You are on page 1of 3

‫اردو زبان کے بارے میں مختلف نظریات‬

‫اردو زبان کی ابتدا سے متعلق ماہرین علم و ادب نے اپنے اپنے نظریات پیش کئے ہیں۔ یہ تمام نظریات‬
‫ایک دوسرے کے خالف معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں ہم خیالی کا فقدان ہے۔‬
‫خسرو کا زمانہ تیرھویں عیسوی صدی کے‬ ‫ؔ‬ ‫اردو میں سب سے قدیم شاعر امیر خسرو کا کالم ملتا ہے ۔‬
‫خسرو نے اپنی مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ میں‬
‫ؔ‬ ‫نصف سے چودھویں صدی عیسویں کے ربع اول کا زمانہ ہے۔‬
‫ہندوستان کی ‪ ‘۱۲‬بولیوں میں ’’زبان دہلی‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دہلی‬
‫اور اس کے نواح میں دھیرے دھیرے زبان بن رہی تھی۔ اور یہ بننے کا عمل امیر خسرو سے سو دو سو‬
‫سال پہلے شروع ہوا ہوگا لیکن زبان کے نمونے اور ان کی دستاویزات موجود نہیں ہونے کی وجہ سے‬
‫انشاء امام بخش صہبائی نے اردو کی پیدائش‬ ‫ؔ‬ ‫صحیح وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ میرامن دہلوی‘‬
‫کے لئے یہی بتایا کہ مسلمانوں کی آمد کے بعد مقامی لوگوں کے اشتراک سے یہ زبان بنی۔ میرامن نے‬
‫’’باغ و بہار‘‘ میں اردو کے لئے یہ نظریہ دیا ۔ اردو کی ابتدا عہد اکبری میں ہوئی اور عہد شاہ جہانی میں‬
‫اس نئی زبان نے برگ و بار حاصل کئے‬
‫۔‬

‫‪۱‬‬ ‫‪:‬۔ محمد حسین آزاد کا نظریہ‬


‫محمد حسین آزادکا اردو کی پیدائش کے سلسلہ میں یہ نظریہ ہے کہ اردو کی پیدائش برج بھاشا سے ہوئی۔‬
‫انھوں نے اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں جہاں ایک طرف شعرائے اردو کے کالم و حاالت پر اظہار خیال کیا‬
‫ہے وہیں دوسری جانب اردو کی ابتدا کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ ’’آب حیات‘‘ میں وہ فرماتے‬
‫ہیں ’’اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص‬
‫‘‘ہندوستان کی زبان ہے۔‬
‫آزاد نے اس بات پر زور دیا کہ اردو کی‬
‫برج کا عالقہ دہلی اور متھرا کے آس پاس ہے۔ محمد حسین ؔ‬
‫پیدائش میں مقامی عالقے کے زبان یعنی برج بھاشا کا اہم رول ہے۔ وہ کسی حد تک میرامن دہلوی کے‬
‫اس نظریہ سے اتفاق کرتے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مغلوں کے زمانے میں آگرہ کو مرکزی حیثیت‬
‫حاصل تھی اور اس کے گردو نواح میں برج بھاشا کے اثرات سے اردو نے جنم لیا۔‬
‫اردو میں برج بھاشا کے الفاظ کا استعمال بھی ہوا ہے۔ آزاد کے اس نظریہ کو ماہرین لسانیات نے مسترد‬
‫کردیا کیونکہ اردو اور برج بھاشا کے ضمائر اور افعال میں بڑا فرق ہے۔‬

‫‪:‬سید سلیمان ندوی کا نظریہ ‪.2‬‬


‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ‬ ‫اردو کی ابتدا سندھ میں ہوئی۔ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ’’نقوش سلیمانی‘‘ میں یہ‬
‫اردو کے ابتدائی نقوش مسلمانوں کی فرح سندھ کے بعد سے ملتے ہیں۔ اس لئے وہ اردو کی پیدائش سندھ‬
‫کو قرار دیتے ہیں۔ تاریخی اور لسانی بنیادوں پر ثابت کرتے ہیں۔‬
‫اردو کے سرماےۂ الفاظ میں عربی ‘ فارسی کے عناصر کی موجودگی ہے۔ مسلمان سب سے پہلے ساحلی‬
‫عالقوں سے سندھ اور مالبار آئے۔‬
‫محمد بن قاسم نے ‪ 712‬ء میں سندھ کو فتح کیا اس سے پہلے بھی مسلمانوں کیقافلے تجارت کی غرض‬
‫سے ہندوستان آتے تھے۔ الغرض مسلمان یہاں آکر بس گئے۔ انھوں نے سندھ میں اسالمی حکومت قائم کی‘‬
‫ان کی زبان عربی تھی۔ ہندوستانی زبان اور عربی زبان میں رابطہ ہوا۔ وہ ایک دوسرے کی زبان کا‬
‫‪:‬استعمال کرنے لگے۔ سید سلیمان ندوی ’’نقوش سلیمانی‘‘ میں اپنے نظریے کو اس طرح پیش کرتے ہیں‬
‫مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ’’‬
‫‘‘ہیں اس کا ہیوال اس وادئی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔‬
‫سید سلیمانندوی کے قیاس پر مبنی اس نظریہ کو ماہرین لسانیات نے مسترد کردیا کیوں کہ سندھ کے‬
‫عالقے میں سندھی زبان بولی جاتی تھی اردو نہیں۔ سندھی پر عربی کے اثرات ضرور پڑے اس میں بہت‬
‫سے الفاظ عربی کے ہیں یہاں تک کہ سندھی کا رسم الخط بھی عربی کا ہی ہے۔‬

