Professional Documents
Culture Documents
یہہ کتاب ایمن الظواہری کےہ بہ ت سےہ ”اعترافات “پر مبنی ہے
جنہیں عوام کے سامنے لیا جانا ضروری تھا ۔اس کتاب کا مسودہ
ایمن الظواہری کےہ ایک قریبی ساتھ ی ”اےہ ایس“(کوڈہ نام)کو
قندھار کے قریب ایک غار سے مل۔یہ کم وبیش وہی وقت تھا جب
افغانستان پر امریکہہ نےہ حملہہ کیا اور ایمن الظواہری سمیت
القاعد ہ ک ے جنگجوؤں کو فرار ہوناپڑا ۔”ا ے ایس“ن ے اس مسودے
کو لندن پہنچادیا۔
2
وہہ اس کتاب کو پایہہ تکمیل تک پہنچاسکیں ۔تاہم انہوں نےہ یہ
انتظام ضرور کردیا کہہ جو کچھہ انہوں نےہ لکھہ لیا ہےہ وہہ محفوظ
ہاتھوں میں پہنچ جائے۔
مقبول ارشد
Email:maqboolarshad@fact.com.pk
3
مترجم نوٹ
امریک ہ پر 11ستمبر ک ے حملوں ک ے بعد امریکی حکام ن ے القاعدہ
کے مشتبہ افراد کی جو فہرست جاری کی،اس میں پہل نام اسامہ
بن لدن کا جبکہہ دوسرانام ایمن الظواہری کا ہےہ ،جسے
القاعدہہ کا دماغ کہ ا جاتا ہے۔ایمن الظواہری کےہ بارےہ میں بہت
کم شائع ہوا ہے اسی لئے لوگ ان کے بارے میں کم جانتے ہیں۔
4
پرکشش علقہہ بن گیا تھا۔یہاں مصر کےہ دونہایت اعلیٰہ تعلیمی
ادارےہ قائم تھےہ ۔یہہ دواسکول قاہرہہ امریکن کالج اور فرنچ کالج
فرانسیں آج بھی ایسے تعلیمی اداروں میں سرفہرست ہیں جہاں
داخلہ لینا جوئےشیر لنے کے مترادف ہے۔
5
1975ءمیں جب مصری صدر انور سادات کی معاشی پالیسیاں
دنیا بھ ر کو دعوت د ے رہ ی تھیں تو اس وقت ایمن الظواہری
میڈیکل کی تعلیم سےہ فارغ ہورہےہ تھےہ ۔70ءکی دہائی میں جب
انور سادات کی امریکی پالیسیاں عروج پر تھیں تو ان کے
اقدامات کو مستحسن نگاہوں سےہ نہہ دیکھاگیا اور کالجوں سے
ابھرنے والی تحریک نے پھیل کر مصری معاشرے اور سیاست کو
اتھل پتھل کردیا ۔اس زمانےہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے
اتحادسے ہ مسلم ثقافت اور قدروں کو جونقصان پہنچ رہا
تھا،اچانک اسلم ان کے خلف ایک مضبوط اور طاقتور حریف کے
طور پر اترا اور یہودیوں کے اقدامات کا توڑ پیش کیا۔
6
خلف اسام ہ بن لدن کی جانب س ے دیئ ے گئ ے مشہور فتوی ٰ پر
دستخط کئے تھے ۔
11ستمبر کےہ حملوں کےہ بعد جاری ہونےہ والی ویڈیو ٹیپوں میں
اسام ہ بن لدن ک ے سات ھ دکھائی دیئ ے ۔امریک ہ میں ان پر افریقہ
میں واقع امریکی سفارت خان ے کو بم س ے اڑان ے کی فرد جرم
عائد ہے اور مصر میں انہیں غیر موجودگی میں ہی سزائے موت
سنائی گئی ہے۔
ابتدائیہ
میں ن ے ی ہ کتاب کیوں لکھی ؟صرف اس لئ ے کہ اس کا لکھا جانا
مج ھ پر فرض ہوچکا تھ ا ۔ی ہ آئند ہ نسلوں کا مج ھ پر قرض تھ ا جو
آج میں نے چکادیا ہے۔میں نے اپنی زندگی کی کہانی عمر کے اس
حص ے میں قلمبند کرن ے کو اس لئ ے ترجیح دی ک ہ شاید میں جن
مسائل اور پریشانیوں میں گھرا ہوا ہوں آئند ہ حالت مزید بدتر
ہوجائیں اور بدلتی ہوئی اس صورتحال میں میرے لئے یہ ممکن نہ
7
رہے ہ کہ ہ میں اپنے ہ حالت زندگی اور اپنے ہ خیالت آپ تک
پہنچاسکوں کیونکہ زندگی اور موت ایک دوسرے سے آنکھ مچولی
کھیلنے میں مصروف ہیں ۔
میں نےہ یہہ کتاب لکھہ تو لی ہےہ لیکن میرا خیال ہےہ کہہ کوئی
پبلشراسےہ شائع کرنےہ کےہ لئےہ تیار نہیں ہوگا اور نہہ ہی کوئی
ڈسٹری بیوٹر اس کتاب کو تقسیم کرنے پر رضامند ہوگا۔یہی وجہ
ہے کہ کچھ لوگ اس کتاب کو میری ”آخری خواہش“کی نظر سے
دیکھہ رہےہ ہیں ۔میں نےہ یہہ کتاب اس لئےہ بھ ی لکھنا چاہ ی کہہ آنے
والی نسلیں اسے پڑھیں اور ا س پر عمل کریں ۔جن حالت میں
،میں گھرا ہواہوں شاید زیادہہ نہہ لکھہ سکوں ۔لمحہہ بہہ لمحہہ بدلتے
حالت اور پریشان کن صورتحال میں مجھےہ معروف عرب
شاعر کی ایک نظم دیا آتی ہے ۔
8
میں ن ے قارئین کو اس جنگ ک ے حقائق کی پس پرد ہ کہانی بیان
کرنےہ کی کوشش کی ہےہ تاکہہ یہہ کتاب پڑھنےہ والےہ اپنےہ خفیہ
اورکھل ے دشمن کوپہچان لیں۔وہ یہ پہچان کرسکیں کہ بھیڑی ے کون
کون سے ہیں اور لومڑیاں کون ہیں !تاکہ وہ خود کو ایسے ڈاکوؤں
سے بچاسکیں جو ان کا سب کچھ چھیننا چاہتے ہیں۔
ایمن
الظواہری
9
ہمارا اصل مقصد افغان مہاجرین کو طبی سہولتیں فراہ م کرنے
ک ے سات ھ سات ھ اسلم آباد میں واقع امریکی سفارت خان ے کو بم
سے اڑانا تھا اور اگر یہ ہمارے لئے ممکن نہ ہوتا تو پھر ہمارا مقصد
پاکستان میں کسی اور امریکی ادارےہ کو نشانہہ بنانا تھا۔ہ م نے
اسلم آباد میں امریکی سفارت خانےہ پر حملےہ کےہ امکان کا
جائز ہ لیا توہمیں محسوس ہوگیا ک ہ امریکی سفارت خان ے پر بم
مارنا ہماری صلحتیوں سےہ ماوراءہےہ ۔افغانستان جانےہ کا موقع
مجھے ایک سون ے کی پلیٹ میں رک ھ کر پیش کیا گیا کیونک ہ میں
مصر میں جہادی کاروائیوں کے لئے ایک محفوظ بیس کیمپ کی
تلش میں تھا کیونکہہ وہاں بنیاد پرست تحریک کےہ ارکان کو
گرفتار کرن ے ک ے لئ ے چھاپ ے مار ے جارہے تھے ۔یہاں میں اپن ے ایک
پران ے دوست ابوعبید ہ البنشیری کی ایک بات آپ کو سنانا چاہتا
ہوں ۔ابوعبید ہ القاعد ہ ک ے سابق ملٹری کمانڈ ر تھے۔وہہ 1996ءمیں
وکٹوریہہ جھیل میں ڈوب گئےہ تھےہ ۔ابوعبیدہہ کہتےہ تھےہ ”جب میں
افغانستان پہنچا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میری عمر
میں مزید سو سال کا اضافہ ہوگیا ہے“۔
میں نےہ پشاور میں چار ماہہ قیام کیا او ر محسوس کیا کہ
افغانستان جہادی سرگرمیوں کے لئے کتنی آئیڈیل سرزمین ہے اور
اگریہاں سے جہاد کی تحریک شروع کی جائے تو اس کی کامیابی
یقینی ہوگی،پھ ر میں مصر واپس چلگیا جہاں مجھے پکڑکر جیل
میں ڈال دیا گیا۔مج ھ پر الزام تھاک ہ میں ن ے سادات ک ے قتل کی
منصوب ہ بندی کی ہے ۔میں مصر ک ے اندر ہ ی ایک محفوظ جہادی
مرکز کےہ بارےہ میں سوچتا رہتا تھا کیونکہہ مصری سیکورٹی
10
فورسز ک ے دست ے اکثر میر ے پیچھے پڑ ے رہت ے تھے ۔مصر کی سر
زمین ہموار اورمیدانی تھی ۔اس طرح اس سرزمین پر حکومتی
کنٹرول آسان تھا۔دریائے نیل بھی دوصحراؤں کے درمیان بہتا ہے ۔
اس کےہ علوہہ وہاں کوئی سبزہہ یا پانی نہیں ہے۔اس طرح کی
میدانی سرزمین گوریل جنگ کے لئے مناسب نہیں ہوتی ،اسی لئے
مصر میں گوریل جنگ ممکن ہ ی نہیں۔اسی لئ ے وادی ک ے لوگوں
کو حکومت زبردستی فوج میں شامل کرلیتی ہےہ اور بطور
فوجی کارکن ان کا استحصال کیاجاتا ہے۔دباؤ کاماحول گھٹن کو
جنم دیتا ہےہ او رجب گھٹن زیادہہ ہوجاتی ہےہ توآتش فشاں پھٹ
پڑت ے ہیں اورگرم اورزہریل لوا اُبل پڑتا ہے اور اس آتش فشاں
کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں جو زمین کو ہلکررکھ دیتے ہیں۔اس
تمام عمل میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔1940ءسے
اسلمی تحریک مختلف حکومتی دباؤ کا شکار رہی ہے ۔
اس لئےہ جب مجھےہ افغان مہاجرین کےہ لئےہ بطور ڈاکٹر اپنی
خدمات سرانجام دین ے کا موقع ملتومجھے لگا ک ہ میر ے خوابوں
اورخواہشات کو دیکھتےہ ہوئےہ شاید یہہ دورہہ پاکستان میرےہ مقدر
میں لکھ دیاگیا تھا۔اب میں آپ کو تفصیل کے ساتھ اپنی پاکستان
آمد کا حال بتاتاہوں۔جب مجھےہ افغان مہاجرین کی بحالی کے
کاموں کی خاطر میڈیکل کی سہولیات دین ے ک ے لئ ے پشاور جانے
کی دعوت ملی تومجھےہ یوں محسوس ہوا کہہ میراایک دیرینہ
خواب پورا ہونے وال ہے ۔میں نے یہ دعوت فورا ً قبول کرلی ۔میں
نےہ سوچا کہہ یہہ ایک بہترین موقع ہےہ کہہ میں مصر میں اپنی
کاروائیوں کےہ لئےہ ایک محفوظ کیمپ تک رسائی میں کامیاب
ہوجاؤں گا۔ی ہ صدر انوالسادات کادورِحکومت تھا۔صدر سادات نے
قومی معاملت کو اس طرح چلنا شروع کیا کہہ اب ایک نئی
صلیبی جنگ کے آثار نمودار ہونے والے ہیں۔
11
مہاجرین کے لئے صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا بانی تھا۔اس
کےہ بنائےہ گئےہ ہسپتال میں ہم نےہ دیگر ڈاکٹردوستوں کےہ ساتھ
اکھٹےہ مل کرکام کیااور یہیں ہماری ملقات مجاہ د رہنماؤں سے
ہوئی ۔مجاہ د رہنما کمال السنانیری کی بہ ت تعریف کرت ے تھے کہ
انہوں ن ے مجاہ د رہنماؤں کو اکٹھ ا کرن ے میں اور ان کی رہنمائی
کرن ے میں ایک اہ م کردار ادا کیا۔اگرچ ہ میں اس ے کبھ ی نہیں مل
لیکن قدم قدم پر ان کی سخاوت اورنیکی ک ے کام مجھے نظر
آتے جو اس نے اپنے خدا کو خوش کرنے کے لئے کئے تھے۔اس میں
کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ کمال السنانیری کو صدر سادات
کی ہلکت ک ے بعد پکڑ دھکڑ کی مہ م میں ہ ی قتل ہوجانا چاہیے
تھالیکن ڈائریکٹر اسٹیٹ سیکورٹی انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ
حسن ابوباشا نے اسے حراست میں لے کر تشددکرکے شہید کیا ۔
کمال کو ستمبر 1981ءمیں گرفتارکیاگیا تھااورجب اسی سال
صدرسادات کو اکتوبر ک ے مہینےہ میں قتل کیا گیا توحکومت نے
محسوس کیا کہ حکومت کا سیکورٹی انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ ،
ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس کےہ دیگر ادارےہ ملک میں
موجود بے چینی کی حرارت ماپن ے میں مکمل طور پر ناکام رہے
ہیں۔
12
ملوث ہے جو ”مسلم برادرز“ کی مصر کی شاخ کا عالمی تنظیم
سے رابطے کا ذمہ دار ہے اور رابطے سے متعلقہ امور کی نگرانی
بھی کرتا ہے ۔کمال اس مقصد کے لئے بہت زیادہ بیرون ملک سفر
کرتا تھا۔اس نےہ افغان کاز کی حمایت کی اور افغانستان میں
جہاد کو واپس لنےہ اور اس کےہ رہنماؤں کےہ آپس میں رابطے
کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
13
سیل ک ے سات ھ بالکل سات ھ وال ے سیل ک ے ایک قیدی ن ے جو اس
تشدد کا چشم دید گواہہ تھا مجھےہ بتایا کہہ آخری رات اس پر
وحشیانہ تشدد کیاگیا تھا جس کے نتیجے میں کمال ہلک ہوگیا۔
14
جہاں لڑائی ،سیاست اور دیگر تنظیمی امور کا عملی تجربہ
کیاجاسکے ۔اس لئے برادر ابوعبیدہ البنشیری کہتے تھے :
”افغانستان آنے سے میری عمرمیں سوسال کا اضافہ ہوگیاہے“۔
15
کرلیاتھا۔اس کی ایک واضح مثال نجیب اللہہ تھ ا جسےہ ہ م دیکھ
چکے ہیں ،وہ نماز پڑھتا ،روزے رکھتااور اس نے فریضہ حج بھی ادا
کررکھاتھا۔اس کے باوجود اس نے حکومت میں اسلم کے نفاذ پر
پابندی لگادی اور اسلم دشمن قوتوں کے ساتھ اتحاد کرکے انہیں
اپنےہ ملک میں آنےہ کی دعوت دی اور پھران کےہ ساتھہ مل کر
انتہائی وحشیانہ طریقے سے مسلمانوں اور مجاہدین کو دبایا۔
عرب مجاہدین نےہ اپنےہ جہاد کو عطیات تک محدود نہہ رکھ ا بلکہ
اس ے مسلمانوں ک ے عطیات بھی دلوائے۔اسامہ بن لدن ن ے مجھے
عربوں کے عطیات کے بارے میں بتایا کہ دس سال میں دوسوبلین
ڈالر کےہ فوجی ساز وسامان کی صورت میں موصول ہوئے۔آپ
اندازہہ لگائیےہ کہ ہ عرب ذرائع سےہ غیر فوجی شعبوں مثلً
ادویات،صحت ،تعلیم ،وکیشنل ٹریننگ ،خوراک ،سماجی بہبود
(بشمول بچوں ،بیواؤں اور جنگ میں زخمی ہونےہ والوں کو
16
اپنالینا) کےہ شعبوں میں کس قدر امداد عرب ذرائع سےہ آتی
ہوگی۔ان عطیات میں و ہ خصوصی عطیات بھ ی شامل کرلیجئے
جو کہ عید الفطر ،عیدا لضحیٰ اور رمضان کے مہینے میں خوراک
کی صورت میں آتے تھے۔اس غیر سرکاری ذرائع سے حاصل ہونے
وال ے عطیات سے عرب مجاہدین نے ٹریننگ سنٹر قائم کئے۔انہوں
ن ے ایس ے محاذ قائم کئ ے جہاں ہزاروں عرب مجاہدوں کو تربیت
دی گئی ،انہیں مسلح کیاگیا اور انہیں گھر ،سفر کے لئے خرچ اور
تنظیمی امور کے لئے بھی عطیات مہیا کئے گئے۔
امریکی حسب عادت مبالغہہ آمیزی اور سطحیت سےہ کام لیتے
ہوئے لوگوں ک ے توہمات فروخت کررہے ہیں اور بنیادی حقائق کو
فراموش کررہے ہیں ۔کیایہ ممکن ہے کہ اسامہ بن لدن افغانستان
میں ایک امریکی ایجنٹ ہے ؟جس ن ے 1987ءمیں اپنی ایک تقریر
میں اس ساز وسامان کا بائیکاٹ کا کہا تھا جو امریکہہ نے
فلسطین میں برسرپیکار انتفادہہ کی حمایت کیلئےہ بھیجاتھ ا ۔کیا
ایسا شخص امریکی ایجنٹ ہوسکتا ہے؟
17
علوہ ازیں کیا یہ ممکن ہے کہ عبداللہ عزام شہید امریکہ کا معاون
ہو؟جبکہ اس نے نوجوانوں کو کبھی منع نہ کیا جو امریکہ کے خلف
دیگر نوجوانوں کو ترغیب د ے رہے تھے اور اس ن ے ہ ر ممکن حد
تک حماس کی مدد کی ۔کیا یہہ ممکن ہےہ کہہ مصر میں جہادی
تحریک امریکہ ہ کے ہ تعاون سے ہ چلئی گئی ہو ؟جبکہ ہ خالد
السلمبولی اور اس ک ے ساتھیوں ن ے انورالسادات کو اس وقت
قتل کیا جبک ہ ابھ ی عرب مجاہدین کی افغانستان میں آمدشروع
نہ ہوئی تھی۔
18
اسلمک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنےہ والےہ ایک مصری
طالب علم کو جو کہہ قانونی طور پر پاکستان میں مقیم تھا
اورقانونی طور پر طالب علم تھ ا ،اس ے ملک بدر کردیا گیا۔علوہ
ازیں دوایسے مصریوں کو جو پاکستانی لڑکیوں سے شادی کرکے
پاکستانی شہریت حاصل کرچکےہہہ تھےہہہ ،انہیں گرفتار
کرلیاگیا۔پاکستانی حکومت امریکہہ اور مصرکےہ سامنےہ اس حد
تک جھک گئی ک ہ اس نے ان مصریوں کو پاکستانی عدالتوں میں
