You are on page 1of 111

1

‫ی ہ کتاب کہاں س ے آئی ؟ی ہ ایک دلچسپ کہانی ہے ۔تاہ م سب سے‬


‫پہلے یہ حقیقت قارئین کو بتادی جائے کہ اسامہ بن لدن کے نائب‬
‫اور دنیا کےہ سب سےہ مطلوب ترین فرد کی یہہ آپ بیتی کتابی‬
‫صورت میں پہلی بار سامن ے آرہی ہے یہ کتاب دنیا کی کسی بھی‬
‫زبان میں ابھی تک شائع نہیں ہوئی ۔افغانستان میں امریکی‬
‫حملےہ سےہ قبل ڈاکٹر ایمن الظواہری اپنی یہ ی آپ بیتی لکھنے‬
‫میں مصروف تھے ۔اپنی آپ بیتی لکھت ے وقت ایمن الظواہری یہ‬
‫سوچ رہے تھے ک ہ اس کتاب کو کوئی پبلیشر شائع کرن ے ک ے لئے‬
‫تیار نہیں ہوگا۔ایمن الظواہری نے یہ بات جن حالت وواقعات اور‬
‫مشکلت کو دیکھتےہ ہوئےہ لکھ ی ‪،‬ہوسکتا ہےہ انہوں نےہ اپنی جگہ‬
‫درست لکھا ہو لیکن ”فیکٹ“کو یہ کتاب کسی نہ کسی طرح آپ‬
‫کے ہاتھوں میں پہنچانے کا کا شرف حاصل ہورہا ہے۔‬

‫یہہ کتاب ایمن الظواہری کےہ بہ ت سےہ ”اعترافات “پر مبنی ہے‬
‫جنہیں عوام کے سامنے لیا جانا ضروری تھا ۔اس کتاب کا مسودہ‬
‫ایمن الظواہری کےہ ایک قریبی ساتھ ی ”اےہ ایس“(کوڈہ نام)کو‬
‫قندھار کے قریب ایک غار سے مل۔یہ کم وبیش وہی وقت تھا جب‬
‫افغانستان پر امریکہہ نےہ حملہہ کیا اور ایمن الظواہری سمیت‬
‫القاعد ہ ک ے جنگجوؤں کو فرار ہوناپڑا ۔”ا ے ایس“ن ے اس مسودے‬
‫کو لندن پہنچادیا۔‬

‫ایمن الظواہری نےہ اس کتاب کا نام ”‪Knights Under Prophet‬‬


‫‪“Banners‬رکھاتھا‪،‬جسےہ اس بناءپر” مقدس جنگ“کانام دیا گیا‬
‫کیونکہہ ایمن الظواہری نےہ پوری کتاب کا خلصہہ مدنظر رکھتے‬
‫ہوئے یہ نام رکھا تھا لیکن امریکی حملے نے انہیں یہ مہلت نہ دی کہ‬

‫‪2‬‬
‫وہہ اس کتاب کو پایہہ تکمیل تک پہنچاسکیں ۔تاہم انہوں نےہ یہ‬
‫انتظام ضرور کردیا کہہ جو کچھہ انہوں نےہ لکھہ لیا ہےہ وہہ محفوظ‬
‫ہاتھوں میں پہنچ جائے۔‬

‫ایمن الظواہری اپنی اس آپ بیتی کےہ علوہہ بھی ”‪Bitter‬‬


‫‪“Harvest‬نامی ایک اور کتاب لکھ چکے ہیں۔اس کتاب کو انہوں نے‬
‫مصری تنظیم مسلم برادر زہڈ اور اسلمی گروپ کی ناکامیوں‬
‫کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔‬

‫ایمن الظواہری کی اس آپ بیتی کو ا ُن کی آخری وصیت‬


‫یاجہادیوں کےہ لئےہ ایک ”ہدایت نامہ“بھی کہا جاسکتاہےہ ۔ایمن‬
‫الظواہری نےہ اس میں اپنی زندگی کےہ مختلف مراحل‪،‬جہادی‬
‫سرگرمیوں اور واقعات کو بیان کرنےہ کےہ علوہہ اسلمی جہادی‬
‫تحریکوں ک ے ارتقاءاور نتائج پر تفصیل س ے روشنی ڈالی ہے۔اس‬
‫کتاب میں ایمن الظواہری ن ے انورسادات ک ے قتل ک ے منصوبے‬
‫س ے ل ے کر اسلم آباد ک ے مصری سفارت خان ے میں بم دھماکے‬
‫کروان ے تک جہاد اور دہشت گردی کی تمام گرہیں کھول کر رکھ‬
‫دی ہیں اور اس ک ے سات ھ ہ ی ی ہ بھ ی بتادیا ہے ک ہ جہادی تحریکوں‬
‫کو اس بدلتی ہوئی صورتحال میں اب کیا کرنا چاہئ ے ؟ی ہ فیصلہ‬
‫کرنا قارئین کاکام ہےہ کہہ یہہ کتاب ایمن الظواہری کی آخری‬
‫وصیت ہے یا ”مجاہدین “کے نام ہدایت نامہ۔۔۔۔۔۔؟‬

‫مقبول ارشد‬
‫‪Email:maqboolarshad@fact.com.pk‬‬

‫‪3‬‬
‫مترجم نوٹ‬
‫امریک ہ پر ‪11‬ستمبر ک ے حملوں ک ے بعد امریکی حکام ن ے القاعدہ‬
‫کے مشتبہ افراد کی جو فہرست جاری کی‪،‬اس میں پہل نام اسامہ‬
‫بن لدن کا جبکہہ دوسرانام ایمن الظواہری کا ہےہ ‪،‬جسے‬
‫القاعدہہ کا دماغ کہ ا جاتا ہے۔ایمن الظواہری کےہ بارےہ میں بہت‬
‫کم شائع ہوا ہے اسی لئے لوگ ان کے بارے میں کم جانتے ہیں۔‬

‫ایمن الظواہری پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور مصر کے ایک‬


‫ایسےہ خاندان سےہ تعلق رکھتےہ ہیں جسےہ ڈاکٹروں کاخاندان‬
‫کہاجائ ے توب ے جان ہ ہوگا کیونک ہ اس خاندان میں ‪40‬ڈاکٹر ہیں۔ایمن‬
‫الظواہری ‪d 1951‬ءمیں قاہرہہ کےہ ایک جنوبی علقےہ سعدی میں‬
‫پیدا ہوئے۔سعدی کالونی ‪1906‬میں برطانی ہ ن ے آباد کی تھ ی ۔اس‬
‫علقےہ میں تقریبا ً نصف درجن زبانیں بولی اور سمجھ ی جاتی‬
‫تھیں اور ی ہ علق ہ اپن ے تحمل اور رواداری کی بناءپر مشہور تھ ا ۔‬
‫یہاں پچاس کےہ عشرےہ تک ملی جلی آبادی رہتی تھ ی ۔مختلف‬
‫نسلوں کےہ ایک جگہہ اکھٹےہ ہونےہ کی وجہہ سےہ یہہ علقہہ نہایت‬

‫‪4‬‬
‫پرکشش علقہہ بن گیا تھا۔یہاں مصر کےہ دونہایت اعلیٰہ تعلیمی‬
‫ادارےہ قائم تھےہ ۔یہہ دواسکول قاہرہہ امریکن کالج اور فرنچ کالج‬
‫فرانسیں آج بھی ایسے تعلیمی اداروں میں سرفہرست ہیں جہاں‬
‫داخلہ لینا جوئےشیر لنے کے مترادف ہے۔‬

‫ایمن الظواہری نےہ ابتدائی تعلیم ایک سستےہ سرکاری اسکول‬


‫میں حاصل کی ۔بعدازاں انہوں نےہ ڈاکٹری کا امتحان امتیازی‬
‫حیثیت سےہ پاس کیا۔الظواہری جب ڈاکٹر بنےہ تو ان کےہ والد‬
‫ڈاکٹر محمد ربیع الظواہری کی عین الشمس یونیورسٹی میں‬
‫فارماکالوجی کے شعبے میں ڈپٹی چیئر مین کے عہدے پر فائز تھے‬
‫۔الظواہری کےہ چچا محمدالظواہری ملک کےہ معروف ماہر‬
‫امراض جلد ہیں جبکہہ ان کےہ ایک چچا قاہرہہ یونیورسٹی کے‬
‫اسکول آف میڈیسن کے سابق ڈین رہے ہیں ۔اس کے علوہ ان کے‬
‫خاندان کے نصف درجن افراد جامعۃ الزہر میں طب کی پریکٹس‬
‫کرتےہ ہیں ۔جرمنی کی معروف دواساز کمپنی ہوئسٹ کی‬
‫مصری شاخ کےہ سینئر ایگزیکٹوان کےہ قریبی عزیز ہیں۔ایمن‬
‫الظواہری ک ے خاندان ک ے متعدد لوگ بطور سرجن اور ڈینٹسٹ‬
‫خلیجی ریاستوں میں کلینک اور ہسپتال چلرہےہ ہیں ایمن کی‬
‫تین میں س ے دوبہنوں ن ے بھ ی میڈیکل کا شعب ہ اختیار کیا اور ان‬
‫کی شادیاں بھی ڈاکٹروں سے ہوئیں۔‬

‫ایمن الظواہری خاموش طبع انسان تھے جو سر سے لے کر پاؤں‬


‫تک مذہب میں ڈوبےہ ہوئےہ تھےہ ۔ایمن کےہ نانا ڈاکٹر محمد‬
‫عبدالوہاب محمد عزام جوانی ک ے ایام میں طلب ہ ک ے ایک گروپ‬
‫کے ہمراہ اسکالر شپ پر برطانیہ گئے ‪،‬وہاں انہیں مصری سفارت‬
‫خان ے میں بطور مبلغ تعینات کردیا گیا ۔عبدالوہاب عزام جمعیت‬
‫الخوان اسلمیہہ کےہ بانی اورپہلےہ صدر منتخب ہوئےہ پھر انہیں‬
‫پاکستان میں سفیر مقرر کردیا گیا ۔ریٹائرمنٹ پر ریاض (شاہ‬
‫السعود) یونیورسٹی کے قیام کا پراجیکٹ ان کے سپرد کیا گیا۔وہ‬
‫اس کے پہلے ایدمنسٹریٹر بنے ۔جنوری ‪1959‬ءمیں ان کے انتقال پر‬
‫سعودی شاہی خاندان نےہ ان کی خدمات کو شاندار خراج‬
‫تحسین پیش کیا۔ایمن کی خوش قسمتی رہی کہ انہیں ننھیال اور‬
‫ددھیال دونوں جانب سےہ علمی وادبی ماحول میسر آیا۔دونوں‬
‫خاندانوں نےہ نابغہہ روزگار شخصیات پیداکیں الظواہری جب‬
‫سعدی میں رہائش پذیر تھےہ توان کےہ ایک دادا ایک کزن‬
‫عبدالرحمن حسن عزام پاشا بھی ان ک ے گاؤں منتقل ہوگئ ے جن‬
‫سے الظواہری نے بہت کچھ سیکھا ۔‬

‫‪5‬‬
‫‪1975‬ءمیں جب مصری صدر انور سادات کی معاشی پالیسیاں‬
‫دنیا بھ ر کو دعوت د ے رہ ی تھیں تو اس وقت ایمن الظواہری‬
‫میڈیکل کی تعلیم سےہ فارغ ہورہےہ تھےہ ۔‪70‬ءکی دہائی میں جب‬
‫انور سادات کی امریکی پالیسیاں عروج پر تھیں تو ان کے‬
‫اقدامات کو مستحسن نگاہوں سےہ نہہ دیکھاگیا اور کالجوں سے‬
‫ابھرنے والی تحریک نے پھیل کر مصری معاشرے اور سیاست کو‬
‫اتھل پتھل کردیا ۔اس زمانےہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے‬
‫اتحادسے ہ مسلم ثقافت اور قدروں کو جونقصان پہنچ رہا‬
‫تھا‪،‬اچانک اسلم ان کے خلف ایک مضبوط اور طاقتور حریف کے‬
‫طور پر اترا اور یہودیوں کے اقدامات کا توڑ پیش کیا۔‬

‫‪1981‬ءمیں ایمن الظواہری ‪،‬سادات حکومت کےہ خلف سازش‬


‫اور ان کےہ قتل میں ملوث تنظیم الجہاد کےہ ساتھہ رابطوں کے‬
‫الزام میں قید کئے جاچکے تھے۔ایمن الظواہری نے اپنی تین سالہ‬
‫اسیری کے دوران ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا روپ دھار لیا۔وہ‬
‫عزم وعمل میں راسخ ہوچکےہ تھےہ حالنکہہ مصری جیل خانے‬
‫ایسی جگہیں ہیں جہاں اکثر قیدی سیکولر ذہ ن لےہ کر باہ ر آتے‬
‫ہیں۔ایمن الظواہری نےہ اپنا کلینک بند کردیا اور سعودی عرب‬
‫چلے گئے ۔‬

‫سعودی عرب س ے الظواہری ن ے پاکستان کارخ کیا اور پاکستان‬


‫میں کلینک کھول لیا اور افغان مہاجرین کےہ لئےہ مفت طبی‬
‫سہولیات فراہم کرنا شروع کیں ۔یہ وہ دور تھا جب افغانستان پر‬
‫روسی فوجیں قبضے ہ کے ہ لئے ہ افغانیوں سے ہ برسر پیکار‬
‫تھیں۔افغانستان میں افغان مہاجرین کےہ علج کےہ دوران ہ ی ان‬
‫کی ملقات اسامہ بن لدن سے ہوئی ۔‬

‫ایمن الظواہری نےہ اپنی دینی اورمذہبی پس منظر کےہ باعث‬


‫‪70‬ءسےہ ہ ی اسلمی تحریکوں کےہ لئےہ کام شروع کردیا تھ ا اور‬
‫جہاد کےہ لئ ے ارکان کا چناؤ بھ ی اسی سلسل ے کی کڑی تھی۔وہ‬
‫اپنی کم عمری ہ ی سےہ ایسےہ معاملت سےہ منسلک تھےہ ۔بین‬
‫القوامی تجزیہہ نگاروں کےہ مطابق القاعدہہ کو جس ذہانت کے‬
‫ساتھہ چلیا جارہا ہےہ وہہ درحقیقت اسامہہ بن لدن کےہ دست‬
‫راست ایمن الظواہری کی ہے ہ ۔الظواہری نےاپنی تنظیم‬
‫اسلمی جہاد کو ‪1998‬ءمیں القاعدہ ہ میں ضم کردیا۔ایمن‬
‫الظواہری دوسرےہ فرد ہیں جنہوں نےہ ‪1998‬ءمیں امریکیوں کے‬

‫‪6‬‬
‫خلف اسام ہ بن لدن کی جانب س ے دیئ ے گئ ے مشہور فتوی ٰ پر‬
‫دستخط کئے تھے ۔‬

‫‪11‬ستمبر کےہ حملوں کےہ بعد جاری ہونےہ والی ویڈیو ٹیپوں میں‬
‫اسام ہ بن لدن ک ے سات ھ دکھائی دیئ ے ۔امریک ہ میں ان پر افریقہ‬
‫میں واقع امریکی سفارت خان ے کو بم س ے اڑان ے کی فرد جرم‬
‫عائد ہے اور مصر میں انہیں غیر موجودگی میں ہی سزائے موت‬
‫سنائی گئی ہے۔‬

‫الظواہری نےہ ان خطرناک حالت میں اپنی آپ بیتی کیوں‬


‫لکھی؟میرےہ خیال میں ظواہری اس آپ بیتی کےہ ذریعےہ اپنے‬
‫دشمنوں کو پیغام دینا چاہتا ہے۔عام حالت میں ایمن الظواہری‬
‫اپنےہ خاندان کےہ دیگر لوگوں کی طرح ایک کامیاب ڈاکٹر ہوتا‬
‫لیکن اچانک ان ک ے خیالت میں تبدیلی پیدا ن ہ ہوتی۔ظواہری نے‬
‫اپنی راہہ کیوں تبدیل کی؟اس کا ذہ ن کیوں بدل؟ایک ڈاکٹر اس‬
‫راستےہ پر کیوں چل نکل جس کےہ ہر سنگ میل پر اسےہ اپنے‬
‫خاندان اور بچوں کی قربانیاں دینی پڑیں؟یہہ سب حالت ایمن‬
‫الظواہری نے اپنی آپ بیتی میں تفصیل سے بیان کئے ہیں ۔مجھے‬
‫یہہ کتاب برادرم مقبول ارشد نےہ ترجمےہ کےہ لئےہ دی تو ان کی‬
‫خواہ ش تھی ک ہ ایمن الظواہری کی اس آپ بیتی اور اعترافات‬
‫کو ریکار ڈ پر لیاجائ ے ک ہ ان کا پرزور اصرار فوری طور پر اس‬
‫کتاب کے ترجمے کا باعث بنا۔‬

‫ارشد علی لہور‬


‫‪Email: arshadfd@yahoo.com‬‬

‫ابتدائیہ‬
‫میں ن ے ی ہ کتاب کیوں لکھی ؟صرف اس لئ ے کہ اس کا لکھا جانا‬
‫مج ھ پر فرض ہوچکا تھ ا ۔ی ہ آئند ہ نسلوں کا مج ھ پر قرض تھ ا جو‬
‫آج میں نے چکادیا ہے۔میں نے اپنی زندگی کی کہانی عمر کے اس‬
‫حص ے میں قلمبند کرن ے کو اس لئ ے ترجیح دی ک ہ شاید میں جن‬
‫مسائل اور پریشانیوں میں گھرا ہوا ہوں آئند ہ حالت مزید بدتر‬
‫ہوجائیں اور بدلتی ہوئی اس صورتحال میں میرے لئے یہ ممکن نہ‬

‫‪7‬‬
‫رہے ہ کہ ہ میں اپنے ہ حالت زندگی اور اپنے ہ خیالت آپ تک‬
‫پہنچاسکوں کیونکہ زندگی اور موت ایک دوسرے سے آنکھ مچولی‬
‫کھیلنے میں مصروف ہیں ۔‬

‫میں نےہ یہہ کتاب لکھہ تو لی ہےہ لیکن میرا خیال ہےہ کہہ کوئی‬
‫پبلشراسےہ شائع کرنےہ کےہ لئےہ تیار نہیں ہوگا اور نہہ ہی کوئی‬
‫ڈسٹری بیوٹر اس کتاب کو تقسیم کرنے پر رضامند ہوگا۔یہی وجہ‬
‫ہے کہ کچھ لوگ اس کتاب کو میری ”آخری خواہش“کی نظر سے‬
‫دیکھہ رہےہ ہیں ۔میں نےہ یہہ کتاب اس لئےہ بھ ی لکھنا چاہ ی کہہ آنے‬
‫والی نسلیں اسے پڑھیں اور ا س پر عمل کریں ۔جن حالت میں‬
‫‪،‬میں گھرا ہواہوں شاید زیادہہ نہہ لکھہ سکوں ۔لمحہہ بہہ لمحہہ بدلتے‬
‫حالت اور پریشان کن صورتحال میں مجھےہ معروف عرب‬
‫شاعر کی ایک نظم دیا آتی ہے ۔‬

‫دوستوں کے بغیر ایک اجنبی‬


‫جس بستی میں بھی جاتا ہے‬
‫وہ جب عظیم ہونے کی خواہش کرتا ہے‬
‫تو اس کی مدد کرنے والوں کی تعداد‬
‫آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے‬
‫اور پھر وہ۔۔۔۔‬
‫اکیلرہ جاتا ہے !‬
‫تنہااجنبی!!!‬

‫ی ہ کتاب میں ن ے صرف دوقسم ک ے لوگوں ک ے لئ ے لکھی ہے ۔ایک‬


‫دنیا بھرک ے دانشوروں ک ے لئ ے ‪،‬دوسرا مجاہدین ک ے لئے۔اسی لئے‬
‫میں نے اس کتاب میں آسان زبان میں بات کی ہے ‪،‬صاف صاف‬
‫لکھا ہے اور زبان کی نزاکتوں میں پڑنے کی بجائے ایک سادہ انداز‬
‫اختیا رکیا ہے ۔‬

‫افغانستان کے حالت کی وجہ سے میں اس کتاب کے لئے ضروری‬


‫دستاویزات اکٹھ ی نہیں کرسکا جو ضروری ہوتی ہیں ۔میں یہاں‬
‫اس بات کی نشان دہ ی بھ ی کرنا ضروری سمجھتا ہوں ک ہ میں‬
‫ایک عہد کا پابند ہوں اور اس عہد کی وجہ سے کچھ لوگوں کے نام‬
‫اس کتاب میں نہیں لکھ سکا کیونکہ وہ ابھی حالت جنگ میں ہیں‬
‫اور بہت سے کردار میدان کارزار میں نئی تاریخ رقم کررہے ہیں ۔‬

‫‪8‬‬
‫میں ن ے قارئین کو اس جنگ ک ے حقائق کی پس پرد ہ کہانی بیان‬
‫کرنےہ کی کوشش کی ہےہ تاکہہ یہہ کتاب پڑھنےہ والےہ اپنےہ خفیہ‬
‫اورکھل ے دشمن کوپہچان لیں۔وہ یہ پہچان کرسکیں کہ بھیڑی ے کون‬
‫کون سے ہیں اور لومڑیاں کون ہیں !تاکہ وہ خود کو ایسے ڈاکوؤں‬
‫سے بچاسکیں جو ان کا سب کچھ چھیننا چاہتے ہیں۔‬

‫ایمن‬
‫الظواہری‬

‫باب نمبر ‪1‬‬


‫دور دراز ک ے ملکوں کا سفر شاید میرےہ مقدر میں لک ھ دیا گیا‬
‫تھا۔میں قاہر ہ ک ے ایک کلینک السید ہ زینب میں اپن ے ایک ساتھی‬
‫فزیشن سے ہ ملنے ہ جایا کرتا تھا۔یہ ہ کلینک اسلمی میڈیکل‬
‫سوسائٹی کےہ زیر انتظام تھا اور اس سوسائٹی کو ”مسلم‬
‫برادرز“نامی ایک تنظیم چلتی تھی۔اس کلینک ک ے ڈائریکٹر ایک‬
‫مسلم بھائی ن ے مجھے ایک دن افغانستان جاکر وہاں ریلیف کی‬
‫کوششوں میں ہاتھہ بٹانےہ کوکہا۔میں او رمیرا ساتھی فوراً‬
‫افغانستان جان ے پر رضامند ہوگئے۔میں ن ے سوچا ک ہ ی ہ ایک ایسا‬
‫موقع ہے جو مجھے جہادی سرزمین میں ل ے جائ ے گا ۔وہاں ر ہ کر‬
‫مصر میں جہاد کیا جاسکتا ہے۔‬

‫افغانستان ۔۔۔اسلمی دنیا کادل ۔۔۔جہاں اسلم کی بنیادی جنگ‬


‫لڑی جارہی تھی۔میں اور میرےہ دوساتھی ڈاکٹر ‪1980‬ءمیں‬
‫پاکستان کےہ سرحدی شہ ر پشاور پہنچ گئےہ ۔پشاور میں موسم‬
‫گرما کی جھلسا دینےہ والی گرمی نےہ ہمارا استقبال کیا ۔ہمارا‬
‫تین ڈاکٹروں کا گروپ افغان مہاجرین کےہ علج معالجےہ میں‬
‫مصروف ہوگیا۔‬

‫‪9‬‬
‫ہمارا اصل مقصد افغان مہاجرین کو طبی سہولتیں فراہ م کرنے‬
‫ک ے سات ھ سات ھ اسلم آباد میں واقع امریکی سفارت خان ے کو بم‬
‫سے اڑانا تھا اور اگر یہ ہمارے لئے ممکن نہ ہوتا تو پھر ہمارا مقصد‬
‫پاکستان میں کسی اور امریکی ادارےہ کو نشانہہ بنانا تھا۔ہ م نے‬
‫اسلم آباد میں امریکی سفارت خانےہ پر حملےہ کےہ امکان کا‬
‫جائز ہ لیا توہمیں محسوس ہوگیا ک ہ امریکی سفارت خان ے پر بم‬
‫مارنا ہماری صلحتیوں سےہ ماوراءہےہ ۔افغانستان جانےہ کا موقع‬
‫مجھے ایک سون ے کی پلیٹ میں رک ھ کر پیش کیا گیا کیونک ہ میں‬
‫مصر میں جہادی کاروائیوں کے لئے ایک محفوظ بیس کیمپ کی‬
‫تلش میں تھا کیونکہہ وہاں بنیاد پرست تحریک کےہ ارکان کو‬
‫گرفتار کرن ے ک ے لئ ے چھاپ ے مار ے جارہے تھے ۔یہاں میں اپن ے ایک‬
‫پران ے دوست ابوعبید ہ البنشیری کی ایک بات آپ کو سنانا چاہتا‬
‫ہوں ۔ابوعبید ہ القاعد ہ ک ے سابق ملٹری کمانڈ ر تھے۔وہہ ‪1996‬ءمیں‬
‫وکٹوریہہ جھیل میں ڈوب گئےہ تھےہ ۔ابوعبیدہہ کہتےہ تھےہ ”جب میں‬
‫افغانستان پہنچا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میری عمر‬
‫میں مزید سو سال کا اضافہ ہوگیا ہے“۔‬

‫افغانستان جاکر میں السنانیری کےہ بارےہ میں سنا جس ے حسن‬


‫ابوباشانے ہ تشددکرکے ہ مارڈالتھا۔´ابوباشا حکومتی سیکورٹی‬
‫انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر ہے جو بعد ازاں وزیر داخلہ‬
‫مقرر ہوا۔اگرچہہ میں ذاتی طور پر السنانیری کو نہیں جانتا تھا‬
‫لیکن اس کے ہونے کی گواہی نے پشاور اور افغانستان میں جہاں‬
‫بھ ی ہ م گئ ے ہمارا استقبال کیا۔لوگ ہ ر جگ ہ اس کی باتیں کرتے‬
‫نظر آتےہ تھےہ ۔ابوطلل القاسمی نےہ جو کہہ اسلمک گروپ کے‬
‫ترجمان ہیں بتاتےہ ہیں کہہ السنانیری کو امریکہہ نےہ کروشیا سے‬
‫اغواکیا اور ‪1980‬ءکے وسط میں مصر کے حوالے کردیا۔مصر میں‬
‫ابوطلل اور السنانیری جب جیل میں تھےہ تو دونوں کی‬
‫کوٹھریاں ساتھ ساتھ تھیں ۔‬

‫میں نےہ پشاور میں چار ماہہ قیام کیا او ر محسوس کیا کہ‬
‫افغانستان جہادی سرگرمیوں کے لئے کتنی آئیڈیل سرزمین ہے اور‬
‫اگریہاں سے جہاد کی تحریک شروع کی جائے تو اس کی کامیابی‬
‫یقینی ہوگی‪،‬پھ ر میں مصر واپس چلگیا جہاں مجھے پکڑکر جیل‬
‫میں ڈال دیا گیا۔مج ھ پر الزام تھاک ہ میں ن ے سادات ک ے قتل کی‬
‫منصوب ہ بندی کی ہے ۔میں مصر ک ے اندر ہ ی ایک محفوظ جہادی‬
‫مرکز کےہ بارےہ میں سوچتا رہتا تھا کیونکہہ مصری سیکورٹی‬

‫‪10‬‬
‫فورسز ک ے دست ے اکثر میر ے پیچھے پڑ ے رہت ے تھے ۔مصر کی سر‬
‫زمین ہموار اورمیدانی تھی ۔اس طرح اس سرزمین پر حکومتی‬
‫کنٹرول آسان تھا۔دریائے نیل بھی دوصحراؤں کے درمیان بہتا ہے ۔‬
‫اس کےہ علوہہ وہاں کوئی سبزہہ یا پانی نہیں ہے۔اس طرح کی‬
‫میدانی سرزمین گوریل جنگ کے لئے مناسب نہیں ہوتی ‪،‬اسی لئے‬
‫مصر میں گوریل جنگ ممکن ہ ی نہیں۔اسی لئ ے وادی ک ے لوگوں‬
‫کو حکومت زبردستی فوج میں شامل کرلیتی ہےہ اور بطور‬
‫فوجی کارکن ان کا استحصال کیاجاتا ہے۔دباؤ کاماحول گھٹن کو‬
‫جنم دیتا ہےہ او رجب گھٹن زیادہہ ہوجاتی ہےہ توآتش فشاں پھٹ‬
‫پڑت ے ہیں اورگرم اورزہریل لوا اُبل پڑتا ہے اور اس آتش فشاں‬
‫کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں جو زمین کو ہلکررکھ دیتے ہیں۔اس‬
‫تمام عمل میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔‪1940‬ءسے‬
‫اسلمی تحریک مختلف حکومتی دباؤ کا شکار رہی ہے ۔‬

‫اس لئےہ جب مجھےہ افغان مہاجرین کےہ لئےہ بطور ڈاکٹر اپنی‬
‫خدمات سرانجام دین ے کا موقع ملتومجھے لگا ک ہ میر ے خوابوں‬
‫اورخواہشات کو دیکھتےہ ہوئےہ شاید یہہ دورہہ پاکستان میرےہ مقدر‬
‫میں لکھ دیاگیا تھا۔اب میں آپ کو تفصیل کے ساتھ اپنی پاکستان‬
‫آمد کا حال بتاتاہوں۔جب مجھےہ افغان مہاجرین کی بحالی کے‬
‫کاموں کی خاطر میڈیکل کی سہولیات دین ے ک ے لئ ے پشاور جانے‬
‫کی دعوت ملی تومجھےہ یوں محسوس ہوا کہہ میراایک دیرینہ‬
‫خواب پورا ہونے وال ہے ۔میں نے یہ دعوت فورا ً قبول کرلی ۔میں‬
‫نےہ سوچا کہہ یہہ ایک بہترین موقع ہےہ کہہ میں مصر میں اپنی‬
‫کاروائیوں کےہ لئےہ ایک محفوظ کیمپ تک رسائی میں کامیاب‬
‫ہوجاؤں گا۔ی ہ صدر انوالسادات کادورِحکومت تھا۔صدر سادات نے‬
‫قومی معاملت کو اس طرح چلنا شروع کیا کہہ اب ایک نئی‬
‫صلیبی جنگ کے آثار نمودار ہونے والے ہیں۔‬

‫میں نےہ اپنےہ ایک دوست جو ایک انستھیزسٹ ہے (آپریشن سے‬


‫قبل نشہ آور دوا یا ٹیک ے س ے ب ے ہوش کرن ے کا ماہ ر ڈاکٹر)تھا‪،‬کے‬
‫ہمراہہ پاکستان کےہ شہر پشاور پہنچا۔جلد بھی ہمارا ایک تیسرا‬
‫ساتھی ڈاکٹر بھی ہم سےہ آمل جو پیشےہ کےہ لحاظ سےہ ایک‬
‫سرجن تھا اور پلسٹک سرجری کے امور میں مہارت رکھتا تھا۔ہم‬
‫پہلے تین عرب ڈاکٹر تھے جو افغان مہاجرین کے جسمانی دکھوں‪،‬‬
‫زخموں کا علج کررہےہ تھے۔ہمیں پشار لےہ جایا گیا ۔ہمیں قدم‬
‫قدم پر کمال السنانیری ک ے نشانات دکھائی دیتے۔اس ن ے افغان‬
‫مہاجرین کےہ لئےہ ایک ہسپتال قائم کیا تھا۔وہہ افغانستان کے‬

‫‪11‬‬
‫مہاجرین کے لئے صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا بانی تھا۔اس‬
‫کےہ بنائےہ گئےہ ہسپتال میں ہم نےہ دیگر ڈاکٹردوستوں کےہ ساتھ‬
‫اکھٹےہ مل کرکام کیااور یہیں ہماری ملقات مجاہ د رہنماؤں سے‬
‫ہوئی ۔مجاہ د رہنما کمال السنانیری کی بہ ت تعریف کرت ے تھے کہ‬
‫انہوں ن ے مجاہ د رہنماؤں کو اکٹھ ا کرن ے میں اور ان کی رہنمائی‬
‫کرن ے میں ایک اہ م کردار ادا کیا۔اگرچ ہ میں اس ے کبھ ی نہیں مل‬
‫لیکن قدم قدم پر ان کی سخاوت اورنیکی ک ے کام مجھے نظر‬
‫آتے جو اس نے اپنے خدا کو خوش کرنے کے لئے کئے تھے۔اس میں‬
‫کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ کمال السنانیری کو صدر سادات‬
‫کی ہلکت ک ے بعد پکڑ دھکڑ کی مہ م میں ہ ی قتل ہوجانا چاہیے‬
‫تھالیکن ڈائریکٹر اسٹیٹ سیکورٹی انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ‬
‫حسن ابوباشا نے اسے حراست میں لے کر تشددکرکے شہید کیا ۔‬
‫کمال کو ستمبر ‪1981‬ءمیں گرفتارکیاگیا تھااورجب اسی سال‬
‫صدرسادات کو اکتوبر ک ے مہینےہ میں قتل کیا گیا توحکومت نے‬
‫محسوس کیا کہ حکومت کا سیکورٹی انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ ‪،‬‬
‫ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس کےہ دیگر ادارےہ ملک میں‬
‫موجود بے چینی کی حرارت ماپن ے میں مکمل طور پر ناکام رہے‬
‫ہیں۔‬

‫اسٹیٹ سیکورٹی انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کو صدر سادات نے‬


‫اپنے سیاسی مخالفین اورمذہبی عناصر کو کچلنے میں لگائے رکھا‬
‫۔سادات کا خیال تھا کہ ستمبر ‪1981‬ءمیں کئے جانے والے آپریشن‬
‫کےہ نتیجےہ میں مصراس کےہ سیاسی مخالفین اورمذہبی عناصر‬
‫سےہ پاک ہوگیا ہےہ ۔اسی وجہہ سےہ انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ نے‬
‫”مسلم برادرز“ ک ے خلف تحقیقات نئ ے سر ے س ے شروع کرنے‬
‫س ے پرہیز کیا کیونک ہ انہیں ی ہ احساس جرم ستا رہاتھ ا ک ہ پہل ے ہی‬
‫”مسلم برادرز“ کےہ خلف غلط کاروائی کی گئی ہے۔قبل ازیں‬
‫کی گئی تحقیقات دوسرےہ اور تیسرےہ درجےہ کی قیادت تک‬
‫محدود رہیں۔ان میں جو معروف لیڈر تھےہ ان میں کمال‬
‫السنانیری بھ ی تھے ۔حکومت ن ے مسلم برادرز ک ے رہنما عمر ال‬
‫تلمسانی کو بھی حراست میں لے کر سزا دینے پر غور کیا ۔عمر‬
‫ایک معمر فرد تھےہ ۔حکومت نےہ بعد ازاں یہہ سوچا کہہ وہہ تشدد‬
‫برداشت نہیں کرپائیں گےہ اور اگر ان کو کچھہ ہوگیا تو یہہ بات‬
‫حکومت کے لئے مشکلت کا باعث بنے گی۔‬

‫حکومت ک ے علم میں ی ہ بھ ی تھ ا ک ہ ”مسلم برادرز“ ک ے تمام تر‬


‫معاملت عمر کےہ ہاتھہ میں نہیں ہیں بلکہہ اس میں کمال بھی‬

‫‪12‬‬
‫ملوث ہے جو ”مسلم برادرز“ کی مصر کی شاخ کا عالمی تنظیم‬
‫سے رابطے کا ذمہ دار ہے اور رابطے سے متعلقہ امور کی نگرانی‬
‫بھی کرتا ہے ۔کمال اس مقصد کے لئے بہت زیادہ بیرون ملک سفر‬
‫کرتا تھا۔اس نےہ افغان کاز کی حمایت کی اور افغانستان میں‬
‫جہاد کو واپس لنےہ اور اس کےہ رہنماؤں کےہ آپس میں رابطے‬
‫کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‬

‫مسلم برادرز کاایک مخصوص قسم کا تنظیمی ڈھانچ ہ تھا۔عوام‬


‫کے سامنے بظاہر عمر اس کے جنرل گائیڈ تھے ۔حکومت اور عوام‬
‫انہیں ہ ی ”مسلم برادرز“ کا اصل قائد خیال کرتی رہی۔حقیقت‬
‫میں اس کی اصل لیڈ ر شپ ’اسپیشل آرڈ ر گروپ“ ک ے ہات ھ میں‬
‫تھ ی جس میں مصطفی مشہود۔ڈاکٹر احمدالملط اور کمال‬
‫شامل تھےہ ۔اس ڈھانچےہ کےہ بارےہ میں حکومت کو جب اطلع‬
‫ملی تو اسےہ پورا یقین ہوگیا کہہ اگر ”مسلم برادرز“ کی کوئی‬
‫خفیہ تنظیم ہے تو اس کے سارے راز کمال کے علم میں ہوں گے ۔‬

‫کمال کو گرفتارکرنے ک ے بعد انتہائی وحشیانہ طریق ے س ے تفتیش‬


‫کا آغاز کیا گیا ۔کمال پر ڈھائ ے جان ے وال ے ظلم وستم کی کہانی‬
‫مجھے القلعہ جیل میں ڈاکٹر عبدالمنعم اور ابوالفتح نے سنائی ۔یہ‬
‫دونوں میری میڈیکل اسکول کے زمانے کے دوست تھے ۔جیل میں‬
‫ہماری بیرکیں آمنے سامنے تھیں ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ کمال کو‬
‫ایک جیل سےہ دوسری جیل میں منتقل کرتےہ ہوئےہ لیمان طرہ‬
‫جیل میں اس کےہ بھائیوں سےہ ملوایا گیا ۔جب اسےہ عدالت‬
‫میںپیش کیاگیا تو اس کا جسم جگہ جگہ سے جل ہوااور سوجا ہوا‬
‫تھا اور اس پر بہیمانہ تشدد کے واضح نشانات تھے ۔کمال نے اپنے‬
‫دوستوں کو بتایا کہ اس پر اتنا تشدد کیاگیا جتنا جمال عبدالناصر‬
‫کے دور میں بھی نہ کیاگیا ۔کمال نے عدالت کو بتایا کہ اس پر بے‬
‫انتہاءتشدد کیا گیا ہے ۔‬

‫کچ ھ عرص ے بعد عبدالمنعم اور عبدالفتح کو جیل ک ے ایک سپاہی‬


‫ن ے بتایا ک ہ تشدد کرک ے ان ک ے ایک ساتھ ی کو ہلک کردیا گیا۔بعد‬
‫ازاں انہیں اپنے ذرائع سے پتہ چل کہ وہ کمال ہی تھا جو اس بہیمانہ‬
‫تشدد سے ہلک ہوگیا تھا۔وزات داخلہ نے ایک سرکاری اعلن میں‬
‫بتلیا ک ہ کمال ن ے جیل میں اپن ے سیل میں اپن ے ازار بند کو گلے‬
‫میں ڈال کر اسےہ پانی وال ے پائپ کےہ ساتھہ کس کر خود کشی‬
‫کرلی اور مرنے سے پہل ے اس نے جیل کی دیوار پر لکھ ا ک ہ ”میں‬
‫اپن ے بھائیوں کو بچان ے ک ے لئ ے خود کو قتل کررہ ا ہوں“ کمال کے‬

‫‪13‬‬
‫سیل ک ے سات ھ بالکل سات ھ وال ے سیل ک ے ایک قیدی ن ے جو اس‬
‫تشدد کا چشم دید گواہہ تھا مجھےہ بتایا کہہ آخری رات اس پر‬
‫وحشیانہ تشدد کیاگیا تھا جس کے نتیجے میں کمال ہلک ہوگیا۔‬

‫ایک عجیب بات یہ تھی کہ ”مسلم برادرز“ کو اس بات کا علم تھا‬


‫ک ہ اس ے ب ے پنا ہ تشدد کرک ے ہلک کیا گیاتھ ا لیکن ”مسلم برادرز‬
‫“نے اس کے قتل کا انتقام نہ لیا۔حتیٰ کہ انہوں نے تشدد کے نتیجے‬
‫میں والی اس موت کےہ ذمہہ دار افراد کےہ خلف عدالت میں‬
‫مقدمہ تک دائر نہ کیا ‪،‬حالنکہ اس ک ے قتل میں ملوث بعض لوگ‬
‫بڑےہ معروف تھےہ اور انہیں عدالت کےہ کٹہرےہ میں لکر سزا‬
‫دلوائی جاسکتی تھ ی ۔کمال اپنےہ قدموں پر چل کر جیل میں‬
‫داخل ہواتھ ا اور پھ ر جیل س ے اس کی نعش ہ ی نکلی ۔جیل کا‬
‫سپرنٹنڈنٹ ‪،‬محکمہہ جیل اور وزارت داخلہہ اس کےہ قتل کی ذمہ‬
‫دارتھی۔اس کی نعش کا پوسٹ مارٹم بھی نہ کروایاگیا اور اسے‬
‫دفن کرنے کے بعد اس کی خودکشی کی ایک جعلی کہانی گھڑی‬
‫گئی اور سرکاری میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی گئی ۔‬

‫‪1980‬ءمیں جب میں افغان جہاد ک ے میدان میں پہنچا تو میں نے‬


‫اس جہاد کی طاقت کو محسوس کیا ک ہ یہ بہ ت زبردست ہے اور‬
‫کس طرح اس سےہ مسلم قوم کو عام طور پر اور جہاد ی‬
‫تحریک کو خاص طور پر فائدہہ پہنچےہ گا ۔میں اس میدان جنگ‬
‫س ے فائد ہ اٹھان ے کی اہمیت کو جان گیا تاہ م اپن ے پہل ے دور ے کے‬
‫چار ماہ بعد واپس چلگیا۔میں دوبارہ ‪1981‬ءمیں واپس آیا اور یہاں‬
‫مزید دوماہہ گزارےہ ۔میرےہ گھریلوحالت نےہ مجبور کرکےہ مجھے‬
‫دوبارہ واپس مصر پہنچادیا۔اللہ کی شاید یہی مرضی تھی کہ مجھے‬
‫تین سال مصری جیل میں گزارنے پڑے۔میری قید ‪1984‬ءمیں ختم‬
‫ہوئی لیکن میں اپنی ذاتی گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے دوسال‬
‫تک افغان جہاد کےہ میدان جنگ میں واپس نہہ آسکا۔پھر میں‬
‫‪1986‬ءکے وسط میں افغانستان پہنچ گیا۔‬

‫میدان جنگ میں جولوگ سرگرم عمل تھے ان س ے رابطوں اور‬


‫تعلقات کےہ دوران متعدد ضروری حقائق مجھہ پر آشکار ہوئےہ ‪،‬‬
‫یہاں انہیں بیان کرنا ضروری ہے ۔‬

‫اول‪ :‬ایک جہادی تحریک کو ایسےہ علقےہ کی ضرورت ہوتی ہے‬


‫جوک ہ ایک ”انکوبیٹر“ کاکام کرسک ے ۔جہاں اس ک ے بیج اگیں اور‬

‫‪14‬‬
‫جہاں لڑائی ‪،‬سیاست اور دیگر تنظیمی امور کا عملی تجربہ‬
‫کیاجاسکے ۔اس لئے برادر ابوعبیدہ البنشیری کہتے تھے ‪:‬‬
‫”افغانستان آنے سے میری عمرمیں سوسال کا اضافہ ہوگیاہے“۔‬

‫دوم‪ :‬افغانستان کے مسلم نوجوان خالص اسلمی نعرے کے تحت‬


‫مسلم زمین آزاد کران ے ک ے لئ ے جنگ کررہے تھے۔یہ ایک بڑی جان‬
‫دار حقیقت تھی۔چونک ہ مسلم دنیا میں جو بہ ت سی جنگیں لڑی‬
‫گئی ہیں وہہ مختلف نعروں کےہ تحت لڑی گئیں ۔بعض میں‬
‫نیشنلزم کو اسلم ک ے سات ھ ملیا گیا جبک ہ بعض میں بائیں بازو‬
‫اورکمیونسٹ نعروں کو شامل کیا گیا ۔اس سے مسلم نوجوانوں‬
‫میں یہ احساس پیدا ہواکہ ان کا اسلمی جہاد کا نظریہ خالصتا ً اللہ‬
‫ک ے دین کی سربلندی کا ہونا چاہی ے اور اس دین ک ے عملی نفاذ‬
‫کا۔‬

‫فلسطینی معاملہ ان ملوٹ زدہ نعروں اورنظریات کی ایک مثال‬


‫ہےہ کہہ انہوں نےہ خود کو شیطان کےہ ساتھہ منسلک کرلیا اور‬
‫فلسطین کھودیااور ایک ضروری معاملہہ وہہ حقیقت ہےہ کہہ جو‬
‫جنگیں غیر مسلم بینر ک ے تل ے لڑی گئیں یا مختلف نظریات کے‬
‫تحت لڑی گئیں ۔انہوں نےہ دشمنوں اور دوستوں کےہ مابین ایک‬
‫واضح لکیر کھینچ دی ۔مسلم نوجوان اپن ے دشمن ک ے بار ے میں‬
‫بےہ یقینی کا شکار ہوگئےہ کہہ کیا غیر ملکی دشمن تھ ا جس نے‬
‫مسلم علقے پر قبضہ کیا یا اپناہم وطن ہی دشمن تھا کہ جس نے‬
‫اسلمی شریعت سے حکومت پر پابندیاں عائد کیں۔مسلمانوں پر‬
‫ظلم ڈھائےہ اور ترقی پسندی‪،‬آزادی اور قوم پرستی کےہ نعروں‬
‫کےہ ذریعےہ بداخلقی کو فروغ دیا ۔اس صورتحال نےہ وطن کو‬
‫تباہی کے دہانے پرلکھڑاکیا اور غیر ملکی دشمن کے سامنے ہتھیار‬
‫ڈالے گئے ۔بالکل اسی طرح کی صورتحال آج کل نیو ورلڈآرڈر کے‬
‫نعروں کے تحت متعدد عرب ممالک کی ہے ۔‬

‫روسیوں کے خلف جنگ‬


‫افغانستان میں صورتحال واضح تھی۔ایک مسلمان قوم اسلم‬
‫کےہ جھنڈےہ تلےہ جہا د میں مصروف تھی ۔یہہ مسلمان قوم ایک‬
‫ایس ے حمل ہ آورس ے مقابل ہ کررہ ی تھ ی جس کی پشت پناہ ی ایک‬
‫مرتد حکومت کررہ ی تھ ی ۔افغانستان کا میدان جنگ روس کے‬
‫انخلءک ے بعد ان قوتوں ک ے خلف جہاد کی ایک عملی مثال بن‬
‫گیا ۔جنہوں نےہ اسلم دشمن غیر ملکیوں کےہ ساتھہ اتحاد‬

‫‪15‬‬
‫کرلیاتھا۔اس کی ایک واضح مثال نجیب اللہہ تھ ا جسےہ ہ م دیکھ‬
‫چکے ہیں‪ ،‬وہ نماز پڑھتا‪ ،‬روزے رکھتااور اس نے فریضہ حج بھی ادا‬
‫کررکھاتھا۔اس کے باوجود اس نے حکومت میں اسلم کے نفاذ پر‬
‫پابندی لگادی اور اسلم دشمن قوتوں کے ساتھ اتحاد کرکے انہیں‬
‫اپنےہ ملک میں آنےہ کی دعوت دی اور پھران کےہ ساتھہ مل کر‬
‫انتہائی وحشیانہ طریقے سے مسلمانوں اور مجاہدین کو دبایا۔‬

‫ایک اور اہم نکت ہ یہ ہے کہ افغانستان میں جہادی جنگوں نے مسلم‬


‫نوجوانوں کے ذہن میں سپر پاور کے امیج کونقصان پہنچایا۔مسلم‬
‫نوجوانوں ن ے دنیا کی ایک سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال‬
‫کر اس ک ے ہتھیاروں اور فوج کامقابل ہ کیا اور پھ ر اس ے شکست‬
‫فاش دی۔ان نوجوانوں نےہ روس کےہ بھاری توپ خانےہ کو اپنی‬
‫آنکھوں سے تباہ ہوتے دیکھا ۔یہ جہاد ایک ٹریننگ کورس ثابت ہوا ۔‬
‫اس کی اہمیت ی ہ تھ ی ک ہ اس ن ے اکیلی ر ہ جان ے والی سپر پاور‬
‫امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے والے مجاہد تیار کرنے تھے‬
‫۔‬

‫افغانستان کے ٹریننگ کیمپ نے عرب مجاہدین‪ ،‬پاکستانی‪ ،‬ترک ‪،‬‬


‫وسطی اور مشرقی ایشیاء ک ے مسلمان نوجوانوں کو موقع دیا‬
‫کہ وہ آپس میں ملیں اور اسلم دشمن کے خلف جہاد کی تربیت‬
‫حاصل کریں۔اس طرح مجاہد نوجوان اور جہادی تحریکوں کا‬
‫آپس میں رابطہ ہوا۔انہوں نے ایک دوسرے سے مہارتیں حاصل کیں‬
‫اور یہہ بھ ی سیکھ ا کہہ مختلف حالت میں مسائل کو کیسےہ حل‬
‫کرنا ہےہ جبکہہ امریکہہ نےہ اس دوران پاکستان اور مجاہدین کے‬
‫مختلف گروپوں کو مالی امداد اور اسلح ہ فراہ م کیا جبک ہ عرب‬
‫مجاہدین کا امریک ہ ک ے سات ھ تعلق قطعی مختلف تھا۔ان نوجوان‬
‫عرب افغانوں کی افغانستان میں موجودگی اوران کی تعداد‬
‫میںاضافہ دراصل امریکی پالیسی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے اور‬
‫یہ امریکی سیاسی حماقت کا ایک معروف ثبوت ہے۔‬

