Professional Documents
Culture Documents
از
اوب رہشیاز
٢٠١٨
www.islamic-belief.net
رہفسث
.......................................................................................... 8دقمم
................. 139سوره کہف میں ذی القرنین اور یاجوج ماجوج کے واقعہ پر سوال ہے
..................................... 145واولی االمر منکم۔۔۔۔سے مراد حاکم ہے یا علامء؟
...................................................................... 150کیا خرض زندہ ہیں
..................................................................... 156آیت والیت کیا ہے
.......... 158بَ ْل أَ ْحياء ِعنْ َد َربِّ ِه ْم سے کیا یہ مراد ہے کہ شہداء و انبیاء اسی دنیا میں ہیں ؟
...... 162اہل حدیث عامل کہتے ہیں کہ آیت َو ِم ْن َو َرائِ ِه ْم بَ ْرزَخ إِ َل يَ ْومِ يُ ْب َعثُو َن کا مطلب ہے
الس َام ِء سے کیا مراد ہے ؟ ............................. 171قرآن کی آیت الَ تُ َفتَّ ُح لَ ُه ْم أَبْ َو ُ
اب َّ
................................... 179کیا قرآن میں َو َر ْهط ََك ِم ْن ُه ُم الْ ُم ْخل َِص َ
ي کی آیت تھی؟
................ 182کیا قرآن میں رضاعت کی آیت تھی جو قرآن میں اب موجود نہیں ہے؟
......... 194کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ کرتے تھے؟
.................... 202ملحدین کے بقول قرانی آیات میں روز محرش کی مدت پر تضاد ہے
........................ 205شیطانی آیات کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر القا ہوئیں؟
.............................................................. 212تخلیق کائنات پر سوال ہے
................................................... 213سوره نسأ آیت 24کے تفسیر کر دیں
.... 217آیت َوما كا َن لِنَبِي أَ ْن يَغ َُّل اس لئے نازل ہوئی کہ چادر مال غنیمت میں نہیں ملی؟
....................... 221کیا کوئی جنت یا جہنم میں داخل ہونے کے بعد باہر آسکتا ہے؟
............................... 222یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت یا پھر عنکن ؟
.................................... 225فَ َي ْو َم ِئذ الَ يُ ْسأَ ُل َع ْن ذَنْ ِب ِه ِإنْس َوالَ َجان پر سوال ہے ؟
......................... 226سورہ النازعات آیت منرب 20میں بڑی نشانی سے کیا مراد ہے ؟
.......................................................... 227لوح محفوظ سے کیا مراد ہے؟
............................. 229جو انبیاء میں فرق کرتے ہیں ایسے لوگ حقیقی کافر ہیں ؟
............................................................. 231زمین اور تحت الثی کا بیل
.................................................. 243ذي القرني أفريدون سے سكندر تک
............... 250قران کے عالوہ پیغمرب پر کوئی دورسی چھپی ہوئی چیز نازل نہیں ہوئی
ِين
اجد َْ
س َِ .................................................................. 332رأ َ ْيت ُ ُه ْْمْلِيْ َ
............................................. 334اہل تشیع کی ایک رائے :سجدہ الله کو تھا
........................................ 336اہل تشیع کی دورسی رائے :سجدہ یوسف کو تھا
.............................................. 336اہل سنت کی ایک رائے :سجدہ الله کو تھا
......... 338اہل سنت میں تیسی رائے :سجدہ یوسف کو ہوا ،پچھلی رشیعت کے مطابق
................ 340اہل سنت میں چوتھی رائے :سجدہ بس مشیت الہی کے تحت ہو گیا
................................................................................... 342بحث
................................................ 342انبیاء کے خواب :متثیل یا حقیقی کا فرق
.................................................................. 343بچھڑے لوگوں کا ملنا
...................................................................... 344خر کا مطلب کیا ؟
............................................................... 346تفسیری اقوال کی صحت
...................................................................... 347سجدہ کی کیفیت
.......................................................... 349رسول الله آیات بھول جاتے تھے؟
............................................................ 354رسول الله ﷺ کا طالق دینا
...................................................................................... 359وتزنت
.................................................... 359کیا اسالم میں توریت پڑھنا حرام ہے
................ 366ایک صاحب کا کہنا ہے اللہ تعالی نے رصف ایک ہی کتاب نازل کی ہے
................................................................... 367توریت کے تین حکم
................................................ 368تورات کا ایک حکم – رجم کی سزا
........................................ 381توریت کا دورسا حکم – عہد شکنی کی سزا
................................................ 383توریت کا تیسا حکم – ارتاد کی سزا
............................................................... 386حمورابی کوڈ اور توریت
........................................................................................ 391زوبز
...................... 391کیا داود علیہ السالم عبادت میں موسیقی کا استعامل کرتے تھے ؟
دقمم
اس کتاب میں کتب الله یعنی قرآن ،توریت ،زبور سے متعلق مباحث کو ایک جگہ
جمع کیا گیا ہے – یہ اصال سواالت کے جوابات ہیں جو ویب سائٹ اسالمک بلیف پر
قارئین نے کیے اور راقم نے اپنے محدود علم کے ساتھ ان کا جواب دینے کی کوشش
کی ہے – اس کتاب میں کچھ مضامین ہیں جو قرآن کی ترتیب و جمع ،اختالف قرات
اور تفسیر سے متعلق ہیں -
راقم الله تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہے اگر اس میں غلطی کی گئی ہو-
کتاب میں حسب رضورت مصادر اہل تشیع کو بھی دیکھا گیا ہے -اور اس تحقیق میں
حتی االمکان غیر جانب داری بر قرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے -اب یہ فیصلہ
قارئین کا ہے کہ وہ اس تحقیق پر کیا رائے رکھتے ہیں
بیت الله کی عظمت و حرمت ایک دور میں اہل کتاب میں مسلمہ تھی – خاص طور پر دورسے
ہیکل کے دور کی یہودیوں کی ایک کتاب ،کتاب جوبلی کے نام سے مشھور ہے -جو بہت
قدیم کتاب ہے اور اس کا مکمل منت اتھوپیا کی زبان میں مال ہے – اس کتاب کو اہل کتاب آجکل
جھوٹی قرار دیتے ہیں -لیکن یہ بات اب علامۓ اہل کتاب قبول کرتے ہیں کہ زمانہ قدیم
میں بعض یہودی فرقوں کی ایک مستند کتاب تھی اور خاص کر عیسی علیہ السالم کے دور میں
یہ ہیکل کے فریسی یہودی فرقے کی مخالف جامعتوں میں ایک مستند کتاب مانی جاتی تھی
اس کتاب میں مقام ابراہیم کا ذکر موجود ہے کتاب کے باب ٢٢کی آیت ہے کہ الله نے ابراہیم
کو ایک گھر بنانے کا حکم دیا جس کو مقام ابراہیم کہا جائے گا
24 This house have I built for myself that I might put my name upon it in the
earth: [it is given to you and to your seed forever], and it will be named the house
of Abraham; it is given to you and to your seed forever; for you will build my house
and establish my name before YAHWEH forever: your seed and your name will
stand throughout all generations of the earth.
یہ بیت (یا مقام) جس کو میں نے اپنے لئے بنایا ہے کہ میں اس سے ارض پر اپنا نام (باقی)
رکھوں اس کو(بیت) مقام ابراہیم کہا جائے گا جو تم کو اوراوالد ابراہیم کو ملے گا ہمیشہ کے لئے
کیونکہ تم ہی اس بیت کو بناؤ گے اور میرا نام ی ھ و ھ ( )١کو ہمیشہ رکھو گے اور متہاری
نسل اور متہارا نام اس سے منسلک رہے گا ،ارض کی نسلوں میں
اس کتاب کے ٢٢وں باب میں لکھا ہے کہ ابراہیم کی وفات کا علم اسمعیل کو مقام ابراہیم میں
آواز سے ہوا
And the voices were heard in the house of Abraham, and Ishmael his son arose,
and went to Abraham his father, and wept over Abraham his father, he and all the
house of Abraham, and they wept with a great weeping.
اور بیت ابراہیم میں آوازیں سنی گئیں اور اسمعیل اس کا بیٹا اٹھا اور اپنے باپ ابراہیم کے پاس
گیا اور سارا کٹم خوب رویا
واضح رہے کہ بیت ابراہیم اور ہیکل سلیامنی دو الگ عبادت گاہیں ہیں – اسمعیل یقینا یروشلم
سے بہت دور تھے کہ ان کو غیبی اشارہ مال اور ابراہیم کے پاس گئے
یہودیوں کا عیسی علیہ السالم کے دور کا ایک فرقہ قمران میں آباد تھا جو بحر مردار پر ایک
مقام ہے -انہوں نے ٧٠ع میں رومیوں سے اپنی کتابیں بچانے کے لئے مرتبانوں میں رکھیں اور
آس پاس کے غاروں میں چھپا دیں – ١٩٤٧میں یہ کتابیں دریافت ہوئیں اور اس وقت دینا کی
قدیم توریت بھی انہی میں سے ہے – کاربن ڈیٹنگ اور دورسے سائنسی نتائج سے یہ ثابت ہو
چکا ہے یہ کتب عیسی کے زمانے میں کم و بیش سو سال کے اندر کی
ہیں -ان کو بحر مردار کے طومار کہا جاتا ہے
Abraham’s travel east to the Euphrates and the Persian Gulf region, then around
the coast of Arabia to the Red Sea, and finally to the Sinai desert and then to his
home
(Geza Vermes, The Complete Dead Sea Scrolls, Genesis Apocryphon 448–459).
ابراہیم علیہ السالم نے مرشق میں فرات تک سفر کیا اور خلیج عرب کا اور بحیرہ احمر کے ساحل
پر عرب کا سفر کیا اور دشت سینا تک آئے
یہ پہلی کتاب ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم کبھی بحیرہ احمر کے ساحل تک گئے
کیونکہ موجودہ تورات میں اس کا ذکر نہیں ہے
ایک زمانے میں مقام ابراہیم کعبہ کی دیوار کے ساتھ تھا لیکن طواف میں آسانی کے لئے اس کو
اب دور نصب کر دیا گیا ہے
ال شك أن مقام إبراهيم ثابت وأن هذا الذي بني عليه الزجاج هو مقام إبراهيم عليه الصالة والسالم،
لكن الحفر الذي فيه ،ال يظهر أنه أثر القدمي؛ ألن املعروف من الناحية التاريخية أن أثر القدمي قد
زال منذ أزمنة متطاولة ،ولكن حفرت هذه ،أو صنعت للعالمة فقط ،وال ميكن أن نجزم بأن هذا
.الحفر هو موضع قدمي إبراهيم عليه الصالة والسالم
بے شک مقام ابراہیم ثابت ہے جس پر اب شیشہ لگا دیا گیا ہے وہی مقام ابراہیم ہے لیکن اس
میں جو گڑھے ہیں ان سے اصلی قدم ظاہر نہیں ہوتے کیونکہ تاریخ میں ہے کہ قدم کے نشان
کافی عرصہ پہلے ختم ہو چکے تھے لیکن یہ گڑھے رصف عالمتی ہیں اور ہم جزم سے نہیں کہہ
سکتے کہ یہ ابراہیم علیہ السالم کے ہی قدم کے نشان ہیں
قرآن میں ہے
َج َع َل الل ُه الْ َك ْع َب َة الْ َب ْي َت الْ َح َرا َم قِ َيا ًما لِل َّن ِ
اس
الله نے الْ َك ْع َب َة کو بیت الحرام بنایا لوگوں کے مناز کی جگہ
ابراہیم علیہ السالم نے جب اسمعیل اور ہاجرہ علیہام السالم کو مکہ میں چھوڑا تو وہ ایک بے
آب وادی تھی وہاں سے ایک عرب قافلہ اتفاقا گزرا جو بنو جرہم سے تھا انہوں نے وہاں پرندے
دیکھے اور زمزم کی وجہ سے وہاں پڑاؤ ڈال دیا
قال ابن عباس رض الله عنهام :قال النبي صل الله عليه وسلم ” :يرحم الله أم إسامعيل ،لو تركت
زمزم – أو قال :لو مل تغرف من املاء – لكانت عينا معينا “ ،وأقبل جرهم فقالوا :أتأذني أن ننزل
عندك؟ قالت :نعم ،وال حق لكم ف املاء ،قالوا :نعم
ابن عباس کہتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله ام اسمعیل پر رحم کرے اگر وہ زمزم
کو چھوڑ دیتیں یا کہا پانی پر بند نہیں باندھتین تو وہ چشمہ کی طرح بہتا اور جرهم والے ان
کے پاس آئے اور کہا کیا آپ اجازت دیں گی کہ ہم یہاں رکیں کہا ہاں لیکن متہارا پانی پر حق نہ
ہو گا انہوں نے کہا جی
کتاب تَارِي ِخ ال َع ْوتَبِي از أبو املنذر سلمة بن مسلم بن إبراهيم الصحاري العوتبي (املتوىف511 :هـ)
کے مطابق قبیلہ جرہم کا تعلق
ُج ْرهُم بن قَ ْحطان ،وهم يومئذ مبكة ،ومل يزل اللسان العر ْب ف ولد إرم بن سام بن نوح إل زمن هود
عليه السالم
ُج ْرهُم بن قَ ْحطان… عربی زبان نہیں چھوڑی إرم بن سام بن نوح سے لے کر هود عليه السالم کے
زمانے تک
معلوم ہوا کہ عرب قوم ابراہیم علیہ السالم سے پہلے سے موجود تھی اور ابراہیم کو عربوں کا جد
امجد کہنا صحیح نہیں کیونکہ ابراہیم اور اسمعیل عرب نہیں تھے -البتہ ہاجرہ علیہ السالم کا
تعلق مرص سے تھا اور ممکن ہے وہ عربی سے واقف ہوں -اسمعیل علیہ السالم نے اسی قبیلہ کی
ایک خاتون سے نکاح کیا اور اس طرح ابراہیم علیہ السالم کی عربوں سے رشتہ داری رشوع ہوئی
َب ِِل َع َل الْ ِك َرب ِإ ْس َام ِعيل َو ِإ ْس َحاق ِإ َّن َر ِّب ل ََس ِميع ال ُّد َعاء
الْ َح ْمد لِلَّ ِه الَّ ِذي َوه َ
الله کی تعریف ہے جس نے بڑھاپے میں مجھ کو اسمعیل اور اسحاق دیے بے شک میرا رب دعا
سنتا ہے
شاید یہی وجہ ہے کہ پہلے بیٹے کا نام اسمعیل رکھا یعنی جس کی ایل (الله) سنے
اس کی بیوی آگے بڑھی ،اپنے چہرہ پر (خوشی و حیرت میں) ہاتھ مارتی ہوئی اور بولی
:بوڑھی بانجھ
اس بیٹے کا نام اسحاق رکھا گیا یعنی ہنسنے واال
سوره الصافات میں ترتیب میں پہلے بیٹے کا ذکر ہے جس کی قربانی کا حکم دیا گیا جو ظاہر ہے
اسمعیل ہیں اس کے بعد کہا گیا کہ اسحاق کی بھی بشارت دی تاکہ بتایا جائے کہ قربانی واال
واقعہ اسمعیل کے ساتھ ہوا
قرآن اور توریت کی کتاب پیداش کے مطابق سارہ بانجھ تھیں لیکن اوالد کا ہونا الله کی نشانی
تھا اوالد نہ ہونے کی وجہ سے سارہ نے ہاجرہ سے نکاح کا ابراہیم کو مشورہ دیا تھا ظاہر ہے کہ ا
گر اسحاق
پیدا ہو چکے ہوتے تو یہ سب کرنے کی رضروت نہ تھی اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسمع
یل بڑے اور اسحاق چھوٹے تھے
اسمعیل اور اسحاق میں بائبل کے مطابق ١٣سال کا فرق تھا قرآن کی سوره الصفافات میں جس
طرح بیان ہوا ہے اس سے
محسوس ہوتا ہے کہ اسمعیل کی قربانی والے واقعہ کے بعد الله نے اسحاق کی بشارت دی
َوإِ ِذ ابْتَ َل إِبْ َرا ِهي َم َربُّ ُه ِب َكلِ َامت فَأَمتَ َّ ُه َّن ق ََال إِ ِّّن َجا ِعل َُك لِلنَّ ِ
اس إِ َماما ً ق ََال َو ِمن ذُ ِّريَّتِي ق ََال الَ يَنَ ُال
َع ْه ِدي الظَّالِ ِمي
أور جب متہارے رب نے ابراہیم کی آزمائش کی کلامت (ألقا کردہ أحكام) سے ،پس وہ ان میں
کامیاب ہوا
کہا :میں تم کو لوگوں کا امام بنا تا ہوں
بولے :میری نسل کو بھی ؟
کہا :نہیں یہ وعدہ ظاملوں سے نہیں
ابراہیم علیہ السالم کی آزمائش کی گئی خواب میں ایک حکم القا کیا گیا ،انہوں نے اس پر عمل
کیا ،کامیاب ہوئے اور امام بن گئے
آج مسلامن ،یہودی ،نرصانی سب ابراہیم کے امام ہونے کے قائل ہیں اور اپنے ادیان کو
ابراہیم علیہ السالم سے جوڑتے ہیں
کتاب أخبار مكة ف قديم الدهر وحديثه از أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن العباس املك الفاكهي
(املتوىف272 :هـ) کے مطابق
ل بْ ُن الْ َح َسنِ إِ َل الْ َح َجبَ ِة يَأْ ُم ُر ُه ْم ِب َح ْملِ الْ َمقَامِ إِ َل دَا ِر َوذَلِ َك أَ َّو ُل يَ ْوم ِم ْن شَ ْه ِر َربِيع األْ َ َّو ِل أَ ْر َس َل َع ِ ُّ
اس ،فَأَت َ ْوا ِب ِه إِ َل دَا ِر
اْلْ ِ َما َر ِة لِ ُ َُيكِّبُوا َعلَيْ ِه الطَّ ْوق ْ َِي اللَّ َذيْنِ ُع ِم َال لَ ُه َع َل َما َو َص ْفنَا لِيَكُو َن أَق ََّل لِ ِز َحامِ النَّ ِ
اس ِم ْن َح َملَ ِة الْ ِعلْمِ َوغ ْ َُِي ِه ْم ِف ث َ ْوب يَ ْح ِملُونَ ُه َحتَّى َوضَ ُعو ُه اْلْ ِ َما َر ِةَ ،وأَنَا ِعنْدَهُ َو ِعنْدَهُ َج َام َعة ِم َن النَّ ِ
السنَ ِة َع َل ِع َام َر ِة الْ َم ْسج ِِد الْ َح َرامِ ، بَ ْ َي يَ َديْ ِه ،فَ َجا َء ب ِْرش الْخَا ِد ُم َم ْو َل أَ ِمُيِ الْ ُم ْؤ ِم ِن َيَ ،وقَ ْد ق َِد َم ِف ه َِذ ِه َّ
ل بْ ُن الْ َح َسنِ الْ َف َعلَ َة أَ ْن يُ ِذيبُوا الْ َعقَاقِ َُي الس َال ُمَ ،وإِ ْص َال ِحه َِام فَأَ َم َر َع ِ ُّ
الص َال ِة َو َّ َو َم ْسج ِِد النَّب ِِّي َعلَيْ ِه أَفْضَ ُل َّ
فَأَذَابُوهَا بِال ِّزئْبَقِ ،ث ُ َّم أَ ْخ َر َج الْ َمقَا َمَ ،و َما َس َق َط ِمنْ ُه ِم َن الْ ِح َجا َر ِة ،فَأَل َْص َق َها ب ِْرش ِبيَ ِد ِه ِب َذلِ َك الْ َعل َِك َحتَّى
اس بِالْ َمقَامِ َو َد َع ُوا الل َه ت َ َع َال َوذَكَ ُرو ُه َوذَكَ ُروا َخلِيلَ ُه إِبْ َرا ِهي َم الْتَأَ َم ْت َوأَ َخ َذ بَعْضُ َها بَعْضً اَ ،ومتَ ََّس َح النَّ ُ
ِّ ْ ِ ِ
الس َال ُمَ ،وقَلَّبُو ُه َونَظَ ُروا َونَظ ْرتُ َم َع ُه ْم ،فَإذَا ِف َج َوان ِب ال َمقَامِ كُل َها ك ََام يَدُو ُر ُخطُوطًا ِف
َ َعلَيْ ِه َّ
الص َال ُة َو َّ
َب َسبْ ُع ُخطُوط ُم ْستَ ِطيلَة ،ث َّمُ ِ ِ ِ ِ
ت َ ْر ِج ُع الْ ُخطُوط ]ص[479:طُول ال َجان ِب ال ُم ْستَد ِّق منْ ُه البَا ِر ِز عَنِ ال َّذه ِ
ْ ْ ْ ُ
ِف أَ ْس َفلِ ِه َحتَّى ت َ ْر ِج َع إِ َل الْ َجانِ ِب ْاْل َخ ِر َحتَّى ت َْستَ ِب َي ِفي ِه ِم َن الْ َجانِ ِب ْاْل َخرَِ ،وذَلك ِف َّ ْ
الَّتبِيعِ ِستَّةُ َ ِ
ُخطُوطَ ،و ِفي ِه َحفْر قِيَ ُاس ُه َهذَا الْ َخ ُّط ال َِّذي أَ ُخطُّهَُ ،وذَلِ َك ِف َع ْر ِض ِهَ ،و ِفي ِه أَيْضً ا َد َواوِي ُر قِيَ ُاس َها َهذَا
ال َِّذي أَ ُخطُّهَُ ،و ِف َو َس ِط ِه نَ ْكيَة ِم َن الْ َح َجرَِ ،و ِفي ِه أَيْضً ا َد َّوا َرة ِف َع ْر ِض ِه ِم َن الْ َجانِ ِب ْاْل َخرِ ،قِيَ ُاس َها َهذَا
اب ال َِّذي َو َج َدت ْ ُه قُ َريْش ِف ال َِّذي أَ ُخطُّهَُ ،وإِذَا ِفي ِه كِتَاب بِالْ ِع ْ َربانِيَّ ِةَ ،ويُق َُال بِالْ ِح ْم َُيِيَّ ِةَ ،و ُه َو الْ ِكتَ ُ
َ
ل بْنِ الْ َح َسنِ ِبيَ ِدي َو َح َكيْتُ ُه ك ََام َرأيْتُ ُه َم ْخطُوطًا اب ِم ْن الْ َمقَامِ ِبأَ ْم ِر َع ِ ِّ الْ َجا ِهلِيَّ ِة ،فَأَ َخذْتُ ذَلِ َك الْ ِكتَ َ
ِفي ِه،
ربیع االول کے پہلے دن علی بن الحسن نے لوگوں کو بھیجا کہ مقام ابراہیم کو دار االمارہ الیا
جائے کیونکہ مقام ٹکڑوں میں ہو رہا تھا … اس کو سونے چاندی سے جوڑا گیا … .الفاکھی
کہتے ہیں میں نے غور سے مقام کو دیکھا اس پر سات لکیریں ترچھی تھیں جو نیچے سے اوپر
جا رہی تھیں … اس پر عربانی میں بھی لکھا ہوا تھا ..اور کچھ کے خیال میں حمیری زبان
میں یہ وہ خطوط سے جن سے قریش جاہلیت میں واقف تھے میں نے اپنے ہاتھ سے وہ متام
خطوط نقل کئے
الفاکھی لکھتے ہیں
اب َع َل الْ َمقَامِ ،فَق ََالَ :ح َّدث َ ِني أَبُو ض َوأَ َخ َذ ِمنِّي َهذَا الْ ِكتَ َ ل بْ ُن َزيْد الْ َف َرائِ ِ ُّ فَ َح َّدث َ ِني أَبُو الْ َح َسنِ َع ِ ُّ
اب ،فَ َق َرأْت ُ َها َعلَيْ ِه ،فَق ََال ِِل: ِرص َوقَ ْد أَ َخ َذ ِمنِّي ه َِذ ِه النُّ ْس َخةَ ،يَ ْع ِني ن ُْس َخ َة َهذَا الْ ِكتَ ِ ِب مبِ ْ َ َزكَ ِريَّا الْ َم ْغر ِ ُّ
اب األْ َ َّولِ َي ،ق ََال :فَأَنَاِرص ِم ْن كِتَ ِ ابَ ،وال َ َْرب ِاب كِتَاب ِف الْ ِح َجا َر ِة مبِ ْ َ أَنَا أَ ْعر ُِف تَف ِْس َُي َهذَا ،أَنَا أَطْل ُُب ال َ َْرب ِ َ
السطْ ِر األْ َ َّولِ ” :إِ ِّّن أَنَا الل ُه الَ إِلَ َه وب ِف الْ َمقَامِ ِف َّ َشء َهذَا الْ َم ْكتُ َ أَطْلُبُ ُه ُمنْ ُذ ث ََالثِ َي َسنَةًَ ،وأَنَا أَ َرى أَ َّي َ ْ
السطْ ِر الثَّالِ ِث ” :أصباوت ” َو ُه َو ْاس ُم الل ِه األْ َ ْعظَمِ َ ،و ِب ِه السطْ ِر الث َِّاّنَ ” :ملِك الَ يُ َرا ُم ” َو َّ إِالَّ أَنَاَ ،و َّ
ض َو ِف تَف ِْسُيِ ُسنَيْد ق ََال ” :ل ََّام َخل ََق الل ُه ل بْ ُن َزيْد الْ َف َرائِ ِ ُّ اب ال َّد َع َواتُ ” ق ََال ِِل أَبُو الْ َح َسنِ َع ِ ُّ ت ُْستَ َج ُ
تَبَا َر َك َوت َ َعا َل آ َد َم أَقْ َعدَهُ بَ ْ َي يَ َديْ ِه ،فَق ََالَ ” :م ْن أَنَا يَا آ َد ُم؟ ،فَق ََال :أَن َْت أصباوت أَ ْدن َِاّن .ق ََال لَ ُه ال َّر ُّب
الص َمدُ ،ق ََال ِِل أَبُو الْ َح َسنِ ُول أَصباوت الل ُه َّ الص َم ُد يَق ُ تَبَا َر َك َوت َ َع َالَ ” :ص َدق َْت يَا آ َد ُم ” يَ ْع ِني أَن َْت الل ُه َّ
اب ال َِّذي ِف الْ َمقَامِ بِالْ ِح ْم َ ُِييَّ ِة ل بْ ُن َزيْدَ :و َز َع َم أَ َّن َهذَا الْ ِكتَ َ َع ِ ُّ
ِب نے مرص میں ان خطوط اور تحریر کو دیکھا اور کہا میں اس کی تفسیر جانتا أَبُو َزكَ ِريَّا الْ َم ْغر ِ ُّ
ہوں میں مرصی تحریر پڑھ سکتا ہوں جس پر میں تیس سال سے تحقیق کر رہا ہوں … پہلی سطر
میں لکھا ہے
بے شک میں ہی الله ہوں کوئی اور الہ نہیں
دورسی سطر میں لکھا ہے
میری بادشاہی کو دوام ہے
تیسی سطر میں ہے
أصباوت
Himyaritic language
اس تحریر کو خط املسند کہا جاتا ہے
#.D8.AE.D8.B5.D8.A7.D8.A6.D8.B5_.D8.A7.D9.84.D8.AE.D8.B7_.D8.A7.D9.84.D9.85.D8.B3.D9.86.D8.AFخط_المسندhttp://ar.wikipedia.org/wiki/
ابراہیم علیہ السالم نے بیت الله کی تعمیر کی تو وہ اس شکل پر نہیں تھی جو اب ہے بلکہ وہ
ایک مستطیل عامرت تھی قبل نبوت عربوں نے اس کو ایک کیوب کی شکل دیا اور اس کو
کعبہ کہا گیا اور اس کے باقی حصہ کو حطیم ( )٢کہا ( زامق ان ولمجن ےس زوجع رک اکچ ےہ –
قل
یلیصفت قیقحت اتکت یازخی ت تنن ںیم ےہ )
الغرض کعبہ اور مقام ابراہیم کی اہمیت قدیم دور سے مسلمہ ہے -حدیث میں ہے کہ یونس
علیہ السالم اور موسی علیہ السالم نے بھی حج کیا ہے -یہی وجہ ہے اس کو قبلہ کے طور پر
سب جانتے تھے ایسے کہ کوئی اپنے بیٹے کو جانتا ہو
حواشی
)(١
شام و عراق میں الله کا نام ایل لیا جاتا تھا لہذا متام فرشتوں کے ناموں میں ایل اتا ہے جسے
جربیل ،میکایل ،ارسافیل وغیرہ -آرامی میں یہ لفظ الہ بن گیا اور عرب میں معرب ہو کر االلہ
یا الله ہو گیا
یہ لفظ جمع ادب میں الوھم ہو گیا اور بعض مقام پر تورات میں یھوھ کا لفظ بھی ہے لیکن اس
کو ادا کرنا ممنوع ہے اور تحریر میں توڑ کر لکھا جاتا ہے
)(٢
الله نے بیت الله کو الْكَ ْعبَ َة کہا ہے جس کا مطلب چوکور مکعب عامرت ہے البتہ اس کے ساتھ
ایک گوالئی منا حصہ بھی ہے جس کو حطیم کہا جاتا ہے لغت کے مطابق
َحطَ َم ُه … قال بن عباس رض الله عنهام ال َح ِطي ُم الجدر يعني جدار حجر الكعبة
َحطَ َم ُه ..ابن عباس کہتے ہیں دیوار کو کم کرنا یعنی کعبہ کی پتھر کی دیوار کو
مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمي میں العثيمي کہتے ہیں
وهذا الحجر إمنا كان من فعل قريش حي أرادوا بناء الكعبة فلم يجدوا أمواالً تكفي لبنائها عل
أساسها األول عل قواعد إبراهيم -عليه الصالة والسالم -فاحتجر منها هذه الجهة ،ولهذا ُس ِّمي
الحجر ،وتسمى الحطيم أيضا ً ،ألنه حطم من الكعبة ،وأكث هذا الحجر من الكعبة
اور یہ پتھر لگانا قریش کا عمل تھا کہ جب انہوں نے کعبہ کی تعمیر کا ارادہ کیا تو اتنا مال
کافی نہ تھا کہ اس کو انہی بنیادوں پر اٹھاتے جن پر ابراہیم نے بنایا پس انہوں نے اس کا نشان
پتھر سے چھوڑا اور اس کو حطیم کہا گیا کیونکہ انہوں نے کعبہ کو کم کیا اور اس کے پتھر کعبہ
کے تھے
لہذا حطیم کعبہ کا ہی حصہ ہے – نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس کو اسی حال پر رہنے
دیا -ابن زبیر نے اس کو واپس تعمیر کیا لیکن بنو امیہ نے اس کو واپس ویسا ہی کیا جیسا نبی
صلی الله علیہ وسلم نے چھوڑا تھا
َأفَ َر َأيْ ُ ُت َّالَّل َت َوالْ ُع َّزى َو َمنَا َة الث َّا ِلثَ َة ا ُألخ َْرى
الالتَ َوالْ ُع َّزى َو َمنَا َة الثَّالِثَ َة األُ ْخ َرى أَلَ ُك ُم ال َّذكَ ُر َولَ ُه األُنْثَى تِل َْك إِذًا قِ ْس َمة ِضي َزى إِ ْن ِه َي إِال
أَفَ َرأَيْتُ ُم َّ
أَ ْس َامء َس َّم ْيتُ ُموهَا أَنْتُ ْم َوآبَا ُؤكُ ْم َما أَنْ َز َل اللَّ ُه ب َها من ُسلْطَان
الالتَ َ ،الْ ُع َّزى اور ایک اور تیسی َمنَا َة کو دیکھا؟ کیا متہارے لئے تو ہوں لڑکے اور اس کیا تم نے َّ
کے لئے لڑکیاں؟ یہ تو بڑی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی! یہ تو رصف چند نام ہیں ،جو تم نے اور
متہارے اباؤ اجداد نے رکھ دیے ہیں ،الله کی طرف سے ان پر کوئی سند نہیں اتری
الالت طائف میں ،ال ُع َّزى مکہ میں اور َمنَاة مدینہ میں عربوں کی خاص دیویاں تھیں
الالت َوالْ ُع َّزى َو َمنَا َة الثَّالِثَ ِة األُ ْخ َرى … فَإِنَّ ُه َّن الْ َغ َرانِ ُ
يق الْ ُع َل َو ِإ َّن شفاعتهن ل ُ ََّْتتَ َجى َو ِ
اور ِ
الالت اور الْ ُع َّزى اور ایک اور تیسی َمنَا َة
یہ تو بلند پرند منا حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے
َوالالتُ بِالطَّائِ ِف َو ِه َي أَ ْحدَثُ من َمنَاة َوكَانَت َص ْخ َر ًة ُم َربَّ َع ًة َوكَا َن يَ ُهو ِدي يَل ُُّت ِعنْ َد َها
ِ
اب بْنِ مالك َوكَانُوا قَ ْد بَنَ ْوا َعلَيْ َها ِبنَا ًء َوكَان َْت قُ َريْش َو َجميع ِيق َوكَا َن َس َدنَتَ َها ِم ْن ث َ ِقيف بَنُو َعتَّ ِ السو ََّ
الْ َع َرب تعظمها
اور الالتُ طائف میں تھی اور یہ (دیوی) َمنَاة سے پرانی ہے اور یہ ایک چکور چٹان تھی اور
اب بْنِ مالك یہودی یہاں اس کے پاس ستو پستے (پالتے) تھے اور اس کے پروہت ث َ ِقيف بَنُو َعتَّ ِ
سے تھے اور انہوں نے ہی اس کے مندر کی تعمیر کی تھی اور قریش اور سارا عرب اس کی
تعظیم کرتا تھا
ق ََال أَبُو الْ ُمنْ ِذ ِر َولَ ْم ت َ ُك ْن قُ َريْش مبِ َ َّك َة َو َم ْن أَقَا َم ِب َها ِم َن الْ َع َر ِب يُ َعظِّ ُمو َن شَ يْئًا ِم َن األَ ْصنَامِ إِ ْعظَا َم ُه ُم
الْ ُع َّزى ث ُ َّم الالتَ ث ُ َّم َمنَا َة
يام أَظُ ُّن لقربها كَا َن ِم ْن َها َ ِ
ف كَ ِ لَ ذو ِ
ة ي ِ
د ه ْ ل
ِّ َ َ َ َ َّ َاو ِ
ة ر اي ز ِال
ب َاه ِ فَأَ َّما الْ ُع َّزى فَكَان َْت قُ َريْ َ ُّ َ َ ْ
َُي
غ نُود اه ُص خ ت ش
َاص ِة قريش الْ ُع َّزى َوكَان َْت ث َ ِقيف تَخ ُُّص الالتَ كَخ َّ
الالتَ پھر کرتے تعظیم زیادہ سے سب عرب اور مکہ قریش کی أَبُو الْ ُم ْن ِذ ِر کہتے ہیں کہ الْ ُع َّزى
کی اور پھر َم َنا َة کی
اور الْ ُع َّزى کو قریش نے اپنے لئے خاص کر رکھا تھا اور … الالتَ کو ث َ ِقيف نے ایسے ہی خاص کر
رکھا تھا جیسے الْ ُع َّزى کو قریش نے
یہودی یہاں ستو کیوں پالتے تھے اگر اتنے موحد تھے؟
احد والے دن ابو سفیان رضی الله عنہ نے حالت رشک میں پکارا تھا
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم َم َّر ِف ُسوقِ ِذي الْ َم َجا ِز َو َعلَيْ ِه ُحلَّة طَارِق الْ ُم َحار ِ ِِّب ق ََالَ :رأَيْ ُت َر ُس َ
ِ ِ ْ ِ ِ َّ ِ َ ِ
اس ،قُولُوا :الَ إل َه إالَّ الل ُه ت ُ ْفل ُحوا “َ ،و َر ُجل يَتْبَ ُع ُه يَ ْرميَ ُه بِالح َجا َرة قَ ْد ُول ” :يَا أَيُّ َها النَّ ُ
َح ْم َرا ُءَ ،و ُه َو يَق ُ
ِ
اس الَ ت ُطي ُعو ُه فَإنَّ ُه كَذَّاب ،فَ ُقل ُْتَ :م ْن َهذَا؟ قَالُوا :غ َُال ُم ِ أَ ْد َمى كَ ْعبَيْ ِه َو ُع ْرقُوبَيْهَ ،و ُه َو يَقُول :يَا أيُّ َها النَّ ُ
َ ُ ِ
َ َ ْ ِ
بَ ِني َعبْ ِد الْ ُمطَّلِ ِب ،فَ ُقل ُْتَ :م ْن َهذَا ال َِّذي يَتْبَ ُع ُه يَ ْرميه بِالح َجا َرة؟ قَالُواَ :هذَا َعبْ ُد ال ُع َّزى أبُو ل َهب
ِ ْ ِ ِ
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّم کو دیکھا وہ ِذي الْ َم َجاز کے طَارِق الْ ُم َحار ِ ِِّب کہتے ہیں :میں نے َر ُس َ
بازار میں سے جا رہے تھے اور ان پررسخ چادر تھی اور کہہ رہے تھے :اے لوگوں ! کہو الَ إِلَ َه إالَِّ
اللَّ ُه کامیاب ہو جاؤ اور ایک آدمی ان کے پیچھے تھا جو پتھر پھینک رہا تھا … جو کہہ رہا تھا
اے لوگوں اس کی نہ سنو یہ کذاب ہے ،پس میں نے کسی سے پوچھا یہ کون ہے؟ کہا یہ بَ ِني
َعبْ ِد الْ ُمطَّلِ ِب کا لڑکا ہے -پھر پوچھا جو پیچھے ہے ،یہ کون ہے ،جو پتھر پھینک رہا ہے ؟ کہا
یہ َعبْ ُد الْ ُع َّزى أَبُو لَ َهب ہے
ْ
نبی صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو لھب کا اصلی نام ہی َعبْ ُد ال ُع َّزى تھا
عربوں کے مطابق ُع َّزى ایک فرشتہ تھی اور وہ الله کی بیٹی تھیُ -ع َّزى کے فرشتہ ہونے کا ذکر
یہود کی کتاب میں ملتا ہے کتاب انوخ تین میں ہے -شیاطین پر ایک انسائیکلوپیڈیا میں ہے
ُع َّزى ہبوط شدہ فرشتوں میں سے ہے ُع َّزى کا مطلب قوت ہے کتاب انوخ تین میں اس کا ذکر تین
فرشتوں میں ہے مع عزازیل اورعذہ جو ساتویں آسامن پر رہتے تھے
کتاب انوخ تین ایک قدیم کتاب ہے اس کے اجزا بحر مردار کے طومار میں بھی ہیں
الصفَا َوامل َ ْر َو َة ِم ْن شَ َعائِ ِر کہ َّ
الصفَا َوامل َ ْر َو َة بے شک اللہ کی نشانیاں ہیں کے لئے قرآن کی آیت ِإ َّن َّ
عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں
إِمنَّ َا أُنْ ِزل َْت ه َِذ ِه اْليَ ُة ِف األَن َْصا ِر كَانُوا يُ ِهلُّو َن لِ َمنَا َة
یہ آیت انصار کے لئے اتری ہے وہ َمنَا ُة پر چڑھاوے کرتے تھے
کتاب أخبار مكة ف قديم الدهر وحديثه از أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن العباس املك
الفاكهي (املتوىف272 :هـ) کے مطابق
نصب َع ْمرو بن لحي َمنَاة عل َساحل الْبَ ْحر ِم َّام يَ ِل قديد فَكَانَت األزد وغسان يحجونها ويعظمونها
إِذا طافوا بِالْبَيْ ِت وأفاضوا من َع َرفَات وفرغوا من منى أَت َوا َمنَاة فأهلوا لَ َها فَمن أهل لَ َها مل يطف بَي
الصفَا واملروة ق ََال َوكَانَت َمنَاة لِ ْْلَ ْو ِس والخزرج واألزد من غ ََّسان َومن دَان دينهم من أهل يثبَّ
َع ْمرو بن لحي نے َمنَاة کو ساحل سمندر پر نصب کیا جو قديد کے پاس ہے پس قبیلہ األزد اور
غسان اس کا حج کرتے اور اس کی تعظیم کرتے اور طواف کعبہ اور َع َرفَات اور منی سے
فارغ ہونے کے بعد َمنَاة پر آ کر چڑھاتے ..اور َمنَاة ْأَ ْو ِس والخزرج کی دیوی تھی اور األزد کی
غسان میں اور جو اس دین پر أهل يثب میں سے آئے
َم َناة اصل میں انَاة ہے جو ایل کی بیٹی اور بعل کی بہن تھی اس کو بتول سمجھا جاتا تھا اور یہ
شام میں ایک اہم دیوی تھی -مسلم تاریخ دانوں کے مطابق َع ْمرو بن لحي ،شام سے کچھ اصنام
الیا تھا یہ بھی انہی میں سے تھی
انَاة اگر ایل کی بیٹی تھی تو وہ فرشتہ ہوئی کیونکہ عربوں میں فرشتوں کو ایل یا الله کی بیٹی
کہا جاتا تھا
ایلیفینٹین موجودہ أسوان ،مرص میں ایک یہودی بستی تھی جو پہلے ہیکل کی تباہی پر آباد
ہوئی تھی اس کا ذکر الربديات الفنتي ( )١میں موجود ہے جو حال میں دریافت ہوئے
(١)Elephantine papyri
یروشلم سے بے دخلی کے باوجود اس کے بعد بھی ایک دیوی کا تصور باقی رہا-
ایلیفینٹین مرص میں پانچویں صدی میں بھی مخطوطات پر یہودی بستیوں میں یہودی آسامن
کی ملکہ کو انَاة-یحوی کے نام سے پوج رہے تھے ،ایک کنعانی دیوی اور یہوی کا مرکب
یہوی یہود میں الله کا نام ہے اور اس کو ایل بھی کہا جاتا ہے -انَاة نام کی دیوی ایل یا الله کی
بیٹی تھی جس کی پرستیش کی جاتی تھی اور یہی دیوی عربوں میں منَاة بن گئی
الالت ،ال ُع َّزى اور َمنَاة کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں جا کر فرشتوں اور ایل کی بیٹی کے طور پر
یہودی گمراہ فرقوں سے مل جاتے ہیں جن سے عرب متاثر ہوئے اور ان کو ال کر بیت الله میں
رکھا گیا اور دین ابراہیمی کو حنفیت سے رشک بنا دیا گیا
حدثنا القاسم ،قال :ثنا الحسي ،قال :ثنا حجاج ،عن أب معرش ،عن محمد بن كعب القرظي ومحمد
بن قيس
کتاب جامع التحصيل ف أحكام املراسيل از صالح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله
الدمشقي العاليئ (املتوىف761 :هـ) کے مطابق
اس کی سند میں محمد بن كعب القرظي بھی ہیں ان کے لئے ہے کہ ان کا سامع خود صحابہ
سے ثابت نہیں ہے
محمد بن كعب القرظي روى عن عل والعباس وابن مسعود وأب الدرداء رض الله عنهم وذلك
مرسل مل يلقهم
:حدثنا ابن عبد األعل ،قال :ثنا املعتمر ،قال :سمعت داود ،عن أب العالية ،قال
اس میں رفيع أبو العالية الرياحي ہے جو صحابہ سے مرسل روایت کرتے ہیں
اس کو الزہری اور سعید بن جبیر کی سند سے بھی نقل کیا گیا ہے لیکن متام اسناد مرسل ہیں اور
ایک بھی مظبوط روایت نہیں
ابن حجر املرصي نے اس روایت کو قبول کیا ہے ابن کثیر نے رد کیا ہے
میں اچھی بحث کی ہے اور اس کے البانی نے اس پر کتاب نصب املجانيق لنسف قصة الغرانيق
دس طرق جمع کئے ہیں اور ثابت کیا ہے یہ متام روایات معلول ہے
البانی لکھتے ہیں
تلك هي روايات القصة ،وهي كلها كام رأيت ُم َعلَّة باْلرسال والضعف وال َجهالة ،فليس فيها ما يصلُح
لالحتجاج به
یہ ہیں وہ روایات جو اس قصے سے متعلق ہیں اور یہ سب جیسا کہ دکھایا ہے معلول ہیں ارسال
کرنے اور کمزور اور مجھول راویوں کی وجہ سے -پس ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس
سے دلیل لی جائے
بحر الحال ان روایات کا اصل مقصد واضح نہیں کیا گیا کہ ان کو کیوں بیان کیا گیا
َسا َوقَ ْد أَضَ لُّوا كَ ِث ًُيا َوال ت َ َذ ُر َّن َودىا َوال ُس َوا ًعا َوال يَغُوثَ َويَ ُع َ
وق َون ْ ً
اور نہ ود کو چھوڑو نہ سواع کو نہ يغوث کو نہ يعوق اور نہ نس کو اور انہوں نے بہت سوں
کو گمراہ کیا
کہا جاتا ہے کہ قوم نوح کے بعد عمرو بن لحی شام گیا اوروہاں سے ان بتوں کو الیا – یہ بھی کہا
جاتا ہے کہ ایک جن نے اس کو خرب دی اور جدہ کے ساحل پر سے ان بتوں کو نکاال -لیکن اس
قصہ کا رس پیر واضح نہیں -اگر ہم دیکھیں کہ ان بتوں کو کون پوجتا تھا اور یہ عرب میں کہاں
تھے اور کس شکل کے تھے تو یہ نقشہ بنتا ہے
حزقی ایل کی کتاب کے باب اول کی آیت ١٠کے مطابق حزقی ایل نے بابل میں عرش یا مرکبہ
کو دیکھا -مرکبہ کو چار فرشتوں نے اٹھایا ہوا تھا جن کے چار چہرے تھے ایک انسان جیسا ایک
شیر جیسا ایک بیل جیسا اور ایک عقاب جیسا تھا -اگر اپ دیکھیں تو سواع انسان جیسا تھا ،
يغوث شیر جیسا ،ود بیل جیسا اور نس عقاب جیسا
معلوم ہوتا ہے کہ یہودی تصوف کا اثر یمن سے ان بتوں کی شکل میں نکال اور عربوں میں
پھیال -ہر بت کی شکل میں ایک مختلف جانور ہے -سواع ایک عورت کی شکل کا بت تھا – اور
عربوں میں فرشتوں کو پوجنے کا تصور تھا لہذا بہت ممکن ہے کہ ان سب کو فرشتے سمجھ کر
پوجا جاتا ہو-حدیث کے مطابق یہ سب اولیاء الله تھے جن کی قربیں پوجی گئیں تھیں
اور عربوں نے ان کے بت بنا کر پوجا
بزرگوں کی روحیں فرشتے بن جانے کا تصور اسالمی تصوف میں بھی موجود ہے -شاہ ولی الله
نے اس کو حجه الله البالغہ میں ذکر کیا ہے – تصوف میں ایسے کامالت ہوتے رہتے ہیں چاہے
یہودی تصوف ہو یا اسالمی
قرب پرستی کی لعنت میں یہودی مبتال رہے ہیں اور عرب ان کے بت بنا کر پوجتے تھے اور
یہودی فرشتوں کے نام پر جادو کیا کرتے تھے یہ سب عرب کا عام کلچر تھا اس مرشکانہ ماحول
میں جانوروں کی شکل والے قوم نوح کے اولیاء کی پوجا پاٹ کے پیچھے یقینا کوئی داستان ہو
گی جو ہم تک نہیں پہنچی لیکن اس کے شواہد یہود یمن سے جا کر رضور ملتے ہیں نہ کہ شام
سے
ھبل کا بت؟
قرآن میں ھبل کا رسے سے کوئی ذکر نہیں -کعبہ کے بیچ میں ھبل کا بت تھا جو کتاب االصنام
رض نے رکھا تھا اور اس کو ُهبَ ُل ُخ َز ْ َمي َة بھی از الکلبی کے مطابق ُخ َز ْ َمي َة بْ َن ُم ْد ِركَ َة بْنِ إِلْيَ َ
اس بْنِ ُم َ َ
رض ،نبی صلی الله علیہ وسلم کا ١٤یوں پر دادا اس بْنِ ُم َ َ کہا جاتا تھاُ -خ َز ْ َمي َة بْ َن ُم ْد ِركَ َة بْنِ إِلْيَ َ
تھا -یہ بت ایک انسان کی صورت تھا ،جس کا دایاں باتھ سونے کا تھا اور جسم رسخ یاقوت
کا -اس کے آگے سات پانسے ہوتے تھے جن میں ایک پر رصیح اور آخری پر مبہم لکھا ہوتا تھا-
بني كنانة وقريش اس کے پجاری تھے
ھبل کے ساتھ ایک کنواں تھا جس کو األخسف یا األخشف کہا جاتا تھا
کعبہ کے وسط میں کنواں تھا جو اس میں داخل ہونے کے بعد سیدھے ہاتھ پر تھا اور اس کی
گہرائی تین بازو برابر تھی کہا جاتا ہے اس کو ابراہیم اور اسمعیل نے کھودا تھا تاکہ اس میں کعبہ
کو ملنے والے تحفہ رکھے جائیں اور یہ اسی حالت میں رہا حتی کہ عمرو بْ ُن لُ َحي ،الْ َجزِي َر ِة
(موجودہ کردستان) سے ھبل کا بت الیا
َع ْمرو بن لحي بن قمعة بن خندف کا تعلق قبیلہ ُخ َزا َعة سے تھا – بخاری کی حدیث میں کہا گیا
ہے کہ اس نے بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے کی رسم نکالی تھی
صحابی رسول عمرو بن الجموح رضی الله عنہ اسی َع ْمرو بن لحي کی نسل میں سے تھے جو آٹھ
رض اس سے بھی پہلے کا ہے جو پشت پہلے کا دور ہے جبکہ ُخ َز ْ َمي َة بْ َن ُم ْد ِركَ َة بْنِ إِلْ َي َ
اس بْنِ ُم َ َ
کلبی کا کتاب االصنام میں قول ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے
مسند احمد اور صحیح بخاری میں ہے کہ جنگ احد میں جب مسلامنوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی
تو ابو سفیان رضی الله عنہ نے حالت رشک میں پکارا
ا ْع ُل ُهبَ ُل
بیہقی ،شعب اْلميان کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش پر
فَأَ َخذَهُ َعبْ ُد الْ ُمطَّلِ ِب فَأَ ْد َخلَ ُه عل ُهبَ َل ِف َج ْو ِف الْكَ ْعبَ ِة
َعبْ ُد الْ ُمطَّلِ ِب نے ان کو گود میں لیا اور کعبہ کے وسط میں ھبل کے آگے پیش کیا
َو َذكَ َر ابْ ُن ِإ ْس َحاقَ ُد َعا َءهُ َوأَبْ َياتَ ُه الَّتِي قَالَ َها ِف شُ كْ ِر الل ِه تَ َع َال َع َل َما َو َه َب ُه
اور ابن اسحاق نے دعا اور اشعار ذکر کیے جو انہوں ( َعبْ ُد الْ ُمطَّلِ ِب) نے الله نے جو عطا کیا اس
کا شکر کرنے کے لئے کہے
ایک زمانے میں قبیلہ ُخ َزا َعة کے پاس کعبہ کی متولیت تھی -کتاب معجم قبائل العرب القدمية
والحديثة از عمر بن رضا بن محمد راغب بن عبد الغني كحالة الدمشق (املتوىف1408 :هـ) کے
مطابق
یہ کعبہ کے پاس پہاڑوں میں رہتے تھے -خزاعة میں اور بني كنانة میں ایک دورسے کی جنگوں
میں مدد کا معاہدہ بھی تھا – لہذا بني كنانة کا اثر و رسوخ بڑھا ہو گا اور انہوں نے اپنا بت کعبہ
میں رکھوا دیا ہو گا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ُخ َزا َعة نہیں بلکہ بني كنانة اور قریش ھبل کے پجاری
تھے
رض کے
اس بْنِ ُم َ َ بنی کنانہ کا تعلق كنانة بن خزمية بن مدركة سے ہے اور ُخ َز ْ َمي َة بْ َن ُم ْد ِركَ َة بْنِ إِلْيَ َ
لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے ھبل کا بت کعبہ میں رکھا تھا -لہذا عمرو بْ ُن لُ َحي کا الْ َجزِي َر ِة
(موجودہ کردستان) سے ھبل کا بت الیا جانا اور اس کو کعبہ میں رکھا جانا تاریخ سے ثابت
نہیں -مسلامن مورخین نے ہر بت عمرو بْ ُن لُ َحي سے منسوب کر دیا ہے حاالنکہ اس نے بتوں پر
جانور چھوڑنے کی رسم نکالی تھی جو ظاہر ہے بتوں کی معارشہ میں مقبولیت کے بعد ہی ممکن
ہے
بنی کنانہ یمن اور مکہ کے درمیان آباد تھے لہذا ھبل کوئی شامی یا کردستانی یا نبطی بت نہیں
تھا اس کا تعلق بھی یمن سے تھا -کنانہ والوں کے دو دیوتا تھے کتاب األعالم از خُي الدين بن
محمود بن محمد بن عل بن فارس ،الزركل الدمشقي (املتوىف1396 :هـ) کے مطابق
وكان من أصنامهم ف الجاهلية ” سواع ” ف وادي نعامن ،قرب مكة ،و ” هبل ” ف جوف الكعبة
اور جاہلیت میں ان کے اصنام میں سواع تھا وادي نعامن مکہ کے پاس اور ھبل کعبہ کے وسط
میں
مغربی مسترشقین کا دعوی ہے کہ ھبل اصل میں بعل ہے لیکن اس پر ان کی کوئی دلیل نہیں –
پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ھبل ،ود تھا اور یہ بھی وہ الله تھا وغیرہ -لیکن عجیب بات ہے کہ
خود اپنے نام ھبل رکھتے ہیں اور ایک ٹیلی اسکوپ کو بھی ھبل ٹیلی اسکوپ کہا جاتا ہے جو
ایک سائنس دان کے نام پر ہے -جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ ڈچ یا جرمن سے انگریزی
– میں آیا ہے
یہ لفظ راقم کے خیال میں ہابیل ہے جو عربانی میں ہوول ہے – عربانی میں ب اور و تبدیل ہو
جاتے ہیں مثال عربانی میں تل اویو بوال جاتا ہے اور عربی میں تل ابیب بوال جاتا ہے -اسی طرح
– آدم کے بیٹے کا نام عربانی میں ہیو-ول سے عربی میں ھبل ہوا
http://www.forvo.com/word/hevel/
یہی عربانی نام ،معرب ہو کراس بت کے لئے مشھور ہو گیا اور اس کی پوجا ہونے لگی – یہ بت
بنی کنانہ سے آیا جو مکہ اور یمن کے درمیان سکونت پذیر تھا – یمن پر یہودی اثر قدیم دور
-سے آج تک ہے اور ان کی بعض قبائل ابھی بھی وہاں موجود ہیں
عرب نبوت پر یقین نہیں رکھتے تھے لیکن کعبہ میں نیک لوگوں کے بت و تصویر بھی
تھیں -کعبہ میں بتوں کے عالوہ تصویریں تھیں – الذہبی تاريخ اْلسالم َو َوفيات املشاهُي
َواألعالم میں لکھتے ہیں کہ کعبہ میں
انبیاء کی ،فرشتوں کی درختوں کی تصویریں تھیں اور ابراہیم کی پانسوں کے ساتھ اور عیسی اور
ان کی ماں کی بھی
عیسی اور مریم کی تصویر یا دورسے انبیاء کی تصویریں عقیدہ نبوت پر ایامن کی وجہ سے
نہیں بلکہ ان کے نیک مشھور ہونے کی وجہسے تھیں -لہذا ھبل کوئی غیر معروف مرد منا بت
نہ تھا بلکہ بہت ممکن ہے کہ یہ ہابیل کا عربانی نام واال بت ہو و اللہ اعلم
قریش مکہ کہتے تھے کہ ھم ان کی عبادت اس لئے کرتے ھیں کہ تاکہ یہ ھم کو اللہ کے قریب
کر دیں سورہ الزمر
عرب مرشکین کے یمن کے یہودیوں سے اچھے تعلقات تھے اور یثب کے یہود سے بھی -اسی لئے
ان کو الله واال سمجھ کر ان سے نیک لوگ اور فرشتوں پر معلومات لیتے اور ان کے بت بنا کر
پوجتے – آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فرشتے ہوں یا اولیاء قوم نوح یا ھبل یہ سب یہود نے ان کو
بتائے یہی وجہ ہے کہ مندروں پر یہودی ستو پالتے تھے شاید یہ ایک بزنس تھا کہ عربوں کو
فرشتوں کے مندر دیے جائیں اور وہاں انے والے لوگوں سے یہود بزنس کرتے تھے
نبی صلی الله علیہ وسلم پر جادو کروانے کے لئے بھی مرشکین ،یہود کے کے پاس گئے -لہذا
وہ عرب مرشکین کی نگاہ میں قابل قدر تھے
یمن کی مملکتیں اور قرآن
مملکت حمیر ( )١قدیم یمن میں ایک حکومت رہی جس نے ایک وقت میں متام یمن اور
حرض املوت پر حکومت کی
مملکت سبا پر ٢٥بعد مسیح میں اس نے قبضہ کیا ،مملکت قتبان پر ٢٠٠بعد مسیح میں
اور قریب ٣٠٠بعد مسیح میں حرض املوت پر انہوں نے قبضہ کیا – یہ متام عالقے قدیم یمن
میں تھے -تیسی صدی بعد مسیح میں اس میں مملکت السبئيون بھی شامل ہو گئی -یہ ابتداء
میں مرشک قبائلی مملکت تھی جو حجاز تک اثر و رسوخ رکھتی تھی -اسی کے آس پاس دور
-میں سمندر پار افریقہ میں ایک ممکت اکثوم نے عیسائی مذھب اختیار کیا
مملکت حمیر کے ایک بادشاہ أبو كرب أسعد یا أسعد أبو كُ َريْب بن َملْكيكرب یا اسعد الكامل یا
التبع نے حمیر پر ٣٩٠سے ٤٢٠ع تک حکومت کی -کہتے ہیں اس نے یثب پر حملہ کیا تاکہ
وہاں بڑھتے ہوئے عیسائی بازنیطی اثر کو ختم کرے -اس جنگ میں یہودیوں نے بھی مملکت
حمیر کا ساتھ دیا – لیکن التبع وہاں بیامر ہو گیا حتی کہ کسی چیز سے شفا یاب نہ ہو سکا -یہ
ایک مرشک تھا لیکن یثب کے یہودیوں احبار نے اس کو جھاڑا اور یہ ٹھیک ہو گیا -اس سے متاثر
ہو کر اس نے یہودی مذھب قبول کیا – اس طرح مملکت حمیر ایک یہودی ریاست بن گئی -اس
کی قوم کا قرآن میں ذکر ہے
الدخان أَ ُه ْم خ َُْي أَ ْم قَ ْو ُم ت ُ َّبع َوال َِّذي َن ِم ْن قَ ْبلِ ِه ْم أَ ْهلَ ْكنَا ُه ْم إِنَّ ُه ْم كَانُوا ُم ْج ِر ِم َي :الله تعال کہتا ہے
٣٧میں
کیا یہ (مرشکین مکہ) بہَّت ہیں یا تبع کی قوم اور جو ان سے قبل گزرے جن کو ہم نے ہالک کیا
یہ سب مجرم تھے
اور
اب ال َّر ِّس َوَثَ ُو ُد َ .و َعاد َو ِف ْر َع ْو ُن َوإِ ْخ َوا ُن لُوط َ .وأَ ْص َح ُ
اب األْ َيْ َك ِة َوقَ ْو ُم كَ َّذبَ ْت قَبْلَ ُه ْم قَ ْو ُم نُوح َوأَ ْص َح ُ
سوره ق ١٢سے ١٤میں ت ُ َّبع كُل كَذ ََّب ال ُّر ُس َل فَ َح َّق َو ِع ِيد
ان (مرشکین مکہ) سے قبل قوم نوح اور اصحاب الرس اور َثود اور عاد اور فرعون اور قوم لوط
اب األْ َيْكَ ِة اور َقَ ْو ُم تُ َّبع کو ہالک کیا سب نے رسولوں کا انکار کیا پس ان پر َو ِعي ِد ثبت اور َأَ ْص َح ُ
ہوئی
ابو داود کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
یعنی تبع کے اس تبدیلی ایامن میں وہ صحیح تھا یا نہیں اس کی خرب نہیں دی گئی لیکن اس کی
قوم کو برا کہا گیا ہے -کعب االحبار کا قول ہے ذم الله تعال قومه ومل يذمه الله نے اس کو برا
نہیں کہا اس کی قوم کو کہا ہے
بحر الحال قوم تبع الحمیر یہودی ہوئی اور حبشہ واکثوم کے عیسائیوں سے اس کی ٹھن گئی
حتی کہ اکثوم نے حمیر پر حملہ کیا اور اس کے شاہ ذو نواس کو معذول کر دیا – عرب میں
عیسائی اور یہودی مذھب کی تبلیغ کی وجہ سے یمن کے کچھ قبائل نے عیسائی مذھب کو
قبول کیا اور یمن کا نجران کا عالقہ بھی عیسائی مذھب کا حامل ہوا -مملکت حمیر کے یہودی
بادشاہ ذونواس جس کا نام یوسف تھا اس نے واپس اپنا عالقہ بزور بازو حاصل کیا اور اپنے عالقے
کے لوگوں کو جربا یہودی مذھب اختیار کرنے کا حکم دیا – بظاہر حمیر یہودیت کے قائل تھے
لیکن ان کے عقائد مرشکانہ ہو چکے تھے -اس زبر دستی میں ذونواس نے ایک بڑا قدم اٹھایا –
اس نے اگ جالنے کا حکم دیا اور اس میں ٢٠ہزار مردوں ،عورتوں اور بچوں کو پھینکا گیا جنہوں
نے رشکیہ عقیدہ اختیار نہیں کیا تھا – اس کا ذکر قرآن میں ہے
َات الْ َوقُو ِداب األْ ُ ْخدُود النَّا ِر ذ ِ َات ال ُ ُْربوجِ َوالْ َي ْومِ الْ َم ْو ُعو ِد َوشَ ا ِهد َو َمشْ ُهود قُتِ َل أَ ْص َح ُ الس َام ِء ذ ِ َو َّ
إِذْ ُه ْم َعلَ ْي َها قُ ُعود َو ُه ْم َع َل َما يَ ْف َعلُو َن بِالْ ُم ْؤ ِم ِن َي شُ ُهود َو َما نَ َق ُموا ِمنْ ُه ْم إِالَّ أَ ْن يُ ْؤ ِمنُوا بِاللَّ ِه الْ َعزِي ِز
الْ َح ِم ِيد
َشء شَ هِيد إِ َّن ال َِّذي َن فَتَنُوا الْ ُم ْؤ ِم ِن َي َوالْ ُم ْؤ ِمنَاتِ الس َام َوات َواألْ ْرض ۚ َوالل ُه َع َل ك ُِّل َ ْ
َّ ِ َ ِ الَّ ِذي لَ ُه ُملْك َّ
ُ
َ ِ
الصال َحات ل ُه ْم َجنَّات ِ ِ ِ ِ
َاب ال َحرِيقِ إ َّن الَّذي َن آ َمنُوا َو َعملُوا َّ ْ َ
َاب َج َهنَّ َم َول ُه ْم َعذ ُ ث ُ َّم لَ ْم يَتُوبُوا فَلَ ُه ْم َعذ ُ
ت َ ْجرِي ِم ْن ت َ ْحتِ َها األْ َنْ َها ُر ۚ ذَلِ َك الْ َف ْو ُز الْ َك ِب ُُي
آسامن کی قسم جس میں برج ہیں ،اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے ،اور حارض ہونے والے کی
اور جو اس کے پاس حارض کیا جائے اسکی -کہ خندقوں (کے کھودنے) والے ہالک کر دیئے
گئے -یعنی) آگ (کی خندقیں) جس میں ایندھن (جھونک رکھا) تھا -جب کہ وہ ان (کے
کناروں) پر بیٹھے ہوئے تھے -اور جو (سختیاں) اہل ایامن پر کر رہے تھے ان کو سامنے دیکھ رہے
تھے -ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ الله پر ایامن الئے ہوئے تھے جو غالب
(اور) قابل ستائش ہے -وہی جس کی آسامنوں اور زمین میں بادشاہت ہے۔ اور الله ہر چیز سے
واقف ہے -جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کو
دوزخ کا (اور) عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا – (اور) جو لوگ ایامن الئے اور نیک
کام کرتے رہے ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ ہی بڑی کامیابی ہے
اس کا ذکر عیسائی یونانی کتاب میں بھی ہے اور مارٹم سنکٹی ارتھاۓ کے نام سے مشھور ہے
صهيب الرومي املتوفی ٣٩ھ سے عبد الرحمن بن أب ليل (والدت ٢١ہجری اور وفات ٨٣ھ )
نے ایک روایت صحیح مسلم اور مصنف عبد الرزاق بیان کی ہے جس کے مطابق اصحاب
الخدود کا واقعہ ماضی میں پیش آیا – عبد الرحمن بن أب ليل مدلس ہیں اور اس کی ہر سند
کو عن سے روایت کرتے ہیں -البتہ اس میں َص ْو َم َعة اور راہبوں کا ذکر کرتے ہیں جس سے پتا چلتا
ہے کہ اس میں مسلامن لوگوں سے مراد اہل کتاب تھے جو عیسی پر ایامن الئے تھے لیکن موحد
تھے -مصنف میں محدث عبد الرزاق کہتے ہیں
ق ََال َعبْ ُد ال َّرزَّاقِ َ « :واألْ ُ ْخدُو ُد بِنَ ْج َرا َن» اور َعبْ ُد ال َّرزَّاقِ کہتے ہیں خندقوں والے نجران میں تھے
عبد الرزاق کا تعلق بھی یمن سے ہے
اس واقعہ کو سن کر اکثوم کے بادشاہ کلیب نے ایک لشکر بھیجا اور سن ١٠١قبل ہجری مبطابق
سن ٢٢٥ع میں مملکت اکثوم کی بازنیطی عیسائی ریاست کے ہاتھوں مملکت حمیر تباہ ہوئی
اور آخری یہودی بادشاہ ذو نواس نے خود کشی کر لی
کہا جاتا ہے کہ اکثوم کے شاہ کلیب کے دورسے لشکر نے جس نے یمن پر حملہ کیا اس کا
جرنل أبرهة تھا ایک لڑائی میں اس کے چہرے پر زخم آیا اور اس کا نام األرشم پڑ گیا -اس کے
لشکر کے پاس ایک الکھ افریقی ہاتھی تھے – أبرهة األرشم ،یمن کے عالقے پر اکثوم کا وائس
رائے بن کر حکومت کرتا رہا حتی کہ اس نے خود کو یمن کا آزاد حاکم قرار دے دیا اور اکثوم کا
باغی ہوا -یہ عیسائیت کو پسند کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ متام عرب کعبہ اللہ کو چھوڑ کر یمن
میں اس کے تعمیر کردہ کلیسا (جس کو کعبہ النجران کہا جاتا تھا ) کا حج کریں -سن ٥٧٠
مبطابق ٥٣قبل ہجری میں اس بد بخت نے کعبہ اللہ کو منہدم کرنے کا ایک منصوبہ بنایا اور اپنا
ہاتھیوں کا لشکر لے کر مکہ پہنچ گیا -کہا جاتا ہے کہ مرشکین میں سے کسی شخص نے اس کے
بنائے نقلی کعبہ میں جا کر پاخانہ کر دیا جس پر یہ باوال ہوا اور یہ قدم اٹھایا لیکن یہ واقعہ
خود أبرهة کی ایک چال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ الله تعالی کہتا ہے کہ الله نے أبرهة کی چال
کو ناکام کر دیا
النجاشی
النجاشی اصحمہ ( )١بن ابجر رضی الله عنہ املتوفی ٦٣٠ع مبطابق ٩ہجری اکثوم کے بادشاہ
تھے اور عرب اکثوم کو الحبشہ کہتے تھے
مکہ میں جب مرشکین نے مسلامنوں پر تشدد سخت کیا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے
مسلامنوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا اور ایک خط بھی ان کی طرف بھیجا مرشکین نے
بھی اپنے ایلچی بھیجے کہ ان لوگوں کو ہامرے حوالے کر دیں لیکن النجاشی نے انکار کر دیا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کی مناز جنازہ بھی پڑھائی اور آپ کو ان کی وفات کی خرب وحی
کی گئی
یازخی نزول قرا ن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کس طرح رشوع ہوئی ،اور اللہ تعالی کا قول کہ ہم
نے تم پر وحی بھیجی جس طرح حرضت نوح علیہ السالم اور ان کے بعد پیغمربوں پر وحی
بھیجی ۔
راوی :یحیی بن بکیر ,لیث ,عقیل ,ابن شہاب ,عروہ بن زبیر ,عائشہ
َح َّدثَنَا يَ ْحيَی بْ ُن بُک َُْي ق ََال أَخ َ َْرب نَا ال َّليْثُ َع ْن ُع َقيْل َع ْن ابْنِ ِش َهاب َع ْن ُع ْر َو َة بْنِ ال ُّزبَ ْ ُِي َع ْن َعائِشَ َة أُ ِّم
ول اللَّ ِه َصلَّی اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ِم ْن الْ َو ْح ِي ال ُّر ْؤيَا ض اللَّ ُه َعنْ َها أَنَّ َها قَالَتْ أَ َّو ُل َما بُ ِدئَ بِ ِه َر ُس ُ ي َر ِ َ الْ ُم ْؤ ِم ِن َ
الص ْب ِح ث ُ َّم ُح ِّب َب إِلَ ْي ِه الْخ ََال ُئ َوکَا َن يَ ْخلُو بِغَا ِر َقِ ُّ لف
َ ْلَ ثمِ ئ
َ َتْ ا ج الَّإِ اي ؤ ر
ََ َُْ ی ر ي الَ ن
َ َا ک ف
َ الصالِ َح ُة ِ َّ ْ مِ
و ن ال ف َّ
ِ ِ َ َ
ات الْ َع َد ِد قَبْ َل أ ْن يَنْ ِز َع إِلَی أ ْهلِ ِه َويَتَ َز َّو ُد ل َذل َ
ک ث ُ َّم يَ ْر ِج ُع اِل ذَ َو ِِح َرائ فَيَتَ َحنَّثُ في ِه َو ُه َو التَّ َعبُّ ُد اللَّيَ ِ َ
ِ
ک فَق ََال اقْ َرأْ فَق ََال فَ ُقلْتُ َما إِلَی َخ ِدي َج َة فَيَتَ َز َّو ُد لِ ِمثْلِ َها َحتَّی َجائَ ُه الْ َح ُّق َو ُه َو ِف غَا ِر ِح َرائ فَ َجائَ ُه الْ َملَ ُ
أَنَا بِقَارِئ ق ََال فَأَ َخذ َِّن فَ َغطَّ ِني َحتَّی بَلَ َغ ِمنِّي الْ َج ْه َد ث ُ َّم أَ ْر َسلَ ِني فَق ََال اقْ َرأْ قُلْتُ َما أَنَا بِقَارِئ فَأَ َخذ َِّن
فَ َغطَّ ِني الثَّانِ َي َة َح َّتی بَلَ َغ ِم ِّني الْ َج ْه َد ث ُ َّم أَ ْر َسلَ ِني فَق ََال اقْ َرأْ فَ ُقلْتُ َما أَنَا بِقَارِئ ق ََال فَأَ َخذ َِّن فَ َغطَّ ِني
ک األْ َکْ َر ُم فَ َر َج َع بِ َها اْلن َْسا َن ِم ْن َعلَق اقْ َرأْ َو َربُّ َ ک الَّ ِذي َخل ََق َخل ََق ْ ِ الثَّالِثَ َة ث ُ َّم أَ ْر َسلَ ِني فَق ََال اقْ َرأْ ب ِْاسمِ َربِّ َ
ض اللَّ ُه َعنْ َها فَق ََال ول اللَّ ِه َصلَّی اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم يَ ْر ُج ُف فُ َؤادُهُ فَ َدخ ََل َعلَی َخ ِدي َج َة بِنْ ِت ُخ َويْلِد َر ِ َ َر ُس ُ
َب َعنْ ُه ال َّر ْو ُع فَق ََال لِ َخ ِدي َج َة َوأَخ َ َْربهَا الْخ َ ََرب لَ َق ْد خ َِشيتُ َعلَی نَف ِِْس َ ه ذ
َ ی ت
َّ حَ ه
ُ ُو ل م
َّ ز
َ ف
َ ُوّن
ِ لمِّ ز
َ ُوّن
ِ َز ِّمل
ک لَ َت ِص ُل ال َّر ِح َم َوتَ ْح ِم ُل الْک ََّل َوتَک ِْس ُب الْ َم ْعدُو َم ک اللَّ ُه أَبَدًا ِإنَّ َ فَقَالَتْ َخ ِدي َج ُة ک ََّال َواللَّ ِه َما يُ ْخزِي َ
ي َعلَی نَ َوائِ ِب الْ َح ِّق فَانْطَلَقَتْ بِ ِه َخ ِدي َج ُة َحتَّی أَتَتْ بِ ِه َو َرقَ َة بْ َن نَ ْوفَ ِل بْنِ أَ َس ِد بْنِ َوتَ ْقرِي الضَّ يْ َف َوتُ ِع ُ
اّن فَيَکْتُ ُب ِم ْن رص ِف الْ َجا ِهلِيَّ ِة َوکَا َن يَکْتُ ُب الْ ِکتَ َ
اب الْ ِع ْ َرب ِ َّ ً
َعبْ ِد الْ ُع َّزی ابْ َن َع ِّم َخ ِدي َج َة َوکَا َن ا ْم َرأ تَنَ َّ َ
اْلنْجِي ِل بِالْ ِع ْ َربانِ َّي ِة َما شَ ائَ اللَّ ُه أَ ْن يَکْتُ َب َوکَا َن شَ ْيخًا کَ ِب ًُيا قَ ْد َع ِم َي فَقَالَتْ لَ ُه َخ ِدي َج ُة يَا ابْ َن َع ِّم ْاس َم ْع ِْ
ول اللَّ ِه َصلَّی اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم خ َ ََرب َما ک فَق ََال لَ ُه َو َرقَ ُة يَا ابْ َن أَ ِخي َماذَا تَ َری فَأَخ َ َْربهُ َر ُس ُ ِم ْن ابْنِ أَ ِخي َ
وسی يَا لَيْتَ ِني ِفي َها َج َذ ًعا يَا لَيْتَ ِني أَکُو ُن َحيىا إِذْ وس الَّ ِذي نَ َّز َل اللَّ ُه َعلَی ُم َ َرأَی فَق ََال لَ ُه َو َرقَ ُة َهذَا النَّا ُم ُ
ْ َ
ول اللَّ ِه َصلَّی اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم أ َو ُم ْخ ِرج َِّي ُه ْم ق ََال نَ َع ْم لَ ْم يَأ ِت َر ُجل قَ ُّط مبِ ِثْ ِل ک فَق ََال َر ُس ُ ک قَ ْو ُم َ يُ ْخ ِر ُج َ
َرصا ُم َؤ َّز ًرا ث ُ َّم لَ ْم يَنْشَ ْب َو َرقَ ُة أَ ْن تُ ُوفِّ َ َوف َ َََّت الْ َو ْح ُي ْرص َک ن ْ ً ک أَن ُ ْ َما ِجئْتَ بِ ِه ِإالَّ ُعو ِد َي َو ِإ ْن يُ ْد ِرکْ ِني يَ ْو ُم َ
ق ََال ابْ ُن ِش َهاب َوأَخ َ َْرب ِّن أَبُو َسلَ َم َة بْ ُن َع ْب ِد ال َّر ْح َمنِ أَ َّن َجابِ َر بْ َن َع ْب ِد اللَّ ِه األْ َن َْصا ِر َّي قَ َال َو ُه َو يُ َحدِّثُ
کالس َامئِ فَ َرفَعْتُ بَ َرصِي فَإِذَا الْ َم ُ
َ ل َع ْن ف ْ َََّت ِة الْ َو ْح ِي فَق ََال ِف َح ِديثِ ِه بَ ْي َنا أَنَا أَ ْم ِِش إِذْ َس ِمعْتُ َص ْوتًا ِم ْن َّ
ُوّن
ُوّن َز ِّمل ِالس َامئِ َو ْاألَ ْر ِض فَ ُر ِعبْتُ ِمنْ ُه فَ َر َجعْتُ فَ ُقلْتُ َز ِّمل ِ ي َّ ا َّل ِذي َجائَ ِني بِ ِح َرائ َجالِس َعلَی کُ ْر ِِس بَ ْ َ
فَأَنْ َز َل اللَّ ُه تَ َعالَی يَا أَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر قُ ْم فَأَنْ ِذ ْر َو َربَّ َ
ک فَک َِّرب َوثِيَا بَ َ
ک فَطَ ِّه ْر َوال ُّر ْج َز فَا ْه ُج ْر فَ َح ِم َي الْ َو ْح ُي
وس َف َوأَبُو َصالِح َوتَابَ َع ُه ِه َال ُل بْ ُن َردَّاد َع ْن ال ُّز ْه ِر ِّي َوق ََال يُون ُُس َو َم ْع َمر َوتَتَابَ َع تَابَ َع ُه َع ْب ُد اللَّ ِه بْ ُن يُ ُ
بَ َوا ِد ُرهُ
یحیی بن بکیر ،لیث ،عقیل ،ابن شہاب ،عروہ بن زبیر ام املومنین حرضت عائشہ رضی اللہ تعالی
عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم پر اترنی رشوع ہوئی وہ اچھے خواب تھے ،جو بحالت نیند آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم دیکھتے تھے ،چنانچہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب دیکھتے تو وہ
صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا ،پھر تنہائی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت
ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو
وہاں تحنث کیا کرتے ،تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لئے توشہ ساتھ لے
جاتے پھر حرضت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے،
یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے ،حق آیا ،چنانچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ ،آپ
نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں
کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا ،یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی ،پھر مجھے
چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ،پھر دورسی بار مجھے پکڑا اور زور
سے دبایا ،یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے
کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تیسی بار پکڑ کر مجھے
زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون
سے پیدا کیا ،پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے
دہرایا اس حال میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چنانچہ آپ حرضت خدیجہ بنت خویلد کے پاس
آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو ،مجھے کمبل اڑھا دو ،تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا ،یہاں
تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا ،حرضت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا
کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے ،حرضت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا ہرگز نہیں ،اللہ کی
قسم ،اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا ،آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں ،ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں ،محتاجوں کے لئے
کامتے ہیں ،مہامن کی مہامن نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں ،پھر
حرضت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل بن
اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو حرضت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے چچا زاد بھائی
تھے ،زمانہ جاہلیت میں نرصانی ہوگئے تھے اور عربانی کتاب لکھا کرتے تھے۔چنانچہ انجیل کو
عربانی زبان میں لکھا کرتے تھے ،جس قدر اللہ چاہتا ،نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے ،ان سے حرضت
خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ
سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے دیکھا تھا ،بیان کر دیا ،ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے ،جو اللہ تعالی
نے حرضت موسی علیہ السالم پر نازل فرمایا تھا ،کاش میں نوجوان ہوتا ،کاش میں اس وقت تک
زندہ رہتا ،جب متہاری قوم متہیں نکال دے گی ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ،ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح
کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی ،اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری
مدد کروں گا ،پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا ،اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے
لئے بند ہوگیا ،ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ جابر بن
عبداللہ انصاری وحی کے رکنے کی حدیث بیان کر رہے تھے ،تو اس حدیث میں بیان کیا کہ
آنحرضت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان فرما رہے تھے کہ ایک بار میں جا رہا تھا تو آسامن سے
ایک آواز سنی ،نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ تھا ،جو میرے پاس حرا میں آیا تھا ،آسامن و
زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ،مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور واپس لوٹ کر میں نے کہا
يا اَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر (مجھے کمبل اڑھا دو مجھے کمبل اڑھا دو ،تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی،
اے کمبل اوڑھنے والے اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور ) َ Ćوثِيَابَ َك فَطَ ِّه ْر َ Ǽو َربَّ َك فَك ِّ َْرب Ąقُ ْم فَاَنْ ِذ ْر
اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے ،پھر وحی کا
سلسلہ گرم ہوگیا اور لگاتار آنے لگی۔ عبداللہ بن یوسف اور ابو صالح نے اس کے متابع حدیث
بیان کی ہے اور ہالل بن رواد نے زہری سے متابعت کی ہے ،یونس اور معمر نے فوادہ کی جگہ
بوادرہ بیان کیا۔
بھائی یہ احادیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں بھی آئ ہیں – ان کیسےتاویل کریں گے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں
زہیر بن حرب ،ولید ،ابن مسلم ،اوزاعی ،یحیی کہتے ہیں کہ میں نے حرضت ابوسلمہ رضی اللہ
تعالی عنہ سے پوچھا کہ قرآن کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں فرمایا (ي اَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر)
74۔ املدثر )1 :میں نے کہا یا (اقْ َرأْ) تو وہ کہنے لگے کہ میں نے حرضت جابر بن عبداللہ رضی
اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کونسی آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے
فرمایا (ي اَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر) 74۔ املدثر )1 :میں نے کہا یا (اقْ َرأْ) تو حرضت جابر رضی اللہ تعالی عنہ
نے فرمایا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم
سے بیان کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں غار حرا میں ایک مہینہ تک
ٹھہرا رہا جب میری ٹھہر نے کی مدت ختم ہوگئی تو میں وادی میں اتر کر چلنے لگا تو مجھے
آوازی دی گئی میں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے
بعد پھر آواز دی گئی اور میں نے نظر ڈالی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد مجھے پھر
آواز دی گئی اور میں نے اپنا رس اٹھایا تو ہوا میں ایک درخت پر حرضت جربائیل علیہ السالم کو
دیکھا مجھ پر اس مشاہدہ سے کپکپی طاری ہوگئی اور میں نے حرضت خدیجہ رضی اللہ تعالی
عنہا کے پاس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی
)ڈاال تب اللہ تعالی نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (ي اَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر) 74۔ املدثر 1 :
تفسیر سورت مدثر ابن عباس نے کہا عسیر مبعنے شدید سخت دشوار اور قسورہ کے معنی ہیں
آدمیوں کا شور و غوغا اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اس کا معنی شیر ہے اور ہر سخت
چیز قسورہ ہے مسنتفرۃ خوفزدہ ہو کر بھاگنے والے۔
راوی :یحیی ,وکیع ,علی ابن مبارک ,یحیی بن ابی کثیر
ل بْنِ الْ ُم َبا َر ِک َع ْن يَ ْح َيی بْنِ أَ ِب کَثُِي َسأَلْتُ أَبَا َسلَ َم َة بْ َن َع ْب ِد ال َّر ْح َمنِ َح َّدثَنَا يَ ْح َيی َح َّدثَنَا َوکِيع َع ْن َع ِ ِّ
ک الَّ ِذي َخل ََق فَق ََال أَبُو َسلَ َم َة َع ْن أَ َّو ِل َما نَ َز َل ِم ْن الْ ُق ْرآنِ ق ََال يَا أَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر قُلْتُ يَقُولُو َن اقْ َرأْ ب ِْاسمِ َربِّ َ
ک ِإالَّک َوقُلْتُ لَ ُه ِمث َْل الَّ ِذي قُلْتَ فَق ََال َجابِر الَ أُ َح ِّدث ُ َ ض اللَّ ُه َعنْ ُه َام َع ْن ذَلِ َ َسأَلْتُ َجابِ َر بْ َن َعبْ ِد اللَّ ِه َر ِ َ
ول اللَّ ِه َصلَّی اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ق ََال َجا َو ْرتُ بِ ِح َرائ فَل ََّام قَضَ يْتُ ِج َوارِي َهبَطْتُ فَنُو ِديتُ َما َح َّدثَنَا َر ُس ُ
فَنَظَ ْرتُ َع ْن َميِي ِني فَلَ ْم أَ َر شَ ْيئًا َونَظَ ْرتُ َع ْن ِش َام ِِل فَلَ ْم أَ َر شَ ْيئًا َونَظَ ْرتُ أَ َما ِمي فَلَ ْم أَ َر شَ ْيئًا َونَظَ ْرتُ
ل َما ًئ بَا ِردًا ق ََال َخلْ ِفي فَلَ ْم أَ َر شَ ْي ًئا فَ َرفَعْتُ َرأْ ِِس فَ َرأَيْتُ شَ ْي ًئا فَأَتَ ْيتُ َخ ِدي َج َة فَ ُقلْتُ َدث ِّ ُر ِ
وّن َو ُص ُّبوا َع َ َّ
ک فَک ِّ َْربل َمائً بَا ِردًا ق ََال فَنَ َزلَتْ يَا أَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر قُ ْم فَأَنْ ِذ ْر َو َربَّ َ فَ َدث َّ ُر ِ
وّن َو َصبُّوا َع َ َّ
یحیی ،وکیع ،علی ابن مبارک ،یحیی بن ابی کثیر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں
نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن کی کون سی آیت
نازل ہوئی؟ تو انہوں نے کہا (ي اَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر۔قُ ْم فَاَنْ ِذ ْر) 74۔ املدثر 1 :۔ )2نازل ہوئی میں نے کہا
ک الَّ ِذي َخل ََق) سب سے پہلے نازل ہوئی تو ابوسلمہ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ (اقْ َرأْ ب ِْاسمِ َربِّ َ
میں نے جابر بن عبداللہ سے اس کے متعلق پوچھا اور میں نے وہی کہا جو تم نے کہا حرضت
جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں تم سے وہی بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حرا میں گوشہ نشین تھا جب
میں نے گوشہ نشینی کی مدت کو پورا کرلیا تو میں وہاں سے اترا تو میں پکارا گیا ایک آواز سنی
میں نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ میں نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر
نہ آیا تو میں نے رس اٹھایا تو ایک چیز دیکھی پھر میں خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آیا
تو میں نے کہا مجھ کو کمبل اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہاؤ آپ نے بیان کیا کہ لوگوں نے
مجھے کمبل اڑھائے اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہایا پھر آیت (ي اَيُّ َها الْ ُم َّدث ِّ ُر۔قُ ْم فَاَنْ ِذ ْر) 74۔ املدثر :
1۔ )2نازل ہوئی
جواب
جابر رضی الله عنہ نے اس کا مطلق انکار نہیں کیا کہ سوره االقرا پہلی نہیں انہوں نے واقعہ کا
اگال حصہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا اور جو سنا وہ بیان کیا
عائشہ رضی اللہ عنہا نے واقعہ کا اگال پچھال دونوں حصوں کو سنا لہذا مکمل روایت کیا
پہلی اور دورسی الوحی میں مدت بہت تھی اس کو ف ََّْتة کہا جاتا ہے
یہ بات کہ مدثر الوحی ہوئی يَ ْح َيى بْ ُن أَ ِب كَثُِي برصی نے أَبَا َسل َمة بن عبد ال َّر ْح َمن بنِ َع ْوف
ال ُّز ْه ِر ُّي سے روایت کیا انہوں نے جابر رضی الله عنہ سے روایت کیا
جابر وفات النبی کے وقت چھوٹے تھے یہاں تک کہ یہ خود ایک صحابیہ ام مبرش رضی الله عنہا
سے روایات لیتے ہیں جو َزيْ ِد بْنِ َحا ِرث َ َة رضی الله عنہ کی بیوی تھیں
یہاں تک کہ ام مبرش بھی ام املومنین حفصہ رضی الله عنہا سے َجابِرَ ،ع ْن أُ ِّم ُم َب ِّرشَ ،ع ْن َحف َْص َة
روایت کرتی ہیں
یعنی جابر رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا لیکن اتنا نہیں جتنا امہات
املومنین رضی الله عنہام نے
یہاں تک کہ اصحاب رسول کو جب اپس میں کسی قول پر اشکال ہوتا کہ قول نبوی ہے یا نہیں تو
وہ خود ام املومنین سے رجوع کرتے تھے
لہذا عمر مرتبہ اور علم کے حساب سے عائشہ رضی الله عنہا کی بات کو درجہ قبولیت حاصل
ہے دورسے اپ خود پڑھیں کہ ام املومنین نے جو دورسی الوحی کا ذکر کیا ہے جابر رضی الله
عنہ نے رصف اتنا حصہ سنا تھا
یہ روایت اہل سنت میں نزول الوحی پر معروف و مشھور ہے – اہل تشیع کا اس پر یہ
اعَّتاض نیا ہے
الطباطبايئ نے حدیث صحیح بخاری پر لغو اعَّتضات کیے ہیں
و القصة ال تخلو من َشء و أهون ما فيها من اْلشكال شك النبي (صل الله عليه وآله
وسلم) ف كون ما شاهده وحيا إلهيا من ملك ساموي ألقى إليه كالم الله و تردده بل ظنه
أنه من مس الشياطي بالجنون ،و أشكل منه سكون نفسه ف كونه نبوة إل قول رجل نرصاّن
مَّتهب
یہ قصہ اشکال و وہم سے خالی نہیں ہے … رسول الله مَّتدد تھے … یھاں کہ کہ ایک
راہب کی بات سے سکوں میں آئے
:ف عيون االخبار باسناده إل الحسي بن خالد قال :قال الرضا عليه السالم
سمعت اىب يحدث عن ابيه عليه السالم ان اول سورة نزلت بسم الله الرحمن الرحيم اقرأ
” باسم ربك وآخر سورة نزلت ” اذا جاء نرص الله
ورقة بن نوفل کا قصہ عروه بن زبیر نے نہیں گھڑا اہل تشیع نے بھی ورقه کے وجود کا
ذکر کیا ہے مثال
تفسُي مجمع البيان از أب عل الفضل بن الحسن الطربِس
إن الذين آمنوا » اختلف ف هؤالء املؤمني من هم فقال قوم هم الذين آمنوا بعيَس ثم مل
يتهودوا و مل ينترصوا و مل يصباوا و انتظروا خروج محمد (صل الله عليهوآلهوسلم) و قيل
هم طالب الدين منهم حبيب النجار و قس بن ساعدة و زيد بن عمرو بن نفيل و ورقة بن
نوفل و الرباء الشني و أبو ذر الغفاري و سلامن الفارِس و بحُي الراهب و وفد النجاَش آمنوا
بالنبي
ثابت ہوا یہی ورقه بن نوفل کا قصہ الگ سند سے اور مختلف منت سے اہل تشیع میں
بھی مروج رہا ہے اور تفسیروں میں ان کی احادیث کی کتب میں ہے تو پھر عروه بن
زبیر کا اس میں تفرد کیسے ہوا ؟
باقی رہے یہ اعَّتاض کہ عائشہ رضی الله عنہا نے ذکر نہیں کیا کس سے سنا تو یہ بات
معلوم ہے کہ امہات املومنین میں سے متام کو علم النبی سے ہی مال ہے
قرآن میں ذکر ہے کہ موسی جب الله سے کالم کر رہے تھے جیسے ہی ان کا عصا سانپ
میں بدال وہ بھاگے
َ َ ْ َ َ َ َ َ َّ َ َ َ ْ َ ُّ َ َ َّ َ َ ٌّ َ َّ ٰ ُ ْ ً َ َ ْ ُ َ ْ َ ُ َ َ َ َ ْ َ
وس ٰى َل تخف ِإ ِني َل وأل ِق عصاك ۚ فلما رآها تهتز كأنها جان ولى مد ِبرا ولم يع ِقب ۚ يا م
ْ ُ ُ َ
َي َخاف ل َد َّي اْلُ ْر َسلو َن
اور قرآن میں موجود ہے کہ رسول الله پڑھنا نہیں جانتے تھے
جواب
سوره االحزاب قرآن کی ایک اہم سورہ ہے اس میں جنگ خندق پر بحث ہے اس میں پردے کا
حکم ہے اس میں زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کا حکم ہے
زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب األرشاف میں
بالذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة املريسيع ،وكانت املريسيع ِف شعبان سنة خمس .ويقال إنه
تزوجها ف سنة ثالث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ ُم َریسیع سے واپس پر اور غزوۂ ُم َریسیع شعبان سن ٥
ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3ہجری میں کیا
واقعہ افک غزوہ بنی مصطلق یا غزوۂ ُم َریسیع سے واپسی پر پیش آیا جو ٥ہجری میں ہوا اس
وقت تک پردے کی آیات نازل ہو چکی تھیں جیسا کہ بخاری کی حدیث میں ہے اور یہ حکم
سوره االحزاب کا ہی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن ٥میں نکاح کیا ہو
کیونکہ زینب سے نکاح کا حکم بھی سوره االحزاب میں ہے
سوره االحزاب کی ابتدائی آیات میں ہی پہلے زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کا حکم
– ہے
زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں
بعض حرضات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی
روایت کے مطابق
وبَ ،ع ْن أَ ِب قِالَبَةَ ،ق ََال أَن َُس بْ ُن َمالِك :أَنَا أَ ْعلَ ُم يَ
َح َّدث َ َنا ُسلَ ْي َام ُن بْ ُن َ ْ َ َ َ َّ ْ ْ َ ُّ َ
أ ن
ْ ع ،د ي ز
َ نُ ب د
ُ امح ان َ ث د
َّ ح ،ب ر ح
ِ ِ ِ
ض اللَّ ُه َعنْ َها إ َل َر ُسول اللَّه َص َّل اب ” ل ََّام أُ ْه ِديَتْ َزيْنَ ُب بِنْتُ َج ْحش َر َ
ِ اس بِ َه ِذ ِه اْليَ ِة :آيَ ِة ال ِح َج ِالنَّ ِ
الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ،كَانَتْ َم َع ُه ِف البَيْ ِت َصنَ َع طَ َعا ًما َو َد َعا ال َق ْو َم ،فَ َق َعدُوا يَتَ َح َّدث ُونَ ،فَ َج َع َل النَّب ُِّي َص َّل
الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم يَ ْخ ُر ُج ث ُ َّم يَ ْر ِج ُعَ ،و ُه ْم قُ ُعود يَتَ َح َّدث ُونَ ،فَأَنْ َز َل اللَّ ُه تَ َع َال{ :يَا أَيُّ َها الَّ ِذي َن آ َمنُوا الَ تَ ْد ُخلُوا
بُيُوتَ النَّب ِِّي ِإالَّ أَ ْن يُ ْؤذَ َن لَكُ ْم إِ َل طَ َعام غ ْ ََُي ن َِاظرِي َن ِإنَاهُ} [األحزاب ]53 :إِ َل قَ ْولِ ِه { ِم ْن َو َرا ِء ِح َجاب}
” [األحزاب ]53 :ف َُرض َِب ال ِح َج ُ
اب َوقَا َم ال َق ْو ُم
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ
چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّ َها الَّ ِذي َن آ َمنُوا الَ تَ ْد ُخلُوا بُيُوتَ النَّب ِِّي ِإالَّ أَ ْن يُ ْؤذَ َن لَكُ ْم إِ َل طَ َعام غ ْ ََُي ن َِاظرِي َن ِإنَا ُه
السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3ہجری میں نکاح کیا
زينب بنت جحش ،أ ُّم املؤمني رض الله عنها ،هي أَ َس ِديَّة ،تز َّوجها ُّ
النبي َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم سنة
ثالث
غزوة األحزاب ،غزوة بني املصطلق سے پہلے ہوا کیونکہ سن ٥میں غزوة بني املصطلق ہوا تھا
لہذا امہات املومنین کو پردے کے جو احکام سوره االحزاب میں دیے گئے وہ سن 3میں دیے گئے
ہیں نہ کہ سن ٥ہجری میں
لہذا یہ روایت جو حدیث کساء یا چادر والی روایت کے نام سے مشھور ہے صحیح نہیں ہے منکر
ہے
اکنیبت اولیح اوز عمج ارقلا ن
کیا صحابی رسول عبد اللہ بن سعد بن ابی رسح رضی الله عنہ مرتد ہو گئے تھے ؟
جواب
طربی کی ایک روایت کے مطابق یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کاتب تھے پس جب
رسول الله صلی الله علیہ وسلم انکو امال کراتے تو کہتے سمیعآ علیام لیکن یہ لکھ دیتے علیام
حکیام اور جب رسول الله کہتے علیام حکیام یہ لکھ دیتے سمیعا علیام( -لیکن رسول اللہ بعد
میں اس پر کوئی اعَّتاض نہ کرتے) پس عبد الله کو اس پر شک ہوا اور وہ کافر ہو گیا
اس روایت کی سند میں اسباط بن نرص اور السدی ہے -دونوں سخت ضعیف ہیں
ان کا ایک قصہ مفسین نے سوره املومنون کے لئے لکھا ہے جو مکی سوره ہے کہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جب و لقد خلقنا االنسان من ساللہ من طین نازل ہوئی اور اس
آیت تک پہنچے ثم انشاناہ خلقا آخر عبد الله کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا فتبارک الله احسن
الخالقین – اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا اس کو لکھ دو – عبد الله نے اس وقت
تو لکھ دیا لیکن شک میں آ گیا کہ محمد (صلی الله علیہ وسلم) تو جو میں لقمہ دیتا ہوں اسکو
ہی وحی بنا دیتے ہیں
آپ دیکھ سکتے ہیں کس قدر بکواس اور لچر بات کی گئی ہے نہ رصف رسول الله صلی الله
علیہ وسلم کے لئے بلکہ ایک صحابی کے لئے بھی -افسوس مفسین نے اس بات کو تفسیر میں
-لکھا ہے مثال بیضآوی وغیرہ نے ،امام حاکم صاحب مستدرک نے ،طربی نے
سنن ابو داود میں انکے قصہ میں ہے کہ فتح مکہ کے روز جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم
لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو عثامن رضی الله عنہ اپنے اس رضاعی بھائی عبد اللہ کو الئے
اور رسول الله سے درخواست کی کہ اس سے بھی بیعت لے لیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا
چہرہ دورسی طرف کر لیا -عثامن کے تین بار ارصار پر آپ نے بیعت لے لی -اور پھر رسول الله
صلی الله علیہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم میں کوئی عقل مند نہ تھا
جو اس کو برداشت نہ کر پاتا اور اس عبد الله کا قتل کرتا؟ اصحاب نے کہا یا رسول الله ہم کو آپ
کے دل کا حال معلوم نہیں آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے – رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا
کہ رسول الله کے لئے مناسب نہیں کہ دھوکہ والے آنکھ ہو
اس کی سند میں اسباط بن نرص اور السدی ہے دونوں ضعیف ہیں
النسايئ :كِتَ ُ
اب امل ُ َحا َربَة (بَاب الْ ُحكْ ُم ِف الْ ُم ْرتَدِّ) سنن نسائی :کتاب :کافروں سے لڑائی اور جنگ کا
بیان
4072 .
