Professional Documents
Culture Documents
قدیم رومن سلطنت۔ مختصر تاریخ از انور جلال
قدیم رومن سلطنت۔ مختصر تاریخ از انور جلال
(حضرت عیسی علیہ سالم کی پیدائش سے صدیوں قبل اٹلی کے دریائے ٹائبر ( )Tiberکے
کنارے سات چھوٹی پہاڑیوں پر مٹی کے بنے سات گاؤں آباد تھے جو وقت کے ساتھ ترقی کر
کے ”روم“ نام کے ایک چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگلی صدیوں میں اس کا
بتدریج بحیرہ روم کے اردگرد اور دوسرے ممالک پر قبضہ کر کے 500سال تک ایک طاقتور
اپنے عروج کے دور میں یورپ۔ ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک پر مشتمل 23الکھ مربع میل
کے رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ ماضی کے شاندار تہذیبوں ( میسوپوٹیمیا ،مصر اور بالخصوص قدیم
یونان کے ثقافتی ورثے کی نہ صرف امین اور محافظ رہی۔ بلکہ طرز سیاست ،انتظام حکومت،
قانون اور تعمیرات اور پبلک ورکس کے میدانوں میں شاندار اضافے بھی کیے۔ جدید مغربی تہذیب
کی ثقافت۔ قانون۔ ٹیکنالوجی ،فنون ،زبان۔ مذہب۔ طرز حکومت و سیاست۔ افواج اور طرز تعمیر پر
قدیم رومی سلطنت کے دیرپا اثرات ہیں۔ یہاں اس قدیم رومن سلطنت کی مختصر سی تاریخ
۔۔
اٹلی ایک جزیرہ نما ہے۔ جو یورپ کے جنوبی جانب بحیرہ روم میں واقع ہے۔ شمال میں کوہ
اس کے بعد سے آریائی نسل باشندوں کی آمد جاری رہی۔ جو وسطی اور جنوبی اٹلی میں آباد
ہوتے گئے۔ یہ قبیلے اطالوی کہالئے۔ ان میں مشہور قبیلہ الطینی کہا جاتا تھا۔ ان اطالوی قبیلوں
کے عالقے کا نام الطیم ( )Latiumپڑ گیا۔ 1000ق م میں ایشیا کوچک سے مخلوط النسل
قبیلے جو ایٹرو سکن ( )Etruscanکہالتے تھے ،اٹلی میں آباد ہو گئے۔ یہ پہلے باشندوں سے
زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تجارت پیشہ لوگ تھے۔ انہوں نے اٹلی میں شہری ریاستیں
قائم کیں۔
7ویں صدی ق م میں اٹلی کے ساحلی عالقوں ( سسلی وغیرہ ) میں یونانی آباد ہو گئے۔ یوں
6ویں صدی ق م تک اٹلی میں تین اہم لوگ اباد ہو گئے تھے۔ ( ) 1شمالی اٹلی میں ایٹرو
سکن۔ ( ) 2وسط اور جنوب میں اطالوی قبیلے اور ( ) 3جنوبی ساحلی عالقوں میں یونانی
النسل باشندے۔
ان میں ایٹرو سکن باشندوں نے اپنے عالقے میں شہری ریاستیں بنا کر بادشاہت قائم کر لی
روم کا قیام
۔
الطیم اور ایٹرو سکن عالقوں میں تجارتی تعلقات کے باعث آمد و رفت کے نتیجے میں الطیم کی
پہاڑی سرحد پر سات گاؤں بس گئے۔ جو بتدریج روم کے شہر میں تبدیل ہو گئے۔ اس شہر کا
انتظام الطینیوں کے پاس تھا اور یوں یہ ان کا اہم شہر بن گیا۔ عالقہ الطیم کے 30کے قریب
شہری ریاستوں کے اتحاد ال طیم لیگ کا باآلخر روم قائد بن گیا۔ ایک زمانے میں ایٹرو سکنس
قبیلے نے روم پر قبضہ کر لیا۔ مگر 509ق م میں اس کے آخری بادشاہ کو نکال کر روم کے
روم کی بحیثیت جمہوریہ اور مستند تاریخ کا آغاز 509ق م سے ہوتا ہے۔ اور شاہی دور کا خاتمہ
ہوتا ہے۔
اگرچہ روم کے شاہی دور ( 509ق م سے قبل ) میں بادشاہ کے ساتھ سینٹ اور اسمبلی
جیسے اداروں کی موجودگی میں محدود بادشاہت اور محدود جمہوریت کی بنیاد پڑ چکی تھی۔
مگر ایٹرو سکن بادشاہوں کے دور میں سینٹ اور اسمبلی کی اہمیت حتم ہو گئی تھی۔
ابتدائی جمہوریت میں سینٹ صرف باالئی طبقے پر مشتمل تھی۔ تاہم عوام اور امراء کے درمیان
طویل کشمکش کے بعد 449ق م میں ایک ضابطہ قوانین کے ذریعے عوام کو کافی سماجی
حقوق دیے گئے۔ پھر عوامی مطالبے پر امراء کی اسمبلی کے ساتھ عوام کی اسمبلی کے
