You are on page 1of 118

‫مشاعرہ الف‬

‫جنوری ‪۲۰۱۱‬ء‬
‫ف ہرست‬
‫‪ 22‬جنوری ‪6 2011‬‬
‫مصرعۂ طرح‪ :‬مل ہی جائے گا کبھی‪ ،‬دل کو یقیں رہتا ہے ‪6‬‬
‫احمد علی برق ؔی اعظمی ‪7‬‬
‫اسد ضیا ‪9‬‬
‫اسد مصطفی ‪11‬‬
‫اشتیاق میر ‪13‬‬
‫اعجاز عبید ‪15‬‬
‫الیاس بابر اعوان ‪17‬‬
‫امجد شہزاد ‪19‬‬
‫جواد جے ‪21‬‬
‫خالد خواجہ ‪23‬‬
‫رحمان حفیظ ‪25‬‬
‫سدرہ سحر عمران ‪27‬‬
‫طارق ہاشمی ‪29‬‬
‫عدیل شاکر ‪30‬‬
‫عقیل عباس جعفری ‪32‬‬
‫علی تاصف ‪34‬‬
‫عمران سیفی ‪36‬‬
‫‪37‬‬ ‫ڈاکٹر فاروق رحمان‬
‫فاضل جمیلی ‪39‬‬
‫قیصر مسعود ‪41‬‬
‫قیصر محمود ‪42‬‬
‫‪44‬‬ ‫گلناز کوثر‬
‫محمود ارشد وٹو ‪46‬‬
‫محمود الحسن شاکر ‪48‬‬
‫مسعود قاضی ‪50‬‬
‫منصور آفاق ‪52‬‬
‫نادر درانی ‪54‬‬
‫نسرین سید ‪56‬‬
‫نسیم سحر ‪58‬‬
‫‪60‬‬ ‫سید وحید القادری عارف‬
‫‪ ۲۹‬جنوری ‪62 ۲۰۱۱‬‬
‫ط علی صبا ‪62‬‬
‫ب زیست کے ُپرزے ُاڑا دئیے‘‘ ‪ :‬سب ِ‬
‫مصرعۂ طرح ‪َ’’ :‬میں نے کتا ِ‬
‫احمد کامران ‪63‬‬
‫ارشد وٹو ‪64‬‬
‫اشتیاق میر ‪65‬‬
‫الیاس بابر اعوان ‪67‬‬
‫امجد شہزاد ‪70‬‬
‫امین شیخ ‪71‬‬
‫برقی اعظمی ‪73‬‬
‫جواد جے ‪75‬‬
‫حامد محبوب ‪76‬‬
‫خالد خواجہ ‪78‬‬
‫رحمان حفیظ ‪80‬‬
‫سدرہ سح ؔر عمران ‪82‬‬
‫شوکت جمال ‪84‬‬
‫طارق ہاشمی ‪85‬‬
‫عائشہ حامد ‪86‬‬
‫عقیل عباس جعفری ‪88‬‬
‫علی تاصف ‪89‬‬
‫عمران سیفی ‪91‬‬
‫فاتح الدین بشیر ‪93‬‬
‫فاروق رحمان ‪94‬‬
‫فرح اقبال ‪95‬‬
‫قمر نقوی ‪95‬‬
‫قیصر محمود قیصر ‪97‬‬
‫قیصر مسعود ‪99‬‬
‫گلناز کوثر ‪100‬‬
‫ماہ جبین غزل انصاری ‪101‬‬
‫مسعود قاضی ‪102‬‬
‫منصور آفاق ‪104‬‬
‫نادر درانی ‪106‬‬
‫نسرین سید ‪107‬‬
‫نسیم سح ؔر ‪109‬‬
‫نسیم سحر ‪111‬‬
‫نصیر احمد ناصر ‪113‬‬
‫سید وحید القادری عارف ‪116‬‬
‫‪ 22‬جنوری ‪2011‬‬

‫مصرعۂ طرح‪ :‬مل ہی جائے گا کبھی‪ ،‬دل کو یقیں رہتا ہے‬

‫احمد مشتاق‬
‫ؔ‬
‫احمد علی برق ی اعظمی‬

‫ایسا لگتا ہے مرا یار یہیں رہتا ہے‬


‫’’ ِمل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے‘‘‬

‫سم‬
‫کچھ بتاتا بھی نہیں رہتا ہے کیوں وہ ُگم ُ‬
‫خانۂ دل میں ہمیشہ جو مکیں رہتا ہے‬

‫ُاس کے حالت سے ظاہر ہیں جنوں کے آثار‬


‫جانے ہر وقت وہ کیوں چیں بہ جبیں رہتا ہے‬

‫گ جاں کے قریب‬
‫ُاس کی تصویِر تصور ہے ر ِ‬
‫وہ جہاں رہتا ہے دل میرا وہیں رہتا ہے‬

‫ُاس کے آنے کا ُگماں ہوتا ہے ہر آہٹ پر‬


‫ہوش کچھ ُاس کے سوا ُمجھ کو نہیں رہتا ہے‬

‫آشنا کوئی نہیں ُاس کے ُمحاسن سے یہاں‬


‫سخن زیِر نگیں رہتا ہے‬
‫جس کے اب شہِر ُ‬

‫آج کس حال میں برقیؔ ہے نہ پوچھو ُمجھ سے‬


‫شہِر دہلی میں وہ اب گوشہ نشیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫اسد ضیا‬

‫جس گلی میں نہیں جاتا ہوں‪ ،‬وہیں رہتا ہے‬


‫شہر میں ایسا بھی اک پردہ نشیں رہتا ہے‬

‫عرض کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کہنا ان سے‬


‫جانتے ہیں تو مگر دھیان نہیں رہتا ہے‬

‫نقش دھرتی پہ نظر آتے ہیں ہر جا اس کے‬


‫نقش گر خود سِر افلک کہیں رہتا ہے‬

‫اس کو ویرانی سے کچھ خاص ہی نسبت ہے مگر‬


‫یہ نگر دل کا جو آباد نہیں رہتا ہے‬

‫شہرِ دل یوں بھی ہیں ویران کہ اس کا باسی‬


‫آج کل اس میں نہیں اور کہیں رہتا ہے‬

‫پوچھتا پاچھتا میں ڈھونڈ ہی لؤں نہ اسے‬


‫جانتا ہوں کہ سِر عرش کہیں رہتا ہے‬
‫شہر میں کوئی تو ایسا ہے کہ جس کے ہنگام‬
‫رات دن مجمعِ عشاق یہیں رہتا ہے‬

‫محفل دوست سے اٹھ کر میں بصد یاس اسد‬


‫آ تو جاتا ہوں مگر دھیان وہیں رہتا ہے‬

‫٭٭٭‬
‫اسد مصطفی‬

‫ایک تعبیر کے پانے کا یقیں رہتا ہے‬


‫خواب بھی آنکھ کی بستی کے قریں رہتا ہے‬

‫وہ جسے سوچتا رہتا ہوں میں تنہائی میں‬


‫روز ملتا ہے ‪،‬مرے پاس کہیں رہتا ہے‬

‫تیری دنیا میں گزارہ نہیں ممکن سو اب‬


‫دل ہمارا تو کہیں عرش نشیں رہتا ہے‬

‫ایک امید کا جلتا ہے سِر شام چراغ‬


‫دل کے آنگن میں کوئی شخص حسیں رہتا ہے‬

‫ڈھونڈتی پھرتی ہے یہ بھوک مرا دروازہ‬


‫ن جویں رہتا ہے‬
‫اور مرے مِد نظر نا ِ‬

‫اس نے ای میل میں بس اپنا پتہ پوچھا تھا‬


‫میں اسے کیسے کہوں چاند یہیں رہتا ہے‬

‫اور بس یاد کی سولی پہ گڑی آنکھیں ہیں‬


‫پاس رہتا بھی ہے وہ اور نہیں رہتا ہے‬
‫موت لے کر کبھی آیا تھا کسی وادی میں‬
‫زلزلہ اب تو کہیں زیر زمیں رہتا ہے‬

‫تو جسے چھوڑ کے آیا تھا صفا مروہ میں‬


‫وہ گھرانہ تھا ترا ‪،‬اب بھی وہیں رہتا ہے‬

‫اک مسافت ہے بندھی اس کی گلی تک اپنی‬


‫اک ستارہ سا کہیں دربدریں رہتا ہے‬

‫وقت کے ساتھ ہر اک چیز بدل جاتی ہے‬


‫’عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے‘‬
‫٭٭٭‬
‫اشتیاق میر‬

‫لوگ کہتے ہیں کہ وہ دور کہیں رہتا ہے‬


‫اس سے ملنے کا مجھے پھر بھی یقیں رہتا ہے‬

‫ڈھون ڈتے ڈھون ڈتے گزریں کئی صدیاں مج ھھ کو‬


‫وہ زمیں پر تو نہیں زیر زمیں رہتا ہے‬

‫آ رہی ہے مرے دل سے یہی پھر آج صدا‬


‫وہ کہیں دور نہیں ‪ ،‬دل میں مکیں رہتا ہے‬

‫صرف اک میں ہی نہیں کہتی ہے دنیا مجھ سے‬


‫چاند سے بڑھ کے ہے اک شخص حسیں رہتا ہے‬

‫منکشف آج ہوئی ہے یہ حقیقت مج ھ پر‬


‫میرا دشمن ہے جہاں وہ بھی وہیں رہتا ہے‬

‫مجھ سے ملنے کو تو وہ روز ہی آ جاتا ہے‬


‫میر مجھ کو مگر احساس نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫اعجاز عبید‬

‫وہ نہیں آئے گا‪ ،‬یہ دل کو یقیں رہتا ہے‬


‫کون ہے وہ جو مگر دل میں مکیں رہتا ہے‬

‫یاد کیوں آئے گی جب و ہ ہی نہیں ملتا کبھی‬


‫ایک احساس مگر دل میں نشیں رہتا ہے‬

‫اس لئے آنکھوں میں خوابوں کا گزر ہوتا نہیں‬


‫ان میں ہر لحظہ جو اک عکس حسیں رہتا ہے‬

‫اس مسافت میں تو ممکن نہ ہوئی دید اس کی‬


‫جانتا تھا وہ کہیں دل کے قریں رہتا ہے‬

‫ایسی راتوں میں جو خوابوں سے تہی کٹ جائیں‬


‫اپنے ہونے کا بھی احساس نہیں رہتا ہے‬

‫کون وہ عشق کا مارا‪ ،‬وہی مجنوں‪ ،‬وہ عبی ؔد‬


‫ہاں‪ ،‬یہی اس کا مکاں ہے‪ ،‬وہ یہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫الیاس بابر اعوان‬

‫نور اک ساتھ مرے ‪ ،‬میرا امیں رہتا ہے‬


‫اک ستارا سا کہیں دل میں مکیں رہتا ہے‬

‫ت دگر سے ہو کر‬
‫وقت سے اور طلسما ِ‬
‫اک گماں ہے کہ فقط زیِر یقیں رہتا ہے‬

‫آگ ہے دل سے مرے چرخ پہ جانے والی‬


‫ایک شعلہ ہے جو بس زیِر زمیں رہتا ہے‬

‫اک تصور ہے جو پوروں سے نکلتا ہی نہیں‬


‫س نوکِ جبیں رہتا ہے‬
‫اک بدن ہے جو پ ِ‬

‫چھوڑ جاتے ہیں نشاں روح پہ جانے والے‬


‫زخم مٹ جاتے ہیں پر درد وہیں رہتا ہے‬

‫ع شب ہے‬
‫اک سمندر ہے‪ ،‬جزیرہ ہے طلو ِ‬
‫اک سفر ہے جو ستاروں میں کہیں رہتا ہے‬
‫روز ملتا ہے کسی پہر کی سچائی میں‬
‫لوگ کہتے ہیں خدا عرش نشیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫امجد شہزاد‬