الس ِّد ُّي، َاس ُم بْ ُن َزكَ ِريَّا بْنِ ِدينَار ق ََالَ :ح َّدث َ ِني أَ ْح َم ُد بْ ُن ُمفَضَّ ل ق ََالَ :ح َّدثَنَا أَ ْس َباط ق ََالَ :ز َع َم ُّ أَخ َ َْربنَا الْق ِ
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم َع ْن ُم ْص َع ِب بْنِ َس ْعدَ ،ع ْن أَبِي ِه ق ََال :ل ََّام كَا َن يَ ْو ُم فَ ْت ِح َمكَّ َة أَ َّم َن َر ُس ُ
ي بِأَ ْستَا ِر الْكَ ْعبَ ِةِ ،عكْ ِر َم ُة بْ ُن أَ ِب اسِ ،إالَّ أَ ْربَ َع َة نَفَر َوا ْم َرأَت ْ َِي َوق ََال« :اقْتُلُو ُه ْمَ ،و ِإ ْن َو َجدْمتُ ُو ُه ْم ُمتَ َعلِّ ِق َ النَّ َ
َ
السحِ» ،فَأ َّما َعبْ ُد اللَّ ِه بْ ُن يس بْ ُن ُصبَابَ َة َو َعبْ ُد اللَّ ِه بْ ُن َس ْع ِد بْنِ أَ ِب َّ ْ َج ْهل َو َعبْ ُد اللَّ ِه بْ ُن َخطَل َو َم ِق ُ
َخطَل فَأُ ْدر َِك َو ُه َو ُمتَ َعلِّق بِأَ ْستَا ِر الْكَ ْع َب ِة ف َْاستَ َب َق إِلَ ْي ِه َس ِعي ُد بْ ُن ُح َريْث َو َع َّام ُر بْ ُن يَ ِارس ف ََس َب َق َس ِعيد
السوقِ فَ َق َتلُوهَُ ،وأَ َّما ِعكْ ِر َم ُة اس ِف ُّ يس بْ ُن ُص َبابَ َة فَأَ ْد َركَ ُه ال َّن ُ َع َّام ًراَ ،وكَا َن أَشَ َّب ال َّر ُجل ْ َِي فَ َق َتلَهَُ ،وأَ َّما َم ِق ُ
ِ ِ ِ
السفينَة :أ ْخل ُصوا ،فَإ َّن آل َهتَكُ ْم الَ تُ ْغني َعنْكُ ْم شَ يْئًاِ َ ِ ِ اب َّ فَ َركِ َب الْبَ ْح َر ،فَأَ َصابَتْ ُه ْم َع ِاصف ،فَق ََال أَ ْص َح ُ
هَا ُهنَا .فَق ََال ِعكْ ِر َمةَُ :واللَّ ِه ل ِ َْنئ لَ ْم يُنَ ِّج ِني ِم َن الْبَ ْح ِر ِإالَّ اْلْ ِخْالَ ُص ،الَ يُنَ ِّجي ِني ِف ال َ ِّْرب غ ْ َُُيهُ ،اللَّ ُه َّم ِإ َّن ل ََك
آِت ُم َح َّمدًا َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم َحتَّى أَضَ َع يَ ِدي ِف يَ ِد ِه، ل َع ْهدًاِ ،إ ْن أَنْتَ َعافَيْتَ ِني ِم َّام أَنَا ِفي ِه أَ ْن ِ َ َع َ َّ
السحِ ،فَإِنَّ ُه ا ْختَ َبأَ ِعنْ َد ُعث َْام َن بْنِ َّ ْ ب ِ َ أ نِ ب
ْ َ ْدِ ع ْ س ن
ُ ب هِ َّ ل ال دُ ب ع
َ امَ أو ،م
ى ً َ َ ْ َ َ َّ ْ َ لس َ أ ف
َ ء اج ف
َ ا،مي ر
ِ ك
َ او ف
ُ ع
َ ه
ُ َّ ن د
َ ج
ِ فَْلَ َ
اس إِ َل الْ َب ْي َع ِةَ ،جا َء بِ ِه َح َّتى أَ ْوقَ َف ُه َع َل ال َّنب ِِّي َص َّل ن ال م َّ
ُ َ ْ َ َ َ َّ َ ل س و ِ
ه يَ لع هالل ل َّ ص َ ِ
ه َّ ل ال ُ
ول س ر اع
َّ َ َ َ ُد َام ل ف
َ َ،ن َّا
َعف
ْ ِ ْ
ول اللَّ ِه ،بَايِ ْع َعبْ َد اللَّ ِه ،ق ََال :فَ َرفَ َع َرأ َسهُ ،فَنَظَ َر إِلَيْ ِه ،ث َ َالث ًا ك َُّل ذَل َك يَأ َىب، الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ،ق ََال :يَا َر ُس َ
فَبَايَ َع ُه بَ ْع َد ث ََالث ،ث ُ َّم أَقْبَ َل َع َل أَ ْص َحابِ ِه فَق ََال« :أَ َما كَا َن ِفيكُ ْم َر ُجل َر ِشيد يَقُو ُم إِ َل َهذَا َحيْثُ َر ِآّن
ول اللَّ ِه َما ِف نَف ِْس َك ،ه ََّال أَ ْو َمأْتَ إِلَ ْينَا بِ َع ْي ِن َك؟ كَ َففْتُ يَ ِدي َع ْن بَ ْي َعتِ ِه فَ َي ْقتُلُهُ» فَقَالُواَ :و َما يُ ْدرِينَا يَا َر ُس َ
»ق ََالِ « :إنَّ ُه الَ يَ ْن َب ِغي لِ َنبِي أَ ْن يَكُو َن لَ ُه خَائِ َن ُة أَ ْع ُي
اوپر دی گئی متام روایات چار راویوں کا بیان کردہ قصہ ہیں جن میں ہیں
پہلی سند :إسامعيل بن عبد الرحمن بن أىب كرمية السدى املتوفی ١٢٧ھ سے اسباط بن نرص کی
روایت
اسباط بن نرص – ابن معي اور أبو نعيم اسکو ضعیف کہتے ہیں – النسايئ ليس بالقوي قوی
نہیں کہتے ہیں – کتاب الجرح و التعدیل کے مطابق
حرب بن إسامعيل :قلت ألحمد :أسباط بن نرص الكوف ،الذي يروي عن السدي ،كيف حديثه؟ قال:
.ما أدري ،وكأنه ضعفه
حرب بن إسامعيل نے احمد سے پوچھا کہ اسباط بن نرص جو السدی سے روایت کرتا ہے اس کی
حدیث کیسی ہے ؟ احمد نے کہا کیا پتا گویا کہ اس کو ضعیف گردانآ
اسباط کا استاد إسامعيل بن عبد الرحمن بن أىب كرمية السدى املتوفی ١٢٧ھ ہے
نے شک السدی کو قرآن پر جھل بکنے کا ایک حصہ عطا کیا گیا ہے
ابن حبان نے ثقات میں شامر کیا ہے -امام حاکم نے اس احمق کی روایت مستدرک میں لکھ کر
دینی خدمت” کی“
سوره املومنون مکی سوره ہے اور مورخین کے بقول ابن ابی السح کا ارتاد مدینہ میں ہوا جس
سے ظاہر ہے یہ سب بکواس ہے
چوتھی سند
اب تَ ْوبَ ِة الْ ُم ْرتَدِّ) سنن نسائی :کتاب :کافروں سے لڑائی اور سنن النسايئ : 4074كِتَ ُ
اب امل ُ َحا َربَة (بَ ُ
جنگ کا بیان باب :مرتد کی توبہ قبول ہو سکتی ہے
ل بْ ُن الْ ُح َس ْ ِي بْنِ َواقِد ق ََال. : أَخ َ َْربنَا َزكَ ِريَّا بْ ُن يَ ْح َيى ق ََالَ :ح َّدثَنَا ِإ ْس َحاقُ بْ ُن إِبْ َرا ِهي َم ق ََال :أَنْ َبأَنَا َع ِ ُّ
أَخ َ َْرب ِّن أَ ِبَ ،ع ْن يَزِي َد ال َّن ْح ِو ِّيَ ،ع ْن ِعكْ ِر َمةََ ،ع ْن ابْنِ َع َّباس ق ََالِ :ف ُسو َر ِة ال َّن ْحلَِ { :م ْن كَ َف َر بِاللَّ ِه ِم ْن بَ ْع ِد
إِميَانِ ِه ِإالَّ َم ْن أُكْرِهَ } [النحل ]106 :إِ َل قَ ْولِ ِه {لَ ُه ْم َعذَاب َع ِظيم} [النحل ]106 :فَنُ ِسخََ ،و ْاستَثْنَى ِم ْن
ذَلِ َك فَق ََال{ :ث ُ َّم ِإ َّن َربَّ َك لِلَّ ِذي َن هَا َج ُروا ِم ْن بَ ْع ِد َما فُتِنُوا ث ُ َّم َجا َهدُوا َو َص َ ُربوا ِإ َّن َربَّ َك ِم ْن بَ ْع ِدهَا لَ َغفُور
رص كَا َن يَكْتُ ُب لِ َر ُسو ِل اللَّ ِه رسح الَّ ِذي كَا َن َع َل ِم ْ َ َر ِحيم} [النحلَ « ]110 :و ُه َو َع ْب ُد اللَّ ِه بْ ُن َس ْع ِد بْنِ أَ ِب َ ْ
َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ،فَأَ َزلَّ ُه الشَّ ْيطَانُ ،فَلَ ِح َق بِالْكُفَّارِ ،فَأَ َم َر بِ ِه أَ ْن يُ ْق َت َل يَ ْو َم الْ َف ْت ِح ،ف َْاس َت َجا َر لَ ُه ُعث َْام ُن
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم»بْ ُن َعفَّانَ ،فَأَ َجا َرهُ َر ُس ُ
حرضت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورہ نحل کی آیتَ { :م ْن کَ َف َر بِالل ِّٰہ ِم ْن بَ ْع ِد اِیْ َام ِن ٖٓہ اِالَّ َم ْن اُکْ ِر َہ
…} ’’جو شخص اپنے ایامن النے کے بعد کفر کرے ،سوائے اس کے جس پر جرب کیا گیا اور اس کا
دل ایامن پر مطمنئ تھا ،لیکن جس نے کفر کے لیے اپنا سینہ کھول دیا (راضی خوشی کفر کیا) تو
ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ
ک لِلَّ ِذیْ َن ہَا َج ُر ْوا …} پھر اسے منسوخ کر دیا گیا ،یعنی اس سے یہ مستثنی کر لیا گیا۔ {ث ُ َّم اِ َّن َربَّ َ
’’پھر تیرا رب ان لوگوں کو جنہوں نے آزمائش میں پڑنے کے بعد ہجرت کی ،پھر جہاد کیا اور صرب
کیا (ثابت قدم رہے) بے شک آپ کا رب ان (آزمائشوں) کے بعد (ان لوگوں کو) بہت معاف فرمانے
واال اور رحم کرنے واال ہے۔‘‘ اس سے مراد عبداللہ بن سعد بن ابو رسح ہیں جو (بعد میں حرضت
عثامن رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خالفت میں) مرص کے گورنر رہے۔ رسول اللہﷺ کے لیے
(وحی و خطوط وغیرہ) لکھا کرتے تھے۔ شیطان نے انہیں پھسال دیا اور وہ کافروں سے جا ملے۔
فتح مکہ کے دن آپ نے ان کے قتل کا حکم جاری فرما دیا لیکن حرضت عثامن بن عفان رضی
اللہ تعالی عنہ نے ان کیل یے پناہ مانگی تو رسول اللہﷺ نے انہیں پناہ دے دی (اور ان کا
اسالم قبول کر لیا
یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس میں سوره النحل کی مکی سوره میں آیات میں ناسخ و
منسوخ قرار دیا گیا ہے
ث ُ َّم اِ َّن َربَّ َك لِلَّ ِذيْ َن هَا َج ُر ْوا ِم ْنْۢ بَ ْع ِد َما فُتِنُ ْوا ث ُ َّم ج َه ُد ْوا َو َص َ ُرب ْٖٓوا ْۢ اِ َّن َربَّ َك ِم ْنْۢ بَ ْع ِدهَا لَ َغ ُف ْور َّر ِح ْيم
ل ب ُن ال ُح َس ْ ِي بنِ َواقِد أَبُو ال َح َسنِ امل َ ْر َو ِز ُّي ہے جس کو أَبُو َحاتِم :ضَ ِعيْ ُف ال َح ِديْ ِث کہا
سند میں َع ِ ُّ
ہے
سن ١٠٠ہجری کے پاس جا کر اس سارے بلوے کو سند جواز دینے کے لئے یہ روایآت بنا دی
گئیں کہ عثامن رضی الله عنہ کے رضاعی بھائی تو مرتد تھے -تاریخآ نبی صلی الله علیہ وسلم
نے مرتدین کا قتل ہی کرایا مثال ابن حنطل مرتد کو فتح مکہ پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ قتل
کرنے کا حکم دیا -اگر ایسا ہوتا تو صحیح سندوں سے یہ ہم تک ١٠٠ہجری سے پہلے ہی آ جاتا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں کس کس نے جمع القرآن کیا ؟
کیا جمع کرتے وقت کچھ آیات مفقود ہوئیں ؟
جواب
املحرب از محمد بن حبيب بن أمية بن عمرو الهاشمي ،بالوالء ،أبو جعفر البغدادي (املتوىف245 :هـ)
کے مطابق ٦لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن جمع کیا
ض اللَّ ُه َعنْهَُ :م ْن َج َم َع َح َّدثَنَا َحف ُْص بْ ُن ُع َم َرَ ،ح َّدثَنَا ه ََّاممَ ،ح َّدثَنَا قَتَا َدةُ ،ق ََالَ :سأَلْتُ أَن ََس بْ َن َمالِك َر ِ َ
أُ َ ُّب بْ ُن كَ ْعبَ ،و ُم َعاذُ :ال ُق ْرآ َن َع َل َع ْه ِد النَّب ِِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم؟ ق ََال ” :أَ ْربَ َعة ،كُلُّ ُه ْم ِم َن األَن َْصا ِر
بْ ُن َج َبلَ ،و َزيْ ُد بْ ُن ث َابِتَ ،وأَبُو َزيْد
انس رضی الله عنہ سے قتادہ نے پوچھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں قرآن
کس کس نے جمع کیا ؟ انھوں نے جواب دیا چار نے جو سب انصار میں سے تھے :أُ َ ُّب بْ ُن كَ ْعب،
َو ُم َعاذُ بْ ُن َج َبلَ ،و َزيْ ُد بْ ُن ث َابِتَ ،وأَبُو َزيْد
جمع القرآن متام صحابہ کا عمل نہیں تھا کیونکہ ہزاروں صحابہ کو قرآن یاد تھا اور سب اس کی
تالوت کرتے تھے لیکن چونکہ متام قریشی نہیں تھے اس لئے عرب میں ہی میں تلفظ کی
معمولی تبدیلی تھی مثال جیسے اردو ہندوستان پاکستان میں بولی جاتی ہے لیکن لکھنو میں
بولی جانے والی اردو وہ نہیں جو حیدر آباد ہندوستان میں بولی جاتی ہے یا پاکستان میں یا دلی
میں بولی جاتی ہے بعض تلفظ کی تبدیلی ایک عالقے سے دورسے عالقے میں ہو جاتی ہے لیکن
اس سے مفھوم میں کوئی تبدیلی نہیں اتی – زبان میں اس لچک کی وجہ سے قرآن کو سات
حروف پر نازل کیا گیا اور اس وجہ سے بظاہر دو قراتین الگ الگ محسوس ہوتیں لیکن ایک ہی
تھیں
منسوخ القرات یا مفقود آیات؟
واضح رہے آیات کا منسوخ ہونا اور ان کا مصحف میں نہ لکھا جانا دو الگ باتیں ہیں قرآن کی
بہت کی آیات منسوخ القرات ہیں لیکن حکم باقی ہے اسی طرح بہت سی منسوخ ہیں جن کی
قرات کی جاتی ہے لیکن حکم باقی نہیں ہے
لیکن یہاں بحث اس پر ہے کہ کیا کچھ ایسا بھی تھا جو قرآن میں نہ لکھا جا سکا -بعض سطحی
قسم کے لوگوں نے منسوخ القرات کی بات کو آیات کے مفقود ہونے سے مال دیا جو صحیح نہیں
ہے
کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سالم از أبو ُعبيد القاسم بن سالم (املتوىف224 :هـ) کی روایت ہے
وبَ ،ع ْن نَا ِفعَ ،عنِ ابْنِ ُع َم َر ،ق ََال ” :الَ يَقُولَ َّن أَ َح ُدكُ ْم قَ ْد أَ َخذْتُ َح َّدثَنَا ِإ ْس َام ِع ُيل بْ ُن ِإبْ َرا ِهي َمَ ،ع ْن أَيُّ َ
َب ِم ْن ُه قُ ْرآن كَثُِيَ ،ولَ ِك ْن لِ َيق ُْل :قَ ْد أَ َخذْتُ ِم ْن ُه َما ظَ ْه َر ِم ْن ُه
“ الْ ُق ْرآ َن كُلَّ ُه َو َما يُ ْدرِي ِه َما كُلَّهُ؟ قَ ْد ذَ َ
ه
ہمیں اسامعیل بن ابراہیم نے ایوب اور انہوں نے نافع اور انہوں نے ابنِ عمر سے کہ انہوں نے
کہا :کوئی یہ نہ کہے کہ اس نے متام قرآن پا لیا ہے ،اور اسے کیا پتہ کہ اس کا متام کیا ہے ،اس
میں سے بہت سآ قرآن چال گیا ،بلکہ اسے کہنا چاہیے :میں نے اس سے (قرآن سے) وہی کچھ لیا
ہے جو اس میں ظاہر ہوا ہے
اس روایت کو إسامعيل بن إبراهيم بن مقسم األسدي املعروف بابن ُعلَيَّة ،أيوب بن أىب
متيمة كيسان السختياّن پیدائش ٦٨ھ – املتوفی ١٣١ھ – کے واسطے سے بیان کر رہے ہیں
– ایوب مدلس ہیں اور اس مخصوص روایت کی متام اسناد میں ان کا تفرد ہے اور ہر سند عن سے
ہے -ظاہر ہے یہ محدثین کے نزدیک مظبوط نہیں
شارحین کے مطابق اس سے مراد قرآن کی منسوخ القرات آیات کا ذکر ہے جن کی تعداد کا علم
نہیں کیونکہ وقتا فوقتا قرآن میں سے کچھ آیات واپس لی گئیں اور ان کی قرات منسوخ کر دی
گئی اور الفاظ اٹھ گئے
کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سالم از أبو ُعبيد القاسم بن سالم (املتوىف224 :هـ) کی روایت ہے
َح َّدثَنَا ِإ ْس َام ِع ُيل بْ ُن َج ْعفَرَ ،عنِ الْ ُمبَا َر ِك بْنِ فَضَ الَةََ ،ع ْن َع ِاصمِ بْنِ أَ ِب النَّ ُجو ِدَ ،ع ْن ِز ِّر بْنِ ُحبَيْش ،ق ََال:
ي آيَةً ،أَ ْو
اب؟ قُلْتُ :اثْنَتَ ْ ِي َو َس ْب ِع َ ق ََال ِِل أُ َ ُّب بْ ُن كَ ْعب :يَا ِز ُّر ،كَأَيِّ ْن تَ ُعدُّ؟ أَ ْو ق ََال :كَأَيِّ ْن تَ ْق َرأُ ُسو َر َة األْ َ ْح َز ِ
ي آيَةً .فَق ََالِ « :إ ْن [ص ]321:كَانَتْ لَ َت ْع ِد ُل ُسو َر َة الْ َب َق َر ِةَ ،و ِإ ْن كُ َّنا لَ َن ْق َرأُ ِفي َها آيَ َة ال َّر ْجمِ » . ث ََالث ًا َو َس ْب ِع َ
قُلْتُ َ :و َما آيَ ُة ال َّر ْجمِ ؟ ق ََال( :إِذَا ِزنًا الشَّ يْ ُخ َوالشَّ يْ َخ ُة فَا ْر ُج ُموه َُام الْبَتَّ َة نَكَاالً ِم َن اللَّ ِهَ .واللَّ ُه َعزِيز
“ َح ِكيم)
ِز ِّر بْنِ ُح َب ْيش کہتے ہیں ا ُبی بن کعب نے مجھ سے کہا :اے زِر تم نے سورۃ االحزاب میں کتنی
آیات شامر کیں اور پڑھیں؟ میں نے کہا :بہَّت یا تہَّت ،اس نے کہا :یہ طوالت میں سورۃ بقرۃ جتنی
تھی اور ہم اس میں رجم کی آیت بھی پڑھا کرتے تھے ،تو میں نے ان سے کہا :رجم کی آیت کیا
ہے؟ ابی نے کہا( :إِذَا ِزنًا الشَّ يْ ُخ َوالشَّ يْ َخ ُة فَا ْر ُج ُموه َُام الْبَتَّ َة نَكَاالً ِم َن اللَّ ِهَ .واللَّ ُه َعزِيز َح ِكيم)
یعنی رجم کی آیت جس کی تالوت منسوخ ہوئی وہ سوره االحزاب میں تھی
ا ْل ُمبَا َر ِك بْنِ فَضَ ا َل َة کا خلیفہ املہدی کے دور میں انتقال ہوا یہ بھی مدلس تھے اور ابو داود کہتے
ہیں جب رصف حدثنا کہیں اسی وقت قبول کرتے یہاں ان کا عنعنہ ہے لہذا ضعیف سند ہے -ان
کے دادا أبو أمية مول عمر بن الخطاب تھے یعنی عمر کے آزاد کردہ غالم تھے
األلوِس کہتے ہیں وكل خرب ظاهره ضياع َشء من القرآن إما موضوع أو مؤول
ہر وہ خرب جس میں قرآن میں کسی چیز کے ضائع ہونے کی بات ہے وہ گھڑی ہوئی یا بڑھ ہے
ابْنِ لَهِي َع َة کی قرآن کے حوالے سے تین عجیب روایات
َعبد الل ِه بْن لَهِي َعة عباسی خلفاء کے منظور نظر تھے اور یہ پہلے قاضی ہیں جن پر اسالم میں
رشوت لینے کا الزام ہے
سن ١٥٥ہجری میں السفاح کے دور میں ان کو خلیفہ بنا دیا گیا یہ ایک حدیث پیش کرتے
جو كتاب الفنت از ابو نعیم میں ہے
َح َّدثَنَا ابْ ُن َوهْبَ ،عنِ ابْنِ لَهِي َعةََ ،ع ْن يَزِي َد بْنِ َع ْمرو الْ َم َعا ِف ِر ِّيَ ،ع ْن يَدُو َم الْ ِح ْم َ ُِي ُّيَ ،س ِم َع تُبَيْ َع بْ َن
الس َام ِء َّاح أَ ْربَ ِع َ
ي َسنَةًْ ،اس ُم ُه ِف التَّ ْو َرا ِة طَائِ ُر َّ السف ُيش َّ » َعا ِمر ،يَق ُ
ُول« :يَ ِع ُ
السفاح چالیس سال زندہ رہیں گے ان کا نام توریت میں آسامنی پرندہ ہے
ابْنِ لَهِي َع َة مدلس ہے اور عن سے روایت نا قابل قبول ہے
ابْنِ لَهِي َع َة کو آخری عمر میں اختالط ہوا اس لئے اس کی روایات مطلقآ قبول نہیں کی جاتیں
ابْنِ َلهِي َع َة نے اپنی کتب سے روایات بیان کیں لیکن جب لوگوں کو شک ہوا تو سن ١٧٠ہجری
میں مرنے سے چار سال قبل اس کی کتب جل گئیں
ابْنِ لَهِي َع َة نے قرآن کے حوالے سے تین عجیب روایات بیان کیں
کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سالم از أبو ُعبيد القاسم بن سالم (املتوىف224 :هـ) کی روایت ہے
َح َّدثَنَا َع ْب ُد الْ َغفَّا ِر بْ ُن دَا ُودََ ،عنِ ابْنِ لَهِي َعةََ ،ع ْن َع ْمرِو بْنِ ِدينَارَ ،ع ْن بَ َجالَةَ ،أَ َّن ُع َم َر بْ َن الْ َخط ِ
َّابَ ،م َّر
ي ِم ْن أَنْف ُِس ِه ْم َوأَ ْز َوا ُج ُه أُ َّم َهاتُ ُه ْمَ ،و ُه َو أَبُو ُه ْم) فَق ََال ُع َم ُر:
بِ َر ُجل يَ ْق َرأُ ِف الْ ُم ْص َح ِف (النَّب ُِّي أَ ْو َل بِالْ ُم ْؤ ِم ِن َ
«الَ تُفَا ِرقْ ِني َحتَّى نَأْ ِ َِت أُ َ َّب بْ َن كَ ْعب» .فَأَتَيَا أُ َ َّب بْ َن كَ ْعب فَق ََال« :يَا أُ َ ُّب ،أَالَ ت َْس َم ُع كَيْ َف يَ ْق َرأُ َهذَا َه ِذهِ
يام أُ ْس ِقطَ» .ق ََال ُع َم ُر ” :فَأَيْ َن كُنْتَ َعنْ َها؟ فَق ََال :شَ َغلَ ِني َعنْ َها َما لَ ْم ْاْليَةَ؟» فَق ََال أُ َ ُّب« :كَانَتْ ِف َ
يَشْ َغل َْك
عبد الغفار بن داود نے اب ْ ِن َلهِي َع َة سے اور اس نے علی بن دینار سے روایت کیا اس نے بَ َجالَ َة سے
روایت کیا کہ عمر بن الخطاب ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو مصحف میں پڑھ رہا تھا،
ي ِم ْن أَنْف ُِس ِه ْم َوأَ ْز َوا ُج ُه أُ َّم َهاتُ ُه ْمَ ،و ُه َو أَبُو ُه ْم (سورۃ احزاب آیت ،)6تو عمر نے النَّب ُِّي أَ ْو َل بِالْ ُم ْؤ ِم ِن َ
اس سے کہا :جب تک ا ُبی بن کعب نہ جائیں تم مجھے چھوڑ کر مت جانا ،اور جب ا ُبی بن
کعب آ گئے تو عمر نے ابی سے کہا :اے ا ُبی تم نے سنا یہ کیسے تالوت کرتا ہے ؟ ابی نے کہا
عمر نے اس شخص کو کہا تم کو یہ کہاں سے گویا کہ یہ اس (قرآن) میں (لکھنے) سے رہ گئی
ملی؟ اس نے کہا میں اس میں مشغول رہا اور آپ اس اس میں مشغول نہیں رہے
رص ُّي کا سامع عمر رضی الله عنہ سے نہیں ہے کتاب املعرفة از بَ َجالَ ُة بْ ُن َعبَ َد َة التَّ ِمي ِم ُّي الْبَ ْ ِ
بیہقی کے مطابق امام الشافعی کہتے ہیں یہ مجھول ہے
روایت آوٹ پٹانگ ہے – ابی بن کعب رضی الله عنہ نے جب عثامن رضی الله عنہ کے دور
میں قرآن جمع کیا تو پھر بھی نہیں لکھا
کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سالم از أبو ُعبيد القاسم بن سالم (املتوىف224 :هـ) کی روایت ہے
َح َّدث َ َنا ابْ ُن أَ ِب َم ْريَ َمَ ،عنِ ابْنِ لَهِي َعةََ ،ع ْن يَزِي َد بْنِ َع ْمرو الْ َم َعا ِف ِر ِّيَ ،ع ْن أَ ِب ُس ْف َيا َن الْكَالَ ِع ِّي ،أَ َّن َم ْسلَ َم َة
وّن بِآيَتَ ْ ِي ِم َن الْ ُق ْرآنِ لَ ْم تُكْتَبَا ِف الْ ُم ْص َح ِف ،فَلَ ْم يُخ ِ ُْربوهُ، بْ َن ُم َخلَّد األْ َن َْصا ِر ِّي ،ق ََال لَ ُه ْم ذَاتَ يَ ْوم :أَخ ِ ُْرب ِ
َو ِعنْ َد ُه ْم أَبُو الْكَنُو ِد َس ْع ُد بْ ُن َمالِك ،فَق ََال َم ْسلَ َمةُِ ( :إ َّن الَّ ِذي َن آ َمنُوا َوهَا َج ُروا َو َجا ِهدُوا ِف َسبِي ِل اللَّ ِه
رشوا أَنْتُ ُم الْ ُم ْفلِ ُحونََ ،والَّ ِذي َن آ ُوو ُه ْم َون َ ُ
َرصو ُه ْم َو َجا َدلُوا َعنْ ُه ُم الْ َق ْو َم الَّ ِذي َن بِأَ ْم َوالِ ِه ْم َوأَنْف ُِس ِه ْم أَالَ أَبْ ِ ُ
غ َِض َب اللَّ ُه َعلَ ْي ِه ْم أُولَ ِئ َك َما تَ ْعلَ ُم نَفْس َما أُ ْخ ِف َي لَ ُه ْم ِم ْن قُ َّر ِة أَ ْع ُي َج َزا ًء مبِ َا كَانُوا يَ ْع َملُونَ)
ابو عبید نے کہا کہ ہمیں ابن ابی مریم نے اب ْ ِن َلهِي َع َة سے اور انہوں نے یزید بن عمرو املغافری
سے اور انہوں نے ابی سفیان الکالعی سے روایت کیا کہ مسلمۃ بن مخلد االنصاری نے انہیں ایک
دن کہا :مجھے قرآن کی ایسی دو آیتیں بتاؤ جو مصحف میں نہیں لکھی گئیں تو انہوں نے اسے
نہیں بتایا ،ان کے ہاں ابو الکنود سعد بن مالک موجود تھا تو ابو مسلمۃ نے کہاِ (“ :إ َّن الَّ ِذي َن آ َم ُنوا
رشوا أَنْتُ ُم الْ ُم ْفلِ ُحونََ ،والَّ ِذي َن آ ُوو ُه ْم
َوهَا َج ُروا َو َجا ِهدُوا ِف َسبِي ِل ال َّل ِه بِأَ ْم َوالِ ِه ْم َوأَنْف ُِس ِه ْم أَالَ أَبْ ِ ُ
َرصو ُه ْم َو َجا َدلُوا َعنْ ُه ُم الْ َق ْو َم الَّ ِذي َن غ َِض َب اللَّ ُه َعلَيْ ِه ْم أُولَ ِئ َك َما تَ ْعلَ ُم نَفْس َما أ ْخ ِف َي لَ ُه ْم ِم ْن قُ َّر ِة
ُ َون َ ُ
أَ ْع ُي َج َزا ًء مبِ َا كَانُوا يَ ْع َملُو َن
ابی سفیان الکالعی مجھول ہے
ابْنِ لَهِي َع َة کہنا چاہتا ہے کہ ١٢٠سال پہلے عثامن رضی الله عنہ کے دور میں جو قرآن جمع ہوا
اس میں متام آیات نہیں لکھی گئیں خاص طور پر سوره االحزاب پر اس کی خاص نظر ہے -اس کے
مطابق اس میں ٢٠٠کے قریب آیات تھیں اور اس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو باپ
کہا گیا تھا -افسوس اسی قرآن میں ہے
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیام
اور محمد متہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن الله کا رسول ہے اور الله ہر چیز
سے باخرب ہے
َعبد الل ِه بْن لَهِي َعة نے روایت میں بتایا کہ قرآن میں اس میں تھا جو نفس سوره سے ہی متصادم
ہے
اس منت کی قرآن میں آیات ہیں اور ان کو ہی مال کراس روایت میں ایک نئی آیت بنا دی گئی ہے
لہذا اس روایت کا مقصد رصف موجودہ قرآن پر شک پھیالنا ہے
کتاب فضائل القرآن للقاسم بن سالم از أبو ُعبيد القاسم بن سالم (املتوىف224 :هـ) کی روایت ہے
َح َّدث َ ِني ابْ ُن أَ ِب َم ْريَ َمَ ،عنِ ابْنِ لَهِي َعةََ ،ع ْن أَ ِب األْ َ ْس َو ِدَ ،ع ْن ُع ْر َو َة بْنِ ال ُّزبَ ُْيَِ ،ع ْن َعائِشَ ةَ ،قَالَتْ ” :كَانَتْ
اب تُ ْق َرأُ ِف َز َمانِ النَّب ِِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ِمائَتَ ْي آيَة ،فَل ََّام كَتَ َب ُعث َْام ُن الْ َم َصا ِح َف لَ ْم
ُسو َر ُة األْ َ ْح َز ِ
يَ ْق ِد ْر ِمنْ َها ِإالَّ َع َل َما ُه َو ْاْل َن
سے اور انہوں نے ابی االسود ( ُم َح َّم ُد بْ ُن َع ْب ِد ال َّر ْح َمنِ بْنِ نَ ْوفَل ہمیں ابن ابی مریم نے اب ْ ِن َلهِي َع َة
األَ َس ِد ُّي الْ َم ِدي ِن ُّي) سے اور انہوں نے عروۃ بن الزبیر سے اور انہوں نے عائشہ سے کہ انہوں نے
کہا :رسول اللہ َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم کے دنوں میں سورۃ االحزاب پڑھی جاتی تھی اور اس میں دو
سو آیتیں ہوتی تھیں مگر جب عثامن نے قرآن جمع کیا تو اس میں اتنی پر ہی قادر ہو سکے
جو اس میں اب ہیں
االنتصار للقرآن میں أبو بكر الباقالّن املالك (املتوىف403 :هـ) کہتے ہیں
فجوابُنا عن كل ما ير ُد من هذا الجنس أنه مام كان قرآناً ُرفع ونُسخت تالوتُه ،وذلك ما ال ينكره وال
يُدف ُع ف الجملة أن يكون الله سبحانَه قد َ
أنزل قرآناً كثُيا ً ثم نس َخ تالوتَه وإن كنَّا ال نتيقن صحة كل
.خرب من هذه األخبار
پس ہامرا جواب اس قسم کی متام روایات پر یہ ہے ہے قرآن میں تھا جو اٹھ گیا اور اس کی تالوت
منسوخ ہوئی اور یہ ایسی بات ہے جس کا انکار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا رد کرتے ہیں کہ الله
سبحانہ نے قرآن میں بہت کچھ نازل کیا پھر اس کی تالوت منسوخ کی اگرچہ ہم اس قسم کی
متام خربوں کی صحت پر یقین نہیں کرتے
اہل تشیع کے علامء میں أبو جعفر الطوِس کتاب التبيان 394 /1 :کہتے ہیں
قد جاءت أخبار متضافرة بأنه كانت أشياء ف القرآن نسخت تالوتها وعددها ،وذكر منها أن سورة
األحزاب كانت تعادل سورة البقرة ف الطول
بال شبہ روایات آئی ہیں کہ قرآن میں ایسی چیزیں تھیں جن کی تالوت منسوخ ہوئی اور ان کو
گنا گیا اور ذکر کیا گیا ہے کہ سوره االحزاب میں آیات سوره بقرہ برابر تھیں
یعنی یہ بات کہ سوره االحزاب میں منسوخ آیات تھیں اہل تشیع کے ہاں بھی قبول کی جاتی ہے
ل ،أَ َّن ِيب بْنِ أَ ِب ث َابِتَ ،ع ْن َع ْب ِد ال َّر ْح َمنِ بْنِ األْ َ ْس َو ِد الْكَا ِه ِ ِّ َع ْب ُد ال َّرزَّاقِ َ ،عنِ الْ َح َسنِ بْنِ ُع َام َرةََ ،ع ْن َحب ِ
ُول :اللَّ ُه َّم إِيَّ َاك نَ ْع ُبدَُ ،ول ََك ن َُص ِّل السو َرت ْ َِي ِف الْ َف ْجرِ ،غ ْ ََُي أَنَّ ُه يُ َق ِّد ُم ْاْل ِخ َر َة َويَق ُ
َعلِ ىيا كَا َن يَ ْقنُتُ بِ َهات ْ َِي ُّ
ِ
َاف َعذَابَ َكِ ،إ َّن َعذَابَ َك بِالْكَافرِي َن ُملْ َحق ،اللَّ ُه َّم ِإنَّا َون َْس ُجدَُ ،وإِلَيْ َك ن َْس َعى َونَ ْح ِفدُ ،نَ ْر ُجو َر ْح َمتَ َكَ ،ونَخ ُ
ن َْستَ ِعينُ َكَ ،ون َْستَ ْه ِد َيكَ ،ونُثْ ِني َعلَيْ َك الْخ ْ ََُي كُلَّ ُهَ ،ونَشْ كُ ُر َك َوالَ نَكْ ُف ُر َك َونُ ْؤ ِم ُن ب َِكَ ،ونَ ْخلَ ُع َون ْ ََُّت ُك َم ْن
يَ ْف ُج ُر َك
لِيب بْنِ أَ ِب ث َابِت سے وہ َعبْ ِد ال َّر ْح َمنِ بْنِ األْ َ ْس َو ِد الْكَا ِه ِ ِّ عبد الرزاق ،حسن بن عامرہ سے وہ َحب ِ
سے وہ علی سے روایت کرتے ہیں کہ علی مناز فجر میں ان دو سورتوں سے قنوت کرتے اور کہتے
َاف َعذَابَ َكِ ،إ َّن َعذَابَ َك اللَّ ُه َّم إِيَّ َاك نَ ْع ُبدَُ ،ول ََك ن َُص ِّل َون َْس ُجدَُ ،وإِلَ ْي َك ن َْس َعى َونَ ْح ِفدُ ،نَ ْر ُجو َر ْح َمتَ َكَ ،ونَخ ُ
بِالْكَا ِفرِي َن ُملْ َحق ،اللَّ ُه َّم ِإنَّا ن َْستَ ِعينُ َكَ ،ون َْستَ ْه ِد َيكَ ،ونُثْ ِني َعلَ ْي َك الْخ ْ ََُي كُلَّهَُ ،ونَشْ كُ ُر َك َوالَ نَكْ ُف ُر َك َونُ ْؤ ِم ُن
ب َِكَ ،ونَ ْخلَ ُع َون ْ ََُّت ُك َم ْن يَ ْف ُج ُر َك
یہ دعائے قنوت ہے نہ کہ سورتیں – لیکن بعض میں اس کو دو سورتیں کہا گیا ہے
ل کہا گیا ہے جبکہ مصنف عبد الرزاق میں سند یہاں سند میں َعبْ ِد الْ َملِ ِك بْنِ ُس َويْد الْكَا ِه ِ ِّ
ل ہے دونوں مقام پر اس کو سورتیں کہا گیا ہے – َعبْ ِد میں نام َعبْ ِد ال َّر ْح َمنِ بْنِ األْ َ ْس َو ِد الْكَا ِه ِ ِّ
ِيب بْنِ أَ ِب ث َابِت کی غلطی سے ہوا ہے
الْ َملِ ِك بْنِ ُس َويْد مجہول ہے لگتا ہے یہ َحب ِ
َح َّدثَنَا َوكِيع ،ق ََال :أَخ َ َْربنَا َج ْع َف ُر بْ ُن بُ ْرقَانََ ،ع ْن َميْ ُمونِ بْنِ ِم ْه َرانَِ ،ف قِ َرا َء ِة أُ َ ِّب بْنِ كَ ْعب« :اللَّ ُه َّم ِإنَّا
ن َْستَ ِعينُ َك َون َْستَ ْغ ِف ُر َك َونُثْ ِني َعلَيْ َكَ ،والَ نَكْ ُف ُر َكَ ،ونَ ْخلَ ُعَ ،ون ْ ََُّت ُك َم ْن يَ ْف ُج ُر َك ،اللَّ ُه َّم إِيَّ َاك نَ ْعبُدَُ ،ول ََك ن َُص ِّل
» َون َْس ُجدَُ ،وإِلَيْ َك ن َْس َعى َونَ ْر ُجو َر ْح َمتَ َكَ ،ونَخ ََْش َعذَابَ َكِ ،إ َّن َعذَابَ َك بِالْكُفَّا ِر ُملْ ِحق
َميْ ُمونِ بْنِ ِم ْه َرا َن نے کہا ابی بن کعب کی قرات میں تھا
مصنف ابن ابی شبیہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے دعا قنوت سکھائی
السائِ ِبَ ،ع ْن أَ ِب َعبْ ِد ال َّر ْح َمنِ ق ََالَ :علَّ َمنَا ابْ ُن َم ْس ُعود أَ ْن نَق َ
ُول ِف َح َّدثَنَا ابْ ُن فُضَ يْلَ ،ع ْن َعطَا ِء بْنِ َّ
وت يَ ْع ِني ِف الْ ِوتْرِ« :اللَّ ُه َّم ِإنَّا ن َْستَ ِعينُ َكَ ،ون َْستَ ْغ ِف ُر َكَ ،ونُثْ ِني َعلَيْ َكَ ،والَ نَكْ ُف ُر ُكَ ،ونَ ْخلَ ُعَ ،ون ْ ََُّت ُك َم ْن الْ ُقنُ ِ
يَ ْف ُج ُر َك ،اللَّ ُه َّم إِيَّ َاك نَ ْع ُبدَُ ،ول ََك ن َُص ِّلَ ،ون َْس ُجدَُ ،وإِلَ ْي َك ن َْس َعى َونَ ْح ِفدَُ ،ونَ ْر ُجو َر ْح َمتَ َكَ ،ونَخ ََْش َعذَابَ َك
» ِإ َّن َعذَابَ َك بِالْكُفَّا ِر ُملْ َحق
يَس بْ ُن يُون َُسَ ،ح َّدث َ ِني أَ ِبَ ،ع ْن َجدِّي ،ق ََال« :أَ َّمنَا َح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن ِإ ْس َحاقَ بْنِ َرا َه َويْ ِه ،ثنا أَ ِب ،ثنا ِع َ
أُ َميَّ ُة بْ ُن َعبْ ِد الل ِه بْنِ خَالِ ِد بْنِ أُ َسيْد بِ ُخ َر َاسا َن فَ َق َرأَ بِ َهات ْ َِي ُّ
السو َرت ْ َِي ِإنَّا ن َْستَ ِعينُ َك َون َْستَ ْغ ِف ُر َك
َاّن کہتے ہیں میرے باپ نے میرے دادا ابو ِع ْي ََس ب ُن يُ ْون َُس بنِ أَ ِب ِإ ْس َحاقَ َع ْمرِو بنِ َع ْب ِد الل ِه ال َه ْمد ِ ُّ
اسحاق سے روایت کیا کہ خراسان میں أُ َم َّي ُة بْ ُن َع ْب ِد الل ِه بْنِ خَالِ ِد بْنِ أُ َس ْيد املتوفی ٨٧ھ کی
بدولت ہم ایامن الئے اور وہ وہاں دو سورتیں ِإنَّا ن َْستَ ِعينُ َك َون َْستَ ْغ ِف ُر َك پڑھتے تھے
واضح رہے کہ أُ َميَّ ُة بْ ُن َعبْ ِد الل ِه بْنِ خَالِ ِد بْنِ أُ َسيْد ایک اموی تھے جن کو خراسان پر گورنر خلیفہ
َع ْب ِد املَلِ ِك بنِ َم ْر َوا َن مقرر کیا تھا جو شیعہ نہ تھے لیکن اس روایت کو بیان کرنے والے ابو
الس ِب ْي ِع ُّي شیعہ مشھور ہیں اسحاق َّ
الس ِب ْي ِع ُّي جو خود ایک کٹر شیعہ تھے ان کے مطابق ابو امیہ کے دور تک ان سورتوں ابو اسحاق َّ
الس ِب ْي ِع ُّي کو مغالطہ ہوا کہ یہ سورتیں ہیں
َّ اسحاق ابو اسحاق ابو اغلبا – تھی رہی کی تالوت ہو
جبکہ یہ دعا قنوت تھی جو آج تک کی جاتی ہے اور مصحف کا حصہ نہیں ہیں
َعبْ ُد ال َّرزَّاقِ َ ،عنِ ابْنِ ُج َريْج ق ََال :أَخ َ َْرب ِّن َعطَاء ،أَنَّ ُه َس ِم َع ُعبَيْ َد بْ َن ُع َم ُْي ،يَأْثِ ُر َع ْن ُع َم َر بْنِ الْ َخط ِ
َّاب ِف
وت … ب ِْسمِ اللَّ ِه ال َّر ْح َمنِ ال َّر ِحيمِ ،اللَّ ُه َّم ِإنَّا ،ن َْستَ ِعينُ َكَ ،ون َْستَ ْغ ِف ُر َكَ ،ونُثْ ِني َعلَ ْي َك َوالَ نَكْ ُف ُر َك، الْ ُقنُ ِ
َونَ ْخلَ ُع َون ْ ََُّت ُك َم ْن يَ ْف ُج ُر َك ،ب ِْسمِ اللَّ ِه ال َّر ْح َمنِ ال َّر ِحيمِ ،اللَّ ُه َّم إِيَّ َاك نَ ْع ُبدَُ ،ول ََك ن َُص ِّل َون َْس ُجدَُ ،وإِلَ ْي َك
َاف َعذَابَ َكِ ،إ َّن َعذَابَ َك بِالْكُفَّا ِر ُملْ َحق ن َْس َعى َونَ ْح ِفدُ ،نَ ْر ُجو َر ْح َمتَ َكَ ،ونَخ ُ
ابن جریج کہتے ہیں َعطَاء کے واسطے سے وہ کہتے ہیں عبيد بن عمُي بن قتادة بن سعد أبو
عاصم الليثي کو سنا انہوں نے بیان کیا عمر نے مناز میں قنوت کیا اور .ب ِْسمِ اللَّ ِه ال َّر ْح َمنِ ال َّر ِحيمِ ،
پڑھ کر اللَّ ُه َّم ِإنَّا ،ن َْس َت ِعي ُن َكَ ،ون َْس َت ْغ ِف ُر َك پڑھی – بعض کا اس پر گامن گیا کہ اگربسم الله پڑھی گئی
ہے تو گویا یہ سورت ہے
بسم الله پڑھنے سے یہ قطعی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ قرآن ہے یا نہیں کیونکہ بسم الله کو قرآن
میں آیت سمجھ کر نہیں لکھا گیا بلکہ سنت کا طریقہ ہے تالوت سے پہلے اس کو پڑھا جاتا تھا
اس پر علامء کا اختالف ہے کہ کیا بسم الله سوره الفاتحہ کا حصہ ہے اور یہ اختالف بھی رصف
سوره الفاتحہ پر ہے – جمہور علامء کی رائے میں بسم الله قرآن کا حصہ نہیں ہے
روایت کو علامء صحیح کہتے ہیں لیکن وہ اس سے دلیل نہیں لیتے کہ یہ سورتیں ہیں مثال کتاب
إرواء الغليل ف تخريج أحاديث منار السبيل میں البانی اس روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں
قلت :قد ثبت القنوت قبل الركوع عن عمر من عدة طرق صحيحة عنه
میں کہتا ہوں یہ ثابت ہے کہ عمر رکوع سے قبل قنوت کرتے تھے جو بہت سے صحیح طرق سے
مروی ہے
سور ِة الخلْعِ کے الفاظ کہے جاتے ہیں
ليك ن َْسعى ونَ ْح ِفد ،نَرجو رحمتَك ونَخَش َعذابَكِ ،إ َّن
الله َّم إِياك نَ ْعبُد ،ولك ن َُصل ونَسجد ،وإِ َ
عذابَك بالكفا ِر ُملْ ِحق
َو َأنَّ ُه َذكَ َر َع ِن النَّ ِب ِّي َص َّل ال َّل ُه َع َلي ْ ِه َو َس َّل َم َأنَّ ُه َأقْ َر َأهُ ِإيَّاه َُام َوتُ َس َّمى ُسو َر َِتِ ا ْل َخ ْلعِ َوا ْل َحف ِْد
اور ذکر کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم ان کی قرات کرتے تھے اور اس کو ا ْل َخ ْلعِ
َوا ْل َحف ِْد سوره کہا گیا ہے
اسی طرح کہا جاتا ہے ابی بن کعب کے قرآن میں ایک سو سولہ سورتیں تھیں یعنی موجودہ قرآن
کے عالوہ دعائے قنوت بھی اس کے آخر میں لکھی ہوئی تھی
الربهان للزركِش
اب کوئی یہ بتائے کہ کیا یہ دعائے قنوت کوئی ایسا کالم ہے جس سے ایامنیات میں کوئی کمی
اتی ہو یہ تو دعآ کے کلامت ہیں اور امت کی ایک کثیر تعداد ان الفاظ کو قنوت میں پڑھتی ہے
الرزقانی کتاب مناهل العرفان ف علوم القرآن میں کہتے ہیں
ابن جوزی اپنی کتاب فنون األفنان ف عيون علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ
وجملة سوره عل ما ذكر عن أُب بن كعب رض اللَّه عنه مائة وست عرشة سورة .وكان ابن مسعود
رض اللَّه عنه يُسقط
املعوذتي ،فنقصت جملته سورتي عن جملة زيد .وكان أُب بن كعب يُلحقهام ويزيد إليهام سورتي،
.وهام ال َحفدة والخَلع
ُ
إحداهام“ :،اللهم ِإنا نستعينك ونستغفرك … “ ،وهي سورة واألْ خرى( :اللهم إياك نعبد … ) ،وهي
سورة الحفد .فزادت جملته عل جملة زيد سورتي ،وعل جملة ابن مسعود أربع سور .وكل أدى
.ما سمع ،ومصحفنا أول بنا أن نتبع
اور وہ جملہ سورتیں جو ابی بن کعب کے حوالے سے ذکر کی گئی ہیں ان کی تعداد ١١٦ہے اور
ابن مسعود نے املعوذتي کو مصحف میں سے گرا دیا اس سے دو سورتیں کم ہوئیں جو زید بن
ثابت کے پاس تھیں -اور ابی بن کعب اس میں دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور وہ ہیں :الخَلع ایک
ہے “اللهم ِإنا نستعينك ونستغفرك … “ اور دورسی ہے اللهم إياك نعبد … جو سورہ الحفد ہے
پس ان پر دو سورتوں کا اضافہ کرتے اور ابن مسعود اس طرح چار سورتوں کا انکار کرتے
یعنی ( املعوذتي اور ال َحفدة والخَلع کا ) … اور ہامرے لئے جو مصحف ہے ہامرے لئے اولی
ہے کہ اس کی اتباع کریں
ابن قتیبة بھی اپنی کتاب تأویل مشکل القرآن میں ذکر کرتے ہیں کہ
وأما نقصان مصحف عبد الله بحذفه (أم الکتاب) و (املعوذتین) ،وزیادة أبی بسورتی القنوت -فإنا
ال نقول :إن عبد الله وو أبیا أصابا وأخطأ املهاجرون واألنصار ،ولکن (عبد الله) ذهب فیام یرى أهل
النظر إل أن (املعوذتین) کانتا کالعوذة والرقیة وغیرها ،وکان یرى رسول الله ،صل الله علیه وآله
وسلم ،یعوذ بهام الحسن والحسین وغیرهام ،کام کان یعوذ بأعوذ بکلامت الله التامة ،وغیر ذلک،
فظن أنهام لیستا من القرآن
ابن مسعود کے مصحف میں کمی تھی کہ سورہ الفاتحہ محذوف تھی اور املعوذتین اور – اور
ابی بن کعب کے مصحف میں قنوت پر دو سورتیں تھیں تو اس پر ہم یہ نہیں کہتے کہ ابن
مسعود یا ابی بن کعب ٹھیک تھے اور باقی مہاجرین و انصار نے خطا کی لیکن ابن مسعود نے
اس کو اہل نظر کی طرح دیکھا کہ سورہ فلق و الناس سے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تعوذ کیا
اور دم کیا اور اسی طرح دیگر سے اور دیکھا کہ رسول الله نے حسن و حسین کو اس سے تعوذ
کیا اور دیگر کو جیسے وہ أعوذ بکلامت الله التامة سے تعوذ کرتے تھے پس انہوں نے گامن کیا
کہ قرآن سے نہیں ہیں
پھر آگے لکھتے ہیں کہ
وإل نحو هذا ذهب أبی فی (دعاء القنوت) ،ألنه رأى رسول الله ،صل الله علیه وآله وسلم ،یدعو
به فی الصالة دعاء دامئا ،فظن أنه من القرآن ،وأقام عل ظنه ،ومخالفة الصحابة
اور اسی طرح ابی بن کعب گئے اس طرف کہ دیکھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مناز
میں دعا قنوت مناز میں دامئی پڑھتے تو وہ سمجھے یہ قرآن میں سے ہے اور ان کا یہ ظن برقرار
رہا اور صحابہ نے اس ظن کی مخالفت کی
طرفہ متاشہ ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عثامن رضی الله عنہ نے قرآن میں سے ان
سورتوں کو نکال دیا دورسی طرف بنو امیہ کے خلیفہ عبد امللک کے دور تک کہا جاتا ہے کہ ان
کو پڑھا جا رہا تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مغالطہ نو مسلموں کوہوا جن کو جمع القران کی
جزیات تک کا علم نہ تھا
حدثنا موىس بن إسامعيل ،عن إبراهيم بن سعد ،حدثنا ابن شهاب ،عن عبيد بن السباق ،أن زيد بن ثابت ـ رىض الله عنه
ـ قال أرسل إل أبو بكر مقتل أهل الياممة فإذا عمر بن الخطاب عنده قال أبو بكر ـ رىض الله عنه ـ إن عمر أتاّن فقال إن
القتل قد استحر يوم الياممة بقراء القرآن وإّن أخَش أن يستحر القتل بالقراء باملواطن ،فيذهب كثُي من القرآن وإّن أرى
أن تأمر بجمع القرآن .قلت لعمر كيف تفعل شيئا مل يفعله رسول الله صل الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خُي .فلم
يزل عمر يراجعني حتى رشح الله صدري لذلك ،ورأيت ف ذلك الذي رأى عمر .قال زيد قال أبو بكر إنك رجل شاب عاقل
ال نتهمك ،وقد كنت تكتب الوحى لرسول الله صل الله عليه وسلم فتتبع القرآن فاجمعه فوالله لو كلفوّن نقل جبل من
الجبال ما كان أثقل عل مام أمرّن من جمع القرآن قلت كيف تفعلون شيئا مل يفعله رسول الله صل الله عليه وسلم قال
هو والله خُي فلم يزل أبو بكر يراجعني حتى رشح الله صدري للذي رشح له صدر أب بكر وعمر ـ رىض الله عنهام ـ
فتتبعت القرآن أجمعه من العسب واللخاف وصدور الرجال حتى وجدت آخر سورة التوبة مع أب خزمية األنصاري مل
أجدها مع أحد غُيه {لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم} حتى خامتة براءة ،فكانت الصحف عند أب بكر
حتى توفاه الله ثم عند عمر حياته ثم عند حفصة بنت عمر ـ رىض الله عنه ـ.
زوانت ںیم دیبع انب الستاق وہجمل النسث زاوی سالم ےھسج ےس انب شھات زرھی زوانت رک زاھ ےھ ،انب اہشت زرھی ےسیج
صخش اک یام ا ےت یھ ھمازے دحمنیث یک ا وھکنن رپ دقتس یک یٹپ ڑچھ اجیت ےھ اوز اس ےک دعب وہ وج ھچک ان وک کھال داتی ےھیاللیح و تجح
اھک ےتیل ںیھ قرا ن یسیج خدا یک افحتظ ںیم وفحمظ اتکت رپ واز رکےن ےک ےئلایک اےسی صخش یک یات رپ اابتعز رک انیل سج ےک یات دادا
رپدادا اک یام و بسن یسک وک ہتپ ںیہن ،سج یک وساےئ اس زوانت ےک وج ہک رسے ےس وھجیٹ اوز نم ڑھگت ےھ ،اوز دورسی زوانت وج
ذمی ےس قلعتم ےھ وج ہک خالف لقعےھ ،وکیئ رسیتی دحنت دریخہ دحنت ںیم ںیہن یایئ اجیت ہی صخش ھمنشہ اس ےس زوانت رکیا
ھ
ےھ وج اس یک دیپاشئ ےس ےلہپ رم اکچ وھیا ےھ (،،دیبعانب الستاق دیپاشئ 50جزی وقبل اامم اخبزی دز یازخی ریبک – یازخی وافت زید
ھ
نب یانتؓ 48جزی وقبل انب رجحملقب وخد ) اس دیبع انب ابسق وکاس یک دیپاشئ ےس دو سال ےلہپ زمحِ امدز ںیم زید نب یانت زیض اهلل
عتہ ہہک زےہ ںیہ ہک اوبرکب زیض اهلل عتہ ےن ےھجم ولبایا اوز رمعزیض اهلل عتہ ان ےک یاس ےھت ،حتگ امیم ےک زامہن ںیم اوزاہکہک اے زید
ہی رمع ریمے یاس ا یا ےہ اوز ہہک زاہ ےہ ہک حتگ ںیم تہبوخرننزی وہیئ ےہ اوز تہب ےس قرا ن ےک اقزی دیہش وہےئگ ںیہ اوز ےھجم دز
ےہ ہک اوز وگنجن ںیم ھبِ ہی ہلسلس ایسرطح اجزی زہ اتکس ےہ سج یک وہجےس قرا ن اک نزا دریخہ یا تہب زیادہ قرا ن اضعئ وہاجےئ اگ اس
ےئل رمع اتہک ےہ ہک ںیم اس ےئلا یا وہن یاہک قرا ن ےک عمج اک مکح دیا اجےئ –وت ںیم ےن رمع وک اہکہک ںیم وہ اکم ےسیکرکون وک زوسل اهلل
یلص اهلل ہیلع وملس ےن نہن ایک وت رمع ےن اہکہک ہی اکم تہب رضوزی ےہ اوز رتہب اوز ریخ ےہ اوز اس رپ ارصاز رکیا زاہ یاہک اهلل یاک ےن اس
اعمملہ ںیم ریما ہنیس وھکل دیا اوز رشح دصز رکدیا – زید ےن اہکہک ےھجم اوبرکب ےن اہکہک وت ونوجان ا دیم ےہ اوز مہ ےن ےھجت یسک تمہت
ںیم یھب ولمت ںیہن یایا اوز متزوسل اهلل ےک ےئلیھب ویح ےتھکل ےھت اس ےئلقرا ن یک یالس رکو اوز رھپ اس وک عمج رکو-وس اهلل یک مسق ارگ
ہی ولگ ےھجم اہپز وک ادرھ ادرھ رکےن وک ےتہک وت ےھجم اانت اھبزیہن اتگل انتج ہی عمج ارقلا ن واال اکم اھبزی ےہ -وت ںیم ےن ان وک اہکہک ا ت ہی
اکم ےسیک عک زےہ وہ وج زوسل ےن ںیہن ایک وت اوبرکب ےن اہکہکمسق ےس ہی ااھچ اکم ےہ اوز ےھجم یاز یاز ےتھک زےہ یاہک ریما یھب رشح دصز
وہایگ رھپ ںیم عمج قرا ن ےک ےھچیپ ڑپایگ اوز وجھکز ےک ڑکلوین،ڈہوین ،رھتپون اوز ولوگن ےک ونیسن ےس قرا ن وک عمج ایک اوز ےھجم وسزہ وتہب
تف ک
یک ا رخی ا نت ںیہن لم زہ یھت ا رخ وہ رصف ایک یہ احصیب اوب زخہمی ااصنزی ےک یاس ںیلم – ینعی دقل اجءمک زوسل نم ا ش م ےس ا رخ
وسزہ یک – رھپ ہی عمج رکدہ ےفیحص اوبرکب ےک یاس زےہ ان یک وافت ےک دعب رمع ےک یاس اوز ان یک وافت ےک دعب ام اوملنینم حفصہ تنب رمع
-ےک یاس زےہ
دیبع انب ابسق رضحت زید نب یانتؓ یک وافت ےک دو سال دعب دیپا وھاےھ ،اامم اخبزی ارگ انب شھات ےک دقتسےس انپھیانز ہن 1-
وھےت اوز انب شھات ےس ا ےگ اس ےک خیش دیبع انبِ الستاق یک تقیقح رپ رظن امز ےتیل وت اس ےک داو ںیم یھبک ہن ا ےت ،ہکبج وخد اامم اخبزی
ھ ھ
اینپ یازخی ریبک ںیم اس زاوی یک دیپاشئ 50جزی اوز وافت 118جزی 68سال یک رمع ںیم ےتھکل ںیھ وت رھپ وہ اےنپ دیپا وھےن ےس
ھ
دو سال ےلہپ 48جزی ںیم وفت وھ اجےن واےل احصیب ےسزوانت رپ الزم وچیک اجےت ،،بیجع امتہش ےھ ہک اس ےک رتےمجںیم ولگ
ہی وت ھکل دےتی ںیھ ہک اس ےن ام اوملنینم ےس یھب دحنت زوانت یک ےھ ،ہکبج سازی امھات اوملنینم اس یک دیپاشئ ےس ےلہپ یا نپچب
ںیم وفت وھ گئ ںیھت ،،انب ابعس زوانت اک درک ےھرگم اس یک وکیئ زوانت دریخہ دحنت ںیم وموجد ںیہن وج انب ابعس ےس رموی وھ
یا امھات اوملنینم ےس رموی وھ ،اس ےک رتےمجںیم ہی نزے نزے یام داےنل اک دصقم رصف اس ےک رئیش اک رگاف دنلبرکیا وصقمد ےھ ،
وزہن اخبزی اک زاوی وھ اوز ایک دحنت ایبن رک ےک اغنت وھ اجےئ ،اوز دعب واےل ارگ اامم اخبزی یک تمظع یک یٹپ اک ایک وکیا ااھٹ رک ایک
ا ھکن ےس یھب اس دیبع یک تقیقح یک اھچن نیب رک ےتیل وت یھبکقرا ن رپ ایک اکزی واز اک دزہعی ہن ےتنب ۔
جواب
امام بخاری کے مطابق ام املومنین جویرہ رضی الله عنہا سے روایت ہے اور زید بن ثابت رضی الله
عنہ سے بھی
قرآن میں ہے کہ مشورہ کرو -لیکن یہ ان معامالت میں ہے جن میں حاکم رضوری سمجھے بعض
اوقات
Executive Order
جاری کیا جاتا ہے
اسی لئے امیر کی اطاعت کا حکم ہے
موصوف نے کہا
اب مزید وار کیئے جا رھے ھیں تا کہ ثابت کیا جائے کہ سورتیں اور آیتیں خلفاء راشدین نے 9-
اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیں ،مثالً ایک روایت میں کہلوایا گیا کہ جب سورہ توبہ کے آخر
والی دو آیات ملیں تو ع ؓمر نے کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی نئ سورت بنا دیتے
مگر چونکہ یہ دو ھیں لہذا ان کو آخری نازل ھونے والی سورت میں رکھ دو ،،گویا عمر و
ابوبکر بیٹھ کر آیتوں کی تعداد و ترتیب طے کر رھے تھے
راقم کہتا ہے ایک صحیح روایت کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک ضعیف سے استدالل قائم کیوں
کیا جا رہے ہے
اس کی روایت کی سند صحیح نہیں
کتاب املصاحف از ابن ابی داود کی روایت ہے
َح َّدث َنا َع ْب ُد اللَّ ِه ق ََال َح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن يَ ْح َيى ق ََالَ :ح َّدثَنَا هَا ُرو ُن بْ ُن َم ْع ُروفَ ،ح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن َسلَ َم َة
ق ََال ،أَخ َ َْربنَا ابْ ُن ِإ ْس َحاقَ َ ،ع ْن يَ ْح َيى بْنِ َع َّبادَ ،ع ْن أَبِي ِه َع َّبا ِد بْنِ َع ْب ِد اللَّ ِه بْنِ ال ُّزبَ ْ ُِي ق ََال :أَ ََت الْ َحارِثُ بْ ُن
السو َر ِة{ :لَ َق ْد َجا َءكُ ْم َر ُسول ِم ْن أَنْف ُِسكُ ْم َعزِيز َعلَيْ ِه َما َع ِنتُّ ْم َحرِيص ُخ َز ْ َمي َة بِ َهات ْ َِي ْاْليَتَ ْ ِي ِم ْن آ ِخ ِر ُّ
ي َر ُءوف َر ِحيم} إِ َل قَ ْولِ ِهَ { :ر ُّب الْ َع ْر ِش الْ َع ِظيمِ } [التوبة ]129 :إِ َل ُع َم َر فَق ََالَ :م ْن َم َع َك َعلَيْكُ ْم بِالْ ُم ْؤ ِم ِن َ
َع َل َهذَا؟ ق ََال :الَ أَ ْدرِي َواللَّ ِه ِإالَّ أَ ِّّن أَشْ َه ُد أَ ِّّن َس ِم ْعتُ َها ِم ْن َر ُسو ِل اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َمَ ،و َو َعيْتُ َها
َو َح ِفظْتُ َها ،فَق ََال ُع َم ُرَ ” :وأَنَا أَشْ َه ُد ل ََس ِم ْعتُ َها ِم ْن َر ُسو ِل اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ،ث ُ َّم ق ََال :لَ ْو كَانَتْ
” ث ََالثَ آيَات لَ َج َعلْ ُت َها ُسو َر ًة َع َل ِحدَة ،فَانْظُ ُروا ُسو َر ًة ِم َن الْ ُق ْرآنِ فَأَلْ ِحقُوه َُام ،فَأَلْ َح ْق ُت َها ِف آ ِخ ِر بَ َرا َء َة
سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہے اور وہ ضعیف ہے
َع َّبا ِد بْنِ َع ْب ِد اللَّ ِه بْنِ ال ُّزبَ ْ ُِي نے کہا ا ْل َحارِثُ بْ ُن ُخ َز ْ َمي َة دو آیات لے کر عمر کے پاس گئے وغیرہ
سوال وہی اتا ہے کہ کیا الْ َحارِثُ بْ ُن ُخ َز ْ َمي َة کی وفات سے پہلے عباد نے ان سے سنا یا نہیں؟
کیا قرآن کی کچھ آیات بکری کھا گئی
محمد بن اسحاق بن یسار وہ راوی ہے جو عائشہ رضی الله تعالی عنہا پر الزام لگاتا ہے کہ قرآن
کی کچھ آیات بکری کھا گئی اس میں اس کا تفرد ہے .ان کے لئے ثقه سے لے کر دجال تک کے
الفاظ ملتے ہیں اور شیعت سے بھی ان کی سوچ پراگندہ ہے
َح َّدثَنَا أَبُو َس َل َم َة يَ ْح َيى بْ ُن َخلَفَ ،حدثَنَا َع ْب ُد األْ َ ْع َلَ ،ع ْن ُم َح َّم ِد ابْنِ ِإ ْس َحاقَ َ ،ع ْن َع ْب ِد اللَّ ِه بْنِ أَ ِب بَكْر،
َاسمِ َ ،ع ْن أَبِي ِه َع ْن َعائِشَ َة قَالَتْ :لَ َق ْد نَ َزلَتْ آيَ ُة ال َّر ْجمِ
َع ْن َع ْم َرةََ ،ع ْن َعائِشَ ةََ .و َع ْن َعبْ ِد ال َّر ْح َمنِ ابْنِ الْق ِ
ول الله – َص َّل الله َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم رشاَ ،ولَ َق ْد كَا َن ِف َص ِحيفَة تَ ْحتَ َرسِيرِي ،فَل ََّام َماتَ َر ُس ُ َو َرضَ ا َع ُة الْكَ ِبُيِ َع ْ ً
َ –.وتَشَ ا َغلْنَا مبِ َ ْوتِ ِهَ ،دخ ََل دَاجِن فَأَكَلَ َها
ام املومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا سے روایت ہے رجم کی آیت اتری اور بڑے آدمی کو دس
بار دودھ پال دینے کی اور یہ دونوں آیتیں ایک صحیفہ پر لکھی تھیں میرے بسَّت کے تلے جب
نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغو ل تھے بکری آئی اور وہ
صحیفہ کھا گئی
ال يصح ،تفرد به مح َّمد بن إسحاق -وهو املطلبي -وف متنه نكارة .عبد الله بن أب بكر :هو ابن
.مح َّمد بن عمرو بن حزم
صحیح نہیں اس میں محمد بن إسحاق (بن يسار بن خيار املديني أبو بكر أبو عبد الله) کا تفرد ہے
اور وہ املطلبي ہے اور اس روایت کے منت میں نکارت ہے .عبد الله بن أب بكر ،وہ ابن مح َّمد بن
عمرو بن حزم ہیں اور اس روایت کی تخریج احمد ( ،)٢٦٣١٦اور أبو يعل ( ،)٤٥٨٧اورالطرباّن نے
“األوسط” ( ،)٧٨٠٥اور الدارقطني ( )٤٣٧٦نے مح َّمد بن إسحاق ،عن عبد الله بن أب بکر کے طرق
سے کی ہے
الزمخرشي (املتوىف538 :هـ) کتاب الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل میں لکھتے ہیں
وأما ما يحىك :أن تلك الزيادة كانت ف صحيفة ف بيت عائشة رىض الله عنها فأكلتها الداجن فمن
تأليفات املالحدة والروافض
اور یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اضافہ ایک صحیفے میں عائشہ رضی الله تعالی عنہا کے گھر
میں تھا اور اس کو بکری کھا گئی تو یہ مالحدہ اور روافض کی تالیف ہے
الذہبی تاریخ االسالم میں لکھتے ہیں امام محدثین یحیی بن سعید القطان ،محمد بن اسحاق سے
روایت نہیں کرتے تھے
.وقال ابْن معي :كَا َن يحيى القطَّان ال يَ ْر َىض ابْن ِإ ْس َحاق ،وال يروي َعنْ ُه
روایت احمقآنہ ہے کیونکہ اگر ایسی آیات ہوتیں وہ تالوت سے آگے جاتیں ان کا ایک ہی تحریری
نسخہ نہیں ہو سکتا تھا
اس کے عالوہ یہی محمد بن اسحاق بیان کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات
کے وقت عائشہ رضی الله عنہآ نے اپنا چہرہ پر ہاتھ مارے
َح َّدثَنَا َج ْع َف ُر بْ ُن ِم ْه َرانََ ،ح َّدثَنَا َعبْ ُد األْ َ ْع َلَ ،ح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن ِإ ْس َحاقَ َ ،ح َّدث َ ِني يَ ْحيَى بْ ُن َعبَّا ِد بْنِ َعبْ ِد
يول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم بَ ْ َُولَ :ماتَ َر ُس ُ اللَّ ِه بْنِ ال ُّزبَ ُْيَِ ،ع ْن أَبِي ِه َعبَّاد ق ََالَ :س ِمعْتُ َعائِشَ َة تَق ُ
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َس ْحرِي َونَ ْحرِيَ ،و ِف بَ ْيتِي لَ ْم أَظْلِ ْم ِفي ِه أَ َحدًا .فَ ِم ْن َس َفهِي َو َحدَاث َ ِة ِسنِّي أَ َّن « َر ُس َ
َو َسلَّ َم قُب َِض َو ُه َو ِف ِح ْجرِي ،ث ُ َّم َوضَ عْتُ َرأْ َس ُه َع َل و َِسادَة َوقُ ْمتُ أَلْتَ ِد ُم َم َع النِّ َسا ِء َوأَ ْرض ُِب َو ْجهِي
ُوب ،ق ََالَ :ح َّدثَنَا أَ ِبَ ،عنِ ابْنِ ِإ ْس َحاقَ ،ق ََالَ :ح َّدث َ ِني يَ ْح َيى بْ ُن َع َّبا ِد بْنِ َع ْب ِد اللَّ ِه بْنِ ال ُّزبَ ُْيِ،
َح َّدثَنَا يَ ْعق ُ
ي ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم بَ ْ َ ُولَ « :ماتَ َر ُس َُع ْن أَبِي ِه َع َّباد ،ق ََال [صَ :]369:س ِم ْعتُ َعائِشَ ةَ ،تَق ُ
ول اللَّ ِه قُب َِض َو ُه َو ِف َس ْحرِيَ ،ونَ ْحرِي َو ِف َد ْولَتِي ،لَ ْم أَظْلِ ْم ِفي ِه أَ َحدًا ،فَ ِم ْن َس َفهِي َو َحدَاث َ ِة ِسنِّي أَ َّن َر ُس َ
ِح ْجرِي ،ث ُ َّم َوضَ عْتُ َرأْ َس ُه َع َل و َِسادَةَ ،وقُ ْمتُ أَلْتَ ِد ُم َم َع النِّ َسا ِءَ ،وأَ ْرض ُِب َو ْجهِي
اروا الغلیل میں البانی اس کو حسن کہتے ہیں
عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی میرے
گلے کے پاس اور وہ میری جاگیر میں تھے کسی پر ظلم نہ کیا اور یہ میری سفاہت و نا تجربہ
کاری ہے کہ رسول الله کی جان قبض ہوئی اوروہ میرے حجرے میں تھے ،میں نے ان کا رس
تکیہ پر رکھا اور میں عورتوں کے ساتھ کھڑی ہوئی اپنے چہرے پر مارا
یہ روایت بھی محمد بن اسحاق بیان کرتا ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا کے خالف
روایت بعد کی پیدا وار ہے کیونکہ عربی میں َد ْولَتِي (جاگیر) کا لفظ عباسی دور خالفت میں
سب سے پہلے استمعال ہوا
اس کی سند میں يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبُي ہے جس سے بخاری و مسلم نے روایت
نہیں لی ہے
حجرہ عائشہ میں رسول الله کی وفات ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی تو ابن اسحاق کا کہنا
ہم انکی موت میں مشغول ہوئے اور بکری آ کر آیات کھا گئی
کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ وہ تو کسی بھی وقت خالی نہ رہا ہو گا
1814
و َح َّدث َ َنا أَبُو بَكْ ِر بْ ُن أَ ِب شَ ْي َب َة َح َّدثَ َنا َع ْب ُد اللَّ ِه بْ ُن منُ َُْي َوأَبُو ُم َعا ِويَ َة ح و َح َّدثَ َنا ُزه ْ َُُي بْ ُن َح ْرب
َو ِإ ْس َح ُق بْ ُن إِبْ َرا ِهي َم َج ِمي ًعا َع ْن َجرِير كُلُّ ُه ْم َع ْن ْاألَ ْع َم ِش ح و َح َّدثَنَا ابْ ُن منُ َُْي َواللَّ ْف ُظ لَ ُه
ف َع ْن ِصلَ َة بْنِ ُزفَ َر َع ْن َح َّدثَنَا أَ ِب َح َّدثَنَا األْ َ ْع َم ُش َع ْن َس ْع ِد بْنِ ُعبَيْ َد َة َع ْن الْ ُم ْستَ ْو ِر ِد بْنِ ْاألَ ْحنَ ِ
ُح َذيْ َف َة ق ََال َصلَّ ْيتُ َم َع النَّب ِِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ذَاتَ لَ ْيلَة فَافْتَتَ َح الْ َب َق َر َة فَ ُقلْتُ يَ ْركَ ُع ِعنْ َد
ال ِْامئَ ِة ث ُ َّم َم ََض فَ ُقل ُْت يُ َص ِّل بِ َها ِف َركْ َعة فَ َم ََض فَ ُقل ُْت يَ ْركَ ُع بِ َها ث ُ َّم افْ َت َت َح ال ِّن َسا َء فَ َق َرأَهَا ثُ َّم
افْتَتَ َح َآل ِع ْم َرا َن فَ َق َرأَهَا يَ ْق َرأُ ُم َ ََّت ِّسالً ِإذَا َم َّر بِآيَة ِفي َها ت َْسبِيح َسبَّ َح َو ِإذَا َم َّر ب ُِس َؤال َسأَ َل َو ِإذَا
ُول ُسبْ َحا َن َر ِّ َب الْ َع ِظيمِ فَكَا َن ُركُو ُع ُه نَ ْح ًوا ِم ْن قِيَا ِم ِه ثُ َّم ق ََال َم َّر بِتَ َع ُّوذ تَ َع َّوذَ ث ُ َّم َركَ َع فَ َج َع َل يَق ُ
َس ِم َع اللَّ ُه لِ َم ْن َح ِمدَهُ ث ُ َّم قَا َم طَوِيالً قَرِي ًبا ِم َّام َركَ َع ثُ َّم َس َج َد فَق ََال ُس ْب َحا َن َر ِّ َب األْ َ ْع َل فَكَا َن
يث َجرِير ِم ْن ال ِّزيَا َد ِة فَق ََال َس ِم َع اللَّ ُه لِ َم ْن َح ِمدَهُ َربَّ َنا ُس ُجودُهُ قَرِي ًبا ِم ْن قِ َيا ِم ِه ق ََال َو ِف َح ِد ِ
ل ََك الْ َح ْم ُد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ ترتیب کے خالف تالوت کر کے اُمت کے لیے
وسعت پیدا کر دی ہے کہ یہ ترتیب توقیفی نہیں ہے۔اگر سورتوں کی ترتیب توقیفی
ہوتی تو صحابہ کرام رضور اس حدیث کے مطابق قرآنِ مجید کی ترتیب دیتے۔نیز سیدنا
عبد اللہ بن مسعود کے مصحف کی ترتیب موجودہ ترتیب سے مختلف تھی
اگر قران نبی صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں اسی ترتیب میں مکمل لکھا ہوا موجود
تھا تو پھر حرضت ابوبکررضی الله نے اسے دوبارہ کیوں جمع کیا ،کیوں
زید بن ثابت رضی الله کی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائ جس نے اس قران کو دوبارہ جمع
کیا؟
اب قَ ْولِ ِه { َوالَّ ِذي َن يُتَ َوفَّ ْو َن ِمنْكُ ْم َويَ َذ ُرو َن أَ ْز َوا ًجا})
اب تَف ِْس ُِي ال ُق ْرآنِ (بَ ُ
صحيح البخاري :كِتَ ُ
صحیح بخاری :کتاب :قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں (باب :آیت ((والذین یتوفون منکم
)ویذرون ازواجا ) کی تفسیر
4536
حدثني عبد الله بن أب األسود ،حدثنا حميد بن األسود ،ويزيد بن زريع ،قاال حدثنا حبيب
بن الشهيد ،عن ابن أب مليكة ،قال قال ابن الزبُي قلت لعثامن هذه اْلية التي ف البقرة
{والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا} إل قوله {غُي إخراج} قد نسختها األخرى ،فلم تكتبها
قال تدعها .يا ابن أخي ال أغُي شيئا منه من مكانه .قال حميد أو نحو هذا.
