Professional Documents
Culture Documents
سورج چاند اور زمین از قلم یاسر لاہوری
سورج چاند اور زمین از قلم یاسر لاہوری
ہم اس تحریر میں سورج چاند اور زمین کے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ ان کے مدار ،محوری گردشوں ،ان کی عمر اور کیفیت
کے متعلق پڑھیں گے۔
اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ یہاں مختصرًا دو باتیں دو عظیم طبقہ کے لوگوں کی خدمت
میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
نمبر ایک سائنسی و دنیاوی علوم کے ماہر حضرات سے1-
نمبر دو دینی علوم کے جاننے والے دوست و احباب سے2-
ان سے گزارش یہ ہے کہ
اگر آپ کو سائنس اور مذہبی علوم میں تضاد نظر آتا ہے تو اپنا مطالعہ بڑھائیے۔۔۔مکمل تحقیق کیجئیے ،تحقیق کے بعد بھی اگر
سائنس مذہب سے ٹکرا رہی ہے یا مذہب سائنس سے ٹکراتا نظر آ رہا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اور ہماری سائنس وہاں تک ابھی
پہنچے ہی نہیں ،اس بات کو سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہوئے جو بات قرآن پاک یا حدیث نے ہمیں بتائی ہے۔یعنی ہم محدود ہیں اس
کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سائنس اور مذہب کو غلط کہنے لگ جائیں۔دوسری گزارش ان دوستوں سے ہے “جو کسی بھی سائنسی
مضمون میں مذہبی ریفرنسسز اور آیات قرآنی وغیرہ کو قبول نہیں کرتے” کہ میرے بھائی دنیا کی کوئی ایسی کتاب یا علم کا
مجموعہ دکھا دیں جس میں اس احسن انداز میں فلکیات پر بات کی گئی ہو جیسے قرآن نے کی ہے ،یقینا ً ایسا فلکیاتی علم قرآن کے
عالوہ کسی اور ذریعے سے انسان کو عطا نہیں کیا گیا تو کیا پھر مضامی ِن فلکیات میں قرآن میں بیان کردہ فلکیاتی علوم کو جگہ نا
دینا ناانصافی نہیں ٹھہرتا ہے؟ ہر تخلیق اور ایجاد کے تذکرے میں اس کے خالق اور موجد کا تذکرہ جب تک نا کیا جائے ،میں یہ
سمجھتا ہوں کہ وہ تذکرہ انصاف پر مبنی نہیں ہوتا تو بحیثیت مسلمان ہم یہ بات مانتے کہ سورج چاند سیارے ستارے اور تمام کے
تمام فلکیاتی اجسام کا خالق ہللا ہے تو پھر اس تخلیق میں اس کے خالق تذکرہ کیوں نہیں آنا چاہئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کبھی جھانکنے کی کوشش کریں تو بے Spaceگرمیوں کی رات میں کھلے آسمان تلے لیٹ کر بے پناہ وسعتوں کے حامل خالء
شمار اَن ِگنت جگمگاتے چھوٹے بڑے ستارے آپس میں سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ جب چاندنی راتیں آتی
ہیں تو زیادہ چھوٹے اور دوری والے ستارے چاند کی چاندنی میں اپنا جلوہ حسن دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو یوں لگتا ہے
گویا یہ چھوٹے مہمان کائنات کی سیر کو نکل گئے ہیں اور اب چاند کے جانے پر ہی واپس اپنے اپنے گھر کا راستہ دیکھیں
گے۔غروب آفتاب کے کچھ ہی دیر بعد جو ستارہ آپ کو مشرق کے کناروں پر ملے گا ،رات کے دوسرے پہر وہ ستارہ آپ کے سر
پہ پہنچا ہوگا اور رات کے اختتام پر اندھیرا غائب ہونے سے پہلے آپ کو وہی ستارہ مغرب کے کناروں سے الوداع کہتا ہوا نظر
آئے گا ،مطلب آسما ِن دنیا پر موجود تمام ستارے بھی اپنے اپنے مقررہ وقت پر آتے جاتے ہیں بالکل چاند اور سورج کے آنے جانے
کی طرح۔جس طرح چاند ہماری زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور ہماری زمین سورج کے گرد اور ہمارا سورج ہماری کہکشاں کے
پر چکر لگا رہی ہے۔سائنسی ترقی کے بعد سے ابھی تک کے orbitمرکز کے گرد ،ایسے ہی کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے مدار
میں اربوں کہکشائیں Universمشاہدات اور فلکیاتی تحقیقات کے مطابق جو اعداد و شمار حاصل ہوئے ہیں ،ان کے مطابق کائنات
ہیں ،ہر ایک کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ان ستاروں کے ہمارے ستارے سورج کی طرح اپنے اپنے سیارے بھی galaxies
ہوں گے پھر ان سیاروں کے اپنے چاند ،یہ تمام کے تمام اپنے اپنے مدار میں چکر لگا رہے ہیں۔اس قدر ُمنظَّم اور ریاضی کے
