You are on page 1of 6

‫از قلم یاسر الہوری‬

‫ہم اس تحریر میں سورج چاند اور زمین کے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ ان کے مدار‪ ،‬محوری گردشوں‪ ،‬ان کی عمر اور کیفیت‬
‫کے متعلق پڑھیں گے۔‬

‫اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ یہاں مختصرًا دو باتیں دو عظیم طبقہ کے لوگوں کی خدمت‬
‫میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔‬
‫نمبر ایک سائنسی و دنیاوی علوم کے ماہر حضرات سے‪1-‬‬
‫نمبر دو دینی علوم کے جاننے والے دوست و احباب سے‪2-‬‬
‫ان سے گزارش یہ ہے کہ‬
‫اگر آپ کو سائنس اور مذہبی علوم میں تضاد نظر آتا ہے تو اپنا مطالعہ بڑھائیے۔۔۔مکمل تحقیق کیجئیے‪ ،‬تحقیق کے بعد بھی اگر‬
‫سائنس مذہب سے ٹکرا رہی ہے یا مذہب سائنس سے ٹکراتا نظر آ رہا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اور ہماری سائنس وہاں تک ابھی‬
‫پہنچے ہی نہیں‪ ،‬اس بات کو سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہوئے جو بات قرآن پاک یا حدیث نے ہمیں بتائی ہے۔یعنی ہم محدود ہیں اس‬
‫کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سائنس اور مذہب کو غلط کہنے لگ جائیں۔دوسری گزارش ان دوستوں سے ہے “جو کسی بھی سائنسی‬
‫مضمون میں مذہبی ریفرنسسز اور آیات قرآنی وغیرہ کو قبول نہیں کرتے” کہ میرے بھائی دنیا کی کوئی ایسی کتاب یا علم کا‬
‫مجموعہ دکھا دیں جس میں اس احسن انداز میں فلکیات پر بات کی گئی ہو جیسے قرآن نے کی ہے‪ ،‬یقینا ً ایسا فلکیاتی علم قرآن کے‬
‫عالوہ کسی اور ذریعے سے انسان کو عطا نہیں کیا گیا تو کیا پھر مضامی ِن فلکیات میں قرآن میں بیان کردہ فلکیاتی علوم کو جگہ نا‬
‫دینا ناانصافی نہیں ٹھہرتا ہے؟ ہر تخلیق اور ایجاد کے تذکرے میں اس کے خالق اور موجد کا تذکرہ جب تک نا کیا جائے‪ ،‬میں یہ‬
‫سمجھتا ہوں کہ وہ تذکرہ انصاف پر مبنی نہیں ہوتا تو بحیثیت مسلمان ہم یہ بات مانتے کہ سورج چاند سیارے ستارے اور تمام کے‬
‫تمام فلکیاتی اجسام کا خالق ہللا ہے تو پھر اس تخلیق میں اس کے خالق تذکرہ کیوں نہیں آنا چاہئیے۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫میں کبھی جھانکنے کی کوشش کریں تو بے ‪ Space‬گرمیوں کی رات میں کھلے آسمان تلے لیٹ کر بے پناہ وسعتوں کے حامل خالء‬
‫شمار اَن ِگنت جگمگاتے چھوٹے بڑے ستارے آپس میں سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ جب چاندنی راتیں آتی‬
‫ہیں تو زیادہ چھوٹے اور دوری والے ستارے چاند کی چاندنی میں اپنا جلوہ حسن دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو یوں لگتا ہے‬
‫گویا یہ چھوٹے مہمان کائنات کی سیر کو نکل گئے ہیں اور اب چاند کے جانے پر ہی واپس اپنے اپنے گھر کا راستہ دیکھیں‬
‫گے۔غروب آفتاب کے کچھ ہی دیر بعد جو ستارہ آپ کو مشرق کے کناروں پر ملے گا‪ ،‬رات کے دوسرے پہر وہ ستارہ آپ کے سر‬
‫پہ پہنچا ہوگا اور رات کے اختتام پر اندھیرا غائب ہونے سے پہلے آپ کو وہی ستارہ مغرب کے کناروں سے الوداع کہتا ہوا نظر‬
‫آئے گا‪ ،‬مطلب آسما ِن دنیا پر موجود تمام ستارے بھی اپنے اپنے مقررہ وقت پر آتے جاتے ہیں بالکل چاند اور سورج کے آنے جانے‬
‫کی طرح۔جس طرح چاند ہماری زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور ہماری زمین سورج کے گرد اور ہمارا سورج ہماری کہکشاں کے‬
‫پر چکر لگا رہی ہے۔سائنسی ترقی کے بعد سے ابھی تک کے ‪ orbit‬مرکز کے گرد‪ ،‬ایسے ہی کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے مدار‬
‫میں اربوں کہکشائیں ‪ Univers‬مشاہدات اور فلکیاتی تحقیقات کے مطابق جو اعداد و شمار حاصل ہوئے ہیں‪ ،‬ان کے مطابق کائنات‬
‫ہیں‪ ،‬ہر ایک کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ان ستاروں کے ہمارے ستارے سورج کی طرح اپنے اپنے سیارے بھی ‪galaxies‬‬
‫ہوں گے پھر ان سیاروں کے اپنے چاند‪ ،‬یہ تمام کے تمام اپنے اپنے مدار میں چکر لگا رہے ہیں۔اس قدر ُمنظَّم اور ریاضی کے‬
‫قوانین کے عین مطابق کائنات کا یہ اربوں نوری سال “ ُمشاہداتی احاطہ” کی مسافتوں پر بچھا ہوا جال یقینا اپنے بنانے والے کی‬
‫المحدود علمی وسعتوں اور طاقتوں کی گواہی کے لئے کافی ہے۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫زمین‬
‫سب سے پہلے ہمارے علم میں یہ بات ہونی چاہئیے کہ زمین ایک سیارہ ہے‪ ،‬ستارے اور سیارے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ستارہ اپنی‬
‫روشنی خود پیدا کرتا ہے جب کہ سیارہ ستارے کی روشنی سے روشن رہتا ہے۔مزید یہ کہ سیارہ ستارے کی کشش ثقل کے کنٹرول‬
‫ت انسانی کا واحد‬
‫میں ہوتا ہے اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے کسی اور اوبجیکٹ کے مدار میں دخل اندازی نہیں کرتا۔زمین حیا ِ‬
‫ت زندگی سے ماال مال‪ ،‬کائنات کے اس وسیع و عریض فلکیاتی جنگل میں زندگی کی گہما گہمی سے بارونق‬ ‫َمسکن اور ضروریا ِ‬
‫اور ُمزیّن‪ ،‬الکھوں کھرب میلوں پر پھیلی اس کائنات میں لگ بھگ بارہ ہزار سات سو بیالیس کلومیٹر ڈائی میٹر رکھنے واال ہمارا‬
‫سر سبز و شاداب اور پانی سے بھرپور سیارہ ہے۔‬
‫جس طرح زمین پر بعض عالقے تمام موسموں اور درجہ حرارت کی وجہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح نظام شمسی‬
‫کے تمام سیاروں میں زمین بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔۔۔مثال زمین سے سورج کی طرف نظر ڈالیں تو عطارد اور زہرہ جل‬
‫رہے ہیں‪ ،‬اور دوسری طرف کے سیارے دیکھیں تو اس قدر ٹھنڈے ہیں کہ انسان کا ان سیاروں پر زندہ رہنا ناممکن ہے۔یعنی ہم کہہ‬
‫سکتے ہیں کہ زمین کے پاس وہ معتدل و سنہری عالقہ ہے جو پورے نظام شمسی میں کسی اور سیارے کے پاس نہیں ہے۔‬