‫عرب مجاہدین نےہ اپنےہ جہاد کو عطیات تک محدود نہہ رکھ ا بلکہ‬
‫اس ے مسلمانوں ک ے عطیات بھی دلوائے۔اسامہ بن لدن ن ے مجھے‬
‫عربوں کے عطیات کے بارے میں بتایا کہ دس سال میں دوسوبلین‬
‫ڈالر کےہ فوجی ساز وسامان کی صورت میں موصول ہوئے۔آپ‬
‫اندازہہ لگائیےہ کہ ہ عرب ذرائع سےہ غیر فوجی شعبوں مثلً‬
‫ادویات‪،‬صحت ‪،‬تعلیم‪ ،‬وکیشنل ٹریننگ ‪،‬خوراک ‪،‬سماجی بہبود‬
‫(بشمول بچوں ‪،‬بیواؤں اور جنگ میں زخمی ہونےہ والوں کو‬

‫‪16‬‬
‫اپنالینا) کےہ شعبوں میں کس قدر امداد عرب ذرائع سےہ آتی‬
‫ہوگی۔ان عطیات میں و ہ خصوصی عطیات بھ ی شامل کرلیجئے‬
‫جو کہ عید الفطر ‪،‬عیدا لضحیٰ اور رمضان کے مہینے میں خوراک‬
‫کی صورت میں آتے تھے۔اس غیر سرکاری ذرائع سے حاصل ہونے‬
‫وال ے عطیات سے عرب مجاہدین نے ٹریننگ سنٹر قائم کئے۔انہوں‬
‫ن ے ایس ے محاذ قائم کئ ے جہاں ہزاروں عرب مجاہدوں کو تربیت‬
‫دی گئی ‪،‬انہیں مسلح کیاگیا اور انہیں گھر ‪،‬سفر کے لئے خرچ اور‬
‫تنظیمی امور کے لئے بھی عطیات مہیا کئے گئے۔‬

‫اسامہ بن لدن کے محافظوں کی‬


‫تبدیلی‬
‫اگر عرب مجاہدین امریک ہ ک ے اجرتی قاتل ہیں اور جس طرح یہ‬
‫الزام دیاجاتاہے ک ہ انہوں ن ے امریک ہ ک ے خلف بغاوت کی توامریکہ‬
‫انہیں دوبار ہ کیوں نہیں خرید سکتا؟کیا اب و ہ اسامہ بن لدن کو‬
‫اپنےہ سروں پر لٹکتی تلوار کی طرح محسوس نہیں کرتےہ ؟‬
‫کیاانہیں خریدنا دفاع اور سیکورٹی پر خرچ کی جان ے والی رقم‬
‫سے زیادہ سستا نہیں پڑے گا؟‬

‫امریکی حسب عادت مبالغہہ آمیزی اور سطحیت سےہ کام لیتے‬
‫ہوئے لوگوں ک ے توہمات فروخت کررہے ہیں اور بنیادی حقائق کو‬
‫فراموش کررہے ہیں ۔کیایہ ممکن ہے کہ اسامہ بن لدن افغانستان‬
‫میں ایک امریکی ایجنٹ ہے ؟جس ن ے ‪1987‬ءمیں اپنی ایک تقریر‬
‫میں اس ساز وسامان کا بائیکاٹ کا کہا تھا جو امریکہہ نے‬
‫فلسطین میں برسرپیکار انتفادہہ کی حمایت کیلئےہ بھیجاتھ ا ۔کیا‬
‫ایسا شخص امریکی ایجنٹ ہوسکتا ہے؟‬

‫مجھے یاد ہے کہ ان دنوں اسامہ بن لدن نے پشاور میں کویت کے‬


‫عطیےہ سےہ تیار ہونےہ والےہ ہسپتال کےہ دورےہ کےہ موقع پر اپنی‬
‫تقاریرک ے بار ے میں ہ م س ے گفتگو کی تھ ی ۔مجھے یاد ہے ک ہ میں‬
‫نےہ ان سےہ کہاتھا کہہ آپ اپنی حفاظت کےہ لئےہ کئےہ جانےہ والے‬
‫طریق ہ کارکو تبدیل کریں۔آپ فوری طور پر اپن ے حفاظتی نظام‬
‫میں تبدیلیاں لئیں کیونک ہ اب امریک ہ اور یہودیوں کو آپ کا سر‬
‫چاہیے۔اب کمیونسٹ اور روسی آپ کےہ دشمن نہیں بلکہہ اس‬
‫سرفہرست میں امریکہ اور یہودیوں کو بھی شامل کرلیجئ ے ۔آپ‬
‫سانپ کے سر کو کچل رہے ہیں اس لئے آپ کو ہوشیار رہنا چاہیے‬
‫۔‬

‫‪17‬‬
‫علوہ ازیں کیا یہ ممکن ہے کہ عبداللہ عزام شہید امریکہ کا معاون‬
‫ہو؟جبکہ اس نے نوجوانوں کو کبھی منع نہ کیا جو امریکہ کے خلف‬
‫دیگر نوجوانوں کو ترغیب د ے رہے تھے اور اس ن ے ہ ر ممکن حد‬
‫تک حماس کی مدد کی ۔کیا یہہ ممکن ہےہ کہہ مصر میں جہادی‬
‫تحریک امریکہ ہ کے ہ تعاون سے ہ چلئی گئی ہو ؟جبکہ ہ خالد‬
‫السلمبولی اور اس ک ے ساتھیوں ن ے انورالسادات کو اس وقت‬
‫قتل کیا جبک ہ ابھ ی عرب مجاہدین کی افغانستان میں آمدشروع‬
‫نہ ہوئی تھی۔‬

‫دراصل امریک ہ پر یہ حقیقت آشکارا ہوگئی تھ ی ک ہ عرب افغانوں‬


‫اور افغان مجاہدین ن ے جو ک ہ کھر ے دل ک ے مالک تھے ‪ ،‬امریکی‬
‫اسکیم کو ناکام بنادیا ہےہ ۔امریک ہ اس جنگ کو روس ک ے خلف‬
‫جنگ چاہتاتھ ا لیکن الل ہ تعالی ٰ ن ے عرب مجاہدین کو جہاد کا بھول‬
‫ہوا سبق یاددلدیا۔اس وجہ سے امریکہ بوسنیا ہرز گوینیا میں اس‬
‫خطرے سے خبردار تھا ۔ڈٹین معاہدے کے نفاذ کی اولین شرط یہی‬
‫تھی کہہہہ تمام عرب مجاہدین کو بوسنیا سےہہہ نکال‬
‫دیاجائے۔افغانستان کے میدان جنگ میں مسلمانوں خاص طور پر‬
‫عرب مجاہدین کی موجودگی ن ے افغانستان کو ایک مقامی اور‬
‫علقائی مسئلےہ سےہ نکال کر اسےہ ایک عالمی اسلمی مسئلہ‬
‫بنادیا تھا۔‬

‫پاکستان میں مصری سفارت خانےہ کوکیوں‬


‫اڑایاگیا؟‬
‫پاکستان س ے عرب مجاہدین ک ے انخلءک ے بعد مصر کی حکومت‬
‫نےہ پاکستان میںایک شیر کی طرح کا رویہہ اختیار کرلیا۔مصری‬
‫حکومت کی پشت پر امریکہہ تھ ا جس کا پاکستان پر بہ ت اثر‬
‫تھا۔قبل ازیں ‪1950‬ءک ے عشر ے س ے مصری حکومت ک ے پاکستان‬
‫کے ساتھ تعلقات انتہائی برے تھے کیونکہ مصر کی حکومت مسئلہ‬
‫کشمیر کےہ ضمن میں ہمیشہہ بھارت کا ساتھہ دیتی تھی۔جمال‬
‫عبدالناصر کی حکومت ک ے دنوں میں حکومت کا مسئل ہ کشمیر‬
‫پر موقف یہ تھا کہ یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔‬

‫مصری حکومت نےہ پاکستان میں عربوں کا تعاقب کیا۔خاص‬


‫طور پر ان مصری شہریت رکھن ے والوں کا جو ک ہ پاکستان میں‬
‫تھےہ ۔صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہہ اسلم آباد کی انٹرنیشنل‬

‫‪18‬‬
‫اسلمک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنےہ والےہ ایک مصری‬
‫طالب علم کو جو کہہ قانونی طور پر پاکستان میں مقیم تھا‬
‫اورقانونی طور پر طالب علم تھ ا ‪،‬اس ے ملک بدر کردیا گیا۔علوہ‬
‫ازیں دوایسے مصریوں کو جو پاکستانی لڑکیوں سے شادی کرکے‬
‫پاکستانی شہریت حاصل کرچکےہہہ تھےہہہ ‪،‬انہیں گرفتار‬
‫کرلیاگیا۔پاکستانی حکومت امریکہہ اور مصرکےہ سامنےہ اس حد‬
‫تک جھک گئی ک ہ اس نے ان مصریوں کو پاکستانی عدالتوں میں‬
‫پیش کرنے سے پہلے ہی انہیں مصر کے حوالے کردیا اور اس طرح‬
‫پاکستانی قانون اور آئین کی توہین کی گئی ۔‬

‫مصری حکومت کی مصر میں بنیاد پرستی ک ے خلف مہ م میں‬


‫وسعت اب مصر کی حدود سےہ نکل کر باہربھی پھیل گئی‬
‫تھی۔اب وقت کا تقاضا تھا کہ مصر کواس کا جواب دیاجائے۔اس‬
‫وج ہ س ے ہ م ن ے فیصل ہ کیا ک ہ جواب میں ہمیں ایس ے ہدف کو تباہ‬
‫کرنا چاہی ے جس س ے اس نفرت انگیز اتحاد کو زک پہنچ ے ۔کچھ‬
‫غور وخوض کے بعد ہم نے ایک ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جوکہ‬
‫یہ جواب دے ۔اسے ہم نے ہدایت کی یہ وہ درج ذیل اہداف کو نشانہ‬
‫بنائے۔‬

‫اول‪ :‬پاکستان میں امریکی سفارتخان ے کو نشان ہ بنایاجائ ے اوراگر‬


‫ی ہ ممکن ن ہ ہ و تو ملک میں امریک ہ ک ے کسی اور ہدف کو تبا ہ کیا‬
‫جائےہ اور اگر یہہ بھ ی ممکن نہہ ہ و توپھ ر مسلمانوں سےہ تاریخی‬
‫نفرت رکھنےہ والےہ کسی مغربی ملک کےہ سفارتخانےہ کو تباہ‬
‫کیاجائ ے اور اگر یہہ بھ ی ممکن نہہ ہ و توپھ ر پاکستان میں مصری‬
‫سفارت خان ے کو تباہ کردیاجائ ے ۔امریکی سفارت خان ے کی تباہی‬
‫کا جائز ہ لیاگیا تو پت ہ چلک ہ اس کی سخت نگرانی کی جاتی ہے ‪،‬‬
‫چنانچ ہ ی ہ فیصل ہ ہوا ک ہ امریکی سفارت خان ے کو تبا ہ کرنا ٹیم کی‬
‫صلحیت سےہ باہر ہےہ چنانچہہ اسلم آباد کےہ اندرہی ایک اور‬
‫امریکی ٹارگٹ کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیاگیا لیکن کڑی نگرانی کے‬
‫بعد جائزہ لیاگیا کہ اس سے صرف چند امریکی ہی مریں گے جبکہ‬
‫زیادہ تر ہلکتیں پاکستانیوں کی ہوں گی۔‬

‫اس دوران جاسوسی کے ذریعے یہ عقدہ بھی کھل کہ کسی مغربی‬


‫سفارتخانے کو تباہ کرنا ٹیم کی صلحتیوں سے باہر ہے تاہم بالخر‬
‫یہ حتمی فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میںمصری سفارت خانے کو تباہ‬
‫کردیا جائےہ جو کہہ نہہ صرف پاکستان میں عرب ‪،‬افغانوں کی‬
‫گرفتاری کی مہم شروع کئےہ ہوئےہ ہےہ بلکہہ عرب افغانوں کے‬

‫‪19‬‬
‫خلف جاسوسی بھی کررہاہے۔بعد ازاں پاکستانی سیکورٹی‬
‫ایجنسیوں نے سفارت خانے کی تباہی کے بعد ملبے سے سے ایسے‬
‫کاغذات اپن ے قبض ے میں لئ ے جن س ے ی ہ عقد ہ کھل ک ہ جاسوسی‬
‫کےہ شعبےہ میں مصر اور بھارت ایک دوسرےہ سےہ تعاون کررہے‬
‫تھے ۔‬

‫حملےہ سےہ قبل ٹیم کو پیغام دیاگیا کہہ اگر انہیں مزید رقم دی‬
‫جائےہ تو وہہ مصر کےہ سفارتخانےہ کےہ ساتھہ ساتھہ امریکی سفات‬
‫خانہہ بھ ی تباہہ کرسکتےہ ہیں۔ہ م جو دےہ سکتےہ تھےہ دیا تاہ م ‪،‬مزید‬
‫رقم نہیں دےہ سکےہ جس کی وجہہ سےہ ٹیم نےہ مصری سفارت‬
‫خانےہ کی تباہی پر اپنی توجہہ مبذول کئےہ رکھی اور اسےہ ایک‬
‫دھماک ے س ے اڑا دیا ۔دھماک ے ن ے سفارتخان ے کی عمارت ک ے ملبے‬
‫کوایک واضح پیغام میں تبدیل کردیاتھا۔‬

‫باب نمبر ‪2‬‬

‫ماضی پر ایک نظر‬


‫مصر میں جہادی تحریک اس وقت شروع ہوئی جب ناصر کی‬
‫حکومت نےہ ”مسلم برادر ہڈ“(ایم بی)کےہ خلف ‪1965‬ءمیں مہم‬
‫شروع کی۔ایم بی ک ے تقریبا ً ستر ہ ہزار اراکین کو جیلوںمیں ڈال‬
‫دیا گیا اور ایم بی کے نمایاں مفکر سید قطب شہید اور اس کے‬
‫دوساتھیوں کو تخت ہ دار پر لٹکادیا دیاگیا اور اس عمل س ے قبل‬
‫حکومت ن ے سوچاک ہ اس ن ے مصر میں اسلمی تحریک کو ہمیشہ‬
‫کے لئے کچل دیا ہے لیکن اللہ گواہ ہے کہ یہ واقعات مصر میں جلتی‬
‫پر تیل پھینکنے کا باعث بنے اور ان واقعات نے حکومت کے خلف‬
‫جہادی تحریک کے شعلے کو اور بھی بھڑکادیا۔‬

‫سید قطب شہید‬


‫سید قطب کو مکمل یقین تھا کہ اسلم میں مسلمانوں کے اتحاد‬
‫کا مسئلہ بنیادی اور اہم ہے اور مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے‬
‫مابین جنگ ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہےہ ۔یہہ جنگ دراصل فیصلہ‬
‫کرتی ہےہ کہہ اصل طاقت اور حکمرانی کس کی ہے؟اللہہ کے‬
‫قوانین کی یا انسان کے بنائے ہوئے قوانین کی۔سید قطب کے اس‬

‫‪20‬‬
‫عقیدے نے اسلمی تحریکوں کو ان کے اصل دشمن پہنچاننے میں‬
‫مدد دی۔اس نےہ اس حقیقت کو جاننےہ میں بھی مدد دی کہ‬
‫اندرونی دشمن بیرونی دشمن سےہ کم خطرناک نہیں اور یہہ کہ‬
‫اندرونی دشمن دراصل ایک بیرونی دشمن کے ہتھیار کے طور پر‬
‫کام کررہا تھا اور ی ہ ک ہ ی ہ اس کی ایک ڈھال بن گیا تھا اور ی ہ ایک‬
‫پردہ تھا جس کے پیچھے اصل دشمن نے اسلم کے خلف جنگ کو‬
‫چھپالیا تھا۔‬

‫سید قطب کےہ گرد جمع ہونےہ والوں نےہ حکومت کو اس کی‬
‫اسلم دشمن حرکتوں سے باز رکھنے کا ایک پروگرام ترتیب دیا ۔‬
‫گروپ نےہ یہہ پروگرام بنایا کہہ حکومت کو احساس دلیاجائےہ کہ‬
‫اس کی حرکتیں اسلم کے خلف ہیں ۔حکومتی پالیسیاں اللہ کی‬
‫شریعت کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔اس گروپ کا پروگرام‬
‫انتہائی سادہ تھا۔ ان کا یہ پروگرام ہرگز نہ تھا کہ حکومت کو نکال‬
‫باہ ر کیا جائ ے اور قیادت کا ایک خلءتشکیل دیا جائ ے بلک ہ ان کا‬
‫پروگرام یہہ تھا کہہ حکومتی اقدامات کےہ خلف مزاحمت کی‬
‫جائے ‪،‬اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جائیں ‪،‬مدافعانہ حکمت‬
‫عملی اختیار کی جائے اور اگر مسلمانوں کو دبانے کے لئے کوئی‬
‫مہم چلے تو اس کے خلف مزاحمت کی جائے ۔‬

‫اس گروپ کےہ پلن کےہ پیچھےہ ایک عظیم نظریہہ تھ ا ‪،‬گوکہہ اس‬
‫گروپ کی طاقت اورتعداد کم تھ ی ۔لیکن نظریہہ چھوٹا نہہ تھ ا ۔‬
‫نظری ہ ی ہ تھاک ہ اسلمی تحریک اپنی طاقت اور صلحیت ک ے ساتھ‬
‫اس حکومت کےہ خلف ایک جنگ کا آغاز کرچکی ہےہ کیونکہ‬
‫موجودہہ حکومت اسلم کےہ خلف ہےہ اگرچہہ حکومت نےہ سید‬
‫قطب ک ے گروپ ک ے افراد کو حراست میں لے لیا ‪،‬انہیں ہراساں‬
‫کیا گیا ‪،‬انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیا لیکن حکومت سید قطب کے‬
‫گروپ کو مسلم نوجوانوں میں پھیلن ے س ے ن ہ روک سکی ۔سید‬
‫قطب اپن ے الل ہ ک ے وفادار تھے اور الل ہ کوہ ی سپریم طاقت خیال‬
‫کرتےہ تھےہ ۔یہہ تحریک ایک ایسی چنگاری تھ ی جس نےہ اسلمی‬
‫تحریک ک ے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو باآور کرادیا تھ ا ک ہ یہ‬
‫چنگاری ایک دن کسی اسلمی انقلب کا پیش خیمہہ ثابت‬
‫ہوگی۔اس انقلب ک ے خونی باب ایک ایک کرک ے لکھے جات ے رہے‬
‫اور اس انقلب کا نظریہ اور بھی راسخ ہوتا چلگیا۔پروفیسر سید‬
‫قطب نےہ بیسویں صدی کےہ دوسرےہ نصف میں مصر کے‬
‫نوجوانوں کو خاص طور پر اور خطے کے عرب نوجوانوں کو عام‬
‫طور پر سیدھے راستے پر لنے میں اہم کردار ادا کیا ۔‬

‫‪21‬‬
‫سید قطب کی سزائےہ موت کےہ بعد ان کی تعلیمات نے‬
‫مصرمیں نوجوانوں کو جتنا متاثر کیا اتنا اثر کسی اور مسلم‬
‫اسکالر کی تعلیمات کاکبھی نہیں ہوا۔وہ الفاظ جو سید قطب نے‬
‫اپنےہ خون سےہ تحریر کئےہ تھےہ وہہ مسلم نوجوانوں کےہ لئےہ ایک‬
‫ن راہہ بن گئےہ اور مسلم نوجوانوں کو یہ‬ ‫شاندار منزل کےہ نشا ِ‬
‫احساس ہواک ہ ناصر کی حکومت اور اس ک ے کمیونسٹ ساتھی‬
‫سید قطب کے اتحاد کے پیغام سے کتنا خائف تھے۔‬

‫سید قطب وفاداری اور انصاف ک ے سات ھ لگاؤ کی ایک بھرپور‬


‫مثال بن گئے۔اس ن ے ظالم حکمران جمال عبدالناصرک ے سامنے‬
‫سچ بول اور پھ ر اس ک ے عوض اپنی جان قربان کردی۔اس کے‬
‫الفاظ اور قیمتی ہوگئے جب اس نے جمال عبدالناصر سے معافی‬
‫مانگنے سے انکار کردیا ۔‬

‫سید قطب نے کہا ”وہ شہادت کی انگلی جو ہر نماز میں اللہ کی‬
‫وحدت کا اعلن کرتی ہے ایک ظالم حکمران س ے معافی مانگنے‬
‫کا انکار کرتی ہے “۔ناصر کی حکومت ن ے محسوس کیا ک ہ سید‬
‫قطب اور اس کےہ ساتھیوں کی سزائےہ موت اور ہزاروں‬
‫ساتھیوں کی حراست اور قید سے اسلمی تحریک کچلی گئی ہے‬
‫لیکن ان کی شہادت نے اسلمی جہادی تحریکوں کے جو بیج بوئے‬
‫تھے اس ن ے مصر میں جدید اسلمی جہادی تحریک ک ے پود ے کو‬
‫پروان چڑھایا۔‬

‫ظالم حکمران جس ن ے اپنی تقاریر میں اپنےہ دشمنوں کو ڈرایا‬


‫دھمکایا بالخر ایک عزت بچانے والے حل کی جانب چل پڑا۔جمال‬
‫عبدالناصر کی وفات کے بعد حکومت کو ایک زبردست دھچکا لگا‬
‫حالنک ہ تین سال قبل ہ ی اس ے اپنی شکست ک ے واضح آثار نظر‬
‫آنا شروع ہوگئ ے تھے ۔ناصر کی موت ک ے بعد عرب نیشنلزم کے‬
‫رہنماءکا نظری ہ بھ ی اس کی موت ک ے سات ھ ہ ی چلگیا۔عبدالناصر‬
‫کی موت ایک فرد کی موت ن ہ تھ ی بلک ہ ی ہ اس ک ے اصولوں کی‬
‫موت تھ ی جو ک ہ عملی میدان میں ناکام ہوگئ ے تھے۔اس ک ے بعد‬
‫ایک اور حکمران آیا جس نےہ اپنی باری لی اور نئےہ واہمے‬
‫فروخت کرنےہ شروع کردیئے۔کچھہ سالوں کےہ بعد عام مصریوں‬
‫ک ے لئ ے جمال عبدالناصر کانام ایک ایسی چیز بن گیا جس کی‬
‫کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔‬

‫‪22‬‬
‫سادات دور میں بنیاد پرستی کا پھیلؤ‬
‫انور السادات کاطاقت کا مفروضہہ مصر میں ایک نئی سیاسی‬
‫تبدیلی کا باعث خیم ہ ثابت ہوا۔ہ ر تبدیلی کی طرح ی ہ تبدیلی بھی‬
‫آغاز میں کمزور تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ مضبوط ہوتی چلی گئی‬
‫اور وقت گزرن ے ک ے سات ھ سات ھ اس ک ے نقوش واضح ہوت ے چلے‬
‫گئے۔سادات نے پرانی حکومت کے حمایتیوں کو آہستہ آہستہ نکالنا‬
‫شروع کردیا۔ان حمایتیوں کو نکالنےہ کےہ لئ ے اس ک ے پاس سب‬
‫سے کارگر ہتھیار اس کی اجازت تھی جو اس نے ایسے افراد کو‬
‫کچلنے کے لئے د ے رکھی تھی ۔جیسے ہی اسلمی تحریک پر سے‬
‫تھوڑا سا دباؤ کم کیا گیا ‪،‬اسلمی تحریک کا جن بوتل س ے باہر‬
‫نکل آیااور اس ن ے دوبار ہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنا شروع‬
‫کردیا ۔چند ہ ی سالوں بعد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مسلم‬
‫نوجوانوں نے اسٹودنٹس یونین کے انتخابات میں زیادہ تر نشستیں‬
‫جیت لیں۔اب اسلمی تحریک ن ے ٹری ڈ یونینز کو کنٹرول کرن ے کے‬
‫لئے آگ ے بڑھناشروع کیا کردیاتھا۔اسلمی تحریک کی نشوونما کے‬
‫ایک نئ ے مرحل ے کا آغاز ہوگیا تھ ا لیکن اس مرتب ہ ماضی کو نہیں‬
‫دہرایا گیا حالنکہہ اسلمی تحریک اسی بنیاد پر تعمیر کی‬
‫گئی۔سابقہ تجربوں اور واقعات سے سبق سیکھاگیا۔‬

‫اسلمی تحریک ن ے اپنی نشوونما نوجوانوں میں پھیلؤ اور گہری‬


‫بیداری کے دور میں داخل ہونے کا آغاز کردیا تھا اور تحریک کو یہ‬
‫بھی ادراک تھا کہہ اندرونی دشمن بیرونی دشمن سےہ کم‬
‫خطرناک نہیں ہے ۔یہ شعور تاریخی حقائق اور عملی تجربات کی‬
‫وج ہ س ے پھل پھول۔کچ ھ پرانی نشانیاں ابھ ی بھ ی ان خیالت سے‬
‫چمٹی ہوئی ہیں کہ لڑائی صرف بیرونی دشمن سے کی جائے اور‬
‫ی ہ اسلمی تحریک اور حکومتیں آپس میں متصادم نہیں ہیں تاہم‬
‫نئی بیداری اپنے عملی تجربے کی وجہ سے ان تمام ابہام سے پاک‬
‫تھی ۔‬

‫ملٹری ٹیکنیکل کالج کامعاملہ‬


‫ملٹری ٹیکنیکل کالج گروپ صالح سریہ کی مصر آمد کے ساتھ ہی‬
‫تشکیل پانےہ لگا ‪،‬جب صالح نےہ ایم بی کےہ بڑےہ لیڈروں سے‬
‫تعلقات بنان ے کا آغاز کیا ‪،‬جیسا کہ مسز زینب الغزالی اور حسن‬
‫الہضیبی‪ ،‬جنہوں ن ے نوجوان لوگوں کا ایک گروپ بنایا اور جسے‬
‫تبلیغ کی جاتی تھی کہہ وہہ برسراقتدار حکومت کی مخالفت‬
‫کریں۔‬

‫‪23‬‬
‫صالح ایک جادوئی طاقت رکھنےہ والخطیب اور اعلیٰہ پائےہ کا‬
‫دانشور تھ ا جس نےعین شمس یونیورسٹی قاہری س ے ڈاکٹریٹ‬
‫کی ڈگری لی تھی ‪،‬وہ شریعت کی سائنس کو بخوبی سمجھتا تھا‬
‫۔ایک دفع ہ و ہ ایک اسلمی جمبوری میں ساری ہ س ے مل‪،‬ان کی یہ‬
‫ملقات کالج آف میڈیسن میں ہوئی تھی۔ساریہہ کو کالج کی‬
‫جمبوری میں تقریرکے لئے دعوت دی گئی تھی ‪،‬جب میں نے اس‬
‫کی تقریر سنی تومجھے یوں محسوس ہوا کہ اس کے الفاظ میں‬
‫بڑا وزن ہےہ اور اس کےہ الفاظ کا مطلب یہہ ہےہ کہہ اسلم کی‬
‫حمایت کی جائ ے ۔میں ن ے اس س ے ملن ے کافیصل ہ کیا لیکن میری‬
‫تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔‬
‫ساریہہ کاقائم کردہہ گروپ بڑھ ا اور اس قابل ہوگیا کہہ یہہ ملٹری‬
‫ٹیکنیکل کالج ک ے طلباءکو اپن ے میں شامل کرسک ے نوجوانوں نے‬
‫ساریہہ پر حکومت کےہ خلف مزاحمت کرنےہ کےہ لئےہ دباؤ ڈالنا‬
‫شروع کیا ۔اس دباؤ کےہ تحت وہہ حکومت کو نکال پھینکنےہ کی‬
‫ایک کوشش پر رضامند ہوگیا۔ایک منصوبہ تشکیل دیاگیا جس کے‬
‫تحت گروپ کےہ ارکان کالج کےہ گیٹ پر کھڑےہ پولیس کے‬
‫گارڈپرحاوی ہوجائیں گ ے اور پھرکالج ک ے اندر داخل ہوجائیں گے‬
‫اورکالج کےہ اندر پولیس کی گاڑیاں اور اسلحہہ چھپادیں گےہ اور‬
‫اس عمل ک ے لئ ے کالج میں چوکیدار ک ے بھیس میں پھرن ے والے‬
‫اپنےہ ہ ی ساتھیوں کی مدد لی جائےہ گی پھر عرب سوشلسٹ‬
‫یونین ہی ڈ کوارٹر کی جانب بڑھاجائ ے گا تاک ہ سادات اور اس کی‬
‫حکومت کےہ افسران پر حمل ہ کیا جاسکےہ جو اس وقت اجلس‬
‫میں مصروف ہوں گے ۔‬

‫بغاوت کی ی ہ کوشش شدیدناکامی س ے دوچار ہوئی کیونک ہ اسے‬


‫تیار کرتےہ وقت متعددزمینی حقائق کو سامنےہ نہیں رکھاگیا‬
‫تھا‪،‬جس گروپ نےہ کالج گیٹ پر حملہہ کیا وہہ غیر تربیت یافتہ‬
‫تھا۔اس منصوبےہ پر عملدرآمد کےہ وقت اور بھی بہت سی‬
‫مشکلت کا سامناکرنا پڑا لیکن وہہ بات جس کی جانب میں‬
‫اشارہہ کرنا چاہتا ہوں وہہ یہہ کہہ جمال عبدالناصر کےہ بعد اب یہ‬
‫تحریک اس طرح کی نہیں تھی کہ اس ے گمنامی ک ے اندھیر ے میں‬
‫پھینک دیا جائے‪،‬ی ہ ایک بڑی تحریک بن چکی تھی۔اس تحریک نے‬
‫‪1967‬ءکی شکست کے بعد ایک نئی نسل کو جنم دیا۔یہ نسل جہاد‬
‫کےہ میدان میں واپس آگئی ۔ان کےہ ہاتھوں میں حکمرانوں کے‬
‫خلف ہتھیار تھےہ ۔حکمران۔۔۔جو کہہ امریکی غلم تھےہ اور جو‬
‫اسلم سے عناد رکھتے تھے ۔‬

‫‪24‬‬
‫صالح سریہ‬
‫اگرچہہ اس آپریشن کا آغاز میں ہ ی ختم کردیاگیا لیکن اس نے‬
‫نئی تبدیلی کی راہ دکھائی۔قبل ازیں اسلمی تحریک نے ناصر کے‬
‫ظالمانہہ اقدامات کےہ خلف ہتھیار اٹھائےہ تھے۔زیرحراست گروپ‬
‫کو عدالت تک لے جایاگیا اور صالح سریہ ‪،‬کریم الناضولی ‪،‬طل ل‬
‫النصاری کو سزائے موت سنائی گئی ۔حکومت نے ان تینوں سے‬
‫کہ ا ک ہ و ہ ملک ک ے صدر س ے رحم کی اپیل کریں ۔کریم اناضولی‬
‫نے معافی کی درخواست دائر کی چنانچہ اس کی سزائے موت ‪،‬‬
‫عمر قید میںتبدیل کردی گئی جبکہ صالح اور طلل نے معافی کی‬
‫درخواست دینے سے انکار کردیا ۔‬

‫ایک روز جیل ک ے احاط ے میں قیدی صالح ک ے اردگرد جمع ہوئے‬
‫اور اس ے مجبور کرنے لگے کہ وہ معافی کی درخواست کرد ے تاکہ‬
‫اس کی جان بخشی کردی جائے۔صالح نے ہ قیدیوں سے‬
‫کہا‪”:‬سادات ک ے پاس میری زندگی بڑھان ے کی کون سی طاقت‬
‫ہے‘؟اس اندھیری جیل کو دیکھو ‪،‬اس کی ناقص خوراک کو دیکھو‬
‫اور ا س کی بند لیٹرینوں کو دیکھ و جس میں ہ م ی ہ کھانا پھینک‬
‫دیتے ہیں۔یہ اصل زندگی ہے ۔ہم اس سے کیوں چمٹے رہیں “؟‬

‫صالح کو پھانسی دین ے س ے قبل جب آخری ملقات ک ے لئ ے اس‬


‫کی بیوی بچوں کے ہمراہ موت کی کوٹھری میں اس سے ملقات‬
‫کرنےہ آئی تو صالح نےہ اس سےہ کہ ا کہہ اگر اس نےہ معافی کی‬
‫درخواست دی تو اس ے طلق د ے دی جائ ے گی ۔سزائ ے موت کے‬
‫روز جیل کے عملے گارڈ ز اور حکومتی سیکورٹی انوسٹی گیشن‬
‫ڈیپارٹمنٹ کے عملے کے لوگ طلل انصاری کی کوٹھی میں داخل‬
‫ہوئ ے تاک ہ اس ے باند ھ کر تخت ہ دار تک ل ے جائیں ۔طلل ن ے ان سے‬
‫کہا ٹھہرو !مجھے اپنے اللہ کے سامنے دومرتبہ سجدہ کرنے دو“۔اس‬
‫پرایک سیکورٹی افسر نےہ کہ ا کہہ ”جس کےہ پاس جارہےہ ہووہیں‬
‫جاکر سجدہ بھی کرلینا“اس پر دو قیدیوں عدیل فارس اور صلح‬
‫فارس ن ے اس افسر کو پکڑ کر مارنا شروع کردیا اور اس کی‬
‫ایک آنک ھ پھوڑدی ۔عدیل اور صلح کو ملک بدر کردیاگیا ۔عدیل‬
‫افغانستان چلگیا ‪،‬جہاں وہہ شمالی افغانستان میں ایک معرکے‬
‫میں لڑتا ہوا مارا گیا۔‬

‫‪25‬‬
‫الجہاد آرگنائزیشن کااحیاء‬
‫ٹیکنیکل ملٹری کالج ک ے مقدم ے میں گرفتار ہون ے والوں ن ے جیل‬
‫سےہ رہائی کےہ بعد تحریک کو دوبارہہ منظم کرنےہ کی کوشش‬
‫کی ۔پہلی کوشش ‪1977‬ءمیں اس وقت ناکامی س ے دوچار ہوئی‬
‫جب حکومت نے تمام گروپ کو گرفتار کرلیا ۔گروپ نے دوسری‬
‫کوشش ‪1979‬ءمیں کی لیکن ان کی صفوں میں موجود ایک‬
‫مخبر نےہ حکومت کو خبر کردی چنانچہہ گروپ کےہ بچےہ کچھے‬
‫ارکان کو ‪1979‬ءمیں دوسری مرتبہہ گرفتار کرلیاگیا۔گرفتار ہونے‬
‫والوں میں ”الفریض ہ الغائبہ “ کتاب ک ے مصنف محمد عبدالسلم‬
‫فرج بھی شامل تھے۔فرج کی سرگرمیاں شمال مصر ‪،‬الجزاہ اور‬
‫قاہرہ تک محدود تھیں۔‬

‫جو نوجوان مصر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے‬


‫انہوں نے شیخ عمر عبدالرحمن کانام سنا وہ انہیں مختلف لیکچرز‬
‫‪،‬جمبوری کانفرنسوں میں بلنےہ لگے۔یونیورسٹیوں میں اپنا اثر‬
‫قائم کرک ے انہیں قابوکرن ے ک ے بعد نوجوانوں ن ے یونیورسٹیوں کے‬
‫باہ ر ک ے حالت پر توج ہ دی اور عام لوگوں کو حالت س ے باخبر‬
‫کرکےہ اپنےہ ساتھہ ملنےہ کا آغاز کیا۔ان سب کی سب سےہ اہم‬
‫سرگرمی اسرائیل س ے امن مذاکرات اور شا ہ ایران کی مصری‬
‫حکومت کی جانب سےہ میزبانی کےہ خلف احتجاجی جلسے‬
‫جلوس منعقد کرنا تھی ۔‬

‫محمد بن عبدالسلم فرج اور اس ک ے ساتھ ی جنوبی مصر میں‬


‫نوجوانوں س ے مل ے ۔ان دوگروپوں کوملکر ایک گروپ ”الجماعۃ‬
‫السلمیہ“تشکیل دیاگیا۔اس کی قیادت عمر عبدالرحمن نے‬
‫سنبھالی جو آج کل امریکی ریاست منی سوٹا کی راکسٹر جیل‬
‫میں عمر قید کی سزا بھگت رہےہ ہیں۔ان پر الزام ہےہ کہہ یہ‬
‫‪1993‬ءمیں نیویارک میںبموں کے حملے کے واقعے میں ملوث ہیں ۔‬

‫‪26‬‬
‫باب نمبر ‪3‬‬
‫سادات کاقتل اس منصوبےہ کاحصہہ تھا جس میں تمام اعلیٰ‬
‫حکومتی عہدیداروں کو قتل کرک ے ریڈیوکی عمارت پر قبضہ کرنا‬
‫شامل تھ ا ۔پروگرام اس طرح ترتیب دیا گیا تھاک ہ سب س ے پہلے‬
‫مرحلےہ میں چھہ اکتوبر کو جب صدر سادات فوجی پریڈہ کی‬
‫سلمی لے رہے ہوں تو انہیں اعلیٰ حکومتی شخصیات کے سامنے‬
‫قتل کردیاجائے۔اعلیٰہ سرکاری افسروں کےہ بڑےہ پیمانےہ پر قتل‬
‫ک ے بعد قاہر ہ ریڈیو کی عمارت پر قبض ہ کرلیا جائے۔اس منصوبے‬
‫کا ابتدائی مرحلہہ جو سادات کےہ قتل پر مشتمل تھ ا پورا ہوگیا‬
‫لیکن زیادہہ تر سرکاری حکام فرار ہونےہ میں کامیاب ہوگئےہ اور‬
‫ریڈیو کی عمارت پر بھی قبضہ نہ ہوسکا۔‬

‫‪27‬‬
‫اس منصوبےہ کا دوسرا محاذ آسی یوٹ شہرمیں مسلح بغاوت‬
‫برپاکرکے شہر کا محاصرہ کرنا شامل تھا۔یہ مسلح بغاوت سادات‬
‫ک ے قتل ک ے دو روز بعد شروع ہوئی ۔دوسر ے الفاظ میں ی ہ اس‬
‫وقت شروع ہوئی جب مسلح افواج ملک پر کنٹرول کرنےہ اور‬
‫حکومت کو بچانے میں کامیاب ہوچکی تھیں۔یہ بغاوت اس حد تک‬
‫کامیاب ہوئی کہ محض چند تھانوں پر قبضہ کرلیاگیا لیکن حکومت‬
‫کے خصوصی دستوں نے نوجوان مجاہدین پر گولہ بارود سے حملہ‬
‫کردیا جس پر مجاہدین کو اسلح ہ چھوڑ کر ان تھانوں کو خالی‬
‫کرناپڑا۔‬

‫آسی یوٹ شہ ر میں مسلح بغاوت کی قسمت میں ناکامی لکھ‬


‫دی گئی تھ ی ۔ی ہ ایک جذباتی بغاوت تھ ی جس ے اچ ے طریق ے سے‬
‫تریب نہہ دیاگیاتھا۔سادات کےہ قتل کےہ دوروز بعد برپا کی جانے‬
‫والی بغاوت ایک غیر حقیقی منصوب ے پر مشتمل تھ ی ۔اس میں‬
‫دشمن کی طاقت اور اس کےہ اسلحےہ کا غلط اندازہہ لگایا گیا‬
‫تھا۔اس طرح ی ہ بغاوت سادات ک ے قتل کامرکزی مقصد حاصل‬
‫کرنے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوئی ۔اس بغاوت کو اس کے مابعد‬
‫اثرات ک ے حوال ے س ے جانچنا بہ ت ضروری ہے۔بغاوت ن ے بہ ت سے‬
‫حقائق کو ثابت کیا ۔‬

‫اول‪ :‬یہہ واقعہہ بنیاد پرستوں کےہ حوصلےہ کو ظاہ ر کرتا ہےہ کہہ وہ‬
‫تعداد میں کم ہونےہ کےہ باوجود اپنےہ سےہ زیادہہ بڑی طاقتور اور‬
‫مسلح فوج سے ٹکراگئے۔‬

‫دوم‪ :‬ی ہ واقع ہ اس تحریک کی جارحان ہ نوعیت کو ظاہ ر کرتا ہے کہ‬


‫انہوں نےہ صدر اور اس کےہ حواریوں کو ایک بڑےہ اجتماع کے‬
‫سامنے قتل کرنے کامنصوبہ بنایا۔‬

‫اس واقعہ سے یہ بھی ظاہ ر ہوتا ہے ک ہ ایسی حکومت‬ ‫سوم‪:‬‬


‫جو غیر اسلمی ہو‪،‬اس ے زبردستی تبدیل کردو ‪،‬ی ہ اس تحریک کا‬
‫مرکزی نقطہ بن گیا۔‬

‫اس حملے نے ثابت کردیا کہ اسلم کے دشمن وائٹ ہا‬ ‫چہارم‪:‬‬


‫ؤس میں ہوں یا تل ابیب میں یا پھر مصر میں ‪،‬انہیں اسلم‬
‫پسندوں کے خلف ہرمہم کے جواب کی توقع رکھنی چاہیے۔‬

‫‪28‬‬
‫پنجم‪:‬اس واقع ہ س ے ی ہ بھ ی ظاہ ر ہوتا ہے ک ہ امن وامان کو قائم‬
‫کرنےہ والےہ ادارےہ مکمل طور پر ناکام ہیں اورانہیں ملک میں‬
‫موجود جہادی لہ ر کےہ بارےہ میںکچھہ علم نہیں۔یہہ لہ ر اس حد تک‬
‫موثر تھی کہہ کچھہ لوگ مسلح افواج میںگھس گئےہ اور انتہائی‬
‫سخت حفاظتی انتظام کے باوجود انہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔‬

‫میں کہتا ہوں ک ہ ‪1981‬ءمیں بغاوت کرنے والے نوجوان خالص تھے‪،‬‬
‫وہہ ہوشیار تھے۔انہوں نےہ اپنےہ مذہب‪ ،‬عقیدےہ ‪،‬قوم اور وطن کی‬
‫حفاظت میں ہتھیار اٹھائے۔ٹیکنیکل ملٹری کالج کا آپریشن اپنی‬
‫نوعیت کا واحد آپریشن ن ہ تھا۔اس آپریشن ک ے کچھہ عرصےہ بعد‬
‫یحییٰ ہ ہاشم نے ہ المینیا کے ہ پہاڑوں میں گوریلجنگ شروع‬
‫کردیا۔اگرچہ یہ کوشش کامیا ب نہ ہوئی کیونکہ اس گوریلجنگ کے‬
‫لئے جو ضروری لوازمات تھے انہیں پورانہ کیاگیا تھالیکن اس سے‬
‫یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم آئیڈیالوجی میں تبدیلی ایک ٹھوس‬
‫حقیقت بن چکی تھی۔ی ہ حقائق ظاہ ر کرت ے ہیں ک ہ آج ک ے مسلم‬
‫نوجوان ‪1940‬ءمیں اپنے آباؤاجداد سے مختلف تھے ۔‬

‫مصر میں یحیی ٰ ہاشم جہاد کابانی تھ ا ۔الل ہ ن ے اس ے بلند ارادوں‬


‫اور آہنی عزم س ے نوازاتھا۔اس کی ایک اعلی ٰ خصوصیت ی ہ تھی‬
‫کہ وہ اپنے یقین کے ساتھ ڈٹ جاتا تھا‪،‬وہ ۔۔۔اللہ اس پر رحمت نازل‬
‫کر ے ایک خالص انسان تھا‪،‬اس کا دل مسلم بھائیوں ک ے دک ھ پر‬
‫تڑپتاتھا۔یحیی ٰ بن ے ہمار ے گروپ میں کس طرح شمولیت اختیار‬
‫کی؟ی ہ ایک انوکھ ی داستان ہے۔اس وقت ملک میں طلباءیونینوں‬
‫کی سورشیں برپا تھیں۔ہ م ن ے یونیورسٹی ک ے طالب علموں کے‬
‫ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔یہ احتجاجی‬
‫مظاہرہ امام الحسین مسجد سے شروع ہوکر الزہر اسٹریٹ تک‬
‫جانا تھا اور پھر اس نے قاہرہ کے مرکز تک پہنچنا تھا۔‬

‫جمعہ ہ کی نماز کے ہ دوران ہم مسجدامام الحسین پہنچ‬


‫گئے۔گروپ کے تمام لوگ مسجد کے چاروں کونوں میں پھیل گئے‬
‫۔نماز کے بعد یحییٰ ہاشم کھڑے ہوئے اور لوگوں سے خطاب کرنے‬
‫لگےہ اور مسلم قوم کو پہنچےہ والےہ صدمےہ کی وضاحت کرنے‬
‫لگے ہ ۔ہم نے ہ ”اللہ ہ اکبر“ کے ہ نعروں سے ہ اس کے ہ خطاب‬
‫کوگرمادیالیکن جاسوس اس صورتحال کی تناؤ سے نپٹنے کے لئے‬
‫تیار تھے ۔جاسوسوں نے اسے گھیر لیا اور مسجد سے باہر نکالنے‬
‫کےہ لئےہ دھکیلنا شروع کردیا۔لوگ اس نوجوان کی جراءت پر‬
‫حیران تھے لیکن یحییٰ ن ے اس تنگ گھیر ے ک ے دوران بھی چلچل‬

‫‪29‬‬
‫کر اپنی تقریر جاری رکھی۔جب اسے گھیر کر مسجد سے نکالگیا‬
‫تب بھی وہ تقریر کررہاتھا۔ایک ایجنٹ نے یحییٰ کو خاموش کرانے‬
‫کے لئے ایک داؤ کھیل‪،‬اس نے اس کی گردن پکڑ لی اور زور زور‬
‫س ے چلن ے لگا ک ہ تم ایک چورہ و ‪،‬تم ن ے میرا پرس اڑالیا۔اس کے‬
‫بعد باقی ساتھ ی بھ ی زور زور س ے چلن ے لگ ے اور دھکیلت ے ہوئے‬
‫ایک میڈیکل اسٹور میں لے گئے جہاں اسے گھسیٹتے ہوئے ایک کار‬
‫میں ڈالگیا اور اس ے جنرل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر‬
‫حسن طلل کے سامنے پیش کردیا گیا۔‬

‫ناصر کی حکومت پریشان اور کمزورتھی‪،‬اس کےہ سیکورٹی‬


‫ڈیپارٹمنٹ کوپتہہ علم نہہ تھ ا کہہ اس قسم کی صورتحال میں کیا‬
‫کرناچاہیے۔وہہ دوانتہاؤں کےہ درمیان پھنسےہ ہوئےہ تھے۔ایک طرف‬
‫بدعنوان حکومت تھ ی جبکہہ دوسری طرف مزاحمت کاایک بے‬
‫مثال منظرنام ہ تھا۔یحیی ٰ ن ے ہمیں اس انٹرویو ک ے بار ے میں بتایا‬
‫جو حسن طلل ک ے دفترمیں اس س ے لیا گیا۔اس ن ے ی ہ بھی بتایا‬
‫کہہ حکومت اس وقت دوہر ے تذبذب میں پھنسی ہوئی ہے ۔ملک‬
‫ایک آتش فشاں ک ے مانند دھ ک رہ ا ہے حسن طلل ن ے یحیی ٰ کے‬
‫سامنے خود اپنا دفاع کرنا شروع کردیا کہ وہ ایک مسلمان ہے اور‬
‫اسلم کی حفاظت کررہ ا ہے لیکن یحیی ٰ ن ے ایک شیر کی طرح‬
‫اس پرحملہہ کیا اور اس کےہ دعوےہ کو جھٹلدیا۔حسن طلل کے‬
‫دفتر میں ”’اللہ“ک ے الفاظ پر مشتمل ایک فریم آویزاںتھ ا ۔یحییٰ‬
‫نےہ چیختےہ ہوئےہ کہ ا کہہ جب تم اللہہ کوجانتےہ نہیں ہوپھ ر تم نےہ یہ‬
‫فریم کیوں لٹکارکھ ا ہے ؟حکومت ن ے نہ چاہت ے ہوئ ے بھی یحییٰ کو‬
‫رہا کردیا۔‬

‫امام الحسین مسجد کا واقعہ دراصل ایک جذباتی ابال تھا جو کہ‬
‫ہماری عمروں کے مطابق ایک رد عمل تھا۔یحییٰ ہاشم متعدد ایم‬
‫بی رہنماؤں س ے مل ‪،‬اس ن ے فوج ک ے سات ھ ٹکر لین ے کی ٹھانی‬
‫اور مجھہ سےہ بھ ی مشورہہ کیا۔میں نےہ کہ ا کہہ موجودہہ صورتحال‬
‫میں یہ مناسب نہیں۔یحییٰ نے خود کو اپنے گروپ کے ساتھ پہاڑوں‬
‫میں چھپالیا اور اپنے ہ منصوبے ہ کے ہ مطابق گوریلجنگ کا‬
‫آغازکردیا ۔انہوں نے کچھ ہتھیارجمع کئے اور المنیا صوبے کے کنارے‬
‫واقع پہاڑ پر پوزیشنیں سنبھال لیکن ساتھ والے گاؤں کے ایک مئیر‬
‫ن ے اس گروپ کومشکوک حرکتیں دیکھ ا اور اس ن ے پولیس کو‬
‫مطلع کردیا جس ن ے اس گروپ پر حمل ہ کیا اور گرفتار کرلیا ۔‬
‫یحیی ٰ ن ے یونٹ کمانڈ ر پر حمل ے کی کوشش کی ‪،‬اس ن ے یحییٰ‬
‫پر فائرنگ کردی جس سے وہ ہلک ہوگیا۔یہ ہے یحییٰ کی کہانی جو‬