قیام سے قوانین بنانے کے بعض اختیارات بھی عوام کو مل گئے۔ مزید اختیارات کے لیے عوام
تقرری کے عالوہ مالی اور زرعی اصالحات ،اور مذہبی عہدوں میں امراء کے ساتھ عوام کی
برابری کے ساتھ عوام اور خواص کی کشمکش حتم ہو گئی 287ق۔ م میں عوامی اسمبلی
سینٹ کے دست نگر بھی نہ رپی۔ یوں تقریباً دو سو سال ( 494ق م تا 287ق م ) کی
جدوجہد کے بعد روم کی جمہوریت میں عوام کو سیاسی ،سماجی ،معاشی ،اور مذہبی
حقوق مل گئے۔ بلکہ بعض حوالوں سے عوام کے اختیارات امراء سے زیادہ ہو گئے۔ سلطنت کی
۔۔
روم میں 509ق م میں ایٹرو سکن بادشاہت کے خاتمے سے جمہوریت کی ابتدا ہو گئی تھی۔
جس کے ساتھ امراء اور عوام کے درمیان اندرونی سطح پر حقوق کی جنگ بھی جاری رہی
تھی۔ ( 495ق م تا 287ق م کے دوران مختلف عوام دوست قانون سازی سے عوامی باال
دستی ( جمہوریت) کافی مستحکم ہوتی رہی ) ۔ جبکہ اسی دوران روم کی ریاست کو بیرونی
حملہ آوروں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا۔ اطالوی شہروں کا اتحاد (Latium League) 493ق م سے
390ق م میں اس اتحاد کا اٹلی کے شمال کے ایک بر بر قوم ”گال“ ”کے حملے کا سامنا کرنا
پڑا۔ انہوں نے عالقے کے کافی بڑے حصے کو جال دیا۔ اس مصیبت کے فرو ہونے کے بعد روم کی
از سر نو تعمیر کی گئی۔ روم نئی طاقت کے ساتھ ابھر کر ہمسایہ عالقوں پر قبضہ کرنے لگا۔ روم
کی بڑھتی طاقت کے باعث الطینی اتحاد کی دوسری ریاستوں کے ساتھ جنگوں کا آغاز ہوا۔
339ق م تک جاری ان جنگوں میں روم کی فتح یابی سے بقیہ الطینی شہروں پر روم کی
روم اٹلی کی اہم ترین ریاست بن گیا۔ ( اس کے اگلے سال ( 338ق م) میں مقدونیہ کے فلپ
دوم ( سکندر اعظم کے باپ) نے یونانی ریاستوں کو فتح کر کے مضبوط ریاست قائم کر لی تھی
)
343ق م سے 290ق م تک سلطنت روم وسطی اٹلی کے پہاڑوں پر قابض اطالوی نسل
سامینی قبیلہ کے ساتھ جنگوں میں پھنسا رہا۔ 290ق م Sentinumکے مقام پر روم نے ان کو
فیصلہ کن شکست دی اور پورے وسط اٹلی پر روم کا اقتدار قائم ہو گیا۔ شمال کے کچھ حصوں
پر ”گال“ قابض رہے اور جنوب میں یونان کی نو آبادیات قائم تھیں۔ آیت رسکن قبیلے کا اقتدار
بالکل حتم ہو گیا۔ اس کے بعد روم کے مقابلے صرف دو طاقتیں رہ گئی تھیں۔ ایک۔ یونانی نو
۔
۔۔
سامینی قبیلے سے نمٹنے کے بعد روم نے یونانی نو آبادیات پر حملے شروع کیے۔ اٹلی میں
یونان کے اہم شہر Trentumپر حملے کے موقع پر یونانیوں نے سرحدی ریاست Epirusکے
حکمران Pyrrhusکی مدد سے رومیوں کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ تاہم زیادہ نقصان کے باعث وہ
جنوبی اٹلی کے عالقوں سے سسلی پہنچ گیا۔ اس کا کچھ حصہ کارتھیج کی نو آبادیات تھا۔ جو
بحیرہ روم میں سب سے طاقتور تھے۔ کارتھیج نے ان کے بحری بیڑے کو شکست دی۔ جب کہ
رومی کی بڑی افواج نے پی رہس ( )Pyrrhusکو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ ان شکستوں کے بعد
وہ یونانی نو آبادیات کو روم اور کارتھیج کے درمیان چھوڑ کر اپنی ریاست واپس چال گیا۔ 270ق م
تک روم۔ نے اٹلی کے تمام یونانی نو آبادیات پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ سسلی کے پورے جزیرے پر
کارتھیج قابض ہو گیا۔ اس لیے اب روم کا مقابلہ اسی بقیہ طاقت۔ کارتھیج۔ سے ہونا تھا۔
۔۔
ایشیاء کوچک کے مغربی ساحلوں پر ایک چھوٹی سی قوم فنیقی آباد تھی۔ جو 1000ق م
سے کامیاب تاجر بن گئے تھے۔ اور بحیرہ ایجیئن کے جزائر ،افریقی ساحلوں اور بحیرہ روم کے
