Professional Documents
Culture Documents
األسئلة المفتوحة
ِیہ ْم َرس ُْوالً مِّنْ َٔانفُسِ ِہ ْم َی ْتلُ ْو َع َلی ِْہ ْم ٓا َیات ِٖہ َوی َُز ِّکی ِْہ ْم
ثف ِ ’’ َل َق ْد َمنَّ ہللاُ َع َلی ْالمُٔو ِم ِنی َْن ِإ ْذ َب َع َ
(ٓال عمران) ْن‘‘ ِ ضاَل ٍل م ُِّبی ٍ اب َو ْال ِحکْ َم َۃ َوِإن َکا ُن ْوا ِمنْ َق ْب ُل َل ِفیْ َ َوی َُعلِّ ُم ُہ ُم ْالکِ َت َ
تجوید ،ناظرہ اور حفظِ قرٓان : 1تالوت:
قرٓان کی تفسیر :تعلیم کتاب:
ِ 2
ث رسول صلی ہللا علیہ وسلم :تعلیم حکمت :حدی ِ
ِ 3
اخالقیات اور تربیتی نظام : 4تزکیہ:
الغرض اس طریقے سے ائمہ مساجد کے لیے کام کرنے کا ایک بہترین فورم تیار ہو جاتا ہے۔ اس وقت
ائمہ کے پاس اُمت کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک بہترین میدان میسر ہے ،جس میں :
-۱ مسجد کی صورت میں ایک منظم ادارہ
-۲ ائمہ و فضالئے مدارس کی صورت میں قابل اساتذہ
-۳ نمازیوں کی صورت میں طلبہ
ت تعلیم
-۴ پنج وقتہ نمازوں کی صورت میں اوقا ِ
ب تعلیم کی سہولیات موجود ہیں۔ -۵ قرٓان و حدیث کی صورت میں ایک بہترین نصا ِ
ترکِ سنت اور سنت کو ہلکا سمجھنے کا انجام کیا نکلتا ہے ،اس کے متعلق شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ
تحریر فرماتے ہیں :
ـــ’’ جو شخص ٓاداب میں سستی کرتا ہے ،وہ سنت سے محرومی کی مصیبت میں مبتال کیا جائے گا اور جو
سنت میں سستی کرتا ہے اور ا ُسے ہلکا سمجھتا ہے ،وہ فرائض کے چھوٹنے کی مصیبت میں مبتال ہوتا
ت ٰالہی سے محروم رہتا ہے۔ ہے اور جو فرائض میں سستی کرتا ہے اور اُسے خفیف سمجھتا ہے ،وہ معرف ِ
‘‘
’’ من تھاون باآلداب عوقب بحرمان السنۃ ،ومن تھاون بالسنۃ عوقب بحرمان الفرائض ،ومن تھاون بالفرائض
عوقب بحرمان المعرفۃ ۔‘‘ (عزیزی ،ج ،۱ :ص)۹۸۴:
سنت
راشدین اور صحابہ کرام ] نے کیا ہو اور اس کی ؓ ’’وہ کام جس کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم ، خلفا ء
ٰ
تاکید کی ہو۔‘‘ ( فتاوی رحیمیہ ،ج ،۱:ص)۱۹۱ :
مسئلہ
ت غیر مٔوکدہ کو ترک کرنا مکرو ِہ تنزیہی ہے ۔ ت مٔوکدہ کو تر ک کرنا مکرو ِہ تحریمی ہے اور سن ِ سن ِ
( ردالمحتار ،ج ،۱ :ص )۴۳۹:
ان َیرْ جُوا ہّٰللا َ َو ْال َی ْو َم ااْل ٰ خ َِر َ و َذ َک َر ہّٰللا َ َک ِثیْرً ا ‘‘ ہّٰللا
ان لَکُ ْم فِیْ َ رس ُْو ِل ِ اُسْ َوۃٌ َح َس َن ٌۃ لِّ َمنْ َک َ ’’ لَ َق ْد َک َ
(سورۃ االحزاب )۲۱ :
’’تمہا رے لیے رسول ہللا( صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت) میں عمدہ نمونہ موجود ہے اس شخص کے
ت ٓاخرت کا امیدوار روز آخرت کی اُمید رکھتا ہے (ہللا کے ثواب ،اس کی مالقات اور نعم ِ ِ لیے جو ہللا اور
ہے) اور ہللا کی بہت یاد کرتا ہے۔‘‘
فائدہ .....:رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے ،چاہیے کہ ہر معاملہ،
نقش قدم پر چلیں اور ہمت واستقالل وغیرہ میں ہر ایک حرکت وسکون اور نشست وبرخاست میں ان کے ِ
ان کی چال سیکھیں۔ ( عثمانی )۵۵۹ :
ہللا َ ش ِد ْی ُد ْال ِع َقابِ‘‘ ہللا اِنَّ َ ’’و َم ٰٓاا ٰتکُ ُم الرَّ س ُْو ُل َف ُخ ُذ ْوہُ َ و َما َن ٰھکُ ْم َع ْن ُہ َفا ْن َتہ ُْوا َوا َّتقُوا َ َ
(الحشر)۷:
’’اور جو دے تم کو رسول ( صلی ہللا علیہ وسلم ) سو تم لے لو اور جس چیز سے منع کرے سو چھوڑدو