مجھ سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا ،کہا ہم سے حمید بن اسود اور یزید بن زریع
نے بیان کیا ،کہا کہ ہم سے حبیب بن شہید نے بیان کیا ،ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان
کیا کہ حرضت ابن زبیر رضی اللہ عنہام نے حرضت عثامن بن عفان رضی اللہ عنہ سے
کہا کہ سورۃ بقرہ کی آیت یعنی ” جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ
جائیں “ اللہ تعالی کے فرمان ” غیر اخراج “ تک کو دورسی آیت نے منسوخ کردیا ہے ۔
اس کو آپ نے مصحف میں کیوں لکھوایا ،چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟ انہوں نے کہا ،میرے
بھتیجے ! میں کسی آیت کو اس کے ٹھکانے سے بدلنے واال نہیں ۔ یہ حمید نے کہا یا
کچھ ایسا ہی جواب دیا ۔
http://mohaddis.com/View/Sahi-Bukhari/4536
اس حدیث میں جس آیت کوحرضت ابن زبیر رضی اللہ عنہام نے منسوخ کہا – کیا واقعی
وہ منسوخ ہے
جواب
قرآن کی ترتیب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مقرر کی -اس کا قرات سے کیا تعلق
ہے ؟ کیونکہ مناز میں سورتیں ترتیب میں پڑھنے کا کوئی حکم نہیں
اس حدیث سے دلیل ملتی ہے کہ سورتوں کو مناز میں ترتیب میں پڑھنا رضوری نہیں
——-
قرآن کی ترتیب معلوم تھی لیکن اس ترتیب سے متام مصحف میں لکھا نہیں تھا – ابو بکر
رضی الله عنہ نے اس کو اس ترتیب سے ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا
اصحاب رسول متام پڑھے لکھے نہیں تھے لہذا انہوں نے قرآن کو زبانی یاد کیا -اس کی
ترتیب ان کو معلوم تھی -ان میں بیشَّت نے قرآن کو دیکھ کر نہیں پڑھا بلکہ حافظہ پر
پڑھتے تھے – ابو بکر رضی الله عنہ نے اس کو ایک جگہ تحریری جمع کیا لیکن یہ
ترتیب وہی تھی جو سب کو معلوم تھی
اگر ایسا نہ ہوتا تو اختالف رہتا جبکہ قرآن کی اس ترتیب کو سب نے قبول کیا ہے
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ،کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ،کہا ہم سے
شبل بن عباد نے بیان کیا ،ان سے ابن ابی نجیح نے اور انہوں نے مجاہد سے آیت
«والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور
بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے بارے میں (زمانہ جاہلیت کی طرح) کہا کہ عدت (یعنی
چار مہینے دس دن کی) تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی رضوری تھی۔ پھر اللہ
تعالی نے یہ آیت نازل کی «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية ألزواجهم متاعا إل
الحول غُي إخراج فإن خرجن فال جناح عليكم فيام فعلن ف أنفسهن من معروف» اور جو
لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے
حق میں نفع اٹھانے کی وصیت (کر جائیں) کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی
جائیں ،لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اگر وہ دستور کے
موافق اپنے لیے کوئی کام کریں۔ فرمایا کہ اللہ تعالی نے عورت کے لیے سات مہینے اور
بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لیے وصیت کے
مطابق (شوہر کے گھر میں ہی)ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر
ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو متہارے حق میں کوئی گناہ نہیں۔ پس عدت کے
ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر رضوری ہے (یعنی چار مہینے دس دن)۔ شبل نے کہا
ابن ابی نجیح نے مجاہد سے ایسا ہی نقل کیا ہے اور عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ابن
عباس رضی اللہ عنہام نے کہا ،اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کر دیا کہ عورت اپنے
خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار مال
جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول «غُي إخراج» کا یہی مطلب ہے۔ عطا
نے کہا ،عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی
وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ
اللہ تعالی نے فرمایا «فال جناح عليكم فيام فعلن» اگر وہ نکل جائیں تو دستور کے موافق
اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہو گا۔ عطاء نے کہا کہ پھر
میراث کا حکم نازل ہوا جو سورۃ نساء میں ہے اور اس نے (عورت کے لیے) گھر میں
رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا۔ اب
عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اسے مکان کا خرچہ دینا رضوری نہیں اور
محمد بن یوسف نے روایت کیا ،ان سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا ،ان سے ابن ابی نجیح
نے اور ان سے مجاہد نے ،یہی قول بیان کیا اور فرزندان ابن ابی نجیح سے نقل کیا ،ان
سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہام نے بیان کیا کہ
اس آیت نے رصف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اب وہ
جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کے ارشاد «غُي إخراج» وغیرہ سے
ثابت ہے۔
بقرہ ٢٣٤کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ عورت شوہر کے مرنے کے بعد اسی گھر میں عدت
گزارے گی اس کو بقرہ ٢٤٠نے منسوخ کیا کہ عورت اب کہیں بھی عدت گزار سکتی ہے
البتہ اس کی مدت وہی چار ماہ دس دن رہے گی -ابن زبیر نے جو کہا اس کا مطلب بقرہ
٢٣٤منسوخ ہے بقرہ ٢٤٠سے
اب أَبِیَ :ح َّدث َ َنا َر ُجل ،ف ََسأَلْتُ أَبِیَ :م ْن ُه َو؟ فَق ََالَ :ح َّدث َ َنا َع َّبا ُد بْ ُن ُص َه ْیبَ ،ع ْن
قال أبو بکر کَا َن ِفی کِ َت ِ
رش َح ْرفًا ق ََال :کَانَتْ ِفی وس َفَ ،غیَّ َر ِفی ُم ْص َح ِف ُعث َْام َن أَ َح َد َع َ َ اج بْ َن یُ َُع ْو ِف بْنِ أَبِی َج ِمیلَةَ ،أَ َّن الْ َح َّج َ
(رشِی َع ًة ِ
الْبَ َق َر ِة (لَ ْم یَتَ َس َّن َوانْظُ ْر) فَ َغیَّ َرهَا {لَ ْم یَتَ َسنَّهْ} [البقرة ]259 :بِالْ َهاءَ ،وکَانَتْ ِفی ال َْامئِ َد ِة َ
رشکُ ْم) فَ َغ َّی َرهُ {رش َع ًة َو ِمنْ َها ًجا} [املائدةَ ، ]48 :وکَانَتْ ِفی یُون َُس ( ُه َو الَّ ِذی یَنْ ُ ُ َو ِمنْ َها ًجا) فَ َغ َّی َرهُ ِ ْ
وس َف (أَنَا آتِیکُ ُم بِتَأْوِیلِ ِه) فَ َغ َّی َرهَا {أَنَا أُنَ ِّب ُئکُ ْم بِتَأْوِیلِ ِه} [یوسف: ُ ُ ی ی ِ
ف َتْ نَا کوَ ، ] 22 {یُ َس ِّی ُرکُ ْم} [یونس:
ِ َّ َّ َ ِ َّ ِ ِ َّ
(سیَقُولُو َن لله لله لله) ث ََالثتُ ُه َّن ،فَ َج َع َل ا ْْل َخ َریْنِ (الل ُه اللهُ) َ ،وکَا َن فی ِ ِ َّ ِ َ ، ]45وکَانَتْ ِفی ال ُم ْؤمنی َن َ
ِ ِ ْ
الشُّ َع َرا ِء ِفی قِ َّص ِة نُوح ( ِم َن الْ ُم ْخ َرجِی َن) َ ،و ِفی قِ َّص ِة لُوط ( ِم َن الْ َم ْر ُجو ِمی َن) ،فَ َغیَّ َر قِ َّص َة نُوح { ِم َن
الْ َم ْر ُجو ِمی َن} [الشعراءَ ، ]116 :وقِ َّص َة لُوط { ِم َن الْ ُم ْخ َرجِی َن} [الشعراءَ ، ]167 :وکَانَتْ ِفی ال ُّز ْخ ُر ِف
(نَ ْح ُن ق ََس ْمنَا بَ ْینَ ُه ْم َم َعائِشَ ُه ْم) فَ َغ َّی َرهَا { َم ِعیشَ تَ ُه ْم} [الزخرفَ ، ]32 :وکَانَتْ ِفی الَّ ِذی َن کَ َف ُروا ( ِم ْن َماء
آسن} [محمدَ ، ]15 :وکَانَتْ ِفی الْ َح ِدی ِد (فَالَّ ِذی َن آ َم ُنوا ِم ْنکُ ْم َواتَّ َق ْوا َغ ْی ِر یَ ِسن) فَ َغ َّی َرهَا { ِم ْن َماء َغ ْی ِر ِ
لَ ُه ْم أَ ْجر کَبِیر) فَ َغیَّ َرهَا { ِمنْکُ ْم َوأَنْ َفقُوا} [الحدیدَ ، ]7 :وکَانَتْ فی إِذَا الشَّ ْم ُس کُ ِّو َرتْ ( َو َما ُه َو َع َل
ِ
الْ َغیْ ِب بِظَ ِنین) فَ َغیَّ َرهَا {بِضَ ِنین} {التکویر}24 :
جواب
روایت میں انقطاع ہے کیونکہ عوف بن أىب جميلة نے یہ نہیں بتایا کہ ان کو کس نے خرب کی کہ
قرآن میں ایسا لکھا تھا لیکن حجاج نے بدال
یہ روایت مَّتوک ہے عباد بن صهيب أبو بكر الكليبي برصي مَّتوک الحدیث ہے
ابو داود سجستانی کہتے ہیں کہ اپنی کتاب سؤاالت أب عبيد اْلجري أبا داود السجستاّن ف الجرح
والتعديل میں کہتے ہیں کہ
”سألت أبا دَا ُود َعن َعباد بْن ُص َهيب 3فَق ََال“ :كَا َن قدرياً صدوقًا
الحافظ أبو عبد الله شمس الدين الذهبي اپنی کتاب سیر اعالم النبالء میں لکھتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں قرآٖن کو چار آٖدمیوں نے جمع کیا -ان میں ابو زید
گمنام کیوں؟
جواب
ابو زید پر مختلف اقوال ہیں
الطرباّن :قال أبو بكر بن صدقة :أبو زيد سعد بن عبيد القارئ الذي كان عل القادسية ،وهو
أبو عمُي بن سعد
صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں ہے
يَّتك َع ِقباً ،وكا َن بدريىا 5
قال :أح ُد ُعمو َمتي[ ،ماتَ ومل ْ
قلت ألنسَ :من أبو زيد؟ َ
ُ
یہ میرے ایک چچا تھے مر گئے کوئی اوالد نہ ہوئی بدری تھے
سنا ھے کہ حرضت عبداللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن کا حصہ نھیں مانتے تھے
جی یہ بات ابن مسعود رضی الله عنہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے
صحیح بخاری میں ہے
ل بْ ُن َع ْب ِد ال َّل ِهَ ،ح َّدثَنَا ُس ْف َيانَُ ،ح َّدثَنَا َع ْب َد ُة بْ ُن أَ ِب ُل َبابَةََ ،ع ْن ِز ِّر بْنِ ُح َب ْيش ،حَح َّدثَنَا َع ِ ُّ
َو َح َّدث َ َنا َع ِاصمَ ،ع ْن زِر ،ق ََالَ :سأَل ُْت أُ َ َّب بْ َن كَ ْعب ،قُلْتُ :يَا أَبَا امل ُ ْن ِذ ِر ِإ َّن أَخ ََاك ابْ َن َم ْس ُعود
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم فَق ََال ِِل« :قِ َيل ِِل فَ ُقل ُْت» ُول كَذَا َوكَذَا ،فَق ََال أُ َبَ :سأَل ُْت َر ُس َ يَق ُ
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم
ُول ك ََام ق ََال َر ُس ُ ق ََال :فَنَ ْح ُن نَق ُ
ِز ِّر بْنِ ُح َب ْيش کہتے ہیں میں نے ابی بن کعب سے پوچھا کہ اپ کے بھائی ابن مسعود
ایسا ایسا کہتے ہیں ابی نے کہا میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس پر سوال
کیا تھا انہوں نے کہا کہو کہ میں نے کہا – پس ہم وہ کہتے ہیں جیسا رسول الله صلی
الله علیہ وسلم نے کہا
اس روایت میں زر بن حبیش کا تفرد ہے اور علامء نے اس کو رد کر دیا ہے ابن حزم کہتے
ہیں یہ بات جھوٹ ہے یعنی صحیح بخاری کی یہ روایت کذب ہے
أخربنا حفص عن األعمش عن إبراهيم عن عبد الرحمن بن يزيد قال :كان عبد الله يكره أن
يقرأ القرآن ف أقل من ثالث ،وهم يستحبون أن يقرأ ف أقل من ثالث أخربنا وكيع عن
سفيان الثوري عن أب إسحاق عن عبد الرحمن بن يزيد قال :رأيت عبد الله يحك املعوذتي
من املصحف ويقول :ال تخلطوا به ما ليس منه وهم يروون { عن النبي صل الله عليه
وسلم أنه قرأ بهام ف صالة الصبح } وهام مكتوبتان ف املصحف الذي جمع عل عهد أب بكر
ثم كان عند عمر ثم عند حفصة ثم جمع عثامن عليه الناس ،وهام من كتاب الله عز وجل
.وأنا أحب أن أقرأ بهام ف صالِت
َعبْ ُد ال َّر ْح َمنِ ب ُن يَ ِزيْ َد بنِ قَيْس النَّ َخ ِع ُّي نے کہا ابن مسعود اس سے کراہت کرتے کہ قرآن
میں تین سے کم آیات قرات کی جائیں اور وہ اس کو مستحب کرتے کہ کم از کم تین
پڑھی جائیں … عبد الرحمن بن يزيد نے خرب دی میں نے ابن مسعود کو دیکھا وہ
معوذتین کو مصحف میں سے مٹا دیتے اور کہتے ان میں اس کا خلط ملط مت کرو جو
اس میں سے نہ ہو اور وہ دیکھتے کہ یہ لکھی گئی ہیں مصحف ابو بکر میں پھر عمر
میں جو حفصہ کے پاس تھا پھر عثامن نے اس پر لوگوں کو جمع کیا اور یہ کتاب الله
میں ہیں اور میں پسند کرتاہوں کہ ان کی قرات کروں
سند قابل قبول ہے
یہ بات ابن سیرین بھی کہتے ہیں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے
» َح َّدث َ َنا َوكِيع ،عَنِ ابْنِ َع ْون ،عَنِ ابْنِ ِسُيِي َن ق ََال« :كَا َن ابْ ُن َم ْس ُعود َال يَكْ ُت ُب الْ ُم َع ِّوذَت ْ َِي
بہرحال یہ روایت ایک مشکل ہے کیونکہ حدیث نبوی کے مطابق اگر کسی کو قرآن
سیکھنا ہو تو ابن مسعود سے سیکھے اور دورسی مشکل یہ ہے کہ عاصم بن ابی النجود
کی قرات پر قرآن پڑھا جاتا ہے جس کی سند علی اور ابی بن کعب تک جاتی ہے
عاصم قرات کے امام ہیں لیکن حدیث میں ضعیف ہیں
اغلبا ابن مسعود ان کو دعا سمجھتے تھے نہ کہ قرآن کی سورتیں لیکن جمہور اصحاب
رسول اس کو پڑھتے تھے اور قرآن کی سورت ہی سمجھتے تھے
أقول :و ف هذا املعنى روايات كثُية من طرق الفريقي عل أن هناك تواترا قطعيا من عامة
املنتحلي باْلسالم عل كونهام من القرآن ،و قد استشكل بعض املنكرين ْلعجاز القرآن أنه لو
كان معجزا ف بالغته مل يختلف ف كون السورتي من القرآن مثل ابن مسعود ،و أجيب بأن
التواتر القطعي كاف ف ذلك عل أنه مل ينقل عنه أحد أنه قال بعدم نزولهام عل النبي
(صل الله عليه وآله وسلم) أو قال بعدم كونهام معجزتي ف بالغتهام بل قال بعدم كونهام
.جزء من القرآن و هو محجوج بالتواتر
میں الطباطبايئ کہتا ہوں :ان معنوں کی بہت سی روایات دونوں فریقین (اہل سنت و اہل
تشیع) کے پاس ہیں اور وہاں تواتر قطعی سے ہے کہ یہ قرآن میں سے ہیں (بخالف اس
کے ) جو اسالم کے حوالے سے فریبی کہتے ہیں اور بعض اعجاز قرآن کے منکرین کا کہنا
ہے اگر قرآن کی بالغت کوئی معجزہ ہوتا تو پھر ابن مسعود کی مثال ہے کہ (وہ ان کو
سورتیں نہیں کہتے) اور اس کا جواب ہے کہ تواتر قطعی کافی ہے اس کے لئے
کیا قرن اول میں شیعأن عل کوئی خفیہ سوسائٹی تھی؟ جس کے گرینڈ ماسٹر علی رضی
الله عنہ تھے ؟ راقم إس قول کو رد کرتا ہے لیکن قابل غور ہے کہ علی کے حوالے سے
اس خفیہ علم کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو بقول اہل تصوف اور اہل تشیع رصف خواص کے لئے
تھا عوام کے لئے نہ تھا -اہل تشیع کے بعض جہالء کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی سننے
کو ملتا رہتا ہے کہ علی رضی الله عنہ کے پاس کوئی خفیہ قرآن تھا جس کو وہ چھپا کر
رکھتے تھے اور کہتے تھے اس کو قیامت تک کوئی نہ دیکھ سکے گا – کہا جاتا ہے اس
وقت یہ قرآن رس من رأى – سامراء العراق میں کسی غار میں امام املھدی کے پاس ہے جو
وقت انے پر ظاہر کیا جائے گا – اس خفیہ قرآن کی خرب اہل سنت کی کتب میں بھی در
کر آئی ہیں جس کا ذکر امام الحاکم کرتے ہیں
ابو ثابت موِل ابو ذر نے کہا ميں جمل ميں عل کے ساتھ تھا ليکن جب ميں نے عائشہ
کو ديکھا اور ان کو پہچان گيا … .پس الله نے مُيا دل مناز ظہر پر کھول ديا اور ميں نے
عل کے ساتھ قتال کيا پس جب فارغ ہوا ميں مدينہ ام سلمہ کے پاس پہنچا انہوں نے
مرحبا کہا اور ميں نے قصہ ذکر کيا … ميں نے تذکرہ کيا کہ الله نے مجھ پر زوال کے
وقت (حق کو) کشف کيا – پس ام سلمہ نے کہا اچھا کيا ميں نے رسول الله سے سنا ہے
کہ عل قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن عل کے ساتھ ہے يہ الگ نہ ہوں گے يہاں تک کہ
حوض پر مليں گے
امام حاکم نے کہا يہ حديث صحيح االسناد ہے
سند ميں عل بن هاشم بن الربيد ہے جس کو شيعي غال کہا گيا ہے
یہ روایات غالی شیعوں کی بیان کردہ ہیں لیکن امام حاکم نے اپنی حالت اختالط میں
منکر و موضوع روایات تک کو صحیح قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے مستدرک
عجیب و غریب روایات کا
– مجموعہ بن گئی اور اہل سنت میں شیعیت کو فروغ مال
اب ہم اہل تشیع کے معترب ذرائع کو دیکھتے ہیں کہ علی کے پاس کیا کیا علوم تھے –
الکاف از کليني باب النوادر کي حديث 23ہے
محمد بن يحيى ،عن محمد بن الحسي ،عن عبدالرحمن بن أب هاشم ،عن سامل بن سلمة
قال :قرأ رجل عل أب عبدالله عليه السالم وأنا أستمع حروفا من القرآن ليس عل ما يقرؤها
الناس ،فقال أبوعبدالله عليه السالم :كف عن هذه القراء ة اقرأ كام يقرأ الناس حتى يقوم
القائم فإذا قام القائم عليه السالم قرأ كتاب الله عزو جل عل حده وأخرج املصحف الذي
كتبه عل عليه السالم وقال :أخرجه عل عليه السالم إل الناس حي فرغ منه وكتبه فقال
لهم :هذا كتاب الله عزوجل كام أنزله [الله] عل محمد صل الله عليه وآله وقد جمعته من
اللوحي فقالوا :هو ذا عندنا مصحف جامع فيه القرآن ال حاجة لنا فيه ،فقال أما والله
.ما ترونه بعد يومكم هذا أبدا ،إمنا كان عل أن اخربكم حي جمعته لتقرؤوه
سامل بن سلمة نے کہا امام ابو عبد الله کے سامنے کِس شخص نے قرات کي اور ميں سن
رہا تھا قرآن کے وہ حروف تھے جو لوگ قرات نہيں کرتے پس امام ابو عبد الله نے فرمايا
اس قرات سے رک جاو ايسا ہي پڑھو جيسا لوگ پڑھتے ہيں يہاں تک کہ القائم کھڑے
ہوں گے تو کتاب الله کي قرات اس کي حد تک کريں گے اور وہ مصحف نکاليں گے جو
عل نے لکھا تھا اور کہا جب عل نے مصحف لکھ کر مکمل کيا اس سے فارغ ہوئے اس
کو لوگوں کے پاس الئے اور کہا يہ کتاب الله ہے جو اس نے محمد پر نازل کي اور اس کو
انہوں نے الواح ميں جمع کيا تو لوگوں نے کہا وہ جو مصحف ہامرے پاس ہے وہ جامع
ہے ہميں اس کي رضورت نہيں پس عل نے کہا الله کي قسم آج کے بعد اس کو کبھي نہ
ديکھو گے يہ مُيے پاس تھا اب جب تم جمع کر رہے ہو تو ميں نے خرب دي کہ اس کو
پڑھو
اس روايت کا راوي سامل شيعہ محققي کے نزديک مجہول ہے – الخويئ کتاب معجم رجال
الحديث ميں کہتے ہيں
:سامل بن سلمة
روى عن أب عبدالله عليه السالم ،وروى عنه عبدالرحامن بن أب
.هاشم .الكاف :الجزء ، 2كتاب فضل القرآن 3باب النوادر 13الحديث 23
ـ 22ـ
أقول كذا ف الواف والطبعة املعربة من الكاف ايضا ولكن ف الطبعة
القدمية واملرآة :سليم بن سلمة ،وال يبعد وقوع التحريف ف الكل والصحيح
.سامل أبوسلمة بقرينة الراوي واملروي عنه
سامل بن سلمة يہ ابو عبد الله سے روايت کرتا ہے اور اس سے عبدالرحامن بن أب
هاشم .الكاف :الجزء ، 2كتاب فضل القرآن 3باب النوادر 13الحديث 22اور 23ميں
ميں الخوئی کہتا ہوں ايسا ہي الواف ميں اور الکاف کي الطبعة املعربة ميں ہے ليکن جو
قديم طباعت ہے اس ميں ہے سليم بن سلمة اور يہ بعيد نہيں کہ يہ تحريف ہو الکل
ميں اور صحيح ہے کہ سامل ابو سلمہ ہے راوي اور مروي عنہ کے قرينہ سے
الخويئ نے اس راوي کو سامل بن سلمة ،أبو خديجة الرواجنى سے الگ کيا ہے جو طوِس کے
نزديک ثقہ ہے ليکن الخويئ کے نزديک مجہول ہے
سامل بن سلمة نام کے شخص کي يہ الکاف ميں واحد روايت ہے جس کا ترجمہ ہي کتب
رجال شيعہ ميں نہيں ہے
محمد بن يحيى ،عن أحمد بن محمد ،عن عل بن الحكم ،عن عبدالله بن فرقد واملعل بن
خنيس قاال :كنا عند أب عبدالله عليه السالم ومعنا ربيعة الرأي فذكرنا فضل القرآن فقال
أبوعبدالله عليه السالم :إن كان ابن مسعود ال يقرأ عل قراء تنا فهو ضال ،فقال ربيعة:
ضال؟ فقال :نعم ضال ،ثم قال أبوعبدالله عليه السالم :أما نحن فنقرأ عل قراء ة أب
ابو عبد الله نے کہا ان کے ساتھ (امام مالک کے استاد اہل سنت کے امام ) ربيعة الرأي
تھے پس قرآن کي فضيلت کا ذکر ہوا تو ابو عبد الله نے کہا اگر ابن مسعود نے بھي وہ
قرات نہيں کي جو ہم نے کي تو وہ گمراہ ہيں – ربيعة الرأي نے کہا گمراہ ؟ امام نے کہا
جہاں تک ہم ہيں تو ہم اب بن کعب کي قرات کرتے ہيں
حاشيہ ميں محقق کہتے ہيں
يدل عل أن قراء ة اىب بن كعب أصح القراء ات عندهم عليهم السالم
يہ دليل ہويئ کہ اب بن کعب کي قرات امام ابو عبد الله کے نزديک سب سے صحيح قرات
تھي
دورسا شخص عبدالله بن فرقد ہے اس پر بھي شيعہ کتب رجال ميں کويئ معلومات نہيں
ہيں
عدة من أصحابنا ،عن أحمد بن محمد ،عن عبدالله بن الحجال ،عن أحمد بن عمر الحلبي،
عن أب بصُي قال :دخلت عل أب عبدالله عليه السالم فقلت له :جعلت فداك إّن أسألك عن
مسألة ،ههنا أحد يسمع كالمي()1؟ قال :فرفع أبوعبد عليه السالم سَّتا بينه وبي بيت آخر
فأطلع فيه ثم قال :يا أبا محمد سل عام بدا لك ،قال :قلت :جعلت فداك إن شيعتك
يتحدثون أن رسول الله صل الله عليه وآله علم عليا عليه السالم بابا يفتح له منه ألف باب؟
قال :فقال :يا أبا محمد علم رسول الله صل الله عليه وآله عليا عليه السالم ألف باب يفتح
من كل باب ألف باب قال :قلت :هذا والله العلم قال :فنكت ساعة ف االرض ثم قال :إنه
لعلم وما هو بذاك.قال :ثم قال :يا أبا محمد وإن عندنا الجامعة وما يدريهم ما الجامعة؟
قال :قلت :جعلت فداك وما الجامعة؟ قال :صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله
صل الله عليه وآله وإمالئه( )2من فلق فيه وخط عل
بيمينه ،فيها كل حالل وحرام وكل شئ يحتاج الناس إليه حتى االرش ف الخدش ورضب بيده
إِل فقال :تأذن ِل( )3يا أبا محمد؟ قال :قلت :جعلت فداك إمنا أنا لك فاصنع ما شئت ،قال:
فغمزّن بيده وقال :حتى
.أرش هذا – كأنه مغضب – قال :قلت :هذا والله العلم( )4قال إنه لعلم وليس بذاك
ثم سكت ساعة ،ثم قال :وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر؟ قال قلت :وما الجفر؟ قال:
وعاء من أدم فيه علم النبيي والوصيي ،وعلم العلامء الذين مضوا من بني إرسائيل ،قال
قلت :إن هذا هو العلم ،قال :إنه
لعلم وليس بذاك.ثم سكت ساعة ثم قال :وإن عندنا ملصحف فاطمة عليها السالم وما
يدريهم ما مصحف فاطمة عليها السالم؟ قال :قلت :وما مصحف فاطمة عليها السالم؟ قال:
مصحف فيه مثل قرآنكم هذا ثالث مرات ،والله ما فيه
.من قرآنكم حرف واحد ،قال :قلت :هذا والله العلم قال :إنه لعلم وما هو بذاك
ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حارض ہو ا اور عر ض کی :
میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کیا یہا ں کوئی اور شخص تو موجود نہیں ہے جو
میری بات سن رہا ہو ؟ امام جعفر صادق نے اپنے کمرے اور دورسے کمرے میں پڑے
ہو ئے پر دہ کو اٹھا کر دیکھا اور پھر فرمایا ابو محمد متہیں جو کچھ پو چھنا ہو پو چھو
؛میں نے عر ض کی میں آپ پر قربان جا ُوں شیعہ ایک حد یث بیان کر تے ہے کہ پیغمرب
اکرم(ص) نے حرض ت علی کو ایک علم کے باب کی تعلیم دی جس سے علم کے ہزار باب
کھل گئے تھے پھر میں نے کہا خدا کی قسم کیا یه کامل اور
حقیقی علم ہے ،امام صادق کچھ دیر سو چتے رہے اور پھر فرمایا ! وہ علم ہے لیکن پھر
بھی وہ کامل علم نہیں ہے
پھر آپ نے فرمایا .ابو محمد ہام رے پاس جامعہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ جامعہ
کیا ہے ؟جواب میں آپ نے کہا :وہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا طو ل( ہاتھ کی ملبائی )
پیغمرب(ص) کے مطابق سَّت ہاتھ ملبا ہے رسول خدا نے اسے امال کیا ا ور حرض ت علی نے
اسے لکھا ،اس میں متام حالل و حرام اور لوگوں کی جملہ دینی رضوریات حتی کہ خراش
لگانے کے جرمانہ تک کا ذکر ہے ،پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے بدن پر مار کر فرمایا :ابو
محمد کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو ؟
میں نے کہا ؛ میں آپ ہی کا جزو ہوں آپ جو چاہیں انجام دیں آپ کو اس کا اختیار
حاصل ہے ،پھر آپ نے میرے جسم پر چٹکی کاٹی اور فرمایا کہ اس چٹکی کاٹنے کی
دیت اور جرمانہ بھی جامعہ میں موجود ہے .آپ نے یہ الفاظ کہے اور آپ اس وقت
غصے میں دکھائی دے رہے تھے ،میں نے کہا خدا کی قسم ! یہ کامل علم ہے۔ آپ نے
فرمایا ! یہ علم ہے لیکن پھر بھی یہ کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش
رہے اور فرمایا :ہامرے پاس جفر ہے لوگ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے ؟میں نے کہا کہ جفر
کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا :وہ چمڑے کا ایک مخزن ہے جس میں سابقہ انبیاء و اوصیاء اور علامئے
بنی ارسائیل کا علم ہے میں نے عرض کیا:یہ علم کامل ہے۔ آپ نے فرمایا ! یہ علم ہے
لیکن یہ بھی کا مل علم نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا :و ان
عندنا ملصحف فاطمہ علیہا السالم ؛
مصحف فاطمہ کیا ہے؟ آپِ ہام رے پاس مصحف فاطمہ ہے لیکن لوگوں کو کیا پتہ کہ
نے فرمایا وہ ایک ایسا مصحف ہے جو متہارے ہاتھوں میں مو جود قرآن مجید سے تین
گنا بڑ ا ہے خدا کی قسم اس میں متہا رے قرآن مجید کا ایک بھی حرف نہیں ہے ؛
میں نے عرض کیا ؛ کیا یه کامل علم ہے ؟آپ نے فر مایا ؛ یه بھی علم ہے لیکن کامل علم
نہیں ہے ،پھرآپ کچھ دیر تک خاموش رہے اور فرمایا ہام رے پاس گزشتہ اور قیا مت کے
دن تک آنے والے حاالت کا علم موجود ہے میں نے عرض کیا:یہ کامل علم ہے ؟ آ پ نے
فرمایا ؛ یہ بھی علم ہے لیکن کا مل علم نہیں ہے میں نے پو چھا کہ کامل علم کیا ہے؟
آپ نے فر مایا :علم کامل وہ علم ہے جو روزانہ دن رات میں ایک عنوان کے بعد دورس
ے عنوان اور ایک چیز کے بعد دورسی چیز کے بارے میں سامنے آتا رہتا ہے اور جو قیا
مت تک ظاہر ہوتا رہے گا
راقم کہتا ہے
اس کی سند میں عبدالله بن الحجال ہے جو مجہول ہے
راقم کہتا ہے اس کی سند میں الحسي ابن أىب العالء الخفاف أبو عل االعور یا الخصاف
أبو عل االعور ہے – اس کا ایک نام أبو العالء الحسي ابن أب العالء خالد بن طهامن
العامري بھی بیان کیا جاتا ہے اس کا ایک
نام الزندجي أبو عل بھی بیان کیا گیا ہے
راقم کہتا ہے یہ شخص مجہول ہے – التحرير الطاووىس کے مولف حسن صاحب املعامل
شیعہ عامل کا کہنا ہے
فيه نظر عندي لتهافت االقوال فيه
اس راوی پر نظر ہے اس کے بارے میں بے شامر (متخالف ) اقوال کی وجہ سے
یعنی اہل تشیع اس راوی کا تعین نہیں کر سکے ہیں اور تین نام کے مختلف قبائل کے
لوگوں کو مال کر ان کے علامء کا دعوی ہے کہ ایک شخص ہے – حقیقت یہ ہے کہ اس
کے بارے میں کوئی یقینی
قول نہیں کہ کون ہے
عل بن إبرإهيم ،عن محمد بن عيَس ،عن يونس ،عمن ذكره ،عن سليامن بن خالد قال:
قال أبوعبدالله عليه السالم :إن ف الجفر الذي يذكرونه( )1ملا يسوؤهم ،النهم ال يقولون
الحق( )2والحق فيه ،فليخرجوا
قضايا عل وفرائضه إن كانوا صادقي ،وسلوهم عن الخاالت والعامت( ،)3وليخرجوا مصحف
فاطمة عليها السالم ،فإن فيه وصية فاطمة عليها السالم ،ومعه( )4سالح رسول الله صل الله
عليه وآله :إن الله
عزوجل يقول ” :فأتوا بكتاب من قبل هذا أو أثارة من علم إن كنت صادقي
سليامن بن خالد نے کہا امام جعفر نے مصحف فاطمہ نکاال جس میں فاطمہ کی وصیت
تھی اور ان کے پاس رسول الله صلی الله علیہ و اله کا اسلحہ تھا
حامد بن عثامن نے کہا میں نے امام جعفر املتوفی ١٤٥ھ کو کہتے سنا الزنادقة سن ١٢٨
میں ظاہر ہوئے اور اس وقت میں مصحف فاطمہ دیکھ رہا تھا – میں نے پوچھا یہ کیا ہے
؟ فرمایا جب الله تعالی نے اپنے نبی کی روح قبض کی وہ فاطمہ کے گھر میں داخل
ہوئے اور وہاں رہے جس کو علم رصف اللہ کو ہے اس وقت اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا جو
ان کے غم کو دور کرے (علی کو اس پر خرب دیر سے ہوئی) اس پر علی نے شکوہ کیا اور
کہا اگر مجھے احساس ہوتا اور (فرشتے کی) آواز سن لی ہوتی تو میں اس علم کو جان
جاتا -پس علی نے وہ لکھا جو سنا (یعنی جو فرشتہ نے علم دیا
س کا آدھا پونا لکھا) اس کو مصحف میں ثبت کیا – امام جعفر نے کہا اس میں نہ رصف
حالل و حرام ہے بلکہ اس کا علم بھی ہے جو ہو گا
راقم کہتا ہےکہا جاتا ہے کہ سند میں حامد بن عثامن بن عمرو بن خالد الفزاري ہے – اس
کا سامع امام جعفر سے نہیں ہے کیونکہ بصائر الدرجات کے مطابق یہ حامد بن عثامن
اصل میں عمر بن يزيد کی سند سے
امام جعفر سے روایت کرتا ہے دوم سند میں عمر بن عبدالعزيز أبوحفص بن أب بشار
املعروف بزحل ہے قال النجاَش انه مختلط
الفضل بن شاذان کا کہنا ہے أبو حفص يروى املناكُي
معلوم ہوا سند ضعیف ہے انقطاع بھی ہے
الغرض علی رضی الله عنہ کےپاس کوئی الگ علم خواص نہ تھا جو اور اصحاب رسول کو
معلوم نہ ہو اور نہ ہی کوئی الگ قرآن تھا بلکہ اس کی متام خربیں غالیوں کی بیان کردہ
ہیں جو مجہول و غیر معروف یا مختلط یا ضعیف راوی ہیں
احتالف قرات
ْ
الله تعالی کتاب الله میں کہتے ہیں
کچھ افاک اثیم اس امت میں ایسے گزرے جو شوم نصیبی کے چکر میں ایسے الجھے کہ کتاب
الله کو پڑھتے تھے لیکن دل میں سے سالخ کی طرح گزرتی تھی – ان کا دل مانتا نہ تھا کہ عرب
کے بدوؤں پر رحمت الہی متوجہ ہوئی اور کوئی چیز عرش سے یہاں لق و دق صحرا میں اتری
بھی – لھذا ان خالی خولوں میں ایک شاطر شیخ (ابلیس) کا کنڑول ہوا اور نوک قلم سے
ان بیامر اذہان کا غبار صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا -مدعآ یہ تھا کہ قرآن اصلی حالت میں نہیں
لہذا بس روایات دیکھیں اور فرما دیا کہ قرآن بدل گیا لیکن اس میں جو تبدیلی بتائی اس سے نہ
معنوں میں کوئی قرق پڑا نہ اس کی حکت بالغہ میں کوئی کمی آئی
قارئین کے لئے ان کے اس قسم کے التباس ذہنی کے کچھ منونے پیش خدمت ہیں
الرض ِر َوا ْل ُم َج ِاهدُو َن ِف َسبِي ِل اللَّـ ِه الَّ ي َ ْستَوِي ا ْلقَا ِعدُو َن ِم َن ا ْل ُم ْؤ ِم ِن َي غ َُْي ُ ُأ ِ
وِل َّ َ
لیکن اوپر روایت بعض نسخوں میں یہ آیت آگے پیچھے ہے -اس سے بعض کو بہانہ ہاتھ آ گیا
کہ قرآن میں آیات صحیح طور رقم نہیں ہوئیں
یہاں روایت میں آیت اسی طرح ہے جیسی ہم تالوت کرتے ہیں –اس کا مطلب ہے کہ آیت میں
تقدم و تاخیر اصل میں راوی إرسائيل بن يونس بن أىب إسحاق السبيعى سے ہوئی ہے شعبہ کی
سند میں نہیں ہے
ابو سعید الخدری ،ابو ہریرہ کی قرات میں الله الواحد الصمد؟
راویان حدیث جب روایت لکھتے تو اس میں بعض اوقات الفاظ اپنی پسند کے بھی لکھ دیتے
تھے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اضطراب بھی بعض اوقات ہو جاتا ہے اس بات سے ال
علم بعض شیعوں اور انکے ہم نوا ملحدین نے مسئلہ اختالف قرات سے جوڑنے کی کوشش کی
ابو سعید الخدری کی قرات
بخاری کی روایت ہے
َرشقِ ُّيَ ،ع ْن أَ ِب َس ِعيد َح َّدثَنَا ُع َم ُر بْ ُن َحفْصَ ،ح َّدثَنَا أَ ِبَ ،ح َّدثَنَا األَ ْع َم ُشَ ،ح َّدثَنَا إِبْ َرا ِهي ُمَ ،والضَّ َّح ُاك امل ْ ِ
ض اللَّ ُه َعنْهُ ،ق ََال :ق ََال النَّب ُِّي َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ِألَ ْص َحابِ ِه« :أَيَ ْع ِج ُز أَ َح ُدكُ ْم أ ْن يَ ْق َرأ ث لُثَ
ُ َ َ ال ُخ ْد ِر ِّي َر ِ َ
ِ
ول اللَّ ِه؟ فَق ََال« :اللَّ ُه ال َواح ُد َّ
الص َم ُد يق ذَلِ َك يَا َر ُس َ َ
ال ُق ْرآنِ ِف لَيْلَة؟» فَشَ َّق ذَلِ َك َعلَيْ ِه ْم َوقَالُوا :أيُّنَا يُ ِط ُ
»ث ُلُثُ ال ُق ْرآنِ
َرشقِ ُّي نے وہ ابو سعید الخدری رضی األَ ْع َم ُش کہتے ہیں ہم سے روایت کیا إِبْ َرا ِهي ُم اور َالضَّ َّح ُاك امل ْ ِ
الله عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا کیا تم میں سے
کسی کو ہمت ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن کی قرات کر لے؟ پس یہ صحابہ پر سخت گذرا اور
الله الواحد الصمد ایک انہوں نے کہا اے رسول الله ہم میں کون ایسا کر سکتا ہے آپ نے فرمایا
تہائی قرآن ہے
مسند ابو یعلی کی روایت ہے
َح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن ِإ ْس َام ِع َيل بْنِ أَ ِب َس ِمينَةََ ،ح َّدثَنَا أَبُو خَالِد األْ َ ْح َم ُرَ ،عنِ األْ َ ْع َم ِشَ ،عنِ الضَّ َّح ِ
اك
ق ُْل ُه َو ال َّل ُه َأ َحد ،تَ ْع ِد ُل ث ُلُثَ « :الْ َم ْ ِ
رشقِ ِّيَ ،ع ْن أَ ِب َس ِعيد الْ ُخ ْد ِر ِّيَ ،عنِ ال َّنب ِِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ق ََال
»الْ ُق ْرآنِ
َرشقِ ُّي نے وہ ابو سعید الخدری رضی الله عنہ األَ ْع َم ُش کہتے ہیں ہم سے روایت کیا ََالضَّ َّح ُاك امل ْ ِ
سے روایت کرتے ہیں ابو سعید الخدری سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہو قل ھو
الله احد یہ ایک تہائی قرآن ہے
یعنی ایک ہی سند ہے لیکن األَ ْع َم ُش سے اوپر راوی نے اس کو الگ الگ طرح روایت کیا جس کی
وجہ سے بعض کو ابہام ہوا کہ آیات کسی اور طرح نازل ہوئی تھیں
ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کی قرات میں قل ھو الله احد ہی تھا اس کی مثال موطا امام
مالک کی روایت ہے
أَخ َ َْربنَا َمالِك ،أَخ َ َْربنَا َع ْب ُد ال َّر ْح َمنِ بْ ُن َع ْب ِد اللَّ ِه بْنِ أَ ِب َص ْع َص َعةََ ،ع ْن أَبِي ِه ،أَنَّ ُه أَخ َ َْربهُ َ ,ع ْن أَ ِب َس ِعيد
ق ُْل ُه َو ال َّل ُه َأ َحد يُ َر ِّد ُدهَا ،فَل ََّام أَ ْص َب َح َحدَّثَ ال َّنب َِّي َص َّل اللَّ ُه :الْ ُخ ْد ِر ِّي ” ،أَنَّ ُه َس ِم َع َر ُجال ِم َن اللَّ ْي ِل يَ ْق َرأُ
َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم كَأَ َّن ال َّر ُج َل يُ َقلِّلُ َها ،فَق ََال النَّب ُِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َمَ :والَّ ِذي نَف ِِْس بِيَد َِه ِإنَّ َها لَتَ ْع ِد ُل ث ُلُثَ
“ الْ ُق ْرآنِ
ابو سعید الخدری رضی الله عنہ کہتے ہیں انہوں نے ایک شخص کو سنا جو رات کو قرات کرتا قل
ھو الله احد … .رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک تہائی قرآن ہے
ان دالئل کی روشنی میں واضح ہے کہ ابو سعید الخدری کی قرات وہی تھی جو آج ہم کرتے ہیں
َح َّدثَنَا َعفَّانَُ ،ح َّدثَنَا أَبُو َع َوانَةََ ،ع ْن ُع َم َر بْنِ أَ ِب َسلَ َمةََ ،ع ْن أَبِي ِهَ ،ع ْن أَ ِب ُه َريْ َرةَ ،ق ََال :ق ََال َر ُس ُ
ول ال َّل ِه
َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ” :الَ يَ َزالُو َن يَ ْسأَلُو َن َح َّتى يُق َُالَ :هذَا اللَّ ُه َخلَ َق َنا ،فَ َم ْن َخل ََق اللَّ َه َع َّز َو َج َّل؟ ”
ق ََال :فَق ََال أَبُو ُه َريْ َرةَ ” :فَ َواللَّ ِه ،إِ ِّّن لَ َجالِس يَ ْو ًما إِذْ ق ََال ِِل َر ُجل ِم ْن أَ ْه ِل الْ ِع َراقِ َ :هذَا اللَّ ُه َخلَ َقنَا ،فَ َم ْن
َخل ََق اللَّ َه َع َّز َو َج َّل؟ ق ََال أَبُو ُه َريْ َرةَ :فَ َج َعلْتُ أُ ْصبُ َع َّي ِف أُذ َ َُّّن ،ث ُ َّم ِص ْحتُ ،فَ ُقلْتُ َ :صدَقَ اللَّ ُه
الص َم ُد ،لَ ْم يَلِ ْد َولَ ْم يُولَ ْد َولَ ْم يَكُ ْن لَ ُه كُ ُف ًوا أَ َحد
َو َر ُسولُهُ ،ال َّل ُه ا ْل َو ِاح ُد َّ
ُع َم َر بْنِ أَ ِب َسلَ َم َة اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے کہ … .اہل عراق
میں سے ایک شخص آیا اور کہنے لگا یہ الله ہے جس نے ہم کو خلق کیا ہے تو اسکو کس نے
خلق کیا ؟ ابو ہریرہ نے کہا ….میں نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سچ کہا الله الواحد
الصمد لَ ْم يَلِ ْد َولَ ْم يُولَ ْد َولَ ْم يَكُ ْن لَ ُه كُ ُف ًوا أَ َحد
اس کی سند میں عمر بن أب سلمة بن عبد الرحمن الزهري ہے جس کو ليس بالقوي قوی نہیں
النسايئ نے کہا اور ابن معي نے تضعیف کی ہے
َح َّدث َ َنا َع ْب ُد ال َّر ْح َمنِ بْ ُن َصالِح ْاألَ ْز ِد ُّيَ ،ح َّدث َ َنا َع ْب ُد ال َّر ِحيمِ َ ،ح َّدث َ َنا يَزِي ُد بْ ُن كَ ْي َسانََ ،ع ْن أَ ِب َحازِمَ ،ع ْن
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم« :ا ْح ِشدُوا فَإِ ِّّن َسأَقْ َرأُ َعلَيْكُ ْم ث ُلُثَ الْ ُق ْرآنِ »، أَ ِب ُه َريْ َر َة ق ََال :ق ََال َر ُس ُ
َ َ
[اْلخالصَ ،]1 :حتَّى َختَ َم َها ،ث ُ َّم َدخ ََل فَق ََال بَعْضُ نَا :قَ ْد كَا َن }ق ُْل ُه َو ال َّل ُه أ َحد{ فَ َحشَ دُوا فَ َق َرأ َعلَيْنَا
«سأَقْ َرأُ َعلَيْكُ ْم ث ُلُثَ الْ ُق ْرآنِ » َولَ ْم يَ ْق َرأْ َما َهذَا ِإالَّ لِخ ََرب َجا َءهُ ِم َن النَّب ُِّي َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ق ََالَ :
»الس َام ِء ،ق ََال :ث ُ َّم َخ َر َج إِلَ ْينَا فَق ََالِ « :إنَّ َها ث ُلُثُ الْ ُق ْرآنِ
َّ
الغرض قل ھو الله احد کو عام بول چال میں الله الواحد الصمد کہا جا رہا تھا جیسے آج ہم کہتے
ہیں قل پڑھنا یا فاتحہ پڑھنا محدثین کے دور میں چونکہ سورتوں کے نام نہیں تھے لہذا سورت
کو چھوٹا کر کے بیان کر دیا جاتا تھا
ِيب بْنِ أَ ِب ث َابِتَ ،ع ْن َس ِعي ِد بْنِ ُجبَ ُْيَ ،عنِ َح َّدثَنَا َص َدقَ ُة بْ ُن الفَضْ لِ ،أَخ َ َْربنَا يَ ْحيَىَ ،ع ْن ُس ْفيَانََ ،ع ْن َحب ِ
ُول« :أَ َخ ْذتُ ُه ِم ْن ِف َر ُسو ِل اللَّ ِه ابْنِ َع َّباس ،ق ََال :ق ََال ُع َم ُر :أُ َب أَقْ َر ُؤنَاَ ،و ِإنَّا لَنَ َد ُع ِم ْن لَ َحنِ أُ َبَ ،وأُ َب يَق ُ
ِشء» ،ق ََال اللَّ ُه تَ َع َالَ { :ما نَ ْن َس ْخ ِم ْن آيَة أَ ْو نُ ْن ِس َها نَأْ ِت بِخ َُْي ِم ْن َها أَ ْو َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم فَالَ أَتْ ُركُ ُه لِ َ ْ
] ِمثْلِ َها} [البقرة106 :
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ،کہا ہم کو یحیی بن سعید قطان نے خرب دی ،انہیں سفیان
ثوری نے ،انہیں حبیب بن ابی ثابت نے ،انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی
اللہ عنہام نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ،ابی بن کعب ہامرے قاری ہیں اور بے
شک ہم لحن ابی (تلفظ) پر جاتے ہیں اور ابی کہتے ہیں کہ میں نے تو اس قرات کو رسول الله
صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا ہے ،میں اس میں سے کوئی چیز چھوڑنے واال نہیں اور (جبکہ) اللہ
نے خود فرمایا ہے کہ ماننسخ من آیۃ اوننسھا اْلیۃ یعنی ہم جب کسی آیت کو منسوخ کر دیتے
ہیں پھر یا تو اسے بھال دیتے ہیں یا اس سے بہَّت التے ہیں۔
اس روایت کا غلط ترجمہ آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں
/page-90صحیح-بخاریhttp://www.urdumajlis.net/threads/26533.
جس میں ہے کہ
لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں (وہ بعض منسوخ التالوۃ آیتوں کو
بھی پڑھتے ہیں) اور کہتے ہیں
– حاالنکہ روایت میں یہ الفاظ ابی جہاں غلطی کرتے ہیں رسے سے ہیں ہی نہیں
عربی لغت مجمع بحار األنوار ف غرائب التنزيل ولطائف األخبار از جامل الدين ،محمد طاهر بن
عل الصديقي الهندي ال َفتَّ ِني الكجراِت (املتوىف986 :هـ) کے مطابق الفاظ
بخاری حدیث َ ٤٤٨١ح َّدث َنا َع ْم ُرو بْ ُن َع ِلَ ،ح َّدثَنَا يَ ْح َيىَ ،ح َّدثَنَا ُس ْف َيانَُ ،ع ْن َحبِيبَ ،ع ْن َس ِعي ِد بْنِ
ض اللَّ ُه َع ْنهُ ” :أَقْ َر ُؤنَا أُ َبَ ،وأَقْضَ انَا َع ِلَ ،و ِإنَّا لَ َن َد ُع ِم ْن قَ ْو ِل أُ َب، ُج َب ُْيَ ،عنِ ابْنِ َع َّباس ،ق ََال :ق ََال ُع َم ُر َر ِ َ
ُول :الَ أَ َد ُع شَ يْئًا َس ِم ْعتُ ُه م ْن َر ُسو ِل اللَّه َص َّل الل ُه َعلَيْه َو َسلَّ َم “َ .وقَ ْد ق ََال اللَّ ُه تَ َع َال:
ِ ِ ِ َوذ ََاك أَ َّن أُبَيىا يَق ُ
{ َما نَنْ َس ْخ ِم ْن آيَة أَ ْو نُنْ ِس َها}
ابن عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں عمر رضی الله عنہ نے کہا ابی بن کعب ہامرے لئے قرات
کرتے ہیں اور علی ہامرے قاضی کے فیصلے کرتے ہیں اور ہم بال شبہ ان ابی بن کعب کے قول
(لحن) پر جاتے ہیں اور یہ ابی بن کعب کہتے ہیں میں کسی چیز کو نہیں چھوڑ سکتا جو
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو ،جبکہ الله نے کہا ہم نے جو آیت بھی منسوخ کی
یا اسے بھالیا تو پھر اس سے اچھی آیت الئے۔
یعنی باوجود اس کے کہ ابی بن کعب منسوخ قرات بھی کرتے ہیں ہم انہی کی قرات لیتے ہیں
اور اسکی دلیل ہے کہ
عمر رضی الله عنہ نے رمضان میں مناز الَّتآویح کے لئے مسلامنوں کو مسجد النبی میں ابی بن
کعب رضی الله عنہ کی قرات پر جمع کیا بخاری ہی کی حدیث ہے فَ َج َم َع ُه ْم َع َل أُ َ ِّب بْنِ كَ ْعب،
ان سب پر ابی بن کعب کو (امام) کیا
اس پر مزید یہ کہ عثامن رضی الله عنہ کے دور میں بھی جمع القرآن کی کمیٹی میں ابی بن
کعب شامل تھے اس کا مطلب ہے کہ وہ منسوخ آیات بھی ہم قرات کرتے ہیں جن کے لئے عمر
رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ انکو چھوڑ سکتے ہیں
عبد الله ابن مسعود کا اختالف
مسند احمد کی روایت ہے
رسائِ ُيل َع ْن أَ ِب ِإ ْس َحاقَ َع ْن ُخ َم ْ ُِي ب ْ ِن َما ِلك ق ََال أُ ِم َر بِالْ َم َصا ِح ِف أَ ْن تُغ َّ ََُي َح َّدثَنَا أَ ْس َو ُد بْ ُن َعا ِمر أَخ َ َْربنَا إِ ْ َ
ق ََال ق ََال ابْ ُن َم ْس ُعود َم ْن ْاستَطَا َع ِمنْكُ ْم أَ ْن يَغ َُّل ُم ْص َح َف ُه فَلْيَ ُغلَّ ُه فَإِ َّن َم ْن غ ََّل شَ يْئًا َجا َء بِ ِه يَ ْو َم الْ ِقيَا َمةِ
ي ُسو َر ًة أَفَأَتْ ُر ُك َما أَ َخذْتُ ِم ْن ِف َر ُسو ِل ق ََال ث ُ َّم ق ََال قَ َرأْتُ ِم ْن فَمِ َر ُسو ِل اللَّ ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم َسبْ ِع َ
اللَّ ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم
خمُي بن مالک کہتے ہيں کہ حکم ہوا کہ مصاحف قرآّن کو بدل ديا جائے – ابن مسعود رض اللہ
عنہ نے کہا تم ميں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو ،چھپالے ،کيونکہ جو شخص جو چيز
چھپائے گا ،قيامت کے دن اس کے ساتھ ہي آئے گا ،پھر فرمايا کہ ميں نے نبي (صل اللہ عليہ
وسلم) کے دہن مبارک سے سَّت سورتيں پڑھي ہيں ،کيا ميں ان چيزوں کو چھوڑ دوں ،جو ميں نے
رسول الله (صل اللہ عليہ وسلم) سے حاصل کي ہيں
مسند ابو داود طیالسی میں ہے عبد الله ابن مسعود نے یہ بھی کہا
ان متام کی سند میں خمُي بن مالك کا تفرد ہے ابن أب حاتم کی کتاب الجرح والتعديل ،391/3کے
– مطابق یہ کوفی ہے حمصی نہیں ہے
اس خمُي بن مالك نام کے دو راوی ہیں ایک کوفی ہے اور ایک شامی ہے -کوفی سے رصف ابی
اسحاق روایت کرتا ہے اور ابن مسعود بھی کوفہ میں تھے دورسا شامی ہے جس سے رصف َعبد
الل ِه بْن ِع َ
يَس روایت کرتا ہے بعض لوگوں کو اس میں اشتباہ ہوا اور انہوں نے اس کو شامی
سمجھ کر روایت کو صحیح سمجھا -اصال یہ خمُي بن مالك کوفی ہے
اس کی وضاحت کتاب تجريد األسامء والكنى املذكورة ف كتاب املتفق واملفَّتق للخطيب البغدادي
از القاض أَ ِب يَ ْع َل البغدادي ،الحنبل (املتوىف580 :هـ) میں موجود ہے
خمُي بن مالك کوفی مجھول ہے جس کا اتا پتا نہیں کون ہے لہذا روایت ضعیف ہے
مسند احمد میں ہے
حدثنا عفان حدثنا عبد الواحد حدثنا سليامن األعمش عن شَ ِقيق بن َسلَمة قال :خطَ َب َنا عب ُد الله بن
مسعود فقال :لقد أخذتُ من ف رسول الله – صل الله عليه وسلم – بضعاً وسبعي سورة ،وزيد بن
يلعب مع ال ِغلْامن
ثابت غالم له ذؤابتانُ ،
شَ ِقيق بن َسلَمة کہتے ہیں عبد الله ابن مسعود نے خطبہ دیا بالشبہ میں نے رسول الله سے سَّت
کے قریب سوره لیں اور زید بن ثابت تو لڑکا تھا جس کے (رس پر) دو (بالوں کے) لچھے تھے
لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا
یعنی زید بن ثابت کے رس کے بال تک صحیح طرح نہیں نکلے تھے جب ابن مسعود مدینہ میں
انکو دیکھتے تھے
اسکی سند میں َعبْ ُد الْ َوا ِح ِد بْ ُن ِزيَاد ہے جو مظبوط راوی نہیں ہے تهذيب التهذيب ج -434 /6
435کے مطابق اس پر يحيى القطان نے کالم کیا ہے
وقال صالح بن احمد عن عل بن املديني :سمعت يحي بن سعيد يقول :ما رأيت عبد الواحد بن
زياد يطلب حديثاً قط بالبرصة وال بالكوفة ،وكنا نجلس عل بابه يوم الجمعة بعد الصالة أذاكره
حديث األعمش فال نعرف منه حرفاً
صالح بن احمد عن عل بن املديني کہتے ہیں میں نے یحیی کو سنا انہوں نے کہا میں نے کبھی
بھی عبد الواحد کو برصہ یا کوفہ میں حدیث طلب کرتے نہ دیکھا اور ہم جمعہ کے بعد
دروازے پر بیٹھے تھے کہ اس نے االعمش کی حدیث ذکر کی جس کا ایک حرف بھی ہمیں پتہ
نہ تھا
زید بن ثابت انصاری رضی الله عنہ ہجرت سے ١٢سال قبل پیدا ہوے – ابن مسعود رضی الله
عنہ حبشہ ہجرت کر گئے اور وہاں سے جنگ بدر سے پہلے مدینہ پہنچے تو اس وقت تک زید
بن ثابت ١٣یا ١٤سال کے تھے جو اسالم میں لڑکوں کی بلوغت کی عمر ہے ظاہر ١٣یا ١٤
سال کے لڑکے کے رس پر بالوں کے دو لچھے نہیں ہوتے نہ وہ بچہ سمجھا جاتا ہے
ترمذی ح ٣١٠٤میں ہے
ق ََال ال ُّز ْه ِر ُّي :فَأَخ َ َْرب ِّن ُع َب ْي ُد اللَّ ِه بْ ُن َع ْب ِد اللَّ ِه بْنِ ُع ْت َبةَ ،أَ َّن َع ْب َد اللَّ ِه بْ َن َم ْس ُعود ،كَرِهَ لِ َزيْ ِد بْنِ ث َابِت
ن َْس َخ امل ََصا ِح ِف … َواللَّ ِه لَ َق ْد أَ ْسلَ ْمتُ َو ِإنَّ ُه لَ ِفي ُصل ِْب َر ُجل كَا ِفر يُرِي ُد زيد بن ث َابت
امام زہری نے کہا ُعبَيْ ُد اللَّ ِه بْ ُن َعبْ ِد اللَّ ِه بْنِ ُعتْبَ َة نے کہا کہ عبد الله ابن مسعود زید بن ثابت سے
کراہت کرتے کہ مصاحف مٹا دیے گئے … اور الله کی قسم میں ایامن الیا جب یہ زید تو ایک
کافر کے صلب میں تھا
لیکن مصاحف تلف کرنا عثامن رضی الله عنہ خلیفہ وقت کا حکم تھا نہ کہ زید رضی الله عنہ
کا -سندا یہ بات منقطع ہے
عبيد الله بن عبد الله بن عتبة کا سامع عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں ہے
حدثنا عمر بن حفص ،حدثنا أب ،حدثنا األعمش ،حدثنا شقيق بن سلمة ،قال خطبنا عبد الله فقال
والله لقد أخذت من ف رسول الله صل الله عليه وسلم بضعا وسبعي سورة ،والله لقد علم أصحاب
النبي صل الله عليه وسلم أّن من أعلمهم بكتاب الله وما أنا بخُيهم .قال شقيق فجلست ف الحلق
.أسمع ما يقولون فام سمعت رادا يقول غُي ذلك
ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا ،کہا ہم سے ہامرے والد نے بیان کیا ،ان سے اعمش نے بیان
کیا ،ان سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہام نے ہمیں خطبہ
دیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ اوپر سَّت سورتیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی زبان مبارک سے سن کر حاصل کی ہیں۔ اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
صحابہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ان سب سے زیادہ قرآن مجید کا جاننے واال ہوں
حاالنکہ میں ان سے بہَّت نہیں ہوں۔ شقیق نے بیان کیا کہ پھر میں مجلس میں بیٹھا تاکہ صحابہ
کی رائے سن سکوں کہ وہ کیا کہتے ہیں لیکن میں نے کسی سے اس بات کی تردید نہیں سنی۔
یہ روایت صحیح کی ہے اس میں وہ طنزیہ جملے نہیں جو زید بن ثابت رضی الله عنہ کے لئے
راویوں نے نقل کیے ہیں نہ اس میں قرآن کے مصاحف چھپانے کا ذکر ہے
سوره اللیل کی قرات
ُ َّ ُ َّ
سوره اللیل میں َو الذكَ ِر َواألْ نثَى ہے یا َو ما خلق الذكَ ِر َواألْ نثَى ہے؟
بعض احادیث میں بیان ہوا ہے کہ علقمہ شام گئے وہاں ابو الدرداء رضی الله عنہ سے مالقات
ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ ابن مسعود کی قرات سناو پھر کہا سوره و اللیل سناو
كَيْ َف كَا َن يَ ْق َرأَُ { :واللَّيْ ِل إِذَا يَغ ََْش} [الليل ]1 :؟» ،قُلْتُ َواللَّيْ ِل إِذَا يَغ ََْش َوالنَّ َها ِر إِذَا تَ َج َّل َوال َّذكَ ِر
َواألْ ُنْثَى
انہوں نے اس طرح پڑھا تو ابو الدرداء نے کہا واللہ میں نے بھی ایسا ہی رسول الله صلی الله
علیہ وسلم سے سنا تھا
ُم ِغ َُيةََ ،ع ْن إِبْ َرا ِهي َمَ ،ع ْن َعلْ َق َم َة کی سند سے مسند احمد ،صحیح بخاری ،میں ہے
األْ َ ْع َم ُشَ ،ع ْن إِبْ َرا ِهي َمَ ،ع ْن َعلْ َق َم َة کی سند سے مسند احمد ،ترمذی ،صحیح بخاری میں ہے
إس میں إبراهيم بن يزيد النخعي کآ تفرد ہے – إبراهيم بن يزيد النخعي كا سامع محدثي کے
نزدیک اصحاب عبد الله سے ہے لیکن بعض اوقات یہ تدلیس بھی کرتے ہیں جن میں وہ روایات
بھی بیان کرتے ہیں جو اصحاب عبد الله سے نہیں سنی ہوتیں
کتاب موسوعة املعلمي اليامّن وأثره ف علم الحديث املسامة از عبد الرحمن بن يحي املعلمي
اليامّن کے مطابق
وإبراهيم أيضً ا يُدخل بينه وبي أصحاب عبد الله مثل :هُني بن نُويرة ،وسهم بن منجاب ،وخزامة
الطايئ ،ورمبا دلس عنهم
إبراهيم بن يزيد النخعي اپنے اور اصحاب عبد الله کے درمیان راوی مثال هُني بن نُويرة ،وسهم بن
منجاب ،وخزامة الطايئ ڈالتے ہیں اور یہ تدلیس بھی کرتے تھے
کتاب خالصة تذهيب تهذيب الكامل ف أسامء الرجال از أحمد بن عبد الله بن أب الخُي بن عبد
العليم الخزرجي األنصاري الساعدي اليمني ،صفي الدين (املتوىف :بعد 923هـ) کے مطابق
إِبْ َرا ِهيم بن يزِيد بن قيس بن األْ سود النَّخ ِعي أَبُو عم َران الْك ِ
ُوف الْ َف ِقيه يُ ْرسل كثُيا َعن َعلْ َق َمة
راقم کے خیال میں شیخین سے یہاں تسامح ہوا اور یہ روایت صحیحین میں لکھ دی جبکہ یہ
منقطع تھی
یہ بات داود بْنِ أَ ِب ِهنْد َعنِ الشَّ ْعب ِِّيَ ،ع ْن َعلْ َق َم َة کی سند سے مسند احمد ،صحیح مسلم میں ہے
أبو بكر ابن األنباري (تفسیر قرطبی) أبو بكر ابن العرب (أحكام القرآن) ،أبو حيان (البحر) میں اس
قرات کو شاذ کہا گیا ہے
هشام بن عامر اور ابن ذکوان کی سند سے جو قرات ملی ہے جس کی سند ابو الدرداء تک جاتی
ہے نہ اس میں یہ قرات ہے نہ ابن مسعود کی کسی قرات میں یہ ہے تو یہ بات کیسے ثابت
کہی جا سکتی ہے
https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=souraview&qid=776&rid=26
https://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=audioinfo&audioid=91047
ف جوامع الجامع وف قراءة النبي صل الله عليه وآله وعل عليه السالم وابن عباس ” والذكر واألنثى
” – 7 .ف مجمع البيان ف الشواذ قراءة النبي صل الله عليه وآله وقراءة عل بن أب طالب عليه
السالم ” والنهار إذا تجل وخلق الذكر واألنثى ” بغُي ” ما ” روى ذلك عن أب عبد الله عليه السالم .
– 8ف كتاب املناقب البن شهرآشوب الباقر عليه السالم ف قوله ” :وما خلق الذكر واألنثى ” فالذكر
أمُي املؤمني واألنثى فاطمة عليهام السالم ان سعيكم لشتى ملختلف فأما من اعطى واتقى وصدق
بالحسنى بقوته وصام حتى وىف بنذره وتصدق بخامته وهو راكع ،وآثر املقداد بالدينار عل نفسه ،
قال ” :وصدق بالحسنى ” وهي الجنة والثواب من الله بنفسه فسنيسه لذلك بأن جعله إماما ف
.القرب وقدوة باألمئة يسه الله لليسى
اور جوامع الجامع میں ہے اور نبی صلی الله علیہ و الہ اور علی علیہ السالم اور ابن عباس کی
قرات میں ہے والذكر واألنثى – اور مجمع البيان ف الشواذ قراءة النبي صل الله عليه وآله وقراءة
عل بن أب طالب عليه السالم میں ہے والنهار إذا تجل وخلق الذكر واألنثى ،لفظ ما کے بغیر یہ
امام ابی عبد الله سے روایت کیا گیا ہے اور کتاب املناقب البن شهرآشوب میں امام باقر کا قول ہے
وما خلق الذكر واألنثى پس اس میں الذکر (مرد) امیر املومنین ہیں اور واألنثى فاطمہ عليهام
السالم ہیں
یعنی اہل تشیع کی روایات کے مطابق قرات میں وخلق الذكر واألنثى تھا دورسی روایت کے
مطابق والذكر واألنثى تھا اور تیسی کے مطابق وما خلق الذكر واألنثى تھا
صحابہ کی ترشیحات
دور صحابہ میں تفسیر کی کتب اور مصاحف الگ الگ نہیں تھے بلکہ ترشیحی و تفسیری آراء
کو مصحف میں ہی لکھا جا رہا تھا اور اس میں اختالف بھی ہو سکتا ہے – اسی طرح کی کچھ
روایات ہیں جن سے بعض کو اشتباہ ہوا کہ گویا یہ اضافی ترشیحی الفاظ قرات کا حصہ ہیں مثال
ف مواسم الحج
صحيح بخاري ميں ہے
َح َّدث َ َنا َع ْب ُد اللَّ ِه بْ ُن ُم َح َّمدَ ،ح َّدث َ َنا ُس ْف َيانَُ ،ع ْن َع ْمروَ ،عنِ ابْنِ َع َّباس َر ِ َ
ض اللَّ ُه َع ْن ُه َام ،ق ََال ” :كَانَتْ
ُعكَاظَ ،و َم َجنَّةَُ ،وذُو امل َ َجازِ ،أَ ْس َواقًا ِف ال َجا ِهلِيَّ ِة ،فَل ََّام كَا َن اْل ِْس َال ُم ،فَكَأَنَّ ُه ْم تَأ ُوا فيه ،فَنَ َزلَتْ { :لَيْ َس
ِ ِ َثََّ
َعلَيْكُ ْم ُجنَاح أَ ْن تَبْتَغُوا فَضْ ًال ِم ْن َربِّكُ ْم} [البقرةِ ]198 :ف َم َو ِاسمِ ال َح ِّج ” قَ َرأَهَا ابْ ُن َعبَّاس
ابن عباس رضی الله عنہ نے قرآن کی آیت لَ ْي َس َعلَ ْيكُ ْم ُجنَاح أَ ْن تَ ْبتَغُوا فَضْ ًال ِم ْن َربِّكُ ْم پڑھی تو اس
کے بعد فی مواسم الحج بھی پڑھا
سنن ابو داود میں راوی ُعبيد بن ُع َمُي کہتا ہے یہ قرات تھی
ش َعيب األرنؤوط سنن ابو داود کی روایت کے الفاظ پر تعلیق میں لکھتے ہیں
وهذا إسناد ضعيف .عبيد بن عمُي :هو مول ابن عباس فيام قاله أحمد بن صالح املرصي الحافظ،
وأيده املزي ف ترجمة عبيد بن عمُي مول ابن عباس من “تهذيب الكامل” ،227 – 226 /19ألن ابن
أب ذئب – وهو محمد بن عبد الرحمن بن املغُية العامري – يقول ف آخر الحديث“ :فحدثني عبيد
بن عمُي” ،ومل يدرك ابن أب ذئب عبي َد بن عمُي الليثي الثقة .وعبيد بن عمُي مول ابن عباس مجهول
اس کی اسناد ضعیف ہیں عبيد بن عمُي … مجھول ہے
عبيد بن عمُي [د] .عن ابن عباس .ال يعرف .تفرد عنه ابن أب ذئب
عبيد بن عمُي ،ابن عباس سے روایت کرتا ہے میں نہیں جانتا اس سے روایت کرنے میں ابن أب
ذئب کا تفرد ہے
کتاب تجريد األسامء والكنى املذكورة ف كتاب املتفق واملفَّتق للخطيب البغدادي از القاض أَ ِب
يَ ْع َل البغدادي (املتوىف580 :هـ) کہتے ہیں
قال عبد الله بن سليامن :ليس هذا عبيد بن عمُي الليثي ،هذا عبيد بن عمُي مول أم الفضل ،ويقال:
مول ابن عباس
عبد الله بن سلیامن نے کہا یہ عبيد بن عمُي الليثي نہیں ہے یہ عبيد بن عمُي أم الفضل اور کہا
جاتا ہے مول ابن عباس ہے
{ َوكَا َن َو َرا َء ُه ْم} [الكهفَ ]79 :وكَا َن أَ َما َم ُه ْم – قَ َرأَهَا ابْ ُن َعبَّاس :أَ َما َم ُه ْم َملِك
اور ان کے پیچھے – اور انکے آگے اس کو قرات کیا ابن عباس نے
ي 238.الص َال ِة الْ ُو ْسطَى َوقُو ُموا لِلَّ ِه قَانِتِ َ َحا ِفظُوا َع َل َّ
الصلَ َو ِ
ات َو َّ
سب منازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی مناز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے
رہا کرو
میں بھی ہے کہ ام املومنین رضی الله عنہا نے اس میں ترشیحی اضافہ کیا کیونکہ تفسیر الگ
نہیں تھیں اور مصحف لوگوں کا ذاتی نسخہ ہوتا تھا عام پڑھنے کے لئے نہیں تھا
عربی کی غلطیاں؟
َح َّدثَنَا َس ِعيد ،ق ََال :نا أَبُو ُم َعا ِويَ َة ق ََال :نا ِهشَ ا ُم بْ ُن ُع ْر َوةََ ،ع ْن أَبِي ِه ،ق ََالَ :سأَلْتُ َعائِشَ َة َع ْن لَ ْحن 769-
الص َال َة َوالْ ُم ْؤتُو َن الزكاة} (َ ، )2و
ي َّالصابِئُونَ} (َ { ، )1والْ ُم ِقي ِم َ الْ ُق ْرآنِ ِ { :إ َّن الَّ ِذي َن آ َمنُوا َوالَّ ِذي َن هَادُوا َو َّ
)ِ ( (4إ َّن َهذَانِ لَ َسا ِح َرانِ ) ( ، )3فَقَالَتْ :يَا ابْ َن أُ ْختِيَ ،هذَا َع َم ُل الكُتَّاب ،أخطأوا ف ال ِكتَاب
عروہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی الله عنہا سے ان آیات کے بارے میں پوچھا
تو انہوں نے جواب دیا اے میری بہن کے بیٹے! یہی تو کاتبین کرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے خطا کر
دیتے ہیں
راقم کہتا ہے یہ روایت صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ عربی صحیح ہے تو اس پر کوئی اعَّتاض
کیسا ؟ ِهشَ ا ُم بْ ُن ُع ْر َو َة آخری عمر میں عراق گئے اور وہاں ان پر بعض محدثین کے مطابق
اختالط کا اثر تھا
شیعہ عامل کتاب مراجعات قرآنية أسئلة شبهات ..وردود تأليف السيد رياض الحكيم کہتے ہیں
س 504ـ ملاذا مل ينصب اسم ( ِإنْ) فيقول :إن هذين لساحران ،وليسِ (( :إ ْن َهذَانِ ل ََسا ِح َرانِ ))؟
ج ـ أوالً :ان هذا ليس غلطاً ،بل قد يكون جرياً عل لغة (كنانة) الذين يثبتون ألف املثنى ف كل
:األحوال فيقولون إن الرجالن نامئان قال بعض شعرائهم
السيد رياض الحكيم نے اس بات کو رد کیا کہ اس آیت میں عربی کی کوئی غلطی ہے اور کہا یہ
کنانہ (قریش کا حلیف قبیلہ ) کی لغت میں ایسا ہوتا ہے -
شیعہ عامل عل الكوراّن کتاب تدوين القرآن میں اسی روایت کا ذکر کر کے کہتے ہیں
ما وردت روايات اخرى تدعي ان الكتاب عندما جمعوا القرآن اشتبهوا ف الكتابة ودخلت اغالطهم ف
نسخة القرآن عروة ,عن ابيه قال :سالت عائشة رض الله عنها عن لحن القرآن ان هذان لساحران
وقوله ان الذين آمنوا والذين هادوا والصابئون والنصارى واملقيمي الصالة واملؤتون الزكاة واشباه ذلك
؟ فقالت :اي بني ان الكتاب يخطئون ) وهي روايات مرفوضة
یہ روایات مسَّتد شدہ ہیں
یعنی یہ روایت اہل تشیع کے علامء خود قبول نہیں کرتے-الحمد للہ اہل تشیع خود کہتے ہیں کہ
وہ قرآن کو کامل مانتے ہیں لیکن ان کےبعض جہالء ابھی تک ٥٠٠ہجری میں زندہ ہیں
ِإ َّن الْ ُق ْرآ َن أُنْز َِل عل َسبْ َع ِة أَ ْح ُرف فاقرؤوا منه ما تَيَ َّ َ
س
قرآن سات حروف پر نازل ہوا جیسا آسان ہو پڑھو صحیح البخاری
اس کی تعبیر و ترشیح کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن احادیث میں ہے کہ اس کی بنا پر
قرآن کی بعض قرات دورسی سے الگ محسوس ہوتی تھیں یہاں تک کہ ایک موقع پر عمر رضی
الله عنہ نے ایک دورسے صحابی کو برا بھال کہا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھی
پیش کیا اپ نے دونوں کی الگ الگ قرات سنی اور دونوں کو صحیح قرار دیا
قرآن کو دور صدیقی میں مصحف کی صورت میں جمع کیا گیا کیونکہ یہ ایک کتاب کی صورت
میں نہ تھا
تلفظ اور لحن کے مسئلہ پر عثامن رضی الله عنہ نے قرآن کو واپس ایک کیا اور نہ رصف مصحف
ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کو لیا بلکہ بعد میں کوئی اعَّتاض نہ کرے زید بن ثابت رضی الله
عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ مسجد النبی میں بیٹھ کر ہر آیت پر دو گواہیاں طلب کرو کہ وہ گواہی
دیں کہ قرآن کا حصہ ہیں – لہذا نہایت احتیاط سے جمع ہوا
اس خط کو خط حجازی کہا جاتا ہے جو زیر زبر کے بغیر تھا جو اپ نیچے دیکھ سکتے ہیں کہ
اصل میں نقطۂ اور اعراب نہیں تھے
عبدامللک مروان نے مصحف کے حروف کو متشکل کرنے اور ان پر نقطے لگانے کا حکم دیا ،اس
نے اس کام کے لیے حجاج بن یوسف کو شہر واسط سے فارغ کیا (تاکہ اعراب کا کام صحیح طور
پر ہو) ۔اس نے بہت محنت و لگن سے اس کام کو انجام دیا اور اس میں احزاب کا اضافہ کیا اس
وقت حجاج عراق کا گورنر تھا ۔ اس نے حسن اور یحیی ابن یعمر کے ذمہ یہ کام لگایا ،اس کے
بعد واسط میں ایک کتاب لکھی ،جس میں قراءت کے متعلق مختلف روایات کو جمع کیا ،بڑے
عرصہ تک لوگ اس کتاب پر عمل کرتے رہے ،حتی کہ ابن مجاہدنے قراءت میں ایک کتاب لکھی
تفسیر القرطبی
ابواالسود الدولی وہ پہلے شخص ہیں ،جنہوں نے سب سے پہلے علم نحو کو وضع کیا ،علی
رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا کہ کالم کی کل تین قسمیں ہیں :اسم ،فعل اور حرف ،اور فرمایا :
اس پر تم قواعد تحریر کرو ،
وفیات االعیان از ابن خلکان
اعراب اور بعض اوقات نقطے الل رنگ سے لگائے گئے تھے اور منت کالی سیاہی سے لکھا جاتا تھا
تاکہ واضح کیا جائے کہ نئی چیز کیا ہے
اب یہ خط ،خط کوفی کہالیا
#/media/File:Sanaa_-_manuscript_Surat_al_Maida.jpgمخطوطات_صنعاءhttps://ar.wikipedia.org/wiki/
قرآن پر اعراب کا لگنا سامی زبانوں میں ایک ترقی تھی کیونکہ آج تک عربانی بغیر نقطوں اور
اعراب کے لکھی جاتی ہے اس کے برعکس عرب مسلامنوں نے نقطے اور اعراب کو داخل کیا اور
قرآن میں جو تلفظ کے مسائل تھے ان کو دور کیا یہاں تک کہ اختالف معنی نہ ہوا
ابن تیمیہ فتوی ج 3ص ٤٠٢میں لکھتے ہیں
مسلامنوں نے (قرآن) مصحف (کی صورت) لکھا اور نقطے نہ لگآنا اور اور(تشکیل)
اعراب نہ لگانا جائز تھا کیونکہ صحابہ نے اپنے مصحف نقطوں اور اعراب کے بغیر لکھے تھے
کیونکہ وہ عرب تھے اور لحن (لہجوں میں اختالف) نہ کرتے تھے -اور ایسے تھے یہ مصاحف جو
عثامن نے بھیجے اور تابعین کے دور تک تھے -پھر کھڑا ہوا لحن (لہجوں میں اختالف) کا مسئلہ
لہذا مصاحف پر نقطے لگائے گئے اور نقطوں کو الل لکھا ،پھر ان کو حروف کی طرح ہی لکھا
جانے لگا (یعنی جس سیاہی میں خط ہوتا اسی میں نقطے) پس علامء کا تنازع ہوا اس پر کراہت
کے حوالے سے جو امام احمد کا اس کے خالف آیا ہے الله رحم کرے ،اور دیگر علامء کی جانب
سے کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے کیونکہ یہ بدعت ہے ،اور کہا جاتا ہے کہ وہ کراہت نہ
کرتے تھے کیونکہ اس کی رضورت تھی ،اور کہا جاتا ہے وہ کراہت کرتے تھے نقطوں سے بغیر
اعراب کے
مخطوطات صنعاء کی دو باتیں بہت اہم اور قابل توجہ ہیں اول یہ اس وقت قرآن کے سب سے
قدیم نسخوں میں سے ہے دوم اس میں عبد الله ابن مسعود کی قرات ہے جس پر یمن میں قرآن
پڑھا جاتا تھا اور سوم اس پر دو تحریریں ہیں ایک کو مٹا کر دورسی کو لکھا گیا ہے
#/media/File:Qur%27anic_Manuscript_-_3_-_Hijazi_script.jpgمخطوطات_صنعاءhttps://ar.wikipedia.org/wiki/
چونکہ ایک مخصوص فرقہ کی جانب سے قرآن کے حوالے سے متضاد بیان اتے رہتے ہیں کہ اس
کو دور اول میں تبدیل کیا گیا تھا لہذا اس میں متام دنیا کی دلچسپی پیدا ہوئی اور ہارورڈ اور
ستانفورڈ یونیورسٹی نے ان مخطوطات کو حاصل کیا اور ان پر سائنسی انداز میں تحقیق کی نہ
رصف نچلی تحریر پڑھی بلکہ کاربن ڈیٹنگ بھی ہوئی
سوچا یہ جا رہا تھا کہ نچلی تحریر میں کوئی دورسآ قرآن ہو گا جس کو مٹا کر حکم عثامن پر نیا
قرآن لکھا گیا
کسی بھی صورت میں تحریری تنقید بتاتی ہے کہ جو سٹندرد قرآن ہے وہ بہت ایامن و احتیاط
کے ساتھ لکھا گیا ہے جیسا کہ رسول نے اس کی تالوت کی
Behnam Sadeghi and Uwe Bergmann, The Codex of a Companion of the Prophet and
the Qur’a n of the Prophet, Arabica 57 (2010) 343-436, Brill Publisher.
قابل غور ہے کہ یہ تحقیق امریکا کی یونیورسٹیز میں ہوئی ہے جس کے لئے اہل اسالم کو ان کی
تعریف کرنی چاہیے کیونکہ تحقیق کا اصول ہے کہ اس کو کسی بھی تعصب سے الگ ہو کر کیا
جائے -مذہبی اورمسلکی تعصب بعض اوقات انسان کے اندر سمجھنے کی صالحیت کم کر دیتا
ہے
دس وتمارت قرایت
قرآن کی قرات بہت سے صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے ہم تک آئی ہے جس کو دس متواتر
قرات کہا جاتا ہے
نافع بن عبد الرحمن بن أب نعيم املدّن املتوفی ١٦٩ھ ان کی قرات کی سند ابی بن کعب اور ابو
ہریرہ رضی الله عنہام تک جاتی ہے
https://www.youtube.com/watch?v=jjbu_5eKZKE
اور
ورش سے ہے
https://www.youtube.com/watch?v=vaXUaw_rXbo
https://archive.org/details/mos7af_warch_maghribi_by_Morocco-Islamic.com
نافع حدیث میں ضعیف ہیں اور امام احمد کہتے ہیں
قال أبو طالب :سألت أحمد ،يعني ابن حنبل ،عن نافع بن عبد الرحمن ،قال :كان يؤخذ عنه القراءة،
)/ (2089وليس ف الحديث بِشء« .الجرح والتعديل» 8
ان سے قرات لی جائے اور حدیث میں کوئی چیز نہیں
أبو جعفر يزيد بن القعقاع املدّن املتوفی ١٣٠ھ کی قرات ابن عباس ،ابو ہریرہ اور عیاش بن ابی
ربیعہ رضی الله عنہام سے ہے
ان کی قرات کی سند عيَس بن وردان املدّن ،أبو الحارث الحذاء سے ہم تک آئی ہے
https://www.youtube.com/watch?v=lM-Apn5gmco
اور
https://www.youtube.com/watch?v=1rNqqFmsVwM
أهل مكة کی قرات
عبد الله بن كثُي الداري املك املتوف ١٢٠هجرة کی قرات مجاهد و درباس مول ابن عباس سے ہے
ان کی قرات البزي کی سند سے ملی ہے
https://www.youtube.com/watch?v=jmaN5GM3M6U
ان کی قرات قنبل کی سند سے ملی ہے
https://www.youtube.com/watch?v=ubZXRYrfdw0
العلل میں امام احمد ان کے لئے کہتے ہیں
ذكرا أنهام عرضا عل درباس مول ابن عباس ،وقرأ درباس عل عبد الله بن عباس ،وقرأ عبد الله بن
» (408) .عباس عل أصحاب النبي – صل الله عليه وسلم « .-العلل
ان سب نے قرات کو درباس مولی ابن عباس پر پیش کیا اور درباس نے ابن عباس پر اور ابن عباس
نے اصحاب رسول پر پیش کیا
اہل شام کی قرات
عبد الله بن عامر اليحصبي الشامي املتوفی ١١٨ھ کی قرات کی سند ابو الدرداء رضی الله عنہ
تک جاتی ہے
یہ قاض دمشق ف أيام الوليد بن عبد امللك ،وإمام مسجد دمشق ،ورئيس أهل املسجد تھے
ان کی قرات کی سند هشام بن عامر اور
https://www.youtube.com/watch?v=oDHGFedU9ws
ابن ذكوان سے ہے
https://www.youtube.com/watch?v=5YA7qBOYewo
اہل برصہ کی قرات
أبو عمرو بن العالء البرصي املتوفی ١٦٨ھ کی قرات کی سند سعید بن جبیر اور مجاہد تک جاتی
ہے
ان کی سند حفص بن عمر بن عبد العزيز الدوري سے ہے
https://www.youtube.com/watch?v=g4rhOizucAU
اور
السوِس سے ہے
https://www.youtube.com/watch?v=q_IGe7x_Wqo
مندرجہ ذیل لنک سے اس قرات پر مصحف دیکھا جا سکتا ہے
.pdfالمصحف_برواية_السوسي_عن_أبي_عمروhttps://upload.wikimedia.org/wikisource/ar/8/8b/
يعقوب بن اسحاق الحرضمي البرصی املتوفی ٢٠٥ھ کی قرات عاصم بن ابی النجود سے ہے
ان کی قرات کی سند رويس سے ہے
https://www.youtube.com/watch?v=W2XubMdqPT4
اور
https://www.youtube.com/watch?v=7AUyY7Eor4A
اہل کوفہ کی قرات
عاصم بن أب النَّجود األسدي الكوف املتوفی ١٢٥ھ کی سند علی بن ابی طالب اور زر بن حبیش
کی سند سے ابن مسعود رضی الله عنہام تک جاتی ہے
ان کی قرات کی سند حفص بن سلیامن االسدی سے ہے
https://www.youtube.com/watch?v=ve4K3TV-kU4
اور
شعبة سے ہے
https://www.youtube.com/watch?v=zB4Jr4FcLH8
ان کی قرات سب سے مشھور ہے
ْ
أحمدْالعللْميںْکہتےْہيںْ
قالْالمروذيْ:قالْأبوْعبدْهللاْ:حمزةْالزياتْ،ثقةْفيْالحديثْ،ولكنيْأكرهْقراءته«ْ.سؤاالته»ْ(191
مروزی کہتے ہیں امام احمد نے کھا حمزہ حدیث میں ثقہ ہیں لیکن ان کی قرات سے کراہت کرتا
ہوں
تہذیب التہذیب کے مطابق سلمة بن شبيب کہتے ہیں امام احمد ایسے قاری کے پیچھے مناز
پڑھنے ہی میں کراہت کرتے
أبو الحسن عل بن حمزة الكسايئ النحوي الكوف املتوفی ١٨٩ھ کی سند صحابی رسول أب حيوة
رشيح بن يزيد رضی الله عنہ تک جاتی ہے
ان کی قرات أبو الحارث الليث بن خالد البغدادي سے ملی ہے
https://www.youtube.com/watch?v=2nWEPXNxoFM
اور
https://www.youtube.com/watch?v=g2tRx7Prom0
اہل بغداد کی قرات
خلف بن ہشام اصل میں املفضل الضبی الكوف املتوف ١٧٨هجري کی قرات ہے
ان کی قرات اسحاق بن ابراہیم اور ادریس بن عبد الکریم کی سند سے آئی ہے
الغرض ان قراتوں میں جو اختالف ہے صوتی ہے معنوی نہیں ہے لیکن یہ تبدیلی سات حروف
میں تنزیل کی طرف اشارہ دیتی ہے
——————————————————————————————————-
http://www.nquran.com/index.php?group=othm_view&rewaya=24&sora_no=1
قرا ن یک مسق اھکیا -دبعث یا سنث؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسوب غیر ثابت اقوال
مصنف عبد الرزاق ح 15948اور مصنف ابن ابی شیبہ ح 12228میں اس کو مجاہد تابعی
نے حدیث نبوی کہا ہے لیکن یہ ارسال قابل قبول نہیں ہے
َع ْب ُد ال َّرزَّاقِ – ،عَنِ الثَّ ْو ِر ِّيَ ،ع ْن لَ ْيثَ ،ع ْن ُم َجا ِهد ق ََال :ق ََال النَّب ُِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َمَ « :م ْن
» َحل ََف ب ُِسو َرة ِم َن الْ ُق ْرآنِ فَ َعلَيْ ِه بِك ُِّل آيَة َميِ ُي َص ْرب ،فَ َم ْن شَ ا َء بَ َّر ُهَ ،و َم ْن شَ ا َء فَ َج َر ُه
مجاہد نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت کی قسم
کھائی اس پر اس کی ہر آیت کے بدلے قسم ہوئی
مجاہد صحابی نہیں ہیں لہذا یہاں سند میں انقطاع ہے
سنن الکربی البیہقی میں اس کو حسن برصی نے حدیث نبوی قرار دیا ہے
ل بْ ُن الْ َح َسنِ ،اّن ،أنبأ أَبُو ن َْرص الْ ِع َراقِ ُّي ،ثنا ُس ْف َيا ُن بْ ُن ُم َح َّمد ،ثنا َع ِ ُّ َوأَخ َ َْربنَا أَبُو بَكْر األْ َ َرد َْستَ ِ ُّ
ول الل ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه ثنا َعبْ ُد الل ِه بْ ُن الْ َولِي ِد ،ثنا ُس ْفيَانَُ ،ع ْن يُون َُس ،عَنِ الْ َح َسنِ ق ََال :ق ََال َر ُس ُ
“ َو َسلَّ َمَ ” :م ْن َحل ََف ب ُِسو َرة ِم َن الْ ُق ْرآنِ ،فَ َعلَ ْي ِه بِك ُِّل آيَة َميِ ُي َص ْربَ ،م ْن شَ ا َء بَ َّرَ ،و َم ْن شَ ا َء فَ َج َر
اْلبانة الكربى البن بطة میں بھی حسن برصی کا قول ہے کہ یہ حدیث نبوی ہے
َح َّدثَ ِني أَبُو َصالِح ،ق ََالَ :ح َّدثَنَا أَبُو ْاألَ ْح َو ِص ،ق ََالَ :ح َّدثَنَا َع ْم ُرو بْ ُن َع ْون ،ق ََالَ :ح َّدثَنَا هُشَ يْم،
ق ََال :أَخ َ َْربنَا أَبُو ب ِْرشَ ،و َع ْون ،عَنِ الْ َح َسنِ ،ق ََال :ق ََال َر ُس ُ
ول اللَّ ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َمَ « :م ْن
» َحل ََف ب ُِسو َرة ِم َن الْ ُق ْرآنِ ،فَ ِبك ُِّل آيَة ِمنْ َها َميِي
حسن برصی نے کہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کی سورت
کی قسم کھائی تو اس کی ہر آیت پر قسم کھا لی
احناف کی آراء
– احناف متقدمین قرآن پر قسم کھانے کو غیر رشعی کہتے تھے
کتاب املبسوط از محمد بن أحمد بن أب سهل شمس األمئة السخِس (املتوىف483 :هـ) میں
ہے
ُول ِف قَ ْولِ ِه َوال َّر ْح َمنِ :إ ْن أَ َرا َد بِ ِه ْاس َم اللَّ ِه ت َ َع َال فَ ُه َو َميِيَ ،و ِإ ْن أَ َرا َد بِ ِه َوكَا َن ب ِْرش الْ َمر ِ ُّ
ِيِس يَق ُ
ُ .سو َر َة ال َّر ْح َمنِ الَ يَكُو ُن َميِي ًنا؛ ِألَنَّ ُه َحلِف بِالْ ُق ْرآنِ
ِيِس نے کہا اپنے ایک قول میں الرحامن کی قسم کھائی – پس اگر اس سے اس ب ِْرش الْ َمر ِ ُّ
کا ارادہ الله کے نام پر قسم کھانا تھا تو قسم واقع ہو گئی لیکن اگر ارادہ سوره الرحامن
پر قسم کھانا تھا تو نہیں ہوئی کیونکہ یہ قرآن کی قسم ہوئی
یہی بات عالء الدين ،أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساّن الحنفي (املتوىف587 :هـ) نے
کتاب بدائع الصنائع ف ترتيب الرشائع میں بیان کی ہے
ِيِس ِفي َم ْن ق ََال َوال َّر ْح َمنِ أَنَّ ُه إ ْن ق ََص َد ْاس َم اللَّ ِه ت َ َع َال فَ ُه َو َحالِف َو ِإ ْن أَ َرا َد
ك َع ْن ب ِْرش الْ َمر ِ ِّ َو ُح ِ َ
بِ ِه ُسو َر َة ال َّر ْح َمنِ فَلَ ْي َس بِ َحالِف فَكَأَنَّ ُه َحل ََف بِالْ ُق ْرآنِ
احناف کی فقہ کی کتاب الهداية ف رشح بداية املبتدي از املرغيناّن (املتوىف593 :هـ) کے
مطابق
ومن حلف بغُي الله مل يكن حالفا كالنبي والكعبة ” لقوله عليه الصالة والسالم ” :من كان
منكم حالفا فليحلف بالله أو ليذر ” وكذا إذا حلف بالقرآن ألنه غُي متعارف قال رض الله
عنه معناه أن يقول والنبي والقرآن أما لو قال أنا بريء منهام يكون ميينا ألن التربي منهام
.كفر
جس نے غیر الله کی قسم لی جیسے نبی کی یا کعبہ کی تو یہ قسم نہ ہو گی جیسا کہ
قول نبوی ہے کہ جو قسم لے وہ الله کی قسم لے ..اور اسی طرح قرآن کی قسم
(رشیعت میں ) متعارف نہیں ہے کہنے کا مقصد ہے کہ اگر کہے نبی کی قسم یا قرآن کی
قسم (تو قسم نہ ہو گی لیکن) اگر کہے میں تم دونوں سے بريء ہوں تو قسم واقعہ ہو
گی کیونکہ ان دونوں (قرآن اور نبی) سے برات کرنا کفر ہے
احناف متاخرین میں اس قول کو چھوڑ دیا گیا – صدر الدين عل بن عل ابن أب العز
الحنفي (املتوىف 792هـ) نے کتاب التنبيه عل مشكالت الهداية میں لکھا
قوله( :وكذا إذا حلف بالقرآن ألنه غُي متعارف) .ينبغي أن يكون الحلف بالقرآن ميينًا ألنه
قد صار متعارفًا ف هذا الزمان ،كام هو مذهب األمئة الثالثة وغُيهم ،وال يلتفت إل من علل
كونه ليس ميينًا بأنه غُي الله عل طريقة املعتزلة وقولهم بخلقه
املرغيناّن کا قول کہ کہ قرآن کی قسم غیر متعارف ہے -اب ہونا چاہیے کہ قرآن پر بھی
قسم کھا لی جائے کہ یہ اب واقع ہو گی اس دور میں کیونکہ یہ اس زمانے میں متعارف
ہو چکی ہے جیسا کہ تین امئہ اور دیگر کا مذھب ہے اور اس کی علت کے قول کی طرف
التفات مت کرو کہ یہ قسم نہ ہو گی کہ یہ طريقة املعتزلة ہے ان کے خلق قرآن کے قول
پر
کتاب رد املحتار عل الدر املختار میں ابن عابدين الدمشقي الحنفي (املتوىف1252 :هـ)
لکھتے ہیں
َات َولِذَا َعلَّلَ ُه بِأَنَّ ُه َوكَذَا يُ ِفي ُد أَنَّ ُه لَ ْي َس ِم ْن ق ََسم الْ َحلِ ُف بِغ ْ َُِي اللَّ ِه ت َ َع َال بَ ْل ُه َو ِم ْن ق ََسمِ ِّ
الصف ِ
غ ْ َُُي ُمتَ َعا َرف
یہ فائدہ دیتا ہے کہ قرآن کی قسم ان میں سے نہیں جو غیر الله کی قسم کھانا ہے بلکہ
یہ قسم صفات پر ہے اور اس وجہ سے اس پر علت ہے کہ یہ غیر متعارف ہے
مال قاری کتاب مرقاة املفاتيح رشح مشكاة املصابيح میں لکھتے ہیں
ق ََال َصا ِح ُب الْ ِهدَايَ ِةَ :وكَذَا ِإذَا َحل ََف بِالْ ُق ْرآنِ ِألَنَّ ُه غ ْ َُُي ُمتَ َعا َرف يَ ْع ِنيَ :و ِم َن الْ ُم َق َّر ِر أَ َّن ِص َف َة
اللَّ ِه الَ تَكُو ُن َميِينًا ِإذَا كَا َن الْ َحلِ ُف بِ َها ُمتَ َعا َرفًا
َصا ِح ُب الْ ِهدَايَ ِة نے کہا کہ اگر قرآن کی قسم لی تو یہ غیر متعارف ہے یعنی مقرر یہ ہے
کہ صفات الله کی
قسم نہیں لی جا تی کیونکہ قسم لینا (سب جانتے ہیں) ُمتَ َعا َر ًف ہے
ابو حنیفہ کے الفاظ کا مطلب ہے کہ قسم عربوں میں الله کی ذات کی ہی لی جاتی ہے
وہی رشیعت نے بتائی ہے – لہذا کالمی بحث سے اس میں غیر متعارف قسم شامل نہیں
کی جا سکتی -خیال رہے کہ خلق قرآن کی بات کا آغاز معتزلہ نے کیا تھا
شوافع کی رائے
کتاب البيان ف مذهب اْلمام الشافعي از أبو الحسي يحيى بن أب الخُي بن سامل العمراّن
اليمني الشافعي (املتوىف558 :هـ) کے مطابق
وقال أبو حنيفة وأصحابه( :إذا حلف بالعلم ..مل يكن ميينا ،وإذا حلف بكالم الله أو بالقرآن..