‫‪30‬‬
‫اصل میں جہاد کابانی تھااور جس ن ے اپن ے نظریات کی سچائی‬
‫کے لئے ہر چیز قربان کردی۔‬

‫کسی بھ ی کمپنی کا مالک اخبار کو پیس ے د ے کر ی ہ اشتہار شائع‬


‫کرواسکتاہےہ کہہ فلں قانون منسوخ کیاجائےہ ۔کوئی اداکار بھی‬
‫اس طرح کا مطالبہہ کرسکتا ہےہ کہہ فلں قانون چونکہہ اس کی‬
‫اداکاری کی آزادی کے خلف ہے چنانچہ اسے منسوخ کیا جائے ایک‬
‫ادیب بھی شریعت کےہ نام پر نافذ قوانین پر تنقید کرسکتا‬
‫ہے۔ایک صحافی بھی حکومت کےہ قوانین پر نہہ صرف تنقید‬
‫کرسکتا ہے بلکہ ان کی منسوخی کا مطالبہ کرسکتاہے ۔جو شخص‬
‫قانون کےہ بارےہ میں کوئی بات نہیں کرسکتا وہہ امام مسجد‬
‫(مبلغ) ہےہ کیونکہہ پینل کوڈہ کا ‪201‬آرٹیکل کہتا ہےہ کہہ ”عبادت گاہ‬
‫میں کوئی بھی شخص ‪،‬حتیٰ کہ وہ امام ہی کیوں نہ ہو اور خطبہ‬
‫ہی کیوں نہ دے رہا ہو‪،‬وہ انتظامیہ کے بارے میں اور موجودہ قوانین‬
‫کےہ بارےہ میں کچھہ نہیں کہہہ سکتا اور اگرکوئی اس قانون کی‬
‫خلف ورزی کرتا ہے تو اس ے سزائ ے قید ک ے سات ھ پانچ سو پاؤنڈ‬
‫جرمانہ بھی کیاجائے گا۔اگر وہ اس کی مزاحمت کرتا ہے توجرمانہ‬
‫اور قید کی سزا دوہری جائے گی۔‬

‫جولوگ مصر میں ٹری ڈ یونین بنانا چاہت ے ہیں ان کی اجازت نہیں‬
‫دی جاتی ‪،‬حالنکہ یہ انسانی حقوق کے زمرے میں ایک ایساحق ہے‬
‫کہ جس طرح آپ ایک بیلے ڈانسر کو اجازت دیت ے ہیں لیکن دینی‬
‫مبلغ اور اسکالرز اس حق سے محروم ہیں ۔انور سادات کے قتل‬
‫ک ے سات ھ ہ ی مصر اور عرب دنیا میں جہاد ک ے مسئل ے پر روزانہ‬
‫بحث وتمحیص ہون ے لگی۔حکومت جو ک ہ امریک ہ اور اسرائیل کے‬
‫حق میں تھی اس ک ے سات ھ ایسی مخاصمت شروع ہوئی جو آج‬
‫تک جاری ہے۔اور جہادی سرگرمیاں روزبروز بڑھہہ رہی‬
‫ہیں۔احتجاجی مظاہروں میں شرکاءکی تعداد میں بھی اضافہ‬
‫ہورہا ہے جو ک ہ واشنگٹن اور تل ابیب میں بیٹھے دشمنوں کے لئے‬
‫ایک مسلسل خطرہ ہے۔‬

‫امریکہہ اور اسرائیل کےہ ساتھہ دشمنی مسلم نوجوانوں کےہ دل‬
‫میں بس چکی ہے ‪،‬یہ ی و ہ دشمنی ہے جس کی وج ہ س ے القاعدہ‬
‫اور افغان جہاد میں عرب افغان ڈھڑا دھڑ شامل ہورہے ہیں اور یہ‬
‫بہاؤ ٹوٹ نہیں رہا۔انورسادات کا قتل دراصل امریک ہ اور اسرائیل‬
‫کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ تھا۔‬

‫‪31‬‬
‫انورسادات کےہ قتل کے ہ بعد حکومت نےہ وسیع پیمانےہ پر‬
‫پکڑدھکڑکی اور تقریبا ً ساٹھہ ہزار افرادکو گرفتار کرکےہ جیلوں‬
‫میں ڈال دیا ۔کوئی ایسا طریقہ نہیں تھا کہ ان افراد سے رابطہ کیا‬
‫جاسکےہ ۔سیکورٹی کی سختیوں کی وجہہ سےہ یہہ لوگ عام‬
‫شہریوں کی نظروں سے دور چل ے گئ ے تھے ‪،‬ان س ے رابطہ قریب‬
‫قریب ناممکن تھا۔اس واقعہہ کی تحقیقات کیلئےہ فوجی سربراہ‬
‫ف نظرکیا ۔وہہ صرف ایک مرتبہ‬ ‫نےہ اپنی ذمہہ داریوں سےہ صر ِ‬
‫انورسادات کےہ قتل کےہ مقام پر گیا‪،‬حالنکہہ جو قتل ہوا تھ ا وہ‬
‫ملٹری کا سربراہ تھا اور فوجی گراؤنڈ میں فوجی پریڈ کے دوران‬
‫قتل ہوا تھا لیکن ملٹری کا سربراہ اندازہ لگاتارہا کہ کس کو پکڑنا‬
‫ہے ؟ کس سےہ تفتیش کرنی ہے؟اور کس کےہ خلف مقدمہہ چلنا‬
‫ہے۔انوسٹی گیشن کرنےہ والےہ ملٹری کےہ سربراہہ نےہ انتہائی‬
‫سرعت ک ے سات ھ مدعا علیہان ک ے مقدمےہ کو فوجی عدالت کے‬
‫سپرد کردیا ۔یہ فوجی عدالت میجر جنرل محمد سمیر فاضل کی‬
‫سربراہی میں قائم کی گئی تھی ۔‬

‫مصری فوج کاایک اورمزاحیہہ تماشا یہہ ہےہ کہہ اس نےہ اپنےہ اصل‬
‫دشمن اسرائیل کو فراموش کردیا اور اپنےہ ہ ی لوگوں پر‪،‬انہیں‬
‫اپنا دشمن سمجھتےہ ہوئےہ ہتھیار اٹھالئےہ ۔ملٹری سیکولرازم کا‬
‫ہمیشہ سے یہ دعویٰ ہے کہ یہ اسلم کا احترام کرتی ہے لیکن ان کا‬
‫احترام صرف یہاں تک ہےہ کہہ یہہ دینی اسکالرز کو مشاہرے‬
‫(تنخواہ)پر رکھ لیتی ہے جو کہ ان ک ے ہ ر عمل کو جائز ثابت کرتے‬
‫رہتے ہیں ۔‬

‫‪32‬‬
‫باب نمبر ‪4‬‬
‫مصر کی سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک اور جہادی گروپ کا سراغ‬
‫لگایا۔یہہ ”عصام القمری گروپ“تھا۔عصام القمری ایک بےہ مثال‬
‫انسان تھ ا جس ے اس کےہ کام کا اور جہادی سرگرمیوں کا کچھ‬
‫زیادہ صلہ نہ دیا گیا کیونکہ ہمارے ملک میں ذرائع ابلغ اور صحافت‬
‫ان لوگوں ک ے قبض ے میں ہے جو ک ہ اسلم اور اسلمی تحریکوں‬
‫کو زیادہ پسند نہیں کرتے ۔اسی طرح چھپنے والی تمام چیزیں ان‬
‫ک ے کنٹرول میں ہیں۔ی ہ دراصل مغرب اور یہودیوں ک ے نقش قدم‬
‫پر چل رہےہ ہیں جہاں میڈیا اور پراپیگنڈہہ کےہ تمام ذرائع ان کے‬
‫قبض ے میں ہوت ے ہیں۔عصام القمری ایک سنجید ہ انسان تھا۔اوائل‬
‫شباب میں ہی اس نے اسلم کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا تھا‬
‫۔اس نےہ حکمران طبقےہ میں تبدیلی کےہ لئےہ ملٹری کالج میں‬
‫شمولیت کا فیصل ہ کیا۔ی ہ اس کا احساس جرم ہ ی تھ ا ک ہ اس نے‬
‫جب سکینڈری اسکول کی تعلیم ختم کی تو اس نےہ ایک مرتبہ‬
‫مجھے بتایا کہ ایک دن اس نے ملٹری کالج میں داخلے کے بعد اپنے‬
‫والد س ے کہ ا ک ہ ”کیا آپ ک ے علم میں ہے ک ہ میں ن ے ملٹری کالج‬
‫میں داخلہہ کیوں لیا؟“اس کےہ والد نےہ کہا ”نہیں!میں نہیں‬
‫جانتا“۔عصام القمری نےہ کہا”اس لئےہ کہہ میں مصر میں ایک‬
‫فوجی بغاوت برپاکرسکوں “۔اس کےہ والد کو یہہ سن کر بہت‬
‫صدمہہ ہوا لیکن وہہ اس ضمن میں کچھہ نہہ کرسکتا تھا کیونکہ‬
‫القمری قبل ازیں ملٹری کالج میں داخل ہوچکا تھا۔‬
‫عصام القمری ن ے گریجویشن میں اتن ے شاندار نمبر حاصل کئے‬
‫تھے ک ہ و ہ کسی میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں آسانی س ے داخل‬
‫ہوسکتا تھ ا جیسا ک ہ آج کل بھ ی نوجوان یہ ی کرتےہ ہیں ۔ان کی‬
‫پہلی ترجیح میڈیکل اور دوسری انجینئرنگ ہوتی ہے لیکن اسلم‬
‫نے اس کا رویہ تبدیل کردیا تھا۔‬

‫‪33‬‬
‫ملٹری کالج میں عصام کی ملقات محمدمصطفی علیوةسے‬
‫ہوئی جو ک ہ الجہاد گروپ کا ایک سرگرم کارکن تھ ا ۔القمری نے‬
‫مصطفی کےہ جہاد گروپ میں شمولیت اختیار کرلی ۔اس‬
‫القمری باقاعدہہ ایک جہادی گروپ میں شامل ہوگیا ۔اس وقت‬
‫سےہ لےہ کر آج تک القمری نےہ زندگی کا کوئی لمحہہ ایسا نہیں‬
‫ہوگاجو اس نےہ فارغ گزاراہو۔وہہ ہ ر وقت جہادی تحریک کےہ لئے‬
‫کچھہ نہہ کچھہ کرتا اور سوچتا رہتا۔القمری نےہ اپنےہ دین کی‬
‫سربلندی کے لئے کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔‬

‫وہہ درست معنوں میں ایک انتہائی اعلیٰہ کردار کاحامل شخص‬
‫تھا۔اس ن ے اپنی زندگی میں سختیوں اور تکالیف کا اپن ے کردار‬
‫کی وج ہ س ے ڈ ٹ کر مقابل ہ کیا ۔ملٹری کالج کی تعلیم س ے فارغ‬
‫ہوکر القمری ن ے ملٹری کور میں شمولیت اختیار کرلی ۔ملٹری‬
‫کور میں شامل ہونا اس کاایک دیرین ہ خواب تھ ا ۔و ہ ہمیں بتاتا کہ‬
‫اس کور کو ایک مسلم کور ہونا چاہیے جو کہ مسلمانوں کو بتائے‬
‫کہہ جنگیں کیسےہ جیتی جاتی ہیں اور دشمن سےہ کیسےہ دفاع‬
‫کیاجاتا ہے ۔‬

‫القمری نےہ آرمڈہ کور میں امتیازی کارکردگی کا مظاہرہہ کیا۔وہ‬


‫شب و روز اسلم کا مطالعہ کرتا اور جنگ کی تربیت حاصل کرتا‬
‫۔اس ک ے لئ ے ی ہ الل ہ کی طرف س ے عطاءکرد ہ ہمت تھی۔اس کو‬
‫اس بات پر پورا یقین تھ ا ک ہ اسلم کی وج ہ س ے ہ ی و ہ ہ ر قسم‬
‫کی تربیت میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتا ہےہ اورہمیشہہ اپنی‬
‫کلس میں اول آتا ہےہ ۔اسی امتیاز کی وجہہ سےہ جب وہہ میجر‬
‫تعینات ہوا تو اسے ایک بٹالین کی کمانڈ کی ٹریننگ کے لئے امریکہ‬
‫روانہ کیاگیا۔اس سے وعدہ کیاگیا کہ واپس پر اسے ری پبلکن گارڈ‬
‫کا کمانڈر تعینات کیا جائےہ گا۔اس نےہ ایک خاص وجہہ سےہ اس‬
‫ٹریننگ میں شمولیت اختیار نہ کی وجہ یہ تھی کہ اس کے دوستوں‬
‫میں سےہ ایک دوست ایسا تھ ا جو چیزوں کو مبالغہہ آرائی سے‬
‫سوچتا اور بیان کرتا ۔اس ن ے عصام کو بتایا کہہ ‪1981‬ءمصر میں‬
‫تبدیلی کاسال ہوگا۔اس ن ے عصام کو ی ہ بھ ی بتایاک ہ و ہ مصر میں‬
‫نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو جہادی تربیت کےہ لئےہ بھرتی‬
‫کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔‬

‫فوج سے ہتھیاروں کی اسمگلنگ‬


‫اسی مبالغہ آمیز بیان کی بنیاد پر عصام نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکہ‬
‫جاکر تربیت حاصل نہیں کرے گا ‪،‬حالنکہ اسے اس کورس کے لئے‬

‫‪34‬‬
‫نامزد کیاگیاتھا ۔آرمی آرمڈ کور کے افسروں میں سے صرف چند‬
‫ایک ہ ی ایس ے تھے جنہیں ی ہ موقع ملتھاک ہ و ہ امریک ہ جاکر تربیت‬
‫حاصل کریں اورعصام ان افسروں میں سے ایک تھا۔‬

‫‪1981‬ءکے سال کو تبدیلی کا سال خیال کرکے عصام نے فوج سے‬


‫ہتھیاروں کی چوری کا ایک منصوبہہ بنایا تاکہہ یہہ ہتھیارجہادی‬
‫گروپوں میں تقسیم کئےہ جاسکیں۔یہہ ہتھیار میرےہ کلینک میں‬
‫چھپائے جانے تھے ۔چنانچہ منصوبے کا آغازہوا اور ہتھیاروں کی پہلی‬
‫کھیپ میرےہ کلینک پہنچ گئی ۔جب آخری کھیپ ایک بڑی بوری‬
‫میں ڈال کر ‪،‬جس کےہ اوپر کتابیں اور ملٹری کےہ رسالےہ رکھے‬
‫گئ ے تھے ل ے جائ ے جارہ ی تھ ی تومذکور ہ نوجوان پر ملٹری والوں‬
‫کو شک پڑا ‪،‬جس پر و ہ فرار ہوگیا۔جب بوری کھول کر دیکھی‬
‫گئی تو اس میں اسلح ہ تھا۔اس بوری میں اس منصوب ہ کا نقشہ‬
‫اور ٹینکوں کی پوزیشنیں سب درج تھیں ۔عصام نےہ محسوس‬
‫کیا کہ اس کی گرفتاری بس چند لمحوں کا ہی کھیل ہے چنانچہ وہ‬
‫فرار ہوکر کہیں چھپ گیا تاہم اس منصوبے میں شامل کچھ افسر‬
‫گرفتار کرلئ ے گئ ے ۔اس دورانعصام ن ے بڑ ے صبر کا مظاہر ہ کیا ۔‬
‫اس ن ے کسی س ے شکو ہ کیا ن ہ شکایت کی ‪،‬ن ہ اس ن ے کسی کے‬
‫سامن ے اپنی گرفتاری کا ماتم کیا اورن ہ ہ ی اپنی گرفتاری ک ے لئے‬
‫کسی کو مرود ِ الزام ٹھہرایا۔عصام نے کسی بھی صورت میں اپنا‬
‫کام بند نہ کیا ۔‬

‫سادات کےہ جنازےہ میں امریکی صدر کےہ قتل‬


‫کامنصوبہ‬
‫عصام ن ے سادات ک ے قتل کےہ بعد ی ہ منصوبہہ بنایا کہہ سادات کے‬
‫جنازے ہ میں شریک ہونےہ والے ہ امریکی صدر اور اسرائیلی‬
‫شخصیت کو اڑادیاجائے۔منصوبے میں یہ بھی شامل تھاکہ چندٹینک‬
‫چھین لئےہ جائیں اور صدر کےہ جنازےہ کےہ جلوس پر ٹینکوں سے‬
‫گولہ باری کی جائے تاہم اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لئے‬
‫جس قدر وسائل کی ضرورت تھی وہہ ہمارےہ پاس نہہ تھےہ اور‬
‫منصوبےہ پر عمل درآمد کےہ لئےہ جو وقت درکار تھا اس میں‬
‫خاصی تاخیر ہوچکی تھی۔‬

‫اس منصوبے کے دوران عبود الزمرسے ملقات ہوئی ‪،‬اسے ہم نے‬


‫کہا کہ وہ مصر سے فرار ہوجائے تاکہ اطمینان سے اگلے منصوبے پر‬
‫عمل کیاجاسکے لیکن اس نے ہماری ہدایت ماننے سے انکار کردیا‬

‫‪35‬‬
‫اور کہ ا کہہ اس نےہ اپنےہ مسلم بھائیوں سےہ عہ د کررکھ ا ہےہ کہہ وہ‬
‫اپنی کوشش جاری رکھے گا ۔بعد ازاں اسے گرفتار کرلیاگیا جیل‬
‫میں جب میری اس س ے ملقات ہوئی تو اس ن ے کہ ا ک ہ تم ٹھیک‬
‫کہتےہ تھےہ ‪،‬مجھےہ اس وقت فرار ہوجانا چاہیےہ تھ ا لیکن میں نے‬
‫اپنی قوم س ے جو عہ د کیا تھ ا اس کو نبھاناضروری تھا۔اس لئے‬
‫میں نے فرار کے بارے میں سوچنے سے گریز کیا۔‬

‫عصام القمری کا جہاد ک ے بار ے میں اپنا ایک نظری ہ ہےہ جس پر‬
‫عمل کرنے کے لئے اس نے مختلف راہیں تلش کیں لیکن قسمت‬
‫نےہ اسےہ اجازت نہہ دی۔مصر میں سیکورٹی کانظام اس قدر‬
‫سخت ہے ک ہ اس ے توڑن ے کا ایک ہ ی طریق ہ ہے ک ہ اس ک ے مقابلے‬
‫میں ایک فوج اتاری جائ ے جس ک ے پاس قابل ذکر حد تک ہتھیار‬
‫ہوں ‪،‬جو دارالحکومت پر قبضہ کرلے اور کم ازکم دوہفتے تک فوج‬
‫کےہ ساتھہ جنگ کرسکےہ ۔اسلمی جہادی تحریکوں کےہ پاس جہاد‬
‫ک ے لئ ے ہزاروں نوجوان ہیں لیکن ی ہ سب غیر مسلح ‪،‬غیر تربیت‬
‫یافتہ ہیں اورانہیں لڑائی کاکوئی تجربہ نہیں ۔فوج اپنی طاقت کی‬
‫وجہہ سےہ اسلمی تحریکوں کو کچلنےہ کی پوزیشن میں ہےہ ۔‬
‫اسلمی تحریکوں ک ے لئ ے ی ہ ناممکن ہے کہہ فوج ک ے مقابل ے میں‬
‫ایک طاقتور اورمسلح فوج تیار کرسکیں ۔کیونکہہ سیکورٹی کے‬
‫انتظامات اس قدر زیاد ہ ہیں ک ہ فوج ک ے علم میں لئ ے بغیر خفیہ‬
‫طور پر اتنی منظم فوج تیارنہیں کی جاسکتی۔‬

‫عصام القمری کا نظریہہ تھاکہہ سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو‬


‫ہتھیار دیئےہ جائیں ‪،‬انہیں ٹینک چلنےہ کی تربیت دی جائے۔عصام‬
‫القمری کونواجوان مسلمانوں پر بڑا یقین تھا کہ اگر انہیں تربیت‬
‫دی جائے تویہ ایک بڑی جنگ کے تیار ہوسکتے ہیں۔‬

‫الجمالیہ کی جنگ‬
‫عبود کو جنگ میں ڈال دیا گیا۔انوسٹی گیشن کرنے والے افسر نے‬
‫اس کےہ ساتھیوں پر تشدد کرکےہ یہہ راز اگلوالیا کہہ وہہ عصام‬
‫القمری اور مج ھ س ے ملتھ ا چنانچ ہ مجھے بھ ی گرفتار کرلیاگیا ۔‬
‫قاہرہہ کےہ نواح میں الجمالیہہ پر حکومتی ایجنسیوں نےہ عصام‬
‫القمری کےہ ٹھکانےہ پر حملہہ کردیا۔یہاں ایک دلچسپ جنگ لڑی‬
‫گئی ۔‬

‫یہ جنگ منشیات الناصر کے علقے الجمالیہ کے نواح میں لڑی گئی‬
‫۔یہ دراصل ایک غریب بستی ہے جہاں مکان ایک دوسرے کے ساتھ‬

‫‪36‬‬
‫بنےہ ہوئےہ ہیں اور ان کےہ اندر چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں ہیں ۔‬
‫عصام نےہ ایک ورکشاپ میں پناہہ لےہ رکھی تھی ۔جسےہ محمد‬
‫عبدالرحمن الشرقاوی ن ے تعمیر کیاتھ ا اور اس کام میں ابراہیم‬
‫اورنبیل نے اس کی مدد کی تھی ۔یہ اس لئے تعمیر کی گئی تھی‬
‫کہ ہمارا ایک خفیہ اڈہ ہوگا۔الشرقاوی کو بعد ازاں سادات کے قتل‬
‫کےہ کیس میں سات سال قید کی سزا ہوگئی تھ ی جبکہہ طلئع‬
‫الفتح کیس میں اسے مزید پندرہ سال قید کی سزا سنادی گئی ۔‬
‫آج بھی وہ العقرب جیل مصر میں سزا بھگت رہا ہے۔‬

‫یہ ٹھکانہ ایک عظیم الشان گھر پر مشتمل تھاجس میں ایک چھت‬
‫بغیر ہال کمرہ تھاجس ک ے دائیں بائیں دو دوکمرے تھے اورہال کے‬
‫آغاز میں لوہے کا ایک بڑا گیٹ تھا ۔یہ ورکشاپ ایک تنگ گلی میں‬
‫کے اختتام پر واقع تھی جس تک پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا اور‬
‫اس ورکشاپ کو ایک منزلہہ تنگ مکانوں نےہ گھیرا ہوا تھا۔جب‬
‫وزارت داخلہہ کو پتہہ چل کہہ عصام القمری اس ورکشاپ میں‬
‫روپوش ہے تو اس سار ے علق ے کو حفاظتی دستوں اور پولیس‬
‫نے گھیر لیا ۔اس حملے میں سنڑل سیکورٹی فورس کی ”کاؤنٹر‬
‫ٹیرر بٹالین“استعمال کی گئی جوکہہ حملےہ کےہ لئےہ جدید ترین‬
‫اسلحےہ سےہ مسلح ایک بٹالین ہےہ ۔بٹالین نےہ کئی گھنٹےہ تک‬
‫ورکشاپ کا محاصرہ کئے رکھا ۔‬

‫محاصر ہ کرن ے والی بٹالین ن ے ورکشاپ ک ے اردگرد تمام گھروں‬


‫کی چھتوں پر مورچےہ بنالئےہ اور ان پر اپنی مشین گنیں نصب‬
‫کرلیں۔صبح صادق س ے قبل پویس نےہ لؤڈاسپیکروں س ے اعلن‬
‫کیاکہہ ورکشاپ کا محاصرہہ ہوچکاہےہ اور تمام لوگ ہتھیار پھینک‬
‫دیں ‪،‬جب ادھر سےہ کوئی جواب نہہ گیا تومحاصرہہ کرنےہ والی‬
‫فورس نے ہ اندھادھند فائرنگ شروع کردی ۔ورکشاپ کے‬
‫محصورین یقینا اس حملے کے لئے تیار تھے ۔ان کے پاس دومشین‬
‫گنیں ‪،‬دو ریوالور اورکچھ ہینڈ گرنیڈ تھے ۔حملہ آوروں نے جب اندر‬
‫داخل ہونےہ کی کوشش کی تو عصام نےہ ان پر ایک ہینڈہ گرنیڈ‬
‫پھینکا۔اس دوران عصام اور اس کےہ دوساتھی چھت پر جاکر‬
‫حملہہ آوروں پر مشین گنوں سےہ فائرنگ کرنےہ لگےہ ۔جلد ہی‬
‫مشین گنوں نےہ کام کرنا بند کردیالیکن عصام اور اس کے‬
‫ساتھیوں نےہ دوڑ گائےہ رکھی انہوں نےہ حملہہ آور فورس پردس‬
‫ہینڈگرنیڈہ پھینکےہ جن میں سےہ نو گرنیڈہ پھٹے۔حملہہ آوروں کی‬
‫مدافعت کمزور پڑگئی ۔عصام اور اس کے ساتھیوں نے محسوس‬
‫کیا ک ہ حمل ہ آور کمزور پڑگئ ے ہیں جب و ہ گیٹ س ے باہ ر نکل ے تو‬

‫‪37‬‬
‫ایک سپاہی اپنی گن سےہ دروازےہ کی طرف اشارہہ کررہاتھا ۔‬
‫نبیلنعیم نےہ گرنیڈہ مارکر اسےہ ختم کردیا اورلشیں عبور کرتے‬
‫ہوئ ے المقاتم ک ے پہاڑوں تک پہنچ گئ ے ۔کچ ھ فاصل ے س ے انہوں نے‬
‫دیکھاک ہ انہوں ن ے حمل ہ آور فورس کابہ ت نقصان کیا ہے اور حملہ‬
‫آور فورس نعشیں اکھٹا کررہی ہےہ اور زخمیوں کو وہاں سے‬
‫منتقل کررہی ہے ۔اس موقع پر یہ ہواکہ ابراہیم کے ہاتھ والے گرنیڈ‬
‫کی پن تھوڑی س ے سرک گئی تھی‪،‬اس ن ے اس ے درست کیا اور‬
‫باقی دونوں سےہ کہ ا کہہ وہہ دوسری طرف منہہ کرلیں کیونکہہ وہ‬
‫پیشاب کرنا چاہتاہے وہ گرنی ڈ زمین پر رکھ کر کچھ ہی دور گیا تھا‬
‫کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا لیکن اللہ کا کرنا ایسا تھاکہ وہ سب اس‬
‫دھماک ے س ے محفوظ رہے لیکن اس س ے ی ہ ہواک ہ حمل ہ آور چوکنا‬
‫ہوگئےہ اور آگےہ چل کر تقریبا ً سو افراد ک ے ایک گروپ ن ے انہیں‬
‫پکڑ لیا ۔عصام کو الجہاد کیس میں گرفتار کرلیاگیا۔‬

‫اللہ کاشکر ہے کہ مجھے لیمان طرۃ جیل میں اس کی معیت میں‬


‫وقت گزارنےہ کا موقع مل ۔اس نےہ یہہ تمام وقت منصوبہہ بندی‬
‫کرنےہ ‪،‬مختلف منصوبوں میں رنگ بھرنے‪،‬کچھہ منظر بنانےہ اور‬
‫موجود ہ مسائل کا حل سوچن ے میں گزارا۔ہمیں بھ ی اس ک ے ان‬
‫مشاغل میں حص ہ لینا پڑتاتھا۔مجھے اس مرتب ہ تین سال کی قید‬
‫کی سزاہوئی تھی جبکہ اس ے دس سال قید کی سزا ہوئی تھی ۔‬
‫حسب معمول اس نےہ سزا والی خبر بڑےہ سکون اور طمانیت‬
‫س ے سنی۔اس موقع پر اس ن ے مجھے کہ ا ک ہ ”مجھے افسوس ہے‬
‫کہ تمہیں بہت سابوجھ اٹھانا پڑگیاہے“اسلم مسلسل جیل میں رہا‬
‫اس دوران وہہ جیل سےہ بھاگنےہ کےہ منصوبےہ بھی تشکیل دیتا‬
‫رہا۔بالخر عصام اپنے ہ دوساتھیوں خمیس مسلم اورمحمد‬
‫السوانی ک ے ہمرا ہ ستر ہ جولئی ‪1988‬ءکوجیل س ے فرار ہوگیا ۔یہ‬
‫کوئی معمولی فرار نہہ تھا‪،‬اس کےہ لئےہ مہینوں اور سالوں تک‬
‫منصوبہہ بندی کی گئی تھی بالخر کامیاب ہوئی۔یہہ فرار کوئی‬
‫آسان کام نہہ تھ ا ۔اس میں ایک جھڑپ بھ ی شامل تھ ی ۔جونہی‬
‫انہوں ن ے جیل کی دیوار پھاندی ‪،‬ان کاسامنا حفاظتی گار ڈ سے‬
‫ہواجو ک ہ دیوارک ے سات ھ سات ھ حفاظت ک ے نقط ہ نظر س ے تعینات‬
‫کئے گئے تھے ۔اس فرار سے وزارت داخلہ میں سنسنی پھیل گئی‬
‫کیونکہہ انہیں اس قدر جرات مندانہہ اوردلیرانہہ اقدام کی توقع نہ‬
‫تھی ۔فرار ہونےہ والوں نےہ سب سےہ پہلےہ اپنی کوٹھری کی‬
‫سلخیں کاٹیں ڈیوٹی پر موجود گارڈز کو یرغمال بنایا‪،‬اپن ے پیچھے‬
‫بم پھینک کر چار میٹر اونچی باڑ پھلنگی ‪،‬راستےہ میں ایک اور‬
‫محافظ ک ے سات ھ ان کی م ڈ بھیڑ ہوئی ‪،‬فرار ہون ے والوں ن ے اس‬

‫‪38‬‬
‫سےہ مقابلہہ کرکےہ اس سےہ اسلحہہ چھین لیا اور وہہ اتی سخت‬
‫سیکورٹی کےہ باوجود اسوارجیل سےہ فرار ہونےہ میں کامیاب‬
‫ہوگئے۔‬

‫عصام القمری اور اس ک ے ساتھیوں ن ے جیل س ے فرار ہون ے کے‬


‫بعد دریائےہ نیل کو عبور کیا اورمیدانی علقےہ سےہ گزرتےہ ہوئے‬
‫وسطی ڈیلٹا ک ے علق ے تک پہنچ گئ ے ‪،‬چونک ہ انہوں ن ے ایک طویل‬
‫ترین راست ہ پیدل ط ے کیا تھ ا لہٰذا خمیس مسلم ک ے پاؤں زخمی‬
‫ہوگئ ے اور ان میں زبردست سوجن پیداہوگئی ۔سوجن س ے اسے‬
‫سخت بخار نے آگھیرا اور بخار سے اس پر کپکپی طاری ہوگئی ۔‬
‫خمیس ک ے علج اور اس ے آرام پہنچانے کیلئ ے فرار ہونے والوں نے‬
‫الجہاد گروپ کےہ ایک رکن خالد بخیت سےہ رابطہہ کیا ‪،‬جس نے‬
‫مفروروں کو الشرابیہہ میں واقع اپنےہ گھر میں ٹھیرالیا۔بری‬
‫قسمت ان کاپیچھ ا کرت ے کرت ے یہاں بھ ی آن پہنچی تھ ی ۔ریاست‬
‫کی سیکورٹی انٹیلی جنس فورس نےہ ‪25‬جولئی ‪1988‬ءکی صبح‬
‫خالد بخیت ک ے گھر پر چھاپہ مارا ‪،‬یہاں ایک اور جنگ بڑی بہادرانہ‬
‫طریق ے س ے لڑی گئی ۔انٹیلی جنس ک ے چھاپ ے کی روائیداد یوں‬
‫ہےہ کہہ سیکورٹی کےہ سربراہہ نےہ جونہی خالد بخیت کےہ گھر پر‬
‫دستک دی‪،‬ان پر بم برسائےہ گئےہ ۔عصام القمری نےہ اس پر‬
‫چھری سے حملہ کردیا ۔افسر اس حملہ میںبچ گیا اور اپنا پستول‬
‫وہیں چھوڑ کر بھاگ لیا ۔چھاپ ہ مارن ے وال ے گروپ ک ے دیگر ارکان‬
‫بھ ی سر پر پاؤں رکھہ کر بھاگ کھڑےہ ہوئےہ ۔عصام نےہ افسر کا‬
‫پستول اٹھالیا اور سب نےہ اس افسر کےہ پیچھےہ گلی میں دوڑ‬
‫لگادی ۔گلی ک ے نکڑ پر اپن ے بھائی کو فرارکیلئ ے محفوظ راستہ‬
‫فراہ م کرنےہ کےہ لئےعصام القمری کو پولیس کےہ ساتھہ ایک اور‬
‫جھڑپ میں الجھنا پڑا۔اس جھڑپ میں ایک گولی اس کےہ پیٹ‬
‫میں لگی اور وہ گرپڑا۔اس کے ساتھیوں نے مڑکر اسے اٹھانے کی‬
‫کوشش کی تو اس نے اٹھنے سے انکار کردیا اور اپنا پستول انہیں‬
‫دے دیا۔اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ موقع واردات سے‬
‫ن آفریں کے‬ ‫فرار ہوجائیں جبکہ اس ن ے موقع پر ہی اپنی جان جا ِ‬
‫سپرد کردی۔‬

‫ی ہ داستان مجھے نبیلنعیم ن ے لیمان طرہجیل میں سنائی ۔نبیل نے‬


‫بتایا کہہ عصام القمری کےہ جیل سےہ فرار ہونےہ پر اس نےہ جیل‬
‫سپرنٹنڈنٹ کو مذاقا ً کہ ا ک ہ عصام القمری اور اس ک ے ساتھیوں‬
‫ت داخل ہ مصر ک ے دور‬
‫ک ے جیل س ے فرار ہون ے کی وج ہ س ے وزار ِ‬
‫دراز ک ے علق ے میں ٹرانسفر کرد ے گی لیکن جیل سپرنٹنڈنٹ نے‬

‫‪39‬‬
‫سنجیدگی س ے جواب دیا کہ وزارت داخلہ ایسا نہیں کر ے گی بلکہ‬
‫القمری اور اس ک ے ساتھیوں کو اتن ے سال جیل میں رکھن ے کے‬
‫صلےہ میں وزارت داخلہہ کو اسےہ گولڈمیڈیل دینا چاہیے‪،‬چنانچہ‬
‫وزارت داخلہ نے اسے اس کی ملزمت سے نہ نکال۔‬

‫باب نمبر ‪5‬‬


‫حکومت نےہ ‪12‬اگست ‪1988‬ءکو جمع ہ ک ے روز مصر میں ایک اور‬
‫آپریشن کا آغاز کیا ۔نماز مغرب کے بعد پولیس کے مسلح دستوں‬
‫نےہ آدم مسجد پر ہلہہ بول دیا جہاں اسلمی گروپ کا ہفتہہ وار‬
‫اجتماع جاری تھا ۔پولیس کا آدم مسجد پر حملہہ کوئی غیر‬
‫معمولی بات ن ہ تھ ی کیونک ہ پولیس ک ے دست ے قبل ازیں بھ ی آدم‬
‫مسجد پر اس طرح کےہ چھاپےہ مارچکےہ تھےہ ۔اس مسجد پر‬
‫پولیس ک ے چھاپ ے شاید اس کی عادت بن چکی تھ ی ۔قبل ازیں‬
‫بھی حملے میں متعدد کتابیں تباہ ہوچکی تھیں۔‬

‫الل ہ کی مرضی تھ ی ک ہ قبل ازیں اس طرح کاحمل ہ کرن ے والوں‬


‫کو اللہہ کی طرف سےہ کبھی سزا نہہ دی گئی تھی ۔یہہ جرائم‬
‫وزارت داخلہہ اورامریکی انتظامیہہ کی طرف سےہ کئےہ جارہے‬
‫تھے۔اسلمی طاقتوں کو دبایا جارہاتھا۔اس سےہ خطےہ میں‬
‫اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت مل رہی تھی ۔حملے‬
‫کا آغاز مسجد کی کھڑکیاں توڑن ے س ے ہوا۔پھ ر اندر آنسو گیس‬
‫پھینکی گئی اور گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی تاکہہ لوگ بھاگ‬
‫جائیں‪،‬جب مسجد میں عبادت ک ے لئ ے آن ے والوں ن ے مسجد سے‬
‫نکلنا شروع کیا ‪،‬پولیس اند گھس آئی اور اندھادھند فائرنگ کرنے‬
‫لگی ۔یوں محسوس ہوتا تھ ا کہہ وزارت داخلہہ کےہ افسران پاگل‬
‫ہوگئےہ ہوں ۔جونہ ی لوگوں پر فائر کھولگیا ‪،‬بچے‪،‬عورتیں‪،‬بڑھےہ ‪،‬‬
‫بوڑھےہ اور نوجوان گرنےہ لگے۔اس علقےہ کی گلیاں اور گھر‬

‫‪40‬‬
‫لشوں اور زخمیوں سےہ بھرگئے۔ہرطرف خون ہ ی خون تھا۔جو‬
‫بچ گئے پولیس انہیںٹرکوں میں ڈال کر گرفتار کرکے لے گئی ۔جب‬
‫لوگوں کو پکڑ کر ٹرکوں میں ٹھونسا جارہاتھ ا توکچ ھ لوگوں نے‬
‫مزاحمت کی جس س ے دو افسر اور چار سپاہ ی زخمی ہوگئ ے ۔‬
‫بعد ازاں ایک افسر محمد زکریا جس ک ے سر میں شدید چوٹیں‬
‫آئیں تھیں ہسپتال میں انتقال کرگیا ۔وزارت داخل ہ ن ے اس علقے‬
‫میں کرفیونافذ کردیا اور اس علقےہ میں پولیس فورس کے‬
‫خصوصی دستے تعینات کردیئے۔‬

‫عین شمس کے علقے میں دوسری مہم جوئی ‪7‬دسمبر ‪1988‬ءکو‬


‫کی گئی جب وزارت داخل ہ کو پت ہ چل ک ہ عصام گروپ ک ے تحت‬
‫ایک احتجاجی مظاہرہہ کیا جائےہ گا ۔مظاہرین القباش صدارتی‬
‫محل تک پر امن مارچ کریں گ ے اور یہ مظاہر ہ مقبوض ہ فلسطین‬
‫میں انتفادہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کیاجائے گا ۔پولیس نے‬
‫اس بات سےہ قطع نظر کہہ مظاہرےہ کا مقصد کیا ہےہ ‪،‬مظاہرہ‬
‫ترتیب دین ے وال ے گروپ کو سختی س ے منع کیا کہ وہ یہ مظاہرہ نہ‬
‫کریں۔‬

‫پولیس نے نماز مغرب کے بعد آدم مسجد پرچھاپہ مارا اور مسجد‬
‫میں موجود تمام نمازیوں کو حراست میں ل ے لیا ۔اس ک ے ساتھ‬
‫سات ھ پولیس نےہ اسلمی گروپ کےہ ارکان کی گرفتاری کےہ لئے‬
‫ایک بڑی مہ م شروع کی اورعین شمس‪،‬المطریہہ ‪،‬الف مسکن‬
‫اور مساکنعین شمس میں چھاپ ے مارکر وسیع پیمانےہ پر ارکان‬
‫کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا ۔اس مہم کے دوران ‪ 180‬کے‬
‫قریب افراد گرفتار کئے گئے۔‬

‫حکومتی پروردہہ اخبارات میں وزارت داخلہہ کےہ ترجمان کاایک‬


‫بیان شائع ہوا ‪،‬جس میں وزارت ن ے اعتراف کیا ک ہ عین شمس‬
‫میں چھاپوں کےہ دوران اسلمک گروپ کےہ درجنوں ارکان کو‬
‫گرفتار کیا گیا ہے ۔بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ چھاپوں کے دوران‬
‫اسلح ہ اور تحریری مواد (بروشر وغیرہ)بھ ی پکڑاگیا ‪،‬بیان میں یہ‬
‫بھی دعویٰہ کیاگیا کہہ آدم مسجد کو بند کردیاگیاہےہ اور بعض‬
‫مفرور ارکان کی گرفتاری ک ے لئ ے مزید آپریشن بھ ی کئ ے جائیں‬
‫گےہ تاہ م اس بیان میں مفرور لوگوں کےہ والدین بیوی بچوں کا‬
‫ذکر نہیں تھ ا جنہیں پولیس نےہ یرغمال بنالیاتھ ا اور ان پر تشدد‬
‫کرک ے انہیں مجبور کیا جارہ ا تھاک ہ و ہ اپن ے مفرور رشت ہ داروں کی‬
‫پناہ گاہوں کے بارے میں پولیس کو بتائیں۔‬

‫‪41‬‬
‫ڈپٹی چیف انٹیلی جنس لیفٹیننٹ کرنل کا قتل‬
‫حالت تیزی سےہ تبدیل ہونےہ لگےہ ۔عین شمس کےہ مارکیٹ کے‬
‫علق ے میں ایک پھیری لگانے وال ے نے انٹیلی جنس یونٹ ک ے ڈپٹی‬
‫چیف لیفٹیننٹ کرنل عصام شمس کو خنجر گھوپ دیا جو بعد‬
‫ازاں ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لتے ہوئے وفات پاگیا ۔پھیری‬
‫لگان ے وال فرار ہوگیا ۔تحقیقات پر پتہ چلک ہ مفرور کا نام شریف‬
‫محمد احمد ہےہ اور اسےہ پولیس نےہ متعدد مرتبہہ گرفتار کرکے‬
‫زبردست تشددکانشانہہ بنایاتھا۔اسلمی گروپ کےہ ارکان کی‬
‫گرفتاری ک ے لئ ے جاری مہ م میں بھ ی اس ے پکڑلیاگیا تھ ا اورعین‬
‫شمس کے ایک تھانے میں اس پر تشدد کیاگیا تھا۔‬

‫قتل وغارت گری کے اس ڈرامے کا ڈراپ سین اس وقت ہوا جب‬


‫شریف محمد احمد ‪،‬خالد اسماعیل اور اشرف درویش کو بہیمانہ‬
‫طریقےہ سےہ قتل کردیا گیا ۔وزارت داخلہہ نےہ اس سانحہہ پر جو‬
‫بیان جاری کیا اس میں کہا گیا کہہ ان تینوں مقتولین نےہ شبر‬
‫اسٹریٹ میں اس وقت پولیس پارٹی پر فائرنگ کردی جب‬
‫پولیس پارٹی انہیں گرفتار کرنے کے لئے گئی ۔یہ سب پولیس کی‬
‫کہانی تھ ی ۔پولیس نےہ انہیں گرفتار کرکےہ موت کےہ گھاٹ اتارا‬
‫تھا۔اگر ان لوگوں نےہ پولیس پر حملہہ کیا ہوتا تو پولیس پارٹی‬
‫کاکوئی کارکن بھ ی زخمی ہوتا یا مرتا ایسا نہیں ہوا۔پولیس کے‬
‫کسی ایک فرد کو خراش تک نہہ آئی تھی ۔پولیس نےہ یہہ سارا‬
‫آپریشن صرف تین گھنٹ ے میں مکمل کرلیا اور اس قلیل مدت‬
‫میں تاریخ کے تین جوان مرد اوربہادر انسانوں کو موت کے گھاٹ‬
‫اتار دیا۔‬
‫وزارت داخلہہ کےہ ترجمان نےہ اپنےہ من گھڑت اور خوساختہہ بیان‬
‫میں ی ہ دعوی ٰ بھ ی کیا ک ہ پولیس ن ے کاروائی ک ے بعد ہتھیار بھی‬
‫برآمد کرلئےہ ۔اس پولیس چھاپےہ کےہ دوران پولیس نےہ اسلمی‬
‫گروپ کی ایک اور ممتاز شخصیت جابر محمد احمد کو بھی قتل‬
‫کردیا اور اس ک ے بار ے میں پولیس ک ے ترجمان ن ے دعوی ٰ کیا کہ‬
‫اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے پولیس کے ایک‬
‫افسر پر حملہ کردیا اور اسے ہلک کرنے کی کوشش کی۔پولیس‬
‫نے اس شدیدمزاحمت پر فائرنگ کردی جس سے وہ زخمی ہوگیا‬
‫اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لتے ہوئے ہلک ہوگیا۔‬

‫ان واقعات کے رد عمل کے طور پر پورے علقے میں دن اور رات‬


‫کا کرفیونافذ کردیا گیا ۔اور مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لئے ایک‬

‫‪42‬‬
‫بار پھر وسیع پیمانے پر چھاپوں اور گرفتاریوں کا آغاز کردیا گیا ۔‬
‫کرفیوکی خلف ورزی کرنے والوں کو دیکھت ے ہی گولی مارنے کا‬
‫حکم دےہ دیاگیا۔اس سےہ پورےہ علقےہ میں شدید خوف وہراس‬
‫پھیل گیا ۔مخصوص علقوں میں کاروبار زندگی بند ہوگیا اور‬
‫اسلمی گروپ کےہ لوگوں کو پکڑنےہ کےہ لئےہ دھرتی کا چپہہ چپہ‬
‫چھاننے کے عمل کا آغاز ہوا۔‬

‫ان تمام تر واقعات کے پس منظر میں عین شمس تھانے کے اس‬


‫پولیس افسر کا ہاتھ تھا جس نے اسلمی گروپ کے ایک بے ضرر‬
‫اورمعصوم کارکن کو پکڑ کر وحشیانہ تشدد کانشانہ بنایاتھا۔جیسا‬
‫ک ہ پہل ے بتاچکاہوں ۔اس کارکن ن ے رہائی پات ے ہی پہل ے اس پولیس‬
‫افسر کے شب وروز کا مطالعہ کیا ‪،‬بعد ازاں اس کی آمد ورفت‬
‫کے راستے میں ایک ریڑھی لگالی اور ایک دن موقع پاتے ہی اس‬
‫نےہ تیز دھار چھری سےہ اس پولیس افسر پر حملہہ کرکےہ اسے‬
‫خون میں نہلدیا۔اس واقعہہ کےہ بعد پولیس نےہ ملک بھر میں‬
‫اسلمی گروپ کو نشانےہ پر رکھہ لیا اور ان کےہ خلف وسیع‬
‫پیمانےہ پر پکڑ دھکڑ ‪،‬جیل اور سزاؤں پر عملدرآمد کا آغاز‬
‫کردیاتھا۔‬
‫اس وقت ک ے وزیر داخل ہ زکی بدر ن ے اسلمی گروپ کےہ ‪ 30‬کے‬
‫قریب مفرور ملزموں کی ماؤں ‪،‬بہنوں اور بیٹیوں کو حراست‬
‫میں لینےہ کا حکم جاری کیا اور اپنےہ حکم نامہہ میں کہ ا کہہ ان‬
‫عورتوں کو حراست میں لے کر اس وقت تک رہا نہ کیا جائے جب‬
‫تک یہہ اپنےہ مفرور بھائیوں ‪،‬بیٹوں اور والدوں کا پتہہ نہہ بتادیں ۔‬
‫پولیس نےہ ان بےہ گناہہ عورتوں کو گرفتار کیا اور عین شمس‬
‫تھان ے میں رک ھ کر ان پر تشدد کیا ‪،‬انہیں مارا پیٹا گیا اور انہیں‬
‫بھوکاپیاسا رکھن ے ک ے بعد ان ب ے چاری عورتوں کو لزوگ لی کے‬
‫علقے میں اسٹیٹ سیکورٹی انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ منتقل کردیا‬
‫جہاں ان پر ظلم وسربیت کے پہاڑ توڑے گئے ‪،‬ان کے کپڑے اتار کر‬
‫انہیں عریاں کرن ے ک ے بعد گھسیٹا گیا‪،‬ٹھڈے مار ے گئ ے اور ان کی‬
‫توہین کی گئی۔‬

‫انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ ن ے گویا اس طرح عین شمس تھانےہ کا‬


‫واقعہ کا بدلہ معصوم عورتوں سے لیا۔یہ دراصل ریاست کی جانب‬
‫س ے اعلن تھ ا ک ہ پولیس اسلمی گروپ ک ے خلف کاروائی کرتے‬
‫ہوئ ے اس ے کچلن ے ک ے لئ ے کسی بھ ی حد تک جاسکتی ہے۔پولیس‬
‫ن ے عورتوں کی تذلیل کرک ے علق ے ک ے لوگوں کو بھ ی پیغام دیا‬
‫تھا‪،‬جو اسلمی گروپ کی کاروائیوں کوحق بجانب سمجھتے‬