اور ڈرتے رہو ہللا سے ،بے شک ہللا کا عذا ب سخت ہے ۔ ‘‘
فائدہ .....:یعنی مال جائداد وغیرہ جس طرح پیغمبر ہللا کے حکم سے تقسیم کرے اُسے بخوشی ورغبت
قبول کرلو ،جو ملے لے لو ،جس سے روکا جائے رُک جائو اور اسی طرح اس کے تمام احکام اور اوامرو
نواہی کی پابندی رکھو۔ ( عثمانی )۷۲۵ :
’’ -:۳قُ ْل اِنْ ُک ْن ُت ْم ُت ِحب ُّْو َن ہّٰللا َ َفا َّت ِبع ُْونِیْ یُحْ ِب ْبکُ ُم ہّٰللا ُ َو َی ْغفِرْ لَکُ ْم ُذ ُن ْو َبکُ ْم َ وہّٰللا ُ َ غفُ ْو ٌر رَّ ِح ْی ٌم‘‘
(آل عمران ) ۳۱ :
فائدہ .....:اطاعت‘ فرمانبرداری اور حکم ما ننے کو کہتے ہیں ۔ اتبا ع اپنے مقتدا کے پیچھے چلنے کو
اور اس کی راہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ غیر مسلمین کو تو اس ٓایت میں تنبیہ ہے ہی ،لیکن اس کے
ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے جو ہللا کے ساتھ محبت کے بھی دعویدار ہیں اور نبی کریم صلی ہللا
دعوی کرتے ہیں ،لیکن نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع ٰ علیہ وسلم کی محبت کا بھی بڑھ چڑھ کر
اور اطاعت سے دور ہیں ،کا روبار بھی حرام ہے ،پھر بھی ہللا و رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے محبت
مدعیان محبت
ِ دعوی ہے۔ لباس نصرانیوں کا ہے ،پھر بھی ٰ ہے۔ داڑھی منڈی ہوئی ہے ،پھر بھی محبت کا
ہیں۔ ملکوں کو کا فروں کے قوانین کے مطابق چالتے ہیں ،پھر بھی محبت کرنے والے ہیں۔ یہ محبت نہیں،
دعوی ہے ۔ ( انوا رالبیان ،ج ،۲:ص)۴۳: ٰ محبت کا دھوکا ہے اور جھوٹا
عطیہ (جو ایک شامی ثقہ تابعی ہیں) سے ؒ -:۱امام بیہقی ؒ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت حسان بن
روایت نقل کی ہے کہ :
’’حضرت جبرئیل علیہ السالم جس طرح امام انبیا ء صلی ہللا علیہ وسلم پر قر ٓان کریم لے کر نازل ہوتے
تھے ،اسی طرح سنتوں کے احکام بھی لے کر ٓاتے تھے۔ ‘‘ ( فتح الباری ،ج ،۱۳ :ص)۲۹۱ :
-:۲حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’میری ا ُمت جنت میں داخل ہوگی ،مگروہ شخص جس نے انکار کیا اور سرکشی کی وہ جنت میں داخل
نہیں ہوگا ،پھر پو چھا گیا :وہ کون شخص ہے جس نے انکا ر کیا اور سر کشی کی؟ ٓاپ صلی ہللا علیہ
وسلم نے فرمایا کہ :جس شخص نے میری اطاعت اور فرمانبرداری کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس
(مشکو ۃ ،ج ،۱ :ص۲۷ :۔ بخاری ،ج: ٰ شخص نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا اور سر کشی کی۔‘‘
،۲ص)۱۰۸۱ :
سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ وسلم نے ِ -:۳حضرت عبدہللا ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روایت ہے کہ
فرمایا کہ :
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک پورا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس دین
(مشکوۃ ،ج ،۱:ص)۳۰ : ٰ وشریعت کے تا بع نہیں ہوتیں جس کو میں خدا کی جانب سے الیا ہوں ۔‘‘
-:۴حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’ جس شخص نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا اور جس نے مجھ کو محبوب
رکھا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔‘‘ ( مشکو ۃ ،ج ،۱:ص)۳۰ :