قوانین کے عین مطابق کائنات کا یہ اربوں نوری سال “ ُمشاہداتی احاطہ” کی مسافتوں پر بچھا ہوا جال یقینا اپنے بنانے والے کی
المحدود علمی وسعتوں اور طاقتوں کی گواہی کے لئے کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین
سب سے پہلے ہمارے علم میں یہ بات ہونی چاہئیے کہ زمین ایک سیارہ ہے ،ستارے اور سیارے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ستارہ اپنی
روشنی خود پیدا کرتا ہے جب کہ سیارہ ستارے کی روشنی سے روشن رہتا ہے۔مزید یہ کہ سیارہ ستارے کی کشش ثقل کے کنٹرول
ت انسانی کا واحد
میں ہوتا ہے اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے کسی اور اوبجیکٹ کے مدار میں دخل اندازی نہیں کرتا۔زمین حیا ِ
ت زندگی سے ماال مال ،کائنات کے اس وسیع و عریض فلکیاتی جنگل میں زندگی کی گہما گہمی سے بارونق َمسکن اور ضروریا ِ
اور ُمزیّن ،الکھوں کھرب میلوں پر پھیلی اس کائنات میں لگ بھگ بارہ ہزار سات سو بیالیس کلومیٹر ڈائی میٹر رکھنے واال ہمارا
سر سبز و شاداب اور پانی سے بھرپور سیارہ ہے۔
جس طرح زمین پر بعض عالقے تمام موسموں اور درجہ حرارت کی وجہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح نظام شمسی
کے تمام سیاروں میں زمین بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔۔۔مثال زمین سے سورج کی طرف نظر ڈالیں تو عطارد اور زہرہ جل
رہے ہیں ،اور دوسری طرف کے سیارے دیکھیں تو اس قدر ٹھنڈے ہیں کہ انسان کا ان سیاروں پر زندہ رہنا ناممکن ہے۔یعنی ہم کہہ
سکتے ہیں کہ زمین کے پاس وہ معتدل و سنہری عالقہ ہے جو پورے نظام شمسی میں کسی اور سیارے کے پاس نہیں ہے۔
ہمارے سیارے یعنی زمین کا ہمارے ستارے سورج سے اوسط فاصلہ چودہ کروڑ چھیانوے الکھ کلومیٹر ہے۔۔۔زمین سورج کے گرد
ہی چکر لگاتی ہے ایسا بالکل نہیں ،بلکہ زمین سورج کے گرد چکر لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے محور کے گرد بھی گھومتی
ہے۔سورج کے گردایک الکھ آٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک چکر پورا کرنے میں زمین کو تین سو پینسٹھ دن لگتے
ہیں۔اب ہمارے ورطہ حیرت میں مبتال ہونے کا وقت ہے ،جب تین سو پینسٹھ 365کو ملٹی پالئی کریں گے چوبیس کے ساتھ ،ایک
دن میں چوبیس گھنٹے ہیں اور سال میں تین سو پینسٹھ دن ہیں۔زمین ایک گھنٹے میں ایک الکھ آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرتی ہے
اور ایک سال میں آٹھ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹے ہیں۔اب ہم زمین کے ایک گھنٹے میں طے کئے ہوئے فاصلے کو ضرب دیں گے
ایک سال میں موجود 8760گھنٹوں سے۔
108000×8760=946000000
زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر چورانوے کروڑ ساٹھ الکھ کلومیٹر ایک سال میں سفر طے کرتی ہے۔کیا سمندر ،کیا پہاڑ ،کیا
دریا ،جھیلیں اور جنگل صحرا۔غرض زمین پر موجود ہر ہر چیز زمین کے ساتھ ہر وقت ایک مسافر کی حالت میں رہتی ہے۔گویا
زمین ایک بہت بڑے خالئی جہاز کی مانند ہمیں بشمول ہر چھوٹی بڑی چیز کے ہر وقت خالء کی المحدود وسعتوں میں لئے پھرتی
پر۔تخلیق زمین کے دن سے لے کر
ِ ہے مگر ُشتر بے مہار کی طرح نہیں بلکہ ایک خاص متعین کئے ہوئے اپنے مخصوص راستے
زمین کا یہ سفر جاری ہے اور زمین کے فنا تک یہ سلسہ یونہی بغیر رکے ،بغیر تھمے جاری و ساری رہے گا۔
زمین کا سورج کے گرد مدار ہر طرف سے ایک جیسا نہیں ہے۔۔۔بلکہ ایک طرف سے نزدیک اور دوسری طرف سے کم ہے۔ زمین
اور سورج کا درمیانی فاصلہ پچاس الکھ کلومیٹر تک بڑھتا گھٹتا ہے۔اب ہم آتے ہیں زمین کی محوری گردش کی طرف ،رات اور
دن کا آنا جانا صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے کا دلفریب نظارہ اور شام کے وقت غروب آفتاب کا حسین منظر ،دوپہر کے
وقت آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی اور زمین کے باسیوں کو تڑپا دینے والی حدت و شدت سے بھرپور دھوپ۔یہ سب کچھ
یونہی نہی ،بلکہ ایک مکمل منظم شدہ نظام کے تحت ہوتا ہے۔زمین اپنے محور پر چار سو ساٹھ 460میٹر پر سیکنڈ یا ایک ہزار