‫ہمارے سیارے یعنی زمین کا ہمارے ستارے سورج سے اوسط فاصلہ چودہ کروڑ چھیانوے الکھ کلومیٹر ہے۔۔۔زمین سورج کے گرد‬
‫ہی چکر لگاتی ہے ایسا بالکل نہیں‪ ،‬بلکہ زمین سورج کے گرد چکر لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے محور کے گرد بھی گھومتی‬
‫ہے۔سورج کے گردایک الکھ آٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک چکر پورا کرنے میں زمین کو تین سو پینسٹھ دن لگتے‬
‫ہیں۔اب ہمارے ورطہ حیرت میں مبتال ہونے کا وقت ہے‪ ،‬جب تین سو پینسٹھ ‪ 365‬کو ملٹی پالئی کریں گے چوبیس کے ساتھ‪ ،‬ایک‬
‫دن میں چوبیس گھنٹے ہیں اور سال میں تین سو پینسٹھ دن ہیں۔زمین ایک گھنٹے میں ایک الکھ آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرتی ہے‬
‫اور ایک سال میں آٹھ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹے ہیں۔اب ہم زمین کے ایک گھنٹے میں طے کئے ہوئے فاصلے کو ضرب دیں گے‬
‫ایک سال میں موجود ‪ 8760‬گھنٹوں سے۔‬
‫‪108000×8760=946000000‬‬
‫زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر چورانوے کروڑ ساٹھ الکھ کلومیٹر ایک سال میں سفر طے کرتی ہے۔کیا سمندر‪ ،‬کیا پہاڑ‪ ،‬کیا‬
‫دریا‪ ،‬جھیلیں اور جنگل صحرا۔غرض زمین پر موجود ہر ہر چیز زمین کے ساتھ ہر وقت ایک مسافر کی حالت میں رہتی ہے۔گویا‬
‫زمین ایک بہت بڑے خالئی جہاز کی مانند ہمیں بشمول ہر چھوٹی بڑی چیز کے ہر وقت خالء کی المحدود وسعتوں میں لئے پھرتی‬
‫پر۔تخلیق زمین کے دن سے لے کر‬
‫ِ‬ ‫ہے مگر ُشتر بے مہار کی طرح نہیں بلکہ ایک خاص متعین کئے ہوئے اپنے مخصوص راستے‬
‫زمین کا یہ سفر جاری ہے اور زمین کے فنا تک یہ سلسہ یونہی بغیر رکے‪ ،‬بغیر تھمے جاری و ساری رہے گا۔‬

‫زمین کا سورج کے گرد مدار ہر طرف سے ایک جیسا نہیں ہے۔۔۔بلکہ ایک طرف سے نزدیک اور دوسری طرف سے کم ہے۔ زمین‬
‫اور سورج کا درمیانی فاصلہ پچاس الکھ کلومیٹر تک بڑھتا گھٹتا ہے۔اب ہم آتے ہیں زمین کی محوری گردش کی طرف‪ ،‬رات اور‬
‫دن کا آنا جانا صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے کا دلفریب نظارہ اور شام کے وقت غروب آفتاب کا حسین منظر‪ ،‬دوپہر کے‬
‫وقت آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی اور زمین کے باسیوں کو تڑپا دینے والی حدت و شدت سے بھرپور دھوپ۔یہ سب کچھ‬
‫یونہی نہی‪ ،‬بلکہ ایک مکمل منظم شدہ نظام کے تحت ہوتا ہے۔زمین اپنے محور پر چار سو ساٹھ ‪ 460‬میٹر پر سیکنڈ یا ایک ہزار‬
‫‪ 1000‬میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتے ہوئے تقریبا چوبیس ‪ 24‬گھنٹے میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔اس دوران زمین اپنے‬
‫مدار پرکم و بیش چھبیس الکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا ہمیں اس لئے معلوم نہیں ہوتا‬
‫کہ ہم بذات خود زمین کے اوپر رہتے ہوئے اس کی ہر ہر حرکت کے ساتھ متحرک رہتے ہیں۔فرض کیجیئے آپ ایک آرام دہ گاڑی‬
‫پر ہیں‪ ،‬ایسی گاڑی کہ جو ایک سو بیس ‪ 120‬کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے اور وہ اس قدر آرام دہ ہے کہ اتنی‬
‫زیادہ رفتار کے باوجود اس کے اندر رکھا ہوا پانی سے بھرا گالس بھی حرکت نا کرے تو مسافر کو کیا معلوم ہو گا اس گاڑی کا تیز‬
‫رفتار چلنا اور حرکت کرنا۔زمین اس گاڑی سے بھی زیادہ آرام دہ یے کیوں کہ آج کی سائنسی اور اسالمی دونوں علوم سے یہ بات‬
‫ثابت ہو چکی ہے کہ زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لئے پہاڑوں کو میخوں کے قائم مقام زمین پر لگا دیا گیا ہے۔قدرت کی‬
‫کشش ثقل کی لہروں اور موجوں کو اس قدر ُمنَظَّم بنایا گیا ہے کہ زمین کیا۔۔۔کائنات کی ہر چیز کشش ثقل کی بدولت ہی‬
‫ِ‬ ‫طرف سے‬
‫اپنے اپنے مدار پر نہایت ہی منظم طریقے سے چکر لگا رہی ہے‪ ،‬کوئی اوبجیکٹ کسی دوسرے اوبجیکٹ سے نا ٹکراتا ہے نا ڈولتا‬
‫ہے اور نا ہی خالء کی بے پناہ گہری کھائیوں میں گرتا ہے۔‬