مل يكن ميينا) .فمنهم من قال :ألن أبا حنيفة كان يقول( :القرآن مخلوق) .ومنهم من قال :مل
.يكن يقول :القرآن مخلوق ،وإمنا مل تجر العادة بالحلف به
ض اللَّ ُه َعنْ ُه َام :-أن النبي – َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم – قال« :القرآن
دليلنا :ما روى ابن عمر – َر ِ َ
كالم الله ،وليس مبخلوق» .وإذا كان غُي مخلوق ..كان صفة من صفات الذات ،كعظمة الله،
.وجالله
ولو حلف بالقرآن ..كان ميينا ،سواء نوى اليمي ،أو مل ينو أو أطلق ،فكذلك هذا مثله .واألول
أصح .هذا مذهبنا .وقال أبو حنيفة( :ال يكون ميينا؛ ألن حقوق الله تعال طاعته ،وذلك
.محدث)
ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اگر الله کے علم کی قسم لی تو قسم نہیں
ہو گی اور اگر کالم الله اور قرآن کی قسم لی تو بھی قسم نہیں ہو گی -پھر ان احناف
میں سے کچھ نے کہا ابو حنیفہ کا کہنا تھا قرآن مخلوق ہے اور ان میں سے کچھ نے کہا
:ابو حنیفہ نے نہیں کہا کہ قرآن مخلوق ہے بلکہ یہ قسم عموما نہیں لی جاتی -ہم
شوافع کی دلیل ہے جو ابن عمر نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے قرآن الله
کا کالم ہے مخلوق نہیں ہے اور جب کہا مخلوق نہیں ہے یہ الله کی صفت میں سے
ایک ہوا جیسے اس کی عظمت اور جالل – اگر قرآن کی قسم کھا لی ..تو قسم ہو گئی
… اور ابو حنیفہ کا کہنا ہے قسم نہیں ہوئی کیونکہ الله کے حقوق اس کی اطاعت ہے
جو محدث ہے
راقم کہتا ہے یعنی امام ابو حنیفہ کا کہنا تھا کہ قسم کھانا مخلوق کا عمل ہے جو الله
نے تخلیق کیا ہے ایسا عمل محدث ہے – مزید کہتا ہے الْ ُق ْرآ ُن كَالَ ُم اللَّ ِه َولَ ْي َس مبِ َ ْخلُوق
کے الفاظ سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے
وہابیوں کی رائے
سعودي دامئي کميٹي اللجنة الدامئة کا فتوى رقم ( )4950ہے
يجوز الحلف بآيات الله إذا كان قصد الحالف الحلف بالقرآن ؛ ألنه من كالم الله وكالمه
.سبحانه صفة من صفاته ،وأما إن أراد بآيات الله غُي القرآن ،فإنه ال يجوز
يہ جائز ہے کہ الله کي آيات کي قسم کھايئ جائے اگر مقصد قرآن سے قسم لينا ہو
کيونکہ يہ کالم الله ہے اور کالم الله کي صفات ميں سے ہے اور اگر مراد وہ نشانيياں ہيں
جو آيات الله نہيں ہيں تو جائز نہيں ہے
يعني قرآن کي آيات کي قسم کھانا وہابييوں کے نزديک صحيح ہے کيونکہ يہ مسئلہ
صفات سے ان کے نزديک جائز ہے
وہاب محمد بن صالح العثيمي فتوي ميں کہتے ہيں
وأما الحلف بالقرآن الكريم فإنه ال بأس به ،ألن القرآن الكريم كالم الله – سبحانه وتعال –
تكلم الله به حقيقة بلفظه مريدًا ملعناه وهو – سبحانه وتعال – موصوف بالكالم ،فعليه
.يكون الحلف بالقرآن الكريم حلفًا بصفة من صفات الله – سبحانه وتعال – وذلك جائز
قرآن کي قسم کھانا جائز ہے
======================================================
جواب
ابن کثیر کی کتاب البداية والنهاية دیکھی اس میں وہ عبد الله بن عمرو کی روایت پر
کہتے ہیں
َو َرفْ ُع ُه ِفي ِه نَكَا َرة ،لَ َعلَّ ُه ِم َن ال َّزا ِملَتَ ْ ِي اللَّتَ ْ ِي أَ َصابَ ُه َام َع ْب ُد اللَّ ِه بْ ُن َع ْمرو يَ ْو َم ال َ ُْْي ُم ِ
وك ِم ْن كُتُ ِب
اب ،فَكَا َن يُ َحدِّثُ ِمنْ ُه َام أَشْ يَا َء َغ َرائِ َب .أَ ْه ِل الْ ِكتَ ِ
اور اس میں نکارت کو بلند کیا ہے لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو اہل کتاب میں سے
تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے
اس بات کو سات دفعہ کتاب میں ابن کثیر نے لکھا ہے جس سے صحابی رسول صلی الله
علیہ وسلم سے ان کے بغض کا اندازہ ہوتا ہے
اس کتاب البداية والنهاية میں ابن کثیر ج ٢ص ٢٩٩کہتے ہیں کہ انکی روایات
.وكان فيهام إرسائيليات يحدث منها َو ِفيه َِام ُمنْكَ َرات َو َغ َرا ِئ ُب
ان إرسائيليات میں سے تھیں جن کو عبد اللہ روایت کرتے اور ان میں منکرات اور غریب
روایات تھیں
جن روایات پر ابن کثیر نے عبد الله بن عمرو پر إرسائيليات بیان کرنے کا الزام لگآیا ہے وہ
سات روایات ہیں ان سات روایات کو
َربِي َع َة بْنِ َس ْيف ( منکرات روایت کرنے کے لئے مشھور ہے قال البخارى :عنده مناكُي)
نے
ُم َجا ِهد ( سامع میں اختالف ہے اختلف ف روايته عن عبد الله بن عمرو فقيل مل يسمع
منه جامع التحصيل ف أحكام املراسيل از العاليئ (املتوىف761 :هـ) ) نے
وهب بن جابر الخيواىن ( مجھول ہے دیکھئے میزان اْلعتدال از الذھبی) نے
حيي بن عبد الله بن رشيح املعافري (ضعیف) نے روایت کیا ہے جو یا تو ضیف ہیں یا
مجھول ہیں یا منکر روایت بیان کرنے کے لئے مشھور ہیں تو عبد الله بن عمرو رضی الله
عنہ کا کیا قصور ہے
تفسیر ابن کثیر میں سوره العمران ،االنعام میں بھی اس کو دہرایا
إنه من مفردات ابن لهيعة ،وهو ضعيف ،واألشبه – والله أعلم – أن يكون موقوفاً عل عبد
الله بن عمرو بن العاص ،ويكون من الزاملتي اللتي أصابها يوم الُيموك
بے شک اس میں ابن لهيعة کا تفرد ہے جو ضعیف ہے اور مجھ کو شبہ ہے الله کو پتا ہے
کہ یہ روایت عبد الله بن عمرو بن موقوف ہے ہو سکتا ہے یہ ان میں سے جو دو
اونٹنیوں پر لدی ہوئی تھیں
راقم کہتا ہے ابن کثیر کا قول باطل ہے
ِرسائِيلِ َّي ِ
ات سے تفسیر کرتے تھے ؟ ابن عباس اْلْ ْ َ
امام حاکم نے اپنی مستدرک 535/2 ،پر ایک روایت درج کی ہے
ل بْ ُن َح ِكيم ،ثنا – 3822 ُوب الثَّ َق ِف ُّي ،ثنا ُع َب ْي ُد بْ ُن َغنَّام النَّ َخ ِع ُّي ،أَنْ َب َأ َع ِ ُّ
أَخ َ َْربنَا أَ ْح َم ُد بْ ُن يَ ْعق َ
َ
ض اللَّ ُه َعنْ ُه َام ،أنَّ ُه ق ََال{ :اللَّ ُه َ
السائِ ِبَ ،ع ْن أ ِب الضُّ َحى ،عَنِ ابْنِ َعبَّاس َر ِ َ َرشِيكَ ،ع ْن َعطَا ِء بْنِ َّ
الَّ ِذي َخل ََق َس ْب َع َس َام َوات َو ِم َن ْاألَ ْر ِض ِمثْلَ ُه َّن} [الطالق ]12 :ق ََالَ :س ْب َع أَ َر ِض َي ِف ك ُِّل أَ ْرض نَبِي
يَس « َهذَا َح ِديث َص ِح ُ
يح يَس كَ ِع َ كَنَ ِبيِّكُ ْم َوآ َد ُم كآد َمَ ،ونُوح كَنُوحَ ،وإِبْ َرا ِهي ُم كَ ِإبْ َرا ِهي َمَ ،و ِع َ
» ْاْل ِْس َنا ِد َولَ ْم يُ َخ ِّر َجا ُه
[التعليق – من تلخيص الذهبي] – 3822صحيح
ابن عباس نے سورہ طالق کی 12ویں آیت کے تفسیر میں فرمایا کہ 7زمین ہیں ،اور ہر
زمین میں متہارے نبی کی مانند نبی ہے ،آدم کی مانند آدم ہے ،نوح کی مانند نوح ہے،
ابراہیم کی مانند ابراہیم ہے ،عیسی کی مانند عیسی ہے۔
امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح االسناد ہے ،اگرچہ لکھی نہیں گئی
عالمہ الذھبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے
یہ روایت بیہقی نے اپنی کتاب االسامء و الصفات 267/2 ،پر بھی درج کی ہے۔ نیز اس
سے ملتی جلتی روایت اگلے صفحے پر درج کی ہے
َاض ،ثنا إِبْ َرا ِهي ُم بْ ُن – 832 َوأَخ َ َْربنَا أَبُو َع ْب ِد ال َّل ِه ا ْل َحا ِفظُ ،أنا َع ْب ُد ال َّر ْح َمنِ بْ ُن ا ْل َح َسنِ الْق ِ
َ
اس ،ثنا شُ ْعبَةَُ ،ع ْن َع ْمرِو بْنِ ُم َّرةََ ،ع ْن أ ِب الضُّ َحى ،عَنِ ابْنِ َعبَّاس، الْ ُح َس ْيِ ،ثنا آ َد ُم بْ ُن أَ ِب إِيَ َ
ض اللَّ ُه َعنْ ُه َام ِف قَ ْولِ ِه َع َّز َو َج َّل{ :اللَّ ُه ال َِّذي َخل ََق َس ْب َع َس َام َوات َو ِم َن ْاألَ ْر ِض ِمثْلَ ُه َّن} َر ِ َ
ض اللَّ ُه ِ
السالَ ُم .إ ْسنَا ُد َهذَا عَنِ ابْنِ َعبَّاس َر َ ِ ِ ِ ِ َ
[الطالق ]12 :ق ََالِ :ف ك ُِّل أ ْرض نَ ْح َو إبْ َراهي َم َعلَيْه َّ
َعنْ ُه َام َص ِحيحَ ،و ُه َو شَ اذُّ مبِ ُ َّرةََ ،ال أَ ْعلَ ُم ِألَ ِب الضُّ َحى َعلَ ْي ِه ُمتَابِ ًعا َواللَّ ُه أَ ْعلَ ُم
یعنی ابن عباس نے اس آیت کی ضمن میں فرمایا کہ ہر زمین پر ابراہیم علیہ السالم کی
مانند نبی ہے۔
بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ سند ابن عباس تک صحیح ہے تاہم انہوں نے اسے شاذ قرار دیا
کہ مرۃ کے عالوہ کسی نے ابی ضحی سے اس کی متابعت میں روایت بیان نہیں کی
یاد رہے کہ یہ روایت تفسیر طربی 469/23 ،پر بھی درج ہے۔ اور وہاں ایک اور روایت
بھی ملتی ہے
حدثنا عمرو بن عل ،قال :ثنا وكيع ،قال :ثنا األعمش ،عن إبراهيم بن مهاجر ،عن مجاهد،
عن ابن عباس ،ف قوله( :اللَّ ُه ال َِّذي َخل ََق َسبْ َع َس َام َوات َو ِم َن األ ْر ِض ِمثْلَ ُه َّن) قال :لو حدثتكم
.بتفسُيها لكفرتم وكفركم تكذيبكم بها
ابن عباس نے فرمایا کہ اگر میں اس کی تفسیر متہیں بیان کروں تو تم کفر کرو گے ،اور
کفر یہ ہے کہ تم اس کی تکذیب کرو گے
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے البدایہ و النھایہ ،طبع دارالفکر 21/1 ،پر اس کے
بارے میں کیا درج کیا ہے
اب َوتَلَقَّا ُه َعنْ ُه ْم طَائِفَة ِم ْن ُعل ََامئِنَا ِم ْن أَ َّن ه َِذ ِه ْاألَ ْر َض ِم ْن َو َهكَذَا َما يَ ْذكُ ُر ُه كَ ِثُي ِم ْن أَ ْه ِل الْ ِكتَ ِ
ت ُ َراب َوالَّتِي ت َ ْحتَ َها ِم ْن َح ِديد َو ْاألُ ْخ َرى ِم ْن ِح َجا َرة ِم ْن كِ ْربِيت َو ْاألُ ْخ َرى ِم ْن كَذَا فَك ُُّل َهذَا ِإذَا
لَ ْم يُخ َ ْْرب بِ ِه َويَ ِص َّح َسنَ ُد ُه إِ َل َم ْع ُصوم فَ ُه َو َم ْردُود َع َل قَائِلِ ِهَ .و َهكَذَا ْاألَث َ ُر الْ َم ْرو ُِّي عَنِ ابْنِ
َع َّباس أَنَّ ُه ق ََال ِف ك ُِّل أَ ْرض ِم َن الْ َخلْقِ ِمث ُْل َما ِف هذه َحتَّى آ َد َم كَآ َد ِمكُ ْم َوإِبْ َرا ِهي َم
َات َو ُه َوالصف ِ رصا َو ْاستَق َْصا ُه الْبَيْ َه ِق ُّي ِف ْاألَ ْس َام ِء َو ِّ
كَ ِإبْ َرا ِهي ِمكُ ْم فَ َهذَا َذكَ َر ُه ابْ ُن َجرِير ُم ْختَ َ ً
ات َواللَّ ُه أَ ْعلَ ُمِرسائِيلِ َّي ِ
َم ْح ُمول ِإ ْن َص َّح نَ ْقلُ ُه َعنْ ُه عل أنه أخذه ابن عباس رىض الله عنه عَنِ ْاْل ْ َ
یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ اہل کتاب میں کثیر لوگوں نے بیان کیا اور ہامرے علامئ میں
ایک گروہ ان سے مال کہ زمین کی ایک تہہ مٹی کی ہے ،اس کے نیچے لوہے کی ہے ،اس
کے نیچے پتھروں کی وغیرہ ۔ اب اگر اس کی خرب ہمیں معصوم نے نہیں دی اور ان تک
سند صحیح نہیں ہے ،تو یہ مردود قول ہے۔ اسی طرح کی ایک روایت ابن عباس سے بھی
مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہر وہ زمین جو اس طرح سے بنائی گئی ہے ،اسی کی مانند
ہے حتی کہ آدم آدم کی مانند ،ابراہیم ابراہیم کی مانند۔ یہ ابن جریر نے مخترص صورت
میں درج کی اور بیہقی نے االسامء و الصفات میں -اور اگر یہ روایت ابن عباس سے
صحیح ہے تو ہم اسے اس پر محمول کریں گے کہ یہ ابن عباس نے ارسائیلیات سے اخذ
کی ہے۔
جواب
راقم نے اپنی زندگی میں اہل کتاب کی کسی کتاب میں یہ قول نہیں دیکھا لہذا ابھی اس
کو ارسائیلیات نہیں کہا جا سکتا
یہ قول متشابھات جیسا ہے اس کو مان لینے سے ہامرے دین میں کوئی فرق نہیں اتا نہ
انکار کرنے سے اتا ہے
اللہ تعالی نے بہت سی باتیں محرش کے لئے چھوڑ دی ہیں کیونکہ ہم سب نہیں سمجھ
اور جان سکتے
ہم آیات کو مانتے ہیں اس سے زیادہ ہامری سمجھ سے باال ہے
ہامری کہکشاں
milky way
ہے
اس کے عالوہ عامل میں کہاں کہاں زندگی ہے ہم کو معلوم نہیں ہے اگر ایسا ہے تو کامل
ہے
الله کر سکتا ہے
کیا ہامرے پاس ارسائیلی روایات صحابہ کے توسط سے بھی پہنچی ہیں
ابن ابی حاتم اپنی تفسیر کے ج ،10ص 3242-3241پر ایک واقعہ نقل کرتے ہیں پورا
واقعہ تو نقل نہیں کریں گے ،جتنا ہامرے موضوع سے متعلق ہے ،وہی ترجمہ کریں گے
فرماتے ہیں کہ
قَ ْولُ ُه ت َ َع َالَ :ولَ َق ْد فَ َت َّنا ُسلَ ْي َام َن َوأَلْ َق ْي َنا َع َل كُ ْر ِس ِّي ِه َج َسدًا ثُ َّم أَن َ
َاب
السال ُم أَ ْن – 18355 ض الل ُه َعنْ ُه َام ق ََال :أَ َرا َد ُس َليْ َام ُن َع َليْ ِه ََّوب َِسنَد قَ َوي ،عَنِ ابْنِ َعبَّاس َر ِ َ
يَ ْدخ َُل الْخَال َء فَأَ ْعطَى الْ َج َرا َد َة خَامتَ َ ُه َوكَانَت ا ْم َرأتُهَُ ،وكَان َْت أ َح َّب ن َسائه إليْه فَ َجا َء الشَّ يْطَا ُن ِف
ِ َ ِ ِ ِ ِ َ َ ِ
ُصو َر ِة ُسلَ ْي َام َن فَق ََال لَ َها :ه َِاِت خَامتَ ِي فَأَ ْعطَتْ ُه فَل ََّام لَب َِس ُه دَان َْت لَ ُه الْ ِج ُّن َواْلْ ِن ُْس َوالشَّ َي ِاط ُي،
السالَ ُم ِم َن الْخ ََال ِء قال لها :ه َِاِت خَامتَ ِي فَقَال َْت :قَ ْد أَ ْعطَيْتُ ُه ُسلَيْ َام َن فَل ََّام َخ َر َج ُسلَيْ َام ُن َعلَيْ ِه َّ
ُول :أَنَا ُسلَ ْي َام ُن ِإال كَ َّذبَ ُه ق ََال :أَنَا ُسلَ ْي َام ُن قَالَتْ :كَ َذبْتَ ل َْس َت ُسلَ ْي َام َن فَ َج َع َل َال يَأْ ِِت أَ َحدًا يَق ُ
الصبْيَا ُن يَ ْر ُمونَ ُه بِالْ ِح َجا َر ِة ،فَل ََّام َرأَى ذَلِ َك َع َر َف أَنَّ ُه ِم ْن أَ ْم ِر اللَّه َع َّز َو َج َّل َوقَا َم
ِ َحتَّى َج َع َل ِّ
اس.الشَّ ْيطَا ُن يَ ْحكُ ُم بَ ْ َي النَّ ِ
اس ِإنْكَا َر ذَلِ َك فَل ََّام أَ َرا َد اللَّ ُه ت َ َع َال أَ ْن يَ ُر َّد َع َل سليامن عليه السالم سلطانه ألْقَى ِف قُل ِ
ُوب النَّ ِ
السال ُم فَقَالُوا لهن أيكون من سليامن َشء؟ قلنا: الشَّ ْيطَانِ فَأَ ْر َسلُوا إِ َل نِ َسا ِء «ُ »1سلَ ْي َام َن َعلَ ْي ِه َّ
نَ َع ْم ِإنَّ ُه يَأْتِينَا َونَ ْح ُن ُحيَّضَ ،و َما كَا َن يَأْتِينَا قَبْ َل ذَل َك
ِ
قوی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ جب سلیامن علیہ السالم بیت الخالء
میں جاتے ،اپنی انگوٹھی جرادہ کو دیتے ،جو کہ ان کی بیوی تھی ،اور سب سے عزیز
تھی۔ شیطان حرضت سلیامن کی صورت میں اس کے پاس آیا ،اور کہا کہ مجھے میری
انگوٹھی دو۔ تو اس نے دے دی۔ جب اس نے پہن لی ،تو سب جن و انس و شیطان اس
کے قابو میں آ گئے۔ جب سلیامن علیہ السالم نکلے ،تو اس سے کہا کہ مجھے انگوٹھی
دو۔ اس نے کہا کہ وہ تو میں سلیامن کو دے چکی ہوں۔ آپ نے کہا کہ میں سلیامن
ہوں۔ اس نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو ،تم سلیامن نہیں۔ پس اس کے بعد ایسا کوئی
نہیں تھا کہ جس سے انہوں نے کہا ہو کہ میں سلیامن ہوں ،اور ان کی تکذیب نہ کی
گئی ہو۔ یہاں تک کہ بچوں نے انہیں پتھروں سے مارا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو
سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ شیطان لوگوں میں حکومت کرنے لگا -جب اللہ نے اس
بات کا ارادہ کیا کہ حرضت سلیامن کو ان کی سلطنت واپس کی جائے تو انہوں نے لوگوں
کے دلوں میں القا کیا کہ اس شیطان کا انکار کریں۔ پس وہ ان کی بیویوں کے پاس گئے
اور ان سے پوچھا کہ آپ کو سلیامن میں کوئی چیز نظر آئی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! اب
وہ ہامرے پاس حیض کے دونوں میں بھی آتے ہیں ،جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔
یہی واقعہ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر ،ج ،7ص 60-59میں درج کیا ہے۔ سند کے
بارے میں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ
إسناده إل ابن عباس رض الله عنهام قَوِيَ ،ولَ ِك َّن الظَّا ِه َر أَنَّ ُه ِإمنَّ َا تَلَقَّا ُه ابْ ُن عباس رض الله
اب َو ِفي ِه ْم طائفة ال يعتقدون نبوة سليامن عليه الصالة عنهام ِإ ْن َص َّح َعنْ ُه ِم ْن أَ ْه ِل الْ ِكتَ ِ
ِ َ ِ
السيَاقِ ُمنْكَ َرات م ْن أشَ ِّدهَا ذكْ ُر والسالم فَالظَّا ِه ُر أَنَّ ُه ْم يَكْ ِذبُو َن َعلَيْهَ ،ول َهذَا كَا َن ِف هذا ِّ
ِ ِ
النِّ َسا ِء فَ ِإ َّن املشهور عن مجاهد وغُي واحد من أمئة السلف أَ َّن ذَلِ َك الْ ِجنِّ َّي لَ ْم يُ َسلَّ ْط َع َل
نِ َسا ِء سليامن بل عصمهن الله عز وجل منه ترشيفا وتكرميا لنبيه عليه السالمَ .وقَ ْد ُر ِويَ ْت
ه َِذ ِه الْ ِق َّص ُة ُمطَ َّولَ ًة َع ْن َج َام َعة من السلف رض الله عنهم ك ََس ِعي ِد بْنِ الْ ُم َس َّي ِب َو َزيْ ِد بْنِ
اب ،والله سبحانه وتعال أعلم أَ ْسلَ َم َو َج َام َعة آ َخرِي َن َوكُلُّ َها ُمتَلَقَّاة ِم ْن ق ََص ِص أَ ْه ِل الْ ِكتَ ِ
.بالصواب
اس کی سند ابن عباس تک قوی ہے۔ لیکن بظاہر یہ ان کو اہل کتاب سے ملی جسے
انہوں نے صحیح مانا۔ جب کہ ان میں ایک گروہ تھا جو کہ حرضت سلیامن کی نبوت کا
منکر تھا۔ اور بظاہر ان کی تکذیب کرتا تھا۔ اور اس میں شدید منکر باتیں ہیں خاص کر
بیویوں والی۔ اور مجاھد اور دیگر امئہ سے مشہور ہے کہ جن ان کی بیویوں پر مسلط
نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اللہ نے ان کی عصمت رکھی اور رشف و تکریم بخشا۔ اور یہ واقعہ
سلف میں ایک جامعت نے نقل کیا جیسا کہ سعید بن مسیت ،زید بن اسلم ،اور بعد کی
ایک جامعت نے بھی جن کو یہ اہل کتاب کے قصوں سے مال
جواب
تفسیر ابن حاتم ٩٠٠صفحات کی کتاب ہے اس میں کسی بھی روایت پر سند قوی یا
ضعیف یا صحیح نہیں ملتا
یہ واحد روایت 18355ہے جس پر َوب َِسنَد قَ َوي سند قوی ملتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس
کی سند ابن ابی حاتم نے نہیں دی
لگتا ہے اس میں ترصف و تحریف ہوئی ہے جب سند ہے ہی نہیں تو قوی کیسے ہوئی؟
کتاب الدخيل ف التفسُي
: GUQR5333كود املادة
املرحلة :ماجستُي املؤلف :مناهج جامعة املدينة العاملية النارش :جامعة املدينة العاملية
کے مطابق اس کی سند ہے
ومن أنكرها أيضً ا ما قال ابن أب حاتم :حدثنا عل بن حسي ،قال :حدثنا محمد بن العالء
وعثامن بن أب شيبة وعل بن محمد ،قال :حدثنا أبو معاوية ،قال :أخربنا األعمش ،عن
املنهال بن عمرو ،عن سعيد بن جبُي ،عن ابن عباس -رض الله عنهام -ف قوله – تعال ى:-
{ َولَ َق ْد فَتَنَّا ُسلَ ْي َام َن َوأَلْ َق ْينَا َع َل كُ ْر ِس ِّي ِه َج َسدًا ثُ َّم أَن َ
َاب} ،قال :أراد سليامن -عليه الصالة
والسالم -أن يدخل الخالء وكذا وكذا؛ ذكر الرواية التي سبق ذكرها
اس کی سند میں املنهال بن عمرو ہے جو ضعیف ہے
اومعلم و اوصخلض
عقائد کا قرآن و حدیث سے استخراج کرتے وقت خرب عام ہے یا خاص کا خیال رکھا جاتا
ہے ی ہ اصول نہایت منطقی ہے جس سے قرآن کی بعض باہم مخالف آیات کی ترشیح و
تطبیق کی جاتی ہے
گمراہ عقائد کو کشید کرنے کے لئے قرآن کے نصوص کو رد کر کے ان میں باہم اختالف کا
ذکر کیا جاتا ہے مثال قرآن کے مطابق روح کے جسم سے خروج کے بعد اس کا امساک
کیا جاتا ہے یعنی روک لیا جاتا ہے (سوره الزمر اور سوره االنعام) اس کے برعکس حیات
فی القرب کا عقیدہ اس امت کے گمراہ فرقوں نے اختیار کیا ہوا ہے جس میں مردہ
میں عود روح کروایا جاتا ہے اس کو استثنی قرار دے کر ایک خاص بات کہا جاتا ہے پھر
اس کو متام مردوں پر عام کر دیا جاتا ہے
اسی طرح سامع املوتی کے مسئلہ میں بھی زبردستی ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہا
کی آراء کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ گویا بعض کو صحیح عقیدہ پتا نہیں تھا اس طرح
اصحاب رسول اور امہات املومنین کو مختلف العقائد بتایا جاتا ہے جبکہ اصول جو قرآن
میں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ و ما یستوی االحیاء و االموات ان الله یسمع من یشاء کہ
مردہ زندہ برابر نہیں الله جس کو چاہے سنوائے -اس کے بعد متام مردوں میں زبردستی
ایک عجیب حیات کا بزعم خود دعوی کیا جاتا ہے جس میں وہ دفنانے والوں کے
قدموں کی چاپ سنتے ہیں اور ان سے مانوس بھی ہوتے ہیں
قرآن کے عموم و خصوص میں التباس پیدا کر کے ،قرب پرستی پر سند جواز دینے کے
بعد ،معصوم بن کر ان ال علم لوگوں پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے جو بعض محدثین کے
منہج پر قربوں سے فیض جاصل کر رہے ہیں مثال
محدث ابن حبان طوس جاتے ہیں اور قرب سے فیض لیتے ہیں – ابن حبان مردوں کے
سننے کے قائل تھے
اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں
وما حلت ب شدة ف وقت مقامي بطوس ,فزرت قرب عل بن موىس الرضا صلوات الله عل
جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إال أستجيب ِل ,وزالت عني تلك الشدة ,وهذا َشء
جربته مرارا ,فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی الحق ہوئی ،میں نے (امام) علی
بن موسی الرضا صلوات الله عل جده وعليه کی قربکی زیارت کی ،اور اللہ سے اس
پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی
دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا
]الثقات البن حبان ،ط دار الفكر[456 /8 :
ابن کثیر سوره التوبہ کی تفسیر میں فوت شدہ رشتہ داروں پر زندوں کا عمل پیش
ہونا لکھتے ہیں جبکہ قرآن میں کہیں یہ عقیدہ نہیں ابن کثیر تفسیر میں کہتے ہیں
افسوس علامء ہی نے ان عقائد کو پھیالیا جو تھے ہی غلط اور غیر ثابت – ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ ان پر توبہ کرتے لیکن اسالف پرستی میں ان سند یافتہ علامء نے اپنی خو
الگ ہی ڈالی اور لگے ان شخصیات اور ناموں کا دفاع کرنے اور اپنے تعلی و علمیت کا
رعب بٹھانے
عقائد میں اضطراب کو دور کرنے کے لئے اصول و خاص کی بحث بہت اہم ہے جو
اصول و فقہ کی کتب میں ہے – کتاب منهج علامء الحديث والسنة ف أصول الدين
از مصطفى محمد حلمي النارش :دار الكتب العلمية – بُيوت الطبعة :األول – 1426هـ
قرآن کے عموم و خصوص پر لکھتے ہیں
پس اللہ عز و جل نے چار قسم کی خاص و عام خربیں قرآن میں دیں جن میں ہیں
خرب جو خصوص سے نکلے اور اس کا معنی بھی مخصوص ہو اور یہ ہے الله تعالی کا
رشا ِم ْن ِطي) [ص ،اْلية ]71 :میں گیلی مٹی سے ایک برش خلق کر رہا قول (إِ ِّّن خَالِق بَ َ ً
يَس ِع ْن َد اللَّ ِه كَ َمثَ ِل آ َد َم) [آل عمران ،اْلية ]59 :بے َ عِ َل
َ ث م
َ ن
َّ ِ
إ ( قول کا ہوں اور الله تعالی
اس ِإنَّا َ
شک عیسی کی مثال الله کے نزدیک ایسی ہے جیسی آدم کی – پھر کہا (يَا أيُّ َها النَّ ُ
َخلَ ْقنَاكُ ْم ِم ْن َذكَر َوأُنْثَى) [الحجرات ،اْلية ]13 :اے لوگوں ہم نے تم کو مرد و عورت سے
پیدا کیا اور الناس میں آدم و عیسی جمع ہو گئے اور ان کے درمیان اور بعد والے انسان
پس مومن تعقل کرتے ہیں کہ آدم و عیسی کو (مرد و عورت سے تخلیق میں) شامر نہیں
کیا گیا کیونکہ انکی تخلیق کی خرب دی گئی
خرب مخرجه مخرج العموم ومعناه معنى الخصوص وهو قوله تعالَ ( :و َر ْح َمتِي َو ِس َع ْت 2
َشء) [األعراف ،اْلية ]156 :فعقل عن الله أنه مل يعن إبليس فيمن تسعه الرحمة ملا ك َُّل َ ْ
ِ َ ِ َ ِ َ َ
تقدم فيه من الخرب الخاص قبل ذلك وهو قوله(َ :أل ْم َْل َّن َج َهنَّ َم منْك َوم َّم ْن تَ ِب َعك منْ ُه ْم
خاصا لخروج إبليس ومن تبعه من أَ ْج َم ِع َي) [ص ،اْلية ]85 :فصار معنى ذلك الخرب العام ً
.سعة رحمة الله التي وسعت كل َشء
خرب جو عموم سے نکلے اور اس کا معنی مخصوص ہو اور یہ الله تعالی کا قول ہے
َشء) [األعراف ،اْلية ]156 :میری رحمت ہر شی پر پھیلی ہے پس ( َو َر ْح َم ِتي َو ِسعَتْ ك َُّل َ ْ
یہ الله کا مقصد ہے کہ اس میں ابلیس کو شامر نہیں کیا گیا جس کو رحمت سے الگ کیا
ہے جیسا کہ اسکی خرب خاص دی پہلے (ألَ َ ْم َْلَ َّن َج َهنَّ َم ِمنْ َك َو ِم َّم ْن ت َ ِب َع َك ِمنْ ُه ْم أَ ْج َم ِع َي)
[ص ،اْلية ]85 :بالشبہ میں جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور جو تیری اتباع کریں گے
،سب کو! پس یہ خرب معنا عام ہے خاص ابلیس کا خروج ہے اور جو اس کی اتبآع کریں
انکو اس رحمت سے الگ کیا جو چیز پر چھائی ہے
َ
خرب مخرجه مخرج الخصوص ومعناه معنى العموم وهو قولهَ ( :وأنَّ ُه ُه َو َر ُّب الشِّ ْع َرى) – 3
خاصا ومعناه عا ًما [.النجم ،اْلية ، ]49 :فكان مخرجه ً
خرب جو نکلی ہے خصوص سے اور اسکا معنی عموم ہے اور الله تعالی کا قول ہے ( َوأَنَّ ُه
ُه َو َر ُّب الشِّ ْع َرى) [النجم ،اْلية ]49 :اور بے شک وہ الشِّ ْع َرى کا رب ہے پس یہ خاص خرب
ہے لیکن اس کا معنی عام ہے
.خرب مخرجه العموم ومعناه العموم 4-
فهذه األربعة األخبار خص الله العرب بفهمها ومعرفة معانيها وألفاظها وخصوصها وعمومها
والخطاب بها ،ثم مل يدعها اشتباهاً عل خلقه وفيها بيان ظاهر ال يخفى عل من تدبره من
غُي العرب ممن يعرف الخاص والعام،
سوره کہف میں ذی القرنین اور یاجوج ماجوج کے واقعہ پر سوال ہے
اور موسی و خرض کے واقعات ترتیب میں کیوں بیان ہوئے ہیں ،اس میں کیا حکمت ہے؟ کیا
کسی نے سد یاجوج ماجوج کو دیکھا ہے؟
جواب سوره کہف الله تعالی نے اہل کتاب کے کچھ سواالت کے جوابات کے سلسے میں نازل کی
ہے
اہل کتاب کے سواالت تو ہم تک نہیں پہنچے لیکن تاریخ کی کتب میں اس پر کچھ وضاحت
ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہود کا ان شخصیات و قوموں پر اختالف تھا یہود کے
نزدیک
اول موسی و خرض والے واقعہ میں موسی بن عمران علیہ السالم نہیں کوئی اور ہے
دوم خرض ،ذی القرنین کے ساتھی تھے اور انہوں نے آب حیات پیا ہوا تھا
سوم ذی القرنین پر بھی اختالف ہے کہ کون ہے؟ بائبل میں ان کا تذکرہ نہیں ہے –
چہارم یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور
ماجوج قوم ہے
کتاب البدء والتاريخ از املطهر بن طاهر املقدِس (املتوىف :نحو 355هـ) کے مطابق
زعم وهب أن اسم الخرض بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح وكان أبوه
ملكا وقال قوم الخرض بن عاميل من ولد إبراهيم وف كتاب أب حذيفة أن ارميا هو الخرض صاحب
موىس وكان الله أخر نبوته إل أن بعثه نبيا زمن ناشية امللك قبل أن يغزو نرص بيت املقدس وكثُي
من الناس يزعمون أنه كان مع ذي القرني وزيرا ً له وابن خالته وروى عن ابن عباس رض الله عنه أن
الخرض هو اليسع وإمنا سمي خرضا ألنه ملا رشب من عي الجنة مل يدع قدمه باألرض إال اخرض ما
حوله فهذا االختالف ف الخرض قالوا وهو مل ميت ألنه أعطى الخلد إل النفخة األول موكل بالبحار
ويغيث املضطرين واختلفوا ف موىس الذي طلبه فقيل هو موىس بن عمران وقال أهل التوراة أنه
موىس بن منشا ابن يوسف بن يعقوب وكان نبيا قبل موىس بن عمران [ ]2كان قد قص الله خربهام
ف القرآن املجيد عز من قائل َوإِذْ قال ُموىس لِفَتا ُه ال أَبْ َر ُح َحتَّى أَبْلُ َغ َم ْج َم َع الْ َب ْح َريْنِ أَ ْو أَ ْم ِ َ
ض ُحقُباً
60 :18إل آخر القصة وقد ذكرتهام مبعانيها ودعاويها ف املعاّن،،،
وھب بن منبہ نے دعوی کیا کہ خرض کا نام بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام
بن نوح ہے اور ان کا باپ ایک بادشاہ تھا اور ایک قوم نے کہا خرض بن عاميل (نام تھا) ابراہیم کی
اوالد میں اور ابی حذیفه کی کتاب میں ہے کہ ارمیا ہی خرض ہے جو موسی کے صاحب تھے اور
الله نے ان کی نبوت کو موخر کیا ….یہاں تک کہ انہوں نے بیت املقدس کی نرصت کی اور بہت
سے لوگوں نے دعوی کیا کہ وہ ذی القرنین کے ساتھ تھے اور اس کے وزیر تھے اور ان کے خالہ
زاد بھائی تھے اور ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کیا جاتا ہے کہ الخرض ہی الیسع ہیں اور ان
کو خرض اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنت کی نہر میں سے پیا تھا اور ان کے قدم زمین پر
پڑنے سے اس کے ارد گرد سبزہ ہوتا ہے تو یہ اختالف ہے خرض سے متعلق اور کہا جاتا ہے ان کی
موت نہیں ہوئی کیونکہ ان کو صور میں پھونکنے تک زندگی حاصل ہے موکل سمندر پر ہیں اور
مضطر کی دعا سنتے ہیں اور ان کے بارے میں اختالف ہے کہ موسی نے جن کو طلب کیا تھا
پس کہا جاتا ہے کہ وہ موسی بن عمران ہیں اور اہل توریت کہتے ہیں وہ موىس بن منشا ابن
يوسف بن يعقوب جو موسی بن عمران سے قبل نبی تھے جن کے قصے کی خرب الله نے قرآن
میں دی ہے کہا َوإِذْ قامل ُوىس لِفَتا ُه ال أَبْ َر ُح َحتَّى أَبْلُ َغ َم ْج َم َع الْبَ ْح َريْنِ أَ ْو أَ ْم ِ َ
ض ُحقُباً 60 :18سے
آخر تک
کتاب املنتظم فی تاريخ األمم وامللوك از ابن الجوزی (املتوىف597 :هـ) کے مطابق
الخرض قَ ْد كَا َن قبل موىس ،ق ََال الطربي :كَا َن ِف أَيَّام أفريدُو َن الْ َملِك بْن أثفيان .ق ََال :وقيل :إنه كَا َن
َ .ع َل مقدمة ذي الْ َق ْرن ْ َِي األكرب ،الَّ ِذي كَا َن أَيَّام إِبْ َرا ِهيم
وذي الْ َق ْرن ْ َِي ِعنْ َد قوم ُه َو أفريدُونَ ،وزعم بَ ْعضهم أَنَّ ُه من ولد من كَا َن آمن بالخليل َعلَيْ ِه َّ
السالم،
.وهاجر َم َع ُه من أرض بابل
َ .وق ََال َعبْد الله بْن شوذب :الخرض من ولد فارس
َ .وق ََال ابْن ِإ ْس َحاقُ :ه َو من سبط هَا ُرون بْن عمران
وقول من ق ََال :إنه كَا َن ِف زمان أفريدُو َن أَكْثَ من ألف َسنَة ،والخرض قديم إال أَنَّ ُه ملا كَا َن ذكره َل ْم
.ينبغ إال ف زمان موىس ذكرناه هاهنا
خرض موسی سے قبل تھے طربی کہتے ہیں یہ شاہ (ایران) افریدوں بن أثفيان کے دور میں تھے
اور کہا :کہا جاتا ہے کہ ذی القرنین کے ساالر تھے جو ابراہیم کے دور میں تھے
اور ذی القرنین ایک قوم کے نزدیک افریدوں ہے اور ان میں بعض کا دعوی ہے کہ وہ ابراہیم پر
ایامن الئے اور ان کے ساتھ ہجرت کی بابل میں اور َعبْد اللَّ ِه بْن شوذب کہتے ہیں خرض فارس
میں پیدا ہوئے اور محمد بن اسحاق کہتے ہیں وہ ہارون بن عمران کی نسل میں سے ہیں اور جو
کہتے ہیں کہ ذی القرنین افریدوں کے دور میں تھے تو وہ ہزار سال سے زیادہ ہے اور خرض تو
پرانے ہیں پس جب ان کا اس میں دور ذکر ہوتا ہے تو ان کو موسی کے دور تک نہیں پہنچاتا
ُوبَ ،والْ َح ِديثُ وس َف بْنِ يَ ْعق َ وىس بْ ُن َمنْ ََش بْنِ يُ ُ َرض ُه َو ُم َ وىس َصا ِح َب الْخ ِ ِ ابِ :إ َّن ُم َق ََال أَه ُْل الْ ِكتَ ِ
وىس بْ ُن ِع ْم َرا َن َع َل َما َرض ُه َو ُم َ وىس َصا ِح َب الْخ ِ ِ يح َعنِ النَّب ِِّي – َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم – أَ َّن ُم َ الص ِح ُ
َّ
َرض ِم َّم ْن كَا َن أَيَّا َم أَفْرِيدُو َن الْ َملِ ِك بْنِ أَث ْ ِغ َيا َن ِف قَ ْو ِل ُعل ََام ِء أَ ْه ِل الْكُ ُت ِب األْ ُ َو ِل قَ ْب َل
نَ ْذكُ ُرهُ َ .وكَا َن الْخ ُِ
وىس بْنِ ِع ْم َرا َنُ .م َ
َوقِ َيلِ :إنَّ ُه بَلَ َغ َم َع ِذي الْ َق ْرن ْ َِي األْ َك َ ِْرب الَّ ِذي كَا َن ِف أَيَّامِ إِبْ َرا ِهي َم الْ َخلِيلَِ ،و ِإنَّ ُه بَلَ َغ َم َع ِذي الْ َق ْرن ْ َِي نَ ْه َر
.الْ َحيَا ِة ف ََرش َِب ِم ْن َمائِ ِه َوالَ يَ ْعلَ ُم ذُو الْ َق ْرن ْ َِي َو َم ْن َم َعهُ ،فَ ُخلِّ َد َو ُه َو َحي ِعنْ َد ُه ْم إِ َل ا ْْلنِ
َو َز َع َم بَعْضُ ُه ْم :أَنَّ ُه كَا َن ِم ْن َولَ ِد َم ْن آ َم َن َم َع ِإبْ َرا ِهي َمَ ،وهَا َج َر َم َعهَُ ،و ْاس ُم ُه بَ ْل َيا بْ ُن َم ْلكَا َن بْنِ فَالَ َغ بْنِ
يامَ .وق ََال آ َخ ُرونَ :ذُو الْ َق ْرن ْ َِي الَّ ِذي َعابِ ِر بْنِ شَ الَ َخ بْنِ أَ ْرفَخْشَ َذ بْنِ َسامِ بْنِ نُوحَ ،وكَا َن أَبُو ُه َملِكًا َع ِظ ً
كَا َن َع َل َع ْه ِد إِبْ َرا ِهي َم أَفْرِيدُو ُن بْ ُن أَث ْ ِغيَانََ ،و َع َل
ُوب
وس َف بْنِ يَ ْعق َ
وىس بْ ُن َمنْ ََش بْنِ يُ ُ
اہل کتاب کہتے ہیں موسی جو خرض کے صاحب تھے وہ ُم َ
تھے اور صحیح حدیث میں ہے کہ موسی جو خرض کےصاحب تھے وہ موسی بن عمران ہیں
… اورخرض جوشاہ افریدوں کے دور میں تھے جیسا اہل کتاب کے علامء کا قول ہے تو وہ تو
موسی بن عمران سے پہلے کے ہیں
اور کہا جاتا ہے خرض ذی القرنین االکرب کے ساتھ تھے جو ابراہیم کے دور میں تھے اور وہ ذی
القرنین کے ساتھ آب حیات تک پہنچے اور انہوں نے اس میں سے پیا ،ذی القرنین اور ان کے
ساتھ والوں کو پتا نہیں تھا ،پس خرض کو حیات جاویداں ملی اور وہ زندہ ہیں اب بھی
اور بعض نے دعوی کیا کہ وہ ان ایامن والوں کی اوالد میں سے ہیں جو ابراہیم پر ایامن الئے اور
ان کے ساتھ ہجرت کی اور ان کا نام بَلْيَا بْ ُن َملْكَا َن بْنِ فَالَ َغ بْنِ َعابِ ِر بْنِ شَ الَ َخ بْنِ أَ ْرفَخْشَ َذ بْنِ َسامِ
بْنِ نُوح ہے اور ان کے باپ ایک عظیم بادشاہ تھے اور دورسے کہتے ہیں ذی القرنین جو ابراہیم
کے دور میں تھے أَفْرِيدُو ُن بْ ُن أَث ْ ِغ َيا َن تھے اور ان کے ساالر خرض تھے
وس َف بْنِ وىس بْ ُن ِميشَ ا بْنِ يُ ُ َرض ُه َو ُم َ وىس َهذَا الَّ ِذي َر َح َل إِ َل الْخ ِ ِ اب ِإ َّن ُم َ ق ََال بَ ْع ُض أَ ْه ِل الْ ِكتَ ِ
ُوب بْنِ ِإ ْس َحاقَ بْنِ إِبْ َرا ِهي َم الْ َخلِي ِل َوتَابَ َع ُه ْم َع َل ذَلِ َك بَ ْع ُض َم ْن يَأْ ُخ ُذ ِم ْن ُص ُح ِف ِه ْم َويَنْق ُُل َع ْن يَ ْعق َ
َاِلَ .ويُق َُال ِإنَّ ُه ِد َمشْ ِقي َوكَانَتْ أُ ُّم ُه َز ْو َج َة كَ ْع ِب ِ ُّ ك ب
ِ ْ لا ي
ُّ ِ
م ا الشَّ ي ِ
ُي
ْ َ ُّ م ِ
ح ْ لا َ
ة َ لا َضَ ف ن ُ ِ
كُ ُت ِب ِه ْم ْ ُ ْ ْ ْ ُ
ب ف و َ ن م هن م
َ ِ
الرصِيحِ الْ ُمتَّفَقِ َعلَيْه أنَّ ُه الصحيحِ َّ ِ يح الَّ ِذي د ََّل َعلَيْه ظَاه ُر سيَاقِ الْ ُق ْرآنِ َون َُّص الْ َحديث َّ
ِ ِ ِ ِ ِ الص ِح ُ األْ َ ْحبَا ِر َو َّ
رسائِ َيل .ق ََال الْبُخَا ِر ُّي َح َّدثَنَا الْ ُح َميْ ِد ُّي َح َّدثَنَا ُس ْفيَا ُن َح َّدثَنَا عمر بْ ُن وىس بْ ُن ِع ْم َرا َن َصا ِح ُب بَ ِني إِ ْ َ ُم َ
َرض لَ ْي َس وىس َصا ِح َب الْخ ِ ِ َاِل يَ ْز ُع ُم أَ َّن ُم َ
ِدينَار أَخ َ َْرب ِّن َس ِعي ُد بْ ُن ُج َب ُْي ق ََال قُلْتُ ِالبْنِ َع َّباس ِإ َّن نَ ْوفًا الْ ِبك َِّ
رسائِ َيل .ق ََال ابْ ُن َع َّباس كَذ ََب َع ُد ُّو اللَّ ِه وىس َصا ِح َب بَ ِني إِ ْ َ ُ .ه َو ُم َ
وىس بْ ُن ِميشَ ا بْنِ بعض اہل کتاب کہتے ہیں کہ موسی جنہوں نے خرض کے ساتھ سفر کیا وہ ُم َ
ُوب بْنِ ِإ ْس َحاقَ بْنِ إِبْ َرا ِهي َم الْ َخلِي ِل ہیں اور اس قول کی اتباع جو کرتے ہیں جو ان
وس َف بْنِ يَ ْعق َ يُ ُ
کے کچھ صحف لیتے ہیں اور ان کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں جن میں نَ ْو ُف بْ ُن فَضَ الَ َة الْ ِح ْم َ ُِي ُّي
َاِل ہیں اور ان کو دمشقی بھی کہا جاتا ہے اور ان کی ماں کعب االحبار کی بیوی تھیں الشَّ ا ِم ُّي الْ ِبك ِ ُّ
… .سعید بن جبیر نے ابن عباس سے کہا نوف البکالی کہتا ہے کہ موسی جو صاحب الخرض تھے
وہ بنی ارسئیل والے موسی نہیں ہیں ابن عباس نے کہا جھوٹ بولتا ہے الله کا دشمن
الكامل از ابن اثیر میں ذكر ملك أفريدون میں اثیر لکھتے ہیں
وهو أفريدون بن أثغيان ،وهو من ولد جم شيد .وقد زعم بعض
نسابة الفرس أن نوحا هو أفريدون الذي قهر الضحاك ،وسلبه ملكه ،وزعم بعضهم
أن أفريدون هو ذو القرني صاحب إبراهيم الذي ذكره الله ف كالمه العزيز ،وإمنا ذكرته ف هذا
املوضع ألن قصته ف أوالده الثالثة شبيهة بقصةنوح عل ما سيأِت ولحسن سُيته ،
وهالك الضحاك عل يديه ،وألنه قيل إن هالك الضحاك كان عل يد نوح .اور فارس کے بعض نسب
والوں نے دعوی کیا کہ نوح ہی افریدوں ہے جن کی جنگ الضحاك سے ہوئی تھی اور
وہ أفريدون بن أثغيان ہیں جو جمشید کی اوالد میں سے ہیں اور ان سے ملک چھنا اور بعض
… نے دعوی کیا کہ افریدوں ذی القرنین ہیں جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے
وأما باقي نسابة الفرس فإنهم ينسبون أفريدون إل جم شيد امللك .اور بقیہ نسب فارس والوں نے
افریدوں کی نسبت جمشید سے کی ہے
اس اختالف میں جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ موسی و خرض ہم عرص ہیں -خرض انسان تھے-
قرآن کے مطابق موسی علیہ السالم صاحب تورات ہیں کوئی اور نہیں – ذی القرنین اور خرض ہم
عرص نہیں ،بلکہ ذی القرنین ایک بہت قدیم بادشاہ ہیں جب تاریخ لکھنے کا بھی آغاز نہیں ہوا
تھا -قدیم ایرانی و فارسی نساب نے ذی القرنین کو شاہ افریدوں کہا گیا ہے جن کا ذکر قدیم
فارس کی داستانوں میں ملتا ہے -یہودی شاید بابل کی غالمی کے دور میں ان سے واقف ہوئے
سکندر ،ذی القرنین نہیں جیسا کہ بعض مفسین کا دعوی ہے -سکندر تو موسی علیہ
السالم کے بھی بعد کا ہے جبکہ ذی القرنین کا دور شاید ابراہیم علیہ السالم سے بھی پہلے کا
ہے -بعض لوگوں نے ذی القرنین کی دیوار کو دیوار چین سے بھی نسبت دی ہے جو سن ٢٢٠
سے ٢٠٦قبل مسیح میں بنی ہے -لھذا ذی القرنین اور سکندر ایک نہیں ہیں -ابو الکالم آزاد کی
تحقیق کے مطابق ذی القرنین سے مراد قدیم ایرانی بادشاہ کوروش ہے جن کا دور ٥٣٩سے ٥٣٠
قبل مسیح تھا لیکن یہ بھی بعد کے ہیں اور ذی القرنین نہیں ہیں یہ مغالطہ اس لئے ہوا کہ
کوروش اور سنکندر دونوں کو سینگ والے تاج پہنے قدیم سکوں میں دکھایا گیا ہے سکندر نے
بھی فارس میں سکونت اختیار کی اور وہ خالص بت پرست تھا اور کوروش قدیم اہرمن و یزدان
واال دھرم رکھتا تھا – قرآن کے مطابق ذی القرنین مسلامن اور موحد تھا
کوروش اور سکندر دونوں کو قدیم سکوں افریدوں سے نسبت دینے کے لئے سینگوں واال تاج
پہنے دکھایا گیا کیونکہ افریدوں کو ایک عادل شاہ کہا جاتا ہے
عرب جغرافیہ دان اور یاجوج ماجوج
عرب جغرافیہ دانوں نے زمین کو سات نصف دائروں یا اقلیم میں تقسیم کیا شامل کی جانب
عالقہ جہاں کے بارے میں معلومات نہیں تھیں وہ یاجوج ماجوج کا مسکن تھا اس سے نیچے کا
عالقہ جافث کی نسل یعنی نوح کی نسل سمجھا جاتا تھا جن میں چین کے لوگ ترک ،بلغار،
الخزر ،الن ،مغار ،سالوو ،فرانک لوگ شامل تھے -بحُية خوارزم ،سیحون اور جیحوں کے دریا بھی
اسی اقلیم میں ہیں -الخزر ایک یہودی ریاست تھی جو عباسیوں کے دور میں بھی موجود تھی
اور اس کے پاس کے مسلامن عالقے اس کو خراج بھی دیتے تھے
یاجوج ماجوج بھی بائبل کے مطابق جافث کی نسل سے ہیں – ان کے اور باقی انسانوں کے
درمیان بلند پہاڑ حائل ہیں اور ایک دیوار جو ذی القرنین نے بنائی موجودہ بنی آدم اور ان کے
درمیان حائل ہے
أبو عبد الله أحمد بن محمد بن إسحاق الهمداّن املعروف بابن الفقيه (ت )365نے اس دیوار کا
تذکرہ کتاب البلدان میں کیا ہے کتاب املسالك واملاملك جو أب القاسم عبيد الله بن عبد الله
املعروف بابن خرداذبه املتوىف 300هـ کی تالیف ہے اس میں ذکر ہے کہ ایک شخص سالم
الَّتجامن ،الخليفة الواثق ( 232 -227هـ) کے حکم پر سد يأجوج ومأجوج تک گیا
ہارون رشید کے پوتے خلیفہ واثق ٨٤٢سے ٨٤٧ع نے ایک روز سن ٨٤٢ع میں خواب دیکھا کہ
سد ذی القرنین ٹوٹ گئی ہے انہوں نے اس کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک ہوشیارشخص سالم
کو جو تیس زبانوں میں طاق تھے صورت حال جاننے کے لئے بھیجا – سالم ٨٤٤ع میں واپس آئے
اور متام واقعات کتاب کی صورت میں لکھے جن کو ابن الفقيه نے ان سے سن کر اپنی کتاب میں
– لکھا
بحر الحال ہامرے نزدیک یہ قصہ گوئی رصف خلیفہ کی خواہش پر ہوئی کیونکہ ایک طویل سفر
کے بعد سالم ترجامن کو کچھ تو عجیب و غریب بیان کرنا ہی تھا
دوم بعض تابعین کے اقوال ہیں کہ اس سے مراد حاکم ہیں اور بعض کہتے ہیں اہل علم و فقہ
ہیں -یہ اختالف کی وجہ سے ہوا یہاں تک کہ ابن زبیر تک سے ابن عباس کا اختالف ہوا اور ابن
عباس کو مکہ چھوڑنا پڑا -گویا اولو االمر کی اطاعت ابن عباس نے نہیں کی ان کا ابن زبیر سے
اختالف ہوا – ابن زبیر نے ابن عباس کو اندھا کہا
صحیح مسلم
لیکن ابن عباس رضی الله عنہ نے پھر بھی آیات کا مفہوم نہ بدال
تفسیر طربی میں ہے
حدثنا الحسن بن الصباح البزار قال ،حدثنا حجاج بن محمد ،عن ابن جريج قال ،أخربّن يعل بن
مسلم ،عن سعيد بن جبُي ،عن ابن عباس أنه قال”:يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول
وأوِل األمر منكم” ،نزلت ف رجل بعثه النبي صل الله عليه وسلم عل رسية
ابن عباس نے کہا یہ آیت ایک شخص کے سلسلے میں اتری جس کو رسیہ پر بھیجا گیا تھا
احمد شاکر کے مطابق سند میں ثقات ہیں
معلوم ہوا کہ ابن عباس کا موقف صحیح سند سے یہی ہے کہ اس آیت میں حکمران مراد ہیں
سوم امام بخاری کا صحیح میں موقف ہے کہ اس سے مراد اہل علم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان
کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ صحیح نہیں
==================================
اس طرح کے بہت سے اقوال ابن أب نجيح نے مجاہد سے منسوب کیے ہیں
وقال إبراهيم بن الجنيد قلت ليحيى بن معي أن يحيى بن سعيد يعني القطان يزعم أن بن أب
نجيح مل يسمع التفسُي من مجاهد
محدثین کا کہنا ہے کہ ابن أب نجيح کا سامع مجاہد سے نہیں ہے
حدثنا الحسن بن يحيى قال ،أخربنا عبد الرزاق قال ،أخربنا معمر ،عن الحسن ف قوله”:وأوِل األمر
.منكم” ،قال :هم العلامء
حسن برصی نے کہا اہل علم ہیں
معمر نے حسن سے روایت کیا ہے
وقال أحمد بن حنبل مل يسمع من الحسن
سند منقطع ہے
تفسیر طربی میں ہے
حدثني املثنى قال ،حدثنا إسحاق قال ،حدثنا ابن أب جعفر ،عن أبيه ،عن الربيع ،عن أب العالية ف
قوله”:وأوِل األمر منكم” ،قال :هم أهل العلم ،أال ترى أنه يقولَ ( :ولَ ْو َردُّو ُه إِ َل ال َّر ُسو ِل َوإِ َل أُ ِ
وِل
األ ْم ِر ِمنْ ُه ْم لَ َعلِ َم ُه الَّ ِذي َن يَ ْستَنْ ِبطُونَ ُه ِمنْ ُه ْم) [سورة النساء ]83 :ابو عالیہ نے کہا اس سے مراد اہل
علم ہیں کیا تم دیکھتے نہیں کہ قول ہے
اور اس کو الله کے رسول اور اولی االمر کی طرف لوٹا دو کہ وہ جان سکیں
يب بْ ُن ن َِاصح ،ثنا الْ ُمبَا َر ُك بْ ُن فَضَ الَةََ ،عنِ رض َم ْوتَ ،ثنا الْخ َِص ُ رض ِم ُّي بِ َح ْ َ
َح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن الْ َح َّجاجِ الْ َح ْ َ
وِل الْ ِعلْمِ َوالْ ِف ْق ِه َوالْ َع ْق ِل َوال َّرأْ ِي
وِل األَ ْم ِر ِمنْكُ ْم ق ََال :أُ ِ
.الْ َح َسنِ ِف قَ ْو ِل اللَّ ِه تَ َع َال َوأُ ِ
حسن برصی نے کہا اہل علم و فقہ و عقل و رائے ہیں
سند میں مبارک ضعیف ہے
=========
راقم کہتا ہے کہ اس سے مراد حکمران ہی ہیں لیکن بہت سے تابعین جو ابن زبیر کے دور
خالفت میں تھے وہ ابن عباس کو پسند کرتے تھے اور انہوں نے ابن عباس سے علم لیا اور کہنا
رشوع کیا کہ ان آیات سے مراد حکمران نہیں اہل علم ہیں یعنی ابن عباس – اسی طرح ابن زبیر
کے بعد بنو امیہ کا دور ہوا تو بھی یہ حجاج کو پسند نہ کرتے اور اس قسم کے فتوی دیتے تھے
جبکہ آیت واضح ہے کہ امراء مراد ہیں
=========
امام بخاری نے جامعت کے مفھوم کو اہل اقتدار کی اطاعت سے نکال کر اہل علم کی طرف کیا
لہذا امام بخاری صحیح میں باب قائم کرتے ہیں
باب قوله تعال{ :وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة ]143 :وما أمر النبي صل الله عليه وسلم
بلزوم الجامعة ،وهم أهل العلم
اور الله کا قول {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة ]143 :اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم
کہ جامعت کو
پکڑو اور وہ اہل علم ہیں
یعنی اہل اقتدار یا اولواالمر کی اطاعت سے نکال کر اس کو علامء کی اطاعت قرار دیا
اس کی دورسی مثال صحیح میں ہی ہے جہاں امام بخاری باب قائم کرتے ہیں
باب إذا اجتهد العامل أو الحاكم ،فأخطأ خالف الرسول من غُي علم ،فحكمه مردود لقول النبي صل
الله عليه وسلم« :من عمل عمال ليس عليه أمرنا فهو رد
باب کہ جب گورنر یا حاکم اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے خالف رسول بغیر علم کہے تو
وہ قول مردود ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی بنا پر کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کا
ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد ہے
امام بخاری صحیح میں باب قول الله تعال{ :وأمرهم شورى بينهم میں لکھتے ہیں
ورأى أبو بكر قتال من منع الزكاة ،فقال عمر :كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صل الله عليه
وسلم ” :أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا ال إله إال الله ،فإذا قالوا :ال إله إال الله عصموا مني
دماءهم وأموالهم إال بحقها وحسابهم عل الله ” فقال أبو بكر :والله ألقاتلن من فرق بي ما جمع
رسول الله صل الله عليه وسلم «ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت أبو بكر إل مشورة إذ كان عنده
حكم رسول الله صل الله عليه وسلم ف الذين فرقوا بي الصالة والزكاة وأرادوا تبديل الدين
وأحكامه» وقال النبي صل الله عليه وسلم« :من بدل دينه فاقتلوه
اور ابو بکر نے زکات کے انکاریوں سے قتال کیا اور عمر نے کہا آپ کیسے قتال کر سکتے ہیں
لوگوں سے اور بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ
لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ ال
الہ اال اللہ نہ کہہ دیں اور جب کہہ دیں تو ان کا خوں اور مال مجھ سے بچ گئے سوائے حق کے
اور ان کا حساب الله کے ذمے ہے پس ابو بکر نے کہا کہ الله کی قسم میں قتال کروں گا جو اس
چیز میں فرق کرے جس پر رسول للہ نے جمع کیا پھر عمر ان کے تابع ہوئے اور ابو بکر نے ان
سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس رسول الله کا حکم تھا ان کے لئے جو فرق کریں مناز اور
زکات میں اور دین کو تبدیل کریں اور اس کے احکام کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
جو دین بدلے اس کو قتل کرو
===========
امام بخاری کے نزدیک ان قبائل نے دین کو تبدیل کیا اور اس وجہ سے مرتد قرار پائے
امام بخاری نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا کیونکہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ خلق
قرآن غلط تھا انہوں نے اس پر کتاب خلق االفعال العباد بھی لکھی اور کہا جو خلق قرآن کا
موقف رکھے وہ جھمی ہے اس کے پیچھے مناز نہیں ہو گی
امت کے رشوع کے خلفاء مثال خلفاء جو اصحاب رسول ہیں اہل علم میں سے ہیں -ابو بکر بطور
حاکم فیصلہ کر سکتے ہیں
لیکن محدثین نے لگتا ہے اس کو خلط ملط کر دیا ابو بکر کو خلیفہ کم اہل علم لے لیا اور
سمجھا کہ اہل علم بھی وہ فیصلے کر سکتے ہیں جو حاکم کرتا ہے
اس لطیف فرق میں تفریق نہ کرنے کی وجہ سے علامء نے حکومت کے معامالت میں مداخلت
کرنا رشوع کر دی
راقم کے نزدیک اس آیت کے مفہوم کو بدلنا صحیح نہیں جو الله نے کہہ دیا وہ ظاہر ہے
حکمران ہیں – ان سے اختالف ایک الگ بحث ہے لیکن مفہوم بدل کر اس کو اہل علم کی طرف
موڑنا صحیح نہیں ہے
یاد رہے علامء رصف فتوی دے سکتے ہیں لیکن گورمننٹ احکام کو نافذ کرتی ہے اور حد قائم
کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے
صدقات جمع کرنے ان کو تقسیم کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے
اگر آیت کا مفہوم اسطرح بدل تو پھر قرآن کے باقی احکام کو نافذ کون کرے گا – اس پر بھی
علامء کو لیا جائے گا – علامء کا زکواة کھانا حالل ہو جاتا ہے ان کا قتل و ارتاد کے فتوی دینا جائز
ہو جاتا ہے – حکومت کے ہوتے نجی حکومت قائم کرنا جائز ہو جاتا ہے
یہ فساد فی االرض کی طرف لے کر جائے گا
اگرچہ طربی نے تفسیر میں ہر طرح کے اقوال جمع کیے ہیں لیکن وہ خود آیت َولَ ْو َردُّو ُه إِ َل
ال َّر ُسو ِل َوإِ َل أُ ِ
وِل األ ْم ِر ِمنْ ُه ْم لَ َعلِ َم ُه الَّ ِذي َن يَ ْستَنْ ِبطُونَ ُه ِمنْ ُه ْم کی تفسیر میں کہتے ہیں
قال أبو جعفر :وأول األقوال ف ذلك بالصواب ،قول من قال :هم األمراء والوالة = لصحة األخبار عن
رسول الله صل الله عليه وسلم باألمر بطاعة األمئة والوالة فيام كان [لله] طاعةً ،وللمسلمي مصلحة،
اور اولی اقوال اس سلسلے جو ٹھیک ہیں وہ وہ ہیں جن میں ہے کہ یہ امراء اور والت ہیں ان
خربوں کی صحت کی بنا پر جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ امئہ اور الوالة
کی اطاعت کرو جس میں الله کی اطاعت ہو اور مسلامنوں کی اصالح ہو
قال أبو جعفر :يعني جل ثناؤه بقوله”:ولو ردوه” ،األمر الذي نالهم من عدوهم [واملسلمي] ،إل
رسول الله صل الله عليه وسلم وإل أوِل أمرهم يعني وإل أمرائهم
طربی نے کہا الله کا قول کہ اس کو لوٹاو یعنی حکم ..رسول الله کی طرف اور اولی امر کی طرف
یعنی امراء کی طرف
جواب
محدث ابن الصالح املتوفی ٦٤٣ھ (بحوالہ فتح الباری از ابن حجر) کہتے ہیں
امام النووی املتوفی ٦٧٦ھ رشح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں
الصو ِفيَّ ِة َوأَ ْه ِل َّ
الص َالحِ ي أَظْ ُه ِرنَا َوذَلِ َك ُمتَّفَق َعلَيْ ِه ِعنْ َد ُّ
ُج ْم ُهو ُر الْ ُعل ََام ِء َع َل أَنَّ ُه َحي َم ْو ُجود بَ ْ َ
َوالْ َم ْع ِرفَ ِة
جمہور علامء کے نزدیک وہ زندہ ہیں اور ہامرے ساتھ موجود ہیں اور یہ بات صوفیہ اور أَ ْه ِل
الص َالحِ َوالْ َم ْع ِرفَ ِة میں متفق ہے
َّ
کتاب شذرات الذهب ف أخبار من ذهب از ابن العامد ال َعكري الحنبل ،أبو الفالح (املتوىف:
1089هـ) کے مطابق
قيل :كان ملكا وقيل برشا وهو الصحيح ،ثم قيل :إنه عبد صالح ليس بنبي وقيل :بل نبي هو
.الصحيح .والصحيح عندنا أنه حي ،وأنه يجوز أن يقف عل باب أحدنا مستعطيا له ،أو غُي ذلك
کہا جاتا ہے وہ (خرض) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے برش تھے اور یہ صحیح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ
وہ ایک صالح بندے تھے نبی نہیں تھے اور یہ صحیح ہے اور ہامرے نزدیک یہ صحیح ہے کہ وہ
زندہ ہیں اور یہ بھی جائز ہے کہ کسی کے در پر رکیں اور دیں یا اسی طرح دیگر
کتاب ديوان املبتدأ والخرب ف تاريخ العرب والرببر ومن عارصهم من ذوي الشأن األكرب از عبد
الرحمن بن محمد بن محمد ،ابن خلدون أبو زيد ،وِل الدين الحرضمي اْلشبيل (املتوىف808 :هـ)
کے مطابق
ومنهم من يقول إن كامل اْلمام ال يكون لغُيه فإذا مات انتقلت روحه إل إمام آخر ليكون فيه ذلك
الكامل وهو قول بالتناسخ ومن هؤالء الغالة من يقف عند واحد من األمئة ال يتجاوزه إل غُيه
بحسب من يعي لذلك عندهم وهؤالء هم الواقفية فبعضهم يقول هو حي مل ميت إال أنه غائب عن
أعي الناس ويستشهدون لذلك بقصة الخرض
اور ان شیعوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ بے شک امام کے کامالت کسی اور کے لئے نہیں پس
جب وہ مرتے ہیں ان کی روحیں دورسے امام میں جاتی ہیں اور یہ قول التناسخ ہے اور ان
غالیوں میں سے … بعض کہتے ہیں کہ وہ مرے نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہیں
اور اس پر دلیل قصہ خرض سے لیتے ہیں
ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ خرض کی وفات ہو چکی ہے جو مناسب ہے
فَ َأ َخ َذ الله ِميثَاقَ ك ُِّل نَبِي َع َل أَ ْن يُ ْؤ ِم َن مبِ َ ْن يَجِي ُء بَ ْعدَهُ ِم َن األْ َنْ ِب َيا ِءَ ،ويَنْ ُ ُ
رصهُ ،فَلَ ْو كَا َن الْخ ِ ُ
َرض َح ىيا ِف
َز َمانِ ِه ،ل ََام َو ِس َع ُه ِإالَّ اتِّبَا ُعهَُ ،و ِاال ْجتِ َام ُع بِ ِهَ ،والْ ِقيَا ُم بِنَ ْرص ِِه
ابو اسحاق إبراهيم بن سفيان جو صحیح مسلم کے ایک راوی ہیں ان کے مطابق خرض زندہ ہیں
اور دجال جس شخص کو قتل نہ کر سکے گا وہ خرض ہوں گے
السيَاقُ )– (2938 اّنَ ،و َعبْ ُد بْ ُن ُح َميْد – َوأَلْفَاظُ ُه ْم ُمتَقَا ِربَةَ ،و ِّ َح َّدث َ ِني َع ْمرو النَّاقِدَُ ،والْ َح َس ُن الْ ُحلْ َو ِ ُّ
ُوب َو ُه َو ابْ ُن إِبْ َرا ِهي َم بْنِ َس ْعد – َح َّدثَنَا أَ ِبَ ،ع ْن لِ َعبْد ،ق ََالَ :ح َّدث َ ِني ،وق ََال ْاْل َخ َرانِ َ :ح َّدثَنَا – يَ ْعق ُ
ول َصالِحَ ،عنِ ابْنِ ِش َهاب ،أَخ َ َْرب ِّن ُع َب ْي ُد الل ِه بْ ُن َع ْب ِد الل ِه بْنِ ُعتْ َبةَ ،أَ َّن أَبَا َس ِعيد الْ ُخ ْد ِر َّي ،قَ َالَ :ح َّدثَنَا َر ُس ُ
يام َح َّدث َ َنا ،ق ََال ” :يَأْ ِِتَ ،و ُه َو ُم َح َّرم
الل ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم يَ ْو ًما َح ِديثًا طَو ًِيال َعنِ ال َّد َّجالِ ،فَكَا َن ِف َ
ِ
السبَاخِ الَّتِي ت َِل الْ َمدينَةَ ،فَيَ ْخ ُر ُج إلَيْه يَ ْو َمئذ َر ُجل ُه َو
ِ ِ ِ َاب الْ َم ِدينَ ِة ،فَيَنْتَهِي إِ َل بَ ْع ِض ِّ َعلَيْ ِه أَ ْن يَ ْدخ َُل نِق َ
ول الل ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َ َ
ُول لَهُ :أشْ َه ُد أن ََّك ال َّد َّج ُال الَّ ِذي َح َّدثَنَا َر ُس ُ
اس – فَيَق ُ اس – أَ ْو ِم ْن خ ْ َُِي النَّ ِ خ ْ َُُي النَّ ِ
ُول ال َّد َّج ُال :أَ َرأَيْتُ ْم ِإ ْن قَتَلْتُ َهذَا ،ث ُ َّم أَ ْح َي ْيتُهُ ،أَتَشُ كُّو َن ِف ْاألَ ْمرِ؟ فَ َيقُولُونَ :الَ ،ق ََال َو َسلَّ َم َح ِديثَهُ ،فَ َيق ُ
ي يُ ْحيِي ِهَ :والل ِه َما كُنْتُ ِف َيك قَ ُّط أَشَ َّد بَ ِص َُي ًة ِمنِّي ْاْل َن – ق ََال :ف َُُيِي ُد ُول ِح َفَ َي ْقتُلُ ُه ث ُ َّم يُ ْحيِي ِه ،فَ َيق ُ
الس َال ُم ِ
َرض َعليْه َّ َ »ال َّد َّج ُال – أَ ْن يَ ْقتُلَ ُه ف ََال يُ َسلط َعليْه “ ،قال أبُو إ ْس َحاقَ « :يُقَال إ َّن َهذَا ال َّر ُج َل ُه َو الخ ُ
ِ ْ ِ ُ ِ َ َ َ ِ َ ُ َّ
فيخرج إليه) من املدينة (يومئذ رجل هو خُي الناس أو من خُي الناس) قيل هو الخرض (فيقول :أشهد
)أنك الدجال الذي حدثنا رسول الله َ -ص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم -حديثه
کہا جاتا ہے یہ خرض ہوں گے
عمدة القاري رشح صحيح البخاري میں بدر الدين العينى (املتوىف855 :هـ) نے یہی قول لکھا ہے
.قَ ْوله :فَيخرج إِلَيْ ِه رجل قيل ُه َو الْخرضَ ،علَيْ ِه َّ
الس َالم
کتاب مرقاة املفاتيح رشح مشكاة املصابيح از مال قاری میں اس روایت کی رشح میں لکھا ہے
الس َال ُم
الص َال ُة َو َّ َوتَ َق َّد َم أَنَّ ُه الْخ ِ ُ
َرض – َعلَيْ ِه َّ
القسطالّن کی کتاب إرشاد الساري لرشح صحيح البخاري کا ہے جس میں ابن حجر کی بات پیش
کی گئی ہے
=========
وقال ابن العرب :سمعت من يقول إن الذي يقتله الدجال هو الخرض وهذه دعوى ال برهان لها .قال
الحافظ ابن حجر :قد يتمسك من قاله مبا أخرجه ابن حبان ف صحيحه من حديث أب عبيدة بن
الجراح رفعه ف ذكر الدجال لعله يدركه بعض من رآّن أو سمع كالمي الحديث ويعكر عليه قوله ف
رواية ملسلم شاب ممتلئ شبابًا وميكن أن ي ُجاب بأن من جملة خصائص الخرض أن ال يزال شابىا
ويحتاج إل دليل
ابن العربی نے کہا میں نے سنا جس نے کہا کہ یہ شخص جس کو دجال قتل نہ کر سکے گا خرض
ہوں گے اور اس دعوی کی کوئی برہان نہیں ہے اور ابن حجر نے کہا بال شبہ اس میں متسک کیا
ہے اس پر جو ابن حبان نے صحیح میں حدیث ابو عبیدہ بن الجراح تخریج کی ہے جس میں ذکر
دجال ہے کہ ہو سکتا ہے بعض اس کو پائیں جنہوں نے نے مجھ کو دیکھا یا کالم سنا الحدیث
اور روایت میں آ رہا ہے ایک مسلم جوان جوانی سے بھر پور اور ممکن ہے اس کا جواب دیا ہو
کہ یہ خصائص خرض کے ہیں کہ ان کی جوانی کو زوال نہیں ہے لیکن اس پر دلیل درکار ہے
==========
یعنی اقتباس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے محدثین نے اس رائے کا استخراج اس طرح
کیا ہو کہ صحیح ابن حبان کی اوپر والی حدیث کے مطابق ان کے نزدیک خرض نے نبی صلی الله
علیہ وسلم کا کالم سنا اور پھر ان کی مالقات دجال سے ہوئی کیونکہ خرض علیہ السالم کی جوانی
کو زوال نہیں ہے – اس رائے کو ابن حجر نے رد کیا ہے کہ خرض کی جوانی کو زوال نہیں پر دلیل
نہیں ہے لیکن انہوں نے اس بات کو رد نہیں کیا کہ محدثین یا سلف نے ایسا کوئی موقف نہیں
رکھا تھا
ابن تیمیہ مجموع الفتاوى ج ٤ص ٢٢٩میں خرض کی زندگی پر کہتے ہیں جب سوال ہوا
يام ُر ِو َي َع ْن النَّب ِِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم أَنَّ ُه ق ََال” :ه َْل ُه َو َحي َإل ْاْل َن َو ِإ ْن كَا َن َحيىا ف ََام تَقُولُو َن ِف َ
{لَ ْو كَا َن َحيىا لَ َزا َر ِّن} ” ه َْل َهذَا الْ َح ِديثُ َص ِحيح أَ ْم الَ ؟
کیا یہ اب تک زندہ ہیں؟ اور اگر زندہ ہیں تو کیا فرماتے ہیں اس قول پر جو نبی صلی الله علیہ
وسلم سے روایت کیا گیا ہے جس میں فرمایا اگر زندہ ہوتے تو ملتے – کیا یہ حدیث صحیح ہے یا
نہیں؟
جہاں تک ان کی حیات کا تعلق ہے تو وہ زندہ ہیں … -اور جس نے خرض کی وفات پر نبی صلی
الله علیہ وسلم کے قول سے دلیل لی کہ اس رات جو سطح زمیں پر زندہ ہے وہ سو سال پورا
ہونے پر نہ ہو گا اس میں ان کے لئے حجت نہیں ہے یہ تبھی ممکن ہے کہ جب خرض (اس وقت)
سطح زمیں پر ہی ہوں اور بے شک دجال اور جساسہ صحیح ہے کہ یہ زندہ موجود ہیں عہد نبوی
میں اس دن تک جزیرہ میں ہیں اس سے نہیں نکلے ہیں جو سمندر کے جزیروں میں سے ہے –
پس جو جواب اس پر ہے وہی ہامرا جواب خرض پر ہے کہ اس خرب ({لَ ْو كَا َن َحيىا لَ َزا َر ِّن}) میں زمین
کا لفظ نہیں ہے اور ہو سکتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کی مراد مشھور لوگ ہوں اور جو عادت
سے الگ ہو اس کو عموم میں شامر نہیں کیا جاتا
یعنی ابن تیمیہ خرض کے زندہ ہونے کے قائل تھے لیکن ابن قیم نے املنار املنيف میں لکھا ہے
ِب َعلَ ْي ِه أَ ْن يَأْ ِِت ال َّنب َِّي َو ُس ِئ َل َعنْ ُه شَ ْي ُخ اْل ِْسالمِ ابْ ُن تَ ْي ِم َي َة َر ِح َم ُه اللَّ ُه فَق ََال“ :لَ ْو كَا َن الْخ ِ ُ
َرض َح ىيا لَ َوج َ
ي يَ َديْ ِه َويَ َت َعلَّ ُم ِم ْن ُه َوقَ ْد ق ََال ال َّنب ُِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم يَ ْو َم بَدْر:
َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم َويُ َجا ِه ُد بَ ْ َ
ي ِ
رش َر ُجال َم ْع ُروف َ ِ ِ َ
“اللَّ ُه َّم ِإ ْن تُ ْهل َْك َه ِذ ِه الْ ِع َصابَ ُة ال تُ ْعبَ ْد ِف األ ْرض” وكانوا ثالث مئة َوث َالثَة َع َ َ
َرض ِحينَ ِئذ؟ بِأَ ْس َامئِ ِه ْم َوأَ ْس َام ِء آبَائِ ِه ْم َوقَبَائِلِ ِه ْم فَأَيْ َن كَا َن الْخ ِ ُ
اور میں نے شیخ ابن تیمیہ سے سوال کیا انہوں نے کہا اگر خرض زندہ ہوتے ان پر واجب ہوتا کہ
نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں اور بدر کے دن رسول
الله نے فرمایا اے الله اگر اس گروہ کو آج ہالک کر دیا گیا تو تیری عبادت کوئی نہ کرے گا اور
وہ ٣١٣معروف مرد تھے جن کے نام اور ان کے باپوں کے اور قبائل کے نام معلوم ہیں تو اس
وقت خرض کہاں تھے؟
یعنی ابن قیم کے مطابق ابن تیمیہ خرض کی وفات کے قائل تھے
یہ تضاد رائے کب ہوا ؟ کیا ابن قیم نے جھوٹ باندھا یا سمجھنے میں ان سے غلطی ہوئی یا ابن
تیمیہ نے اپنے موقف سے رجوع کیا واضح نہیں ہے
إمنا وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصالة ويؤتون الزكاة وهم راكعون
بے شک الله متہارا دوست ہے اور اس کا رسول اور وہ جو ایامن الئے جو مناز قائم کرتے
ہیں ،الزكاة دیتے ہیں اور وہ جو رکوع کرتے ہیں
تفسیر الطربی کے مطابق یہ آیت عبادہ بن صامت جو بنی عوف سے تھے کے لئے اتری تھی
روي عن ابن عباس رض الله عنهام أنها نزلت ف عبادة بن الصامت وعبد الله بن أب بن سلول
حي تربأ عبادة من اليهود ،وقال :أتول الله ورسوله والذين آمنوا ،فنزل فيهم من قوله ” :ياأيها
الذين آمنوا ال تتخذوا اليهود والنصارى أولياء ” ،إل قوله ” :إمنا وليكم الله ورسوله والذين آمنوا ”
يعني عبادة بن الصامت وأصحاب رسول الله صل الله عليه وسلم .وقال جابر بن عبد الله :جاء
عبد الله بن سالم إل النبي صل الله عليه وسلم فقال :يا رسول الله إن قومنا قريظة والنضُي قد
هجرونا وفارقونا وأقسموا أن ال يجالسونا ،فنزلت هذه اْلية ،فقرأها عليه رسول الله صل الله عليه
وسلم ،فقال ” :يا رسول الله رضينا بالله وبرسوله وباملؤمني أولياء ” .وعل هذا التأويل أراد بقوله :
( .وهم راكعون ) [ ص ] 73 :صالة التطوع بالليل والنهار ،قاله ابن عباس رض الله عنهام
ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ یہ عبادہ بن صامت اور عبد الله بن أب بن سلول کے لئے نازل
ہوئیں جو مسلامن تھے لیکن یہود ان سے اسالم النے کی بنا پر الجھتے تھے
تفسُي القرآن العظيم البن أب حاتم کی ایک ضعیف روایت کے مطابق یہ علی کے لئے نازل ہوئی
کیونکہ انہوں نے مناز میں انگوٹھی صدقه کی
قال العقيل :من الغالة ف الرفض کہتے ہیں رافضی غالیوں میں سے کہتے ہیں
وب بْ ُن ُس َويْد َع ْن ُع ْقبَ َة بْنِ أَ ِب َح ِكيم ِف قَ ْولِ ِه :إِمنَّ َا َولِيُّكُ ُم
َح َّدثَنَا ال َّربِي ُع بْ ُن ُسلَيْ َام َن الْ ُم َرا ِد ُّي ،ثنا أَيُّ ُ
ل بْ ُن أَ ِب طَالِب
.الله ورسوله والذين آمنوا ق ََالَ :ع ِ ُّ
َح َّدثَنَا الْ َح َس ُن بْ ُن َع َرفَةَ ،ثنا ُع َم ُر بْ ُن َع ْب ِد ال َّر ْح َمنِ أَبُو َحفْص َعنِ ُّ
الس ِّد ِّي قَ ْولَهُ :إِمنَّ َا َولِ ُّيكُ ُم الله
َو َر ُسولُ ُه َوالَّ ِذي َن آ َمنُوا ق ََالُ :ه ُم الْ ُم ْؤ ِمنُو َن َو َع ِل ِمنْ ُه ْم
حالت مناز میں صدقه کرنے کا مطلب ہے مناز میں خشوع کو چھوڑنا ،ادھر ادھر دیکھنا ،پھر
انگوٹھی کا اتارنا اور اس انداز میں دینا کہ لینے واال اس کو صدقه بھی سمجھے -سب اس کو عمل
کثیر بنا دیتے ہیں جو مناز کو باطل کرنے کے لئے کافی ہے – ظاہر ہے جس مناز میں سالم کرنا تک
منع ہے اس میں صدقه کرنا کیسے قابل ستائش ہو سکتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ جب کوئی دلیل
نہ ملی تو غالیوں نے اس قسم کی روایات بیان کیں
بَ ْل أَ ْحياء ِعنْ َد َربِّ ِه ْم سے کیا یہ مراد ہے کہ شہداء و انبیاء اسی دنیا میں ہیں ؟
جواب یہ آیت سے واضح ہے کہ اس سے مراد دنیا نہیں جنت ہے تبھی عند ربھم کہا گیا ہے
َب الَّ ِذي َن قُتِلُوا ِف َسبِي ِل الله أَ ْمواتاً بَ ْل أَ ْحياء ِعنْ َد َربِّ ِه ْم يُ ْر َزقُو َن ( )169فَ ِر ِح َ
ي مبِ ا آتا ُه ُم الله َوال تَ ْح َس َ َّ
رشو َن بِالَّ ِذي َن لَ ْم يَلْ َحقُوا بِ ِه ْم ِم ْن َخلْ ِف ِه ْم أَالَّ َخ ْوف َعلَ ْي ِه ْم َوال ُه ْم يَ ْح َزنُو َن (170
ِم ْن فَضْ لِ ِه َويَ ْس َت ْب ُِ
اور وہ لوگ جو الله کی راہ میں قتل ہوئے (شہداء) ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے
رب کے پاس (نعمتوں میں سے) کھاتے ہیں ،خوش ہیں ،جو انہیں الله کی طرف سے فضل میں
مال ہے اور استبشار کرتے ہیں ان کے بارے میں جو ان سے ابھی نہیں ملے ہیں (یعنی دنیا میں
جو رفقائے کار تھے) ،نہ ان کو کوئی خوف ہے نہ ہی وہ غم کرتےہیں
ان آیات میں بتایا گیا ہے وہ لوگ جو الله کے لئے قتل ہو رہے ہیں وہ معدوم نہیں ہو رہے ان کے
اجسام گھائل ہوۓ ہوں یا ان کا مثلہ کیا گیا ھو کہ جسد ہی نہ رہا ھو لیکن وہ اب الله کی دی
ہوئی خاص نعمتوں کو پا رہے ہیں اور جنت میں ہیں
شہداء کہاں ہیں؟ مسلم کی حدیث میں اس کی وضاحت آتی ہے کہ اب وہ رحامن کے عرش کے
نیچے قندیلوں میں ہیں اور سبز پرندوں میں ہیں
ان آیات اور حدیث میں آئی ہوئی اس رشح کا یکس انکار کر کے کہا جاتا ہے شہداء ان زمینی
گھڑوں میں زندہ ہیں
شہید کو تو فورا جنت میں داخل کیا جاتا ہے سوره یسین میں ہے کہ انبیاء کی دعوت کی تصدیق
کرنے والے کا قتل ہوتا ہے اور اس کو جنت میں پہنچا دیا جاتا ہے
قال يا َل ْيتَ قَ ْو ِمي يَ ْعلَ ُمو َن ( )26مبِ ا َغ َف َر ِِل َر ِّب َو َج َعلَ ِني ِم َن الْ ُمكْ َر ِم َ
ي قِ َيل ا ْد ُخ ِل الْ َج َّن َة َ
کہا گیا :جنت میں داخل ہو جا ،اس نے کہا :اے کاش میری قوم جان لیتی کہ کس چیز پر میرے
رب نے مغفرت کی اور مجھے مکرمین میں شامل کر دیا
ان لوگوں کے ساتھ جن پر الله نے انعام کیا نبیوں صدیقین شہداء صالحین
بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ ہر نبی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا لے یا
آخرت .جب نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات کا وقت آیا تو عائشہ رضی الله تعالی عنہا کہتی
ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی
ُول ِف َم َر ِض ِه الَّ ِذي َماتَ ِفي ِهَ ،وأَ َخ َذتْ ُه بُ َّحة ،يَق ُ
ُولَ { :م َع الَّ ِذي َن ف ََس ِمعْتُ النَّب َِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم يَق ُ
أَنْ َع َم الله َعلَيْ ِه ْم} [النساء ]69 :اْليَ َة فَظَنَنْتُ أنَّ ُه خ ِّ َُُي
َ
پس اس وقت میں جان گئی کہ آپ نے (دنیا کی رفاقت چھوڑنے کا) فیصلہ کر لیا
آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ال عیش اال عیش االخره (کوئی زندگی نہیں سوائے آخرت کی زندگی
کے) کہنے واال نبی دنیا میں رہنا پسند کرتا
کیا اس کے بعد بھی ایسا ہو سکتا ہے الله کے نبی اسی مدینہ والی قرب ہی میں زندہ ہوں ؟ نہیں
ہرگز نہیں
اسمعیل سلفی کتاب مسئلہ حیات النبی میں شہداء کی برزخی زندگی کی وضاحت ابن جریر کے
حوالے سے کرتے ہیں
عبدالرحامن کیالنی کتاب روح عذاب القرب اور سامع املوتی میں صفحہ ١٠٠پر لکھتے ہیں
قرآن کی آیت میں بَ ْل أَ ْحياء ِعنْ َد َربِّ ِه ْم کہا گیا ہے اور مسلم کی حدیث میں مکمل وضاحت بھی آ
گئی ہے اس کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے-لہذا عبد الرحامن کیالنی کی یہ بات نامکمل
اور قرآن و حدیث کے خالف ہے-زبیر علی زئی کتاب توضیح االحکام میں لکھتے ہیں
انبیاء اور شہداء جنت میں ہیں یہاں تک تو بات صحیح ہے اس کے بعد الجھی ہوئی تقریر سمجھ
سےباہر ہے اگر وہ جنت میں ہیں تو پھر قرب میں کیسے زندہ ہیں دنیاوی اور برزخی کی بحث
بالکل غیر واضح ہے
افسوس ایک نبی کی وفات ہوئی اس کی امت کے سب سے اہم ولی نے اس کو مردہ قرار دیا سب
نے دفنا دیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی قرب میں رکھا گیا زندہ ہو گئے ان پر امت کے اعامل
پیش ہونے لگے اور وہ قرب سے اذان دینے لگ گئے ،وہ سالم کا جواب دینے لگ گئے
اہل حدیث عامل کہتے ہیں کہ آیت َو ِم ْن َو َرائِ ِه ْم بَ ْرزَخ إِ َل يَ ْومِ يُ ْب َعثُو َن کا مطلب ہے
کہ مردہ کی روح قرب میں ہی رہتی ہے اور وہی اس کی برزخ ہے کیا یہ بات نص قرانی سے
مطابقت رکھتی ہے؟
جواب
َحتَّى إِذَا َجا َء أَ َح َد ُه ُم الْ َم ْوتُ ق ََال َر ِّب ا ْر ِج ُعونِ ( )99لَ َع ِّل أَ ْع َم ُل َصالِ ًحا ِف َ
يام تَ َركْتُ ك ََّال ِإنَّ َها كَلِ َمة ُه َو
قَائِلُ َها َو ِم ْن َو َرائِ ِه ْم بَ ْرزَخ إِ َل يَ ْومِ يُ ْب َعثُو َن
یہاں تک کہ ان میں جب کسی کو موت اتی ہے تو کہتا ہے اے رب مجھے لوٹا دے تاکہ صالح
اعامل کروں ہرگز نہیں یہ تو رصف ایک قول ہے جو کہہ رہا ہے اور اب ان کے درمیان برزخ حائل
ہے یہاں تک کہ ان کو دوبارہ اٹھایا جائے
اس کا مفھوم ہے کہ اب موت کے بعد اس دنیاوی جسد میں قیامت تک روح نہیں آ سکتی اور
اس دنیا اور روح کے درمیان آڑ ہے
الله تعال کا فرمان ہے ” َحتَّى إِذَا َجا َء أَ َح َد ُه ُم الْ َم ْوتُ ” یعنی “حتى کہ جب ان میں سے کسی ایک
کو موت آتی ہے “۔ اس آیت مبارکہ میں ” أَ َح َد ُه ُم ” سے مراد وہ زندہ سالمت انسان ہے جو
فاسق و فاجر ہے ۔ اور اس بارہ میں “نام نہاد مسلمین” سمیت کسی بھی ذی شعور کو اختالف
نہیں ہے ۔اور بات بھی طے شدہ ہے کہ مرنے سے قبل وہ روح وجسد کا مجموعہ تھا ,نہ رصف
روح یا رصف جسم !۔یعنی ” أَ َح َد ُه ُم ” سے مراد روح وجسم کا مجموعہ ہے ۔ اور اس ” أَ َح َد ُه ُم
“کے روح وجسم کا مجموعہ ہونے پر کسی کو کوئی اختالف نہیں ۔اسی متفق علیہ بات کو ذہن
نشیں کرنے کے بعد ہم چلتے ہی اسی آیت کے اگلے حصہ کی طرف اور وہ ہے ” ق ََال َر ِّب ا ْر ِج ُعونِ
” یعنی “وہ کہتا ہے اے میرے رب مجھے لوٹا دو” ۔ یعنی مرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ مجھے
لوٹا دیا جائے ۔ اب یہاں ” نام نہاد مسلمین” نے تلبیس سے کام لیا اور یہ باور کروانے کی
کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کہتی ہے کہ مجھے واپس میرے جسم میں
لوٹا دو ۔ جبکہ اللہ تعال نے فرمایا ہے ” ق ََال َر ِّب ا ْر ِج ُعونِ ” (وہ کہتا ہے کہ مجھے لوٹا دو ) یہ
نہیں کہا کہ ” ق ََال ُر ْو ُح ُہ َر ِّب ا ْر ِج ُعونِ ” (اسکی روح کہتی ہے کہ مجھے لوٹاؤ) ۔ بات انتہائی
سادہ سی ہے کہ اللہ کے فرمان ” ق ََال َر ِّب ا ْر ِج ُعونِ ” میں لفظ “قال” کا مرجع “احدہم” ہے ۔
یعنی جسے موت آئی تھی وہی کہہ رہا کہ مجھے لوٹاؤ ۔ اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ موت
روح وجسد کے مجموعہ کو آئی تھی ۔ سو مرنے کے بعد روح وجسد کا مجموعہ ہی کہتا ہے کہ
مجھے لوٹاؤ ۔ یعنی وہ دنیا میں لوٹ کر نیک اعامل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔ لہذا اس آیت سے
ہی یہ بات ثابت ہوئی کہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح اسکے جسم میں لوٹتی ہے اور روح
وجسد کا مجموعہ اللہ تعال سے دوبارہ دنیا میں جانے کا مطالبہ کرتا ہے ,لیکن اسکا یہ مطالبہ
پورا نہیں کیا جائے گا ۔بلکہ اس مرنے والے (روح وجسد کے مجموعہ) اور دنیا میں لوٹ جانے
کے درمیان قیامت تک کے لیے ایک برزخ (آڑ اور رکاوٹ) ہے ۔
الَ يَ ْأ ِتي ِه ا ْل َب ِ
اط ُل ِم ْن بَ ْ ِي يَ َديْ ِه َوالَ ِم ْن َخ ْل ِف ِه تَنْزِيل ِم ْن َح ِكيم َح ِميد سوره فصلت
باطل نہ تو اسکے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے ,یہ بہت ہی باحکمت اور تعریف
کیے گئے کی طرف سے نازل شدہ ہے
قرآن ہی میں ہے کہ مرنے والے کی روح روک لی جاتی ہے امساک روح کا کیا مفہوم رہ جائے گا
اگر اس ترشیح کو مان لیا جائے
رفیق طاہر صاحب کہتے ہیں روح کا امساک تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ قرب
میں آ جاتی ہے اور اگرچہ جسد مٹی مٹی ہو جاتا ہے لیکن قیامت تک قرب میں رصف روح اور
عجب الذنب رہ جاتی ہے
أبو بكر الجزائري کی کتاب أيس التفاسُي لكالم العل الكبُي جو مكتبة العلوم والحكم ،املدينة
املنورة ،اململكة العربية السعودية سے چھپی ہے اس میں اس میں ان آیات کی ترشیح اس طرح کی
گئی ہے
أي رأى ملك املوت وأعوانه وقد حرضوا لقبض روحه {قال رب ارجعون }1أي أخروا موِت يك أعمل
صالحاً فيام تركت العمل فيه بالصالح ،وفيام ضيعت من واجبات قال تعال ردا ً عليه {كال} 2أي ال
رجوع أبدا ً{ ،إنها كلمة هو قائلها} ال فائدة منها وال نفع فيها{ ،ومن ورائهم برزخ} أي حاجز مانع من
العودة إل الحياة وهو أيام الدنيا كلها حتى إذا انقضت عادوا إل الحياة ،ولكن ليست حياة عمل
وإصالح ولكنها حياة حساب وجزاء هذا معنى قوله{ :ومن ورائهم برزخ إل يوم يبعثون}
یعنی موت کے فرشتے اور اس کے مددگاروں کو دیکھتا ہے جو اس کی روح قبض کرنے کے لئے
حارض ہوتے ہیں کہتا ہے اے رب واپس بھیج دے یعنی موت کو موخر کر دے تاکہ نیک عمل کر
لے جس کو چھوڑ دیا ..الله تعالی رد کرتا ہے کہ ہرگز نہیں یعنی کوئی لوٹانا کبھی بھی نہیں ہو
گا بے شک یہ ایک رصف قول ہے جس کا فائدہ نہیں نفع نہیں اور ان کے پیچھے آڑ ہے یعنی
رکاوٹ جو مانع ہے عود زندگی کے لئے جو دنیا کے ایام تھے یہاں تک کہ یہ ختم ہو تو زندگی
کی طرف عود ہو لیکن یہ حیات عمل اور اصالح کی زندگی نہیں بلکہ یہ تو حساب اور جزا کی
زندگی ہے اور یہ معنی ہے قول اور ان کے پیچھے برزخ حائل ہو واپس زندہ ہونے تک
اس وضاحت سے واضح ہے کہ ان حنبلی عامل کے نزدیک یہ مکاملہ قرب میں نہیں بلکہ اسی دنیا
میں ہوتا ہے
ات الْ َم ْو ِت َوالْ َم َالئِكَ ُة بَ ِاسطُوأَيْ ِدي ِه ْم أَ ْخ ِر ُجوا أَنْف َُسكُ ُم الْ َي ْو َم تُ ْج َز ْو َن َعذ َ
َاب َولَ ْو تَ َرى إِ ِذ الظَّالِ ُمو َن ِف َغ َم َر ِ
الْ ُهونِ مبِ َا كُنْتُ ْم تَقُولُو َن َع َل اللَّ ِه غ ْ ََُي الْ َح ِّق َوكُنْتُ ْم َع ْن آيَاتِ ِه ت َْستَك ِ ُْربو َن
َوإِذَا النُّف ُ
ُوس ُز ِّو َجتْ (التکویر )7 :اور جب روحیں (اپنے جسموں سے) مال دی جائیں گی
وہی نفس جس کو سوره االنعام کی آیت ٩٣کے مطابق جسد سے نکاال گیا تھا اس کو واپس ڈاال
جا رہا ہے
رفیق طاہر لکھتے ہیں
ثُ َّم ‘تھوڑے سے وقفے کے بعد’ أَ َماتَ ُه ‘ اس کو موت دی۔’ َف ‘ موت دینے کے فوراً بعد ’ أَق َ َْربهُ ‘ اس کو قرب دے دی۔تو
نتیجہ کیا نکال کہ مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر بھی ہو ،چاہے وہ چارپائی پر پڑا ہو ،چاہے زمین کے
نیچے دبا دیا گیا ہو ،چاہے ریزہ ریزہ ہوگیا ہو ،جل کر راکھ ہوجائے ،وہ اس کی قرب ہے۔مرنے کے بعد بندے کا جسم اور
روح جہاں پر ہوگی ،وہ اس کےلیے قرب ہے۔کیونکہ اللہ تعالی نے کہا ہے ’ :ثُ َّم أَ َماتَ ُه ‘ اللہ تعالی نے اس بندے کو موت
دی” فَأَق َ َْربهُ [عبس “]21 :پھر ا س کو قرب بھی دی۔تو برزخی قرب جس کو وہ لوگ جو عذاب قرب کے منکر نہیں ہیں ،
مانتے ہیں کہ قرب کے اندر عذاب ہوتا ہے ،لیکن کہتےہیں کہ اس قرب میں نہیں بلکہ اوپر والی قربمیں … تو اللہ
سبحانہ وتعالی نے یہ تونہیں کہا’ :فاقرب روحہ‘ اللہ نے اس کی روح کو قرب دی ،۔ جس کو اللہ نے موت دی ہے اسی کو
اللہ نے قرب دی ہے۔روح وجسم کے مجموعے کو ،ایک انسان کو ،تو قرب بھی اکیلی روح کو نہیں ،اکیلے جسم کو
نہیں۔ ’فاقربروحہ‘ ’فاقرب جسدہ‘ اللہ نے نہیں کہا کہ اللہ نے اس کی روح کو قرب دی ،یا اللہ نے اس کے جسم کو قرب
دی۔کیا کہا ہے ” :ثُ َّم أَ َماتَ ُه فَأَق َ َْربهُ [عبس “ ] 21 :اللہ نے اس روح وجسم کے مجموعے کو ،حرضت انسان کو موت دی
اور پھر اسی روح وجسم کے مجموعے کو قرب بھی عطا کی ہے۔تو اسی ایک آیت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے
فوراً بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوتی ہے وہ اس کےلیے قرب ہے۔
یہاں مشکل یہ ہے کہ رفیق طاہر صاحب موت کا مفھوم واضح نہیں کرتے موت میں تو روح
جسد سے نکل لی جاتی ہے تو جس شخصیت کو موت اتی ہے وہ خود دو میں تقسیم ہو جاتا ہے
ایک اس کا جسد جو دنیا میں ہے اور ایک اس کی روح جس کو فرشتے نکال کر لیے جا چکے ہیں
اب اگر انسان قرب میں رکھیں گے تو رصف دنیاوی جسد کو وہ بھی وقفے کے بعد لہذا جس قرب
کو مرنے کے فورا بعد دیا گیا ہے وہ قرب اس دنیا میں نہیں
اور قرآن مجید میں ہی اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح ہوتی ہے اور بندہ مردہ ہوتا ہے۔لہذا یہ
تعریف کرنا موت کی کہ روح کا جسم سے نکل جانا موت ہے ،یہ تعریف ہی غلط ہے۔ اللہ تعالی نے سورۃ الزمر میں
ُس ِح َي َم ْوتِهَا َوالَّتِي لَ ْم متَ ُتْ ِف َمنَا ِمهَا “ اللہ روحوں کو نکال لیتا ہے ،موت کے وقت بیان فرمایا ہے ” :اللَّ ُه يَتَ َوىفَّ ْ َ
األنف َ
بھی نکال ل یتا ہے اور نیند کے وقت بھی نکال لیتا ہے۔ نیند کے وقت اللہ روح کو کیا کرتا ہے ،نکال لیتا ہے۔ اچھا !