1000میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتے ہوئے تقریبا چوبیس 24گھنٹے میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔اس دوران زمین اپنے
مدار پرکم و بیش چھبیس الکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا ہمیں اس لئے معلوم نہیں ہوتا
کہ ہم بذات خود زمین کے اوپر رہتے ہوئے اس کی ہر ہر حرکت کے ساتھ متحرک رہتے ہیں۔فرض کیجیئے آپ ایک آرام دہ گاڑی
پر ہیں ،ایسی گاڑی کہ جو ایک سو بیس 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے اور وہ اس قدر آرام دہ ہے کہ اتنی
زیادہ رفتار کے باوجود اس کے اندر رکھا ہوا پانی سے بھرا گالس بھی حرکت نا کرے تو مسافر کو کیا معلوم ہو گا اس گاڑی کا تیز
رفتار چلنا اور حرکت کرنا۔زمین اس گاڑی سے بھی زیادہ آرام دہ یے کیوں کہ آج کی سائنسی اور اسالمی دونوں علوم سے یہ بات
ثابت ہو چکی ہے کہ زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لئے پہاڑوں کو میخوں کے قائم مقام زمین پر لگا دیا گیا ہے۔قدرت کی
کشش ثقل کی لہروں اور موجوں کو اس قدر ُمنَظَّم بنایا گیا ہے کہ زمین کیا۔۔۔کائنات کی ہر چیز کشش ثقل کی بدولت ہی
ِ طرف سے
اپنے اپنے مدار پر نہایت ہی منظم طریقے سے چکر لگا رہی ہے ،کوئی اوبجیکٹ کسی دوسرے اوبجیکٹ سے نا ٹکراتا ہے نا ڈولتا
ہے اور نا ہی خالء کی بے پناہ گہری کھائیوں میں گرتا ہے۔
زمین کی محوری گردش معلوم کرنی ہو تو رات آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے رہیئے ،چند لمحوں میں سر پر موجود مشکل
سے نظر آنے واال ستارہ مغرب کی طرف دو قدم آگے بڑھ چکا ہو گا۔آپ کسی ویران جگہ میں پھنسے ہیں ،جنگل صحرا یا تا حد
نگاہ پھیلے کسی برفانی عالقے میں اور آپ کے پاس راستہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔۔۔ایسے میں زمین کا شمالی
قطب معلوم کرنا ہو تو آسمان کے چاروں کناروں پر نظر ڈالئے ،ذرا اوپر نظر کر کے دیکھئے ،درمیانے درجے کی روشنی رکھنے
واال ستارہ اپنی جگہ سے بالکل بھی ادھر ادھر نہیں ہو رہا ہے تو سمجھ لیجیئے کہ یہی زمین کا شمالی حصہ ہے اور جو ستارہ اپنی
سٹار کہتے ہیں۔زمانہ قدیم کے لوگ اور اب بھی Polarisجگہ سے حرکت نہیں کر رہا وہ قطب ستارہ ہے جسے انگلش میں
صحراؤں ،جنگلوں میں رہنے والے لوگ اسی سے راستہ معلوم کرتے ہیں۔زمین کے قطبین کے عالقوں میں بعض خطے ایسے بھی
ہیں کہ جن میں چھ مہینے دن بسیرا کئے رکھتا ہے اور چھ مہینے تک رات کسی رانی کی طرح برف پوش عالقوں پر حکمرانی
کرتی ہے۔۔۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ زمین اپنے محور کے گردصرف دائیں سے بائیں گھومتی ہے ،اوپر سے نیچے یا نیچے
سے اوپر کی طرف نہیں۔سورج کے سامنے بالکل سیدھی بھی نہیں بلکہ ترچھی حالت میں ،اسی لئے چھ چھ ماہ بعد قطبین پر رات
اور دن جلوہ افروز ہوتے ہیں۔چھ ماہ کے دن بھی کچھ خاصے گرم اور دھوپ والے نہیں ہوتے ،دور کنارے کی طرف سے سورج
سے لڑتے ہوئے قطبین کے اُن برفانی اور یخ بستہ عالقوں کو گرم کرنے کی ) (atmosphereکی روشنی اور حرارت ایٹمو سفیئر
اپنی سی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔قطبین کے عالقوں میں انٹارکٹکا ،آرکٹک ،گرین لینڈ ،ناروے ،کینڈا ،ارجنٹائن اور االسکا
وغیرہ کے عالقے شامل ہیں۔محوری گردش کے دوران زمین کے جو عالقے مکمل طور پر سورج کے سامنے رہتے ہیں ان کا
درجہ حرارت بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے ،جیسا کہ افریقہ ،جنوبی ایشیا اور امریکہ کے کچھ خطے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند
زمین کا واحد قدرتی سیارچہ
سیارچہ اس خالئی جسم کو کہتے ہیں جو کسی سیارے کے تابع ہو جیسے چاند ہماری زمین کے تابع ہے اور ہماری زمین ایک
سیارہ ہے۔مصنوعی سیارچے ان اجسام کو کہتے ہیں جو انسان نے زمین کے مدار میں چھوڑے ہیں جنہیں سیٹالئٹس بھی کہا جاتا
ہے۔زمین سے تین الکھ چوراسی ہزار کلومیٹر دور رہ کر زمین کے گرد گھومنے واالچاند بھی زمین ہی کی طرح اپنے مدار پر بھی
