You are on page 1of 2

‫نا انصافی‬

‫پرانے زمانے کی بات ہے۔ایک گاؤں کا نام روپ نگر تھا ‪ -‬روپ نگر گاؤں کے لوگ بڑے ہی چین سے زندگی بسر کرتے تھے مگر ان‬
‫میں ایک خامی تھی کہ وہ توہم پرست تھے ‪-‬ایک دفعہ اس گاؤں میں کہیں سے ایک' الو 'اڑ کر آ گیااور ایک درخت پر رہنے لگا‪ -‬وہ ہر روز رات‬
‫کے وقت بولتا تھا‪ -‬اس کے بولنے سےگاؤں کے لوگ بہت پریشان ہوئے ‪ -‬وہ سمجھتے تھے کہ جس بستی میں 'الو 'بولتا ہے وہ برباد ہو جاتی ہے‪-‬‬
‫کئی دن یونہی گزر گئے‪' -‬الو'رات کوبولتا اوربستی کےلوگ ڈرتےرہتے۔آپس میں یہی کہتے کہ اب یہ گاؤں تباہ ہو جاے گا کیوں کہ یہاں 'الو 'بولتا‬
‫ہے‪' -‬الو 'تمام دن اپنے خالف لوگوں کی باتیں سنتا ‪ ،‬ان کی حماقتیں اور نا انصافیاں دیکھتا مگر خاموش رہتا۔ ایک دن اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں‬
‫نحوست کا یہ الزام دھو دوں اور ان لوگوں کو حقیقت بتاؤں۔ چنا نچہ ایک روز اس نے خاص درخت چھوڑا جس پر وہ بیٹھتا تھا اور اس مکان میں‬
‫رہنے لگا جس میں ایک شخص اکیال رہتا تھا‪ -‬رات کو جب 'الو 'بولتا تو گھر کا مالک کسی نہ کسی طرح اس کو اڑا دیتا ‪ -‬جب وہ اڑ جاتا تو سو جا‬
‫تا ‪ -‬جو نہی وہ سوتا 'الو 'آکر اس کے سر میں چو نچیں مارنے لگتا اور کہتاکہ یہ میرا گھر ہے تم اسے چھوڑ دو ۔ جب اس واقعے کو کئی دن گزر‬
‫گئےاور'الو'گھرسےنہ گیاتواس آدمی نےیہ بات اپنےدوستوں کوبتائی ۔یہ لوگ اس آدمی کےساتھ گاؤں کےسرکردہ لوگوں کے پا س گئےاوراس‬
‫نےروروکر'الو'کی زیادتی اوراپنی بےبسی کاقصہ سنا یا ‪ -‬گھر کے مالک نے اپنا زخمی سر بھی دکھایا اور ان سے انصاف طلب کیا‪ -‬اگلے دن‬
‫گاؤں کے معزز لوگ گاؤں کے چو پال میں جمع ہو ے۔'الو 'اور اس آدمی کو بالیا گیا ۔گاؤں کے دوسرے لوگ بھی فیصلہ سننے کے لے چلے آئے۔‬
‫گھر کے مالک سے اس کی دکھ بھری داستان سنی گئی‪ -‬پھر' الو 'سے پوچھا گیا کہ یہ کیا قصہ ہے؟ 'الو 'نے نہایت یقین اور ا عتما د سے کہا"‬
‫ا عتما د سے کیا کہ گاؤں‬ ‫عوی اتنے‬
‫ٰ‬ ‫مکان میرا ہے اور میرا ہی رہے گا۔ میں اس میں رہتا ہوں۔ یہ شخص ناحق شور مچا تا ہے۔" الو نے یہ د‬
‫کے معزز لوگ کچھ نہ بول سکے اور انھوں نے 'الو' کے حق میں فیصلہ سناتے ہو ے کہا" الو سچا ہے۔ مکان اس کا ہے۔" انھوں نے مالک سے‬
‫کہا " خو ا ہ مخو اہ جھوٹ مت بولو اور کسی کی چیز پر قبضہ مت جماؤ۔جاو کہیں اور رہنے کا بندوبست کرو" ۔'الو 'خوش خوش ایک طرف کو‬
‫چال گیا اور مالک مکان بے چارہ روتا ہوا ایک طرف کو چل دیا ۔دوسرے لوگ بھی اپنے اپنے گھر جانے کے لیے منتشر ہو نے لگے‪ -‬کچھ دور‬
‫جا کر الو واپس آیا ۔اس شخص کو بال یا جو روتا ہوا جا رہا تھا اور باقی لوگوں کو بھی بیٹھنے کو کہا۔ تمام لوگ حیران تھے کہ 'الو 'کیوں واپس آیا‬
‫ہے۔اس سوچ بچار میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ' الو 'ان سے مخا طب ہوا۔ " اے روپ نگر کے رہنے و ا لو ! جب سے میں تمھاری‬
‫بستی میں آیا ہوں مسلسل یہی سن رہا ہوں کہ 'الو' منحوس ہے۔ اس کے بولنے سے بستی اجڑ جائے گی مگر یہ خیال غلط ہے۔ میرے بولنے سے یہ‬
‫بستی نہیں اجڑے گی ‪ -‬اس کو تمھاری نا انصافی برباد کر دے گی ۔ خو د سوچو! کبھی الو کا بھی مکان ہوا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں ۔مکان انسانوں کے‬