سوئے ہوئے کو مردہ کہتے ہو یا زندہ؟زندہ ہی مانتے ہیں ناں سارے؟اللہ تعالی کہہ رہے ہیں کہ اس کے اندر روح
کوئی نہیں۔ اللہ نے روح کو نکال لیا ہے ،پھر اللہ سوئے ہوئے کی روح کو نکال لیتا ہے اور حالت نیند میں جس کو
موت دینی ہوتی ہے ،اس کی روح کو تھوڑی دیر کےلیے روک لیتا ہے۔ جس کو موت نہیں دینی ہوتی ،اس کی روح کو
واپس جسم میں لوٹا دیتا ہے ،جس میں روح واپس آتی ہے تو بندہ جاگ جاتا ہے ،بیدا رہوجاتا ہے۔ یعنی نیند کی
حالت میں بندے کے اندر روح نہیں ہوتی ،اللہ روح کو نکال لیتا ہے۔ لیکن کیا وہ مردہ ہے؟ نہیں۔ ساری کائنات اس
کو زندہ مانتی ہے کہ یہ زندہ ہے ،مردہ نہیں ہے۔ لہذا موت کی یہ تعریف کرنا کہ روح جسم سے نکل جائے تو موت
ہوتی ہے ،غلط قرار پاتی ہے۔ موت کی یہ صحیح تعریف نہیں ہے۔ صحیح تعریف موت کی کیا ہے؟ اللہ تعالی
نےقرآن مجید میں دی ہے۔ ” :أَ ْموات غ ْ َُُي أَ ْحيَاء [النحل “ ]21 :مردہ ہیں ،زندہ نہیں۔ یہ موت کی تعریف ہےکہ دنیوی
زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے
توفی کا مطلب قبض کرنا ہے نہ کہ نکالنا
راغب األصفهاىن (املتوىف502 :هـ) اپنی کتاب املفردات ف غريب القرآن میں لکھتے ہیں
وقوله :ك ُُّل نَفْس ذائِ َق ُة الْ َم ْو ِت [آل عمران ]185 /فعبارة عن زوال القوة الحيوان َّية وإبانة ال ُّروح عن
الجسد
اور (الله تعالی کا ) قول : :ك ُُّل نَفْس ذائِ َق ُة الْ َم ْو ِت [آل عمران ]185 /پس یہ عبارت ہے قوت
حیوانی کے زوال اور روح کی جسد سے علیحدگی سے
ابن تیمیہ اپنی کتاب أمراض القلب وشفاؤها میں موت الْ ُمثبت کے بارے میں لکھتے ہیں
ابن تیمیہ کتاب الجواب الصحيح ملن بدل دين املسيح میں لکھتے ہیں
اور اسی طرح سلف امت اورامئہ وجود نفس کو مانتے ہیں جو روح انسان ہے جو موت کے وقت
بدن سے علیحدہ ہوتی ہے
الله نے کہا
الله نفس کو قبض کرتا ہے موت کے وقت اور جو نہیں مرا اس کا نیند کے وقت
اور دورسے مقام پر کہا
{ َحتَّى إِذَا َجا َء أَ َح َدكُ ُم الْ َم ْوتُ تَ َوفَّتْ ُه ُر ُسلُنَا َو ُه ْم الَ يُ َف ِّرطُونَ} [األنعام]61 :
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت اتی ہے ہامرے فرشتے ان کو قبض کرتے ہیں اور
چوکتے نہیں
روح اور جسم کے مجموعے کو موت آئی لیکن قبض رصف روح یا نفس ہوئی یہاں پر تَ َوفَّتْ ُه کی
ضمیر أَ َح َدكُ ُم کی طرف ہے لیکن توفی رصف روح ہوئی جسد کو اس دنیا میں ہی چھوڑ دیا گیا
اس آیت کی روشنی میں سوره املومنون کی آیت کو سمجھا جا سکتا ہے
فَ َل ْوالَ إِذَا بَلَغ َِت الْ ُحلْقُو َم (َ )83وأَنْتُ ْم ِحينَ ِئذ تَنْظُ ُرو َن (َ )84ونَ ْح ُن أَقْ َر ُب إِلَيْ ِه ِمنْكُ ْم َولَ ِك ْن الَ تُبْ ِ ُ
رصو َن
ي (87 ي ( )86تَ ْر ِج ُعونَ َها ِإ ْن كُنْتُ ْم َصا ِدقِ َ( )85فَلَ ْوالَ ِإ ْن كُنْتُ ْم غ ْ ََُي َم ِدي ِن َ
پھر کیوں نہیں (روح کو واپس لوٹا لیتے) جب وہ (پرواز کرنے کے لئے) حلق تک آپہنچتی ہے
اور ہم اس (مرنے والے) سے متہاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم (ہمیں) دیکھتے نہیں
ہو
پھر کیوں نہیں (ایسا کر سکتے) اگر تم کسی کی ِملک و اختیار میں نہیں ہو
یہاں پر روح کا لفظ نہیں لیکن قرآن کے سیاق و سبق سے واضح ہے کہ یہ سب روح کے بارے
میں ہے
اور کہا
{ق ُْل يَتَ َوفَّاكُ ْم َمل َُك الْ َم ْو ِت الَّ ِذي ُوك َِّل بِكُ ْم ث ُ َّم إِ َل َربِّكُ ْم تُ ْر َج ُعونَ} [السجدة]11 :
کہو تم کو موت کا فرشتہ قبض کرے گا جو تم پر مقرر ہے اور پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے
جاؤ گے
مرنے واال الله کے پاس پہنچ جاتا ہے جبکہ اس کا جسد اسی دنیا میں رہ جاتا ہے موت کے فرشتے
نے قبض کی کو کیا نفس کو یا جسد کو اگر آپ اس پر غور کریں گے تو آپ کو یہ بات سمجھ
میں آ سکتی ہے
دوئم عود روح جس روایت پر جان نثار کر رہے ہیں خود اس میں موت کی وضاحت کی گئی ہے
کہ
زاذان کی روایت جس کا رفیق طاہر ترجمہ کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
پھر فرمایا “جب مؤمن دنیا سے رخصت اور آخرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہے تو اسکے پاس ایسے
سفید چہروں والے فرشتے آسامن سے اترتے ہیں گویا کہ انکے چہرے سورج ہیں ,انکے پاس
جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے ,
حتى کہ وہ اسکی تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں ,پھر ملک املوت آتا ہے اور اسکے رس کے پاس بیٹھ
جاتا ہے اور کہتا ہے ” اے پاک جان اللہ کی مغفرت اور رضا مندی کی طرف نکل چل ” آپ صل
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تو وہ ایسے بہہ کر نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے قطرہ بہتا
ہے ,تو وہ اسے پکڑ لیتا ہے ,اور جونہی وہ اسے پکڑتا وہ (دیگر فرشتے) پل بھر بھی اسکے ہاتھ
میں نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے لے لیتے ہیں اور اس کفن اور خوشبو میں ڈال دیتے ہیں۔
عود روح کی روایت میں موت کا یہ مفھوم غلط ہے تو اس کو کیوں مانتے ہیں؟
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ موصوف روح جسم میں آنے کو زندگی مانتے ہیں لیکن
اس کے نکلنے کو موت ماننے کے لئے تیار نہیں موصوف لکھتے ہیں
اسی طرح ایک بہت بڑا اعَّتاض وہ یہ بنا کرپیش کرتے ہیں کہ اگر قرب والی زندگی کو مان لیا
جائے توتین زندگیا ں اور تین موتیں ہوجاتی ہیں۔حاالنکہ الہ نے قرآن میں کہا ہے کہ دو زندگیاں
اور دوموتیں ہیں۔ بات رصف وہی ہے کہ سمجھ نہیں آئی۔ سمجھے کا قصور ہے۔ انسان پیدا ہوتا
ہے ۔کہاں پر؟ ماں کے پیٹ میں۔ روح جب جسم کے اندر ڈالی جاتی ہے ،اس وقت بچہ کہاں
ہوتا ہے؟ ماں کے پیٹ میں۔ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے کہ اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے ،وہ
مخصوص مدت پوری کرنے کے بعد پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔
موصوف یہ بھی لکھتے ہیں
اللہ نے کہیں بھی یہ نہیں کہاکہ روح قیامت کے دن ڈالی جاتی ہے ،یا روح قیامت کے دن ڈالی
جائے گی ،اس سے پہلے نہیں۔
افسوس کہ پورے قرآن کا مفھوم ہی بدل کے رکھ دیا ہے رصف عود روح والی روایت کے لئے
جس کو اہل علم رد کر چکے ہیں .کیا قرآن میں یہ نہیں
ث ُ َّم ِإنَّكُ ْم بَ ْع َد ذلِ َك لَ َم ِّيتُو َن ( )15ث ُ َّم ِإنَّكُ ْم يَ ْو َم الْ ِقيا َم ِة تُ ْب َعثُو َن (16
پھر اس کے بعد متہیں موت آ کر رہے گی پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن زندہ کیے جاؤ گے
اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ سوره املومنون کی آیت کے الفاظ اے رب واپس بھیج دے کی
تین ترشیحات ہیں
اول روح فرشتے نکال کر الله کے پاس لے جاتے ہیں اور روح الله سے کہتی ہے کہ واپس لوٹا دے
سوئم روح قرب میں لوٹنے کے بعد کہتی ہے کہ واپس دنیا میں بھیج دے
ہامرا عقیدہ ہے کہ دوئم اور سوئم ترشیحات درست نہیں کیونکہ روح اس میں دنیا میں ہی ہے
لہذا ا ْر ِج ُعونِ لوٹانے کا کوئی مفھوم رہتا ہی نہیں
الس َام ِء سے کیا مراد ہے ؟ قرآن کی آیت َال ت ُ َفتَّ ُح لَ ُه ْم أَبْ َو ُ
اب َّ
جواب
عود روح کے قائلین کا یہ دعوی ہے کہ اعادہ روح قرب میں سوال و جواب کے لئے ہوتا ہے اور
پھر واپس روح کو جنت و جہنم میں بھیج دیا جاتا ہے اس کے حوالے سے وہ جو روایت پیش
کرتے ہیں جس کو اہل علم نے منکر بتایا ہے لیکن پسند اپنی اپنی ہوتی ہے
رفیق طاہر ،زاذان کی عود روح والی روایت کے دفاع میں لکھتے ہیں
اب بد آدمی جو ہوتا ہے ،یہ ذرا قابل غور بات ہے۔عثامنیوں کا کیا عقیدہ ہے کہ عذاب وثواب اس زمین
والی قرب میں نہیں بلکہ آسامنوں والی قرب میں ہوتا ہے ،اس بات کا بڑا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ،اب دیکھتے
جائیے گا کہ ہوتا کیا ہے۔ اور جو بد آدمی ہے اس کی روح کو نکاال جاتا ہے ،شدت کے ساتھ ،سختی کے
ساتھ ،بدبودار ٹاٹ کے اندر اس کو لپیٹا جاتا ہے۔ اور اس کو آسامنوں پر لے جایا جاتا ہے ،آسامنوں کا
دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے ،لیکن دروازہ آسامن ک ا نہیں کھلتا۔ ساتھ ہی نبی نے قرآن کی یہ آیت تالوت
الس َامء “ ان کےلیےآسامنوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ ” اب َّ کردی۔ کہ یہ ظامل لوگ ” الَ تُ َف َّت ُح لَ ُه ْم أَبْ َو ُ
اط [األعراف “ ]40 :حتی َوالَ يَ ْد ُخلُو َن الْ َج َّن َة “یہ جنت میں بھی نہ جائیں گے ” َح َّتى يَلِ َج الْ َج َم ُل ِف َس ِّم الْ ِخ َي ِ
کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل ہوجائے۔جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل نہیں
ہوجاتا تب تک نہ توا ن کےلیے آسامن کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی یہ جنت میں داخل
ہوسکیں گے۔ اب اللہ تعالی تو کہہ رہے ہیں کہ ظاملوں کےلیے آسامن کے دروازے کھولے ہی نہیں جائیں
گے ،قرآن ہے یہ۔ اور نبی نے بتایا ہے ،دلیل قرآن کی آیت پڑھ کر سنائی ہے۔ مسند احمد کے اندر یہ
روایت تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ آسامن کے دروازے تو کھلے ہی نہیں تم کس آسامنی قرب میں اسے
عذاب دے رہے ہو؟کہیں آسامنی قرب میں عذاب دے کر تم نے سوئی کے سوراخ میں سے اونٹ کو داخل
تو نہیں کردیا؟ اللہ کے قرآن کی آیت کے منکر تو نہیں ہوگئے کہیں ؟ دورسوں پر کفر کے فتووں کی توپ
الس َامء َوالَ يَ ْد ُخلُو َن چالنے والے ذرا خود ہوش کے ناخن لیں۔ اللہ تعالی فرمارہے ہیں ” :الَ تُ َفتَّ ُح لَ ُه ْم أَبْ َو ُ
اب َّ
الْ َجنَّ َة “ دونوں کام نہیں ہوسکتے۔نہ آسامن کے دروازے کھلیں اور نہ یہ جنت میں جائیں۔ ” َحتَّى يَلِ َج
اط “پھر نبی فرمارہے ہیں کہ اس کی روح کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی الْ َج َم ُل ِف َس ِّم الْ ِخيَ ِ
الس َامء “ کافروں کی مثال اللہ نے قرآن میں بھی بیان کی آپ نے ایک اور آیت پڑھ دی۔ ” فَكَأَمنَّ َا َخ َّر ِم َن َّ
ہے۔ کہ یہ ایسا ہے کہ گویا آسامن سے گرا ہے۔ ” فَتَ ْخطَ ُف ُه الط ْ َُُّي “ یا پرندوں نے اسے اچکا ہے ” أَ ْو تَ ْهوِي بِ ِه
يح ِف َمكَان َس ِحيق [الحج “ ]31 :یا ویران دور کی جگہ پر اس کو ہوا لے کر پہنچ جاتی ہے۔ اپنے ال ِّر ُ
عقیدے کی دلیل کےلیے نبی نے آیت پڑھی ہے۔ ”فتعاد روحہ فی جسدہ“ اس کی روح اس کے جسم کے
اندر لوٹا دی جاتی ہے۔
جواب
قرآن کی جس آیت کو راویوں نے اس منکر روایت میں پرویا ہے وہ سوره االعراف کی آیت ٤٠ہے
الس َام ِء َوالَ يَ ْد ُخلُو َن الْ َجنَّ َة َحتَّى يَلِ َج الْ َج َم ُل ِإ َّن الَّ ِذي َن كَ َّذبُوا بِآيَاتِنَا َو ْاستَك َ ُْربوا َعنْ َها الَ تُ َفتَّ ُح لَ ُه ْم أَبْ َو ُ
اب َّ
اط َوكَ َذلِ َك نَ ْجزِي الْ ُم ْج ِر ِم َ
ي ِف َس ِّم الْ ِخ َي ِ
بے شک جنہوں نے ہامری آیات کو جھٹالیا اور تکرب کیا ان کے لئے آسامن کے دروازے نہ کھولے
جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے
اور اسی طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیتے ہیں
قال أبو عبد الله سفيان بن سعيد بن مسوق الثوري الكوف (املتوىف161 :هـ) ف تفسُيه :سفيان
َ .ع ْن لَ ْيث َع ْن َعطَاء َعنِ بن َع َّباس ِف قَ ْو ِل اللَّ ِه ال تفتح لهم أبواب السامء لقول وال عمل
سفیان ثوری اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله تعالی عنہ کہتے
ہیں :آسامن کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد قول اور عمل (کی پذیرائی نہ ہونا) ہے
الصابوّن تفسُي صفوة التفاسُي میں کہتے ہیں :یہ الفاظ عدم قبول عمل پر کنایہ ہیں ،پس نہ
انکی دعا قبول ھو گی نہ عمل
ل بْنِ أَ ِب و ف تفسُي الطربي َ :ح َّدث َ ِني الْ ُمثَنَّى ق ََال :ثنا َع ْب ُد اللَّ ِه بْ ُن َصالِح ق ََال :ثني ُم َعا ِويَةَُ ،ع ْن َع ِ ِّ
الس َام ِء}اب َّ طَلْ َحةََ ،عنِ ابْنِ َع َّباس ،قَ ْولُهُِ { :إ َّن الَّ ِذي َن كَ َّذبُوا بِآيَاتِنَا َو ْاستَك َ ُْربوا َعنْ َها الَ تُ َفتَّ ُح لَ ُه ْم أَبْ َو ُ
ِ
َشء» .و أيضا عن مجاهد َ :ح َّدثَنَا ابْ ُن َوكيع، [األعراف ]40 :يَ ْع ِني« :الَ يَ ْص َع ُد إِ َل اللَّ ِه ِم ْن َع َملِ ِه ْم َ ْ
الس َامء} [األعراف ]40 :قَا َل« :الَ ِ اب َّ ق ََال :ثنا أَ ِبَ ،ع ْن ُس ْفيَانََ ،ع ْن َمنْ ُصورَ ،ع ْن ُم َجا ِهد{ :الَ تُ َفتَّ ُح لَ ُه ْم أبْ َو ُ
َ
يَ ْص َع ُد لَ ُه ْم ك ََالم َوالَ َع َمل» .و أيضا عن إبراهيم النخعي َ :ح َّدثَنَا َمطَ ُر بْ ُن ُم َح َّمد الضَّ بِّ ُّي ،ق ََال :ثنا َعبْ ُد
الس َام ِء}اب َّ اللَّ ِه بْ ُن دَا ُودَ ،ق ََال :ثنا َرشِيكَ ،ع ْن َمنْ ُصورَ ،ع ْن إِبْ َرا ِهي َمِ ،ف قَ ْولِ ِه{ :الَ تُ َفتَّ ُح لَ ُه ْم أَبْ َو ُ
[».األعراف ، ]40 :ق ََال« :الَ يَ ْرتَ ِف ُع لَ ُه ْم َع َمل َوالَ ُد َعاء
تفسیر طربی میں ابن عباس رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ ان کے عمل
میں سے کوئی بھی شے الله کی طرف نہ اٹھے گی اور مجاہد کہتے ہیں آسامن کے دروازے نہ
کھلیں گے سے مراد ہے کہ نہ کالم اوپر جائے گا نہ عمل اور ابراہیم النخعي کہتے ہیں نہ عمل
اوپر جائے گا نہ ان کی پکار
یہ تفسیر کہ آسامن کے دروازے نہ کھلیں گے سے مراد روح کا اوپر نہ جانا ہے رصف شیعہ
الس ِّد ِّي یعنی إسامعيل بن عبد
راویوں مثال زاذان ،منہال بن عمرو ،عدی بن ثابت ،عمرو بن ثابت ُّ ،
الرحمن بن أب كرمية نے بیان کیا ہے
قرآن کی سوره الحج کی آیت ٣١کوبھی منت میں پرویا گیا ہے
اور جس نے الله کے ساتھ رشک کیا پس یہ ایسا ہے کہ آسامن سے گرے اور پرندے اچک لیں یا
اندھی کس بیابان میں پھینک دے
اس آیت میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ رشک ایسا جرم ہے کہ آسامن سے گر کر پاش پاش ھو
جائے یا پرندے کھا جائیں اور اندھی اڑا دے کہ کوئی نشانی باقی نہ رہے
لیکن راویوں نے اس آیت کو اپنے مدعا میں بیان کیا ہے لہذا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ روح اسی
ارضی قرب میں ہی رہے گی قیامت تک
مستدرک الحاکم کی ایک روایت میں عبد الله بن سالم رضی الله عنہ کا قول ہے
یہ ایک شاذ روایت ہے قرآن میں ہے کہ جنت و جہنم کے درمیان اعراف ہے جو بلند مقام ہے
اگر جہنم اس زمیں میں ہے تو یہ زمین فانی نہیں
قرآن میں سوره القمر میں ہے کہ الله نے قوم نوح کو عذاب دیا اور ان کو پانی میں ڈبو دیا
آسامن کے دروازے کھلے ہیں کفار مر رہے ہیں اور روحیں جلدی جلدی جہنم میں ڈالی جا رہی
ہیں
عود روح کے قائلین کا عقیدہ ہے کہ سوره االعراف کی آیت ٤٠میں کنایہ نہیں بلکہ اصول بیان
کیا گیا ہے
لیکن عود روح کے قائلین نے ابھی تک خود بھی نہیں سمجھا کہ زاذان کی عود روح والی
روایت ان کے عقیدے کے خالف ہے .روح قرب میں ہی رہے گی کیونکہ آسامن کے دروازے اب
کافر کی روح کے لئے نہیں کھل سکتے جبکہ وہ یہ عقیدہ پیش کرتے ہیں کہ عود روح تھوڑی
دیر ہوتا ہے پھر روح جہنم میں جاتی ہے
روح کے قبض ہونے اور قرب کے سوال و جواب کے بعد کافر و منافق اور نافرمان کی روح کو
جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ عذاب سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔ یہی عذاب جہنم ہے
اور اس کی میت کو قرب میں عذاب دیا جاتا ہے اور یہ عذاب قرب ہے۔ اور جب قیامت قائم ہو گی
عذاب جہنم باقی رہ جائے گا
عذاب قرب ختم ہو جائے گا اور رصف ِِ تو
ابن حزم کتاب الفصل ف امللل واألهواء والنحل میں لکھتے ہیں
فيبلوهم الله عز َوجل ِف ال ُّدنْيَا ك ََام شَ ا َء ث َّم يتوفاها فَّتجع إِ َل الربزخ الَّ ِذي َرآهَا ِفي ِه َر ُسول الله صل
الله َعلَ ْي ِه َوسلم لَ ْيلَة أرسى بِ ِه ِعنْد َس َامء ال ُّدنْ َيا أَ ْر َواح أهل َّ
الس َعادَة َعن َميِي آدم َعلَ ْي ِه َّ
الص َالة َوال َّس َالم
يساره َعلَ ْي ِه َّ
الس َالم وأرواح أهل الشقاوة َو َعن َ
پس الله عزوجل ان (انسانوں) کو دنیا میں آزماتا ہے پھر موت دیتا ہے اور الربزخ میں پلٹاتا ہے
جس کو اس نے َر ُسول الله صل الله َعلَ ْي ِه َوسلم کو معراج کی رات دکھایا تھا کہ آسامن دنیا پر
اہل سعادت کی ارواح آدم َعلَيْ ِه َّ
الص َالة
الس َالم کی بائیں طرف تھیں الس َالم کے دائیں جانب اور اہل شقاوت کی ارواح ،آدم َعلَ ْي ِه َّ
الص َالة َو َّ َ .و َّ
امام مسلم باب عرض مقعد امليت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القرب والتعوذ منہ میں
روایت کرتے ہیں
و ف صحيح املسلم رواية عن أب هريرة :قال وإن الكافر إذا خرجت روحه – قال حامد وذكر من
نتنها وذكر لعنا – ويقول أهل السامء روح خبيثة جاءت من قبل األرض قال فيقال انطلقوا به إل
.آخر األجل
ابی ھریرہ رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ
بے شک جب کافر کی روح نکلتی ہے … اہل السامء کہتے ہیں خبیث روح ہے جو زمین کی
طرف سے آئی ہے پس کہا :کہتے ہیں اس کو آخری اجل (قیامت) تک کے لئے لے جاؤ
مسلم کی روایت سے واضح ہے کہ جہنم ،زمین میں نہیں بلکہ آسامن میں ہے .سوره الذاريات
آیت ٢٢میں ہے
الس َام ِء ِر ْزقُكُ ْم َو َما تُو َعدُو َن
َو ِف َّ
اور آسامن میں ہی متہارا رزق ہے اور وہ جس کا وعدہ کیا گیا ہے
زاذان کی روایت کے مطابق مومن کی روح بھی آسامن پر نہیں رہتی بلکہ الله تعالی حکم دیتے
ہیں
وأعيدوه إل األرض فإّن منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى
اس روح کو زمین کی طرف پلٹ دو پس میں نے ان کو اس سے تخلیق کیا ہے اور اسی میں لوٹاؤں
گا اوراسی سے دورسی بار نکالوں گا
مومن کی روح قرب میں کہتی ہے فيقول رب أقم الساعة حتى أرجع إل أهل وما ِل
اس روایت میں یہ کہیں بھی نہیں کہ روح کو واپس جسد سے نکاال جائے گا اور جنت یا جہنم
میں لے جایا جائے گا جہاں ممکن ہے کہ اس کی مالقات اپنے اہل سے ھو لیکن روح قرب میں ہی
رہ جاتی ہے قیامت تک کے لئے
ابن عبد الرب التمھید ج ١٤ص ١٠٩میں کہتے ہیں کہ الرباء بن عازب کی روایت سے
أَنَّ َها قَ ْد تَكُو ُن َع َل أَفَ ِنيَّ ِة قُبُو ِرهَا الَ َع َل أَنَّ َها الَ تَرِي ُم َوالَ تُفَارِقُ أَفَ ِنيَّ َة الْ ُقبُو ِر
بے شک ارواح قربستانوں میں ہیں اور یہ ان کو نہیں چھوڑتیں
عود روح کے بعدجسد پر عذاب ہوتا ہے اورایک اندھا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جو جسد کو مارتا
ہے کہ اس میں سے روح نکل جاتی ہے اور پھر دوبارہ اعادہ روح ہوتا ہے
جسد مٹی ھو جاتا ہے پھر اعادہ روح ہوتا ہے تاکہ کافر پر عذاب کی شدت ھو
یعنی روح جسد سے نکلتی اور واپس عود کرتی رہتی ہے
إذ روح غُي الشهيد ممن يؤخر للحساب ال يدخل الجنة عند مفارقتها للبدن فقد ورد ” :أرواح
املؤمني عل أفنية قُبُورهم “.
اگر روح غیر شہید کی ھو جس پر حساب موخر ہے ،وہ جنت میں جسم چھوڑنے پر داخل نہیں
ہوتی جیسا کہ آیا ہے مومنین کی ارواح قربستانوں کے میدان میں ہیں
أبو زكريا محيي الدين يحيى بن رشف النووي (املتوىف676 :هـ) کتاب املنهاج رشح صحيح مسلم بن
الحجاج میں لکھتے ہیں
السنَّ ِة الْ َج َس ُد بِ َعيْ ِن ِه أَ ْو بَعْضُ ُه بَ ْع َد ِإ َعا َد ِة ال ُّروحِ إِلَيْ ِه أَ ْو إِ َل ُج ْزء ِمنْ ُه َوخَال ََف ِفي ِه
الْ ُم َعذ َُّب ِعنْ َد أَ ْه ِل ُّ
ُم َح َّم ُد بْ ُن َجرِير َو َعبْ ُد اللَّ ِه بن كرام وطائفة فقالوا اليشَّتط ِإ َعا َد ُة ال ُّروحِ ق ََال أَ ْص َحابُنَا َهذَا ف َِاسد ِأل َّنَ
األْ َلَ َم َواْلْ ِ ْح َس َ
اس إِمنَّ َا يَكُو ُن ِف الْ َح ِّي
معذب ،اہل السنت کے نزدیک جسد بعینہ ہے یا اس کے بعض حصے اس میں ِإ َعا َد ِة ال ُّروحِ ہونے
کے بعد اور اس کی مخالفت کی ہے محمد بن جریر اور عبدللہ بن کرام اور ایک گروہ نے اور کہا
کہ ِإ َعا َد ِة ال ُّروحِ عذاب کی رشط نہیں .ہامرے اصحاب کہتے ہیں یہ فاسد قول ہے بے شک امل و
احساس زندہ کے لئے ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ِإ َعا َد ِة ال ُّروحِ کوئی استثنائی معامله نہیں بلکہ روح جسد ہی میں رہتی ہے
أنور شاه بن معظم شاه الكشمُيي الديوبندي (املتوىف1353 :هـ)کتاب فيض الباري عل صحيح
البخاري میں لکھتے ہیں
وح بدون البدن معطَّلة عن األفعال ،فاحتاج أحدُهام فإن البد َن بدون الروح جامد ال ِح َر َاك له ،وال ُّر ُ
فلام اشَّتكا ف الك َْس ِب اشَّتكا ف األجر ،أو ال ِو ْز ِر أيضً ا
إل اْلخرَّ ،
بدن بغیر روح کے ایک جامدی چیز ہے جس میں حرکت نہیں ہوتی اور روح بغیر بدن کے عمل
سے خالی ہے ان دونوں میں سے ہر ایک دورسے کا محتاج ہے پس جب کسب عمل میں یہ
دونوں رشیک ہیں تو اجر میں بھی رشیک ہونے چاہیے ہیں
اس بحث کا لب لباب ہے کہ زاذان کی منکر روایت سے جو نتائج نکلتے ہیں اس پر عود روح کے
قائلین خود متفق نہیں دوئم یہ روایت نہ رصف منت میں غیر واضح ہے بلکہ قرآن و احادیث
صحیحہ کے خالف بھیہے یہی وجہ ہے کہ الذھبی سیر االعالم النبالء میں اس روایت کے لئے
کہتے ہیں
َح ِديْثُ ُه ِف شَ أْنِ الق ْ َِرب بِطُ ْولِ ِه ِف ْي ِه نَكَا َرة َو َغ َرابَة
املنھال بن عمرو کی قرب کے بارے میں طویل روایت میں نکارت اور غرابت ہے
الذہبی کے ہم عرص ابن تیمیہ نے اس کے بر عکس اس روایت کا دفاع کیا اور ابن قیم نے کتاب
الروح میں اس کو عقیدے کی کلید بنا دیا
کیا قرآن میں َو َر ْهط ََك ِمنْ ُه ُم الْ ُم ْخل َِص َي کی آیت تھی؟
جواب
کتاب تفسیر قرآن ،سورۃ تبت یدا ابی لھب وتب :حدیث منرب 4973
وىسَ ،ح َّدثَنَا أَبُو أُ َسا َمةََ ،ح َّدثَنَا األَ ْع َم ُشَ ،ح َّدثَنَا َع ْم ُرو بْ ُن ُم َّرةََ ،ع ْن َس ِعي ِد بْنِ ُجبَ ُْي، وس ُف بْ ُن ُم َ َح َّدثَنَا يُ ُ
ي} َو َر ْهط ََك ِمنْ ُه ُم الْ ُم ْخل َِص َ
ي، َ َ
َعنِ ابْنِ َعبَّاس ـ رىض الله عنهام ـ ق ََال ل ََّام نَ َزلَتْ { َوأنْ ِذ ْر َع ِش َُيت ََك األقْ َربِ َ
الصفَا فَ َهتَ َف ” يَا َصبَا َحا ْه ” .فَقَالُوا َم ْن َهذَا، ول اللَّ ِه صل الله عليه وسلم َحتَّى َص ِع َد َّ َخ َر َج َر ُس ُ
فَا ْجتَ َم ُعوا إِلَ ْي ِه .فَق ََال ” أَ َرأَيْتُ ْم ِإ ْن أَخ َ ْْربتُكُ ْم أَ َّن َخ ْيالً تَ ْخ ُر ُج ِم ْن َس ْفحِ َهذَا الْ َج َب ِل أَكُنْتُ ْم ُم َص ِّدقِ َّي ” .قَالُوا
ي يَ َد ْى َعذَاب شَ ِديد ” .ق ََال أَبُو لَ َهب تَ ىبا ل ََك َما َج َم ْع َت َنا ِإالَّ َما َج َّربْ َنا َعلَ ْي َك كَ ِذبًا .ق ََال ” فَإِ ِّّن نَ ِذير لَكُ ْم بَ ْ َ
لِ َهذَا ث ُ َّم قَا َم فَنَ َزلَتْ {تَبَّتْ يَدَا أَ ِب لَ َهب َوت ََّب} َوقَ ْد ت ََّب َهكَذَا قَ َرأهَا األ ْع َم ُش يَ ْو َم ِئذ.
َ َ
ترجمہ :ہم سے یوسف بن موسی نے بیان کیا ،کہا ہم سے ابو اسامہ نے ،کہا ہم سے اعمش نے،
عباس سے ،انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن مرہ نے ،انہوں نے سعید بن جبیر سے ،انہوں نے ابن ؓ
ک ِمن ُھ ُم امل ُخلِ ِصی َن تو کہا جب (سورہ شعراء کی) یہ آیت اتری َو ا َن ِذر َع ِشی َرتَ َ
ک االَق َربِی َن َو َرھطَ َ
رسول اللہﷺ (مکہ سے) باہر نکلے۔ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہاں پکارا ارے لوگو ہوشیار ہو
جاؤ۔ مکہ والے کہنے لگے یہ کون ہے۔ وہ سب (رسول اللہﷺ کے پاس جا کر) جمع ہو گئے۔
آپ نے فرمایا بتاؤ تو سہی اگر میں تم کو یہ خرب دوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ کے تلے سے ؐ
آپ کو آجنکلنے والے ہیں تو تم میری بات سچ مانو گے۔ انہوں نے کہا (بیشک) کیونکہ ہم نے ؐ
آپ کو صادق اور امین کا لقب دے تک کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا (چناچہ اسی وجہ سے ؐ
آپ نے فرمایا۔ تو پھر میری بات سنو میں تم کو آگے آنے والے قیامت کے سخت رکھا تھا)۔ ؐ
عذاب سے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کو ابو لہب مردود کہنے لگا ارے تو تباہ ہو تو نے ہم کو اس لئے
آپ اٹھ کھڑے ہوئےاور اس وقت اللہ تعالی نے یہ سورت جمع کیا تھا (نا حق پریشان کیا) ۔ آخر ؐ
اتاری تَبَّت یَدَا اَبِی لَ َھب ۔ اعمش نے یو ں پڑھا ہے َو قَد ت ََّب جس دن یہ حدیث روایت کی۔
کتاب ایامن از ابن مندہ میں اس روایت کے بعد ہے کہ الفاظ َو َر ْهط ََك ِم ْن ُه ُم الْ ُم ْخل َِص َ
ي کے لئے
محدث آعمش نے کہا
ق ََال األْ َ ْع َم ُشَ :و َهكَذَا ِه َي ِف قِ َرا َء ِة َعبْ ِد اللَّ ِه .ق ََال :فَقَالُواَ :ما َج َّربْنَا َعلَيْ ِه كَ ْذبَة .ق ََالَ :و َه ِذ ِه ِه َي قِ َرا َء ُة
ابْنِ َم ْس ُعودَ ،وقِ َرا َءتُ ُه ِف ُم ْص َح ِف ِه َع َل َهذَا
آعمش نے کہا کہ ایسا ہی قرات ابن مسعود رضی الله عنہ میں تھا أَبُو أُ َسا َم َة نے کہا کہ ہم ان
آعمش کو جھوٹا نہیں سمجھتے انہوں (آعمش) نے کہا کہ ایسا ہی ابن مسعود کے مصحف میں
تھا
النووی رشح املسلم میں کہتے ہیں
الظاهر أن هذا كان قرآنا أنزل ثم نسخت تالوته ومل تقع هذه الزيادة ف روايات البخاري
ظاہر ہے یہ قرآن میں نازل ہوئی پھر اس کی تالوت منسوخ ہوئی اور یہ بخاری میں روایت ہوئی
راقم کی رائے میں یہ آیت نہیں بلکہ ترشیح ہے کیونکہ سوره الشعراء کی آیت تھی اپنے گھر
ي ان میں سے خلوص والوں کو ڈراؤ اس کے بعد ترشیح لکھی گئی کہ َو َر ْهط ََك ِمنْ ُه ُم الْ ُم ْخل َِص َ
والوں کو جمع کرو
عثامن رضی الله عنہ کے حکم پر جب مصحف جالئے گئے اس وقت علی اور ابن مسعود کے
مصحف نہیں جالئے گئے تھے یا کہہ لیں انہوں نے ایسا نہیں کیا صحابہ آیات کے ساتھ ہی رشح
لکھ لیتے تھے عائشہ رضی الله عنہا کے لئے اتا ہے کہ انہوں نے مصحف لکھنے کا حکم دیا لیکن
الص َال ِة الْ ُو ْسطَى َوقُو ُموا لِلَّ ِه قَانِتِ َ
ي ایے تو اس میں کہا کہ جب قرآن کی آیت َحا ِفظُوا َع َل َّ
الصلَ َو ِ
ات َو َّ
العرص کا اضافہ لکھ دینا لهذا بہت سے مصحف میں ترشیحی اضافے موجود رہے
دوم قرآن کی دس قرات ہیں اور سب الگ ہیں (معنوی طور سے سب ایک ہیں الفاظ کی تبدیلی
ہے) برصغیر اور مرشق وسطی میں عاصم بن ابی النجود کی قرات ہے – کوفہ اور یمن میں قرات
عبد الله ابن مسعود اور معآذ بن جبل مشھور تھی اور آعمش بھی کوفی ہیں اور عاصم کے شاگرد
ہیں لہذا ان کو ترشیحی الفاظ سے مغالطہ ہوا کہ گویا یہ قرات کا حصہ ہیں ہم تک جو قرات
آئی ہے اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں لہذا یہ اضافہ ترشیحی ہے
کتاب فصل الخطاب ف تحريف كتاب رب األرباب – الشيخ حسي النوري الطربِس کے مطابق
ورهطك منهم املخلصي .سے مراد ہیں
.قال عل وحمزة وجعفر والحسن والحسي وآل محمد صلوات الله عليهم خاصة
حاالنکہ چچا حمزہ تو اس دعوت ذی عرشہ کے بہت بعد ایامن الئے -حسن حسین پیدا نہ ہوئے
تھے اور چچا عباس رضی الله عنہ کا تو ذکر ہی نہیں اور چچا ابی طالب تو آخری وقت تک ایامن
نہ الئے ان کا ذکر بھی نہیں ،چچاابو لھب کا قرآن میں ہے وہ کافر مرا
اب اگر الفاظ ترشیحی ہیں تو ان سے کیا مراد ہے بات یہ ہے کہ ایک خاندان میں سینکڑوں لوگ
ہوتے ہیں دعوت توحید کس کو دی جائے اس کی وضاحت ہے کہ چند مخلص لوگوں کو دو جو
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے گامن کے مطابق ایامن ال سکتے تھے لیکن ان پر اس وقت
خاندان میں بزرگ افراد میں کوئی بھی ایامن نہ الیا جبکہ واضح ہے کہ یہ دعوت سب سے پہلے
انہی کے لئے تھی فتح الباری از ابن حجر کے مطابق واقدی کا قول ہے کہ ٤٥لوگوں کی دعوت
کی گئی
ابن اسحاق اور بیہقی کے مطابق رصف چالیس لوگ تھے
انذار تو کافر و مسلم دونوں کے لئے ہے اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ
وسلم نے اس دعوت میں اپنی بیٹی فاطمہ کو الله کے عذاب سے ڈرایا کہ اے فاطمہ اپنے آپ
کو عذاب الله سے بچاؤ
يَا ف َِاط َم ُة بِنْتَ ُم َح َّمد َويَا َص ِفيَّ ُة بِنْتَ َعبْ ِد الْ ُمطَّلِ ِب ،يَا بَ ِني َعبْ ِد الْ ُمطَّلِ ِب إِ ِّّن الَ أُ ْغ ِني َعنْكُ ْم ِم َن اللَّ ِه
ُوّن ِم ْن َما ِِل َما ِشئْتُ ْم
شَ ْيئًاَ ،سل ِ
ایک اور زاویہ :کہا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک
دعوت کی جس کو دعوت ذی عشیرہ کہا جاتا ہے اس میں خاندان والوں کو جمع کیا اس کے بعد
توحید کی دعوت دی اور کوئی نہ تھا جو ایامن التا رصف ایک بچہ علی رضی الله عنہ تھے جو
ایامن الئے
ي والی روایت میں ہے کسی دعوت کا ذکر نہیں ہے لیکن اسی بخاری کی َو َر ْهط ََك ِمنْ ُه ُم الْ ُم ْخل َِص َ
بلکہ یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم صفا پر کھڑے ہوئے اور متام قریش کو ڈرایا جس
پر ابو لھب نے برا بھال کہا اور سوره لھب نازل ہوئی
لہذا تاریخ کی کتب کے مطابق ایک دعوت ہوئی جس میں خاندان والے تھے جبکہ صحیحین کے
مطابق کوئی دعوت نہ ہوئی اب جب دعوت ہی نہیں ہوئی تو علی کا بچپن میں ایامن النا ثابت
نہیں ہوتا
ي والی روایت کو مانا جائے تو دعوت ذی عشیره ثابت نہیں ِ
یہ ایسا ہے کہ َو َر ْهط ََك منْ ُه ُم الْ ُم ْخل َِص َ
ہوتی
کیا قرآن میں رضاعت کی آیت تھی جو قرآن میں اب موجود نہیں ہے؟
اور حرمت رضاعت کتنی بار دودھ پالنے پر ہے؟ کیا عائشہ رضی الله عنہا بڑی عمر کے شخص
کے لئے بھی اس کا حکم کرتی تھیں؟
امام مالک نے خرب دی انکو َعبْ ِد ال َّل ِه بْنِ أَ ِب بَكْ ِر بْنِ ُم َح َّم ِد بْنِ َع ْمرِو بْنِ َح ْزم نے خرب دی انکو
عمرہ نے انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کیا کہ اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا
تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات
سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا
رہے تھے
جواب
امام مالک کی سند سے یہ صحیح مسلم ،سنن النسائی ،سنن ابی داود وغیرہ میں روایت ہوئی
ہے رصف امام بخاری نے اس کو درج نہیں کیا ہے
فقہاء کی ایک جامعت اس روایت کو صحیح کہتی اور دلیل لیتی ہے اور ایک جامعت رد کرتی ہے
اسی طرح اہل تشیع بھی اس کو رد کرتے ہیں
يث قَ ْوم ِم َن الْ ُف َق َها ِء ِمنْ ُه ْم :الشَّ ا ِف ِع ُّي َو ِإ ْس َحاقُ َوغ ْ َُُيه َُامَ ،و َج َعلُوا الْ َخ ْم َس َحدىا بَ ْ َ
ي َوقَ ْد أَ َخ َذ بِ َهذَا الْ َح ِد ِ
ي َما الَ يُ َح ِّر ُم
َما يُ َح ِّر ُم َوبَ ْ َ
اور اس حدیث کے فقہاء کی ایک قوم نے اخذ کیا ہے جن میں شافعی اور اسحاق اور دیگر ہیں
کہ پانچ بار کی حد ہے جس سے حرمت اور غیر حرمت ہوتی ہے -یعنی شوافع میں پانچ بار
دودھ پالنے سے حرمت رضاعت ہو جائے گی -کتاب مسائل اْلمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن
راهويه از أبو يعقوب املروزي الكوسج (املتوىف251 :هـ) کے مطابق امام احمد کہتے تھے إن
ذهب ذاهب إل خمس رضعات مل أعبه اگر وہ پانچ رضعات تک جائے تو کوئی عیب نہیں ہے-
لیکن بعد میں حنابلہ میں اس مسئلہ میں کئی رائے ہوئیں مثال ابن قدامہ کتاب الهادي یا عمدة
الحازم میں کہتے ہیں َوا ْختَل ََف أَ ْص َحابُنَا ف َح ِّد ال َّرضْ َع ِة اور ہامرے اصحاب کا حد رضاعت میں
اختالف ہے -امام مالک کے بیان کردہ عائشہ رضی الله عنہا کے اثر کے نیچے موطآ میں لکھا
-ہے وليس العمل عل هذا اور اس پر(مسلامنوں کا) عمل نہیں ہے
شعيب األرنؤوط کتاب اْلحسان ف تقريب صحيح ابن حبان میں اس روایت کی تعلیق میں
لکھتے ہیں
قال اْلمام البغوي ف (رشح السنة) :81/9اختلف أهل العلم فيام تثبت به الحرمة من الرضاع،
فذهب جامعة من أصحاب النبي صل الله عليه وسلم وغُيهم إل أنه ال تثبت بأقل من خمس
رضعات متفرقات ،وبه كانت تفتي عائشة وبعض أزواج النبي صل الله عليه وسلم ،وهو قول عبد
الله بن الزبُي ،وإليه ذهب الشافعي وإسحاق ،وقال أحمد :إن ذهب ذاهب إل قول عائشة ف
خمس رضعات ،فهو مذهب قوي ،وذهب أكث أهل العلم عل أن قليل الرضاع وكثُيه محرم ،يروى
ذلك عن ابن عباس ،وابن عمر ،وبه قال سعيد بن املسيِّب ،وعروة بن الزبُي ،والزهري ،وهو قول
سفيان الثوري ،ومالك ،واألوزاعي ،وعبد الله بن املبارك ،ووكيع ،وأصحاب الرأي ،وذهب أبو عبيد،
وأبو ثور ،وداود إل أنه ال يحرم أقل من ثالث رضعات ،لقوله َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم“ :الَ تح ِّرم َّ
املصة
وال املصتان” ،ويحىك عن بعضهم أن التحريم ال يقع بأقل من عرش رضعات ،وهو قول شاذ
امام البغوي رشح السنة میں کہتے ہیں اہل علم کا اختالف ہے کہ حرمت رضاعت میں کیا ثابت ہے
پس ایک اصحاب رسول کی جامعت کا اور دیگر کا مذھب ہے کہ پانچ مختلف رضعات سے کم
بار پر حرمت ثابت نہیں ہوتی اور اسی پر عائشہ اور بعض ازواج نبی فتوی دیتیں تھیں اور یہی
قول ہے عبد الله بن زبیر کا اور اس پر مذھب ہے شافعی کا اسحاق کا اور امام احمد کہتے ہیں
اگر میں جاؤں تو قول عائشہ پر جاؤں گا کہ حرمت پانچ رضعات پر ہے اور یہ مذھب قوی ہے
اور اکث اہل علم کا مذھب ہے کہ چاہے کم ہو یا زیادہ حرمت ہو جاتی ہے جو روایت کیا جاتا ہے
ابن عباس و ابن عمر سے اور ایسا ہی سعید بن مسیب اور عروہ نے امام الزہری نے کہا یہ قول
ہے سفیان ثوری کا مالک کا األوزاعي کا عبد الله بن مبارک کا وکیع کا اصحاب رائے کا – ابو عبید،
ابو ثور اور داود کا مذھب ہے کہ حرمت نہیں ہوتی تین رضعات سے کم پر رسول الله صلی
الله علیہ وسلم کے قول کے مطابق ایک دو بار چوسنے پر حرمت نہیں ہے اور بعض کی طرف
سے بیان کیا گیا ہے کہدس رضعات سے کم پر حرمت نہیں ہوتی اور یہ قول شاذ ہے
بعض احناف متقدمین کے نزدیک عائشہ رضی الله عنہا کی صحیح مسلم کی روایت معلول ہے
اور کتاب رشح مشكل اْلثار میں امام ابو جعفر طحاوی کہتے ہیں
ق ََال أَبُو َج ْعفَرَ :و َهذَا ِم َّم ْن الَ نَ ْعلَ ُم أَ َحدًا َر َوا ُه ك ََام َذكَ ْرنَا غ ْ ََُي َعبْ ِد [ص ]312:الل ِه بْنِ أَ ِب بَكْر َو ُه َو ِعنْ َدنَا
ول الل ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ض الل ُه َعنْ َها ,أَ َّن َر ُس َ َوهْم ِمنْ ُه ,أَ ْع ِنيَ :ما ِفي ِه ِم َّام َحكَا ُه َع ْن َعائِشَ َة َر ِ َ
تُ ُوفِّ َ َو ُه َو ِم َّام يُ ْق َرأُ ِم َن الْ ُق ْرآنِ ؛ ِألَ َّن ذَلِ َك لَ ْو كَا َن كَ َذلِ َك لَكَا َن ك ََسائِ ِر الْ ُق ْرآنِ َ ,ولَ َجا َز أَ ْن يُ ْق َرأَ بِ ِه ِف
اش لِلَّ ِه أَ ْن يَكُو َن كَ َذلِ َك ,أَ ْو يَكُو َن قَ ْد بَ ِق َي ِم َن الْ ُق ْرآنِ َما لَ ْي َس ِف الْ َم َصا ِح ِف الَّتِي قَا َمتْ ات َو َح َ الصلَ َو َِّ
ِ ِ ِ ِ ِ
بِ َها الْ ُح َّجة َعليْنَا َ ,وكَا َن َم ْن كَ َف َر [ص ]313:بِ َح ْرف م َّام في َها كَاف ًرا َ ,ولكَا َن ل ْو بَق َي م َن ال ُق ْرآنِ غ ْ َُُي َما
ْ َ َ َ ُ
ِب الْ َع َم ُل بِ ِه َ ,و ِف ِب الْ َع َم ُل بِ ِه َ ,و َما لَيْ َس ِفي َها ن َِاسخ يَج ُ ِفي َها لَ َجا َز أَ ْن يَكُو َن َما ِفي َها َمنْ ُسوخًا الَ يَج ُ
وب الْ َع َم ِل مبِ َا ِف أَيْ ِدينَا ِ ,م َّام ُه َو الْ ُق ْرآ ُن ِعنْ َدنَا َ ,ونَ ُعوذُ بِالل ِه ِم ْن َهذَا الْ َق ْو ِل َو ِم َّم ْن ذَلِ َك ا ْرتِفَا ُع ُو ُج ِ
.يَقُولُ ُه
امام طحآوی کہتے ہیں؛ اور ہم نہیں جانتے اس کو کسی نے روایت کیا ہو سوائے عبد الله بن ابی
بکر کے اور یہ انکا وہم ہے – کافی ہے جو عائشہ رضی الله عنہا سے حکایت کیا جاتا ہے کہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور وہ قرآن میں جو تھا اس کی تالوت کرتے تھے
اور اگر ایسا (کچھ قرآن میں) ہوتا تو متام قرآن ( کے نسخوں ) میں ایسا ہوتا اور جائز ہوتا کہ اس
کو پنج وقتہ مناز میں بھی پڑھا جائے اور حاشا للہ ایسا نہیں ہے اور… .اور جو اس کے ایک
حرف کا بھی انکار کرے کافر ہے اور اگر قرآن میں جو باقی ہے یہ سب نہیں ہے تو یہ (عمل)
منسوخ ہے اس پر عمل نہیں رہا اور اس میں جو ناسخ ہے اس پر عمل واجب ہے اور اس بات
عمل اٹھ جاتا ہے اور ہم الله سے اس قول پر پناہ مانگتے سے اس قرآن پر جو ہاتھوں میں ہے
ہیں اور جو بھی ایسا کہے
یعنی امام طحآوی اور احناف متقدمین رسے سے اس روایت کو صحیح ہی نہیں سمجھتے
شعيب األرنؤوط کتاب اْلحسان ف تقريب صحيح ابن حبان میں اس روایت کی تعلیق میں
لکھتے ہیں
وقول عائشة :فَتُ ُوفِّ َ َر ُسو ِل اللَّ ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم َو ِه َي فيام يقرأ ف القرآن :أرادت به قرب عهد
ول اللَّ ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم َح َّتى كان بعض من مل يبلغه النسخ يقرؤه عل النسخ من وفات َر ُس ُ
الرسم األول ،ألن النسخ ال يتصور بعد رسول الله صل الله عليه وسلم ،ويجوز بقاء الحكم مع نسخ
التالوة كالرجم ف الزىن حكمه باق مع ارتفاع التالوة ف القرآن ،ألن الحكم يثبت بأخبار اْلحاد،
ويجب العمل به ،والقرآن ال يثبت بأخبار اْلحاد ،فلم يجز كِتبته بي الدفتي
اور عائشہ کا قول :پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور یہ قرآن میں تالوت
کی جاتی تھیں تو انکا مقصد ہے کہ وفات النبی سے قبل اس دور میں جب نسخ کا دور تھا یہاں
تک کہ بعض کو انکی منسوخیت نہیں پہنچی تو وہ اس کو رسم اول پر کی تالوت کرتے رہے
کیونکہ نسخ کا تصور رسول الله کے بعد متصور نہیں ہے اور یہ جائز ہے کہ حکم باقی رہے اور
تالوت منسوخ ہو جائے جیسے کہ رجم میں ہوا کہ اس کا حکم باقی ہے اور تالوت قرآن میں سے
اٹھ گئی ہے کیونکہ حکم ثابت ہے اخبار احاد سے اور اس پر عمل واجب ہے اور قرآن اخبار احاد
سے ثابت نہیں ہوتا لہذا اس حکم کا دفتیں میں لکھنا جائز نہیں
شعيب األرنؤوط نے اس کے برعکس اس روایت کو صحیح کہا ہے اور اس کی تاویل کی ہے
وروي عن النبي عليه السالم أنه قال :الرضاعة من املجاعة يعني :ما سد الجوع .وقال عليه .
السالم :الرضاع ما أنبت اللحم وشد العظم .وروى سفيان بن عيينة ،عن هشام بن عروة ،عن
أبيه ،عن عبد الله بن الزبُي :أن النبي عليه السالم قال :ال تحرم املصة وال املصتان وال الرضعة وال
الرضعتان .وروي عن عائشة أنها قالت :كان فيام أنزل الله ف القرآن أن عرش رضعات معلومات
يحرمن ،ثم نسخن بخمس معلومات ،فتوف رسول الله صل الله عليه وآله وهي مام يقرأ من
القرآن .ووجه الداللة أنها أخربت أن عرش رضعات كان فيام أنزله ،وقولها ( :ثم نسخن بخمس
رضعات ) قولها ،وال خالف أنه ال يقبل قول الراوي أنه نسخ ‹ صفحة › 98كذا لكذا إال أن يبي ما
نسخه ،لينظر فيه هل هو نسخ أم ال ؟
اور روایت کیا گیا ہے نبی علیہ السالم سے کہ رضاعت املجاعة میں ہے یعنی بھوک مٹانے پر اور
آپ علیہ السالم نے فرمایا رضاعت ہے جس پر گوشت پنپے اور ہڈی مظبوط ہو اور سفيان بن
عيينة ،عن هشام بن عروة ،عن أبيه ،عن عبد الله بن الزبُي سے روایت ہے کہ نبی علیہ السالم
نے فرمایا حرمت نہیں ہوتی ایک دو بار چوسنے سے اور عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا
اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار
دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات
ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے اور وجہ دلیل یہ ہے کہ دس بار پالنے کی
آیت نازل ہوئی تھی اور ان کا قول کہ پھر پانچ سے منسوخ ہوئی اور اس میں اختالف نہیں کہ
راوی کا قول قبول نہیں کیا جائے گا جب وہ کہے یہ اور یہ منسوخ ہے اور واضح نہ کرے کہ
کیا نسخ ہے کہ دیکھیں کہ کیا یہ منسوخ تھا بھی یا نہیں
یعنی اہل تشیع اس عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کو قبول ہی نہیں کرتے – ان کے ہاں کوئی
حد رضاعت پر نہیں ملتی – اہل تشیع کے بعض جہالء نے اس روایت سے قرآن پر اعَّتاضات کیے
ہیں جبکہ انکی اپنی کتب شاہد ہیں کہ یہ روایت ان کے ہاں قبول نہیں کی جاتی
ات أَ ِخي َها أَ ْن يُ ْر ِض ْع َن َم ْن أَ َحبَّتْ َعائِشَ ُة أَ ْن يَ َراهَا َويَ ْدخ ُُل َعلَيْ َها ض الل ُه َعنْ َها تَأْ ُم ُر بَنَ ِ
كَانَتْ َعائِشَ ُة َر ِ َ
َ َ ُ َ
َخ ْم َس َرضَ َعات فَيَ ْدخ ُُل َعلَيْ َها َوأبَتْ أ ُّم َسلَ َم َة َو َسائِ ُر أ ْز َواجِ النَّب ِِّي َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم أ ْن يُ ْد ِخلْ َن
اس بِتِل َْك ال َّرضَ ا َع ِة َحتَّى يُ ْر ِض ْع َن ِف الْ َم ْه ِد َوقُلْ َن لِ َعائِشَ َة َر ِ َ
ض الل ُه َعنْ َها َوالل ِه َما نَ َرى َعلَيْ ِه َّن ِم َن النَّ ِ
اسلَ َعلَّ َها ُرخ َْصة لِ َسالِم ِم ْن َر ُسو ِل الل ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم دُو َن النَّ ِ
عائشہ رضی الله عنہا اپنی بھتیجیوں کو حکم کرتیں کہ وہ (کسی شخص کو) پانچ بار دودھ پال
دیں جس کو وہ چاہتییں کہ ان کے پاس آئیں اور حجرہ میں داخل ہوں ،پس وہ داخل ہوتے اور
ام سلمہ اور باقی ازواج رسول اس پر کہتیں کہ یہ رضاعت تو پالنے (پنگوڑے) میں ( پیدائش
سے دو سال کی مدت) ہی ہو سکتی ہے اور عائشہ سے کہتیں کہ ہم نہیں سمجھتیں کہ یہ
رخصت سامل کے سوا رسول الله نے کسی اور کو دی
یہ الفاظ سنن الکربی از البیہقی ،مسند احمد اور سنن ابو داود میں بیان ہوئے ہیں -یہ اضافہ
راوی امام الزہری یا عروہ بن زبیر کا جملہ ہے -یہ اضافہ باقی راوی بیان نہیں کرتے
سنن الکربی از البیہقی کی سند الليث بن سعد عن عقيل بن خالد األيل َعنِ ابْنِ ِش َهاب
سے ہے
وقال أحمد بن حنبل :ذكر عند يحيى القطان إبراهيم بن سعد وعقيل ،فجعل كأنه يضعفهام
احمد کہتے ہیں يحيى القطان سے عقیل اور ابراہیم بن سعد کا ذکر ہوا انہوں نے ایسا کیا کہ
گویا دونوں ضعیف ہیں
ابو داود میں بھی یہ اضافہ بیان ہوا ہے جہاں اسکی سند میں عنبسة بن خالد األموي ہے امام
احمد کہتے
کوئی سی ایسی چیز ہے جو عنبسة نے بیان کی اور اس سے احمد بن صالح کے سوا اور کون ہے
جو روایت کرے؟
يحيى بن بكُي عنبسة کو مجنون أحمق کہتے ہیں (ميزان االعتدال ف نقد الرجال از الذھبی ) اور
تاریخ االسالم از الذھبی کے مطابق یحیی بن بکیر کہتے ما كَا َن أهال لْلخذ َع ْن ُه اس قابل نہیں کہ
اس سے اخذ کیا جائے
یہ اضافہ مسند احمد میں ابن أخي الزهري کی سند سے بھی آیا ہے جس کا نام محمد بن عبد
الله بن مسلم ہے جو مختلف فيه ہے ابن معي اس کو ضعیف کہتے ہیں اور املروذي کے
مطابق امام احمد ضعیف گردانتے تھے
یعنی عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب یہ عمل رصف امام الزہری کی سند سے ہے جو تین
راویوں نے بیان کیا ہے اور تینوں اتنے مظبوط نہیں کہ اس کو قبول کیا جائے – البتہ لوگوں نے
اس اضافہ کو رشوحات میں بیان کیا ہے اس کی تاویالت کی ہیں لیکن یہ اضافہ اوٹ پٹانگ قسم
– کی بات ہے
صحيح بخارى و مسلم ميں عائشہ رىض اللہ تعال عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرَت ہيں رسول
كريم صل اللہ عليہ وسلم مُيے ہاں ترشيف الئے تو مُيے پاس ايك شخص بيٹھا ہوا تھا آپ نے
فرمايا عائشہ يہ كون ہے ؟ تو ميں نے عرض كيا :يہ مُيا رضاعى بھاىئ ہے ،آپ صل اللہ عليہ
وسلم نے فرمايا
اے عائشہ ديكھو كہ متہارے بھاىئ كون ہيں ،كيونكہ رضاعت بھوك سے ہوَت ہے
جب عائشہ رضی الله عنہ خود روایت کریں کہ رضاعت بھوک سے ہے تو ایک بڑی عمر کےشخص
کے لئے اس کا حکم کیسے کر سکتی ہیں؟
رضاعت کی رشائط بچے کی دو سال کے عمر کے اندر کی ہے اس کے بعد ممکن نہیں ہے یہی
فتوی ابن مسعود رضی الله عنہ سے مصنف عبد الرزاق میں بیان ہوا ہے
کیا ام املومنین اپنی بھانجیوں کو غیر محرم مردوں کو اپنا دودھ پالنے کا حکم کرتیں؟
اب َم ْن َح َّر َم بِ ِه) سنن ابو داؤد :کتاب :نکاح کے احکام و مسائل سنن أب داؤد :كِتَ ُ
اب النِّكَاحِ (بَ ُ
2061
َح َّدث َ َنا أَ ْح َم ُد بْ ُن َصالِحَ ،ح َّدث َ َنا َع ْن َب َسةَُ ،ح َّدث َ ِني يُون ُُس َعنِ ابْنِ ِش َهابَ ،ح َّدث َ ِني ُع ْر َو ُة بْ ُن ال ُّزبَ ُْيَِ ،ع ْن
َعائِشَ َة َز ْوجِ النَّب ِِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َمَ ،وأُ ِّم َسلَ َمةَ ،أَ َّن أَبَا ُح َذيْ َف َة بْ َن ُعتْبَ َة بْنِ َربِي َع َة بْنِ َعبْ ِد شَ ْمس
كَا َن تَبَنَّى َسالِ ًامَ ،وأَنْكَ َح ُه ابْنَ َة أَ ِخي ِه ِهنْ َد بِنْتَ الْ َولِي ِد بْنِ ُعتْبَ َة بْنِ َربِي َعةََ ،و ُه َو َم ْو ًل ِال ْم َرأَة ِم َن
اس ول اللَّ ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم َزيْدًاَ ،وكَا َن َم ْن تَبَنَّى َر ُج ًال ِف الْ َجا ِهلِيَّ ِةَ ,د َعا ُه النَّ ُ األْ َن َْصارِ ،ك ََام تَبَنَّى َر ُس ُ
إِلَ ْي ِهَ ،و ُو ِّرثَ ِم َُياثَهَُ ،حتَّى أَنْ َز َل اللَّ ُه ُس ْب َحانَ ُه َوتَ َع َال ِف ذَلِ َك{ :ا ْد ُعو ُه ْم ِْلبَائِ ِه ْم -إِ َل قَ ْولِ ِه -فَإِ ْخ َوانُكُ ْم ِف
الدِّينِ َو َم َوالِيكُ ْم}[األحزاب ،]5 :فَ ُردُّوا إِ َل آبَائِ ِه ْم ،فَ َم ْن لَ ْم يُ ْعلَ ْم لَ ُه أَب ,كَا َن َم ْو ًل َوأَخًا ِف الدِّينِ ،
ولَش ،ث ُ َّم الْ َعا ِم ِر ِّي َ -و ِه َي ا ْم َرأَ ُة أَ ِب ُح َذيْ َف َة ،-فَقَالَتْ :يَا َر ُس َ
فَ َجا َءتْ َس ْهلَ ُة بِنْتُ ُس َهيْ ِل بْنِ َع ْمرو الْ ُق َر ِ ِّ
اللَّ ِه! ِإنَّا كُنَّا نَ َرى َسالِ ًام َولَدًاَ ،وكَا َن يَأْوِي َم ِعي َو َم َع أَ ِب ُح َذيْ َف َة ِف بَيْت َوا ِحدَ ،ويَ َر ِاّن فُضْ ًالَ ،وقَ ْد أَنْ َز َل
<.أَ ْر ِض ِعي ِه> :اللَّ ُه َع َّز َو َج َّل ِفي ِه ْم َما قَ ْد َعلِ ْمتَ ،فَكَ ْي َف تَ َرى ِفي ِه؟ فَق ََال لَ َها النَّب ُِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم
فَأَ ْرضَ َع ْت ُه َخ ْم َس َرضَ َعات ،فَكَا َن مبِ َ ْن ِزلَ ِة َولَ ِدهَا ِم َن ال َّرضَ ا َع ِة ،فَ ِب َذلِ َك كَانَتْ َعائِشَ ُة َر ِض اللَّهم َع ْن َها تَأْ ُم ُر
ات إِ ْخ َوتِ َها ،أَ ْن يُ ْر ِض ْع َن َم ْن أَ َحبَّتْ َعائِشَ ُة أَ ْن يَ َراهَاَ ،ويَ ْدخ َُل َعلَيْ َها َ -و ِإ ْن كَا َن كَ ِب ًُيا- ات أَ َخ َواتِ َهاَ ،وبَنَ ِ بَنَ ِ
َ َ ُ َ
َخ ْم َس َرضَ َعات ،ث ُ َّم يَ ْدخ ُُل َعلَيْ َهاَ ،وأبَتْ أ ُّم َسلَ َمةََ ،و َسائِ ُر أ ْز َواجِ النَّب ِِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم أ ْن يُ ْد ِخلْ َن
اسَ ،حتَّى يَ ْرضَ َع ِف الْ َم ْه ِدَ ،وقُلْ َن لِ َعائِشَ َة َواللَّ ِه َما نَ ْدرِي ,لَ َعلَّ َها كَانَتْ َعلَ ْي ِه َّن بِتِل َْك ال َّرضَ ا َع ِة أَ َحدًا ِم َن النَّ ِ
اس! ُرخ َْص ًة ِم َن ال َّنب ِِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم لِ َسالِم دُو َن ال َّن ِ
امہات املؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس نے سامل کو اپنا متبنی ( منہ بوال بیٹا ) بنایا ہوا تھا اور
اس سے اپنی
بھتیجی ہند دخَّت ولید بن عتبہ بن ربیعہ کا نکاح کر دیا تھا ۔ وہ ایک انصاری خاتون کا آزاد کر
دو غالم تھا جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو اپنا متبنی بنایا
تھا اور جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جسے کوئی اپنا متبنی بنا لیتا تو لوگ اس کو اسی کی نسبت
سے پکارا کرتے تھے اور وہ ( اپنے منہ بولے باپ کا ) وارث بھی بنتا تھا ،حتی کہ اللہ عزوجل نے
اس بارے میں یہ حکم نازل فرمایا کہ «ادعوهم ْلبائهم إل قوله :فإخوانكم ف الدين ومواليكم»
” انہیں ان کے حقیقی باپوں کی نسبت سے پکارا کرو ۔ اگر وہ معلوم نہ ہوں تو یہ متہارے دینی
بھائی اور مولی ہیں ۔ چنانچہ انہیں ان کے باپوں کی طرف لوٹا دیا گیا اور جس کا باپ معلوم نہ
ہوا وہ مولی اور دینی بھائی کہالنے لگا ۔ الغرض ! ( ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی ) سہلہ
بنت سہیل بن عمرو قرشی ،عامری ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ) آئی اور
کہنے لگی :اے اللہ کے رسول ! ہم سامل کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے رہے ہیں ۔ یہ میرے اور
ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا رہا ہے اور مجھے ( گھر میں عام حالت میں ) ایک
کپڑے میں دیکھتا رہا ہے ۔ ( کبھی رس کھال ،تو کبھی پنڈلیاں بھی کھل گئیں وغیرہ ) اور اللہ
عزوجل نے ایسے لوگوں کے بارے میں جو حکم نازل فرمایا ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں ۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم اس صورت میں کیا فرماتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا ”
اس کو ( اپنا ) دودھ پال دو ۔ “ چنانچہ اس نے اس کو پانچ رضعے ( پانچ بار ) دودھ پال دیا ۔ اور
وہ اس طرح اس کے رضاعی بیٹے کی طرح ہو گیا ۔ سو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس واقعہ کی
بنا پر اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں سے کہا کرتی تھیں کہ فالں کو پانچ رضعے ( پانچ بار ) دودھ
پال دو ۔ جس کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خواہش ہوتی کہ وہ ان کو دیکھ
سکے اور ان کے سامنے آ سکے ۔ خواہ وہ بڑی عمر کا بھی ہوتا ۔ چنانچہ وہ اس کے بعد ان کے
سامنے آ جایا کرتا تھا ۔ ( اور یہ اس سے پردہ نہ کرتیں ) مگر ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر
متام امہات املؤمنین نے اس کو قبول نہیں کیا کہ ایسی رضاعت کی بنا پر کوئی شخص ان کے
سامنے آئے ( اور وہ اس سے پردہ نہ کریں ) اال یہ کہ اس نے پالنے میں ( دو سال کی عمر کے
دوران میں ) دودھ پیا ہوتا ۔ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا :قسم اللہ کی ہمیں نہیں
معلوم ،شاید یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سامل کے لیے مبقابلہ دورسے
لوگوں کے خاص رخصت تھی ۔
http://mohaddis.com/View/Abu-Daud/2061
اب رِضَ ا َع ِة الْكَ ِبُيِ) صحیح مسلم :کتاب :رضاعت کے احکام ومسائل صحيح مسلم :كِتَ ُ
اب ال ِّرضَ اعِ (بَ ُ
(باب :بڑے کی رضاعت)
و َح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن الْ ُمثَنَّىَ ،ح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن َج ْعفَرَ ،ح َّدثَنَا شُ ْع َبةَُ ،ع ْن ُح َم ْي ِد بْنِ نَا ِفعَ ،ع ْن 3603 .
َزيْ َن َب بِ ْن ِت أُ ِّم َسلَ َمةَ ،قَالَتْ :قَالَتْ أُ ُّم َسلَ َمةَ ،لِ َعائِشَ ةَِ ،إنَّ ُه يَ ْدخ ُُل َعلَ ْي ِك الْغ َُال ُم األْ َيْ َف ُع ،الَّ ِذي َما أُ ِح ُّب أَ ْن
ل ،ق ََال :يَ ْدخ َُل َع َ َّ
فَقَالَتْ َعائِشَ ةُ :أَ َما ل َِك ِف َر ُسو ِل الل ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم أُ ْس َوة؟ قَالَتْ ِ :إ َّن ا ْم َرأَ َة أَ ِب ُح َذيْ َف َة قَالَتْ :يَا
ول الل ِه َص َّل الل ُه َشء ،فَق ََال َر ُس ُ ل َو ُه َو َر ُجلَ ،و ِف نَف ِْس أَ ِب ُح َذيْ َف َة ِمنْ ُه َ ْ ول الل ِهِ ،إ َّن َسالِ ًام يَ ْدخ ُُل َع َ ََّر ُس َ
» َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم« :أَ ْر ِض ِعي ِه َحتَّى يَ ْدخ َُل َعلَ ْي ِك
شعبہ نے ُح َمید بن نافع سے حدیث بیان کی ،انہوں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے
روایت کی ،انہوں نے کہا :حرضت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حرضت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
کہا آپ کے پاس (گھر میں) ایک قریب البلوغت لڑکا آتا ہے جسے میں پسند نہیں کرتی کہ وہ
میرے پاس آئے۔ حرضت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا :کیا متہارے لیے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم (کی زندگی) میں منونہ نہیں ہے؟ انہوں نے (آگے) کہا :ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ
کی بیوی نے عرض کی تھی :اے اللہ کے رسول! سامل میرے سامنے آتا ہے اور (اب) وہ مرد ہے،
اور اس وجہ سے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے دل میں کچھ ناگواری ہے ،تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا“ :اسے دودھ پال دو تاکہ وہ متہارے پاس آ سکے۔
http://mohaddis.com/View/Muslim/3603
جواب
اپ نے کہا
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ رخصت رصف سامل رضی اللہ عنہ کے لئے تھی تو اس پر دورسا کہے
گا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کہاں فرمایا کہ یہ رخصت سامل رضی اللہ عنہ کے لئے
ات أَ ِخي َها أَ ْن يُ ْر ِض ْع َن َم ْن أَ َحبَّتْ َعائِشَ ُة أَ ْن يَ َراهَا َويَ ْدخ ُُل َعلَيْ َها ض الل ُه َعنْ َها تَأْ ُم ُر بَنَ ِكَانَتْ َعائِشَ ُة َر ِ َ
َخ ْم َس َرضَ َعات فَ َي ْدخ ُُل َعلَ ْي َها َوأَبَتْ أُ ُّم َسلَ َم َة َو َسائِ ُر أَ ْز َواجِ النَّب ِِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم أَ ْن يُ ْد ِخلْ َن
اسَعلَ ْي ِه َّن ِم َن ال َّن ِ
ض الل ُه َعنْ َها َوالل ِه َما نَ َرى لَ َعلَّ َها ُرخ َْصة لِ َسالِم
بِتِل َْك ال َّرضَ ا َع ِة َحتَّى يُ ْر ِض ْع َن ِف الْ َم ْه ِد َوقُلْ َن لِ َعائِشَ َة َر ِ َ
اسِم ْن َر ُسو ِل الل ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم دُو َن ال َّن ِ
عائشہ رضی الله عنہا اپنی بھتیجیوں کو حکم کرتیں کہ وہ (کسی شخص کو) پانچ بار دودھ پال
دیں جس کو وہ چاہتییں کہ ان کے پاس آئیں اور حجرہ میں داخل ہوں ،پس وہ داخل ہوتے اور
ام سلمہ اور
باقی ازواج رسول اس پر کہتیں کہ یہ رضاعت تو پالنے (پنگوڑے) میں ( پیدائش سے دو سال کی
مدت) ہی ہو سکتی ہے اور عائشہ سے کہتیں کہ ہم نہیں سمجھتیں کہ یہ رخصت سامل کے سوا
رسول
یہ الفاظ سنن الکربی از البیہقی ،مسند احمد اور سنن ابو داود میں بیان ہوئے ہیں -یہ اضافہ
راوی امام الزہری یا عروہ بن زبیر کا جملہ ہے -یہ اضافہ باقی راوی بیان نہیں کرتے
سنن الکربی از البیہقی کی سند الليث بن سعد عن عقيل بن خالد األيل َعنِ ابْنِ ِش َهاب سے ہے
کتاب ميزان االعتدال ف نقد الرجال از الذھبی کے مطابق
وقال أحمد بن حنبل :ذكر عند يحيى القطان إبراهيم بن سعد وعقيل ،فجعل كأنه يضعفهام
احمد کہتے ہیں يحيى القطان سے عقیل اور ابراہیم بن سعد کا ذکر ہوا انہوں نے ایسا کیا کہ گویا
دونوں ضعیف ہیں
ابو داود میں بھی یہ اضافہ بیان ہوا ہے جہاں اسکی سند میں عنبسة بن خالد األموي ہے امام
احمد کہتے
کوئی سی ایسی چیز ہے جو عنبسة نے بیان کی اور اس سے احمد بن صالح کے سوا اور کون ہے
جو روایت کرے؟
يحيى بن بكُي عنبسة کو مجنون أحمق کہتے ہیں (ميزان االعتدال ف نقد الرجال از الذھبی ) اور
تاریخ االسالم از الذھبی کے مطابق یحیی بن بکیر کہتے ما كَا َن أهال لْلخذ َعنْ ُه اس قابل نہیں کہ
اس سے اخذ کیا جائے
یہ اضافہ مسند احمد میں ابن أخي الزهري کی سند سے بھی آیا ہے جس کا نام محمد بن عبد
الله بن مسلم ہے جو مختلف فيه ہے ابن معي اس کو ضعیف کہتے ہیں اور املروذي کے مطابق
امام احمد ضعیف گردانتے تھے -یعنی عائشہ رضی الله عنہا سے منسوب یہ عمل رصف امام
الزہری کی سند سے ہے جو تین راویوں نے بیان کیا ہے اور تینوں اتنے مظبوط نہیں کہ اس کو
قبول کیا جائے – البتہ لوگوں نے اس اضافہ کو رشوحات میں بیان کیا ہے اس کی تاویالت کی ہیں
– لیکن یہ اضافہ اوٹ پٹانگ قسم کی بات ہے
اب رِضَ ا َع ِة الْكَ ِبُيِ) صحیح مسلم :کتاب :رضاعت کے احکام ومسائل صحيح مسلم :كِتَ ُ
اب ال ِّرضَ اعِ (بَ ُ
(باب :بڑے کی رضاعت)
و َح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن الْ ُمثَنَّىَ ،ح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن َج ْعفَرَ ،ح َّدثَنَا شُ ْع َبةَُ ،ع ْن ُح َم ْي ِد بْنِ نَا ِفعَ ،ع ْن 3603 .