‫یہ اندھیرا جو سدا دل میں مکیں رہتا ہے‬


‫کیا اجال بھی کہیں اس کے قریں رہتا ہے‬

‫آج تو یاِد غِم یار میں ایسا ہوا ہے‬


‫دل کا یہ حال ہمیشہ تو نہیں رہتا ہے‬

‫تجھے ملتا ہوں تو پھر پھول کھل دیتا ہوں‬


‫درد کا ذائقہ ہونٹوں پہ نہیں رہتا ہے‬

‫آ ہی جاتا ہے کبھی آنکھ میں آنسو بن کر‬


‫درد تا عمر کہاں زیِر زمیں رہتا ہے‬

‫تیرے پہلو میں گزرتے ہیں زمانے ایسے‬


‫پھر مجھے وقت کا احساس نہیں رہتا ہے‬

‫اس کو معلوم نہیں اپنی حقیقت شاید‬


‫چاند روشن جو بہت اپنے تئیں رہتا ہے‬

‫٭٭٭‬
‫جواد جے‬

‫دل میں کچھ یوں مرے وہ بن کے مکیں رہتا ہے‬


‫بادشہ جیسے کوئی تخت نشیں رہتا ہے‬

‫اس نے پوچھا تھا کہ کیا ڈھونڈے ہے افلک پہ تو‬


‫چاند کیا تیرا ترے پاس نہیں رہتا ہے‬

‫اک دعا ماں کی تنی رہتی ہے بن کے سایہ‬


‫کیا ہوا جسم اگر زیر زمیں رہتا ہے‬

‫غِم دوراں کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں سب‬


‫ایک سا بھی بھل وقت کہیں رہتا ہے‬

‫وہ جسے مان تھا جاگیر پہ اپنی کل تک‬


‫چھوڑ جاگیر کہ اب زیِر زمیں رہتا ہے‬

‫مجھ کو محسوس نہیں ہوتی کوئی تکلیف اب‬


‫درد جب حد سے گزرتا ہے نہیں رہتا ہے‬

‫سرنگوں عشق بھی ہوتا ہے اسی کے آگے‬


‫جو سدا دل کی روایت کا امیں ہوتا ہے‬

‫رات کا پہل پہر اس لئے پیارا ہے مجھے‬


‫اس کی آنکھوں کی طرح سرمگیں رہتا ہے‬

‫اک بار اس نے پلٹ کر جو مجھے دیکھا تھا‬


‫ایک منظر وہی نظروں میں نشیں رہتا ہے‬

‫کہاں آ جانا ہے اک میرے بلنے سے اسے‬


‫اس کے ہونٹوں پہ ہمیشہ ہی نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫خالد خواجہ‬

‫ہم سا لگتا ہے وہ اک شخص‪ ،‬یہیں رہتا ہے‬


‫آسمانوں میں مگر اپنے تئیں رہتا ہے‬

‫ہر رویے میں تموج ہے مقدر لیکن‬


‫ن جویں رہتا ہے‬
‫مستقل صرف غِم نا ِ‬

‫لوگ کہتے ہیں کہیں ہے وہ مثالی بستی‬


‫جو بھی رہتا ہے وہاں زہرہ جبیں رہتا ہے‬

‫‪.‬ایک دلدار نے بھیجا ہے یہ پیغام مجھے‬


‫ایک سا وقت مری جان‪ ،‬نہیں رہتا ہے‬

‫عہد میں جس کے ہر اک سہما ہوا رہتا تھا‬


‫اب وہ ظالم بھی کہیں زیر زمیں رہتا ہے‬
‫باغی رہتی ہیں کناروں سے ہمیشہ موجیں‬
‫ایک پیاسا اسی دریا کے قریں رہتا ہے‬

‫ت شہر سے ڈرتا ہی نہیں‪ ،‬کہتا ہے‬


‫خلق ِ‬
‫داغ دامن پہ بہت روز نہیں رہتا ہے‬

‫یا تو اک جان تھا محفل کی وہ احمد مشتاق‬


‫آج محفل سے بہت دور کہیں رہتا ہے‬

‫ہر کوئی لگتا ہے گھبرایا ہوا خالد جی‬


‫اس محلے میں کوئی عالم دیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫رحمان حفیظ‬

‫ش بریں رہتا ہے‬


‫میرا تخئیل سِر عر ِ‬
‫جس طرح فاصلے پر مہِر مبیں رہتا ہے‬

‫دھندل دیتا ہے ہر منظِر حیرانی کو‬


‫ایک قطرہ جو مرے دل کے قریں رہتا ہے‬

‫جب ترا عکس مری آنکھ میں تابندہ ہو‬


‫آئنہ تک بھی مرے زیِر نگیں رہتا ہے‬

‫ایسے کٹ جاتا ہے ہنس کھیل کے گزرا ہوا وقت‬


‫عمر بھر اس کے پلٹنے کا یقیں رہتا ہے‬

‫سر سے ہٹ جانی ہے یہ چادِر رحمت بھی کبھی‬


‫ل زمیں !! رہتا ہے‬
‫اک عذاب اور بھی اے اہ ِ‬

‫عیش کے بعد کئی رنج بھی ممکن ہیں مگر‬


‫ہنستے بستے ہوئے احساس نہیں رہتا ہے‬
‫گونجتی ہے وہی آواز مرے کانوں میں‬
‫ایک ہی عکس خیالوں میں مکیں رہتا ہے‬

‫اوج کے بعد پٹخ دے نہ کوئی موج کہیں‬


‫بس یہی خوف مرے دل میں مکیں رہتا ہے‬

‫دل کو اجڑے ہوئے کتنے ہی زمانے بیتے !‬


‫‪،،‬اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں‪،،‬رہتا ہے‬

‫آنکھ پڑتی ہی نہ تھی جس کی نشیبوں کی طرف‬


‫اب وہی عرش نشین ‪ ،‬کفش نشیں رہتا ہے‬

‫عشق مٹتا نہیں رحمان مگر اس کا بھی‬


‫عمر بھر ایک ہی انداز نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫سدرہ سحر عمران‬

‫میں کہیں رہتا ہے‬ ‫وہ دنیا‬ ‫کون کہتا ہے‬


‫وہ تو اک عمر ہوئی دل میں مکیں رہتا ہے‬

‫سنا ؤں کس کو‬ ‫دلِ بے تا ب ترا حال‬


‫حزیں رہتا ہے‬ ‫شخص ہر ایک یہاں دیکھ‬

‫درد بے نام مسا فر کی طرح صدیوں سے‬


‫دل کے ویران ٹھکانوں میں کہیں رہتا ہے‬

‫مجسم تیرا‬ ‫نگاہو ں میں‬ ‫سوز‬ ‫حیا‬ ‫ُان‬


‫خواب نگری کے کہیں پاس ‪،‬قریں رہتا ہے‬

‫رہ نکلے‬ ‫محبت ہے کوئی‬ ‫آغاِز‬ ‫کہ‬ ‫آ‬


‫پھر تو دل بھی یہ کسی در کا نہیں رہتا ہے‬

‫آج ُاس شخص کو دیکھا تو قیا مت بیتی‬


‫رہتا ہے‬ ‫شہِر یاراں میں جو وعدوں کا امیں‬
‫ُاس کو دنیا کی طلب ہے نہ شکایت خود سے‬
‫ہے‬ ‫رہتا‬ ‫پسِ دیوار کوئی خا ک نشیں‬

‫کرو ذات خدارا میری‬ ‫یوں تو ارزاں نہ‬


‫شاخ سے پھول بچھڑ کر بھی حسیں رہتا ہے‬

‫رہی ہے دیکھو‬ ‫رات مدت سے سحرؔ جاگ‬


‫ہاں خبر اس کو بھی ہے چاند یہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫طارق ہاشمی‬

‫وہ سمجھتا ہے کہ وہ دور کہیں رہتا ہے‬


‫کیا خبر اسکو مرے دل کے قریں رہتا ہے‬

‫میں تو حیران تھا مہتاب ہے کیسے روشن‬


‫اب میں سمجھا ہوں میرا یار وہیں رہتا ہے‬

‫داغ سے پہلے یہ دل زخمی شمشیر ہوا‬


‫اور قاتل بھی کہیں دور نہیں رہتا ہے‬

‫لکھ سمجھاؤں میں دل کو ترا مسکن ہے یہی‬


‫پھر بھی کمبخت مرے پاس نہیں رہتا ہے‬

‫ایک میں ہوں کہ منانے میں لگا رہتا ہوں‬


‫ایک وہ ہے کہ سدا چیں بہ جبیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫عدیل شاکر‬

‫کیا ُہوا دل میں جو وہ دشمن دیں رہتا ہے‬


‫ُیوں بھی تا عمر کہاں کوئی کہیں رہتا ہے‬

‫ُتو نہیں پہنچا ہے ُاس منزل وحشت کو اب ھی‬


‫پھر جہاں کوئی گماں اور نہ یقیں رہتا ہے‬

‫ہاں مگر اب تو یہاں کچھ بھی نہیں پہلے سا‬


‫ورنہ رہنے کو تو وہ اب بھی یہیں رہتا ہے‬

‫صے پھر‬
‫ان سے ہو جاتے ہیں منسوب کئی ق ّ‬
‫جن مکانوں میں یہاں کوئی نہیں رہتا ہے‬

‫سوچتا ہوں کہ کہیں ُتو ہی نہ ہو اس کا سبب‬


‫یہ جو اب مجھکو ترا دھیان نہیں رہتا ہے‬

‫بلبل ُا ّٹھے نہ کیوں خاک کی خاطر انسان‬


‫جا کے آخر کو میاں‪ ،‬زیِر زمیں رہتا ہے‬
‫لئے جاتے ہیں مری دید کو دونوں شاکر‬
‫ورنہ سورج کہیں اور چاند کہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫عقیل عباس جعفری‬

‫مستقل دل میں کہاں کوئی مکیں رہتا ہے‬


‫جو بھی رہتا ہے یہاں‪ ،‬وہ بھی نہیں رہتا ہے‬

‫آج یہ وقت ہے کل اور کوئی وقت ہوگا‬


‫ایک سا وقت ہمیشہ تو نہیں رہتا ہے‬

‫ڈھونڈنے لوگ اسے چاند تلک جا پہنچے‬


‫وہ جو ہر لحظہ رگ جاں کے قریں رہتا ہے‬

‫میرے ہر حال کی ہر لحظہ خبر ہے اس کو‬


‫اور کہتا ہے کہ وہ مجھ میں نہیں رہتا ہے‬

‫قیس صاحب سے ہمیں دشت وراثت میں مل‬


‫اب اسی دشت میں یہ خاک نشیں رہتا ہے‬
‫دل کو احساس زیاں ہو تو کوئی بات بھی ہے‬
‫دل کو احساس زیاں ہی تو نہیں رہتا ہے‬

‫وہ بھی کیا وقت تھا سب دل میں بسا کرتے تھے‬


‫"اور اب کوئی کہیں ‪ ،‬کوئی کہیں رہتا ہے"‬

‫ن احمد مشتاق کے سب ہیں مشتاق‬


‫سخ ِ‬
‫ہر سخن زاد کے وہ دل میں مکیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫علی تاصف‬

‫جس کو رہنا ہے وہی ِاس میں نہیں رہتا ہے‬


‫درد پیہم ہی مرے دل میں مکیں رہتا ہے‬

‫یہ غلط ہے کہ یہاں کوئی مکیں رہتا ہے‬


‫ب حزیں رہتا ہے‬
‫میرے سینے میں تو ِاک قل ِ‬

‫پہلے آتی ہے تری یاد خوشی کی صورت‬


‫اور پھر دیر تلک قلب حزیں رہتا ہے‬

‫زعم ِاتنا بھی مناسب تو نہیں جانِ جہاں‬


‫‪ ،،‬عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے‪،،‬‬

‫عشق رہتا ہے جواں عمر سے کیا ہوتا ہے‬


‫یار تو یار ہے تا عمر حسیں رہتا ہے‬

‫اپنے ہونے کا گماں رہتا ہے گاہے گاہے‬


‫گاہے گاہے نہیں ہونے کا یقیں رہتا ہے‬
‫چاند جس دیس میں رہتا ہے مجھے لگتا ہے‬
‫میرا محبوب بھی شاید کہ وہیں رہتا ہے‬

‫چاند تاروں کی تمنا میں مچلنے وال‬


‫ہائے افسوس کہ اب زیرِ زمیں رہتا ہے‬

‫جانے کتنے ہی مناظر میں ہے وہ جلوہ نما‬


‫لوگ کہتے ہیں سرِ عرشِ بریں رہتا ہے‬

‫خواب آتے ہیں ہمیں روز مسلسل جس کے‬


‫جانے کس دیس میں وہ ماہ جبیں رہتا ہے‬

‫بڑھ کے دروازے پہ دستک تو ذرا دو یاروں‬


‫کون کہتا ہے یہاں کوئی نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫عمران سیفی‬

‫وہ جہاں بھی ہو مرے دل کے قریں رہتا ہے‬


‫میرے سجدوں میں جو ماننِد جبیں رہتا ہے‬

‫گھر جو ویران تھا آباد کیا ہے اس نے‬


‫یہ الگ بات ہے وہ گھر میں نہیں رہتا ہے‬

‫آسماں میں تو نہیں ڈھونڈ سکے گا اس کو‬


‫وہ ستاروں سے پرے دور کہیں رہتا ہے‬

‫جس نے افلک پہ الفت کی دھنک باندھی ہے‬


‫وہ محبت کا امیں زیِر زمیں رہتا ہے‬

‫موت آ جائے اگر دل کو سکوں ہوتا ہے‬


‫روح میں جسم پروؤں تو حزیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫ڈاکٹر فاروق رحمان‬

‫کبھی تنہائی کا احساس نہیں رہتا ہے‬


‫دور رہ کے بھی وہ اس دل کے قریں رہتا ہے‬

‫میری پلکوں پہ لگا دینا نظر کا ٹیکہ‬


‫میری آنکھوں میں کوئی پردہ نشیں رہتا ہے‬

‫ایک امید پہ جاری ہے یہ سانسوں کا سفر‬


‫"مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے"‬

‫چاند دہلیز پہ جھکتے ہیں ادب سے اس کی‬


‫آسماں ہے وہ مگر بن کے زمیں رہتا ہے‬

‫ایک وادی ہے گلبوں کی ندی پار کہیں‬


‫کوئی جائے نہ مرا یار وہیں رہتا ہے‬

‫وقت مٹیمیں مل دیتا ہے شاہوں کو بھی‬


‫حشر تک کون بھل تخت نشیں رہتا ہے‬

‫آشیانے سے پرندے کو بڑی نسبت ہے‬


‫لوٹ آتا ہے سر شام کہیں رہتا ہے‬

‫اب مری اس کی ملقات ہو تو کیسے ہو‬


‫اجنبی بن کے وہ اک شخص یہیں رہتا ہے‬

‫وہ کہیں بھی رہے فاروق دعائیں دے گا‬


‫اس کی چاہت پہ مجھے کتنا یقیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫فاضل جمیلی‬

‫بدگمانی کی طرح کوئی یقیں رہتا ہے‬


‫حسن تو حسن ہے ہر وقت حسیں رہتا ہے‬

‫کتنے فرعون تھے تاریخ نے" ڈس اون" کیے‬


‫عمر بھر کون بھل تخت نشیں رہتا ہے‬

‫شام ہوتے ہی جو عشاق ستارے نکلے‬


‫بر سِر بام کوئی ماہ جبیں رہتا ہے‬

‫ہم نے رہنا ہے محبت میں اس انداز کے سات ھھ‬


‫جس طرح ایک انگوٹھی میں نگیں رہتا ہے‬

‫آتے جاتے ہیں پرندوں کی طرح خواب و خیال‬


‫جس کو رہنا ہو جہاں ‪ ،‬جا کے وہیں رہتا ہے‬

‫اک ستارہ سِر افلک چمکتا ہے کہیں‬


‫یار سکھ چین سے ہیں مجھ کو یقیں رہتا ہے‬
‫دنیا داری ہے امانت میں خیانت کی طرح‬
‫دیر تک کون کہاں کس کا امیں رہتا ہے‬

‫کیوں نہ اس دل سے کہیں کوچ ہی کر جائیں کہ جو‬


‫مبتلئے ہوس۔ نان جویں رہتا ہے‬

‫آج پھر دیر ہوئی ُاس کو بھی آفس کے لیے‬


‫برف گرتی ہے جہاں‪ ،‬وہ بھی وہیں رہتا ہے‬

‫میں جہاں ماہیے لک ھتا تھا چٹانوں پہ کبھی‬


‫میرا بچپن اسی پربت پہ کہیں رہتا ہے‬

‫کس کو ہم دل سے پکاریں تو جواب آئے گا‬


‫ش بریں رہتا ہے‬
‫ان دنوں کون سِر عر ِ‬

‫بدگماں اور بھی کرتا ہے زمانہ دل کو‬


‫خوش گماں یوں تو بہت اپنے تئیں رہتا ہے‬

‫آج ُاس شخص کو دیکھا تو یہ احساس ہوا‬


‫درد اس دل کے علوہ بھی کہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫قیصر مسعود‬

‫لکھ سمجھاؤں مگر باز نہیں رہتا ہے‬


‫دل اسی شہر کے اطراف کہیں رہتا ہے‬

‫اس محلے پہ مرے جان و دل و روح نثار‬


‫جس محلے میں مرا ماہ جبیں رہتا ہے‬

‫ایک بوسید ہ عمارت ہے یہ دل بھی میرا‬


‫اس عمارت میں بھل کوئی مکیں رہتا ہے؟‬

‫وقت دھندل ہی دیا کرتا ہے روشن چہرے‬


‫عمر بھر کون بھل یونہی حسیں رہتا ہے‬

‫یوں تو اس شہر میں کتنے ہی حسیں رہتے ہیں‬


‫جس کا تم پوچھے ہو وہ تو نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫قیصر محمود‬

‫ہیں مراسم مرے ویسے تو زمانے بھر سے‬


‫ایک ہی شخص میرے دل میں کہیں رہتا ہے‬

‫تیری یادوں سے رہائی نہیں لگتی ممکن‬


‫میرے اندر بھی تیرا ایک امیں رہتا ہے‬

‫مرے دشمن مرے سب دوست گلہ کرتے ہیں‬


‫سب کے ہوتے ہوئے ُتو گوشہ نشیں رہتا ہے‬

‫ہم جو نکلیں ہیں ُاسے ایک نظر تکنے کو‬


‫تب سے وہ جان جہاں پردہ نشیں رہتا ہے‬

‫تیری خوشبو نہ ہوا لئے تو یہ لگتا ہے‬


‫ُتو بہت ُدور بہت دور کہیں رہتا ہے‬

‫میرے دشمن میرے ہر پل کی خبر رکھتے ہیں‬


‫یہ الگ بات ہے ُتو بھی تو وہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫گلناز کوثر‬

‫سامنے ہو کے بھی افلک نشیں رہتا ہے‬


‫رات کی گود میںجو ما ِہ حسیں رہتا ہے‬

‫دھڑکنیں درد میں لپٹی ہوئی آوازیں ہیں‬


‫یاد کا زخم بہت دل کے قریں رہتا ہے‬

‫پے بہ پے وار نہ کر زخموں بھری بستی پر‬


‫سوچ بے رحم کہ تو بھی تو یہیں رہتا ہے‬

‫روشنی سے در و دیوار بھرے رہتے ہیں‬


‫غ حسیں رہتا ہے‬
‫دل میں ایسا بھی کوئی دا ِ‬

‫چشم حیرت یونہی ویران پھرا کرتی ہے‬


‫غم تو دریا کی کسی تہہ میں کہیں رہتا ہے‬

‫پات جھڑ جاتے ہیں موسم کے بدل جانے سے‬


‫اور پنچھی کہیں تادیر حزیں رہتا ہے‬
‫پھر سے چھا جاتا ہے ویران نگاہی کا طلسم‬
‫دیر تک کوئی کہاں دل کا مکیں رہتا ہے؟‬

‫دیکھنا صبح کے اک ملگجی خاکے میں اسے‬


‫ایسا بھی کیا ہے کہ پھر ہوش نہیں رہتا ہے‬

‫شام کی بجھتی ہوئی آنکھ میں روشن تارہ‬


‫جھلملئے گا کہیں اس کا یقیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫محمود ارشد وٹو‬

‫گ جاں سے بھی قریں رہتا ہے‬


‫وہ ہماری ر ِ‬
‫ش بریں رہتا ہے‬
‫کون کہتا ہے خدا عر ِ‬

‫بدگماں شہر میں اس دل کو یقیں رہتا ہے‬


‫جز مرے وہ کسی کا بن کے نہیں رہتا ہے‬

‫چھوڑ کے جا بھی چکا شہر تمناؤں کا‬


‫کتنا سادہ ہے دل کہ پھر بھی وہیں رہتا ہے‬

‫دلِ برباد کو آباد کیا تو اس نے‬


‫یہ الگ بات کہ وہ اس میں نہیں رہتا ہے‬

‫دلِ خوش فہم چمکتے ہوئے چہروں پہ نہ جا‬


‫’’عمر بھر کون جواں‪،‬کون حسیں رہتا ہے‘‘‬

‫دل کہ مسکن تھا کبھی کتنے حسیں چہروں کا‬


‫اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں رہتا ہے‬

‫ل خوش فہم کو کچھ دیر تسلی دے لوں‬


‫دِ‬
‫ایک پل بھی وہ جدا مجھ سے نہیں رہتا ہے‬

‫جس کے آنے پہ چمک اٹھتا تھا کمرہ ارش ؔد‬


‫چاند چہرہ وہ‪،‬کہیں زیِر زمیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫محمود الحسن شاکر‬

‫کب کہا میں نے کہ وہ زیِر زمیں رہتا ہے‬


‫دور پھیلے ہوئے منظر میں کہیں رہتا ہے‬

‫وہ بھی سورج کی طرح رکھتا ہے چمکیل وجود‬


‫وہ بھی سورج کی طرح دور کہیں رہتا ہے‬

‫صور پھونکا ہے محبت کے نگر میں اس نے‬


‫دیکھیے کون یہاں دیدہ جبیں رہتا ہے‬

‫کون گستاخ لگائے گا اناالحق نعرہ‬


‫آئی آواز کہ منصور یہیں رہتا ہے‬

‫تو نے بھولے سے کبھی یاد کیا ہے اس کو‬


‫تیرے پہلو میں بھی اک گوشہ نشیں رہتا ہے‬

‫دل کی بستی تو ہے مدت سے حوالے تیرے‬


‫اب سوا تیرے یہاں کون مکیں رہتا ہے‬
‫یہ الگ بات کہ ویسے نہیں قیمت اس کی‬
‫پھول کہ ساتھ مگر خار حسیں رہتا ہے‬