پیش کرنے سے پہلے ہی انہیں مصر کے حوالے کردیا اور اس طرح
پاکستانی قانون اور آئین کی توہین کی گئی ۔
19
خلف جاسوسی بھی کررہاہے۔بعد ازاں پاکستانی سیکورٹی
ایجنسیوں نے سفارت خانے کی تباہی کے بعد ملبے سے سے ایسے
کاغذات اپن ے قبض ے میں لئ ے جن س ے ی ہ عقد ہ کھل ک ہ جاسوسی
کےہ شعبےہ میں مصر اور بھارت ایک دوسرےہ سےہ تعاون کررہے
تھے ۔
حملےہ سےہ قبل ٹیم کو پیغام دیاگیا کہہ اگر انہیں مزید رقم دی
جائےہ تو وہہ مصر کےہ سفارتخانےہ کےہ ساتھہ ساتھہ امریکی سفات
خانہہ بھ ی تباہہ کرسکتےہ ہیں۔ہ م جو دےہ سکتےہ تھےہ دیا تاہ م ،مزید
رقم نہیں دےہ سکےہ جس کی وجہہ سےہ ٹیم نےہ مصری سفارت
خانےہ کی تباہی پر اپنی توجہہ مبذول کئےہ رکھی اور اسےہ ایک
دھماک ے س ے اڑا دیا ۔دھماک ے ن ے سفارتخان ے کی عمارت ک ے ملبے
کوایک واضح پیغام میں تبدیل کردیاتھا۔
20
عقیدے نے اسلمی تحریکوں کو ان کے اصل دشمن پہنچاننے میں
مدد دی۔اس نےہ اس حقیقت کو جاننےہ میں بھی مدد دی کہ
اندرونی دشمن بیرونی دشمن سےہ کم خطرناک نہیں اور یہہ کہ
اندرونی دشمن دراصل ایک بیرونی دشمن کے ہتھیار کے طور پر
کام کررہا تھا اور ی ہ ک ہ ی ہ اس کی ایک ڈھال بن گیا تھا اور ی ہ ایک
پردہ تھا جس کے پیچھے اصل دشمن نے اسلم کے خلف جنگ کو
چھپالیا تھا۔
سید قطب کےہ گرد جمع ہونےہ والوں نےہ حکومت کو اس کی
اسلم دشمن حرکتوں سے باز رکھنے کا ایک پروگرام ترتیب دیا ۔
گروپ نےہ یہہ پروگرام بنایا کہہ حکومت کو احساس دلیاجائےہ کہ
اس کی حرکتیں اسلم کے خلف ہیں ۔حکومتی پالیسیاں اللہ کی
شریعت کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔اس گروپ کا پروگرام
انتہائی سادہ تھا۔ ان کا یہ پروگرام ہرگز نہ تھا کہ حکومت کو نکال
باہ ر کیا جائ ے اور قیادت کا ایک خلءتشکیل دیا جائ ے بلک ہ ان کا
پروگرام یہہ تھا کہہ حکومتی اقدامات کےہ خلف مزاحمت کی
جائے ،اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جائیں ،مدافعانہ حکمت
عملی اختیار کی جائے اور اگر مسلمانوں کو دبانے کے لئے کوئی
مہم چلے تو اس کے خلف مزاحمت کی جائے ۔
اس گروپ کےہ پلن کےہ پیچھےہ ایک عظیم نظریہہ تھ ا ،گوکہہ اس
گروپ کی طاقت اورتعداد کم تھ ی ۔لیکن نظریہہ چھوٹا نہہ تھ ا ۔
نظری ہ ی ہ تھاک ہ اسلمی تحریک اپنی طاقت اور صلحیت ک ے ساتھ
اس حکومت کےہ خلف ایک جنگ کا آغاز کرچکی ہےہ کیونکہ
موجودہہ حکومت اسلم کےہ خلف ہےہ اگرچہہ حکومت نےہ سید
قطب ک ے گروپ ک ے افراد کو حراست میں لے لیا ،انہیں ہراساں
کیا گیا ،انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیا لیکن حکومت سید قطب کے
گروپ کو مسلم نوجوانوں میں پھیلن ے س ے ن ہ روک سکی ۔سید
قطب اپن ے الل ہ ک ے وفادار تھے اور الل ہ کوہ ی سپریم طاقت خیال
کرتےہ تھےہ ۔یہہ تحریک ایک ایسی چنگاری تھ ی جس نےہ اسلمی
تحریک ک ے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو باآور کرادیا تھ ا ک ہ یہ
چنگاری ایک دن کسی اسلمی انقلب کا پیش خیمہہ ثابت
ہوگی۔اس انقلب ک ے خونی باب ایک ایک کرک ے لکھے جات ے رہے
اور اس انقلب کا نظریہ اور بھی راسخ ہوتا چلگیا۔پروفیسر سید
قطب نےہ بیسویں صدی کےہ دوسرےہ نصف میں مصر کے
نوجوانوں کو خاص طور پر اور خطے کے عرب نوجوانوں کو عام
طور پر سیدھے راستے پر لنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
21
سید قطب کی سزائےہ موت کےہ بعد ان کی تعلیمات نے
مصرمیں نوجوانوں کو جتنا متاثر کیا اتنا اثر کسی اور مسلم
اسکالر کی تعلیمات کاکبھی نہیں ہوا۔وہ الفاظ جو سید قطب نے
اپنےہ خون سےہ تحریر کئےہ تھےہ وہہ مسلم نوجوانوں کےہ لئےہ ایک
ن راہہ بن گئےہ اور مسلم نوجوانوں کو یہ شاندار منزل کےہ نشا ِ
احساس ہواک ہ ناصر کی حکومت اور اس ک ے کمیونسٹ ساتھی
سید قطب کے اتحاد کے پیغام سے کتنا خائف تھے۔
سید قطب نے کہا ”وہ شہادت کی انگلی جو ہر نماز میں اللہ کی
وحدت کا اعلن کرتی ہے ایک ظالم حکمران س ے معافی مانگنے
کا انکار کرتی ہے “۔ناصر کی حکومت ن ے محسوس کیا ک ہ سید
قطب اور اس کےہ ساتھیوں کی سزائےہ موت اور ہزاروں
ساتھیوں کی حراست اور قید سے اسلمی تحریک کچلی گئی ہے
لیکن ان کی شہادت نے اسلمی جہادی تحریکوں کے جو بیج بوئے
تھے اس ن ے مصر میں جدید اسلمی جہادی تحریک ک ے پود ے کو
پروان چڑھایا۔
22
سادات دور میں بنیاد پرستی کا پھیلؤ
انور السادات کاطاقت کا مفروضہہ مصر میں ایک نئی سیاسی
تبدیلی کا باعث خیم ہ ثابت ہوا۔ہ ر تبدیلی کی طرح ی ہ تبدیلی بھی
آغاز میں کمزور تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ مضبوط ہوتی چلی گئی
اور وقت گزرن ے ک ے سات ھ سات ھ اس ک ے نقوش واضح ہوت ے چلے
گئے۔سادات نے پرانی حکومت کے حمایتیوں کو آہستہ آہستہ نکالنا
شروع کردیا۔ان حمایتیوں کو نکالنےہ کےہ لئ ے اس ک ے پاس سب
سے کارگر ہتھیار اس کی اجازت تھی جو اس نے ایسے افراد کو
کچلنے کے لئے د ے رکھی تھی ۔جیسے ہی اسلمی تحریک پر سے
تھوڑا سا دباؤ کم کیا گیا ،اسلمی تحریک کا جن بوتل س ے باہر
نکل آیااور اس ن ے دوبار ہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنا شروع
کردیا ۔چند ہ ی سالوں بعد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مسلم
نوجوانوں نے اسٹودنٹس یونین کے انتخابات میں زیادہ تر نشستیں
جیت لیں۔اب اسلمی تحریک ن ے ٹری ڈ یونینز کو کنٹرول کرن ے کے
لئے آگ ے بڑھناشروع کیا کردیاتھا۔اسلمی تحریک کی نشوونما کے
ایک نئ ے مرحل ے کا آغاز ہوگیا تھ ا لیکن اس مرتب ہ ماضی کو نہیں
دہرایا گیا حالنکہہ اسلمی تحریک اسی بنیاد پر تعمیر کی
گئی۔سابقہ تجربوں اور واقعات سے سبق سیکھاگیا۔
23
صالح ایک جادوئی طاقت رکھنےہ والخطیب اور اعلیٰہ پائےہ کا
دانشور تھ ا جس نےعین شمس یونیورسٹی قاہری س ے ڈاکٹریٹ
کی ڈگری لی تھی ،وہ شریعت کی سائنس کو بخوبی سمجھتا تھا
۔ایک دفع ہ و ہ ایک اسلمی جمبوری میں ساری ہ س ے مل،ان کی یہ
ملقات کالج آف میڈیسن میں ہوئی تھی۔ساریہہ کو کالج کی
جمبوری میں تقریرکے لئے دعوت دی گئی تھی ،جب میں نے اس
کی تقریر سنی تومجھے یوں محسوس ہوا کہ اس کے الفاظ میں
بڑا وزن ہےہ اور اس کےہ الفاظ کا مطلب یہہ ہےہ کہہ اسلم کی
حمایت کی جائ ے ۔میں ن ے اس س ے ملن ے کافیصل ہ کیا لیکن میری
تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
ساریہہ کاقائم کردہہ گروپ بڑھ ا اور اس قابل ہوگیا کہہ یہہ ملٹری
ٹیکنیکل کالج ک ے طلباءکو اپن ے میں شامل کرسک ے نوجوانوں نے
ساریہہ پر حکومت کےہ خلف مزاحمت کرنےہ کےہ لئےہ دباؤ ڈالنا
شروع کیا ۔اس دباؤ کےہ تحت وہہ حکومت کو نکال پھینکنےہ کی
ایک کوشش پر رضامند ہوگیا۔ایک منصوبہ تشکیل دیاگیا جس کے
تحت گروپ کےہ ارکان کالج کےہ گیٹ پر کھڑےہ پولیس کے
گارڈپرحاوی ہوجائیں گ ے اور پھرکالج ک ے اندر داخل ہوجائیں گے
اورکالج کےہ اندر پولیس کی گاڑیاں اور اسلحہہ چھپادیں گےہ اور
اس عمل ک ے لئ ے کالج میں چوکیدار ک ے بھیس میں پھرن ے والے
اپنےہ ہ ی ساتھیوں کی مدد لی جائےہ گی پھر عرب سوشلسٹ
یونین ہی ڈ کوارٹر کی جانب بڑھاجائ ے گا تاک ہ سادات اور اس کی
حکومت کےہ افسران پر حمل ہ کیا جاسکےہ جو اس وقت اجلس
میں مصروف ہوں گے ۔
24
صالح سریہ
اگرچہہ اس آپریشن کا آغاز میں ہ ی ختم کردیاگیا لیکن اس نے
نئی تبدیلی کی راہ دکھائی۔قبل ازیں اسلمی تحریک نے ناصر کے
ظالمانہہ اقدامات کےہ خلف ہتھیار اٹھائےہ تھے۔زیرحراست گروپ
کو عدالت تک لے جایاگیا اور صالح سریہ ،کریم الناضولی ،طل ل
النصاری کو سزائے موت سنائی گئی ۔حکومت نے ان تینوں سے
کہ ا ک ہ و ہ ملک ک ے صدر س ے رحم کی اپیل کریں ۔کریم اناضولی
نے معافی کی درخواست دائر کی چنانچہ اس کی سزائے موت ،
عمر قید میںتبدیل کردی گئی جبکہ صالح اور طلل نے معافی کی
درخواست دینے سے انکار کردیا ۔
ایک روز جیل ک ے احاط ے میں قیدی صالح ک ے اردگرد جمع ہوئے
اور اس ے مجبور کرنے لگے کہ وہ معافی کی درخواست کرد ے تاکہ
اس کی جان بخشی کردی جائے۔صالح نے ہ قیدیوں سے
کہا”:سادات ک ے پاس میری زندگی بڑھان ے کی کون سی طاقت
ہے‘؟اس اندھیری جیل کو دیکھو ،اس کی ناقص خوراک کو دیکھو
اور ا س کی بند لیٹرینوں کو دیکھ و جس میں ہ م ی ہ کھانا پھینک
دیتے ہیں۔یہ اصل زندگی ہے ۔ہم اس سے کیوں چمٹے رہیں “؟
25
الجہاد آرگنائزیشن کااحیاء
ٹیکنیکل ملٹری کالج ک ے مقدم ے میں گرفتار ہون ے والوں ن ے جیل
سےہ رہائی کےہ بعد تحریک کو دوبارہہ منظم کرنےہ کی کوشش
کی ۔پہلی کوشش 1977ءمیں اس وقت ناکامی س ے دوچار ہوئی
جب حکومت نے تمام گروپ کو گرفتار کرلیا ۔گروپ نے دوسری
کوشش 1979ءمیں کی لیکن ان کی صفوں میں موجود ایک
مخبر نےہ حکومت کو خبر کردی چنانچہہ گروپ کےہ بچےہ کچھے
ارکان کو 1979ءمیں دوسری مرتبہہ گرفتار کرلیاگیا۔گرفتار ہونے
والوں میں ”الفریض ہ الغائبہ “ کتاب ک ے مصنف محمد عبدالسلم
فرج بھی شامل تھے۔فرج کی سرگرمیاں شمال مصر ،الجزاہ اور
قاہرہ تک محدود تھیں۔
26
باب نمبر 3
سادات کاقتل اس منصوبےہ کاحصہہ تھا جس میں تمام اعلیٰ
حکومتی عہدیداروں کو قتل کرک ے ریڈیوکی عمارت پر قبضہ کرنا
شامل تھ ا ۔پروگرام اس طرح ترتیب دیا گیا تھاک ہ سب س ے پہلے
مرحلےہ میں چھہ اکتوبر کو جب صدر سادات فوجی پریڈہ کی
سلمی لے رہے ہوں تو انہیں اعلیٰ حکومتی شخصیات کے سامنے
قتل کردیاجائے۔اعلیٰہ سرکاری افسروں کےہ بڑےہ پیمانےہ پر قتل
ک ے بعد قاہر ہ ریڈیو کی عمارت پر قبض ہ کرلیا جائے۔اس منصوبے
کا ابتدائی مرحلہہ جو سادات کےہ قتل پر مشتمل تھ ا پورا ہوگیا
لیکن زیادہہ تر سرکاری حکام فرار ہونےہ میں کامیاب ہوگئےہ اور
ریڈیو کی عمارت پر بھی قبضہ نہ ہوسکا۔
27
اس منصوبےہ کا دوسرا محاذ آسی یوٹ شہرمیں مسلح بغاوت
برپاکرکے شہر کا محاصرہ کرنا شامل تھا۔یہ مسلح بغاوت سادات
ک ے قتل ک ے دو روز بعد شروع ہوئی ۔دوسر ے الفاظ میں ی ہ اس
وقت شروع ہوئی جب مسلح افواج ملک پر کنٹرول کرنےہ اور
حکومت کو بچانے میں کامیاب ہوچکی تھیں۔یہ بغاوت اس حد تک
کامیاب ہوئی کہ محض چند تھانوں پر قبضہ کرلیاگیا لیکن حکومت
کے خصوصی دستوں نے نوجوان مجاہدین پر گولہ بارود سے حملہ
کردیا جس پر مجاہدین کو اسلح ہ چھوڑ کر ان تھانوں کو خالی
کرناپڑا۔
اول :یہہ واقعہہ بنیاد پرستوں کےہ حوصلےہ کو ظاہ ر کرتا ہےہ کہہ وہ
تعداد میں کم ہونےہ کےہ باوجود اپنےہ سےہ زیادہہ بڑی طاقتور اور
مسلح فوج سے ٹکراگئے۔
28
پنجم:اس واقع ہ س ے ی ہ بھ ی ظاہ ر ہوتا ہے ک ہ امن وامان کو قائم
کرنےہ والےہ ادارےہ مکمل طور پر ناکام ہیں اورانہیں ملک میں
موجود جہادی لہ ر کےہ بارےہ میںکچھہ علم نہیں۔یہہ لہ ر اس حد تک
موثر تھی کہہ کچھہ لوگ مسلح افواج میںگھس گئےہ اور انتہائی
سخت حفاظتی انتظام کے باوجود انہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔
میں کہتا ہوں ک ہ 1981ءمیں بغاوت کرنے والے نوجوان خالص تھے،
وہہ ہوشیار تھے۔انہوں نےہ اپنےہ مذہب ،عقیدےہ ،قوم اور وطن کی
حفاظت میں ہتھیار اٹھائے۔ٹیکنیکل ملٹری کالج کا آپریشن اپنی
نوعیت کا واحد آپریشن ن ہ تھا۔اس آپریشن ک ے کچھہ عرصےہ بعد
یحییٰ ہ ہاشم نے ہ المینیا کے ہ پہاڑوں میں گوریلجنگ شروع
کردیا۔اگرچہ یہ کوشش کامیا ب نہ ہوئی کیونکہ اس گوریلجنگ کے
لئے جو ضروری لوازمات تھے انہیں پورانہ کیاگیا تھالیکن اس سے
یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم آئیڈیالوجی میں تبدیلی ایک ٹھوس
حقیقت بن چکی تھی۔ی ہ حقائق ظاہ ر کرت ے ہیں ک ہ آج ک ے مسلم
نوجوان 1940ءمیں اپنے آباؤاجداد سے مختلف تھے ۔
29
کر اپنی تقریر جاری رکھی۔جب اسے گھیر کر مسجد سے نکالگیا
تب بھی وہ تقریر کررہاتھا۔ایک ایجنٹ نے یحییٰ کو خاموش کرانے
کے لئے ایک داؤ کھیل،اس نے اس کی گردن پکڑ لی اور زور زور
س ے چلن ے لگا ک ہ تم ایک چورہ و ،تم ن ے میرا پرس اڑالیا۔اس کے
بعد باقی ساتھ ی بھ ی زور زور س ے چلن ے لگ ے اور دھکیلت ے ہوئے
ایک میڈیکل اسٹور میں لے گئے جہاں اسے گھسیٹتے ہوئے ایک کار
میں ڈالگیا اور اس ے جنرل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر
حسن طلل کے سامنے پیش کردیا گیا۔
امام الحسین مسجد کا واقعہ دراصل ایک جذباتی ابال تھا جو کہ
ہماری عمروں کے مطابق ایک رد عمل تھا۔یحییٰ ہاشم متعدد ایم
بی رہنماؤں س ے مل ،اس ن ے فوج ک ے سات ھ ٹکر لین ے کی ٹھانی
اور مجھہ سےہ بھ ی مشورہہ کیا۔میں نےہ کہ ا کہہ موجودہہ صورتحال
میں یہ مناسب نہیں۔یحییٰ نے خود کو اپنے گروپ کے ساتھ پہاڑوں
میں چھپالیا اور اپنے ہ منصوبے ہ کے ہ مطابق گوریلجنگ کا
آغازکردیا ۔انہوں نے کچھ ہتھیارجمع کئے اور المنیا صوبے کے کنارے
واقع پہاڑ پر پوزیشنیں سنبھال لیکن ساتھ والے گاؤں کے ایک مئیر