َزيْ َن َب بِ ْن ِت أُ ِّم َسلَ َمةَ ،قَالَتْ :قَالَتْ أُ ُّم َسلَ َمةَ ،لِ َعائِشَ ةَِ ،إنَّ ُه يَ ْدخ ُُل َعلَ ْي ِك الْغ َُال ُم األْ َيْ َف ُع ،الَّ ِذي َما أُ ِح ُّب أَ ْن
ل ،ق ََال :يَ ْدخ َُل َع َ َّ
فَقَالَتْ َعائِشَ ةُ :أَ َما ل َِك ِف َر ُسو ِل الل ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم أُ ْس َوة؟ قَالَتْ ِ :إ َّن ا ْم َرأَ َة أَ ِب ُح َذيْ َف َة قَالَتْ :يَا
ول الل ِه َص َّل الل ُه َشء ،فَق ََال َر ُس ُ ل َو ُه َو َر ُجلَ ،و ِف نَف ِْس أَ ِب ُح َذيْ َف َة ِمنْ ُه َ ْول الل ِهِ ،إ َّن َسالِ ًام يَ ْدخ ُُل َع َ َّ
َر ُس َ
َعلَ ْي ِه
اس کو حميد بن نافع األنصاري أبو أفلح ،املدنی کی سند سے روایت کیا گیا ہے
حميد بن نافع کی ثقاہت پر سوائے نسائی کوئی اور نہیں مال
اس راوی کے بارے میں اختالف ہے کہ یہ دو لوگ ہیں یا ایک
امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں اس کا ذکر کیا ہے
.ق ََال أَبو َعبد الل ِه :يُقالَ ،ع ْن شُ عبةِ :إن هذا هو ُحميد َصفُيا ،هو األول
وہ جس سے شعبہ نے روایت لی ہے وہ ُحميد َصفُيا ہے
ق ََال عل :هام اثنان
امام علی کا کہنا ہے یہ دو الگ الگ ہیں
یعنی شعبہ نے کسی اور سے سنا اس کو حمید بن نافع سمجھا جبکہ وہ مر چکا تھا اور دیگر
محدثین کا کہنا ہے وہ حمید ابن صفُياء تھا
یہ حدیث اس منت سے صحاح ستہ میں ہے البتہ اس میں آگے کا منت جو امام الزہری نے بیان کیا
کہ عائشہ رضی الله عنہا اس کا حکم عام لیتی تھیں وہ میرے نزدیک منکر ہے
کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ کرتے تھے؟
جواب
کعبه الله کی وجہ سے سال کے چار ماہ حرمت والے ہیں کیونکہ ان کا تعلق حج سے
ورجب ہیں کیونکہ ذو
ُ ہے صحیح بخاری کے مطابق یہ چار ماہ ذو القعد ِة ،وذو الحج ِة ،واملحرمِ ،
القعد ِة ،وذو الحج ِة ،واملحرمِ میں حج کا سفر اور حج ہوتا ہے اور رجب میں عمرہ کیا جاتا ہے
یہ مہینے عربوں میں معروف تھے اور ہر شخص کے علم میں انکی حرمت تھی لیکن مرشکین
خود انکی پاسداری نہیں کرتے تھے وہ مہینوں کو النسی سے بدل دیتے تھے لہذا جو حرمت
وقت کی قید میں بندھی ہے وہ انسانی ہاتھوں میں تبدیل ہوتی رہی تھی – رسول اللہ صلی الله
عالیہ وسلم کی مدینہ آمد پر ان مہینوں کی حرمت کی پابندی وقتی ہٹا دی گئی
سوره البقرہ میں ہے
يَ ْسأَلُون ََك َعنِ الشَّ ْه ِر الْ َح َرامِ قِ َتال ِفي ِه ق ُْل قِ َتال ِفي ِه كَبُِي َو َصد َعن َسبِي ِل اللَّـ ِه َوكُفْر بِ ِه َوالْ َم ْس ِج ِد
اج أَ ْهلِ ِه ِمنْ ُه أَكْ َ ُرب ِعن َد اللَّـ ِه َوالْ ِفتْنَ ُة أَك َ ُْرب ِم َن الْ َقتْ ِل َوالَ يَ َزالُو َن يُقَاتِلُونَكُ ْم َحتَّى يَ ُردُّوكُ ْم
الْ َح َرامِ َوإِ ْخ َر ُ
َعن ِدي ِنكُ ْم ِإنِ ْاستَطَا ُعوا
ترجمہ:آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس میں لڑنا بڑا
(گناہ) ہے اور الله کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے
رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی تو قتل سے
بھی بڑا جرم ہے اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ متہیں متہارے دین سے پھیر
دیں اگر ان کا بس چلے۔
سوره البقرہ سن ٢ہجری میں نازل ہوئی ہے اس میں گنجائش پر بحث ہے کہ حرمت والے مہینے
میں قتال کیوں جائز کیا جا سکتا ہے -اس کا جواب دیا گیا کہ مرشکین مکہ کسی قاعدے کا
احَّتام نہیں کر رہے لہذا اس ایسا کیا جا رہا ہے لیکن ان مہینوں کی حرمت مسلمہ ہے
آیات میں مضمر ہے کہ وقت انے پر اس حکم کو تبدیل کیا جائے گا
لہذا بعد میں سن 9ہجری کے ذو الحجہ میں ان مہینوں میں قتال پر پابندی لگا دی
گئی کیونکہ مکہ فتح ہوا اور مرشکین کا نظم باقی نہ رہا لہذا واپس وہی نظم الہی حدود حرم پر
نافذ کر دیا گیا
الس َام َوات َواألَ ْر َض ِمنْ َها أَ ْربَ َعة ُح ُرم رش شَ ْه ًرا ِف كِتَ ِ
اب الل ِه يَ ْو َم َخل ََق َّ ِإ َّن ِع َّد َة الشُّ ُهو ِر ِعن َد الل ِه اثْنَا َع َ َ
بے شک اللہ کے ہاں ١٢ماہ ہیں جس دن سے الله نے زمیں و آسامن کو خلق کیا ان میں چار
حرمت والے ہیں
سوره املائدہ قرآن کی آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے جو دس ہجری میں نازل ہوئی
ہے
ي الْبَيْتَ الْ َح َرا َم يَا أَيُّ َها الَّ ِذي َن آ َمنُوا الَ تُ ِحلُّوا شَ َعائِ َر اللَّـ ِه َوالَ الشَّ ْه َر الْ َح َرا َم َوالَ ا ْل َه ْد َي َوالَ ا ْلق ََالئِ َد َوالَ آ ِّم َ
َاصطَادُوا َوالَ يَ ْج ِر َمنَّكُ ْم شَ نَآ ُن قَ ْوم أَن َصدُّوكُ ْم َعنِ يَبْتَغُو َن فَضْ ًال ِّمن َّربِّ ِه ْم َورِضْ َوانًا َوإِذَا َحلَلْتُ ْم ف ْ
الْ َم ْس ِج ِد الْ َح َرامِ أَن تَ ْعتَدُوا َوتَ َعا َونُوا َع َل ال ِ ِّْرب َوالتَّ ْق َوى َوالَ تَ َعا َونُوا َع َل ْ ِ
اْلث ْمِ َوالْ ُع ْد َوانِ َواتَّقُوا اللَّـ َه
َاب ﴿ املائدة﴾٢ ْۢ ِإ َّن اللَّـ َه شَ ِدي ُد الْ ِعق ِ
ترجمہ :اے ایامن والو! الله کی نشانیوں کو حالل نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ
حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے
ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی
ڈھونڈتے ہیں اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو اور متہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ
متہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس
میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو اورگناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور الله سے ڈرو بے
شک الله سخت عذاب دینے واال ہے۔
سوره التوبہ سن 9ہجری میں حج کے موقعہ پر نازل ہوئی ہے لہذا رسول الله صلی الله علیہ
وسلم نے ان مہینوں میں لشکر کشی پر لوگوں کو 9ہجری تک بھیجا – کتاب األغصان الندية
رشح الخالصة البهية بَّتتيب أحداث السُية النبوية از أبو أسامء محمد بن طه کے مطابق رسول الله
صلی الله علیہ وسلم نے ٧٣لشکر کشیاں کیں
:رسايا ال َّر ُسو ِل -صل الله عليه وسلم -وهي ثالث وسبعون رسي ًة
ََ
.رسية حمزة بن عبد املطلب إِل سيف البحر ف رمضان من السنة األوِل للهجرة – 1
.رسية عبيدة بن الحارث إل بطن رابغ ف شوال من السنة األول للهجرة – 2
.رسية عبد الله بن جحش إل نخلة ف رجب من السنة الثانية للهجرة – 5
.رسية عمُي بن عدي لقتل عصامء بنت مروان ف رمضان من السنة الثانية للهجرة – 6
.رسية سامل بن عمُي إل أب عفك اليهودي ف شوال من السنة الثانية للهجرة – 7
.رسية زيد بن حارثة إل القردة ف جامدى اْلخرة من السنة الثالثة للهجرة – 9
.رسية عبد الله بن أنيس إل خالد الهذِل ف املحرم من السنة الرابعة للهجرة – 11
.رسية محمد بن مسلمة إل ذي القصة ف ربيع اْلخر من السنة السادسة للهجرة – 18
.رسية زيد بن حارثة إل العيص ف جامدى األول من السنة السادسة للهجرة – 21
.رسية زيد بن حارثة إل الطرف ف جامدى اْلخرة من السنة السادسة للهجرة – 22
.رسية زيد بن حارثة إل حسمى ف جامدى اْلخرة من السنة السادسة للهجرة – 23
.رسية زيد بن حارثة إل وادي القرى ف رجب من السنة السادسة للهجرة – 24
.رسية عبد الرحمن بن عوف إل دومة الجندل ف شعبان من السنة السادسة للهجرة – 25
.رسية عبد الله بن رواحة إل أسُي بن زارم ف شوال من السنة السادسة للهجرة – 28
.رسية غالب بن عبد الله الليثي إل بني ثعلبة ف صفر من السنة السابعة للهجرة – 33
.رسية أب بكر إل بني فزارة بنجد ف شعبان من السنة السابعة للهجرة – 34
.رسية بشُي بن سعد إل بني مرة بفدك ف شعبان من السنة السابعة للهجرة – 36
.رسية غالب بن عبد الله الليثي إل امليفعة ف رمضان من السنة السابعة للهجرة – 37
.رسية بشُي بن سعد إل مين وجبار ف شوال من السنة السابعة للهجرة – 38
.رسية أب العوجاء السلمي إل بني سليم ف ذي الحجة من السنة السابعة للهجرة – 39
.رسية غالب بن عبد الله الليثي إل فدك ف صفر من السنة الثامنة للهجرة – 41
.رسية شجاع بن وهب األسدي إل بني عامر ف ربيع األول من السنة الثامنة للهجرة – 42
.رسية كعب بن عمُي الغفاري إل ذات أطالح ف ربيع األول من السنة الثامنة للهجرة – 43
.رسية خالد بن الوليد لهدم ال ُعزى ف رمضان من السنة الثامنة للهجرة – 51
.رسية عمرو بن العاص لهدم سواع ف رمضان من السنة الثامنة للهجرة – 52
.رسية سعد بن زيد األشهل لهدم مناة ف رمضان من السنة الثامنة للهجرة – 53
.رسية خالد بن الوليد إل بني جذمية ف شوال من السنة الثامنة للهجرة – 54
.رسية الطفيل بن عمرو الدوِس لهدم ذي الكفي ف شوال من السنة الثامنة للهجرة – 57
.رسية الضحاك بن سفيان إل القرطاء ف ربيع األول من السنة التاسعة للهجرة – 60
.رسية علقمة بن مجزر إل األحباش بجدة ف ربيع اْلخر من السنة التاسعة للهجرة – 61
.رسية عل بن أب طالب لهدم الفلس ف ربيع اْلخر من السنة التاسعة للهجرة – 62
.رسية عكاشة بن محصن إل الجناب ف ربيع اْلخر من السنة التاسعة للهجرة – 63
.رسية طلحة بن عبيد الله لحرق بيت سويلم اليهودي ف رجب من السنة التاسعة للهجرة – 64
.رسية خالد بن الوليد إل أكيدر ملك دومة ف رجب من السنة التاسعة للهجرة – 65
.رسية أب سفيان واملغُية بن شعبة لهدم الالت ف رمضان من السنة التاسعة للهجرة – 67
.رسية جرير بن عبد الله البجل لهدم ذي الخلصة ف رمضان من السنة العارشة للهجرة – 72
.رسية زيد بن حارثة إل البلقاء بالشام ف صفر من السنة الحادية عرش للهجرة – 73
جب مرشکین کا نظم حدود حرم پر باقی نہ رہا تو واپس وہی نظم الہی حدود حرم پر نافذ کر
دیا گیا جو رشوع سے حکم تھا کہ چار مہینوں کی حرمت قائم کی جائے
ملحدین کے بقول قرانی آیات میں روز محرش کی مدت پر تضاد ہے
قیامت کے دن کی طوالت کو بیان کرتے ہوئے قرآن سورۃ الحج میں بیان کر رہا ہے کہ
َاب َولَن يُ ْخلِ َف اللَّـ ُه َو ْعدَهُ َو ِإ َّن يَ ْو ًما ِعن َد َربِّ َك كَأَل ِْف َسنَة ِّم َّام تَ ُعدُّو َن
َويَ ْستَ ْع ِجلُون ََك بِالْ َعذ ِ
﴾﴿47
ترجمہ :اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خالف
نہیں کرے گا۔ اور بےشک متہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز متہارے حساب کے رو سے ہزار
برس کے برابر ہے ۔
الس َام ِء إِ َل ْاألَ ْر ِض ث ُ َّم يَ ْع ُر ُج إِلَ ْي ِه ِف يَ ْوم كَا َن ِم ْقدَا ُرهُ أَل َْف َس َنة ِّم َّام تَ ُعدُّو َن ﴿سورۃ
يُ َدبِّ ُر ْاألَ ْم َر ِم َن َّ
السجدۃ﴾5:
وہ آسامن سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار متہاری
گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا۔
:ان دونوں آیات کے مقابلے میں اب ایک اور آیت مالحظہ فرمائیں
فرشتے اور اہ ِل ایامن کی روحیں اس کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں (اور وہ عذاب) اس دن ہو گا جس
.کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے
سورۃ الحج اور سورۃ السجدۃ کی آیات میں تو قیامت کا دن ایک ہزار برس کا قرار دیا جا رہا ہے
لیکن سورۃ املعارج کی آیت میں قیامت کی طوالت پچاس ہزار سال کے برابر بیان کی جارہی
ہے،گویا قیامت کے دن کو قرآن کو ایک مقام (سورۃ الحج ،47 :اور السجدۃ )5:پر ایک ہزار سال
کے برابر بیان کر رہا ہے اور دورسے مقام (سورۃ املعارج )5 :پر پچاس ہزار سال کے برابر قرار
دے دیا۔
جواب
پہلی آیت ہے
َاب َولَن يُ ْخلِ َف اللَّـ ُه َو ْعدَهُ َو ِإ َّن يَ ْو ًما ِعن َد َربِّ َك كَأَل ِْف َسنَة ِّم َّام تَ ُعدُّو َن
َويَ ْستَ ْع ِجلُون ََك بِالْ َعذ ِ
﴾﴿47
ترجمہ :اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور الله اپنا وعدہ ہرگز خالف نہیں
کرے گا۔ اور بےشک متہارے رب کے نزدیک ایک روز متہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے
برابر ہے ۔
یہاں الله کے نزدیک ایک یوم کی مقدار انسانی نسبت پر کی گئی ہے کہ
الله کے نزدیک ایک دن = انسان کے ہزار سال
برابر ہے
الس َام ِء إِ َل ْاألَ ْر ِض ث ُ َّم يَ ْع ُر ُج إِلَيْ ِه ِف يَ ْوم كَا َن ِم ْقدَا ُرهُ أَل َْف َسنَة ِّم َّام تَ ُعدُّو َن ﴿سورۃ
يُ َدبِّ ُر ْاألَ ْم َر ِم َن َّ
السجدۃ﴾5:
وہ آسامن سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (تدبیری حکم پر نتیجہ) اوپر جاتا
ہے اس کی طرف ایک دن میں جس کی مقدار متہاری گنتی سے ہزار برس ہے ۔
یہاں پر اس کا ترجمہ صحیح کیا گیا ہے کہ جو بھی الله کا حکم ہوتا ہے وہ آسامن سے زمین کی
طرف اتا ہے یا واپس اس کا حکم اوپر جاتا ہے جو اگر انسان سفر کرے تو ہزار سال برابر ہے
تیسی آیت ہے
.فرشتے اورالروح اس کے پاس چڑھ جاتے ہیں اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے
اوپر ترجمہ غلط ہے الروح سے مراد ایک واحد الروح ہے جو جربیل ہیں نہ کہ اہل ایامن کی
روحیں دوم اس میں قیامت کا ذکر نہیں ہے
یعنی جہاں سے حکم زمین پر اتا ہے وہ مقام اس سے پہلے اتا ہے جہاں تک فرشتے جاتے ہیں
ان تینوں آیات میں کہیں بھی قیامت کا ذکر نہیں ہے پہلی آیت میں رصف عذاب کا ذکر ہے جو
مرتے ہی رشوع ہو جاتا ہے
ابو عبید قاسم اس پر ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہ سے کسی نے یہ
سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میں کتاب الله پر وہ نہیں بول سکتا جس کا علم نہ ہو
قال أبو عبيد :حدثنا إسامعيل بن إبراهيم ،عن أيوب ،عن ابن أب مليكة ،قال :سأل رجل ابن عباس
.عن :يوم كان مقداره ألف سنة؟
.فقال له ابن عباس :فام يوم كان مقداره خمسي ألف سنة؟
!.فقال الرجل :إمنا سألتك لتحدثني
.فقال ابن عباس :هام يومان ذكرهام الله ف كتابه ،الله أعلم بهام
.فكَرِهَ أن يقول ف كتاب الله ما ال يعلم
اس کی سند میں ایوب السختیانی ہے جو مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہے ہیں
شیطانی آیات کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر القا ہوئیں؟
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52
جواب
جواب یہ واقعہ اپنے اضطراب کے ساتھ کئی اور تفاسیر میں بھی بیان ہوا ہے مثال
تفسیر بغوی
ان آیات کے الفاظ عربوں میں مشهور تھے اور یہ دیویوں کا بھجن تھے
فَإِ َّن شَ فَا َعتَ َها ِه َي الْ ُم ْرتَ َجى َو ِإنَّ َها لِ َم َن الْ َغ َرانِيقِ الْ ُع َل
یہ تو بلند پرند منا حسین (دیویاں) ہیں اور بے شک ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے
ابن كثُي الدمشقي نے اور األلوِس اس واقعہ کا انکار کیا اور ابن حجر املرصي نے اس کا استقرار
اور ابن حجر عسقالنی نے کہا ہے کہ اس کا کوئی اصل تھا جس پر البانی نے ابن حجر عسقالنی
پر جرح کی ہے
ابن تیمیہ نے اس کی تاویل کی ہے اپنے فتاوی ج ١٠ص ٢٩١میں کہتے ہیں
ق ََال َهذَا أَلْقَا ُه الشَّ ْيطَا ُن ِف َم َسا ِم ِع ِه ْم َولَ ْم يَلْ ِف ْظ بِ ِه ال َّر ُس ُ
ول َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم
یہ شیطان کا القا تھا مرشکین کے کانوں پر اور یہ رسول الله کے الفاظ نہ تھے
الذھبی نے سُي أعالم النبالء ج 1ص 149پر اس کا ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی ہے
الزمخرشي معتزلی نے الکشاف میں اس کو بیان کیا ہے کوئی جرح نہیں کی
دكتور عمر عبد السالم التدمري تاريخ أْلسالم از الذھبی پر اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں
وقال الحافظ البيهقي ف دالئل النبوة :62 /2هذه القصة غُي ثابتة من جهة النقل .وبي جرح رواتها
وطعن حملة العلم فيهم .وف «البحر» أن هذه القصة سئل عنها محمد بن إسحاق صاحب «السُية»
فقال :هذا من وضع الزنادقة .وقال أبو منصور املاتريدي :الصواب أن قوله «تلك الغرانيق إلخ» من
.جملة إيحاء الشيطان إل أوليائه من الزنادقة ،والرسالة بريئة من هذه الرواية
وقال القاض عياض ف الشفاء :28 /2يكفيك أن هذا الحديث مل يخرجه أحد من أهل الصحة ،وال
.رواه ثقة بسند سليم متصل ،مع ضعف نقلته ،واضطراب رواياته ،وانقطاع إسناده ،واختالف كلامته
وقد فصل القاض عياض عدم صحة هذه الرواية من عدة وجوه يحسن مراجعتها .ف كتابه الشفاء /2
،123 -116.وانظر تفسُي القرطبي ،82 /12والنويري ف نهاية األرب 241 -235 /16
بیہقی نے دالئل النبوه میں کہا ہے یہ قصہ غیر ثابت ہے نقلی لحاظ سے اور البحر از أبو حيان
میں ہے کہ ابن اسحاق سے اس قصہ پر سوال ہوا تو کہا یہ زنادقه کا گھڑا ہوا ہے اور ابو منصور
ماتریدی کہتے ہیں ٹھیک یہ قول ہے کہ تلک الغرانیق کا قول شیطان کی اپنے اولیاء پر وحی ہے
اور قاضی عیاض کہتے ہیں یہی کافی ہے کہ اہل صحت میں سے کسی نے اس کی تخریج نہیں
کی نہ اس کے راوی متصل سند ہیں ثقاہت کے ساتھ پھر انکا نقل میں کمزور ہونا ہے اور روایات
کا اضطراب ہے اور اسناد میں انقطاع ہے اور کلامت کا اختالف ہے انتھی
اس پورے قصے کو محمد بن قيس بن مخرمة اور محمد بن کعب سے محمد بن السائب بن برش
الکلبی املتوفی ١٤٦ھ منسوب کرتا ہے اسی طرح أب العالية البرصى املتوفی ٩٣ھ ،السدی کوفی
ول قَيس بْن َمخ َر َمة املتوفی ١٢٧ھ ،قتادہ برصی املتوفی ١١٨ھ نے بھی اس پر تبرصے کیے َم َ
ہیں اس کے عالوہ اس کو عثامن بن األسود مکی املتوفی ١٥٠ھ ،عن سعيد بن جبُي املتوفی ٩٥ھ ،
عن ابن عباس کی سند سے بھی بیان کیا گیا ہے مثال اسباب النزول الواحدی میں اور ابن مردويه
میں
اسی طرح أب برش جعفر بن إياس برصی املتوفی ١٢٦ھ کی سند سے یہ سعید بن جبیر کا مرسل
قول ہے
لہذا سب سے پہلے اس واقعہ کا ذکر برصیوں مثال رفيع بْن مهران برصي املعروف بأب العالية
الرياحي املتوفی ٩٠یا ٩٣ھ نے مرسل روایت کیا ہے اور قتادہ البرصی املتوفی ١١٨ھ نے روایت
کیا ہے – قتادہ خود بھی أَبُو الْ َعالِ َي ِة البرصی کے شاگرد ہیں دونوں مدلس ہیں -ایک طرف تو برصہ
میں اس کو قتادہ بیان کرتے ہیں دورسی طرف مکہ میں سعید بن جبیر املتوفی ٩٥ھ بھی ابن
عباس سے اس کو روایت کرتے ہیں -یعنی لگ بھگ سن ٨٠ھ کے بعد اس قصہ کا دور رشوع ہوا
اور اس کا گڑھ برصہ تھا وہاں سے یہ مکہ پہنچا اور اس کو ابن عباس رضی الله سے منسوب کیا
گیا ہے
قتادہ نے ابی العالیہ سے رصف تین چیزیں سنیں میں نے یحیی سے کہا ان کو گن دیجیے کہا
علی رضی الله عنہ کا قول فیصلوں کے بارے میں اور حدیث کہ عرص کے بعد مناز نہیں اور
حدیث یونس بن متی
یعنی برصہ میں اس روایت کا منبع قتادہ ہوئے جو اس کا ذکر کرتے ہیں یہ سخت مدلس تھے
اور روایت جس سے سن لیں اس کا نام بعض اوقات نہیں لیتے
قتادہ نے ”مل يلق َس ِعيد بن جبُي ،وال مجاهدا وال ُسلَيْامن بن يسار“ :امام یحیی بن معین نے فرمایا
سعید بن جبیر ،مجاہد ،اور سلیامن بن یسار میں سے کسی کو نہیں پایا۔ سواالت ابن الجنید :ص
أَ ِب ب ِْرش برصی ( جعفر بن إياس ،وهو ابن أب َو ْح ِشيَّة املتوفی ١٢٤ھ )َ ،عن َس ِعيد بْنِ ُجبَُيَ ،عنِ
ابْنِ َع َّباس
اور
ُعث َْام ُن بْ ُن األَ ْس َو ِد املکی املتوفی ١٤٧ھ َع ْن َس ِعي ِد بْنِ ُج َب ُْي َعنِ ابْنِ َع َّباس
یعنی ایک برصی اور ایک مکی نے اس روایت کو سعید بن جبیر سے منسوب کیا ہے اس میں
جعفر بن ایاس کو محدثین ثقہ کہتے ہیں اور ُعث َْام ُن بْ ُن األَ ْس َو ِد کو بھی ثقہ کہتے ہیں
یعنی محدثین کے مطابق اس روایت کا بار سعید بن جبیر نے اٹھا لیا کیونکہ اس کی سند میں
ثقات ہیں ابن عباس رضی الله عنہ کے شاگردوں میں اس کو رصف سعید بن جبیر ہی روایت کرتے
ہیں
حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو قتل کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید یہ روایت ہے
أَخ َ َْربنَا ُسلَ ْي َام ُن بْ ُن َح ْربَ ،ح َّدثَنَا َح َّام ُد بْ ُن َسلَ َمةََ ،ع ْن يَ ْع َل بْنِ َح ِكيمَ ،ع ْن َس ِعي ِد بْنِ ُج َب ُْي أَنَّ ُه َحدَّثَ
اب اللَّ ِه َما يُخَالِ ُف َهذَا ،ق ََال« :الَ أُ َر ِاّن يَ ْو ًما بِ َح ِديث َعنِ ال َّنب ِِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ،فَق ََال َر ُجلِ :ف كِ َت ِ
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه اب اللَّ ِه ،كَا َن َر ُس ُأُ َح ِّدث َُك َع ْن َر ُسو ِل اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم َوتُ َع ِّر ُض ِفي ِه بِ ِكتَ ِ
» َو َسلَّ َم أَ ْعلَ َم بِ ِكتَ ِ
اب اللَّ ِه تَ َع َال ِمنْ َك
سعید بن جبیر نے ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی تو ایک شخص نے
کہہ دیا :قرآن میں اس کےخالف بات موجود ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا :میں تجھے اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو اس کے خالف اللہ کی کتاب پیش
کر رہا ہے ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی کتاب کے مندرجات کو تجھ سے بڑھ کر
جانتے تھے۔
آج علامء یہی کہہ رہے ہیں کہ غرانیق والی روایت باوجود یہ کہ سعید بن جبیر سے ثقات نے
روایت کی ہے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن میں اس کے خالف موجود ہے کہ رسول الله سے
غلطی نہیں ہو سکتی لہذا راقم کہتا ہے اس قسم کی روایات کا بار راویوں پر ہے
البانی نے نصب املجانيق لنسف قصة الغرانيق میں اس کی اسناد کو جمع کیا اور کہا ہے کہ متام
ضعیف ہیں بلکہ موضوع ہیں – علامء جو اس روایت کے خالف ہیں وہ اس بات پر غور نہیں
کرتے کہ قتادہ یا سعید بن جبیر نے اس قسم کی فضول روایت کیوں بیان کیں -سوره حج کی
آیات مدنی ہیں اور سوره النجم مکی سوره ہے ظاہر ہے اتنے طویل عرصے کے بعد اس پر تبرصہ
کوئی معنی نہیں رکھتا
سوره الحج کی آیات ہے
جو ہماری نشانیوں کو ناکام کر نے کی کوشش کررےہ ہيں وہ جہنم کے لوگ ہيں اور ہم نے
آپ سے پہےل کوئی نبى و رسول نہ بھیجا سوائے اس کے کہ جب وہ تمنا (خواہش) کرے تو
شیطان اس کی تمنا ميں اپنا القا ڈالے پھر ہم مستحکم کر تے ہيں اپنى نشانیوں کو اور هللا
بہت جانےن واَل حکمت واَل ےہ تاکہ شیطان نے جو القا کیا ےہ اس کو ان لوگوں کے لئے فتنہ
بنا دے جن کے دلوں ميں مرض ےہ اور ان کے دلوں کی کاٹ بنا دے اور بے شک ظالم لوگوں
کے لئے علیحدگی کی دوری ےہ
یعنی ہر نبی و رسول کی خواہش میں شیطان نے اپنی خواہش مالنے کی کوشش کی اور الله نے
اپنی نشانیوں کو اثبات عطا کیا آیات کا سیاق و سباق ہے کہ مدینہ میں مسلامنوں کو مرشکین
مکہ سے قتال کی اجازت دی گئی ہے مرشکین عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور الله اپنی
نشانیوں کو مستحکم کر رہا ہے کہ اس نے رسول الله کو پہلے ہی خرب دی تھی کہ الله انکی مدد
کرے گا لیکن رسول کی خواہش تھی کہ سارے مرشکین مسلامن ہو جائیں شیطان نے اس متنا کو
بڑھاوا دیا اورالله نے اس متنا میں شیطانی القا کو ختم کر دیا اور ظامل لوگ یعنی منافقین کے
دلوں کا روگ بنا دیآ
انبیاء میں خواہش و متنا ہوتی ہے کہ کوئی شخص ایامن لے آئے لیکن وہ بد نصیب نہیں التا مثال
نوح علیہ السالم کا بیٹا یا ابو جھل وغیرہ جن پر انبیاء کو خواہش تھی کہ ایامن الئیں لیکن نہیں
الئے یہی القا شیطانی ہے کہ الله کہتا ہے وہ باطل کی کمر توڑ دے گا لیکن نبی کو خواہش
ہوتی کہ سب ایامن الئیں
تخلیق کائنات پر سوال ہے
الذی خلق الساموات واالرض و ما بینهام فی ستةایام ثم الستوی علی العرش الرحمن فاسال به «
» خبیرا
الفرقان ۵۹
اس آيت کا اور سورۃ فصلت كا آيات ١٢/١١/١٠/٩جمع اور تطبیق کیسے کریے پلیز و ضاحت
کردے
جزاکم الله خیرا
جواب
تیسے دن کو مال کے اگلے چار دن میں زمین کا سب سامان معیشت سوره فصلت ١٠
اور ساتھ ہی ان چار دنوں میں سے دو دن میں سات آسامن بنائے سوره فصلت ١١
)یعنی افالک اور زمینی نباتات جو سورج پر منحرص ہیں یہ سب مال کر چار دن میں بنے(
–———
نوٹ
یاد رہے کہ سائنس کے مطابق پودے اور درخت سورج کی روشنی چاہتے ہیں اس لئے آسامن
میں سورج اور زمین پر بناتات کا ایک بہت گہرا تعلق ہے ان کو ایک ساتھ بنایا گیا
سورج اور زمین کا فاصلہ اور زمین کا ٢٣ڈگری کا جھکاؤ بہت اہم ہے تھوڑی سی تبدیلی کی
صورت میں متام بناتات بھسم ہو جائیں گی
عن ابو سعید الخدری قال :اصبنا نسأ من بیسی أوطاس لهن أذواج فکر هنا أن نقع علیهن و لهن
أذواج فسألنا النبی فنزلت و املحصنات…..سوره نسأ آیت ۲۴
تفسیر طربی جلد /۵مسلم،نسایی،ابوداود
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس میں ہمیں کچھ
ایسی قیدی عورتیں ہاتھ ا ٖٓئیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے ،تو لوگوں نے اس بات کا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا ،اس پر ا ٖٓیت «واملحصنات من النساء إال ما ملكت
أميانكم» نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں -۱ :یہ حدیث حسن ہے -۲ ،ثوری نے عثامن بتی سے اور عثامن بتی نے
ابوالخلیل سے اور ابوالخلیل نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ
-علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۳ ،
امام ترمذی کہتے ہیں :اس حدیث میں علقمہ سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔ (جب کہ پچھلی سند
میں ہے) اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس حدیث میں ابوعلقمہ کا ذکر کیا ہو سوائے ہامم
کے -۴ ،ابوالخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔
راقم کہتا ہے اس روایت کی سند معلول ہے اس میں علت ہے سند میں یزید بن زریع ہیں جنہوں
نے َس ِعي ُد بْ ُن أَ ِب َع ُروبَ َة سے اختالط میں سنا ہے
وقال ابن السكن كان يزيد بن زريع يقول اختلط سعيد ف الطاعون يعني سنة 132وكان القطان
ينكر ذلك ويقول إمنا اختلط قبل الهزمية قلت والجمع بي القولي ما قال أبو بكر البزار أنه ابتدأ به
االختالط سنة “ ”133ومل يستحكم ومل يطبق به وأستمر عل ذلك ثم استحكم به أخُيا
اور ابن السکن کہتے ہیں یزید بن زریع نے کہا سعید بن ابی عروبہ کو اختالط طاعون پر سن ١٣٢
میں ہوا اور القطان نے اس کا انکار کیا اور کہا ہزیمت پر ہوا اور ان اقوال میں اس طرح جمع
ممکن ہے جو البزار نے کہا کہ ان کے اختالط کی ابتداء سن ١٣٣میں ہوئی لیکن مستحکم نہ
تھی اور اس میں استحکام ہوتا گیا یہاں تک کہ آخر میں مستحکم ہو گیا
ابن حجر کے مطابق سن ١٣٣میں سعید کو اختالط رشوع ہو چکا تھا اور کالبازی کے مطابق سن
١٣٩ھ میں ابن زریع نے سنا
الهداية واْلرشاد ف معرفة أهل الثقة والسداد از أبو نرص البخاري الكالباذي (املتوىف398 :هـ) کے
مطابق
ْغالب نَا ابْن َحنْبَل ق ََال نَا يزِيد ق ََال مر بِنَا سعيد بن أب ع ُروبَة قبل سنة 39فسمعنا ِمنْ ُه
َوق ََال ال ِ
ْغالب کہتے ہیں ابن حنبل نے کہا ہم سے یزید نے بیان کیا کہ سعید ہامرے پاس ١٣٩ھ سے
ال ِ
پہلے گزرے جب ہم نے سنا
یعنی یزید کا سامع ١٣٣سے ١٣٩کے درمیان بھی ہے جو َس ِعي ُد بْ ُن أَ ِب َع ُروبَ َة کا عامل اختالط ہے
طحاوی مشکل اْلثار میں اس کو پیش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں اس آیت کے مفھوم پر اصحاب
رسول کا اختالف ہے
ات الْ ُم َراد ِ
َات ق ََال أَبُو َج ْعفَرَ :وقَ ْد كَا َن أَ ْص َح ُ
اب َر ُسو ِل الل ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم قَ ِد ا ْختَلَفُوا ِف الْ ُم ْح َصنَ ِ
ض الل ُه َعنْ ُه َام ِف ذَلِ َك
:مبِ َا ُذكِ َر ِف َه ِذ ِه ْاْليَ ِة َم ْن ُه َّن؟ فَ ُر ِو َي َع ْن َع ِل َو َع ْب ِد الل ِه بْنِ َم ْس ُعود َر ِ َ
اب ،ق ََالَ :ح َّدثَنَا ُس ْفيَانَُ ،ع ْن َح َّامدَ ،ع ْن إِبْ َرا ِهي َم، رشيْحَ ،وابْ ُن أَ ِب َم ْريَ َم ،قَاالَ َ :ح َّدثَنَا الْ ِف ْريَ ِ ُّ قَ ْد َح َّدثَنَا أَبُو ُ َ
ض الل ُه َعنْ ُه َام ِف قَ ْولِ ِه َع َّز َو َج َّلَ { :والْ ُم ْح َصنَاتُ ِم َن النِّ َسا ِء ِإالَّ َما َملَكَتْ َع ْن َع ِلَ ،وابْنِ َم ْس ُعود َر َِ
رشكَاتُي َحلَلْ َن بِ ِه ” َوق ََال ابْ ُن َم ْس ُعود ” :الْ ُم ْ ِ رشكَاتُ إِذَا ُس ِب َ أَ ْ َميانُكُ ْم} [النساء ، ]24 :ق ََال َع ِل ” :الْ ُم ْ ِ
ض الل ُه َعنْ ُه َع َل الْ ُم ْح َصنَاتُ ِ ِ ِ
ِيل َهذه ْاْليَة عنْ َد َع ِل َر َ ِ ِ َوالْ ُم ْسلِ َامتُ ” ق ََال أَبُو َج ْعفَر :فَكَا َن تَأْو ُ
الال ِِت طَ َرأَتْ َعلَيْ ِه َّن ْ ِ
اْل ْم َال ُك ِم َن ِالسبَا ِءَ ،وكَا َن ِعنْ َد ابْنِ َم ْس ُعود [صَ ]75:ع َل َّ الْ َم ْس ِبيَّاتُ الْ َم ْملُوكَاتُ ب ِّ
ُول :بَ ْي ُع ْاألَ َم ِة طَالَ قُ َهاَ ،وقَ ْد تَابَ َع ُه َع َل ذَلِ َك غ ْ َُُي َوا ِحد ِالس َبا ِء َومبِ َا ِس َواهَُ ،و ِم ْن أَ ْج ِل ذَلِ َك كَا َن يَق ُ اْل َما ِء ب ِّ
ِْ
ِم ْن أَ ْص َح ِ
اب َر ُسو ِل الل ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم
یعنی ایک مرد چار شادیاں کر سکتا ہے اگر اس کی ابھی چار بیویاں ہیں تو وہ مزید نہیں لے سکتا
اس کے بعد طحاوی نے اس میں علی رضی الله عنہ کا قول پسند کیا ہے
آیت َوما كا َن لِنَبِي أَ ْن يَغ َُّل اس لئے نازل ہوئی کہ چادر مال غنیمت میں نہیں ملی؟
اور نہیں ہے کسی نبی کی شان یہ شان کہ خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا اور لے
کرآئے گا (اپنے ہمراہ) خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن پھر پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ہر
نفس کو جو اس نے کامیا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ 599پر لکھا ہے ابن عباس سے مروی ہے
کہ غزوہ بدر کے مال غنیمت سے ایک چادر گم ہو گئی تو صحابہ کرام نے گامن کیا کہ شاید
حضور نے یہ چادر لے لی ہے تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فر مائی
َوق ََال ابْ ُن أَ ِب َحاتِمَ :ح َّدثَنَا أَ ِبَ ،ح َّدثَنَا الْ ُم َس َّي ُب بْ ُن َو ِاضحَ ،ح َّدثَنَا أبو إسحاق الفزاري عن سفيان بن
خ َِصيف َع ْن ِعكْ ِر َمةََ ،عنِ ابْنِ َع َّباس ق ََال :فَ َقدُوا ق َِطي َف ًة يَ ْو َم بَدْر فَقَالُوا :لَ َع َّل َر ُس َ
ول اللَّ ِه َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه
َ .و َسلَّ َم أَ َخ َذهَا ،فَأَنْ َز َل اللَّ ُه َوما كا َن لِنَبِي أَ ْن يَغ َُّل أَ ْي يخون
وقال ابن جرى «َ : »2ح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن َعبْ ِد الْ َملِ ِك بْنِ أَ ِب الشَّ َوار ِِب َح َّدثَنَا َعبْ ُد الْ َوا ِح ِد بْ ُن ِزيَادَ ،ح َّدثَنَا
خ َِصيفَ ،ح َّدثَنَا ِمق َْسمَ ،ح َّدث َ ِني ابْ ُن َع َّباس أَ َّن َه ِذ ِه ْاْليَ َة َوما كا َن لِنَبِي أَ ْن يَغ َُّل نَ َزلَتْ ِف ق َِطيفَة َح ْم َرا َء
فُ ِقدَتْ يَ ْو َم بَدْر ،فقال بعض الناس :لعل رسول الله أخذها ،فَأَكْثَ ُوا ِف ذَلِ َك ،فَأَنْ َز َل اللَّ ُه َوما كا َن لِ َنبِي
أَ ْن يَغ َُّل َو َم ْن يَ ْغل ُْل يَأْ ِت مبِ ا غ ََّل يَ ْو َم الْ ِقيا َم ِة َوكَذَا َر َوا ُه أَبُو دَا ُو َد َو ِّ ْ
الَّت ِم ِذ ُّي َج ِمي ًعا َع ْن قُتَيْبَةََ ،ع ْن َعبْ ِد
الَّت ِم ِذ ُّيَ :ح َسن َغرِيبَ ،و َر َوا ُه بَعْضُ ُه ْمَ ،ع ْن خ َِصيفَ ،ع ْن ِمق َْسم يَ ْع ِني ُم ْر َس ًال .الْ َوا ِح ِد بْنِ ِزيَاد بِ ِهَ .وق ََال ِّ ْ
ان روایات کی سند مظبوط نہیں ہے خ َُصيْ ُف ب ُن َعبْ ِد ال َّر ْح َمنِ مختلف فیہ ہے اس کا تفرد ہے بعض
نے اس کو ثقہ کہا ہے لیکن
یہ راوی آخری عمر میں اختالط کا شکار تھا لہذا اس روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی
ول بَلِّ ْغ َما أُنْز َِل إِلَيْ َك ِم ْن َربِّ َك کیا علی کے حوالے سے ہے ؟
آیت يَا أَيُّ َها ال َّر ُس ُ
ول بَلِّ ْغ َما أُنْز َِل إِلَيْ َك ِم ْن َربِّ َك َو ِإ ْن لَ ْم تَ ْف َع ْل ف ََام بَلَّغْتَ ر َِسالَتَ ُه َواللَّ ُه يَ ْع ِص ُم َك ِم َن النَّ ِ
اس ِإ َّن يَا أَيُّ َها ال َّر ُس ُ
اللَّ َه الَ يَ ْه ِدي الْ َق ْو َم الْكَا ِفرِي َن
﴾﴿67
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔
اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی ،اور آپ کو اللہ تعالی لوگوں سے
بچا لے گا بےشک اللہ تعالی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
شعیوں کے مطابق یہ آیت غدیر میں نازل ہوئی اور اس میں حرضت علی رضی اللہ عنہ کی
خالفت کا حکم تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ (سنہ 2ھجری ) کا ہے۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے خیمے سے رس نکال کر چوکیداروں سے فرمایا :جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آگیا،
متہاری چوکیداری کی رضورت نہیں رہی ۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ آیت آخری دنوں کی ہے ۔ تو پھر اس حدیث کی تطبیق یا تاویل
کیسے ہوگی۔
جواب
اہل سنت کے مطابق الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہادر اور نڈر تھے لیکن روافض
کے نزدیک ایسا نہیں تھا ان کے نزدیک علی کی امامت کا حکم معراج پر دیا گیا لیکن رسول الله
نے اس کو امت پر پیش نہیں کیا اس کے بعد آخری دور میں حجه الوداع سب سے اہم موقعہ تھا
کہ یہ کیا جاتا لیکن وہاں بھی اعالن نہ کیا یہاں تک کہ الله تعالی نے حکم کیا اور غدیر خم پر
واپس جانے والے قافلے کو رکنے کا حکم دیا گیا اور عجلت میں علی کے بارے میں تقریر کی
جس کی روایات ہم تک پہنچی ہیں
اہل سنت کے مطابق غدیر خم پر علی پر معَّتض اصحاب رسول جو یمن سے انے تھے ان کی
تالیف کے لئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے تقریر کی
اہل تشیع کے مطابق علی کی امامت و وصی ہونے پر نص ظاہر ہوئی کہ مولی کہہ دیا
دما دم مست قلندر کی طرح شیعہ حرضات نے اس روایت کے اتنے طرق پیش کیے کہ یہ حد
تواتر تک جا پہنچے لیکن اہل سنت پھر بھی مان کے نہیں دیے
کتاب تذکرہ الحفاظ میں الذہبی کہتے ہیں کہ
اس کے کثت طرق نے مجھے ششدر کر دیا
اب ایک ہی رستہ رہا کہ ثابت کیا جائے کہ قران میں اس پر آیت ہے لہذا ڈھونڈ ڈھانڈ کے سوره
املائدہ کی یہ آیت ملی
اس آیت کا سیاق و سباق اہل کتاب کے حوالے سے ہے انہی کا ذکر ہے
اور الطربسی شیعہ مفس نے عن الكلبي عن أب صالح عن ابن عباس وعن جابر بن عبد الله کی
سند سے روایت کیا ہے کہ الله نے رسول الله کو حکم کیا کہ علی کو اپنے بعد امام مقرر کر دیں،
پس وہ خوف زدہ ہوئے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنے چچا زاد کو مقرر کیا پس الله نے آیت نازل کی
اور اس آیت کے نزول کے بعد نبی نے علی کی والیت پر اعالن کیا غدیر خم پر
یہ روایات خود شیعہ مثال الکلبی وغیرہ کی سند سے ہیں لہذا یہ تفسیری اقوال اہل سنت میں
رواج نہ پا سکے اور ان کو ہمیشہ مخالف کا جذباتی پروپگنڈا ہی سمجھا گیا ہے
دوم ابو سعید الخدری اور جابر بن عبد الله رضی الله عنہام جو من کنت موالہ کے راوی تھے
انہوں نے ال علی کو کبھی بھی امامت و خالفت کا حق دار نہ سمجھا بلکہ یزید بن معاویہ کی
بیعت کی
سوره املائدہ کی آیت اليوم أكملت لكم دينكم وأمتمت عليكم نعمتي حجه الوداع پر آئی یعنی
دین مکمل ہوا اس کی بنیادی تعلیامت پہنچ گئیں اب یہ عجیب بات نہیں کہ امت کو امامت
جیسے اہم عقیدہ کا پتا ہی نہیں اور دین مکمل ہو گیا؟
کیا کوئی جنت یا جہنم میں داخل ہونے کے بعد باہر آسکتا ہے؟
کیا کوئی جنت یا جہنم میں داخل ہونے کے بعد باہر آسکتا ہے؟اورکفار کے رفاہی کاموں کا کیا
حکم ہے؟
سورہ “ہود” کی آیت منرب ( )107 ،106کے مطابق جہنمی ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے ،اور
کبھی باہر نہیں نکل پائیں گے ،جبکہ میں نے “صحیح بخاری “میں پڑھا ہے کہ کچھ جہنمیوں پر
اللہ تعالی احسان کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل کردیگا ،اس لئے کہ ان کے دل میں کچھ نہ
کچھ ایامن ہوگا ،تو ان دونوں میں سے کون سی بات ٹھیک ہے؟
جواب
فَأَ َّما الَّ ِذي َن شَ قُوا فَ ِفي النَّا ِر لَ ُه ْم ِفي َها َز ِفُي َوشَ هِيق ( )106خَالِ ِدي َن ِفي َها َما دَا َم ِت َّ
الس َام َواتُ َو ْاألَ ْر ُض ِإالَّ
)َ (107ما شَ ا َء َربُّ َك ْۢ ِإ َّن َربَّ َك فَ َّعال ل َِّام يُرِي ُد
جو شقی ہیں وہ اگ میں ہوں گے وہاں ان کے لئے َز ِفُي َوشَ هِيق ہے
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسامن و زمین باقی ہیں اال یہ کہ متہارا رب کچھ چاہے بے
شک وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے
میں نے “صحیح بخاری “میں پڑھا ہے کہ کچھ جہنمیوں پر اللہ تعالی احسان کرتے ہوئے انہیں
جنت میں داخل کردیگا ،اس لئے کہ ان کے دل میں کچھ نہ کچھ ایامن ہوگا
یعنی یہ ایامن والے مومن ہوں گے چاہے کم ایامن ہی ہو ان کو نکال لیا جائے گا کیونکہ یہ شقی
نہیں ہوں گے
و الله اعلم
یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت یا پھر عنکن ؟
ایک تفسیر میں تھا کہ:االحزاب آیت ( ۳۳یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت) یہ رصف
علی،فاطمه،اور امام حسن اور امام حسین کے لئے ہے -ازواج رسول الله کے لئے نہیں ہے کیونکہ
اگر ازواج رسول الله کے لئے ہوتا تو ضمیر مونث [عنکن] ہوتا تا کہ سیاق و سباق تھیک بنتا
پلیز وضاحت کردے
جزاکم اللہ خیرا
جواب
یہ سادہ عربی ہے ہم کہتے ہیں گھر والی یا گھر والے تو کیا اس میں بیوی شامل نہیں ہوتی ؟
یہاں دو ہیں چور اور چورنی لیکن أَيْ ِديَ ُه َام میں جمع ہے
یعنی دو کے لئے جمع کا صیغہ استمعال ہوتا ہے اب چاہے یہ مرد ہوں یا عورتیں
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس آیت کے نزول کے وقت یہ ازواج تھیں
سودہ بنت زمعہ رضی الله عنہا
عائشہ رضی الله عنہا
حفصہ بنت عمر رضی الله عنہا
زينب بنت جحش رضی الله عنہا
سوره االحزاب قرآن کی ایک اہم سورہ ہے اس میں جنگ خندق پر بحث ہے اس میں پردے کا
حکم ہے اس میں زینب
بنت جحش سے نکاح کا حکم ہے
زينب بنت جحش رضی الله عنہا سے شادی کے حوالے سے کتاب جمل من أنساب األرشاف میں
بالذری نے لکھا ہے
ويقال إنه تزوجها رجوعه من غزاة املريسيع ،وكانت املريسيع ِف شعبان سنة خمس .ويقال إنه
تزوجها ف سنة ثالث
اور کہا جاتا ہے ان سے نکاح کیا غزوۂ ُم َریسیع سے واپس پر اور غزوۂ ُم َریسیع شعبان سن ٥
ہجری میں ہوا اور کہا جاتا ہے سن 3ہجری میں کیا
السندی کہتے ہیں کہ زینب رضی الله عنہا سے سن 3ہجری میں نکاح کیا
راقم کی تحقیق ہے کہ یہ آیت سن ٣ہجری سے ٤ہجری کے درمیان نازل ہوئی کیونکہ اس میں
پردہ کی آیات ہیں جو زینب رضی الله عنہا سے نکاح کے بعد آئی ہیں
زینب بنت جحش سے نکاح کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعوت دی جس میں
بعض حرضات زیادہ دیر رہے اور رسول الله نے ان کو جانے کا بھی نہیں کہا – صحیح بخاری کی
روایت کے مطابق
وبَ ،ع ْن أَ ِب قِالَبَةَ ،ق ََال أَن َُس بْ ُن َمالِك :أَنَا أَ ْعلَ ُم ُّ َ يَ أ ن
ْ عَ ،د ي ز
َ ن
ُ
َ َّ ْ ْ ب د
ُ ام ح ان
َ َ ث د
َّ َح َّدثَنَا ُسلَ ْي َام ُن بْ ُن َ ْ َ
ح ،ب ر ح
ض اللَّ ُه َع ْن َها إِ َل َر ُسو ِل اللَّ ِه َص َّل اب ” ل ََّام أُ ْه ِديَتْ َزيْ َن ُب بِنْتُ َج ْحش َر َِ اس بِ َه ِذ ِه اْليَ ِة :آيَ ِة ال ِح َج ِ ال َّن ِ
الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ،كَانَتْ َم َع ُه ِف البَيْ ِت َصنَ َع طَ َعا ًما َو َد َعا ال َق ْو َم ،فَ َق َعدُوا يَتَ َح َّدث ُونَ ،فَ َج َع َل النَّب ُِّي َص َّل
الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم يَ ْخ ُر ُج ث ُ َّم يَ ْر ِج ُعَ ،و ُه ْم قُ ُعود يَتَ َح َّدث ُونَ ،فَأَنْ َز َل اللَّ ُه تَ َع َال{ :يَا أَيُّ َها الَّ ِذي َن آ َمنُوا الَ تَ ْد ُخلُوا
بُ ُيوتَ النَّب ِِّي ِإالَّ أَ ْن يُ ْؤذَ َن لَكُ ْم إِ َل طَ َعام غ ْ ََُي ن َِاظرِي َن ِإنَاهُ} [األحزاب ]53 :إِ َل قَ ْولِ ِه { ِم ْن َو َرا ِء ِح َجاب}
” [األحزاب ]53 :ف َُرض َِب ال ِح َج ُ
اب َوقَا َم ال َق ْو ُم
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب گئے تو دیکھا گھر میں لوگ ہیں پس آپ کو حیا آئی اور آپ
چلے گئے اور الله نے حجاب کی آیت نازل کی
يَا أَيُّ َها الَّ ِذي َن آ َمنُوا الَ تَ ْد ُخلُوا بُ ُيوتَ النَّب ِِّي ِإالَّ أَ ْن يُ ْؤذَ َن لَكُ ْم إِ َل طَ َعام غ ْ ََُي ن َِاظرِي َن ِإنَا ُه
جواب
روز محرش الله تعالی ہر انسان کا نامہ عمل اس پر پیش کر دیں گے اور میزان میں عمل رکھ کر
دکھا دیا جائے گا کہ کیا فیصلہ ہے
ہر ہر بندے سے الله تعالی سوال نہیں کریں گے
لہذا علامء کہتے ہیں سوره الرحامن کی آیات سے مراد رصف مومن ہیں
محرش میں فیصلہ کے بعد کفار کا مذاق اڑانے کے لئے بھی سوال ہو گا
َوقِفُو ُه ْم ِإنَّ ُه ْم َم ْسئُولُو َن
ذرا ان کو روکو ان سے سوال کرنے ہیں
و الله اعلم
یا الله یا مالک امللک اپنے حساب اور سوال سے بچا آمین
تفسیر ابن عباس کس نے لکھی ہے
جواب
تفسیر ابن عباس اصل میں الکلبی کے اقوال ہیں
إس يك سند ہے
َ ْ
أخربنَا عبد الله الثِّقَة بن ال ََْم ُمون الْ َه َروِي ق ََال أخربنَا أب ق ََال أخربنَا أبُو عبد الله ق ََال أخربنَا ابو
عبيد الله َم ْح ُمود بن ُم َح َّمد ال َّرازِي ق ََال أخربنَا عامر بن عبد الْمجِيد الْ َه َروِي ق ََال أخربنَا َعل
السمرقَنْ ِدي َعن ُم َح َّمد بن َم ْر َوان َعن الْكَلْبِي َعن اب َصالح َعن ابْن َع َّباس بن ِإ ْس َحق َّ
قرآن میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھیلَ َق ْد َرأَى ِم ْن آيَ ِ
ات َربِّ ِه الْك ْ َُربىبڑی نشانیاں
دکھائی گئیں
یہ سب معراج پر ہوا
معراج پر بہت سے واقعات ہوئے یہ سب الله کی نشانییاں ہیں ان کا ذکر حدیث میں ہے
ات کے الفاظ معجزات کے لئے استمعال کیے جاتے ہیں آيَ ِ
لوح عربی میں تختی کو کہتے ہیں چاہے لکڑی کی ہو یا پتھر کی سل ہو
مرشک کہتے تھے یہ تو شاعری ہے اس پر کہا گیا کہ یہ شیطان کا القا نہیں ہے اس کی حفاظت
ہو رہی ہے
یہ عامل باال میں ہے کیونکہ قرآن محفوط کردہ کتاب ہے چونکہ یہ آخری کالم ہے لہذا اس کو
حفاظت کی گئی ہے محرش تک
اس بات کو بعض دفعہ قرآن میں أم الكتاب کہا گیا ہے کہ سب ایک اہم کتاب سے آ رہا ہے
موسی علیہ السالم کو توریت الواح پر دی جو سل تھیں
و کتبنا له فی االلواح من کل شی ء موعظه و تفصیال لکل شی ءفخذها بقوه
اور ہم نے موسی کے لئے الواح پر ہر چیز لکھ دی نصحت اور ہر چیز کی تفصیل اس کو قوت سے
پکڑنا
لیکن اس کو انہوں نے طور سے اتر کر پھینک دیا تھا (یعنی کالم الله کو پھینک دیا) جب دیکھا
کہ قوم بت پرستی کر رہی ہے
وألقى األلواح وأخذ برأس أخيه يجره إليه
أور إس نے الواح پھینک دیں اور اپنے بھائی کو رس سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا
یہ پتھر کا کتبہ پر تھیں یہود کہتے ہیں قدیم عربانی کے معدوم رسم الخط میں تھیں اور کتبہ
کے دونوں جانب لکھا ہوا تھا اور الفاظ چمک رہے تھے
خیال رہے کہ متام کالم الله چاہے توریت ہو یا انجیل یا زبور یا قرآن متام ام الکتاب کا حصہ ہے
حدیث میں زبور کو بھی قرآن کہا گیا ہے
داود علیہ السالم پر قرآن کی تالوت اس قدر آسان ہوئی کہ زین کسنے کا حکم کرتے اور قرآن
مکمل کر لیتے
اب لَتُف ِْس ُد َّن ِف ْاألَ ْر ِض َم َّرت ْ َِي َولَتَ ْعلُ َّن ُعلُ ىوا كَ ِب ًُيا
رسائِ َيل ِف الْ ِكتَ ِ
َوقَضَ يْنَا إِ َل بَ ِني إِ ْ َ
اور ہم نے کتاب میں فیصلہ دے دیا تھا کہ نبی ارسائیل کبیر رسکشی کریں گے اور دو بار فساد
کریں گے
ام الکتاب یا لوح محفوظ الله کی طرف سے زمین کا پالن ہے جو اس نے تقدیر میں لکھا اور پھر
اسی کے تحت ہوا جو ہوا -چاہے مختلف کتب الله کا نزول ہو یا قوموں کی رسکشی ہو یا کوئی
حکم ہو مثال الله نے اپنے پاس عرش کے قریب اس کتاب کو رکھا ہوا ہے جس میں لکھ دیا ہے کہ
اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب آئے گی
یہ متام منصوبہ الہی ہے کوئی معمولی کتاب نہیں ہے اسی کو لوح محفوظ کہا گیا کہ فی لوح یہ
اس لوح میں سے ہے یہ نہیں کہا ھو لوح محفوظ کہ رصف قرآن ہی لوح محفوظ ہے
جو انبیاء میں فرق کرتے ہیں ایسے لوگ حقیقی کافر ہیں ؟
سورتْالنساءْْ151آيتْکیْروشنیْميںْ
جواب
ِإ َّن الَّ ِذي َن يَكْ ُف ُرو َن بِاللَّ ِه َو ُر ُسلِ ِه َويُرِيدُو َن أَ ْن يُ َف ِّرقُوا بَ ْ َي اللَّ ِه َو ُر ُسلِ ِه َويَقُولُو َن نُ ْؤ ِم ُن بِبَ ْعض {
َونَكْ ُف ُر بِبَ ْعض َويُرِيدُو َن أَ ْن يَتَّ ِخذُوا بَ ْ َي ذلِ َك َسب ًِيال ( )150أُول ِئ َك ُه ُم الْكا ِف ُرو َن َحقىا َوأَ ْعتَدْنا
})لِلْكا ِفرِي َن َعذابًا ُمهِينًا (151
اغلبا یہ یہود و نصاری سے متعلق ہے کہ وہ انبیاء میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم
کو شامر نہیں کرتے اور عرب میں انے والے انبیاء مثال صالح اور ہود علیہ السالم کے بھی
انکاری ہیں
رسول الله ی ا صالح یا ہود علیھام السالم واقعی الله کے نبی تھے یہ ہمیں قرآن سے پتا چال
ہے لیکن یہود کہتے ان کا توریت میں یا کتب ساموی میں ذکر نہیں اس لئے نہیں مانتے
جتنا قرآن مي اور حدیث میں اس فضیلت کا ذکر آیا صحیح ہے
لیکن یہ کہنا کہ ہامرے نبی متام انبیاء سے افضل ہیں وہ کائنات کی تخلیق کی وجہ ہیں
یا رسور کائنات ہیں یہ سب غلو ہے
آج سائنس کی دنیا ہے اور بہت سے لوگ قرآن و سائنس کو مال کر دین کی حقانیت ثابت
کرتے ہیں – سائنس میں کلیات کے ساتھ ساتھ ارتقائی تجزیے بھی ہوتے ہیں -کچھ
تحقیقی زوایے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں – یعنی قرآن کو سائنس سے مال کر سمجھنا
صحیح نہیں اال یہ کہ اس پر برصی شواہد آ جائیں مثال زمین گول ہے آج خال سے اس کی
تصویر لی جا چکی ہے لہذا اس کو تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے – لیکن
کسی تھیوری کو قرآن سے مالنا جو خود حتمی نہ ہو غلط عمل ہے -زمینی حقائق کی
طرف مسلامنوں نے سائنسی انداز میں تحقیق کی ہے جن کو فلسفی اور ملحد کہا گیا
برصہ عراق کی فضا نرالی تھی یہاں محدثین میں سے حسن البرصی کے شاگردوں میں
سے عمرو بن عبید نکال جو ایک محدث تھا اور اس نے املعتزلہ کی بنیاد رکھی (واصل
بن عطا اس کا شاگرد تھا) -اسی طرح یہاں سے اخوان الصفا نکلے جو فلسفہ یونان اور
حکمت ہند کو دین سے مال کر رسائل لکھ رہے تھے -اخوان الصفا ایک خفیہ سوسائٹی
تھی جس کا تعلق برصہ سے تھا ان کو شوق تھا کہ اس دور کی سائنس سے دین کو ثابت
کیا جائے – ان کے خیال میں شاید اسطرح دین کی قبولیت عامہ بڑھ جاتی – لہذا یہ
عمل بادی النظر میں مستحسن تھا لیکن وقت نے ان دونوں کو فنا کر دیا– دورسی طرف
جب آپ دین کی بات کرتے ہیں تو اس میں علامء کا ایک گروہ روایت پسندی کا شکار ہے
سبحان الله – الله سے سوا کون بے عیب ہے ؟ تحت الثی پر روایات اور علامء کیا
کہتے ہیں دیکھتے ہیں
شیعہ کتب
الكاف – از الكليني – ج – 8ص 89کی روایت ہے
حديث الحوت عل أي شئ هو – 55محمد ،عن أحمد ،عن ابن محبوب ،عن جميل
بن صالح ،عن أبان بن تغلب ،عن أب عبد الله ( عليه السالم ) قال :سألته عن األرض عل
أي شئ هي ؟ قال :هي عل حوت ،قلت :فالحوت عل أي شئ هو ؟ قال :عل املاء ،
قلت :فاملاء عل أي شئ هو ؟ قال :عل صخرة ،قلت :فعل أي شئ الصخرة ؟ قال :عل
قرن ثور أملس ،قلت :فعل أي شئ الثور ؟ قال :عل الثى ،قلت :فعل أي شئ الثى ؟
فقال :هيهات عند ذلك ضل علم لعلامء
باب مچھلی کی حدیث کہ یہ کس پر ہے ؟ محمد ،احمد سے وہ ابن محبوب سے وہ
جمیل بن صالح سے وہ ابان بن تغلب سے وہ ابی عبد الله امام جعفر علیہ السالم سے
روایت کرتے ہیں کہ میں ابان نے امام سے زمین کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس چیز پر
ہے ؟ امام نے فرمایا مچھلی پر میں نے پوچھا یہ مچھلی کس چیز پر ہے ؟ فرمایا پانی پر
میں نے پوچھا پانی کس پر ہے ؟ فرمایا چٹان پر میں نے پوچھا اور چٹان کس چیز پر ہے ؟
فرمایا چکنے بیل کے سینگ پر اس پر پوچھا بیل کس چیز پر ہے کہا یہ الثی پر ہے میں
نے پوچھا الثی ؟ پس فرمایا دور بہت دور! علامء کا علم پر پر ضائع ہو گیا
اس اثر کو و جعل الشمس رساجا کی تفسیر میں مفسین نے لکھا ہے لیکن اس کی سند
نہیں ملی
اسی طرح ایک اور قول تفسُي القرطبي میں ہے
وحىك القشُيي عن ابن عباس أن الشمس وجهها ف السموات وقفاها ف األرض
اور القشیری نے حکایت کیا ہے ابن عباس سےکہ سورج کا چہرہ آسامنوں کی طرف اور
پشت زمین کی طرف ہے
اسکی سند کتاب العظمة از ابو الشیخ ،مستدرک الحاکم میں ہے
وس َف بْنِ َح َّدث َ َنا ابْ ُن أَ ِب َع ِاصمَ ،ح َّدث َ َنا ُه ْدبَةَُ ،ح َّدث َ َنا َح َّام ُد بْ ُن َس َل َمةََ ،ع ْن َع ِ ِّ
ل بْنِ َزيْدَ ،ع ْن يُ ُ
ض اللَّ ُه َعنْ ُه َامَ { :و َج َع َل الْ َق َم َر ِفي ِه َّن نُو ًرا} [نوح ]16 :ق ََال« :قَفَا ُه ِم َّام ِم ْه َرانَ ،عَنِ ابْنِ َعبَّاسَ ،ر ِ َ
يَ ِل ْاألَ ْر َضَ ،و َو ْج ُه ُه ِم َّام يَ ِل َّ
الس َام َء
اس کی سند میں يوسف بن مهران ہے امليموّن کہتے ہیں امام احمد اس کے لئے کہتے ال
یعرف نہیں جانتا
یعنی یہ ایک مجھول شخص ہے جس سے رصف عل بن زيد نے روایت لی ہے
امام الحاکم اس کو امام مسلم کی رشط پر کہتے ہیں جو صحیح نہیں اور حاکم غلطیاں
کرنے کے لئے مشھور ہیں
امام بخاری تاریخ الکبیر میں یوسف کے لئے لکھتے ہیں وكَا َن يهوديا فأَسلَ َم .یہ یہودی
تھے پھر مسلامن ہوئے
بہت سے اقوال یہود کی کتب کے ہامرے پاس اس وجہ سے آئے اور ان کو ارسائیلیت کہا
جاتا ہے اگر وہ کسی نبی کی عجیب و غریب خرب ہو لیکن جب کائنات و تکوین کی خرب
ہوتی تھی تو اس کو مفسین لکھ لیتے تھے کیونکہ اس پر تفصیل کم تھی
اسی کتاب العظمة کی دورسی روایت ہے
َح َّدثَنَا الْ َولِيدَُ ،ح َّدثَنَا َع ْم ُرو بْ ُن َس ِعيدَ ،ح َّدثَنَا ِإ ْس َح ُاق يَ ْع ِني ابْ َن َرا َه َويْ ِهَ ،ح َّدثَنَا الْفَضْ ُل بْ ُن
ض اللَّ ُه َعنْ ُه َام ِف قَ ْولِ ِه: وىس ،عَنِ الْ ُح َس ْ ِي بْنِ َواقِدَ ،ع ْن َم ْع َمرَ ،ع ْن قَتَا َدةَ ،عَنِ ابْنِ َعبَّاسَ ،ر ِ َ ُم َ
اتَ ،وظَ ْه ُر ُه يُ ِض ُء ْاألَ ْر َض الس َام َو ِ ء ض
َ ْ ُ ُ ُ َِّ ي ه
ُ ه ج و« : َالَ ق ]16 : نوح [ } ار
ً ُو ن ن
َّ هِ ي ِ
ف ر
ََم ق
َ ْ لا لَ ع
{ َو َ َ
ج
قتادہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ چاند کا چہرہ آسامنوں کو روشن کرتا ہے اور
اسکی پشت زمین کو روشن کرتی ہے
سند میں قتادہ مدلس ہے عن سے روایت کرتا ہے لہذا روایت ضعیف ہے
مفسین نے ان روایات کو تفسیر میں لکھا ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہیں
شیعہ کتاب علل الرشائع میں ہے
سأل رجل من أهل الشام أمُياملؤمني عليه السالم عن مسائل فكان فيام سأله أن سأله عن
أول ما خلق الله تعال قال :خلق النور ،وسأله عن طول الشمس والقمر وعرضهام ،قال :
تسعامئة فرسخ ف تسعامئة فرسخ
اہل شام میں سے کسی شخص نے علی علیہ السالم سے پوچھا کہ سورج اور چند کا عرض
کتنا ہے؟ علی نے کہا ٩٠٠فرسنگ
ایک فرسنگ ٥.٧میٹر کا ہوتا ہے اور سورج و چاند کا یہ عرض نہیں ہے
تفسیر قمی میں ہے علی نے کہا سورج والشمس ستون فرسخا ف ستي فرسخا یعنی ٦٠
فرسنگ اس کا قطر ہے
جس دور میں یہ کتب لکھی جا رہی تھیں اس دور میں ان مخصوص روایات کو رد کرنے
کی کوئی دلیل نہیں تھی لہذا ان کو لکھ دیا گیا آج ہم سمجھ سکتے ہیں کہ رآویوں نے
غلطیاں کی ہیں
افسوس بعض جہالء کہتے ہیں کہ یہ تفسیری ضعیف روایات رسول الله صلی الله علیہ
وسلم نے گھڑیں! محدثین نے اگر تین ہزار روایات لکھی ہیں تو ٥٠ہزار سے اوپر رد بھی
کی ہیں اور یہ بات معروف ہے کہ لوگوں نے رسول الله پر جھوٹ باندھا اور راویوں کا
حافظہ خراب ہوا کیا -آج لوگوں کا حافظہ خراب نہیں ہوتا یا وہ اختالط کا شکار نہیں
ہوتے ؟
شہاب ثاقب
قرآن کہتا ہے
تم کو کا پتا طارق کیا ہے؟ ایک بھڑکتا ہوا تارہ ہے
اس پر ایک ملحد لکھتے ہیں کہ یہ غلط ہے شہاب ثاقب رصف ٹوٹے ہوئے تارے ہیں
آج سے ١٤٠٠سال پہلے عربی زبان اتنی وسیع نہیں تھی کہ اس طرح کی متام جزیات کو
وہ اسی سائنسی پیرائے میں بیان کرتی جس طرح ہم سننے کے عادی ہیں
جو چٹان بھی زمین کے گرد تھی اور اس کی فضا میں داخل نہیں تھی وہ تارہ کہی گئی
کیونکہ عربی میں اس کا متبادل لفظ نہیں تھا
زمین کو بچھایا
قرآن 15:19
واالرض مددناها والقينا فيها رواِس وانبتنا فيها من كل شئ موزون
ترجمہ :اور ہم نے زمین کو پھیالیا اور اس پر پہاڑ رکھ دیے اوراس میں ہر چیز اندازے
سے اگائی
قرآن 20:53
الذي جعل لكم االرض مهدا وسلك لكم فيها سبال وانزل من السامء ماء فاخرجنا به ازواجا
من نبات شتى
ترجمہ :جس نے متہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور متہارے لیے اس میں راستے بنائے
اور آسامن سے پانی نازل کیا پھر ہم نے اس میں طرح طرح کی مختلف سبزیاں نکالیں
قرآن 43:10
الذي جعل لكم االرض مهدا وجعل لكم فيها سبال لعلكم تهتدون
ترجمہ :وہ جس نے زمین کو متہارا بچھونا بنایا اور متہارے لیے اس میں راستے بنائے تاکہ
تم راہ پاؤ
قرآن 50:7
واالرض مددناها والقينا فيها رواِس وانبتنا فيها من كل زوج بهيج
ترجمہ :اور زمین کو بچھایا ہم نے اور ڈال دیے اس میں (پہاڑوں کے) لنگر اور اگائیں اس
میں ہرطرح کی خوش منظر نباتات۔
قرآن 51:48
واالرض فرشناها فنعم املاهدون
ترجمہ :اور زمین کو بچھایا ہے ہم نے اور کیا ہی اچھے ہموار کرنے والے ہیں ہم۔
قرآن 71:19
والله جعل لكم االرض بساطا
ترجمہ :اور اللہ نے زمین کو متہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا۔
قرآن 78:6
امل نجعل االرض مهادا
ترجمہ :کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا۔
قرآن 88:20
وال االرض كيف سطحت
ترجمہ :اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟
قرآن 91:6
واالرض وماطحاها
ترجمہ :اور زمین کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے بچھایا۔
الله نے زمین کو ہموار بھی کیا تاکہ انسان اس پر آرام سے چل سکیں اگر چاہتا تو متام
زمین اوپر نیچے کر دیتا اور انسان پہاڑوں کو عبور کرتے رہتے لہذا الله اپنا احسان بتا رہا
ہے کہ اس نے انسانوں کے لئے آسانی کی دی
ہم جانتے ہیں اس زمین پر پہاڑ ہیں سمندر ہیں جن پر ہم چل نہیں سکتے لیکن ان کے
اپنے فوائد ہیں
الغرض سائنس ایک تجرباتی و مشاہداتی و ارتقائی علم ہے اس کو اہمیت اپنی جگہ
مسلمہ ہے – قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو عرب کے فضال سے لے کر عام عربی بد
و تک نے قبول کیا تھا قرآن نظم کائنات کا وہ نظریہ پیش کرتا ہے جو اس کو دین سے
جوڑتا ہے نہ یہ فلسفہ کی بات کرتا ہے نہ منطق کی نہ سائنس کی
ذي القرني أفريدون سے سكندر تک
ارنسٹ والس بج ایک مغربی تاریخ دان تھے اور قدیم کتب کا ترجمہ کرنے میں ماہر
تھے مثال انہوں نے اہرام مرص کی دیواروں پر موجود عبارت کا ترجمہ کیا اسی طرح ایک
کتاب ان کو ملی جو سکندر کے سفر نامے پر تھی اور اس کے دو نسخنے ہیں – والس
نے اس نسخے کا ترجمہ کیا جو رسیانی کی زبان میں تھا -رسیانی زبان واال نسخہ
میں کہانی کا ایک حصہ جو ہامری دلچپسی کا ہے اس میں ہے کہ مرص اسکندریہ
میں سکندر ایک جنگ کا اردہ کرتا ہے اور خدا سے مدد مانگتا ہے
And king Alexander bowed himself and did reverence, saying, “0 God, Lord
of kings and judges, thou who settest up kings and destroyest their power, I
know in my mind that thou hast exalted me above all kings, and thou
hast made me horns upon my head, wherewith I might thrust down the
۔kingdoms of the world
اور شاہ سکندر نے سجدہ کیا اور کہا اے رب مالک امللک والقضآة جو بادشاہ کرتا ہے
اور انکی قوت کو تباہ کرتا ہے مجھے اپنے نفس میں خرب ہے آپ نے مجھ کو متام
بادشاہوں پر بلند کیا اور آپ نے میرے رس پر سینگ کیے جس سے میں بادشاہتوں کو
دھکیل دیتا ہوں
The History of Alexander the Great, Being the Syriac Version of the
Pseudo-Callisthenes,
Volume 1″,page 146, The University Press, 1889. By Ernest A. Wallis Budge
اے بادشاہ ہم اور ہامرے اجداد اس پہاڑ پر نہیں چڑھ پاتے اور یہ ایک رسحد کے طور
ہامرے اور دیگر قوموں کے بیچ ہے سکندر نے پوچھا اس پہاڑ کے اندر تم کس قوم کو
دیکھتے ہو ؟ بوڑھے نے کہا “ھن” کو – سکندر نے پوچھا ان کے بادشاہ کون ہیں ؟
بوڑھے نے کہا یاجوج اور ماجوج اور نوال جو جافث کی نسل سے ہیں اور جج اورتیمروں
اور متروں اور یکشفر اور سلگادو اور نسلک اور معرفل اور کوزہ ھن کے شاہ ہیں –
سکندر نے پوچھا یہ دیکھنے میں کیسے ہیں کیا پہنتے ہیں کیا بولتے ہیں؟
رسیانی میں سکندر کی اس کہانی میں یاجوج ماجوج کو بہت سے بادشاہوں میں
– سے چند بتایا گے ہے جو نہ رصف بائبل کے خالف ہے بلکہ قرآن کے بھی خالف ہے
سکندر نے اپنی فوج سے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہمیں اس جگہ کوئی عظیم کام کرنا
چاہیے ؟ فوج نے کہا جیسا آپ کا حکم سکندر نے کہا ایک دروازہ اس درہ کے بیچ بناؤ
جس سے اس کو پاٹ دیں – اور سکندر نے 3ہزار آدمی اس کام پر لگا دیے اور انہوں نے
….آٹے کی طرح لوہا اور تانبہ گوندھ دیا جس سے دروازہ بنا
والس یہاں نوٹ لکھتے ہیں
یہ گزرگاہ یا درہ وہی ہے ..جس کو ترک
Demir Kapija
– کہتے تھے
– دمیر کاپیا کا مطلب ہے آہنی دروازہ
Demir Kapija
میسی ڈونیا (مقدونیہ) کے عالقے میں ایک جگہ کا نام ہے نہ کہ ارمنینا میں
بحر الحال اس کتاب کے قصے سے بعض مسترشقین کو اشتباہ ہوا کہ یہ وہی دیوار ہے
جس کا قرآن میں ذی القرنین کے قصے میں ذکر ہے
سفرنامہ سکندر پر کتاب کا ایک دورسا نسخہ بھی ہے جو ارمیننا کی زبان کا ہے
دورسا نسخہ میں جو ارمنینا کا ہے اس میں رسے سے اس دیوار کے قصے کا ذکر ہی
نہیں کہ سکندر نے آرمینا میں کچھ بنوایا بھی تھا یا نہیں – اس کے عالوہ یاجوج و
ماجوج کا ذکر بھی نہیں ہے
Rampart of Alexander
کو دیکھا
ریکولڈ مونٹکرو دو دلیل دیتے ہیں جس سے یہود کو تاتاریوں سے مالیا گیا ہے جن کو
سکندر نے دیوار سے بند کیا ایک یہ کہ تاتاری سکندر کے نام سے ہی نفرت کرتے ہیں
اور وہ اس کو سن نہیں سکتے اور دورسا یہ کہ ان کی تحریر بابل جیسی ہے جو رسیانی
کی طرح ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہود کی اس سے کوئی مامثلت نہیں ہے اور ان کو
رشیعت کا پتا نہیں ہے
پس ظاہر ہوا کہ جان بوجھ کر اتھوپیا کے عیسائیوں نے یہود کی مخالفت میں اس کتاب
THE ROMANCE OF ALEXANDER THE GREAT BY PSEUDO-
CALLISTHENES
کو گھڑا
اسالم سے قبل عیسائیوں اور یہود میں بنتی نہیں تھی – اس دور چپقلش میں
عیسائیوں نے یہ کتاب گھڑی جس میں اپنی مذہبی آراء کو یہود کے خالف استمعال کیا
– اس کے لئے انہوں نے سکندر کا کردار چنا – وجہ یہ تھی کہ یہود بابل کے غالم تھے
پھر فارس نے بابل پر قبضہ کیا اور یہود کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی یہود نے
اپنی حکومت وہاں بنا لی لیکن سکندر کے بعد یونانیوں نے یہود کو غالم بنا لیا -یہود
میں اس پر یونان مخالف جذبات پیدا ہوئے اور وہ فارس کی طرف دیکھتے کہ کوئی ائے
– اور ان کو بچائے
عیسی علیہ السالم کے بعد یہود اور نصاری میں خوب جگھڑے ہوئے اور باالخر
عیسائیوں نے یہود کے مخالف کے طور پر سکندر کے اوپر ایک فرضی داستان گھڑی –
سکندر ایک بت پرست مرشک تھا لیکن عیسائیوں نے اس کو کہانی میں الہ پرست قرار
دیا – اس کو مسیح کا منتظر دکھایا جو یروشلم کو مسیح کے حوالے کرے اور یہود کا
مذاق اڑایا کہ سکندر نے ایک دیوار بنا کر ان وحشی یہود کو باقی دنیا سے الگ کر دیا
واضح رہے کہ بائبل کی کتاب حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور
ماجوج قوم ہے – لیکن عیسائیوں نے ارمیننا کے “ھن” قوم کے بادشاہوں میں ماجوج کو
بھی ایک بادشاہ قرار دے دیا اس طرح یاجوج و ماجوج قوموں کی بجائے بادشاہوں کے
نام بنا دیے -اتھوپیا کے عیسائیوں نے سکندر کو ایک افریقی گینڈے کی طرح تشبیہ
-دی جو اپنے سینگوں سے مخالف حکومتوں کو دھکیلتا ہے
نزول قرآن کے دور میں یہود بھی یہی کہتے ہونگے کہ ذو القرنین سکندر نہیں ہے اس
کی وجہ یہ ہے کہ یہود کو بخوبی پتا تھا کہ سکندر کا یاجوج ماجوج سے کوئی تعلق
نہیں کیونکہ جب سکندر پیدا بھی نہیں ہوا تھا حزقی ایل جو بابل میں غالم تھے وہ
یاجوج ماجوج کا تذکرہ اپنی کتاب میں کر چکے تھے – تاریخ کے مطابق سکندر کے
یہود سے اچھے تعلقات تھے یہاں تک کہ یہود نے اس کی اجازت سے کوہ گزیرم پر
موجود یروشلم مخالف سامرہ کے یہودیوں کی عبادت گاہ کو مسامر کیا اور وہاں
موجود اس فرقے کا قتل عام کیا – گویا سکندر یروشلم پہنچ کر مسیحا کے لئے گدی
چھوڑنے کی بجائے خود یہود سے دوستی کر چکا تھا – عیسائیوں کا اس کتاب کو گھڑنا
یہود کے لئے نہ تھا بلکہ وہ اپنے ہی ہم مسلک عیسائیوں کو جھوٹی کہانیاں سنا کر
تسلیاں دے رہے تھے
اب اس سوال کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ ذوالقرنین کس دور میں گذرا -بابل کی
غالمی کے دور میں یہود اس کی شخصیت سے واقف ہوئے جب نہ کورش تھا ن سکندر
-لہذا یہ ان دونوں سے قبل گزرنے والی کوئی شخصیت ہے
Fereydun
Faridon
Fereydoun
Proto- Iranian
داستانوں میں ہے یعنی یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو تاریخ لکھے جانے سے پہلے کا
دور ہے یہی وجہ ہے کہ اس پر معلومات کم تھیں اور یہود و نصاری میں اس شخصیت
پر جھگڑا تھا کہ کون ہے
فریدوں کی ایک تصویر ١٩صدی میں بنائی گئی جس میں اس کے ہاتھ میں عصآ ہے
جس پر دو سینگ ہیں
https://en.wikipedia.org/wiki/Fereydun
یقینا مصور کے پاس اس پر کوئی معلومات تھیں جس کی بنا پر افریدوں کو دو سینگوں
کے ساتھ دکھایا گیا
اس سب تفصیل کو بٹاتے کا مقصد ہے کہ بعض مسترشقین نے اس مذکورہ کتاب کو قرآن
کی سوره الکھف کا منبع قرار دیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ گویا ذو القرنین کا
قصہ اصال اس کتاب کا رسقه ہے
http://wikiislam.net/wiki/Dhul-
Qarnayn_and_the_Alexander_Romance#Early_Jewish_Legends
سوره کہف ،حکایات سکندر سے گھڑنے کی بات کس قدر احمقانہ ہے اس کا اندازہ اسی
سے ہو جاتا ہے خود اہل کتاب نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ذو القرنین پر سوال کیا
تھا – انکو عیسائیوں کی یہود مخالف تحاریر کا بھی علم تھا اور اگر مذکورہ باال سکندر
پر کتاب اس وقت موجود تھی تو یقینا اس کا بھی یہود و نصاری کو علم ہو گا
قران کے عالوہ پیغمرب پر کوئی دورسی چھپی ہوئی چیز نازل نہیں ہوئی
… .محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ کے طرف سے رصف قران نازل ہوا تھا اور قران
کے عالوہ کوئی اور چیز نازل نہی ہوئی تھی لہازا قران کے عالوہ کسی اور کتاب کو
حجت ماننا رشک ہے
جواب
یہ قول جاہالنہ ہے – آیات سے مطلب کشید کیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کو عذاب ہو
گا کیونکہ اس نے کالم الله کو بدلنے کی کوشش کی ہے
انبیاء کو حکم کس طرح ہوتا ہے ؟ کیا رصف قرآن سے ہوتا ہے کوئی اور القا یا الوحی
نہیں ہوتی؟ یہ شخص کہنا چاہتا ہے کہ دور نبوی میں الوحی رصف قرآن تھا
افسوس یہ جاہل ہے
جبگ بدر میں تین ہزار فرشتے نازل ہوئے یہ بعد میں سوره االنفعال میں تبرصے میں
خرب دی گئی جبکہ واقعہ پہلے ہوا تھا
نبی صلی الله علیہ وسلم کو حج کا حکم ہوا – اپ مدینہ سے نکلے لیکن اپ کو مرشکین
نے حدیبیہ میں روک لیا -خواب الوحی ہے
ابراہیم علیہ السالم کو خواب میں اسمعیل علیہ السالم کی قربانی کا حکم ہوا جو الوحی
یا من جانب الله سمجھا گیا
بنو قریظہ کے محارصے کے وقت درخت کاٹ دیے گئے بعد میں سوره الحرش میں اس
پر تبرصہ ہوا کہا گیا یہ الله کا حکم تھا
قرآن میں خود موجود ہے کہ انبیاء پر تحریری الوحی کے عالوہ بھی الوحی ہوئی ہے
یہ شخص کہنا چاہتا ہے کہ رصف وہ لوگ ہی نبی ہیں جن پر کتب نازل ہوئیں جن کو
صحف یا کتب نہیں ملیں وہ انبیاء و رسل نہیں ہیں
[Exegesis V. 95−97] Bakkah was the old name of Makkah. In Psalm∗ it is
said: Blessed is the man whose strength is in thee; in whose heart are the ways
of them. Who passing through the valley of Baca make it a well; the rain also
filleth the pools Bacca should be a bone dry land otherwise the verses of
Psalm does not make sense. It is claimed that Bacca is Jerusalem or in Sinai
district or may be in Galilee. Also the translators sometimes translate it as
valley of weeping or valley of balsam trees. However in no way such play with
the word can be accepted. In times of David Jerusalem was not city of weeping.
Also Jericho was famous for Balsam trees not Jerusalem. An Ishamelite
caravan taken Joseph out of well when it was going to Egypt with Myrrah.
Genesis (37:25) says: As they sat down to eat their meal, they looked up and
saw a caravan of Ishmaelites coming from Gilead. Their camels were loaded
with spices, balm and myrrh, and they were on their way to take them down
to Egypt. Myrrah is also produced through Balsam trees in Arabia so
converting the Bacca into valley of balsam would not change the issue.