‫‪43‬‬
‫تھے ۔ی ہ پولیس کی جانب س ے پیغام تھاکہ اسلمی گروپ کو ختم‬
‫کردیاجائےہ گااور اس دوران جو بھ ی طاقت یا فرد ریاست کے‬
‫سامنےہ آئےہ گا یا اسلمی گروپ کےہ ارکان کو حمایت ‪،‬پناہ‬
‫یااخلقی حمایت مہیا کرےہ گا اسےہ بھی راستےہ سےہ ہٹادیاجائے‬
‫گا۔ذکی بدر ن ے دراصل وزارت داخل ہ کی پالیسی کا اعلن کردیا‬
‫تھا کہ اسلمی گروپ کا پتا صاف کردیاجائے گا اور اس دوران جو‬
‫بھی طاقت یا فرد ریاست کے سامنے آئے گا یا اسلمی گروپ کے‬
‫ارکان کو حمایت‪ ،‬پناہہ یا اخلقی حمایت مہیا کرےہ گا اسےہ بھی‬
‫راست ے س ے ہٹادیاجائ ے گا ۔زکی بدر ن ے دراصل وزارت داخل ہ کی‬
‫پالیسی کا اعلن کردیاتھاکہ اسلمی گروپ کا پتاصاف کردیاجائے‬
‫گا اور اس کے بعد ہمدردوں کوبھی نقصان اٹھاناپڑے گا۔‬

‫وفاقی وزیر داخلہ کے قافلے پر حملہ‬


‫ہم نےعین شمس کے واقعات کا سخت جواب دینے کافیصلہ کیا ۔‬
‫ط ے ی ہ پایا ک ہ اینٹ کاجواب پتھ ر س ے دیاجائ ے گا ۔اس ضمن میں‬
‫وزیر داخلہ کو بم سے اڑانے کامنصوبہ بنا اور یہ فیصلہ یاگیاکہ وزیر‬
‫داخلہہ کےہ پورےہ قافلہہ کو ایک کار کےہ ذریعےہ جس میں بارود‬
‫بھراہوگا اڑادیاجائےہ گا اور اس طرح وفاقی وزیرداخلہہ ذکی بدر‬
‫اپنےہ منصوبوں سمیت خاک میں مل جائیں گےہ لیکن یہہ منصوبہ‬
‫اس وقت خاک میں مل گیا جب کار میں پڑا بارود کسی تیکنیکی‬
‫خامی کی وجہہ سےہ پھٹنےہ میں ناکام رہ ا اور ڈرائیور کو گرفتار‬
‫کرلیاگیا ۔اس طرح ی ہ منصوبہہ ناکام ہوگیا اور وفاقی وزیر داخلہ‬
‫زکی بدر بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔‬

‫ڈاکٹر علءمحی الدین کا بھرے بازار میں قتل‬


‫وزارت داخلہ سے اب اسلمی گروپ کی کھلی جنگ ہورہی تھی ۔‬
‫زکی بدر کے خلف کی جانے والی سازش میں اس کے بچ نکلنے‬
‫کے بعد وزارت داخلہ نے اسلمی گروپ کو اس کاروائی کا جواب‬
‫یوں دیا کہہہ ‪2‬ستمبر ‪1990‬ءکو بھرےہ بازار میں ڈاکٹر علءمحی‬
‫الدین کو قتل کردیا۔اللہہ تعالیٰہ ڈاکٹر علءمحی الدین پر اپنی‬
‫رحمتوں کی بارش کرےہ اور اسےہ جنت الفردوس میں جگہ‬
‫عطافرمائ ے ۔ڈاکٹر محی الدین اسلمی گروپوں ک ے رہنماؤں میں‬
‫سے ایک تھے اور ہمیشہ اس بات کی وکالت کرتے تھے کہ اسلمی‬
‫گروپ کو حکومت ک ے سات ھ گفت وشنید کا درواز ہ بند نہیں کرنا‬
‫چاہیےہ تاکہہ مصالحت اور مفاہمت کا امکان باقی رہےہ ۔انہوں نے‬
‫متعدد مواقع پر حکومت اور اسلمی گروپ کےہ مابین گفت‬

‫‪44‬‬
‫وشنید کی بات کرکےہ وسیع عوامی پذیرائی حاصل کی تھ ی ۔‬
‫انہوں ن ے آزادان ہ گفتگو کا نعر ہ بلند کیا لیکن ی ہ نعر ہ شاید ہمارے‬
‫حکمرانوں کو پسند نہ تھا۔‬

‫ڈاکٹر محی الدین کا قتل اسلمی گروپوں ک ے لئ ے ایک جواب تھا‬


‫کہہ حکومت کسی بات چیت کی کسی بھی کوشش کا جواب‬
‫گولی س ے د ے گی اور ی ہ قتل واضح اشار ہ تھ ا ک ہ گفتگو کرن ے کی‬
‫نہ توکوشش کی جائے اورنہ ہی ضرورت محسوس کی جائے ‪،‬اگر‬
‫اس طرح کی کوشش کی گئی تو اس کا جواب ہلکتوں کی‬
‫صورت میں دیاجائےہ گا اور حکومت اسلمی جہاد گروپ کے‬
‫وجود کو اب کسی صورت میں برداشت نہیں کرےہ گی۔اگر یہ‬
‫دیکھاجائ ے توحکومت بھ ی اپن ے طور پر درست انتقامی کاروائی‬
‫کررہی تھی کیونکہ اسلمی گروپ نے مختلف محاذوں پر حکومت‬
‫کو ناکوں چنے چبوائے تھے اور اسے زبردست شکست سے دوچار‬
‫کیا تھا اور اسلمی گروپ حکومت کےہ خلف زبردست محاذ‬
‫آرائی میں مصروف تھا۔‬

‫اسلمی گروپ نوجوانوں کوگروپ میں شامل کرنےہ اورانہیں‬


‫تربیت دےہ کر حکومت کےہ خلف صف آراءکرنےہ کی صلحیت‬
‫رکھتا تھااور آہستہہ آہستہہ مسلمانوں میں یہہ گروپ شہرت اختیار‬
‫کرتا جارہ ا تھا۔گروپ اسرائیل ک ے تعلقات کوخوشگوار بنان ے کے‬
‫خلف تھا۔حکومت گروپ کو امن کےہ لئےہ بڑا خطرہہ سمجھتی‬
‫تھی ۔گروپ نے ڈاکٹرمحی الدین کے قتل کا جواب دینے کی ٹھانی‬
‫اور داخلہہ امور کےہ وزیر مملکت عبدالحلیم موسیٰہ کو بم سے‬
‫اڑان ے کا منصوب ہ تشکیل دیا لیکن الل ہ کو شاید یہ ی منظور تھ ا کہ‬
‫عبدالحلیم موسیٰہ اس حملہہ میں بچ گئےہ کیونکہہ وہہ اس راستے‬
‫س ے اس روز گزرےہ ہ ی نہیں جب اس وقت بم پھٹنا تھا۔عوامی‬
‫اسمبلی کے اسپیکر رفعت المحجوب کا قافلہ وہاں سے گزرا ‪،‬بم‬
‫پھٹا اورا سپیکر عوامی اسمبلی ہلک ہوگئے۔‬

‫اسلمی گروپ نےہ حکومتی غم وغصےہ سےہ نپٹنےہ کےہ لئےہ اپنی‬
‫حکمت عملی تبدیل کی اور طےہ پایا گیا کہہ ایک طویل المیعاد‬
‫حکمت عملی ترتیب دی جائے اور حکومت کے ہر حملے کا انتہائی‬
‫غور وخوض کےہ بعد دیاجائے۔‪1990‬ءکےہ اوائل میں حالت ن ے پھر‬
‫ایک کروٹ لی ۔حکومت نےہ ایک مرتبہہ پھر الجہاد گروپ کے‬
‫کارکنوں کی ایک بھاری تعداد کو گرفتار کرلیا۔پولیس ن ے گرفتار‬
‫کئےہ جانےہ والوں میں سےہ ‪ 800‬کارکنوں کےہ خلف مقدمہہ درج‬

‫‪45‬‬
‫کرکےہ ان کےہ مقدمات عدالتوں کےہ سپرد کردئیےہ ۔عدالت نے‬
‫ملزموں کو دھڑا دھ ڑ سزائیں سنانا شروع کردیں اور ان میں‬
‫چار ملزموں کو عدالت ن ے موت کی سزا سنادی ۔حکومت کے‬
‫ترجمان اخبارات ایک گولی چلئےہ بغیر الجہاد گروپ کے ہ ‪800‬‬
‫کارکنوں کی گرفتاری کی خبروں سے بھرے ہوئے تھے ۔ہماری آغاز‬
‫سےہ ہی یہہ کوشش رہی کہہ آہستہہ آہستہہ جہاد کوپھیلیاجائےہ اور‬
‫تبدیلی کے عمل کے لئے منظم کوششیں کی جائیں۔‬

‫حکومت نے جب اسلمی گروپ پر کھلے حملوں کا آغاز کیا توپھر‬


‫ہ م نےہ بھ ی یہہ فیصلہہ کیا کہہ حکومت کےہ ساتھہ براہہ راست محاذ‬
‫آرائی کا سلسلہ شروع کیاجائے ۔ہم نے وزارت داخلہ کے نئے وزیر‬
‫حسن اللفی کو ہلک کرن ے کا منصوب ہ تشکیل دیا ۔منصوب ہ ی ہ تھا‬
‫کہہ ایک موٹر سائیکل کو آتش گیر مادےہ لد کر وزیر داخلہہ کی‬
‫گاڑی س ے ٹکرایادیاجائ ے ۔منصوبےہ پر عمل درآمد ہوا لیکن وزیر‬
‫داخلہہ بچ گئےہ تاہ م اس حملہہ میں ان کا ایک بازو ٹوٹ گیا۔اسے‬
‫کاغذوں کے ڈھیر نے بچالیا جو اس کے پہلو میں موجود تھا۔یہ حملہ‬
‫وزیر مواصلت صفوت الشریف پر حمل ے ک ے بعد کیاگیاتھا۔وزیر‬
‫مواصلت بھ ی ایک ایسےہ ہ ی حملہہ میں بچ گئےہ تھےہ ‪،‬پھ ر الجہاد‬
‫گروپ نے ملٹری کے مرکزی کمانڈر پر گھات لگاکرحملہ کیا ۔اس‬
‫ملٹری کمانڈر نے اسلمی گروپ کے تمام رہنماؤں جن کو فوجی‬
‫عدالت سےہ سزا سنائی گئی تھی ان سزاؤں کی توثیق کی‬
‫تھی۔یہہ حملہہ بھ ی ناکام ہوگیا کیونکہہ کمانڈ ر کی کار بلٹ پروف‬
‫تھی۔‬

‫پولیس نے گھر گھر چھاپوں کے دوران جس طرح اسلمی گروپ‬


‫کے لوگوں کو اپنی سربیت کانشانہ بنایا جس پر الجہاد گروپ کے‬
‫لوگوں میں غم وغص ے کی لہ ر دوڑ گئی ۔انہوں ن ے اس ب ے عزتی‬
‫کابدل ہ لین ے کاپروگرام بنایااور اس کا جواب یوں دیا گیا ک ہ وزیر‬
‫اعظم عاطف صدقی کےہ قافلےہ پر حملہہ کرکےہ وزیر اعظم کو‬
‫قتل کرن ے کا منصوب ہ تشکیل دیا اور اس ک ے لئ ے آتش گیر مادے‬
‫س ے بھری ہوئی ایک کار استعمال کرن ے کاپروگرام بنایاگیا ۔بوبی‬
‫ٹریپ میں استعمال ہون ے والی کار دھماک ے س ے وزیر اعظم کی‬
‫گاڑی س ے ٹکران ے کو نکلی تووزیر اعظم کی کار ک ے ڈرائیور نے‬
‫گاڑی کوانتہائی سرعت کےہ رفتاری سےہ موڑدیا جس سےہ وزیر‬
‫اعظم کو معمولی خراشیں ہی آسکیں لین کے بارود کی زد میں‬
‫آکر ایک اسکول کی طالبہہ ‪،‬معصوم بچی آگئی ۔یہہ بچی شیما‬
‫سڑک کےہ کنارےہ کھڑی تھی۔حکومت نےہ الجہاد گروپ کےہ اس‬

‫‪46‬‬
‫حمل ے ک ے بار ے میں ی ہ پراپیگنڈہ کیا ک ہ ی ہ حمل ہ بچی پر کیاگیا۔اللہ‬
‫تعالیٰہ اس بچی کو اپنےہ جوار رحمت میں جگہہ عطاءفرمائےہ ۔‬
‫حکومت وزیر اعظم پر اس حملےہ اور اس میں ان کےہ زخمی‬
‫ہونے واقعہ کو چھپا گئی۔‬

‫اسلمی گروپ کے لوگوں کو معصوم شیما کی ہلکت کابہت دکھ‬


‫تھا کیونکہہ وہہ معصوم روح تو ان کا ٹارگٹ نہہ تھی ۔بعد ازاں‬
‫گروپ کے لوگوں نے علقے کا سروے کیا تومعلوم ہوا کہ پہلے سے‬
‫کئےہ گئےہ سروےہ کےہ نتائج درست نہہ تھےہ ۔پہلےہ یہہ سمجھاگیاتھ ا کہ‬
‫یہاں ایک اسکول ہے جسے ازسر نو تعمیر کیاجارہا ہے جبکہ عقبی‬
‫حص ے میں بچ ے زیر تعلیم تھے اورانہ ی میں س ے ایک بچی حملے‬
‫کےہ وقت سڑک پر آگئی تھی جس سےہ وزیر اعظم توبچ گئے‬
‫لیکن یہ نازک روح شیماماری گئی ۔اس کی ہلکت پر ہم سب دل‬
‫مسوس کررہ گئے ۔ہم سب اس کی موت پر غمزدہ تھے لیکن ہم‬
‫کر بھی کیاسکتےہ تھے؟ ہم اللہہ کی مرضی کےہ سامنےہ بےہ بس‬
‫تھےہ ۔ہمیں اس ظالم حکومت کےہ ساتھہ لڑائی کرناتھی ۔یہ‬
‫حکومت اللہ کی شریعت کے خلف تھی اور اللہ کے دشمنوں کی‬
‫حامی تھی ۔‬

‫ہ م لوگوں کو متعددبار خبردار کرچکےہ تھےہ کہہ وہہ ان شخصیات‬


‫مثل ً وزیر اعظم ‪،‬وزیر داخلہ ‪،‬وزیر اطلعات اور اسی نوع کے اہم‬
‫صاحبان اقتدار سے علیحدہ رہیں اورجہاں جہاں سے ان کے قافلے‬
‫گزرتا ہ و وہاں جان ے س ے گریز کریں تاکہ کسی بے گناہ انسان کی‬
‫جان ضائع نہ ہ و ۔حکومتی شخصیات جان بوج ھ کر عوام ک ے اندر‬
‫گھ ل مل جاتی تھیں تاک ہ انہیں نشان ہ بنایاجاسک ے کیونک ہ عوام بے‬
‫گناہہ عوام کےہ درمیان کسی اعلیٰہ حکومتی شخصیت کو قتل‬
‫کرنا مشکل ہوتا ہے ۔خدش ہ رہتا ہے ک ہ اس کاروائی میں معصوم‬
‫لوگوں کی جانی نقصان نہ پہنچے لیکن چونکہ یہ خود کو بچانے کے‬
‫لئ ے عوام میںگھ ل مل جات ے ہیں اس لئ ے ہمار ے گروپ ک ے سامنے‬
‫یہ سوال ہمیشہ موجود رہتا کہ انہیں لوگوں سے علیحدہ کرکےکس‬
‫طرح موت ک ے گھاٹ اتاراجائ ے ؟ہ م ن ے ہمیش ہ ی ہ کیا ک ہ لوگوں کو‬
‫متنبہہ کیا کہہ فلں فلں شخصیت ہمارا ٹارگٹ ہےہ لہٰذا اس سے‬
‫علیحدہ رہا جائے۔‬

‫ہمارےہ ایک جہادی ساتھی السید صلح نےہ یہہ کہہہ کر ہماری دکھ‬
‫بھری بحث اور غم آلود گفتگو کو ختم کردیا کہہ شیماجیسی‬
‫معصوم بچی ک ے قتل کا ہمیں افسوس ہے لیکن جہاد جاری رہے‬

‫‪47‬‬
‫گا۔اس طرح کے واقعات جنم لیت ے رہیں گ ے لیکن جہاد جاری رہنا‬
‫چاہیے۔جہاں تک مسلمانوں کو ارادی طور نقصان پہنچانے کا تعلق‬
‫ہے توہ م ن ے امام شافعی کی رائ ے کو مقدم جانا ‪،‬جن کی رائے‬
‫میں موجود ہ لوگ مار ے جائیں‪،‬ان ک ے عزیز واقارب کو خون بہا‬
‫اداکیاجائے۔ہمارای ہ پخت ہ یقین ہے ک ہ جو لوگ اس طرح ک ے حادثات‬
‫میں غیر ارادی طور پر مار ے جائیں ‪،‬ان ک ے قریبی عزیزوں کو‬
‫خون بہ ا اداکیاجائےہ ۔اگر ہ م شیما کی مثال ہ ی لےہ لیں تو ہمیں‬
‫ترازوک ے ایک پلڑ ے میں شیما کو اور ترازو کے دوسر ے پلڑ ے میں‬
‫اپنی بیٹیوں کو رکھ کر دیکھنا چاہیے ۔ان بیٹیوں کو بھی دیکھاجانا‬
‫چاہی ے جن ک ے والد ایک عظیم کا کرت ے ہوئ ے موت ک ے گھاٹ اتر‬
‫گئ ے ۔ان بیویوں اور ماؤں کو بھ ی دیکھنا چاہی ے ک ہ جن ک ے شوہر‬
‫ن آفرین کے‬‫اور بیٹے جہاد جیسا عظیم مشن اپنا کر اپنی جان جا ِ‬
‫سپرد کرگئےہ اور ان کےہ سامنےہ اللہہ کی راہہ میں جان دینےہ کا‬
‫مقدس مشن تھا۔‬

‫حکومت نے مجھے اور ‪280‬افراد کو پکڑلیا تاکہ ہم سب ک ے خلف‬


‫مقدمہ ہ قائم کیا جائے ہ اور ہم سب کو سزائے ہ موت دی‬
‫جاسکے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بچیوں (اس وقت دو تھیں)اور‬
‫میر ے ساتھیوں ک ے بچوں کو یتیم کرناچاہت ے تھے۔ہمار ے بچوں کے‬
‫کیلئ ے کون آہہ وفغاں کرتا؟ کس ے ان کی پرواہہ ہوتی ؟پولیس نے‬
‫سید قرنی کے مکان پر چھاپہ مارا تو اس کی بیٹی نے گولی سے‬
‫بچنےہ کےہ لئےہ دوڑ لگادی ۔پولیس نےہ بھاگتی لڑکی پر فائرنگ‬
‫کرک ے اس ے چھلنی کردیا۔قرنی کی بیٹی خون میں لت پت وہیں‬
‫ڈھیر ہوگئی اور دیکھت ے ہ ی دیکھت ے ہلک ہوگئی ‪،‬اس ک ے لئ ے کس‬
‫نے آنسو بہائے ؟‬

‫ہماری ہزاروں مائیں ۔بہنیں اور بیٹیاں جیل کی سلخوں ک ے باہر‬


‫اس انتظار میں کھڑی ہیں ک ہ کوئی انہیں ان ک ے پیار ے والدین ‪،‬‬
‫شوہروں اوربھائیوں س ے ملواد ے ۔و ہ ان کی یاد میں آنسو بہاتی‬
‫رہتی ہیں ‪،‬تڑپتی رہتی ہیں ‪،‬اپن ے پیاروں س ے ملن ے ک ے لئ ے کیا کیا‬
‫جتن نہیں کرتیں ؟اپن ے بھائیوں ‪،‬شوہروں اور بیٹوں س ے ملن ے کے‬
‫لئ ے انہیں کن کن مراحل اور آزمائشوں س ے گزرنا پڑتاہے۔ان کے‬
‫المی ے میں کس ے دلچسپی ہے ؟ لیمان طر ۃ جیل ک ے سامن ے صنعا‬
‫عبدالرحمن پر تشددکرکےہ پولیس نےہ اس کا بازوتوڑدیا ۔اس‬
‫وقت صنعا کےہ ساتھہ اس کی تین سالہہ بیٹی خدیجہہ بھ ی تھ ی ۔‬
‫الشعب اخبار ن ے بازو س ے محروم صنعا اور اس کی بیٹی خدیجہ‬
‫کی تصویر شائع کی تھی ۔‬

‫‪48‬‬
‫پرد ے اورنقاب پر اسکولوں ‪،‬کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کون‬
‫پابندی لگارہ ا ہے ؟کون ہے جو ہماری بیٹیوں کو اسلم ک ے اقتدار‬
‫کےہ خلف لڑنےہ کےہ لئےہ کہہہ رہ ا ہےہ ؟اور ہماری بیٹیوں کو مجبور‬
‫کیاجارہا ہے کہ وہ مغرب اور اس کی بری اخلقیات اور تہذیب کو‬
‫اپنائیں۔‬

‫الجہاد گروپ کےہمارےہ ساتھیوں نےہ حسنی مبارک کوہلک کرنے‬


‫کامنصوبہہ ترتیب دیا۔حسنی مبارک کو صلح سالم روڈہ پر اس‬
‫وقت ہلک کیاجانا تھ ا جب اس ن ے عید کی نماز ک ے لئ ے صدارتی‬
‫محل س ے نکل کرجاناتھ ا لیکن بدقسمتی س ے ہمارا منصوب ہ اس‬
‫وقت ناکام ہوگیا جب حسنی مبارک ک ے قافل ے ن ے مذکور ہ سڑک‬
‫ہی استعمال نہ کی بلکہ گاڑیوں کاقافلہ کسی دوسری سڑک سے‬
‫ہوتا ہوا عیدگا ہ کی جانب نکل گیا اور ہمارامنصوب ہ خاک میں مل‬
‫گیا۔اگر اس روزقافل ہ اپنا راست ہ تبدیل ن ہ کرتا تو آج شاید جہادی‬
‫تحریک کچ ھ اور ہوتی ۔پھ ر حسنی مبارک کو مارن ے کی ایک اور‬
‫کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش وقت سے پہلے ہی مخبری ہونے‬
‫کی بناءپر پکڑی گئی ۔منصوبہہ یہہ تھ ا کہہ صدر حسنی مبارک کو‬
‫سیدی برانی ایئر پورٹ پراڑادیاجائے‪،‬اس واردات میں اسلمی‬
‫گروپ کے ہمارے دوستوں نے حصہ لینا تھا لیکن مخبری ہونے پر یہ‬
‫منصوب ہ ناکام ہوگیااور اس طرح حسنی مبارک ایک مرتب ہ پھ ر بچ‬
‫نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔‬

‫حکومت کےہ سیکورٹی انٹیلی جنس کےہ شعبےہ میں سب سے‬


‫خطرناک افسر رؤف خیرت تھا ‪،‬اس نے بنیاد پرستوں کی تحریک‬
‫کےہ خلف کھلی جنگ کی‪،‬اس نےہ خود کو بچانےہ کےہ لئےہ تمام‬
‫ہتھکنڈے استعمال کئے ‪ ،‬مثل ً ہ ر چند ما ہ بعد رہائش تبدیل کرلیتا ۔‬
‫اس ک ے گھ ر ک ے باہ ر کوئی گن میں ڈیوٹی پر ن ہ ہوتا۔اکثر ی ہ اپنی‬
‫کار خود چلتا تاک ہ ی ہ تاثر د ے سک ے ک ہ و ہ کوئی عام آدمی ہے اور‬
‫اس کا حکومتی انٹیلی جنس ادار ے س ے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم‬
‫اسلمی گرو پ ن ے اس ے جالیا۔و ہ اپن ے گھ ر س ے نکل کر جب کار‬
‫میں بیٹھہ رہ ا تھ ا تواسلمی گروپ کےہ ایک مجاہ د نےہ کار پر بم‬
‫پھینکا جس سےہ وہہ ہلک ہوگیا ۔اسےہ مارنےہ کےہ لئےہ ایک طویل‬
‫منصوب ہ بندی کی گئی تھ ی ۔اس کا گھ ر تلش کیا گیا ‪ ،‬اس کی‬
‫آمد ورفت کے اوقات کو نوٹ کیاگیا اور شناخت کے بعد ایک پلن‬
‫تیارکیاگیا جس کےہ نتیجےہ میں وہہ مارا گیا۔اس نےہ مجاہدین کا‬

‫‪49‬‬
‫ناطقہہ بند کر رکھا تھا اور انہیں مختلف طرح کیااذیتوں میں‬
‫مبتلکرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔‬

‫حسنی مبارک پر ایک اور قاتلنہ حملے کا منصوبہ بنایاگیا۔اسلمی‬


‫گروپ نےہ ‪1995‬ءکےہ موسم گرما میں عدیس ابابا میں حسنی‬
‫مبارک ایک بار پھر بچ نکلےہ ۔الجہاد گروپ میں شامل ہمارے‬
‫ساتھیوں نےہ دوحملوں کےہ بیک وقت پلننگ کی ۔پہل آپریشن‬
‫موسم خزان میں اسلم آباد میں مصری سفارتخانہہ پر حملہ‬
‫تھاجبک ہ دوسرا آپریشن اسرائیل ٹورسٹوں پر حمل ہ تھا۔اس ے عام‬
‫طور پر خان الخلیلی کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔‬

‫جولئی ‪1997‬ءمیں اسلمی گروپ ن ے جیل س ے تشدد ک ے خاتمے‬


‫کا یکطرفہہ اعلن کردیا لیکن اس اقدام کےہ فوری بعد اسلمی‬
‫گروپ نے مغربی ٹورسٹوں کے خلف القصر آپریشن کیا۔میں نے‬
‫درج بالحقائق کو مختصر اور جامع انداز میں بیان کیا تاکہ ان اہم‬
‫حقائق کا ایک خلصہ بیان کردیاجائے جو ‪1988‬ءسے ‪1997‬ءکے جہاد‬
‫کےہ دوران پیش آئے۔میں ن ے اس میں سےہ زیادہہ تفصیلت حذف‬
‫کردی ہیں۔‬

‫بنیاد پرستی کی تحریک کو کچلنے کا عمل‬


‫انور سادات کے قتل کے بعد اسلمی گروپ کی جہادی تحریک کو‬
‫حکومت ن ے سختی س ے کچلن ے کا پروگرام بنایا اور اپن ے منصوبے‬
‫پر عملدرآمد شروع کردیا ۔حکومت خاص طور پر اسلمی گروپ‬
‫کےہ اندر بنیاد پرست گروپ کو توڑنا چاہتی تھ ی ۔حکومت کی‬
‫اس مہم نے اس وقت ایک جست لگائی جب زکی بدر نے وزارت‬
‫داخلہ کا چارج لیا ۔اس نے اعلن کیاکہ اسلمی گروپ کی کاروائی‬
‫سےہ بچنےہ کےہ لئےہ ضروری ہےہ کہہ اس گروپ کےہ قلب پر چوٹ‬
‫لگائی جائے۔اس مہ م کا اولین مقصد یہہ تھ ا کہہ مسلم نوجوانوں‬
‫کومایوس کیاجائےہ ‪،‬ان کےہ دل میں مایوسی ڈال دی جائےہ کہ‬
‫حکومت ک ے خلف مزاحمت کوئی فائد ہ مندیا نتیج ہ خیز نہیں ہے‬
‫اور یہہ کہہ اس مزاحمت کےہ نتیجےہ میں تباہ ی وبربادی اور جانی‬
‫نقصان ہوگااور یہہ کہہ اس کا ایک ہی حل ہےہ کہہ مسلم نوجوان‬
‫ہتھیار پھینک دیں اور مزاحمت ختم کرکےہ قومی دھارےہ میں‬
‫شامل ہوجائیں اور حکومت اپنی مرضی ک ے سات ھ جو کچ ھ کرنا‬
‫چاہتی ہے اس ے اس کی آزادی دی جائ ے اور اس ک ے ہ ر پروگرام‬
‫میں مزاحم ن ہ ہواجائ ے ورن ہ اس ک ے نتائج مثبت کی بجائ ے منفی‬

‫‪50‬‬
‫نکلیں گےہ ۔یہہ تھ ا حکومتی مہ م اور خاص طور پر بدر زکی کی‬
‫مہم کا مقصد!!!‬

‫اگر اسلمی گروپ اس مہم کا موثر جواب دینے میں کوتاہی کرتا‬
‫یا ناکام ہوجاتا تو اس کا ی ہ مطلب ہوتا ک ہ پوری اسلمی تحریک‬
‫ناکامی سےہ دوچارہوگئی ہےہ اور اس سےہ تحریک کا مجموعی‬
‫مورال بھی گرتا جوکہ ہمیں کسی صورت منظور نہ تھا۔اس خطے‬
‫کےہ بارےہ میں یہودیوں کی پالیسی یہہ تھ ی کہہ کہہ مسلمانوں کو‬
‫مایوسی کی اتھا ہ گہرائیوں میں پھینک دیاجائ ے تاک ہ بحیثیت قوم‬
‫ان میں مزاحمت کا خاتم ہ کرن ے کی قوت ہ ی ختم ہوجائ ے ۔انہیں‬
‫اس بات کا پورا یقین ہےہ کہہ مسلمانوں میں مزاحمت کا خاتمہ‬
‫کرنےہ کےہ لئےہ ضروری ہےہ کہہ ان کےہ دل پر مایوسی کےہ بادل‬
‫چھاجائیں اور و ہ سوچن ے لگیں ک ہ مزاحمت کرنا ایک بیکار عمل‬
‫ہے۔‬

‫جہاد ک ے ذریع ے اس وحشیان ہ مہ م ک ے خاتم ے کا مقصد ی ہ تھ ا ک ہ نہ‬


‫صرف مسلم نوجوانوں کومایوسی کی اتھاہہ گہرائیوں سے‬
‫نکالجائ ے بلک ہ ان ک ے دل امید س ے روشن کردیئ ے جائیں ۔ان کے‬
‫دل خود اعتمادی ک ے جذب ے س ے معمور ہوجائیں اور ان کا الل ہ پر‬
‫ایمان پختہہ ہوجائےہ ۔جہاد کےہ فوائد مسلم نوجوانوں کےہ دل سے‬
‫امید سے روشن کرنے سے بڑھ کر ہیں ۔مزاحمت ایک ایسا ہتھیار‬
‫ہے جو حکومت کے خوشامدیوں کے اداروں کمزور کردیتا ہے۔اس‬
‫ک ے علو ہ جہاد کو آگ ے بڑھان ے کا عمل اور امریک ہ اور یہودیوں کے‬
‫مفادات کو نقصان پہنچان ے ک ے عمل ن ے مسلم نوجوانوں ک ے دل‬
‫میں مزاحمت کےہ چراغ روشن کئےہ کیونکہہ مسلم نوجوان جان‬
‫گئےہ ہیں کہہ امریکہہ اور یہودی اس خطےہ کےہ لئےہ کتنےہ خطرناک‬
‫ہیں۔اس صورتحال کو دیکھاجائےہ توسوائےہ جہاد کےہ کوئی چارہ‬
‫بھ ی نہیں تھا۔کوئی بھ ی تجزیہہ نگار باآسانی اندازہہ لگاسکتاہےہ کہ‬
‫اگر انور سادات کو ہلک نہ کیاجاتا توکتنی تباہی ہوتی ۔‬

‫مصرکا کوئی بھی آزاد تجزیہ نگار مصر کی سیاسی صورتحال کا‬
‫آسانی سے تجزیہ کرسکتا ہے ک ہ مصر دوطاقتوں کے مابین پھنسا‬
‫ہوا ہے ۔ایک سرکاری طاقت کا جبک ہ دوسری عوامی طاقت ہے‬
‫جس کی جڑیں عوام میں بہ ت گہری اترچکی ہیں اور جس کی‬
‫عام صورت اسلمی تحریک اور خاص صورت جہاد ہےہ ۔پہلی‬
‫طاقت کو امریکہہ ‪،‬مغرب ‪،‬اسرائیل اور متعدد عرب حکمرانوں‬
‫کی حمایت حاصل ہے جبک ہ دوسری طاقت کا انحصار الل ہ تعالیٰ‬

‫‪51‬‬
‫کے بعد پوری مسلم دنیا میں اٹھنے والی اسلمی جہاد کی تحریک‬
‫پر ہےہ ۔یہہ تحریک چیچنیا سےہ لےہ کر صومالیہہ تک اورمشرقی‬
‫ترکستان سے لے کر مراکش کے مغرب تک پھیلی ہوئی ہیں۔‬
‫دونوں طاقتوں ک ے مابین دشمنی بہ ت واضح ہے پہلی طاقت کا‬
‫اصرار ہے کہ اسلم کو ہر قسم کی طاقت سے محروم کردیاجائے‬
‫اور اس کےہ تمام شعبوں کو سربیت ‪،‬وحشت انگیر کاروائیوں‬
‫اور الیکشن میں دھاندلی کےہ ذریعےہ ہر قسم کےہ اختیار اور‬
‫توانائی س ے محروم کردیاجائ ے جبک ہ دوسری طاقت کا کہنا ہے کہ‬
‫امن معاہدوں پر دستخط کرکےہ ملک کو اسلم دشمنوں کےلئے‬
‫کھول دیا گیا ہے۔ی ہ اسلم دشمن امریکی اور یہودی ہیں اور یہ کہ‬
‫حکومت نےہ امریکہہ کےہ سات ھ مشترکہہ فوجی مشقیں کرکےہ ملک‬
‫کی سرزمین کو اس کے حوالے کردیا ہے ۔یہ نظریات کی جنگ اور‬
‫بقاءکی جدوجہد ہے ۔یہ جنگ کسی وقفے کے بغیر جاری ہے۔‬

‫مصر میں اسلمی جہادی تحریکوں کے اس مختصر پس منظر کا‬


‫جائزہ لینے کے بعد ہم تھوڑا سا توقف کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ‬
‫‪1966‬ءسے لے کر ‪2000‬ءتک اس تحریک سے کیا حاصل ہوا؟اس کا‬
‫جواب دین ے ک ے لئ ے ہ م کہہ سکت ے ہیں ک ہ مختصرا ً اس تحریک کے‬
‫درج ذیل نتائج نکلے۔‬

‫وسعت‪:‬‬
‫اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عرصے کے دوران جہادی تحریک‬
‫پھلی اور پھولی اور مسلم نوجوانوںمیں اس نےہ اپنی جڑیں‬
‫مضبوط کیں اور اس میں وسعت پیدا ہوئی ۔‬

‫تصادم‪:‬‬
‫اسلمی تحریک اپنےہ آغاز سےہ ہی اسلم دشمنوں کےہ خلف‬
‫جارحان ہ کردار ادا کرتی رہ ی ہے ۔اس ن ے ثابت کیا ک ہ آخر سانس‬
‫تک مزاحمت جاری رہے گی۔ٹیکنیکل ملٹری کالج ‪1974‬ءک ے واقعہ‬
‫سے لے کر ‪1997‬ءمیں رونما ہونے والے لکسر تک کے واقعات اس‬
‫کامنہ بولتا ثبوت ہیں ۔‬
‫مسلسل عزم‪:‬‬
‫اسلمی تحریک نےہ بیش بہا قربانیاں دیں‪،‬سینکڑوں ہزاروں‬
‫لوگوں ن ے جیلیںکاٹیں سینکڑوں زخمی ہوئ ے ‪،‬ان گنت لوگوں کو‬
‫تشدد کا نشانہہ بنایاگیا اور اس جدوجہ د میں ہزاروں لوگ شہید‬
‫ہوئے۔اس سےہ دوچیزیں ثابت ہوئیں ۔پہلی چیز یہہ کہہ اسلمی‬

‫‪52‬‬
‫تحریک کی جڑیں عوام میں بہ ت مضبوط اور گہری ہیں ۔تمام‬
‫ترقربانیوں اورکٹھن حالت کے باوجود اسلمی تحریک صرف اللہ‬
‫تعالیٰہ کی وج ہ سےہ زند ہ رہ ی ہےہ ۔مصر میں کسی اور سیاسی‬
‫تحریک کو نہ تو اتنا دبایا گیا اورنہ ہی اس کے کارکنوں نے اتنے دکھ‬
‫جھیلےہ ‪،‬جس قدر ظلم اسلمی تحریک سےہ تعلق رکھنےہ والے‬
‫لوگوں ن ے برداشت کئ ے ۔دوسری بات ی ہ ثابت ہوئی ک ہ ی ہ تحریک‬
‫حکومت کی سیکورٹی نظام کےہ لئےہ ایک مسلسل خطرہہ بنی‬
‫رہی۔اسکا ثبوت یہہ ہےہ کہہ حکومت کوایمرجنسی قوانین بنانے‬
‫پڑ ے ۔فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور انسداد دہشت گردی کے‬
‫لئے مختلف قوانین تشکیل دیئے گئے‪ ،‬جن کے مستقبل قریب میں‬
‫بھی خاتمے کے کوئی امکانات نہیں اور اس پر طرہ یہ کہ ساٹھ ہزار‬
‫کے قریب لوگوں کو جیلوں میں بند کیا گیا اور ان میں سے کچھ‬
‫تو گذشتہ بار ہ سال بغیر کسی مقدمے کے جیل میں پڑے سڑ رہے‬
‫ہیں ۔‬

‫عالمی اتحاد‪:‬‬
‫حکومت کےہ پاس کوئی چارہہ نہہ رہا کہہ وہہ اسلمی تحریک اور‬
‫مجاہدین ک ے خلف اس جنگ کو ایک عالمی جنگ میں تبدیل نہ‬
‫کردےہ ۔خاص طور پر اس وقت جب امریکہہ یہہ ماننےہ پر مجبور‬
‫ہوگیا کہ بنیاد پرستوں کے خلف جنگ میں حکومت اکیلی کامیاب‬
‫نہیں ہوسکتی اور یہہ کہہ جہادی تحریک خطےہ میں چیزوں کو تہہ‬
‫وبالکرتی رہے گی اور امریکہ کو باہر نکال کرے گی اور یہ سوچنے‬
‫سے ہی امریکہ اور مغرب دہل جاتا ہے۔‬
‫جنگ کا تسلسل‪:‬‬
‫اسلمی تحریک میں روز بروز ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے‬
‫والکوئی بھی مبصر آسانی سے محسوس کرسکتا ہے کہ حکومت‬
‫کےہ ساتھہ جاری اس محاذ آرائی میں ایک تسلسل ہےہ اور یہ‬
‫سلسل ہ کہیں ٹوٹانہیں ۔ی ہ جنگ گذشتہہ ‪36‬سال س ے جاری ہے ۔بنیاد‬
‫پرستی کی یہ تحریک یاتوکہیں نہ کہیں حملوں میں مصروف ہے یا‬
‫حملے کی تیاری میں مصروف ہے ۔‬

‫حکومت اور اس کی پرورد ہ صحافت اور بیرون ملک لوگوں کو‬


‫خوا ہ مخواہ یہ یقین دلن ے کی فضول کوشش میں مصروف رہتی‬
‫ہےہ کہہ یہہ جنگ ختم ہوچکی ہےہ حالنکہہ ایمرجنسی قوانین کا نفاذ‬
‫بھی جاری ہے اور سیکورٹی پر زر کثیر خرچ کیا جارہاہے۔اگر جنگ‬

‫‪53‬‬
‫ختم ہوچکی ہے تو پھر سیکورٹی پر کروڑوں خرچ کرنے کا سلسلہ‬
‫بند کرکے ایمرجنسی قوانین ختم کیوں نہیں کردیئے جاتے ۔‬

‫حکومت کے تمام تر اقدامات سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ جنگ ختم‬


‫نہیں ہوئی بلکہہ جاری ہےہ اور صورتحال لمح ہ ب ہ لمحہہ تبدیل ہوتی‬
‫رہتی ہےہ ۔حکومت کو اس بات کا پورا یقین ہےہ کہہ اس عالمی‬
‫تحریک نے ایک پوری نسل کو جنم دیا ہے اور سیکورٹی ایجنسیاں‬
‫بھی مل کر اس کو ختم نہیں کرسکتیں۔‬

‫حسنی مبارک کی حکومت ن ے چ ھ وزرائ ے داخل ہ باری باری تبدیل‬


‫کئے۔ہ ر نئ ے آن ے وال ے اس عزم کا اظہار کرت ے ہیں ک ہ و ہ ملک سے‬
‫دہشت گردی ختم کرد ے گا لیکن ابھ ی نئ ے وزیر داخل ہ ک ے تحریر‬
‫کردہ اعلن کی سیاہی بھی خشک نہ ہوتی تھی کہ ملک میں ایسا‬
‫واقع ہ ہوجاتا ک ہ حکومت اپن ے وزیر داخل ہ سمیت کانپ اٹھتی۔اس‬
‫طرح حکومت وزیر پر وزیر تبدیل کرتی رہی لیکن دہشت گردی‬
‫نہ رکی۔یہ جہاد ہے جسے دہشت گردی کانام دیا جاتا ہے۔ہر نئے آنے‬
‫والےہ وزیر نےہ اپنی نامزدگی کو درست ثابت کرنےہ کےہ لئےہ امن‬
‫وامان ک ے حوال ے س ے اوٹ پٹانگ نعر ے بلند کئ ے ۔اس کا ایک ہی‬
‫مطلب ہے کہ جہاد جاری ہے اور مزاحمتی تحریک ابھی دبی نہیں۔یہ‬
‫شعلہ ابھی بجھانہیں بلکہ بھڑک رہا ہے۔‬

‫ایک واضح نظریہ‬


‫اسلمی تحریک اپنے نظریے کے موٹے موٹے نکات عوام اوردنیا پر‬
‫واضح کرن ے میں کامیاب ہوچکی ہے ۔اس نظری ے کی بنیاد قرآن‬
‫مجید کے ٹھوس دلئل ‪،‬نبی اکرم کی سنت پر رکھی گئی ہے۔‬

‫منصوبہ بندی کی کمزوریاں اور جہادی تیاریاں‬


‫ہمیں یہہ بات تسلیم کرلینی چاہےےہ کہہ ٹیکنیکل ملٹری کالج اور‬
‫آسوٹ کے واقعات کی منصوبہ بندی درست طریقے سے نہیں کی‬
‫گئی بلکہ اس پلننگ میں متعدد خامیاں تھیں ۔ان خامیوں کی وجہ‬
‫س ے ی ہ منصوب ے کافی ناکامی س ے دوچار ہوئ ے ۔اگر منصوب ہ بندی‬
‫مکمل ہوتی اور پلننگ کرتے ہوئے تمام زمینی حقائق کو مد نظر‬
‫رکھا جاتا تویہہ منصوبےہ کبھی ناکام نہہ ہوتےہ بلکہہ یہہ جس طرح‬
‫سوچ ے گئ ے تھے اس س ے بھ ی زیاد ہ کامیاب ہوت ے ۔منصوب ہ سازی‬
‫میں موجود چھوٹ ے چھوٹ ے خلؤں کی وج ہ س ے ی ہ منصوب ے دھرے‬
‫کے دھرے رہ گئے اور ان سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے ۔اگر‬

‫‪54‬‬
‫اسلم آباد میں مصری سفارت خان ے کی تباہ ی ‪،‬انور سادات کے‬
‫قتل ‪،‬عصام القمری کےہ فرار اور رفعت الحبیب کےہ قتل کے‬
‫منصوب ے مکمل چھان بین ک ے بعد ترتیب دیئ ے جات ے اور ان میں‬
‫موجود خل دور کرلئےہ جاتےہ تویہہ تمام منصوبےہ مکمل طور پر‬
‫کامیاب ہوت ے اور اسلمی تحریک اس افراتفری س ے بھ ی نجات‬
‫حاصل کرلیتی جو کہ اس کے اکثر منصوبوں میں نظر آتی ہے ۔‬
‫لوگوں تک کمزور پیغام رسانی‬
‫بنیاد پرستوں کا پیغام خاص لوگوں‪،‬ماہرین اور الیٹ کلس تک‬
‫محدود رہا۔عام لوگ تحریک کے اس پیغام کو صحیح طور پر نہیں‬
‫سمجھتےہ ۔یہہ وہہ خلءہےہ جسےہ اسلمی تحریک کو فوری طور پر‬
‫پُرکرنا چاہیے۔‬

‫چند رہنماؤں کی مزاحمت کو جاری رکھنے میں‬


‫ناکامی‬
‫اس کی بہترین مثال اسوارا جیل میں مجاہ د رہنماؤں کی جانب‬
‫سے ملٹری حکومت کے خلف جہاد کا آغاز تھا۔اس پر ان شاءاللہ‬
‫پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔‬

‫نتیجہ‬
‫گذشتہہ ‪36‬سالوںمیں جہاد کی تحریک کامیاب ہوئی یاناکام اس کا‬
‫جواب درج ذیل ہے۔‬

‫ہمیںیہہ تسلیم کرنا چاہیےہ کہہ اسلمی تحریک کا‬ ‫الف‪:‬۔‬


‫مقصد کہہ مصر میں ایک اسلمی حکومت قائم ہ و ابھ ی حاصل‬
‫کرناباقی ہے۔‬

‫جہاداسلمی تنظیم نےہ مصر میںاسلمی حکومت کے‬ ‫ب‪:‬۔‬


‫قیام کی کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی اور سب سے اہم بات یہ‬
‫ہے کہ یہ ایک ایسامقصد ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے کئی کئی‬
‫نسلوں کو قربانی دیناپڑتی ہے۔فلسطین اورشام میں دوصدیوں‬
‫تک جہاد جاری رہا تھا اور اس وقت اسلمی مملکتوں کے‬
‫حکمران بادشاہہ بھ ی جہادی تھےہ اور ان کےہ پاس باقاعدہہ تربیت‬
‫یافت ہ افواج بھ ی تھیں اور اس وقت معروف مذہبی اسکالر مثلً‬
‫ال عز بن عبدالسلم ‪،‬النوائی اور ابن تیمیہ بھی موجود تھے اس‬
‫ک ے باوجود جنگیں طویل عرص ے تک لڑی گئیں ۔انگریز مصر پر‬

‫‪55‬‬
‫‪70‬سال تک حکمران رہے جبک ہ فرانس نے الجیریا پر ‪120‬سال تک‬
‫حکومت کی ۔‬

‫جہاں تک میر ے مشاہد ے اور بصیرت کا تعلق ہے میں‬ ‫ج‪:‬۔‬


‫دیکھہ رہاہوں کہہ جہاد اسلمی تحریک کو فتح کرنےہ کےہ لئےہ ایک‬
‫طویل اور کٹھن راستہ طے کرنا ہوگاکیونکہ ‪:‬‬

‫ی ہ ایک واضح نظری ے کی بنیاد پر قائم ہے اور اس کی‬ ‫اول‪:‬۔‬


‫بنیادیں سنت پر استوار ہیں ۔‬

‫جہادی تحریک مسلم نوجوانوں کےہ ذہنوں میں‬ ‫دوئم‪:‬۔‬


‫تحریک کا ایک واضح امیج ڈالنےہ میں کامیاب ہوچکی ہیں جوکہ‬
‫قبل ازیں عوام کی اکثریت ک ے ذہ ن میں نہیں تھ ا یا پھ ر ی ہ ک ہ ان‬
‫کے ذہنوں سے محو ہوچکا تھا ۔‬

‫جہادی تحریک مصری حکومت کے ہ عالمی‬ ‫سوم‪:‬۔‬


‫تحریک کے ساتھ رابطوں کو منظر عام پر لچکی ہے۔‬

‫جہادی تحریک ن ے خود کو صرف نظریاتی مباحث ہی‬ ‫چہارم‪:‬۔‬


‫تک محددود نہیں رکھ ا بلک ہ اس ن ے ایک عملی مخاصمان ہ تحریک‬
‫کی بنیاد ڈالی جس نے حکومتی ایوانوں کو متعدد بار ہلکررکھ دیا‬
‫اور یہ سابق صدر کو قتل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔‬

‫درج بالحقائق کو مدنظر رکھتےہہ ہوئےہہ یہ‬ ‫پنجم‪:‬۔‬


‫کہاجاسکتا ہے ک ہ جہادی تحریک ن ے مسلم نوجوانوں کو نظریاتی‬
‫سطح پر اور عملی سطح پر زبردست طریقے سے متاثر کیا ہے ۔‬
‫اس سےہ مصری نوجوانوں میں بنیاد پرستی کو فروغ مل ہےہ ۔‬
‫اس کے علوہ بنیاد پرستی کی یہ تحریک مصر میں عوام کی ایک‬
‫کثیر تعداد کو بھ ی متاثر کرن ے میں کامیاب ہوچکی ہے ۔مثال کے‬
‫طور پر سادات قتل کیس میں بچن ے وال ے ایک نوجوان ن ے مجھے‬
‫بتایا کہ سادات کیس کے دوران ایک وکیل نے کسی نہ کسی طرح‬
‫اس تک رسائی حاصل کی اور انتہائی پرجوش لہجےہ میں اسے‬
‫کہا‪”:‬تم کون ہو؟اور کہاں سےہ آئےہ ہو؟“سادات کےہ قتل سے‬
‫مصری لوگوں میں ایک بار پھ ر امید بند ھ گئی ہے ۔جہاد اسلمی‬
‫کاکوئی بھی مبصر باآسانی اندازہ لگاسکتا ہے کہ جہاد کے آغاز سے‬
‫ل ے کر اب تک جہادی تحریک ن ے کس سرعت رفتاری س ے پیش‬