چکر لگاتا ہے اور اپنے محور پر بھی لیکن اس کا مدار اور محوری گردش زمین سے کچھ مختلف ہے۔چاند کی کشش ثقل زمین کی
کشش ثقل سے چھ گنا کم ہے۔تقریبا ایک کلومیٹر سے کچھ زیادہ فی سیکنڈ کی رفتار سے چاند زمین کے گرد اپنا ایک چکر ستائیس
اعشاریہ تیس 27.30دنوں میں پورا کر لیتا ہے۔ہم زمین سے چاند کا صرف ایک ہی رخ کیوں دیکھ پاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب
میں چاند کے متعلق آپ کو حیرت ناک معلومات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
برابر ہے۔یعنی جس طرح چاند زمین کے گرد ستائیس اعشاریہ تیس دن میں ایک rotational periodاور orbital periodچاند کا
چکر پورا کرتا ہے بالکل ایسے ہی اپنے محور کے گرد بھی ستائیس اعشاریہ تیس دنوں میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔زمین کی
کشش ثقل نے چاند کو جکڑ کے اس کی محوری گردش کو نہایت سست رفتار کر دیا ہے ،مطلب چاند کی سپننگ ِ نہایت طاقت ور
رفتار نہایت سست ہے ،اسی سست رفتاری کی بدولت زمین سے چاند کا ایک ہی رخ ہم دیکھ سکتے ہیں۔اس کی محوری سست
رفتاری کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب چاند پر دن چڑھتا ہے اور دھوپ اپنا آپ دکھانا شروع کرتی ہے تو
پھر آئندہ پندرہ دن تک وہاں رات نہیں آتی ،پندرہ دن تک مسلسل دھوپ میں رہنے کے باعث چاند کی اناستھرو سائٹ نامی چمکیلے
پتھر سے بنی پرت ایک سو بیس ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کو چھونے لگ جاتی ہے۔جب کہ پندرہ دن کی رات کے
دوران یہی تپتا ہوا چاند کا چہرہ مائنس ایک سو تہتر “ ”173-ڈگری سینٹی گریڈ کی یخ بستہ ٹھنڈ میں ڈوب جاتا ہے۔
نا جانے کیا کیا راز ہوں گے چاند کی ان یخ بستہ ویران راتوں میں ،تیرہ تیرہ ہزار فٹ گہرے اور تا ح ِد نگاہ پھیلے بڑے بڑے
گڑھوں میں یہ راتیں اور بھی خوفناک ہوتی ہوں گی۔زندگی کی رونق اور شور و غل سے خالی چاند کی گہری اندھیری وادیاں کسی
ڈراؤنی فلم کے منظر سے کم نہیں ہوں گی۔یاد رہے چاند پر شہابیوں کے گرنے کی وجہ سے جو گڑھے موجود ہیں ان کی تعداد
کا سائز ایک ” “Diameterہزاروں میں ہے۔۔۔یہ گڑھے عام چھوٹی دوربین سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ان گڑھوں کے قطر
کلومیٹر سے لے کر کئی سو کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔ابھی تک چاند پر معلوم کئے گئے گڑھوں میں سب سے بڑا گڑھا جنوب قطب
کی طرف دیکھا گیا ہے ،جو دو ہزار پانچ سو کلومیٹر وسیع اور تیرہ کلومیٹر بیالیس ہزار فٹ سے زیادہ گہرا ہے۔
کراچی اور الہور کے آنے اور جانے کے سفر والے راستے کو اگر اس گڑھے کے درمیان میں بچھا دیا جائے تو یہ گڑھا اس سے “
بھی بڑا ہے
اور گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ کو اس گڑھے میں رکھ دیا جائے تو ماؤنٹ ایورسٹ
کی چوٹی تک پہنچنے کے لئے اوپر کی جانب نہیں بلکہ چاند کی سطح سے تقریبا ً چودہ ہزار فٹ نیچے کی طرف سفر کرنا پڑے
”گا
ابھی تک کی تحقیقات کے مطابق یہ چاند پر سب سے پرانا ،بڑا اور گہرا گڑھا ہے۔
چاند پر دن اور رات کا یہ لمبا دورانیہ چاند کی سست رفتار محوری گردش کی وجہ سے ہے۔چاند کی روشنی میں نہائی ہوئی رات
ملکہ قلوپطرہ کے حسن سے کچھ کم حسین نہیں ہوتی ،زمانہ قدیم سے محبوب کا حسن چاند کی تشبیہ سے واضح کرنے کی کوشش
کی جاتی رہی ہے۔اور ایسا کرنے والے حق بجانب تھے ،چودھویں رات کا پورا چاند اور پہاڑی منظر ہو ،ایسی خوبصورت جگہ پر
درختوں کے درمیان میں سے شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا ہو ،چشمے کے صاف پانی پر چاند کی چاندنی رقص کر رہی ہو اور بہتا
ہوا پانی جھنکار کی آواز دے رہا ہو تو ایسے میں محبوب کا حسن یاد آنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔چاند صرف ہماری راتوں کو
روشن کرتا ہے ایسا بالکل نہیں ،بلکہ چاند کی منزلیں مقرر ہیں ،ان منزلوں سے مہینوں اور دنوں کا حساب زمانہ قدیم سے لگایا جاتا
رہا ہے۔اس کے عالوہ چاند کی کشش ثقل کی وجہ سے ہی زمین کے سمندروں کی تازگی برقرار رہتی ہے ،مد و جزر بھی اسی