جزیروں پر نوآبادیات قائم کر دی تھیں۔ اسپین کے جنوبی ساحل اور افریقہ ساحل پر ان کی
نوآبادیات نے بڑی تیز ترقی کی تھی۔ افریقہ ساحل پر کارتھیج کا شہر 875ق م میں انہی
فنیقی قوم کے باشندوں نے آباد کیا۔ جو جلد ایک طاقتور تجارتی شہر بن گیا۔ اور اٹلی کے قریب
روم کے ساتھ کارتھیج کے تعلقات کچھ عرصہ تو خوشگوار رہے مگر تجارتی برتری کے لیے
کشمکش کے باعث دونوں طاقتوں کے درمیان 264ق م سے 156ق م تک تین جنگیں لڑی
گئیں۔ جو punic wars۔ یا کارتھیج جنگیں کہالئی جاتی ہیں۔ 118سال کی ان طویل جنگوں میں
باآلخر روم فتح یاب ہوا۔ اور یوں کارتھیج کے زیر اثر تمام ساحلی عالقوں پر روم نے قبضہ کر لیا۔
دوسری پیونک جنگ۔ ( 218ق م تا 202ق م ) کے دوران اسپین کے مشہور کارتھیجی گورنر
ہنی بال نے روم کو کئی شکستیں دیں جن میں ایک کنائے 216ق م ) کی لڑائی ہے۔ اس نے
روم کا محاصرہ بھی کر دیا تھا تاہم زاما کی لڑائی ( 202ق م ) میں وہ رومی جرنیل سیپو
( )Scipioسے شکست کھا گیا۔ اور اسپین روم کا صوبہ بن گیا۔
تیسری پیونک جنگ ( 149ق م تا 146ق م ) میں کارتھیج شہر کو آگ لگا کر رومیوں نے تباہ کر
دیا۔ یوں سارے بحیرہ روم کے ساحلوں پر روم کا تسلط قائم ہو گیا۔
( اس کے بعد مشرقی ممالک۔ ( سکندر اعظم کے جانشینوں کے تین یونانی ریاستوں ) ۔ کی
مشرق میں یونانی ممالک۔ ( سکندر اعظم کے جانشینوں کے تین یونانی ریاستیں ) ۔ پر روم کا
۔۔
دوسری پیونک جنگ میں مقدونیہ (یونان حاص) کے حکمران فلپ پنجم نے ہنی بال کی مدد کر
روم نے 197ق م میں مقدونیہ پر حملہ کر کے شکست دی۔ اور یوں مقدونی حکمران کے
2۔ 133ق م میں ایشیا کوچک میں سیلوقس ( ) Selecusکی یونانی حکومت روم کا مقابلہ نہ کر
سکی۔ اس کا بڑا حصہ رومی سلطنت میں شامل ہوا۔ اور یوں یونان کے زیر اثر بحیرہ روم کا تمام
3۔ یونان کی تیسری سلطنت مصر میں بطلیموسی ( )Ptolemyحکومت تھی۔ جو یونانی تہذیب
کا مرکز تھی۔ بتدریج یہاں یونانی کمزور ہوتے گئے۔ اور 128ق م میں مصر نے یونان کی برتری
تسلیم کر لی۔ بیرونی معامالت میں روم کا حکم چلنے لگا۔ ( روم کے دور شہنشاہیت میں مصر
۔۔
۔۔
کارتھیجی غلبے کے خاتمے اور یونانی حکومتوں کی مغلوبیت سے روم کو بحیرہ روم میں غالب
بحری طاقت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ جس کے باعث سلطنت کی توسیع اور وسیع عالقوں پر
کنٹرول حاصل کرنا آسان ہو گیا۔ نتیجتاً روم کی دولت اور سیاسی طاقت میں اضافہ کا باعث بنا۔
اسی طرح یونانی مملکتوں پر غلبے سے روم پر یونانی تہذیب و تمدن کے مختلف جہت اثرات
بھی پڑے۔ تاہم ان فتوحات کے بعض منفی اثرات کا سامنا بھی روم کو کرنا پڑا۔ دولت کی فراوانی
سے بعد میں کئی سماجی اور معاشی مسائل پیدا ہوئے۔ سینٹ اور عوامی اسمبلی میں
طویل کشمکش شروع ہو گئی۔ اس میں امراء ( سینٹ) کو باالدستی حاصل ہو گئی۔ جس کی
وجہ سے سلطنت کا جمہوری ڈھانچہ بگڑنے لگا۔ سینٹ اختیارات کی رسہ کشی کا اکھاڑہ بن
گیا اور بد انتظامی سے وسیع سلطنت میں خانہ جنگیوں اور بغاوتوں اور تشدد کا سلسلہ شروع
ہوا جس کے تدارک میں سینٹ ناکام ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ باآلخر اگلے دور میں آئینی اور
اسمبلی کے اختیارات کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ اس دفعہ کو عوام کو یہ درس مل گیا
تھا کہ فوجی حمایت رکھنے والے فرد کے بغیر عوامی اختیارات کی واپسی مشکل ہوگی۔ اس
لئے عوام نے اپنی جانب سے ایک فوجی کمانڈر پومپے ( )Pompeyکو 70ق م میں قونصل