-:۵حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’میری ا ُمت کے بگڑنے اور فساد کرنے کے وقت جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اس
ُ
مشکوۃ :ج ) ۳۰ ۱ ٰ کو سو ( )۱۰۰شہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘ (
فائدہ .....:حدیث پاک میں شہید سے مراد وہ شہید ہے جو احیاء دین کے لیے کفار سے مقابلہ کرتے
قاری لکھتے ہیں : ؒ ہوئے شہید ہو جائے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر ہوگا ،چنانچہ مال علی
’’ کالشھید المقاتل مع الکفار إلحیاء الدین بل ٔاکثر۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح ،ج ،۱:ص )۲۵۰:
فائدہ .....:اس کو سو ( )۱۰۰شہید وں کا ثواب کیوں ملتا ہے؟ اس کے متعلق شاہ محمد اسحاق محدث
دہلوی رحمہ ہللا نے بڑی اچھی بات تحریر فرمائی ہے :
’’کیوں کہ شہی ِد حقیقی کو جو کفار کے مقابلہ میں لڑ کر شہید ہو‘ زخم کی تکلیف ایک بار اُٹھانی ہوتی ہے،
اس واسطے وہ ایک شہید کا ثواب پاتا ہے اور یہ شخص جو ایسے زمانے میں کہ کفار اور فساق کا غلبہ
ت جسمانی اور ت نبوی پر چلنے میں ہر طرف طعن وتشنیع کے زخم سے ہر دم جراح ِ ہورہا ہے ،سن ِ
روحانی کے الم اور رنج میں گرفتار رہتا ہے ،اس لیے اس کو سو ( )۱۰۰شہیدوں کا ثواب ملے گا اور
ہمیشہ مومنین نے مفسدین اور بے دینوں کے ہاتھ سے اس طرح کی تکلیف پائی ہے ،جیسا کہ فرمایا
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے :
’’ ٔاشدالناس بالء أالنبیاء ثم أالمثل فأالمثل۔‘‘ (اربعین فی سنۃ المرسلین ،ص )۴۰۳ :
دربار رسالت میں حاضر ِ -:۶حضرت جابر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ :حضرت عمر رضی ہللا عنہ
ہوئے اور عرض کیا کہ ہم یہودکی حدیثیں سنتے ہیں اور وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتی ہیں ،کیا ٓاپ
اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کو لکھ لیں؟ ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ :کیا تم بھی
نصاری حیران ہیں؟ جان لو کہ بال شبہ میں تمہارے پاس صاف ٰ اسی طرح حیران ہو جس طرح یہودو
وروشن شریعت الیا ہوں ،اگر حضرت موسی علیہ السالم زندہ ہوتے تو وہ بھی میری پیروی پر مجبور ٰ
ہوتے:
(مشکوۃ ،ج ،۱:ص)۳۰: ٰ موسی حیا ما وسعہ إال اتباعي ۔‘‘ ’’ولو کان ٰ
موسی علیہ السالم زندہ ہوتے تو اقوال وافعال میں وہ بھی ٰ فائدہ ’’ .....:ماوسعہ إال اتباعي‘‘ یعنی اگر
میری ہی پیروی کرتے تو پھر میرے ہوتے ہوئے یہود سے تمہارے لیے فائدہ حاصل کرنا کیسے جائز
تعالی فرماتے ہیں : ٰ ہوگا؟ کیونکہ ہللا
ِّ
ُّص ِّد ٌق ل َما َ م َعکُ ْم لَ ُتْٔو ِم ُننَّ ِب ٖہ ُ
ب َّو ِحکْ َم ٍۃ ث َّم َجاَئ کُ ْم َ رس ُْو ٌل م َ ٰ ٰ ’’ َوا ِْذ اَ َخ َذ ہّٰللا ُ ِم ْیث َ
اق ال َّن ِب ٖ ّی َن لَ َمٓا ا َت ْی ُتکُ ْم مِّنْ کِت ٍ َ
[ٓال عمران ( ]۸۱:مشکوۃ ،ج ،۱ :ص)۳۱ : ص ُر َّن ٗہ ۔‘‘ ِ َولَ َت ْن ُ
-:۷حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
میں نے تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑیں ،جب تک تم اُن کو پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے،
ت رسول ہیں : وہ کتاب ہللا اور سن ِ
