You are on page 1of 20

‫قدیم رومن سلطنت۔ مختصر تاریخ‬

‫(حضرت عیسی علیہ سالم کی پیدائش سے صدیوں قبل اٹلی کے دریائے ٹائبر (‪ )Tiber‬کے‬

‫کنارے سات چھوٹی پہاڑیوں پر مٹی کے بنے سات گاؤں آباد تھے جو وقت کے ساتھ ترقی کر‬

‫کے ”روم“ نام کے ایک چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگلی صدیوں میں اس کا‬

‫بتدریج بحیرہ روم کے اردگرد اور دوسرے ممالک پر قبضہ کر کے ‪ 500‬سال تک ایک طاقتور‬

‫سلطنت کا مرکز بن جانا دنیا کی تاریخ کا ایک دل آویز داستان ہے۔‬

‫اپنے عروج کے دور میں یورپ۔ ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک پر مشتمل ‪ 23‬الکھ مربع میل‬

‫کے رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ ماضی کے شاندار تہذیبوں ( میسوپوٹیمیا‪ ،‬مصر اور بالخصوص قدیم‬

‫یونان کے ثقافتی ورثے کی نہ صرف امین اور محافظ رہی۔ بلکہ طرز سیاست‪ ،‬انتظام حکومت‪،‬‬

‫قانون اور تعمیرات اور پبلک ورکس کے میدانوں میں شاندار اضافے بھی کیے۔ جدید مغربی تہذیب‬

‫کی ثقافت۔ قانون۔ ٹیکنالوجی‪ ،‬فنون‪ ،‬زبان۔ مذہب۔ طرز حکومت و سیاست۔ افواج اور طرز تعمیر پر‬

‫قدیم رومی سلطنت کے دیرپا اثرات ہیں۔ یہاں اس قدیم رومن سلطنت کی مختصر سی تاریخ‬

‫بیان کی جاتی ہے۔‬

‫اٹلی کے قدیم باشندے۔‬

‫۔۔‬

‫اٹلی ایک جزیرہ نما ہے۔ جو یورپ کے جنوبی جانب بحیرہ روم میں واقع ہے۔ شمال میں کوہ‬

‫آلپس کے بنا باقی یورپ سے علیحدہ ہے۔‬


‫‪ 2000‬ق م میں سوئزر لینڈ سے بعض آریائی باشندے یہاں اٹلی کے شمال میں دریائے پو کی‬

‫وادی میں آباد ہو گئے‬

‫اس کے بعد سے آریائی نسل باشندوں کی آمد جاری رہی۔ جو وسطی اور جنوبی اٹلی میں آباد‬

‫ہوتے گئے۔ یہ قبیلے اطالوی کہالئے۔ ان میں مشہور قبیلہ الطینی کہا جاتا تھا۔ ان اطالوی قبیلوں‬

‫کے عالقے کا نام الطیم ( ‪ )Latium‬پڑ گیا۔ ‪ 1000‬ق م میں ایشیا کوچک سے مخلوط النسل‬

‫قبیلے جو ایٹرو سکن (‪ )Etruscan‬کہالتے تھے‪ ،‬اٹلی میں آباد ہو گئے۔ یہ پہلے باشندوں سے‬

‫زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تجارت پیشہ لوگ تھے۔ انہوں نے اٹلی میں شہری ریاستیں‬

‫قائم کیں۔‬

‫‪ 7‬ویں صدی ق م میں اٹلی کے ساحلی عالقوں ( سسلی وغیرہ ) میں یونانی آباد ہو گئے۔ یوں‬

‫‪ 6‬ویں صدی ق م تک اٹلی میں تین اہم لوگ اباد ہو گئے تھے۔ ( ‪ ) 1‬شمالی اٹلی میں ایٹرو‬

‫سکن۔ ( ‪ ) 2‬وسط اور جنوب میں اطالوی قبیلے اور ( ‪ ) 3‬جنوبی ساحلی عالقوں میں یونانی‬

‫النسل باشندے۔‬

‫ان میں ایٹرو سکن باشندوں نے اپنے عالقے میں شہری ریاستیں بنا کر بادشاہت قائم کر لی‬

‫تھی۔ جبکہ اطالوی قبیلے آپس میں بر سر پیکار تھے۔‬

‫روم کا قیام‬

‫۔‬

‫الطیم اور ایٹرو سکن عالقوں میں تجارتی تعلقات کے باعث آمد و رفت کے نتیجے میں الطیم کی‬

‫پہاڑی سرحد پر سات گاؤں بس گئے۔ جو بتدریج روم کے شہر میں تبدیل ہو گئے۔ اس شہر کا‬

‫انتظام الطینیوں کے پاس تھا اور یوں یہ ان کا اہم شہر بن گیا۔ عالقہ الطیم کے ‪ 30‬کے قریب‬

‫شہری ریاستوں کے اتحاد ال طیم لیگ کا باآلخر روم قائد بن گیا۔ ایک زمانے میں ایٹرو سکنس‬
‫قبیلے نے روم پر قبضہ کر لیا۔ مگر ‪ 509‬ق م میں اس کے آخری بادشاہ کو نکال کر روم کے‬

‫باشندوں نے دوبارہ اپنی حکومت قائم کر لی۔‬

‫روم کی بحیثیت جمہوریہ اور مستند تاریخ کا آغاز ‪ 509‬ق م سے ہوتا ہے۔ اور شاہی دور کا خاتمہ‬

‫ہوتا ہے۔‬

‫اگرچہ روم کے شاہی دور ( ‪ 509‬ق م سے قبل ) میں بادشاہ کے ساتھ سینٹ اور اسمبلی‬

‫جیسے اداروں کی موجودگی میں محدود بادشاہت اور محدود جمہوریت کی بنیاد پڑ چکی تھی۔‬

‫مگر ایٹرو سکن بادشاہوں کے دور میں سینٹ اور اسمبلی کی اہمیت حتم ہو گئی تھی۔‬

‫ابتدائی جمہوریت میں سینٹ صرف باالئی طبقے پر مشتمل تھی۔ تاہم عوام اور امراء کے درمیان‬

‫طویل کشمکش کے بعد ‪ 449‬ق م میں ایک ضابطہ قوانین کے ذریعے عوام کو کافی سماجی‬

‫حقوق دیے گئے۔ پھر عوامی مطالبے پر امراء کی اسمبلی کے ساتھ عوام کی اسمبلی کے‬

‫قیام سے قوانین بنانے کے بعض اختیارات بھی عوام کو مل گئے۔ مزید اختیارات کے لیے عوام‬

‫کی جدوجہد جاری رہی۔‬

‫‪ 376‬ق م میں لی سینس ( ‪ ) Licinius laws‬نامی قوانین سے عوامی قونصل ( ‪ ) Council‬کی‬