‫‪56‬‬
‫رفت کی ہے اور جہادی نظریے میں اور اس کی طاقت میں کتنا‬
‫اضافہ ہوا ہے؟‬

‫ششم ‪:‬۔ اس س ے ہم انداز ہ لگاسکت ے ہیں ک ہ جہادی تحریک عام‬


‫طور پر ترقی کررہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں‬
‫پیش رفت ہورہی ہے ۔یہ ممکن ہے کہ تشدد اور سربیت ک ے دنوں‬
‫میں کچ ھ عرصہہ ک ے لئ ے اس میں وقفہہ آگیا ہولیکن تحریک رکی‬
‫نہیں ۔‬

‫باب نمبر ‪6‬‬


‫جب دوسری خلیجی جنگ ہوئی توامریکی بحری بیڑہہ اورمسلح‬
‫افواج اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے آگے آئے تاہم‬
‫انہوں ن ے دیکھ و اورانتظار کرو کی پالیسی کو اپنایا چ ہ جائیک ہ وہ‬
‫کھ ل کر مسلمانوں کو اپنا دشمن بنالیتےہ ۔افغانستان میں ایک‬
‫مجاہد ملعمر نےہ امریکہہ سےہ کہا کہہ وہہ اسلمی شریعت کی‬
‫عدالت میں پیش ہوکر اسامہہ بن لدن کی دہشت گردی کی‬
‫کاروائیوں میں ملوث ہونےہ کی شہادت پیش کرےہ تو امریکہہ نے‬

‫‪57‬‬
‫سےہ بات چیت سےہ انکار‬ ‫اس کا مذاق اڑایا۔امریکہہ کا ملعمر‬
‫ایک کھلی توہین کے مترادف تھا۔‬

‫امریک ہ جانتا تھ ا ک ہ افغانستان میں اس کی مداخلت ک ے کیا نتائج‬


‫برآمد ہوں گے کیونکہ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ ”اگر میں اسلم کے‬
‫دفاع کی جنگ میں لڑتا ہواشہید ہوگیا تومیرابیٹا میرا انتقام لے‬
‫گا“‬

‫میں بھ ی امریکہہ س ے ی ہ کہتاہوں کہہ افغانستان ایک” بنیاد پرست‬


‫سرزمین“بننے والی ہے جس کے ایک سرے پرپاکستان ہوگا۔امریکہ‬
‫نےہ روسی افواج کو مغربی اسلحہہ سےہ لیس کرکےہ چیچنیا کو‬
‫کچلن ے ک ے منصوب ے کا آغاز کردیا ہے تاک ہ جب ی ہ مہ م جوئی ختم‬
‫ہوتو پھر وہ اپنی نگاہیں جنوبی افغانستان پر جمالے۔‬

‫جہاں تک عرب ملکوں کی فوجوں کاامریکی فوج کےہ ساتھ‬


‫مشترک ہ فوجی مشقوں کا تعلق ہے توی ہ اس لئ ے کی جارہ ی ہیں‬
‫تاکہہ عرب ممالک میں بنیاد پرستوں کو طاقت کےہ حصول سے‬
‫روکاجاسکے۔ہ م ن ے ی ہ فیصل ہ کیاہے ک ہ مصر میں جہادی تحریک کا‬
‫جائزہہ لینےہ کےہ لئےہ ضروری ہےہ کہہ اسلمی دنیا کی سرحدوں کا‬
‫جائزہ لیاجائے۔ہم اس بحث کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔‬

‫پہلحص ہ اسلم دشمنوں پر مشتمل ہے جبک ہ دوسراحص ہ اسلمی‬


‫تحریکوں کےہ جائزےہ پر مشتمل ہےہ ۔امریکہہ کی اسلم بارے‬
‫پالیسی کے نکات میں چند باتیں نہایت اہم ہیں ۔‬

‫امریکہہ کابنیادی کردار اسرائیل کو مضبوط کرنااور اس کی‬


‫مسلسل مدد کرنا ہےہ ‪،‬ماسوائےہ اسرائیل کےہ ‪،‬جوکہہ بجائےہ خود‬
‫امریکہہ کا ایک بہ ت بڑا فوجی اڈہہ ہے۔دوسری خلیجی جنگ سے‬
‫قبل امریکہہ کےہ مشرق وسطیٰہ میں کہیں بھ ی اتنی بڑی تعداد‬
‫میں فوجی اڈےہ نہہ تھےہ ۔جونہ ی دوسری خلیجی جنگ برپا ہوئی‬
‫امریکہہ اپنےہ جہازوں ‪،‬بحری بیڑوں ‪،‬ٹینکوں ‪،‬توپوں اور مسلح‬
‫افواج کے ساتھ اس علقے کو زیر نگیں کرنے کے لئے کود پڑا تاکہ‬
‫مشرق وسطی ٰ ک ے معاملت کو بندوقوں ک ے سائ ے تل ے خود کو‬
‫کنٹرول کرسکے ۔اس خطے میں امریکی افواج کی اس سازشانہ‬
‫موجودگی س ے بہ ت س ے نئ ے حقائق کھ ل کر سامن ے آئ ے ہیں ۔ان‬
‫میں سب سےہ بڑی حقیقت یہہ کھلی کہہ امریکہہ ا س خطےہ میں‬
‫مسلمانوں کےہ سب سےہ بڑےہ اعلنیہہ دشمن کےہ طور پر پہلی‬

‫‪58‬‬
‫بارکھ ل کر سامنےہ آیا۔بعد ازاں عرب اسرائیل تنازعےہ میں اور‬
‫دیگر ملکوں کے اندرونی معاملت میں امریکی انتظامیہ نے ظاہر‬
‫کیا کہ وہ ان معاملت میں غیر جانبدار ہے۔‬

‫اب اس خطے میں امریکی عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔عراق‬


‫پر حملے کے ذریعے امریکہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتاہے اور‬
‫اس خطےہ میں کچھہ عرب ملکوں کےہ سیکورٹی کےہ معاملت‬
‫کاخود انتظام کرناچاہتا ہےہ ۔مصری اسٹیٹ سیکورٹی انوسٹی‬
‫گیشن ڈیپارٹمنٹ کےہ ہیڈہ کوارٹر کےہ اندر امریکہہ کا انٹیلی جنس‬
‫‪............‬ریکارڈ رکھتا ہے اس کے علوہ مصر میں قاہرہ کے جنوب‬
‫میں امریکی اڈے بھی موجود ہیں ۔ادے وادی قنا او رراس بنا س‬
‫(بحری اڈہ)میں واقع ہیں۔‬

‫مشترکہ امریکی مشقوں کے مقاصد‬


‫اگر آپ مشترک ہ امریکی مشقوں برائٹ اسٹاروغیر ہ کاجائز ہ لیں‬
‫توامریکی عزائم آپ ک ے سامن ے کھ ل کر آجائیں گ ے ۔ان مشقوں‬
‫میں جنہیں گذشت ہ سال ”برائٹ اسٹار ‪ “ 99‬کانام دیاگیا ۔اس میں‬
‫امریکہہ اور مصر سمیت ‪9‬ملکوں نےہ حصہہ لیا جبکہہ ‪33‬ملکوں نے‬
‫بطور مبصر یہہ مشقیں دیکھیں۔اس مشترکہہ فوجی مشق میں‬
‫‪73‬ہزار سپاہیوں ‪210،‬لڑاکا طیاروں ‪55،‬جنگی بحری جہازوں نے‬
‫حصہہ لیا یہہ مشق دنیا کی سب سےہ بڑی فوجی مشق تھی ۔‬
‫فرانسیسی فوجوں کےہ کمانڈر جنرل ہارڈی کےہ مطابق ”یہ‬
‫مشقیں دنیا میں سب بڑی اور اہم کثیر القومی مشقیں‬
‫تھیں“۔ان مشقوں کے ہ پیچھے ہ مصر اور امریکہ ہ کی سوچ‬
‫کارفرماتھ ی ک ہ اگرمصر پر کبھ ی بنیاد پرستوں کا قبض ہ ہوگیا تو‬
‫ان س ے قبض ہ واگزار کران ے ک ے لئ ے اسی طرح کاایکشن کیاجائے‬
‫گا۔ان مشقوں میں حمل ہ آور فوجوں ن ے مغربی ساحل پر قبضہ‬
‫کیا اورقاہرہہ کےہ جنوب مشرق کی طرف مارچ کیا ۔یہہ راستہ‬
‫نپولین بونا پارٹ نے اپنی مصری مہم کے دوران اختیارکیاتھا۔‬

‫مصری مسلح افواج اسرائیل اور اس نوع کے دیگر دشمنوں کے‬


‫حملوں سےہ نپٹنےہ کےہ لئےہ تیاری نہیں کررہ ی بلکہہ بنیاد پرستوں‬
‫سےہ دارالخلفہہ چھڑانےہ کی تیاری کررہی ہیں یعنی دوسرے‬
‫لفظوں میں اسرائیلی فوج مصری حکومت کی دشمن نہیں بلکہ‬
‫قاہرہ میں بنیاد پرست اس حکومت کے لئے خطرہ ہیں ۔امریکیوں‬
‫نےہ خود کو اس سطح پر محدود کرلیاہےہ کہہ وہہ اس خطےہ میں‬
‫موجود رہیں گےہ جبکہہ مصری حکومت اس خطےہ میں ان کے‬

‫‪59‬‬
‫مفادات کا تحفظ کر ے گی تاہ م جب امریکی ی ہ محسوس کریں‬
‫گے کہ ان کے مفادات کو براہ راست خطرہ ہے تو وہ ان سے نپٹنے‬
‫کےہ لئ ے خود جنگ میں کود پڑیں گےہ پھ ر وہہ مصری حکومت کا‬
‫انتظار نہیں کریں گےہ اور اس کی مثال ہ م نےہ افغانستان میں‬
‫دیکھ لی ۔‬

‫امریکہہ کی اس خطےہ میں موجودگی کا یہہ مطلب ہےہ کہہ جب‬


‫امریکہہ کےہ ایجنٹ اس کےہ مفادات کا تحفظ کرنےہ میں ناکام‬
‫ہوجائیں تو و ہ خود آگ ے بڑ ھ کر اپن ے دشمنوں یا اپن ے مفادات کے‬
‫خلف کام کرن ے والوں س ے نپٹ ل ے ۔امریک ہ کی اس خط ے میں‬
‫موجودگی کا دوسرا مقصد ی ہ ہےہ ک ہ خطےہ میںہونےہ وال ے واقعات‬
‫کی رفتار تیز کردی جائےہ تاکہہ یہاں اس کی موجودگی کا جواز‬
‫بنارہے ۔‬

‫بنیاد پرستی کی تحریک کی نشوونما‬


‫یہودیوں کی اس خطےہ میں موجودگی کےہ خلف مزاحمت‬
‫اوربنیاد پرستی کی مہ م میں تیزی آتی جارہ ی ہے ۔یہود دشمنی‬
‫کی تحریک اس قدر موثر اور طاقتور ہوچکی ہےہ کہہ امریکہہ نے‬
‫شاید یہہ فیصلہہ کرلیاہےہ کہہ اس کےہ ایجنٹ اس کےہ دشمنوں کے‬
‫خلف مزاحمت کرنےہ میں ناکام ہوچکےہ ہیں اور یہہ دشمن اتنے‬
‫طاقتور ہوچکےہ ہیں کہہ اب یہہ ضروری ہوگیا ہےہ کہہ امریکہہ ان‬
‫مخالفوں ک ے خلف خود برا ہ راست ایکشن ل ے اور اس ایکشن‬
‫میں ان امریکی فوجوں س ے مدد لی جائ ے جو ا س وقت خطے‬
‫میں موجود ہیں ۔‬

‫امریکی فوجوں کی اس خط ے میں موجودگی امریک ہ کی خارجہ‬


‫پالیسی کےہ ایک اہ م قدم کےہ طور پر ہےہ ۔امریکہہ نےہ محسوس‬
‫کرلیاہےہ کہہ یہہ ناممکن ہےہ کہہ مسلم ملکوں سےہ اسرائیل کی‬
‫موجودگی اور خطےہ میں عظیم تر اسرائیل کےہ قیام کےہ لئے‬
‫توسیع پسندان ہ عزائم کو تسلیم کروایا جائ ے ۔امریک ہ اور عالمی‬
‫یہودی حکومت کو یہ باور ہوچکا ہے اس خطے کی اقوام کا مطالبہ‬
‫اسلمی حکومتوں کاقیام ہے کیونک ہ اس خط ے کو عالم اسلم کا‬
‫مرکز تصور کیا جاتا ہے ۔وہ محسوس کرچکے ہیں کہ ان معاملت‬
‫پرسمجھوت ہ ناممکن ہے تاہ م امریک ہ ن ے ی ہ فیصل ہ کیا ہے ک ہ و ہ اپنی‬
‫خواہشات کو طاقت ‪،‬دھوکے ‪،‬دھونس ‪،‬دھاندلی اور پراپیگنڈے سے‬
‫پورا کرےہ اور بالخر فوجی ایکشن کرکےہ سارا معاملہہ ہ ی ختم‬

‫‪60‬‬
‫کردے ۔یہ پالیسی جتنی بھی طویل ہوجائے بہرحال امریکہ کی ایک‬
‫کم مدت پالیسی ہے۔‬

‫بنیاد پرستوں کا عالمی سطح پر تعاقب‬


‫اگر میں اسلم کےہ دفاع کی جنگ میں شہید ہوگیا تومیرا بیٹا‬
‫محمد میری شہادت کا بدلہہ لےہ گالیکن مجھےہ سیاسی موت‬
‫ماراگیا ہےہ اور میں نےہ حکومت کو دلئل دینےہ میں اور یکطرفہ‬
‫حل دیئ ے جان ے میں اپنا وقت صرف کیاہے ۔میر ے بیٹ ے کو کیا چیز‬
‫تحریک د ے گی ؟اگر میں ن ے اپن ے ہتھیار سود ے بازی کی مارکیٹ‬
‫میں فروخت کردیئ ے ک ہ و ہ وہاں س ے ہتھیار خرید ے ۔اس س ے بھی‬
‫زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ مزاحمت شریعت کی طرف سے عائد‬
‫کردہ ایک فرض ہے۔‬

‫سوویت یونین کےہ انہدام کےہ بعد امریکہہ نےہ متعدد ممالک کو‬
‫سیکورٹی ک ے معاملت میں ڈکٹیشن دینا شروع کردی جس کے‬
‫نتیجےہ میں یہہ متعدد ملکوں کےہ ساتھہ سیکورٹی کےہ معاہدےہ طے‬
‫کرنےہ میں کامیاب ہوگیا ہےہ ۔اس طرح متعدد ممالک کی‬
‫حکومتوں کی مجاہدین کےہ تعاقب میں صلحیت اور طاقت‬
‫میںاضافہہ ہواہےہ ۔بلشبہہ اسکےہ بنیاد پرستی کی تحریک پر اثرات‬
‫پڑ ے ہیں ۔ابھ ی تک جہادی تحریک ک ے لئ ے ی ہ ایک نیا چیلنج ہے اور‬
‫اس چیلنج سےہ نپٹتےہ ہوئےہ جہادی تحریک نےہ ان تمام امور کے‬
‫خلف مزاحمت کی جو اس کے اثر کوکم کرسکتے تھے ۔یہ اس نے‬
‫امریکہ کو نشانہ بناتے ہوئے کیا۔‬

‫ہمیں یہاں یہ بھی بیان کرنا چاہیے کہ مارچ ‪1996‬ءمیں شرم الشیخ‬
‫کانفرنس ہوئی اور اس میں عرب ممالک کے سربراہوں یا ان کے‬
‫نمائندوں نے شرکت کی جبکہ سوڈان ‪،‬عراق ‪،‬شام اور لبنان اس‬
‫میں شریک نہہ ہوئےہ ۔امریکہہ ‪،‬روس اور متعدد مغربی ممالک یہ‬
‫یقین دہانی لینے میں کامیاب ہوگئ ے کہ اسلمی ممالک کی طرف‬
‫سے اسرائیل پر کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا ۔یہ ایک شرمناک اور‬
‫ذلیل کرنے وال واقعہ تھا اور اس میں مجھے معروف عرب شاعر‬
‫کا شعر یا دآتا ہے جو اس طرح سے ہے ‪:‬‬

‫جو شخص اپنی عزت نہیں کرتا‬


‫اس کیلئ ے اوروں کی بے عزتی برداشت کرن ے کی گنجائش ہوتی‬
‫ہے‬
‫آپ ایسے شخص کو زخم لگاکر‬

‫‪61‬‬
‫درد کا احساس کس طرح دلسکتے ہیں‬
‫اگر وہ‬
‫پہلے ہی مرچکا ہو۔‬

‫کانفرنس نےہ عوامی قراردادیں منظور کیں اور اسرائیلی‬


‫سیکورٹی کےہ تحفظ کےہ لئےہ اور خفیہہ سیکورٹی کےہ تعاون کے‬
‫منصوبےہ منظور کئے۔امریکہہ کی سرپرستی اور رہنمائی میں‬
‫عرب وزرائے داخلہ نے ایک کانفرنس منعقد کی اور اس کانفرنس‬
‫میں دہشت گردی کا مقابلہہ کرنےہ کےہ لئےہ باہمی تعاون کےہ ایک‬
‫معاہدے پردستخط ہوئے اور وہ ہرسال اس معاہدے میں پابندی کی‬
‫ایک نئی شق شامل کردیتے ہیں ۔امریکہ محض اس کانفرنس کے‬
‫انعقاد اور معاہد ے کی تشکیل س ے ہی مطمئن نہ تھا۔اس ن ے اس‬
‫معاملےہ کو اپنی تنظیم اقوام متحدہہ میں گھسیٹ لیا کہہ وہ‬
‫افغانستان پر معاشی پابندیاں لگانے کے لئے ایک قراداد پاس کرے‬
‫کیونکہہ افغانستان نےہ اس کی (امریکہ)حکم عدولی کرتےہ ہوئے‬
‫اسامہ بن لدن کو اس کے حوالے نہیں کیا۔‬

‫ملعمر کی طرف سے امریکہ کی نافرمانی‬


‫‪1990‬ءمیں امریک ہ ن ے مقابل ے کا ایک اور محاذ کھول لیا جس نے‬
‫اس کے اقتدار اور تکبر کو ایک چیلنج سے ہمکنار کردیا ۔دومسلم‬
‫ریاستوں افغانستان اور چیچنیا کے لوگوں نے کا فر حکومتوں کے‬
‫خلف اللہہ کےہ حکم پر جہاد کا راستہہ چنا۔معاملہہ یہاں رکانہیں۔یہ‬
‫دوممالک دنیابھ ر سے آن ے وال ے مجاہدین اور مہاجرین ک ے لئ ے ایک‬
‫محفوظ جنت بن گئے۔ان مہاجرین اور مجاہدین کو امریک ہ عرب‬
‫افغان بنیاد پرست ‪،‬دہشت گرد اور اس نوع ک ے دیگر ناموں سے‬
‫یاد کرتا ہے ۔امریکہ سے یہ نافرمانی مسلمانوں کے خلیفہ ملعمر‬
‫اور اس کےہ ساتھیوں کو‬ ‫ن ے کی جب اس نےہ اسامہہ بن لدن‬
‫امریکہہ کےہ حوالےہ کرنےہ سےہ انکار کردیا۔ملعمر اس وقت بھی‬
‫ثابت قدم رہےہ جب امریکہہ نےہ افغانستان پر مزائیلوں سےہ حملہ‬
‫کردیا اس دوران چیچن مجاہدین نےہ روس کےہ خلف نافرمانی‬
‫کی اورجہاد کاآغاز کیا۔‬

‫‪62‬‬
‫باب نمبر ‪7‬‬
‫نیروبی میں امریکی سفارت خانےہ کی تباہ ی کےہ دوران القاعدہ‬
‫ک ے ایک سرکرد ہ رہنماہلک ہوگئ ے ۔ابوسلیمان المغربی ن ے اس پر‬
‫ایک طویل مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے اپنے ساتھی کی زندگی‬
‫اور شجاعت کے کارناموں کوبیان کیا ۔پہلی مرتبہ ایسا ہواکہ اسامہ‬
‫بن لدن ک ے کسی قریبی ساتھ ی ن ے اس کھل ے عام بموں کی‬
‫بارش کے دوران اپنے ساتھی کانوحہ بیان کیا ہو۔‬

‫یہاں میں سید قطب شہید کا ایک قول نقل کرتا ہوں۔سید‬
‫قطب جو ک ہ بنیاد پرستی کی تحریک ک ے نظریہ سازوں میں سے‬
‫تھےہ کہتےہ ہیں‪”:‬آگےہ بڑھتےہ ہ ی رہ و ۔بےہ شک تمہارا راستہہ کتنا ہی‬
‫خون آلود کیوں نہہ ہو۔اپناسر دائیں سےہ بائیں (انکار میں )مت‬
‫ہلؤ۔بلکہہ سامنےہ جنت کی طرف دیکھو۔جو کہہ تمہاری منزل‬
‫مقصود ہے“۔اسلمی گروپ ک ے بعض لوگوں ن ے جب بھ ی جہادی‬
‫تحریک روک دینےہ کی بات کی ۔میں محسوس کرتا ہوں کہہ ان‬
‫مواقع پر ان کےہ نقطہہ نظر میں جو تبدیلی آئی ‪،‬اس سےہ بھی‬
‫جہادی تحریک کو نقصان پہنچا کیونکہ جو لوگ جہادی تحریک سے‬
‫متعلق تھے یا وہ بھی جن کا اس جہادی تحریک سے کوئی تعلق نہ‬
‫تھا‪،‬انہوں نے بھی اس بارے میں بحث وتمحیص شروع کردی۔میں‬
‫نے اس ے ذرا بے تکلفی سے زیر بحث لن ے کا ارادہ کیا ہے تاکہ اس‬
‫کی تمام تر تفاصیل سامنے آسکیں۔‬

‫میں اسلمک گروپ میں اپنےہ جہادی بھائیوں سےہ معذرت چاہتا‬
‫ہوں۔میں ان کا بہ ت احترام کرتا ہوں اور محبت ک ے سات ھ ان کے‬

‫‪63‬‬
‫خیالت پر تنقید کررہاہوں تاہ م شریعت کی تشریح کی کوشش‬
‫کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ جوجو درست ہے وہی میرے‬
‫نزدیک قابل تحسین ہے ناکہ میرے جہادی بھائیوں کا پیار۔‬
‫میں اپنی اس بات کا آغاز اس اپیل س ے کرتا ہوں جو اسلمی‬
‫گروپ کی آسوان برانچ کے لیڈر خالد ابراہیم نے کی جو کہ اپریل‬
‫‪1996‬ءکے ہ اسلمی گروپ کے ہ مقدمے ہ میں ملزم تھے۔لیڈر‬
‫خالدابراہیم نےہ جولئی ‪97‬ءمیں اسلمی گروپ کےہ رہنماؤں کے‬
‫نام س ے حکومت ک ے خلف ایکشن نہ کرنے کی ایک اور اپیل کی‬
‫اور ی ہ اپیل جن رہنماؤں ک ے نام س ے کی گئی و ہ ابھی بھی لیمان‬
‫طرۃ اور الغرب کی جیلوں میں اپنی سزا بھگت رہے ہیں ۔اپیلوں‬
‫میں کہاگیا کہہ اسلمی گروپ کےہ مصر کےہ اندر ممبر اور مصر‬
‫سےہ باہ ر ملٹری آپریشن روک دیں اور اس طرح آپریشن کرنے‬
‫کے لئے کوئی بیان بھی جاری نہ کریں ۔اسلمی گروپ نے حکومت‬
‫سے کہا کہ گروپ نے جو پیش رفت کی ہے حکومت اس کا جواب‬
‫دے ۔‬

‫اس وقت کےہ وزیر داخلہہ حسن اللفی نےہ حکومت کےہ ترجمان‬
‫کی حیثیت سے بیان دیا کہ اسلمی گروپ کے اس نوع کے بیانات‬
‫کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونک ہ ی ہ گروپ ک ے ارکان ن ے اپنی جیل‬
‫میں سزا میں کمی ک ے لئ ے دیئ ے ہیں اور دوسرا ی ہ بھ ی کہاگیا کہ‬
‫حکومت قانون شکنوں کےہ ساتھہ کسی طرح کی ڈیل کرنےہ کے‬
‫لئے تیار نہیں ہے۔‬

‫وزیر اعظم حسن اللفی کےہ پیش رو اور وزیر داخلہہ حبیب‬
‫العادلی ن ے اعلن کیاک ہ حکومت کسی ک ے سات ھ کسی قسم کی‬
‫کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتی ۔ہاں البتہ ایسے افراد کو حکومت‬
‫رہاکرد ے گی جو اپن ے کئ ے پر شرمند ہ ہوں ‪،‬اپن ے فعل کی معافی‬
‫مانگیں اور ی ہ حلف دیں کہہ وہہ آئندہہ دہشت گردی اور تشدد کی‬
‫کسی کاروائی میں ملوث نہیں ہوں گے۔‬

‫پرتشددکاروائیوں کو روکنے کامسئلہ‬


‫پرتشددکاروائیوں کا جو تعارف میں نے اوپر دیا ہے اب میں پیش‬
‫قدمی کے نام نہاد ان معاملت کو سوالت کی صورت میں دہراتا‬
‫ہوں‪:‬‬

‫‪64‬‬
‫اسلمی گروپ کا ایک رکن اس پیش رفت کے‬ ‫(الف)‬
‫بارے میں کیاخیال رکھتا ہے ؟‬

‫(‪)2‬پیش رفت کی تعریف کس طرح کی جاسکتی ہے؟‬

‫ایسی پیش رفت ک ے جواز میں کئ ے جان ے وال ے دلئل‬ ‫(ج)‬


‫کس حد تک قابل یقین ہیں؟‬

‫(‪)8‬اس پیش رفت کے کیا اثرات ہوئے؟‬

‫اسلمی گروپ کےہ ممبر اس پیش رفت ک ے بار ے میں کیا کہتے‬
‫ہیں؟قارئین کو حیرانی ہوگی کہہ میں نےہ اس فارمولقسم کے‬
‫سوال کے ساتھ آغاز کیوں کیا؟میں نے یہ اس لئے کیا کہ اس سے‬
‫حقائق زیاد ہ واضح طور پر منظر عام پر آسکت ے ہیں اور یہ پیش‬
‫رفت کی تحقیق میں زیادہ معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔‬

‫اسلمی گروپ کےہ پہلےہ ترجمان جس نےہ سب سے‬ ‫‪1‬۔‬


‫پہلے پیش رفت کی وہ خالد ابراہیم تھے ۔انہوں نے اپنے مقدمے کی‬
‫سماعت ک ے دوران جو اپریل ‪1996‬ءمیں ہوئی ی ہ بات کی ۔وکیل‬
‫مستنصر الزیات ن ے اس کی حوصل ہ افزائی کی اور اس س ے یہ‬
‫بیان دلوانےہ کےہ بعد اسےہ اخبارات میں شائع کرادیا۔مستنصر‬
‫الزیات ن ے اس وقت ی ہ موقف اختیارکیا ک ہ و ہ تحریک س ے وابستہ‬
‫بیرونی ممالک میں مقیم ممبران ان کے ردعمل کا انتظار کررہا‬
‫تھا۔‬

‫بعد ازاں محمد عبدالعلیم نےہ اسلمی گروپ کے‬ ‫‪2‬۔‬


‫رہنماؤں ک ے ایماءپر ‪1997‬ءمیں جیل میں اپن ے ٹرائل ک ے موقع پر‬
‫بیان جاری کیا ۔یہہ مقدم ہ بینکوں کو بم س ے اڑان ے ک ے بار ے میں‬
‫تھاجس میں اس ے بطور ملزم نامزد کیاگیا تھا۔دفاع کونسل میں‬
‫ایک مرتبہ پھ ر مستنصر الزیات بھی شامل تھے ۔محمد عبدالعلیم‬
‫نےہ اس موقع پر اسلمی گروپ کےہ رہنماؤں کی طرف سے‬
‫متعدد بیانات جاری کئےہ ۔پہلےہ بیان میں محمد بن عبدالعلیم نے‬
‫اعلن کیا کہ اسلمی گروپ کے اندرون ملک اور بیرون ملک تمام‬
‫ارکان ملٹری آپریشن ترک کردیں ۔نہہ تو کسی جگہہ حکومتی‬
‫مشینری اور اہ م ارکان پر حمل ے کئ ے جائیں اورن ہ ہ ی اس قسم‬
‫ک ے بیان جاری کئ ے جائیں جس س ے گروپ ک ے ارکان متحرک یا‬
‫مشتعل ہوکرایسے حملوں پر آمادہ ہوں ۔دوسر ے اعلن میںکہ ا گیا‬

‫‪65‬‬
‫ک ہ کسی درست جواز ک ے بغیر مصر ک ے قدیم باشندوں (یعقوبی‬
‫فرق ے ک ے عیسائیوں)پر حمل ہ کسی صورت جائز نہیں ہے۔تیسرے‬
‫اعلن میں اس نے پہلے والے اعلن کو دوبارہ سختی سے دہرایا کہ‬
‫ملٹری آپریشن روک دیئے جائیں اور حکومتی مشینری پر حملوں‬
‫پر اکسانےہ والےہ بیانات پر کان نہہ دھراجائےہ اور اس نوع کی‬
‫ترغیب دینےہ والوں کو نظر انداز کیا جائےہ اور یہہ ترغیب چاہے‬
‫اندرون ملک س ے دی جائ ے یا بیرون ملک س ے ایسا کوئی اشارہ‬
‫آئے۔دونوں صورتوں میں اسے نظر انداز کیاجائے۔‬

‫اس نوع کےہ بیانات کےہ ساتھہ ہ ی اس نےہ یہہ اعلن بھ ی کیا کہہ یہ‬
‫بیانات حکومتی ایجنسیوں سےہ کسی سمجھوتےہ یا مفاہمت کا‬
‫نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ اعلن مسلمانوں ک ے مفادات اور اسلم کے‬
‫مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جارہے ہیں اور اس سے نہ صرف‬
‫یہ کہ مسلمانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ اسلم کو بھی بطور دین فروغ‬
‫ملےہ گا۔اس کےہ بعد امریکہہ کی ایک جیل سےہ ڈاکٹر عمر‬
‫عبدالرحمن نے ایک بیان جاری کیا جو درج بالبیان کی تائید میں‬
‫تھا۔دونوں بیانات ایک طرح کے تھے اور ایک دوسر ے کی معاونت‬
‫میں تھے ۔امریکہ سے آنے والے اس بیان کے بعد مصر میں موجود‬
‫اسلمی گروپ کےہ رہنماؤں ن ے اس پر اپنا مثبت ردعمل دکھایا‬
‫اور اپنےہ پانچویں بیان میں ایک مرتبہہ پھر اپنےہ عزم کا اعادہ‬
‫کیا۔بیان میں کہاگیا کہہ لیمان طرۃجیل میں موجودہہ برادرز شیخ‬
‫ڈاکٹر عمر عبدالرحمن ک ے اس بیان کا خیر مقدم کرت ے ہیں جو‬
‫انہوںنےہ ملٹری آپریشن روکنےہ کےہ لئےہ دیا ہےہ ۔انہوں نےہ کہ ا کہہ یہ‬
‫بیان ایک روشن خیال ذہن اور جراءت کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ‬
‫انہوںن ے ہمیش ہ خون خراب ے س ے نفرت کی ہے اور امن کی راہیں‬
‫تلش کرنے کی کوشش کی ہے اور جب اس نے مصیبت کے وقت‬
‫اپنے خدا کو پکارا ‪،‬خدانے ضرور اس کی فریاد سنی ہے اور خدانے‬
‫ہمیشہ اس ے انعام سے نوازا ہے ۔ہم مصالحت کرانے والوں پر زور‬
‫دیتے ہیں کہ وہ اس کی جیل سے رہائی کی کوشش کریں۔‬

‫لیمان طرۃ جیل میں بند اسلمی گروپ کے رہنماؤں نے جیل سے‬
‫ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور دیگر عوامی‬
‫مقتدر شخصیات کےہ نام ایک تار بھیجا۔یہہ تار اخبار ”الوفد“میں‬
‫شہہ سرخی کےہ ساتھہ شائع ہوا۔تار کامتن کچھہ اس طرح سے‬
‫تھا۔”ہم لوگوں کو قتل عام سے بچانے کے لئے جنگ کو روک دینے‬
‫کا اعلن کرتےہ ہیں ۔ہ م امید کرتےہ ہیں کہہ آپ ہماری اس پیش‬
‫رفت پر ہمارےہ ساتھہ تعاون کریں گےہ ۔ہم آپ سےہ تعاون کے‬

‫‪66‬‬
‫خواستگارہیں ۔ہم ملک کےہ صدر اور حکومت سےہ درخواست‬
‫کرتےہ ہیں کہہ وہہ ہماری اس پیش رفت کامثبت جواب دےہ “۔بعد‬
‫ازاں لیمان طرۃ ہ جیل میں موجود برادرز نے ہ ڈاکٹر عمر‬
‫عبدالرحمن کے بارے میں بیان سے دست برداری کااعلن کیا۔اس‬
‫پر میںاس وقت بات کروں گا جب عبدالرحمن کےہ بارےہ میں‬
‫لکھوں گا۔‬

‫اسامہہ رشدی نےہہ ‪17‬نومبر ‪1997‬ءکوالقصرکےہ واقع‬ ‫‪3‬۔‬


‫میں ملوث ہونے اور بعد ازاں عدالت سے رہائی پانے کے بعد اس‬
‫پیش قدمی ک ے بارے میںایک بیان دیا۔اس نے اپنے بیان میں برادر‬
‫رفاعی طہٰ کا بھی حوالہ دیا ۔رفاعی طہٰ اسلمی گروپ کے ملٹری‬
‫کمانڈر تھےہ ۔یہہ رد عمل دمشق سےہ براستہہ قاہرہہ چار ماہہ قبل‬
‫پہنچا۔میں الشرق الوسط میں اسامہہ رشدی کا انٹرویو پڑھ ا ۔‬
‫میں اس انٹرویو کے بارے میں یہاں بھی بتاناچاہتا ہوں کیونکہ اس‬
‫انٹرویو کا اس منظر نامے سے تعلق ہے اور یہ اسلمی گروپ کے‬
‫رہنماؤں میں خیالت میں آنے والی تبدیلی کی ایک اور سمت کو‬
‫ظاہر کرتا ہے۔‬

‫اسام ہ رشدی ک ے خیال میں ”شیخ عمر عبدالرحمن ن ے جہاد کے‬


‫بار ے میں اپنا نقط ہ نظر اس لئ ے تبدیل کیا اور اپنی حمایت اس‬
‫لئ ے واپس لی کیونکہ و ہ اصل صورتحال س ے ب ے خبر ہیں اورانہیں‬
‫زمینی حقائق کا علم ہ ی نہیں ہےہ ۔اس لعلمی کی بنیادوں پر‬
‫انہوں نےہ اپنا نقطہہ استوار کیا ہے“۔اسامہہ رشدی انٹرویو میں‬
‫کہتاہے کہ شیخ کو یہ معلومات ملی تھیں کہ ہزاروں لوگ ابھی تک‬
‫جیلوں میں زیر حراست اور ان پر تشدد کیا جارہا ہےہ ۔شاید‬
‫رابطوں میں کمی کی وجہہ سےہ اس تک صحیح صورتحال نہ‬
‫پہنچی ہو۔اسامہ رشدی کے خیال میں معلومات کی کمی کی وجہ‬
‫سےہ شیخ نےہ پیش قدمی بارےہ میں دئیےہ جانےہ والےہ بیان‬
‫سےبراءت کااظہار کیا ہےہ رشدی نےہ تسلیم کیا کہہ مصر میں‬
‫صورتحال بہ ت خراب ہے اور حکومت ابھ ی تک وہ ی پران ے حربے‬
‫زیادہ شدت سے استعمال کررہی ہے۔‬

‫اسامہ رشدی کہتا ہے”جہاں تک ملٹری آپریشن روک دینے کا تعلق‬


‫ہے تو اسلمی گروپ میں زیاد ہ روشن خیال رہنما زیاد ہ مایوسی‬
‫اور احساس محرومی کا شکار ہیں کیونک ہ حکومت کسی طور‬
‫پر اسلمی گروپ کےہ خلف ایکشن لینےہ سےہ باز نہیں آرہ ی ۔‬
‫جیلوں میں انسانی حقوق کی شدید ترین خلف ورزیاں دیکھنے‬

‫‪67‬‬
‫میں آرہ ی ہیں اور قیدیوں اور ان ک ے خاندانوں ک ے سات ھ بدترین‬
‫تشدد کیا جارہا ہے۔‬
‫اسامہہ رشدی اپنےہ انٹرویولفظ ”استحقاق“استعمال کرتا ہے‪،‬یہ‬
‫ایک عجیب لفظ ہے اور مجھےہ اس کا علم نہیں کہہ اس کا اس‬
‫لفظ س ے کیا مطلب ہے ۔رشدی ی ہ بھ ی کہتا ہے ک ہ ہمار ے بھائیوں‬
‫کو جیل میں بدترین تشدد کاسامنا ہےہ ۔انہیں تفتیشی کیمپوں‬
‫میں رکھہ کر ان پر اذیتوں کےہ پہاڑ توڑےہ جاتےہ ہیں اورانہیں ہر‬
‫قسم کے قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے ۔انٹرویو لینے والے‬
‫نےہ رشدی سےہ پوچھا”کیا سات ہزار قیدیوں کو پولیس کی‬
‫حراست سے آزاد کرنا ایک مثبت نتیجہ نہیں ہے“اس پر رشدی نے‬
‫جواب دیا”یہہ اعداد وشمار قابل قبول نہیں ہیں‪،‬اس کےہ علوہ‬
‫ہزاروں ارکان ایس ے ہیں جن کو مقدم ہ چلئ ے بغیر یا ایف آئی آر‬
‫درج کئ ے بغیر جیلوں میں اور عقوبت خانوں میں ڈال گیا ہے ان‬
‫میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ انہیں جیلوں میں سڑتے ہوئے دس ‪،‬‬
‫دس سال سے بھی زائد کا عرصہ ہوچلہے“۔‬

‫ن ہ جان ے کیوں اسام ہ رشدی ن ے بھ ی انہ ی اعداد شمار کاحوال ہ دیا‬


‫جو اعداد وشمار شیخ نےہ پیش قدمی واپس لینےہ کےہ اعلن پر‬
‫کئے تھے ۔ایک طرف تو اسامہ رشدی ‪،‬شیخ کے اعداد شمار کو یہ‬
‫کہہہ کررد کردیتا ہےہ کہہ اسےہ درست معلومات نہیں ملیں جبکہ‬
‫دوسری طرف اسام ہ رشدی خود بھ ی شیخ ک ے بیان کرد ہ اعداد‬
‫وشمارکا حوالہہ دیتا ہے۔نہہ معلوم کیوں اسامہہ رشدی خود بھی‬
‫شیخ ک ے بیان کرد ہ اعداد شمار کا حوال ہ دیتا ہے ۔ن ہ معلوم کیوں‬
‫اسامہ رشدی نے ایسا کیا؟ کیونکہ ایک سوال کے جواب میں خود‬
‫بھی جیلوں میں موجود ہزاروں قیدیوں اور ان پر تشدد کی بات‬
‫کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ ان قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو ہر‬
‫قسم کی قانونی امداد سےہ جوکہہ ان کا حق ہےہ ‪،‬محروم رکھا‬
‫جارہا ہے۔رشدی کے ہ خیال میں مصری حکومت کو شیخ‬
‫عبدالرحمن کے بیان کردہ مسئلے کا حل تلش کرنا چاہیے ۔رشدی‬
‫کے خیال میں میرا یہ یقین ہے کہ شیخ عبدالرحمن کے حوالے سے‬
‫مصری حکومت کو اپن ے جرم کا احساس ہے ک ہ اس ن ے شیخ کے‬
‫امریکی جیل میں انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا ۔حکومت‬
‫مصر کو کسی نتیجےہ پر پہنچنا چاہیےہ کیونکہہ شیخ بہرحال ایک‬
‫مصری باشند ہ ہے ۔و ہ ن ہ صرف ایک مسلم اسکالر ہیں بلکہ جامعہ‬
‫الزہر کےہ پروفیسر ہیں اور آخری بات یہہ کہہ وہہ بصارت سے‬
‫محروم اور بیمار بوڑھےہ آدمی ہیں ۔ان کو حراست اور ان کے‬

‫‪68‬‬
‫سات ھ غیر انسانی سلوک ہ ر سطح پر ایک مستقل تناؤ کو جنم‬
‫دیتا رہے گا۔‬

‫انٹرویو لینےہ والےہ ن ے اسامہہ رشدی سےہ استفسار کرتےہ ہوئےہ کہا‬
‫”آپ کے خیال میں اس کی کیا ضمانت ہے کہ اگر مصری حکومت‬
‫امریکہ سے کہہ کر اسے رہائی دلواتی ہے تو شیخ مصر کے لئے ہی‬
‫خطر ہ ن ہ بن جائیں گے؟“۔رشدی ن ے جواب دیا ”ہ م ی ہ بات جانتے‬
‫ہیں ک ہ شیخ ن ے ہمیش ہ اپن ے بیٹوں اور بھائیوں پر انحصار کیا ہے ‪،‬‬
‫میر ے خیال میں شیخ رائ ے عام ہ ک ے خلف نہیں جائیں گ ے اور نہ‬
‫ہ ی عدم تشدد کی پیش رفت کےہ خلف کوئی اقدام کریں گے‬
‫تاہ م ان کی مصر میں واپسی سےہ مصر میں امن وامان کی‬
‫صورتحال مزید بہتر ہوجائ ے گی اور اس س ے اسلم پسندوں کے‬
‫غصے اور تناؤ کی ایک بڑی وج ہ ختم ہوجائے گی۔اس س ے عالمی‬
‫سطح پر پیدا ہونے والی بے چینی اور کھچاؤ بھی ختم ہوجائے گا“۔‬

‫اسام ہ رشدی ن ے اپن ے انٹرویومیں ایک سود ے بازی کی تجویز دی‬


‫جس سےہ اس کےہ خیال میں شیخ کی رہائی سےہ خطےہ کاامن‬
‫لوٹ آئے گا اور شیخ اسلمی گروپ کے مشترکہ مؤقف سے بھی‬
‫اتفاق کریں گےہ ۔(یہہ مشترکہہ موقف عدم تشدد کےہ فلسفےہ پر‬
‫مشتمل تھا)‬

‫مجھےہ یہہ اتفاق رائے ہ کہیں بھی نظر نہیں آتا کیونکہ ہ عمر‬
‫عبدالرحمن اور رفاعی طہٰ جیسےہ فکر کےہ بلند درجہہ لوگ اس‬
‫پیش قدمی کی مخالفت کریں گ ے ۔مجھے ستمبر ‪1983‬ءک ے پہلے‬
‫ہفت ے میں ہون ے وال و ہ واقع ہ یاد ہے جب آج سےہ ‪17‬سال قبل جب‬
‫شیخ عمر عبدالرحمن کمر ہ عدالت میں بڑ ے استقلل اور ثابت‬
‫قدمی سے کھڑا تھا اور جج سے کہہ رہا تھا”میں ایک مسلمان ہوں‬
‫‪،‬جو اپن ے مذہ ب ک ے لئ ے زند ہ رہتا ہے اور اسی ک ے لئ ے اپنی جان‬
‫بھی گنوا دیتا ہے‪،‬میں کبھی خاموش نہیں رہہ سکتا اور اس‬
‫صورتحال میں تو میں بالکل علیحدہ ہوکر نہیں بیٹھ سکتا جب تک‬
‫اسلم کی جنگ تمام محاذوں پر لڑی جارہی ہو“۔‬

‫اسامہ رشدی نے تب ریاست اور لوگوں کا اس طرح موازنہ کیا کہ‬


‫مصری ریاست ایک باپ کی طرح ہے جبکہ اس کے عوام اس کی‬
‫اولد ہیں ۔ی ہ ایک طرح س ے نیارشت ہ تھااور اس س ے ایک نیانظریہ‬
‫اخذ کیا جارہ ا تھا۔تب اس نےہ یہہ اشارہہ دیا کہہ اسلمی گروپ کو‬
‫مصری قوانین اور آئین کا وفادار رہناچاہیے۔اسامہہ سےہ انٹرویو‬

‫‪69‬‬
‫کرن ے وال ے صحافی ن ے سوال کیا ”اسلمی گروپ مصر ک ے آئین‬
‫اور قوانین سےہ وفاداری کےہ اظہار کےہ لئےہ کیاضمانت دےہ گا‬
‫اورکس طرح پتہ چلے گا کہ اسلمی گروپ مصری قانون کے تابع‬
‫ہے اور اس کا احترام کرتا ہے؟“۔‬

‫اسامہہ رشدی نےہ اس سوال کاجواب ایک ایسےہ سیاستدان کی‬


‫طرح دیا جو مذاکرات کےہ دروازےہ کسی طور بھ ی بند نہہ کرنا‬
‫چاہتا ہو”ہمارےہ بھائی جیلوں میں بدترین تشدد کو برداشت‬
‫کررہےہ ہیں‪،‬کچھہ جلوطنی کی سزا بھگت رہےہ ہیں اور کچھہ کو‬
‫دوردراز جیلوں میں سڑنے کے لئے ڈال دیا گیا ہے ۔وہ ہر قسم کی‬
‫قانونی اور سیاسی امداد سےہ محروم ہیں ۔آپ اس موجودہ‬
‫صورتحال میں ان سےہ کسی قسم کی ضمانت کی بات نہیں‬
‫کرسکتےہ ۔پہلےہ آپ مجھےہ میرا حق لوٹائیےہ اور پھر مجھہ سے‬
‫ضمانت طلب کیجئے“۔‬

‫اسلمی گروپ کے ایک ترجمان نے لیبیا کے ایک میگزین کو جس‬


‫کی شہرت لیبیا ک ے ایک متحارب اسلمی اتحاد ک ے ترجمان کی‬
‫سی ہے ‪،‬کو یہ بیان جاری کیا کہ یہ پیش رفت ایک قانونی ضرورت‬
‫ہے ۔اس کا ایک مقصد ہے جو کہ آنے والے دنوں میں پایہ تکمیل کو‬
‫پہنچےہ گا۔اس کا یہہ مطلب ہرگز نہیں ہےہ کہہ اسلمی گروپ اپنے‬
‫عقیدےہ سےہ دستبردار ہوجائےہ گا اورنہہ ہ ی یہہ جہاد کےہ نظریےہ کے‬
‫خلف کوئی تضاد ہے۔یہ جتانے کی کوشش نہیں کہ اسلمی گروپ‬
‫برسراقتدار حکومت کو تسلی دے رہ ا ہے یایہ کہ اس طرح گروپ‬
‫حکومت کی پالیسیوں کی منظوری دے رہا ہے یا انہیں قبول کررہا‬
‫ہےہ ۔اب ایسا کوئی نکتہہ نہیں ہےہ کہہ مسلح آپریشن جاری رکھے‬
‫جائیں ۔اسلمی گروپ کو اپن ے دفاع کے لئے مسلح آپریشن کرنے‬
‫پر مجبورکیاگیا ہے۔‬

‫میں سمجھتا ہوں ک ہ اس وقت ایک نئی پالیسی کی تشکیل کی‬


‫ضرورت ہےہ ‪،‬اس امید پر کہہ حکومت اپنےہ حملےہ ختم کردے‬
‫گی۔اگر حکومت اس پر اپنا ردعمل ظاہ ر نہیں کرتی تو آپریشن‬
‫دوبار ہ شروع کرن ے ک ے درواز ے کھل ے ہیں جو جماعت آپریشن کے‬
‫دروازےہ بندکرےہ گی وہہ مناسب جواب نہہ ملنےہ پر دوبارہہ آپریشن‬
‫بھی شروع کرسکتی ہے ۔حکومت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے‬
‫یہہ کامیابی حاصل کی ہےہ کہہ انہوں نےہ ”دہشت گردوں“کےہ مالی‬
‫ذرائع ڈھونڈہ کرانہیں ختم کردیا ہے۔اسلمی گروپ کی رائے‬
‫حکومت کےہ اس ایکشن پر وکالت کرتی ہےہ ۔ان پالیسیوں نے‬