’’ ترکت فیکم ٔامرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب ہللا وسنۃ رسولہ۔‘‘
(مشکوۃ ،ج ،۱ :ص ) ۳۱ : ٰ
-:۸حضرت غضیف بن حارث رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ :جب کوئی قوم دین میں نئی بات نکا لتی ہے ( یعنی ایسی بدعت جو سنت کے مزاحم ہو )
تو اس کی مثل ایک سنت اُٹھالی جاتی ہےٰ ،لہذا سنت کو مضبوط پکڑنا نئی بات نکالنے سے بہتر ہے ۔
مشکوۃ ،ج ،۱ :ص )۳۱: ٰ (
حضرت حسان بن ثابت رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ :پھر وہ سنت قیامت تک اس کی طرف واپس نہیں
کی جاتی ،یعنی وہ اس سنت کی برکت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتی ہے۔ ( دارمی،ـ ج ،۱ :ص:
)۴۵
ب سنت کی رعایت الدین سے منقول ہے کہ :اس میں حکمت یہ ہے کہ جس نے ٓادا ِ ؒ فائدہ .....:سید جمال
ب سنت کے مطابق ہے تو خدا کی جانب سے یہ توفیق دی جاتی کی ،مثالً اس کا بیت الخالء جانا بھی ٓادا ِ
اعلی مقامات کی طرف اس کی ٰ توفیق ٰالہی کا وہی نور
ِ اعلی سنت پر عمل کرے ،چنانچہ ٰ ہے کہ وہ اس سے
منزل مقصود تک جا پہنچتا ہے اور جو شخص کسی معمولی سنت کو ِ راہ نمائی کرتا رہتا ہےٓ ،اخر کار وہ
ٰ
اعلی و افضل بھی ترک کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ خامی پیدا ہوجاتی ہے ،وہ دوسری
سالمتی قلب ترکِ سنت کی ظلمت میں پھنس کر تنزل کرتی ِ چیزوں کو بھی ترک کرتا رہتا ہے اور اس کی
(مظاہر حق
ِ مقام َرین و طبع تک جاگرتا ہے ۔‘‘
رہتی ہے ،یہاں تک کہ وہ مقام‘ ِ
جدید ،ج ،۱ :ص)۲۱۶ :
فائدہ .....:مال علی قاری رحمہ ہللا نے اس موقع پر بڑی اچھی بات کہی ہے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ
ناقابل اعتناء سمجھ
ِ کسل و سستی کی وجہ سے سنت کو ترک کرنا مالمت وعقاب کا باعث ہے اور سنت کو
ب خداوندی کا سبب ہے اور سنت کا انکار بد عتی ہونے کا اظہار کر اس پر عمل کرنامعصیت اور عذا ِ
ہے ۔
( مرقاۃ المفاتیح ،ج ،۱ :ص)۲۵۶ :
- ?What do you as an imam do to encourage people to practice the Sunnah
آپ بحیثیت امام لوگوں کو سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کیا کرتے ہیں؟
تعالی چار باتوں سے اس کی تکریمٰ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے میری سنت کی حفاظت کی تو ہللا
کرے گا :
-:1نیک لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرے گا ۔
-:2فاجر بدکار لوگو ں کے دلوں میں ہیبت ڈال دے گا ۔
-:3رزق میں کشادگی کرے گا۔
-:4دین میں پختگی نصیب فرمائے گا۔ (شرح شرعۃ االسالم لسید علی زادہ ،ص)۸ :
-:۱۰حضرت عرباض بن ساریہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ :ایک دن رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم
نے نماز پڑھائی ،پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے ،پھر نہایت بلیغ اور مٔوثر انداز میں وعظ فرمایا ،جس کی
صحابی نے عرض کیا :یا
ؓ وجہ سے حاضرین کی ٓانکھوں سے ٓانسو بہنے لگے اوردل لرز اُٹھے ،ایک
رسول ہللا! یہ تو گویا رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے ،ہمیں اور بھی نصیحت فرمائیں۔ ٓاپ صلی ہللا
تقوی اختیار کرنے اور سننے و فرمانبرداری کی وصیت کرتا ہوں ،اگرچہ ٰ علیہ وسلم نے فرمایا :میں تم کو