نظام کے تحت قائم رہتا ہے۔۔۔اگر یہ نظام نا ہو تو سمندر کا پانی ایک جگہ کھڑے کھڑے کسی جوہڑ کی طرح باسا ہو جائے گا اور
تمام آبی حیات و جاندار ختم ہو جائیں گی۔
ُمحققی ِن فلکیات کے مطابق چاند کی کشش ثقل سمندروں میں طغیانی پیدا کرتی ہے اور پھر سمندروں کی یہ طغیانی چاند پر اپنی زور
آزمائی کرتی ہے جس کے نتیجے میں ہر سال چاند زمین سے تین اعشاریہ آٹھ “ ”3.8سینٹی میٹر دور ہو جاتا ہے۔اگر یہ سلسہ
جاری رہا تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے بشرطیکہ تب تک زمین اور اس کے باسی زندہ رہے تو جب زمین سے مکمل سورج
گرہن کا نظارہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔وہ اس طرح کے ابھی چاند زمین کے نزدیک ہے تو یہ سورج کو گرہن کے وقت چھپا لیتا ہے
ورنہ اس قدر بڑے سورج کو چھپانا چاند جیسے چھوٹے سے سیارچے کے بس میں کہاں! عطارد کو ہی لے لیجیئے ،طلوع شمس
کے وقت ہم سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کے آگے عطارد ہوتا ہے۔۔۔سورج کو چھپانا تودور کی بات ٹیلی سکوپ کے بغیر
عطارد اپنا وجود تک ثابت نہیں کروا سکتا۔
ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات ُشتر بے مہار کی طرح بالکل نہیں ہے اور نا ہی خود بخود وجود میں آئی بلکہ
کوئی ایک ایسی ہستی ہے جس نے یہ خوبصورت اور وسیع و عریض کائنات کو بنایا ہے۔کائنات کی ہر ہر چیز ایک منظم اور
باضابطہ نظام میں جکڑے ہوئے اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے۔یہ کائنات عقل و شعور سے باالتر ہے مگر اس کی وسعتوں،
پچیدگیوں اور اعداد و شمار کو دیکھنے واال اس کے بنانے والے کی مہارت اور کاریگری سے انکار نہیں کر سکتا۔زمین اور چاند
کے مدار ،محوری گردشیں اور لمبے چوڑے فاصلے خود میں ایک بڑا پن رکھتے ہیں ،لیکن اب ذرا اپنی عقل و خرد کے تمام
دروازے کھول لیجئے۔۔۔کیوں کہ اب ہم جن فاصلوں اور دوریوں کی بات کرنے لگے ہیں ان کے سامنے اوپر مذکور فاصلے اور
مدار نہایت چھوٹے فاصلے لگیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج
ہماری زمین پر روشنی اور حرارت کا ذریعہ ،بہتی اور بھڑکتی گیسوں کا اُبلتا ہوا سمندرُ ،محققی ِن فلکیات کی تحقیق و محتاط اندازے
کشش ثقل سے خالئی اجسام کو گرفت میں رکھنے واال ِ کے مطابق ایک سو بیس کھرب میل کی وسیع و عریض مسافتوں تک اپنی
ہمارا سورج۔سب سے پہلے یہ سمجھا جائے کہ ہمارا سورج ایک ستارہ ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر یہ پڑھا کہ زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ہر ستارے کے اندر ارتقائی مراحل چل رہے ہوتے
ہیں ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے ،درجہ حرارت اور کثافت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ہائیڈروجن سے تبدیل
ہوئی ہیلئم بھی ہائیڈروجن کے ساتھ جلنے لگ جاتی ہے ،جس سے ستارے کی گرمی اور حدت مزید بڑھ جاتی ہے ،اب وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ جلی ہوئی ہیلئم کی راکھ کاربن کی صورت میں ستارے کے مرکز میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ہیلئم سے بنی
راکھ یعنی کاربن جب ستارے کے مرکز میں ایک خاص مقدار سے تجاوز کرتی ہے تو ستارہ ایک دھماکے سے پھول کر بہت بڑا
یعنی سرخ دیو کی صورت اختیار کر لیتا ہے ،اپنی جسامت سے کئی گنا تک بڑا ہو جاتا ہے۔اگر ستارہ ہمارے سورج ”“red giant
جیسا ہو تو سکڑنے لگتا ہے اور سفید بونا سیارہ بن جاتا ہے ،جس کے ایک چائے کے چمچ کے برابر مادے کا وزن کئی ٹن تک ہو
سکتا ہے۔۔اس کے بر عکس اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑا ہو تو ایک اور دھماکہ ہوتا ہے یہ دھماکہ کائنات کے دور
کہا جاتا ہے۔سپرنووا کا شکار ستارہ اپنی موت کے ” Super novaدراز تک کے عالقوں کو روشن کر دیتا ہے اسے “سُپر نووا
وقت ہمارے سورج سے ایک سو ارب گنا زیادہ روشنی اور توانائی خارج کرتے ہیں۔اس دھماکے کے بعد وہ ستارہ ایک “سیاہ