‫تقرری کے عالوہ مالی اور زرعی اصالحات‪ ،‬اور مذہبی عہدوں میں امراء کے ساتھ عوام کی‬

‫برابری کے ساتھ عوام اور خواص کی کشمکش حتم ہو گئی ‪ 287‬ق۔ م میں عوامی اسمبلی‬

‫سینٹ کے دست نگر بھی نہ رپی۔ یوں تقریباً دو سو سال ( ‪ 494‬ق م تا ‪ 287‬ق م ) کی‬

‫جدوجہد کے بعد روم کی جمہوریت میں عوام کو سیاسی‪ ،‬سماجی‪ ،‬معاشی‪ ،‬اور مذہبی‬

‫حقوق مل گئے۔ بلکہ بعض حوالوں سے عوام کے اختیارات امراء سے زیادہ ہو گئے۔ سلطنت کی‬

‫انتظامی معامالت کی ذمہ داری عوامی اسمبلی کی ہو گئی تھی۔‬


‫رومن سلطنت کا آغاز‬

‫۔۔‬

‫روم میں ‪ 509‬ق م میں ایٹرو سکن بادشاہت کے خاتمے سے جمہوریت کی ابتدا ہو گئی تھی۔‬

‫جس کے ساتھ امراء اور عوام کے درمیان اندرونی سطح پر حقوق کی جنگ بھی جاری رہی‬

‫تھی۔ ( ‪ 495‬ق م تا ‪ 287‬ق م کے دوران مختلف عوام دوست قانون سازی سے عوامی باال‬

‫دستی ( جمہوریت) کافی مستحکم ہوتی رہی ) ۔ جبکہ اسی دوران روم کی ریاست کو بیرونی‬

‫حملہ آوروں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ اطالوی شہروں کا اتحاد ‪ (Latium League) 493‬ق م سے‬

‫ریاست روم کی زیر قیادت قائم تھا۔‬

‫‪ 390‬ق م میں اس اتحاد کا اٹلی کے شمال کے ایک بر بر قوم ”گال“ ”کے حملے کا سامنا کرنا‬

‫پڑا۔ انہوں نے عالقے کے کافی بڑے حصے کو جال دیا۔ اس مصیبت کے فرو ہونے کے بعد روم کی‬

‫از سر نو تعمیر کی گئی۔ روم نئی طاقت کے ساتھ ابھر کر ہمسایہ عالقوں پر قبضہ کرنے لگا۔ روم‬

‫کی بڑھتی طاقت کے باعث الطینی اتحاد کی دوسری ریاستوں کے ساتھ جنگوں کا آغاز ہوا۔‬

‫‪ 339‬ق م تک جاری ان جنگوں میں روم کی فتح یابی سے بقیہ الطینی شہروں پر روم کی‬

‫باالدستی قائم ہو گئی‬

‫”۔ یوں یہاں سے روم کی سلطنت کا آغاز ہو گیا۔“‬

‫روم اٹلی کی اہم ترین ریاست بن گیا۔ ( اس کے اگلے سال ( ‪ 338‬ق م) میں مقدونیہ کے فلپ‬

‫دوم ( سکندر اعظم کے باپ) نے یونانی ریاستوں کو فتح کر کے مضبوط ریاست قائم کر لی تھی‬

‫)‬

‫‪ 343‬ق م سے ‪ 290‬ق م تک سلطنت روم وسطی اٹلی کے پہاڑوں پر قابض اطالوی نسل‬

‫سامینی قبیلہ کے ساتھ جنگوں میں پھنسا رہا۔ ‪ 290‬ق م ‪Sentinum‬کے مقام پر روم نے ان کو‬
‫فیصلہ کن شکست دی اور پورے وسط اٹلی پر روم کا اقتدار قائم ہو گیا۔ شمال کے کچھ حصوں‬

‫پر ”گال“ قابض رہے اور جنوب میں یونان کی نو آبادیات قائم تھیں۔ آیت رسکن قبیلے کا اقتدار‬

‫بالکل حتم ہو گیا۔ اس کے بعد روم کے مقابلے صرف دو طاقتیں رہ گئی تھیں۔ ایک۔ یونانی نو‬

‫آبادیات اور دوسری۔ کارتھیج کی نوآبادیات‬

‫۔‬

‫”یونانی نو آبادیات پر روم کا قبضہ ( ‪ 280‬ون سے ‪ 270‬ق م )‬

‫۔۔‬

‫سامینی قبیلے سے نمٹنے کے بعد روم نے یونانی نو آبادیات پر حملے شروع کیے۔ اٹلی میں‬

‫یونان کے اہم شہر ‪Trentum‬پر حملے کے موقع پر یونانیوں نے سرحدی ریاست ‪ Epirus‬کے‬

‫حکمران ‪ Pyrrhus‬کی مدد سے رومیوں کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ تاہم زیادہ نقصان کے باعث وہ‬

‫جنوبی اٹلی کے عالقوں سے سسلی پہنچ گیا۔ اس کا کچھ حصہ کارتھیج کی نو آبادیات تھا۔ جو‬

‫بحیرہ روم میں سب سے طاقتور تھے۔ کارتھیج نے ان کے بحری بیڑے کو شکست دی۔ جب کہ‬

‫رومی کی بڑی افواج نے پی رہس ( ‪ )Pyrrhus‬کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ ان شکستوں کے بعد‬

‫وہ یونانی نو آبادیات کو روم اور کارتھیج کے درمیان چھوڑ کر اپنی ریاست واپس چال گیا۔ ‪ 270‬ق م‬

‫تک روم۔ نے اٹلی کے تمام یونانی نو آبادیات پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ سسلی کے پورے جزیرے پر‬

‫کارتھیج قابض ہو گیا۔ اس لیے اب روم کا مقابلہ اسی بقیہ طاقت۔ کارتھیج۔ سے ہونا تھا۔‬

‫رومن اور کارتھیج جنگیں۔‬

‫۔۔‬

‫ایشیاء کوچک کے مغربی ساحلوں پر ایک چھوٹی سی قوم فنیقی آباد تھی۔ جو ‪ 1000‬ق م‬

‫سے کامیاب تاجر بن گئے تھے۔ اور بحیرہ ایجیئن کے جزائر‪ ،‬افریقی ساحلوں اور بحیرہ روم کے‬

‫جزیروں پر نوآبادیات قائم کر دی تھیں۔ اسپین کے جنوبی ساحل اور افریقہ ساحل پر ان کی‬
‫نوآبادیات نے بڑی تیز ترقی کی تھی۔ افریقہ ساحل پر کارتھیج کا شہر ‪ 875‬ق م میں انہی‬

‫فنیقی قوم کے باشندوں نے آباد کیا۔ جو جلد ایک طاقتور تجارتی شہر بن گیا۔ اور اٹلی کے قریب‬