‫زندگی بخش ہیں وہ جھیل سے گہری آنکھیں‬


‫ڈوب کر بھی مجھے ہونے کا یقیں رہتا ہے‬

‫بس دعا کرنا کہیں ہم کو نہ عاجز کر دے‬


‫ہم جہاں رہتے ہیں فتنہ بھی وہیں رہتا ہے‬

‫لوگ بھی مان گئے آخِر شب تک ساقی‬


‫کیسا کیسا تیری محفل میں حسیں رہتا ہے‬

‫چٹکیاں کاٹ کے گزرا ہے سہانا منظر‬


‫میری اطراف میں شاکرؔ وہ حسیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫مسعود قاضی‬

‫ایک مدت سے بچھڑ کر وہ کہیں رہتا ہے‬


‫مل ہی جائے گا کبھی‪ ،‬دل کو یقیں رہتا ہے‬

‫دور ایسا بھی نہیں عالم بال ہم سے‬


‫آسمانوں کا سفر زیر زمیں رہتا ہے‬

‫ک دنیا کی کوئی شرط نہیں ہے اس میں‬


‫تر ِ‬
‫دور دنیا سے مرے دل میں جو دیں رہتا ہے‬

‫خاکساری میں ‪ ،‬قناعت میں بڑی عظمت ہے‬


‫سر بلندی سے ہر اک خاک نشیں رہتا ہے‬

‫لکھ ڈھونڈا ہے مگر اس کا نہ پایا ثانی‬


‫کوئی بتلئے کہاں اس سا حسیں رہتا ہے‬

‫یار کے دل کا بھل کون ٹھکانہ جانے‬


‫صبح رہتا ھے کہیں شام کہیں رہتا ہے‬

‫ہم نے کس چاؤ سے مر مر کے بنایا تھا مکاں‬


‫آج اس گھر میں کوئی اور مکیں رہتا ہے‬

‫یار کے دل کا بھل کون ٹھکانہ جانے‬


‫صبح رہتا ہے کہیں شام کہیں رہتا ہے‬

‫پاس رہ کر بھی کائی دور رہا کرتا ہے‬


‫دور رہ کر بھی کوئی دل کے قریں رہتا ہے‬

‫اب ہیں کس حال میں اس گھر کے مکیں مت پوچھو‬


‫‪...‬کوئی رہتا ہے کہیں کوئی کہیں رہتا ہے‬

‫جس سے مسعود مروت سے مل کرتا ہے‬


‫وہ سمجھتا ہے مرے زیرِ نگیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫منصور آفاق‬

‫خود کسی اور کے پہلو میں کہیں رہتا ہے‬


‫وہ مرے دل میں یونہی میرے تئیں رہتا ہے‬

‫ڈھونڈتا پھرتا ہوں برسوں کے مکانوں میں اسے‬


‫عمر کی لمبی سڑک پر ہی کہیں رہتا ہے‬

‫کس طرح دیکھے اسے چشمِ بصیرت میری‬


‫اس مکاں میں کوئی بے چہرہ مکیں رہتا ہے‬

‫غ جگر‪ ،‬داغ گریباں کم ہیں‬


‫غ دل‪ ،‬دا ِ‬
‫دا ِ‬
‫سجدہ ء خاک ابھی داغ جبیں رہتا ہے‬

‫پہلے سجدہ مری چوکھٹ پہ خلئی مخلوق‬


‫اس مکاں میں کوئی فرزنِد زمیں رہتا ہے‬

‫رات بھر دیکھتا ہے شوق سے جو چاند کا روپ‬


‫ادھ کھلی کھڑکی یہ کہتی ہے یہیں رہتا ہے‬

‫عین ممکن ہے سمٹ جائے نظر میں سورج‬


‫ن یقیں رہتا ہے‬
‫شہِر تشکیک میں امکا ِ‬
‫دل کے کمرے سے نکال تھا جسے مشکل سے‬
‫میرے سینے پہ قدم رکھ کے وہیں رہتا ہے‬

‫جلوہ ء طور دھڑکتا ہے میری آنکھوں میں‬


‫پاؤں میں قریۂ فردوس بریں رہتا ہے‬

‫سولیاں گاڑتے پھرتے ہیں خدا کے بندے‬


‫شہر کا شہر ہی اب زیر زمیں رہتا ہے‬

‫ن جہاں‬
‫میرے پہلو میں ذرا اور ٹھہر جا ِ‬
‫عمر بھر کون جوان کون حسین رہتا ہے‬

‫کیسی یکتائی کا احساس مجھے ہے منصور‬


‫کیا یہاں میرے سوا کوئی نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫إ‬

‫نادر درانی‬

‫ہر قدم پر یہاں اک سجدہ بجا لنا ہے‬


‫ہر قدم پر یہاں اک ماہ جبیں رہتا ہے‬

‫اے فلک ملنا ہے مج ھ سے تو ذرا جھک کر مل‬


‫ترے قدموں میں ترا فرش نشیں رہتا ہے‬

‫ہر خزاں پھولوں کو پامال ہوئے دیکھتا ہوں‬


‫کون دنیا میں سدا یونہی حسیں رہتا ہے‬

‫شاہ رگ سے بھی زیادہ و ہ قریں رہتا ہے‬


‫مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے‬

‫وہ جو اوروں کی برائی ہی کو رکھے آگے‬


‫کوئی اس شخص کا پھر دوست نہیں رہتا ہے‬

‫ڈھونڈتے ہو جسے تم دشت میں‪ ،‬وہ شہزادہ‬


‫ہاں یہیں رہتا ہے ہاں یار یہیں رہتا ہے‬
‫وہ مری ذات میں ہر وقت مکیں رہتا ہے‬
‫ش بریں رہتا ہے‬
‫لوگ جو کہتے تھے بر عر ِ‬

‫طلہء و نقرہ و نیلم ہو کہ ہیرا نادر‬


‫خاک دامان ہے اور زیِر زمیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫نسرین سید‬

‫بن کے دھڑکن جو میرے دل کے قریں رہتا ہے‬


‫مجھ میں یہ کون مری جان حزیں رہتا ہے‬

‫مرے ابہام ‪،‬مرے وہم و گماں سے ہے پرے‬


‫مرے دل میں وہ مگر بن کے یقیں رہتا ہے‬

‫میں اسے ڈھونڈھنے جاؤں تو کہیں ملتا نہیں‬


‫دیکھ لوں سر کو جھکا کے تو یہیں رہتا ہے‬

‫چھو کے دامن کو گزر جاتا ہے پروائی سا‬


‫روکنا لکھ میں چاہوں پہ نہیں رہتا ہے‬

‫میں نے مانا میری شہرت ہے ترے ہی دم سے‬


‫مری رسوائی میں بھی تو ہی کہیں رہتا ہے‬

‫وقت کا دھارا جوانی کو بہا لے جائے‬


‫ہو محبت تو بڑھاپا بھی حسیں رہتا ہے‬
‫میری آشفتہ مزاجی کی خبر ہے اس کو‬
‫وہ خرد میں ہے‪ ،‬جنوں میں بھی مکیں رہتا ہے‬

‫وہ میرے طرز تکلم میں کہیں چھپ کے رہے‬


‫اور تبسم میں عیاں ہو کے کہیں رہتا ہے‬

‫کس طرح اس کو منائیں جو خفا ہے ہر دم‬


‫اور مزاج ایسا کہ بس چیں بہ جبیں رہتا ہے‬

‫وہ جو آتا ہے تو ہر سمت وہی ہوتا ہے‬


‫اپنے ہونے کا بھی پھر دھیان نہیں رہتا ہے‬

‫قریہ قریہ جسے ڈھونڈھا کیے وہ جان جہاں‬


‫مل ہی جائے گا کبھی‪ ،‬دل کو یقیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫نسیم سحر‬

‫جانتا بھی ہوں وہاں اب وہ نہیں رہتا ہے‬


‫پھر بھی محسوس یہ ہوتا ہے وہیں رہتا ہے‬

‫جس پہ افلک کے دروازے کھلے ہیں و ہ بھی‬


‫جانے کیا سوچ کے پابنِد زمیں رہتا ہے‬

‫وہ مرے شہر سے جس دن سے ہوا ہے رخصت‬


‫میں کہیں رہتا ہوں‪ ،‬دل اور کہیں رہتا ہے‬

‫درمیاں اس کے مرے فاصلے جتنے بھی رہیں‬


‫وہ بہرحال مرے دل کے قریں رہتا ہے‬

‫خاک اڑتی ہوئی دیکھو تو تعجب نہ کرو‬


‫اسی کوچے میں تو یہ خاک نشیں رہتا ہے‬

‫کر دیا اس کو زمانے نے جدا مجھ سے مگر‬


‫‪،،‬مل ہی جائے گا کبھی ‪ ،‬دل کو یقیں رہتا ہے ‪،،‬‬
‫گھر کی ٹوٹی ہوئی چھت کے تلے خوش ہوں کہ یہاں‬
‫ش بریں رہتا ہے‬
‫بیکراں حوصلۂ عر ِ‬

‫جانے کس لمحہ یہ بستی بھی کھنڈر ہو جائے‬


‫زلزلہ ایک سدا زیرِ زمیں رہتا ہے‬

‫خوب جانو جو گماں تک ہی رسائی ہو جائے‬


‫اس سے اک دو قدم آگے ہی یقیں رہتا ہے‬

‫اجر اس کا بھی ملے گا یہ یقیں ہے مج ھ کو‬


‫ایک سجدہ جو جبیں میں ہی مکیں رہتا ہے‬

‫ایک مدت سے میں یوں گھر میں مکیں ہوں جیسے‬


‫ایک مدت سے یہاں کوئی نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫سید وحید القادری عارف‬

‫عشق میں یوں تو گماں پر بھی یقیں رہتا ہے‬


‫درِد دل ‪ ،‬دل میں مگر پھر بھی مکیں رہتا ہے‬

‫ہم اسے ڈھونڈتے رہتے ہیں بہر سو لیکن‬


‫گ جاں کے قریں رہتا ہے‬
‫وہ تو ہر وقت ر ِ‬

‫مسندیں سجتی رہیں جس کی دعاؤں کے طفیل‬


‫کسی گوشہ میں کوئی خاک نشیں رہتا ہے‬

‫بندۂ فقر کا ہے رمِز عبادت ہی جدا‬


‫وہ جہاں رہتا ہے سجدہ بجبیں رہتا ہے‬

‫ف نظر کے صدقے‬
‫اب تو یہ حال ہے اک لط ِ‬
‫کوئی منظر ہو نگاہوں میں حسیں رہتا ہے‬

‫کبھی اپنوں کی جو قدریں تھیں وہ غیروں میںملیں‬


‫بس یہی دیکھ کے یہ قلب حزیں رہتا ہے‬
‫ہوں گرفتاِر مصائب تو تعجب بھی نہیں‬
‫گ زمیں رہتا ہے‬
‫داِم دنیا بھی جو ہمرن ِ‬

