صورت مٹ گئی‬
‫اس امر کی نسبت کہ ذیل کے شعر غالبب کے ہیں ہم نے علمہ سید علی حیدر نظم طباطبائی نواب حیدر نواز جنگ سے‬
‫)جن کی غالبب شناسی بہت مشہور ہے اور جن کے دیوا نن غالبب کی شرح لکھنے کے بعد غالبب پر سے مہمل گوئی کا الزام‬
‫اٹھا(تحقیق چاہی ‪ ،‬اور دیگر صاحبا نن ذوق سے بھی استفسار کیا ۔ یہ سب اصحاب علمہ طباطبائی کے اس جواب سے اتفاق‬
‫کرتے ہیں کہ "بیا نض رشکی میں سے تین شعر )صحیح چار شعر ‪:‬عرشیب(جو مرزا غالبب کے نام سے لکھے ہوئے ہیں‪ ،‬یہ‬
‫مجھے بھی بلشبہ غالبب کا کلم معلوم ہوتا ہے" خود ہماری نظر جہاں تک کام دیتی ہے‪ ،‬ہم اس کو غالبب ہی کا کلم‬
‫سمجھتے ہیں ‪ ،‬اگر کسی صاحب کو اس میں شک و شبہ ہو تو وہ معقول وجوہ و دلئل کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار فرمائیں‬
‫" گے۔رشکیب کی بیاض میں یہ غیر مطبوعہ کلم جس طرح لکھا ہوا ہے ہم اس کو بجنسہ یہاں نقل کرتے ہیں‬
‫اس نوٹ کے بعد یہ ایک سطر بھی رسالہ "تحفہ " میں غزل سے پہلے درج ہے جو بیانض مذکورہ ہی سے نقل ہوئی ہے کہ‬
‫""یہ غزنل مرزا صاحب‪ ،‬پوری‪ ،‬دیوان میں طبع نہیں ہوئی ہے۔‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ " بیاض میں اندراج کرنے والے کو اس بات کا علم تھا کہ اس غزل کے تین شعر پہلے سے دیوانن‬
‫غالبب میں موجود ہیں اور یہ کہ ابھی تک یہ مکمل شکل میں کہیں شائع نہیں ہوئی ہے۔ ان سارے بیانات کے پینش نظر یہ‬
‫بات قاب نل تحقیق ہو جاتی ہے کہ نو دریافت شعر بھی غالبب ہی کے ہیں اور ان کا انتساب جالبب یا کسی دوسرے شخص کی‬
‫"طرف صحیح ہے یا غلط‬