شگاف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔جی ہاں آپ درست ہیں سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول۔۔۔وہی بلیک ہول جو انسانی سوچ اور سمجھ کا اختتام
ہے۔
مزید یہ بھی جانتے چلیں کہ جو ستارہ اپنی موت کے قریب ہے اگر وہ ہمارے سورج سے ڈیڑھ سو گنا بڑا ہو تو دھماکہ سُپر نووا
کہا جاتا ہے۔ہائپر نووا اس قدر قیامت خیز دھماکہ ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں Hyper novaسے بھی بڑا ہوتا ہے ،جسے ہائپر نووا
ہائپر نووا اتنی توانائی خارج کرتا ہے جتنی توانائی ہمارا سورج ساٹھ ارب سالوں میں خارج کرے ،ہائپر نووا سے اس قدر خطرناک
اور طاقتور شعائیں نکلتی ہیں جو کہ ساڑھے سات ہزار نوری سال دور سے ہی ہماری زمین پر زندگی کا صفایا کر سکتی ہیں۔یعنی
اگر ہماری زمین سے ساڑھے سات ہزار نوری سال کی دوری پر کقئی ہائپر نووا کا دھماکہ ہوتا ہے تو سورج سے زیادہ روشنی اس
کہا جاتا ہے زمین پر قیامت برپا کر دیں۔ Gama ray burstsدھماکے کی ہو سکتی ہے یہاں اور اس کی مہلک شعائیں جنہیں
فوکل لینتھ والی دوربین سے ”inchsایک ہزار برس قبل ہوئے ایک سپر نووا کا مشاہدہ آپ اپنی چھت سے کم از کم چھتیس انچ “36
کر سکتے ہیں۔جس جگہ سپرنونوا کا وہ دھماکہ ہوا تھا آج وہاں کھربوں میلوں پر پھیلے رنگ برنگی گیسوں کے عظیم بادل دکھائے
کا نام دیا گیا ہے۔ ” “Crabe nebulaیا ” “Messier 1دیتے ہیں ،جن کو
میرا خیال ہے اب ہم کافی حد تک ستاروں کی تخلیق و تباہی کو سمجھ چکے ہیں۔حال ہی میں کچھ برس پہلے پلوٹو سے بھی دور
ایک اور سیارہ دریافت ہوا جسے سیڈنا کا نام دیا گیا۔بہت زیادہ دوری کے سبب اس سیارے کے بارے میں کچھ خاص معلومات
حاصل نہیں ہو سکیں تاہم جس قدر ہوئیں وہ انسانی عقل کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہیں۔زمین کا تین سو پینسٹھ دن کا ایک سال
آپ کے ذہن میں ہوگا ۔۔۔لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں اس سیارے کا ایک سال کتنے عرصے میں پورا ہوتا ہے؟ سیڈنا گیارہ ہزار کم
و بیش سال میں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے ،یعنی زمین پر گیارہ ہزار سال گزرنے کے بعد اس سیارے پر ایک سال
مکمل ہوتا ہے۔اس کا مدار سورج کے گرد نہایت عجیب ہے۔۔۔سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کا سورج سے کم سے کم فاصلہ
تک پھیل جاتا ہے.یہ بات AUہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹ AU 1200دو سو ایسٹرونومیکل یونٹ 200
علم میں رہے کہ ایک ایسٹرونومیکل یونٹ میں پندرہ کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ ہوتا ہے (زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ایک
ایسٹرونومیکل یونٹ کہالتا ہے) اردو میں ایسٹرونومیکل یونٹ کو فلکیاتی اکائی بوال جاتا ہے۔اب آپ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹس
کو پندرہ کروڑ کلومیٹر سے ملٹی پالئی یعنی ضرب دیں تو جواب کچھ یوں آئے گا کہ ایک سو اسی ارب کلومیٹر دور 1200AU
تک سورج اس سیارے کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے اور یہ صرف پلوٹو سے تھوڑا پرے کا عالقہ ہے۔۔۔اس سے آگے سورج کی
گرفت میں کئی ایک برفانی دنیائیں خالء میں گھوم رہی ہیں جن تک سورج کی روشنی پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں ،جب
کہ روشنی ایک سیکنڈ میں تین الکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔
روشنی اور حرارت کا یہ منبع ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس سے ڈھکا ہوا ہے۔سورج کے قبضہ میں یعنی حجم کے اعتبار سے اس قدر
بڑا عالقہ ہے کہ اگر نظام شمسی کے تمام سیارے ،ڈیڑھ سو سے زائد معلوم چاند ،دُمدار ستارے اور باقی کے سب خالئی اجسام
کشش ثقل کے تابع ہیں” کو اکٹھا کیا جائے۔۔۔تو سورج کی طرف سے گھیرے میں لیا گیا عالقہ ان سب کے مقابلے ِ “جو سورج کی
میں % 99.86ہے۔سورج ایک سیکنڈ میں الکھوں ٹن مادے کو توانائی میں تبدیل کر دیتا ہے ،اس دنیا میں سائنسی عروج سے لے