‫میں تری بزم میں محسوس کیا جاتا ہوں‬


‫دور رہ کر بھی مرا دل تو وہیں رہتا ہے‬

‫بے خودی کی یہ منازل ہیں یہاں پر عارف‬


‫اپنی ہستی کا بھی احساس نہیں رہتا ہے‬
‫٭٭٭‬
‫‪ ۲۹‬جنوری ‪۲۰۱۱‬‬

‫ب زیست کے ُپرزے ُاڑا دئیے‘‘ ‪:‬‬


‫مصرعۂ طرح ‪َ’’ :‬میں نے کتا ِ‬
‫ط علی صبا‬‫سب ِ‬
‫احمد کامران‬

‫کچھ ہجر و حشر یونہی پڑے تھے‪ ،‬اٹھا دیے‬


‫’’ہم نے کتابِ زیست کے ُپرزے اڑا دیے‘‘‬

‫ہم لئے ہیں زمین کبھی آسمان پر؟‬


‫کیوں تم نے آسمان زمیں پر گرا دیے؟‬

‫ُتو ہاتھ کے حصار میں محفوظ خود کو جان‬


‫میں ہوں ناں تیرے ساتھ میرے رہنما دیے‬

‫یہ لو نہیں ہے رقصاں ہے تج ھ پر مرا وجود‬


‫لگتا ہے ُتو نے دیکھا نہیں آئینہ دیے‬

‫بیکار اپنی اپنی جگہ جل رہے ہیں ہم‬


‫چل انتظار ڈھونڈ کے لتے ہیں ‪ ،‬آ دیے!‬
‫٭٭٭‬
‫ارشد وٹو‬

‫ق یار نے غنچے کھل دئیے‬


‫تجدیِد عش ِ‬
‫ق رفو نے زخم نئے اور لگا دئیے‬
‫شو ِ‬

‫یوں بھی تمام عمر گزرنا تھی رائگاں‬


‫ب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬
‫’’میں نے کتا ِ‬

‫ح طرب کے نام پہ نعرے لگا کے پھر‬


‫صب ِ‬
‫اس نے چراغ شہر کے سارے بجھا دئیے‬

‫ت وفا میں دیکھ‪،‬کہاں سے کہاں تلک‬


‫دش ِ‬
‫ق سفر نے پاؤں کے چھالے بڑھا دئیے‬
‫شو ِ‬

‫منزل کی جستجو گئی ‪،‬زاِد سفر گیا‬


‫گرِد سفر نے راستے گھر کے بھل دئیے‬

‫ارشدؔ بیا ِ‬
‫ض درد سے کچ ھ شعر تو سنا‬
‫مدت ہوئی ہے زخِم وفا کو ہوا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫اشتیاق میر‬

‫غیروں نے میرے رستے کے کانٹے ہٹا دئیے‬


‫اپنوں نے میرے جسم پہ نشتر چل دئیے‬

‫جو نقش میرے عشق کے تھے سب مٹا دئیے‬


‫’’ہم نے کتاب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬

‫تم کو ہمیشہ ہم سے شکایت رہی مگر‬


‫ہم نے تمہارے واسطے سب غم بھل دئیے‬

‫یہ شہر ہے یا شہر خموشاں ہے دوستو‬


‫جس میں کہ ہم نے گود کے پالے سل دئیے‬

‫گل جس کو ہم نے پیش کیے تھے بہار میں‬


‫اس نے ہماری راہ میں کانٹے بچھا دئیے‬

‫پھر بھی نہ راس آئیں ہمیں لوگو روشنی‬


‫ہم نے تو روشنی کے لیے گھر جل دئیے‬

‫اب سر پھری ہوا سے کہو اس طرف نہ آئے‬


‫ہم نے چراغ خود ہی جل کر بجھا دئیے‬

‫ہم نے تو اس طرح سے گزاری ہے زندگی‬


‫جب بھی کسی نے طنز کیا مسکرا دئیے‬

‫میر اب خدا ہی خیر کرے اس جہان کی‬


‫ایک ایک قدم پہ لوگوں نے محشر اٹھا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫الیاس بابر اعوان‬

‫جس نے ہماری سانس پہ پہرے بٹھا دیئے‬


‫ہم نے اسی کو پیار کے نغمے سنا دیئے‬

‫بستی میں ایک گھر تھا شریکوں کے نام کا‬


‫دشمن نے دشمنی میں سبھی گھر جل دیئے‬

‫دانستہ آگیا ہوں مقابل اجل کے میں‬


‫ب زیست کے پرزے اڑا دیئے "‬
‫" میں نے کتا ِ‬

‫کس نے چرا لیا ہے فلک کا دھڑکتا دل‬


‫اور کس نے آسمان سے تارے گرا دیئے‬

‫ب خیرات میں بھی تھا‬


‫ان میں سے ایک طال ِ‬
‫دہلیز سے فقیر جو تو نے اٹھا دیئے‬

‫میں خاک عشق کھیلتا اس خارزار میں‬


‫اس نے تحفظات ہی پہلے بتا دیئے‬
‫ت سادہ تر‬
‫پہلے تھے آسمان زمیں طش ِ‬
‫پھر ہم نے جوڑ جاڑ کے رستے بنا دیئے‬

‫اس نے بھی ہم کو آنکھ سے آخر گرا دیا‬


‫ہم نے بھی اپنی آنکھ سے آنسو گرا دیئے‬

‫اک وہ کہ جس کے گھر میں ستارے اتر گئے‬


‫اک میں تمام رات بناتا رہا دیئے‬

‫میں مر گیا تو دشت بھی روئے گا دیکھنا‬


‫اک روز خود جلئے گی آ کر ہوا دیئے‬

‫آئی ہے موت بھاگ کے جاؤں کدھر کو میں‬


‫اعصاب اس نے سارے کے سارے تھکا دیئے‬

‫ہم کو ہماری رات کی تاریکیاں عزیز‬


‫لے جا کہیں پہ اور یہاں سے اٹھا‪ ،‬دیئے‬

‫مت پوچھیے ہمارے محافظ کی دوستو‬


‫ہم کو نہتا دیکھ کے نشتر چل دیئے‬

‫ہم نے عدو کے سامنے بس یا علی کہا‬


‫اس نے ہمارے سامنے گھٹنے ٹکا دیئے‬
‫دیکھی جو ایک لش پرندے کی تار پر‬
‫خ دل سے پرندے اڑا دیئے‬
‫میں نے بھی شا ِ‬
‫٭٭٭‬
‫امجد شہزاد‬

‫میں تو جل کے راہ میں رکھتا رہا دئیے‬


‫گزرا ہر ایک شخص بنا راستہ دیے‬

‫اک بار تو ہوا نے جلئے یہاں چراغ‬


‫اک بار پھر چراغ ہوا نے بجھا دیے‬

‫دیکھو یہ سارے پیار محبت کے روپ ہیں‬


‫چندا ‪ ،‬چراغ ‪ ،‬دھوپ ‪ ،‬شجر ‪ ،‬گھونسل ‪ ،‬دئیے‬

‫اندھا تمام عمر محبت کے نام پر‬


‫اولد کو جل کے دکھاتا رہا دئیے‬

‫ل دل‬
‫اک بار میں نے یار سے پوچھا جو حا ِ‬
‫اس نے ذرا سا ہنس کے ستارے گرا دیے‬

‫زندہ رہے تو عمر محبت میں کاٹ دی‬


‫موت آئی تو ہوا میں پرندے اڑا دیے‬
‫٭٭٭‬
‫امین شیخ‬

‫جو تھا جہاں جہاں ‪ ،‬وہیں مدفن بنا دیے‬


‫کس نے ہر اک مکان پر کتبے لگا دیے‬

‫ایسی بھی کیا خطا ہوئی ہم سے خدائے ابر‬


‫شہروں کے شہر لمحۂ یک میں بہا دیے‬

‫میرے سنہرے حرف بھی کالے لگے ُاسے‬


‫میں جس کے کالے حرفوں کو لکھتا رہا دیے‬

‫کھینچے گا وہ لکیر کبھی اس پہ ہجر کی‬


‫ُاس نے دلوں کے بیچ جو نقطے لگا دیے‬
‫ٓ‬
‫آ نا ہی تھا لپیٹ میں تیرا مکان بھی‬
‫کس نے کہا تھا بام پر رکھ کر جل دیے‬

‫افسوس ُاس کے گھر میں ُاجال نہ ہو سکا‬


‫درباروں پر جو روز جلتا رہا دیے‬

‫ُپوچھا جو ایک اندھے سے کیا چاہیے میاں‬


‫میرے قریب آ کے وہ کہنے لگا‪ ،‬دیے‬

‫وہ جو نہیں تو اس کی نشانی بھی کیوں رکھوں‬


‫اس کے سبھی خطوط ‪ ،‬تحائف جل دیے‬

‫اب دشمنوں سے دشمنی کا کیا ِگلہ امی ؔن‬


‫اس عشق نے دوست بھی دشمن بنا دیے‬
‫٭٭٭‬
‫برقی اعظمی‬

‫باد سموم نے مجھے تحفے یہ کیا دئے‬


‫جلتے ہوئے دئے مرے ُاس نے ُبجھا دئے‬

‫جس کے لئے میں لکھتا وہی جب نہیں رہا‬


‫ب زیست کے ُپرزے ُاڑا دئے‘‘‬
‫’’میں نے کتا ِ‬

‫یادوں کے وہ نقوش مجھے تھے بہت عزیز‬


‫ف غلط سمجھ کے جو ُاس نے مٹا دئے‬
‫حر ِ‬

‫میں دیکھتا ہی رہ گیا اور کچھ نہ کر سکا‬


‫جھنجھل کے سارے خط مرے ُاس نے جل دئے‬

‫ُاس کا عمل یہ ُمج ھ کو لگا سخت ناگوار‬


‫جتا دئے‬
‫احسان کر کے ُاس نے مجھے جب َ‬

‫میں جو سمجھ رہا تھا وہ تھا ُاس سے ُمختلف‬


‫پردے مری نگاہ سے ُاس نے ُاٹھا دئے‬

‫میں ُاس سے کیا بتاتا کہ کیا میں نے کھو دیا‬


‫ُاس نے کہا یہ مجھ سے مجھے تم نے کیا دئے‬

‫زندہ تھا جب تو ُاس نے مری قدر کچھ نہ کی‬


‫ُگلدستے ُاس نے قبر پہ میری سجا دئے‬

‫برقیؔ کی ُاس کے سامنے کوئی گلی نہ دال‬


‫جو ُگل ُاسے کھلنے تھے ُاس نے کھل دئے‬
‫٭٭٭‬
‫جواد جے‬

‫سب راز دل کے دل ہی میں ‪،‬میں چھپا دئیے‬


‫جو دیپ جل رہے تھے وہ سارے بجھا دئیے‬

‫بے کیف و بے مزہ تھی یہ شاید اسی لیے‬


‫ب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬
‫’’میں نے کتا ِ‬

‫نوکِ زباں پہ آئے تھے شکوے گلے مگر‬


‫لب پہ کسی خیال نے تالے لگا دئیے‬

‫ن دل‬
‫تھی عرصۂ دراز سے بنجر زمی ِ‬
‫بیج الفتوں کے کاہے کو تم نے دبا دئیے‬

‫آندھی نے کونپلوں کو تو دیں تھپکیاں مگر‬


‫مضبوط جو شجر تھے وہ جڑ سے ہل دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫حامد محبوب‬

‫)حامد محبوب مشاعرے میں شرکت نہیں کر پائے تھے یہ غزل انہوں نے مشاعرے کے‬
‫بعد کہی ہے(‬

‫اوندھے پڑے ہوئے ہیں ستارے ‪ ،‬ہوا‪ ،‬دئیے‬


‫بچے غریب ماؤں نے بھوکے سل دئیے‬

‫خ فلک سے گرِد مہ و سال اڑ گئی‬


‫چر ِ‬
‫ب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬
‫’’میں نے کتا ِ‬
‫‪.‬‬
‫زاِد سفر میں منزلیں حیراں پڑی رہیں‬
‫ن شوق نے رستے تھکا دئیے‬
‫ہم رہ روا ِ‬

‫جوش جنوں میں ہاتھ فلک پر نہیں پڑا‬


‫ل یار کے پشتے ہل دئیے‬
‫ہم نے خیا ِ‬

‫دل خوش ہوا تو آبلوں کو پھول کر دیا‬


‫دل بدگماں ہوئے تو ستارے بجھا دئیے‬

‫ل یار کی گرمی کو دیک ھ کر‬


‫ص وصا ِ‬
‫رق ِ‬
‫صحن خرد میں جلنے لگے بے بہا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫خالد خواجہ‬