منتخب کیا۔ جس سے عوامی اسمبلی مضبوط ہو گئی۔ چونکہ پومپے بنیادی طور پر فوجی
کمانڈر تھا اس لیے اس کی دلچسپی فوجی مہمات پر زیادہ مرکوز تھی۔ اس سلسلے میں اس
کی فتوحات میں ایشیا کوچک کے عالقے۔ شام ،آرمینیہ ،فلسطین بشمول یروشلم وغیرہ کو
اسی زمانے میں روم میں ایک اور عوامی لیڈر۔ ماریوس کی طرز سیاست کی حمایت اور سوال
قوانین کی مخالفت کے حوالے سے ابھر رہا تھا۔ یہ لیڈر۔ جولیس سیزر Julies Cesar۔ تھا۔ جو
پومپے جب مشرقی فتوحات سے واپس روم آیا تو ذاتی اقتدار کے حصول کے بجائے فوج کی
کمان سے دست بردار ہوا۔ تاہم سینٹ سے مفتوحہ عالقوں میں اپنے آئینی انتظامات نیز متعلقہ
فوجیوں کے لیے رہائشی زمین کے مطالبے کر دیے۔ مگر دو سال تک وہ اس کی منظور نہ کروا
سکا۔ اسی دوران پومپے اور سیزر کو کراسس۔ ( ) Crassesکی صورت میں ایک دولت مند حامی
مل گیا۔ ان تینوں نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت طے کر لیا کہ سیزر کو قونصل منتخب کروا کر
سیزر کی عوامی مقبولیت ،پومپئی کے فوجی کارنامے اور کرسسس کی دولت عوامی
اسمبلی کو سینٹ کے مقابلے طاقت ور بنانے کے لیے کافی تھی۔ یہاں سے آگے جولیس
۔۔۔
376ق م میں کیے گئے لی سینی قوانین ( ) lecinus Lawsسے عوام کو سیاسی اور معاشی
حقوق ملے تھے۔ سینٹ کے عالوہ ایک عوامی اسمبلی بھی تھی۔ سینٹ کا ایک قونصل
عوامی نمائندہ ہوتا تھا۔ مگر کارتھیج اور دوسری جنگوں کے دوران سینٹ اور امراء کے اختیارات
عوامی اسمبلی کے مقابلے میں بڑھ گئے تھے۔ جنگوں سے واپسی کے بعد عوام مزدور بن
گئے۔ ان کی معاشی حالت خراب ہونے لگی۔ جبکہ امراء طبقہ ان کا سیاسی اور معاشی
ان حاالت میں عوام کو اپنے حقوق کے لیے نئی جدوجہد کرنی پڑی۔ جس کا آغاز 133ق م میں
ٹریبیوں کے منتخب عوامی نمائندے۔ ٹھبریس گر سیچس ( )Tiberius Gracchusنے کیا۔ اس نے
زرعی اصالحات کے حق میں آواز اٹھائی مگر اگلے سال اس کو قتل کیا گیا۔ جس کے بعد روم
کی اندرونی سیاست میں تشدد شروع ہوا۔ 10سال بعد 122ق م میں ٹھبریس کے بھائی
گائیس گریگس ( )Gaius Gracchusعوامی ٹریبیون منتخب ہوا۔ اس نے اسمبلی سے عوام کے
مفاد میں زرعی اور نوآبادیات میں حقوق کے قوانین پاس کروائے۔ تاہم روم کے امراء نے ان کے
خالف عوام کو بھڑکایا۔ سینٹ نے ہنگامی حالت کا اعالن کر دیا۔ گائیس اور اس کے حامیوں کو
قتل کیا گیا۔ گریگس برادران کے ناکامی سے عوام نے یہ سبق حاصل کیا کہ عوامی انقالب کی
کشمکش
۔۔
گائیس گریگس کے قتل کے بعد سینٹ پھر سے طاقتور اور باالدست ہو گیا۔ اور بدعنوانی بڑھنے
لگی۔ اسی زمانے میں افریقی ریاست نومیڈیا کے حکمران ”جو گر تھا“ کے رومن نوآبادیات پر
حملوں کے مقابلے میں رومی فوج ناکام ہو گئی تھی۔ تو روم کی عوامی اسمبلی نے ماریوس
نامی نمائندے کو سپہ ساال ( ) بنا کر افریقہ بھیجا۔ اس نے جوگرتھا ”کو شکست دے کر گرفتار
کر لیا۔ ماریوس کو عوامی اسمبلی نے دوبارہ قونصل نامزد کیا۔ جس کے بعد اس نے فوج میں
اسی اثنا جرمنی کی جانب سے بربری گال قبائل نے روم کی سرحدوں پر حملے شروع کیے ۔
ماریوس نے ان قبائل کو شکست دی۔ اس پر عوام نے اس کو 100ق م چھٹی بار قونصل نامزد
کیا۔ عوامی نمائندے ہونے کے باعث امراء کے ساتھ اس کی کشمکش شروع ہو گئی۔ تاہم
اسی زمانے میں اٹلی کے شہروں نے روم کے برابر شہریت کے حصول کے لئے بغاوتیں کیں۔
اطالوی شہروں کے بغاوتوں کے خاتمے کے بعد ایشیا کوچک کے مشرقی آزاد عالقوں کے