‫زمین کی محوری گردش معلوم کرنی ہو تو رات آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے رہیئے‪ ،‬چند لمحوں میں سر پر موجود مشکل‬
‫سے نظر آنے واال ستارہ مغرب کی طرف دو قدم آگے بڑھ چکا ہو گا۔آپ کسی ویران جگہ میں پھنسے ہیں‪ ،‬جنگل صحرا یا تا حد‬
‫نگاہ پھیلے کسی برفانی عالقے میں اور آپ کے پاس راستہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔۔۔ایسے میں زمین کا شمالی‬
‫قطب معلوم کرنا ہو تو آسمان کے چاروں کناروں پر نظر ڈالئے‪ ،‬ذرا اوپر نظر کر کے دیکھئے‪ ،‬درمیانے درجے کی روشنی رکھنے‬
‫واال ستارہ اپنی جگہ سے بالکل بھی ادھر ادھر نہیں ہو رہا ہے تو سمجھ لیجیئے کہ یہی زمین کا شمالی حصہ ہے اور جو ستارہ اپنی‬
‫سٹار کہتے ہیں۔زمانہ قدیم کے لوگ اور اب بھی ‪Polaris‬جگہ سے حرکت نہیں کر رہا وہ قطب ستارہ ہے جسے انگلش میں‬
‫صحراؤں‪ ،‬جنگلوں میں رہنے والے لوگ اسی سے راستہ معلوم کرتے ہیں۔زمین کے قطبین کے عالقوں میں بعض خطے ایسے بھی‬
‫ہیں کہ جن میں چھ مہینے دن بسیرا کئے رکھتا ہے اور چھ مہینے تک رات کسی رانی کی طرح برف پوش عالقوں پر حکمرانی‬
‫کرتی ہے۔۔۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ زمین اپنے محور کے گردصرف دائیں سے بائیں گھومتی ہے‪ ،‬اوپر سے نیچے یا نیچے‬
‫سے اوپر کی طرف نہیں۔سورج کے سامنے بالکل سیدھی بھی نہیں بلکہ ترچھی حالت میں‪ ،‬اسی لئے چھ چھ ماہ بعد قطبین پر رات‬
‫اور دن جلوہ افروز ہوتے ہیں۔چھ ماہ کے دن بھی کچھ خاصے گرم اور دھوپ والے نہیں ہوتے‪ ،‬دور کنارے کی طرف سے سورج‬
‫سے لڑتے ہوئے قطبین کے اُن برفانی اور یخ بستہ عالقوں کو گرم کرنے کی )‪ (atmosphere‬کی روشنی اور حرارت ایٹمو سفیئر‬
‫اپنی سی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔قطبین کے عالقوں میں انٹارکٹکا‪ ،‬آرکٹک‪ ،‬گرین لینڈ‪ ،‬ناروے‪ ،‬کینڈا‪ ،‬ارجنٹائن اور االسکا‬
‫وغیرہ کے عالقے شامل ہیں۔محوری گردش کے دوران زمین کے جو عالقے مکمل طور پر سورج کے سامنے رہتے ہیں ان کا‬
‫درجہ حرارت بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬جیسا کہ افریقہ‪ ،‬جنوبی ایشیا اور امریکہ کے کچھ خطے۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چاند‬
‫زمین کا واحد قدرتی سیارچہ‬
‫سیارچہ اس خالئی جسم کو کہتے ہیں جو کسی سیارے کے تابع ہو جیسے چاند ہماری زمین کے تابع ہے اور ہماری زمین ایک‬
‫سیارہ ہے۔مصنوعی سیارچے ان اجسام کو کہتے ہیں جو انسان نے زمین کے مدار میں چھوڑے ہیں جنہیں سیٹالئٹس بھی کہا جاتا‬
‫ہے۔زمین سے تین الکھ چوراسی ہزار کلومیٹر دور رہ کر زمین کے گرد گھومنے واالچاند بھی زمین ہی کی طرح اپنے مدار پر بھی‬
‫چکر لگاتا ہے اور اپنے محور پر بھی لیکن اس کا مدار اور محوری گردش زمین سے کچھ مختلف ہے۔چاند کی کشش ثقل زمین کی‬
‫کشش ثقل سے چھ گنا کم ہے۔تقریبا ایک کلومیٹر سے کچھ زیادہ فی سیکنڈ کی رفتار سے چاند زمین کے گرد اپنا ایک چکر ستائیس‬
‫اعشاریہ تیس‪ 27.30‬دنوں میں پورا کر لیتا ہے۔ہم زمین سے چاند کا صرف ایک ہی رخ کیوں دیکھ پاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب‬
‫میں چاند کے متعلق آپ کو حیرت ناک معلومات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‬