ن ے اس گروپ کومشکوک حرکتیں دیکھ ا اور اس ن ے پولیس کو
مطلع کردیا جس ن ے اس گروپ پر حمل ہ کیا اور گرفتار کرلیا ۔
یحیی ٰ ن ے یونٹ کمانڈ ر پر حمل ے کی کوشش کی ،اس ن ے یحییٰ
پر فائرنگ کردی جس سے وہ ہلک ہوگیا۔یہ ہے یحییٰ کی کہانی جو
30
اصل میں جہاد کابانی تھااور جس ن ے اپن ے نظریات کی سچائی
کے لئے ہر چیز قربان کردی۔
جولوگ مصر میں ٹری ڈ یونین بنانا چاہت ے ہیں ان کی اجازت نہیں
دی جاتی ،حالنکہ یہ انسانی حقوق کے زمرے میں ایک ایساحق ہے
کہ جس طرح آپ ایک بیلے ڈانسر کو اجازت دیت ے ہیں لیکن دینی
مبلغ اور اسکالرز اس حق سے محروم ہیں ۔انور سادات کے قتل
ک ے سات ھ ہ ی مصر اور عرب دنیا میں جہاد ک ے مسئل ے پر روزانہ
بحث وتمحیص ہون ے لگی۔حکومت جو ک ہ امریک ہ اور اسرائیل کے
حق میں تھی اس ک ے سات ھ ایسی مخاصمت شروع ہوئی جو آج
تک جاری ہے۔اور جہادی سرگرمیاں روزبروز بڑھہہ رہی
ہیں۔احتجاجی مظاہروں میں شرکاءکی تعداد میں بھی اضافہ
ہورہا ہے جو ک ہ واشنگٹن اور تل ابیب میں بیٹھے دشمنوں کے لئے
ایک مسلسل خطرہ ہے۔
امریکہہ اور اسرائیل کےہ ساتھہ دشمنی مسلم نوجوانوں کےہ دل
میں بس چکی ہے ،یہ ی و ہ دشمنی ہے جس کی وج ہ س ے القاعدہ
اور افغان جہاد میں عرب افغان ڈھڑا دھڑ شامل ہورہے ہیں اور یہ
بہاؤ ٹوٹ نہیں رہا۔انورسادات کا قتل دراصل امریک ہ اور اسرائیل
کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ تھا۔
31
انورسادات کےہ قتل کے ہ بعد حکومت نےہ وسیع پیمانےہ پر
پکڑدھکڑکی اور تقریبا ً ساٹھہ ہزار افرادکو گرفتار کرکےہ جیلوں
میں ڈال دیا ۔کوئی ایسا طریقہ نہیں تھا کہ ان افراد سے رابطہ کیا
جاسکےہ ۔سیکورٹی کی سختیوں کی وجہہ سےہ یہہ لوگ عام
شہریوں کی نظروں سے دور چل ے گئ ے تھے ،ان س ے رابطہ قریب
قریب ناممکن تھا۔اس واقعہہ کی تحقیقات کیلئےہ فوجی سربراہ
ف نظرکیا ۔وہہ صرف ایک مرتبہ نےہ اپنی ذمہہ داریوں سےہ صر ِ
انورسادات کےہ قتل کےہ مقام پر گیا،حالنکہہ جو قتل ہوا تھ ا وہ
ملٹری کا سربراہ تھا اور فوجی گراؤنڈ میں فوجی پریڈ کے دوران
قتل ہوا تھا لیکن ملٹری کا سربراہ اندازہ لگاتارہا کہ کس کو پکڑنا
ہے ؟ کس سےہ تفتیش کرنی ہے؟اور کس کےہ خلف مقدمہہ چلنا
ہے۔انوسٹی گیشن کرنےہ والےہ ملٹری کےہ سربراہہ نےہ انتہائی
سرعت ک ے سات ھ مدعا علیہان ک ے مقدمےہ کو فوجی عدالت کے
سپرد کردیا ۔یہ فوجی عدالت میجر جنرل محمد سمیر فاضل کی
سربراہی میں قائم کی گئی تھی ۔
مصری فوج کاایک اورمزاحیہہ تماشا یہہ ہےہ کہہ اس نےہ اپنےہ اصل
دشمن اسرائیل کو فراموش کردیا اور اپنےہ ہ ی لوگوں پر،انہیں
اپنا دشمن سمجھتےہ ہوئےہ ہتھیار اٹھالئےہ ۔ملٹری سیکولرازم کا
ہمیشہ سے یہ دعویٰ ہے کہ یہ اسلم کا احترام کرتی ہے لیکن ان کا
احترام صرف یہاں تک ہےہ کہہ یہہ دینی اسکالرز کو مشاہرے
(تنخواہ)پر رکھ لیتی ہے جو کہ ان ک ے ہ ر عمل کو جائز ثابت کرتے
رہتے ہیں ۔
32
باب نمبر 4
مصر کی سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک اور جہادی گروپ کا سراغ
لگایا۔یہہ ”عصام القمری گروپ“تھا۔عصام القمری ایک بےہ مثال
انسان تھ ا جس ے اس کےہ کام کا اور جہادی سرگرمیوں کا کچھ
زیادہ صلہ نہ دیا گیا کیونکہ ہمارے ملک میں ذرائع ابلغ اور صحافت
ان لوگوں ک ے قبض ے میں ہے جو ک ہ اسلم اور اسلمی تحریکوں
کو زیادہ پسند نہیں کرتے ۔اسی طرح چھپنے والی تمام چیزیں ان
ک ے کنٹرول میں ہیں۔ی ہ دراصل مغرب اور یہودیوں ک ے نقش قدم
پر چل رہےہ ہیں جہاں میڈیا اور پراپیگنڈہہ کےہ تمام ذرائع ان کے
قبض ے میں ہوت ے ہیں۔عصام القمری ایک سنجید ہ انسان تھا۔اوائل
شباب میں ہی اس نے اسلم کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا تھا
۔اس نےہ حکمران طبقےہ میں تبدیلی کےہ لئےہ ملٹری کالج میں
شمولیت کا فیصل ہ کیا۔ی ہ اس کا احساس جرم ہ ی تھ ا ک ہ اس نے
جب سکینڈری اسکول کی تعلیم ختم کی تو اس نےہ ایک مرتبہ
مجھے بتایا کہ ایک دن اس نے ملٹری کالج میں داخلے کے بعد اپنے
والد س ے کہ ا ک ہ ”کیا آپ ک ے علم میں ہے ک ہ میں ن ے ملٹری کالج
میں داخلہہ کیوں لیا؟“اس کےہ والد نےہ کہا ”نہیں!میں نہیں
جانتا“۔عصام القمری نےہ کہا”اس لئےہ کہہ میں مصر میں ایک
فوجی بغاوت برپاکرسکوں “۔اس کےہ والد کو یہہ سن کر بہت
صدمہہ ہوا لیکن وہہ اس ضمن میں کچھہ نہہ کرسکتا تھا کیونکہ
القمری قبل ازیں ملٹری کالج میں داخل ہوچکا تھا۔
عصام القمری ن ے گریجویشن میں اتن ے شاندار نمبر حاصل کئے
تھے ک ہ و ہ کسی میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں آسانی س ے داخل
ہوسکتا تھ ا جیسا ک ہ آج کل بھ ی نوجوان یہ ی کرتےہ ہیں ۔ان کی
پہلی ترجیح میڈیکل اور دوسری انجینئرنگ ہوتی ہے لیکن اسلم
نے اس کا رویہ تبدیل کردیا تھا۔
33
ملٹری کالج میں عصام کی ملقات محمدمصطفی علیوةسے
ہوئی جو ک ہ الجہاد گروپ کا ایک سرگرم کارکن تھ ا ۔القمری نے
مصطفی کےہ جہاد گروپ میں شمولیت اختیار کرلی ۔اس
القمری باقاعدہہ ایک جہادی گروپ میں شامل ہوگیا ۔اس وقت
سےہ لےہ کر آج تک القمری نےہ زندگی کا کوئی لمحہہ ایسا نہیں
ہوگاجو اس نےہ فارغ گزاراہو۔وہہ ہ ر وقت جہادی تحریک کےہ لئے
کچھہ نہہ کچھہ کرتا اور سوچتا رہتا۔القمری نےہ اپنےہ دین کی
سربلندی کے لئے کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔
وہہ درست معنوں میں ایک انتہائی اعلیٰہ کردار کاحامل شخص
تھا۔اس ن ے اپنی زندگی میں سختیوں اور تکالیف کا اپن ے کردار
کی وج ہ س ے ڈ ٹ کر مقابل ہ کیا ۔ملٹری کالج کی تعلیم س ے فارغ
ہوکر القمری ن ے ملٹری کور میں شمولیت اختیار کرلی ۔ملٹری
کور میں شامل ہونا اس کاایک دیرین ہ خواب تھ ا ۔و ہ ہمیں بتاتا کہ
اس کور کو ایک مسلم کور ہونا چاہیے جو کہ مسلمانوں کو بتائے
کہہ جنگیں کیسےہ جیتی جاتی ہیں اور دشمن سےہ کیسےہ دفاع
کیاجاتا ہے ۔
34
نامزد کیاگیاتھا ۔آرمی آرمڈ کور کے افسروں میں سے صرف چند
ایک ہ ی ایس ے تھے جنہیں ی ہ موقع ملتھاک ہ و ہ امریک ہ جاکر تربیت
حاصل کریں اورعصام ان افسروں میں سے ایک تھا۔
35
اور کہ ا کہہ اس نےہ اپنےہ مسلم بھائیوں سےہ عہ د کررکھ ا ہےہ کہہ وہ
اپنی کوشش جاری رکھے گا ۔بعد ازاں اسے گرفتار کرلیاگیا جیل
میں جب میری اس س ے ملقات ہوئی تو اس ن ے کہ ا ک ہ تم ٹھیک
کہتےہ تھےہ ،مجھےہ اس وقت فرار ہوجانا چاہیےہ تھ ا لیکن میں نے
اپنی قوم س ے جو عہ د کیا تھ ا اس کو نبھاناضروری تھا۔اس لئے
میں نے فرار کے بارے میں سوچنے سے گریز کیا۔
عصام القمری کا جہاد ک ے بار ے میں اپنا ایک نظری ہ ہےہ جس پر
عمل کرنے کے لئے اس نے مختلف راہیں تلش کیں لیکن قسمت
نےہ اسےہ اجازت نہہ دی۔مصر میں سیکورٹی کانظام اس قدر
سخت ہے ک ہ اس ے توڑن ے کا ایک ہ ی طریق ہ ہے ک ہ اس ک ے مقابلے
میں ایک فوج اتاری جائ ے جس ک ے پاس قابل ذکر حد تک ہتھیار
ہوں ،جو دارالحکومت پر قبضہ کرلے اور کم ازکم دوہفتے تک فوج
کےہ ساتھہ جنگ کرسکےہ ۔اسلمی جہادی تحریکوں کےہ پاس جہاد
ک ے لئ ے ہزاروں نوجوان ہیں لیکن ی ہ سب غیر مسلح ،غیر تربیت
یافتہ ہیں اورانہیں لڑائی کاکوئی تجربہ نہیں ۔فوج اپنی طاقت کی
وجہہ سےہ اسلمی تحریکوں کو کچلنےہ کی پوزیشن میں ہےہ ۔
اسلمی تحریکوں ک ے لئ ے ی ہ ناممکن ہے کہہ فوج ک ے مقابل ے میں
ایک طاقتور اورمسلح فوج تیار کرسکیں ۔کیونکہہ سیکورٹی کے
انتظامات اس قدر زیاد ہ ہیں ک ہ فوج ک ے علم میں لئ ے بغیر خفیہ
طور پر اتنی منظم فوج تیارنہیں کی جاسکتی۔
الجمالیہ کی جنگ
عبود کو جنگ میں ڈال دیا گیا۔انوسٹی گیشن کرنے والے افسر نے
اس کےہ ساتھیوں پر تشدد کرکےہ یہہ راز اگلوالیا کہہ وہہ عصام
القمری اور مج ھ س ے ملتھ ا چنانچ ہ مجھے بھ ی گرفتار کرلیاگیا ۔
قاہرہہ کےہ نواح میں الجمالیہہ پر حکومتی ایجنسیوں نےہ عصام
القمری کےہ ٹھکانےہ پر حملہہ کردیا۔یہاں ایک دلچسپ جنگ لڑی
گئی ۔
یہ جنگ منشیات الناصر کے علقے الجمالیہ کے نواح میں لڑی گئی
۔یہ دراصل ایک غریب بستی ہے جہاں مکان ایک دوسرے کے ساتھ
36
بنےہ ہوئےہ ہیں اور ان کےہ اندر چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں ہیں ۔
عصام نےہ ایک ورکشاپ میں پناہہ لےہ رکھی تھی ۔جسےہ محمد
عبدالرحمن الشرقاوی ن ے تعمیر کیاتھ ا اور اس کام میں ابراہیم
اورنبیل نے اس کی مدد کی تھی ۔یہ اس لئے تعمیر کی گئی تھی
کہ ہمارا ایک خفیہ اڈہ ہوگا۔الشرقاوی کو بعد ازاں سادات کے قتل
کےہ کیس میں سات سال قید کی سزا ہوگئی تھ ی جبکہہ طلئع
الفتح کیس میں اسے مزید پندرہ سال قید کی سزا سنادی گئی ۔
آج بھی وہ العقرب جیل مصر میں سزا بھگت رہا ہے۔
یہ ٹھکانہ ایک عظیم الشان گھر پر مشتمل تھاجس میں ایک چھت
بغیر ہال کمرہ تھاجس ک ے دائیں بائیں دو دوکمرے تھے اورہال کے
آغاز میں لوہے کا ایک بڑا گیٹ تھا ۔یہ ورکشاپ ایک تنگ گلی میں
کے اختتام پر واقع تھی جس تک پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا اور
اس ورکشاپ کو ایک منزلہہ تنگ مکانوں نےہ گھیرا ہوا تھا۔جب
وزارت داخلہہ کو پتہہ چل کہہ عصام القمری اس ورکشاپ میں
روپوش ہے تو اس سار ے علق ے کو حفاظتی دستوں اور پولیس
نے گھیر لیا ۔اس حملے میں سنڑل سیکورٹی فورس کی ”کاؤنٹر
ٹیرر بٹالین“استعمال کی گئی جوکہہ حملےہ کےہ لئےہ جدید ترین
اسلحےہ سےہ مسلح ایک بٹالین ہےہ ۔بٹالین نےہ کئی گھنٹےہ تک
ورکشاپ کا محاصرہ کئے رکھا ۔
37
ایک سپاہی اپنی گن سےہ دروازےہ کی طرف اشارہہ کررہاتھا ۔
نبیلنعیم نےہ گرنیڈہ مارکر اسےہ ختم کردیا اورلشیں عبور کرتے
ہوئ ے المقاتم ک ے پہاڑوں تک پہنچ گئ ے ۔کچ ھ فاصل ے س ے انہوں نے
دیکھاک ہ انہوں ن ے حمل ہ آور فورس کابہ ت نقصان کیا ہے اور حملہ
آور فورس نعشیں اکھٹا کررہی ہےہ اور زخمیوں کو وہاں سے
منتقل کررہی ہے ۔اس موقع پر یہ ہواکہ ابراہیم کے ہاتھ والے گرنیڈ
کی پن تھوڑی س ے سرک گئی تھی،اس ن ے اس ے درست کیا اور
باقی دونوں سےہ کہ ا کہہ وہہ دوسری طرف منہہ کرلیں کیونکہہ وہ
پیشاب کرنا چاہتاہے وہ گرنی ڈ زمین پر رکھ کر کچھ ہی دور گیا تھا
کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا لیکن اللہ کا کرنا ایسا تھاکہ وہ سب اس
دھماک ے س ے محفوظ رہے لیکن اس س ے ی ہ ہواک ہ حمل ہ آور چوکنا
ہوگئےہ اور آگےہ چل کر تقریبا ً سو افراد ک ے ایک گروپ ن ے انہیں
پکڑ لیا ۔عصام کو الجہاد کیس میں گرفتار کرلیاگیا۔
38
سےہ مقابلہہ کرکےہ اس سےہ اسلحہہ چھین لیا اور وہہ اتی سخت
سیکورٹی کےہ باوجود اسوارجیل سےہ فرار ہونےہ میں کامیاب
ہوگئے۔
39
سنجیدگی س ے جواب دیا کہ وزارت داخلہ ایسا نہیں کر ے گی بلکہ
القمری اور اس ک ے ساتھیوں کو اتن ے سال جیل میں رکھن ے کے
صلےہ میں وزارت داخلہہ کو اسےہ گولڈمیڈیل دینا چاہیے،چنانچہ
وزارت داخلہ نے اسے اس کی ملزمت سے نہ نکال۔
40
لشوں اور زخمیوں سےہ بھرگئے۔ہرطرف خون ہ ی خون تھا۔جو
بچ گئے پولیس انہیںٹرکوں میں ڈال کر گرفتار کرکے لے گئی ۔جب
لوگوں کو پکڑ کر ٹرکوں میں ٹھونسا جارہاتھ ا توکچ ھ لوگوں نے
مزاحمت کی جس س ے دو افسر اور چار سپاہ ی زخمی ہوگئ ے ۔
بعد ازاں ایک افسر محمد زکریا جس ک ے سر میں شدید چوٹیں
آئیں تھیں ہسپتال میں انتقال کرگیا ۔وزارت داخل ہ ن ے اس علقے
میں کرفیونافذ کردیا اور اس علقےہ میں پولیس فورس کے
خصوصی دستے تعینات کردیئے۔
پولیس نے نماز مغرب کے بعد آدم مسجد پرچھاپہ مارا اور مسجد
میں موجود تمام نمازیوں کو حراست میں ل ے لیا ۔اس ک ے ساتھ
سات ھ پولیس نےہ اسلمی گروپ کےہ ارکان کی گرفتاری کےہ لئے
ایک بڑی مہ م شروع کی اورعین شمس،المطریہہ ،الف مسکن
اور مساکنعین شمس میں چھاپ ے مارکر وسیع پیمانےہ پر ارکان
کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا ۔اس مہم کے دوران 180کے
قریب افراد گرفتار کئے گئے۔
41
ڈپٹی چیف انٹیلی جنس لیفٹیننٹ کرنل کا قتل
حالت تیزی سےہ تبدیل ہونےہ لگےہ ۔عین شمس کےہ مارکیٹ کے
علق ے میں ایک پھیری لگانے وال ے نے انٹیلی جنس یونٹ ک ے ڈپٹی
چیف لیفٹیننٹ کرنل عصام شمس کو خنجر گھوپ دیا جو بعد
ازاں ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لتے ہوئے وفات پاگیا ۔پھیری
لگان ے وال فرار ہوگیا ۔تحقیقات پر پتہ چلک ہ مفرور کا نام شریف
محمد احمد ہےہ اور اسےہ پولیس نےہ متعدد مرتبہہ گرفتار کرکے
زبردست تشددکانشانہہ بنایاتھا۔اسلمی گروپ کےہ ارکان کی
گرفتاری ک ے لئ ے جاری مہ م میں بھ ی اس ے پکڑلیاگیا تھ ا اورعین
شمس کے ایک تھانے میں اس پر تشدد کیاگیا تھا۔
42
بار پھر وسیع پیمانے پر چھاپوں اور گرفتاریوں کا آغاز کردیا گیا ۔
کرفیوکی خلف ورزی کرنے والوں کو دیکھت ے ہی گولی مارنے کا
حکم دےہ دیاگیا۔اس سےہ پورےہ علقےہ میں شدید خوف وہراس