تمہارا امیر حبشی غالم ہو ،تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختالف دیکھے گا،
ایسے حاالت میں تم پر الزم ہے کہ تم اس طریقے پر جمے رہو جو میرا طریقہ ہے اور میرے بعد ان
خلفاء راشدین رضی ہللا عنہم کا طریقہ ہے جو ہدایت یافتہ ہیں ،تم اس کو مضبوطی سے پکڑو اور داڑھوں
سے مضبوطی سے پکڑلو ،اور ہر بدعت سے پوری طرح پرہیز کرو ،اس لیے کہ دین میں ہر نئی بات
(مشکوۃ ،ج ،۱ :ص)۲۹ :ٰ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
-:۱۱امام غزالی رحمہ ہللا فرماتے ہیں :
تعالی کا ایک فرشتہ ہے جو روز پکارتا ہے کہ کوئی سنت کے خالف کرے گا تو اس کو حضور ٰ ’’ خدا
صلی ہللا علیہ وسلم کی شفاعت حاصل نہ ہوگی اور جو شخص سنت کے خالف بدعت کو ایجاد کرتا ہے
اس کی نسبت دوسرے گناہ گار سے ایسی ہے جیسے کسی بادشاہ کی سلطنت کا تختہ اُلٹنے واال کہ اگر
کوئی شخص بادشاہ کے کسی ایک حکم میں خالف ورزی کرے تو بادشاہ کبھی تقصیر معاف کر دیتا ہے،
مگر سلطنت کے درہم برہم کرنے والے کو معاف نہیں کرتا۔ یہی حال بدعت ایجاد کرنے والے کا ہے کہ وہ
باغی سنت ہے۔‘‘ ( احیاء العلوم ،ج ،۱:ص)۸۷ :ِ
-:۱۲امام نافع رحمہ ہللا فرماتے ہیں کہ :حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہما کے سامنے ایک
علی رسول شخص کو چھینک ٓائی ،اس نے کہا ’’ :الحمد ہلل والسالم علی رسول ہللا‘‘ یہ زائد کلمہ ’’ والسالم ٰ
ہللا‘‘ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ،مگر اس موقع پر چو نکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم
نے یہ پڑھنے کی تعلیم نہیں دی ،اس لیے اس اضافے کو نا پسند کرتے ہوئے حضرت ابن عمر رضی ہللا
عنہ نے فرمایا کہ :حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے اس طرح تعلیم نہیں فرمائی ،بلکہ اس موقع پر ٓاپ
صلی ہللا علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ اس طرح کہے ’’ :الحمد ہلل علی کل حال ۔‘‘
( مشکوۃ ،باب العطاس ،ج ،۲ :ص)۴۵۶ :
-:۱۳حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا
کہ :جس نے میری سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ جنت میں داخل ہوگا ’’ :من تمسک با لسنۃ دخل
الجنۃ ۔‘‘
( کنز العمال ،ج ،۱:ص)۱۵۵:
-:۱۴حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا
کہ :چھ قسم کے لوگ ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں ،ان میں سے ایک ’’ التارک لسنتي‘‘یعنی میری سنت
کو چھوڑ نے واال ہے ۔ ( مستدرک حاکم ،ج ،۱:ص:
)۳۲
-:۱۵حضرت ابن مسعود رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ :میری
امت کے اختالف کے زمانے میں سنت کو جس شخص نے مضبوطی سے پکڑا وہ ایسا ہے جیسے کہ اس
نے ٓاگ کی چنگاری ہاتھ میں لی:
’’ المتمسک بسنتي عند اختالف ٔامتي کٔانہ تقابض علی الجمر ۔‘‘(کنز العمال ،ج ،۱ :ص)۱۵۵:
-:۱۶حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ :مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضے میں میری
جان ہے کہ اگر میری موجود گی میں تمہارے پاس حضرت یوسف علیہ السالم تشریف الئے اور تم اس
کی پیروی کرکے مجھے چھوڑ دو توگمراہ ہوجاؤ۔ ( کنز العمال،
ج ،۱:ص )۱۱۳ :