‫برابر ہے۔یعنی جس طرح چاند زمین کے گرد ستائیس اعشاریہ تیس دن میں ایک ‪ rotational period‬اور ‪ orbital period‬چاند کا‬
‫چکر پورا کرتا ہے بالکل ایسے ہی اپنے محور کے گرد بھی ستائیس اعشاریہ تیس دنوں میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔زمین کی‬
‫کشش ثقل نے چاند کو جکڑ کے اس کی محوری گردش کو نہایت سست رفتار کر دیا ہے‪ ،‬مطلب چاند کی سپننگ‬ ‫ِ‬ ‫نہایت طاقت ور‬
‫رفتار نہایت سست ہے‪ ،‬اسی سست رفتاری کی بدولت زمین سے چاند کا ایک ہی رخ ہم دیکھ سکتے ہیں۔اس کی محوری سست‬
‫رفتاری کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب چاند پر دن چڑھتا ہے اور دھوپ اپنا آپ دکھانا شروع کرتی ہے تو‬
‫پھر آئندہ پندرہ دن تک وہاں رات نہیں آتی‪ ،‬پندرہ دن تک مسلسل دھوپ میں رہنے کے باعث چاند کی اناستھرو سائٹ نامی چمکیلے‬
‫پتھر سے بنی پرت ایک سو بیس ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کو چھونے لگ جاتی ہے۔جب کہ پندرہ دن کی رات کے‬
‫دوران یہی تپتا ہوا چاند کا چہرہ مائنس ایک سو تہتر “‪ ”173-‬ڈگری سینٹی گریڈ کی یخ بستہ ٹھنڈ میں ڈوب جاتا ہے۔‬

‫نا جانے کیا کیا راز ہوں گے چاند کی ان یخ بستہ ویران راتوں میں‪ ،‬تیرہ تیرہ ہزار فٹ گہرے اور تا ح ِد نگاہ پھیلے بڑے بڑے‬
‫گڑھوں میں یہ راتیں اور بھی خوفناک ہوتی ہوں گی۔زندگی کی رونق اور شور و غل سے خالی چاند کی گہری اندھیری وادیاں کسی‬
‫ڈراؤنی فلم کے منظر سے کم نہیں ہوں گی۔یاد رہے چاند پر شہابیوں کے گرنے کی وجہ سے جو گڑھے موجود ہیں ان کی تعداد‬
‫کا سائز ایک ”‪ “Diameter‬ہزاروں میں ہے۔۔۔یہ گڑھے عام چھوٹی دوربین سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ان گڑھوں کے قطر‬
‫کلومیٹر سے لے کر کئی سو کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔ابھی تک چاند پر معلوم کئے گئے گڑھوں میں سب سے بڑا گڑھا جنوب قطب‬
‫کی طرف دیکھا گیا ہے‪ ،‬جو دو ہزار پانچ سو کلومیٹر وسیع اور تیرہ کلومیٹر بیالیس ہزار فٹ سے زیادہ گہرا ہے۔‬
‫کراچی اور الہور کے آنے اور جانے کے سفر والے راستے کو اگر اس گڑھے کے درمیان میں بچھا دیا جائے تو یہ گڑھا اس سے “‬
‫بھی بڑا ہے‬
‫اور گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ کو اس گڑھے میں رکھ دیا جائے تو ماؤنٹ ایورسٹ‬
‫کی چوٹی تک پہنچنے کے لئے اوپر کی جانب نہیں بلکہ چاند کی سطح سے تقریبا ً چودہ ہزار فٹ نیچے کی طرف سفر کرنا پڑے‬
‫”گا‬
‫ابھی تک کی تحقیقات کے مطابق یہ چاند پر سب سے پرانا‪ ،‬بڑا اور گہرا گڑھا ہے۔‬

‫چاند پر دن اور رات کا یہ لمبا دورانیہ چاند کی سست رفتار محوری گردش کی وجہ سے ہے۔چاند کی روشنی میں نہائی ہوئی رات‬
‫ملکہ قلوپطرہ کے حسن سے کچھ کم حسین نہیں ہوتی‪ ،‬زمانہ قدیم سے محبوب کا حسن چاند کی تشبیہ سے واضح کرنے کی کوشش‬
‫کی جاتی رہی ہے۔اور ایسا کرنے والے حق بجانب تھے‪ ،‬چودھویں رات کا پورا چاند اور پہاڑی منظر ہو‪ ،‬ایسی خوبصورت جگہ پر‬
‫درختوں کے درمیان میں سے شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا ہو‪ ،‬چشمے کے صاف پانی پر چاند کی چاندنی رقص کر رہی ہو اور بہتا‬
‫ہوا پانی جھنکار کی آواز دے رہا ہو تو ایسے میں محبوب کا حسن یاد آنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔چاند صرف ہماری راتوں کو‬
‫روشن کرتا ہے ایسا بالکل نہیں‪ ،‬بلکہ چاند کی منزلیں مقرر ہیں‪ ،‬ان منزلوں سے مہینوں اور دنوں کا حساب زمانہ قدیم سے لگایا جاتا‬
‫رہا ہے۔اس کے عالوہ چاند کی کشش ثقل کی وجہ سے ہی زمین کے سمندروں کی تازگی برقرار رہتی ہے‪ ،‬مد و جزر بھی اسی‬
‫نظام کے تحت قائم رہتا ہے۔۔۔اگر یہ نظام نا ہو تو سمندر کا پانی ایک جگہ کھڑے کھڑے کسی جوہڑ کی طرح باسا ہو جائے گا اور‬
‫تمام آبی حیات و جاندار ختم ہو جائیں گی۔‬