‫۔‪10:‬‬

‫وصل میں ہجر کا ڈر یا د آیا‬


‫عین جنت میں سقر یاد آیا‬

‫۔‪11:‬‬

‫مزہ تو جب ہے کہ اے آنہ نارسا ‪،‬ہم سے‬


‫"وہ خود کہے کہ "بتا تیری آرزو کیا ہے؟‬

‫۔‪12:‬‬

‫حالت ترے عاشق کی یہ اب آن بنی ہے‬


‫اعضا شکنی ہو چکی‪ ،‬اب جان شکنی ہے‬

‫۔‪13:‬‬

‫گھر سے نکالنا ہے اگر‪ ،‬ہاں نکالیے‬


‫ناحق کی حجتیں نہ مری جاں‪ ،‬نکالیے‬

‫۔‪14:‬‬

‫لیں بوسہ ‪ ،‬یا مصیب ن‬


‫ت ہجراں بیاں کریں‬
‫اک منہ ہے ‪،‬کون کون سے ارماں نکالیے‬

‫۔‪15:‬‬

‫جو معشوق زلنف دوتا باندھتے ہیں‬


‫مرے سر سے کالی بل باندھتے ہیں‬

‫قاضی معراج دھولپوری مرحوم کے پاس "بانغ مہر" نام کی ایک کتاب محفوظ تھی ۔ جسے میر مہر علی اکبر آبادی نے ‪ 7‬صفر‬
‫‪ 1275‬ھ مطابق ‪ 15‬اگست ‪ 1861‬ء رونز پنجشنبہ کو تمام کیا تھا۔ اس میں اشعانر متفرق کے تحت "مرزا نوشہ" کے نام سے‬
‫بھی شعر درج تھے۔ یہ شعر )‪ 15‬تا ‪ ( 10‬انہیں میں سے ہیں ۔ یہ اشعار قاضی صاحب نے تبرکانت غالبب کے عنوان سے‬
‫"ہماری زبان " کے شمارہ ‪ 8‬اگست ‪ 1961‬ء میں شائع کرائے تھے۔‬

‫۔‪16:‬‬

‫نتیجہ اپنی آہوں کا ہے شکنل مستوی پورا‬


‫ب گراں کیوں ہو‬‫ہیولیی صورنت کابوس پھر خوا ن‬

‫یہ شعر فاضل زیدی صاحب نے رسالہ طوفان ‪ ،‬نواب شاہ کے شمارہ جولئی ‪ 1951‬ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع کیا تھا‪:‬۔‬
‫سید احمد حسین میکشب ‪ ،‬شاگرند غالبب جو بع ند غدر بے جرم و خطا انگریز کے عتاب کا نشانہ بنے‪ ،‬غدر سے قبل کچھ دنوں"‬
‫پاٹودی میں مقیم رہے۔ میر امید علی ‪ ،‬رئی نس شاہ پور )پاٹودی (اور ان کے درمیان رشتہ اخلص و محبت تھا اور انہی کی‬
‫کشش ان کو پاٹودی کھینچ لئی تھی ۔ میکشب نے اپنے استاد کی مشہور غزل "سب کہاں کچھ للہ و گل میں نمایاں ہو گئیں‬
‫" ۔ اور "کسی کو دے کے دل کوئی نوا سننج فغاں کیوں ہو" میر صاحب کو بطونر تحفہ نقل کر کے دی تھیں جو ان کے‬
‫صاحبزادے حکیم حبیب حسین کی ملکیت رہیں ۔ اور اب حکیم مرحوم کے لواحقین کے پاس ہیں۔ آخر الذکر غزل میں مروجہ‬
‫غزل سے ایک شعر زائد ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالبب نے بعد میں یہ شعر غزل سے خارج کر دیا۔ میکشب کو یہ اتفاقا ا‬
‫"زبانی یاد تھا۔ اس لیے انہوں نے لکھ دیا اور محفوظ رہ گیا ۔‬
‫٭٭٭‬