ٓ -:۱۷انحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب غصہ ٓائے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جائو اور اگر
بیٹھے ہو تو لیٹ جائو ،غصہ جاتا رہے گا۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی ہللا عنہ باغ میں پانی دے رہے
تھے ،ایک شخص نے ایسی حرکت کی کہ نالی کی پال ٹوٹ گئی اور پانی باہر نکل کربہنے لگا۔ حضرت
ابوذر غفاری رضی ہللا عنہ کو غصہ ٓایا ،مگر فوراً ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد یاد ٓاگیآ ،اپ ؓ
کیچڑ اور پانی میں بیٹھ گئے ،سارے کپڑے لت پت ہوگئے ،مگر ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم کے ارشا ِد
گرامی کی تکمیل میں تاخیر برداشت نہیں کی۔ ( مسند امام احمد ،ج ،۱:ص)۱۵۲:
-:۱۸حضرت علی رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں :قول بالعمل کے درست نہیں اور قول و عمل صحیح نیت
کے بغیر قبول نہیں اور قو ل وعمل اور نیت کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سنت کے موافق
ہو۔
( کنز العمال ،ج ،۱:ص )۱۳۵ :
?What is the relation between the Quran and the Sunnah
قرآن و سنت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
2۔ سنت ایک مستقل شارع بھی ہے۔ ۔ آقا ﷺ بطور شارع
قرآن مجید کے ساتھ س›اتھ ہللا کے رس›ول بھی اپ›نے ق›ول وعم›ل کے ذریعے س›ے اہ›ل ایم›ان کی راہ
نمائی فرماتے ہیں۔اپنی اس منصبی حیثیت میں آپ کو اہل ایمان کے لیے دینی ہدایات واحکام مقرر ک››رنے
کا مستقل اختیار حاصل تھا اور اہل ایمان سے کتاب ٰالہی اور پیغمبر ،دونوں کی اطاعت کس››ی امتی››از کے
تعالی ہے:
ٰ بغیر یکساں مطلوب تھی۔ ارشاد باری
اس کے ساتھ قرآن مجید میں یہ بات بھی اتنی ہی وضاحت کے س››اتھ بت››ا دی گ››ئی تھی کہ پیغم››بر ک››و
حاصل تشریعی اختیار ،کتاب ہللا کے مدمقابل ی››ا اس کے مت››وازی نہیں ہے ،بلکہ اس کے ت››ابع ہے۔ یع››نی
رسالت مآب صلی ہللا علیہ وسلم ،کتاب ٰالہی میں دی گئی ہ››دایت کے پابن››د اور پیروک››ار تھے اور اس میں
کس››ی قس››م کی ت››رمیم وتغی››یر کے مج››از نہیں تھے۔ چن››انچہ کف››ار کی ط››رف س››ے ق››رآن میں تب››دیلی کے
تعالی نے فرمایا کہ:
ٰ مطالبے کے جواب میں ،ہللا
?How should people conduct comparative study between the Quran and the Sunnah
لوگوں کو قرآن و سنت کا تقابلی مطالعہ کیسے کرنا چاہیے؟
سنت قرآن کے مقابل نہیں بلکہ قرآن کی شارح ہے اس لیے تقابل نہیں بنتا۔
ہاں اگر مسائل کو سمجھنے کےلیے مقابل رکھ کر دیکھنا ہو تو یہ جائز ہے بشرطیکہ صحیح تاویل معلوم ہو۔ جیسا کہ
۱۔ ام مبشر بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے ام المومنین حفصہ رض››ی ہللا عنہ››ا
کے سامنے فرمایا” :ہللا نے چاہا تو (ح››دیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت ک››رنے وال››وں میں س››ے ک››وئی
بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔“ام المومنین حفصہ نے کہا کہ یا رسول ہللا ،بالکل ج››ائے گ››ا۔ اس پ››ر آپ نے
انھیں ڈانٹ دیا تو ام المومنین نے قرآن مجید کی اس آیت کا حوالہ دیا:
قضیًّا (مریم )۷۲ ،۷۱ :۱۹ کم اِاَّل َوا ِر ُدھَاَ ،کانَ ع َٰلی َربِّ َ
ک َحت ًما َّم ِ َواِن ِّمن ُ
”تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہوگا۔ یہ تمہارے رب کا اٹل فیصلہ ہے۔“
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے جواب میں اس سے اگلی آیت پڑھی :
ثُ َّم نُنَ ِّجی الَّ ِذینَ اتَّقَوا َّونَ َذ ُر ال ٰظّلِ ِمینَ فِی َھا ِجثِیًّا
القیم لکھتے ہیں کہ سیدہ حفص››ہ ک››و آیت اور ح››دیث کے م››ابین تع››ارض محس››وس ہ››وا اورعالمہ ابن ؒ
انھوں نے سمجھا کہ قرآن میں ورود سے مراد آگ میں داخ››ل ہون››ا ہے۔ چن››انچہ ن››بی ص››لی ہللا علیہ وس››لم
نے واضح فرمایا کہ اہل ایمان اور اہل کفر کے ورود کی نوعیت مختلف ہوگی۔ متقین ک››ا ورود ایس››ا ہوگ››ا
کہ وہ جہنم کے ع››ذاب س››ے محف››وظ رہیں گے ،جبکہ ظ››الموں ک››ا ورود انھیں ہمیش››ہ کے ل››یے جہنم میں
رکھنے کے لیے ہوگا۔ (الصواعق المرسلة )۳/۱٠۵۴
۳۔ سورة النساءکی آیت ۱۰۱میں نماز کو قصر کرنے کا حکم اصالً جہاد کے احکام کے ضمن میں
بیان ہوا ہے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے سرایا کو دشمن قبائل کے عالقے سے گزر
کر جانا ہوتا تھا اور خدشہ ہوتا تھا کہ اگر کسی جگہ زیادہ دیر قیام کیا تو دشمن کو خبر ہو جائے گی اور
وہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ قرآن مجید میں نماز کو قصر کرنے کی ہدایت اسی تناظر میں
آئی ہے۔ تاہم نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے اس رخصت کو اس خاص صورت تک محدود رکھنے کے
بجائے اس کو عمومی طو رپر ہر طرح کے سفر سے متعلق قرار دیا جس پر بعض صحابہ کو اشکال ہوا
اور انھوں نے یہ اشکال نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔
یعلی بن امیۃ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے سوال کیا کہ سورة النساء( )۱۰۱ :۴میں تو
نماز کو قصر کرنے کی اجازت کفار کی طرف سے اندیشے اور خوف کی حالت میں دی گئی تھی تو اب
جبکہ اہل ایمان کو امن حاصل ہو گیا ہے ،اس رخصت پر عمل کیوں برقرار ہے؟ سیدنا عمر نے فرمایا:
عجبت مما عجبت منہ فسالت رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم عن ذلک فقال صدقة تصدق
ہللا بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ (صحیح مسلم ،کتاب صالة المسافرین ،باب صالة المسافرین
وقصرہا ،رقم )۶۸۶
”جس بات پر تم حیران ہوئے ہو ،وہ میرے لیے بھی باعث حیرانی بنی تھی ،چنانچہ میں نے اس کے
تعالی کی طرف سے ایکٰ متعلق رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا :یہ ہللا
مہربانی ہے جو اس نے تم پر کی ہے ،اس لیے ہللا کی دی ہوئی رخصت کو قبول کرو۔“
گویا آپ نے واضح فرمایا کہ آیت میں ِإن ِخفتُم اَن یَفتِنَ ُک َم الَّ ِذینَ َکفَرُوا (اگر تمھیں خوف ہو کہ اہل کفر
تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے) کی قید کسی شرط کے طور پر نہیں ،بلکہ قصر کی رخصت سے فائدہ
اٹھانے کے لیے ایک خاص وجہ کے طور پر ترغیب کے پہلو سے بیان کی گئی ہے۔
خالصہ
قرٓان سے حدیث کے تعلق کے تین پہلو ہیں:
1۔ کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں قرٓان میں مذکور احکام ہی کا ت››ذکرہ بہ ط››ور تاکی››د وتائی››د ٓای››ا ہے ،مثالً
زکوۃ اور حج کی ادائی کا حکم اور شرک ،جھوٹی گواہی ،والدین کی نافرمانی اور ناحق قتل نماز ،روزہٰ ،