‫ُمحققی ِن فلکیات کے مطابق چاند کی کشش ثقل سمندروں میں طغیانی پیدا کرتی ہے اور پھر سمندروں کی یہ طغیانی چاند پر اپنی زور‬
‫آزمائی کرتی ہے جس کے نتیجے میں ہر سال چاند زمین سے تین اعشاریہ آٹھ “‪ ”3.8‬سینٹی میٹر دور ہو جاتا ہے۔اگر یہ سلسہ‬
‫جاری رہا تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے بشرطیکہ تب تک زمین اور اس کے باسی زندہ رہے تو جب زمین سے مکمل سورج‬
‫گرہن کا نظارہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔وہ اس طرح کے ابھی چاند زمین کے نزدیک ہے تو یہ سورج کو گرہن کے وقت چھپا لیتا ہے‬
‫ورنہ اس قدر بڑے سورج کو چھپانا چاند جیسے چھوٹے سے سیارچے کے بس میں کہاں! عطارد کو ہی لے لیجیئے‪ ،‬طلوع شمس‬
‫کے وقت ہم سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کے آگے عطارد ہوتا ہے۔۔۔سورج کو چھپانا تودور کی بات ٹیلی سکوپ کے بغیر‬
‫عطارد اپنا وجود تک ثابت نہیں کروا سکتا۔‬
‫ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات ُشتر بے مہار کی طرح بالکل نہیں ہے اور نا ہی خود بخود وجود میں آئی بلکہ‬
‫کوئی ایک ایسی ہستی ہے جس نے یہ خوبصورت اور وسیع و عریض کائنات کو بنایا ہے۔کائنات کی ہر ہر چیز ایک منظم اور‬
‫باضابطہ نظام میں جکڑے ہوئے اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے۔یہ کائنات عقل و شعور سے باالتر ہے مگر اس کی وسعتوں‪،‬‬
‫پچیدگیوں اور اعداد و شمار کو دیکھنے واال اس کے بنانے والے کی مہارت اور کاریگری سے انکار نہیں کر سکتا۔زمین اور چاند‬
‫کے مدار‪ ،‬محوری گردشیں اور لمبے چوڑے فاصلے خود میں ایک بڑا پن رکھتے ہیں‪ ،‬لیکن اب ذرا اپنی عقل و خرد کے تمام‬
‫دروازے کھول لیجئے۔۔۔کیوں کہ اب ہم جن فاصلوں اور دوریوں کی بات کرنے لگے ہیں ان کے سامنے اوپر مذکور فاصلے اور‬
‫مدار نہایت چھوٹے فاصلے لگیں گے۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سورج‬
‫ہماری زمین پر روشنی اور حرارت کا ذریعہ‪ ،‬بہتی اور بھڑکتی گیسوں کا اُبلتا ہوا سمندر‪ُ ،‬محققی ِن فلکیات کی تحقیق و محتاط اندازے‬
‫کشش ثقل سے خالئی اجسام کو گرفت میں رکھنے واال‬ ‫ِ‬ ‫کے مطابق ایک سو بیس کھرب میل کی وسیع و عریض مسافتوں تک اپنی‬
‫ہمارا سورج۔سب سے پہلے یہ سمجھا جائے کہ ہمارا سورج ایک ستارہ ہے۔‬

‫نہایت اہم معلومات‬


‫زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں‪ ،‬ایک عام ستارے کی عمر چند ارب سال ہوتی ہے۔ستارہ جتنا بڑا ہوگا اس کی عمر “‬
‫اسی قدر کم ہوگی اور سائز میں جتنا چھوٹا ہوگا ایندھن کم استعمال ہونے کی وجہ سے اس کی عمر اسی قدر زیادہ ہوگی۔ستارے‬
‫کشش باہمی کی‬
‫ِ‬ ‫گیس اور گرد کے ان بادلوں میں جنم لیتے ہیں جنہیں ہم نیبیوال کہتے ہیں۔نیبیوال یا سحابیہ کے اندر گرد اور گیس‬
‫وجہ سے آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس ٹکراؤ کی وجہ سے گرد اور گیس سکڑنا شروع ہو جاتے ہیں یوں ایک‬
‫ستارے کا بچہ پیدا ہوتا ہے جسے پروٹوسٹار کہا جاتا ہے۔۔۔اب یہ پروٹو سٹار “نیم ستارہ” اپنے اندر کے دباؤ کی وجہ سے بہت زیادہ‬
‫کثیف اور المنتہا درجہ حرارت کو پہنچ جاتا ہے۔باآلخر اس نیم ستارے کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر خود‬
‫کار ایٹمی دھماکے شروع ہو جاتے ہیں۔جب کسی بھی پروٹوسٹار کے اندر خود کار دھماکے شروع ہو جائیں تو اس وقت وہ ایک‬
‫مکمل ستارہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ پا لیتا ہے۔‬

‫جیسا کہ ہم نے اوپر یہ پڑھا کہ زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ہر ستارے کے اندر ارتقائی مراحل چل رہے ہوتے‬
‫ہیں ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے‪ ،‬درجہ حرارت اور کثافت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ہائیڈروجن سے تبدیل‬
‫ہوئی ہیلئم بھی ہائیڈروجن کے ساتھ جلنے لگ جاتی ہے‪ ،‬جس سے ستارے کی گرمی اور حدت مزید بڑھ جاتی ہے‪ ،‬اب وقت گزرنے‬
‫کے ساتھ ساتھ جلی ہوئی ہیلئم کی راکھ کاربن کی صورت میں ستارے کے مرکز میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ہیلئم سے بنی‬
‫راکھ یعنی کاربن جب ستارے کے مرکز میں ایک خاص مقدار سے تجاوز کرتی ہے تو ستارہ ایک دھماکے سے پھول کر بہت بڑا‬
‫یعنی سرخ دیو کی صورت اختیار کر لیتا ہے‪ ،‬اپنی جسامت سے کئی گنا تک بڑا ہو جاتا ہے۔اگر ستارہ ہمارے سورج ”‪“red giant‬‬
‫جیسا ہو تو سکڑنے لگتا ہے اور سفید بونا سیارہ بن جاتا ہے‪ ،‬جس کے ایک چائے کے چمچ کے برابر مادے کا وزن کئی ٹن تک ہو‬
‫سکتا ہے۔۔اس کے بر عکس اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑا ہو تو ایک اور دھماکہ ہوتا ہے یہ دھماکہ کائنات کے دور‬
‫کہا جاتا ہے۔سپرنووا کا شکار ستارہ اپنی موت کے ‪” Super nova‬دراز تک کے عالقوں کو روشن کر دیتا ہے اسے “سُپر نووا‬
‫وقت ہمارے سورج سے ایک سو ارب گنا زیادہ روشنی اور توانائی خارج کرتے ہیں۔اس دھماکے کے بعد وہ ستارہ ایک “سیاہ‬
‫شگاف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔جی ہاں آپ درست ہیں سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول۔۔۔وہی بلیک ہول جو انسانی سوچ اور سمجھ کا اختتام‬
‫ہے۔‬