‫سسلی اور سارڈینا کے جزائر پر قبضہ کر لیا۔‬

‫روم کے ساتھ کارتھیج کے تعلقات کچھ عرصہ تو خوشگوار رہے مگر تجارتی برتری کے لیے‬

‫کشمکش کے باعث دونوں طاقتوں کے درمیان ‪ 264‬ق م سے ‪ 156‬ق م تک تین جنگیں لڑی‬

‫گئیں۔ جو ‪punic wars‬۔ یا کارتھیج جنگیں کہالئی جاتی ہیں۔ ‪ 118‬سال کی ان طویل جنگوں میں‬

‫باآلخر روم فتح یاب ہوا۔ اور یوں کارتھیج کے زیر اثر تمام ساحلی عالقوں پر روم نے قبضہ کر لیا۔‬

‫دوسری پیونک جنگ۔ ( ‪ 218‬ق م تا ‪ 202‬ق م ) کے دوران اسپین کے مشہور کارتھیجی گورنر‬

‫ہنی بال نے روم کو کئی شکستیں دیں جن میں ایک کنائے ‪ 216‬ق م ) کی لڑائی ہے۔ اس نے‬

‫روم کا محاصرہ بھی کر دیا تھا تاہم زاما کی لڑائی ( ‪ 202‬ق م ) میں وہ رومی جرنیل سیپو‬

‫(‪ )Scipio‬سے شکست کھا گیا۔ اور اسپین روم کا صوبہ بن گیا۔‬

‫تیسری پیونک جنگ ( ‪ 149‬ق م تا ‪ 146‬ق م ) میں کارتھیج شہر کو آگ لگا کر رومیوں نے تباہ کر‬

‫دیا۔ یوں سارے بحیرہ روم کے ساحلوں پر روم کا تسلط قائم ہو گیا۔‬

‫( اس کے بعد مشرقی ممالک۔ ( سکندر اعظم کے جانشینوں کے تین یونانی ریاستوں ) ۔ کی‬

‫فتوحات کا مرحلہ آتا ہے۔ )‬

‫مشرق میں یونانی ممالک۔ ( سکندر اعظم کے جانشینوں کے تین یونانی ریاستیں ) ۔ پر روم کا‬

‫قبضہ اور غلبہ‬

‫۔۔‬

‫دوسری پیونک جنگ میں مقدونیہ (یونان حاص) کے حکمران فلپ پنجم نے ہنی بال کی مدد کر‬

‫کے روم کی دشمنی مول لی تھی۔‬


‫(اسکندر اعظم کے بعد یونان کی سلطنت تین حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی) ۔‬

‫روم نے ‪ 197‬ق م میں مقدونیہ پر حملہ کر کے شکست دی۔ اور یوں مقدونی حکمران کے‬

‫عالقے روم کے تسلط میں آ گئے۔‬

‫‪2‬۔ ‪ 133‬ق م میں ایشیا کوچک میں سیلوقس (‪ ) Selecus‬کی یونانی حکومت روم کا مقابلہ نہ کر‬

‫سکی۔ اس کا بڑا حصہ رومی سلطنت میں شامل ہوا۔ اور یوں یونان کے زیر اثر بحیرہ روم کا تمام‬

‫ساحلی عالقہ روم کے زیر اقتدار آ گیا۔‬

‫‪3‬۔ یونان کی تیسری سلطنت مصر میں بطلیموسی (‪ )Ptolemy‬حکومت تھی۔ جو یونانی تہذیب‬

‫کا مرکز تھی۔ بتدریج یہاں یونانی کمزور ہوتے گئے۔ اور ‪ 128‬ق م میں مصر نے یونان کی برتری‬

‫تسلیم کر لی۔ بیرونی معامالت میں روم کا حکم چلنے لگا۔ ( روم کے دور شہنشاہیت میں مصر‬

‫رومن سلطنت کا صوبہ بن گیا )‬

‫۔۔‬

‫روم پر فتوحات کے اثرات‬

‫۔۔‬

‫کارتھیجی غلبے کے خاتمے اور یونانی حکومتوں کی مغلوبیت سے روم کو بحیرہ روم میں غالب‬

‫بحری طاقت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ جس کے باعث سلطنت کی توسیع اور وسیع عالقوں پر‬

‫کنٹرول حاصل کرنا آسان ہو گیا۔ نتیجتاً روم کی دولت اور سیاسی طاقت میں اضافہ کا باعث بنا۔‬

‫اسی طرح یونانی مملکتوں پر غلبے سے روم پر یونانی تہذیب و تمدن کے مختلف جہت اثرات‬

‫بھی پڑے۔ تاہم ان فتوحات کے بعض منفی اثرات کا سامنا بھی روم کو کرنا پڑا۔ دولت کی فراوانی‬

‫سے بعد میں کئی سماجی اور معاشی مسائل پیدا ہوئے۔ سینٹ اور عوامی اسمبلی میں‬

‫طویل کشمکش شروع ہو گئی۔ اس میں امراء ( سینٹ) کو باالدستی حاصل ہو گئی۔ جس کی‬
‫وجہ سے سلطنت کا جمہوری ڈھانچہ بگڑنے لگا۔ سینٹ اختیارات کی رسہ کشی کا اکھاڑہ بن‬

‫گیا اور بد انتظامی سے وسیع سلطنت میں خانہ جنگیوں اور بغاوتوں اور تشدد کا سلسلہ شروع‬

‫ہوا جس کے تدارک میں سینٹ ناکام ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ باآلخر اگلے دور میں آئینی اور‬

‫جمہوری حکومت کے خاتمے اور آمریت ( شہنشاہیت ) کی صورت میں نکال۔‬

‫سوال (‪ ) Sulla‬کی موت کے بعد عوام نے اس کے قوانین کی مخالفت شروع کر کے عوامی‬

‫اسمبلی کے اختیارات کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ اس دفعہ کو عوام کو یہ درس مل گیا‬

‫تھا کہ فوجی حمایت رکھنے والے فرد کے بغیر عوامی اختیارات کی واپسی مشکل ہوگی۔ اس‬

‫لئے عوام نے اپنی جانب سے ایک فوجی کمانڈر پومپے ( ‪ )Pompey‬کو ‪ 70‬ق م میں قونصل‬

‫منتخب کیا۔ جس سے عوامی اسمبلی مضبوط ہو گئی۔ چونکہ پومپے بنیادی طور پر فوجی‬

‫کمانڈر تھا اس لیے اس کی دلچسپی فوجی مہمات پر زیادہ مرکوز تھی۔ اس سلسلے میں اس‬

‫کی فتوحات میں ایشیا کوچک کے عالقے۔ شام‪ ،‬آرمینیہ‪ ،‬فلسطین بشمول یروشلم وغیرہ کو‬