‫ْ‬
‫‪:‬نصیر الدین ہاشمی کا نظریہ ‪.3‬‬
‫نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ’’دکن میں اردو‘‘ میں سید سلیمان ندوی کی رائے کو سامنے رکھتے‬
‫ہوئے بتایا کہ فتح سندھ سے پہلے دکن کے عالقے میں عرب مسلمانوں کی آمد ہوئی جن کا تعلق مقامی‬
‫لوگوں سے ہوا اس لئے اردو کی پیدائش دکن میں ہوئی۔ پندرہویں صدی سے سترہویں صدی کے دوران‬
‫‪:‬دکن میں اردو کا بول باال تھا۔ نصیر الدین ہاشمی کا نظریہ ہے‬
‫بعض علماء اردو کی پیدائش کا عالقہ سندھ کو بیان کرتے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو ’’‬
‫پھر ماالبار عالقہ بھی کھڑی بولی اردو کی پیدائش کا خطہ کہا جائے گا‘ کیونکہ فتح سندھ سے بہت‬
‫‘‘عرصہ پیشتر اس عالقے میں عرب آباد تھے۔‬
‫نصیر الدین ہاشمی کانظریہ تسلیم نہیں کیا گیا کیوں کہ دکن میں جو زبانیں بولی جاتی تھی وہ ملیالم‘ تامل‬
‫اور کنڑ تھیں۔ یہ زبانیں دوسرے لسانی خاندانی دراوڑی سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ اردو ہند آرہائی زبان‬
‫ہے ٰلہ ذا دکن کی زبانوں اور عربی کے اختالط سے اردو کاوجود ہونا ناممکن ہے۔‬
‫کچھ ماہرین نے اردو کی پیدائش پنجاب سے بتائی ہے جہاں دسویں اور گیارھویں صدی عیسوی میں کافی‬
‫مسلمان درۂ خیبر کی طرف سے پنجاب میں آئے اور یہیں بس گئے۔ ان کا مقامی لوگوں سے میل جول ہوا۔‬
‫وہیں اردو پیدا ہوئی ‘ پنجاب کے اثرات اردو میں آئے۔‬
‫پنڈت کیفی نے الہور سے دہلی تک کی قدیم زبان کو اردو کی پیدائش مانا۔ سنیتی کمار چٹرجی نے ’’انڈ‬
‫آرین اینڈ ہندی‘‘ میں کیفی کی تائید کی۔ ٹی گراہم بیلی نے اردو کی ابتدا پنجاب سے بتائی۔‬
‫جارج گریرسن نے ’’لسانی جائزہ ہند‘‘ میں اردو کی پیدائش باالئی دو آبہ اور روہیل کھنڈ کی بولی ورنا کلر‬
‫ہندوستانی سے مانا ہے ژول بالک ہریانوی سے اردو کی پیدائش بتاتے ہیں۔‬