‫مزید یہ بھی جانتے چلیں کہ جو ستارہ اپنی موت کے قریب ہے اگر وہ ہمارے سورج سے ڈیڑھ سو گنا بڑا ہو تو دھماکہ سُپر نووا‬
‫کہا جاتا ہے۔ہائپر نووا اس قدر قیامت خیز دھماکہ ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں ‪ Hyper nova‬سے بھی بڑا ہوتا ہے‪ ،‬جسے ہائپر نووا‬
‫ہائپر نووا اتنی توانائی خارج کرتا ہے جتنی توانائی ہمارا سورج ساٹھ ارب سالوں میں خارج کرے‪ ،‬ہائپر نووا سے اس قدر خطرناک‬
‫اور طاقتور شعائیں نکلتی ہیں جو کہ ساڑھے سات ہزار نوری سال دور سے ہی ہماری زمین پر زندگی کا صفایا کر سکتی ہیں۔یعنی‬
‫اگر ہماری زمین سے ساڑھے سات ہزار نوری سال کی دوری پر کقئی ہائپر نووا کا دھماکہ ہوتا ہے تو سورج سے زیادہ روشنی اس‬
‫کہا جاتا ہے زمین پر قیامت برپا کر دیں۔ ‪ Gama ray bursts‬دھماکے کی ہو سکتی ہے یہاں اور اس کی مہلک شعائیں جنہیں‬
‫فوکل لینتھ والی دوربین سے ”‪inchs‬ایک ہزار برس قبل ہوئے ایک سپر نووا کا مشاہدہ آپ اپنی چھت سے کم از کم چھتیس انچ “‪36‬‬
‫کر سکتے ہیں۔جس جگہ سپرنونوا کا وہ دھماکہ ہوا تھا آج وہاں کھربوں میلوں پر پھیلے رنگ برنگی گیسوں کے عظیم بادل دکھائے‬
‫کا نام دیا گیا ہے۔ ”‪ “Crabe nebula‬یا ”‪ “Messier 1‬دیتے ہیں‪ ،‬جن کو‬

‫میرا خیال ہے اب ہم کافی حد تک ستاروں کی تخلیق و تباہی کو سمجھ چکے ہیں۔حال ہی میں کچھ برس پہلے پلوٹو سے بھی دور‬
‫ایک اور سیارہ دریافت ہوا جسے سیڈنا کا نام دیا گیا۔بہت زیادہ دوری کے سبب اس سیارے کے بارے میں کچھ خاص معلومات‬
‫حاصل نہیں ہو سکیں تاہم جس قدر ہوئیں وہ انسانی عقل کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہیں۔زمین کا تین سو پینسٹھ دن کا ایک سال‬
‫آپ کے ذہن میں ہوگا ۔۔۔لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں اس سیارے کا ایک سال کتنے عرصے میں پورا ہوتا ہے؟ سیڈنا گیارہ ہزار کم‬
‫و بیش سال میں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے‪ ،‬یعنی زمین پر گیارہ ہزار سال گزرنے کے بعد اس سیارے پر ایک سال‬
‫مکمل ہوتا ہے۔اس کا مدار سورج کے گرد نہایت عجیب ہے۔۔۔سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کا سورج سے کم سے کم فاصلہ‬
‫تک پھیل جاتا ہے‪.‬یہ بات ‪AU‬ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹ ‪AU 1200‬دو سو ایسٹرونومیکل یونٹ ‪200‬‬
‫علم میں رہے کہ ایک ایسٹرونومیکل یونٹ میں پندرہ کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ ہوتا ہے (زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ایک‬
‫ایسٹرونومیکل یونٹ کہالتا ہے) اردو میں ایسٹرونومیکل یونٹ کو فلکیاتی اکائی بوال جاتا ہے۔اب آپ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹس‬
‫کو پندرہ کروڑ کلومیٹر سے ملٹی پالئی یعنی ضرب دیں تو جواب کچھ یوں آئے گا کہ ایک سو اسی ارب کلومیٹر دور ‪1200AU‬‬
‫تک سورج اس سیارے کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے اور یہ صرف پلوٹو سے تھوڑا پرے کا عالقہ ہے۔۔۔اس سے آگے سورج کی‬
‫گرفت میں کئی ایک برفانی دنیائیں خالء میں گھوم رہی ہیں جن تک سورج کی روشنی پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں‪ ،‬جب‬
‫کہ روشنی ایک سیکنڈ میں تین الکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔‬

‫روشنی اور حرارت کا یہ منبع ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس سے ڈھکا ہوا ہے۔سورج کے قبضہ میں یعنی حجم کے اعتبار سے اس قدر‬
‫بڑا عالقہ ہے کہ اگر نظام شمسی کے تمام سیارے‪ ،‬ڈیڑھ سو سے زائد معلوم چاند‪ ،‬دُمدار ستارے اور باقی کے سب خالئی اجسام‬
‫کشش ثقل کے تابع ہیں” کو اکٹھا کیا جائے۔۔۔تو سورج کی طرف سے گھیرے میں لیا گیا عالقہ ان سب کے مقابلے‬ ‫ِ‬ ‫“جو سورج کی‬
‫میں ‪ % 99.86‬ہے۔سورج ایک سیکنڈ میں الکھوں ٹن مادے کو توانائی میں تبدیل کر دیتا ہے‪ ،‬اس دنیا میں سائنسی عروج سے لے‬
‫کر آج تک جتنے بھی کیمیائی و ایٹمی ہتھیار بنے ہیں۔۔۔سورج ایک سیکنڈ میں اس سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کر کے روشنی اور‬
‫کشش ثقل اس قدر طاقت ور ہے کہ زمین پر آپ کھڑے ہوں اور سورج پر‬ ‫ِ‬ ‫حرارت کی شکل میں خالء میں بکھیر دیتا ہے۔سورج کی‬
‫آپ کی ایک عام کپڑے والی شرٹ رکھ دی جائے تو آپ سے زیادہ آپ کی شرٹ کا وزن ہوگا۔‬