حکمران ”متری دا تیز“ ( ) نے روم کے خالف بغاوت کی۔ جس سے نمٹنے کے لیے سینٹ نے
”سوال“ کو فوج کا کمانڈر نامزد کیا۔ جو اطالوی ریاستوں کے خالف کامیاب مہم سے لوٹا تھا۔ مگر
ابھی روم داخل نہیں ہوا تھا۔ جبکہ دوسری طرف عوامی اسمبلی نے ”ماریوس“ کو فوج کا سپہ
ماریوس نے روم سے نکل کر افریقہ میں پناہ لی۔ سوال کی اس کامیابی سے سینٹ پھر سے
نکل پڑا۔ اور کئی فتوحات حاصل کیں۔ جبکہ اسی دوران ماریوس افریقہ سے روم واپس آیا۔ عوام
کی مدد سے امراء اور سینٹ کے خالف اعالن جنگ کر کے ان کو کچل دیا۔ اور ساتویں بار قونصل
ادھر سوال ”کا ایشیا کوچک سے واپسی پر عوامی پارٹی نے اس کو روم میں داخل ہونے سے
روکنے کے لیے اس کے مقابلے کے لیے فوج تشکیل دی۔ مگر سوال کی تجربہ کار فوج کے
مقابلے میں شکست سے دو چار ہوئی۔ یوں سوال 83ق م کو روم میں داخل ہوا۔ اور اس پر قبضہ
کر کے ڈکٹیٹر بن گیا۔ وہ روم کی تاریخ میں پہال فرد تھا جس نے فوجی طاقت سے ڈکٹیٹر شپ
قتل کیا۔ عوامی قوت کے خاتمے اور سینٹ کو انتظام سلطنت سنبھالنے کے قابل بنانے کے بعد
گریگس برادران کے اصالحات کا مقصد سینٹ کے مقابلے میں عوامی اسمبلی کو آئینی اور
انتظامی اختیارات دینا تھا۔ جبکہ ”سوال“ نے یہ اختیارات سینٹ کو واپس دالئے۔ سوال نے فوجی
۔ ۔ جولیس سیزر ایک دور اندیش سیاست دان کی حیثیت سے جانتا تھا کہ روم میں طاقت ور
ہونے کے لیے فوج کا کمان بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے سرکش گال قبائل اور
ان کے آزاد عالقوں ( فرانس وغیرہ ) کو فتح کر کے رومی سلطنت میں شامل کرنے لے لیے
عوامی اسمبلی سے خود کو فوج کا سپہ ساالر اور گال کے عالقے کا گورنر نامزد کروایا۔ فرانس
اور جرمنی پر چھائے ہوئے بر بر گال قبائل کو شکست دے کر سیزر نے خود کو بحیثیت فوجی
کمانڈر بھی منوایا۔ تمام موجودہ فرانس اور بلجیئم کو فتح کرنے کے عالوہ وہ سمندر عبور کر
سیاست دان اور فوجی کمانڈر کے ساتھ جولیس سیزر ایک بلند پایہ نظر نگار بھی تھا۔ اپنی ان
فتوحات پر کتاب لکھ کر روم بھیجی جس سے روم کے عوام میں اس کی مقبولیت مزید بڑھ
گئی۔ تاہم سینٹ کو سیزر سے یہ الحق ہو گیا کہ روم واپس آ کر وہ فوج کی کمان نہیں چھوڑے
گا۔ سیزر مزید پانچ سال کے لیے گال کے عالقوں کا گورنر نامزد ہو گیا تھا۔ ان کی مغرب میں
اسی دوران کراسس ( ) Crassesمشرقی مہمات میں مر گیا تھا۔ جبکہ پومپے روم میں تھا۔
سینٹ نے سیزر کی طاقت کے توڑ کے لیے پومپے کو سپہ ساالر نامزد کر کے سیزر کو کمان
سے دست برداری کا حکم۔ بھیجا۔ سیزر حاالت کو جان گیا تھا۔ اس لیے گال قبائل میں اپنی
مہمات کو چھوڑ کر فوجیوں کو اٹلی کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ اس نے روم پر فوجی طاقت
49ق م میں اٹلی اور الپس کے پہاڑوں کے درمیان واقع دریائے روبیکن (Rubicon۔ ) میں اپنا
گھوڑا ڈالتے ہوتے ہوئے یہ مشہور فقرہ کہا تھا کہ۔ ”اب پانسہ پھینک دیا ہے۔“ ۔ تاریخ نے ثابت
کیا۔ کہ یہ پانسہ صحیح پھینکا گیا تھا۔ روم میں سیزر کی برق رفتار آمد کے باعث پومپے کی
فوج مقابلہ نہ کر سکی۔ وہ اور سینٹ ممبران یونان بھاگ نکلے۔ سیزر نے اسپین پر حملہ کر کے
وہاں سینٹ کے حامی فوجوں کو شکست دی۔ اسی دوران پومپے یونان سے اپنے حامیوں
تاہم۔ سیزر تیزی سے اسپین سے واپس آیا اور یونان کی طرف بڑھا۔ 48ق م میں صوبہ
تھیسلی میں فار سیلیس کے مقام پر پومپے کو شکست دی۔ اس کے تعاقب میں مصر جا کر
اس کو قتل کیا۔ پومپے سے تو جان چھوٹ گئی لیکن سیزر مصر کی حکمران ملکہ قلوپطرہ کی