َو ِإذْ ق ََال ِإبْ َرا ِهي ُم َر ِّب ا ْج َع ْل َهذَا بَلَدًا آ ِمنًا َوا ْرزُقْ أَ ْهلَ ُه ِم َن الثَّ َم َر ِ
ات َم ْن آ َم َن ِمنْ ُه ْم بِال َّل ِه
َاب النَّا ِر ۖ َوبِئْ َس الْ َم ِص ُُي َوالْ َي ْومِ ْاْل ِخ ِر ۖ ق ََال َو َم ْن كَ َف َر فَأُ َمتِّ ُع ُه قَلِ ًيال ثُ َّم أَضْ طَ ُّر ُه إِ َل َعذ ِ
)(2:126
جب ابراہیم نے کہا ،اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن واال شہر بنا اور یہاں کے باشندوں
کو جو اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایامن رکھنے والے ہوں ،پھلوں کی روزیاں دے
اللہ تعالی نے فرمایا :میں کافروں کو بھی تھوڑا فائده دوں گا ،پھر انہیں آگ کے عذاب
کی طرف بےبس کردوں گا ،یہ پہنچنے کی جگہ بری ہےجواب
ابراہیم نے دعا کی ہے کہ ان کو پھل ملیں کیونکہ مکہ ( بواد غُي ذي زرع) بے آب وادی
تھی-ابراہیم کی دعا مکہ کے لئے ہے جو بکہ ہی ہےیا ان صاحب کے نزدیک یہ دعا بکہ
کے لئے ہے ؟مکہ میں جب ابراہیم پہنچے تو وہاں قبیلہ جرہم آباد ہوا تھا اور ساتھ ہاجرہ
اور اسمعیل علیھام السالم بھی تھےیہ لوگ زمزم کا پانی پیتے اور تیروں سے شکار کرتے
اغلبا ان پرندوں کا جو پانی پر اتے تھےمکہ میں پھل آگے نہیں وہاں تجارت سے اور
قافلوں سے پہنچےمثال مکہ کے قریب طائف ہے جو رسسبز ہے وہاں کا موسم بھی الگ
ہے کیونکہ طائف پہاڑ کے اوپر ہےکعبہ کی تعمیر سے وہاں مکہ یا بکہ میں لوگوں کا آنا
جانا حج وغیرہ رشوع ہوااور اس طرح وہ نظم بن گیا کہ دنیا کی نعمت اہل مکہ کو مل
گئی قرآن میں ہے
أَ َولَ ْم منُ َكِّ ْن لَ ُه ْم َح َر ًما آ ِمنًا يُ ْجبَى إِلَيْ ِه َثَ َ َراتُ ك ُِّل َ ْ
َشء} [القصص57 :کیا ہم نے ان کو ایک حرم
میں نہیں ٹھرایا جہاں ہر چیز کا پھل پہنچتا ہے
ظاہر ہے یہ حرم مکی ہے
سوره ابراہیم آیت ٣٧میں ہے
َربَّنَا إِ ِّّن أَ ْسكَنْ ُت ِم ْن ذُ ِّريَّتِي بِ َواد غ ْ َُِي ِذي َز ْرع ِعنْ َد بَيْتِ َك الْ ُم َح َّرمِ َربَّنَا لِيُ ِقي ُموا َّ
الص َال َة فَا ْج َع ْل
ات لَ َعلَّ ُه ْم يَشْ كُ ُرو َن أَفْ ِئ َد ًة ِم َن ال َّن ِ
اس ت َ ْهوِي إِلَ ْي ِه ْم َوا ْر ُزقْ ُه ْم ِم َن الثَّ َم َر ِ
سوره قریش
الَّ ِذي أَطْ َع َم ُه ْم ِم ْن ُجوع َوآ َم َن ُه ْم ِم ْن َخ ْوف
سیوطی نے تفسیر الدر املنثور میں کچھ روایات دی ہیں کہ ابراہیم کی دعا پر الله نے
جربیل کو حکم کیا اور انہوں نے ملک اردن یا فلسطین کے ایک قطعہ کو عرب میں
منتقل کیا جس کو طائف کہا جاتا ہے
أما قَ ْوله ت َ َع َال{ :وارزق أَهله من الثمرات} أخرج األرزرقي َعن ُم َح َّمد بن الْ ُمنْكَدر َعن النَّبِي
صل الله َعلَ ْي ِه َوسلم ملا وضع الله الْحرم نقل لَ ُه الطَّائِف من فلسطين َوأخرج ابْن جرير َوابْن
أب َحاتِم َعن ُم َح َّمد بن ُمسلم الطَّائِ ِفي ق ََال :بَلغ ِني أَنه ملا َد َعا إِبْ َرا ِهيم للحرم {وارزق أَهله
من الثمرات} نقل الله الطَّائِف من فلسطين َوأخرج الن أب َحاتِم واألزرقي َعن ال ُّز ْهرِي ق ََال:
ِإن الله نقل قَ ْريَة من قرى الشَّ ام فوضعها بِالطَّائِف ل َد ْع َوة إِبْ َرا ِهيم َعلَيْ ِه َّ
الس َالم َوأخرج
يسار ق ََالَ :س ِمعت بعض ولد نَا ِفع بن ُج َبُي بن مطعم األْ َ ْز َرقِي َعن سعيد بن الْمسيب بن َ
َوغَُيهيذك ُرو َن أَنهم سم ُعوا :أَنه ملا َد َعا إِبْ َراهيم مبِ َكَّة أن ي ْرزق أهله من الثمرات نقل الله
َ َ ِ
أَرض الطَّائِف من الشَّ ام فوضعها ُهنَالك رزقا للحرم
نکتہ ابراہیم علیہ السالم نے تو دعا کی کہ پھل مومنوں کو ملیں لیکن الله نے دعا قبول
کر کے مومن ہو یا کافر سب کو پھل دیے
مکہ کو حرم الله تعالی نے قرار دیا ہےاس کی وجہ سے سال کے چار ماہ حرمت والے ہیں
اس دن سے جس دن زمیں و آسامن بنے
قرآن میں سوره توبه أية ٣٦ہے
ات َو ْاألَ ْر َض ِمنْ َها أَ ْربَ َعة اب اللَّ ِه يَ ْو َم َخل ََق َّ
الس َام َو ِ ِإ َّن ِع َّد َة الشُّ ُهو ِر ِعن َد اللَّ ِه اثْنَا َع َ َ
رش شَ ْه ًرا ِف كِتَ ِ
ُح ُرم ۖ
الله کے نزدیک مہینے ١٢ہیں جو کتاب الله میں ہیں اس روز سے جب زمیں و آسامن
خلق ہوئے ان میں سے چار حرمت والے ہیں
صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ِإ َّن
ات َو ْاألَ ْرضَ اس شہر مکہ کو الله نے حرم قرار دیا اس
الس َام َو ِ
َهذَا الْبَلَ َد َح َّر َم ُه الل ُه يَ ْو َم َخل ََق َّ
روز جب آسامن و زمین خلق ہوئے
https://www.youtube.com/user/iipcpakistan
اہل کتاب کے پاس کتاب اللہ کی طرف سے ہے – اس کتاب کا نام ان موصوف کے نزدیک
توریت نہیں ہے
یہ عجیب بات ہے
خیال رہے توریت کے معنی قانون ہیں یہ علامئے یہود کا قول ہے – قرآن میں اس کو
قانون نہیں کہا گیا
یہود کے پاس توریت ہے قرآن میں ہے
َمث َُل الذين ُح ِّملُوا ْ التوراة ثُ َّم لَ ْم يَ ْح ِملُوهَا كَ َمثَ ِل الحامر يَ ْح ِم ُل أَ ْسفَاراً
سورۃ االعراف
)(145
اور ہم نے اس کو تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی ،سو
انہیں مضبوطی سے پکڑ لے اور اپنی قوم کو حکم کر کہ اس کی بہَّت باتوں پر عمل
کریں ،عنقریب میں متہیں نافرمانوں کا ٹھکانہ دکھاؤں گا۔
موصوف کا مدعا ہے کہ انبیاء جو دیا گیا ہے وہ کتاب کہا جائے اس کو توریت یا انجیل
نہ کہا جائے – توریت اگر قانون ہے تو آمد النبی کا ذکر کون سا قانون ہے ؟
قرآن میں اہل کتاب سے بات ہوتی ہے تو ظاہر ہے انہی کی اصطالحات کی سطح پر بات
ہو گی
موصوف کہتے ہیں موسی کو الواح دی گئی نہ کہ توریت – اس کو کتاب بھی کہا
صحائف بھی کہا گیا
قرآن میں ہے
َو ُم َصدِّقاً ل َِّام بَ ْ َي يَد ََّي ِم َن التوراة
متہارے سامنے جو توریت ہے اس میں اس کی تصدیق ہے
موصوف کہتے ہیں متام انبیاء بنی ارسائیلی کہالئیں گے جن کے پاس بھی کتاب ہو
منٹ ٤٤
جواب یہ عجیب بات ہے ابراھیم علیہ السالم بنی ارسائیل میں سے نہیں بلکہ ان کے باپ
ہیں
قرآن میں ہے ابراھیم کو صحف دیے
یہ وہی مغالطہ ہےجس کا موصوف بار بار اعادہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ الکتاب جو
آسامن میں ہے اس سے ہی توریت یا انجیل یا قرآن کو لیا گیا یعنی اصل الکتاب آسامن
میں ہے اس کا منت زمین پر نازل ہوتا گیا
اصل کو الله نے بیان کیا جب قرآن میں ذکر کیا تو ١١٤سورتیں بن گیا اسی اصل کتاب
کی بات تھی لیکن ماحول و زمیں الگ تھی لہذا قرآن ہوا اور جب طور میں اسی اصل
کتاب کی الله نے بات و رشح کی تو یہ توریت بنی -لیکن موصوف نے اس کو مال دیا ہے
کہ کتاب ایک ہی ہے جو نازل ہوئی گویا کہ قرآن حرفا حرفا وہی تھا جو توریت تھی
یہ عجیب بات ہے کیونکہ قرآن میں منافق مدینہ کا ذکر ہے جنگوں کا ذکر ہے یہ
مضامین الگ ہیں موسی یا عیسی کا سابقہ ان سے نہیں تھا
یہ بھی مغالطہ ہے -اہل کتاب کے لئے قرآن میں ہے
ِ ُ َشء َحتَّى ت ُ ِقي ُموا التَّ ْو َرا َة َوا ِْلنْج َ
ِيل َو َما أنْز َِل إِلَيْكُ ْم م ْن َربِّكُ ْم ق ُْل يَا أَه َْل الْ ِكتَ ِ
اب ل َْستُ ْم َع َل َ ْ
اے اہل کتاب تم کچھ نہیں یہاں تک کہ توریت و انجیل کو قائم کرو
http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/essa_pbuh.pdf
جواب
مزید کہ الفاظ کا ترشیحی اضافہ ہے کہ پورا کر دیا – اس شخص نے انجیل یوحنا کے
الفاظ
http://biblehub.com/john/19-30.htm
پورا کر دیا کو اس آیت میں ڈال دیا ہے
پورا کر دیا کی دلیل ص ١٠پر پیش کی ہے کہ الله نفس کو پورا کرتا ہے سورہ الزمر – یہ
بھی غلط مطلب ہے توفی کا مطلب پورا قبضہ میں لینا پکڑنا ہے اور اس آیت میں دو
چیزوں کا ذکر ہے ایک موت کا دورسی نیند کا – توفی اس سے رصیحا موت ثابت نہیں
ہوتی
ہامرا روز نیند میں توفی ہو رہا ہے
صفحہ ١٣پر بھی ترجمہ میں اضافہ ہے کہ عیسی کا درجہ بلند کر دیا – یہ قرآن کے
الفاظ نہیں ہیں
مریم علیہ السالم کے بارے میں پمفلیٹ پر اپ کی کیا رائے ہے
http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/maryam_pbuh.pdf
جواب
اس کتابچہ ص ١٢پر لکھا ہے کہ وہ مقام جہاں مریم حمل لے کر گئیں وہ مکہ تھا ؟ اس
کا کوئی ذکر دور دور تک آیات میں نہیں نہ قرآن میں ایسا کوئی ذکر ہے
گرمی کیا رصف سعودی عرب میں ہوتی ہے پڑوسی ملک ارسائیل میں نہیں ہوتی جہاں
یروشلم یا گلیل ہے ؟
افسوس یہ شخص جاہل ہے
ص ٢٨پر عائشہ رضی الله عنہا سے متعلق آیات افک کو مریم کی طرف موڑ دیا ہے
الله کی پناہ
گویا کہ مریم دور نبوی کی کوئی عورت تھیں جن پر چار گواہ طب کیے جا رہے ہیں –
یہ تحریف قرآن ہے
سورہ الرعد کی آیت بھی پیش کر دی ہے کہ گویا عیسی کی نسل بھی چلی ہے
جبکہ آیات میں عموم و خصوص ہوتا ہے
اس کا خصوص ظاہر ہے – کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نسل چلی؟ نہیں چلی
پھر اس میں ہے ازواجا یعنی ایک سے زائد بیویاں کیں جبکہ متام انبیاء کی بہت سی
بیویاں نہیں تھیں مثال زکریا علیہ السالم یا آدم علیہ السالم
ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لئے بیویاں اور نسل کی – اور کسی رسول
کے بس میں نہ تھا کہ کوئی نشانی التا اال یہ کہ الله کا اذن ہوتا -ہر انجام کتاب (میں
لکھ دیا گیا) ہے
جواب
ان کی شادی کا اسالمی کتب میں کوئی ذکر نہیں مال – انجیل کے مطابق یحیی اور
عیسی دونوں کی شادی نہیں ہوئی
پھر اس میں ہے ازواجا یعنی ایک سے زائد بیویاں کیں جبکہ متام انبیاء کی بہت سی
بیویاں نہیں تھیں مثال زکریا علیہ السالم یا آدم علیہ السالم
قرآن کے مطابق
سورۃ البقرۃ
اس َواَ ْم ًناۖ َوات َّ ِخ ُذ ْوا ِم ْن َّمقَامِ اِبْـ َرا ِه ْي َم ُم َص ىل َو َع ِه ْدنَآ اِ ٖٓل اِبْـ َرا ِه ْي َم
َواِ ْذ َج َع ْل َنا ا ْل َب ْيتَ َمثَابَ ًة لِّل َّن ِ
َواِ ْس َـام ِعيْ َل اَ ْن طَ ِّه َرا بَيْتِ َى لِلطَّـآئف ْ َي َوالْ َعاكف ْ َي َوال ُّركَّعِ ُّ
الس ُج ْودِ ِ ِ ِ ِ
)(125
اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا( ،اور فرمایا)
مقام ابراہیم کو مناز کی جگہ بناؤ ،اور ہم نے ابراھیم اور اسامعیل سے عہد لیا کہ میرے
گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے
والوں کے لیے پاک رکھو۔
– ایک بات کو نوٹ کر لیں کہ الله کا گھر ہمیشہ پاک تھا اور قیامت تک رہے گا
سورۃ آل عمران
لیکن ہامرے محدثین نے اس میں بت رکھوا دیے – اور ان بتوں کو حضور صلی الله علیہ
-وسلم کے ہاتھوں تڑوا دیا -یہ بات ہے ہی قرآن کی آیات کے خالف
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث منرب 1913حدیث مرفوع مکررات 8متفق علیہ 5
حمیدی ،سفیان ،ابن ابی نجیح ،مجاہد ،ابومعمر ،حرضت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
تعالی عنہام سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے وقت جب رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ میں آئے تو کعبہ کے پاس تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے
تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی آپ اس لکڑی سے ہر بت کو
ٹھوکا دے کر مذکورہ باال آیت کی تالوت فرما رہے تھے اور یہ آیت بھی پڑھ رہے تھے
کہ ( َجا َء ال َْح ُّق َو َما يُبْ ِدي ُ الْبَ ِاط ُل َو َما يُ ِعيْ ُد ) 34۔ السبأ )49 :یعنی حق آگیا باطل مٹ
گیا اور اب باطل لوٹ کر نہیں آئے گا۔
امید ہے کہ آپ کو سمجھ آ رہا ہو گا کہ یہود اور نصاری نے کیسے روایات لکھوا دیں
بخاری رشیف کی ایک روایت ہے کہ جناب نبی کری ؐم نے جب بیت اللہ کے بت توڑے تو
اسامعیل کے بت بھی تھے۔ بت اس طریقے سے بنائےؐ ا ُن میں حرضت ابراہی ؐم اور حرضت
گئے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں جوئے کے تیر پکڑائے گئے تھے۔ جناب نبی کری ؐم نے یہ
دیکھ کر فرمایا قاتلھم اللّٰە اللہ ان کا بیڑا غرق کرے کہ مرشکین نے ان بزرگوں کے ہاتھوں
میں بھی تیر پکڑا دیے حاالنکہ ان کو پتہ تھا کہ ان بزرگوں نے زندگی میں کبھی الٹری یا
جوا نہیں کھیال۔
جواب
وبَ ،ع ْن ِعكْ ِر َمةَ ،عَنِ – 4288 الص َم ِد ،ق ََالَ :ح َّدثَ ِني أَ ِبَ ،ح َّدثَنَا أَيُّ ُ
َح َّدث َ ِني ِإ ْس َح ُاقَ ،ح َّدثَنَا َع ْب ُد َّ
ول اللَّ ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ل ََّام ق َِد َم َمكَّةَ ،أَ َىب أَ ْن يَ ْدخ َُل
ض اللَّ ُه َع ْن ُه َام :أَ َّن َر ُس َ
ابْنِ َع َّباس َر ِ َ
َ ُ ُ َ
البَيْ َت َو ِفي ِه اْللِ َهةُ ،فَأ َم َر بِ َها فَأ ْخ ِر َجتْ ،فَأ ْخر َِج ُصو َر ُة إِبْ َرا ِهي َم َو ِإ ْس َام ِع َيل ِف أيْ ِديه َِام ِم َن
األَ ْزالَمِ ،فَق ََال النَّب ُِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ” :قَاتَلَ ُه ُم اللَّهُ ،لَ َق ْد َعلِ ُمواَ :ما ْاستَق َْس َام بِ َها قَ ُّط “ ،ثُ َّم
وبَ ،وق ََال:َدخ ََل ال َب ْي َت ،فَك َّ ََرب ِف نَ َوا ِحي ال َب ْي ِتَ ،و َخ َر َج َولَ ْم يُ َص ِّل ِفي ِه تَابَ َع ُه َم ْع َمرَ ،ع ْن أَيُّ َ
وبَ ،ع ْن ِعكْ ِر َمةَ ،عَنِ النَّب ِِّي َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم ُو َهيْبَ ،ح َّدثَنَا أَيُّ ُ
َواِذْ يَ ْرفَ ُع اِبْـ َرا ِهيْ ُم الْ َق َوا ِع َد ِم َن الْبَيْ ِت َواِ ْس َـام ِعيْ ُل َربَّنَا تَ َقبَّ ْل ِمنَّا ۖ اِن ََّك اَنْتَ َّ
الس ِميْ ُع الْ َعلِـيْ ُم
َواِذْ يَ ْرفَ ُع اِبْـ َرا ِه ْي ُم الْ َق َوا ِع َد ِم َن الْ َب ْي ِت َواِ ْس َـام ِع ْي ُل َربَّنَا تَ َق َّب ْل ِمنَّا ۖ اِن ََّك اَنْتَ َّ
الس ِم ْي ُع الْ َعلِـ ْي ُم
)(127
اور جب ابراھیم اور اسامعیل کعبہ کے قوائد بنا رہے تھے ،اے ہامرے رب ہم سے قبول
کر ،بے شک تو ہی سننے واال جاننے واال ہے۔
–
سورۃ املائدۃ
اس َوالشَّ ْه َر الْ َح َرا َم َوالْـ َهد َْى َوالْق َََلئِ َد ۖ ذلِ َك لِ َت ْعلَ ُم ٖٓوا
َج َع َل اللـ ُه ا ْلكَ ْع َب َة ا ْل َب ْيتَ الْ َح َرا َم قِ َيا ًما لِّل َّن ِ
ِ
َشء َعليْـم اال ْر ِض َواَ َّن اللـ َه بِك ُِّل َ ْ
ات َو َما ِىف ْ َ الس َام َو ِ
اَ َّن اللـ َه يَ ْعلَ ُم َما ِىف َّ
)(97
اللہ نے کعبہ کو بنایا جو کہ بزرگی واال گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے
اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے
گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں ،یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ
کو معلوم ہے جو کچھ آسامنوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے واال
ہے۔
الزم ہے کہ تیرے خانہ زاد اور تیرے زر خرید کا ختنہ کیا جائے اور میرا عہد متہارے
جسم میں ابدی عہد ہوگا۔ اور وہ فرزند نرینہ جسکا ختنہ نہ ہوا ہو اپنے لوگوں میں سے
کاٹ ڈاال جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا۔
http://backtotorah.com/?p=455
جواب
آیت کا ترجمہ ہے
َواِذْ يَ ْرفَ ُع اِبْـ َرا ِه ْي ُم الْ َق َوا ِع َد ِم َن الْ َب ْي ِت َواِ ْس َـام ِع ْي ُل َربَّ َنا تَ َق َّب ْل ِم َّنا ۖ اِن ََّك اَنْتَ َّ
الس ِم ْي ُع الْ َعلِـ ْي ُم
اور جب ابراھیم بیت الله کی بنیاد کو بلند کر رہا تھا اور اسمعیل – اے رب ہم سے اس
(عمل) کو قبول کر بے شک تو سننے واال جاننے واال ہے
پھر آیت پیش کی الْ َق َوا ِع َد ِم َن الْبَيْ ِت اس کا ترجمہ کیا کعبہ کے قوائد بنا رہے تھے – یہ
– لفظی تحریف ہے – کیا انبیاء نے رشیعت سازی کی
الْ َق َوا ِع َد ِم َن الْ َب ْي ِت اور الْ َق َوا ِع َد لل َب ْي ِت میں فرق ہے
پھر اس کو َوالْـ َه ْد َى َوالْق َََلئِ َد ۖ سے مال دیا
یعنی الْ َق َوا ِع َد ِم َن الْ َب ْي ِت (کعبہ کی بنیادوں) کو ہدی کے جانور کے ق َََلئِ َد یا پٹے سے مال
دیا ہے
یہ متاشہ اردو بولنے والے کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے کوئی عرب سنے گا تو رس کے بال
نوچے گا
کیا کعبہ ایک چٹان ہے جو الله نے زمین سے نکالی؟
محمد شیخ کہتے ہیں الله نے کعبہ کو خلق کیا اور روز ازل سے آج تک ایسا ہی ہے چٹان
کا بنا ہوا -کعبہ ایک پہاڑ ہے
منٹ ١٣:١٥پر
https://www.youtube.com/watch?v=i7kJ5dF9f_c
جواب
اس َوالشَّ ْه َر الْ َح َرا َم َوالْـ َهد َْى َوالْق َََلئِ َد ۖ ذلِ َك لِ َت ْعلَ ُم ٖٓوا
َج َع َل اللـ ُه الْكَ ْع َب َة الْ َب ْي َت الْ َح َرا َم قِ َيا ًما لِّل َّن ِ
َشء َعلِيْـماال ْر ِض َواَ َّن اللـ َه بِك ُِّل َ ْ
ات َو َما ِىف ْ َ الس َام َو ِ
اَ َّن اللـ َه يَ ْعلَ ُم َما ِىف َّ
)(97
اللہ نے کعبہ کو محَّتم گھر بنایا (مقرر کیا) ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے
اور عزت والے مہینے کو بھی اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور وہ جن کے
گلے میں پٹہ ڈال کر کعبہ کو لے جائیں ،یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ
کو معلوم ہے جو کچھ آسامنوں اور زمین میں ہے اور بے شک اللہ ہر چیز کو جاننے واال
ہے۔
اس آیت میں جعل کا لفظ ہے جس کا مطلب بنایا ہوتا ہے یا مقرر کرنا یعنی اس مقام کو
الله نے بیت الله کے طور پر مقرر کیا ہے
اگر محمد شیخ کی بات مانی جائے تو معلوم ہوا کہ ایک قبلہ اور بنایا تھا جس کو
مسلامن و یہود کہتے ہیں یروشلم میں تھا
یہی اشتباہ یہود کو بھی اپنے قبلے پر تھا کہ الله نے جو مقام قبلے کے طور پر ان کے
لئے مقرر کیا یہود کہتے ہیں کہ ایک چٹان تھا جو الله نے بنایا
لیکن اصل میں کعبہ ہو یا ہیکل سلیامنی کا قدس االقدس ہو دونوں کو الله نے قبلہ کے
طور پر مقرر کیا ہے اور یہ چٹانین نہیں ہیں بلکہ اس کی اینٹیں چٹان کی رضور ہیں -
اس میں فرق ہے چٹان ہونا اور اینٹ چٹان کی ہونے میں بڑا فرق ہے
کعبہ کو ابن زبیر کے دور میں جامدى اْلخرة ٦٤ھ میں گرایا گیا اور دوبارہ بنایا گیا جس
میں حطیم کو اس میں شامل کر دیا گیا اس کے بعد مخالفین نے ابن زبیر کو قتل کرنے
کے لئے کعبہ پر پتھر برسائے کیونکہ ابن زبیر نے اپنے اپ کو اس میں بند کر لیا تھا
کعبہ ٹوٹا اور دوبارہ تعمیر ہوا (تعجيل املنفعة صـ ) 453جس میں حطیم کو واپس نکال
دیا گیا
ذُ ِّريَّ َة َم ْن َحـ َملْنَا َم َع نُـ ْوح ۖ اِنَّ ٝه كَا َن َعبْدًا شَ كُـ ْو ًرا
)(3
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا ،بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔
یہ ذھن میں رکھیں کہ بنی ارسائیل اسی نسل سے ہے جن کو حرضت نوح علیہ سالم نے
-اپنی کشتی میں سوار کیا تھا – جیسا کہ اوپر والی آیت سے ظاہر ہے
بنی ارسئیل رشوع سے چلی آ رہی ہے – حرضت نوح علیہ سالم پھر حرضت موسی علیہ
سالم اور پھر حرضت عیسی علیہ سالم کے زمانے میں بھی اس کا ذکر ہے اور حرضت
عیسی علیہ سالم ان کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی خرب بھی دے رہے ہیں
جواب
یہود بنی ارسائیل میں سے ہیں کیونکہ یہودیت ایک نسلی مذھب ہے جو اوالد اسحاق یا
اسحاق علیہ السالم کی نسل ہے
اپ کی اطالع کے لئے عرض ہے کہ یہود میں مرشف با یہود نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے
مطابق الله نے وعدہ نجات رصف نسل ابراہیم کے لئے کیا ہے اور عربوں کو وہ نسل
ابراہیم نہیں مانتے کیونکہ عرب تو جرہم والے تھے جو ہاجرہ علیہ السالم کے ساتھ مکہ
میں آباد ہوئے جب زمزم وہاں نکال – ہم کہتے ہیں نسل و قبیلہ تو شناخت کے طور پر
ہے – مثال ہم کہتے ہیں موسی ایک نبی ارسائیلی نبی تھے تو اس کا مطلب ہے اوالد
یعقوب میں سے مسلم تھے
نرصانی بنی ارسائیل نہیں ہیں یہ نسلی مذھب نہیں اس میں رومن شامل ہوئے اور یہ آج
دنیا کی سب قوموں میں موجود ہیں
مسلامن تعریفی نام ہے یعنی جو الله کا مطیع ہوا اس میں متام انبیاء شامل ہیں سابقہ
امتوں کے نیک و صالح لوگ بھی اسی میں ہیں اور امت محمد کے موحد اس میں ہیں –
جب امت محمد نے اپنے اپ کو مسلم کہنا رشوع کیا تو پھردور نبوی سے آج تک اس کے
فرقوں کو بھی مسلم ہی کہا جاتا ہے – امت محمد میں مرشک بھی ہیں – عرف عام میں
مسلامن سے مراد وہ ہے جو امت محمد کا ہو اسالم کے پانچ ارکان پر عمل کا دعوی کرتا
ہو
يَاأَيُّ َها الَّ ِذي َن آ َم ُنوا كُونُوا قَ َّوا ِم َي لِلَّ ِه شُ َهدَا َء بِالْ ِق ْس ِط َو َال يَ ْج ِر َم َّنكُ ْم شَ َنآ ُن قَ ْوم َع َل أَالَّ تَ ْع ِدلُوا
ا ْع ِدلُوا ُه َو أَقْ َر ُب لِلتَّ ْق َوى َواتَّقُوا اللَّ َه ِإ َّن اللَّ َه َخبُِي مبِ َا ت َ ْع َملُو َن
اے ایامن والوں الله کے لئے عدل کے گواہ بن کر کھڑے ہو اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم
کی دشنمی تم کو اکسائے کہ عدل نہ کرو عدل کرو یہ تقوی کے قریب ہے اور الله سے
ڈرو بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو
یہود سے دشمنی میں حد یہ ہو گئی کہ اپ کہنے لگ گئے کہ وہ بنی ارسائیل بھی نہیں-
اس طرح حقائق کو مسخ نہ کریں جس طرح اہل کتاب کرتے ہیں
اِنَّـآ اَنْ َزلْ َنا ال َّت ْو َرا َة ِف ْيـ َها ُهدًى َّونُ ْور ۖ يَ ْحكُ ُم بِـ َها ال َّن ِب ُّي ْو َن الَّـ ِذيْ َن ا َْسلَ ُم ْوا لِل َِّـذيْ َن هَا ُد ْوا
اس اب اللـ ِه َوكَانُ ْوا َعلَ ْي ِه شُ َهدَآ َء ۖ فَالَ تَخْشَ ُوا النَّ َ اال ْح َبا ُر مبِ َا ْاستُ ْح ِفظُ ْوا ِم ْن كِتَ ِ
َوال َّربَّانِ ُّي ْو َن َو ْ َ
ٖٓ
اَت َثَ َنًا قَلِ ْي ًال ۖ َو َم ْن لَّ ْم يَ ْحكُ ْم مبِ َآ اَنْ َز َل اللـ ُه فَاُول ِئ َك هُـ ُم الْكَا ِف ُر ْو َن َواخْشَ ْونِ َوالَ تَشْ تَـ ُر ْوا بِايَ ِ ْ
)(44
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے ،اس پر اللہ کے فرمانربدار پیغمرب
یہود کو حکم کرتے تھے اور اہل اللہ اور علامء بھی اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے
محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور اس کی خرب گیری پر مقرر تھے ،سو تم لوگوں سے نہ ڈرو
اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو ،اور جو کوئی اس کے
موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔
اس آیت میں واضح ہے کہ توریت کو انبیاء نے استمعال کیا یہود کو حکم کیا اور ان اہل
کتاب میں سے یہودی اور ربانی اور احبار بھی حکم لیتے تھے
الذين يَتَّ ِب ُعو َن الرسول النبي األمي الذي يَ ِجدُونَ ُه َمكْتُوباً ِعن َد ُه ْم ِف التوراة واْلنجيل
توریت و انجیل میں نبی االمی کا ذکر ہے
یہ توریت کیا ہے اگر یہ آسامنی کتاب نہیں ہے ؟ کیا یہود کی تحریر ہے اگر ہے تو الله
اس کو نافذ کرنے کا حکم کیوں دیتا ہے ؟ اس پر خوش کیوں ہے کہ احبار نے اس کتاب
کو قائم کیا ہے
اور کیا مصدر تھا جس پر سابقہ انبیاء چل رہے تھے مثال زکریا علیہ السالم جس ہیکل
سلیامنی میں متعین تھے اور وہاں اقالم ڈالے گئے وہ سب کیا ہے؟
زمان و مکان کا خیال رکھیں -مدینہ کے یہود پر تنقید کی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں الله
کے ہاتھ بندھے ہیں
ذُ ِّريَّ َة َم ْن َحـ َملْنَا َم َع نُـ ْوح ۖ اِنَّ ٝه كَا َن َعبْدًا شَ كُـ ْو ًرا
)(3
اے ان کی نسل جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا ،بے شک وہ شکر گزار بندہ تھا۔
یہ ذھن میں رکھیں کہ بنی ارسائیل اسی نسل سے ہے جن کو حرضت نوح علیہ سالم نے
-اپنی کشتی میں سوار کیا تھا – جیسا کہ اوپر والی آیت سے ظاہر ہے
بنی ارسائیل اور تم عامل نوح کی نسل سے ہے – اپ یا ہم کس کی نسل ہیں ؟ نوح کی ہی
ہیں عرب بھی نوح کی نسل ہیں یہاں تک کہ ہندو بھی نوح کی نسل سے ہیں
کیونکہ متام دنیا غرق ہوئی رصف کشتی نوح والے بچ گئے
رسآئِيْ َل الْبَ ْح َر فَاَتْبَ َع ُهـ ْم ِف ْر َع ْو ُن َو ُجنُـ ْودُه ٝبَ ْغيًا َّو َع ْد ًوا ۖ َحتــٖٓى اِذَآ اَ ْد َركَ ُه َو َجا َو ْزنَا بِبَ ِن ٖٓى اِ ْ َ
الْ َغ َرقُ قَا َل ا َمنْ ُت اَنَّ ٝه َْل اِلـ َه اِ َّال الَّـ ِذ ٖٓى ا َمنَ ْت بِه بَنُـ ٖٓوا اِ ْ َ
رسآئِيْ َل َواَنَا ِم َن الْ ُم ْسلِ ِم ْ َي
)(90
اور ہم نے بنی ارسائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور
زیادتی سے ان کا پیچھا کیا ،یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایامن الیا کہ کوئی
معبود نہیں مگر جس پر بنی ارسائیل ایامن الئے ہیں اور میں فرمانربداروں میں سے ہوں۔
بنی ارسائیل وہ ہیں جو موسی کے ساتھ نکلے پھر ان میں بارہ قبائل بنا دیے گئے جو پانی
کی تقسیم پر بنے
بنی ارسائیل یا یہود کو یقینا الله نے متام عامل پر فضیلت دی انہوں نے بچھڑے کی پوجا
کی لیکن اللہ نے من و سلوی دیا انہوں نے الله کو دیکھنے کا مطالبہ کیا الله نے ان کو
فرعون سے نجات دی یہ فضیلت نہیں تو اور کیا ہے
باقی اپ سورہ بقرہ پڑھ سکتے ہیں اس میں یہود پر تنقید کی جا رہی ہے اور بنی ارسائیل
کا ذکر کیا جا رہا ہے اگر یہ دونوں گروہ ایک نہیں ہیں
تو غیر متعلق بات ہو گی
بنی ارسائیل عربی کا لفظ ہے اس کا مطلب نسل ہوتا ہے کہ ارسائیل کی نسل اور ارسائیل
قرآن ہو حدیث ہو توریت ہو یا انجیل ہو سب میں اس کا مطلب یعقوب علیہ السالم ہی
لیا جاتا ہے
ارسائیل یعقوب علیہ السالم کا لقب ہے قرآن میں ہے
رسائِ ُيل َع َل نَف ِْس ِه ِم ْن قَ ْبلِ أَ ْن تُنَـ َّز َل التَّ ْو َرا ُة ق ُْل ك ُُّل الطَّعَامِ كَا َن ِحال لِ َب ِني إِ ْ َ
رسائِ َيل ِإال َما َح َّر َم إِ ْ َ
فَأْت ُوا بِال َّت ْو َرا ِة فَاتْلُوهَا ِإ ْن كُ ْن ُت ْم َصا ِدقِ َي
ہر کھانا بنی ارسائیل کے لئے حالل تھا سوائے اس کے جو ارسائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر
حرام کیا توریت کے نزول سے پہلے پس توریت الو اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو
سورہ االحقاف میں ہے کہ عرب جو نسل نوح میں سے تھے ان سے رسول الله نے کہا
ق ُْل ا َ َراَيْتُـ ْم اِ ْن كَا َن ِم ْن ِعنْ ِد اللـ ِه َوكَ َف ْرت ُـ ْم بِه َوشَ ِه َد شَ ا ِهد ِّم ْن بَ ِن ٖٓى اِ ْ َ
رسآئِيْ َل َعل ِمثْلِـه فَـا َم َن
)َ (10و ْاستَكْـبَـ ْرت ُـ ْم ۖ اِ َّن اللـ َه َال يَـ ْه ِدى الْ َق ْو َم الظَّالِ ِم ْ َي
کہہ دو بتاؤ تو سہی اگر یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کے منکر ہو اور بنی
ارسائیل کا ایک گواہ ایک ایسی کتاب پر گواہی دے کر ایامن بھی لے آیا اور تم اکڑے ہی
رہے ،بے شک اللہ ظاملوں کو ہدایت نہیں کرتا۔
اس آیت میں بنی ارسائیل کون ہے ؟
اب لِ َم تَلْب ُِسو َن الْ َح َّق بِالْبَ ِاط ِل َوتَكْتُ ُمو َن الْ َح َّق َوأَنْتُ ْم ت َ ْعلَ ُمو َن
يَا أَه َْل الْ ِكتَ ِ
اے اہل کتاب تم کیوں حق و باطل کی تلبیس کرتے ہو اور حق چھپاتے ہو اور تم جانتے
ہو
وہ کون سے بیٹے تھے جن کو ابراہیم ذبح کرنے والے تھے اور ان کی کتنی بیویاں
تھیں؟
کیا یہود اور نصاری کا یہ عقیدہ ہے کہ حرضت ابراہیم علیہ سالم نے اپنے بیٹے حرضت
اسحاق علیہ سالم کی قربانی دی اور الله نے ایک منڈھا ان کی چھری کے نیچے بھیج دیا
اور انہوں نے اس کی قربانی کر دی
جواب
سوره الصافات میں ترتیب میں پہلے بیٹے کا ذکر ہے جس کی قربانی کا حکم دیا گیا (جو
ظاہر ہے اسمعیل ہیں) اس کے بعد کہا گیا کہ اسحاق کی بھی بشارت دی تاکہ بتایا جائے
کہ قربانی واال واقعہ اسمعیل کے ساتھ ہوا – قرآن اور توریت کی کتاب پیداش کے مطابق
سارہ بانجھ تھیں لیکن اوالد کا ہونا الله کی نشانی تھا اوالد نہ ہونے کی وجہ سے سارہ نے
ہاجرہ سے نکاح کا ابراہیم کو مشورہ دیا تھا ظاہر ہے کہ اگر اسحاق پیدا ہو چکے ہوتے تو
یہ سب کرنے کی رضروت نہ تھی اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیل بڑے اور
اسحاق چھوٹے تھے – اسمعیل اور اسحاق میں بائبل کے مطابق ١٣سال کا فرق تھا قرآن
کی سوره الصفافات میں جس طرح بیان ہوا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اسمعیل کی
قربانی والے واقعہ کے بعد الله نے اسحاق کی بشارت دی
اول سارہ علیہ السالم – ان پر متام ابراہیمی ادیان کا کہنا ہے کہ بیوی تھیں بابل کی تھیں
دوم ہاجرہ علیہ السالم ان پر یہود و نصاری کا کہنا ہے کہ یہ لونڈی تھیں جو شاہ مرص
نے تحفتا دی – یہ شاہ مرص وہی ہے جو کذب ثالثہ والی حدیث میں ظامل بادشاہ تھا اور
بائبل اور حدیث کا بیان ایک ہے – البتہ مسلامنوں کا کہنا ہے کہ ہاجرہ بیوی تھیں
سوم قطورا ان کا ذکر بائبل میں ہے – حدیث میں ان کا ذکر نہیں مال البتہ مسلامن
مورخین نے ان کا ذکر کیا ہے
چہارم حجورا ان کا ذکر مورخین نے کیا ہے
ابن اسحاق اور ابن اثیر اور ابن خلدون کا کہنا ہے کنعان کی تھیں نام دیا ہے
قطورا بنت يقطن،
قطورا پر ایک قول ہے یمنی جرهم سے تھیں
البدء والتاريخ
املؤلف :املطهر بن طاهر املقدِس (املتوىف :نحو 355هـ)
املعارف از ابن قتیبہ میں ہے
وتزوج إبراهيم امرأة من الكنعانيي ،يقال لها :قطورا ،فولدت له أربعة نفر [ . ]1وتزوج
أخرى يقال لها :حجورا ،فولدت له سبعة نفر /18 /.فكان جميع ولد إبراهيم ثالثة عرش
[2] .رجال .وعاش إبراهيم مائة وخمسا وسبعي سنة
قطورا سے – ٤حجورا سے – ٧ایک ہاجرہ سے -ایک سارہ سے
ابن قتیبہ کے مطابق کل مال کر ١٣لڑکے ہوئے –
حرضت موسی علیہ سالم کو جو کتاب دی گئی کیا اس کا نام قرآن میں آیا ہے اور وہ کس
زبان میں تھی – کیا تاریخ میں کچھ ملتا ہے
جواب
موسی کے لئے لوح یا تختی پر لکھا گیا یعنی پتھر کی سل پر یا لکڑی کی تختی پر کیونکہ
یہ لکھا جانا عامل ارضی میں ہوا
الله تعالی اپنے عرش پر تھے موسی کوہ طور پر لیکن الله کے حکم سے الفاظ تحتی پر
ظاہر ہو رہے تھے
لوح عربی کا لفظ ہے انگلش میں اس کو
Tablet
کہتے ہیں
عامل ارضی کی متام چیزیں تغیر کا شکار ہیں
قرآن لوح محفوظ میں ہے یہ عامل باال کی خرب ہے جہاں کسی چیز پر تغیر نہیں اتا اس بنا
پر اس کو خاص کرنے کے لئے محفوظ تختی یا محفوظ سل نہیں کہا جاتا بلکہ لوح کہا
جاتا ہے
موسی کی توریت یا انجیل یا قرآن یا زبور یہ متام الکتاب کا جز ہیں جو لوح محفوظ میں
عامل باال میں ہے اس کو الکتاب بھی کہا جاتا ہے -موسی کی کتاب کا نام التوراة کئی بار
قران میں آیا ہے -یہود کہتے ہیں یہ معدوم رسم الخط میں تھی جس کو
paleo hebrew alphabet
کہا جاتا ہے
سورۃ یونس
سو اگر متہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لے جو
تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ،بے شک تیرے پاس تیرے رب سے حق بات آئی ہے سو
شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو۔
کیا شک کی صورت میں پوچھنے کے لئے یہود اور نصاری سے پوچھنے کا کہا گیا ہے
اور کیا وہ یہود سچی بات کو بتا دیں گے – وہ کیسے سچی بات کو بتا سکتے ہیں
جواب
مرشکین مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ یہ قرانی نصحت اس سے قبل اہل کتاب کی کتابوں
میں بھی بیان ہوئی ہے
https://www.youtube.com/watch?v=lrWTJi-vFT0
پلیز ان لیکچر کا رضور جواب دیں – کیوں کہ ان میں نے بہت عقائد ہم مسلامنوں میں
بھی ہیں
جواب
ان صاحب کے کالم میں بہت اضطراب ہے اور ان کو ان باتوں کی سمجھ نہیں جس پر یہ
وڈیو ہے
اول سوال عقائد پر ہوا لیکن ان صاحب نے کالم معامالت اور احکام و رشیعت پر رشوع کر
دیا
دوم تو اپ کو جان لینا چاہے کہ یہ صاحب یہود کے “عقائد” پر بات کرتے کرتے ایک دم
نرصانی کتاب یا پاول کی کتب کا حوالہ دینے لگ جاتے ہیں
داڑھی بڑھانا -رس کے بال یا رس ڈھکنا یا ختنہ کرنا یہ عقائد نہیں ہیں یہ احکام ہیں جو
اسالم کے بھی احکام ہیں ان کی ترشیح الگ ہو سکتی ہے
دھاگہ باندھنا :یہود آجکل ایسا تعویذ کے طور کرتے ہیں – ان کا حوالہ صحیح ہے
لیکن
ان آیات میں تعویز کا ذکر نہیں ہے
Deut. 6:4 ¶ “Hear, O Israel: dThe LORD our God, the LORD is one.2
Deut. 6:5 You eshall love the LORD your God with all your heart and with
all your soul and with all your might.
Deut. 6:6 And fthese words that I command you today shall be on your
heart.
Deut. 6:7 gYou shall teach them diligently to your children, and shall talk of
them when you sit in your house, and when you walk by the way, and when
you lie down, and when you rise.
Deut. 6:8 hYou shall bind them as a sign on your hand, and they shall be as
frontlets between your eyes.
Deut. 6:9 iYou shall write them on the doorposts of your house and on your
gates.
یہاں بھی- یہود انسان کا قتل فورا کر دیں گے کیونکہ ہے آنکھ کے بدلے آنکھ وغیرہ
خلط مبحث کر دیا ہے – یہ تو قصاص لینے کا توریت کا حکم ہے – یہ الله کا حکم ہے
اس کا خاص ذکر سورہ املائدہ میں ہے کہ یہ الله نے حکم دیا
١ Timothy
ایک نرصانی کتاب ہے
تو یہ ان صاحب کے کالم کا اضطراب ہے – پادری نرصانی میں ہوتا ہے – یہود میں نہیں
ان صاحب نے کہا ابراہیم نے کلہاڑی سے بت توڑے – ایسا یہود کی کس کتاب میں لکھا
ہے – یہود کا انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا
میرے علم کے مطابق ایسا ان کی کتب میں نہیں لکھا – یہ قرآن میں ہے
زنا کی سزا رجم ہے اس کا حکم رسول الله نے دیا تو یہ من جانب الله ہے
Deutronomy
جنگ کرو – لوگوں کو غالم بنا لو – مال غمیمت حاصل کرو
Gen. 50:1 ¶ Then Joseph fell on his father’s face and wept over him and
kissed him.
Gen. 50:2 And Joseph commanded his servants the physicians to wembalm
his father. So the physicians embalmed Israel.
Gen. 50:3 Forty days were required for it, for that is how many are required
for embalming. And the Egyptians wept for him seventy days.
یوسف علیہ السالم نے مرص میں اپنے خادم مرصیوں کو حکم دیا کہ یعقوب کو حنوط
کر دیں اس میں ٤٠دن لگ گئے اور سَّت دن تک روتے رہے
راقم کہتا ہے یہ تو انبیاء کا قول رہا ہے کہ جنگ و جہاد کرو اس میں اشکال کیا ہے
باپ بیٹے کا دشمن ہو بیوی شوہر سے الگ ہو تو یہ کام مکی دور میں ہوا جب لوگوں نے
اسالم قبول کیا
Luke 14:26 “If anyone comes to me and does not hate his own father and
mother and wife and children and brothers and sisters, yes, and even his
own life, he cannot be my disciple.
Luke 19:27 But as for these enemies of mine, who did not want me to reign
”’over them, bring them here and slaughter them before me.
بنی ارسائیل
اور ہم نے موسی کو کتاب دی اور اسے بنی ارسائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا
کسی کو کارساز نہ بناؤ۔
اس آیت پر ان صاحب کا فہم ہے کہ متام انسان بنی ارسائیل ہیں ! یہ نہایت عجیب فہم
ہے – موسی کو کتاب دی اس کا ذکر توریت کے طور پر قرآن میں موجود ہے
َوكَ ْي َف يُ َحكِّ ُمون ََك َو ِع ْن َد ُه ُم ال َّت ْو َرا ُة ِفي َها ُحكْ ُم اللَّ ِه ث ُ َّم يَ َت َولَّ ْو َن ِم ْن بَ ْع ِد ذَلِ َك َو َما أُولَ ِئ َك
بِالْ ُم ْؤ ِم ِن َي (ِ )43إنَّا أَنْ َزلْنَا التَّ ْو َرا َة ِفي َها ُهدًى َونُور يَ ْحكُ ُم بِ َها النَّ ِبيُّو َن الَّ ِذي َن أَ ْسلَ ُموا لِل َِّذي َن هَادُوا
اب اللَّ ِه َوكَانُوا َعلَيْ ِه شُ َهدَا َء ف ََال تَخْشَ ُوا النَّ َ
اس َوال َّربَّانِيُّو َن َواألْ َ ْحبَا ُر مبِ َا ْاستُ ْح ِفظُوا ِم ْن كِتَ ِ
َواخْشَ ْونِ َوالَ ت َشْ َ َُّتوا بِ َآيَ ِاِت َثَ َنًا قَلِ ًيال َو َم ْن لَ ْم يَ ْحكُ ْم مبِ َا أَنْ َز َل اللَّ ُه فَأُولَ ِئ َك ُه ُم الْكَا ِف ُرو َن ()44
َوكَتَبْنَا َعلَيْ ِه ْم ِفي َها أَ َّن النَّف َْس بِالنَّف ِْس َوالْ َع ْ َي بِالْ َع ْ ِي َو ْاألَن َْف ب ِْاألَن ِْف َو ْاألُذُ َن ب ِْاألُذُنِ َو ِّ
الس َّن
وح قِ َصاص فَ َم ْن ت ََصد ََّق بِ ِه فَ ُه َو كَفَّا َرة لَ ُه َو َم ْن لَ ْم يَ ْحكُ ْم مبِ َا أَنْ َز َل اللَّ ُه فَأُولَ ِئ َك ُه ُم ِالس ِّن َوالْ ُج ُر َ
ب ِّ
الظَّالِ ُمو َن (( ﴾)45سورة املائدة)
اور وہ تجھے کس طرح منصف بنائیں گے حاالنکہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا
حکم ہے پھر اس کے بعد ہٹ جاتے ہیں ،اور یہ مومن نہیں ہیں۔
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے ،اس پر اللہ کے فرمانربدار پیغمرب
یہود کو حکم کرتے تھے اور اہل اللہ اور علامء بھی اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے
محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور اس کی خرب گیری پر مقرر تھے ،سو تم لوگوں سے نہ ڈرو
اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو ،اور جو کوئی اس کے
موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔
اس پر موصوف کا کہنا ہے کہ نوح کی متام نسل بنی ارسائیلی ہے جبکہ یہاں ہے کہ بنی
ارسائیل اسی نسل میں سے ہیں جو نوح کی ہے
راقم کہتا ہے عرب بھی نوح کی نسل میں سے ہیں
لیکن یہ موصوف اس کو الٹا سیدھا کر کے متام انسانیت کو نوح کی نسل کہنے کی
بجائے متام کو بنی ارسائیلی قرار دے رہے ہیں جو غلط فہمی ہے
سورہ جاثیہ
ات َوفَضَّ لْنَا ُه ْم َع َل رسائِ َيل الْ ِكتَ َ
اب َوالْ ُحكْ َم َوالنُّبُ َّو َة َو َر َزقْنَاهُم ِّم َن الطَّيِّبَ ِ َولَ َق ْد آتَيْنَا بَ ِني إِ ْ َ
الْ َعالَ ِم َي
اور ہم نے بنی ارسائیل کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی اور انہیں پاک رزق عطا کیا
اور انہیں متام دنیا جہان سے فضیلت دی
اس پر موصوف کا کہنا ہے یہ مملکت ارسائیل والوں سے متعلق نہیں ہے – یعنی یہ یہود
کے لئے نہیں ہے -موصوف سمجتھے ہیں کہ اگر ان آیات سے مراد یہود لے لئے جائیں تو
یہود افضل ہو جاتے ہیں – یہ بھی کج فہمی ہے
راقم کہتا ہے الله نے بنی ارسائیلی انبیاء کو یعنی نسل یعقوب میں انے والے انبیاء کو
کتاب دی یعنی زبور انجیل توریت دی عربوں میں تو رصف ایک کتاب قرآن نازل ہوئی ہے
– پھر ان کے بنی ارسائیلی انبیاء کو حکومت دی یعنی سلیامن و داود اور موسی کو اور
ان کو ارض مقدس دیا جہاں برکت تھی تو یہ احسان نسل یعقوب پر الله نے کیا اس پر
– ہامرا ایامن ہے – لیکن جو رشی ہیں ان کا اس میں ذکر نہیں ہے
سادہ سوال ہے کہ ارسائیل کون شخص ہے جس کی نسل کی بات ہو رہی ہے موصوف کے
نزدیک یہ نوح کی نسل میں کسی مجہول کا لقب ہے جو شاذ و منکر قول ہے
َوقَالُوا كُونُوا هُودًا أَ ْو ن ََصا َرى ت َ ْهتَدُوا ۖ ق ُْل بَ ْل ِملَّ َة إِبْ َرا ِهي َم َح ِنيفًا ۖ َو َما كَا َن ِم َن الْ ُم ْ ِ
رشكِ َي
الله نے کہا یہودی یا نرصانی نہیں بلکہ ملت ابراہیم کو لو – کیونکہ دور نبوی میں بنی
ارسائیل کے دس قبیلے اپنی انفرادیت کھو چکے تھے سب اپنے اپ کو یہودا
Judah
کہواتے تھے اسی سے عربی میں ان کا نام یہود نکال
اصل میں یہ قبائلی عصبیت کا قول تھا کہ ہم قبیلہ یہود سے ہیں دینی نام نہیں تھا
تو الله نے کہا قبائلی نام تم سب نے اپنا لیا ہے اپنے اپ کو ملت ابراہیم کہو نہ کہ سب
ایک قبیلہ بن جاو
جواب
روایات کے مطابق اس میں اونٹ کا ذکر ہے جو یہود کے بقول حرام ہے اور رسول الله نے
اس کو کھایا ہے لہذا یہود نے اعَّتاض کیا کہ یہ حرام کھانا ہے – الله تعالی نے بتایا کہ
یعقوب کا یہ عمل توریت سے قبل تھا اب توریت الو اس کو پڑھو کہ یہ حرمت کا حکم
کہاں ہے
یعنی یہ توریت میں نہیں لکھا ہے
قرآن نے اس طرح اثبات کر دیا کہ ارسائیل کوئی غلط نام نہیں ہے بلکہ یعقوب کا نام ہے
اس حوالے سے جو یہودی جاہلوں نے گھڑا اس سے ہم کو کوئی رسوکار نہیں ہے
کہ ہم یہ کہنے لگ جائیں کہ یہود بنی ارسائیل یا ارسائیل کے بیٹے نہیں ہیں ہم ارسائیل
کے بیٹے ہیں جیسا محمد شیخ کہہ رہے ہیں گویا ہم سب یعقوب کی نسل ہیں
قرآن میں ہے
یونس
رسآئِ ْي َل الْ َب ْح َر فَاَتْ َب َع ُهـ ْم ِف ْر َع ْو ُن َو ُج ُنـ ْودُه ٝبَ ْغ ًيا َّو َع ْد ًوا ۖ َحتــٖٓى اِذَآ اَ ْد َركَ ُه
َو َجا َو ْزنَا بِ َب ِن ٖٓى اِ ْ َ
ِ ِ ِ ِ
رسآئيْ َل َواَنَا م َن الْ ُم ْسلم ْ َي ِ ِ ِ ِ
الْ َغ َرقُ ق ََال ا َمنْتُ اَنَّ ٝه َْل الـ َه االَّ الَّـذ ٖٓى ا َمنَ ْت بِه بَنُـ ٖٓوا ا ْ َ
)(90
اور ہم نے بنی ارسائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور
زیادتی سے ان کا پیچھا کیا ،یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایامن الیا کہ کوئی
معبود نہیں مگر جس پر بنی ارسائیل ایامن الئے ہیں اور میں فرمانربداروں میں سے ہوں۔
اس سے ظاہر ہے کہ نبی ارسائیل وہ ہیں جو مرص میں آباد تھے ان کو بچا لیا گیا اور ال
فرعون غرق ہوئے
اگر یہ کہا جائے کہ بنی ارسائیل نوح کی نسل تھے تو یہ قول ال فرعون پر بھی صادق اتا
ہے کیونکہ متام عامل نوح کی نسل میں سے ہے
چاہے ہندو ہو یا بدھ مت کا ہو یا مرشک ہو
کیا شیطان جن تھا یا فرشتہ – یہاں قرآن کی کچھ آیات کا حوالہ دیا ہے محمد شیخ
صاحب نے
https://www.youtube.com/watch?v=PTeFF-h_UEs
١.
سورۃ البقرۃ
َواِذْ قُلْنَا لِلْ َم ََلئِكَـ ِة ْاس ُج ُد ْوا ِال َد َم ف ََس َج ُد ٖٓوا اِ َّْل اِبْلِيْ َس ا َىب َو ْاستَكْبَـ َر َوكَا َن ِم َن الْكَا ِفـ ِريْ َن
اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس
کہ اس نے انکار کیا اورتکرب کیا اورکافروں میں سے ہو گیا۔
٢.
سورۃ الکھف
َواِذْ قُلْنَا لِلْ َم ََلئِكَـ ِة ْاس ُج ُد ْوا ِال َد َم ف ََس َج ُد ٖٓوا اِ َّْل اِبْلِيْ َس كَا َن ِم َن الْ ِج ِّن فَف ََس َق َع ْن اَ ْم ِر َربِّه ۖ
اَفَتَتَّ ِخ ُذ ْونَ ٝه َوذُ ِّريَّتَ ٖٓٝه ا َ ْولِيَـآ َء ِم ْن ُد ْو ِ ْىن َوهُـ ْم لَكُ ْم َعدُو ۖ بِئْ َس لِلظَّالِ ِم ْ َي بَد ًَال
جواب
اس سے معلوم ہوا کہ ابلیس جن ہی تھا اور کافر جن تھا -جن مومن بھی ہو سکتا ہے جن
کا ذکر سورہ جن میں ہے
ابلیس کو کافر کہا گیا
ابلیس کو تخلیق کا علم الله کی طرف سے ہوا جس طرح ہم کو علم ہے کہ ہم کو مٹی
سے خلق کیا گیا
یعنی مخلوق جن کو ہم سے پہلے یہ علم دیا گیا کہ ان کو الله کی عبادت کرنی ہے وہ
اگ سے پیدا کیے گئے ہیں
اگر ہم کہیں کہ ابلیس فرشتہ تھا تو وہ تو کہتا ہے کہ وہ اگ سے پیدا ہوا گویا فرشتے اگ
سے پیدا ہوئے
اور پھر متام فرشتے جن بن جائیں گے کیونکہ قرآن ہی میں ہے جن اگ سے پیدا ہوئے
– یہ مغالطہ در مغالطہ ہے
لہذا جو معلوم ہے وہ صحیح ہے کہ جنات اگ سے پیدا کیے گئے اور ابلیس جن تھا
فرشتہ نہ تھا
میرا خیال ہے کہ الله تعالی نے ایک تو خرب دی کہ وہ مخلوق میں سے جنوں میں سے
تھا اور اس کا انکار کرنا اس کو معلوم تھا لہذا الله نے اس کو آزمائش میں ڈاال لیکن الله
علیم و خبیر کو علم تھا کہ نتیجہ کیا نکلے گا لہذا ابلیس کی قلبی کیفیت کا ذکر کیا کہ
وہ کافروں میں سے تھا
اب اشکال یہ جنم لیتا ہے کہ اگر وہ کافروں میں سے تھا تو وہ جنت میں کیا کر رہا تھا؟
اسی اشکال سے بچنے کے لئے لوگوں نے ترجمہ میں تبدیلی کی جس سے یہ مسئلہ پیدا
ہوا ہے – اس کا جواب یہ ہے کہ ابلیس خود پسندی کا شکار ہو چکا تھا اور جنت تک
رسائی پانے کی وجہ سے غرور میں مبتال ہوا – اس سے قبل متقی تھا لیکن عزت ملنے پر
اس میں تکرب آیا اور عنارص اربعہ میں سے اگ کو مٹی پر فوقیت دینے لگا کہ یہ میرا
عنرص تخلیق ہے میں سب سے افضل ہوں – الله کے علم میں تھا کہ ابلیس کے قلب میں
کیا آ رہا ہے لیکن اس کو اس کے حال پر رہنے دیا اور آدم کی تخلیق کا اعالن کیا کہ
جیسے ہی اس میں روح آئے سات آسامن میں سب اس کے آگے سجدے میں جھک
جائیں
و الله اعلم
کان من سادی عربی ہے کہ وہ تھا – قرآن عربی میں ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں
کہ یہ صغیہ ماضی ہے
غلط ترجمہ کرنے والوں نے اس ترجمہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے رشح کی ہے
مثال تفسیر قرطبی ص ٣١١میں ہے
تفسیر_قرطبی_ترجمہ_الجامع_ألحكام_القرآن_املعروف_بتفسُي_القرطبي_تأليف_أبو_عبد_الله_محمد_بن_أحمد_بن_أبو_بكر_بن_فرح_القرطبيhttps://www.mediafire.com/folder/m2y2373314zsi/
.pdfسب+سے+پہلے+کون+ترجمہ+األوائل+البن+أب+عاصم+والطرباّن+والسيطي+مَّتجم+محمد+عظیم+حاصلپوریhttp://www.mediafire.com/file/g5mstz528hu15h4/
کہ اس آیت میں لفظ کان کو لفظ صار لیا جائے کہ وہ ہو گیا جیسا کہ سورہ ہود میں ولد
نوح کے لئے ہے
فکان من املغرقین
ابن فورک نے کہا یہ قول غلط ہے – پھر قرطبی نے نقل کیا کہ اکث تاویل کرنے والوں کا
قول ہے کہ الله کے علم میں تھا یہ کفر کرے گا
اس رائے کو قرطبی نے پسند کیا
لیکن اردو مَّتجم نے اس تفسیر کا ترجمہ کرتے وقت الفاظ قرآن کا ترجمہ ص ٣٠٥واپس
وہی کر دیا ہے کہ وہ کافروں میں سے ہو گیا
ابلیس کو اپ فرشتہ مانیں یا جن دونوں صورتوں میں وہ ایک ذہنی کشمکش میں رہا ہے
پہلے مومن تھا اسی لئے جنت میں تھا لیکن جب سجدہ کا وقت آیا اس وقت تک کافر ہو
چکا تھا
فكان من املغرقي
سورة الهود ٤٣
DR. GHALI
so he was (among) the drowned.
–—
DR. MUSTAFA KHATTAB, THE CLEAR QURAN
and his son was among the drowned.
–—
YUSUF ALI
and the son was among those overwhelmed in the Flood.
–———
SHAKIR
so he was of the drowned.
———
PICKTHALL
so he was among the drowned.
———-
MUHSIN KHAN
so he (the son) was among the drowned.
فرشتوں کو حکم کیا گیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوال ہے کہ ابلیس کو کیوں طنز و
تشنیع کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ حکم تو اس جنس کے لئے نہیں تھا -اس اشکال کی بنیاد
کر بعض کا کہنا ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا اور پھر نکتہ سنجی کی کہ اگ کی قسمیں ہیں -
جنات کی اگ الگ تھی اور ابلیس کی اگ الگ
اس طرح اگر ہم تقسیم کریں تو ہم قرآن سے ہی کئی قسم کے انسان پیدا کر دیں گے وہ
جن کو مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو سنسناتی مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو گیلی
مٹی سے پیدا کیا گیا وہ جن کو سڑی ہوئی مٹی سے پیدا کیا گیا اور ہے بار ان سب کو
فرستوں سے سجدہ کرایا گیا -ظاہر ہے یہ قول غلط ہے تو اسی طرح جنات کی تقسیم
بھی نہیں کی جا سکتی
یہ قول کہ ابلیس فرشتہ تھا یہ قول یہود کا ہے جو فالن انجیل
Fallen Angels
کا تصور رکھتے ہیں
اب جب ابلیس کافر ہو گیا تو اس کے بعد اس کا آنا جانا جنت میں کسیے ہو گیا – اور وہ
حرضت آدم علیہ سالم اور اماں حوا علیہ سالم کو ورغال گیا – ایک کافر کیسے جنت کے
مزے لیتا رہا
اپ نے پہلے کہا تھا کہ کہ ابلیس فرشتہ تھا کافروں میں سے ہو گیا – اس موقف پر بھی
یہی سوال آئے گا یعنی دونوں صورتوں میں یہ بات پیدا ہو گی کہ ابلیس اگر کافر ہو گیا
تو جنت میں کیسے اتا رہا؟ جواب :اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں کہ کیسے اتا رہا –
ہم قرائن کی بنیاد پر کہیں گے کہ الله نے اس کو چھوٹ کا وعدہ دے دیا تھا کہ وہ آدم
و بنی آدم کو بہکا سکتا ہے لہذا اس وعدہ الہی کی عملی شکل کے طور پر جنت تک اس
کی رسائی پر قدغن نہیں لگائی گئی
و اللہ اعلم
وہ گروہ جو بنی ارسائیل سے ہی ہے جو ایامن الیا اور غالب رہا وہ کہاں گیا؟
سورۃ الصف
رسآئِ ْي َل اِ ِّ ْىن َر ُس ْو ُل اللـ ِه اِلَ ْيكُ ْم ُّم َص ِّدقًا ل َِّام بَ ْ َي يَد ََّى ِم َن
َواِذْ ق ََال ِع ْي ََس ابْ ُن َم ْريَـ َم يَا بَ ِن ٖٓى اِ ْ َ
ات قَالُ ْوا هذَا ِس ْحر رشا بِ َر ُس ْول يَّا ِ َْْت ِم ْن بَ ْع ِدى ْاس ُم ٖٓٝه اَ ْحـ َم ُد ۖ فَل ََّام َجآ َءهُـ ْم بِالْ َب ِّينَ ِ التَّ ْو َرا ِة َو ُم َب ِّ ً
ُّمب ِْي
)(6
اور جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی ارسائیل! بے شک میں اللہ کا متہاری طرف رسول
ہوں (اور) تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے واال ہوں اور ایک رسول کی
خوشخربی دینے واال ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا ،پس جب وہ واضح
دلیلیں لے کر ان کے پاس آگیا تو کہنے لگے یہ تو رصیح جادو ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بنی ارسائیل رصف یہود اور نصاری ہی ہیں تو یہ گروہ جو
بنی ارسائیل سے ہی ہے جو ایامن الیا اور غالب رہا وہ کہاں گیا – الله نے ان کو تم
جہانوں پر فضیلت دی
جواب
سورہ بقرہ میں مخاطب بنی ارسائیلی یہود ہیں نہ کہ نرصانی کیونکہ دور نبوی میں
نرصانی کسی نسل کے لوگ نہیں تھے ان میں رومی شامل تھے افریقی بھی تھے چینی
میں بھی تھے اور عربوں میں بھی نرصانی تھے لہذا فضیلت بنی ارسائیل سے مراد نرصانی
نہیں یہود ہیں
الله نے بنی ارسائیل کو فضیلت دی تو وہیں ذکر ہے کہ ان کو فرعون سے نجات دی -یہ
ہے ان کی فضیلت -ان کو من و سلوی دیا جبکہ دیگر امتوں کو یہ نہیں مال – اس وقت
بنی ارسائیل میں کافر مرشک گوسالہ پرست مومن سبھی تھے – مرص سے یہ سب نکلے
تھے موسی نے فرعون سے کہا
کہ بنی ارسائیل کو جانے دے جبکہ موسی پر مرص میں چند لوگ ایامن الئے تھے
سوره يونس مي ہے
وىس ِإ َّال ذُ ِّريَّة ِّمن قَ ْومه َع َل َخ ْوف ِّمن ف ْر َع ْو َن َو َملَئ ِه ْم أن يَ ْفتنَ ُه ْم ۖ
ِ َ ِ ِ ِ ِ ف ََام آ َم َن لِ ُم َ
پس موسی ( علیہ السالم ) پر ان کی قوم میں سے رصف قدرے قلیل آدمی ایامن الئے وہ
بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے
یہان بنی ارسائیل میں متام قوم مراد ہے رصف ایامن والے چند لوگ مراد نہیں ہیں
تو ان لوگوں پر الله نے احسان کیا ان کو عذاب سے نجات دی من و سلوی دیا جبکہ یہ
ملے جلے لوگ مومن و مرشک سب تھے
پھرباوجود ان میں متام مسلم نہ تھے الله نے ارض مقدس ان کے لئے لکھ دی وہاں ان پر
رسکشی کی وجہ سے عذاب بھی آیا ان کو غالم بنایا گیا اور ان سب کو یہود کا نام مال
کیونکہ جو قبیلہ باقی رہا اس کا نام ان کو مال باقی گیارہ قبائل منترش ہو گئے – اس وجہ
سے آج یہود بھی اپنے اپ کو اسی قبیلہ سے روشناس کراتے ہیں
اسی حال میں ان میں عیسی علیہ السالم کی بعثت ہوئی اور یہود دو گروہوں میں بٹ
گئے ایک عیسی کو حق پر ماننے واال دورسا ان کو فراڈ قرار دینے واال – اس میں جو
عیسی کو حق مانتا تھا وہ باقی رہا ان کے مخالف ان کو قتل نہ کر سکے اور عیسی بھی
بچ گئے اس کا ذکر سورہ صف میں ہے کہ حواریوں کو ظامل یہودی قتل نہ کر سکے بلکہ
یہود پر رومیوں کا عذاب آیا ان کا قتل ہوا اور رومیوں نے نرصانی مذھب قبول کر لیا
قرآن میں ہے کہ عیسی کی وجہ سے بنی ارسائیل کا اک گروہ ایامن الیا اور ایک نے کفر
کیا – یہ رصف بنی ارسائیل میں تفریق کا ذکر ہے پھر وہ جو مومن بنی ارسائیل کا گروہ
تھا اس کو متام عامل پر فضیلت نہیں دی اس کو اس کافر دشمن یہودی و بنی ارسائیلی
گروہ پر مدد دی گئی
فَاَيَّ ْدنَا الَّـ ِذيْ َن ا َم ُنـ ْوا َعل َع ُد ِّو ِهـ ْم فَا َْص َب ُح ْوا ظَا ِه ِريْ َن
آج یہود سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسی اور محمد علیہام السالم کی نبوت کے انکاری
ہیں اور قرآن میں بھی ان کو یہود ہی کہا گیا ہے
وہ گروہ بنی ارسائیل جو عیسی کا ماننے واال تھا وہ وقت کے ساتھ معدوم ہو گیا اور ان
میں الوہیت عیسی کا عقیدہ پیدا ہوا اس کا ذکر بھی قرآن سورہ مریم میں ہے
ات ۖ ف ََس ْو َف يَلْ َق ْو َن َغ ىيا فَ َخل ََف ِمن بَ ْع ِد ِه ْم َخلْف أَضَ ا ُعوا َّ
الص َال َة َواتَّ َب ُعوا الشَّ َه َو ِ
جواب
عام آدمی یا آدم علیہ السالم کے لئے جب روح کا لفظ اتا ہے تو اس سے مراد انسانی روح
ہے
اس آیت میں اس کا ذکر ہے
سورۃ ص
فَ ِاذَا َس َّويْتُ ٝه َونَ َفخْتُ ِفيْ ِه ِم ْن ُّر ْو ِح ْى فَ َق ُع ْوا لَـ ٝه َساج ِِديْ َن
)(72
پھرجب میں اسے پورے طور پر بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے
لیے سجدہ میں گر پڑنا۔
سورۃ النحل
يُنَ ِّز ُل الْ َم ََلئِكَـ َة بِال ُّر ْوحِ ِم ْن ا َ ْمرِه َعل َم ْن يَّشَ آ ُء ِم ْن ِع َبا ِدهٖٓ ا َ ْن اَنْ ِذ ُر ٖٓوا اَنَّ ٝه َْل اِلـ َه اِ َّْل اَنَا فَاتَّ ُق ْونِ
)(2
وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو روح (یا امر) دے کر بھیج دیتا ہے
یہ کہ خربدار کردو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے الئق نہیں پس مجھ سے ڈرتے رہو۔
سورۃ غافر
ات ذُو الْ َع ْر ِشۖ يُلْ ِقى ال ُّر ْو َح ِم ْن اَ ْمرِه َعل َم ْن يَّشَ آ ُء ِم ْن ِعبَا ِده لِيُنْ ِذ َر يَ ْو َم
َر ِفـيْ ُع الـ َّد َر َج ِ
التَّ َالقِ
)(15
وہ اونچے درجوں واال عرش کا مالک ہے ،اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح اپنے
حکم سے ڈالتا ہے تاکہ وہ مالقات (قیامت) کے دن سے ڈرائے۔
سورة الشورى
ِ ِ
اب َو َال ْاْلميَا ُن َولَـكن َج َعلْنَا ُه نُو ًرا ِ َوكَ َذلِ َك أَ ْو َحيْنَا إلَيْ َك ُرو ًحا ِّم ْن أ ْم ِرنَا ۖ َما ك َ
ُنت ت َ ْدرِي َما الْكتَ ُ َ ِ
نَّ ْه ِدي بِ ِه َمن نَّشَ ا ُء ِم ْن ِع َبا ِدنَا ۖ َو ِإن ََّك لَ َت ْه ِدي إِ َل ِ َ
رصاط ُّم ْس َت ِقيم
﴿﴾٥٢
ہم نے اپنے حکم سے ایک روح متہاری طرف وحی کی ہے – متہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ
کتاب کیا ہوتی ہے اور ایامن کیا ہوتا ہے ،مگر اُس روح (الله کی الوحی ) کو ہم نے ایک
روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں یقیناً
تم سیدھے راستے کی طرف رہنامئی کر رہے ہو
سورۃ النحل
يُنَ ِّز ُل الْ َم ََلئِكَـ َة بِال ُّر ْوحِ ِم ْن ا َ ْمرِه َعل َم ْن يَّشَ آ ُء ِم ْن ِع َبا ِدهٖٓ اَ ْن اَنْ ِذ ُر ٖٓوا اَنَّ ٝه َْل اِلـ َه اِ َّْل اَنَا فَاتَّ ُق ْونِ
)(2
وہ اپنے بندوں سے جس کے پاس چاہتا ہے فرشتوں کو روح (وحی) دے کر بھیج دیتا ہے
یہ کہ خربدار کردو کہ میرے سوا کوئی عبادت کے الئق نہیں پس مجھ سے ڈرتے رہو۔
ان سب میں روح کو امر یا حکم یا الوحی کے مَّتادف بیان کیا گیا ہے
اپ نے جو ترجمے دیے ہیں ان میں نے تصحیح کی ہے کیونکہ لوگوں نے روح کے لفظ
کو ترجمہ سے نکال دیا تھا
قرآن میں ایک اور مفہوم میں بھی روح کا لفظ ہے – یہ الروح اس سے الگ ہے جس کا
ذکر الوحی کے حوالے سے قرآن میں ہے – متام عامل فرشتوں سے بھرا ہے – ہامرے ساتھ
کراما کاتبین ہیں اور جتنے انسان ہیں اتنے ہی فرشتے یا اس زائد اس عامل ارضی میں ہوئے
یہ سب الله کے حکم پر عمل کر رہے ہیں اور آسامن پر چڑھتے اترتے ہیں لیکن ان میں
سب سے زیادہ جس فرشتے کو اہمیت ہے وہ جربیل ہیں جو الوحی پر مقرر تھے یا کوئی
ایسا خاص حکم ہو غیر نبی کو کیا جائے -اس لئے ان کو خاص کر نے کے لئے روح القدس
– کہا جاتا ہے
یہودی روح القدس سے مراد بھی الوحی کا آنا لیتے ہیں اور اس کو ناموس بھی کہا جاتا
ہے
ناموس
Nomos
– یونانی لفظ ہے جو نیک روح کا ترجمہ ہے
اور عربی لغت مختار الصحاح کے مطابق عرب اہل کتاب اس کو روح القدس کے لئے
بولتے ہیں اس سے مراد جربیل ہیں
یہ لفظ ورقه بن نوفل نے رسول الله سے بوال تھا کہ تم پر ناموس آیا ہے
اور ٨٩بار یہ ناموس کا لفظ عہد نامہ جدید میں پاول کے خطوط میں آیا ہے
اب قرآن کو دیکھتے ہیں اس میں بھی یہی مفہوم ہے کہ روح القدس فرشتہ ہے جو
الوحی التا ہے اور قرآن کہتا ہے یہ جربیل ہیں
یعنی جربیل جب الوحی یا حکم لے کر جائیں تو اس وقت وہ روح القدس کہالتے ہیں
سورۃ النحل
ق ُْل نَ َّزلَـ ٝه ُر ْو ُح الْ ُقد ُِس ِم ْن َّربِّ َك بِالْ َح ِّق لِيُـثَبِّ َت ال َِّـذيْ َن ا َمنُـ ْوا َو ُهدًى َوبُشْ ـرى لِلْ ُم ْسلِ ِم ْ َي
)(102
اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل
کیا ہے تاکہ ایامن النے والوں کے ایامن کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے
معامالت میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فالح و سعادت کی خوش خربی دے
اب َوقَ َّف ْينَا ِم ْن بَ ْع ِده بِال ُّر ُس ِل ۖ َواتَ ْينَا ِع ْي ََس ابْ َن َم ْريَـ َم الْ َب ِّينَ ِ
ات َواَيَّ ْدنَا ُه َولَ َق ْد ات َ ْينَا ُم ْو َىس الْ ِكتَ َ
بِـ ُر ْو ِح الْ ُقد ُِس اَفَكُل ََّام َجآ َءكُ ْم َر ُس ْول مبِ َا َال تَ ْه ٖٓوى اَنْف ُُسكُ ُم ْاس َتكْ َبـ ْرتُـ ْم فَ َف ِريْقًا كَ َّذبْ ُتـ ْم َوفَ ِريْقًا
ت َ ْقتُلُ ْو َن
)(87
اور بے شک ہم نے موسی کو کتاب دی اور اس کے بعد بھی پے در پے رسول بھیجتے
رہے ،اور ہم نے عیسی مریم کے بیٹے کو نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید
کی ،کیا جب متہارے پاس کوئی رسول وہ حکم الیا جسے متہارے دل نہیں چاہتے تھے تو
تم اکڑ بیٹھے ،پھر ایک جامعت کو تم نے جھٹالیا اور ایک جامعت کو قتل کیا۔
لیلہ القدر میں بھی جربیل کا حکم کے ساتھ نزول ہوتا ہے
سورۃ القدر
ِ ِ
تَنَ َّز ُل الْ َم ََلئِكَـ ُة َوال ُّر ْو ُح فيْـ َها بِاذْنِ َربِّـهِـ ْم ِّم ْن ك ُِّل ا َ ْمر
)(4
اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔
سورۃ مریم
فَات َّ َخذَتْ ِم ْن ُد ْونِـهِـ ْم ح َجابًاۖ فَاَ ْر َسلْنَـآ الَيْـ َها ُر ْو َحنَا فَتَ َمث ََّل لَـ َها بَشَ ـ ًرا َس ِويىا
ِ ِ
)(17
اور لوگوں کی طرف پردہ ڈال دیا تو ہم نے اپنی روح کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک
آدمی بن کر پیش ہوا
یہاں روح الله کا کالم نہیں ہے ورنہ یہ نرصانی عقیدہ ہو جائے گا کہ الله کا کالم عیسی
کی صورت بن گیا لہذا روح سے مراد فرشتہ ہے نہ کہ امر – اسی روح کے مسئلہ کو نہ
سمجھ پانے کی وجہ سے نرصانی عقیدہ ہے کہ الله کا کالم (لوگوس) غیر مخلوق ہے وہ
امر تھا جو روح القدس تھا مجسم ہوا اور روح بن کر مریم کے بطن میں اتر گیا اس بنا پر
ان کا کفریہ عقیدہ ہے کہ نعوذ باللہ – الله – باپ بیٹا اور روح القدس ہیں
لب لباب ہوا کہ روح کا لفظ تین مفاہیم میں اتا ہے
اول روح بطور انسانی روح
دوم بطور الله کا امر جو انبیاء پر آیا
سوم روح بطور روح القدس جو جربیل علیہ السالم ہیں
روح پھونکنا الله کا کام ہے جیسے اس نے حرضت آدم علیہ سالم میں پھونکی – بد
قسمتی سے ہامرے ہاں روح کو ایک ہی چیز بنا کر پیش کیا گیا -اور ترجمہ میں ڈنڈیاں
ماری گئی
سورۃ التحریم
َو َم ْريَـ َم ابْنَتَ ِع ْم َرا َن الَّتِ ٖٓى ا َ ْح َصنَ ْت فَ ْر َج َها فَنَ َف ْخنَا ِف ْي ِه ِم ْن ُّر ْو ِحنَا َو َص َّدقَتْ بِكَلِ َام ِت َربِّ َها
َوكُـ ُتبِه َوكَانَتْ ِم َن الْقَانِتِ ْ َي
)(12
اور مریم عمران کی بیٹی (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا
پھر ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اس
کی کتابوں کو سچ جانا اور وہ عبادت کرنے والو ں میں سے تھی۔
اس آیت میں الله خود کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی
جواب
جو آیات دیں ان کو مال کر دیکھیں فرشتہ مریم علیہ السالم کے پاس آیا ان کے سامنے
ایک برش کی صورت ظاہر ہوا مریم نے اللہ کی پناہ مانگی – فرشتے نے خرب دی کہ وہ
الله کا فرشتہ ہے ان کو بیٹا دینے آیا ہے اور اس نے الله کے حکم سے روح عیسی ان کے
بطن میں پھونک دی
فَنَ َف ْخنَا ِفيْ ِه ِم ْن ُّر ْو ِحنَا
ہم نے اس میں اپنی روحوں میں سے ایک روح پھونک دی
ممکن ہے کہ یہ ایسا ہی ہو جیسا کہ ہر ماں کے پیٹ میں فرشتہ آ کر روح پھونکتا ہے
لیکن مریم کے بطن میں جو مادہ خلق ہوا اور عیسی کا جسم بنا جس میں روح ڈالی
گئی وہ خالصتا الله کا کام تھا
فرشتہ نے لڑکا دیا – یہاں خربیہ نہیں ہے کہ الله بیٹا دے رہا ہے بلکہ فرشتہ نے اس کو
اپنی طرف مضاف کیا ہے اور کہا ہے میں بیٹا دے رہا ہوں اور الله تعالی نے اس کو بیان
کیا
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے الله تعالی کیا فرشتوں سے کام نہیں لیتا؟ یقینا لیتا ہے اور
پھر اس کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے کیونکہ فرشتہ الله کے حکم کے عالوہ کچھ اور
نہیں کرتا
اختالف قرات میں اس آیت کو الگ الگ پڑھا جاتا ہے – قرآن کی دس متواتر قرات کو
دیکھا جائے تو یہ معاملہ حل ہو جاتا ہے
قرأ أبو عمرو ونافع ف رواية ورش وقالون عنه (ليهب لك) بالياء (ربك غالما) الباقون
(الهب) بالهمزة
http://www.hodaalquran.com/rbook.php?id=10432&mn=1
اہل مدینہ کی قرات :نافع بن عبد الرحمن بن أب نعيم املدّن املتوفی ١٦٩ھ ان کی قرات
کی سند ابی بن کعب اور ابو ہریرہ رضی الله عنہام تک جاتی ہے ان کی قرات کی سند
قالون سے ہے اور ورش سے ہے
اہل برصہ کی قرات :أبو عمرو بن العالء البرصي املتوفی ١٦٨ھ کی قرات کی سند سعید
بن جبیر اور مجاہد تک جاتی ہے
ان سب کی قرات میں ہے
ليهب لك غالم زكيأ
کہ وہ (الله) تجھ کو ایک لڑکا دے
یعنی جربیل نے الله کے حکم سے روح پھونکی – اس کو ترشیحی اختالف کہا جا سکتا
ہے
قرآن (پڑھائ) میں اور الکتاب ( لکھائ) میں کیا فرق ہے؟
سورۃ یونس
َو َما كَا َن هذَا الْ ُق ْرا ُن ا َ ْن يُّ ْفتَـرى ِم ْن ُد ْونِ اللـ ِه َول ِك ْن ت َْص ِديْ َق الَّـ ِذ ْى بَ ْ َي يَ َديْ ِه َوتَف ِْص ْي َل الْ ِكتَ ِ
اب
َال َريْ َب ِف ْي ِه ِم ْن َّر ِّب الْ َعالَ ِم ْ َي
)(37
https://www.youtube.com/watch?v=UXCEFgqJsVY&feature=em-subs_digest
جواب
اور یہ قرآن الله کے سوا اور کون گھڑ سکتا ہے – بلکہ یہ تو تصدیق ہے جو متہارے
سامنے ہے اور الکتاب کی تفصیل ہے جس میں شک نہیں ہے کہ رب العاملین کی طرف
سے ہے
الکتاب وہی عامل باال میں لوح محفوظ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ قرآن جو زمین پر آ رہا
ہے وہ الکتاب کی تفصیل ہے
ان کو یہاں اشتباہ ہوا ہے یہاں پڑھائی یا لکھائی کا کوئی ذکر نہیں ہے – قرآن کا مطلب
پڑھنے والی چیز ہے اس کو کتاب بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جب مکمل ہو گی تو کتاب
کی شکل میں ہو گی مثال سورہ بقرہ میں ہے
یہ کتاب ہے جس میں شک نہیں
جبکہ اس وقت تک قرآن کتاب کی شکل میں نہیں تھا اور مکمل بھی نہیں ہوا تھا رصف
مکی سورتیں تھیں
سابقہ کتاب ساموی کو بھی اللہ نے قرآن ہی کہا ہے مثال توریت کو قرآن کہا ہے
سورہ الحجر
اسی طرح حدیث میں زبور کو قرآن کہا گیا ہے کہ داود علیہ السالم پر قرآن کی قرات
آسان تھی
سورۃ یونس
َو َما كَا َن هذَا الْ ُق ْرا ُن ا َ ْن يُّ ْف َتـرى ِم ْن ُد ْونِ اللـ ِه َول ِك ْن ت َْص ِديْ َق ال َِّـذ ْى بَ ْ َي يَ َديْ ِه َوتَف ِْص ْي َل الْ ِك َت ِ
اب
الَ َريْ َب ِفيْ ِه ِم ْن َّر ِّب الْ َعالَ ِم ْ َي
یہاں بَ ْ َي يَ َديْ ِه سے مراد کتاب ساموی کب ہوا – اگر ایسی بات ہے تو کتب کے نام کیوں
لئے گیۓ
جواب
بَ ْ َي يَ َديْ ِه عربی میں محاورہ ہے یعنی جو چیز سامنے ہو یا لفظی ترجمہ کریں تو ہو گا جو
ہاتھوں کے درمیان ہے
ظاہر ہے جو چیز اپ کے ہاتھ میں ہو وہ اپ کی نظر کے سامنے ہو گی
ق ُْل َم ْن كَا َن َع ُد ىوا لِج ِْرب َِيل فَ ِإنَّ ُه نَ َّزلَ ُه َع َل قَلْب َِك ِب ِإذْنِ اللَّ ِه ُم َص ِّدقًا لِ َام بَ ْ َي يَ َديْ ِه َو ُهدًى َوبُ ْ َ
رشى
لِلْ ُم ْؤ ِم ِن َي
سورہ بقرہ
٩٧
ِيل اب بِالْ َح ِّق ُم َص ِّدقًا لِ َام بَ ْ َي يَ َديْ ِه َوأَنْ َز َل ال َّت ْو َرا َة َو ْ ِ
اْلنْج َ نَ َّز َل َعلَ ْي َك الْ ِك َت َ
سورہ ال عمران
٣
َو َهذَا كِتَاب أَنْ َزلْنَا ُه ُمبَا َرك ُم َصد ُِّق الَّ ِذي بَ ْ َي يَ َديْ ِه
سورہ االنعام
الغرض وہ کتاب ساموی جو پہلے سے اہل کتاب کے پاس ہیں ان کو بَ ْ َي يَ َديْ ِه ِم َن التَّ ْو َرا ِة
کہا گیا یعنی یہود کے ہاتھوں میں جو توریت ہے یعنی یہ انسانوں کی بات ہو رہی ہے
اپ نے جو لنک بھیجا ہے
https://www.youtube.com/watch?v=UXCEFgqJsVY&feature=em-subs_digest
اس میں اس محمد شیخ نے ترجمہ ١:١٢منٹ کیا ہے
یہ پڑھائی الله کے عالوہ کوئی نہیں جو اس کو گھڑ لے لیکن تصدیق کرتی ہے جو اس
کے دونوں ہاتھوں کے درمیان ہے
کس کے ہاتھوں کے درمیان ہے ؟ رسول الله یا اہل کتاب ؟ کا کے ہاتھوں کی بات ہو رہی
ہے
َوقَ َّف ْينَا َع ٖٓل اث َا ِر ِهـ ْم بِ ِع ْي ََس ابْنِ َم ْريَـ َم ُم َص ِّدقًا ل َِّام بَ ْ َي يَ َديْ ِه ِم َن التَّ ْو َرا ِة ۖ َواتَ ْينَا ُه ْ ِ
االنْ ِج ْي َل ِف ْي ِه
)ُ (46هدًى َّونُـ ْورۖ َّو ُم َص ِّدقًا ل َِّام بَ ْ َي يَ َديْ ِه ِم َن التَّ ْو َرا ِة َو ُهدًى َّو َم ْو ِعظَ ًة لِّ لْ ُمتَّ ِق ْ َي
اور ہم نے ان کے پیچھے انہیں کے قدموں پر مریم کے بیٹے عیسی کو بھیجا جو اپنے
سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے واال تھا ،اور ہم نے اسے انجیل دی جس میں
ہدایت اور روشنی تھی ،ان کے پاس جو تورات ہے اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور وہ
راہ بتانے والی تھی اور ڈرنے والوں کے لیے نصیحت تھی۔
سورہ مائدہ ٤٦میں وضاحت آ گئی کہ اہل کتاب کے ہاتھوں میں جو ہے ان کی کتب
ساموی التَّ ْو َرا ِة کی بات ہو رہی ہے
بَ ْ َي يَ َديْ ِه ِم َن ال َّت ْو َرا ِة
یہاں نام موجود ہے کہ عیسی نے تصدیق کی توریت کی جو ان کے ہاتھوں میں ہے یا
سامنے ہے
یہی کام رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا توریت کی تصدیق کی کہ اللہ کی کتاب
ہے
جواب
ایک قول ہے کہ ان پر نیند طاری کی گئی اور اٹھا لیا گیا دورسا ہے کہ ان کو قبضہ میں
لے کر اٹھایا گیا موت نہیں ہوئی تیسا ہے کہ تین ساعتوں کے موت طاری کی گئی اس
میں اٹھایا گیا
ان سب کے مطابق عیسی کی اصل موت واقع نہیں ہوئی
–—
ایک منقطع السند قول ابن عباس سے مروی ہے کہ موت واقع ہوئی
لیکن علی بن ابی طلحہ کا سامع ابن عباس سے نہیں ہے
لہذا صحیح توفی کا ظاہری مطلب ہی ہے کہ زندہ قبضہ میں لیا بلند کیا گیا
سورۃ آل عمران
جواب
سورۃ البقرۃ
اب َوالْ ُف ْرقَا َن لَ َعلَّكُ ْم ت َ ْهتَ ُد ْو َن
َ ت
َ ِ
ك ْ ل ا َواِذْ اتَ ْينَا ُم ْو َ
ىس
اور ہم نے موسی کو کتاب فرق کرنے والی دی کہ تم ہدایت لو
یہاں واو عطف ہے جو تفسیر کر رہا ہے – یہ عربی کا انداز ہے اس واو کو اور کے مفہوم
میں نہیں لیا جاتا بلکہ ترشیحی لیا جاتا ہے خیال رہے کہ اس دور میں فل اسٹاپ یا کاما
نہیں تھے
سورۃ آل عمران
اب بِالْ َح ِّق ُم َص ِّدقًا ل َِّام بَ ْ َي يَ َديْ ِه َوأَن َز َل التَّ ْو َرا َة َو ْاْلِنج َ
ِيل نَ َّز َل َعلَ ْي َك الْ ِكتَ َ
ات اللـ ِه لَـ ُهـ ْم َعذَاب شَ ِديْد ۖ اس َواَنْ َز َل الْ ُف ْرقَا َن ۖ اِ َّن ال َِّـذيْ َن كَ َف ُر ْوا بِايَ ِ ِم ْن قَبْ ُل ُهدًى لِّلنَّ ِ
َواللـ ُه َع ِزيْز ذُو انْتِقَام
اس نے تم پر کتاب نازل کی حق کے ساتھ تصدیق کرنے والی جو ان کے ہاتھوں میں ہے
اور نازل کیا توریت و انجیل کو * اس سے قبل اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اور
نازل کیا فرق کرنے والی کو -جو اللہ کی آیات کا کفر کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب
ہے اور الله زبردست انتقام لینے واال ہے
نوٹ یہاں آیت کو بیچ میں سے توڑا گیا ہے لیکن اس کا منت پچھلی آیت سے جڑا ہے
فرق کرنے والی کتاب توریت و قرآن ہے یہ اس کی خاص بات ہے اس لئےقرآن میں
وضاحت کے طور پر ذکر کیا ہے
سورۃ االنبیاء
ِ ِ ِ
َولَ َق ْد اتَيْنَا ُم ْوىس َوهَا ُر ْو َن الْ ُف ْرقَا َن َوضيَـآ ًء َّوذكْ ًرا لِّ لْ ُمتَّق ْ َي
اور بے شک ہم نے موسی و ہارون کو فرق کرنے والی اور روشنی اور نصحت متقییوں کے
لئے دی
سورۃ الفرقان
تَ َبا َر َك الَّـ ِذ ْى نَ َّز َل الْ ُف ْرقَا َن َعل َع ْب ِده لِ َيكُـ ْو َن لِلْ َعالَ ِم ْ َي نَ ِذيْـ ًرا
با برکت ہے وہ جس نے فرق کرنے والی کو نازل کیا اپنے بندے پر کہ متام عاملین کے لئے
ڈرانے والی ہو
سورۃ آل عمران
ابۖ َواِ َّن ِمنْـ ُهـ ْم َل َف ِريْقًا يَّ ْل ُو ْو َن اَل ِْسنَتَـ ُهـ ْم بِا ْل ِكتَا ِب لِتَ ْح َسبُ ْوهُ ِم َن الْ ِكتَ ِ
اب َو َما ُه َو ِم َن الْ ِكتَ ِ
َويَ ُق ْولُ ْو َن ُه َو ِم ْن ِعنْ ِد اللـ ِه َو َما ُه َو ِم ْن ِعنْ ِد الل ِهۖ َويَ ُق ْولُ ْو َن َع َل اللـ ِه الْك َِذ َب َوهُـ ْم يَ ْعلَ ُم ْو َن
اور ان میں ایک گروہ ہے جو کتاب میں زبان کی کروٹ کرتا ہے کہ گامن کریں کہ وہ
کتاب میں سے ہے جبکہ وہ اس میں سے نہیں ہے اور کہتے ہیں یہ الله کی طرف سے ہے
اور جنکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا اور یہ الله پر جھوٹ بولتے ہیں اور یہ جانتے
ہیں
فرقان یا روشنی یا نصحت ایک ہی چیز پر واو عطف لگا کر رشح کی گئی ہے یعنی کتاب
الله توریت
اس واو کا ترجمہ کرنے کی رضورت نہیں -کر دیں تو بھی مطلب اس کا رشح ہے -مثال
(قد جاءكم من الله نور وكتاب مبي ) املائدة () ١٥
الله کی طرف سے متھارے پاس نور اور کتاب مبین آ چکے
بریلوی کہتے ہیں یہ واو الگ کرتا ہے کتاب الله الگ ہے نور الگ ہے اور وہ رسول الله
ہیں ہم اس طرح کی متام واو کو تفسیر کہتے ہیں
یہی اصول یہاں بھی ہے کہ اس واو میں ترشیح کی گئی ہے
عرب نحوی أبو جعفر ال َّن َّحاس املتوىف338 :هـ کی کتاب إعراب القرآن کی کتاب میں ہے
وىس الْ ِك َ
تاب أي َوالْ ُف ْرقا َن عطف عل الكتاب .قال الفراء :وقطرب « : »1يكون َو ِإذْ آتَيْنا ُم َ
التوراة ،ومحمدا صل الله عليه وسلم الفرقان .قال أبو جعفر :هذا خطأ ف اْلعراب واملعنى،
أما اْلعراب فإن املعطوف عل الِشء مثله وعل هذا القول يكون املعطوف عل الِشء
خالفه ،وأما املعنى فقد قال فيه جل وعزَ :ولَ َق ْد آت َ ْينا ُموىس َوها ُرو َن الْ ُف ْرقا َن
اور فرقان واو عطف ہے – الفراء کا کہنا ہے ممکن ہے کہ موسی کو کتاب توریت دی اور
محمد صلی الله علیہ وسلم کو فرقان – أبو جعفر ال َّن َّحاس نے کہا یہ قول معنی اور اعراب
میں غلط ہے – تو اعراب میں ہے کہ جس چیز کی طرف معطوف کیا جائے وہ اسی کی
جیسی ہو اور اس الفراء کے قول میں ہو جاتا ہے کہ معطوف الگ ہے (یعنی توریت و
فرقان کو الگ کرنا) اور معنی میں غلطی یہ ہے کہ الله تعالی نے کہا بے شک ہم نے
موسی و ہارون کو فرقان دیا
یعنی ابو جعفرال َّن َّحاس کے مطابق جو ترجمہ میں کر رہا ہوں وہ صحیح ہے
کتاب اور فرقان ایک ہی ہے
کیا مریم علیہ السالم مخنث تھیں؟
http://www.muhammadshaikh.com/urdu_pdf/maryam_pbuh.pdf
https://www.youtube.com/watch?v=L5ODbRvx1M4
جواب
https://www.youtube.com/watch?v=LEWXF31BQW8
محمد شیخ نے ٧:٠٠منٹ پر کہا مریم دونوں جنس کیری کر رہی تھیں
َو َج َعلْنَا ابْ َن َم ْريَ َم َوأُ َّم ُه آيَ ًة َوآ َويْنَاه َُام إِ َل َربْ َوة ذ ِ
َات قَ َرار َو َم ِعي سورہ مومنوں
اگر مریم ایک انوکھی مخنث تھیں اور ان کی جیسی اور بھی ہوں گی ان کے بچے بھی
ہوئے ہوں گے اور یہود کے علم میں بھی ہو گا کہ یہ تو مکمل عورت نہیں اس کے ساتھ
ایسا ہوا ہے
تو یہ متام نہ تو الله کا کامل رہنا ہے نہ معجزہ بنتا ہے
جبکہ الله تعالی مسلسل بیان کر رہا ہے کہ یہ معجزہ تھا
اہل کتاب کے بعض باطنی فرقوں کے نزدیک مریم اور یحیی علیہ السالم نعوذ باللہ
مخنث تھے مثال کہا جاتا ہے کہ مشہور مونا لیزا کی تصویر اصل میں مریم علیہ السالم
کی تصویر ہے جو ایک مخنث کی تصویر ہے اسی طرح اسی جاہل لیونارڈو نے یحیی علیہ
السالم کی بھی اسی قسم کی ایک تصویر بنائی تھی – یہ قول نرصانیوں سے مسلامنوں
میں آیا ہے کہ مریم ایک مخنث تھیں کیونکہ ان کے متام فرقے اس کے قائل نہیں کہ
مریم ایک پاک باز عورت تھیں
سورۃ االحقاف
اب ُم ْو ٖٓىس اِ َما ًما َّو َر ْحـ َمـ ًة ۖ َوهذَا كِ َتاب ُّم َصدِّق لِّ َسانًا َع َربِ ىيا لِّ ُي ْن ِذ َر الَّـ ِذيْ َن َو ِم ْن قَ ْبلِـه كِ َت ُ
ظَلَ ُم ْواۖ َوبُ ْرشى لِلْ ُم ْح ِس ِن ْ َي
اس سے قبل موسی کی کتاب رہرب و رحمت تھی -اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق
کرتی ہے – تا کہ وہ خرب دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں
کے لئے بشارت ہے
جواب
اس سے قبل موسی کی کتاب (توریت) رہرب و رحمت تھی اور یہ کتاب (قرآن) اس
(توریت) کی تصدیق کرتی ہے عربی میں زبان میں کہ ظلم کرنے والوں کو ڈرائے اور
احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے
سورۃ البقرۃ
ِربيْ َل َو ِم ْيك ََال فَ ِا َّن اللـ َه َعدُو لِّ لْكَا ِفـ ِريْ َن
َم ْن كَا َن َع ُد ىوا لِّلـ ِه َو َم ََلئِكَـتِه َو ُر ُسلِه َوج ْ ِ
)(98
جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جربائیل اور میکائیل کا دشمن
ہو ،تو بیشک اللہ بھی ان کافروں کا دشمن ہے۔
یہاں فرشتوں کو الگ بیان کیا گیا اور جربائیل اور میکائیل کو الگ – کیا یہ دونوں فرشتے