پھیل گیا ۔مخصوص علقوں میں کاروبار زندگی بند ہوگیا اور
اسلمی گروپ کےہ لوگوں کو پکڑنےہ کےہ لئےہ دھرتی کا چپہہ چپہ
چھاننے کے عمل کا آغاز ہوا۔
43
تھے ۔ی ہ پولیس کی جانب س ے پیغام تھاکہ اسلمی گروپ کو ختم
کردیاجائےہ گااور اس دوران جو بھ ی طاقت یا فرد ریاست کے
سامنےہ آئےہ گا یا اسلمی گروپ کےہ ارکان کو حمایت ،پناہ
یااخلقی حمایت مہیا کرےہ گا اسےہ بھی راستےہ سےہ ہٹادیاجائے
گا۔ذکی بدر ن ے دراصل وزارت داخل ہ کی پالیسی کا اعلن کردیا
تھا کہ اسلمی گروپ کا پتا صاف کردیاجائے گا اور اس دوران جو
بھی طاقت یا فرد ریاست کے سامنے آئے گا یا اسلمی گروپ کے
ارکان کو حمایت ،پناہہ یا اخلقی حمایت مہیا کرےہ گا اسےہ بھی
راست ے س ے ہٹادیاجائ ے گا ۔زکی بدر ن ے دراصل وزارت داخل ہ کی
پالیسی کا اعلن کردیاتھاکہ اسلمی گروپ کا پتاصاف کردیاجائے
گا اور اس کے بعد ہمدردوں کوبھی نقصان اٹھاناپڑے گا۔
44
وشنید کی بات کرکےہ وسیع عوامی پذیرائی حاصل کی تھ ی ۔
انہوں ن ے آزادان ہ گفتگو کا نعر ہ بلند کیا لیکن ی ہ نعر ہ شاید ہمارے
حکمرانوں کو پسند نہ تھا۔
اسلمی گروپ نےہ حکومتی غم وغصےہ سےہ نپٹنےہ کےہ لئےہ اپنی
حکمت عملی تبدیل کی اور طےہ پایا گیا کہہ ایک طویل المیعاد
حکمت عملی ترتیب دی جائے اور حکومت کے ہر حملے کا انتہائی
غور وخوض کےہ بعد دیاجائے۔1990ءکےہ اوائل میں حالت ن ے پھر
ایک کروٹ لی ۔حکومت نےہ ایک مرتبہہ پھر الجہاد گروپ کے
کارکنوں کی ایک بھاری تعداد کو گرفتار کرلیا۔پولیس ن ے گرفتار
کئےہ جانےہ والوں میں سےہ 800کارکنوں کےہ خلف مقدمہہ درج
45
کرکےہ ان کےہ مقدمات عدالتوں کےہ سپرد کردئیےہ ۔عدالت نے
ملزموں کو دھڑا دھ ڑ سزائیں سنانا شروع کردیں اور ان میں
چار ملزموں کو عدالت ن ے موت کی سزا سنادی ۔حکومت کے
ترجمان اخبارات ایک گولی چلئےہ بغیر الجہاد گروپ کے ہ 800
کارکنوں کی گرفتاری کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے ۔ہماری آغاز
سےہ ہی یہہ کوشش رہی کہہ آہستہہ آہستہہ جہاد کوپھیلیاجائےہ اور
تبدیلی کے عمل کے لئے منظم کوششیں کی جائیں۔
46
حمل ے ک ے بار ے میں ی ہ پراپیگنڈہ کیا ک ہ ی ہ حمل ہ بچی پر کیاگیا۔اللہ
تعالیٰہ اس بچی کو اپنےہ جوار رحمت میں جگہہ عطاءفرمائےہ ۔
حکومت وزیر اعظم پر اس حملےہ اور اس میں ان کےہ زخمی
ہونے واقعہ کو چھپا گئی۔
ہمارےہ ایک جہادی ساتھی السید صلح نےہ یہہ کہہہ کر ہماری دکھ
بھری بحث اور غم آلود گفتگو کو ختم کردیا کہہ شیماجیسی
معصوم بچی ک ے قتل کا ہمیں افسوس ہے لیکن جہاد جاری رہے
47
گا۔اس طرح کے واقعات جنم لیت ے رہیں گ ے لیکن جہاد جاری رہنا
چاہیے۔جہاں تک مسلمانوں کو ارادی طور نقصان پہنچانے کا تعلق
ہے توہ م ن ے امام شافعی کی رائ ے کو مقدم جانا ،جن کی رائے
میں موجود ہ لوگ مار ے جائیں،ان ک ے عزیز واقارب کو خون بہا
اداکیاجائے۔ہمارای ہ پخت ہ یقین ہے ک ہ جو لوگ اس طرح ک ے حادثات
میں غیر ارادی طور پر مار ے جائیں ،ان ک ے قریبی عزیزوں کو
خون بہ ا اداکیاجائےہ ۔اگر ہ م شیما کی مثال ہ ی لےہ لیں تو ہمیں
ترازوک ے ایک پلڑ ے میں شیما کو اور ترازو کے دوسر ے پلڑ ے میں
اپنی بیٹیوں کو رکھ کر دیکھنا چاہیے ۔ان بیٹیوں کو بھی دیکھاجانا
چاہی ے جن ک ے والد ایک عظیم کا کرت ے ہوئ ے موت ک ے گھاٹ اتر
گئ ے ۔ان بیویوں اور ماؤں کو بھ ی دیکھنا چاہی ے ک ہ جن ک ے شوہر
ن آفرین کےاور بیٹے جہاد جیسا عظیم مشن اپنا کر اپنی جان جا ِ
سپرد کرگئےہ اور ان کےہ سامنےہ اللہہ کی راہہ میں جان دینےہ کا
مقدس مشن تھا۔
48
پرد ے اورنقاب پر اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کون
پابندی لگارہ ا ہے ؟کون ہے جو ہماری بیٹیوں کو اسلم ک ے اقتدار
کےہ خلف لڑنےہ کےہ لئےہ کہہہ رہ ا ہےہ ؟اور ہماری بیٹیوں کو مجبور
کیاجارہا ہے کہ وہ مغرب اور اس کی بری اخلقیات اور تہذیب کو
اپنائیں۔
49
ناطقہہ بند کر رکھا تھا اور انہیں مختلف طرح کیااذیتوں میں
مبتلکرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
50
نکلیں گےہ ۔یہہ تھ ا حکومتی مہ م اور خاص طور پر بدر زکی کی
مہم کا مقصد!!!
اگر اسلمی گروپ اس مہم کا موثر جواب دینے میں کوتاہی کرتا
یا ناکام ہوجاتا تو اس کا ی ہ مطلب ہوتا ک ہ پوری اسلمی تحریک
ناکامی سےہ دوچارہوگئی ہےہ اور اس سےہ تحریک کا مجموعی
مورال بھی گرتا جوکہ ہمیں کسی صورت منظور نہ تھا۔اس خطے
کےہ بارےہ میں یہودیوں کی پالیسی یہہ تھ ی کہہ کہہ مسلمانوں کو
مایوسی کی اتھا ہ گہرائیوں میں پھینک دیاجائ ے تاک ہ بحیثیت قوم
ان میں مزاحمت کا خاتم ہ کرن ے کی قوت ہ ی ختم ہوجائ ے ۔انہیں
اس بات کا پورا یقین ہےہ کہہ مسلمانوں میں مزاحمت کا خاتمہ
کرنےہ کےہ لئےہ ضروری ہےہ کہہ ان کےہ دل پر مایوسی کےہ بادل
چھاجائیں اور و ہ سوچن ے لگیں ک ہ مزاحمت کرنا ایک بیکار عمل
ہے۔
مصرکا کوئی بھی آزاد تجزیہ نگار مصر کی سیاسی صورتحال کا
آسانی سے تجزیہ کرسکتا ہے ک ہ مصر دوطاقتوں کے مابین پھنسا
ہوا ہے ۔ایک سرکاری طاقت کا جبک ہ دوسری عوامی طاقت ہے
جس کی جڑیں عوام میں بہ ت گہری اترچکی ہیں اور جس کی
عام صورت اسلمی تحریک اور خاص صورت جہاد ہےہ ۔پہلی
طاقت کو امریکہہ ،مغرب ،اسرائیل اور متعدد عرب حکمرانوں
کی حمایت حاصل ہے جبک ہ دوسری طاقت کا انحصار الل ہ تعالیٰ
51
کے بعد پوری مسلم دنیا میں اٹھنے والی اسلمی جہاد کی تحریک
پر ہےہ ۔یہہ تحریک چیچنیا سےہ لےہ کر صومالیہہ تک اورمشرقی
ترکستان سے لے کر مراکش کے مغرب تک پھیلی ہوئی ہیں۔
دونوں طاقتوں ک ے مابین دشمنی بہ ت واضح ہے پہلی طاقت کا
اصرار ہے کہ اسلم کو ہر قسم کی طاقت سے محروم کردیاجائے
اور اس کےہ تمام شعبوں کو سربیت ،وحشت انگیر کاروائیوں
اور الیکشن میں دھاندلی کےہ ذریعےہ ہر قسم کےہ اختیار اور
توانائی س ے محروم کردیاجائ ے جبک ہ دوسری طاقت کا کہنا ہے کہ
امن معاہدوں پر دستخط کرکےہ ملک کو اسلم دشمنوں کےلئے
کھول دیا گیا ہے۔ی ہ اسلم دشمن امریکی اور یہودی ہیں اور یہ کہ
حکومت نےہ امریکہہ کےہ سات ھ مشترکہہ فوجی مشقیں کرکےہ ملک
کی سرزمین کو اس کے حوالے کردیا ہے ۔یہ نظریات کی جنگ اور
بقاءکی جدوجہد ہے ۔یہ جنگ کسی وقفے کے بغیر جاری ہے۔
وسعت:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عرصے کے دوران جہادی تحریک
پھلی اور پھولی اور مسلم نوجوانوںمیں اس نےہ اپنی جڑیں
مضبوط کیں اور اس میں وسعت پیدا ہوئی ۔
تصادم:
اسلمی تحریک اپنےہ آغاز سےہ ہی اسلم دشمنوں کےہ خلف
جارحان ہ کردار ادا کرتی رہ ی ہے ۔اس ن ے ثابت کیا ک ہ آخر سانس
تک مزاحمت جاری رہے گی۔ٹیکنیکل ملٹری کالج 1974ءک ے واقعہ
سے لے کر 1997ءمیں رونما ہونے والے لکسر تک کے واقعات اس
کامنہ بولتا ثبوت ہیں ۔
مسلسل عزم:
اسلمی تحریک نےہ بیش بہا قربانیاں دیں،سینکڑوں ہزاروں
لوگوں ن ے جیلیںکاٹیں سینکڑوں زخمی ہوئ ے ،ان گنت لوگوں کو
تشدد کا نشانہہ بنایاگیا اور اس جدوجہ د میں ہزاروں لوگ شہید
ہوئے۔اس سےہ دوچیزیں ثابت ہوئیں ۔پہلی چیز یہہ کہہ اسلمی
52
تحریک کی جڑیں عوام میں بہ ت مضبوط اور گہری ہیں ۔تمام
ترقربانیوں اورکٹھن حالت کے باوجود اسلمی تحریک صرف اللہ
تعالیٰہ کی وج ہ سےہ زند ہ رہ ی ہےہ ۔مصر میں کسی اور سیاسی
تحریک کو نہ تو اتنا دبایا گیا اورنہ ہی اس کے کارکنوں نے اتنے دکھ
جھیلےہ ،جس قدر ظلم اسلمی تحریک سےہ تعلق رکھنےہ والے
لوگوں ن ے برداشت کئ ے ۔دوسری بات ی ہ ثابت ہوئی ک ہ ی ہ تحریک
حکومت کی سیکورٹی نظام کےہ لئےہ ایک مسلسل خطرہہ بنی
رہی۔اسکا ثبوت یہہ ہےہ کہہ حکومت کوایمرجنسی قوانین بنانے
پڑ ے ۔فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور انسداد دہشت گردی کے
لئے مختلف قوانین تشکیل دیئے گئے ،جن کے مستقبل قریب میں
بھی خاتمے کے کوئی امکانات نہیں اور اس پر طرہ یہ کہ ساٹھ ہزار
کے قریب لوگوں کو جیلوں میں بند کیا گیا اور ان میں سے کچھ
تو گذشتہ بار ہ سال بغیر کسی مقدمے کے جیل میں پڑے سڑ رہے
ہیں ۔
عالمی اتحاد:
حکومت کےہ پاس کوئی چارہہ نہہ رہا کہہ وہہ اسلمی تحریک اور
مجاہدین ک ے خلف اس جنگ کو ایک عالمی جنگ میں تبدیل نہ
کردےہ ۔خاص طور پر اس وقت جب امریکہہ یہہ ماننےہ پر مجبور
ہوگیا کہ بنیاد پرستوں کے خلف جنگ میں حکومت اکیلی کامیاب
نہیں ہوسکتی اور یہہ کہہ جہادی تحریک خطےہ میں چیزوں کو تہہ
وبالکرتی رہے گی اور امریکہ کو باہر نکال کرے گی اور یہ سوچنے
سے ہی امریکہ اور مغرب دہل جاتا ہے۔
جنگ کا تسلسل:
اسلمی تحریک میں روز بروز ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے
والکوئی بھی مبصر آسانی سے محسوس کرسکتا ہے کہ حکومت
کےہ ساتھہ جاری اس محاذ آرائی میں ایک تسلسل ہےہ اور یہ
سلسل ہ کہیں ٹوٹانہیں ۔ی ہ جنگ گذشتہہ 36سال س ے جاری ہے ۔بنیاد
پرستی کی یہ تحریک یاتوکہیں نہ کہیں حملوں میں مصروف ہے یا
حملے کی تیاری میں مصروف ہے ۔
53
ختم ہوچکی ہے تو پھر سیکورٹی پر کروڑوں خرچ کرنے کا سلسلہ
بند کرکے ایمرجنسی قوانین ختم کیوں نہیں کردیئے جاتے ۔
54
اسلم آباد میں مصری سفارت خان ے کی تباہ ی ،انور سادات کے
قتل ،عصام القمری کےہ فرار اور رفعت الحبیب کےہ قتل کے
منصوب ے مکمل چھان بین ک ے بعد ترتیب دیئ ے جات ے اور ان میں
موجود خل دور کرلئےہ جاتےہ تویہہ تمام منصوبےہ مکمل طور پر
کامیاب ہوت ے اور اسلمی تحریک اس افراتفری س ے بھ ی نجات
حاصل کرلیتی جو کہ اس کے اکثر منصوبوں میں نظر آتی ہے ۔
لوگوں تک کمزور پیغام رسانی
بنیاد پرستوں کا پیغام خاص لوگوں،ماہرین اور الیٹ کلس تک
محدود رہا۔عام لوگ تحریک کے اس پیغام کو صحیح طور پر نہیں
سمجھتےہ ۔یہہ وہہ خلءہےہ جسےہ اسلمی تحریک کو فوری طور پر
پُرکرنا چاہیے۔
نتیجہ
گذشتہہ 36سالوںمیں جہاد کی تحریک کامیاب ہوئی یاناکام اس کا
جواب درج ذیل ہے۔
55
70سال تک حکمران رہے جبک ہ فرانس نے الجیریا پر 120سال تک
حکومت کی ۔
56
رفت کی ہے اور جہادی نظریے میں اور اس کی طاقت میں کتنا
اضافہ ہوا ہے؟
57
سےہ بات چیت سےہ انکار اس کا مذاق اڑایا۔امریکہہ کا ملعمر
ایک کھلی توہین کے مترادف تھا۔
58
بارکھ ل کر سامنےہ آیا۔بعد ازاں عرب اسرائیل تنازعےہ میں اور
دیگر ملکوں کے اندرونی معاملت میں امریکی انتظامیہ نے ظاہر
کیا کہ وہ ان معاملت میں غیر جانبدار ہے۔
59
مفادات کا تحفظ کر ے گی تاہ م جب امریکی ی ہ محسوس کریں
گے کہ ان کے مفادات کو براہ راست خطرہ ہے تو وہ ان سے نپٹنے
کےہ لئ ے خود جنگ میں کود پڑیں گےہ پھ ر وہہ مصری حکومت کا
انتظار نہیں کریں گےہ اور اس کی مثال ہ م نےہ افغانستان میں
دیکھ لی ۔
60
کردے ۔یہ پالیسی جتنی بھی طویل ہوجائے بہرحال امریکہ کی ایک
کم مدت پالیسی ہے۔
سوویت یونین کےہ انہدام کےہ بعد امریکہہ نےہ متعدد ممالک کو
سیکورٹی ک ے معاملت میں ڈکٹیشن دینا شروع کردی جس کے
نتیجےہ میں یہہ متعدد ملکوں کےہ ساتھہ سیکورٹی کےہ معاہدےہ طے
کرنےہ میں کامیاب ہوگیا ہےہ ۔اس طرح متعدد ممالک کی
حکومتوں کی مجاہدین کےہ تعاقب میں صلحیت اور طاقت
میںاضافہہ ہواہےہ ۔بلشبہہ اسکےہ بنیاد پرستی کی تحریک پر اثرات
پڑ ے ہیں ۔ابھ ی تک جہادی تحریک ک ے لئ ے ی ہ ایک نیا چیلنج ہے اور
اس چیلنج سےہ نپٹتےہ ہوئےہ جہادی تحریک نےہ ان تمام امور کے
خلف مزاحمت کی جو اس کے اثر کوکم کرسکتے تھے ۔یہ اس نے
امریکہ کو نشانہ بناتے ہوئے کیا۔
ہمیں یہاں یہ بھی بیان کرنا چاہیے کہ مارچ 1996ءمیں شرم الشیخ
کانفرنس ہوئی اور اس میں عرب ممالک کے سربراہوں یا ان کے
نمائندوں نے شرکت کی جبکہ سوڈان ،عراق ،شام اور لبنان اس
میں شریک نہہ ہوئےہ ۔امریکہہ ،روس اور متعدد مغربی ممالک یہ
یقین دہانی لینے میں کامیاب ہوگئ ے کہ اسلمی ممالک کی طرف
سے اسرائیل پر کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا ۔یہ ایک شرمناک اور
ذلیل کرنے وال واقعہ تھا اور اس میں مجھے معروف عرب شاعر
کا شعر یا دآتا ہے جو اس طرح سے ہے :
61
درد کا احساس کس طرح دلسکتے ہیں
اگر وہ
پہلے ہی مرچکا ہو۔
62
باب نمبر 7
نیروبی میں امریکی سفارت خانےہ کی تباہ ی کےہ دوران القاعدہ
ک ے ایک سرکرد ہ رہنماہلک ہوگئ ے ۔ابوسلیمان المغربی ن ے اس پر
ایک طویل مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے اپنے ساتھی کی زندگی
اور شجاعت کے کارناموں کوبیان کیا ۔پہلی مرتبہ ایسا ہواکہ اسامہ
بن لدن ک ے کسی قریبی ساتھ ی ن ے اس کھل ے عام بموں کی
بارش کے دوران اپنے ساتھی کانوحہ بیان کیا ہو۔
یہاں میں سید قطب شہید کا ایک قول نقل کرتا ہوں۔سید
قطب جو ک ہ بنیاد پرستی کی تحریک ک ے نظریہ سازوں میں سے
تھےہ کہتےہ ہیں”:آگےہ بڑھتےہ ہ ی رہ و ۔بےہ شک تمہارا راستہہ کتنا ہی
خون آلود کیوں نہہ ہو۔اپناسر دائیں سےہ بائیں (انکار میں )مت