محبت میں گرفتار ہو گیا۔ مصر میں وہ اکتوبر 48ق م سے جون 47ق م تک رہا۔ جہاں سے اس
نے روم کے افریقی اور اسپینی مقبوضات پر اپنا اقتدار مستحکم کیا۔ ان مشرقی فتوحات کے بعد
۔۔
روم واپس آ کر سیزر نے خود کو تمام زندگی کے لیے نامزد کیا۔ تمام بڑے عہدوں پر فائز ہو گیا۔
حتی کہ مذہبی اقتدار بھی اپنے ہاتھ لیا۔ تمام بڑے اقدامات میں اسمبلی کو نظر انداز کرتا۔ اس
کے خیال میں اسمبلی اور سینٹ کے درمیان کشمکش مضر تھی۔ اور جہموریت سے روم کی
برتری کا حصول نہیں دیکھ پاتا تھا۔ اس لیے تمام۔ اختیارات اپنے ہاتھ میں مرکوز رکھے۔ اس نے
سلطنت کی ترقی کے لیے کئی اصالحات کیے ۔ تاہم اس کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت
سینٹ کو با اثر بنانے کے حامی اور سیزر کی اصالحات سے منفی طور پر متاثر ہونے والے امراء
اس کے دشمن بن گئے۔ 60امراء نے سیزر کو قتل کرنے کی سازش تیار کر لی۔ ان میں نمایاں
کیشش اور بروٹس ( )Brutusتھے۔ 15مارچ 44ق م کو جشن بہار کے دوران سینٹ کے حال
میں داخل ہوتے ہی اس پر حملہ کر کے قتل کیا گیا۔ جولیس سیزر کے قتل سے روم کی دم
توڑتی جمہوریت زندہ ہونے کے بجائے وہاں شہنشاہیت کا آغاز ہوتا ہے۔
۔
جولیس سیزر کے قتل کے بعد عوام نے جہموریت پسندوں کے بجائے سیزر کی حامیوں کا
ساتھ دیا۔ اور یوں اس کا خاص مشیر ”انٹونی“ روم پر قابض ہو گیا۔ جبکہ سیزر نے اپنی وصیت
میں اپنے بھانجے ”اکٹوین“ ( )Octavianکو جانشین مقرر کیا تھا۔ انٹونی نے اس کو نظرانداز کیا۔
مگر۔ اکٹوین نے سیزر کے وفادار فوجیوں کی حمایت سے اپنی اہمیت جتالنی شروع کی۔ 43ق
م میں وہ قونصل منتخب ہوا۔ انٹونی کے ساتھ جنگ کی صورت پیدا ہوئی۔ تاہم ایک معاہدے کے
روم اور اس کے مغربی حصے پر اکٹوین ،۔ مشرقی حصے بشمول مصر میں انٹونی۔ اور افریقی
مقبوضات پر سیزر کے ایک قریبی ساتھی لی پیڈس ( )Lepidusکی حکمرانی تسلیم کی گئی۔
ان تینوں نے مل کر سیزر کے قاتلوں اور ان کے حامیوں کو یونان اور مقدونیہ میں شکستیں دیں۔
اور اس کے بعد اپنے اپنے متعلقہ عالقوں میں اپنا اقتدار سنبھال لیا۔ تاہم کچھ عرصے بعد اکٹوین
اور افریقی حصے کے حکمران لیپیڈس میں ٹھن گئی۔ اکٹوین نے اس کو شکست دے کر افریقہ
مشرقی سلطنت میں انٹونی قلوپطرہ ( )Cleopatraکے حسن میں گرفتار تھا۔ روم میں یہ افواہ
تھی۔ کہ قلوپطرہ انٹونی کی حمایت سے رومن سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یوں انٹونی اور
اکٹوین میں جنگ ناگزیر ہو گئی۔ 31ق م میں یونان کے مغربی ساحل Actiumپر اکٹوین نے
دونوں کو فیصلہ کن شکست دی۔ یوں مشرقی حصے پر قابض ہو کر اکٹوین تمام رومن سلطنت
۔۔
اکٹوین نے اگرچہ سلطنت کی ظاہری جمہوری ہیئت بر قرار رکھی تاہم اصل طاقت اس کے پاس
تھی۔ اگرچہ خود کو ڈکٹیٹر کے بجائے Princeps۔ (پہال شہری ) کہالنا پسند کیا۔ مگر شخصی
حکومت (شہنشاہیت) قائم کی۔ سینٹ نے اسے آگسٹس۔ Augustusکا خطاب دیا۔ تاریخ میں
آگسٹس نے سلطنت کو وسعت دینے کے بجائے اس کے انتظام پر توجہ دی۔ کئی اچھے
اقدامات کیے۔ شمال میں دریائے رائن ( ) Rhineاور دریائے ڈینیوب ( ، )Danubeمشرق میں
بحیرہ اسود اور دریائے فرات ،جنوب میں صحارا کا ریگستان اور مغرب میں بحر اوقیانوس کو
سلطنت کے حدود قرار دیا۔ روم کی خوبصورتی پر بھر پور توجہ دی۔ اس کی زیر سرپرستی تاریخ
دان لیوی۔ ( )Livyنے روم کی تاریخ لکھی۔ ورجل اس کے دور کا بڑا مشہور شاعر گزرا ہے۔
