Professional Documents
Culture Documents
Tari Khan 2022
Tari Khan 2022
طبلہ بجانا پہلوانی سے کم نہیں۔ پہلوان تو تیس چالیس برس میں فارغ ہو جاتا ہے۔ بہت سارے طبلیوں
کا دم خم بھی لگ بھگ اسی عمر میں ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر ریاضت سے انسان بڑھتی عمر
کو بھی شکست دے سکتا ہے۔ دنیائے> موسیقی میں اس قسم کی چند مثالیں موجود ہیں۔
احمد جان تھرکوا 84برس کی عمر میں بھی سٹیج پر طبلہ بجا رہے تھے۔ شیو کمار شرما جن کا حال
ہی میں انتقال ہوا بھی 84برس کی عمر میں سنتور بجا رہے تھے۔ مگر سنتور پہلوانی واالساز نہیں۔
طبلےبجانے کے لیے جس زاویے سے بیٹھنا پڑتا ہے وہ انسان کے گٹے گوڈے توڑنے کے لئے کافی
ہے۔ میں ذاتی طور ہر کچھ ایسے فنکاروں کو جانتا ہوں جو ستر برس کے ہو چکے مگر انکا فن ابھی
تک جوان ہے۔ آج کا مضمون طبلہ نواز عبدالستار تاری کے بارے میں ہے۔
تاری 70برس کے ہونے والے ہیں۔ پر نہ تو ان کے طبلے کی رفتار کم ہوئی ،نہ انگلیوں اور ہاتھ کا
وزن ہلکا ہوا۔ نہ انہیں دیر تک سٹیج پر بجانے کے لئے اپنی بھیٹک تبدیل> کرنا پڑی۔ اور نہ کچھ ایسا
ہوا جیسا سب ہی کے ساتھ اتنے عرصے میں ہو ہی جاتا ہے۔ یعنی اپنے کام ہو دہرانا۔ وہی گھسا پٹہ کام
تاری کا طبلہ دن بہ دن نکھر رہا ہے۔ اور کھٹن سے کھٹن ہوتا جا رہا ہے۔ اگر میں تکنیکی چیزوں کو
لکھنا شروع کر دوں تو عام قاری بیزار ہو جائے گا۔ اتنا ضرور کہوں گا کے طبلے کے بول تو ساری
دنیا میں ایک جیسے ہی ہیں جیسے بارہ سر ہیں۔ مگر سر لگانے کے طریقے سے فنکار امر ہوتا ہے۔
تاری کے کام میں یہ بات اتم پائی جاتی ہے۔ ایک تو طبلہ اتنا مکمل سر ہوتا ہے کہ سننے والے کے
کانوں میں رس گھولتا ہے۔ اور رتی برابر بھی سر اوپر نیچے ہو جائے تو تاری کو فوراً محسوس ہو
جاتا ہے۔ جب تک طبلہ دوبارہ اسی سر پر نہ آئے تاری نہیں بجانے کا۔ میں نے تاری کو دیکھا ہے
طبلہ سر کرتے۔ بیس بیس منٹ بیت جاتے ہیں پر طبلہ ایسا سر ہوتا ہے کی جیسے طانپورہ بول رہا
تاری کا سب سے بڑا احسان موسیقی پر سنگت کے حوالے سے ہیں۔ ساری دنیا کے طبلیے سن لیں۔
کیا ذاکر حسین ،کیا آنندو چٹرجی کیا کمار بوس اور ان سب کے بزرگ ،جو سنگت غزل ،گیت ،قوالی،
فلمی گانے اور بلمبپت میں کالسیکل گانے میں تاری نے کی ،کسی اور سے ہو ہی نہ سکی۔ غالم علی
کی کامیابی میں تاری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چند وجوہات کی بنا پر غالم علی اور تاری کی جوڑی ٹوٹ
گئی۔ کیوں؟ یہ لمبی بات ہے۔ پھر کبھی سہی! غزل گیت کی سنگت میں ایک ہی school of thought
تو جناب غالم علی نے ذاکر حسین کو طبلے پر رکھ لیا۔ میں انے زندگی میں ایسی بیکار سنگت نہیں
سنی حاالنکہ میں ذاکر بھائی کا بہت بڑا پرستار ہوں اور اگر آج طبلہ سیکھ رہا ہوں تو ان ہی کی وجہ
سے۔ وہ نہ ہوتے تو میں بھی طبلہ نہ سیکھ رہا ہوتا۔ کچھ سر پیر نہ تھا اور غالم علی کی غزل کا
مکمل ستیا ناس ہوا۔ یہ ہی ٖنصرت فتح علی خان کے ساتھ ہوا جب ذاکر نے ان کے ساتھ سنگت کی۔
لیکن جب آپ کسی کی بھی غزل سنتے ہیں اور سنگت ہو تاری کی تو غزل تو بھول جاتی ہے۔ سارا
دھیان تاری کے طبلے کی جانب مبذول ہو جاتا ہے۔ تاری کو نکال دو۔ غزل پھیکی اور بے رنگ۔ بے
کار سے بے کار غزل گانے واال بھی اگر تاری کو رکھ لے تو اسکے کام کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
کالسکیل گویے کے ساتھ گاڑ کر تلواڑہ یا ایک تال یہ جھمرہ لگانا۔ یہ سب ہندوستان میں بھی ختم ہو
گیا۔ صرف استاد امیر خان صاحب ہی گڑی لے کا گانا گاتے تھے۔ یہ بیٹھی لے کی سنگت تو بس دو
ہی لوگ کر سکتے تھے۔ ایک تاری اور دوسرے ان کے استاد میاں شوکت حسین!
