You are on page 1of 4

‫محمد شہزاد‬

‫طبلہ بجانا پہلوانی سے کم نہیں۔ پہلوان تو تیس چالیس برس میں فارغ ہو جاتا ہے۔ بہت سارے طبلیوں‬

‫کا دم خم بھی لگ بھگ اسی عمر میں ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر ریاضت سے انسان بڑھتی عمر‬

‫کو بھی شکست دے سکتا ہے۔ دنیائے> موسیقی میں اس قسم کی چند مثالیں موجود ہیں۔‬

‫احمد جان تھرکوا ‪ 84‬برس کی عمر میں بھی سٹیج پر طبلہ بجا رہے تھے۔ شیو کمار شرما جن کا حال‬

‫ہی میں انتقال ہوا بھی ‪ 84‬برس کی عمر میں سنتور بجا رہے تھے۔ مگر سنتور پہلوانی واالساز نہیں۔‬

‫طبلےبجانے کے لیے جس زاویے سے بیٹھنا پڑتا ہے وہ انسان کے گٹے گوڈے توڑنے کے لئے کافی‬

‫ہے۔ میں ذاتی طور ہر کچھ ایسے فنکاروں کو جانتا ہوں جو ستر برس کے ہو چکے مگر انکا فن ابھی‬

‫تک جوان ہے۔ آج کا مضمون طبلہ نواز عبدالستار تاری کے بارے میں ہے۔‬

‫تاری ‪ 70‬برس کے ہونے والے ہیں۔ پر نہ تو ان کے طبلے کی رفتار کم ہوئی‪ ،‬نہ انگلیوں اور ہاتھ کا‬

‫وزن ہلکا ہوا۔ نہ انہیں دیر تک سٹیج پر بجانے کے لئے اپنی بھیٹک تبدیل> کرنا پڑی۔ اور نہ کچھ ایسا‬

‫ہوا جیسا سب ہی کے ساتھ اتنے عرصے میں ہو ہی جاتا ہے۔ یعنی اپنے کام ہو دہرانا۔ وہی گھسا پٹہ کام‬

‫ہر سب ملن میں پیش کر دیا۔‬

‫تاری کا طبلہ دن بہ دن نکھر رہا ہے۔ اور کھٹن سے کھٹن ہوتا جا رہا ہے۔ اگر میں تکنیکی چیزوں کو‬

‫لکھنا شروع کر دوں تو عام قاری بیزار ہو جائے گا۔ اتنا ضرور کہوں گا کے طبلے کے بول تو ساری‬

‫دنیا میں ایک جیسے ہی ہیں جیسے بارہ سر ہیں۔ مگر سر لگانے کے طریقے سے فنکار امر ہوتا ہے۔‬

‫تاری کے کام میں یہ بات اتم پائی جاتی ہے۔ ایک تو طبلہ اتنا مکمل سر ہوتا ہے کہ سننے والے کے‬

‫کانوں میں رس گھولتا ہے۔ اور رتی برابر بھی سر اوپر نیچے ہو جائے تو تاری کو فوراً محسوس ہو‬
‫جاتا ہے۔ جب تک طبلہ دوبارہ اسی سر پر نہ آئے تاری نہیں بجانے کا۔ میں نے تاری کو دیکھا ہے‬

‫طبلہ سر کرتے۔ بیس بیس منٹ بیت جاتے ہیں پر طبلہ ایسا سر ہوتا ہے کی جیسے طانپورہ بول رہا‬

‫ہوں۔ شہد جیسی مٹھاس ہے اس فنکار کے طبلے میں۔‬

‫تاری کا سب سے بڑا احسان موسیقی پر سنگت کے حوالے سے ہیں۔ ساری دنیا کے طبلیے سن لیں۔‬

‫کیا ذاکر حسین‪ ،‬کیا آنندو چٹرجی کیا کمار بوس اور ان سب کے بزرگ‪ ،‬جو سنگت غزل‪ ،‬گیت‪ ،‬قوالی‪،‬‬