‫سورج کی سطح سے سورج کا مرکز تقریبا ً چھ الکھ پچانوے ہزار سات سو کلومیٹر ہے‪ ،‬زمین کے مرکز کا درجہ حرارت پانچ ہزار‬
‫چار سو ‪ 5400‬سینٹی گریڈ ہے اور سورج کی سطح کا درجہ حرارت پانچ ہزار پانچ سو پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ہے‪ ،‬سورج کا مرکز‬
‫کتنا گرم ہوگا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سورج کے مرکز کا درجہ حرارت ایک سو پچاس الکھ‬
‫ڈگری سینٹی گریڈ ہے‪ ،‬یعنی پندرہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ!۔۔۔سورج کی عمر یہی کوئی چار سو ساٹھ کروڑ سال بتائی جاتی ہے‪،‬‬
‫مطلب ساڑھے چار ارب سال کے لگ بھگ۔ہماری زمین سمیت نظام شمسی کا ہر سیارہ‪ ،‬ہر چاند‪ ،‬ہر دمدار ستارہ اور ہر خالئی جسم‬
‫سورج کے گرد چکر لگاتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورج ایک جگہ پر کھڑا ہوا ہے‪ ،‬ساکت ہے۔۔۔ایسا بالکل نہیں! بلکہ سورج‬
‫کو لئے ایک لمبے سفر پر روان دواں رہتا ہے۔ ‪ objects‬بھی ہر وقت ان تمام‬

‫لکھا جاتا ہے۔۔۔یہ وہ جگہ ہے جو ہماری کہکشاں ملکی وے کا مرکز ہے۔اس جگہ ایک بہت ”‪ “GC‬گلیسٹِک سینٹر جسے انگلش میں‬
‫کشش ثقل ہماری پوری کہکشاں کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ہمارے نظام شمسی جیسے چالیس الکھ‬ ‫ِ‬ ‫بڑا بلیک ہول موجود ہے جس کی‬
‫سے بھی زیادہ نظام شمسی اس بلیک ہول میں سما سکتے ہیں۔۔۔ہمارا سورج اور ہمارے سورج سے چھوٹے بڑے کئی کروڑ‬
‫غرض ہماری کہکشاں کے کئی ہزار ‪ nebulas‬ستارے‪ ،‬ان ستاروں کے اپنے سیارے اور چاند‪ ،‬گیسوں کے عظیم الشان بادل‬
‫کشش ثقل کے کنٹرول میں ہیں۔ایک نئی اور محتاط‬
‫ِ‬ ‫کھربوں میل کے وسیع عالقے میں پھیلی کروڑوں دنیائیں اسی بلیک ہول کے کی‬
‫کی رفتار کے ساتھ اس بلیک ہول سے پچیس ہزار چھ ”‪km‬تحقیق کے مطابق سورج ایک سیکنڈ میں دو سو اکیاون کلومیٹر “‪251‬‬
‫سو”‪ ″25600‬نوری سال کے فاصلے پر رہتے ہوئے ملکی وے کہکشاں کے گرد چکر لگا رہا ہے۔اگر اس رفتار سے کسی سواری‬
‫پر سورج کی طرف جائیں تو صرف دو ہفتوں میں ہم زمین سے سورج پر پہنچ کر پھر واپس زمین پر آ جائیں گے۔اس رفتار سے‬
‫کے برابر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے‪ ،‬یعنی ساٹھ کھرب میل۔ ”‪ “lightyear‬سورج تقریبا ً بارہ “‪ ”12‬صدیوں میں ایک نوری سال‬

‫سورج چلتا رہتا ہے۔۔۔رکتا نہیں‪ ،‬جلتا رہتا ہے بجھتا بھی نہیں۔جہاں عقل و سائنس کے حقائق ماننے الزم ہیں وہیں انسان کی محدود‬
‫عقل یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ کسی محدود ُوسعت و طاقت والی عام ذات کا کام نہیں ہے‪ ،‬یہ ضرور اس ذات کی‬
‫طرف سے بچھائی ہوئی‪ ،‬سجائی ہوئی کائنات ہے جو خود میں یکتا ہے‪ ،‬بے مثال ہے‪ ،‬الجواب ہے جب چودہ سو سال پہلے نا سائنس‬
‫تھی نا یورپی ترقی و ناسا کا وجود تھا‪ ،‬نا روس کی ٹیکنالوجی تھی نا جاپان کے ایجاد کردہ خالئی اجسام کی حرکات و سکنات کو‬
‫جانچنے والے سینسرز ایجاد ہوئے تھے۔۔۔تب عرب کے صحرا میں‪ ،‬ایک چھوٹی سی بستی میں محمد صل ہللا علیہ وسلم پر سورج‪،‬‬
‫چاند زمین اور پوری کائنات کے راز بذریعہ وحی کھولے جا رہے تھے۔جی ہاں یہ بتایا جا رہا تھا کہ “کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے‬
‫مدار میں چکر لگا رہی ہے” القرآن‪.‬قرآن پاک نے بتایا کہ سورج اپنی روشنی خود پیدا کرتا ہے‪ ،‬چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے۔یہ‬
‫بات گلیلیو گلیلی نے چار سو سال پہلے کہی لیکن قرآن نے یہی بات چودہ سو سال قبل بتا دی تھی۔‬