‫‪:‬محمود شیرانی کا نظریہ ‪.4‬‬


‫ردو پنجاب سے پیدا ہوئی‪ :‬محمود شیرانی نے ‪۱۹۲۸‬ء میں ’’پنجاب میں اردو‘‘ لکھی۔ انھوں نے لسانی اور‬
‫تاریخی حوالوں سے اردو کی ابتدا پر پنجاب کے گہرے اثرات بتائے۔ انھوں نے قدیم پنجاب اور قدیم اردو‬
‫کا موازنہ کرکے یہ فیصلہ دیا ۔ انھوں نے سرماےۂ الفاظ ‘ صرف و نحو‘ اور تاریخ و ارتقائی بنیاد پر‬
‫فیصلہ دیا۔ اور غیر مطبوعہ کتابوں اور مخطوطات کو پیش کیا۔ پروفیسر شیرانی نے پنجابی زبان کے‬
‫افعال اور ضمائر کی اردو سے مماثلت بتاتے ہوئے اپنانظریہ پیش کیا۔‬
‫اردو پنجابی کے امتزاج اور اردو کی ابتدائی تاریخی تنقیدی لسانی اور ترویجی اہمیت کو عالمانہ وضاحت‬
‫کے ساتھ پیش کیا۔ اور اردو زبان کے پنجاب میں پیدا ہونے اور اس کے فروغ پانے کا نیا سراغ نکاال۔‬
‫پروفیسر شیرانی اردو زبان کا رشتہ پنجابی ٰلہندا۔ ہریاننظریہ یہ ہے کہ ’’چونکہ نویں صدی ہجری میں بہت‬
‫سے خاندان پنجاب سے نکل کر دہلی آئے ہیں۔ ان کے لشکر پنجاب اور پنجابیوں سے تعلق رکھتے تھے‬
‫اس لئے کوئی تعجب نہیں اگر ان نوواردوں نے دہلی کی زبان پر اثر ڈاال ہو‘‘ (مقدمہ پنجاب میں اردو)‬
‫‪:‬پروفیسر شیرانی آگے فرماتے ہیں کہ‬
‫اردو دہلی کی قدیم زبان نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے۔ اور چونکہ مسلمان پنجاب سے ’’‬
‫ہجرت کرکے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھ لے کر گئے ہوں‬
‫‘‘گے۔‬
‫مسعود حسین خاں نے ‪ ۱۹۴۸‬ء میں اپنی کتاب ’’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘‘ میں محمود شیرانی کی تردید کی‬
‫اور بتایا کہ محمود شیرانی نے جو پنجاب کی خصوصیات کو بنیاد بنایا ہے وہ سب ہریانوی میں موجود‬
‫ہیں۔‬
‫محی الدین قادری زور نے مسعود حسین صاحب سے اختالف کیا انھوں نے کہا کہ ہریانوی اردو کے بعد‬
‫کی زبان ہے محی الدین قادری زور ہندوستانی لسانیات ہی میں اردو کی ابتدا پنجابی اور ہریانوی دونوں‬
‫کی طرف دکھائی بعد میں انھوں نے پنجاب کو ہی اہمیت دی۔‬
‫محی الدین قادی زور اور محمود شیرانی کے نظریہ کو ماہرین لسانیات نے مسترد کردیا اس طرح اردو‬
‫کی پیدائش کے نظریات ایک مسئلہ بنے رہے۔ اردو کی پیدائش کے سلسلہ میں قدیم ماہرین نے جو نظریات‬
‫پیش کئے تھے انھیں مسترد کردیا۔ اور اپنے جدید نظریے پیش کئے جو لسانیات پر مبنی ہیں۔‬

‫‪: ‬ڈاکٹر مسعود حسین خاں کا نظریہ ‪5-‬‬


‫اردو دہلی کے نواحی عالقہ میں پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے ’’مقدمہ تاریخ زبان اردو‘‘ ‪1948‬ء‬
‫میں اپنا مستند نظریہ دیا۔ انھوں نے پچھلے نظریوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کیا۔‬
‫ان کے مطابق قدیم اردو کی تشکیل براہ راست ہریانی کے زیر اثر ہوئی۔ اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے‬
‫اثرات پڑتے ہیں۔ اور پندرھویں صدی عیسوی میں آگرہ دار السلطنت بن جاتا ہے اور کرشن بھکتی کی‬
‫تحریک کے ساتھ برج بھاشا عام طور پر مقبول ہوجاتی ہے تو سالطین دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان‬
‫کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعہ درست ہوتی ہے۔‘‘نواح دہلی کی یہ بولیاں (ہریانی‘ کھڑی بولی‬
‫اور برج) اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہیں اور حضرت دہلی اس کا صحیح مولد و منشا‘ لیکن ایک‬
‫زبان کے طور پر اردو کی ابتداء اس طرح ممکن ہوسکی جب مسلمانوں نے دہلی پر اقتدار حاصل کرلیا‘‘۔‬
‫پروفیسر گیان چند جین نے اردو کی پیدائش کے سلسلہ میں یہ نظریہ دیا کہ اردو کھڑی بولی کا روپ ہے۔‬
‫بہرحال پروفیسر مسعود حسین خاں کے نظریہ کو ماہرین لسانیات نے تسلیم کرلیا ہے۔‬
‫ان تمام نظریات کی بحث کا ماحصل یہ ہے کہ کھڑی بولی سے اردو پیدا ہوئی جو دہلی کے نواحی‬
‫عالقوں‘ مرادآباد میرٹھ اور قنوج میں بولی جاتی تھی۔ بعد میں یہی زبان ہندوستان کے دوسرے عالقوں‬
‫میں پھیلتی گئی۔ اپنی ابتدا سے لے کر آج تک اردو کو کئی نام دئے گئے مثالً ہندی‘ ہندوی‘ہندوستانی‘‬
‫ریختہ اور اردوئے معلی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آخر میں زبان نام اردو رکھا گیا۔ اور یہ ہندوستان کی گنگا‬
‫جمنی تہذیب کی علمبردار بن گئی۔‬
‫مسعود حسین خاں کے نظریہ سے کئی ماہر لسانیات نے اتفاق کیا۔ ان میں سہیل بخاری‘ گیان چند جین‘‬
‫مرزا خلیل احمد بیگ اور انصار ہللا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان تمام ماہرین نے اردو اور کھڑی بولی‬
‫کے رشتہ کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ مزید یہ امید کی جاتی ہے کہ ماہرین لسانیات اور محققین اردو کی‬
‫ابتداء کے متعلق تحقیقی سفر جاری رکھیں گے‬

You might also like