‫فلمی گانے اور بلمبپت میں کالسیکل گانے میں تاری نے کی‪ ،‬کسی اور سے ہو ہی نہ سکی۔ غالم علی‬

‫کی کامیابی میں تاری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چند وجوہات کی بنا پر غالم علی اور تاری کی جوڑی ٹوٹ‬

‫گئی۔ کیوں؟ یہ لمبی بات ہے۔ پھر کبھی سہی! غزل گیت کی سنگت میں ایک ہی ‪school of thought‬‬

‫ہے اور وہ ہے تاری!‬

‫تو جناب غالم علی نے ذاکر حسین کو طبلے پر رکھ لیا۔ میں انے زندگی میں ایسی بیکار سنگت نہیں‬

‫سنی حاالنکہ میں ذاکر بھائی کا بہت بڑا پرستار ہوں اور اگر آج طبلہ سیکھ رہا ہوں تو ان ہی کی وجہ‬

‫سے۔ وہ نہ ہوتے تو میں بھی طبلہ نہ سیکھ رہا ہوتا۔ کچھ سر پیر نہ تھا اور غالم علی کی غزل کا‬

‫مکمل ستیا ناس ہوا۔ یہ ہی ٖنصرت فتح علی خان کے ساتھ ہوا جب ذاکر نے ان کے ساتھ سنگت کی۔‬

‫لیکن جب آپ کسی کی بھی غزل سنتے ہیں اور سنگت ہو تاری کی تو غزل تو بھول جاتی ہے۔ سارا‬

‫دھیان تاری کے طبلے کی جانب مبذول ہو جاتا ہے۔ تاری کو نکال دو۔ غزل پھیکی اور بے رنگ۔ بے‬

‫کار سے بے کار غزل گانے واال بھی اگر تاری کو رکھ لے تو اسکے کام کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔‬

‫کالسکیل گویے کے ساتھ گاڑ کر تلواڑہ یا ایک تال یہ جھمرہ لگانا۔ یہ سب ہندوستان میں بھی ختم ہو‬

‫گیا۔ صرف استاد امیر خان صاحب ہی گڑی لے کا گانا گاتے تھے۔ یہ بیٹھی لے کی سنگت تو بس دو‬

‫ہی لوگ کر سکتے تھے۔ ایک تاری اور دوسرے ان کے استاد میاں شوکت حسین!‬
‫ستاریے لے بٹھا کر نہیں بجاتے۔ بہت ہوا تو دو درجے بٹھا دی۔ استاد شریف خان صاحب ایسے‬

‫ستاریے تھے جو لے کو خطرناک حد تک بٹھا کر بجاتے تھے۔ ان کےساتھ کھل کر صرف شوکت‬

‫صاحب اور تاری ہی بجائے۔ سن ‪ 60‬کی دہائی میں شریف خان صاحب کو بمبئی میں بجانے کا اتفاق‬

‫ہوا۔ اس محفل میں پنڈت روی شنکر بھی تھے۔ طبلے پر ذاکر کے والد استاد ہللا رکھہ تھے۔ وہ‬

‫ریکارڈنگ بہت سے لوگوں کے پاس ہے۔ میرے پاس بھی ہے۔ اسے سنیئے۔ ہللا رکھہ جی کو سم نہیں>‬

‫مل رہا۔ بس ادھر ادھر جا رہے ہیں۔ یہ ریکارڈنگ میں نے مایہ ناز ستارنواز استاد شاہد پرویز کے‬

‫سامنے بجائی۔ شاہد بہت بڑے لے کار ہیں۔ وہ بھی مانے کہ سم نہیں> مل رہا۔ لیکن چونکہ وہ ہللا رکھہ‬

‫سے پیار کرتے ہیں تو بولے کہ اصل میں خاں صاحب کچھ ایسے ڈھنگ سے بجا رہے ہیں کہ طبلے‬