ہلؤ۔بلکہہ سامنےہ جنت کی طرف دیکھو۔جو کہہ تمہاری منزل
مقصود ہے“۔اسلمی گروپ ک ے بعض لوگوں ن ے جب بھ ی جہادی
تحریک روک دینےہ کی بات کی ۔میں محسوس کرتا ہوں کہہ ان
مواقع پر ان کےہ نقطہہ نظر میں جو تبدیلی آئی ،اس سےہ بھی
جہادی تحریک کو نقصان پہنچا کیونکہ جو لوگ جہادی تحریک سے
متعلق تھے یا وہ بھی جن کا اس جہادی تحریک سے کوئی تعلق نہ
تھا،انہوں نے بھی اس بارے میں بحث وتمحیص شروع کردی۔میں
نے اس ے ذرا بے تکلفی سے زیر بحث لن ے کا ارادہ کیا ہے تاکہ اس
کی تمام تر تفاصیل سامنے آسکیں۔
میں اسلمک گروپ میں اپنےہ جہادی بھائیوں سےہ معذرت چاہتا
ہوں۔میں ان کا بہ ت احترام کرتا ہوں اور محبت ک ے سات ھ ان کے
63
خیالت پر تنقید کررہاہوں تاہ م شریعت کی تشریح کی کوشش
کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ جوجو درست ہے وہی میرے
نزدیک قابل تحسین ہے ناکہ میرے جہادی بھائیوں کا پیار۔
میں اپنی اس بات کا آغاز اس اپیل س ے کرتا ہوں جو اسلمی
گروپ کی آسوان برانچ کے لیڈر خالد ابراہیم نے کی جو کہ اپریل
1996ءکے ہ اسلمی گروپ کے ہ مقدمے ہ میں ملزم تھے۔لیڈر
خالدابراہیم نےہ جولئی 97ءمیں اسلمی گروپ کےہ رہنماؤں کے
نام س ے حکومت ک ے خلف ایکشن نہ کرنے کی ایک اور اپیل کی
اور ی ہ اپیل جن رہنماؤں ک ے نام س ے کی گئی و ہ ابھی بھی لیمان
طرۃ اور الغرب کی جیلوں میں اپنی سزا بھگت رہے ہیں ۔اپیلوں
میں کہاگیا کہہ اسلمی گروپ کےہ مصر کےہ اندر ممبر اور مصر
سےہ باہ ر ملٹری آپریشن روک دیں اور اس طرح آپریشن کرنے
کے لئے کوئی بیان بھی جاری نہ کریں ۔اسلمی گروپ نے حکومت
سے کہا کہ گروپ نے جو پیش رفت کی ہے حکومت اس کا جواب
دے ۔
اس وقت کےہ وزیر داخلہہ حسن اللفی نےہ حکومت کےہ ترجمان
کی حیثیت سے بیان دیا کہ اسلمی گروپ کے اس نوع کے بیانات
کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونک ہ ی ہ گروپ ک ے ارکان ن ے اپنی جیل
میں سزا میں کمی ک ے لئ ے دیئ ے ہیں اور دوسرا ی ہ بھ ی کہاگیا کہ
حکومت قانون شکنوں کےہ ساتھہ کسی طرح کی ڈیل کرنےہ کے
لئے تیار نہیں ہے۔
وزیر اعظم حسن اللفی کےہ پیش رو اور وزیر داخلہہ حبیب
العادلی ن ے اعلن کیاک ہ حکومت کسی ک ے سات ھ کسی قسم کی
کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتی ۔ہاں البتہ ایسے افراد کو حکومت
رہاکرد ے گی جو اپن ے کئ ے پر شرمند ہ ہوں ،اپن ے فعل کی معافی
مانگیں اور ی ہ حلف دیں کہہ وہہ آئندہہ دہشت گردی اور تشدد کی
کسی کاروائی میں ملوث نہیں ہوں گے۔
64
اسلمی گروپ کا ایک رکن اس پیش رفت کے (الف)
بارے میں کیاخیال رکھتا ہے ؟
اسلمی گروپ کےہ ممبر اس پیش رفت ک ے بار ے میں کیا کہتے
ہیں؟قارئین کو حیرانی ہوگی کہہ میں نےہ اس فارمولقسم کے
سوال کے ساتھ آغاز کیوں کیا؟میں نے یہ اس لئے کیا کہ اس سے
حقائق زیاد ہ واضح طور پر منظر عام پر آسکت ے ہیں اور یہ پیش
رفت کی تحقیق میں زیادہ معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
65
ک ہ کسی درست جواز ک ے بغیر مصر ک ے قدیم باشندوں (یعقوبی
فرق ے ک ے عیسائیوں)پر حمل ہ کسی صورت جائز نہیں ہے۔تیسرے
اعلن میں اس نے پہلے والے اعلن کو دوبارہ سختی سے دہرایا کہ
ملٹری آپریشن روک دیئے جائیں اور حکومتی مشینری پر حملوں
پر اکسانےہ والےہ بیانات پر کان نہہ دھراجائےہ اور اس نوع کی
ترغیب دینےہ والوں کو نظر انداز کیا جائےہ اور یہہ ترغیب چاہے
اندرون ملک س ے دی جائ ے یا بیرون ملک س ے ایسا کوئی اشارہ
آئے۔دونوں صورتوں میں اسے نظر انداز کیاجائے۔
اس نوع کےہ بیانات کےہ ساتھہ ہ ی اس نےہ یہہ اعلن بھ ی کیا کہہ یہ
بیانات حکومتی ایجنسیوں سےہ کسی سمجھوتےہ یا مفاہمت کا
نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ اعلن مسلمانوں ک ے مفادات اور اسلم کے
مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جارہے ہیں اور اس سے نہ صرف
یہ کہ مسلمانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ اسلم کو بھی بطور دین فروغ
ملےہ گا۔اس کےہ بعد امریکہہ کی ایک جیل سےہ ڈاکٹر عمر
عبدالرحمن نے ایک بیان جاری کیا جو درج بالبیان کی تائید میں
تھا۔دونوں بیانات ایک طرح کے تھے اور ایک دوسر ے کی معاونت
میں تھے ۔امریکہ سے آنے والے اس بیان کے بعد مصر میں موجود
اسلمی گروپ کےہ رہنماؤں ن ے اس پر اپنا مثبت ردعمل دکھایا
اور اپنےہ پانچویں بیان میں ایک مرتبہہ پھر اپنےہ عزم کا اعادہ
کیا۔بیان میں کہاگیا کہہ لیمان طرۃجیل میں موجودہہ برادرز شیخ
ڈاکٹر عمر عبدالرحمن ک ے اس بیان کا خیر مقدم کرت ے ہیں جو
انہوںنےہ ملٹری آپریشن روکنےہ کےہ لئےہ دیا ہےہ ۔انہوں نےہ کہ ا کہہ یہ
بیان ایک روشن خیال ذہن اور جراءت کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ
انہوںن ے ہمیش ہ خون خراب ے س ے نفرت کی ہے اور امن کی راہیں
تلش کرنے کی کوشش کی ہے اور جب اس نے مصیبت کے وقت
اپنے خدا کو پکارا ،خدانے ضرور اس کی فریاد سنی ہے اور خدانے
ہمیشہ اس ے انعام سے نوازا ہے ۔ہم مصالحت کرانے والوں پر زور
دیتے ہیں کہ وہ اس کی جیل سے رہائی کی کوشش کریں۔
لیمان طرۃ جیل میں بند اسلمی گروپ کے رہنماؤں نے جیل سے
ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور دیگر عوامی
مقتدر شخصیات کےہ نام ایک تار بھیجا۔یہہ تار اخبار ”الوفد“میں
شہہ سرخی کےہ ساتھہ شائع ہوا۔تار کامتن کچھہ اس طرح سے
تھا۔”ہم لوگوں کو قتل عام سے بچانے کے لئے جنگ کو روک دینے
کا اعلن کرتےہ ہیں ۔ہ م امید کرتےہ ہیں کہہ آپ ہماری اس پیش
رفت پر ہمارےہ ساتھہ تعاون کریں گےہ ۔ہم آپ سےہ تعاون کے
66
خواستگارہیں ۔ہم ملک کےہ صدر اور حکومت سےہ درخواست
کرتےہ ہیں کہہ وہہ ہماری اس پیش رفت کامثبت جواب دےہ “۔بعد
ازاں لیمان طرۃ ہ جیل میں موجود برادرز نے ہ ڈاکٹر عمر
عبدالرحمن کے بارے میں بیان سے دست برداری کااعلن کیا۔اس
پر میںاس وقت بات کروں گا جب عبدالرحمن کےہ بارےہ میں
لکھوں گا۔
67
میں آرہ ی ہیں اور قیدیوں اور ان ک ے خاندانوں ک ے سات ھ بدترین
تشدد کیا جارہا ہے۔
اسامہہ رشدی اپنےہ انٹرویولفظ ”استحقاق“استعمال کرتا ہے،یہ
ایک عجیب لفظ ہے اور مجھےہ اس کا علم نہیں کہہ اس کا اس
لفظ س ے کیا مطلب ہے ۔رشدی ی ہ بھ ی کہتا ہے ک ہ ہمار ے بھائیوں
کو جیل میں بدترین تشدد کاسامنا ہےہ ۔انہیں تفتیشی کیمپوں
میں رکھہ کر ان پر اذیتوں کےہ پہاڑ توڑےہ جاتےہ ہیں اورانہیں ہر
قسم کے قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے ۔انٹرویو لینے والے
نےہ رشدی سےہ پوچھا”کیا سات ہزار قیدیوں کو پولیس کی
حراست سے آزاد کرنا ایک مثبت نتیجہ نہیں ہے“اس پر رشدی نے
جواب دیا”یہہ اعداد وشمار قابل قبول نہیں ہیں،اس کےہ علوہ
ہزاروں ارکان ایس ے ہیں جن کو مقدم ہ چلئ ے بغیر یا ایف آئی آر
درج کئ ے بغیر جیلوں میں اور عقوبت خانوں میں ڈال گیا ہے ان
میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ انہیں جیلوں میں سڑتے ہوئے دس ،
دس سال سے بھی زائد کا عرصہ ہوچلہے“۔
68
سات ھ غیر انسانی سلوک ہ ر سطح پر ایک مستقل تناؤ کو جنم
دیتا رہے گا۔
انٹرویو لینےہ والےہ ن ے اسامہہ رشدی سےہ استفسار کرتےہ ہوئےہ کہا
”آپ کے خیال میں اس کی کیا ضمانت ہے کہ اگر مصری حکومت
امریکہ سے کہہ کر اسے رہائی دلواتی ہے تو شیخ مصر کے لئے ہی
خطر ہ ن ہ بن جائیں گے؟“۔رشدی ن ے جواب دیا ”ہ م ی ہ بات جانتے
ہیں ک ہ شیخ ن ے ہمیش ہ اپن ے بیٹوں اور بھائیوں پر انحصار کیا ہے ،
میر ے خیال میں شیخ رائ ے عام ہ ک ے خلف نہیں جائیں گ ے اور نہ
ہ ی عدم تشدد کی پیش رفت کےہ خلف کوئی اقدام کریں گے
تاہ م ان کی مصر میں واپسی سےہ مصر میں امن وامان کی
صورتحال مزید بہتر ہوجائ ے گی اور اس س ے اسلم پسندوں کے
غصے اور تناؤ کی ایک بڑی وج ہ ختم ہوجائے گی۔اس س ے عالمی
سطح پر پیدا ہونے والی بے چینی اور کھچاؤ بھی ختم ہوجائے گا“۔
مجھےہ یہہ اتفاق رائے ہ کہیں بھی نظر نہیں آتا کیونکہ ہ عمر
عبدالرحمن اور رفاعی طہٰ جیسےہ فکر کےہ بلند درجہہ لوگ اس
پیش قدمی کی مخالفت کریں گ ے ۔مجھے ستمبر 1983ءک ے پہلے
ہفت ے میں ہون ے وال و ہ واقع ہ یاد ہے جب آج سےہ 17سال قبل جب
شیخ عمر عبدالرحمن کمر ہ عدالت میں بڑ ے استقلل اور ثابت
قدمی سے کھڑا تھا اور جج سے کہہ رہا تھا”میں ایک مسلمان ہوں
،جو اپن ے مذہ ب ک ے لئ ے زند ہ رہتا ہے اور اسی ک ے لئ ے اپنی جان
بھی گنوا دیتا ہے،میں کبھی خاموش نہیں رہہ سکتا اور اس
صورتحال میں تو میں بالکل علیحدہ ہوکر نہیں بیٹھ سکتا جب تک
اسلم کی جنگ تمام محاذوں پر لڑی جارہی ہو“۔
69
کرن ے وال ے صحافی ن ے سوال کیا ”اسلمی گروپ مصر ک ے آئین
اور قوانین سےہ وفاداری کےہ اظہار کےہ لئےہ کیاضمانت دےہ گا
اورکس طرح پتہ چلے گا کہ اسلمی گروپ مصری قانون کے تابع
ہے اور اس کا احترام کرتا ہے؟“۔
70
اسلمی گروپ سےہ معاملہہ طےہ کرنےہ میں اپنی اثر انگیزی کو
ثابت کردیا ہے۔اب ی ہ توقع کی جارہ ی ہے ک ہ حکومت اب جلد ہی
محسوس کرےہ گی کہہ اسلم پسندوں اور عام آدمی کی گردن
سے اب دباؤ اور تشدد کی زنجیر اتارنے کی ضرورت ہے ۔اسلمی
گروپ کےہ پاس اختیار ہےہ کہہ وہہ مسلح آپریشن روکنےہ کےہ بارے
میں فیصلہہ کرسکےہ ۔یہہ اسلمی گروپ کو اپنا نقطہہ نظر تبدیل
کرنے سے نہیں روک سکتا۔موجودہ حقائق اسلمی گروپ کو ہرگز
یہہ اجازت نہیں دیتےہ کہہ وہہ حکومت کےہ ساتھہ تصادم جاری
رکھیں۔پہلےہ پہ ل یہہ امید کی جارہ ی تھ ی کہہ شاید یہہ پیش قدمی
نتیجہ خیز ہوسکتی ہولیکن بعد ازاں ی ہ امیدیں برن ہ آسکیں اور ان
امیدوں پر اوس پڑگئی ۔اسلمی گروپ کا سب سے اہم مقصد یہ
ہےہ کہہ وہہ مسلمانوں کےہ درمیان اپنےہ خیراتی سماجی بھلئی
کاموں کے ساتھ موجود رہے ۔
ایک گروپ اگر کچھہ عرصےہ کےلئےہ جہادی سرگرمیوں سےہ ہاتھ
اٹھالیتا ہے تو اس کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نے مکمل طور
پر اپنےہ مذہبی فریضےہ سےہ روگردانی کی ہےہ ۔گروپ کےہ کچھ
رہنماؤں ک ے خیال میں ی ہ پیش قدمی فضول ہے لیکن ی ہ اکثریت
کی رائے ہے جس کی پیروی کی جارہی ہے۔
71
مفاہمت کا نتیج ہ نہیں ہے بلک ہ ی ہ مسلمانوں اور شریعت ک ے مفاد
میں ہے۔
متعدد ایام کے بعد مستنصر الزیات نے اپنے دفتر میں ایک پریس
کانفرنس بلئی جس میں اس ن ے شیخ عبدالرحمن ک ے اس بیان
کےہ بارےہ میں جو اس کی وکیل نےہ اخبارات کو دیاتھ ا شکوک
وشبہات پیدا کردیئے ۔اس نے صحافیوں کو شیخ عبدالرحمن کا وہ
خط دکھانےہ سےہ انکار کردیا جو مبینہہ طور پر انہوں نےہ لیمان
طرةجیل میں قید اسلمی رہنماؤں کےہ نام لکھ ا تھ ا ۔الزیات نے
صحافیوں کو بتایا کہ جیل میں قید اسلمی رہنماؤں نے شیخ عمر
ک ے نام ایک پیغام ارسال کیا ہے جس میں انہوںن ے امن کی پیش
رفت بار ے اپن ے موقف کی وضاحت کی ہے اور اس خط پر درج
ذیل رہنماؤں ک ے دستخط ثبت ہیں ۔ان میں ناجح ابراہیم وعلی
الشریف،عصام دربال وحمدی عبدالرحمن ،فواد الدوالی ،کرم
زہدی اور عاصم عبدالماجد شامل تھے ۔الشرق الوسط اخبار نے
اس خبر کو بیان کرت ے ہوئ ے لکھ ا تھ ا کہعبود الزمرن ے اس خط پر
دستخظ نہیں کئے تھے ۔
ایک ہفتےہ سےہ بھ ی کم مدت کےہ دوران اخبارات نےہ شیخ عمر
عبدالرحمن کا بیان شائع کیا جو انہوں نے گروپ کے رہنماؤں کے
جواب میں دیا تھ ا ۔الشرق الوسط ن ے اس کو یوں رپورٹ کیا
:مصر ک ے سب س ے بڑ ے بنیاد پرست گروپ اسلمی گرو پ کے
روحانی پیشوا عمر عبدالرحمن نےہ امن کیلئےہ پیش رفت کی
حمایت واپس لےہ لی ہے۔امن کےہ لئےہ پیش رفت اور مسلح
آپریشن روک دینے کا اعلن اسلمی جیل میں قید رہنماؤں نے کیا
تھا۔عمر عبدالرحمن ن ے کہ ا ک ہ اب و ہ اس امن ک ے لئ ے کی جانے
والی پیش رفت کی حمایت نہیں کرت ے “۔مجھے بتایاگیا ک ہ میری
امریکی وکیل نےہ میری طرف سےہ ایک بیان دیا تھ ا ،میں بتانا
چاہتا ہوں کہ وہ بیان درست تھا اورمیں نے ہی دیا تھا ۔میں نے امن
کےہ لئےہ پیش رفت کو منسوخ نہیں کیا لیکن میں نےہ اس کی
حمایت واپس لےہ لی ہےہ اور اب میں نےہ یہہ اپنےہ ساتھیوں پر
چھوڑدیا ہےہ کہہ وہہ اس بحث وتمحیص کا آغاز کریں اور فیصلہ
کریں کہ یہ پیش رفت کس حد تک فائدہ مند ہے۔عمر عبدالرحمن
نےہ علی العلن کہ ا کہہ تمام بیانات جو میرےہ نام سےہ منسوب
کرکے شائع کئے گئے وہ درست تھے اورانہیں میں نے ہی جاری کیا
تھا۔
72
یہاں یہہ ضروری محسوس ہوتاہےہ کہہ کچھہ توقف کیاجائےہ اور ان
آسانیوں اورسہولتوں کو ایک نظر دیکھاجائے جو مستنصر الزیات
حکومت کے زیر انتظام عمل میں لسکتا تھا۔قیدیوں سے ملقات
پر چار سال تک لے لئے پابندی عائد کردی گئی ۔متعدد قیدیوں کو
جیل کےہ اندر ہ ی تشدد کرکےہ ہلک کردیاگیا اور امام مسجدوں