ستاریے لے بٹھا کر نہیں بجاتے۔ بہت ہوا تو دو درجے بٹھا دی۔ استاد شریف خان صاحب ایسے
ستاریے تھے جو لے کو خطرناک حد تک بٹھا کر بجاتے تھے۔ ان کےساتھ کھل کر صرف شوکت
صاحب اور تاری ہی بجائے۔ سن 60کی دہائی میں شریف خان صاحب کو بمبئی میں بجانے کا اتفاق
ہوا۔ اس محفل میں پنڈت روی شنکر بھی تھے۔ طبلے پر ذاکر کے والد استاد ہللا رکھہ تھے۔ وہ
ریکارڈنگ بہت سے لوگوں کے پاس ہے۔ میرے پاس بھی ہے۔ اسے سنیئے۔ ہللا رکھہ جی کو سم نہیں>
مل رہا۔ بس ادھر ادھر جا رہے ہیں۔ یہ ریکارڈنگ میں نے مایہ ناز ستارنواز استاد شاہد پرویز کے
سامنے بجائی۔ شاہد بہت بڑے لے کار ہیں۔ وہ بھی مانے کہ سم نہیں> مل رہا۔ لیکن چونکہ وہ ہللا رکھہ
سے پیار کرتے ہیں تو بولے کہ اصل میں خاں صاحب کچھ ایسے ڈھنگ سے بجا رہے ہیں کہ طبلے
والے کو دھوکہ ہوتا ہے کہ سم یہ ہے۔ ارے نہیں۔ سم یہ ہے۔ چلو سم نہ مال مگر سنگت بھی پھیکی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہللا رکھہ گئے گذرے تھے۔ انکا سولو میں کام عظمت کے درجے پر ہے اور
میرے ایک دوست ہیں لندن میں۔ ثاقب رزاق نام ہے۔ طبلہ بجاتے ہیں۔ کل پرسوں بات ہو رہی تھی۔
بولے تاری آل راونڈر طبلہ نواز ہے۔ میں نے کہا آل راونڈر نہیں> کہہ سکتے کیونکہ انہوں نے رقص
میں کسی کی سنگت نہیں کی۔ اس پر ثاقب بولے کہ کیا آپ نے ذاکر کی سنگت غزل میں سنی ہے؟
میں نے کہا بہت ہی بری ہے۔ ثاقب جھٹ سے بولے بس تاری کی اتنی بری نہیں ہوگی اگر وہ نرتکار
کے ساتھ سنگت کرے۔ میں بہت محظوظ ہوا یہ سنکر اور ثاقب کو داد دی۔
تاری کے بجانے میں بے پناہ مشکالت ہیں۔ جس نکاس سے وہ بجاتے ہیں اسے ہاتھ میں النے کے لئے
صدیاں درکار ہیں۔ یو ٹیوب پر ہر ٹٹ پونجیا تاری کو ہی کاپی کر رہا ہے۔ میں ان سب سے پوچھتا ہوں
کہ تمہارے بجانے میں تاری کیوں نہیں محسوس ہوتا۔ کوئی جواب نہیں بن پاتا ان سے۔
تاری کے ساتھ ایک ہی ٰ
مسلہ ہے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہوا۔ وہ پاکستان جسے بڑے غالم علی چھوڑ کر
بھارت چلے گئے اور وہاں سر آنکھوں پہ بٹھایا۔ ہللا رکھہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم سے
پہلے ہی بھارت چلے گئے۔ اچھا کیا ورنہ فاقوں مرے ادھراور کوئی ذاکر بھی نہ پیدا ہوتا۔
تاری اور انکے استاد نے پاکستان میں طبلہ بجایا۔ یہاں سے دنیا میں نام بنایا۔ ایسی جگہ جہاں فنکار کو
میراثی اور کنجر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جہاں کی افسر شاہی فنکاروں کو شودر سمجھتی ہے۔
تاری جوانی میں ہی امریکہ چلے گئے تھے۔ چاہتے تو امریکی شہریت لے سکتے تھے۔ مگر حب
الوطنی جس سے پیٹ ہر گز نہیں> بھرتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا نہ کر سکے۔ ساری دنیا میں
طبلے کے ذریعے پاکستان کی سفارت کاری کرتے رہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ اور حکومت نے
کیا دیا۔ ایک جھنجھنہ جس کا نام ہے پرائیڈ آف پرفارمنس جو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو مال ہوا
ہے۔ شوکت صاحب اور تاری پرائیڈ آف پرفارمنس ۔ یہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر شبیر حسین جھاری،
محمد اجمل یا بشیر خان۔ ان کو بھی پرائیڈ آف پرفارمنس! تو پھر کیا فرق رہا گدھے اور گھوڑے میں!
محمد شہزاد اسالم آباد میں مقیم صحافی اور محقق ہیں۔ ان سے رابطہ کا ای میل
Yamankalyan@gmail.com