‫والے کو دھوکہ ہوتا ہے کہ سم یہ ہے۔ ارے نہیں۔ سم یہ ہے۔ چلو سم نہ مال مگر سنگت بھی پھیکی۔‬

‫اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہللا رکھہ گئے گذرے تھے۔ انکا سولو میں کام عظمت کے درجے پر ہے اور‬

‫ساری دنیا اسکی متعرف ہے۔ مگر سنگت ان کے بس کا کام نہیں۔‬

‫میرے ایک دوست ہیں لندن میں۔ ثاقب رزاق نام ہے۔ طبلہ بجاتے ہیں۔ کل پرسوں بات ہو رہی تھی۔‬

‫بولے تاری آل راونڈر طبلہ نواز ہے۔ میں نے کہا آل راونڈر نہیں> کہہ سکتے کیونکہ انہوں نے رقص‬

‫میں کسی کی سنگت نہیں کی۔ اس پر ثاقب بولے کہ کیا آپ نے ذاکر کی سنگت غزل میں سنی ہے؟‬

‫میں نے کہا بہت ہی بری ہے۔ ثاقب جھٹ سے بولے بس تاری کی اتنی بری نہیں ہوگی اگر وہ نرتکار‬

‫کے ساتھ سنگت کرے۔ میں بہت محظوظ ہوا یہ سنکر اور ثاقب کو داد دی۔‬

‫تاری کے بجانے میں بے پناہ مشکالت ہیں۔ جس نکاس سے وہ بجاتے ہیں اسے ہاتھ میں النے کے لئے‬

‫صدیاں درکار ہیں۔ یو ٹیوب پر ہر ٹٹ پونجیا تاری کو ہی کاپی کر رہا ہے۔ میں ان سب سے پوچھتا ہوں‬

‫کہ تمہارے بجانے میں تاری کیوں نہیں محسوس ہوتا۔ کوئی جواب نہیں بن پاتا ان سے۔‬
‫تاری کے ساتھ ایک ہی ٰ‬
‫مسلہ ہے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوا۔ وہ پاکستان جسے بڑے غالم علی چھوڑ کر‬

‫بھارت چلے گئے اور وہاں سر آنکھوں پہ بٹھایا۔ ہللا رکھہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم سے‬

‫پہلے ہی بھارت چلے گئے۔ اچھا کیا ورنہ فاقوں مرے ادھراور کوئی ذاکر بھی نہ پیدا ہوتا۔‬

‫تاری اور انکے استاد نے پاکستان میں طبلہ بجایا۔ یہاں سے دنیا میں نام بنایا۔ ایسی جگہ جہاں فنکار کو‬

‫میراثی اور کنجر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جہاں کی افسر شاہی فنکاروں کو شودر سمجھتی ہے۔‬

‫تاری جوانی میں ہی امریکہ چلے گئے تھے۔ چاہتے تو امریکی شہریت لے سکتے تھے۔ مگر حب‬

‫الوطنی جس سے پیٹ ہر گز نہیں> بھرتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا نہ کر سکے۔ ساری دنیا میں‬

‫طبلے کے ذریعے پاکستان کی سفارت کاری کرتے رہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ اور حکومت نے‬

‫کیا دیا۔ ایک جھنجھنہ جس کا نام ہے پرائیڈ آف پرفارمنس جو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو مال ہوا‬

‫ہے۔ شوکت صاحب اور تاری پرائیڈ آف پرفارمنس ۔ یہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر شبیر حسین جھاری‪،‬‬

‫محمد اجمل یا بشیر خان۔ ان کو بھی پرائیڈ آف پرفارمنس! تو پھر کیا فرق رہا گدھے اور گھوڑے میں!‬

‫محمد شہزاد اسالم آباد میں مقیم صحافی اور محقق ہیں۔ ‪ ‬ان سے رابطہ کا ای میل‬

‫‪Yamankalyan@gmail.com‬‬

You might also like