‫سلطنت روم کا حصہ بنانا شامل ہیں۔‬

‫اسی زمانے میں روم میں ایک اور عوامی لیڈر۔ ماریوس کی طرز سیاست کی حمایت اور سوال‬

‫قوانین کی مخالفت کے حوالے سے ابھر رہا تھا۔ یہ لیڈر۔ جولیس سیزر ‪Julies Cesar‬۔ تھا۔ جو‬

‫سلطنت روم کی تاریخ کا ایک اہم ترین کردار ہے۔‬

‫پومپے جب مشرقی فتوحات سے واپس روم آیا تو ذاتی اقتدار کے حصول کے بجائے فوج کی‬

‫کمان سے دست بردار ہوا۔ تاہم سینٹ سے مفتوحہ عالقوں میں اپنے آئینی انتظامات نیز متعلقہ‬

‫فوجیوں کے لیے رہائشی زمین کے مطالبے کر دیے۔ مگر دو سال تک وہ اس کی منظور نہ کروا‬

‫سکا۔ اسی دوران پومپے اور سیزر کو کراسس۔ (‪ ) Crasses‬کی صورت میں ایک دولت مند حامی‬

‫مل گیا۔ ان تینوں نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت طے کر لیا کہ سیزر کو قونصل منتخب کروا کر‬

‫کے مذکورہ مطالبات کے منوانے کی کوشش کی جائے گی۔‬


‫‪ 59‬ق م میں جولیس سیزر قونصل منتخب ہوا یوں روم ان تین با اثر شخصیات کے زیر انتظام ا گیا۔‬

‫سیزر کی عوامی مقبولیت‪ ،‬پومپئی کے فوجی کارنامے اور کرسسس کی دولت عوامی‬

‫اسمبلی کو سینٹ کے مقابلے طاقت ور بنانے کے لیے کافی تھی۔ یہاں سے آگے جولیس‬

‫سیزر کا اہم دور شروع ہوتا ہے۔‬

‫جمہوریت سے شہنشاہیت تک گامزنی۔ پس منظر‬

‫۔۔۔‬

‫‪ 376‬ق م میں کیے گئے لی سینی قوانین ( ‪ ) lecinus Laws‬سے عوام کو سیاسی اور معاشی‬

‫حقوق ملے تھے۔ سینٹ کے عالوہ ایک عوامی اسمبلی بھی تھی۔ سینٹ کا ایک قونصل‬

‫عوامی نمائندہ ہوتا تھا۔ مگر کارتھیج اور دوسری جنگوں کے دوران سینٹ اور امراء کے اختیارات‬

‫عوامی اسمبلی کے مقابلے میں بڑھ گئے تھے۔ جنگوں سے واپسی کے بعد عوام مزدور بن‬

‫گئے۔ ان کی معاشی حالت خراب ہونے لگی۔ جبکہ امراء طبقہ ان کا سیاسی اور معاشی‬

‫استحصال کر کے طاقتور ہو گیا۔‬

‫ان حاالت میں عوام کو اپنے حقوق کے لیے نئی جدوجہد کرنی پڑی۔ جس کا آغاز ‪ 133‬ق م میں‬

‫ٹریبیوں کے منتخب عوامی نمائندے۔ ٹھبریس گر سیچس (‪ )Tiberius Gracchus‬نے کیا۔ اس نے‬

‫زرعی اصالحات کے حق میں آواز اٹھائی مگر اگلے سال اس کو قتل کیا گیا۔ جس کے بعد روم‬

‫کی اندرونی سیاست میں تشدد شروع ہوا۔ ‪ 10‬سال بعد ‪ 122‬ق م میں ٹھبریس کے بھائی‬

‫گائیس گریگس (‪ )Gaius Gracchus‬عوامی ٹریبیون منتخب ہوا۔ اس نے اسمبلی سے عوام کے‬

‫مفاد میں زرعی اور نوآبادیات میں حقوق کے قوانین پاس کروائے۔ تاہم روم کے امراء نے ان کے‬

‫خالف عوام کو بھڑکایا۔ سینٹ نے ہنگامی حالت کا اعالن کر دیا۔ گائیس اور اس کے حامیوں کو‬

‫قتل کیا گیا۔ گریگس برادران کے ناکامی سے عوام نے یہ سبق حاصل کیا کہ عوامی انقالب کی‬

‫کامیابی کے لیے فوجی طاقت کا حصول ضروری ہے۔‬


‫خانہ جنگی۔ ماریوس ( ‪Maieus‬اور سوال‪)Sulla‬‬

‫کشمکش‬

‫۔۔‬

‫گائیس گریگس کے قتل کے بعد سینٹ پھر سے طاقتور اور باالدست ہو گیا۔ اور بدعنوانی بڑھنے‬

‫لگی۔ اسی زمانے میں افریقی ریاست نومیڈیا کے حکمران ”جو گر تھا“ کے رومن نوآبادیات پر‬

‫حملوں کے مقابلے میں رومی فوج ناکام ہو گئی تھی۔ تو روم کی عوامی اسمبلی نے ماریوس‬

‫نامی نمائندے کو سپہ ساال ( ) بنا کر افریقہ بھیجا۔ اس نے جوگرتھا ”کو شکست دے کر گرفتار‬

‫کر لیا۔ ماریوس کو عوامی اسمبلی نے دوبارہ قونصل نامزد کیا۔ جس کے بعد اس نے فوج میں‬

‫عوام کی بھرتی اور تربیت شروع کی۔‬

‫اسی اثنا جرمنی کی جانب سے بربری گال قبائل نے روم کی سرحدوں پر حملے شروع کیے ۔‬

‫ماریوس نے ان قبائل کو شکست دی۔ اس پر عوام نے اس کو ‪ 100‬ق م چھٹی بار قونصل نامزد‬

‫کیا۔ عوامی نمائندے ہونے کے باعث امراء کے ساتھ اس کی کشمکش شروع ہو گئی۔ تاہم‬

‫عوامی اسمبلی کے بجائے سینٹ طاقتور اور باالدست ہو گیا۔‬

‫اسی زمانے میں اٹلی کے شہروں نے روم کے برابر شہریت کے حصول کے لئے بغاوتیں کیں۔‬

‫جو باآلخر دی گئیں اور ان بغاوتوں کا خاتمہ ہو گیا۔‬

‫اطالوی شہروں کے بغاوتوں کے خاتمے کے بعد ایشیا کوچک کے مشرقی آزاد عالقوں کے‬

‫حکمران ”متری دا تیز“ ( ) نے روم کے خالف بغاوت کی۔ جس سے نمٹنے کے لیے سینٹ نے‬

‫”سوال“ کو فوج کا کمانڈر نامزد کیا۔ جو اطالوی ریاستوں کے خالف کامیاب مہم سے لوٹا تھا۔ مگر‬