‫‪70‬‬
‫اسلمی گروپ سےہ معاملہہ طےہ کرنےہ میں اپنی اثر انگیزی کو‬
‫ثابت کردیا ہے۔اب ی ہ توقع کی جارہ ی ہے ک ہ حکومت اب جلد ہی‬
‫محسوس کرےہ گی کہہ اسلم پسندوں اور عام آدمی کی گردن‬
‫سے اب دباؤ اور تشدد کی زنجیر اتارنے کی ضرورت ہے ۔اسلمی‬
‫گروپ کےہ پاس اختیار ہےہ کہہ وہہ مسلح آپریشن روکنےہ کےہ بارے‬
‫میں فیصلہہ کرسکےہ ۔یہہ اسلمی گروپ کو اپنا نقطہہ نظر تبدیل‬
‫کرنے سے نہیں روک سکتا۔موجودہ حقائق اسلمی گروپ کو ہرگز‬
‫یہہ اجازت نہیں دیتےہ کہہ وہہ حکومت کےہ ساتھہ تصادم جاری‬
‫رکھیں۔پہلےہ پہ ل یہہ امید کی جارہ ی تھ ی کہہ شاید یہہ پیش قدمی‬
‫نتیجہ خیز ہوسکتی ہولیکن بعد ازاں ی ہ امیدیں برن ہ آسکیں اور ان‬
‫امیدوں پر اوس پڑگئی ۔اسلمی گروپ کا سب سے اہم مقصد یہ‬
‫ہےہ کہہ وہہ مسلمانوں کےہ درمیان اپنےہ خیراتی سماجی بھلئی‬
‫کاموں کے ساتھ موجود رہے ۔‬
‫ایک گروپ اگر کچھہ عرصےہ کےلئےہ جہادی سرگرمیوں سےہ ہاتھ‬
‫اٹھالیتا ہے تو اس کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نے مکمل طور‬
‫پر اپنےہ مذہبی فریضےہ سےہ روگردانی کی ہےہ ۔گروپ کےہ کچھ‬
‫رہنماؤں ک ے خیال میں ی ہ پیش قدمی فضول ہے لیکن ی ہ اکثریت‬
‫کی رائے ہے جس کی پیروی کی جارہی ہے۔‬

‫ڈاکٹر عمر عبدالرحمن نے ایک بیان دیا کہ ”اللہ کی خوشنودی کے‬


‫حصول کےہ لئےہ تمام آپریشن روک دیئےہ جائیں تاہم جون‬
‫‪2000‬ءمیں ڈاکٹر نے جیل سے ایک بیان دیا جسے اس کے وکیل نے‬
‫جاری کیاکہہ شیخ عمر عدم تشدد کی پیش قدمی کی حمایت‬
‫سےہ دستبردار ہونےہ کا اعلن کرتےہ ہیں کیونکہہ ا س سےہ اسلم‬
‫پسندوں کو کوئی مثبت جواب یا فائد حاصل نہیں ہوا۔وکیل لئن‬
‫اسٹیوارٹ نے کہا کہ شیخ کہتے ہیں”کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے‬
‫اور لوگ ابھ ی تک جیلوں میں زیر حراست ہیں۔ملٹری ٹریبونلز‬
‫ابھ ی تک لوگوں کےہ مقدمات کی سماعت کررہےہ ہیں اور ابھی‬
‫بھی لوگوں کو سزائے موت سنائی جارہی ہے۔‬

‫ڈاکٹر عبدالرحمن کا صورتحال کا واضح تجزیہہ دراصل رہنماؤں‬


‫کالیمان طرۃ جیل سےہ جاری ہونےہ والےہ تیسرےہ بیان کا واضح‬
‫تھا‪،‬جس میں انہوں نےہ کہاکہہ وہہ اپنےہ اس بیان پر قائم ہیں کہ‬
‫مسلح آپریشن بندکئ ے جائیں اور کوئی ایسا بیان اندرون ملک یا‬
‫بیرون ملک جو ا س نوع کے آپریشن کی ترغیب دے وہ غلط ہے ۔‬
‫انہوں نے محسوس کیا کہ یہ اعلن حکومتی ایجنسیوں سے کسی‬

‫‪71‬‬
‫مفاہمت کا نتیج ہ نہیں ہے بلک ہ ی ہ مسلمانوں اور شریعت ک ے مفاد‬
‫میں ہے۔‬

‫متعدد ایام کے بعد مستنصر الزیات نے اپنے دفتر میں ایک پریس‬
‫کانفرنس بلئی جس میں اس ن ے شیخ عبدالرحمن ک ے اس بیان‬
‫کےہ بارےہ میں جو اس کی وکیل نےہ اخبارات کو دیاتھ ا شکوک‬
‫وشبہات پیدا کردیئے ۔اس نے صحافیوں کو شیخ عبدالرحمن کا وہ‬
‫خط دکھانےہ سےہ انکار کردیا جو مبینہہ طور پر انہوں نےہ لیمان‬
‫طرةجیل میں قید اسلمی رہنماؤں کےہ نام لکھ ا تھ ا ۔الزیات نے‬
‫صحافیوں کو بتایا کہ جیل میں قید اسلمی رہنماؤں نے شیخ عمر‬
‫ک ے نام ایک پیغام ارسال کیا ہے جس میں انہوںن ے امن کی پیش‬
‫رفت بار ے اپن ے موقف کی وضاحت کی ہے اور اس خط پر درج‬
‫ذیل رہنماؤں ک ے دستخط ثبت ہیں ۔ان میں ناجح ابراہیم وعلی‬
‫الشریف‪،‬عصام دربال وحمدی عبدالرحمن ‪،‬فواد الدوالی ‪،‬کرم‬
‫زہدی اور عاصم عبدالماجد شامل تھے ۔الشرق الوسط اخبار نے‬
‫اس خبر کو بیان کرت ے ہوئ ے لکھ ا تھ ا کہعبود الزمرن ے اس خط پر‬
‫دستخظ نہیں کئے تھے ۔‬

‫ایک ہفتےہ سےہ بھ ی کم مدت کےہ دوران اخبارات نےہ شیخ عمر‬
‫عبدالرحمن کا بیان شائع کیا جو انہوں نے گروپ کے رہنماؤں کے‬
‫جواب میں دیا تھ ا ۔الشرق الوسط ن ے اس کو یوں رپورٹ کیا‬
‫‪:‬مصر ک ے سب س ے بڑ ے بنیاد پرست گروپ اسلمی گرو پ کے‬
‫روحانی پیشوا عمر عبدالرحمن نےہ امن کیلئےہ پیش رفت کی‬
‫حمایت واپس لےہ لی ہے۔امن کےہ لئےہ پیش رفت اور مسلح‬
‫آپریشن روک دینے کا اعلن اسلمی جیل میں قید رہنماؤں نے کیا‬
‫تھا۔عمر عبدالرحمن ن ے کہ ا ک ہ اب و ہ اس امن ک ے لئ ے کی جانے‬
‫والی پیش رفت کی حمایت نہیں کرت ے “۔مجھے بتایاگیا ک ہ میری‬
‫امریکی وکیل نےہ میری طرف سےہ ایک بیان دیا تھ ا ‪،‬میں بتانا‬
‫چاہتا ہوں کہ وہ بیان درست تھا اورمیں نے ہی دیا تھا ۔میں نے امن‬
‫کےہ لئےہ پیش رفت کو منسوخ نہیں کیا لیکن میں نےہ اس کی‬
‫حمایت واپس لےہ لی ہےہ اور اب میں نےہ یہہ اپنےہ ساتھیوں پر‬
‫چھوڑدیا ہےہ کہہ وہہ اس بحث وتمحیص کا آغاز کریں اور فیصلہ‬
‫کریں کہ یہ پیش رفت کس حد تک فائدہ مند ہے۔عمر عبدالرحمن‬
‫نےہ علی العلن کہ ا کہہ تمام بیانات جو میرےہ نام سےہ منسوب‬
‫کرکے شائع کئے گئے وہ درست تھے اورانہیں میں نے ہی جاری کیا‬
‫تھا۔‬

‫‪72‬‬
‫یہاں یہہ ضروری محسوس ہوتاہےہ کہہ کچھہ توقف کیاجائےہ اور ان‬
‫آسانیوں اورسہولتوں کو ایک نظر دیکھاجائے جو مستنصر الزیات‬
‫حکومت کے زیر انتظام عمل میں لسکتا تھا۔قیدیوں سے ملقات‬
‫پر چار سال تک لے لئے پابندی عائد کردی گئی ۔متعدد قیدیوں کو‬
‫جیل کےہ اندر ہ ی تشدد کرکےہ ہلک کردیاگیا اور امام مسجدوں‬
‫اور تبلیغ کرنےہ والوں کو قانون کےہ آرٹیکل ‪ 201‬کےہ تحت پابند‬
‫کردیا کہہ وہہ حکومت اور انتظامیہہ کےہ فیصلوں اور قوانین کے‬
‫خلف احتجاج نہیں کرسکتےہ اورنہہ ہ ی کسی قسم کی آواز بلند‬
‫کرسکتےہ ہیں ۔ملک آہستہہ آہستہہ ایمرجنسی قوانین کےہ تحت‬
‫کمزور ہورہا ہےہ ۔متعددممالک میں سےہ نوجوانوں کو اغوا کیا‬
‫جارہاہے اورانہیں واپس مصر لیا جارہاہے ۔حکومت ان کی واپسی‬
‫کو مہینوں چھپاتی ہے ۔حکومت ن ے احمد سلم ہ اور عصام محمد‬
‫حافظ کےہ کیس میں ایسا ہ ی کیا ۔کبھ ی کبھار حکومت یہہ بھی‬
‫چھپالیتی ہے کہ کس ملزم کے ساتھ حکومت کیاکرنے جارہی ہے ؟‬
‫جیساکہہ حکومت نےہ طلعت فواداور برادر محمد الظواہری کے‬
‫کیس میں کیا جبکہہ یہہ سب کچھہ جاری ہےہ ۔اس صورتحال میں‬
‫مستنصر الزیات ن ے لیمان طرہجیل کا دورہ کیا اور وہاں اسلمی‬
‫گروپ ک ے رہنماؤں س ے ملاورانہیں عمر عبدالرحمن کا ایک خط‬
‫تقسیم کیا اور اس خط ک ے جواب میں اس ن ے ان کا رد عمل‬
‫حاصل کیا اور ان سےہ شیخ عمر کےہ لئےہ ایک خط بھ ی حاصل‬
‫کیا ۔وہ اسی روز جیل سے لوٹا اور آتے ہی اخبارات سے رابطہ کیا‬
‫اورانہیں اس بیان کےہ بارےہ میں بتایا جو جیل میں قید رہنماؤں‬
‫سےہ لیا گیا تھا۔اس ن ے اخبارات کو اس خط کےہ بارےہ میں بھی‬
‫اسٹوری فراہم کی جو اس نے ان رہنماؤں سے شیخ عمر کے لئے‬
‫حاصل کیا تھا‪،‬اس ک ے بعد اس ن ے ایک پریس کانفرنس کی (ذرا‬
‫اس کی ہوشیاری کا اندازہہ لگائیےہ !!)اور ان خطوط پر اپنے‬
‫خیالت کا اظہار کیا۔اس نےہ صحافیوں کو اس خط کا مضمون‬
‫بتان ے س ے انکار کردیاجو شیخ عمر ک ے لئ ے جیل میں بند رہنماؤں‬
‫سےہ حاصل کیا گیا تھا۔اس خط کےہ مواد بارےہ امریکی خفیہ‬
‫ایجنسیاںاور دوسری خفی ہ ایجنسیاں جانتی تھیں کیونک ہ خط میں‬
‫موجود مواد بار ے انہیں ایک بریفنگ دی گئی تھ ی اور خط بھی‬
‫دکھایاگیا تھا تاہم مصری عوام کے بارے میں فرض کیا گیا کہ انہیں‬
‫اس خط میں موجود سچی باتوں بارے آگاہ کرنا ضروری نہیں ہے۔‬

‫کیا یہاں آپ کو تھوڑا توقف نہیں کرنا چاہیے؟سوچیےہ اور‬


‫پوچھیے!کیوں؟مستنصر الزیات جب اپنی اس برتر حیثیت سے‬
‫لطف اندوز ہورہاتھا کہہ نیویارک شہر کےہ اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ‬

‫‪73‬‬
‫اٹارنی پیٹرک نےہ شیخ کی وکیل لئن اسٹیوارٹ کو ایک خط‬
‫ارسال کیا ۔یہ خط اس نے شیخ کا دفاع کرنے والی ساری ٹیم کے‬
‫ارکان کو تحریر کیاتھااور اس خط میں اس نےہ ان سب پر‬
‫تحریری حکم نامےہ کےہ ذریعےہ شیخ سےہ ملقات یا فون پر بات‬
‫کرنےہ پر پابندی عائد کردی تھی ۔یہہ اس وقت ہوا جب لئن‬
‫اسٹیوارٹ نےہ ایک پریس کانفرنس منعقد کی تھی۔اس نےہ یہ‬
‫پریس کانفرنس شیخ کی درخواست پر بلئی تھی ۔جب صحافی‬
‫اکٹھے ہوئے تو اس نے پرہجوم پریس کا نفرنس میں انکشاف کیا‬
‫تھا کہ شیخ نے مسلح آپریشن ختم کرنے والاپنا بیان واپس لے لیا‬
‫ہے ۔ذرا ملحظہ کیجئے کہ مصر اور امریکہ کے موقف میں کتنی ہم‬
‫آہنگی ہے۔‬

‫رفاعی احمد طہٰ ن ے بھ ی اس پیش رفت بار ے تبصر ہ کیا۔اس نے‬


‫اسے مسترد کردیاتھاجب پہلے پہل شیخ نےمسلح جدوجہد کو روک‬
‫دین ے کا اعلن کیاتھ ا ۔اس ن ے اخبار ”الشرق الوسط“کو بتایا کہ‬
‫اسلمی گروپ کے روحانی پیشوا عمر عبدالرحمن جو کہ امریکی‬
‫جیل میں زیر حراست ہیں ‪،‬ان کےہ بارےہ میں بات کرنےہ اور‬
‫دھمکیاں دینےہ کی پالیسی ختم ہوچکی ہے‪،‬ہم امریکہہ سےہ اس‬
‫زبان میں بات کریں گےہ جو زبان ہ و بخوبی سمجھتا ہے‪،‬ہ م ان‬
‫زنجیروں کو توڑ کر انہیں رہ ا کروالیں گ ے ۔میرا یقین ہے ک ہ ایسا‬
‫وقت جلد آرہا ہے۔‬
‫ان سےہ پوچھاگیا کہہ اگر اسلمی گروپ نےہ ماضی کی غلطیاں‬
‫دہرائیں تو اس پر طہٰ نےہ کہا تمہارا سوال اگر میں صحیح‬
‫سمجھاہوں تو یہہ ہےہ کہہ اسلمی گروپ نےہ اپنا طریقہہ کار تبدیل‬
‫کرلیا ہے اور اپنی ماضی کی غلطیاں دہرا رہ ا ہے تومیرا جواب یہ‬
‫ہےہ کہہ ”اسلمی گروپ اس بات پر یقین رکھتا ہےہ کہہ اس سے‬
‫ماضی میں کوئی غلطیاں نہیں ہوئیں ‪،‬ی ہ ان کی طرف س ے جہاد‬
‫کا اعلن ہویا کچھ اور اسلمی گروپ نے کوئی غلطی نہیں کی ۔‬

‫مستنصر الزیات نےہ فوری طور پر ایک پریس کانفرنس بلئی‬


‫جس میں اس نےہ احمد طہٰ کی باتوں کاجواب دیا ۔مستنصر‬
‫الزیات ن ے کہا”اسلمی گروپ ک ے رہنما طہٰ کا بہ ت احترام کرتے‬
‫ہیں اور گروپ کےہ مختلف امور اور ذمہہ داریوں کی انجام دہی‬
‫میں ان ک ے کردار کو سراہت ے ہیں لیکن فی الوقت اس ن ے جن‬
‫خیالت کا اظہار کیاہےہ ‪،‬یہہ اس کےہ اپنےہ ذاتی خیالت ہیں ۔انہیں‬
‫پورے اسلمی گروپ کے خیالت پر منطبق نہیں کیاجاسکتا ۔‬

‫‪74‬‬
‫الزیات نےہ یہہ بات نوٹ کی کہہ گروپ کےہ اہ م فیصلےہ مصر کی‬
‫جیلوں میں موجود اس ک ے رہنماکرت ے ہیں اور ان فیصلوں میں‬
‫ملک گروپ کی شوری ٰ کونسل کو بھ ی شریک کیاجاتا ہے جس‬
‫کی صدارت مصطفی حمز ہ کرت ے ہیں ۔اس ن ے محسوس کیا کہ‬
‫اس طرح کا طریقہ کار اختیار کیاجاتا ہے ک ہ تمام اہم فیصل ے باہم‬
‫پیغام رسانی کے ذریعے اتفاق رائے سے کئے جاتے ہیں ۔‬

‫کرم زہدی نےہ بھی اس پیش رفت پر تبصرہہ کیا ۔ایک پریس‬
‫کانفرنس میں مستنصر الزیات نےہ یہہ کہتےہ ہوئےہ کرم زہدی کا‬
‫حوالہہ دیا”اگر جنگ اورمسلح مزاحمت بھ ی اسلمی گروپ کو‬
‫اس کےہ مقاصد کےہ حصول میں مددگار ثابت نہیں ہوتی توپھر‬
‫آپریشن کےہ دیگر طریقےہ استعمال کرکےہ دیکھےہ ‪....‬۔اگر یہہ بیان‬
‫واقعی کرم زہدی کی طرف س ے آیاتھ ا تو اس کا ی ہ مطلب تھاکہ‬
‫اسلمی گروپ جنگ کو آپریشن کےہ ایک طریقےہ کےہ طور‬
‫پرمسترد کررہی ہے اور مسلح آپریشن کے بارے مصر کے اندر اور‬
‫باہ ر اپنی وکالت کو خود ہ ی مسترد کررہ ی ہے ۔ی ہ کس چیز کے‬
‫تبادلےہ میں کیاگیا ۔اس کا متبادل کیا ہے؟کیا یہہ اسلمی گروپ‬
‫کاجہاد کے متبادل یا جہاد کی ترغیب کا کوئی طریقہ ہے ۔‬

‫مستنصر الزیات بھ ی اسلمی گروپ کےہ نام پر بیان بازی کرتا‬


‫رہا۔جب ہم اس شخص کے بارے میں بات کریں توہمیںمتعددباتوں‬
‫کو اس دوران ذہن میں رکھناہوگا۔‬

‫مستنصر الزیات ایسا شخص ہےہ جومصری‬ ‫(الف)‪:‬‬


‫حکومت ‪،‬یہودی لبی اور امریکہہ کےہ خلف مسلح جدوجہد کے‬
‫نظری ے کی نفی کرتا رہا۔عبدالحلیم موسی ٰ ک ے وزارت داخل ہ کے‬
‫عرصےہ میں مستنصر الزیات نےہ اس مسئلےہ بارےہ میں ہرقسم‬
‫کی پیغام رسائی اور ابلغ میں حصہ لیا۔‬

‫کوئی بھی غیر جانبدار مستنصرالزیات کے ہ اس‬ ‫(ب)‬


‫خصوصی عہدےہ اور اختیار کو نوٹ کرسکتا ہےہ جو بڑےہ بڑے‬
‫وزیروں کو نصیب نہیں ہوا ‪،‬وہہ جس دن چاہتا ملک بھر میں‬
‫موجود تمام تر سیکورٹی انتظامات کو عبور کرتےہ ہوئےہ ہوئے‬
‫کہیں بھی کسی جیل میں پہنچ سکتا تھا۔وہہ جیل میں جاکر‬
‫خطرناک ملزموں اور حکومت کےہ سخت مخالفین کےہ ساتھ‬
‫مذکرات کرنا تھا۔اس دوران و ہ انہیں باہ ر کی دنیا س ے آن ے والے‬
‫پیغامات دیتا اور ان سے باہر کی دنیاکے لئے پیغامات وصول کرتا‬

‫‪75‬‬
‫تھا‪،‬پھر وہ ان پیغامات کو وسیع ترمقاصد کے حصول اور پراپیگنڈہ‬
‫کےہ لئےہ اخبارات کو جاری کرنےہ کےہ لئےہ پریس کانفرنسوں کا‬
‫انعقاد کرتا ۔اس کا اعلن تھاکہ کہ وہ جیل میں بند اسلمک گروپ‬
‫کےہ رہنماؤں کا ایجنٹ ہےہ ۔وہہ اپنی اسی حیثیت میں ریڈیو اور‬
‫مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کو انٹرویو دیتا۔‬

‫درحقیقت مستنصرالزیات جیل میں بند رہنماؤں اور بیرونی دنیا‬


‫میں موجود اسلمی گروپ کےہ رہنماؤں ک ے درمیان رابطہہ تھ ا ۔‬
‫جیل سےہ جو بھ ی بیان آتےہ یا جیل میں بند لیڈروں کو جو کچھ‬
‫بھ ی بتاناہوتا ‪،‬اس کا انحصار مستنصر الزیات پر تھ ا ۔و ہ جو کچھ‬
‫بتاتا‪،‬اس ے ماننا ہ ی پڑتاکیونک ہ اس ک ے علو ہ کوئی اور ذریع ہ نہیں‬
‫تھ ا ۔مستنصر الزیات کی تمام حرکات وسکنات اور کوششوں‬
‫کو جیل میں بند رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی اور اسی پشت‬
‫پناہی کی وجہہ سےہ وہہ ان کی اتھارٹی بھی استعمال کرتا‬
‫تھا۔اتھارٹی ک ے استعمال ک ے بہ ت س ے مظاہر ے متعدد موقعوں پر‬
‫دیکھنے میں آئے ۔‬

‫‪5‬جنوری ‪1998‬ءکو الزیات نےہ اعلن کیا کہہ وہہ اپنی اس سیاسی‬
‫مصروفیات س ے مکمل ریٹائرمنٹ ل ے رہ ا ہے۔اب و ہ جیل میں بند‬
‫مذہبی رہنماؤں کی مزید ترجمانی نہیں کرےہ گا۔اس نےہ اس‬
‫ریٹائرمنٹ کی وجوہات یہہ بیان کیں کہہ ملک سےہ باہر اسلمی‬
‫گروپ کےہ رہنما ہ ر وقت اسےہ نیچا دکھانےہ کی کوششوں میں‬
‫لگ ے رہت ے ہیں اور انہوں ن ے تشدد روکن ے کے اس فارمولے کا بھی‬
‫کوئی مثبت جواب نہیں دیا ۔اس موقع پر اس نے ایک بیان جاری‬
‫کیا ک ہ ابھ ی تک میر ے ملک میں تشدد کی حکمرانی اورابھ ی تک‬
‫سیاسی موسم بھی پیچیدہہ ہے۔میںنےہ دوسرےہ لوگوں کےہ باہم‬
‫اشتراک سےہ تشدد کےہ خاتمےہ اورامن کےہ فروغ کےہ لئےہ ایک‬
‫کوشش کی تھ ی تاکہہ خون خرابےہ سےہ بچا جاسکےہ ‪،‬میں کبھی‬
‫کرائ ے کاوکیل نہیں رہ ا ‪،‬جس ن ے رقم ل ے کر وکالت کی ہ و لیکن‬
‫میں نے اس ے ایک پیغام کے طور پر سر انجام دیا ۔میں اس بارے‬
‫میں بہ ت سےہ لوگوں سےہ بحث ومباحثہہ کرتا رہ ا ہوں اور خاص‬
‫طور پر میری گفتگولیمان طرہ جیل میں سزائے موت کے منتظر‬
‫قیدیوں سےہ ہوتی رہتی ہے۔یہہ قیدی صدر سادات کےہ قتل کے‬
‫مقدمے میںملوث تھے ۔‬
‫صدر سادات کےہ قتل میںملوث قیدیوں سےہ میری امن کے‬
‫موضوعات پر بڑی طویل نشستیں ہوئیں لیکن ی ہ تمام نشستیں‬
‫بموں کےہ دھوئیں اور گولیوں کی آوازوں میں دب کر رہ‬

‫‪76‬‬
‫گئیں‪،‬جس مقصد کےہ ساتھہ میں نےہ اپنےہ کام کا آغاز کیا تھا‬
‫اورجس مقصد کےہ حصول کےہ لئےہ میں نےہ اپنی زندگی کا ایک‬
‫حصہ وقف کئے رکھاوہ ابھی تک لوگوں پرواضح نہیں ہوسکاحالنکہ‬
‫میں نےہ اس دوران بہت زیادہہ دباؤ برداشت کیا اور میں اس‬
‫دوران کانٹوں پر چلتا رہا۔‬

‫میں نےہ ‪20‬سال تک بارودی سرنگوں ک ے اوپر سفر جاری رکھ ا ۔‬


‫اس دوران میں حکومت اورمذہبی رہنماؤں کےہ مابین فٹ بال‬
‫بنارہا اوربری طرح پھنسا رہا ۔اپنے مقاصد خود مجھ پر بڑے واضح‬
‫تھے ۔میں جب ‪1984‬ءمیں جیل س ے رہ ا کیاگیا تو تب س ے ل ے کر‬
‫اب تک میراکام میری تقاریر سب کچھ مجھ پر واضح ہے۔‬

‫مستنصر اپنے بیان میں مزید کہتا ہے ”میں ملک سے باہر اسلمی‬
‫گروپ ک ے رہنماؤں کی نادانی کی وج ہ س ے سخت مصیبت میں‬
‫پھنسا رہا ۔ان رہنماؤں میں جراءت کا فقدان ہےہ کہہ وہہ مسلح‬
‫جدوجہ د ک ے بار ے میں کوئی متفق ہ قرارداد پاس کرن ے کی اہلیت‬
‫نہیں رکھت ے اورن ہ ہ ی ان میں یہ قابلیت ہے ک ہ و ہ ایکشن ک ے کوئی‬
‫نئے طریقے ڈھونڈسکیں۔ہر نظریے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے نئے‬
‫طریق ے اختیار کرن ے پڑت ے ہیں ۔ہ ر نظری ے کی اپنی حکمت عملی‬
‫ہوتی ہے ۔ان تمام رکاوٹوں کے باوجود تشدد کسی بھی مسئلے کا‬
‫حل نہیں ہے کیونکہ اس میں ہمیشہ معصوم افراد کی جانیں تلف‬
‫ہوتی ہیں جیسا کہ القصرکے واقعہ میں ہوا۔‬
‫مستنصرالزیات ک ے بیان کا اگر بغور جائز ہ لیاجائ ے توی ہ بات کھل‬
‫کرسامنے آتی ہے کہ وہ جہادی تحریک سے ذہنی اور نظریاتی طور‬
‫پر وابستہہ نہیں ہےہ اورنہہ ہ ی وہہ جہادیوں کےہ اس نقطہہ نظر سے‬
‫اتفاق کرتاہے کہ مسائل کا حل جہاد کے طریقے میں مضمر ہے ۔وہ‬
‫جہاد کو بطور طریقہ استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہے و ہ بیان‬
‫کرتا ہے ک ہ اس ن ے تشدد کو ختم کرن ے کی کوشش کی ۔اس کا‬
‫بیان ظاہرکرتا ہے ک ہ و ہ جہاد کو تشدد سمجھتا ہے ۔و ہ کہتا ہے کہ‬
‫اس نےہ امن بحال کرنےہ کی کوششیں کیں لیکن یہہ کوششیں‬
‫بارود کے دھوئیں کی نذر ہوگئیں۔‬

‫‪77‬‬
‫باب نمبر ‪8‬‬
‫مسلم برادرز (ایم بی)نامی تنظیم بطور ایک تنظیم کےہ پھل‬
‫پھول رہی ہےہ لیکن جہاں تک اس کےہ نظریات کا تعلق ہےہ ‪،‬یہ‬
‫نظریاتی طور پر اور سیاسی لحاظ سےہ خودکشی کی جانب‬
‫گامزن ہےہ ۔ایم بی کی تاریخ غلطیوں اور ناکامیوں سےہ بھری‬
‫پڑی ہے۔اس پر میں نےہ ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان‬
‫تھا”مسلم برادرز کےہ ‪60‬سال“۔اس پر مجھےہ مسلم برادرز کے‬
‫حلقوں میں شدیدتنقید کا نشانہہ بنایاگیااور یہہ بھ ی کہاگیا کہہ اس‬
‫کتاب میں ایم بی ک ے بانی افراد کی تذلیل کی گئی ہے اور ایم‬

‫‪78‬‬
‫بی کےہ رہنما شیخ حسن البناءکی بھی بےہ عزتی کی گئی‬
‫ہے۔میری و ہ کتاب دراصل ایک انسان ک ے اندازوں او رقیاس پر‬
‫مشتمل ہے جو کہ غلط بھی ہوسکتے ہیں۔‬

‫اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایم بی جدید عہد کی سب سے‬


‫بڑی اسلمی تحریک ہے ۔ی ہ عرب دنیا میں قائم ہون ے والی پہلی‬
‫تحریک ہے ۔ایم بی نے زبردست مشکلت اور رکاوٹوں کے باوجود‬
‫پھیلؤ اور وسعت کا عمل جاری رکھا۔اس ک ے باوجود ک ہ ایم بی‬
‫کی راہہ میں حالت وواقعات نےہ روڑےہ اٹکائےہ ‪،‬اس کا راستہ‬
‫روکاگیا لیکن ان تمام ترمصائب وآلم کےہ باوجود اس میں‬
‫وسعت کا عمل جاری رہ ا لیکن اب ایم بی مسلم دنیا اور مصر‬
‫میں جس مقام تک پہنچ گئی ہے اب اسے ذرا رک کر اپناجائزہ لینا‬
‫ہوگاک ہ اس ک ے قیام س ے اب تک اس ن ے کیاکھویااورکیا پایا؟قیام‬
‫سے اب تک پورے عمل کے ایک جائزے کی ضرورت ہے ۔میں قبل‬
‫ازیں بھی یہ بات کہہ چکا ہوں اور اب پھر میں کہتا ہوں کہ تنظیمی‬
‫طور پر اس میں روز بروز وسعت آتی جارہ ی ہے لیکن نظریاتی‬
‫طور پر اور سیاسی لحاظ سےہ اگر دیکھاجائےہ تو یہہ خودکشی‬
‫کررہی ہے ۔‬
‫ایم بی کی سیاسی خوکشی اورنظریاتی موت کی جانب بڑھنے‬
‫ک ے عمل کا آغاز اس وقت ہ و اجب ایم بی نےہ ‪1987‬ءمیں صدر‬
‫مملکت حسنی مبارک ک ے سات ھ وفاداری کا عہدکیا ۔ی ہ سال ایم‬
‫بی کی سیاسی خودکشی کے نقطہ آغازکا سال تھ ا ۔گویا ایم بی‬
‫نےہ حسنی مبارک سےہ وفاداری کا عہد کرکےہ اپنا سارا شاندار‬
‫ماضی جدوجہد اور قربانیوں سےہ عبار ت ماضی بھلدیا۔اس‬
‫ماضی میں شہداءکا خون تھا‪،‬قیدیوں ک ے گھاؤ تھے جو انہوں نے‬
‫اپنے نظریات کے لئے اپنے جسم پر سہے ۔حکومتی تشدد سے تنگ‬
‫آکر کسی علق ے میں محصور ہون ے والوں ک ے درد تھے لیکن ایم‬
‫بی نےہ سب کچھہ بھلدیا ‪،‬نہہ صرف یہہ بلکہہ ایم بی اپنےہ عقیدے‬
‫اوراپنے اصولی موقف سے بھی پھر گئی ۔ایم بی اپنی تاریخ سے‬
‫روگردانی کررہ ی ہے۔ایم بی ایک ایسی نسل پیداکررہ ی ہےہ جو‬
‫صرف عالمی صورتحال ک ے بار ے میں سوچ ے گی اور ی ہ سلسلہ‬
‫مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔یہ تھی ایک اہم وجہ جس کے لئے‬
‫کتاب ”ایم بی کے ‪60‬سال“ تحریر کی گئی۔‬

‫کتاب کو شائع ہونا تھا کہہ ایک طوفان امڈآیا ۔مجھہ پر تنقیدکے‬
‫نشتر چلئے ۔طعن زنی کے طومار باندھے گئے ۔میرے کچھ بھائیوں‬
‫نےہ مجھےہ کہ ا کہہ چند باتیں کہ ا کہہ چند باتیں ایسی تھیں جواس‬

‫‪79‬‬
‫کتاب میں نہیں جانی چاہئیں تھیں ۔کچ ھ نے اس کتاب کو سراہا ‪،‬‬
‫انہیں میرے ساتھ اور ایم بی کے ساتھ اپنے ذاتی اور تنظیمی تعلق‬
‫پر فخر ہے ۔کچھ کا خیال ہے کہ یہ کتاب لکھنا ایک غیرمنصفانہ کام‬
‫ہے کیونک ہ اس میں ایم بی کی صرف غلطیاں درج کی گئی ہیں‬
‫جبکہ اچھی باتیں تحریر نہیں کی گئیں حالنکہ ایم بی کی فہرست‬
‫میں متعدد کارنامے اور اچھے کام بھی ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ‬
‫میں ن ے شیخ حسن البناءکی توہین کی ہے۔ی ہ بات نامناسب ہے ‪،‬‬
‫کسی کو ی ہ زیب نہیں دیتا ک ہ و ہ کسی پر اس نوع ک ے نامناسب‬
‫الزامات عائد کرے ۔کون اسلمی تحریک سے وابستہ رہا اور کون‬
‫شیخ البناءکی خوبیوں سے زیادہ واقف ہے ؟میں نے ان پر اپنادرج‬
‫ذیل رد عمل ظاہر کیا۔‬
‫یہہ کتاب ایک انسان نےہ اپنی فہم کےہ مطابق‬ ‫(الف)‬
‫تحریر کی ہےہہ ۔اسےہہ انسانی غلطیوں سےہہ پاک نہیں‬
‫کہاجاسکتاکیونکہ انسانی اندازوں میں غلطی کی گنجائش موجود‬
‫ہوتی ہے اورغلطیاں انسان کی اپنی کوتاہی بھی ہوسکتی ہے۔‬

‫آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں گے ک ہ ایم بی نے شدید‬ ‫(ب)‬


‫غلطیاں کی ہیں اور یہہ غلطیاں جرائم کےہ مترادف ہیں اور ان‬
‫جرائم کی سزاملنی چاہیے ۔انہوں نے بہت سے اچھے کام بھی کئے‬
‫ہیں اور یہ اچھے کام ان کو اولیاءکے مرتبے پر فائز کرتے ہیں ۔میں‬
‫اس امر کا منتظررہاکہ ایم بی اپنی غلطیوں کی اصلح کر ے اور‬
‫یہہ نشان دہ ی میں نےہ نوجوان نسل کی توجہہ اس جانب مبذول‬
‫کران ے ک ے لئ ے کی کیونک ہ میں ن ے ان کی جانب س ے ہمیش ہ تنقید‬
‫ہ ی وصول کی جو وہہ اپن ے ذاتی جلسوں میں مج ھ پر کرت ے رہے‬
‫ہیں۔‬

‫میری کتاب ایم بی کاکوئی حتمی جائز ہ نہیں ہے۔اس‬ ‫(ج)‬


‫لئےہ اس میں ان کےہ اچھےہ کاموں پر نہیں لکھاگیا۔یہہ اس لئےہ کہ‬
‫کتاب کاعنوان کوئی اس طرح کا نہیں تھا کہہ ”مسلم برادرز‬
‫توازن میں “میری کتاب ایک انتباہہ ہےہ ۔یہہ انتباہہ خاص طور‬
‫پرنوجوان مسلمانوں کے لئے ہے ۔‬

‫میں ن ے ایم بی کو ایک مثال کےہ طور پر پیش کیا ہےہ ۔میں نے‬
‫کتاب میں لکھ ا ہے ک ہ میں ایک سرجن کی طرح ہوں ۔جوک ہ ایک‬
‫ایس ے مریض کا علج کررہ ا ہے جو معد ے ک ے کینسر میں مبتلہے‬
‫اور ی ہ کینسر اس ے ہلک بھ ی کرسکتا ہے ۔کسی ڈاکٹر ک ے لئ ے یہ‬
‫مناسب نہیں ہوتا ک ہ و ہ اس مریض کو بتائ ے ک ہ آپ کا دماغ بہت‬

‫‪80‬‬
‫اچھاکام کررہ ا ہے ‪،‬آپ ک ے دل کاکام بہ ت اچھ ا ہے یا ی ہ ک ہ آپ کے‬
‫گرد ے درست کام کررہے ہیں اور سب اعضاءدرست ہیں ‪،‬سوائے‬
‫معد ے ک ے جس میں ک ہ کینسر ہے۔ڈاکٹر کا فرض ہے ک ہ و ہ مریض‬
‫کو بتائے کہ و ہ اس موذی مرض سے ہلک ہوسکتا ہے ‪،‬اسے فوری‬
‫طور پر اس کا علج کرواناچاہیےہ بصورت دیگر و ہ موت ک ے منہ‬
‫میں چلجائے گا اور اگر اس نے اپنے کینسر کا علج نہ کروایا تو وہ‬
‫تما م اعضاءک ے درست کا کرنے کے باوجود موت کی گھاٹی میں‬
‫اترجائے گا۔‬

‫میں اس امر کی تردید نہیں کرتا کہہ کتاب میں کچھ‬ ‫(د)‬
‫ایسی باتیں ہیں جو یا توحذف کردینی چاہئیں یا ان میں ترمیم‬
‫کرنی چاہیے جیسا کہ یہ بیان ”یہودی ‪1948‬ءسے فلسطین میں ہیں‬
‫لیکن ایم بی ن ے انہیں ‪44‬سال تک کبھ ی تنگ نہیں کیا۔اس لئ ے کہ‬
‫حکومت ن ے انہیں کبھ ی ایسا کرن ے کی اجازت ہ ی نہیں دی ۔میں‬
‫اس بات کی تصدیق کرتا ہوں ک ہ ایم بی یہودیوں س ے لڑتی رہی‬
‫اور یہہ کہہ ان کےہ نوجوان ابھ ی تک یہودیوں کےہ خلف جنگ میں‬
‫مصروف ہیں۔میں اس بات کی بھی تردیدنہیں کرتا کہ کتاب میں‬
‫کچھہ غیر ضروری ضرب المثال بھی ہیں تاہم اگر ان ضرب‬
‫المثال کو کتاب سے حذف بھی کردیاجائے توکتاب کے موضاعاتی‬
‫تاثر پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔میں اس کتاب کو دو مرتب ہ پڑ ھ چکا‬
‫ہوں اور اس نتیجےہ پر پہنچا ہوں کہہ اس کانظرثانی کا دوسرا‬
‫ایڈیشن آنا چاہی ے ۔میں نہیں جانتا ک ہ الل ہ تعالی ٰ اس سلسل ے میں‬
‫میری مدد بھ ی فرمائ ے گا یا نہیں ک ہ میں اس کام کو پای ہ تکمیل‬
‫تک پہنچا بھی سکوں گاکہ نہیں ۔‬

‫جہاں تک شیخ حسن البناءپر میری تنقید کا تعلق ہے تویہ بات میں‬
‫نےہ دووجوہات کو مدنظر رکھتےہ ہوئےہ کی ۔پہلی بات یہہ کہہ شیخ‬
‫حسن البناءایک تاریخی عوامی شخصیت ہیں۔ان کا ایم بی کے‬
‫حوالے سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔میں شیخ حسن البناءکو تنقید سے‬
‫پاک کوئی مقدس ہستی یا ولی اللہہ نہیں سمجھتاجیسا کہہ دیگر‬
‫مسلمان انہیں سمجھتےہ ہیں اورنہہ ہ ی میں انہیں کوئی مغالطے‬
‫میں ڈالنےہ والی یا کوئی جعلی شخصیت سمجھتا ہوں جیسا کہ‬
‫سیکولر اور کمیونسٹ ان کے بارے میں گمان کرتے ہیں ۔میں نے‬
‫ان کی شخصیت اور کام کا اپنی قابلیت اور ذہنی صلحیت سے‬
‫مطالعہ کرنے اور جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔ان کے بارے میں‬
‫اور ایم بی کےہ بار ے میں تجزی ہ کرتےہ وقت میں نےہ اپنی بہترین‬
‫صلحتیوں کا اظہار کیا ہےہ ‪،‬اس سےہ زیادہہ صلحتیوں کا مظاہرہ‬

‫‪81‬‬
‫شاید میں نہیں کرسکتاتھا۔اس ضمن میں قابل افسوس بات یہ‬
‫ہے کہ ایم بی ے کسی رہنما نے میرے اٹھائے جانے والے سوالت کے‬
‫جواب دینے کی کوشش نہیں کی ۔‬

‫دوسری اہم بات یہ ہے کہ حسن البناء کے بعد آنے والوں نے اسی‬


‫کے نقش قدم کو اپنایا‪،‬ان کاخیال تھا کہ کیونکہ حسن البناء نے یہ‬
‫کیا تھ ا اور و ہ ہمار ے پیش رو تھے اس لئ ے ہ م صحیح کام کررہے‬
‫ہیں ۔یہہ ضروری تھا کہہ حسن البنائ ‪a‬نےہ جو کہا اور جو کیااس‬
‫کومثال بناکر اس کا جائزہ لیا جاتا۔‬

‫تاہ م اس کتاب کی اشاعت ک ے بعد ایم بی ن ے متعدد‬ ‫(ذ)‬


‫افسوس ناک نظریاتی غلطیاں کیں انہوں ن ے بیانات جاری کئ ے ۔‬
‫اس میں یہہ بیان بھی جاری کیا جس کا عنوان تھا ”ایم بی‬
‫کاعوام کیلئے بیان“انہوں نے ایک نئی فقہ کے بارے میں بیان بازی‬
‫شروع کردی ۔ہمارے بھائی احمد عبدالسلم شاہین نے اپنی کتاب‬
‫”فتح الرحمن فی الرع ہ البیان الخوان“میں ان بیانات پر اپنا رد‬
‫عمل ظاہر کیا۔‬

‫ایک سابق ہ بیان میں ایم بی ن ے کہ ا ک ہ ایم بی اس بات پر یقین‬


‫رکھتی ہے ک ہ عیسائیوں کو اس ریاست میں کسی بھ ی عہد ے پر‬
‫فائز ہونےہ کا حق حاصل ہےہ ‪،‬سوائےہ ریاست کےہ صدرکےہ عہدے‬
‫ک ے ‪،‬کیوں؟دوسر ے لفظوں میں ایم بی کو اس بات پر اعتراض‬
‫نہیں کہہ ملک کاوزیر اعظم بھی عیسائی ہو ۔پھر یہودی وزیر‬
‫اعظم کے بارے میں کیاخیال ہے؟ان کا دعویٰ ہے کہ یہ معاملہ ایک‬
‫سیاسی پروپیگنڈہ ہے‪،‬کوئی حتمی اصول نہیں۔‬

‫ایم بی نے عام طور پراپنے لئے ایک خاموش کردار کا‬ ‫(ر)‬
‫انتخاب کرلیا ہے یعنی ایم بی ن ے الل ہ ک ے راست ے میں جہاد کرنے‬
‫س ے ہات ھ کھینچ لیا ہے حالنک ہ جہاد اسلم ک ے عظیم ترین فرائض‬
‫میں س ے ایک ہے۔یہ انہوں نے اس وقت کیا جبکہ پوری قوم آفتوں‬
‫میں گھری ہوئی ہےہ اور امریکہہ اور یہودیوں کا ہماری زمین پر‬
‫قبضہ ہے ۔‬

‫ایم بی کےہ نوجوانوں کو اپنےہ معاشروں میں ایک‬ ‫(س)‬


‫درست نشاة الثانی ہ کا انقلب برپا کرنا ہوگا اورانہیں مجاہدین کی‬
‫صف میں کھڑاہوناہوگا۔‬

‫‪82‬‬
‫ایم بی کےہ نوجوانوں کو یقینی طور پریہہ محسوس‬ ‫(ش)‬
‫کرنا ہوگاک ہ نئ ے صلیبی حمل ہ آور اس وقت تک ان س ے خوش نہ‬
‫ہوں گےہ جب تک وہہ کافروں کا عقیدہہ نہہ اپنالیں۔اسلم کے‬
‫نوجوانوں ک ے لئ ے ی ہ بہتر ہوگاک ہ نیو ورل ڈ آرڈ ر ک ے تحت ذلت آمیز‬
‫زندگی گزارنےہ کی بجائےہ ہتھیار اٹھالیں اور فخر کےہ جذبےہ سے‬
‫شرشار ہوکر اپنے دین کا دفاع کریں ۔‬

‫جہادی قوتیں ایک جگہہ جمع ہورہی ہیں اور مغربی‬ ‫(ص)‬
‫کفار اور ان کے ایجنٹوں ک ے خلف جنگ کے لئے ایک نئی حقیقت‬
‫کا نمونہ پیش کررہی ہیں ۔صدر سادات کے قتل کیس میں ملوث‬
‫‪302‬ملزموں میں س ے ‪194‬ملزموں کی رہائی اسلم پسندوں سے‬
‫زیادہ سیکورٹی سروسز کے لئے حیران کر دینے والی بات ہے ۔ایم‬
‫بی نے صدر سادات کو یہ یقین دلکر بنیاد پرستی کی تحریک سے‬
‫حکومت کو کوئی خطرہہ نہیں ہے۔حکومت وقت کو دھوکہہ دیا ۔‬
‫مصر کی گلیوں اور بازاروں میں ہون ے وال ے واقعات اس بات کا‬
‫ثبوت ہیں کہ بنیاد پرستی کی تحریکیں تبدیلی کو متعارف کروانے‬
‫کے اہل ہیں۔‬

‫الجماعت السلمیہہ کےہ روحانی پیشوا عمر عبدالرحمن آج کل‬


‫امریکہہ میں قید کی سزا بھگت رہےہ ہیں ۔ان پر الزام ہےہ کہہ وہ‬
‫‪1993‬ءمیں نیویارک میں ہونےہ والےہ بم دھماکوں میں ملوث‬
‫ہیں۔جب انوسٹی گیشن ک ے دورانی ے کا خاتم ہ ہوا اور پراسیکیوٹر‬
‫ن ے اپنی تفتیش مکمل کرلی توملزموں کو عدالت میں ایک بڑے‬
‫مقدمے میں پیش کیاگیاجو کہ مصر کی عدالتی تاریخ کا سب سے‬
‫بڑا مقدمہہ تھا۔پراسیکیوٹر نےہ تین ‪302‬ملزموں کےہ مقدمات‬
‫عدالت میں بھیج دیئ ے جبک ہ مقدمات پر عدالتی کاروائی کا آغاز‬
‫صدر سادات ک ے قتل ک ے تقریبا ً دوسال بعد ہوا´عدالتی کاروائی‬
‫بڑی انوکھی اور حیرت انگیز تھی لیکن اس عدالتی کاروائی میں‬
‫دومقدمات بہت اہم تھےہ ۔پہل واقعہہ ڈاکٹر عمر عبدالرحمن کی‬
‫معروف گواہ ی (شہادت)تھ ی جوکہہ تین دن تک جاری رہ ی جبکہ‬
‫دوسرا واقعہ ہ شیخ صلح ابواسماعیل کی تاریخی گواہی‬
‫(شہادت )تھی۔‬

‫شیخ عبدالرحمن ن ے بعد ازاں اپنی شہادت(گواہی)پر مبنی کتاب‬


‫”ا ے ور ڈ آف ٹرتھ“ک ے نام س ے شائع کی ۔ڈاکٹر عمر عبدالرحمن‬
‫نے شریعت اور جہاد (مقدس جنگ)کے الفاظ کا تفصیلی جائزہ لیا‬
‫اور اس میںانہوں ن ے قرآن وسنت ‪،‬نبی اکرم ک ے فرمودات اور‬

‫‪83‬‬
‫قوم کےہ مذہبی اسکالروں کےہ اتفاق رائ ے کی مثالیں دیں۔انہوں‬
‫نےہ پراسیکیوٹر کےہ استغاثےہ اور الزہر کی رپورٹ جس کا‬
‫پراسیکیوٹر نےہ حوالہہ دیا تھا پر اپنا تفصیلی جواب ریکارڈ‬
‫کرایا۔اس گواہ ی ن ے ڈاکٹر عمر عبدالرحمن کی قانونی پوزیشن‬
‫کو خطرہہ میں ڈال دیا کیونکہہ اس میں جہاد کی حمایت میں‬
‫شہادت موجود تھی ۔عدالت ک ے جج ن ے انہیں انتبا ہ کیا ک ہ اس کے‬
‫الفاظ انتہائی خطرناک ہیں اور یہہ بھ ی کہ ا کہہ اس کےہ وکیل کے‬
‫الفاظ کو کوئی اور معنی پہنائے جاسکتے ہیں لیکن اس کے الفاظ‬
‫کو نہیں لیکن ڈاکٹر عمر عبدالرحمن نےہ اسلم کی کاز کی‬
‫حمایت جاری رکھن ے پر اصرار کیا اورکہ ا ک ہ و ہ اسلم ک ے عظیم‬
‫ترمقاصد پر اصرار کرت ے رہیں گ ے ‪،‬ب ے شک اس میں انہیں سزا‬
‫ہی کیوں نہ سنادی جائے ۔نہ صرف یہ بلکہ اس نے یہ کہہ کر جج کو‬
‫بھ ی مصیبت میں ڈال دیا کہہ جج بھ ی مسلمانوں پر ڈھائےہ جانے‬
‫وال ے مظالم اور ناانصافی کا ذم ہ دار ہے۔انہوں ن ے جج س ے کہ ا کہ‬
‫وہ اللہ کی پکڑ سے ڈرے اور اس کے مقدمے کا فیصلہ شریعت کو‬
‫سامنے رکھ کر کرے ۔‬

‫ڈاکٹر عمر عبدالرحمن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ حکومت کو بھول ہوا‬