حضرت عیسی علیہ سالم کی پیدائش بھی آگسٹس کے زمانے میں ہوئی۔
بہترین دور کہالیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ دور امن و استحکام اور خوشحالی کا تھا۔
اگسٹس کے جانشین
۔۔
چار حکمران روم پر حکومت کرتے رہے۔ جو ”جولین سیزر“ حکمران کہالئے ان میں آخری حکمران
فالوی ( ) Flaviحکمران
۔
نیرو کی خودکشی کے بعد روم پر 69ع سے 96ع تک فالوی ( ) Flavianخاندان کی حکومت
حاصل کی۔ اپنے بیٹے Titusکو نامزد کر کے شہنشاہیت کو موروثی بنا لیا
ٹیٹس ( )Titusکے دور میں یہودیوں کی بغاوت کے باعث یروشلم کو فتح کر کے تباہ کیا گیا۔ اس
کے بھائی ڈومیشین ( )Domitianکے دور میں کچھ فتوحات ہوئیں۔ عیسائیوں پر مظالم کی
انتحاہ بھی کی گئی۔ 96ع میں اس کو قتل کر کے فالوی دور کا حاتمہ ہوا۔
۔۔
۔۔
یہ دور روم کا بہترین زمانہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بہت سکون اور خوشحالی کا دور تھا۔ اس دور
کے آخری دو شہنشاوں کا تعلق انٹونین خاندان سے تھا۔ اسی بنا اس کو۔ انٹونی ”دور بھی کہا
جاتا ہے۔
اس دور کے دوسرے شہنشاہ ٹراجن ( )Trajanکے زمانہ حکومت ( 98ع تا 117ع) میں دریائے
ڈینیوب کے شمالی عالقوں اور آرمینیا اور دجلہ و فرات کے عالقے رومن سلطنت میں شامل
کیے گئے۔ ٹراجن اپنی فتوحات اور امن و امان کی وجہ سے بڑے شہنشاوں میں شمار ہوتا ہے۔
اس کے بعد جتنے شہنشاہ آئے انہوں نے انتظام سلطنت اور شہریوں کے حقوق پر زیادہ توجہ
دی۔ ان میں ہیڈریان 117 ( Hadrianع تا 138ع) اور انٹونیئس ( 138ع تا 161ع) کے ادوار کافی
ان کے بعد مارکیوس اگزلوس ( )Marcus Auxelliusآیا۔ وہ ایک جرنیل کے عالوہ ایک فلسفی
بھی تھا۔ جنگوں کے دوران ” “Meditationsکے نام سے کتاب لکھی۔ اس کے دور میں کئی
اچھے اقدامات کیے گئے۔ تاہم اس کے دور میں عیسائیوں کا قتل عام بھی ہوا۔ 180ع میں اس
کی موت کے بعد روم میں خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روم کا ) Pax Romana
رومی امن) کہالیا جانے واال دور بھی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
شہنشاہیت کا زوال۔
۔۔
180ع میں مارکس اریلی ایلس ( )Marcus Aureliusکے بعد سلطنت روم خانہ جنگی کا شکار
رہا۔ شاہ کے حفاظتی دستوں اور صوبائی فوجوں کی حمایت سے حکمران بنتے رہے۔ بعض
اوقات تو بیک وقت کئی شہنشاہ سلطنت کے حاکم رہے۔ ان کی باہمی لڑائیاں عوام کے لیے
سخت مصیبت کا باعث بنی رہیں۔ خانہ جنگی کی یہ حالت 180ع سے 395ع تک اگلے دو سو
سال تک جاری رہی۔ خانہ جنگی کے باعث سلطنت کمزور ہو کر شمالی یورپ اور جرمن قبائل
کے حملوں کا نشانہ بنا۔ حتی کہ جرمن روم کے شہنشاوں سے خراج لینے لگے۔
285ع میں ڈیو کلشین ( ) Diocletianروم کا شہنشاہ بنا۔ اس کے دور میں سینٹ کی حیثیت
محض شہری کونسل کی ہو گئی۔ اور اپنے لیے سورج دیوتا کا خطاب اختیار کر لیا۔
لیے اس نے یہ تدبیر آزمائی کہ سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ مشرقی حصہ اپنے پاس
رکھا جبکہ مغربی حصے پر اپنے ساتھی میگزیمین ( ) Maximianکو حکمران بنایا۔ کچھ عرصے
کے بعد دونوں شہنشاہوں نے اپنے اپنے جانشین مقرر کر کے سلطنت کے حصوں کو ان میں
تقسیم کیا۔ یوں رومن سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ڈیو کلیش کے دور تک ان چاروں
کے مابین تعلقات خوشگوار رہے۔ بیرونی حملوں کو روکا جاتا رہا۔ اگرچہ روم کی مرکزی حیثیت
نہیں رہی تھی۔ 305ع میں ڈیو کلیش نے تحت و تاج سے دستبردار ہو کر ملکی معامالت سے