‫ہی ہوا کرتے ہیں ۔یہ تمھارا کیسا انصاف ہے کہ میری باتوں سے مرعوب ہو کر تم نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا جو سراسر غلط اور نا جائز‬
‫ہے"۔پھر مکان کے مالک کو مخاطب کیا ‪ ":‬بھائی! گھر تمھارا ہی ہے‪ ،‬تمھیں مبارک ہو ۔میں تو بستی والوں کو صرف یہ بتانا چا ہتا تھاکہ انھوں‬
‫نے مجھ پر جو الزام دھرا تھا کہ 'الو 'منحوس جانور ہے۔یہ جس آبادی میں آکر بولتا ہے یا رہتا ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے۔بالکل غلط ہے۔کوئی کسی کو‬
‫تباہ نہیں کرتا مگر نا انصافی اور ظلم بستیاں اجاڑ دیتے ہیں "‬
‫درج ذیل سواالت کے مختصر جوابات دیں‬ ‫‪‬‬
‫‪ )1‬روپ نگر کے لوگ کس مرض میں مبتال تھے؟‬
‫‪ )2‬الو کے بارے میں لوگوں کا کیا خیال تھا؟‬
‫‪ )3‬الو نے اپنی اہمیت کا اظہار کس طرح کیا؟‬
‫‪ )4‬پنچائیت نے الو کے حق میں فیصلہ کیوں دیا؟‬
‫‪ )5‬الو نے تباہی کی کیا وجہ بتائی؟‬
‫طوطا ‪ ،‬طوطی اور الو کی کہانی‬
‫کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ‪ ،‬ویرانی دیکھ کرطوطی نے طوطے سے پوچھا"کس قدر ویران گاؤں‬
‫ہے"؟ “طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ہے۔"جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ‪ ،‬عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے‬
‫گزر رہا تھا ‪،‬اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بوال‪ ،‬تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو‪ ،‬آج رات تم لوگ‬
‫میرے مہمان بن جاؤ‪،‬میرے ساتھ کھانا کھاؤ‪،‬اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انھوں نے اُلو کی دعوت قبول‬
‫کرلی‪،‬کھانا کھا کر جب انھوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی‪ ،‬تو اُلو نے طوطی کاہاتھ پکڑ لیا ور کہا۔ تم کہاں جا رہی ہو ‪،‬طوطی پرشان ہو کر‬
‫بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ‪،‬میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔الو یہ سن کر ہنسا‪،‬اور کہا‪،‬یہ تم کیا کہ رہی ہو تم تو میری بیوی‬
‫ہو‪.‬اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی۔‬
‫دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں‬
‫عدالت چلتے ہیں اور اپنامقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں‪،‬قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان‬
‫گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ‪،‬قاضی نے دالئل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی‪،‬طوطا اس‬
‫بے انصافی پر روتا ہوا چل دیاتو اُلو نے اسےآواز دی ‪"،‬بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ"طوطے نےحیرانی سے اُلو کی‬
‫طرف دیکھا اور بوال"اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتےہو‪ ،‬یہ اب میری بیوی کہاں ہے ‪،‬عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“۔‬
‫اُلو نے طوطے کی بات سن نرمی سے بوال‪ ،‬نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے‪.‬میں تمھیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ‬
‫بستیاں الو ویران نہیں کرتے‪ .‬بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔‬
‫درج ذیل سواالت کے مختصر جوابات دیں۔‬ ‫‪‬‬
‫‪ )1‬الو نے طوطا اور طوطی کو دعوت کیوں دی؟‬
‫‪ )2‬الو اور طوطے میں جھگڑا کیوں ہوا؟‬