‫لو صاحبو! میں بھی اپنی بھیرویں الپتا ہوں‬

‫اگر آپ پڑھتے پڑھتے یہاں تک آ ہی پہنچے ہیں تو ایک ممنونیت بھرا سلم قبول فرمائیے ‪،‬یہ کتاب جو آپ نے ملحظہ‬
‫فرمائی دیوانن غالبب کی مکمل صورت ہے ‪ ،‬اسے بجا طور کلیانت غالبب اردو کہا جا سکتا ہے۔ میرے پلے لمبے چوڑے دعوے‬
‫کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے‪ ،‬حت یی کہ میں تو "پدرم سلطان بود" کا نعرہ مستانہ بھی نہیں لگا سکتا ۔ مگر اتنا ضرور‬
‫کہوں گا کہ اس کتاب کے درست ہونے شک نہیں کیا جا سکتا ‪ ،‬اس کو مرتب کرتے وقت حتی المکان کوشش کی گئی ہے‬
‫کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی نہ ہو‪ ،‬اور غالبب کے چاہنے والوں تک صحیح ترین صورت میں کلنم غالبب پیش کیا‬
‫جائے۔ اس کتاب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں پڑھنے والوں کو خوامخواہ کی حاشیہ بازی سے بچایا گیا ہے‪ ،‬اور بہت‬
‫سی غیر ضروری باتیں جو صرف کتاب کی ضخامت بڑھانے کے لئے لکھ دی جاتی ہیں ‪ ،‬ان کو کتاب سے دور کر دیا گیا ہے۔‬
‫ایک اور تبدیلی اصل کتاب سے ای بک کی تشکیل کے وقت یہ لئی گئی ہے کہ جو نثری مضامین کتاب کے شروع میں تھے‪،‬‬
‫انہیں کتاب کے آخر میں لیا گیا ہے‪ ،‬کیونکہ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی تھی کہ اکثر لوگ دیوان پڑھنے کے لئے جب یہ‬
‫کتاب کھولتے ہیں تو انہیں ‪ 300 / 200‬صفحات پر صرف ادھر ادھر کی باتیں ہی پڑھنے کو ملتیں ‪ ،‬جس کی وجہ سے یہ‬
‫کتاب عوام کی سمجھ سے باہر ہے ۔ تحقیق والے خواتین و حضرات کے پاس یقینا ا اس کتاب کے اصل نسخے ہوں گے‪ ،‬مگر‬
‫جیسا کہ میں کہا کہ خالصت ا ا عوامی نقطہ نظر سے مرتب کی گئی ہے ۔ اس لیے چند ضروری تبدیلیاں لئی گئی ہیں ۔ امید‬
‫ہے میری یہ جسارت زیادہ گراں نہیں گزرے گی۔ یہ یقینا ا ایک کانر دشوار تھا ‪ ،‬جس میں اللہ تعالیی کی دی ہمت اور غالبب‬
‫کی محبت کے سہارے خاکسار پورا اترا۔میں جب خود سوچتا تو ہوں حیران ہوتا ہوں کہ مجھ جیسے آلسی بندے نے یہ کیسے کر‬
‫ڈال۔ تو اس کا جواب ایک ہی نظر آتا ہے محبت‬
‫جی ہاں یہ محبت ہی ہے جس نے مجھ سے یہ کام کروایا اور آپ بھی اسی محبت کے مارے ہیں جو پڑھتے پڑھتے یہاں‬
‫تک آ پہنچے ہیں۔‬
‫نجم الدولہ ‪ ،‬دبیر الملک ‪،‬نظام جنگ‪ ،‬مرزا نوشہ اسداللہ بیگ خان بہادر غالبب کی عظمتوں کو اردو کا سلم‪ ،‬اردو بولنے والوں‬
‫کا سلم ‪ ،‬جب تک دنیا میں اردو بولی جاتی رہے گی ‪ ،‬مجھے یقین ہے غالبب کی شاعری پڑھی جاتی رہے گی ۔ اور میرا یہ‬
‫ایک نذرانہ ہے جنا نب غالبب کے چاہنے والوں کی خدمت میں اس اعتراف کے ساتھ کہ ‪:‬۔‬
‫حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‬
‫عظیم غالبب کا ایک ادنیی سا مداح ‪:‬۔ سید اویس قرنی المعروف چھوٹا غالبب‬
‫٭٭٭‬

‫مزید ٹائپنگ اور تحقیق و جمع و ترتیب‪ :‬اویس قرنی‪ ،‬اردو محفل‬
‫‪http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%86%D9%90-%D8%BA‬‬
‫‪%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%94-%DA%A9%D8%A7%D9%85%D9%84-%D9%86%D8%B3%D8%AE%DB%81-‬‬
‫‪%D8%B1%D8%B6%D8%A7%D8%94-%D8%A7%D8%B2-%DA%A9%D8%A7%D9%84%DB%8C-%D8%AF%D8%A7%D8%B3-‬‬
‫‪%DA%AF%D9%BE%D8%AA%D8%A7-%D8%B1%D8%B6%D8%A7.49652/‬‬
‫پروف ریڈنگ‪:‬اعجاز عبید اور اویس قرنی‬
‫تدوین اور ای بک کی تشکیل‪ :‬اعجاز عبید‬

You might also like