‫ابھی روم داخل نہیں ہوا تھا۔ جبکہ دوسری طرف عوامی اسمبلی نے ”ماریوس“ کو فوج کا سپہ‬

‫ساالر۔ نامزد کیا۔ یوں ان دونوں میں اس مسئلے پر مخالفت ہو گئی۔‬


‫سو ال کے پاس چونکہ فوج تھی۔ اس لیے اس نے ”ماریوس“ کی نامزدگی پر روم پر حملہ کر دیا۔‬

‫ماریوس نے روم سے نکل کر افریقہ میں پناہ لی۔ سوال کی اس کامیابی سے سینٹ پھر سے‬

‫طاقتور ہو گئی۔ اس کے ساتھ سو ال فوج لے کر ایشیا کوچک کی بغاوتوں کے دبانے کے لیے‬

‫نکل پڑا۔ اور کئی فتوحات حاصل کیں۔ جبکہ اسی دوران ماریوس افریقہ سے روم واپس آیا۔ عوام‬

‫کی مدد سے امراء اور سینٹ کے خالف اعالن جنگ کر کے ان کو کچل دیا۔ اور ساتویں بار قونصل‬

‫کے عہدے پر منتخب ہوا۔ مگر ان کا جلدی انتقال ہو گیا۔‬

‫ادھر سوال ”کا ایشیا کوچک سے واپسی پر عوامی پارٹی نے اس کو روم میں داخل ہونے سے‬

‫روکنے کے لیے اس کے مقابلے کے لیے فوج تشکیل دی۔ مگر سوال کی تجربہ کار فوج کے‬

‫مقابلے میں شکست سے دو چار ہوئی۔ یوں سوال ‪ 83‬ق م کو روم میں داخل ہوا۔ اور اس پر قبضہ‬

‫کر کے ڈکٹیٹر بن گیا۔ وہ روم کی تاریخ میں پہال فرد تھا جس نے فوجی طاقت سے ڈکٹیٹر شپ‬

‫حاصل کر لی تھی۔ اس نے اقتدار پر قابض ہو کر سینٹ کے مخالفین ( ماریوس کے حامیوں ) کو‬

‫قتل کیا۔ عوامی قوت کے خاتمے اور سینٹ کو انتظام سلطنت سنبھالنے کے قابل بنانے کے بعد‬

‫سوال ‪ 79‬ق م میں سینٹ کے حق میں سبکدوش ہو گیا۔‬

‫گریگس برادران کے اصالحات کا مقصد سینٹ کے مقابلے میں عوامی اسمبلی کو آئینی اور‬

‫انتظامی اختیارات دینا تھا۔ جبکہ ”سوال“ نے یہ اختیارات سینٹ کو واپس دالئے۔ سوال نے فوجی‬

‫طاقت کے ذریعے ڈکٹیٹر شپ قائم کر کے شخصی حکومت کا راستہ کھول دیا۔‬

‫جولیس سیزر کی فتوحات۔‬

‫۔ ۔ جولیس سیزر ایک دور اندیش سیاست دان کی حیثیت سے جانتا تھا کہ روم میں طاقت ور‬

‫ہونے کے لیے فوج کا کمان بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے سرکش گال قبائل اور‬

‫ان کے آزاد عالقوں ( فرانس وغیرہ ) کو فتح کر کے رومی سلطنت میں شامل کرنے لے لیے‬

‫عوامی اسمبلی سے خود کو فوج کا سپہ ساالر اور گال کے عالقے کا گورنر نامزد کروایا۔ فرانس‬
‫اور جرمنی پر چھائے ہوئے بر بر گال قبائل کو شکست دے کر سیزر نے خود کو بحیثیت فوجی‬

‫کمانڈر بھی منوایا۔ تمام موجودہ فرانس اور بلجیئم کو فتح کرنے کے عالوہ وہ سمندر عبور کر‬

‫کے انگلستان کے جزائر تک پہنچا۔‬

‫سیاست دان اور فوجی کمانڈر کے ساتھ جولیس سیزر ایک بلند پایہ نظر نگار بھی تھا۔ اپنی ان‬

‫فتوحات پر کتاب لکھ کر روم بھیجی جس سے روم کے عوام میں اس کی مقبولیت مزید بڑھ‬

‫گئی۔ تاہم سینٹ کو سیزر سے یہ الحق ہو گیا کہ روم واپس آ کر وہ فوج کی کمان نہیں چھوڑے‬

‫گا۔ سیزر مزید پانچ سال کے لیے گال کے عالقوں کا گورنر نامزد ہو گیا تھا۔ ان کی مغرب میں‬

‫جاری فتوحات سے وہ اپنی فوج میں بے حد مقبول تھا۔‬

‫اسی دوران کراسس ( ‪ ) Crasses‬مشرقی مہمات میں مر گیا تھا۔ جبکہ پومپے روم میں تھا۔‬

‫سینٹ نے سیزر کی طاقت کے توڑ کے لیے پومپے کو سپہ ساالر نامزد کر کے سیزر کو کمان‬

‫سے دست برداری کا حکم۔ بھیجا۔ سیزر حاالت کو جان گیا تھا۔ اس لیے گال قبائل میں اپنی‬

‫مہمات کو چھوڑ کر فوجیوں کو اٹلی کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ اس نے روم پر فوجی طاقت‬

‫سے قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‬

‫‪ 49‬ق م میں اٹلی اور الپس کے پہاڑوں کے درمیان واقع دریائے روبیکن (‪Rubicon‬۔ ) میں اپنا‬

‫گھوڑا ڈالتے ہوتے ہوئے یہ مشہور فقرہ کہا تھا کہ۔ ”اب پانسہ پھینک دیا ہے۔“ ۔ تاریخ نے ثابت‬

‫کیا۔ کہ یہ پانسہ صحیح پھینکا گیا تھا۔ روم میں سیزر کی برق رفتار آمد کے باعث پومپے کی‬

‫فوج مقابلہ نہ کر سکی۔ وہ اور سینٹ ممبران یونان بھاگ نکلے۔ سیزر نے اسپین پر حملہ کر کے‬

‫وہاں سینٹ کے حامی فوجوں کو شکست دی۔ اسی دوران پومپے یونان سے اپنے حامیوں‬

‫سمیت روم پر قبضہ کرنے کے روانہ ہوا۔‬

‫تاہم۔ سیزر تیزی سے اسپین سے واپس آیا اور یونان کی طرف بڑھا۔ ‪ 48‬ق م میں صوبہ‬

‫تھیسلی میں فار سیلیس کے مقام پر پومپے کو شکست دی۔ اس کے تعاقب میں مصر جا کر‬
‫اس کو قتل کیا۔ پومپے سے تو جان چھوٹ گئی لیکن سیزر مصر کی حکمران ملکہ قلوپطرہ کی‬