اور تبلیغ کرنےہ والوں کو قانون کےہ آرٹیکل 201کےہ تحت پابند
کردیا کہہ وہہ حکومت اور انتظامیہہ کےہ فیصلوں اور قوانین کے
خلف احتجاج نہیں کرسکتےہ اورنہہ ہ ی کسی قسم کی آواز بلند
کرسکتےہ ہیں ۔ملک آہستہہ آہستہہ ایمرجنسی قوانین کےہ تحت
کمزور ہورہا ہےہ ۔متعددممالک میں سےہ نوجوانوں کو اغوا کیا
جارہاہے اورانہیں واپس مصر لیا جارہاہے ۔حکومت ان کی واپسی
کو مہینوں چھپاتی ہے ۔حکومت ن ے احمد سلم ہ اور عصام محمد
حافظ کےہ کیس میں ایسا ہ ی کیا ۔کبھ ی کبھار حکومت یہہ بھی
چھپالیتی ہے کہ کس ملزم کے ساتھ حکومت کیاکرنے جارہی ہے ؟
جیساکہہ حکومت نےہ طلعت فواداور برادر محمد الظواہری کے
کیس میں کیا جبکہہ یہہ سب کچھہ جاری ہےہ ۔اس صورتحال میں
مستنصر الزیات ن ے لیمان طرہجیل کا دورہ کیا اور وہاں اسلمی
گروپ ک ے رہنماؤں س ے ملاورانہیں عمر عبدالرحمن کا ایک خط
تقسیم کیا اور اس خط ک ے جواب میں اس ن ے ان کا رد عمل
حاصل کیا اور ان سےہ شیخ عمر کےہ لئےہ ایک خط بھ ی حاصل
کیا ۔وہ اسی روز جیل سے لوٹا اور آتے ہی اخبارات سے رابطہ کیا
اورانہیں اس بیان کےہ بارےہ میں بتایا جو جیل میں قید رہنماؤں
سےہ لیا گیا تھا۔اس ن ے اخبارات کو اس خط کےہ بارےہ میں بھی
اسٹوری فراہم کی جو اس نے ان رہنماؤں سے شیخ عمر کے لئے
حاصل کیا تھا،اس ک ے بعد اس ن ے ایک پریس کانفرنس کی (ذرا
اس کی ہوشیاری کا اندازہہ لگائیےہ !!)اور ان خطوط پر اپنے
خیالت کا اظہار کیا۔اس نےہ صحافیوں کو اس خط کا مضمون
بتان ے س ے انکار کردیاجو شیخ عمر ک ے لئ ے جیل میں بند رہنماؤں
سےہ حاصل کیا گیا تھا۔اس خط کےہ مواد بارےہ امریکی خفیہ
ایجنسیاںاور دوسری خفی ہ ایجنسیاں جانتی تھیں کیونک ہ خط میں
موجود مواد بار ے انہیں ایک بریفنگ دی گئی تھ ی اور خط بھی
دکھایاگیا تھا تاہم مصری عوام کے بارے میں فرض کیا گیا کہ انہیں
اس خط میں موجود سچی باتوں بارے آگاہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
73
اٹارنی پیٹرک نےہ شیخ کی وکیل لئن اسٹیوارٹ کو ایک خط
ارسال کیا ۔یہ خط اس نے شیخ کا دفاع کرنے والی ساری ٹیم کے
ارکان کو تحریر کیاتھااور اس خط میں اس نےہ ان سب پر
تحریری حکم نامےہ کےہ ذریعےہ شیخ سےہ ملقات یا فون پر بات
کرنےہ پر پابندی عائد کردی تھی ۔یہہ اس وقت ہوا جب لئن
اسٹیوارٹ نےہ ایک پریس کانفرنس منعقد کی تھی۔اس نےہ یہ
پریس کانفرنس شیخ کی درخواست پر بلئی تھی ۔جب صحافی
اکٹھے ہوئے تو اس نے پرہجوم پریس کا نفرنس میں انکشاف کیا
تھا کہ شیخ نے مسلح آپریشن ختم کرنے والاپنا بیان واپس لے لیا
ہے ۔ذرا ملحظہ کیجئے کہ مصر اور امریکہ کے موقف میں کتنی ہم
آہنگی ہے۔
74
الزیات نےہ یہہ بات نوٹ کی کہہ گروپ کےہ اہ م فیصلےہ مصر کی
جیلوں میں موجود اس ک ے رہنماکرت ے ہیں اور ان فیصلوں میں
ملک گروپ کی شوری ٰ کونسل کو بھ ی شریک کیاجاتا ہے جس
کی صدارت مصطفی حمز ہ کرت ے ہیں ۔اس ن ے محسوس کیا کہ
اس طرح کا طریقہ کار اختیار کیاجاتا ہے ک ہ تمام اہم فیصل ے باہم
پیغام رسانی کے ذریعے اتفاق رائے سے کئے جاتے ہیں ۔
کرم زہدی نےہ بھی اس پیش رفت پر تبصرہہ کیا ۔ایک پریس
کانفرنس میں مستنصر الزیات نےہ یہہ کہتےہ ہوئےہ کرم زہدی کا
حوالہہ دیا”اگر جنگ اورمسلح مزاحمت بھ ی اسلمی گروپ کو
اس کےہ مقاصد کےہ حصول میں مددگار ثابت نہیں ہوتی توپھر
آپریشن کےہ دیگر طریقےہ استعمال کرکےہ دیکھےہ ....۔اگر یہہ بیان
واقعی کرم زہدی کی طرف س ے آیاتھ ا تو اس کا ی ہ مطلب تھاکہ
اسلمی گروپ جنگ کو آپریشن کےہ ایک طریقےہ کےہ طور
پرمسترد کررہی ہے اور مسلح آپریشن کے بارے مصر کے اندر اور
باہ ر اپنی وکالت کو خود ہ ی مسترد کررہ ی ہے ۔ی ہ کس چیز کے
تبادلےہ میں کیاگیا ۔اس کا متبادل کیا ہے؟کیا یہہ اسلمی گروپ
کاجہاد کے متبادل یا جہاد کی ترغیب کا کوئی طریقہ ہے ۔
75
تھا،پھر وہ ان پیغامات کو وسیع ترمقاصد کے حصول اور پراپیگنڈہ
کےہ لئےہ اخبارات کو جاری کرنےہ کےہ لئےہ پریس کانفرنسوں کا
انعقاد کرتا ۔اس کا اعلن تھاکہ کہ وہ جیل میں بند اسلمک گروپ
کےہ رہنماؤں کا ایجنٹ ہےہ ۔وہہ اپنی اسی حیثیت میں ریڈیو اور
مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کو انٹرویو دیتا۔
5جنوری 1998ءکو الزیات نےہ اعلن کیا کہہ وہہ اپنی اس سیاسی
مصروفیات س ے مکمل ریٹائرمنٹ ل ے رہ ا ہے۔اب و ہ جیل میں بند
مذہبی رہنماؤں کی مزید ترجمانی نہیں کرےہ گا۔اس نےہ اس
ریٹائرمنٹ کی وجوہات یہہ بیان کیں کہہ ملک سےہ باہر اسلمی
گروپ کےہ رہنما ہ ر وقت اسےہ نیچا دکھانےہ کی کوششوں میں
لگ ے رہت ے ہیں اور انہوں ن ے تشدد روکن ے کے اس فارمولے کا بھی
کوئی مثبت جواب نہیں دیا ۔اس موقع پر اس نے ایک بیان جاری
کیا ک ہ ابھ ی تک میر ے ملک میں تشدد کی حکمرانی اورابھ ی تک
سیاسی موسم بھی پیچیدہہ ہے۔میںنےہ دوسرےہ لوگوں کےہ باہم
اشتراک سےہ تشدد کےہ خاتمےہ اورامن کےہ فروغ کےہ لئےہ ایک
کوشش کی تھ ی تاکہہ خون خرابےہ سےہ بچا جاسکےہ ،میں کبھی
کرائ ے کاوکیل نہیں رہ ا ،جس ن ے رقم ل ے کر وکالت کی ہ و لیکن
میں نے اس ے ایک پیغام کے طور پر سر انجام دیا ۔میں اس بارے
میں بہ ت سےہ لوگوں سےہ بحث ومباحثہہ کرتا رہ ا ہوں اور خاص
طور پر میری گفتگولیمان طرہ جیل میں سزائے موت کے منتظر
قیدیوں سےہ ہوتی رہتی ہے۔یہہ قیدی صدر سادات کےہ قتل کے
مقدمے میںملوث تھے ۔
صدر سادات کےہ قتل میںملوث قیدیوں سےہ میری امن کے
موضوعات پر بڑی طویل نشستیں ہوئیں لیکن ی ہ تمام نشستیں
بموں کےہ دھوئیں اور گولیوں کی آوازوں میں دب کر رہ
76
گئیں،جس مقصد کےہ ساتھہ میں نےہ اپنےہ کام کا آغاز کیا تھا
اورجس مقصد کےہ حصول کےہ لئےہ میں نےہ اپنی زندگی کا ایک
حصہ وقف کئے رکھاوہ ابھی تک لوگوں پرواضح نہیں ہوسکاحالنکہ
میں نےہ اس دوران بہت زیادہہ دباؤ برداشت کیا اور میں اس
دوران کانٹوں پر چلتا رہا۔
مستنصر اپنے بیان میں مزید کہتا ہے ”میں ملک سے باہر اسلمی
گروپ ک ے رہنماؤں کی نادانی کی وج ہ س ے سخت مصیبت میں
پھنسا رہا ۔ان رہنماؤں میں جراءت کا فقدان ہےہ کہہ وہہ مسلح
جدوجہ د ک ے بار ے میں کوئی متفق ہ قرارداد پاس کرن ے کی اہلیت
نہیں رکھت ے اورن ہ ہ ی ان میں یہ قابلیت ہے ک ہ و ہ ایکشن ک ے کوئی
نئے طریقے ڈھونڈسکیں۔ہر نظریے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے نئے
طریق ے اختیار کرن ے پڑت ے ہیں ۔ہ ر نظری ے کی اپنی حکمت عملی
ہوتی ہے ۔ان تمام رکاوٹوں کے باوجود تشدد کسی بھی مسئلے کا
حل نہیں ہے کیونکہ اس میں ہمیشہ معصوم افراد کی جانیں تلف
ہوتی ہیں جیسا کہ القصرکے واقعہ میں ہوا۔
مستنصرالزیات ک ے بیان کا اگر بغور جائز ہ لیاجائ ے توی ہ بات کھل
کرسامنے آتی ہے کہ وہ جہادی تحریک سے ذہنی اور نظریاتی طور
پر وابستہہ نہیں ہےہ اورنہہ ہ ی وہہ جہادیوں کےہ اس نقطہہ نظر سے
اتفاق کرتاہے کہ مسائل کا حل جہاد کے طریقے میں مضمر ہے ۔وہ
جہاد کو بطور طریقہ استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہے و ہ بیان
کرتا ہے ک ہ اس ن ے تشدد کو ختم کرن ے کی کوشش کی ۔اس کا
بیان ظاہرکرتا ہے ک ہ و ہ جہاد کو تشدد سمجھتا ہے ۔و ہ کہتا ہے کہ
اس نےہ امن بحال کرنےہ کی کوششیں کیں لیکن یہہ کوششیں
بارود کے دھوئیں کی نذر ہوگئیں۔
77
باب نمبر 8
مسلم برادرز (ایم بی)نامی تنظیم بطور ایک تنظیم کےہ پھل
پھول رہی ہےہ لیکن جہاں تک اس کےہ نظریات کا تعلق ہےہ ،یہ
نظریاتی طور پر اور سیاسی لحاظ سےہ خودکشی کی جانب
گامزن ہےہ ۔ایم بی کی تاریخ غلطیوں اور ناکامیوں سےہ بھری
پڑی ہے۔اس پر میں نےہ ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان
تھا”مسلم برادرز کےہ 60سال“۔اس پر مجھےہ مسلم برادرز کے
حلقوں میں شدیدتنقید کا نشانہہ بنایاگیااور یہہ بھ ی کہاگیا کہہ اس
کتاب میں ایم بی ک ے بانی افراد کی تذلیل کی گئی ہے اور ایم
78
بی کےہ رہنما شیخ حسن البناءکی بھی بےہ عزتی کی گئی
ہے۔میری و ہ کتاب دراصل ایک انسان ک ے اندازوں او رقیاس پر
مشتمل ہے جو کہ غلط بھی ہوسکتے ہیں۔
کتاب کو شائع ہونا تھا کہہ ایک طوفان امڈآیا ۔مجھہ پر تنقیدکے
نشتر چلئے ۔طعن زنی کے طومار باندھے گئے ۔میرے کچھ بھائیوں
نےہ مجھےہ کہ ا کہہ چند باتیں کہ ا کہہ چند باتیں ایسی تھیں جواس
79
کتاب میں نہیں جانی چاہئیں تھیں ۔کچ ھ نے اس کتاب کو سراہا ،
انہیں میرے ساتھ اور ایم بی کے ساتھ اپنے ذاتی اور تنظیمی تعلق
پر فخر ہے ۔کچھ کا خیال ہے کہ یہ کتاب لکھنا ایک غیرمنصفانہ کام
ہے کیونک ہ اس میں ایم بی کی صرف غلطیاں درج کی گئی ہیں
جبکہ اچھی باتیں تحریر نہیں کی گئیں حالنکہ ایم بی کی فہرست
میں متعدد کارنامے اور اچھے کام بھی ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ
میں ن ے شیخ حسن البناءکی توہین کی ہے۔ی ہ بات نامناسب ہے ،
کسی کو ی ہ زیب نہیں دیتا ک ہ و ہ کسی پر اس نوع ک ے نامناسب
الزامات عائد کرے ۔کون اسلمی تحریک سے وابستہ رہا اور کون
شیخ البناءکی خوبیوں سے زیادہ واقف ہے ؟میں نے ان پر اپنادرج
ذیل رد عمل ظاہر کیا۔
یہہ کتاب ایک انسان نےہ اپنی فہم کےہ مطابق (الف)
تحریر کی ہےہہ ۔اسےہہ انسانی غلطیوں سےہہ پاک نہیں
کہاجاسکتاکیونکہ انسانی اندازوں میں غلطی کی گنجائش موجود
ہوتی ہے اورغلطیاں انسان کی اپنی کوتاہی بھی ہوسکتی ہے۔
میں ن ے ایم بی کو ایک مثال کےہ طور پر پیش کیا ہےہ ۔میں نے
کتاب میں لکھ ا ہے ک ہ میں ایک سرجن کی طرح ہوں ۔جوک ہ ایک
ایس ے مریض کا علج کررہ ا ہے جو معد ے ک ے کینسر میں مبتلہے
اور ی ہ کینسر اس ے ہلک بھ ی کرسکتا ہے ۔کسی ڈاکٹر ک ے لئ ے یہ
مناسب نہیں ہوتا ک ہ و ہ اس مریض کو بتائ ے ک ہ آپ کا دماغ بہت
80
اچھاکام کررہ ا ہے ،آپ ک ے دل کاکام بہ ت اچھ ا ہے یا ی ہ ک ہ آپ کے
گرد ے درست کام کررہے ہیں اور سب اعضاءدرست ہیں ،سوائے
معد ے ک ے جس میں ک ہ کینسر ہے۔ڈاکٹر کا فرض ہے ک ہ و ہ مریض
کو بتائے کہ و ہ اس موذی مرض سے ہلک ہوسکتا ہے ،اسے فوری
طور پر اس کا علج کرواناچاہیےہ بصورت دیگر و ہ موت ک ے منہ
میں چلجائے گا اور اگر اس نے اپنے کینسر کا علج نہ کروایا تو وہ
تما م اعضاءک ے درست کا کرنے کے باوجود موت کی گھاٹی میں
اترجائے گا۔
میں اس امر کی تردید نہیں کرتا کہہ کتاب میں کچھ (د)
ایسی باتیں ہیں جو یا توحذف کردینی چاہئیں یا ان میں ترمیم
کرنی چاہیے جیسا کہ یہ بیان ”یہودی 1948ءسے فلسطین میں ہیں
لیکن ایم بی ن ے انہیں 44سال تک کبھ ی تنگ نہیں کیا۔اس لئ ے کہ
حکومت ن ے انہیں کبھ ی ایسا کرن ے کی اجازت ہ ی نہیں دی ۔میں
اس بات کی تصدیق کرتا ہوں ک ہ ایم بی یہودیوں س ے لڑتی رہی
اور یہہ کہہ ان کےہ نوجوان ابھ ی تک یہودیوں کےہ خلف جنگ میں
مصروف ہیں۔میں اس بات کی بھی تردیدنہیں کرتا کہ کتاب میں
کچھہ غیر ضروری ضرب المثال بھی ہیں تاہم اگر ان ضرب
المثال کو کتاب سے حذف بھی کردیاجائے توکتاب کے موضاعاتی
تاثر پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔میں اس کتاب کو دو مرتب ہ پڑ ھ چکا
ہوں اور اس نتیجےہ پر پہنچا ہوں کہہ اس کانظرثانی کا دوسرا
ایڈیشن آنا چاہی ے ۔میں نہیں جانتا ک ہ الل ہ تعالی ٰ اس سلسل ے میں
میری مدد بھ ی فرمائ ے گا یا نہیں ک ہ میں اس کام کو پای ہ تکمیل
تک پہنچا بھی سکوں گاکہ نہیں ۔
جہاں تک شیخ حسن البناءپر میری تنقید کا تعلق ہے تویہ بات میں
نےہ دووجوہات کو مدنظر رکھتےہ ہوئےہ کی ۔پہلی بات یہہ کہہ شیخ
حسن البناءایک تاریخی عوامی شخصیت ہیں۔ان کا ایم بی کے
حوالے سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔میں شیخ حسن البناءکو تنقید سے
پاک کوئی مقدس ہستی یا ولی اللہہ نہیں سمجھتاجیسا کہہ دیگر
مسلمان انہیں سمجھتےہ ہیں اورنہہ ہ ی میں انہیں کوئی مغالطے
میں ڈالنےہ والی یا کوئی جعلی شخصیت سمجھتا ہوں جیسا کہ
سیکولر اور کمیونسٹ ان کے بارے میں گمان کرتے ہیں ۔میں نے
ان کی شخصیت اور کام کا اپنی قابلیت اور ذہنی صلحیت سے
مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔ان کے بارے میں
اور ایم بی کےہ بار ے میں تجزی ہ کرتےہ وقت میں نےہ اپنی بہترین
صلحتیوں کا اظہار کیا ہےہ ،اس سےہ زیادہہ صلحتیوں کا مظاہرہ
81
شاید میں نہیں کرسکتاتھا۔اس ضمن میں قابل افسوس بات یہ
ہے کہ ایم بی ے کسی رہنما نے میرے اٹھائے جانے والے سوالت کے
جواب دینے کی کوشش نہیں کی ۔
ایم بی نے عام طور پراپنے لئے ایک خاموش کردار کا (ر)
انتخاب کرلیا ہے یعنی ایم بی ن ے الل ہ ک ے راست ے میں جہاد کرنے
س ے ہات ھ کھینچ لیا ہے حالنک ہ جہاد اسلم ک ے عظیم ترین فرائض
میں س ے ایک ہے۔یہ انہوں نے اس وقت کیا جبکہ پوری قوم آفتوں
میں گھری ہوئی ہےہ اور امریکہہ اور یہودیوں کا ہماری زمین پر
قبضہ ہے ۔
82