‫‪ )3‬فیصلے کی روشنی میں الو نے طوطے سے کیا کہا؟‬
‫‪ )4‬کہانی کا خالقی نتیجہ کیا ہے؟‬
‫مداری‬
‫کسی ملک میں ایک ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ساری رعایا اس کے ظلم و ستم سے بہت تنگ تھی۔ ایک دن تنگ آکر رعایا نے بادشاہ کو ملک‬
‫بدر کر دیا۔ جب نئے بادشاہ کو منتخب کرنے کا وقت آیا تو ہر طرف بحث شروع ہو گئی۔ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی آراء پیش کیں۔ آخر فیصلہ یہ‬
‫ہوا کہ ملک کے سب سے بے ضرر انسان کو بادشاہ بنایا جائے تاکہ عوام پر کوئی ظلم نہ ہو اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں۔ اس کے بعد‬
‫عوام نے متفقہ طور پر ایک مداری کو اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔‬
‫جب ہمسایہ ممالک کو علم ہوا کہ وہاں اب ایک مداری حکومت کر رہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے سازباز کر کے حملہ کر دیا۔ محل‬
‫میں کسی نے آکر مداری کو اطالع دی کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ مداری کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنے تماشے میں مگن رہا۔‬
‫آہستہ آہستہ حملے کی خبر پھیل گئی تو لوگ محل کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ دربان نے مداری کو بتایا کہ “بادشاہ سالمت‪ ،‬محل کے باہر سب لوگ‬
‫جمع ہو گئے ہیں اور کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں”۔ یہ سن کر مداری نے ڈگڈگی پکڑی اور اپنے بندر کو لے کر محل سے باہر آیا۔ اس نے‬
‫لوگوں کو بتایا کہ بے فکر رہو میں کاروائی کرنے لگا ہوں۔‬
‫اور اس کے بعد سب لوگ بندر کا تماشہ دیکھنے میں محو ہو گئے اور انہیں یاد ہی نہ رہا کہ دشمن کی فوجیں ان کے سر پر پہنچ چکی ہیں۔ جب‬
‫ایک ہرکارے نے آخری بار سب کو خطرے سے آگاہ کیا تو مداری اپنے گدھے پر اپنے سازوسامان سمیت سوار ہو گیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں‬
‫سے چل دیا کہ “جو میں تمھارے لیے کر سکتا تھا کر دیا‪ ،‬اب تم جانو اور تمہارا ملک!”‬
‫درج ذیل سواالت کے جوابات تحریر کریں۔‬ ‫‪‬‬
‫‪ )1‬بادشاہ کو کس لیے ملک بدر کر دیا گیا تھا؟‬
‫‪ )2‬عوام نے کس شخص کو اور کیوں بادشاہ بنایا؟‬
‫‪ )3‬ہمسایہ ملک نے ان پر حملہ کیوں کیا؟‬
‫‪ )4‬مداری نے کیا کیا؟‬
‫حکایت‬
‫بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت سلیمان علیہ السالم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ"اے پیغمبر خدا! میں نے ایک باغ آراستہ دیکھا‬
‫ہے کہ اس میں بہت سے میوے ہیں اور میں نے دیکھا کہ اس باغ میں ایک بہت بڑا خنزیر بیٹھا ہے اور مجھ سے لوگوں نے کہا کہ یہ باغ اس‬
‫خنزیر کی ملکیت ہے۔ میں اس بات سے حیران ہوں اور باغ میں بہت سے خنزیروں کو میوے کھاتے ہوئے دیکھااور لوگوں نے کہا کہ یہ تمام‬
‫خنزیر اس بڑے خنزیر کے حکم سے میوے کھاتے ہیں"۔‬
‫حضرت سلیمان علیہ السالم نے فرمایا کہ‪":‬وہ بڑا خنزیر ظالم اور جابر بادشاہ ہےاور دوسرے خنزیر دانش مند حرام خور ہیں‪ ،‬جو ظالم بادشاہ کے‬
‫مطیع اور تابع فرمان ہیں اور دین کو دنیا کے بدلے بیچتے ہیں"۔‬
‫درج ذیل سواالت کے جوابات لکھیں۔‬ ‫‪‬‬
‫‪ )1‬بادشاہ کو ایک نجس(ناپاک) جان ور جیسا کیوں کہا گیا ؟‬
‫‪ )2‬خواب میں دانش مند حرام خوروں کو خنزیر ‪،‬جیسا کیوندکھایا گیا؟‬
‫‪ )3‬اس عبارت سے کیا سبق ملتا ہے؟‬

You might also like