‫اس یار بے وفا سے تعلق کے نام پر‬


‫کچھ خط ہی رہ گئے تھے سو وہ بھی جل دئیے‬

‫ہم ایک دل ہی توڑ کے پچھتائے عمر بھر‬


‫شاہوں نے بستیوں کے بھی نقشے مٹا دئیے‬

‫دل کے شجر پہ یار کے تیکھے نقوش کے‬


‫بیٹھے تھے جو پرند وہ کس نے اڑا دئیے‬

‫کچھ رفتگاں کے زرد حوالوں کی خیر ہو‬


‫دانستہ ہم نے واقعے کتنے بھل دئیے‬

‫مشہور تھا جو آہنی اعصاب کے لیے‬


‫حیراں ہوں آج اس نے بھی آنسو بہا دئیے‬

‫پھر منتخب کیا ہے لٹیروں کا راہبر‬


‫لوگوں نے انتخاب کے جوہر دکھا دئیے‬
‫جرار کے دئیے ہوئے مصرعے کی موج میں‬
‫ہم نے بھی چند شعر میاں گنگنا دئیے‬

‫مجبور تھے اصول کے ہاتھوں کچ ھ اس طرح‬


‫خالد جی ہم نے دوست بہت سے گنوا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫رحمان حفیظ‬

‫لمحوں کا رس کشید کیا اور بتا دیئے‬


‫ب زیست کے پرزے اڑا دئیے’’‬
‫’’میں نے کتا ِ‬

‫جن سے گریز کر کے فلک پر نگاہ کی‬


‫وہ نقش بادلوں نے فضا میں بنا دیئے‬

‫آنچ آ رہی تھی ان سے تمہارے وصال کی‬


‫آنکھوں نے آئینوں کے پرخچے اڑا دیئے‬

‫اس عشق کی تنی ہوئی رسی پہ عمر بھر‬


‫اس نے مجھے چلیا‪ ،‬بنا آسرا دیے‬

‫سہہ پاؤں گا میں کب تلک آلم عشق میں‬


‫فولد کا بنا دے مرا دل‪ ،‬خرادیئے !!‬

‫حیرت سے دیکھتا ہوں یہ منظر جمال کا‬


‫یہ دلفریب آنکھ یہ کچھ دلربا دئیے‬

‫اور اس کے بعد گہری خموشی کا راج تھا‬


‫جھرنوں نے اپنے گیت سمندر کو جا دیئے‬

‫ہم نے بھی اپنے دل کو سجایا تھا آنکھ میں‬


‫اس نے بھی اپنے بھید نظر کو بتا دیئے‬

‫ل رائیگاں مرا‬
‫ویراں پڑا ہوا تھا د ِ‬
‫اس کی نظر نے آج یہاں گل کھل دیے‬

‫شاید انہیں فنا و بقا کا شعور ہو‬


‫سہمے ہوئے سے سوچتے رہتے ہیں کیا دیئے‬

‫آنک ھوں کے آئینوں کو چٹخنا ہی تھا حفیظ‬


‫چہرے سے اس نے ہاتھ اچانک ہٹا دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫ؔ‬
‫سدرہ سح ر عمران‬

‫آخر امید کے بھی دئیے سب بجھا دیئے‬


‫کیا کیا ستم نواز نے غم جاں پہ ڈھا دیئے‬

‫اتنا قریب آ کے بچھڑ نے کا حوصلہ؟‬


‫مجھ میں نہیں تھا تو نے تو خط بھی جل دیئے‬

‫میں سوچ کے مکا ن میں بیٹھی تھی دیر سے‬


‫آ یا جو ُتو خیال کے پنچھی اڑا دیئے‬

‫کیسی گز ر رہی ہے تمہاری فراق میں ؟‬


‫میں نے جو حال پو چھا سمندر بہا دیئے‬

‫ب ہجر دیکھ لے‬


‫کچھ بھی رہا نہ پاس ش ِ‬
‫حا صل تھے زندگی کے جو لمحے گنوا دیئے‬

‫سامان کیا مل ہے بتا اس مکان سے؟‬


‫ب وفا ‪ ،‬دیئے‬
‫کچھ خواب ‪ ،‬زرد پھول‪ ،‬کتا ِ‬
‫اُ س کی وضاحتیں نہ کسی کا م آ سکیں‬
‫سمجھا لیا ہے دل کو‪ ،‬سبھی غم بھل دیئے‬

‫سنسان ہیں بہت ہی مرے گھر کے را ستے‬


‫چلنے کو ساتھ چل ُتو نظر میں جل ‪ ،‬دئیے‬

‫سفر کٹ گیا مرا‬ ‫انہی کی روشنی میں‬


‫آنکھوں میں رتجگوں نے جو تا رے سجا دئیے‬

‫دیر ہو چلی‬ ‫لو ٹنا تھا بڑی‬ ‫واپس بھی‬


‫اے در بدر حیا ت! نشاں سب مٹا دیئے؟‬

‫مجھ کو بجھا گئی تھیں زمانے کی آندھیاں‬


‫تجھ پر ہوا کا ہاتھ تھا ‪ُ،‬تو کیوں بجھا دیئے ؟‬

‫محفل میں تذکر ہ تھا کسی غم شناس کا‬


‫اتنے لطیف ُدکھ تھے ‪ ،‬سبھی مسکرا دیئے‬

‫مجھ کو خبر تھی اس کی ‪ ،‬پکا ر ا نہیں سح ؔر‬


‫برسوں گزر گئے ہیں اب اس کو صدا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫شوکت جمال‬

‫ہوش و حواس عشق میں جس کے گنوا دیے‬


‫اس نے ہی میرے ہوش ٹھکانے لگا دیے‬

‫ملنا تھا ان سے ہم کو ستاروں کی چھاؤں میں‬


‫دشمن نے ہم کو دن میں ہی تارے دکھا دیے‬

‫لوگوں نے مشورے تو بہت سے دیے مگر‬


‫جس کان سے سنے تھے اسی سے اڑا دیے‬

‫آئے وہ ٹارچ ہاتھ میں لے کر شب وصال‬


‫دل میں جو آرزو کے دیے تھے بجھا دیے‬

‫پوچھا کہ ہم سے بڑھ کے تمہیں چاہتا ہے کون‬


‫دس بیس نام اس نے فٹا فٹ گنا دیے‬
‫٭٭٭‬
‫طارق ہاشمی‬

‫ہم سر پھروں سے جیت نا پائے گی اے ہوا‬


‫ہے تجھ میں حوصلہ تو ادھر آ بجھا دیے‬

‫آئیں حضور آئیں کبھی پاس بھی تو آئیں‬


‫یہ کیا کہ صرف دیکھ لیا مسکرا دیے‬

‫میں تو سمجھ رہا تھا جلیں گے تمام رات‬


‫لیکن رہے ہیں ساتھ کبھی بے وفا دیے‬

‫تاریکیوں کا اس سے گل ہی غلط کیا‬


‫اس نے تو میرے شہر کے سب گھر جل دیے‬

‫روشن ت ھی جس سے بزم و ہ اٹھ کر چل گیا‬


‫پھر اسکے بعد پاس مرے کیا بچا دیے‬

‫طارق نصاب جاں کے ورق جب بکھر گئے‬


‫’’میں نے کتاب زیست کے پرزے اڑا دیے‘‘‬
‫٭٭٭‬
‫عائشہ حامد‬

‫اسکو ہی مجھ سے جب کوئی رغبت نہیں رہی‬


‫سب خط بھی اس کے میں نے سمیٹے‪ ،‬جل دئیے‬

‫پھر یوں ہوا کہ و ہ بھی مجھے بھولتا گیا‬


‫پھر یوں ہوا کہ میں نے بھی رشتے بھل دئیے‬

‫تجھ سے ملے تو سج سی گئی دل کی کائنات‬


‫چاہت نے تیری پھول سے مجھ میں کھل دئیے‬

‫دل مطمئن تھا کہ محافظ ہے وہ مرا‬


‫اس نے تو میری سوچ پہ پہرے بٹھا دئیے‬

‫آنگن میں اس لیے ہیں اداسی کے سلسلے‬


‫پنجرے سے میں نے خود ہی پرندے اڑا دئیے‬

‫اچھا ‪ ،‬وہ آ گئے ہیں ‪ ،‬ذرا ہم بھی دیکھ لیں‬


‫ہم کو بھی ہو گئے ہیں زمانے گلہ‬

‫شب بھر کو انتظار میں جلتا رہا دیا‬


‫جب جانے اس نے گھر کے دریچے جل دئیے‬

‫لکھا جو انتساب میں اس نے ’’خوشی کے نام‘‘‬


‫’’میں نے کتاب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬

‫دیکھا کیے نہ اس کو کئی روز ہو گئے‬


‫لگتا ہے اپنی زیست کے حصے بتا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫عقیل عباس جعفری‬

‫ویسے تو دل کے زخم سبھی کو دکھا دیئے‬


‫اس نے جو حال پوچھا تو ہم مسکرا دئیے‬

‫وہ رات کیا عجب تھی کہ بجھتے ہی اک چراغ‬


‫اک خیمہ گہ میں چہرے سبھی جگمگا دیئے‬

‫اس نے جو دل کا راستہ وا ہم پہ کر دیا‬


‫ہم نے بھی واپسی کے سفینے جل دیئے‬

‫ہم نے جو اس سے پوچھا سبب بے وفائی کا‬


‫اس نے ہمارے شعر ہمی کو سنا دیئے‬

‫سبط علی صبا کا یہ مصرع بھی خوب تھا‬


‫یاروں نے جس میں پھول سخن کے کھل دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫علی تاصف‬

‫جب دوستوں نے زخم مجھے جا بجا دیئے‬


‫’’میں نے کتابِ زیست کے پرزے اڑا دیئے‘‘‬

‫روشن ہوئے چراغ تری یاد کے جونہی‬


‫آنکھوں میں عکس درد کے سب جھلمل دیئے‬

‫تھا وقتِ امتحان یہ دونوں کے واسطے‬


‫تم نے ہوا کے ڈر سے دیے کیوں بجھا دیئے‬

‫ہم نے گلب رکھے تھے راہوں میں یاد کر‬


‫ُتو نے ہماری راہ میں کانٹے بچھا دیئے‬

‫ششدر سا رہ گیا میں عجب بت سا بن گیا‬


‫میرے بجھے چراغ ہوا نے جل دیئے‬

‫احوال میرا پوچھنے شب چاند آیا تھا‬


‫میں نے ِادھر ُادھر کے فسانے سنا دیئے‬
‫اک زلزلہ جو روح کے اندر گزر گیا‬
‫ُاس نے ستونِ دل مرے سارے ہل دیئے‬

‫ہم نے کیا ہے پیار کا جب تذکر ہھ کبھی‬


‫جانے وہ منہ ہی منہ میں کیا بڑ بڑا دیئے‬

‫لگتی ہے زہر ہم کو تری لج با خدا‬


‫بانہوں میں آئے بھی نہیں اور کسمسا دیئے‬

‫خفگی تمہاری‪ ،‬جان نکالے ہے جانِ جاں‬


‫ُروٹھے ہو جب بھی ہاتھوں کے طوطے ُاڑا دیئے‬

‫ہم نے کہے ہیں شعر بھی پھر حوصلے کے سات ھھ‬


‫کاندھے کسی نے پیار سے جب تھپتھپا دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫عمران سیفی‬

‫بھیگا ہر ایک لفظ جو آنسو بہا دئیے‬


‫ب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬
‫’’میں نے کتا ِ‬

‫کیسا عجب د ھواں یہ نواؤں سے ہے اٹھا‬


‫کس کے لبوں نے مرے نغمے جل دئیے‬

‫شکوے گلے سب آج ترے منتظر رہے‬


‫تو نے سنے تو سن کے ہنسی میں اڑا دئیے‬

‫اس نے کمال شوق سے دیکھا مری طرف‬


‫میں نے تو آئینوں کے سبھی فن جل دئیے‬

‫دل کا سکوں رات کی نیندیں جب اڑ گئیں‬


‫عمِر رواں نے ہجر کے لمحے جل دئیے‬

‫تقدیر کا یہ کھیل نہیں ‪ ،‬ہے ادا تری‬


‫اجڑے ہوئے نصیب جو مجھ کو تھما دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫فاتح الدین بشیر‬

‫کیا کیا ِنَعم نہ ُتو نے اے باِر خدا دیے‬


‫ق بدیع کار میں ہم نے گنوا دیے‬
‫شو ِ‬

‫ہم نے تو مّنتوں کے بھی دھاگے بڑھا دیے‬


‫جا‪ ،‬عشق کے مزار پہ اب ُتو چڑھا دیے‬

‫س ابیض آج بھی شائع نہ ہو تو کیا‬


‫قرطا ِ‬
‫ب زیست کے ُپرزے ُاڑا دیے"‬
‫"ہم نے کتا ِ‬

‫حر‬
‫بازاِر شام پر نہ ہوئی حشر تک س َ‬
‫ک سناں پر سجا دیے‬
‫شمس الّنہار نو ِ‬

‫تا‪ ،‬کشتگاں کی خاک اڑا پائے‪ ،‬پائے ناز‬


‫ق طلب کے کشتوں کے پشتے لگا دیے‬
‫شو ِ‬

‫سو فقط ہَوس کی دکانیں تھیںک ُھل رہی‬


‫ہر ُ‬
‫یاروں نے کاروباِر َمحّبت بڑھا دیے‬
‫٭٭٭‬
‫فاروق رحمان‬

‫یوں زندگی کے معنی کسی نے بتا دیئے‬


‫نم ریت پہ دو حرف لکھے اور مٹا دیئے‬

‫دیمک غموں کی چاٹ رہی تھی ورق ورق‬


‫"میں نے کتاب زیست کے پرزے اڑا دیئے"‬

‫دشمن سے ہار جیت کا کرنا تھا فیصلہ‬


‫تو واپسی کے ہم نے سبھی پل جل دیئے‬

‫تو بخش یا نہ بخش تجھے اختیار ہے‬


‫گزریں گے تیرے در سے نہ ہم بن صدا دیئے‬

‫کیسے کہوں کہ کتنا وہ کھل کر مل ہے آج‬


‫شرم و حیا کے سارے کبوتر اڑا دیئے‬

‫فاروق ان سے کوئی شکایت نہیں رہی‬


‫آنکھیں ملیں تو دھیرے سے وہ مسکرا دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫فرح اقبال‬

‫پھر سے کسی کے پیار نے غنچے کھل دئیے‬


‫دوِر خزاں کے نقش تھے جتنے مٹا دئیے‬

‫پوچھا کسی نے دوستی مہر و وفا ہے کیا‬


‫قصے تمہارے پیار کے ہم نے سنا دئیے‬

‫مدھم ہو اجو حرف محبت کتاب سے‬


‫’’ہم نے کتاب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬

‫ٹے تو تھے کہیں سے مگر راستہ نہ تھا‬


‫لو‬
‫آندھی نے نقش پا تھے جو سارے مٹا دئیے‬

‫بدلی ہوئی نگا ہ میں تیور تھے کچ ھ عجیب‬


‫ہم نے بھی سر جھکا دیا اور مسکرا دئیے‬

‫پوچھا تھا اتنے پیار سے اس نے ہمارا حال‬


‫جتنے بھی دل میں زخم تھے ہم نے دکھا دئیے‬
‫٭٭٭‬

‫قمر نقوی‬
‫اس نے جو نرخ اپنی وفا کے گھٹا دئے‬
‫ن عشق ہم نے بھی اپنے بھل دیئے‬
‫پیما ِ‬

‫دار و رسن کی نظر کئے ہم نے چار ہ گر‬


‫کتنے عظیم لوگ تھے ہم نے گنوا دیئے‬

‫اے رہنما کے جاگتے کتو ‪ ،‬گواہ رہو‬


‫ہم نے بلکتے بھوک سے بچے ‪ ،‬سل دیئے‬

‫یاروں نے ذاتیات کی ‪ ،‬سوئی سنبھال لی‬


‫اس نے انا کے جب بھی غبارے پھل دیئے‬

‫حاصل ہوا نہ ان کی روانی سے کچھ ہمیں‬


‫ہم نے سمندروں میں ہی ‪ ،‬دریا بہا دیئے‬

‫اس کو خبر تھی ہم نہ پئیں گے ب ڑھا کے ہات ھ‬


‫نظروں کے جام بیٹھے بٹھائے ‪ ،‬پل دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫قیصر محمود قیصر‬

‫بدنام ُاس نے مجھ کو سر عام یوں کیا‬


‫افسانے عاشقی کے سبھی کو سنا دیئے‬

‫اک نام کیا لیا تیرا محفل میں جان جاں‬


‫لوگوں نے میری بات کے قصے بنا دیئے‬

‫تو دوسروں کی نیند کا جب ہمسفر بنا‬


‫آنکھوں نے تیرے خواب پہ پردے گرا دیئے‬

‫چاروں طرف جو پھیلی تھیں لفظوں کی خوشبوئیں‬


‫غصے میں آ کے ُاس نے میرے خط جل دیئے‬

‫سو جرم پیار کے ہوں مگر یہ بھی سچ تو ہے‬


‫اس نے بہت سے لوگ تو شاعر بنا دیئے‬

‫پھولوں کا انتخاب کیا میں نے جب کبھی‬


‫دشمن نے میری راہ میں کانٹے بچھا دیئے‬

‫اس کو خبر تو ہوگی کہ گزرا کوئی تو ہے‬


‫گزر ے ہیں آج ہم بھی مگر بے صدا دیئے‬

‫سن لیا ہے وہ آئے گا شب ڈھلے‬


‫جب سے یہ ُ‬
‫ہم نے بھی ٹھہرے وقت کو پہئے لگا دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫قیصر مسعود‬

‫کرتے تھے شور شام سمے دل کے صحن میں‬


‫گھبرا کے تیری یاد کے پنچھی اڑا دیے‬

‫کیا جانیے وہ کون سے رستے سے آئے گا‬


‫ہم نے تمام شہر کے منظر سجا دیے‬

‫وہ مسکرا کے آج کھلے دل سے یوں مل‬


‫شکوے جو اس سے کرنے تھے سارے بھل دیے‬

‫اے رات تو بھی یاد کرے گی کبھی ہمیں‬


‫دیکھ آج تیرے ماتھے پہ جگنو سجا دیے‬

‫یہ زندگی بھی کوئی مثلث ہو جس طرح‬


‫اس کے بھی تین کونے ہیں محفل‪،‬ہوا‪،‬دیے‬
‫٭٭٭‬
‫گلناز کوثر‬

‫کتنے برس فراق کے یونہی گنوا دیے‬


‫عمر رواں کی تیز ندی میں بہا دیے‬

‫پھولوں سے مسکراتے ہوئے پر گداز لوگ‬


‫کس طرح ایک درد نے پتھر بنا دیے‬

‫اس نے بھی رکھ دیا یونہی لمحوں کو طاق پر‬


‫میں نے بھی کچھ نقوش بنائے مٹا دیے‬

‫کچھ زخم زخم شام نے گہنا دیے خیال‬


‫کچھ برف زار لہجوں نے آنسو جل دیے‬

‫پیڑوں پہ سرسراتی ہوئی چاندنی کے پاس‬


‫دل نے کسی کی یاد کے منظر بچھا دیے‬
‫٭٭٭‬
‫ماہ جبین غزل انصاری‬

‫’’میں نے کتاب زیست کے پرزے اڑا دئیے‘‘‬


‫جینے کے میں نے خود کو قرینے سکھا دئیے‬

‫جانے کدھر سے آیا کدھر کو چل گیا‬


‫اک اجنبی نے شہر کے رستے بھل دئیے‬

‫کچ ھ اس طرح اداسی دل و جاں پہ چھا گئی‬


‫ہم نے تھپک تھپک کے سب ارماں سل دئیے‬

‫بارش میں آسماں پہ پرندوں کو دیک ھ کر‬


‫پنجرے میں بند سارے پرندے اڑا دئیے‬

‫گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں بیٹھ کر‬


‫ہم نے تری یادوں کے نشاں سب مٹا دئیے‬

‫ہم کو نہ راس آئیں تری کج ادائیاں‬


‫مٹھی میں بند سارے ہی جگنو اڑا دئیے‬

‫آندھی مرے آنگن میں چلی اس طرح غزل‬


‫آنکھوں کے سامنے تھے جو پردے ‪ ،‬گرا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫مسعود قاضی‬

‫یو ں حسرت و امید کی تکلیف کیوں اٹھایئں ؟‬


‫ارمان خود ہی اپنے ٹھکانے لگا دیئے‬

‫تصویرِ یار ہم نے جل دی تو کیا ہوا؟‬


‫دل نے تو اس کے ُبت ہی بنا کر سجا دئے‬

‫بسُ اس پہ پاؤں دھر کے زمانہ چل گیا‬


‫غالیچہ ہم نے دل کے بنا کر بچھا دیئے‬

‫لب بستہ ہم جو تھے‪ ،‬تو رہے ہم پہ طعنہ زن‬


‫ہم نے جو کچھ کہا ‪ ،‬تو فسانے بنا دیئے‬

‫ان سے کہیں نہ سرد ہوئی جب جگر کی آگ‬


‫انگارے جو بچے تھے ‪ ،‬ہمی کو تھما دیئے‬

‫گو ہیں خراب و خستہ ‪ ،‬زمانے ! نہ ہم کو چھیڑ‬


‫ہم ہیں وہی ‪ ،‬جنہوں نے سفینے جل دیئے‬

‫گو اس کے آگے جل نہ سکا ہے کوئی چراغ‬


‫طوفان کے خلف ُتو اپنے جل دیئے‬

‫سوجھا نہ اہلِ بزم کو تاریکیوں میں کچ ھ‬


‫شب بھر جلے ہیں بزم میں میرے سوا دیئے‬

‫اشک رواں کی سیل پہ قابو نہ آ سکا‬


‫جو بند ‪ ،‬ضبطِ غم کے تھے ہم نے وہ ڈھا دیئے‬

‫مسعود ہم کو کیا پتہ گلشن کا ماجرا‬


‫کیا جانیئے بہار نے کیا ُگل کھل دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫منصور آ فاق‬

‫گھر چھوڑ آئے گاؤں کے رستے بھل دئیے‬


‫اس کی طلب نے پاؤں بھی پاگل بنا دئیے‬

‫پوچھی تھی اپنے یار کی میں نے کوئی پسند‬


‫آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا ‪ ،‬دئیے‬

‫برکھا کے شامیانے سے باہر ندی کے پاس‬


‫اس نے ہیں اپنی دھوپ سے پردے اٹھا دئیے‬

‫ب سیاہ سے لے آئے کالکیں‬


‫کہہ دو ش ِ‬
‫ق خدا دئیے‬
‫ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خل ِ‬

‫بول کناِر جھیل کوئی مجھ سے شب بخیر‬


‫پانی میں رنگ میں نے شفق کے گرا دئیے‬

‫ہم نے جل لیا ہے دلوں کے چراغ کو‬


‫کتنے بجھا سکے گی زمیں پر ‪،‬ہوا ‪،‬دئیے‬
‫اک شور سا بپا ہے مراسم کا شہر میں‬
‫اس نے ندی کے دونوں کنارے مل دئیے‬