ایم بی کےہ نوجوانوں کو یقینی طور پریہہ محسوس (ش)
کرنا ہوگاک ہ نئ ے صلیبی حمل ہ آور اس وقت تک ان س ے خوش نہ
ہوں گےہ جب تک وہہ کافروں کا عقیدہہ نہہ اپنالیں۔اسلم کے
نوجوانوں ک ے لئ ے ی ہ بہتر ہوگاک ہ نیو ورل ڈ آرڈ ر ک ے تحت ذلت آمیز
زندگی گزارنےہ کی بجائےہ ہتھیار اٹھالیں اور فخر کےہ جذبےہ سے
شرشار ہوکر اپنے دین کا دفاع کریں ۔
جہادی قوتیں ایک جگہہ جمع ہورہی ہیں اور مغربی (ص)
کفار اور ان کے ایجنٹوں ک ے خلف جنگ کے لئے ایک نئی حقیقت
کا نمونہ پیش کررہی ہیں ۔صدر سادات کے قتل کیس میں ملوث
302ملزموں میں س ے 194ملزموں کی رہائی اسلم پسندوں سے
زیادہ سیکورٹی سروسز کے لئے حیران کر دینے والی بات ہے ۔ایم
بی نے صدر سادات کو یہ یقین دلکر بنیاد پرستی کی تحریک سے
حکومت کو کوئی خطرہہ نہیں ہے۔حکومت وقت کو دھوکہہ دیا ۔
مصر کی گلیوں اور بازاروں میں ہون ے وال ے واقعات اس بات کا
ثبوت ہیں کہ بنیاد پرستی کی تحریکیں تبدیلی کو متعارف کروانے
کے اہل ہیں۔
83
قوم کےہ مذہبی اسکالروں کےہ اتفاق رائ ے کی مثالیں دیں۔انہوں
نےہ پراسیکیوٹر کےہ استغاثےہ اور الزہر کی رپورٹ جس کا
پراسیکیوٹر نےہ حوالہہ دیا تھا پر اپنا تفصیلی جواب ریکارڈ
کرایا۔اس گواہ ی ن ے ڈاکٹر عمر عبدالرحمن کی قانونی پوزیشن
کو خطرہہ میں ڈال دیا کیونکہہ اس میں جہاد کی حمایت میں
شہادت موجود تھی ۔عدالت ک ے جج ن ے انہیں انتبا ہ کیا ک ہ اس کے
الفاظ انتہائی خطرناک ہیں اور یہہ بھ ی کہ ا کہہ اس کےہ وکیل کے
الفاظ کو کوئی اور معنی پہنائے جاسکتے ہیں لیکن اس کے الفاظ
کو نہیں لیکن ڈاکٹر عمر عبدالرحمن نےہ اسلم کی کاز کی
حمایت جاری رکھن ے پر اصرار کیا اورکہ ا ک ہ و ہ اسلم ک ے عظیم
ترمقاصد پر اصرار کرت ے رہیں گ ے ،ب ے شک اس میں انہیں سزا
ہی کیوں نہ سنادی جائے ۔نہ صرف یہ بلکہ اس نے یہ کہہ کر جج کو
بھ ی مصیبت میں ڈال دیا کہہ جج بھ ی مسلمانوں پر ڈھائےہ جانے
وال ے مظالم اور ناانصافی کا ذم ہ دار ہے۔انہوں ن ے جج س ے کہ ا کہ
وہ اللہ کی پکڑ سے ڈرے اور اس کے مقدمے کا فیصلہ شریعت کو
سامنے رکھ کر کرے ۔
شیخ عمر نےہ کہا”پراسیکیوٹر کا کہانا ہےہ کہہ جو لوگ یہہ دعویٰ
کرتے ہیں کہ طاقت(اختیار)صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے وہ لوگ
خود طاقت استعمال کرتے ہیں ۔ہاں !تمام طاقتیں صرف اللہ ہی
ک ے لئ ے ہیں ۔الل ہ ہ ی ہ ر چیز پر قادر ہے۔حضرت اسحاق ،حضرت
84
یعقوب اور حضرت ابراہیم نے بھی یہی کہاتھا اور حضرت یوسف
کابھی یہی فرمان تھااور یہ بات انہوں نے مصر کی جیل میں کی
تھ ی ۔جیل کی سختیاں اور مصائب انہیں حق بات کہنےہ سےہ نہ
روک سکے اوریہی بات تمام پیغمبر کہتے آئے ہیں اور یہی دنیا بھر
کے مسلمانوں کی آواز رہی ہے۔
میں جیل اور سزائے موت سے نہیں ڈرتا ۔میں اس بات پر قطعی
خوش نہیں ہوں گاکہ مجھے معافی مانگنے کے لئے کہاجائے یامجھے
رہاکردیاجائ ے ۔میں اس بات پر اداس نہیں ہوںگا اورن ہ ہ ی مجھے
کوئی افسوس ہوگااگر مجھے ہ پھانسی کے ہ تختے ہ پر کھینچ
دیاجائےہ ۔میں اللہہ کےہ راستےہ میں شہید ہونےہ کو پسند کرتا ہوں
اور یہ میری آرزو ہے ۔سچ کے راستے پر چلتے ہوئے اگرجان قربان
کردی جائےہ تو ایک مسلم کےہ لئ ے خوشی اور سعادت کی اس
سے بڑھ کر کوئی اور بات نہیں ہوتی ۔اگر مجھے جام شہادت پینا
پڑا تو میں کہوں گا”ا ے میر ے الل ہ ! ا ے میر ے کعب ے ک ے رب میں
جیت گیا۔اے میرے اللہ !میں کامیاب ٹھہرا میں ایک مسلم ہوں جو
اللہہ کےہ دین کےہ لئےہ زندہہ رہتا ہےہ اور اسی کےہ راستےہ میں اپنی
85
جان دیتا ہے۔جب اسلم پر ہر طرف سےہ کافروں کی یلغار
ہوتومیں خاموش نہیں رہہ سکتا۔مجھےہ کوئی چیز خاموش نہیں
کرسکتی ۔اسلم پر اس کےہ مختلف طرح کےہ دشمن حملے
کررہےہ ہوں اور میں چپکےہ چپکےہ سنتا رہوں اور برداشت کرتا
رہوں ،یہ میں کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا ۔میرے لئے اس
طرح کا طرز عمل اختیار کرناممکن ہی نہیں ہے“۔
86
فیصلے کے قانونی نکات جس کی وجہ سے انہیں رہاکیاگیا یہ نکات
فیصل ے س ے زیاد ہ اہمیت رکھت ے تھے کیونک ہ ان حالت میں فیصلہ
اتنا اہ م نہ تھ ا جتن ے و ہ حالت تھے جس کی وج ہ س ے عدالت کو یہ
فیصلہ کرنا پڑا ۔اور وہ یہ کہ عدالت نے تسلیم کرلیا تھا کہ مصر کے
حکومتی معاملت کو اسلمی شریعت کے ہ مطابق نہیں
چلیاجارہا۔عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شریعت کا نفاذ ریاست
کی ذمہ داری ہے اور یہ عوام کی دلی خواہش بھی ہے ۔عدالت نے
اس فیصل ہ میں دراصل ی ہ تسلیم کیا ک ہ مصری آئین اور قوانین
اسلمی قوانین سےہ متصادم ہیں ۔عدالت نےہ یہہ مانا کہہ مصری
قوانین کی وجہ سے مصر کے عوام کی اکثریت اسلم سے بالکل
علیحد ہ ہوچکی ہے اور ان کی زندگی میں اسلم کو کوئی عمل
دخل نہیں رہا۔عدالت ن ے ی ہ بھ ی مان لیا ک ہ زیر حراست افراد پر
جسمانی تشدد کے پہاڑ توذذڑے جارہے ہیں اور اس تشدد کی وجہ
سےہ بہ ت سےہ لوگ زندگی بھ ر کےہ لئےہ معذور ہوچکےہ ہیں ۔لوگ
اپنی بصارتیں کھوبیٹھے ہیں اور اب وہ ایک عام صحت مند انسان
کی طرح معاشرےہ میں اپنا کوئی مقام نہیں بناسکتےہ چنانچہ
عدالت نےہ اپنےہ فیصلےہ میں مطالبہہ کیا کہہ اس پر تحقیقات کی
جائیں اور جو لوگ اس تشدد ک ے ذم ہ دار ہیں انہیں تحقیقات کے
ذریعے بے نقاب کیا جائے۔
87
باب نمبر 9
اسرائیل کی انتظامیہہ گذشتہہ دوصدیوں سےہ مغرب کےہ لئےہ کام
کرتی رہ ی ہے ۔ ا س خطےہ میں اسرائیل کی موجودگی دراصل
مغرب ک ے مفادات ک ے تحفظ ک ے لئ ے ہے ۔اسرائیل دراصل شام
اور مصر کو علیحدہہ کرتا ہےہ ۔یہہ دوعلقےہ صدیوں تک صلیبی
جنگوں کا ایک دیوار کا کام کرتے رہے ہیں ۔اسرائیل اسلمی دنیا
کے دل میں بیٹھ کر ان کے خلف کاروائیوں کو تیز کرنا چاہتا ہے۔
88
میں ایک بفرزون ()Buffer Zoneقائم کردیں ۔انورسادات پہل ایسا
شخص نہیں ہےہ جس نےہ اسرائیل اور عربوں کےہ مابین علیحدہ
سودےہ بازی پر دستخط کئےہ ہوں۔شہزادہہ فیصل نےہ وہ ی کیا جو
اس کے سامنے تھا ۔بعدازاں اس نے یہودیوں کے ہاتھ فلسطین کو
بیچ کر اپنی ریاست خریدنے کی کوشش کی ۔
1973ءکی جنگ میں امریکہہ نے 33روز تک اسرائیل کو اسلحہہ ،
ہتھیار اور ٹینک فراہم کئےہ ۔اس امداد کےہ پیچھےہ امریکہہ کا یہ
مقصد کارفرماتھاک ہ اسرائیل اپن ے جنگی نقصان کا ازال ہ کرسکے
اور کہیں کمزورن ہ پڑجائ ے اورنہایت عمدگی ک ے سات ھ اپنی جنگی
صلحتیوں میں اضافہ کرسکے ۔امریکہ نے ہر موقع پر اسرائیل کی
مدد کی ۔جب اسرائیل ن ے سر عام کہہ دیا ک ہ و ہ ایٹمی ہتھیاروں
کی تیاری پرکھلےہ عام معاہدےہ پر دستخط نہیں کرسکتا تو اس
وقت اسرائیل کےہ بجائےہ امریکہہ نےہ مصر پر دباؤ ڈال کہہ اس
معاہدےہ پر دستخط کردےہ ۔اس کےہ باوجود امریکہہ اسرائیل کے
ساتھ ہمداردانہ رویہ رکھتا ہے اور اسرائیل کی حرکتوںکو نظرانداز
کرتارہتا ہےہ ۔اس کا مطلب یہہ ہےہ کہہ امریکہہ نےہ جانتےہ بوجھتے
اسرائیل ک ے پاس ایٹمی ہتھیار رہنےہ دیئ ے تاک ہ وہہ عربوں کےہ لئے
ایک مستقل خطر ہ بنارہے ۔خط ے میں طاقت کا عدم توازن قائم
ہو اور عرب ہمیشہ کے لئے اسرائیل سے ڈرتے رہیں ۔یہ ایک حیرت
انگیز اور تکلیف د ہ بات ہے حالنکہ اگر اس کاموازنہ پاکستان کی
صورتحال سےہ کیا جائےہ تو پاکستان نےہ اس قسم کےہ کسی
معاہد ے پر دستخط کرن ے س ے انکار کردیا ہے اور کہا ہے ک ہ و ہ اس
وقت تک دستخط نہیں کرےہ گا جب تک اس کا دشمن ہمسایہ
ملک اس معاہدے پر دستخط نہیں کردیتا۔
89
”نپولین بونا پاٹ کی طرف سےہ ۔۔۔مملکت فرانس ،افریقہہ اور
ایشیاءمیں مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے نام۔۔۔فلسطین کے
اصل وارثوں کے نام ۔۔۔اے اسرائیلیو! اے بے مثال لوگوں !دشمن
قوتوں کی افواج تمہیں تمہاری شناخت اور وجود سےہ محروم
کرنےہ میں ناکام ہوچکی ہیں ۔اگرچہہ انہوں نےہ تمہیں تمہارے
آباؤاجداد کے علق ے س ے محروم کردیا ہے ۔پیغمبر ن ے تمہار ے بارے
میں پیشن گوئی کی ہے ک ہ تم ایک روز اپنی سرزمین پر واپس
آؤگےہ ،پھرتمہیں کوئی خوف نہہ ہوگااورنہہ کوئی ڈر اورتم کسی
خوف کےہ بغیر ایک ریاست قائم کروگے۔۔۔تم اپنےہ دشمن کے
خلف حالت جنگ میں ہو“۔
90
کو علیحدہہ کرنےہ کےہ لئےہ ایک بفرزون قائم کردیاجائے۔اس
صورتحال سےہ ضروری تھاکہہ ہ ر ایک کو اس کی ”اوقات “میں
رکھاجائےہ اور کسی کو بھ ی ضرورت سےہ زیادہہ طاقتور نہہ ہونے
دیاجائے ۔
1875ءمیں برطانوی وزیر اعظم کے علم میں یہ بات لئی گئی کہ
مصر کا حکمران خدیو اسماعیل سویز کنال کمپنی میں سے اپنے
حصص فروخت کرناچاہتا ہے ۔یہ برطانوی وزیر اعظم ڈزرائیلی تھا
۔ڈزرائیلی برطانیہ کی تاریخ میں آخری یہودی وزیر اعظم تھا،اگر
انگریز سیاستدان اپنےہ پروٹسٹنٹ مذہبی نظریات کےہ تحت اور
سیاسی فوجی مفادات ک ے حصول ک ے لئ ے اسرائیل کی ریاست
کےہ قیام کےہ لئےہ کام کررہےہ تھےہ توایک یہودی برطانوی وزیر
اعظم محسوس کرتا تھا کہ صورتحال کو مذہب کے فرزندوں کی
بہتری ک ے لئ ے استعمال کیاجاسکتا ہے۔اس یہودی وزیر اعظم نے
اپنےہ عنفوان شابب میں ایک ناول تحریر کیاتھ ا جس میں ایک
کردار کہتا ہے”انگلینڈہ ایک عظیم ملک ہےہ اسےہ اس کےہ چند
سیاستدانوں نےہ ایک بہت بڑےہ کمرشل اکاؤنٹ کےہ دفتر میں
تبدیل کردیاہےہ ۔انگلینڈہ ایک دل اور ایک ضمیر رکھتا ہےہ تاہ م یہ
91
یہودیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے اور انگلینڈ کو اس بات کایقین
ہوتا ہے کہ خدا بھی یہودیوں کی دوبارہ زندگی کے لئے کوشاں ہے“۔
92
جگہ جگہ اگنے لگیں اور ان میں اس تیزی سے اضافہ ہوا کہ انگریز
کےہ مصر پر قبضےہ کےہ دس سال بعد بیس نئی آبادیاں بسائی
گئیں ۔یہ بستیاں دریائے اردن کے مشرقی اورمغربی حصوں میں
پھیلتی چلی گئیں ۔
93
انگریزوں کی دستاویزات میں تحریر ہےہ کہہ مصر میں یہودی
کمیونٹی کا سربراہہ موسیٰہ قطاوی پاشانےہ جولئی 1916ءمیں
مصر میں برطانوی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ماکسویل سے
کہا کہہ وہہ اس کو اجازت دیں کہہ جنرل اللنبی کی فوج جوکہ
فلسطین اور شام میں ترکوں ک ے خلف چڑھائی ک ے لئ ے تیار ہے
اس میں یہودی بٹالین قائم کی جائیں ۔لیکن اس بٹالین کے یہودی
افسران اور سپاہ ی اپنی ٹوپیوں ک ے سامن ے داؤد کا ستار ہ ضرور
لگائیں تاکہ یہ واضح طور پر پتہ چل سکے کہ یہ فوجی یہودی بٹالین
سےہ تعلق رکھتےہ ہیں۔یہودیوں کی حمایت اور اسلم کےہ خلف
اس نفرت انگیز ماحول میں دونومبر 1917ءکو بالفور کا معاہدہ
عمل میں لیا گیا۔
94
پر دباؤ برقرار رکھےہ کیونکہہ ان حلیفوں کےہ پاس تابعداری کے
سوا کوئی چارہہ کار نہیں تھا۔کمانڈرہوگرٹ کےہ مذاکرات کی
رپورٹ میںسے ایک اقتباس یوں ہے ۔
الشریف حسین نےہ اعلن بالفور کےہ فارمولےہ کو ماننےہ کےہ لئے
اپنی رضامندی کا اشارہہ دیا ۔لندن میں وزارت جنگ کی اس
رپورٹ میں کرنل ہوگرٹ کہتا ہے”الشریف حسین پرجوش
طریقےہ سےہ رضامند ہوا اورکہاکہہ وہہ تما م عرب ممالک میں
یہودیوں کو خوش آمدید کہتاہے۔جہاں تک الشریف حسین کے بیٹے
شہزاد ہ فیصل کا تعلق ہے تو اس ک ے استاد اورمعروف برطانوی
انٹیلی جنس افسر لرنس نےہ اسےہ حاییم وایزمان سےہ فرسای
کانفرنس کی تیاری کےہ دوران العقبہہ میں ملقات پر رضامند
کرلیا ۔ی ہ کانفرنس جنوری 1919ءمیں ہون ے والی تھ ی ۔دونوں نے
ایک معاہد ے پر دستخط کئ ے جن میں درج ذیل قول کا اقرار کیا
گیا تھ ا کہہ ”حجاز میں عرب بادشاہ ت کی نمائندگی کرنےہ والے
شہزادہ فیصل اور زائنسٹ تحریک کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر
حاییم وایزمان دونوں محسوس کرت ے ہیں کہ عربوں اور یہودیوں
کے مابین قربت ہونی چاہیے۔
95
ہے حتی ٰ ک ہ اس ن ے دونوں اطراف کی سرحدوں ک ے بار ے میں یہ
بھی جان لیا ۔اس طرح انور سادات و ہ پہل شخص نہیں تھا جس
نےہ اسرائیل اور عربوں کےہ مابین ایک علیحدہہ امن معاہدے
دستخط کئےہ ہوں ۔اس معاہدےہ نےہ یہودیوں کی وسیع پیمانےہ پر
ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی ۔
میں نےہ محسوس کیا کہہ اس ضمن میں بہ ت سےہ واقعات اور
حقائق بیان کرنےہ کےہ قابل ہیں تاہ م کچھہ اہ م مثالیں پیش کرتا
ہوں۔
عربوں اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر 1973ءکی جنگ ()1
میں امریک ہ ن ے اپن ے طیاروں ک ے ذریع ے اسرائیل کو اسلح ہ ،بارود
اور دیگر ہتھیار فراہم کئے ،حتیٰ کہ امریکہ نے اسرائیل کو امریکی
توپ خانے کی بھی مدد فراہم کی اور یہ تمام حربی سازوسامان
برا ہ راست میدان جنگ میں اتاراگیا۔اس فضائی امداد پر تبصرہ
کرتے ہوئے مصر کے وزیر جنگ محمدعبدالغنی الجمسی کہتے ہیں
”امریک ہ کی اسرائیل کو فضائی امداد پر 13اکتوبر سےہ 14نومبر
1973ءتک تینتیس روز تک جاری رہیں ۔اس فضائی امداد ک ے لئے