علیحدگی اختیار کر لی۔ جس کے بعد پھر سے خانہ جنگی کا دور شروع ہوا۔
شہنشاہ قسطنطین Constantineکا دور ( 313ع تا 337ع)
۔۔
جانشینی کے لیے مرتب کردہ سسٹم موثر ثابت نہ ہوا۔ اور خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ حالت یہ بن
ہو گئی تھی کہ 310ع میں شہنشاہیت کے بیک وقت پانچ دعویدار بن گئے تھے۔ مگر ان میں
قیصر کوئی نہیں تھا۔ خانہ جنگی اور اقتدار کی اس رسہ کشی میں قسطنطین کامیاب ہوا
وہ پہال رومی شہنشاہ تھا جس نے آبائی مذہب ( دیوتا ٔوں کی عبادت ) چھوڑ کر عیسائیت اختیار
کر لی۔ اس نے 313ع میں ضابطہ میالن۔ ( ) Edict of Milanکے تحت عیسائیت کو قانونی مذہب
کا درجہ دیا۔ اس سے نہ صرف عیسائیوں پر مظالم کا سلسلہ بند ہوا۔ بلکہ عیسائیت کی تبلیغ و
قسطنطین سے پہلے سلطنت کی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے دنوں سے رومن سلطنت کی
حکمرانی مشرق منتقل ہو چکی تھی۔ اس لیے اس نے Byzantiumکو دارالسلطنت بنایا۔ جو
سلطنت کی تقسیم۔ اور قدیم مغربی رومی سلطنت کا حاتمہ تک کا دور ( 395ع تا 476ع)
۔۔
337ع میں شہنشاہ قسطنطین کی موت کے بعد دو مشترکہ شہنشاہوں ( ایک برائے مشرق
اور دوسرا برائے مغرب) کی حکمرانی میں سلطنت اگلے لگ بھگ 60سال تک متحد رہی مگر
شہنشاہ تھیوڈوسس ( )Theodosiusکے بعد 395ع میں سلطنت مستقل طور پر دو علیحدہ
مغربی رومن سلطنت جرمنی اور شمالی یورپ کی جانب سے بر بر قبائل کے حملوں کی زد
میں رہی۔ 378ع سے 476ع تک سو سالوں کے عرصے میں جرمن اور بر بر قبائل ( ہن ،وسی
گاتھ ،گال ،ونڈل وغیرہ ) کا سلطنت روم پر حملوں کے نتیجے میں اٹلی ،افریقہ ،اسپین ،گال اور
روم کے آخری حکمران 6سالہ رومولس آگسٹلس ( ) Romulus Augustusکی تحت نشینی (
475ع ) کے ایک سال بعد 476ع میں جرمن قبائل نے روم پر قبضہ کر کے مغربی رومن سلطنت
اس کے بعد اگلے 300سال تک رومن سلطنت کے مختلف حصوں پر جرمن قبائل کی حکومتیں
رہیں اسی زمانے میں یہ قبائل عیسائی چرچ کی کاوشوں سے عیسائیت بھی قبول کرتے رہے
( سقوط روم کے بعد اگلے دور میں یورپ میں عیسائی چرچ مذہبی کردار کے عالوہ سیاسی اور
سماجی لحاظ سے بھی بڑا اہم رول ادا کرتا رہا جس کی الگ تاریخ ہے )
۔۔
8ویں صدی عیسوی میں روم کو پھر اس وقت اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جب فرانکس بادشاہ
شارلیمن جرمن قبائل کو عیسائی مذہب کی بنیاد پر متحد کر کے شہنشاہیت قائم کرتا ہے اور
اس کی تاج پوشی روم میں پوپ کرتا ہے۔ روم کی یہ سلطنت ”مقدس رومن سلطنت“ کے نام
سے مشہور ہے۔ تاہم یہ دور چونکہ یورپ کے زمانہ وسطی سے ہے اس لیے یہ یورپ کی قدیم
تاریخ میں شامل نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس سلطنت سے پہلے کے قدیم رومی سلطنت کی
جرمن قبائل کے بتدریج تسلط اور آخر 476ع میں روم پر ان کے قبضے سے ہوتا ہے۔
۔۔
مشرقی سلطنت (قسطنطنیہ ) بازنطینی کہالئی۔ (ان میں شام ،مصر ایشیا کوچک ،تھربس کے
عالقے (جنوب مشرقی یورپ) یونان کے ممالک شامل تھے ) ۔ تقسیم کے بعد سے اہنے خاتمہ
مختلف نشیب و فراز پر مبنی ایک ہزار تاریخ کے دوران زیادہ تر عرصے میں فوجی۔ سیاسی۔
معاشی اور ثقافتی لحاظ سے بڑی زبردست اہمیت کی حامل سلطنت رہی ہے
مشرقی رومن یا بازنطینی کو پہلے ایران اور ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کے ساتھ مقابلہ
کرنا پڑا۔
15ویں صدی کے وسط ( 1453ع ) کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کا قسطنطنیہ
▪ A