‫سورج ملکی وے کہکشاں کے گرد ایک چکر کم و بیش پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ایک ہفتے میں ایک فلکیاتی اکائی‬
‫“پندرہ کروڑ کلومیٹر” کا فاصلہ طے کرنے واال سورج پچیس کروڑ سال میں کتنا سفر طے کرتا ہوگا۔ایک صدی “سو سال” میں‬
‫سورج پانچ سو ارب میل سے کچھ زائد کا فاصلہ طے کرتا ہے۔پچیس کروڑ سالوں میں پچیس الکھ صدیاں بنتی ہیں۔۔۔مطلب آپ پانچ‬
‫کھرب میل کا فاصلہ “پچیس الکھ” بار کریں تو اسی کے برابر سورج ملکی وے کے گرد گھوم کر ایک “کہکشانی سال” مکمل کرتا‬
‫بھی کہا جاتا ہے۔سورج کی عمر کے حساب سے دیکھا جائے تو اس ”‪ “Cosmic year‬یا ”‪ “Galactic year‬ہے۔جسے انگلش میں‬
‫اعداد و شمار کے مطابق سورج نے اپنی پیدائش سے لے کر ابھی تک کہکشاں ملکی وے کے صرف اٹھارہ چکر ہی لگائے ہیں اور‬
‫انیسواں چکر نصف ہونے میں یہی کوئی پندرہ کروڑ سال باقی ہیں۔۔۔اگر ابتداء سے سورج کی یہی رفتار رہی ہے تو۔‬

‫اس سے بھی دلچسپ اعداد و شمار بتاتا چلوں کہ سورج اپنے مدار پر چکر لگاتے ہوئے پچیس الکھ صدیوں میں لگ بھگ دو ہزار‬
‫کا فاصلہ طے کرتا ہے۔۔۔مطلب دو سو اکیاون “‪ ”251‬کلومیٹر فی سیکنڈ یا نو الکھ کلومیٹر فی ”‪ “light year‬ایک سو نوری سال‬
‫گھنٹہ کی تیز رفتار سے سفر کرتے ہوئے سورج پچیس کروڑ سالوں میں دو ہزار ایک سو “‪ ”2100‬نوری سال کا فاصلہ طے کرتا‬
‫ہے۔‬

‫ان اعداد و شمار کے بعد محدود انسانی عقل شکست خوردہ حالت میں ہتھیار پھینک چکی ہے اور ہاتھ اٹھائے اپنی بے بسی کا اظہار‬
‫کر رہی ہے۔۔۔کہ بالفرض اگر ہم سورج جتنی رفتار سے سفر کر سکیں تو پچیس کروڑ سال میں نو الکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار‬
‫سے سفر کر کے ہم صرف دو ہزار نوری سال کے لگ بھگ کا فاصلہ طے کریں گے۔۔۔اور ابھی تک کی درفایت شدہ کائنات کتنے‬
‫نوری سال تک پھیلی ہوئی ہے‪ ،‬معلوم ہے آپ کو؟‬
‫جس جگہ آپ کھڑے ہو کر اپنے گرد و نواح کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔چاروں اطراف آپ کی نظر جہاں جہاں تک جاتی ہے وہ اپ کا‬
‫مشاہداتی عالقہ کہالئے گا۔۔۔ہم اس کائنات میں زمین اور زمین کے گرد و نواح سے جھانکتے ہیں تو آپ زمین کو مرکز بنا کر‬
‫چاروں اطراف کے مشاہداتی کائنات کا عالقہ نوری سال میں بیان کریں تو عقل دنگ رہ جائے گی۔۔۔ترانوے “‪ ”93‬ارب نوری سال‬
‫تک کے فلکیاتی جنگل میں انسان کی نظریں پہنچ چکی ہیں۔ہے نا حیران کن بات کہ کہاں پچیس کروڑ سالوں میں سورج نو الکھ‬
‫کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دو ہزار ایک سو نوری سال کا سفر طے کرتا ہے۔۔۔اور کہاں ترانوے ارب نوری سال کے دنگ کر‬
‫دینے والے فاصلے جن کو انسان صرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ ہی سکتا ہے۔اور یہ کائنات کا صرف وہ حصہ جہاں تک‬
‫انسانی دور بینوں کی نگاہیں پہنچی ہیں۔مزید کائنات کیا ہے؟ کہاں تک ہے؟ محدود ہے یا ال محدود ہے؟ جواب ندارد‬
‫صرف سورج ہی نہیں بلکہ سورج کے کنٹرول میں ہر چیز سورج کے ساتھ اربوں سالوں سے انجان راستوں کی مسافر بنی ہوئی‬
‫ہے۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کبھی کسی پُرسکون جگہ پر لیٹ کر ان ستاروں سے باتیں کیجئے گا‪ ،‬ان کو اپنا دوست سمجھ کر چند لمحے ان کے لئے نکالئے‬
‫گا۔۔۔پھر دیکھئے گا کہ ال ُمنتہاء مسافتوں کے یہ مسافر سیارے‪ ،‬سیارچے‪ ،‬ستارے اور کہکشائیں آسمان پر رات کے وقت چمکتے‪،‬‬
‫ت کائنات کی حیرانگیوں سے‬ ‫دمکتے اور اپنی منزل کی جانب آگے بڑھتے ہوئے آپ کو اپنی رودا ِد سفر بھی سنائیں گے اور عجائبا ِ‬
‫آپ کے دل و دماغ کو بھی جھنجھوڑیں گے۔اگر کبھی موقع ملے اور آپ مصنوعی روشنیوں سے دور کہیں پہاڑی وادیوں میں رات‬
‫گزاریں تو غور کیجئے گا کہ چاند سے خالی راتوں میں آپ ہزاروں ستاروں کو کسی دور بین کا سہارا لئے بغیر اپنی آنکھ سے دیکھ‬
‫سکیں گے اور ہزاروں الکھوں نوری سال کے فاصلے ہونے کے باوجود ان ستاروں کی دودھیا سفید‪ ،‬نیلی‪ ،‬نارنجی‪ ،‬سرخ اور‬
‫سنہری روشنیاں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنا جلوہ بکھیرتے ہوئے آپ کو دنیا وما فیہا سے غافل کر دیں گی۔آپ یہ سوچنے‬
‫تصویر فنکار بھی ہے! رنگوں بھرے گیسی بادلوں یعنی نیبیوالز‬
‫ِ‬ ‫پر مجبور ہو جائیں گے کہ کائنات صرف عجائب خانہ ہی نہیں بلکہ‬
‫میں ٹِمٹماتے ستارے تو کہیں روشنیاں بکھیرتی دلکش کہکشائیں۔‬

You might also like