کر آج تک جتنے بھی کیمیائی و ایٹمی ہتھیار بنے ہیں۔۔۔سورج ایک سیکنڈ میں اس سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کر کے روشنی اور
کشش ثقل اس قدر طاقت ور ہے کہ زمین پر آپ کھڑے ہوں اور سورج پر ِ حرارت کی شکل میں خالء میں بکھیر دیتا ہے۔سورج کی
آپ کی ایک عام کپڑے والی شرٹ رکھ دی جائے تو آپ سے زیادہ آپ کی شرٹ کا وزن ہوگا۔
سورج کی سطح سے سورج کا مرکز تقریبا ً چھ الکھ پچانوے ہزار سات سو کلومیٹر ہے ،زمین کے مرکز کا درجہ حرارت پانچ ہزار
چار سو 5400سینٹی گریڈ ہے اور سورج کی سطح کا درجہ حرارت پانچ ہزار پانچ سو پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ہے ،سورج کا مرکز
کتنا گرم ہوگا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سورج کے مرکز کا درجہ حرارت ایک سو پچاس الکھ
ڈگری سینٹی گریڈ ہے ،یعنی پندرہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ!۔۔۔سورج کی عمر یہی کوئی چار سو ساٹھ کروڑ سال بتائی جاتی ہے،
مطلب ساڑھے چار ارب سال کے لگ بھگ۔ہماری زمین سمیت نظام شمسی کا ہر سیارہ ،ہر چاند ،ہر دمدار ستارہ اور ہر خالئی جسم
سورج کے گرد چکر لگاتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورج ایک جگہ پر کھڑا ہوا ہے ،ساکت ہے۔۔۔ایسا بالکل نہیں! بلکہ سورج
کو لئے ایک لمبے سفر پر روان دواں رہتا ہے۔ objectsبھی ہر وقت ان تمام
لکھا جاتا ہے۔۔۔یہ وہ جگہ ہے جو ہماری کہکشاں ملکی وے کا مرکز ہے۔اس جگہ ایک بہت ” “GCگلیسٹِک سینٹر جسے انگلش میں
کشش ثقل ہماری پوری کہکشاں کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ہمارے نظام شمسی جیسے چالیس الکھ ِ بڑا بلیک ہول موجود ہے جس کی
سے بھی زیادہ نظام شمسی اس بلیک ہول میں سما سکتے ہیں۔۔۔ہمارا سورج اور ہمارے سورج سے چھوٹے بڑے کئی کروڑ
غرض ہماری کہکشاں کے کئی ہزار nebulasستارے ،ان ستاروں کے اپنے سیارے اور چاند ،گیسوں کے عظیم الشان بادل
کشش ثقل کے کنٹرول میں ہیں۔ایک نئی اور محتاط
ِ کھربوں میل کے وسیع عالقے میں پھیلی کروڑوں دنیائیں اسی بلیک ہول کے کی
کی رفتار کے ساتھ اس بلیک ہول سے پچیس ہزار چھ ”kmتحقیق کے مطابق سورج ایک سیکنڈ میں دو سو اکیاون کلومیٹر “251
سو” ″25600نوری سال کے فاصلے پر رہتے ہوئے ملکی وے کہکشاں کے گرد چکر لگا رہا ہے۔اگر اس رفتار سے کسی سواری
پر سورج کی طرف جائیں تو صرف دو ہفتوں میں ہم زمین سے سورج پر پہنچ کر پھر واپس زمین پر آ جائیں گے۔اس رفتار سے
کے برابر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے ،یعنی ساٹھ کھرب میل۔ ” “lightyearسورج تقریبا ً بارہ “ ”12صدیوں میں ایک نوری سال
سورج چلتا رہتا ہے۔۔۔رکتا نہیں ،جلتا رہتا ہے بجھتا بھی نہیں۔جہاں عقل و سائنس کے حقائق ماننے الزم ہیں وہیں انسان کی محدود
عقل یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ کسی محدود ُوسعت و طاقت والی عام ذات کا کام نہیں ہے ،یہ ضرور اس ذات کی
طرف سے بچھائی ہوئی ،سجائی ہوئی کائنات ہے جو خود میں یکتا ہے ،بے مثال ہے ،الجواب ہے جب چودہ سو سال پہلے نا سائنس
تھی نا یورپی ترقی و ناسا کا وجود تھا ،نا روس کی ٹیکنالوجی تھی نا جاپان کے ایجاد کردہ خالئی اجسام کی حرکات و سکنات کو
جانچنے والے سینسرز ایجاد ہوئے تھے۔۔۔تب عرب کے صحرا میں ،ایک چھوٹی سی بستی میں محمد صل ہللا علیہ وسلم پر سورج،
چاند زمین اور پوری کائنات کے راز بذریعہ وحی کھولے جا رہے تھے۔جی ہاں یہ بتایا جا رہا تھا کہ “کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے
مدار میں چکر لگا رہی ہے” القرآن.قرآن پاک نے بتایا کہ سورج اپنی روشنی خود پیدا کرتا ہے ،چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے۔یہ
بات گلیلیو گلیلی نے چار سو سال پہلے کہی لیکن قرآن نے یہی بات چودہ سو سال قبل بتا دی تھی۔
سورج ملکی وے کہکشاں کے گرد ایک چکر کم و بیش پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ایک ہفتے میں ایک فلکیاتی اکائی
“پندرہ کروڑ کلومیٹر” کا فاصلہ طے کرنے واال سورج پچیس کروڑ سال میں کتنا سفر طے کرتا ہوگا۔ایک صدی “سو سال” میں