‫سبق اور اللہہ کا پیغام یادلنےہ کایہہ ایک ایسا موقع ہےہ جس ے ہاتھ‬
‫س ے نہیں جان ے دینا چاہی ے ۔اس کی گواہ ی اپن ے بھائیوں ک ے دفاع‬
‫کیلئ ے ایک بہترین گواہ ی تھ ی کیونک ہ اس مقدم ے کا فیصل ہ سزائے‬
‫موت ہ ی متوقع تھ ا ۔اس موقع پری ہ ضروری بھ ی تھ ا ک ہ اس کے‬
‫ساتھیوں کی عظیم مقاصد کےہ لئےہ دی جانےہ والی قربانی کو‬
‫منطر عام پرلیا جائے۔‬

‫میں عمر عبدالرحمن کے مقدمے کے دوران جاری کئے جانے والے‬


‫بیان س ے کوئی نتیج ہ نکالنےہ سےہ قبل کچھہ دلئل پر ضرور بحث‬
‫کروں گا جو انہوں نے انتہائی کھرے لہجے میں اورصاف گوئی سے‬
‫بیان کئےہ ۔ان دلئل نےہ انہیں مشکل میں ڈال دیا کیونکہ‬
‫پراسیکیوٹر ن ے ان ک ے بیان کو ان ک ے خلف بطور شہادت پیش‬
‫کرکےہ ان کی سزائےہ موت کا مطالبہہ کیا لیکن وہہ مجاہدوں‬
‫کااسکالر اور اسکالروں کامجاہد تھا۔‬

‫شیخ عمر نےہ کہا”پراسیکیوٹر کا کہانا ہےہ کہہ جو لوگ یہہ دعویٰ‬
‫کرتے ہیں کہ طاقت(اختیار)صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے وہ لوگ‬
‫خود طاقت استعمال کرتے ہیں ۔ہاں !تمام طاقتیں صرف اللہ ہی‬
‫ک ے لئ ے ہیں ۔الل ہ ہ ی ہ ر چیز پر قادر ہے۔حضرت اسحاق ‪،‬حضرت‬

‫‪84‬‬
‫یعقوب اور حضرت ابراہیم نے بھی یہی کہاتھا اور حضرت یوسف‬
‫کابھی یہی فرمان تھااور یہ بات انہوں نے مصر کی جیل میں کی‬
‫تھ ی ۔جیل کی سختیاں اور مصائب انہیں حق بات کہنےہ سےہ نہ‬
‫روک سکے اوریہی بات تمام پیغمبر کہتے آئے ہیں اور یہی دنیا بھر‬
‫کے مسلمانوں کی آواز رہی ہے۔‬

‫عمر عبدالرحمن نےہ کہا”پراسیکیوٹر نےہ مصراور اسرائیل کے‬


‫مابین ہونےہ والےہ معاہدےہ کا دفاع کیا ہےہ ۔میں پراسیکیوٹر کی‬
‫جانب س ے آن ے وال ے نقط ہ نظر کا جواب نہیں دوں گا۔شیخ الزہر‬
‫کی جانب سے تشکیل دی جان ے والی کمیٹی کو جو بیان میں نے‬
‫دیا ہے و ہ کافی ہے لیکن میں پراسیکیوٹر ”عظیم دانشور“(طنزیہ‬
‫طور پر)کو ضرور جواب دوں گا جو یہہ شہادت دےہ رہ ا ہےہ کہہ یہ‬
‫معاہد ہ خدائی احکام کی بنیاد پر درست ہے ۔عمر عبدالرحمن نے‬
‫قرآن مجید کی مقدس آیات کے حوالے سے پراسیکیوٹر کے دلئل‬
‫کو رد کیا اور اس کے خوب لتے لئے اور کہا کہ ”میرا جرم یہ ہے کہ‬
‫میںنے ریاست پر تنقید کی ہے اور معاشرے میں موجود بدعنوانی‬
‫کو ب ے نقاب کیا ہے اور ی ہ بتایا ہے کہہ کس طرح ریاست الل ہ کے‬
‫احکامات ک ے خلف چل رہ ی ہے ۔میں ہمیش ہ الل ہ ک ے احکامات پر‬
‫اسی طرح عمل پیرا رہوں گا کیونکہہ یہ ی سچائی ہےہ اور میرے‬
‫دین کی بنیاد اسی سچائی پر ہے اور میں اسی عقیدے پر سختی‬
‫سےہ کاربند ہوں ۔میرا ضمیر اور میرادین مجھےہ ناانصافی اور‬
‫ظلم کےہ خلف لڑنےہ پر تیاررکھتا ہےہ ۔میرا ضمیر مجھےہ غلط‬
‫فہمیوں اور شکوک وشبہات کو غلط ثابت کرن ے پر آماد ہ رہتا ہے‬
‫اور اس کے لئے چاہے مجھے اپنی جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینا‬
‫پڑے ۔‬

‫میں جیل اور سزائے موت سے نہیں ڈرتا ۔میں اس بات پر قطعی‬
‫خوش نہیں ہوں گاکہ مجھے معافی مانگنے کے لئے کہاجائے یامجھے‬
‫رہاکردیاجائ ے ۔میں اس بات پر اداس نہیں ہوںگا اورن ہ ہ ی مجھے‬
‫کوئی افسوس ہوگااگر مجھے ہ پھانسی کے ہ تختے ہ پر کھینچ‬
‫دیاجائےہ ۔میں اللہہ کےہ راستےہ میں شہید ہونےہ کو پسند کرتا ہوں‬
‫اور یہ میری آرزو ہے ۔سچ کے راستے پر چلتے ہوئے اگرجان قربان‬
‫کردی جائےہ تو ایک مسلم کےہ لئ ے خوشی اور سعادت کی اس‬
‫سے بڑھ کر کوئی اور بات نہیں ہوتی ۔اگر مجھے جام شہادت پینا‬
‫پڑا تو میں کہوں گا”ا ے میر ے الل ہ ! ا ے میر ے کعب ے ک ے رب میں‬
‫جیت گیا۔اے میرے اللہ !میں کامیاب ٹھہرا میں ایک مسلم ہوں جو‬
‫اللہہ کےہ دین کےہ لئےہ زندہہ رہتا ہےہ اور اسی کےہ راستےہ میں اپنی‬

‫‪85‬‬
‫جان دیتا ہے۔جب اسلم پر ہر طرف سےہ کافروں کی یلغار‬
‫ہوتومیں خاموش نہیں رہہ سکتا۔مجھےہ کوئی چیز خاموش نہیں‬
‫کرسکتی ۔اسلم پر اس کےہ مختلف طرح کےہ دشمن حملے‬
‫کررہےہ ہوں اور میں چپکےہ چپکےہ سنتا رہوں اور برداشت کرتا‬
‫رہوں ‪،‬یہ میں کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا ۔میرے لئے اس‬
‫طرح کا طرز عمل اختیار کرناممکن ہی نہیں ہے“۔‬

‫اپنی گواہ ی ک ے اختتام پر عمر عبدالرحمن ن ے کہا”اعلی ٰ ریاستی‬


‫عدالت کے جج صاحب !میں نے اپنے دلئل مکمل کرلئے ہیں ‪،‬میں‬
‫ن ے سچ کھول کر بیان کردیا ہے ‪،‬آپ میری گواہ ی کو سنت اور‬
‫قرآن مجید کے احکامات کے مطابق پرکھیں اور فیصلہ سنانے سے‬
‫قبل میری شہادت کو خدائی احکامات اور قوانین کی کسوٹی پر‬
‫رکھ کر دیکھیں اور سن لیں جج صاحب !اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو‬
‫آپ نااہل اور ایک نافرمان ہوں گے کیونکہ قرآن کاحکم ہے کہ جس‬
‫نے جان بوجھ کر خدائی احکامات کو پس پشت ڈالوہ نافرمان ہے‬
‫۔اےہ عدالت کےہ صدر صاحب! اللہہ آپ کو اس حکومت کےہ شر‬
‫سےہ محفوظ رکھےہ ۔اللہہ آپ کو حکومت سےہ بچاسکتاہےہ لیکن‬
‫حکومت آپ کو اللہ سے نہیں بچاسکتی ۔اللہ کا حکم تمام دنیاوی‬
‫احکامات سے بالتر ہے ‪،‬اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ دیکھ رہا ہے ۔‬
‫الل ہ ک ے احکامات س ے روگردانی کرنا اطاعت نہیں نافرمانی ہے ۔‬
‫میں ان جرائم پیشہ لوگوں کے مقابلے میں آپ کو انتباہ کرتا ہوں‬
‫کہ آپ خدائی احکامات کو مدنظررکھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں“۔‬
‫جہاں تک شیخ صلح ابواسماعیل کی شہادت (گواہی)کاتعلق ہے‬
‫تویہہ ایک سنجیدہہ گواہ ی تھ ی کیونکہہ اس میں ریاست اور اسلم‬
‫کےہ بارےہ میں بہ ت سےہ سنجیدہہ سوالت کےہ مدلل جوابات دیئے‬
‫گئے تھے اور ریاست کا مذہب کے بارے میں جو رویہ ہے اس ضمن‬
‫میں بھی دلئل کےہ ساتھہ بات کی گئی تھی ۔شیخ صلح‬
‫ابواسماعیل نےہ انور سادات کو زور دےہ کر بات کی تھی کہ‬
‫مذہ ب میں کوئی سیاست نہیں ہے اور ن ہ ہ ی سیاست میں کوئی‬
‫مذہ ب ہےہ ۔شیخ صلح ابواسماعیل نےہ اپنی گواہ ی میں اسلمی‬
‫اخلقیات پر بات کی او ربتایا ک ہ اسلم میں شورائی نظام کی‬
‫کیا اہمیت ہےہ اورجب عدالت نےہ فیصلہہ سنایا تویہہ حکومت‬
‫سیکورٹی سروسز اور پراسیکیوٹر ک ے حیران کن تھا۔عدالت نے‬
‫ان ک ے لئ ے کسی سزائ ے موت کا اعلن نہیں کیا بلک ہ ی ہ تین سو‬
‫دوملزموں میں سے رہاہونے والے ‪194‬میں شامل تھے ۔‬

‫‪86‬‬
‫فیصلے کے قانونی نکات جس کی وجہ سے انہیں رہاکیاگیا یہ نکات‬
‫فیصل ے س ے زیاد ہ اہمیت رکھت ے تھے کیونک ہ ان حالت میں فیصلہ‬
‫اتنا اہ م نہ تھ ا جتن ے و ہ حالت تھے جس کی وج ہ س ے عدالت کو یہ‬
‫فیصلہ کرنا پڑا ۔اور وہ یہ کہ عدالت نے تسلیم کرلیا تھا کہ مصر کے‬
‫حکومتی معاملت کو اسلمی شریعت کے ہ مطابق نہیں‬
‫چلیاجارہا۔عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شریعت کا نفاذ ریاست‬
‫کی ذمہ داری ہے اور یہ عوام کی دلی خواہش بھی ہے ۔عدالت نے‬
‫اس فیصل ہ میں دراصل ی ہ تسلیم کیا ک ہ مصری آئین اور قوانین‬
‫اسلمی قوانین سےہ متصادم ہیں ۔عدالت نےہ یہہ مانا کہہ مصری‬
‫قوانین کی وجہ سے مصر کے عوام کی اکثریت اسلم سے بالکل‬
‫علیحد ہ ہوچکی ہے اور ان کی زندگی میں اسلم کو کوئی عمل‬
‫دخل نہیں رہا۔عدالت ن ے ی ہ بھ ی مان لیا ک ہ زیر حراست افراد پر‬
‫جسمانی تشدد کے پہاڑ توذذڑے جارہے ہیں اور اس تشدد کی وجہ‬
‫سےہ بہ ت سےہ لوگ زندگی بھ ر کےہ لئےہ معذور ہوچکےہ ہیں ۔لوگ‬
‫اپنی بصارتیں کھوبیٹھے ہیں اور اب وہ ایک عام صحت مند انسان‬
‫کی طرح معاشرےہ میں اپنا کوئی مقام نہیں بناسکتےہ چنانچہ‬
‫عدالت نےہ اپنےہ فیصلےہ میں مطالبہہ کیا کہہ اس پر تحقیقات کی‬
‫جائیں اور جو لوگ اس تشدد ک ے ذم ہ دار ہیں انہیں تحقیقات کے‬
‫ذریعے بے نقاب کیا جائے۔‬

‫‪87‬‬
‫باب نمبر ‪9‬‬
‫اسرائیل کی انتظامیہہ گذشتہہ دوصدیوں سےہ مغرب کےہ لئےہ کام‬
‫کرتی رہ ی ہے ۔ ا س خطےہ میں اسرائیل کی موجودگی دراصل‬
‫مغرب ک ے مفادات ک ے تحفظ ک ے لئ ے ہے ۔اسرائیل دراصل شام‬
‫اور مصر کو علیحدہہ کرتا ہےہ ۔یہہ دوعلقےہ صدیوں تک صلیبی‬
‫جنگوں کا ایک دیوار کا کام کرتے رہے ہیں ۔اسرائیل اسلمی دنیا‬
‫کے دل میں بیٹھ کر ان کے خلف کاروائیوں کو تیز کرنا چاہتا ہے۔‬

‫میں نے اس خطے میں اسرائیل کے قیام کے بارے میں متعددکتب‬


‫کا مطالعہہ کیا ہےہ اور اس کےہ ساتھہ ساتھہ انگریزی کی متعدد‬
‫دستاویزات بھی ملحظہ کی ہیں ۔ان میں محمد حسین ہیکل کی‬
‫کتاب” عربوں اور اسرائیل ک ے مابین خفی ہ مذاکرات“بھ ی شامل‬
‫ہے۔میں نےہ انٹرنیٹ پر موجود ان مضامین اورکالموں کا بھی‬
‫مطالع ہ کیا ہے جو وقتا ً فوقتا ً عرب اخبارات میں شائع ہوت ے رہے‬
‫ہیں ۔میں اس نتیج ے پر پہنچا ہوں ک ہ مصرمیں جہادی گروپ کے‬
‫رہنما مشرق وسطیٰہ میں ہونےہ والی روزانہہ سرگرمیوں سے‬
‫کوئی علیحدہ چیزنہیں ہے۔‬

‫محمد علی ک ے عہ د میں مصر کی سلطنت عثمانی ہ کی جدوجہد‬


‫ن ے یہودیوں اورانگریزوں کو ایک سنہری موقع دیا ک ہ و ہ اسلمی‬
‫دنیا ک ے دل میں اسرائیلی ریاست قائم کردیں یا دوسر ے الفاظ‬

‫‪88‬‬
‫میں ایک بفرزون (‪)Buffer Zone‬قائم کردیں ۔انورسادات پہل ایسا‬
‫شخص نہیں ہےہ جس نےہ اسرائیل اور عربوں کےہ مابین علیحدہ‬
‫سودےہ بازی پر دستخط کئےہ ہوں۔شہزادہہ فیصل نےہ وہ ی کیا جو‬
‫اس کے سامنے تھا ۔بعدازاں اس نے یہودیوں کے ہاتھ فلسطین کو‬
‫بیچ کر اپنی ریاست خریدنے کی کوشش کی ۔‬
‫‪1973‬ءکی جنگ میں امریکہہ نے ‪33‬روز تک اسرائیل کو اسلحہہ ‪،‬‬
‫ہتھیار اور ٹینک فراہم کئےہ ۔اس امداد کےہ پیچھےہ امریکہہ کا یہ‬
‫مقصد کارفرماتھاک ہ اسرائیل اپن ے جنگی نقصان کا ازال ہ کرسکے‬
‫اور کہیں کمزورن ہ پڑجائ ے اورنہایت عمدگی ک ے سات ھ اپنی جنگی‬
‫صلحتیوں میں اضافہ کرسکے ۔امریکہ نے ہر موقع پر اسرائیل کی‬
‫مدد کی ۔جب اسرائیل ن ے سر عام کہہ دیا ک ہ و ہ ایٹمی ہتھیاروں‬
‫کی تیاری پرکھلےہ عام معاہدےہ پر دستخط نہیں کرسکتا تو اس‬
‫وقت اسرائیل کےہ بجائےہ امریکہہ نےہ مصر پر دباؤ ڈال کہہ اس‬
‫معاہدےہ پر دستخط کردےہ ۔اس کےہ باوجود امریکہہ اسرائیل کے‬
‫ساتھ ہمداردانہ رویہ رکھتا ہے اور اسرائیل کی حرکتوںکو نظرانداز‬
‫کرتارہتا ہےہ ۔اس کا مطلب یہہ ہےہ کہہ امریکہہ نےہ جانتےہ بوجھتے‬
‫اسرائیل ک ے پاس ایٹمی ہتھیار رہنےہ دیئ ے تاک ہ وہہ عربوں کےہ لئے‬
‫ایک مستقل خطر ہ بنارہے ۔خط ے میں طاقت کا عدم توازن قائم‬
‫ہو اور عرب ہمیشہ کے لئے اسرائیل سے ڈرتے رہیں ۔یہ ایک حیرت‬
‫انگیز اور تکلیف د ہ بات ہے حالنکہ اگر اس کاموازنہ پاکستان کی‬
‫صورتحال سےہ کیا جائےہ تو پاکستان نےہ اس قسم کےہ کسی‬
‫معاہد ے پر دستخط کرن ے س ے انکار کردیا ہے اور کہا ہے ک ہ و ہ اس‬
‫وقت تک دستخط نہیں کرےہ گا جب تک اس کا دشمن ہمسایہ‬
‫ملک اس معاہدے پر دستخط نہیں کردیتا۔‬

‫مغربی ریاستوں ن ے اسرائیل ک ے قیام اور اس ے طاقتور بنان ے کے‬


‫لئےہ دوصدیوں پر محیط کوششیں کیں۔اس کےہ قیام کا ان کے‬
‫نزدیک صرف ایک ہ ی مقصد تھ ا ک ہ ی ہ تمام تر مغربی ممالک کے‬
‫مفادات کا اس خط ے ک ے اندرتحفظ کر ے گا۔جہاں تک فرانس کا‬
‫تعلق ہے تو اس ن ے تواٹھارویں صدی ک ے اختتام س ے ہ ی اسرائیل‬
‫کےہ قیام کی کوششوں کا آغاز کردیاتھا۔میں اس کی یہاں کچھ‬
‫مثالیں دیتا ہوں۔پہلی بات ی ہ ک ہ جب نپولین بونا پاٹ ن ے مصر پر‬
‫حملہ کیا تو و ہ آکو پر قبض ہ کرن ے میں ناکام ہوگیا جس ک ے نتیجے‬
‫میں اس نے یہودیوں کو اپنی معروف کال دی تھی ۔نپولین کابیان‬
‫تحریر کرک ے اسپین ‪،‬جرمن ‪،‬اٹلی ‪،‬فلسطین اور فرانس میں ہر‬
‫جگ ہ پہنچایا گیا۔اس کامطلب ہے ک ہ بونا پاٹ جو کچ ھ کررہ ا تھ ا ‪،‬‬
‫معامل ہ اس س ے زیاد ہ وسیع تھا۔بوناپاٹ ن ے اپن ے بیان میں کہ ا تھا‬

‫‪89‬‬
‫”نپولین بونا پاٹ کی طرف سےہ ۔۔۔مملکت فرانس ‪،‬افریقہہ اور‬
‫ایشیاءمیں مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے نام۔۔۔فلسطین کے‬
‫اصل وارثوں کے نام ۔۔۔اے اسرائیلیو! اے بے مثال لوگوں !دشمن‬
‫قوتوں کی افواج تمہیں تمہاری شناخت اور وجود سےہ محروم‬
‫کرنےہ میں ناکام ہوچکی ہیں ۔اگرچہہ انہوں نےہ تمہیں تمہارے‬
‫آباؤاجداد کے علق ے س ے محروم کردیا ہے ۔پیغمبر ن ے تمہار ے بارے‬
‫میں پیشن گوئی کی ہے ک ہ تم ایک روز اپنی سرزمین پر واپس‬
‫آؤگےہ ‪،‬پھرتمہیں کوئی خوف نہہ ہوگااورنہہ کوئی ڈر اورتم کسی‬
‫خوف کےہ بغیر ایک ریاست قائم کروگے۔۔۔تم اپنےہ دشمن کے‬
‫خلف حالت جنگ میں ہو“۔‬

‫‪1938‬ءمیں نپولین کی فتح ک ے بعد انگریزی فوج ک ے کمانڈ ر لرڈ‬


‫ولنگٹن نے لرڈ پالمرسٹن کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں اس‬
‫ن ے مشرق قریب کی ایک رپورٹ پیش کرت ے ہوئ ے لکھ ا ک ہ مصر‬
‫کے حکمرانوں کے تضادات کی وجہ سے اس سال مصر اور ترکی‬
‫میں ایک بحران ن ے سراٹھایا ہے۔دس سالوں میں محمد علی نے‬
‫اپنی ریاست کی ضرورت کے مطابق فوج اور جہادوں کاایک بیڑہ‬
‫تیار کیا ہےہ ۔اس نےہ ایک لکھہ افراد کو فوج میں بھرتی کیا ہے‬
‫اورانہیں اپن ے آقا ‪،‬سلطنت عثمانیہ ک ے خلیفہ ک ے سامن ے لکھڑا کیا‬
‫ہے۔ان حالت میں انگریزحکومت کی جانب سےہ ایکشن کی‬
‫ضرورت ہےہ تاکہہ مداخلت کرکےہ ”پاشا کو اس کی اوقات “یاد‬
‫دلئی جائے کہ اسے ہر حال میں سلطان کی اعانت کرنی ہے“۔‬

‫یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انگریز حکومت نے خود بخود یہ اختیار‬


‫حاصل کرلیا کہہ کمزور حکومتوں کےہ خلف جب چاہےہ کوئی‬
‫ایکشن لیاجائے۔ی ہ وہ ی قانون ہے جس پر آج امریک ہ عمل پیرا ہے‬
‫اور ایس ے ملک جوطاقتور ہیں و ہ بھ ی قانون پر عمل پیرا ہیں ۔‬
‫امریکہہ اور طاقتور ممالک کو تو یہہ حق حاصل ہےہ کہہ وہہ وسیع‬
‫پیمانےہ پر تباہ ی پھیلنےہ والےہ ہتھیار رکھہ سکیں لیکن امریکہہ اور‬
‫دیگر طاقتورملک یہ حق کسی اورکمزور ریاست کو دینے کے حق‬
‫میں نہیں ہیں ؛‬

‫سیاسی طور پر کشیدہ ہ صورتحال سے ہ یہودیوں نے ہ فائدہ‬


‫اٹھایا۔پالمر سٹون ہرگز یہہہ نہیں چاہتاتھاکہہہ بیمار آدمی‬
‫(ترکی)وراثت کی تقسیم کی تیاریوں س ے قبل ہ ی فوت ہوجائے‬
‫اور اس ک ے سات ھ سات ھ اس کی ی ہ خواہ ش بھ ی تھ ی ک ہ ی ہ بیمار‬
‫کبھ ی صحت مند بھ ی ن ہ ہو‪،‬لہٰذا ی ہ ضروری تھ ا ک ہ مصر اورترکی‬

‫‪90‬‬
‫کو علیحدہہ کرنےہ کےہ لئےہ ایک بفرزون قائم کردیاجائے۔اس‬
‫صورتحال سےہ ضروری تھاکہہ ہ ر ایک کو اس کی ”اوقات “میں‬
‫رکھاجائےہ اور کسی کو بھ ی ضرورت سےہ زیادہہ طاقتور نہہ ہونے‬
‫دیاجائے ۔‬

‫‪1840‬ءمیں یورپی طاقتوں نےہ محمد علی پر دومعاہدےہ نافذ‬


‫کردیئے جو کہ اس کی شکست کا باعث بنے ۔پہلے معاہدے کا تعلق‬
‫اس کی اپنی ذات اور ان وارثوں سے تھا جو کہ مصر پر حکومت‬
‫کررہے تھے ۔دوسرے معاہدے کانام ”شام میں صورتحال کی بہتری‬
‫سےہ اقدامات“تھا۔سطحی طور پر دوسرےہ معاہدےہ سےہ محمد‬
‫علی نے ملک شام سے دستوں کے انخلءکو محفوظ بنایالیکن اگر‬
‫گہری نظر سے دیکھاجائے تو اس معاہدے نے یہودیوں کے فلسطین‬
‫میں قیام کی راہ ہموار کی ۔‬
‫‪1849‬ءمیں روتھشیل ڈ خاندان کی سرپرستی میں لندن میں ایک‬
‫یہودی کانفرنس منعقد کی گئی ۔کانفرنس درج ذیل مطالبات‬
‫جاری کرکے اختتام پذیر ہوئی ۔‬

‫انگریزوں کی حفاظت میں دنیا میں جہاں بھی یہودی‬ ‫(‪)1‬‬


‫موجود ہیں ‪،‬یہودیوں کی عالمی تنظیم انہیں تسلیم کرنےہ کا‬
‫اعلن کرے۔‬
‫انگریزحکومت سے اپیل کی جائے کہ وہ فلسطین میں‬ ‫(‪)2‬‬
‫یہودیوں کی آباد کاری ک ے لئ ے اقدامات کر ے اور ااس طرح کے‬
‫اقدامات دنیاکے تمام خطوں میں بھی کئے جائیں۔‬

‫‪1875‬ءمیں برطانوی وزیر اعظم کے علم میں یہ بات لئی گئی کہ‬
‫مصر کا حکمران خدیو اسماعیل سویز کنال کمپنی میں سے اپنے‬
‫حصص فروخت کرناچاہتا ہے ۔یہ برطانوی وزیر اعظم ڈزرائیلی تھا‬
‫۔ڈزرائیلی برطانیہ کی تاریخ میں آخری یہودی وزیر اعظم تھا‪،‬اگر‬
‫انگریز سیاستدان اپنےہ پروٹسٹنٹ مذہبی نظریات کےہ تحت اور‬
‫سیاسی فوجی مفادات ک ے حصول ک ے لئ ے اسرائیل کی ریاست‬
‫کےہ قیام کےہ لئےہ کام کررہےہ تھےہ توایک یہودی برطانوی وزیر‬
‫اعظم محسوس کرتا تھا کہ صورتحال کو مذہب کے فرزندوں کی‬
‫بہتری ک ے لئ ے استعمال کیاجاسکتا ہے۔اس یہودی وزیر اعظم نے‬
‫اپنےہ عنفوان شابب میں ایک ناول تحریر کیاتھ ا جس میں ایک‬
‫کردار کہتا ہے”انگلینڈہ ایک عظیم ملک ہےہ اسےہ اس کےہ چند‬
‫سیاستدانوں نےہ ایک بہت بڑےہ کمرشل اکاؤنٹ کےہ دفتر میں‬
‫تبدیل کردیاہےہ ۔انگلینڈہ ایک دل اور ایک ضمیر رکھتا ہےہ تاہ م یہ‬

‫‪91‬‬
‫یہودیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے اور انگلینڈ کو اس بات کایقین‬
‫ہوتا ہے کہ خدا بھی یہودیوں کی دوبارہ زندگی کے لئے کوشاں ہے“۔‬

‫جونہ ی خدیو اسماعیل کی نہ ر سویز کمپنی ک ے حصص فروخت‬


‫کرن ے کی خواہ ش یہودی وزیر اعظم ڈزرائیلی تک پہنچی تو اسے‬
‫محسوس ہوا ک ہ برطانی ہ ک ے لئ ے سر زمین مصر میں پہنچن ے اور‬
‫بعد ازاں اسرائیل کی ریاست کےہ قیام کا یہہ ایک سنہری موقع‬
‫ہے ۔ڈزرائیلی کو انتہائی سرعت ک ے سات ھ سوچنا تھا۔ڈزرائیلی کے‬
‫لئےہ مسئلہہ ی ہ تھ ا کہہ اسماعیل تمام رقم نقد مانگ رہاتھااور اس‬
‫کی خواہ ش تھ ی ک ہ ی ہ تمام سود ے بازی خفی ہ طریق ے س ے ط ے ہو‬
‫اور جہاں تک ممکن ہوسودے بازی ک ے بعد خاصا وقت گزرنے تک‬
‫افشانہہ کیاجائے۔یہہ دوایسی شائط تھیں جن کی وجہہ سےہ وزیر‬
‫اعظم اس معاہدے کو اسمبلی میں پیش نہ کرسکتے تھے۔اس نے‬
‫اس کا ایک فوری حل نکالاور بیرون روتھشیلڈہ خاندان کاایک‬
‫ایسا فرد تلش کیاجس نے اس کے لئے چارملین سونے کے پاؤنڈز‬
‫کا انتظام کیا۔جونہ ی انگلستان ن ے سویز نہ ر کا مصر حص ہ خرید‬
‫لیا تو اس س ے خط ے میں تمام صورتحال اسرائیل ک ے حق میں‬
‫تبدیل ہوگئی ۔‬

‫نہر سویز کی اس فروخت کے ایک سال سے بھی کم عرصے کے‬


‫بعد ‪1877‬ءمیں روت ھ شیل ڈ خاندان ن ے فلسطین میں یہودیوں کی‬
‫پہلی کالونی کی آباد کاری کےہ لئےہ سرمایہہ فراہ م کرنےہ کا آغاز‬
‫کیا ۔اس کالونی کا نام ”بتاح تکفاہ“تھا۔اسی سال کےہ دوران‬
‫حکومت برطانیہہ نےہ سلطان سےہ کہا کہہ وہہ قبرص میں فوجی‬
‫دستوں کو اترنے کی اجازت دیں۔یاد رہے کہ فوجی نقطہ نگاہ سے‬
‫یہہ ضروری تھا کہہ شام کےہ ساحلی علقےہ پر کڑی نگاہہ رکھی‬
‫جائےہ ۔کریمیا کی جنگ کےہ اختتام پر انگریزوں اور ترکوں کے‬
‫مابین تعاون کا معاہدہہ ہوا۔انگریزوں نےہ سلطان سےہ اس کی‬
‫مشرقی جائیداد کےہ تحفظ کا وعدہہ کیا ۔‪1982‬میں انگریزوں نے‬
‫مصر میں اندرونی گڑ بڑ کو محسوس کیا اور مصر پر قبضے کا‬
‫فیصلہ کیا اور ”ثورہ عرابی“کو کچل کررکھ دیا ۔انگریزوں نے اس‬
‫کا جواز یہہ پیش کیا کہثورہہ عرابی دراصل سلطان کےہ خلف‬
‫بغاوت کررہ ا تھا۔پس ‪،‬سلطان کی حمایت حاصل کرنےہ کےہ بعد‬
‫کفار کے دستے اسلم کے مرکز کی جانب بڑھنے لگے۔‬

‫انگریز ک ے مصر پر قبض ے ک ے بعد یہودیوں کی ہجرت کی تحریک‬


‫میں روز بروز اضافہہ ہونےہ لگا۔یہودی بستیاں مشروم کی طرح‬

‫‪92‬‬
‫جگہ جگہ اگنے لگیں اور ان میں اس تیزی سے اضافہ ہوا کہ انگریز‬
‫کےہ مصر پر قبضےہ کےہ دس سال بعد بیس نئی آبادیاں بسائی‬
‫گئیں ۔یہ بستیاں دریائے اردن کے مشرقی اورمغربی حصوں میں‬
‫پھیلتی چلی گئیں ۔‬

‫بیسویں صدی ک ے آغاز پر پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔اس جنگ‬


‫سےہ قبل انگریز یہہ جان چکےہ تھےہ کہہ وہہ فلسطین میں کیا‬
‫کرناچاہتےہ ہیں ۔انگریزکےہ عزائم برطانوی وزیر اعظم کیمبل‬
‫باترمان کی سفارشات سے بھی عیاں ہوئے۔یہ سفارشات اس نے‬
‫جنگ سےہ قبل کی تھیں۔وزیر اعظم کیمبل باترمان نےہ صاف‬
‫صاف لکھ ا ہے ک ہ ایک ایسی ریاست کی تشکیل کی ضرورت ہے‬
‫جو یورپ کو قدیم دنیا س ے ملن ے اوربحیر ہ روم اور بحیر ہ احمر‬
‫تک جانے میں معاون ثابت ہو ۔یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو ہمیشہ‬
‫راہنمائی مہیا کرتی رہے گی ۔ہمیں اس ضرورت کو عملی جامہ‬
‫پہنان ے ک ے لئ ے عملی راست ے اختیار کرنا ہوں گ ے ۔اس واضح عزم‬
‫س ے کیا مراد ہے؟صرف اور صرف فلسطین ک ے اندر ایک یہودی‬
‫ریاست کا قیام ۔‬

‫جنگ کے دوران ‪1915‬ءمیں انگریز حکومت نے سرہربرٹ سموئیل‬


‫سےہ کہاکہہ وہہ فتح کےہ بعد فلسطین کی صورتحال کےہ بارےہ میں‬
‫ایک خیالی خاک ہ تیار کریں ۔وزارت جنگ ک ے اہ م رکن اور یہودی‬
‫زائنسٹ سرہربرٹ سموئیل نےہہ پانچ فروری ‪1915‬ءمیں‬
‫”فلسطین کا مستقبل“ک ے عنوان سے ایک یاد داشت میں تحریر‬
‫تھا کہ ”انگریزوں کے مفادات کا تحفظ اورکامیابی کو یقینی بنانے‬
‫ک ے لئ ے ی ہ ضروری ہے ک ہ انگریزوں کی سرپرستی میں فلسطین‬
‫میںایک عظیم یہودی فیڈریشن قائم کی جائےہ ۔جنگ کےہ بعد‬
‫فلسطین کو لزمی طور پر انگریزی حکومت ک ے زیر نگیں دے‬
‫دیاجائے“۔‬

‫‪1915‬ءک ے موسم بہار میں پہلی جنگ عظیم ک ے آغاز ک ے کچ ھ ہی‬


‫مہینوں کے بعد ایک ایسا شخص منظر عام پر آیاجس نے یہودیوں‬
‫کےہ لئےہ بیش بہاخدمات سر انجام دیںتھیں۔اس کانام مارکس‬
‫سایکس تھ ا جس ن ے انگریزوں کی طرف س ے معروف سایکس‬
‫بیکو پکٹ معاہد ے پر دستخط کئے۔انگریزوں کی دستاویزات سے‬
‫ایک خطرناک نظریہہ سامنےہ آتا ہےہ ۔اس نظریہہ کا سب سےہ اہم‬
‫نقطہہ یہہ ہےہ کہہ مشرق وسطیٰہ میں تمام مذاہب کےہ مقدس‬
‫مقامات انگریزوں کے کنٹرول میں رہیں گے ۔‬

‫‪93‬‬
‫انگریزوں کی دستاویزات میں تحریر ہےہ کہہ مصر میں یہودی‬
‫کمیونٹی کا سربراہہ موسیٰہ قطاوی پاشانےہ جولئی ‪1916‬ءمیں‬
‫مصر میں برطانوی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ماکسویل سے‬
‫کہا کہہ وہہ اس کو اجازت دیں کہہ جنرل اللنبی کی فوج جوکہ‬
‫فلسطین اور شام میں ترکوں ک ے خلف چڑھائی ک ے لئ ے تیار ہے‬
‫اس میں یہودی بٹالین قائم کی جائیں ۔لیکن اس بٹالین کے یہودی‬
‫افسران اور سپاہ ی اپنی ٹوپیوں ک ے سامن ے داؤد کا ستار ہ ضرور‬
‫لگائیں تاکہ یہ واضح طور پر پتہ چل سکے کہ یہ فوجی یہودی بٹالین‬
‫سےہ تعلق رکھتےہ ہیں۔یہودیوں کی حمایت اور اسلم کےہ خلف‬
‫اس نفرت انگیز ماحول میں دونومبر ‪1917‬ءکو بالفور کا معاہدہ‬
‫عمل میں لیا گیا۔‬

‫جنگ کےہ بعد اور امن کی تیاریوں کی کوششوں کےہ دوران‬


‫زائنسٹ تحریک کی یہہ کوشش رہ ی کہہ کسی نہہ کسی طور پر‬
‫فلسطین کےہ اندر یہودیوں کےہ لئےہ ایک ریاست کا قیام ممکن‬
‫ہوجائے۔فلسطین پر حملہہ کرنےہ والی برطانوی فوج کےہ کمانڈر‬
‫لرڈہ اللنبی جس نےہ ترکوں کو فلسطین سےہ باہر نکال دیا‬
‫تھا‪،‬اسے بعد ازاں مصر میں برطانوی کمشنر کے طور پر تعینات‬
‫کردیاگیا ۔‪1921‬ءلرڈاللنبی نےہ ایک مرتبہہ مشرق وسطیٰہ کے‬
‫ڈائیریکٹر آپریشنز کرنل رچرڈہ ماینر سےہ کہا کہہ برطانوی وزیر‬
‫اعظم لئیڈہ جارج کو پیش کرنےہ کےہ لئےہ ایک یادداشت تیار کی‬
‫جائےہ جس میں مصر اور فلسطین کےہ بارےہ میں سفارشات‬
‫شامل ہوں۔‬
‫ہمیں یہاں تھوڑا سا توقف کرنا ہوگا اور اگر اس صورتحال کا آج‬
‫کی صورتحال سے موازنہ کریں تویہ حقیقت اب واضح ہوچکی ہے‬
‫ک ہ اس پالیسی کااطلق آج بھ ی جاری ہے اور مصر اور اسرائیل‬
‫کےہ درمیان تعلقات بفر زون کےہ علقےہ کو غیر مسلح کرکے‬
‫ہتھیاروں پرپابندی عائد کی جارہی ہے۔‬

‫انگریزوں کی کوششیں یہودیوں کوسیاسی اورفوجی خدمات‬


‫مہیا کرنے پر ہی ختم نہیں ہوئیں بلکہ اس نے عرب حلیفوں پر ایک‬
‫مسلسل دباؤ رکھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے۔‪1917‬ءمیں ہونے‬
‫والےہ سایکس بیکو پکٹ معاہد ے اور اعلن بالفور کےہ بعد عرب‬
‫حلیفوں کو شدید صدمہہ پہنچا ۔انگریزوں نےہ قاہرہہ کےہ نگران‬
‫کمانڈر ہوگرٹ کو جدہ میں الشریف حسین سے بات چیت کے لئے‬
‫روانہ کیا تاکہ وہ اس پرتمام صورتحال واضح کرے اور ان حلیفوں‬

‫‪94‬‬
‫پر دباؤ برقرار رکھےہ کیونکہہ ان حلیفوں کےہ پاس تابعداری کے‬
‫سوا کوئی چارہہ کار نہیں تھا۔کمانڈرہوگرٹ کےہ مذاکرات کی‬
‫رپورٹ میںسے ایک اقتباس یوں ہے ۔‬

‫”سایکس بیکوپکٹ کی روشنی میں الشریف حسین نےہ کہ ا کہ‬


‫اگر اس معاہدے میں کسی ضروری شق کا اضافہ ناگزیر ہے تو وہ‬
‫اس کے لئے تیار ہے تاہم اس نے کہا کہ ہم اس سے ضروری ترمیم‬
‫کی اہمیت کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے“۔‬

‫الشریف حسین نےہ شام میں مصر کےہ مطالبات کا مسئلہ‬


‫اٹھایا۔کمانڈر ہوگرٹ نے کہا ”اب فرانس ہماری آنکھوں سے دیکھتا‬
‫ہےہ (مطلب یہہ کہہ انگریز کی آنکھوں سے)اور جہاں تک شام کا‬
‫تعلق ہےہ تو فرانس شام کی آزادی میں اس کی مدد کرنا اور‬
‫بچانا چاہتا ہے لیکن الشریف حسین اس دلیل سے قائل نہ ہوا اور‬
‫جہاں تک اعلن بالفور کا تعلق ہےہ تو اس پر کرنل ہوگرٹ نے‬
‫الشریف حسین کو جنگ کے دوران زائنسٹ تحریک کے پھیلؤ کے‬
‫بار ے میں وضاحت اورتفصیل س ے بتانا شروع کیا ۔کرنل گرہوٹ‬
‫ن ے اپنی گفتگو میں یہودیوں ک ے مفادات کی اہمیت ‪،‬یہودیوں کے‬
‫اثر ورسوخ اوران سے تعاون کرنے کے فوائد کے بارے بھی بتایا۔‬

‫الشریف حسین نےہ اعلن بالفور کےہ فارمولےہ کو ماننےہ کےہ لئے‬
‫اپنی رضامندی کا اشارہہ دیا ۔لندن میں وزارت جنگ کی اس‬
‫رپورٹ میں کرنل ہوگرٹ کہتا ہے”الشریف حسین پرجوش‬
‫طریقےہ سےہ رضامند ہوا اورکہاکہہ وہہ تما م عرب ممالک میں‬
‫یہودیوں کو خوش آمدید کہتاہے۔جہاں تک الشریف حسین کے بیٹے‬
‫شہزاد ہ فیصل کا تعلق ہے تو اس ک ے استاد اورمعروف برطانوی‬
‫انٹیلی جنس افسر لرنس نےہ اسےہ حاییم وایزمان سےہ فرسای‬
‫کانفرنس کی تیاری کےہ دوران العقبہہ میں ملقات پر رضامند‬
‫کرلیا ۔ی ہ کانفرنس جنوری ‪1919‬ءمیں ہون ے والی تھ ی ۔دونوں نے‬
‫ایک معاہد ے پر دستخط کئ ے جن میں درج ذیل قول کا اقرار کیا‬
‫گیا تھ ا کہہ ”حجاز میں عرب بادشاہ ت کی نمائندگی کرنےہ والے‬
‫شہزادہ فیصل اور زائنسٹ تحریک کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر‬
‫حاییم وایزمان دونوں محسوس کرت ے ہیں کہ عربوں اور یہودیوں‬
‫کے مابین قربت ہونی چاہیے۔‬

‫معاہدے کی پیش بینی کے طورپر ہم نے محسوس کیا کہ فیصل نے‬


‫یہ جان لیا کہ فلسطین ‪،‬ہیبریو ریاست کے مقابلے میں ایک ریاست‬

‫‪95‬‬
‫ہے حتی ٰ ک ہ اس ن ے دونوں اطراف کی سرحدوں ک ے بار ے میں یہ‬
‫بھی جان لیا ۔اس طرح انور سادات و ہ پہل شخص نہیں تھا جس‬
‫نےہ اسرائیل اور عربوں کےہ مابین ایک علیحدہہ امن معاہدے‬
‫دستخط کئےہ ہوں ۔اس معاہدےہ نےہ یہودیوں کی وسیع پیمانےہ پر‬
‫ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی ۔‬

‫میں نےہ محسوس کیا کہہ اس ضمن میں بہ ت سےہ واقعات اور‬
‫حقائق بیان کرنےہ کےہ قابل ہیں تاہ م کچھہ اہ م مثالیں پیش کرتا‬
‫ہوں۔‬
‫عربوں اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر ‪1973‬ءکی جنگ‬ ‫(‪)1‬‬
‫میں امریک ہ ن ے اپن ے طیاروں ک ے ذریع ے اسرائیل کو اسلح ہ ‪،‬بارود‬
‫اور دیگر ہتھیار فراہم کئے ‪،‬حتیٰ کہ امریکہ نے اسرائیل کو امریکی‬
‫توپ خانے کی بھی مدد فراہم کی اور یہ تمام حربی سازوسامان‬
‫برا ہ راست میدان جنگ میں اتاراگیا۔اس فضائی امداد پر تبصرہ‬
‫کرتے ہوئے مصر کے وزیر جنگ محمدعبدالغنی الجمسی کہتے ہیں‬
‫”امریک ہ کی اسرائیل کو فضائی امداد پر ‪13‬اکتوبر سےہ ‪14‬نومبر‬
‫‪1973‬ءتک تینتیس روز تک جاری رہیں ۔اس فضائی امداد ک ے لئے‬
‫امریکہہ کی فضائی قوت کا تقریبا ً چوبیس فیصد حصہہ روزانہ‬
‫استعمال کیاگیا ۔تقریبا ً بائیس ہزار چار سو ستانو ے ٹن اسلح ہ ۔‬
‫گولہہ بارود اور ہتھیار فراہم کیاگیا۔اس دوران ‪707‬اور ‪747‬نامی‬
‫طیاروں نےہ ساڑھےہ پانچ ہزار ٹن اسلحہہ فراہ م کیا۔اس کےہ علوہ‬
‫چونتیس فیصد رسد سمندر کے ذریعے پہنچائی گئی ۔اس امداد کا‬
‫مقصد اسرائیل کی جنگی طاقت میں اضافہ اور جنگی نقصان کا‬
‫ازالہہ تھا ۔فضائی رسد میں مختلف قسم کا گولہہ بارود شامل‬
‫تھا۔یہ بات قابل غور ہے کہ اسلحہ کی ترسیل کا آغاز ‪13‬اکتوبر سے‬
‫ہوا جبکہ مصر نے جنگ کاآغاز ‪14‬اکتوبر کوکیاتھاچنانچہ اسرائیل نے‬
‫حمل ے کو پسپا کرن ے کی مکمل تیاری کرلی تھی۔امدادک ے ذریعے‬
‫امریکہ نے مکمل طور پر اسرائیل کو اس قابل بنادیاتھا کہ وہ ایک‬
‫مکمل جنگ کامقابلہہ کرسکےہ اور جنگ کےہ حتمی مراحل جیت‬
‫سکے ۔اس امریکی امداد نے فوجی طاقت کا توازن اسرائیل کے‬
‫حق میں کردیا تھا۔اس طرزعمل سے ظاہ ر ہوتا ہے کہ کس طرح‬
‫امریکہ نے اس جنگ میں کھلم کھل اسرائیل کا ساتھ دیا۔‬

‫میرے اندازے کے مطابق اس امداد سے اسرائیل نہر کے محاذ کے‬


‫اوپر براہہ راست پروازوں اور جنگ میں برتری کےہ حصول کے‬
‫قابل ہوگیاتھا۔اس فضائی امداد کے بغیر اسرائیل کے لئے ممکن نہ‬
‫تھا کہ وہ جنگ کے آخری حصے میں جیت سکتا ۔اسرائیل کے قیام‬

‫‪96‬‬
‫س ے اسرائیل کوسیاسی حمایت اور اس ک ے حریفوں پر دباؤ کا‬
‫سلسلہہ جاری ہے۔مثال کےہ طور پر ‪26‬مارچ ‪1979‬ءکو جس‬
‫روزمصر اور اسرائیل ک ے مابین امن معاہد ہ ہوا اسی روز امریکہ‬
‫اور اسرائیل کے مابین ایک معاہدہ ہواکہ اگر اسرائیل اورمصر کے‬
‫مابین ہونےہ والےہ معاہدےہ کی خلف ورزی کی گئی تو امریکہ‬
‫اسرائیل کی حفاظت کا ذم ہ دار ہوگا۔ذیل میں اس معاہد ے کی‬
‫خطرناک شقیں دی جارہی ہیں ۔‬

‫اگر امریک ہ ی ہ محسوس کرتا ہے ک ہ اس معاہد ے کی خلف ورزی‬


‫کی جارہی ہےہ یایہہ کہہ اس معاہدےہ کو کوئی خطرہہ ہےہ توامریکہ‬
‫دونوں فریقوں س ے رابط ہ ک ے بعد اس مسئل ے کا حل تلش کرے‬
‫گا۔اس معاہد ے کی پابندی کروان ے ک ے لئ ے سفارتی ‪،‬معاشی اور‬
‫فوجی اقدامات جو ممکن ہوئےہ کئےہ جائیں گےہ ۔امریکہہ اس‬
‫صورت میں ضروری اقدامات کرنے کاپابند ہوگا۔جب وہ محسوس‬
‫کر ے ک ہ اس میں اسرائیل کی سلمتی کو کوئی خطر ہ ہے ۔مثال‬
‫کےہ طور پر اگر امریکہہ محسوس کرتا ہےہ کہہ عالمی سمندری‬
‫راستوں کو اسرائیل ک ے لئ ے بند کردیاگیاتوی ہ سمجھاجائ ے گا ک ہ یہ‬
‫معاہدے کی خلف ورزی ہے ۔اگر اقوام متحدہ کسی ایسی پابندی‬
‫کا اعلن کرتا ہےہ جو اس معاہدےہ کےہ خلف جارہ ی ہ و توامریکہ‬
‫ایسی قرارداد کو مسترد کردے گا۔‬

‫امریکہ نے اس معاہدے پر دستخط سے ایک روز قبل اس کی ایک‬


‫کاپی انور سادات ک ے حوال ے کی لیکن ی ہ پیشگی کاپی بھ ی انور‬
‫سادات کو دستخط کرن ے س ے باز ن ہ رک ھ سکی ۔اس ن ے حتی ٰ کہ‬
‫ایک نئی دستاویزات پر بھ ی دستخظ کردیئ ے ۔جس کا عنوان تھا‬
‫”غزہ اور مغربی کنارے کے مکمل اختیار کامعاہدہ “‬

‫اگر اس معاہدےہ کا سنجیدگی سےہ تجزیہہ کیاجائےہ تو درج ذیل‬


‫حقائق کھل کرسامنے آجاتے ہیں ‪:‬‬
‫امریکہہ نےہ اسرائیل کی سلمتی کو کسی بھ ی قسم‬ ‫(‪)1‬‬
‫ک ے خطر ے یا معاہد ے کی کسی بھ ی قسم کی خلف ورزی کی‬
‫صورت میں حملہ کرنے کے اختیار خود ہی حاصل کرلئے۔‬