‫محبت میں گرفتار ہو گیا۔ مصر میں وہ اکتوبر ‪ 48‬ق م سے جون ‪ 47‬ق م تک رہا۔ جہاں سے اس‬

‫نے روم کے افریقی اور اسپینی مقبوضات پر اپنا اقتدار مستحکم کیا۔ ان مشرقی فتوحات کے بعد‬

‫سیزر روم واپس آ گیا۔‬

‫سیزر بحیثیت ڈکٹیٹر‬

‫۔۔‬

‫روم واپس آ کر سیزر نے خود کو تمام زندگی کے لیے نامزد کیا۔ تمام بڑے عہدوں پر فائز ہو گیا۔‬

‫حتی کہ مذہبی اقتدار بھی اپنے ہاتھ لیا۔ تمام بڑے اقدامات میں اسمبلی کو نظر انداز کرتا۔ اس‬

‫کے خیال میں اسمبلی اور سینٹ کے درمیان کشمکش مضر تھی۔ اور جہموریت سے روم کی‬

‫برتری کا حصول نہیں دیکھ پاتا تھا۔ اس لیے تمام۔ اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز رکھے۔ اس نے‬

‫سلطنت کی ترقی کے لیے کئی اصالحات کیے ۔ تاہم اس کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت‬

‫کے باعث مخالفین بھی پیدا ہو گئے۔‬

‫سینٹ کو با اثر بنانے کے حامی اور سیزر کی اصالحات سے منفی طور پر متاثر ہونے والے امراء‬

‫اس کے دشمن بن گئے۔ ‪ 60‬امراء نے سیزر کو قتل کرنے کی سازش تیار کر لی۔ ان میں نمایاں‬

‫کیشش اور بروٹس (‪ )Brutus‬تھے۔ ‪ 15‬مارچ ‪ 44‬ق م کو جشن بہار کے دوران سینٹ کے حال‬

‫میں داخل ہوتے ہی اس پر حملہ کر کے قتل کیا گیا۔ جولیس سیزر کے قتل سے روم کی دم‬

‫توڑتی جمہوریت زندہ ہونے کے بجائے وہاں شہنشاہیت کا آغاز ہوتا ہے۔‬

‫دور شہنشاہیت کی آمد‬

‫۔‬
‫جولیس سیزر کے قتل کے بعد عوام نے جہموریت پسندوں کے بجائے سیزر کی حامیوں کا‬

‫ساتھ دیا۔ اور یوں اس کا خاص مشیر ”انٹونی“ روم پر قابض ہو گیا۔ جبکہ سیزر نے اپنی وصیت‬

‫میں اپنے بھانجے ”اکٹوین“ (‪ )Octavian‬کو جانشین مقرر کیا تھا۔ انٹونی نے اس کو نظرانداز کیا۔‬

‫مگر۔ اکٹوین نے سیزر کے وفادار فوجیوں کی حمایت سے اپنی اہمیت جتالنی شروع کی۔ ‪ 43‬ق‬

‫م میں وہ قونصل منتخب ہوا۔ انٹونی کے ساتھ جنگ کی صورت پیدا ہوئی۔ تاہم ایک معاہدے کے‬

‫تحت روم کی سلطنت تین حصوں میں تقسیم کی گئی۔‬

‫روم اور اس کے مغربی حصے پر اکٹوین‪ ،‬۔ مشرقی حصے بشمول مصر میں انٹونی۔ اور افریقی‬

‫مقبوضات پر سیزر کے ایک قریبی ساتھی لی پیڈس ( ‪ )Lepidus‬کی حکمرانی تسلیم کی گئی۔‬

‫ان تینوں نے مل کر سیزر کے قاتلوں اور ان کے حامیوں کو یونان اور مقدونیہ میں شکستیں دیں۔‬

‫اور اس کے بعد اپنے اپنے متعلقہ عالقوں میں اپنا اقتدار سنبھال لیا۔ تاہم کچھ عرصے بعد اکٹوین‬

‫اور افریقی حصے کے حکمران لیپیڈس میں ٹھن گئی۔ اکٹوین نے اس کو شکست دے کر افریقہ‬

‫کو اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔‬

‫مشرقی سلطنت میں انٹونی قلوپطرہ ( ‪ )Cleopatra‬کے حسن میں گرفتار تھا۔ روم میں یہ افواہ‬

‫تھی۔ کہ قلوپطرہ انٹونی کی حمایت سے رومن سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یوں انٹونی اور‬

‫اکٹوین میں جنگ ناگزیر ہو گئی۔ ‪ 31‬ق م میں یونان کے مغربی ساحل ‪ Actium‬پر اکٹوین نے‬

‫دونوں کو فیصلہ کن شکست دی۔ یوں مشرقی حصے پر قابض ہو کر اکٹوین تمام رومن سلطنت‬

‫کا حکمران بن گیا۔‬

‫اکٹوین۔ اگسٹس (‪ ) Octavian Augustus‬دور حکومت۔ ‪ 31‬ق م تا ‪ 13‬عیسوی )‬

‫۔۔‬

‫اکٹوین نے اگرچہ سلطنت کی ظاہری جمہوری ہیئت بر قرار رکھی تاہم اصل طاقت اس کے پاس‬

‫تھی۔ اگرچہ خود کو ڈکٹیٹر کے بجائے ‪Princeps‬۔ (پہال شہری ) کہالنا پسند کیا۔ مگر شخصی‬
‫حکومت (شہنشاہیت) قائم کی۔ سینٹ نے اسے آگسٹس۔ ‪ Augustus‬کا خطاب دیا۔ تاریخ میں‬

‫اسی نام سے جانا جاتا ہے۔‬

‫آگسٹس نے سلطنت کو وسعت دینے کے بجائے اس کے انتظام پر توجہ دی۔ کئی اچھے‬

‫اقدامات کیے۔ شمال میں دریائے رائن ( ‪ ) Rhine‬اور دریائے ڈینیوب (‪ ، )Danube‬مشرق میں‬

‫بحیرہ اسود اور دریائے فرات‪ ،‬جنوب میں صحارا کا ریگستان اور مغرب میں بحر اوقیانوس کو‬

‫سلطنت کے حدود قرار دیا۔ روم کی خوبصورتی پر بھر پور توجہ دی۔ اس کی زیر سرپرستی تاریخ‬

‫دان لیوی۔ ( ‪ )Livy‬نے روم کی تاریخ لکھی۔ ورجل اس کے دور کا بڑا مشہور شاعر گزرا ہے۔‬