سورج پانچ سو ارب میل سے کچھ زائد کا فاصلہ طے کرتا ہے۔پچیس کروڑ سالوں میں پچیس الکھ صدیاں بنتی ہیں۔۔۔مطلب آپ پانچ
کھرب میل کا فاصلہ “پچیس الکھ” بار کریں تو اسی کے برابر سورج ملکی وے کے گرد گھوم کر ایک “کہکشانی سال” مکمل کرتا
بھی کہا جاتا ہے۔سورج کی عمر کے حساب سے دیکھا جائے تو اس ” “Cosmic yearیا ” “Galactic yearہے۔جسے انگلش میں
اعداد و شمار کے مطابق سورج نے اپنی پیدائش سے لے کر ابھی تک کہکشاں ملکی وے کے صرف اٹھارہ چکر ہی لگائے ہیں اور
انیسواں چکر نصف ہونے میں یہی کوئی پندرہ کروڑ سال باقی ہیں۔۔۔اگر ابتداء سے سورج کی یہی رفتار رہی ہے تو۔
اس سے بھی دلچسپ اعداد و شمار بتاتا چلوں کہ سورج اپنے مدار پر چکر لگاتے ہوئے پچیس الکھ صدیوں میں لگ بھگ دو ہزار
کا فاصلہ طے کرتا ہے۔۔۔مطلب دو سو اکیاون “ ”251کلومیٹر فی سیکنڈ یا نو الکھ کلومیٹر فی ” “light yearایک سو نوری سال
گھنٹہ کی تیز رفتار سے سفر کرتے ہوئے سورج پچیس کروڑ سالوں میں دو ہزار ایک سو “ ”2100نوری سال کا فاصلہ طے کرتا
ہے۔
ان اعداد و شمار کے بعد محدود انسانی عقل شکست خوردہ حالت میں ہتھیار پھینک چکی ہے اور ہاتھ اٹھائے اپنی بے بسی کا اظہار
کر رہی ہے۔۔۔کہ بالفرض اگر ہم سورج جتنی رفتار سے سفر کر سکیں تو پچیس کروڑ سال میں نو الکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار
سے سفر کر کے ہم صرف دو ہزار نوری سال کے لگ بھگ کا فاصلہ طے کریں گے۔۔۔اور ابھی تک کی درفایت شدہ کائنات کتنے
نوری سال تک پھیلی ہوئی ہے ،معلوم ہے آپ کو؟
جس جگہ آپ کھڑے ہو کر اپنے گرد و نواح کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔چاروں اطراف آپ کی نظر جہاں جہاں تک جاتی ہے وہ اپ کا
مشاہداتی عالقہ کہالئے گا۔۔۔ہم اس کائنات میں زمین اور زمین کے گرد و نواح سے جھانکتے ہیں تو آپ زمین کو مرکز بنا کر
چاروں اطراف کے مشاہداتی کائنات کا عالقہ نوری سال میں بیان کریں تو عقل دنگ رہ جائے گی۔۔۔ترانوے “ ”93ارب نوری سال
تک کے فلکیاتی جنگل میں انسان کی نظریں پہنچ چکی ہیں۔ہے نا حیران کن بات کہ کہاں پچیس کروڑ سالوں میں سورج نو الکھ
کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دو ہزار ایک سو نوری سال کا سفر طے کرتا ہے۔۔۔اور کہاں ترانوے ارب نوری سال کے دنگ کر
دینے والے فاصلے جن کو انسان صرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ ہی سکتا ہے۔اور یہ کائنات کا صرف وہ حصہ جہاں تک
انسانی دور بینوں کی نگاہیں پہنچی ہیں۔مزید کائنات کیا ہے؟ کہاں تک ہے؟ محدود ہے یا ال محدود ہے؟ جواب ندارد
صرف سورج ہی نہیں بلکہ سورج کے کنٹرول میں ہر چیز سورج کے ساتھ اربوں سالوں سے انجان راستوں کی مسافر بنی ہوئی
ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی پُرسکون جگہ پر لیٹ کر ان ستاروں سے باتیں کیجئے گا ،ان کو اپنا دوست سمجھ کر چند لمحے ان کے لئے نکالئے
گا۔۔۔پھر دیکھئے گا کہ ال ُمنتہاء مسافتوں کے یہ مسافر سیارے ،سیارچے ،ستارے اور کہکشائیں آسمان پر رات کے وقت چمکتے،
ت کائنات کی حیرانگیوں سے دمکتے اور اپنی منزل کی جانب آگے بڑھتے ہوئے آپ کو اپنی رودا ِد سفر بھی سنائیں گے اور عجائبا ِ
آپ کے دل و دماغ کو بھی جھنجھوڑیں گے۔اگر کبھی موقع ملے اور آپ مصنوعی روشنیوں سے دور کہیں پہاڑی وادیوں میں رات
گزاریں تو غور کیجئے گا کہ چاند سے خالی راتوں میں آپ ہزاروں ستاروں کو کسی دور بین کا سہارا لئے بغیر اپنی آنکھ سے دیکھ
سکیں گے اور ہزاروں الکھوں نوری سال کے فاصلے ہونے کے باوجود ان ستاروں کی دودھیا سفید ،نیلی ،نارنجی ،سرخ اور
سنہری روشنیاں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنا جلوہ بکھیرتے ہوئے آپ کو دنیا وما فیہا سے غافل کر دیں گی۔آپ یہ سوچنے
تصویر فنکار بھی ہے! رنگوں بھرے گیسی بادلوں یعنی نیبیوالز
ِ پر مجبور ہو جائیں گے کہ کائنات صرف عجائب خانہ ہی نہیں بلکہ
میں ٹِمٹماتے ستارے تو کہیں روشنیاں بکھیرتی دلکش کہکشائیں۔