‫امریکہہ نےہ اس معاہدےہ ےہ بعد اسرائیل کےہ ساتھہ جو‬ ‫(‪)2‬‬


‫معاہدہ کیا وہ یکطرفہ تھا نہ کہ دوطرفہ یعنی پہلے معاہدے کے صرف‬
‫ایک فریق کےہ ساتھہ امریکہہ نےہ معاہدہہ کیاجس کا مطلب یہہ ہے‬
‫اسرائیل کی سلمتی کو ہرحال میں محفوظ کیا جائےہ اور اگر‬

‫‪97‬‬
‫اسرائیل کسی جارحیت کا مرتکب ہو تو ۔۔۔؟یعنی ملٹری ایکشن‬
‫صرف مصر کے خلف ہوگانہ کہ اسرائیل کے خلف۔‬

‫امریکہہ نےہ اقوام متحدہہ کی طرف سےہ کسی بھی‬ ‫(‪)3‬‬


‫ایکشن یا قرارداد کو مسترد کرن ے کااختیار بھ ی خود ہ ی حاصل‬
‫کرلیا ‪،‬اس کا واضح مطلب ی ہ تھ ا ک ہ امریک ہ ک ے لئ ے اسرائیل کی‬
‫سلمتی ‪،‬اقوام متحدہہ اور اس کی قراردادوں کی نسبت زیادہ‬
‫اہم ہے ۔اس سے امریکہ کی منافقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ‬
‫کس طرح عالمی سطح پر اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو اپنے‬
‫مفادات کےہ تحفظ کےہ لئےہ استعمال کرتا ہےہ جہاں تک اسرائیل‬
‫کی سلمتی کا تعلق ہےہ امریک نےہ اس کو مدنظر رکھتےہ ہوئے‬
‫کس طرح اقوام متحدہہ کی قراردادوں سےہ جراءت اورلتعلقی‬
‫کاا ظہار کیا ہےہ جبکہہ اس دوران دنیا بھرکےہ غریب ممالک عام‬
‫طور پر اور اسرائیلی خطےہ کےہ ممالک خاص طو ر پر اقوام‬
‫متحدہ کی قراردادوں کو مان رہے ہیں ۔‬

‫امریکہہ کےہ مطابق یہہ معاہدہہ امن معاہدےہ کو منسوخ‬ ‫(‪)4‬‬


‫نہیں کرتا ‪،‬جس کایہہ مطلب ہےہ کہہ امریکہہ کےہ اسرائیل کےہ ساتھ‬
‫ہونےہ والےہ معاہدےہ کو اس امن معاہدےہ پر برترحیثیت حاصل ہے‬
‫اور ی ہ معاہد ہ مصر کا اس بات کاپابند کرتا ہے ک ہ و ہ اسرائیل کے‬
‫خلف کسی جنگ کا اعلن نہہ کرےہ ۔اس سےہ دراصل مصر پر‬
‫پابندی عائد کردی گئی ہے کہ وہ مشترکہ عرب دفاعی معاہدے سے‬
‫باہر نکل آئے اور اس کی پابندی نہ کرے حالنکہ یہ معاہدہ مصر کو‬
‫اس بات کا پابند کرتا ہے ک ہ و ہ اس معاہد ے ک ے فریقین پرکسی‬
‫بھ ی جانب س ے حمل ے کی صورت میں ان کا سات ھ د ے ۔اس کے‬
‫بعد اسرائیل نےہ عراق کےہ ایٹمی پلنٹ پر بمباری کی ۔جنوبی‬
‫لبنان پر چڑھائی کی اور وہاں فوج کی صورت میں اپنا ایجنٹ‬
‫مقرر کیا ۔بحیرہ احمر کے جنوبی دروازے پر واقع ڈھلک جزیرے پر‬
‫قبضہ کیا ۔جنوبی سوڈان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک میں‬
‫اپنی امداد کا اضافہہ کیا اور شام کو تنہ ا کرنےہ کےہ لئےہ ترکی کا‬
‫حلیف بن گیا۔اسرائیل کےہ خیال میں مشرق میں اسرائیل کی‬
‫سلمتی کا دائرہہ پاکستان تک وسیع ہوچکاہےہ اور پاکستان کے‬
‫ایٹمی پروگرام کو اسرائیل اپنےہ وجود اور سلمتی ک ے لئےہ ایک‬
‫مستقل خطرہہ محسوس کرتا ہےہ ۔اسرائیل کےہ لئےہ امریکی‬
‫حمایت اس حد تک آگےہ بڑھہ چکی ہےہ کہہ وہہ مصر سمیت دیگر‬
‫ریاستوں کو اسرائیل کی اطاعت پر مجبور کرتا رہتا ہےہ ۔اسی‬
‫دباؤ ک ے ایک نکت ے ک ے طور پر اس ن ے مصر کو مجبور کیا ک ہ وہ‬

‫‪98‬‬
‫ایٹمی عدم پھیلؤ کےہ معاہدےہ پر دستخط کردےہ ۔اس صورتحال‬
‫میں اسرائیل سرعام اعلن کرچکا ہے کہ وہ اپنے مخصوص حالت‬
‫کی بناءپر ایٹمی عدم پھیلؤ کےہ معاہدےہ پر دستخط نہیں‬
‫کرسکتا۔اس سب کےہ باوجود امریکہہ کی اسرائیل کےہ لئے‬
‫ہمدردیاں واضح ہیں اور و ہ اس کی ”حرکتوں“س ے اغماض برتتا‬
‫ہے۔‬

‫یہہ ایک حیرت انگیز اور تکلیف دہہ حقیقت ہےہ کہہ پاکستان جیسا‬
‫ملک جس ک ے امریکہہ کےہ سات ھ مضبوط دیرینہہ تعلقات ہیں ‪،‬اس‬
‫وقت تک اس معاہد ے پر دستخط س ے انکار کرچکا تھ ا جب تک‬
‫اس کا دشمن ہمسایہ ہ ملک بھارت اس پر دستخط نہیں‬
‫کردیتا۔مصر کی طرح پاکستان امریکہ ک ے سامن ے اس طرح نہیں‬
‫جھکاکہ وہ اس کی ہر جائز وناجائز خواہش پر ہاں کرتا رہے۔‬
‫درج بالواقعات س ے ظاہ ر ہوتا ہے ک ہ امریک ہ اسرائیل ک ے لئ ے ایک‬
‫سائبان کا سا ماحول فراہم کرتا رہتاہے تاکہ وہ مسلمانوں کے عین‬
‫مرکز میں موجود رہے۔امریک ہ کا یہ جرم دنیا ک ے تمام جرائم سے‬
‫بڑھ کر ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کردار اداکرتے ہوئے‬
‫مغربی ممالک ک ے عوام بھ ی اس ک ے سات ھ ہوت ے ہیں جو ک ہ اپنے‬
‫فیصلوں میں آزاد ہوتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ وہ صحافتی جنگ اور‬
‫موڑ توڑ کر پیش کی جانے والی خبروں سے متاثر ہوتے ہیں لیکن‬
‫بالخر و ہ اپنی حکومتوں ک ے الیکشن ک ے دوران ووٹ دیت ے ہیں ۔‬
‫اپنی حکومت خود منتخب کرتےہ ہیں اور ا س حکومت کی‬
‫پالیسیوں کو چلنےہ کےہ لئےہ ٹیکسوں کی صورت میں فنڈز‬
‫مہیاکرتےہ ہیں اور وہہ اپنےہ حکمرانوں کو اس بات کا ذمہہ دار‬
‫ٹھہرات ے ہیں ک ہ کس طرح ان فن ڈ ز کو استعمال کرت ے ہیں ۔اس‬
‫بات س ے قطع نظر کہہ ان ممالک کی حکومتیں عوام سےہ کس‬
‫طرح ووٹ حاصل کرپاتی ہیں ۔ان ممالک کےہ لوگ ووٹ ڈالنے‬
‫میں آزاد ہیں ۔مغربی ملکوں کےہ عوام کا کئی عشروں سےہ یہ‬
‫مطالب ہ رہ ا ہے اور ی ہ مطالب ہ کسی افراتفری میں وجود میں نہیں‬
‫آیا ۔یہہ اس درخت کا پھل ہےہ جسےہ صدیوں اسلم اور مسلم‬
‫دشمنی کا پانی دیا گیا ہو۔اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں مغرب‬
‫کےہ لئےہ حقیقت پسندانہہ پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہےہ ۔‬
‫ہمیں واہموں کے آسمان سے گر کر حقیقت کی سرزمین پر حملہ‬
‫نہیں کرنا چاہیے۔ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ مغرب جس کی قیادت‬
‫امریکہہ کررہا ہےہ اور امریکہہ یہودیوں کےہ قبضہہ میں ہے۔مغرب‬
‫اخلقیات اور قانونی حقوق کی زبان نہیں سمجھتا‪،‬وہ صرف اپنے‬
‫مفادات کی زبان سمجھتا ہے جس کے عقب میں وحشیانہ فوجی‬

‫‪99‬‬
‫طاقت موجود ہے تاہم اگر ہم ان سے کوئی بات چیت کرنا چاہتے‬
‫ہیں اور انہیں قائل کرناچاہتےہ ہیں توہمیں یقینا اسی زبان میں‬
‫بات کرنا پڑے گی جو زبان وہ سمجھتے ہیں۔‬

‫باب نمبر ‪10‬‬


‫امریکیوں کو ایک گولی ‪،‬خنجر ‪،‬بارود س ے بھر ے ہوئ ے بم یا لوہے‬
‫کی سلخ سےہ ہلک کرناناممکن نہیں ہے۔اسی طرح ان کی‬
‫پراپرٹی کو ایک گلس کاک ٹیل سےہ جلنا بھی مشکل نہیں‬
‫ہے۔مجاہدین کےہ چھوٹےہ گروپ ہونےہ چاہئیں جن کی دہشت‬
‫امریکیوں اور یہودیوں کےہ دلوں میں بیٹھہ جائے۔خودکش بم‬
‫دھماکوں کا طریقہ نہایت بہترین طریقہ ہے کیونکہ اس سے دشمن‬
‫کا نقصان زیادہ اور بنیاد پرستوں کا نقصان کم ہوتا ہے۔جس چیز‬
‫کونشانہہ بناناہےہ اور ہتھیار کاانتخاب دونوں کو درست ہونا‬
‫چاہیے۔دشمن کے انفرااسٹرکچرکو نقصان پہنچایاجائے تاکہ وہ اپنی‬
‫سربیت س ے باز آجائ ے ۔اس امر س ے قطع نظر ک ہ اس آپریشن‬
‫میں کتنی مدت صرف ہوتی ہے ‪،‬آپریشن پرزیاد ہ س ے زیاد ہ وقت‬
‫صرف کرک ے اس ے غلطیوں س ے پاک کیا جائ ے اور پھ ر دشمن پر‬
‫ضرب لگائی جائ ے کیونک ہ یہ ی ایک زبان ہے جس ے مغرب سمجھتا‬
‫ہے۔‬

‫عام طور پر میں دشمن ک ے علق ے میں جنگ ک ے حق میں ہوں‬


‫اور یہ ی بنیاد پرستوں کی تحریک کا مقصد ہونا چاہیے۔فوج اس‬
‫وقت تک فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکتی جب تک کہ پیدل فوج توپ‬
‫خانہہ کی مدد سےہ علقےہ پر قبضہہ نہہ کرلےہ ۔اسی طرح اسلمی‬
‫تحریکیں اس ایک عالمی اتحاد کے خلف فتح یاب نہیں ہوسکتیں‬
‫جب تک کہہ عرب ےہ علقےہ کےہ عین وسط میں ایک اسلمی اڈہ‬
‫قائم نہ کیا جائے ۔جب تک اس خطے میں ایک بنیاد پرست ریاست‬
‫قائم ن ہ ہوجائ ے ۔قوم کو متحرک کرن ے اور مسلح کرن ے کا خواب‬
‫محض خواب ہ ی رہے گا۔مسلم دنیا ک ے درمیان ایک بنیاد پرست‬
‫ریاست قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہےہ تاہ م مسلمانوں کو‬
‫امید ہے کہ وہ دوبارہ اپنی خلفت بحال کرن ے اور ماضی کی شان‬
‫وشوکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ہمیں دشمنوں کے‬
‫یکےہ بعد دیگرےہ کئےہ جانےہ والےہ حملوں سےہ خوفزدہہ اور مایوس‬
‫ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔‬

‫‪100‬‬
‫نیا منظر نامہ‬
‫ایک غیر جانبدار تجزیہہ نگار اسلمی دنیا میں عام طور پر‬
‫اورمصر میں خاص طور پر تشکیل پانے والے ایک نئے منظر نامے‬
‫کے مختلف مظاہر کو باآسانی محسوس کرسکتاہے۔‬

‫جنگوں کی عالمگیریت‬
‫اپنےہ دل میں اسلم دشمنی کا زہ ر چھپائےہ مغربی طاقتوں نے‬
‫اپنےہ دشمن کا تعین کرلیا ہےہ ۔وہہ اپنےہ دشمن کو اسلمی بنیاد‬
‫پرست کہتے ہیں۔اسلم کے خلف جنگ لڑنے کے لئے انہوں نے اپنے‬
‫پرانے حریف روس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیاہے اوراب روس‬
‫ان منصوبوں اور انہیں عملی جامہ پہنانے ک پروگرام کا ایک حصہ‬
‫ہے۔انہوں ن ے اسلم ک ے خلف جنگ کرن ے ک ے لئ ے متعدد ہتھیار تیز‬
‫کرلئے ہیں ۔ان ہتھیاروں میں ‪:‬‬

‫اقوام متحدہ‬ ‫٭‬


‫مسلم ممالک کے دوست حکمران‬ ‫٭‬
‫ملٹی نیشنل کارپوریشنز‬ ‫٭‬
‫عالمی ذرائع ابلغ اورمعلومات کے تبادلے کانظام‬ ‫٭‬
‫عالمی خبر رساں ایجنسیاں (جنہیں انٹیلی جنس مہیا‬ ‫٭‬
‫کرنےہ ‪،‬سازشوں کی منصوبہہ بندی کرنےہ اور ہتھیاروں کی نقل‬
‫وحمل کرنے کے لئے رکھاگیاہے)شامل ہیں۔‬
‫اس عالمی اتحاد ک ے سامن ے ایک بنیاد پرستوں کا اتحاد تشکیل‬
‫پاچکا ہے۔اس جہادی اتحاد کی تشکیل میں مسلم دنیا کے مختلف‬
‫خطوں سےہ تعلق رکھنےہ والی جہادی تحریکیں اور دوممالک‬
‫شامل ہیں جنہیں اسلم کےہ نام پر آزادکروایا گیا۔یہہ دوممالک‬
‫افغانستان اور چیچنیا ہیں۔اگرچہ یہ اتحاد ابھی ابتدائی مراحل میں‬
‫ہے لیکن آہستہ آہستہ پھیل رہاہے ۔یہ اتحاد اس ابھرتی ہوئی طاقت‬
‫کی نمائندگی کرتا ہے جس کانام جہاد ہے اور ی ہ نیوورل ڈ آرڈ ر کے‬
‫دائر ہ کار س ے باہ ر کام کررہ ا ہے۔ی ہ مغربی سامراجیت ک ے غلمی‬
‫کےہ چنگل سےہ آزاد ہے۔یہہ اسلم کےہ خلف لڑی جانےہ والی نئی‬
‫صلیبی جنگوں کی تباہی وبربادی کا عزم لئ ے ہوئے ہے ۔یہ دنیا کے‬
‫کفار سربراہوں ‪،‬امریکہہ ‪،‬اسرائیل اور روس سےہ انتقام لین ے کو‬
‫تیار ہے۔یہہ اپنےہ شہداءکےہ خون کا بدلہہ لینےہ کےہ لئےہ بیتاب ہے۔یہ‬
‫مشرقی ترکستان س ے اندلسی ہ تک کی ماؤں ک ے المیوں ‪،‬یتیموں‬
‫کی محرومیوں ‪،‬قیدیوں کی مصیبتوں اور زخمیوں کے چرکوں کا‬

‫‪101‬‬
‫بدلہ لینے کے لئے بے چین ہے ۔دنیا نت نئے مظاہر کا مشاہدہ کررہی‬
‫ہے۔موجودہہ عہ د ایک نئ ے مظہ ر کی گواہ ی دےہ رہاہے۔یہہ ایک ایسے‬
‫نوجوان مجاہدین کا مظہ ر ہے جنہوں ن ے اللہ کی راہ میں جہاد کی‬
‫غرض سےہ اپنےہ خاندان‪ ،‬ملک‪،‬دولت ‪،‬تعلیم ‪،‬نوکریاں سب کچھ‬
‫چھوڑدیا۔‬

‫اب یہ بات کھ ل کر سامن ے آچکی ہے ک ہ جہاد ک ے علو ہ ان مسائل‬


‫کا کوئی حل نہیں ہےہ ۔اسلم کےہ فرزندوں میں ایک نئی ذہنی‬
‫بیداری کا آغاز ہورہ ا ہےہ جس ے مسلم دنیا ک ے حکمران نظرانداز‬
‫کرتے آرہے ہیں۔مسلم نوجوانوں کے اندر جذبہ جہاد کی تڑپ ہے ‪،‬وہ‬
‫اپنی بیتابی کےہ پیش نظر جہاد میں شریک ہوناچاہتےہ ہیں ۔قصہ‬
‫مختصر یہ ہے کہ جہاد کے علوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔جہاد کے بارے‬
‫میں پھیلنے والے اس شعور نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ‬
‫کردی ہےہ کہہ جہاد کےہ علوہہ باقی تمام طریقےہ ناکام ہیں ۔اس‬
‫سلسلے میں الجیریا کی مثال ایک سخت سبق کے طور پر ہمارے‬
‫سامنے ہے ۔اس نے مسلمانوں پر یہ بات ظاہر کردی ہے کہ مغرب‬
‫نہہ صرف کافر ہے بلکہہ یہہ جھوٹا اور منافق بھ ی ہےہ ۔الجیریا میں‬
‫اسلمک سالویشن فرنٹ نے تاریخی حقائق ‪،‬سیاست ‪،‬طاقت کے‬
‫ف نظر کیا۔‬‫توازن اور قبضے کے اصولوں سے صر ِ‬

‫ی ہ بیلٹ بکسوں کی طرف بھاگ ے تاک ہ صدارتوں اور وزارتوں کو‬


‫حاصل کرسکیں۔وہہ انصاف اورظلم کےہ مابین فرق کو بھول‬
‫کربھاگ ے توسامن ے فرانسیسی اسلح ے س ے لد ے ٹینکوں ن ے ان پر‬
‫بوچھاڑ کردی اور و ہ تخلیق ک ے آسمان س ے حقیقت کی زمین پر‬
‫آگرے ۔اسلمک سالویشن فرنٹ کے لوگوں نے سوچا کہ حکمرانی‬
‫کے دروازے ان واکردیئے گئے ہیں لیکن وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ‬
‫گئ ے ک ہ ان کو جیلوں میں بندکردیاگیاہے۔ان پر زندگی ک ے دروازے‬
‫تنگ کردیئےہ گئےہ ہیں ۔اصل میں انہیں نیوورلڈہ آرڈر کی کال‬
‫کوٹھری میں قید کردیاگیا تھا۔یہ تمام حقائق اس نتیجے پر پہنچنے‬
‫کے لئے کافی ہیں کہ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلف جن صلیبی‬
‫جنگوں کا آغاز کردیا ہےہ ان سےہ مقابلےہ کےہ لئےہ مسلم دنیاکے‬
‫پاس صرف ایک ہ ی راست ہ بچتا ہے اور و ہ راست ہ جہاد کا ہے ۔جو‬
‫صورتحال یہودیوں نےہ مسلم دنیا پر مسلط کردی ہےہ اس سے‬
‫مسلم دنیا بالعموم اور عرب بالخصوص دنیا بھر میں کسی بھی‬
‫اہ م مقام کےہ حصول میں ناکام ہوچکےہ ہیں ۔ہماری حالت اس‬
‫طرح ہے جیسے ایک دعوت میں یتیم بچے پھررہے ہوں جن کا وہاں‬
‫کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔(ایک عربی کہاوت)‬

‫‪102‬‬
‫میری اس گفتگو پر کوئی مجھے روک کر ی ہ بھ ی کہہ سکتا ہے کہ‬
‫تم خود ہی اپنی بات کی تردید کررہے ہو۔اپنی زندگی کے واقعات‬
‫بیان کرت ے ہوئ ے تم ن ے کہ ا کہ جہادی تحریک ک ے کچ ھ رہنما مایوس‬
‫ہوچک ے ہیں اور اب تم بھ ی مایوسی پر مبنی بات کررہے ہو؟اس‬
‫کاجواب ساد ہ سا ہے ک ہ تمام تحریکیں مٹن ے اور نئی زندگی پانے‬
‫ک ے ایک دائر ے میں چلتی ہیں لیکن کسی بھ ی تحریک کی تقدیر‬
‫کا تعین صرف دوحقائق کرتے ہیں۔اول خاتمہ اور دوئم نشونما۔‬

‫اسلمی تحریک کو عام طور پر اور جہادی تحریک کو خاص طور‬


‫پر اپنے ہ کارکنوں کو مستقل مزاجی‪،‬صبر‪،‬ثابت قدمی اور‬
‫استقلل کا درس دیناہوگا۔جہادی رہنما خود کو ان اوصاف کا‬
‫نمونہہ بنائیں تاکہہ ان کا پیغام ان کی شخصیت کےہ ذریعےہ نچلی‬
‫سطح پرکارکنوں تک پہنچےہ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔قرآن‬
‫مجیدمیں بھ ی یہ ی ارشاد ہےہ جس کا مفہوم یہہ ہےہ کہہ اےہ ایمان‬
‫والواللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور صبر کرو تاکہ‬
‫تم کامیاب ہوسکو۔اگر رہنماؤں کی طرف سےہ اس طرح کے‬
‫اشار ے ملت ے ہوں ک ہ و ہ جہاد س ے روگردانی کررہے ہیں یاانہوں نے‬
‫شکست تسلیم کرلی توتحریک کےہ کارکن اپنےہ رہنماؤں کوایسا‬
‫نہیں کرنےہ دیں گےہ ۔وہہ انہیں جہاد کےہ راستےہ سےہ ہٹنےہ نہیں دیں‬
‫گ ے ۔راہنماؤں ک ے اعمال کا تجزی ہ بھ ی کرت ے رہنا چاہی ے کیونک ہ یہ‬
‫رہنما بھ ی غلط ہوسکتےہ ہیں ۔ان کےہ احکامات پر اندھےہ بن کر‬
‫نہیں گرنا چاہی ے ۔اگر کسی بھ ی تحریک ک ے کارکن اپن ے رہنماؤں‬
‫ک ے اقوال پر اندھادھند عمل کرن ے لگیں تو اس س ے تحریک کے‬
‫اندر نظریاتی اندھاپن پیداہوجاتا ہے۔‬

‫اسلمی ایکشن میں عام طور پر اور جہادی ایکشن میں خاص‬
‫طور پر رہنمائی کا مسئل ہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور قوم کو‬
‫ایک جدید سائنسی ‪،‬منطقی اور جدوجہ د کرن ے وال ے رہنماؤں کی‬
‫ضرورت ہےہ تاکہہ یہہ قوم کی رہنمائی کرسکیں ۔یہہ جہالت کے‬
‫گھٹاٹوپ اندھیروں ‪،‬طوفان اور زلزلوں میں قوم کی انگلی پکڑ‬
‫کر اسےہ درست راستےہ پر لےہ جاتےہ ہوئےہ منزل سےہ ہمکنار‬
‫کرسکیں ۔‬

‫جدوجہد میں پوری قوم کو شریک کرنا اورانہیں متحرک کرنا اہم‬
‫ذم ہ داری ہے۔جہادی تحریک کو عوام س ے رابط ے بڑھان ے چاہئیں ۔‬
‫جہادی اپنے عوام کو بتائیں کہ یہ تحریک ان کی عزت کی حفاظت‬

‫‪103‬‬
‫اوران پر ظلم ڈھانے والوں کے خلف جنگ ہے اوریہی تحریک انہیں‬
‫فتح س ے ہمکنار کر ے گی ۔قوم کو میدان جہاد میں ایک قدم آگے‬
‫بڑھانا چاہیے ۔جہادی تحریک کو چاہیے کہ وہ لوگوں میں شعور کی‬
‫بیداری ک ے لئے اپنا علیحدہ ونگ تشکیل د ے ۔اس ونگ ک ے فرائض‬
‫میں مسلم لوگوں کو تعلیم دینا ۔خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر‬
‫حص ہ لین ے کی ترغیب دینا اور ان لوگوں ک ے خدشات کو سن کر‬
‫ان کا شافی جواب دینا شامل ہو۔ہمیں اس سلسل ے میں کسی‬
‫بھی علقے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ہمیں لوگوں کے اعتماد‬
‫اور دل جیت لینے چاہئیں ۔عوام ہم سے اس وقت تک محبت نہیں‬
‫کریں گے جب تک انہیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ ہم بھی ان سے محبت‬
‫کرتے ہیں ۔لوگوں کو اس بات کا پکا یقین ہوناچاہیے کہ ہمیں ان کا‬
‫بہت خیال ہے اور یہ کہ ہم ان کی حفاظت کے لئے تیار ہیں ۔‬

‫اس پوری بات کاخلصہ یہ ہے کہ جنگ لڑتے ہوئے جہادی تحریک کو‬
‫عوام کےہ درمیان یا اس سےہ آگےہ ہونا چاہیےہ ۔یہہ ایک آئیڈیل‬
‫صورتحال ہے کہ تحریک آگے ہواور پوری قوم اس کے پیچھے صف‬
‫بستہہ ہو۔اس سلسلےہ میں تحریک کو بہت محتاط رہنےہ کی‬
‫ضرورت ہے کہ کسی طاقت کے خلف علم بلند کرتے ہوئے تحریک‬
‫کو عوام سےہ علیحدہہ نہیں رہنا چاہیےہ کیونکہہ تنہائی کا شکار‬
‫تحریکیں جلد مرجاتی ہیں ۔ہمیں عوام کو اس بات کا دوش نہیں‬
‫دینا چاہیے کہ وہ اس کام میں ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہمیں خود‬
‫پرالزام عائد کرنا چاہیے کہ ہم کوئی ایسا لئحہ عمل نہیں بناسکے‬
‫جس میں عوام کو شریک کرسکتےہ ہوں ۔دراصل ی ہ ہ م ہیں جو‬
‫عوام تک درست پیغام پہنچانے میں ناکام رہے ہیں ۔‬

‫جہادی تحریک کو اس بات کی شدید خواہ ش ہونی چاہیےہ کہہ وہ‬


‫لوگوں کو طاقتور بنان ے ک ے لئ ے جہادی تحریک میں عوام کو جگہ‬
‫دیں اور انہیں اپنی کاروائیوں کا حصہہ بنائیں ۔مسلم قوم اس‬
‫وقت تک مجاہدین کےہ شانہہ بشانہہ کھڑی نہہ ہوگی جب تک کہہ وہ‬
‫قوم کو ایسا نعرہ یاپروگرام نہ دیں جس پر قوم لبیک کہہ اٹھے اور‬
‫یہہ نعرہہ ‪،‬قول یا بات اس طرح کی ہ و کہہ قوم کی سمجھہ میں‬
‫آجائ ے ک ہ جہادی تحریک کس طرح ان ک ے مسائل حل کرن ے میں‬
‫معاون ہوگی ۔گذشتہ پچاس سال سے صرف ایک ہی نعرہ ایسا ہے‬
‫جس ے سن کر پوری قوم جہادی تحریک میں شامل ہوسکتی ہے‬
‫اور وہ نعرہ ہے ”اسرائیل کے خلف اعلن جہاد “کا۔‬

‫‪104‬‬
‫قوم گذشت ہ دس سالوں میں اسرائیل ک ے سات ھ سات ھ امریک ہ سے‬
‫بھ ی نفرت کرن ے لگی ہے ۔اس نعر ے میں امریک ہ کو بھ ی شامل‬
‫کیا جاناچاہیے۔اگرامریک ہ ک ے خلف جہاد کی کال دی جائ ے توقوم‬
‫اس جہاد کی کال پر ضرور لبیک کہے گی ۔‬
‫افغانستان ‪،‬فلسطین اور چیچنیا ک ے واقعات پر ایک ایک طائرانہ‬
‫نظر ڈالی جائ ے توپت ہ چلتا ہے ک ہ جب کفر اور کافروں ک ے خلف‬
‫جہاد کی کال دی گئی اورکہا گیا کہہ ان ممالک کوکافروں کے‬
‫تسلط سےہ آزاد کرانےہ کامعاملہہ ہےہ توکسی طرح جہادی تحریک‬
‫کی آواز قوم ک ے رہنماؤں تک پہنچ ے گی اور ی ہ کتنی حیرت انگیز‬
‫بات ہے ک ہ و ہ سیکولر جنہوں ن ے مسلمانوں کو تباہ ی س ے دوچار‬
‫کیا ‪،‬خاص طور پر عرب اسرائیل تنازعےہ میں بھ ی مسلمانوں‬
‫کونقصان پہنچا ‪،‬وہہ بھ ی مسئلہہ فلسطین کےہ حل کی بات کرنے‬
‫لگ ے ہیں ۔اس س ے بھ ی زیاد ہ حیرت انگیز بات ی ہ ہے ک ہ مسلمان‬
‫جو ک ہ دنیا بھرمیں پس ے ہوئ ے مسلمانوں ک ے حقوق بازیاب کرانے‬
‫ک ے ہ ر دورمیں چمپئن رہے ہیں جو قوم کی رہنمائی کی طاقت‬
‫اور اہلیت رکھت ے ہیں و ہ فلسطین ک ے مسئل ے پر عوام میں بات‬
‫کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔‬

‫فلسطین کو آزاد کرانےہ کےہ لئےہ اب جہاد کےہ مواقع میں اضافہ‬
‫ہوچکا ہے ۔تمام سیکولر جنہوں نے فلسطین ک ے مسئل ے پر ہمیشہ‬
‫زبانی جمع خرچ سے کام لیا اور اسلمی تحریکوں کا مقابلہ کیا ‪،‬‬
‫ان کےہ عزائم اب مسلمانوں پر ظاہر ہوچکےہ ہیں کیونکہہ وہ‬
‫اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرچکے ہیں ۔یہ بات اب پوری دنیا کو‬
‫تسلیم کرلینی چاہیے کہ مراکوسے لے کر انڈونیشیا تک مسلمانوں‬
‫کےہ دلوں میں گذشتہہ پچاس سالوں سےہ مسئلہہ فلسطین کانٹے‬
‫کی طرح کھٹک رہا ہے۔‬

‫جہاد کےہ ذریعےہ علماءدانشوروں ‪،‬حکمرانوں ‪،‬منصفوں ‪،‬ادیبوں‬


‫اور سیکورٹی ایجنسیوں کا رویہہ آشکار ہوجائےہ گا۔اس پر عمل‬
‫کرک ے اسلمی تحریک عوام پر اپنی بغاوت کا اظہار کرسکتی ہے‬
‫اور بتاسکتی ہے کہ اس بغاوت کی وجوہات کیا ہیں ۔انہوں نے اللہ‬
‫ک ے دشمنوں ک ے سات ھ اتحاد کرلیا ہے اور ی ہ مجاہدین ک ے اس لئے‬
‫دشمن ہیں ک ہ مجاہدین ایس ے یہودیوں اور عیسائیوں ک ے دشمن‬
‫ہیں ۔جو اپن ے دل میں اسلم کی دشمنی رکھت ے ہیں ۔امریکیوں‬
‫اور یہودیوں کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔انہیں ایک‬
‫گولی ‪،‬خنجر یا سریے سے نقصان پہنچانا ناممکن نہیں ہے۔موجودہ‬
‫وسائل ک ے سات ھ چھوٹ ے گروپ امریکیوں اوریہودیوں ک ے لئ ے ایک‬

‫‪105‬‬
‫دہشت بن سکتےہ ہیں ۔اسلمی تحریک کو عام طور پر جہادی‬
‫تحریک کو خاص طور پر عوام میں بیداری کی مہم کا آغاز کردینا‬
‫چاہیے ۔‬

‫مسلم دشمن حکمرانوں کو بے نقاب کیا جائے‬


‫ایسےہ حکمران جو اپنےہ اعمال اور احکامات کی طاقت سے‬
‫مسلمانوں کو نقصان پہنچارہے ہوں انہیں ب ے نقاب کرنا ضروری‬
‫ہے ۔انہیں کس طرح بے نقاب کیاجاسکتا ہے؟‬

‫مسلم عقیدےہ میں توحید سےہ وفاداری اورکفار کو‬


‫چھوڑن ے کی اہمیت پر روشنی ڈال کر انہیں ب ے نقاب کیاجاسکتا‬
‫ہے۔‬
‫قوم کو بتایاجائےہ کہہ اسلم ‪،‬قوم اوروطن کا دفاع‬
‫مسلمان پر فرض ہے۔‬

‫علماءکو حکمرانوں کے بارے میں خبردار کیاجائے۔‬

‫ائمہ مساجد کو ان کے فرائض یاددلئے جائیں ۔‬

‫عقیدےہ کےہ خلف جنگ کرنےہ والوں کےہ عزائم بتائے‬


‫جائیں ۔‬

‫اسلمی دنیا ک ے دل میں ایک مسلم ریاست ک ے قیام‬


‫بارے بات کی جائے ۔‬

‫جہادی تحریک کوایسا لئح ہ عمل تشکیل دینا چاہی ے ک ہ و ہ مسلم‬


‫دنیاک ے عین وسط میں ایک اسلمی مملکت قائم کرسک ے ۔جہاں‬
‫سےہ پوری دنیا کی اسلمی ریاستوں سےہ مضبوط روابط قائم‬
‫کئے جائیں ۔یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ فوج اسی وقت فتح سے‬
‫ہمکنار ہوتی ہےہ جب پیدل فوج زمین پر قبضہہ کرتی ہےہ ۔اسی‬
‫طرح مجاہدین کی اسلمی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں‬
‫ہوسکتی اورنہ ہی یہ عالمی اتحاد کا مقابلہ کرسکتی ہے جب تک یہ‬
‫اسلمی دنیا کے قلب میں ایک بنیاد پرست ریاست نہ قائم کرلے ۔‬
‫ایک بنیاد پرست ریاست کے قیام کے بعد ہی دنیا میں کسی بھی‬
‫اتحاد کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔تمام ترمنصوبے اور منصوبہ بندیاں‬
‫اس وقت تک کامیاب ن ہ ہوں گی جب تک ک ہ بنیاد پرست تحریک‬

‫‪106‬‬
‫کے پاس عملی طور پر زمین کا ایک ٹکڑانہ ہو جس پر وہ خلفت‬
‫کا نظام قائم کرسکے ۔‬

‫مسلم دنیاکےہ وسط میں ایک بنیاد پرست ریاست کےہ قیام‬
‫کاخواب کوئی آسان کام نہیں ہے اورن ہ ہ ی کوئی ایسا مقصد ہے‬
‫جس ے فوری طور پر حل کیاجاسک ے لیکن ی ہ مسلم دنیا کی ایک‬
‫شدید آرزو ہے کہ وہ دوبارہ خلفت کا نظام قائم کریں اور یوں وہ‬
‫اپنی کھوئی ہوئی شان وشوکت اور ماضی کی عظمت دوبارہ‬
‫حاصل کرسکیں ۔جہادی تحریک کو حوصلےہ اورصبر کا مظاہرہ‬
‫کرتےہ ہوئےہ اپنا ڈھانچا قائم کرنا چاہیےہ اور اسےہ تب تک احتیاط‬
‫کرنی چاہیےہ جب تک یہہ تحریک مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں‬
‫ہوجاتی ۔اسےہ فی الحال وسائل جمع کرنےہ چاہئیں اورحمایت‬
‫حاصل کرنی چاہیےہ اور پھر احتیاط کےہ ساتھہ میدان جنگ کا‬
‫انتخاب کرنا چاہیے ۔‬

‫یہاں ایک نہایت اہم اور بنیادی نوعیت کا سوال جنم لیتا ہے کہ اگر‬
‫تحریک کےہ منصوبےہ قبل از وقت افشاءہوجائیں تو اس صورت‬
‫میں کیا کرنا چاہیےہ ۔اگر اس کےہ ممبر گرفتار ہوجائیں ‪،‬تحریک‬
‫کامستبقل داؤ پرلگ جائےہ ‪،‬بڑےہ پیمانےہ پر اس کےہ کارکنوں کی‬
‫گرفتاریوں کا سلسل ہ شروع ہوجائ ے ‪،‬اس ک ے وسائل اور فنڈ ز کو‬
‫روک دیا جائےہ اور اس کےہ رہنماؤں کو ٹارگٹ بنایا جائےہ توپھر‬
‫تحریک کو کیا کرنا چاہیے ؟‬

‫اس صورتحال میں تحریک کو خود سے سنجیدہ سوال کرنا چاہیے‬


‫اور اس کاجواب تلش کرنا چاہیے کہ کیا چند لشوں کے گرنے اور‬
‫مخالفت ک ے طوفان س ے ی ہ تحریک بکھرجائ ے گی؟ کیا اس کا یہ‬
‫مطلب ہے کہ ایسی صورتحال میں اس کا مطلب یقینی شکست‬
‫ہے؟‬

‫میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورتحال میں تحریک کو‬


‫اپنےہ زیادہہ سےہ زیادہہ ممبران کو بغیر کسی ہچکچاہ ٹ کےہ بچالینا‬
‫چاہیے ۔محاصرے کے دوران سب سے اہم فیصلہ بچاؤ کا فیصلہ ہوتا‬
‫ہے جیسا ک ہ میں ن ے پہل ے اس بات پر زور دیا ہے کفا رک ے خلف‬
‫جنگ کےہ لئےہ ہمیں قوم کو متحرک کرنا ہوگا۔اگر ظالم قوتیں‬
‫ہمیں ایسےہ وقت میں میدان جنگ میں کھینچ لیتی ہیں جب کہ‬
‫ابھ ی ہماری تیاری مکمل نہہ ہ و توپھرہمیں اپنےہ پسند کےہ میدان‬
‫جنگ کا انتخاب کرنا ہوگا ۔یعنی ہمیں امریکیوں اوریہودیوں پر‬

‫‪107‬‬
‫حملے کرنے پڑیں گے ۔دوسرایہ کہ ہمیں ان حکمرانوں کے عوام کو‬
‫سامنےہ لنا ہوگا جو یہودیوں کےہ معاملت میں دلچسپی لےہ رہے‬
‫ہیں اور آخری یہ کہ اگر ہمارا مقصد واضح ہے تو ہمیں کسی بھی‬
‫صورتحال سے مایوس نہیں ہوناچاہیے ۔ہمیں کبھی بھی ہتھیار نہیں‬
‫پھینکنےہ چاہئیں ۔اس کےہ لئےہ ہمیں چاہےہ کتنی بھ ی بڑی قربانی‬
‫کیوں نہ دیناپڑے ‪،‬ہمیں جان لینا چاہیے کہ ریاستوں کو اچانک زوال‬
‫نصیب نہیں ہوتا ۔‬

‫اسلمی تحریک اور اس کے جہادی ساتھیوں اور تمام مسلم قوم‬


‫کو جہاد میں شامل ہوناچاہیےہ ۔واشنگٹن اورتل ابیب میں بیٹھے‬
‫ہوئی شاطر حکومتوں کو اپنےہ مفادات کےہ حصول کےہ لئے‬
‫استعمال کررہےہ ہیں ۔اگر جنگ کی چنگاری ان کےہ گھروں اور‬
‫جسم تک پہنچ گئی تو یہہ فورا ً اپنےہ ایجنٹوں سےہ سودےہ بازی‬
‫کرلیں گ ے اور اس کاذمہ دار کون ہوگا؟اس صورتحال میں ہمیں‬
‫اس جنگ کارخ ان دشمنوں کی طرف موڑنا پڑےہ گا جن کے‬
‫ہاتھوں سے ہمارے گھروں کو آگ لگی۔مسلم ریاست کے قیام کو‬
‫صرف علقائی جدوجہد کےہ طور پر نہیں دیکھنا چاہیےہ ۔یہہ اب‬
‫واضح ہوچکاہےہ کہہ یہودی صلیبی اتحاد جس کی قیادت امریکہ‬
‫کررہ ا ہےہ ‪،‬ی ہ کسی مسلم ملک کو اجازت نہیں دےہ گا کہہ وہہ ایک‬
‫طاقت بن جائ ے ۔ی ہ ان تمام ممالک پر پابندیاں عائد کر ے گا جو‬
‫اسلمی تحریک کی مددکرےہ گا۔اس صورتحال میں ہمیں ایک‬
‫ایسی جنگ ک ے لئ ے تیاررہنا چاہی ے جو کسی ایک خط ے میں نہیں‬
‫لڑی جائے گی۔‬

‫دشمن کےہ خلف جدوجہ د کو ملتوی نہیں کیاجاسکتا۔دشمن کے‬


‫عزائم س ے واضح ہے ک ہ و ہ ہمیں اتنا وقت نہیں د ے گا ک ہ ہ م پہلے‬
‫اندرونی دشمن سےہ نبٹ سکیں اور پھ ر اس بیرونی اور اصل‬
‫دشمن کی جانب بڑھیں ۔دشمن اب ایک بڑے اتحاد کے ساتھ کھل‬
‫کر میدان لگاچکا ہےہ ۔اسلمی تحریک کو یہہ بات ذہن نشین‬
‫کرلینی چاہیےہ کہہ ان کےہ لئےہ اپنی صفوں میںاتحاد پیدا کرن ے کی‬
‫بہ ت زیاد ہ اہمیت ہے ۔صرف اس اتحاد اور نظم وضبط ک ے قیام‬
‫س ے ہ ی نصف راست ہ ط ے ہوجائ ے گا اور کامیابی کی منزل قریب‬
‫آجائے گی ۔اسلمی تحریک کو قربانیوں کی ایک نئی داستان رقم‬
‫کرنےہ کےہ لئےہ تیار رہنا چاہیےہ اور انہیں اسلم کےہ مفاد میں اپنے‬
‫ذاتی اختلفات کو فراموش کرکےہ ایک جھنڈےہ تلےہ جمع ہوجانا‬
‫چاہی ے ۔آج ک ے دور میں اسلمی جہاد میں اتحاد کی اہمیت جتنی‬
‫صداقت کے ساتھ واضح ہوچکی ہے پہلے کبھی نہ تھی ۔اگر تحریک‬

‫‪108‬‬
‫فتح س ے ہمکنار ہونا چاہتی ہے تواس ے جتنی جلدی ممکن ہوسکے‬
‫اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرلینا چاہیے ۔‬

‫افغانستان اور چیچنیا کی دل وجان سےہ مدد کرنا اس دور کا‬


‫اولین تقاضا ہےہ ۔ہمیں صرف ان دوملکوں کےہ حفاظتی طریقے‬
‫سوچنے تک ہی خودکو محدود نہیں رکھناچاہیے ۔ہمیں اس جنگ کو‬
‫اسلمی دنیا کے قلب میں منتقل کردینا چاہیے جو کہ اصل میدان‬
‫جنگ ہے ‪،‬ہوسکتا ہے ک ہ حالت وواقعات ک ے پیش نظر جو ہ م نے‬
‫سوچا ہے وہ عملی طور پر اسی طرح وقوع پذیر نہ ہو کیونکہ اس‬
‫راست ے پر دباؤ ک ے پہاڑ کھڑ ے ہیں اور اس ک ے سات ھ سات ھ ہماری‬
‫واضح خامیاں بھی ہیں ‪،‬بہرحال ہمیں اس مسئلےہ کا کوئی نہ‬
‫کوئی حل ضرور نکالنا پڑےہ گا ۔جہادی تحریک کےہ لئےہ یہہ ایک‬
‫مخمصہہ ہوسکتا ہےہ لیکن اس سےہ نپٹنا کوئی مشکل نہیں ہےہ ‪،‬‬
‫ہوسکتا ہے کہ یہ بہ ت مشکل ہو‪،‬لیکن اس ے حل کرنا کوئی مشکل‬
‫نہیں ہے ۔‬
‫مجاہدین کو اپنی تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے‬
‫حملوں ک ے طریق کار تبدیل کرنا ہوں گےہ اورمزاحمت کےہ بھی‬
‫کچ ھ نئ ے میدان تلش کرنا ہوں گ ے کیونک ہ دشمن کی تعداد میں‬
‫مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔ہتھیاروں کے معیار میں اضافہ ہورہاہے ۔تباہ‬
‫کن طاقت میں روز افزوں ترقی ہورہی ہےہ ۔دشمن جنگ کی‬
‫تمام تر اخلقیات کو فراموش کرکےہ کاروائیاں کررہا ہےہ ۔اس‬
‫صورتحال میں ہمیں درج ذیل امورکو پیش نظر رکھنا ہوگا۔‬

‫دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایاجائے۔‬


‫وہ زبان استعمال کی جائے جو دشمن سمجھتا ہے۔‬
‫آپریشن کو احتیاط سےہ تیار کیاجائےہ چاہےہ اس میں‬
‫کتنا بھی وقت صرف کیوں نہ ہو۔‬
‫ایسے ہتھیار استعمال کئے جائیں جس سے دشمن کی‬
‫سربیت میں کمی آئے اور دشمن کے غرور کا سرنیچا ہوسکے ۔‬
‫اندرونی دشمن کےہ ساتھہ اس مرحلےہ پر جنگ میں‬
‫الجھانہ جائے ۔‬

‫ایک حقیقت جس کومدنظررکھنا ضروری ہے و ہ ی ہ ہے ک ہ جوجنگ‬


‫عزت ‪،‬جان ‪،‬دولت ‪،‬مقدس مقامات‪،‬قوم ‪،‬اقدار‪،‬روایت اور‬
‫طاقت کو بچان ے ک ے لئ ے لڑی جارہ ی ہے ی ہ جنگ !مسلم کی اپنی‬
‫جنگ ہے۔ی ہ بوڑھوں اور نوجوانوں سب کی جنگ ہے ی ہ ایک ایسی‬

‫‪109‬‬
‫جنگ ہے جس کی تپش ہمارے گھروں میں پہنچ چکی ہے ۔عوام کو‬
‫آگے بڑھنے کے لئے جن چیزوں کی ضرور ت ہے وہ درج ذیل ہیں ‪:‬‬
‫ایک ایسی قیادت جس پر وہہ اعتماد کرسکیں ‪،‬جس‬
‫کی بات کو و ہ سمج ھ سکیں اور جس ک ے پیچھے و ہ چلن ے کو تیار‬
‫ہوں ۔‬

‫ایک واضح دشمن۔‬

‫خوف کی زنجیریں توڑنا ہوں گی اور روح پر سے‬


‫کمزوریوں کے جالے اتارنا پڑیں گے۔‬

‫ان خطرات کو محسوس کرنے کے لئے ہمیں خود سے ایک سوال‬


‫کرنا چاہی ے ک ہ ہ م اپنی آئند ہ نسلوں کو کیا جواب دیں گ ے کیا ہم‬
‫اپنی آنےہ والی نسلوں کویہہ بتائیں گےہ کہہ ہم نےہ تولڑنےہ کےہ لئے‬
‫ہتھیار اٹھالئ ے تھے لیکن پھ ر ہ م ن ے ہتھیار پھینک دیئ ے اور شکست‬
‫قبول کرلی ؟ہمار ے اس طرز عمل س ے آن ے والی نسل ک ے جہاد‬
‫کے بارے میں کیاخیالت ہوں گے ؟‬

‫ہمیں تمام رکاوٹوں اور پابندیوں کو توڑتےہ ہوئےہ جہاد کا پیغام‬


‫پوری دنیا میں پہنچانا ہےہ ۔دنیابھر کےہ ذرائع ابلغ نےہ جہاد کی‬
‫خبروں اور جہادی سرگرمیوں اور جہادی تحریک کا جس طرح‬
‫محاصرہہ کررکھ ا ہےہ ہمیں اس محاصرےہ سےہ نکلنا ہوگا۔یہہ ابلغی‬
‫جنگ ہے اورہمیں اس جنگ کو فوجی جنگ کے ساتھ لے کر چلنا ہے‬
‫۔مسلم اقوام کو آزاد کرانے ‪،‬اسلم کے دشمنوں سے لڑنے اور ان‬
‫ک ے خلف جہادی مہ م کاآغاز کرن ے ک ے لئ ے ہمیںایک مسلم ریاست‬
‫کی ضرورت ہےہ ۔ایک مسلم ریاست کی طاقت اور اختیار کے‬
‫بغیر یہ سب ناممکن ہی رہے گا ۔اسلمی جہادی تحریک کے اولین‬
‫مقاصد میں س ے ی ہ ایک بنیادی مقصد ہونا چاہی ے ‪،‬چاہے کتنا بھی‬
‫وقت اور قربانیاں کیوں نہ دینا پڑیں ۔‬

‫انٹرنیٹ ایڈیشن‬
‫مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان‬
‫‪http://www.muwahideen.tk‬‬

‫‪info@muwahideen.tk‬‬

‫‪110‬‬
111

You might also like