‫بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں‬


‫کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دئیے‬

‫ف یار میں‬
‫بھادوں کی رات روتی ہے جب زل ِ‬
‫ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دئیے‬

‫کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی‬


‫میری یقین چاند ‪ ،‬مرا حوصلہ دئیے‬

‫ل ضبط کی منصور خیر ہو‬


‫اس کے کما ِ‬
‫کیسے تمام وصل کے لمحے بھل دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫نادر درانی‬

‫پلکوں کی نوک نوک پہ موتی سجا دئے‬


‫دل بھر گیا جو غم سے تو آنسو بہا دئے‬

‫اس دھوپ میں پگھلتی ہوئی برف کے لئے‬


‫پانی نے بستیوں میں بھی رستے بنا دئے‬

‫سینے میں غم کی آگ نے نشہ ب ڑھا دیا‬


‫تھوڑے سے جب شراب میں آنسو مل دئے‬

‫شاید کہ مل گیا ہو سکون ان کی روح کو‬


‫گ خشک ہم نے خزاں کے جل دئے‬
‫کچھ بر ِ‬

‫افسانہ حرف حرف فضا میں بکھر گیا‬


‫ب زیست کے پرزے اڑا دئے‘‘‬
‫’’ہم نے کتا ِ‬

‫صیاد نے کچھ آج دیا اسطرح سے پیار‬


‫پنچھی کے سارے زخم پروں میں چھپا دئے‬
‫٭٭٭‬
‫نسرین سید‬

‫وہ آفتاب چہرے کہاں پر چھپا دئیے‬


‫کیسے خزانے خاک میں تو نے مل دئیے‬

‫تھی جن کے علم و فن سے زمانے میں روشنی‬


‫اے آسمان تو نے وہ سورج بجھا دئیے‬

‫اس عرق انفعال کی قیمت تو دیکھتے‬


‫یہ کیا کیا کہ خاک میں موتی گرا دئیے‬

‫اک قید تھی وہ جبر مسلسل کی‪ ،‬اور کیا‬


‫’’میں نے کتاب زیست کے پرزے اڑا دئیے ‘‘‬

‫دیکھا ہے جب سے پیار سے اس نے مجھے ندیم‬


‫لوگوں نے کیسے کیسے ہیں طوفاں اٹھا دئیے !!‬

‫بے مہری زمانہ سے ٹھٹھرا ہوا ہے جسم‬


‫مدت ہوئی ہے اس کو بدن پہ قبا دئیے !‬

‫دیکھا یہ جب‪ ،‬کہ شہر میں ہے جنگلوں کا راج‬


‫شہروں کو چھوڑا ہم نے بھی جنگل بسا دئیے‬

‫تو کیا ہوا جو وہ مجھے رکھتا عزیز ہے‬


‫تم نے ذرا سی بات کے قصے بنا دیئے‬

‫پھر آج اس کی یادوں کی گٹھری کو کھول دوں‬


‫مدت ہوئی ہے ہاتھوں کو رنگ حنا دیئے‬

‫کل رات اس کی یاد نے وہ معجزے کئے‬


‫سو ہم بھی اس کی یاد کو شب بھر دعا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫ؔ‬
‫نسیم سح ر‬

‫ِاس شہِر بے چراغ میں روشن ہوں کیا دئیے؟‬


‫مایوسیوں نے لوگوں کے دل جب بجھا دئیے‬

‫چے گھروں کا ذکر ہی کیا کیجئے یہاں !‬


‫کّ‬
‫سیلب نے تو ُپختہ مکاں بھی ِگرا دئیے‬

‫کیا شہر میں رہے بھل امن و اماں کی آس‬


‫ہر سمت دندناتے پھریں جب فسادئیے‬

‫پانی میں اب ُاتر کے ہی ہونا ہے فیصلہ‬


‫ہم نے ڈبوئیں کشتیاں اور ُپل ِگرا دئیے‬

‫یہ شِّدت خلوص کا ِاک معجز ہ ہی تھا‬


‫ُبجھ کر بھی َرہ ِدکھاتے رہے بارہا دئیے‬

‫ہم جانتے تھے ُان پہ نہ چل پائے گا کوئی‬


‫ش قدم ہی ِمٹا دئیے‬
‫سو ہم نے اپنے نق ِ‬

‫شب بھر تو تیرگی کی ِددا میں بسر ہوئی‬


‫سورج کی روشنی میں دئیے کیوں جل دئیے؟‬

‫ساحل کی آرزو ہمیں برباد کر گئی‬


‫پانی میں تھے جو قیمتی گوہر‪،‬گنوا دئیے‬

‫ح آب پہ رقصاں تھی روشنی‬


‫تا دیر سط ِ‬
‫ب رواں میں بہا دئیے‬
‫ہم نے دئیے جب آ ِ‬

‫سر کہاں نسی ؔم‬


‫یہ حوصلہ ہر ِاک کو می ّ‬
‫جس ُدکھ کا سامنا ہوا‪،‬ہم ُمسکرا دئیے‬
‫٭٭٭‬
‫نسیم سحر‬

‫آندھی نے شہر بھر کے شجر جب ِگرا دئیے‬


‫مجبور ہوکے َمیں نے پرندے ُاڑا دئیے‬

‫ُتو آندھیوں سے خوفزدہ کیوں ہے اس قدر؟‬


‫تاریک شب میں گھر سے نکل‪ ،‬اور جل دئیے!‬

‫ُدنیا میں گھوم کر بھی نہ ُتم دیکھ پاؤ گے‬


‫ہم نے یہیں پہ ُتم کو جو منظر ِدکھا دئیے‬

‫ظاہر میںک ُھل کے رو نہ سکے ہم‪،‬تو کیا ہوا‬


‫دو آنسوؤں میں ہم نے سمندر بہا دئیے‬

‫ل ُاداس بیاں جب نہ کر سکا‬


‫لدِ‬
‫حا ِ‬
‫سنا دئیے‬
‫اپنی غزل کے شعر سب ُاس کو ُ‬

‫ُاس کی نگا ِہ خاص کاکرنا ہے اعتراف‬


‫جدا دئیے‬
‫ُاس کا کر م ہے‪ ،‬غم ُمجھے سب سے ُ‬

‫لکھے تھے خط ‪،‬مگر ُاسے بھیجے نہ تھے کبھی‬


‫پھر یوں ہوا کہ َمیں نے ُوہ سب خط جل دئیے‬

‫میرا سوال ایسا بھی مشکل نہ تھا‪،‬مگر‬


‫ُاس نے جواب دینے میں عرصے لگا دئیے‬

‫جس رہگذر سے آنا تھا ِاس شہر میں ُاسے‬


‫ستارے ِبچھا دئیے‬
‫ُاس رہگذر پہ َمیں نے ِ‬

‫بوسیدہ ہو چکی تھی بہت‪ِ ،‬اس لئے نسی ؔم‬


‫ب زیست کے ُپرزے ُاڑا دئیے‘‘‬
‫’’َمیں نے کتا ِ‬
‫٭٭٭‬
‫نصیر احمد ناصر‬

‫)منصور‪ ،‬رحمان حفیظ اور اسد کی نذر(‬

‫پتلے جل دیئے کبھی پرچم جل دیئے‬


‫اپنے تھے سارے لوگ جو دشمن بنا دیئے‬

‫خوش ہو رہا ت ھا چ ھت پہ انہیں دیک ھ دیک ھ کر‬


‫اس نے اچانک آ کے پرندے اڑا دیئے‬

‫اک خواب کی تلش میں چلتے رہے سدا‬


‫ہم نے خود اپنی راہ میں رستے بچھا دیئے‬

‫کیسا طلسم خواب تھا آنکھوں کے اس طرف‬


‫آب رواں سے لوگ بھی پتھر بنا دیئے‬

‫کچھ دیر اپنے خواب کی تنہائی میں پھرے‬


‫پھر چاند کی زمین پہ بستر لگا دیئے‬

‫ہم نے محبتوں کو پس خواب رک ھھ دیا‬


‫آنکھوں میں اجنبی سے تناظر جگا دیئے‬
‫سب دیکھ لیں کہ کیا ہے حقیقت خیال کی‬
‫میں نے فریب ذات کے پردے ہٹا دیئے‬

‫کیا کیا حسین صورتیں غم سے پگھل گئیں‬


‫اس بھوک نے تو جسم کے پتھر گل دیئے‬

‫رنگوں کی اک مہین سی چادر تنی رہی‬


‫اس نے لباس جسم کے پردے اٹھا دیئے‬

‫کیسا طلسم یاد تھا‪ ،‬پھل پھول کی جگہ‬


‫آنگن کے سبز پیڑ پہ چہرے لگا دیئے‬

‫کتنے عجیب لوگ تھے‪ ،‬مل کر بچھڑ گئے‬


‫ہم نے بھی ان کی یاد میں آنسو بہا دیئے‬

‫منصور اور حفیظ نے سوچے تھے جو اسد‬


‫میں نے وہ سارے شعر کہے بن سنا دیئے‬

‫ناصر کمال عمر تھا یا وقت کا شعور‬


‫اک پل کی زندگی میں زمانے بتا دیئے‬

‫کہنے کو موج آب تھی‪ ،‬آ کر گزر گئی‬


‫کتنے حسیں تھے نقش جو اس نے مٹا دیئے‬
‫٭٭٭‬
‫سید وحید القادری عارف‬

‫پہلے تو اپنی عمر کے لمحے گنوا دئے‬


‫پھر یہ ستم سمجھنے زمانے لگا دئے‬

‫ہم کو وفوِر شوق کے کچھ تجربات نے‬


‫س وفا سب سکھا دئے‬
‫ب زیست‘ پا ِ‬
‫آدا ِ‬

‫اندازہ خوب ہے ہمیںرا ِہ شعور کا‬


‫کچھ غم نہیں دیے جو کسی نے بجھا دئے‬

‫کیسے گذاری کس طرح گذری نہ پوچھئے‬


‫جینے کی ایک رسم تھی جی کر نبھا دئے‬

‫آہیں بھی تھیں لبوں کے تبسم کے آس پاس‬


‫دل مضمحل جو ہو گیا لب مسکرا دئے‬

‫ہم کو جواب اپنے سوالت کا مل‬


‫لیکن نئے سوال بھی اس نے اٹھا دئے‬
‫کچھ حرف مٹ گئے تھے یہ سچ ہے مگر یہ کیا‬
‫ب زیست کے سارے جل دئے؟‬
‫صفحے کتا ِ‬

‫ساری حقیقت آج سِر عام آ گئی‬


‫پردے نیاز و ناز کے اس نے گرا دئے‬

‫دریا دلی کا ان کی کوئی ذکر کیا کرے‬


‫قطرہ کا تھا سوال سمندر بہا دئے‬

‫اب منتظر ہیں ہم کرِم بے شمار کے‬


‫غم بھی تو دینے والے نے بے انتہا دئے‬

‫عارف سلیقہ آگیا طرِز حیات کا‬


‫س بقا دئے‬
‫ف فنا نے خوب یہ در ِ‬
‫خو ِ‬
‫٭٭٭‬
‫ترتیب‪ :‬اسد ضیاء‬
‫پروف ریڈنگ‪ :‬اعجاز عبید‬

‫اردو لئبریری ڈاٹ آرگ‪ ،‬کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ‪ 250‬فری‬
‫ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش‬
‫‪A presentation of http://urdulibrary.org,‬‬
‫‪http://kitaben.ifastnet.org , and http://kutub.250free.com‬‬

You might also like