امریکہہ کی فضائی قوت کا تقریبا ً چوبیس فیصد حصہہ روزانہ
استعمال کیاگیا ۔تقریبا ً بائیس ہزار چار سو ستانو ے ٹن اسلح ہ ۔
گولہہ بارود اور ہتھیار فراہم کیاگیا۔اس دوران 707اور 747نامی
طیاروں نےہ ساڑھےہ پانچ ہزار ٹن اسلحہہ فراہ م کیا۔اس کےہ علوہ
چونتیس فیصد رسد سمندر کے ذریعے پہنچائی گئی ۔اس امداد کا
مقصد اسرائیل کی جنگی طاقت میں اضافہ اور جنگی نقصان کا
ازالہہ تھا ۔فضائی رسد میں مختلف قسم کا گولہہ بارود شامل
تھا۔یہ بات قابل غور ہے کہ اسلحہ کی ترسیل کا آغاز 13اکتوبر سے
ہوا جبکہ مصر نے جنگ کاآغاز 14اکتوبر کوکیاتھاچنانچہ اسرائیل نے
حمل ے کو پسپا کرن ے کی مکمل تیاری کرلی تھی۔امدادک ے ذریعے
امریکہ نے مکمل طور پر اسرائیل کو اس قابل بنادیاتھا کہ وہ ایک
مکمل جنگ کامقابلہہ کرسکےہ اور جنگ کےہ حتمی مراحل جیت
سکے ۔اس امریکی امداد نے فوجی طاقت کا توازن اسرائیل کے
حق میں کردیا تھا۔اس طرزعمل سے ظاہ ر ہوتا ہے کہ کس طرح
امریکہ نے اس جنگ میں کھلم کھل اسرائیل کا ساتھ دیا۔
96
س ے اسرائیل کوسیاسی حمایت اور اس ک ے حریفوں پر دباؤ کا
سلسلہہ جاری ہے۔مثال کےہ طور پر 26مارچ 1979ءکو جس
روزمصر اور اسرائیل ک ے مابین امن معاہد ہ ہوا اسی روز امریکہ
اور اسرائیل کے مابین ایک معاہدہ ہواکہ اگر اسرائیل اورمصر کے
مابین ہونےہ والےہ معاہدےہ کی خلف ورزی کی گئی تو امریکہ
اسرائیل کی حفاظت کا ذم ہ دار ہوگا۔ذیل میں اس معاہد ے کی
خطرناک شقیں دی جارہی ہیں ۔
97
اسرائیل کسی جارحیت کا مرتکب ہو تو ۔۔۔؟یعنی ملٹری ایکشن
صرف مصر کے خلف ہوگانہ کہ اسرائیل کے خلف۔
98
ایٹمی عدم پھیلؤ کےہ معاہدےہ پر دستخط کردےہ ۔اس صورتحال
میں اسرائیل سرعام اعلن کرچکا ہے کہ وہ اپنے مخصوص حالت
کی بناءپر ایٹمی عدم پھیلؤ کےہ معاہدےہ پر دستخط نہیں
کرسکتا۔اس سب کےہ باوجود امریکہہ کی اسرائیل کےہ لئے
ہمدردیاں واضح ہیں اور و ہ اس کی ”حرکتوں“س ے اغماض برتتا
ہے۔
یہہ ایک حیرت انگیز اور تکلیف دہہ حقیقت ہےہ کہہ پاکستان جیسا
ملک جس ک ے امریکہہ کےہ سات ھ مضبوط دیرینہہ تعلقات ہیں ،اس
وقت تک اس معاہد ے پر دستخط س ے انکار کرچکا تھ ا جب تک
اس کا دشمن ہمسایہ ہ ملک بھارت اس پر دستخط نہیں
کردیتا۔مصر کی طرح پاکستان امریکہ ک ے سامن ے اس طرح نہیں
جھکاکہ وہ اس کی ہر جائز وناجائز خواہش پر ہاں کرتا رہے۔
درج بالواقعات س ے ظاہ ر ہوتا ہے ک ہ امریک ہ اسرائیل ک ے لئ ے ایک
سائبان کا سا ماحول فراہم کرتا رہتاہے تاکہ وہ مسلمانوں کے عین
مرکز میں موجود رہے۔امریک ہ کا یہ جرم دنیا ک ے تمام جرائم سے
بڑھ کر ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کردار اداکرتے ہوئے
مغربی ممالک ک ے عوام بھ ی اس ک ے سات ھ ہوت ے ہیں جو ک ہ اپنے
فیصلوں میں آزاد ہوتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ وہ صحافتی جنگ اور
موڑ توڑ کر پیش کی جانے والی خبروں سے متاثر ہوتے ہیں لیکن
بالخر و ہ اپنی حکومتوں ک ے الیکشن ک ے دوران ووٹ دیت ے ہیں ۔
اپنی حکومت خود منتخب کرتےہ ہیں اور ا س حکومت کی
پالیسیوں کو چلنےہ کےہ لئےہ ٹیکسوں کی صورت میں فنڈز
مہیاکرتےہ ہیں اور وہہ اپنےہ حکمرانوں کو اس بات کا ذمہہ دار
ٹھہرات ے ہیں ک ہ کس طرح ان فن ڈ ز کو استعمال کرت ے ہیں ۔اس
بات س ے قطع نظر کہہ ان ممالک کی حکومتیں عوام سےہ کس
طرح ووٹ حاصل کرپاتی ہیں ۔ان ممالک کےہ لوگ ووٹ ڈالنے
میں آزاد ہیں ۔مغربی ملکوں کےہ عوام کا کئی عشروں سےہ یہ
مطالب ہ رہ ا ہے اور ی ہ مطالب ہ کسی افراتفری میں وجود میں نہیں
آیا ۔یہہ اس درخت کا پھل ہےہ جسےہ صدیوں اسلم اور مسلم
دشمنی کا پانی دیا گیا ہو۔اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں مغرب
کےہ لئےہ حقیقت پسندانہہ پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہےہ ۔
ہمیں واہموں کے آسمان سے گر کر حقیقت کی سرزمین پر حملہ
نہیں کرنا چاہیے۔ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ مغرب جس کی قیادت
امریکہہ کررہا ہےہ اور امریکہہ یہودیوں کےہ قبضہہ میں ہے۔مغرب
اخلقیات اور قانونی حقوق کی زبان نہیں سمجھتا،وہ صرف اپنے
مفادات کی زبان سمجھتا ہے جس کے عقب میں وحشیانہ فوجی
99
طاقت موجود ہے تاہم اگر ہم ان سے کوئی بات چیت کرنا چاہتے
ہیں اور انہیں قائل کرناچاہتےہ ہیں توہمیں یقینا اسی زبان میں
بات کرنا پڑے گی جو زبان وہ سمجھتے ہیں۔
100
نیا منظر نامہ
ایک غیر جانبدار تجزیہہ نگار اسلمی دنیا میں عام طور پر
اورمصر میں خاص طور پر تشکیل پانے والے ایک نئے منظر نامے
کے مختلف مظاہر کو باآسانی محسوس کرسکتاہے۔
جنگوں کی عالمگیریت
اپنےہ دل میں اسلم دشمنی کا زہ ر چھپائےہ مغربی طاقتوں نے
اپنےہ دشمن کا تعین کرلیا ہےہ ۔وہہ اپنےہ دشمن کو اسلمی بنیاد
پرست کہتے ہیں۔اسلم کے خلف جنگ لڑنے کے لئے انہوں نے اپنے
پرانے حریف روس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیاہے اوراب روس
ان منصوبوں اور انہیں عملی جامہ پہنانے ک پروگرام کا ایک حصہ
ہے۔انہوں ن ے اسلم ک ے خلف جنگ کرن ے ک ے لئ ے متعدد ہتھیار تیز
کرلئے ہیں ۔ان ہتھیاروں میں :
101
بدلہ لینے کے لئے بے چین ہے ۔دنیا نت نئے مظاہر کا مشاہدہ کررہی
ہے۔موجودہہ عہ د ایک نئ ے مظہ ر کی گواہ ی دےہ رہاہے۔یہہ ایک ایسے
نوجوان مجاہدین کا مظہ ر ہے جنہوں ن ے اللہ کی راہ میں جہاد کی
غرض سےہ اپنےہ خاندان ،ملک،دولت ،تعلیم ،نوکریاں سب کچھ
چھوڑدیا۔
102
میری اس گفتگو پر کوئی مجھے روک کر ی ہ بھ ی کہہ سکتا ہے کہ
تم خود ہی اپنی بات کی تردید کررہے ہو۔اپنی زندگی کے واقعات
بیان کرت ے ہوئ ے تم ن ے کہ ا کہ جہادی تحریک ک ے کچ ھ رہنما مایوس
ہوچک ے ہیں اور اب تم بھ ی مایوسی پر مبنی بات کررہے ہو؟اس
کاجواب ساد ہ سا ہے ک ہ تمام تحریکیں مٹن ے اور نئی زندگی پانے
ک ے ایک دائر ے میں چلتی ہیں لیکن کسی بھ ی تحریک کی تقدیر
کا تعین صرف دوحقائق کرتے ہیں۔اول خاتمہ اور دوئم نشونما۔
اسلمی ایکشن میں عام طور پر اور جہادی ایکشن میں خاص
طور پر رہنمائی کا مسئل ہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور قوم کو
ایک جدید سائنسی ،منطقی اور جدوجہ د کرن ے وال ے رہنماؤں کی
ضرورت ہےہ تاکہہ یہہ قوم کی رہنمائی کرسکیں ۔یہہ جہالت کے
گھٹاٹوپ اندھیروں ،طوفان اور زلزلوں میں قوم کی انگلی پکڑ
کر اسےہ درست راستےہ پر لےہ جاتےہ ہوئےہ منزل سےہ ہمکنار
کرسکیں ۔
جدوجہد میں پوری قوم کو شریک کرنا اورانہیں متحرک کرنا اہم
ذم ہ داری ہے۔جہادی تحریک کو عوام س ے رابط ے بڑھان ے چاہئیں ۔
جہادی اپنے عوام کو بتائیں کہ یہ تحریک ان کی عزت کی حفاظت
103
اوران پر ظلم ڈھانے والوں کے خلف جنگ ہے اوریہی تحریک انہیں
فتح س ے ہمکنار کر ے گی ۔قوم کو میدان جہاد میں ایک قدم آگے
بڑھانا چاہیے ۔جہادی تحریک کو چاہیے کہ وہ لوگوں میں شعور کی
بیداری ک ے لئے اپنا علیحدہ ونگ تشکیل د ے ۔اس ونگ ک ے فرائض
میں مسلم لوگوں کو تعلیم دینا ۔خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر
حص ہ لین ے کی ترغیب دینا اور ان لوگوں ک ے خدشات کو سن کر
ان کا شافی جواب دینا شامل ہو۔ہمیں اس سلسل ے میں کسی
بھی علقے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ہمیں لوگوں کے اعتماد
اور دل جیت لینے چاہئیں ۔عوام ہم سے اس وقت تک محبت نہیں
کریں گے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ ہم بھی ان سے محبت
کرتے ہیں ۔لوگوں کو اس بات کا پکا یقین ہوناچاہیے کہ ہمیں ان کا
بہت خیال ہے اور یہ کہ ہم ان کی حفاظت کے لئے تیار ہیں ۔
اس پوری بات کاخلصہ یہ ہے کہ جنگ لڑتے ہوئے جہادی تحریک کو
عوام کےہ درمیان یا اس سےہ آگےہ ہونا چاہیےہ ۔یہہ ایک آئیڈیل
صورتحال ہے کہ تحریک آگے ہواور پوری قوم اس کے پیچھے صف
بستہہ ہو۔اس سلسلےہ میں تحریک کو بہت محتاط رہنےہ کی
ضرورت ہے کہ کسی طاقت کے خلف علم بلند کرتے ہوئے تحریک
کو عوام سےہ علیحدہہ نہیں رہنا چاہیےہ کیونکہہ تنہائی کا شکار
تحریکیں جلد مرجاتی ہیں ۔ہمیں عوام کو اس بات کا دوش نہیں
دینا چاہیے کہ وہ اس کام میں ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہمیں خود
پرالزام عائد کرنا چاہیے کہ ہم کوئی ایسا لئحہ عمل نہیں بناسکے
جس میں عوام کو شریک کرسکتےہ ہوں ۔دراصل ی ہ ہ م ہیں جو
عوام تک درست پیغام پہنچانے میں ناکام رہے ہیں ۔
104
قوم گذشت ہ دس سالوں میں اسرائیل ک ے سات ھ سات ھ امریک ہ سے
بھ ی نفرت کرن ے لگی ہے ۔اس نعر ے میں امریک ہ کو بھ ی شامل
کیا جاناچاہیے۔اگرامریک ہ ک ے خلف جہاد کی کال دی جائ ے توقوم
اس جہاد کی کال پر ضرور لبیک کہے گی ۔
افغانستان ،فلسطین اور چیچنیا ک ے واقعات پر ایک ایک طائرانہ
نظر ڈالی جائ ے توپت ہ چلتا ہے ک ہ جب کفر اور کافروں ک ے خلف
جہاد کی کال دی گئی اورکہا گیا کہہ ان ممالک کوکافروں کے
تسلط سےہ آزاد کرانےہ کامعاملہہ ہےہ توکسی طرح جہادی تحریک
کی آواز قوم ک ے رہنماؤں تک پہنچ ے گی اور ی ہ کتنی حیرت انگیز
بات ہے ک ہ و ہ سیکولر جنہوں ن ے مسلمانوں کو تباہ ی س ے دوچار
کیا ،خاص طور پر عرب اسرائیل تنازعےہ میں بھ ی مسلمانوں
کونقصان پہنچا ،وہہ بھ ی مسئلہہ فلسطین کےہ حل کی بات کرنے
لگ ے ہیں ۔اس س ے بھ ی زیاد ہ حیرت انگیز بات ی ہ ہے ک ہ مسلمان
جو ک ہ دنیا بھرمیں پس ے ہوئ ے مسلمانوں ک ے حقوق بازیاب کرانے
ک ے ہ ر دورمیں چمپئن رہے ہیں جو قوم کی رہنمائی کی طاقت
اور اہلیت رکھت ے ہیں و ہ فلسطین ک ے مسئل ے پر عوام میں بات
کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔
فلسطین کو آزاد کرانےہ کےہ لئےہ اب جہاد کےہ مواقع میں اضافہ
ہوچکا ہے ۔تمام سیکولر جنہوں نے فلسطین ک ے مسئل ے پر ہمیشہ
زبانی جمع خرچ سے کام لیا اور اسلمی تحریکوں کا مقابلہ کیا ،
ان کےہ عزائم اب مسلمانوں پر ظاہر ہوچکےہ ہیں کیونکہہ وہ
اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرچکے ہیں ۔یہ بات اب پوری دنیا کو
تسلیم کرلینی چاہیے کہ مراکوسے لے کر انڈونیشیا تک مسلمانوں
کےہ دلوں میں گذشتہہ پچاس سالوں سےہ مسئلہہ فلسطین کانٹے
کی طرح کھٹک رہا ہے۔
105
دہشت بن سکتےہ ہیں ۔اسلمی تحریک کو عام طور پر جہادی
تحریک کو خاص طور پر عوام میں بیداری کی مہم کا آغاز کردینا
چاہیے ۔
106
کے پاس عملی طور پر زمین کا ایک ٹکڑانہ ہو جس پر وہ خلفت
کا نظام قائم کرسکے ۔
مسلم دنیاکےہ وسط میں ایک بنیاد پرست ریاست کےہ قیام
کاخواب کوئی آسان کام نہیں ہے اورن ہ ہ ی کوئی ایسا مقصد ہے
جس ے فوری طور پر حل کیاجاسک ے لیکن ی ہ مسلم دنیا کی ایک
شدید آرزو ہے کہ وہ دوبارہ خلفت کا نظام قائم کریں اور یوں وہ
اپنی کھوئی ہوئی شان وشوکت اور ماضی کی عظمت دوبارہ
حاصل کرسکیں ۔جہادی تحریک کو حوصلےہ اورصبر کا مظاہرہ
کرتےہ ہوئےہ اپنا ڈھانچا قائم کرنا چاہیےہ اور اسےہ تب تک احتیاط
کرنی چاہیےہ جب تک یہہ تحریک مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں
ہوجاتی ۔اسےہ فی الحال وسائل جمع کرنےہ چاہئیں اورحمایت
حاصل کرنی چاہیےہ اور پھر احتیاط کےہ ساتھہ میدان جنگ کا
انتخاب کرنا چاہیے ۔
یہاں ایک نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کا سوال جنم لیتا ہے کہ اگر
تحریک کےہ منصوبےہ قبل از وقت افشاءہوجائیں تو اس صورت
میں کیا کرنا چاہیےہ ۔اگر اس کےہ ممبر گرفتار ہوجائیں ،تحریک
کامستبقل داؤ پرلگ جائےہ ،بڑےہ پیمانےہ پر اس کےہ کارکنوں کی
گرفتاریوں کا سلسل ہ شروع ہوجائ ے ،اس ک ے وسائل اور فنڈ ز کو
روک دیا جائےہ اور اس کےہ رہنماؤں کو ٹارگٹ بنایا جائےہ توپھر
تحریک کو کیا کرنا چاہیے ؟
107
حملے کرنے پڑیں گے ۔دوسرایہ کہ ہمیں ان حکمرانوں کے عوام کو
سامنےہ لنا ہوگا جو یہودیوں کےہ معاملت میں دلچسپی لےہ رہے
ہیں اور آخری یہ کہ اگر ہمارا مقصد واضح ہے تو ہمیں کسی بھی
صورتحال سے مایوس نہیں ہوناچاہیے ۔ہمیں کبھی بھی ہتھیار نہیں
پھینکنےہ چاہئیں ۔اس کےہ لئےہ ہمیں چاہےہ کتنی بھ ی بڑی قربانی
کیوں نہ دیناپڑے ،ہمیں جان لینا چاہیے کہ ریاستوں کو اچانک زوال
نصیب نہیں ہوتا ۔
108
فتح س ے ہمکنار ہونا چاہتی ہے تواس ے جتنی جلدی ممکن ہوسکے
اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرلینا چاہیے ۔
109
جنگ ہے جس کی تپش ہمارے گھروں میں پہنچ چکی ہے ۔عوام کو
آگے بڑھنے کے لئے جن چیزوں کی ضرور ت ہے وہ درج ذیل ہیں :
ایک ایسی قیادت جس پر وہہ اعتماد کرسکیں ،جس
کی بات کو و ہ سمج ھ سکیں اور جس ک ے پیچھے و ہ چلن ے کو تیار
ہوں ۔
انٹرنیٹ ایڈیشن
مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان
http://www.muwahideen.tk
info@muwahideen.tk
110
111