‫حضرت عیسی علیہ سالم کی پیدائش بھی آگسٹس کے زمانے میں ہوئی۔‬

‫آگسٹس کے دور سے لے کر ‪ 180‬عیسوی تک کا زمانہ ‪ ( Pax Romana‬رومی امن) روم کا‬

‫بہترین دور کہالیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ دور امن و استحکام اور خوشحالی کا تھا۔‬

‫اگسٹس کے جانشین‬

‫۔۔‬

‫‪ 44‬سال حکمران رہ کر ‪ 14‬عیسوی کو آگسٹس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد اس کے خاندان کے‬

‫چار حکمران روم پر حکومت کرتے رہے۔ جو ”جولین سیزر“ حکمران کہالئے ان میں آخری حکمران‬

‫بدنام زمانہ نیرو ‪ Nero‬تھا۔‬

‫نیرو نے ‪ 69‬ع میں خودکشی کر لی۔‬

‫فالوی ( ‪ ) Flavi‬حکمران‬

‫۔‬
‫نیرو کی خودکشی کے بعد روم پر ‪ 69‬ع سے ‪ 96‬ع تک فالوی (‪ ) Flavian‬خاندان کی حکومت‬

‫رہی۔ اس کے پہلے حکمران وسپاسیان ( ‪ ) Vespasian‬نے فوجی طاقت کے ذریعے حکومت‬

‫حاصل کی۔ اپنے بیٹے ‪ Titus‬کو نامزد کر کے شہنشاہیت کو موروثی بنا لیا‬

‫ٹیٹس (‪ )Titus‬کے دور میں یہودیوں کی بغاوت کے باعث یروشلم کو فتح کر کے تباہ کیا گیا۔ اس‬

‫کے بھائی ڈومیشین (‪ )Domitian‬کے دور میں کچھ فتوحات ہوئیں۔ عیسائیوں پر مظالم کی‬

‫انتحاہ بھی کی گئی۔ ‪ 96‬ع میں اس کو قتل کر کے فالوی دور کا حاتمہ ہوا۔‬

‫۔۔‬

‫پانچ عمدہ بادشاہوں کا دور۔ ( ‪ 96‬ع تا ‪ 180‬ع)‬

‫۔۔‬

‫یہ دور روم کا بہترین زمانہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بہت سکون اور خوشحالی کا دور تھا۔ اس دور‬

‫کے آخری دو شہنشاوں کا تعلق انٹونین خاندان سے تھا۔ اسی بنا اس کو۔ انٹونی ”دور بھی کہا‬

‫جاتا ہے۔‬

‫اس دور کے دوسرے شہنشاہ ٹراجن (‪ )Trajan‬کے زمانہ حکومت ( ‪ 98‬ع تا ‪ 117‬ع) میں دریائے‬

‫ڈینیوب کے شمالی عالقوں اور آرمینیا اور دجلہ و فرات کے عالقے رومن سلطنت میں شامل‬

‫کیے گئے۔ ٹراجن اپنی فتوحات اور امن و امان کی وجہ سے بڑے شہنشاوں میں شمار ہوتا ہے۔‬

‫اس کے بعد جتنے شہنشاہ آئے انہوں نے انتظام سلطنت اور شہریوں کے حقوق پر زیادہ توجہ‬

‫دی۔ ان میں ہیڈریان ‪ 117 ( Hadrian‬ع تا ‪ 138‬ع) اور انٹونیئس ( ‪ 138‬ع تا ‪ 161‬ع) کے ادوار کافی‬

‫خوشحالی اور امن کے تھے۔‬

‫ان کے بعد مارکیوس اگزلوس ( ‪ )Marcus Auxellius‬آیا۔ وہ ایک جرنیل کے عالوہ ایک فلسفی‬

‫بھی تھا۔ جنگوں کے دوران ”‪ “Meditations‬کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کے دور میں کئی‬
‫اچھے اقدامات کیے گئے۔ تاہم اس کے دور میں عیسائیوں کا قتل عام بھی ہوا۔ ‪ 180‬ع میں اس‬

‫کی موت کے بعد روم میں خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روم کا ‪) Pax Romana‬‬

‫رومی امن) کہالیا جانے واال دور بھی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔‬

‫شہنشاہیت کا زوال۔‬

‫۔۔‬

‫‪ 180‬ع میں مارکس اریلی ایلس (‪ )Marcus Aurelius‬کے بعد سلطنت روم خانہ جنگی کا شکار‬

‫رہا۔ شاہ کے حفاظتی دستوں اور صوبائی فوجوں کی حمایت سے حکمران بنتے رہے۔ بعض‬

‫اوقات تو بیک وقت کئی شہنشاہ سلطنت کے حاکم رہے۔ ان کی باہمی لڑائیاں عوام کے لیے‬

‫سخت مصیبت کا باعث بنی رہیں۔ خانہ جنگی کی یہ حالت ‪ 180‬ع سے ‪ 395‬ع تک اگلے دو سو‬

‫سال تک جاری رہی۔ خانہ جنگی کے باعث سلطنت کمزور ہو کر شمالی یورپ اور جرمن قبائل‬

‫کے حملوں کا نشانہ بنا۔ حتی کہ جرمن روم کے شہنشاوں سے خراج لینے لگے۔‬

‫‪ 285‬ع میں ڈیو کلشین (‪ ) Diocletian‬روم کا شہنشاہ بنا۔ اس کے دور میں سینٹ کی حیثیت‬

‫محض شہری کونسل کی ہو گئی۔ اور اپنے لیے سورج دیوتا کا خطاب اختیار کر لیا۔‬

‫سلطنت کے انتظامی اکائیوں (‪ ) Units‬کی تنظیم نو کی۔ جانشینی کے مسلے کے حل کے‬

‫لیے اس نے یہ تدبیر آزمائی کہ سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ مشرقی حصہ اپنے پاس‬

‫رکھا جبکہ مغربی حصے پر اپنے ساتھی میگزیمین ( ‪ ) Maximian‬کو حکمران بنایا۔ کچھ عرصے‬

‫کے بعد دونوں شہنشاہوں نے اپنے اپنے جانشین مقرر کر کے سلطنت کے حصوں کو ان میں‬

‫تقسیم کیا۔ یوں رومن سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ڈیو کلیش کے دور تک ان چاروں‬

‫کے مابین تعلقات خوشگوار رہے۔ بیرونی حملوں کو روکا جاتا رہا۔ اگرچہ روم کی مرکزی حیثیت‬

‫نہیں رہی تھی۔ ‪ 305‬ع میں ڈیو کلیش نے تحت و تاج سے دستبردار ہو کر ملکی معامالت سے‬

‫علیحدگی اختیار کر لی۔ جس کے بعد پھر سے خانہ جنگی کا دور شروع ہوا۔‬
‫شہنشاہ قسطنطین ‪ Constantine‬کا دور ( ‪ 313‬ع تا ‪ 337‬ع)‬