نفس کی ممانعت وغیرہ۔
2۔ بہت سی احادیث قرٓان کی تفسیر وتشریح کرتی ہیں۔ چنانچہ قرٓان میں کوئی حکم مجم››ل بی››ان ہ››وا ہے،
اح››ادیث میں اس کی تفص››یل موج››ود ہے۔ ک››وئی حکم ق››رٓان میں مطل››ق م››ذکور ہے ،اح››ادیث میں اس کے
سلسلے میں بعض قیود عائ››د ک››ردی گ››ئی ہیں۔ کس››ی حکم ک››ا ت››ذکرہ ق››رٓان میں عم››ومی ص››یغے میں ہے،
احادیث میں اس کی تخصیص ک››ردی گ››ئی ہے۔ مثالً ق››رٓان میں نمازق››ائم ک››رنے ،زک› ٰ›وۃ ادا ک››رنے اور حج
کرنے کے احکام ہیں۔ احادیث میں نمازوں کے اوقات ،رکعتوں کی تعداد ،ادائی نماز کا طریقہٰ ،
زکوۃ کی
مقدار اور حج کے مناسک وغیرہ بیان کردیے گئے ہیں۔ قرٓان میں خرید وفروخت کو حالل اور س››ود ک››و
حرام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں خریدوفروخت کی ج››ائز اور ناج››ائز ص››ورتیں اور س››ود کی تفص››یالت
مذکور ہیں۔
3۔ کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں ایسے احکام بیان کیے گئے ہیں جو ق››رٓان میں م›ذکور نہیں ہیں۔ یہ بھی
واجب االتباع ہیں۔ مثالً نکاح میں دوایسی عورتوں کو جمع ک››رنے کی ح››رمت ،جن کے درمی››ان پھ››وپھی
بھتیجی یا خالہ بھانجی کا رشتہ ہ›و ،ی›ا ش›کاری درن›دوں اور پرن›دوں اور گھریل›و گ›دھوں کی ح›رمت ،ی›ا
مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننے کی حرمت ،یا میراث میں دادی کا حصہ ،ی››ا ش››ادی ش››دہ زانی ک››و
رجم کی سزا ،یا دیت کے احکام وغیرہ۔
Why are the schools of law’s conclusions different when they interpret?
جب علماء تشریح کرتے ہیں تو مذاهب کے نتائج مختلف کیوں هوتے ہیں؟
When should a scholar or a general person use logic (own independent reasoning) concerning
religious interpretation?
اپنی سمجھ کے مطابق) کب استعمال کرنی:ایک عالم یا عام آدمی کو دينى تشریح کے سلسلے میں منطق (اپنے استدالل
چاہیے؟
Are fatāwá from Muslim countries relevant for Muslims in the West; can a fatwá be
international?
ٰ
فتوی بین االقوامی ہو سکتا ہے؟ ٰ
فتاوی مغرب کے مسلمانوں کے لیے مناسب ہیں؟ کیا کیا مسلم ممالک کے
Impact
اثرات
?How is this ideology (Quranism) affecting the religion (faith/practice)? What are the harms
یہ نظریہ (قرآنیزم) دين (ايمان/عمل) کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟ نقصانات کیا ہیں؟
Do you see anything positive concerning the ideology, such as critical thinking?
جیسے تنقیدی سوچ (دلیل اور بحث کی اہمیت)؟،کیا آپ اس فکر کے بارے میں کوئی مثبت چیز دیکھتے ہیں
What kind of ideologies are developing due to neglection of the Islamic principles and
moving towards freethinking?
اسالمی اصولوں کو نظر انداز کرنے اور آزادانہ سوچ کی طرف بڑھنے کی وجہ سے کس قسم کے نظریات بن رہے ہیں؟
- What is the reaction of the non-Muslims to the ideology which leads to extremism;
such as SIAN, Phillip Manchaus, Anders Behring Breivik?
غیر مسلموں کا اس نظریے پر کیا ردعمل ہے جو انتہا پسندی کی طرف لے جاتا ہے؟
جیسا کہ
()چینلز: You tube, Facebook, Instagram, TikTok, Live venues, جمعہ کے خطبات,اجتماعات.