‫۔۔‬

‫چونکہ ‪ 305‬ع میں ڈایکلوشن (‪ ) Diocletian‬کی رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے اس کا‬

‫جانشینی کے لیے مرتب کردہ سسٹم موثر ثابت نہ ہوا۔ اور خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ حالت یہ بن‬

‫ہو گئی تھی کہ ‪ 310‬ع میں شہنشاہیت کے بیک وقت پانچ دعویدار بن گئے تھے۔ مگر ان میں‬

‫قیصر کوئی نہیں تھا۔ خانہ جنگی اور اقتدار کی اس رسہ کشی میں قسطنطین کامیاب ہوا‬

‫وہ پہال رومی شہنشاہ تھا جس نے آبائی مذہب ( دیوتا ٔوں کی عبادت ) چھوڑ کر عیسائیت اختیار‬

‫کر لی۔ اس نے ‪ 313‬ع میں ضابطہ میالن۔ (‪ ) Edict of Milan‬کے تحت عیسائیت کو قانونی مذہب‬

‫کا درجہ دیا۔ اس سے نہ صرف عیسائیوں پر مظالم کا سلسلہ بند ہوا۔ بلکہ عیسائیت کی تبلیغ و‬

‫ترویج بھی شروع ہو گئی۔‬

‫قسطنطین سے پہلے سلطنت کی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے دنوں سے رومن سلطنت کی‬

‫حکمرانی مشرق منتقل ہو چکی تھی۔ اس لیے اس نے ‪ Byzantium‬کو دارالسلطنت بنایا۔ جو‬

‫اس کے نام پر ‪ ( Constantinople‬قسطنطنیہ ) کہالیا۔‬

‫قسطنطین نے ٹکڑوں میں منقسم سلطنت کو پھر سے متحد کیا۔‬

‫سلطنت کی تقسیم۔ اور قدیم مغربی رومی سلطنت کا حاتمہ تک کا دور ( ‪ 395‬ع تا ‪ 476‬ع)‬

‫۔۔‬

‫‪ 337‬ع میں شہنشاہ قسطنطین کی موت کے بعد دو مشترکہ شہنشاہوں ( ایک برائے مشرق‬

‫اور دوسرا برائے مغرب) کی حکمرانی میں سلطنت اگلے لگ بھگ ‪ 60‬سال تک متحد رہی مگر‬

‫شہنشاہ تھیوڈوسس ( ‪ )Theodosius‬کے بعد ‪ 395‬ع میں سلطنت مستقل طور پر دو علیحدہ‬

‫حصوں (مغربی اور مشرقی سلطنتوں ) میں تقسیم ہو جاتی ہے‬


‫۔‬

‫مغربی رومن سلطنت جرمنی اور شمالی یورپ کی جانب سے بر بر قبائل کے حملوں کی زد‬

‫میں رہی۔ ‪ 378‬ع سے ‪ 476‬ع تک سو سالوں کے عرصے میں جرمن اور بر بر قبائل ( ہن‪ ،‬وسی‬

‫گاتھ‪ ،‬گال‪ ،‬ونڈل وغیرہ ) کا سلطنت روم پر حملوں کے نتیجے میں اٹلی‪ ،‬افریقہ‪ ،‬اسپین‪ ،‬گال اور‬

‫برطانیہ کے عالقوں پر قابض ہو گئے۔‬

‫روم کے آخری حکمران ‪ 6‬سالہ رومولس آگسٹلس ( ‪ ) Romulus Augustus‬کی تحت نشینی (‬

‫‪ 475‬ع ) کے ایک سال بعد ‪ 476‬ع میں جرمن قبائل نے روم پر قبضہ کر کے مغربی رومن سلطنت‬

‫کا آخری نشان بھی مٹا دیا۔‬

‫اس کے بعد اگلے ‪ 300‬سال تک رومن سلطنت کے مختلف حصوں پر جرمن قبائل کی حکومتیں‬

‫رہیں اسی زمانے میں یہ قبائل عیسائی چرچ کی کاوشوں سے عیسائیت بھی قبول کرتے رہے‬

‫( سقوط روم کے بعد اگلے دور میں یورپ میں عیسائی چرچ مذہبی کردار کے عالوہ سیاسی اور‬

‫سماجی لحاظ سے بھی بڑا اہم رول ادا کرتا رہا جس کی الگ تاریخ ہے )‬

‫۔۔‬

‫‪8‬ویں صدی عیسوی میں روم کو پھر اس وقت اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جب فرانکس بادشاہ‬

‫شارلیمن جرمن قبائل کو عیسائی مذہب کی بنیاد پر متحد کر کے شہنشاہیت قائم کرتا ہے اور‬

‫اس کی تاج پوشی روم میں پوپ کرتا ہے۔ روم کی یہ سلطنت ”مقدس رومن سلطنت“ کے نام‬

‫سے مشہور ہے۔ تاہم یہ دور چونکہ یورپ کے زمانہ وسطی سے ہے اس لیے یہ یورپ کی قدیم‬

‫تاریخ میں شامل نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس سلطنت سے پہلے کے قدیم رومی سلطنت کی‬

‫نوعیت کئی حوالوں سے مختلف تھی۔‬


‫قدیم رومن سلطنت یا روم کی سیاسی تاریخ کا خاتمہ رومن سلطنت کے مختلف حصوں پر‬

‫جرمن قبائل کے بتدریج تسلط اور آخر ‪ 476‬ع میں روم پر ان کے قبضے سے ہوتا ہے۔‬

‫۔۔‬

‫مشرقی سلطنت (قسطنطنیہ ) بازنطینی کہالئی۔ (ان میں شام‪ ،‬مصر ایشیا کوچک‪ ،‬تھربس کے‬

‫عالقے (جنوب مشرقی یورپ) یونان کے ممالک شامل تھے ) ۔ تقسیم کے بعد سے اہنے خاتمہ‬

‫تک اس کی اپنی ایک اہم تاریخ ہے۔‬

‫مختلف نشیب و فراز پر مبنی ایک ہزار تاریخ کے دوران زیادہ تر عرصے میں فوجی۔ سیاسی۔‬

‫معاشی اور ثقافتی لحاظ سے بڑی زبردست اہمیت کی حامل سلطنت رہی ہے‬

‫مشرقی رومن یا بازنطینی کو پہلے ایران اور ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کے ساتھ مقابلہ‬

‫کرنا پڑا۔‬

‫‪ 15‬ویں صدی کے وسط ( ‪ 1453‬ع ) کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کا قسطنطنیہ‬

‫کے فتح کرنے سے اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔‬

‫▪‬ ‫‪A‬‬

You might also like