نہیں – پلیز وضاحت کر دیں
جواب
یہ آیت سورہ بقرہ کی ہے اس میں یہود کا رد ہو رہا ہے کہ ان کو جربیل و ِميْك ََال کا
دشمن کہا گیا
اسالم میں قرآن و حدیث میں جربیل و ِميْك ََال کو فرشتے ہی کہا گیا ہے لیکن فرشتوں میں
جن کا یہود سب سے زیادہ ذکر کرتے ہیں وہ جربیل میکائل اور ابلیس (یہود کے مطابق
یہ فرشتہ ہے) ہیں – اس بنا پر اس آیت میں الگ سے ان کا خاص ذکر کیا ہے – تفسیروں
میں ہے کہ یہود کا کہنا تھا کہ بابل کا بادشاہ بخت نرص جب بچہ تھا تو ہم نے اس کو
قتل کرنے کسی کو بھیجا لیکن جربیل نے روک دیا – بعد میں اس بادشاہ نے یروشلم برباد
کیا – اس وجہ سے یہودی کہتے جربیل یہود کا دشمن فرشتہ ہے – میری معلومات جو
یہودی لٹریچر پر ہیں ان میں ہے کہ فرشتوں کو اور ابلیس کو متضاد ڈیوٹی الله تعالی نے
دی ہوئی ہے – ابلیس بھی یہود کے مطابق آسامن میں ایک فرشتہ ہے جو یہود کے
دشمنوں کو اکساتا ہے لیکن بنو ارسائیل کا خاص فرشتہ ِميْك ََال ہے جو جربیل سے بھی
زیادہ طاقت ور ہے وہ ان کی مدد کرتا ہے
اس آیت میں الله نے عمومی ذکر کیا ہے کہ فرشتوں سے دشمنی اصل میں الله سے
دشمنی ہے
قرآن میں جنت کا ذکر ہے
ِفيهِام فاكِ َهة َونَخْل َو ُر َّمان
اس میں ہوں گے پھل اور کھجور اور انار
و الله اعلم
َول ََّام َجآ َء ا َ ْم ُرنَا نَ َّجيْنَا ُه ْودًا َّوالَّـ ِذيْ َن ا َمنُـ ْوا َم َع ٝه بِ َر ْحـ َمة ِّمنَّاۖ َونَ َّجيْنَاهُـ ْم ِّم ْن َعذَاب َغلِيْظ
)(58
سورۃ البقرۃ
ا َ ْم ت َ ُق ْولُ ْو َن اِ َّن اِبْـ َرا ِه ْي َم َواِ ْس َـام ِع ْي َل َواِ ْس َح َاق َويَ ْع ُق ْو َب َو ْاال َْس َبا َط كَانُـ ْوا ُه ْودًا اَ ْو ن ََصارى ۖ ق ُْل
َءاَنْتُـ ْم ا َ ْعلَ ُم اَمِ اللـ ُه ۖ َو َم ْن اَظْلَ ُم ِم َّم ْن كَتَ َم شَ َها َد ًة ِعنْدَهِ ٝم َن اللـ ِه ۖ َو َما اللـ ُه بِغَا ِفل َع َّام
تَ ْع َملُ ْو َن
)(140
ان آیات میں کا لفظ ہے لیکن ترجمہ کرتے وقت ایک مقام پر ہود کیا جاتا ہے اور ایک
مقام پر یہود
ا
ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسامعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا
نرصانی کے تھے ،کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظامل ہے
جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے ،اور اللہ بے خرب نہیں اس سے
جو تم کرتے ہو۔
کیا ہم قرآن کی عربی کو عربانی زبان پر پرکھیں گے -قرآن میں ہی ہے کہ الله کے کلامت
کو کوئی نہیں بدل نہیں سکتا
سورۃ االنعام
َومتَ َّتْ كَلِ َم ُت َربِّ َك ِص ْدقًا َّو َعدْالً ۖ َّال ُم َبد َِّل لِكَلِ َامتِه ۖ َو ُه َو َّ
الس ِم ْي ُع الْ َعلِ ْيـ ُم
اللہ کے کلامت تبدیل نہیں ہوتے۔
جواب
ہود علیہ السالم عرب عاربہ میں بھیجے گئے یعنی قدیم عربوں میں جو ابراہیم سے بھی
قبل گزرے ہیں – لفظ ہود کا مصدر الگ زبان و عالقہ ہے
لیکن عربی میں منصوب حالت میں انے کی وجہ سے ہودا بوال گیا
اور اپ نے دو الگ الفاظ کو مکس کر دیا
سادہ بات ہے کہ ُه ْودًا اور ھادوا میں فرق ہے یہ دو الگ الفاظ ہیں
ظاہر ہے اگر هادُوا سے مراد ہود علیہ السالم نہیں ہیں اس کے عالوہ سیاق و سباق سے
معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی بات کی جا رہی ہے
اگر ترجمہ کیا جائے یہ ترجمہ کہ عاد کی طرف ان کے بھائی یہود کو بھیجا ،تو نہ تو
یہ سیاق و سباق پر پورا اترتا ہے نہ ہی صحیح کالم ہے نہ حقیقیت ہے
یہاں بھائی کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے قوم نہیں ایک شخص مراد ہے
سورہ بقرہ کی آیت کا ترجمہ صحیح ہے
ا َ ْم ت َ ُق ْولُ ْو َن اِ َّن اِبْـ َرا ِه ْي َم َواِ ْس َـام ِع ْي َل َواِ ْس َح َاق َويَ ْع ُق ْو َب َو ْاال َْس َبا َط كَانُـ ْوا ُه ْودًا اَ ْو ن ََصارى ۖ ق ُْل
َءاَنْتُـ ْم ا َ ْعلَ ُم اَمِ اللـ ُه ۖ َو َم ْن اَظْلَ ُم ِم َّم ْن كَتَ َم شَ َها َد ًة ِعنْدَهِ ٝم َن اللـ ِه ۖ َو َما اللـ ُه بِغَا ِفل َع َّام
تَ ْع َملُ ْو َن
)(140
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسامعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اوالد یہودی یا
نرصانی تھے ،کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظامل ہے جو
گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے ،اور اللہ بے خرب نہیں اس سے جو
تم کرتے ہو۔
یہاں بھی اگر ہود علیہ السالم اور نرصانی ترجمہ کر دیا جائے تو یہ غلط سلط ترجمہ ہو
جائے گا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا
ظاہر ہے ہود اور ھادوا الگ الفاظ ہیں -ہود علیہ السالم تو ایک شخص ہیں جبکہ ھادوا
سے مراد یہودی ہیں – لہذا جو ترجمہ متدوال ہے وہ ہی صحیح ہے
َوقَالُوا لَ ْن يَ ْدخ َُل الْ َجنَّ َة ِإالَّ َم ْن كَا َن هُودًا أَ ْو ن ََصا َرى تِل َْك أَ َمانِيُّ ُه ْم ق ُْل هَاتُوا بُ ْرهَانَكُ ْم ِإ ْن كُنْتُ ْم
َصا ِدقِ َي
اور یہ کہتے ہیں جنت میں داخل نہ ہو گا جو یہودی یا نرصانی ہو
ظاہر ہے یہ ترجمہ صحیح ہے
اصل میں الله نے وہ لفظ بوال جو عربانی میں یہود کا نام ہے
Yehudah
اس کو اصل عربانی میں یہودا بوال جاتا تھا – فارس کی غالمی میں ارض مقدس کا نام
یہودا فارسیوں نے رکھا -اس کے بعد اس صوبہ میں متام قبائل اپنے اپ کو یہودا کہنے
لگے اور متام بنی ارسائیلی چاہے کسی بھی قبیلے کا ہو اس کو یہودی کہا جانے لگا
یہی لفظ عربی میں ہودا یا یہود ہو گیا
ا َ ْم ت َ ُق ْولُ ْو َن اِ َّن اِبْـ َرا ِه ْي َم َواِ ْس َـام ِع ْي َل َواِ ْس َح َاق َويَ ْع ُق ْو َب َو ْاال َْس َبا َط كَانُـ ْوا ُه ْودًا اَ ْو ن ََصارى ۖ قُ ْل
َءاَنْتُـ ْم ا َ ْعلَ ُم اَمِ اللـ ُه ۖ َو َم ْن اَظْلَ ُم ِم َّم ْن كَتَ َم شَ َها َد ًة ِعنْدَهِ ٝم َن اللـ ِه ۖ َو َما اللـ ُه بِغَا ِفل َع َّام
تَ ْع َملُ ْو َن
)(140
یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسامعیل اور اسحاق اور یعقوب اور قبیلے جو هود یا
نرصانی کے تھے ،کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر کون ظامل ہے
جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے ،اور اللہ بے خرب نہیں اس سے
جو تم کرتے ہو۔
جواب
الفاظ جو هود یا نرصانی کے تھے ،نہیں ہو سکتا کیونکہ ہود عرب عاربہ میں ایک نبی
گزرے ہیں اور یہود و نصاری کے مطابق عرب میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا
لہذا یہ ترجمہ غلط ہے
الله کا کالم یہود سے چل رہا ہے ہم تو سن رہے ہیں کہ یہود یہ کہتے تھے اللہ تعالی تو
ان کا جواب دے رہے ہیں -جو یہود نے کہا وہ ان کی تاریخ ہے جس میں کوئی قبیلہ
اپنی شناخت باقی نہ رکھ سکا سوائے یہودا قبیلہ کے اور متام بنی ارسائیل اپنے اپ کو
یہودا کہنے لگے
اس پر الله تعالی نے کالم کیا ہے – اپ اپنے تئیں معنی متعین کریں گے تو اپ یہ سمجھ
ہی نہ سکیں گے کہ یہود کے کس اشکال کا جواب دیا جا رہا ہے – اپ کو دیکھنا پڑے گا
کہ یہود کا کیا موقف تھا اور ہے اور قرآن نے ان کی کس بات کا جواب دیا ہے اور الله کا
حکم بھی ہے
ف َْاسأَلُوا ْ أَه َْل ال ِّذكْ ِر ِإن كُنتُ ْم الَ ت َ ْعلَ ُمو َن
خود عربی کے متعدد الفاظ عربانی کے ہی ہیں وہیں سے آئے ہیں – عربی لغت میں اور
رشوحات میں ان کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے
اپ کے نزدیک توریت بھی عربی میں تھی– اپ کے قول کا مطلب ہوا کہ مرص میں اور
اس سے قبل سب انبیاء اور ان کی نسلیں عربی بولتے تھے – یہ قول زبانوں کی تاریخ
سے ال علمی کا ہے
یعنی عربی رصف اسمعیل نے سیکھی – اسحاق و ابراہیم و یعقوب و سارہ یا موسی یہ
نہیں بولتے تھے
اپ کے اس قول سے احادیث کا بھی انکار ہوتا ہے تاریخ لغت و لسان کا بھی اور یہ قول
محض خیالی و افسانوی ہے
سورۃ االحقاف
اب ُم ْو ٖٓىس اِ َما ًما َّو َر ْحـ َمـ ًة ۖ َوهذَا كِتَاب ُّم َصدِّق ل َِّسانًا َع َربِ ىيا لِّ ُينْ ِذ َر ال َِّـذيْ َن َو ِم ْن قَ ْبلِـه كِتَ ُ
ظَلَ ُم ْواۖ َوبُ ْرشى لِلْ ُم ْح ِس ِن ْ َي
اس سے قبل موسی کی کتاب رہرب و رحمت تھی -اور یہ کتاب عربی زبان کی تصدیق
کرتی ہے – تا کہ وہ خرب دار کرے ان لوگوں کو جو ظلم کرتے ہیں اور احسان کرنے والوں
کے لئے بشارت ہے
عربی زبان کی کوئی تصدیق نہی کی جاتی -کسی عرب مفس کو بھی یہ اچھوتے خیال
نہیں آئے کہ عربی کی فضیلت اس طرح متام زبانوں پر قائم کرے
قرآن میں ہے بنی ارسائیل کو ارض مقدس میں داخلے کے وقت حکم دیا
اب ُس َّجداً َوقُولُوا ِحطَّة
َوا ْد ُخلُوا الْبَ َ
دروازے سے داخل ہو ِحطَّة (مالک گناہ ہوئے) کہتے ہوئے
اج ِف َم َع ِاّن الْ ُق ْرآنِ َ :وق ََال أَ ْح َم ُد بْ ُن يَ ْح َيى ”:ال َّر ِحي ُم” عرب و” الرحمن” ق ََال أَبُو ِإ ْس َحاقَ ال َّز َّج ُ
ِ .ع ْ َرب ِاّن ،فَلِ َهذَا َج َم َع بَيْنَ ُه َام
یہ متام عرب مفس و نحوی و لغوی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نام عربی کے نہیں ظاہر
ہے جو زبان بولی جاتی ہے اسی میں نام رکھا جاتا ہے
اللہ کے کلامت َّال ُمبَد َِّل لِكَلِ َامتِه کا مطلب ہے الله کا وعدہ تبدیل نہیں ہو گا
ایک زبان میں ہی کلامت بدل سکتے ہیں مثال عربی کا قرآن ہے لیکن قرات دس متواتر
چلی آ رہی ہیں جن میں الفاظ بھی بدل رہے ہیں – میں نے تو رصف سورہ فاتحہ کا
تقابل کیا ہے
سورہ فاتحہ میں ملک یوم الدین اگر اپ پڑھیں تو لوگ اپ کو سمجیں گے کہ غلط قرات
کر دی کیونکہ دس متواتر قرات میں اختالف کا اردو بولنے والوں کو علم نہیں ہے – بعض
مسلامن ماملک ہیں جہاں صبح و شام مناز میں مالک یوم الدین کی بجائے ملک یوم
الدین پڑھا جاتا ہے
اپ ان متام قرات کو جمع کریں اور تقابل کر کے دیکھ لیں ان میں الفاظ بھی بدل جاتے
ہیں
متام مسلامن فرقے ان قراتوں کو متواتر مانتے ہیں اور سعودی عرب اور دیگر ماملک میں
ریڈیو پر الگ الگ سند سے یہ قرات کی بھی جاتی ہے ان میں الفاظ الگ الگ بھی ہیں
یعنی وہ قرات جو میں یہاں لکھتا ہوں وہ وہ ہے جو بر صغیر میں چلتی ہے جس کو
حفص بن عاصم کی سند سے جانا جاتا ہے
سورۃ الحاقۃ
جواب
جواب
مکہ کا نام قرآن میں رصف ایک بار اتا ہے جب اس کو بکہ کہا جاتا ہے
مکہ کو مسجد الحرام بھی کہا گیا ہے
مکہ کاروان کے راستہ میں نہیں اتا تھا
شاملی عرب میں پیٹرا میں اسالم کا آغاز ہوا
مکہ میں آثار قدیمہ کو ختم کیا جا رہا ہے اور وہاں کوئی تاریخی چیز باقی رہنے نہیں
دی گئی ہے
مکہ میں کچھ نہیں اگتا مذہبی کتب میں مکہ کو پھلوں کی جگہ کہا گیا ہے
مکہ اسالم سے قبل کسی نقشے میں موجود نہیں ہے تجارت کے طور پر بھی اس کا ذکر
نہیں ہے
اسالم کے ریکارڈ میں اور آثار قدیمہ میں تفاوت ہے
محمد ایک الگ جگہ پیدا ہوئے مکہ میں نہیں
عرب ان بتوں کو پوجتے تھے جو جیومَّتی کی شکل تھے اور یہ لوکل خدا تھے
متام مندروں میں جنگ حرام تھی
آالت ایک نبطی دیوی تھی
مسجد الحرام کا مطلب جہاں لوگ جمع ہوں
اسالم سے قبل وہاں کا حج ہوتا تھا اور ایسا پیٹرا میں بھی ہوتا تھا
مسجدوں میں محراب کا رخ قبلہ کی طرف ہے لیکن قبلہ کیا مکہ ہی تھا یہ واضح نہیں
ہے
مسلامن یروشلم کی طرف منہ کر کے مناز پڑھتے تھے پھر مسجد الحرام کی طرف رخ کیا
جو پتا نہیں کیا ہے
سو سال پہلے اس قسم کی تحقیق ممکن نہیں ہے گوگل ارتھ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ
قبلہ کا رخ کیا ہے
رشوع کی مسجدوں میں قبلہ کا رخ ستاروں سے متعین کیا گیا ہے
مسجد قبلتین مدینہ میں اس کا اصل پہال قبلہ کہاں تھا
متام مسجدوں کا قبلہ الگ الگ تھا اس میں گیارہ مسجدیں لی گئی ہیں
سب سے پہلے تو سمجھ لیں کہ عرب نبطی بتوں کو نہیں پوج رہے تھے
اہل کتاب کہتے ہیں کہ ٹیمپل اف ابراہیم شام میں تھا جس کو مسلامن عرب میں کہتے
ہیں
مسجدوں کے قبلہ کی بات بھی احمقانہ ہے کیونکہ یہ کیسے ثابت ہو گا کہ محل میں
محراب مسجد ہی تھی یہ ان کا خیال ہے
باقی قرآن میں مکہ کو واد غیر ذی زرع کہا گیا ہے یعنی بے اب و گیاہ وادی
یہ بات صحیح ہے کہ مکہ میں آثار قدیمہ تباہ ہو چکے ہیں ان کی حفاظت نہیں کی
گئی جو کیا جانا چاہے تھا
کعبہ کو پیٹرا میں ال کر یہ لوگ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ اسالم اصل میں نبطی
مذھب تھا
قدیم نقشوں سے ان کی مراد یونانییوں کے نقشے ہیں جن میں ان کے بقول مکہ نہیں
ملتا اگر یہ اہم ہوتا تو ملتا
یونان والوں نے نقشے اپنی جنگوں کی وجہ سے بنائے تھے عرب میں وہ داخل نہیں
ہوئے لہذا عرب جزیرہ کا کوئی یونانی نقشہ نہیں ہے
یہ ہے اصل بات لیکن یہ گھام کر کچھ بات کرتے ہیں
ان لوگوں کا ایک مدعا یہ بھی ہے کہ ثابت کریں کہ الله کا نام االت کی ایک شکل ہے یہ
نرصانی جاہل ہیں کیونکہ اسالم سے نفرت میں اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ یہ اس
حقیقت کو بھی جھٹالنا چاہتے ہیں کہ ہم نرصانی اور یہودی ایک ہی رب کو مانتے ہیں
یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو بت پرستوں کے مذھب
میں تھوڑی تبدیلی کی
باقی قرآن بنو امیہ کا شام میں تیار ہوا اور کعبہ کو ابن زبیر نے مکہ میں بنا دیا
یہ سب جھل در جھل ہے
کیونکہ اس تھیوری کا مواد ان کو مل نہیں رہا تو یہ آثار قدیمہ پر آ گئے ہیں تاکہ کھود
کھاد کے اپنی پسند کی بات کہہ دیں
َواِذْ ق ََال ُم ْوىس لِ َق ْو ِمه يَا قَ ْومِ ا ْذكُ ُر ْوا نِ ْع َم َة اللـ ِه َعلَ ْيكُ ْم اِذْ َج َع َل ِف ْيكُ ْم اَنْ ِب َيآ َء َو َج َعلَكُ ْم ُّملُ ْوكًا ۖ
)َ (20وات َاكُ ْم َّما لَ ْم يُ ْؤ ِت ا َ َحدًا ِّم َن الْ َعالَ ِم ْ َي
اور جب موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو
جب کہ تم میں نبی پیدا کیے اور متہیں بادشاہ بنایا ،اور متہیں وہ دیا جو جہان میں
کسی کو نہ دیا تھا۔
اال ْر َض الْ ُم َقد ََّس َة الَّتِ ْى كَ َت َب اللـ ُه لَكُ ْم َو َال ت َـ ْرت َ ُّد ْوا َع ٖٓل ا َ ْدبَا ِركُ ْم فَـ َت ْن َقلِ ُب ْوا
يَا قَ ْومِ ا ْد ُخلُوا ْ َ
) (21خ ِ ِ
َارسيْ َن
اے میری قوم! اس پاک زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے متہارے لیے مقرر کر دی اور
پیچھے نہ ہٹو ورنہ نقصان میں جا پڑو گے۔
قَالُ ْوا يَا ُم ْو ٖٓىس اِ َّن ِف ْيـ َها قَ ْو ًما َج َّبا ِريْ َنۖ َواِنَّا لَ ْن نَّ ْد ُخلَـ َها َحتـى يَ ْخ ُر ُج ْوا ِمنْـ َهاۖ فَ ِا ْن يَّ ْخ ُر ُج ْوا
)ِ (22م ْنـ َها فَ ِانَّا د ِ
َاخلُ ْو َن
انہوں نے کہا اے موسی! بے شک وہاں ایک زبردست قوم ہے ،اور ہم وہاں ہرگز نہ جائیں
گے یہاں تک کہ وہ وہاں سے نکل جائیں ،پھر اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم رضور
داخل ہوں گے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسی تو وادی طوی میں تھے جو پہلے ہی مقدس تھی تو اب
وہ اپنی قوم کو کسی اور ارض مقدس کی طرف کیوں لے جا رہے تھے
جواب
موسی علیہ السالم کی قوم کا مسکن مرص سے نکلنے کے بعد ارض مقدس کنعان کو قرار
دیا گیا جو اصل میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب کا مسکن تھا اور وہاں ان کو مسجد
االقصی کی تعمیر کرنی تھی
ظاہر ہے اس سے مراد مکہ نہیں جس کو قرآن وادی غیر ذی زرع کہتا ہے
پھر اس ارض مقدس میں جو مسجد االقصی تھی اس کو دو بار تباہ کیا گیا -اس کا ذکر
قرآن میں سورہ االرساء یا بنی ارسائیل میں ہے -کعبه کو ظاہر ہے تباہ نہیں کیا گیا اس کی
حفاظت کی گئی
موسی وادی مقدس میں تھے لیکن ان کو قوم کے لئے وہ مقام چھوٹا تھا -الله کو ان کو
ایک بڑی آبادی میں تبدیل کرنا تھا لہذا ان کو کہا گیا کہ اپنے ابا و اجداد کے اصل عالقے
کی طرف منتقل ہو
حدیث کے مطابق موسی علیہ السالم نے حج کیا ہے لیکن وہ اپنی زندگی میں اس ارض
مقدس میں داخل نہ ہو سکے کیونکہ الله نے یہ زمین ٤٠سال ان پر حرام کر دی اور پھر
یوشع بن نون علیہ السالم کے دور میں اس میں داخل ہوئے
الغرض یروشلم ہی ارض مقدس ہے جوقوم موسی کو الله نے دی تھی اسی زمین پر انبیاء
کا ظہور ہوا ہے اور مکہ میں اسمعیل علیہ السالم کے بعد رصف ہامرے نبی صلی الله
علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے
کیا موسی (ع) کی کتاب محمد (ص) کو دی گئی
اب فَالَ تَكُن ِف ِم ْريَة ِّمن لِّقَائِ ِه ۖ َو َج َعلْ َنا ُه ُهدًى لِّ َب ِني إِ ْ َ
رسائِ َيل وىس ا ْل ِك َت َ
َو َل َق ْد آت َ ْي َنا ُم َ
اورتحقیق ہم نے موسی کو کتاب دی بس تو اس کتاب کے ملنے سے شک میں نہ ہو اور
ہم نے اس کو بنی ارسائیل کے لئے ہدایت بنایا
اب قَ ْد َجآ َءكُ ْم َر ُس ْولُ َنا يُ َب ِّ ُي لَكُ ْم كَ ِث ْيـ ًرا ِّم َّام كُ ْن ُتـ ْم ت ُ ْخ ُف ْو َن ِم َن الْ ِك َت ِ
اب َويَ ْع ُف ْوا َع ْن يَآ اَه َْل الْ ِك َت ِ
كَ ِث ْيـر ۖ قَ ْد َجآ َءكُ ْم ِّم َن اللـ ِه نُـ ْور َّوكِتَاب ُّمب ِْي
https://www.youtube.com/watch?v=tZj-6seHrEE
جواب
اس میں لقاء کا لفظ ہے جس کا مطلب مالقات ہے کسی چیز کا حاصل کرنا نہیں بلکہ
کسی ذات سے مالقات کرنا
لہذا درست ترجمہ دو ہیں
رسائِيل}
وىس الْكتاب ف ََال تكن ِف مرية من لِقَائِه وجعلناه هدى لبني إِ ْ َ ق ََال ت َ َع َال { َولَقَد آت َ ْينَا ُم َ
وىس اللَّهَ،ُ َم ِ
ء َا
ق ِ ل ن
ْ مِ يْ َ أ ؛ ِ
ه َّ ل ال مِسَ ْا ُيمِ ضَ ء ا
َ ُ ه ْ لا ن
َ ُو كَ ت ن
ْ َ أ ز
ُ و قَ ْولُ ُه ت َ َع َالِ ( :م ْن لِقَائِ ِه) ُ َ :
ج ي
وىس؛ فَيَكُو َن ُمضَ افًا إِ َل الْفَاعلِِ ِ َ
.فَالْ َم ْص َد ُر ُمضَ اف إِ َل الْ َم ْف ُعولِ؛ َوأ ْن يَكُو َن ضَ م َُي ُم َ
اب؛ ك ََام ق ََال ت َ َع َالَ ( :و ِإن ََّك لَتُلَقَّى الْ ُق ْرآنَ) [النَّ ْم ِل]6 : َ .وقِ َيل :يَ ْر ِج ُع إِ َل الْ ِكتَ ِ
وىسَ ،ص َّل اللَّ ُه َو َسلَّ َم َعلَ ْيه َِام ،لَ ْيلَ َة الْ ِم ْع َراجِ َ م
ُ د
ُ م
َّ َ .وقِ َيلِ :م ْن لِقَائِ َك يَا ُم َح
یہ ترجمہ کرنا کہ اس کتاب کے ملنے سے عربی کے حساب سے غلط ہے کیونکہ یہ اردو
کا انداز ہے کہ مالقات کو ملنا کہا جاتا ہے لیکن عربی میں یہ انداز نہیں ہے
اب قَ ْد َجآ َءكُ ْم َر ُس ْولُنَا يُبَ ِّ ُي لَكُ ْم كَ ِثيْـ ًرا ِّم َّام كُنْتُـ ْم ت ُ ْخ ُف ْو َن ِم َن الْ ِكتَ ِ
اب َويَ ْع ُف ْوا َع ْن يَآ اَه َْل الْ ِكتَ ِ
كَ ِثيْـر ۖ قَ ْد َجآ َءكُ ْم ِّم َن اللـ ِه نُـ ْور َّوكِتَاب ُّمب ِْي
اے اہل کتاب بے شک متھارے پاس ہامرے رسول آئے جنہوں نے متہارے اوپر بہت کچھ
واضح کیا جو تم کتاب میں چھپا رکھتے ہو اور بہت کچھ معاف کیا بال شبہ متہارے پاس
الله کی طرف سے نور اور کتاب مبین آ چکی
یعنی توریت منزل من الله ہے جس سے یہود پر الله کا حکم نافذ کیا جاتا تھا
رسول الله نے توریت پر حکم دیا ہے اس کی مثال حدیث میں موجود ہے کہ رجم کا
حکم توریت سے لیا گیا ارتاد اور عہد شکنی کی سزا توریت کے مطابق ہے
قرآن میں موجود ہے کہ توریت میں الله کا حکم لکھا تھا آنکھ کے بدلے آنکھ ..یہ حکم
قرآن میں موجود نہیں تھا جبکہ یہ سن ٩ہجری کا دور ہے جب سورہ مائدہ نازل ہوئی
یہاں تک کہ اس حکم کو قرآن میں بیان کیا گیا
اس سے ظاہر ہے کہ قرآن اور توریت دو الگ کتب ہیں ایک ہی نہیں تھیں ان کی زبان ان
کے احکام میں فرق ہو سکتا ہے لیکن اصل میں دونوں من جانب الله تھیں
اس کی مثال اس طرح بھی ہے کہ قرآن میں حج کا حکم فرض ہے جبکہ حج قرآن کے
مطابق رصف اسمعیل و ابراہیم و محمد علیھام السالم نے کیا ہے
ظاہر ہے اگر ایک ہی کتاب ہوتی تو متام انبیاء پر حج فرض ہو جاتا ہے اور ہم کو معلوم
ہے کہ سب نے حج بیت الله نہیں کیا
الجان اور الجن ایک ہی مخلوق نہیں ہے۔ الجان وہ مخلوق ہیں جو اگ سے بنائی گئی
تھی اور وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ الجن اگ والی مخلوق نہیں ہے بلکہ ہر وہ
چیز جو ہامرے نظر سے اوجھل ہو اس چیز پر جن کا اطالق ہوتا ہے مثال جو انسان پہاڑی
عالقوں میں رہتے ہیں اور عام معارشے سے ان کا رابطہ نہ ہو تو ان پر بھی جنات کا
اطالق ہوتا ہے اس کے عالوہ وہ انسان جو عام معارشے میں رہتے ہیں لیکن انکے کرتوت
باقی لوگوں سے پوشیدہ یا خفیہ ہوتے ہیں تو ان پر بھی جنات کا اطالق ہوتا ہے۔ عرب
معارشے میں اس بندے کو بھی جن کہا جاتا ہے جو کسی جگہ میں جاکر بہت جلدی
واپس پہنچھتا ہے یعنی اپنا کام انتہائی جلدی سے ختم کرتا ہے۔ کچھ لوگ الجان کی
تعریف اسی طرح کرتے ہیں کہ الجان ادم کے طرح پہال جن تھا جس کو اللہ پاک نے اگ
سے بنایا تھا اور پھر اس ایک الجان سے جنات وجود میں اگئے لیکن یہ مفروضہ قران کے
خالف ہے کیونکہ قران کے مطابق الجان انسانوں کے طرح مخلوق تھے اور اس کی دلیل
سورہ رحمن میں ملتا ہے۔ سورہ رحمن کے ایت منرب 14اور 15میں اللہ پاک کا ارشاد پاک
:ہے
ََ َ ا ا َ َ ا َا َ َ ا
صال کال َف َّخ ِار ﴿ۙ۱۴۔ اَلنسان ِمن صل خلق ِ
َّ ا َّ ا َّ َ ََ َ ا َٓ
و خلق الجان ِمن م ِارج ِمن نار ﴿ۚ}۱۵۔
اس نے انس ان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی ۔ اور جنات کو
آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔
ایت منرب 14میں اللہ پاک انسان کی پیدائیش کا زکر کرتا ہے رصف ایک ادم کی نہیں بلکہ
متام انسانی مخلوق کا زکر کر رہا ہے جبکہ ایت منرب 15میں اللہ پاک الجان کی پیدائیش
ک ا زکر کر رہا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اور الجان دو الگ الگ مخلوق
ہیں اور الجان ایک ہی بندہ یعنی جنات کا جد مراد نہیں ہے بلکہ الجان سے مراد وہ متام
مخلوق مراد ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔ اگر الجان جنات کی جد کا نام ہے تو پھر
اس ایت میں اللہ پاک اس کو انسان کے ہم منصب کے طور پر یا انسان کے مقابلے میں
استعامل نہیں کرتا بلکہ اس ایت میں پھر اللہ پاک الجان کے بجائے جنات یا جن کا لفظ
استعامل کرتا اور یا الجان کے مقابلے میں انسان کے بجائے ادم کا نام لکھتا لیکن نہیں
کیونکہ الجان ہی انسان کے ہم منصب مخلوق ہے جو اگ سے بنائے گئے تھے۔
اس ایت میں بھی اللہ پاک نے انسان کے مقابلے میں الجان کا لفظ استعامل کیا جس سے
ثابت ہوتا ہے کہ انس یا انسان کا ہم منصب الجان ہی ہے اور اس ایت سے یہ بھی ثابت
ہوتا ہے کہ الجان جنات کی جد کا نام نہیں ہے بلکہ الجان خود ایک مخلوق ہیں کیونکہ
اس الجان کو اللہ پاک نے اس ایت میں انسان کے ہم منصب کے طور پر استعامل کیا۔
اگر الجان جنات کی جد کا نام ہوتا تو پھر اس کو اللہ پاک کبھی بھی انسان کے ہم منصب
یا مقابلے میں استعامل نہیں کرتا بلکہ پھر اللہ پاک اس کو ادم کے مقابلے میں استعامل
کرتا۔
سورہ رحمن کے ان دالئیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ الجان جنات کے جد کا نام نہیں ہے
بلکہ انسان کا ہم منصب مخلوق ہے جس کو اگ سے بنایا گیا تھا۔
جواب
جس نے یہ اقتباس لکھا ہے اس کو بتانا چاہیے کہ کیا جن وہ ہیں جو شہروں میں نہیں
رہتے ؟ یا کوئی اور مخلوق جس پر شہاب پھینکا جاتا ہے
راقم کہتا ہے الجان الجن کی جمع ہے – یہ عربی لغت میں موجود ہے
یہاں جان پر ال لگا ہے یعنی کوئی مخصوص سانپ ہے جس کی وضاحت کی گئی کہ
سیفد اژدھا
امام بخاری صحیح میں لکھتے ہیں
َوال َحيَّاتُ أَ ْجنَاس ،ال َجا ُّن َواألَفَا ِعي َواألَ َسا ِو ُد
حیات (یعنی سانپوں) کی جنس ہیں
الجان اور األَفَا ِعي اور األَ َسا ِو ُد
األَفَا ِعي سے ہی اردو میں افعی کا لفظ نکال ہے جو سانپ پر استعامل ہوتا ہے
جان کا لفظ اسم الجمع کے طور پر
عربی میں یہ بات معلوم ہے کہ الف الم لگنے پر اسم معرفہ ہو جاتا ہے اس بنا پر الجان
اسم معرفہ جمع ہے لہذا اگر جان پر الجان آئے تو سانپ نہیں مخلوق جن لیا جائے گا
سورہ رحامن
ََ َ ا ا َ َ ا َا َ َ ا
صال کال َف َّخ ِار ﴿ۙ۱۴۔ اَلنسان ِمن صل خلق ِ
َّ ا َّ ا َّ َ ََ َ ا َٓ
و خلق الجان ِمن م ِارج ِمن نار ﴿ۚ}۱۵۔
اس میں نکتہ سنجی کی جاتی ہے کہ شیطان کو اگ سے اور الجان کو اگ کی پلٹ سے
بنایا
لیکن یہ بے وقوفی کی باتیں ہیں کیونکہ اصال عنرص ایک ہی رہتا ہے
گیلی مٹی ہو سنسناتی مٹی ہو بلبلوں والی مٹی ہو اس سے مختلف طرح کے انسان قرآن
نے نہیں بنائے ان سب کا اطالق آدم پر کیا ہے
سائنس میں اگ جلتی ہوئی گیس ہے جس میں آکسیجن ہو اور ریایکشن میں کاربن ڈآئی
آکسائڈ اور پانی نکل رہا ہو
اس تناظر میں اگ یا اگ کی لپٹ میں کوئی فرق نہیں رہتا
الجان کو انسان کے ہم منصب کے طور پر یا انسان کے مقابلے میں استعامل اس لئے کیا
گیا کیونکہ جنات و انسان مکلف مخلوقات ہیں
نوٹ :وہ سانپ جو آبادی میں رہتے ہوں ان کو جان کے عالوہ عوامر بھی کہتے ہیں
إن لهذه البيوت عوامر فإذا رأيتم شيئا منها فحرجوا عليها ثالثا فإن ذهب وإال فاقتلوه فإنه
كافر
ان گھروں میں سانپ ہیں پس جب تم ان کو دیکھو تو تین دن دیکھو اگر نہیں جائیں تو
ان کو قتل کر دو یہ کافر ہیں
عربی میں عامر کا مطلب آباد کرنے واال ہے اور اسی مادہ سے عوام اور پھر عوامر نکال
ہے
بعض راویوں نے اس میں خلط ملط کر دیا مثال صحیح مسلم میں ہے
ِإ َّن بِالْ َم ِدي َن ِة ِج ىنا قَ ْد أَ ْسلَ ُموا ،فَ ِإذَا َرأَيْ ُت ْم ِم ْن ُه ْم شَ ْي ًئا ،فَآ ِذنُو ُه ث َالَ ث َ َة أَيَّام ،فَ ِإ ْن بَدَا لَكُ ْم بَ ْع َد ذَلِ َك،
فَاقْتُلُو ُه ،فَ ِإمنَّ َا ُه َو شَ يْطَان
مدینہ میں جن ہیں جو مطیع ہو گئے ہیں ان کو دیکھو تو ان کو تین دن کا اذن دو اس
کے بعد قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان ہے
الفاظ ہیں مدینہ میں جن ہیں اور دورسی حدیث میں ہے عوامر ہیں یعنی سانپ کی بات
کی گئی تھی
ان کو قتل کر دو تو یہ قتل سانپ کا ہی ممکن ہے جن کا قتل ہم نہیں کر سکتے وہ اپنی
ہیت نہیں بدلتے اور جو سمجھتے ہیں کہ جن ہیت بدل سکتے ہیں جب وہ دیکھیں گے
کہ کوئی مارنے آ رہا ہے وہ غائب ہو جائیں گے
لہذا صحیح بات یہی ہے کہ درست ترجمہ ہو گا
ِإ َّن بِالْ َم ِدينَ ِة ِجنىا قَ ْد أَ ْسلَ ُموا ،فَ ِإذَا َرأَيْتُ ْم ِمنْ ُه ْم شَ يْئًا ،فَآ ِذنُو ُه ث َالَ ث َ َة أَيَّام ،فَ ِإ ْن بَدَا لَكُ ْم بَ ْع َد ذَلِ َك،
فَاقْتُلُو ُه ،فَ ِإمنَّ َا ُه َو شَ يْطَان
مدینہ میں سانپ ہیں جو مطیع ہو گئے ہیں ان کو دیکھو تو ان کو تین دن کا اذن دو اس
کے بعد قتل کر دو کیونکہ یہ شیطان (مبعنی رشیر) ہیں
اور انسان کے پیدائیش سے پہلے ہم نے جان کو لو والی اگ سے پیدا کیا۔
قران میں جہاں کہی بھی “من قبل” کا لفظ اجائے یعنی قران میں جب بھی قبل ،قبلکم،
من” اجائے تو پھر وہ چیز رضور ماضی کا حصہ “قبلھم وغیرہ الفاظ سے پہلے اگر لفظ
ہوتا ہے
سب سے پہلے تو یہ بات ذھن میں رکھئے کہ قران میں اللہ پاک جان کی پیدائیش کا
زکر اگ سے کررہا ہے۔ قران میں ایک بھی ایت ایسی نہیں ہے جس میں اللہ پاک جن کی
پیدائیش کا زکر اگ سے کرتا ہو۔ اس کے عالوہ اس ایت میں سب سے بڑا دلیل “من قبل”
ہے۔ قران میں جہاں کہی بھی “من قبل” کا لفظ اجائے یعنی قران میں جب بھی قبل،
قبلکم ،قبلھم وغیرہ الفاظ سے پہلے اگر لفظ “من” اجائے تو پھر وہ چیز رضور ماضی کا
حصہ ہوتا ہے اور اس چیز کا وجود پھر حارض وقت میں نہیں ہوتا۔ اس کے قران میں ال
تعداد دالئیل موجود ہیں لیکن تحریر کے اختصار کے لیے میں ان میں سے رصف چند
:دالئیل پیش کرونگا
:پہال دلیل
:سورہ الحج ایت منرب 78میں اللہ پاک فرماتا ہے
َ َ ُ اُ َّ َ َ ُ
ِملة ا ِب ایک ام ِا اب ٰر ِہ ای َم ؕ ُہ َو َس ّٰمىک ُم اْل اس ِل ِم اي َن ۬ ۙ ِم ان ق اب ُل َو ِف ای ٰہذا ۔
دین اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السالم ) کا قائم رکھو اسی اللہ نے متہارا نام مسلامن رکھا ہے
اس قرآن سے پہلے اور اس قران میں بھی۔
اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اس قران سے پہلے ہم نے پہلے رشیعتوں میں بھی
متہارا نام مسلم رکھا تو قران کے نزول کے وقت وہ پرانے لوگ یا رشیعت جس کا نام
املسلمین رکھا وہ قران کے نزول کے وقت موجود نہیں تھے۔ من قبل کا مطلب یہ ہوا کہ
قران کے نزول کے وقت جن لوگوں کے لئے املسلمین کا نام رکھا وہ لوگ موجود نہیں
تھے بلکہ پہلے گزرچکے تھے۔
:دورسا دلیل
:سورہ ال عمران ایت منرب 144میں اللہ پاک فرماتا ہے
اس ایت میں بھی “من قبل” کا لفظ ایا ہے جس کے زریعے اللہ پاک یہ فرمارہا ہے کہ
محمد علیہ السالم سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں یعنی محمد علیہ السالم جب
مبعوث ہورہا تھا تو محمد علیہ السالم سے پہلے جتنے بھی رسول تھے وہ اس دنیا سے
چلے گئے تھے۔ تو “من قبل” ہمیشہ کے لئے اس بات کے لئے استعامل ہوتا ہے جس کا
خامتہ پہلے ہوچکا ہو اور وہ بات یا وہ چیز ماضی کا حصہ بن چکا ہو تو بلکل اسی طرح
ادم کے پیدائیش کے وقت ادم سے پہلے متام جنات کا خامتہ “من قبل” سے ہوچکا تھا۔
:تیسی دلیل
:سورہ ال عمران ایت منرب 137میں اللہ پاک فرماتا ہے
ُ اُ َ ا َا َ ا ُ ُ ا َ ا َ
ف َک َ َ ا ََ ا ا َا ُ ا ُ َ ٌ َ اُ ا
ان َعا ِق َبة اْلک ِذ ِب اي َن ض فانظروا کی قد خلت ِمن قب ِلکم سنن ۙ ف ِسيروا ِفی اَلر ِ
﴿﴾۱۳۷
تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گُزر چکے ہیں ُ ،سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ (
آسامنی تعلیم کے ) ُجھٹالنے والوں کا کیا انجام ہوا؟
اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ تم سے پہلے بہت سے واقعات گزر چکے ہیں یعنی
یہ واقعات ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اب وہ واقعات موجود نہیں ہے تو اس ایت میں
بھی “من قبل” نے یہ ثابت کردیا کہ قران میں جہاں کہی بھی قبل ،قبلکم یا قبلھم سے
پہلے “من” اجائے تو وہ بات ،واقعہ یا چیز ماضی کا حصہ ہوتی ہے اور اس کا وجود
موجودہ وقت میں نہیں ہوتا۔
:چھودویں دلیل
:سورہ ال عمران ایت منرب 3میں اللہ پاک فرماتا ہے
َ َّ َ ا َا َن َّز َل َع َل ای َک االک ٰت َب ب اال َحق ُم َ ً َ َ َ
اَل ان ِج ای َل ۙ ِم ان ق اب ُل ُہ ًدی
ص ِدقا ِْلا َب اين َید ای ِہ َو ان َز َل الت او ٰرىة َو ِ ِ ِ ِ
ل َّلناس َو َا ان َز َل اال ُف ار َق َ
ان۔ ِ ِ
اس ایت میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اس قران سے پہلے ہم نے تورات اور انجیل کو لوگوں
کے ھدایت کے لئے نازل کی تھی۔ اس ایت میں بھی “من قبل” نے یہ ثابت کیا کہ “من
قبل” جس بات ،حکم یا چیز کے ساتھ اجائے تو وہ بات ،حکم یا چیز ماضی کا حصہ ہوتی
ہے اور وہ موجودہ وقت میں موجود نہیں ہوتا۔ اللہ پاک نے پرانے کتابوں کو ختم کرکے
نیا کتاب یعنی قران نازل کیا۔ قران کے نزول سے پرانے کتابیں منسوخ ہوگئی۔
جواب
عربی زبان قرآن نازل ہونے سے پہلے سے ہے اور اس میں قبل کا مطلب وہی ہے جو اردو
میں لفظ پہلے کا ہے – یہ نہیں کہ جس کی بات ہو رہی ہے وہ یقینا معدوم وجود ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے انبیاء آئے ان کی وفات ہوئی لیکن ان سے پہلے سے
امت موسی و امت عیسی موجود ہے یا یہود و نرصانی موجود ہیں اس کا مطلب یہ نہیں
کہ یہود و نرصانی معدوم ہیں
اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسی کی کتاب دنیا سے معدوم ہو گئی بلکہ قرآن میں ہے
سورہ مائدہ
ِيل ِ ِ
َشء َحتَّى تُقي ُموا التَّ ْو َرا َة َو ْاْلنْج َ ق ُْل يَاأَه َْل الْكتَ ِ
اب ل َْستُ ْم َع َل َ ْ ِ
اے اہل کتاب تم کچھ نہیں یہاں تک کہ تم توریت و انجیل کو قائم کرو
یعنی دور نبوی میں یہ کتب موجود تھیں تبھی ان کو قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے –
اہل کتاب کے علامء کو علم تھا کہ اصل توریت کیا ہے اصل انجیل کیا ہے لیکن اس کو
قائم نہیں کر رہے تھے
قرآن میں ہے جنات کو انسانوں سے قبل تخلیق کیا یہ نہیں کہ یہ معدوم ہو گئے
عقل کی بات ہے کہ انبیاء وفات پا گئے لہذا ان کے حوالے دے کر یا معذب قوموں کے
حوالے دے کر یہ ثابت کرنا کہ قبل سے مراد عدم وجود ہے جہالت ہے
کیونکہ ظاہر ہے ان کی وفات ہو گئی
قرآن سورہ حدید میں ہے
ال يَ ْستَوِي ِمنْكُ ْم َم ْن أَنْف ََق ِم ْن قَ ْب ِل الْ َفتْحِ َوقَات ََل أُولَ ِئ َك أَ ْعظَ ُم َد َر َج ًة ِم َن الَّ ِذي َن أَنْ َفقُوا ِم ْن بَ ْع ُد
} َوقَاتَلُوا
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه
(دورسوں کے) برابر نہیں،
یہاں ہے من قبل اور جنات والی آیت میں بھی من قبل ہے
) ( 27والجان خلقناه من قبل من نار السموم
سورہ حجر
و ِم ْن آيَاتِ ِه اللَّيْ ُل َوالنَّ َها ُر َوالشَّ ْم ُس َوالْ َق َم ُر َال ت َْس ُجدُوا لِلشَّ ْم ِس َو َال لِلْ َق َم ِر َو ْاس ُجدُوا لِلَّ ِه الَّ ِذي
َخلَ َق ُه َّن ِإن كُنتُ ْم إِيَّا ُه ت َ ْع ُبدُو َن
اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں ،نہ سورج کو سجدہ کیا
کرو اور نہ ہی چاند کو ،اور سجدہ رصف اﷲ کے لئے کیا کرو جس نے اِن (سب) کوخلق
کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو
ات َو َم ْن ِف ْاألَ ْر ِض َوالشَّ ْم ُس َوالْ َق َم ُر َوالنُّ ُجو ُم َوالْ ِج َب ُال الَ ْم ت َ َر أَ َّن اللَّ َه يَ ْس ُج ُد لَ ُه َم ْن ِف َّ
الس َام َو ِ
َاب َو َم ْن يُهِنِ اللَّ ُه ف ََام لَ ُه ِم ْن ُمكْرِم ِإ َّن ُ ذ عَ ْ ل ا ِ
ه ي
ْ َ لعَ ق
َّ ح
َ ُي ِ
ث ك
َ و
اس َ اب َوكَ ِثُي ِم َن النَّ ِ َوالشَّ َج ُر َوال َّد َو ُّ
اللَّ َه يَ ْف َع ُل َما يَشَ ا ُء
کیا تم دیکھتے نہیں الله کو سجدہ کر رہے ہیں جو آسامنوں میں ہیں اور جو زمین میں
ہیں اور سورج اور چند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے ایسے جن
پر عذاب ثبت ہو چکا -قرآن میں اصول بیان ہوا ہے کہ غیر الله کو سجدہ حرام ہے اور یہ
اس وقت بھی حرام تھا جب انسان نہ تھا – بعض گمراہ لوگ اس آیت کی تاویل کرتے
ہیں کہ اگر سجدہ تعظیمی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم الله کی عبادت کرتے
ہیں اور سجدہ تعظیمی کرتے وقت ہامری نیت عبادت کی نہیں ہوتی
یہ بھی کہتے ہیں کہ سجدہ تعظیمی تقوے سے بھرپور ایک عمل تھا جس کی گواہی
خود قرآن نے یوسف کو سجدہ کرنے سے دی
سوره یوسف میں بیان ہوا ہے کہ یوسف علیہ السالم نے ایک خواب دیکھا
رش كَ ْوكَبًا َوالشَّ ْم َس َوالْ َق َم َر َرأَيْتُ ُه ْم ِِل َساج ِِدي َن
وس ُف ِألَبِي ِه يَا أَبَ ِت إِ ِّّن َرأَيْ ُت أَ َح َد َع َ َ
ق ََال يُ ُ
اے میرے والد! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے،
میں نے دیکھا وہ مجھے سجدہ کررہے ہیں
یعقوب علیہ السالم نے اس خواب کو سننے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہامری رشیعت میں
سجدہ جائز ہے یہ کوئی خاص چیز نہیں بلکہ آپ علیہ السالم نے اندازہ لگا لیا کہ الله
کی طرف سے یوسف کی توقیر ہونے والی ہے .یعقوب علیہ السالم نے خواب چھپانے کا
حکم دیا
ق ََال يَا بُنَ َّي َال تَق ُْص ْص ُر ْؤيَ َاك َع َل ِإ ْخ َوت َِك فَ َي ِكيدُوا ل ََك كَ ْيدًا ِإ َّن الشَّ ْيطَا َن لِ ْ ِْلن َْسانِ َعدُو ُمبِي
کہا اے بیٹے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ورنہ وہ متھارے خالف سازش
کریں گے بے شک شیطان انسان کا کھال دشمن ہے
پھر یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا وہاں سے الله نے مرص پہنچایا اور
الله نے عزیز مرص کا وزیر بنوایا پھر قحط پڑنے کی وجہ سے بھائیوں کو مرص آنا پڑا اور
بالخر ایک وقت آیا کہ خواب سچ ہوا
َرفَ َع أَبَ َويْ ِه َع َل الْ َع ْر ِش َو َخ ُّروا ْ لَ ُه ُس َّجدًا َوق ََال يَا أَبَ ِت ھ۔ذَا تَأْو ُِيل ُر ْؤيَ َ
اي ِمن قَ ْب ُل قَ ْد َج َعلَ َها
َر ِّب َحقىا
اور احَّتام سے بٹھایا اس نے اپنے والدین کو تخت پر اور جھک گئے سب اس کے لئے
سجدے میں۔ (اس وقت) یُوسف نے کہا :ابا جان! یہ ہے تعبیر میرے خواب کی (جو
میں نے دیکھا تھا) پہلے۔ کر دکھایا ہے اسے میرے رب نے سچا
یہ ایک خاص واقعہ تھا اور اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا لیکن عوام میں اس سجدے
کے حوالے سے اشکال رہتا ہے کہ سجدہ کس نے کس کو کیا – آیت میں سجدہ کرنے
کے حوالے سے کئی آراء پائی جاتی ہیں
اہل تشیع کی ایک رائے :سجدہ الله کو تھا
اب الحسن عل بن ابراهيم القمي املتوفی ٣٢٩ھ کی تفسیر میں ہے کہ اس آیت میں
سجدہ الله کے لئے ہے
حدثني محمد بن عيَس عن يحيى بن اكثم وقال سأل موىس بن محمد بن عل بن موىس
مسائل فعرضها عل اب الحسن عليه السالم فكانت احديها اخربّن عن قول الله عزوجل
ورفع ابويه عل العرش وخروا له سجدا سجد يعقوب وولده ليوسف وهم انبياء ،فاجاب
ابوالحسن عليه السالم اما سجود يعقوب وولده ليوسف فانه مل يكن ليوسف وإمنا كان ذلك
من يعقوب وولده طاعة لله وتحية ليوسف كام كان السجود من املالئكة ْلدم ومل يكن ْلدم
إمنا كان ذلك منهم طاعة لله وتحية ْلدم فسجد يعقوب وولده وسجد يوسف معهم شكر
الله الجتامع شملهم
محمد حسن النجفي االصفهاّن کتاب جواهر الكالم ج – 10ص 129 – 126میں کہتے
ہیں
وخروا له سجدا ” قيل :إن السجود كان لله شكرا له كام يفعل الصالحون عند تجدد النعم ،
والهاء ف قوله تعال ” له ” عائدة إل الله ،فيكونون سجدوا لله وتوجهوا ف السجود إليه كام
يقال صل للقبلة ،وهو املروي عن أب عبد الله ( عليه السالم ) وف املحك عن تفسُي عل
بن إبراهيم عن محمد بن عيَس عن يحيى بن أكثم ” إن موىس بن محمد سئل عن
مسائل فعرضت عل أب الحسن عل بن محمد ( عليهام السالم ) فكان منها أن قال له :
أخربّن عن يعقوب وولده اسجدوا ليوسف وهم أنبياء ؟ فأجاب أبو الحسن ( عليه السالم )
سجود يعقوب وولده مل يكن ليوسف ،إمنا كان ذلك منهم طاعة لله وتحية ليوسف ،كام أن
السجود من املالئكة ْلدم كان طاعة لله وتحية ْلدم ،فسجود يعقوب وولده شكرا لله
الجتامع شملهم ،أال ترى أنه يقول ف شكر ذلك الوقت رب قد آتيتني من امللك ” اْلية وف
املحك عن تفسُي العسكري عن آبائه عن النبي ( عليهم الصالة والسالم ) قال ” :مل يكن
سجودهم يعني املالئكة ْلدم ،إمنا كان آدم قبلة لهم يسجدون نحوه لله عز وجل ،وكان
بذلك معظام مبجال ،وال ينبغي أن يسجد ألحد من دون الله يخضع له كخضوعه لله ،
ويعظمه بالسجود له كتعظيم الله ،ولو أمرت أحدا أن يسجد هكذا لغُي الله ألمرت ضعفاء
شيعتنا وسائر املكلفي من شيعتنا أن يسجدوا ملن توسط ف علوم عل ويص رسول الله (
عليهام الصالة والسالم ) ومحض ‹ صفحة › 127وداد خُي خلق الله عل ( عليه السالم ) بعد
محمد رسول الله ( صل الله عليه وآله ) ” إل غُي ذلك من النصوص ،فالالئق حينئذ لزائري
أحد املعصومي ( عليهم السالم ) أن يَّتكوا هذا الصورة التي يفعلها السواد إال إذا قرنت
بأحد الوجوه التي سمعتها ف النصوص مام ينفي كونها لغُي الله ،ويشبه ما يقع من
االستحسان من بعض الناس بجعل السجود ألمُي املؤمني ( عليه السالم ) زيادة ف تعظيم
الله باعتبار أن وعوعه له من جهة مرتبته عند الله وعظمته وعبوديته – فالسجود له حينئذ
زيادة ف تعظيم الله – ما وقع ف أذهان املرشكي الذين حاجهم النبي ( صل الله عليه وآله
) مبا سمعت ،والله أعلم
وخروا له سجدا کہا جاتا ہے ان کا سجدہ ایسا ہی تھا جیسا الله کو شکر کرنے کے لئے
صالح لوگ کرتے ہیں نعمت ملنے پر اور اس میں الھا جو قول میں له ہے الله کے لئے ہے
کہ پس الله کے لئے سجدے میں گئے اور اور سجدے میں متوجہ ہوئے اس کی طرف
جیسا کہا جاتا ہے قبلے کے لئے مناز پڑھو اور یہ مروی ہے امام جعفر علیہ السالم سے
اور بیان ہوا ہے تفسیر علی بن ابراہیم عن محمد بن عيَس عن يحيى بن أكثم سے کہ بے
شک موسی بن محمد نے سوال کیے جن کو علی نے ابی حسن علی بن محمد پر پیش
کیا پس ان میں سے کسی نے کہا مجھ کو خرب دیں یعقوب اور ان کی اوالد کی یوسف کو
سجدے کے بارے میں کہ انہوں نے یوسف کو سجدہ کیا جبکہ انبیاء ہیں ؟ پس امام ابو
حسن نے جواب دیا یعقوب اور ان کے بیٹوں کا سجدہ یوسف کے لئے نہ تھا ان کا سجدہ
الله کی اطاعت اور یوسف کا ادب تھا جیسے فرشتوں کا سجدہ الله کی اطاعت اور آدم
کی تکریم تھا پس یعقوب کا سجدہ اور ان کی اوالد کا سجدہ الله کا شکر تھا اس وقت
ساتھ ملنے پر -کیا تم نے دیکھا نہیں؟ انہوں نے شکر میں اس وقت کہا الله نے بے شک
مجھ کو ملک دیا آیت اور املحك ،امام عسکری کی تفسیر میں ہے اپنے ابا سے وہ
رسول الله سے کہ ان فرشتوں کا سجدہ آدم کے لئے نہ تھا بلکہ آدم ان کے لئے قبلہ منا
تھا سجدے کے لئے الله کی طرف سے اور اس میں عظمت و جاللت تھی اور کسی کے
لئے جائز نہیں کہ غیر الله کو سجدہ کرے اس سے خضوع کرے جیسا الله سے کیا جاتا
ہے اور سجدہ کر کے تعظیم کرےجیسے الله کی کی جاتی ہے اور اگر اس کا حکم کرتا
کہ کوئی غیر الله کو سجدہ کرے تو اپنے کمزور شیعوں کو اور متام مکلفین کو کرتا کہ
ان کو سجدہ کرو جن کے توسط سے الله کے وصی علی کے علوم ملے
ورفع ابويه عل العرش قال :العرش السير ،وف قوله :وخروا له سجدا قال كان سجودهم
.ذلك عبادة لله
أب عبدالله عليه السالم نے الله کے قول اور اس نے والدین کو عرش پر بلند کیا کہا عرش
تخت اور قول اس کے لئے سجدے میں گر گئے کہا ان کا سجدہ تھا الله کی عبادت کے
لئے
أب جعفر محمد بن الحسن الطوِس تفسیر تبیان میں کہتے ہیں
الثاّن انهم سجدوا إل جهة يوسف عل وجه القربة إل الله ،كام يسجد إل الكعبة عل وجه
.القربة إل الله
انہوں نے سجدہ کیا یوسف کی طرف الله کے قرب پانے کے لئے جیسا الله کا تقرب پانے
کے لئے کعبه رخ ہوتے ہیں
التجريد لنفع العبيد = حاشية البجُيمي عل رشح املنهج (منهج الطالب اخترصه زكريا
األنصاري من منهاج الطالبي للنووي ثم رشحه ف رشح منهج الطالب) کے مطابق
الس ُجو َد ِعنْ َد ُه ْم كَا َن يَ ْجرِي َم ْج َراهَا َوقِ َيل َم ْعنَا ُه (قَ ْولُهَُ :و َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدًا) ت َِحيَّ ًة َوتَكْ ِر َم ًة فَ ِإ َّن ُّ
َخ ُّروا ِألَ ْجلِ ِه ُس َّجدًا لِلَّ ِه شُ كْ ًراَ ،وقِ َيل الضَّ ِم ُُي لِلَّ ِه َوالْ َوا ُو ِألَبَ َويْ ِه َو ِإ ْخ َوتِ ِه َوال َّرفْ ُع ُم َؤخَّر َع ْن الْ ُخ ُرو ِر
َو ِإ ْن قُ ِّد َم لَ ْفظًا لِ ِال ْهتِ َاممِ بِ َت ْع ِظي ِم ِه لَ ُه َام
الله تعالی کا قول َو َخ ُّروا َل ُه ُس َّجدًا یہ تحیت ہے اور تکریم ہے کیونکہ سجدہ ان کی طرف
سے ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ معنی ہے کہ وہ جھکے سجدے کے لئے تو یہ الله کا شکر
بجا النے کے لئے تھا اور کہا گیا ہے کہ ضمیر الله کی طرف ہے اور واو ان کے باپ اور
بھائیوں کے لئے … اور یہ لفظ ان کی تعظیم کے لئے ہے
کتاب النكت الدالة عل البيان ف أنواع العلوم واألحكام از أحمد محمد بن عل بن محمد
القصاب (املتوىف :نحو 360هـ) دار النرش :دار القيم – دار ابن عفان کے مطابق
الكَ َرجي َّ
وأما الذي عندي فَ ( :و َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدًا) أي :خر يوسف وإخوته وأبوه وخالته سجدا لله حيث
.جمع شملهم بعد تبديده
اور جو میرے نزدیک ہے کہ َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدًا وہ یہ ہے کہ یوسف جھک گئے اور ان کے
بھائی اور ان کے باپ اور خالہ بچھڑنے کے بعد ملنے پر الله کے لئے سجدہ میں
کتاب فتح الرحمن بكشف ما يلتبس ف القرآن از زكريا بن محمد بن أحمد بن زكريا
األنصاري ،زين الدين أبو يحيى السنيك (املتوىف926 :هـ) دار القرآن الكريم ،بُيوت – لبنان
1403هـ – 1983م کے مطابق
!إن قلتَ :كيف جاز لهم أن يسجدوا ليوسف ،والسجو ُد لغُي الله حرام؟
قلتُ :املرا ُد أنهم جعلوه كال ِقبْلَ ِة ،ثم سجدوا لل ِه تعال ،شكراً لنعمة ُو ْجدَان يوسف ،كام
.تقول :سجدتُ وصلَّيتُ لل ِقبْلة
الله تعالی کا قول ہے َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدا ً وہ سب سجدے میں جھک گئے آیت ہے
میں السنيك کہتا ہوں اس سے مراد ہے کہ انہوں نے ان کو قبلہ کیا پھر الله تعالی کے
شکر کے لئے سجدہ کیا یوسف کو پانے کی نعمت پر جیسا کہ کہا جاتا ہے سجدہ کیا اور
قبلہ کے لئے مناز پڑھی
کتاب معاّن القرآن أبو زكريا يحيى بن زياد بن عبد الله بن منظور الديلمي الفراء (املتوىف:
207هـ) کے مطابق
ُ » .سجود ت َحيَّة وطاعة ال لربوبية وهو مثل قوله ىف يوسف ( َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجداً) «5
سجدے تحیت اور رب کی اطاعت پر ہیں اور یہ یوسف کے لئے قول ہے اس کے لئے
سجدے میں جھک گئے
اہل سنت میں دورسی رائے ہے کہ یہ سجدہ بشکل رکوع یوسف تھا
کتاب حاشيتا قليوب وعمُية ج ١ص ٣٩از أحمد سالمة القليوب وأحمد الربلِس عمُية ،
دار الفكر – بُيوت الطبعة :بدون طبعة1415 ،هـ1995-م کے مطابق
ق ََال ابْ ُن َح َجرُ :صو َر ُة ال ُّركُو ِع الْ َواقِ َع ُة ِم ْن الْ َع َوام بَ ْ َي يَ َد ْي الْ َمشَ ايِخِ َح َرام َويَأْثَ ُم فَا ِعلُ َها َولَ ْو
بِطَ َها َرة َوإِ َل الْ ِقبْلَ ِةَ ،و ِه َي ِم ْن الْ َعظَائِمِ َ ،وأَخ ََْش أَ ْن تَكُو َن كُ ْف ًراَ ،وقَ ْو ُل اللَّ ِه ت َ َع َالَ { :و َخ ُّروا لَ ُه
ُس َّجدًا} [يوسف ]100 :أَ ْي ُركَّ ًعا إ َّما َمنْ ُسوخ أَ ْو أَنَّ ُه َ ْ
رش ُع َم ْن قَ ْبلَنَا
ابن حجر نے کہا :عوام میں (غیر الله کے لئے) رکوع کی صورت جو ہے یہ مشائخ کے
نزدیک حرام ہے اور اس کو کرنے والے پر گناہ ہے چاہے طہارت کے بغیر ہو قبلہ رخ نہ
بھی ہو اور یہ الْ َعظَائِمِ میں سے ہے اور خوف ہے کہ یہ کفر ہے اور الله تعالی کا قول وہ
سجدے میں جھک گئے یعنی رکوع میں تو یا تو یہ منسوخ ہے یا یہ پچھلی رشیعت میں
تھا
الس ُجو ُد تو یہ لغت میں کم ہونا یہ ذلت ہے اور ْخُضُ و ُع ہے … اور اس کا اور الله کا قول ُّ
اطالق رکوع پر بھی ہے اور الله تعالی کا قول { َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدًا} [يوسف ]100 :میں
یعنی أحمد سالمة القليوب وأحمد الربلِس عمُية کے نزدیک یہ سجدہ رکوع جیسا تھا یہ
یوسف کو ہوا لیکن اس میں اغلبا یہ انکی رشیعت میں تھا
اہل سنت میں تیسی رائے :سجدہ یوسف کو ہوا ،پچھلی رشیعت کے مطابق
محدث عثامن بن عبد الرحمن ،أبو عمرو ،تقي الدين املعروف بابن الصالح (املتوىف:
643هـ) فتاوى میں کہتے ہیں جب مسئلہ پیش ہوتا ہے
َم ْسأَلَة طَائِفَة من الْ ُف َق َراء يَ ْس ُجدُو َن بَعضهم لبَعض ويزعمون أَن ذَلِك تواضع لله وتذلل
للنَّفس ويستشهدون بقوله ت َ َع َال َورفع أَبَ َويْ ِه عل الْ َع ْرش وخروا لَ ُه سجدا فَ َهل يجوز أَو يحرم
يسجد ُم ْستَقْبل الْقبْلَة أم َال َوهل ْاْليَة ِف ذَلِك َمنْ ُسوخَة ِف مثل ذَلِك
َوهل ي ْختَلف مبِ َا ِإذا كَا َن ْ
أم الَ
أ َجاب َر ِض الله َعن ُه الَ يجوز ذَلِك َو ُه َو من عظائم ال ُّذنُوب ويخَش أَن يكون كفرا َو ُّ
الس ُجود
ِف ْاْليَة َمنْ ُسوخ أَو يتَأَ َّول َوالله أعلم
َم ْسأَلَة :فقراء (صوفیوں) کا ایک گروہ ایک دورسے کو سجدہ کرتا ہے اور دعوی کرتا ہے
کہ الله سے لو لگانا ہے اور نفس کی تذلیل کرنا ہے اور وہ استشھاد کرتے ہیں الله تعالی
کے قول سے َورفع أَبَ َويْ ِه عل الْ َع ْرش وخروا لَ ُه سجدا اور والدین کو عرش پر بٹھایا اور
جھک گئے ان کے لئے سجدے میں ،تو کیا جائز ہے یا حرام ہے اور کیا یہ اس سے
مختلف ہے جب قبلہ کو آگے کیا جائے یا نہیں یا یہ آیت منسوخ ہے یا نہیں
عثامن بن عبد الرحمن ،أبو عمرو ،تقي الدين املعروف بابن الصالح (املتوىف643 :هـ) رضی
الله عنہ نے جواب دیا یہ جائز نہیں ہے اور گناہ کبیرہ ہے اور خوف ہے کہ کفر ہے اور
اس آیت میں سجدے منسوخ ہیںانکی تاویل کی جائے
الكتاب :فتاوى نور عل الدرب از عبد العزيز بن عبد الله بن باز (املتوىف1420 :هـ) کے
مطابق
قالَ { :و َرفَ َع أَبَ َويْ ِه َع َل الْ َع ْر ِش َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدًا} ( ،)2وكانت السجدة ذلك الوقت مباحة
لْلكرام والتحية وليست للعبادة ،وكام سجد املالئكة ْلدم إكراما ،وتعظيام ال عبادة ،فهذه
السجدة ليست من باب العبادة ،بل هي من باب التحية واْلكرام ،وهي جائزة ف رشع من
قبلنا ،ولكن ف رشيعة محمد عليه الصالة والسالم ممنوع ذلك ،ولهذا ثبت عنه عليه الصالة
والسالم أنه قال« :لو كنت آمرا أحدا أن يسجد ألحد ألمرت املرأة أن تسجد لزوجها ،لعظم
») (1حقه عليها
بن باز نے کہا :الله کا قول { َو َرفَ َع أَبَ َويْ ِه َع َل الْ َع ْر ِش َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدًا} اس دور میں سجدہ
اکرام و تحیت کے لئےمباح تھا اور یہ عبادت نہ تھا جیسا کہ فرشتوں نے آدم عليه الصالة
والسالم کی تکریم کے وقت کیا اور تعظیم کے لئے کیا نہ کہ عبادت کے لئے پس یہ
سجدہ عبادت کے باب میں نہیں بلکہ تکریم میں ہے ،اور یہ پچھلی رشیعتوں میں جائز
تھا لیکن رشیعت محمد عليه الصالة والسالم میں ممنوع ہے اور یہ ثابت ہے عليه الصالة
والسالم سے فرمایا اگر میں کسی کو سجدے کا حکم کرتا تو عورت کو کرتا کہ وہ شوہر
کو کرے اس حق کی تعظیم پر جو شوہر کو اس پر ہے
اہل سنت میں چوتھی رائے :سجدہ بس مشیت الہی کے تحت ہو گیا
کتاب منهج شيخ اْلسالم محمد بن عبد الوهاب ف التفسُي از مسعد بن مساعد الحسيني
الجامعة اْلسالمية باملدينة املنورة کے مطابق
كذا قوله عند قول الله تعال إخبارا ً عن يوسف عليه السالمَ { :و َرفَ َع أَبَ َويْ ِه َع َل الْ َع ْر ِش َو َخ ُّروا
لَ ُه ُس َّجدا ً … } اْلية إل قولهِ { :إ َّن َر ِّب ل َِطيف لِ َام يَشَ ا ُء ِإنَّ ُه ُه َو الْ َعلِي ُم الْ َح ِكي ُم} .7رد هذه
املسألة الجزئية إل القاعدة الكلية وهي :إنه ربه تبارك وتعال لطيف ملا يشاء ،فلذلك أجرى
ما أجرى
الله تعالی نے یوسف علیہ السالم کے حوالے سے خرب دی { َو َرفَ َع أَبَ َويْ ِه َع َل الْ َع ْر ِش َو َخ ُّروا
لَ ُه ُس َّجدا ً … } اْلية إل قولهِ { :إ َّن َر ِّب ل َِطيف لِ َام يَشَ ا ُء ِإنَّ ُه ُه َو الْ َعلِي ُم الْ َح ِكي ُم} … بے شک
الله تعالی غیر محسوس انداز میں چاہتا ہے پس یہ سجدہ جاری ہوا جو ہو گیا
اہل سنت میں ایک رائے یہ ہے کہ سجدہ یوسف کو ہی ہوا اس کی تاویل کرنا صحیح
نہیں
السجود املذكور ف اْلية األول رؤيا منام ،واملذكور ف اْلية األخرى هو وقوعها ،وأبواه:
يعقوب عليه السالم وأم يوسف وقيل بل خالته ،وظاهر القرآن أنها أمه ( ، )2والذين خروا له
سجدا أبواه ،وذلك مصداق رؤيا الشمس والقمر ،وإخوته األحد عرش وذلك مصداق رؤيا
.األحد عرش كوكبا
اس آیت میں جو سجدے مذکور ہیں وہ نیند میں دیکھے اور دورسی آیت میں یہ واقعہ
ہوئے اور والدین سے مراد یعقوب علیہ السالم اور ام یوسف ہیں اور کہا جاتا ہے انکی
خالہ لیکن قرآن کا ظاہر ہے کہ یہ والدہ ہیں اور وہ جو سجدہ میں جھکے وہ والدین ہیں
جو سورج و چاند کا مصداق تھے اور ان کے بھائی گیارہ ستارے ہیں
وقد أجمع املفسون أن سجود أبوي يوسف وإخوته عل أي هيئة كان فإمنا كان تحية ال
عبادة ( ، )6واألظهر أنه كان عل الوجوه وليس انحناء وال إمياء لقوله تعال { َو َخ ُّروا لَ ُه
ُ (8) .س َّجدًا} ( ، )7قال الجوهري (ت393هـ) (( :وخ َّر لله ساجدا ي ِخ ُّر ُخ ُرورا أي :سقط))
وقيل الضمُي ف {لَهُ} لله عز وجل وهو قول مردود ( ، )1وال يلتئم مع السياق ،وال يتوافق
رش كَ ْوكَ ًبا َوالشَّ ْم َس َوالْ َق َم َر َرأَيْ ُت ُه ْم ِِل َسا ِج ِدي َن}
مع الرؤيا ( )2ف قوله تعال{ :إِ ِّّن َرأَيْ ُت أَ َح َد َع َ َ
( .يوسف)4/
وقال الزمخرشي (ت538هـ) (( :وقيل معناه :وخروا ألجل يوسف سجدا لله شكرا وهذا أيضا
(3) .فيه نَبْوة))
وكل هذه التأويالت الضعيفة ألجل الخروج من أن يكون السجود لغُي الله ،ومن استبان له
.تاريخ السجود زالت عنه هذه اْلشكاالت
مفسین کا اجامع ہے کہ یوسف کے والدین اور بھائیوں کا سجدہ تکریم کے تحت تھا نہ
کہ عبادت کے لئے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ سجدہ چہرے پر تھا اور یہ ذرا جھکنا یا
رس ہالنا نہ تھا کہ الله تعالی کا قول ہے اس کے لئے سجدے میں جھک گئے اور
الجوهري (ت393هـ) نے کہا اور سجدے میں الله کے لئے جھک گئے گرے یعنی گر
پڑے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں {لَهُ} کی ضمیر الله تعالی کے لئے ہے اور یہ قول
مردود ہے یہ سیاق و سباق سے نہیں ملتا نہ خواب سے موافقت رکھتا ہے کیونکہ الله کا
قول ہے یوسف نے کہا میں نے دیکھا گیارہ ستارے اور سورج و چاند میرے لئے سجدہ
کر رہے ہیں اور الزمخرشي (ت538هـ) نے کہا وہ گرے یوسف کی وجہ سے الله کو
سجدے کرتے ہوئے اور یہ بھی بشارت میں تھا اور یہ متام تاویالت کمزور ہیں کہ اس
سے یہ نکالنا کہ یہ سجدے غیر الله کو تھے اور جو تاریخ سے واقف ہو تو یہ متام
اشکاالت ختم ہو جاتے ہیں
بحث
سجدہ الله تعالی کے لئے ہوا یا یوسف علیہ السالم کو قبلہ مانتے ہوئے ہوا یہ قرآن میں
رصیحا نہیں آیا اور جو سیاق و سباق ہے اس میں کوئی قرینہ اس تاویل کے لئے نہیں ہے
البتہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ مان لیا کہ یہ سجدہ یوسف علیہ السالم کو ہوا تو
یہ رشک ہے جس کا صدور انبیاء سے ممکن نہیں ہے – یہ بات درست ہے کہ انبیاء وہ
عمل نہیں کرتے جس سے الله نے منع کیا ہے لیکن بے ساختہ و بال ارادہ کسی عمل کا ہو
– جانا ممکن ہے
قرآن کے الفاظ َو َخ ُّروا ْ لَ ُه ُس َّجدًا سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک بے اختیاری فعل تھا کیونکہ
سب بال قیل و قال جھک گئے .یہ سب الله کی مشیت کے تحت ہوا کیونکہ یہ خواب کی
عملی شکل تھا جو یوسف نے دیکھا اور اس خواب کے حوالے سے وہ خود خلجان میں
تھے کہ انہوں نے یہ کیا دیکھا ہے اسی لئے انہوں نے اس کا تذکرہ رصف اپنے والد سے
خفیہ کیا .اگر اس زمانے کی رشیعت میں اس کی اجازت ہوتی تو پھر یہ کوئی عجیب بات
بھی نہیں تھی اور اتنا خفیہ اس کو رکھنے کی رضورت بھی نہیں تھی
کہا جاتا ہے کہ یوسف علیہ السالم نے جو خواب دیکھا وہ متثیل تھا – سوره یوسف میں
چار خواب بیان ہوئے ہیں ایک نبی کا ہے اور تین غیر نبی پر ہیں یعنی بادشاہ اور دو
قیدی – اس میں غیر نبی پر انے والے خواب متثیل کے انداز کے تھے اوران کی تاویل
کوئی نہ کر سکا سوائے یوسف علیہ السالم کے – قرآن و حدیث سے ہمیں معلوم ہے کہ
انبیاء پر متثیلی خواب بھی اتے ہیں اور ایسے بھی جو روز روشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں
مثال نبی صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا وہ کعبه کا طواف کر رہے ہیں لہذا اس کو اس
کے ظاہر پر لیا اور مکہ گئے لیکن حدیبیہ پر کفار نے روک لیا لیکن الله نے خرب دی کہ
خواب یقینا سچا ہے ان شاء الله اپ مسجد الحرام میں داخل ہوں گے -اسی طرح اپ صلی
الله علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ میں لیلہ القدر کی رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں
اور ایسا ہی ہوا کہ موسال دھار بارش ہوئی اور اپ صلی الله علیہ وسلم نے کیچڑ میں
سجدہ کیا – اس کے عالوہ سمرہ بن جندب کی روایت کو بھی ظاہر پر علامء نے لیا ہے
کہ عامل الربزخ میں یہ سب اسی طرح قیامت تک ہو گا جس کی آج فرقہ پرست تاویل
کرتے ہیں کہ یہ متثیلی انداز تھا – انبیاء پر خواب متثیلی بھی ہوتے ہیں جس کی بہت
سی مثالیں ہیں لیکن جب بھی متثیل خواب ہوتا ہے اسی روایت میں اس کی رشح بھی
ہوتی ہے لہذا جب خواب بیان ہو اور ساتھ کوئی رشح نہ ہو تو ایسا خواب حقیقی سمجھا
جاتا ہے -سوره یوسف میں بادشاہ خواب دیکھتا ہے اس کے بعد اس کے اس متثیلی خواب
کی فورا تعبیر دی گئی ہے – اسی سوره میں دو قیدی خواب دیکھتے ہیں اور فورا ان کے
متثیلی خواب کی تاویل دی گئی ہے – لیکن جب یوسف علیہ السالم کے خواب کا ذکر
ہوتا ہے تو دونوں انبیاء یوسف و یعقوب علیھام السالم اس کو فورا متثیلی قرار نہیں دیتے
اس کو اس کے ظاہر پر ہی لیتے ہیں اور چھپا دیتے ہیں – یعقوب علیہ السالم انداز لگا
لیتے ہیں کہ یوسف کی توقیر ہو گی اور وہ یوسف کو حکم کرتے ہیں کہ بھائیوں سے
اس کا ذکر مت کرنا – یوسف علیہ السالم کے خواب کو متثیل قرار دینے کا کوئی قرینہ
نہیں ملتا
کہا جاتا ہے کہ جب بچھڑے ہوئے لوگ ملتے ہیں تو لوگ الله کا شکر کرتے ہیں نہ کہ
ایک دورسے کو سجدہ کریں – یہ بات نہایت رسرسی ہے اور کہنے والے کی طفولیت
کی نشاندھی کرتی ہے – یوسف علیہ السالم کسی میلہ میں یا بازار میں نہیں کھوئے
تھے ان کے بھائیوں نے اقدام قتل کیا تھا – یوسف سے ملنے کی بھائیوں کو کوئی خواہش
بھی نہیں تھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہوتا ہے جس کو قتل کر دیا تھا وہ تو زندہ نکال
اور اس کے بعد یوسف علیہ السالم کے مقام و مرتبہ نے ان پر ایسی ہیبت طاری کی کہ
متام بھائی ان کے سامنے رشمندگی سے گر پڑے
یہ تفسیر کہ آیت میں له کی ضمیر الله کی طرف ہے اہل تشیع میں محمد هادى
الهمداىن کتاب مصباح الفقيه میں پیش کرتے ہیں
قيل ان السجود كان لله شكرا له كام يفعل الصالحون عند تجدد النعم والهاء ف قوله له
عائدة إل الله فيكونون سجدوا لله وتوجهوا ف السجود اليه كام يقال صل للقبلة
کہا جاتا ہے کہ ان کے سجدے الله کا شکر ادا کرنے کے لئے تھے جیسا صالحین نعمت
ملنے پر کرتے ہیں اور اس آیت میں (له کی) الھا الله کی طرف ہے … جیسا کہتے ہیں
قبلہ کے لئے مناز پڑھو
یہ قول اوپر پیش کیا گیا ہے کہ اہل سنت میں بھی مقبول رہا ہے لیکن اس قول میں
سیاق و سباق نہیں دیکھا گیا کہ یوسف یقینا یعقوب علیہ السالم کے نزدیک بچھڑے
ہوئے تھے لیکن بھائیوں کے لئے وہ ایک مردہ شخص تھے جس کو وہ کنواں میں پھینک
کر آئے تھے
کتاب الجدول ف إعراب القرآن الكريم از محمود بن عبد الرحيم صاف کے مطابق
رص ِإ ْن شا َء اللَّ ُه آ ِم ِن َي (َ )99و َرفَ َع وس َف آوى إِلَيْ ِه أَبَ َويْ ِه َو َ
قال ا ْد ُخلُوا ِم ْ َ آیت فَل ََّام َد َخلُوا َعل يُ ُ
أَبَ َويْ ِه َع َل الْ َع ْر ِش َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجداً میں له کی ضمیر کی طرف ہے جو آیت ٩٩میں ہے
و (الهاء) ضمُي ف محل جر متعلق ب (خروا) ( ،سجدا) حال منصوبة من فاعل خروا
اور (الهاء) ضمیر ہے جو جر کے مقام میں ہے اور یہ متعلق ہے خروا سے اور سجدا یہ
حال منصوبہ ہے فاعل خروا کا
وقولهَ :و َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجداً [يوسف ، ]100 /أي :متذللي ،وقيل :كان السجود عل سبيل
الخدمة ف ذلك الوقت سائغا
یعنی وہ کم تر ہوئے اور کہا جاتا ہے یہ سجدے (خدام کی طرح) بر سبیل خدمت اس
وقت کے اثر کے تحت ہوئے
ِإذَا تُتْ َل َعلَ ْي ِه ْم آيَاتُ ال َّر ْح َمنِ َخ ُّروا ُس َّجدًا َوبُ ِك ىيا
جب وہ آیات رحامن کی تالوت کرتے ہیں گرتے ہیں سجدے میں اور روتے ہیں
کیا جب بھی کسی کے گرنے کا ذکر ہوتا ہے تو کیا وہ عبادت کے تحت ہو رہا ہوتا ہے ؟
جبکہ خر گرنے کا لفظ عام ہے ان آیات میں موجود ہے کہ جب وہ تالوت کرتے ہیں تو
خشوع سے گرتے ہیں جبکہ سوره یوسف میں بھائیوں پر عبادت والے خشوع کا ذکر نہیں
ہے بلکہ رشم و ندامت کا ذکر ہے
انہوں نے کہا اے والد ہامرے لئے مغفرت طلب کریں ہم سے غلطی ہو گئی (یعقوب
نےکہا) کہا میں متہارے لئے استغفار کروں گا اپنے رب سے بے شک وہ غفور و رحیم ہے
یہاں خر کا لفظ ہے اور اس کا مطلب یہاں گرنا نہیں کیا جا سکتا البتہ اس جھکنے میں
یک دم پوشیدہ ہے کہ وہ فورا رکوع میں چلے گئے
کتاب الزاهر ىف معاىن كلامت الناس از أبو بكر محمد بن القاسم األنباري کے مطابق
قول الله عز وجل ( وخروا له ُس َّجدا ً ) ( ) 82فيه ثالثة أقوال ( 20ب ) أحدهن أن تكون
الهاء تعود عل الله تعال فهذا القول ال نظر فيه ألن املعنى خروا لله سجدا وقال آخرون
الهاء تعود عل يوسف ومعنى السجود التحية كأنه قال وخروا ليوسف سجداً سجود تحية ال
سجود عبادة قال أبو بكر سمعت أبا العباس يؤيد هذا القول ويختاره وقال األخفش معنى
الخرور ف هذه اْلية املرور قال وليس معناه الوقوع والسقوط
الله تعالی کا قول ( وخروا له ُس َّجدا ً ) میں تین اقوال ہیں ایک یہ ہے الھا کی ضمیر الله
کی طرف ہے تو اس قول میں کوئی نظر نہیں کیونکہ معنی ہوا کہ کہ الله کو سجدہ کیا
اور دورسوں نے کہا کہ الھا کی ضمیر یوسف کی طرف ہے اور یہ سجدہ تحیت ہے
جیسے کہا جائے کہ یوسف کے لئے سجدہ کیا نہ کہ عبادت کے لئے اور ابو بکر نے ابو
العباس سے سنا انہوں نے اس قول کو لیا اور األخفش نے کہا کہ اس آیت میں الخرور
(گرنا) کا مطلب (املرور ) گزرنا ہے اور اس کا مطلب گرنا نہیں ہے
األخفش عربی کے مشھور نحوی ہیں اور ان کے نزدیک اس آیت میں خر کا مطلب گرنا
نہیں ہے األخفش کے الفاظ کا مطلب ہے کہ آیت میں عربی مفھوم ہے کہ وہ اس طرح
داخل ہوئے کہ گویا سجدہ ہو
عربی لغت تاج العروس من جواهر القاموس از ال َّزبيدي کے مطابق سجد کا ایک مطلب
رض زمیں کی طرف جھکنا بھی ہے – لغت مجمل اللغة البن ِإذا انْ َحنى وتَطَا َم َن إِل األَ ِ
فارس کے مطابق وكل ما ذل فقد سجد ہر کوئی جو نیچے آئےاس نے سجد کیا – آیت
میں لہذا خر کا لفظ اشارہ کر رہا ہے کہ یہ فعل یک دم ہوا – اس سجدہ کو مناز و
عبادت والے سجدہ سے مالنے کی کوئی دلیل نہیں ہے – مفسین میں سے بعض نے کہا
کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ سجدہ مناز کے سجدے جیسا نہیں تھا اور رصف ہلکا سا
جھکنا تھا تو خر کا لفظ یعنی گرنا یا جھکنا اس کے خالف ہے -جبکہ یہ بھی زبر دستی
ہے خر کا مطلب رصف بے ساختگی کی طرف اشارہ کرتا ہے قرآن میں ہے خر موىس صعقا
موسی علیہ السالم بے ہوش ہو کر گر گئے -موسی جان بوجھ کر نہیں گرے تھے وہ آنا
السق ُْف ِم ْن فَ ْوقِ ِه ْم پس ان پر چھت اوپر سے
فانا گرے تھے – قرآن میں ہے فَ َخ َّر َعلَيْ ِه ْم َّ
گری -خر (گرنے) کے مفہوم میں یک دم اور بے ساختگی پوشیدہ ہے
َو ُه َو قَ ْو ُل ابْنِ َع َّباس ِف ِر َوايَ ِة َعطَاء أَ َّن الْ ُم َرا َد بِ َه ِذ ِه ْاْليَ ِة أَنَّ ُه ْم َخ ُّروا لَ ُه أَ ْي ِألَ ْج ِل ِو ْجدَانِ ِه
َس َجدَا للَّه ت َ َع َال
اور یہ قول ابن عباس کا ہے َعطَاء کا روایت کردہ کہ اس میں گرنے سے مراد ہے کہ ان
کو پانے پر الله کا شکر بجا الئے
لیکن باوجود تالش کے اس کی سند نہیں ملی
ل بْ ُن الْ ُح َس ْيِ ،ثنا أَبُو الْ ُج َام ِهرِ ،ثنا َس ِعي ُد بْ ُن بَ ِشُي ،ثنا قَتَا َد ُة َو َرفَ َع أَبَ َويْ ِه َع َل الْ َع ْر ِش َح َّدثَنَا َع ِ ُّ
َ
الس ُجو ُد بِ َها يُ َحيِّي بَ ْعضُ ُه ْم بَ ْعضً ا َوأ ْعطَى اللَّ ُه َ ِ
َو َخ ُّروا لَ ُه ُس َّجدًا َوكَا َن تَحيَّة َم ْن كَا َن قَبْلَكُ ُم ُّ
السال َم ،تَ ِحيَّ َة أَ ْهلِ الْ َجنَّ ِة كَ َرا َم ًة ِم َن اللَّ ِه َونِ ْع َم ًة
َ .ه ِذ ِه األُ َّم َة َّ
حدثني محمد بن سعد ،قال :حدثني أب ،قال :حدثني عمي ،قال :حدثني أب ،عن أبيه ،عن
.ابن عباس( :وخ ُّروا له سجدًا) ،يقول :رفع أبويه عل السير ،وسجدا له ،وسجد له إخوته
اوپر والے یہ تین اقوال ہیں جو ایک ہی سجدے سے متعلق ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ
ابتدائی مفسین بھی اس میں اختالف کر رہے تھے – واضح رہے کہ ان اقوال کی اسناد
بھی مضبوط نہیں ہیں چہ جائیکہ ان کو اصحاب رسول کی ترشیحات قرار دیا جائے
لہذا اس سلسلے میں کوئی صحیح السند تفسیری قول نہیں ہے
سجدہ کی کیفیت
قرآن میں اس آیت میں سجدہ کی نوعیت کا علم نہیں دیا گیا کہ یہ چہرہ واال ہی –
سجدہ ہے یا رصف جھکنا ہے جیسا عموما بادشاہوں اور امراء عجم کے سامنے پیشی پر
ہوتا تھا -اس کے عالوہ یہ دعوی کرنا کہ اس دور میں مناز واال سجدہ بادشآہوں کومتام دنیا
میں کیا جاتا تھا بھی بال دلیل ہے – قرآن میں سجدہ کا لفظ سورج چاند شجر پہاڑ کے
لئے بھی آیا ہے جو ہم کو معلوم ہے کہ اس سجدے جیسا نہیں ہے جو ہم مناز میں کرتے
ہیں لہذا زبردستی اس آیت میں سجدے کو مناز واال سجدہ کہنا ارساف ہے -عربی میں
سجد زمین کی طرف جھکنے کے لئے ہے اور یہ جھکنا اتنا بھی ہو سکتا ہے جو رکوع
جیسا نہ ہو ایسا آج کل بھی جاپان میں معروف ہے جو ان کا سالم کا طریقه ہے – کہا
جاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السالم کے پاس فرشتے اتے ہیں تو ان کو سالم کرتے ہیں نہ کہ
اس طرح جھکتے ہیں -ابراہیم علیہ السالم نے وہ کیا جو الله کی طرف سے ان کو حکم
تھا اگر یوسف علیہ السالم کی مالقات یعقوب علیہ السالم سے کنعان میں ہوتی تو وہ
بھی ایک دورسے کو سالم ہی کرتے لیکن جب ان کے بھائی مرص کے دربار میں پہنچے
تو یوسف کے بھائی رشم و ندامت سے جھک گئے اور اس طرح وہ خواب حق ہو گیا
جو دیکھا تھا – یہ سجدہ تعظیمی نہ تھا یہ رصف زمین کی طرف جھکنا تھا جس کو
االنحناء بھی کہا جاتا ہے
َوق ََال يَا أَبَ ِت َهذَا تَأْو ُِيل ُر ْؤيَا َي ِمن قَبْ ُل قَ ْد َج َعلَ َها َر ِّب َحقىا ۖ
اے باپ یہ میرے پچھلے خواب کی تاویل تھی (آج) میرے رب نے اس کو حق کر دیا
ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ سجدہ کی یہ کیفیت الله کے شکر و سپاس کے تحت نہیں
ہوئی بلکہ رشم و ندامت کے تحت بھائیوں کا جھکنا ہوا اور چونکہ وہ سب بڑے بھائی
تھے ان متام کا ایک ساتھ یوسف کے سامنے جھکنا ممکنات میں سے نہ تھا -یوسف
علیہ السالم کو الله تعالی تاویل خواب کا علم بہت پہلے دے چکے تھے لہذا یوسف
جان چکے تھے کہ ان کے خواب کا کیا مطلب ہے اور آگے کیا ہو گا لیکن رصف منتظر
تھے کہ ایسا کب ہوتا ہے
رسول الله آیات بھول جاتے تھے؟
اب ْاستِ ْذكَا ِر ال ُق ْرآنِ َوت َ َعا ُه ِد ِه) صحیح بخاری :کتاب:
اب فَضَ ا ِئ ِل ال ُق ْرآنِ (بَ ُ
صحيح البخاريِ :كتَ ُ
قرآن کے فضائل کا بیان (باب :قرآن مجید کو ہمیشہ پڑھتے اور یاد کرتے رہنا)
5032
َح َّدثَنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن َع ْر َع َر َة َح َّدثَنَا شُ ْعبَ ُة َع ْن َمنْ ُصور َع ْن أَ ِب َوائِل َع ْن َعبْ ِد اللَّ ِه ق ََال ق ََال النَّب ُِّي
ُِس َو ْاستَ ْذكِ ُروا
يت آيَ َة كَ ْي َت َوكَ ْيتَ بَ ْل ن ِّ َ َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم بِئْ َس َما ِألَ َح ِد ِه ْم أَ ْن يَق َ
ُول ن َِس ُ
الْ ُق ْرآ َن فَ ِإنَّ ُه أَشَ ُّد تَف َِّصيًا ِم ْن ُصدُو ِر ال ِّر َجا ِل ِم ْن النَّعَمِ َح َّدثَنَا ُعث َْام ُن َح َّدثَنَا َجرِير َع ْن َمنْ ُصور
ِمثْلَ ُه ت َابَ َع ُه ب ِْرش َع ْن ابْنِ الْ ُم َبا َر ِك َع ْن شُ ْع َب َة َوتَابَ َع ُه ابْ ُن ُج َريْج َع ْن َع ْب َد َة َع ْن شَ ِقيق َس ِم ْع ُت
َعبْ َد اللَّ ِه َس ِمعْتُ النَّب َِّي َص َّل اللَّ ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا ،انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ،ان سے
منصور نے ،ان سے ابو وائل نے اور ان سے حرضت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے
بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت برا ہے کسی شخص کا یہ کہنا
کہ میں فالں فالں آیت بھول گیا بلکہ یوں ( کہنا چاہیے ) کہ مجھے بھالدیا گیا اور قرآن
مجید کا پڑھنا جاری رکھو کیونکہ انسانوں کے دلوں سے دور ہوجانے میں وہ اونٹ کے
بھاگنے سے بھی بڑھ کر ہے ۔ ہم سے عثامن بن ابی شیبہ نے بیان کیا ،کہا ہم سے جریر
بن عبد الحمید نے ،اوران سے منصور بن معتمر نے پچھلی حدیث کی طرح ۔ محمد بن
عرعرہ کے ساتھ اس کو برش بن عبد اللہ نے بھی عبد اللہ بن مبارک سے ،انہوں نے شعبہ
سے روایت کیا ہے اور محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو ابن جریج نے بھی عبد ہ سے ،
انہوں نے شقیق بن مسلمہ سے ،انہوں نے عبد اللہ بن مسعود سے ایسا ہی روایت کیا
ہے ۔
بھول جانا انبیاء کی برشیت ہے مثال موسی مچھلی کو بھول گئے جب خرض سے مالقات
کرنے نکلے
يت الْ ُحوتَ َو َما أَن َْسانِي ُه ِإ َّال الشَّ يْطَانُ} [الكهف]
فَ ِإ ِّّن ن َِس ُ
مچھلی کو تو میں بھول ہی گیا اور اس کو شیطان نے ہی بھالیا ہے
صحیح بخاری میں ہے رسول الله نے فرمایا
ا ِإمنَّ َا أَنَا بَ َرش ِمثْلُكُ ْم ،أَن ََْس ك ََام تَنْ َس ْونَ ،فَ ِإذَا ن َِس ُ
يت فَ َذكِّ ُر ِ
وّن
بے شک میں متہارے جیسا برش ہوں ،بھول جاتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو ،جب میں
بھولوں تو یاد دال دو
اگر اس روایت میں رصف بھولنے کا ذکر ہوتا تو مسئلہ نہیں تھا لیکن اس میں بیان
ہوا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم الوحی کی وہ آیات بھول گئے جو اصحاب
رسول قرات کرتے رہے یہاں تک کہ اپ نے جب سنا تو خوش ہوئے اور ان صحابی کو
دعا دی –
یہ منت منکر ہے -
اس روایت کی اسنادی علت
ہشام بن عروہ کی روایت کوفہ عراق والوں نے لی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی
الله علیہ وسلم آیات بھول جاتے تھےاس روایت کو ہشام سے ان لوگوں نے لیا ہے
يَس بن يُونُس بن أب ِإ ْس َحاق َع ْمرو السبي ِعي الصلْت زَائِدَة بن قدا َمة الثَّ َق ِفي الکوفی – ِع َ أَبُو َّ
ُوف – أبو أسامة حامد بن أسامة الكوىف – أبو الحسن عل بن مسهر القرَش الْ َهمد َِاّن الْك ِ
الكوىف – أبو محمد عبدة بن سليامن الكالىب الكوىف – أبو سفيان وكيع بن الجراح بن مليح
ُوف – ابُو ِهشَ ام َعبْ ُد الل ِه
الس ْع ِدي الْك ِ الكوىف – أَبُو ُم َعا ِويَة ُم َح َّمد بن َحازِم َّ
الرضِير التَّ ِمي ِمي َّ
َاّن الکوفی ب ُن منُ َُْي أ ال َه ْمد ِ ُّ
عراق میں ہشام نے بعض روایات بیان کیں جن پر امام مالک کو بھی اعَّتاض رہا اگرچہ
معلوم نہیں ان میں کون کون سی روایات تھیں
تعداد آیات
روایت کے الفاظ ہیں يرحمه الله لقد اذكرّن كذا وكذا آية كنت انسيتها من سورة كذا وكذا
الله اس پر رحم کرے اس نے یاد کرا دیں وہ اور وہ آیات جن کو میں بھول گیا تھا اس
اس سورت میں سے
املفهم ملا أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں أبو العبَّاس لکھتے ہیں
قال ابن الس ِّيد البطليوِس :كذا وكذا :كناية عن األعداد املعطوف بعضها عل بعض ؛ من
أحد وعرشين إل تسعة وتسعي
ابن الس ِّيد البطليوِس نے کہا كذا وكذا یہ کنایہ ہے اعداد کی طرف گیارہ سے لے کر
ننانوے تک
مزید لکھا
درهام ؛ فهي كناية عن األعداد ؛ من أحد عرش إل تسعة عرش ،
وإذا قال :له عندي كذا كذا ً
هذا اتفاق من الكوفيي والبرصيي .وقال الكوفيون خاصة
اگر کہے میرے پاس كذا كذا درہم ہیں تو یہ اعداد پر کنایہ ہے اس میں گیارہ سے لے کر
انیس تک ہے اس پر کوفیوں برصیوں کا اتفاق ہے اور یہ کہا ہے خاص کر کوفیوں نے
مزید کہا
فيكون قوله ـ صل الله عليه وسلم ـ (( :كذا وكذا آية )) ؛ [ أنه ] أقل ما يحمل عليه إحدى
وعرشون
رسول اللہ کا کہنا كذا وكذا آية تو یہ کم از کم گیارہ آیات تھیں-
عربی ادب کی اس بحث کا حاصل یہ ہوا کہ روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ
وسلم کم از کم گیارہ آیات بھول گئے تھے اور یہ روایت کوفیوں کی بیان کردہ ہے
انبیاء کا الوحی الہی کو بھول جانا
ق َِاىض ِعيَاض صحیح مسلم کی رشح میں کہتے ہیں
يجوز عل النبى – عليه السالم – من النسيان
یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے جائز ہے کہ بھول جائیں
اس کی مثال ق َِاىض ِع َياض نے دی کہ مناز میں بھول گئے بھر سجدہ سہو کیا-قاضی کے
مطابق صوفیاء اوراألْ ُ ُصولِيِّ َي میں أَبَا املظفر االسفرايني کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ
وسلم سے بھول و نسیان کو منسوب نہیں کیا جا سکتا – ابن حجر نے فتح الباری میں اس
رائے کو قَ ْول ضَ ِعيف قرار دیا ہے
بدر الدين العينى نے عمدة القاري رشح صحيح البخاري میں لکھا ہے
َيف َجا َز نِ ْس َيان الْ ُق ْرآن َعلَ ْي ِهَ .وأجِيب :بِأَن ْ
النس َيان لَ ْي َس بِا ْختِ َيار ِِه. قيل :ك َ
کہا جاتا ہے :کیسے جائز ہے قرآن میں بھول جانا ؟ اور جواب دیا گیا :کہ بھول جانے پر
اختیار نہیں ہوتا
راقم کہتا ہے یہاں معاملہ الوحی کے بھول جانے کا ہے جو معمولی بات نہیں ہے –
الوحی تو قلب محمد صلی الله علیہ وسلم پر آئی ہے جس کو رصف الله ہی بھال سکتا ہے
َسنُ ْق ِرئ َُك ف ََال تَنْ ََس ِإ َّال َما شَ ا َء الله
ہم اپ پر پڑھیں گے تو اپ بھول نہ سکیں گے سوائے وہ جو اللہ چاہےاألعل
الله چاہے تو اپنے نبی کو آیات بھال سکتا ہے لیکن اس آیت کا اس حدیث سے کیا جوڑ
ہے ؟ الله جو آیات بھال دیتا ہے وہ آیات وہ ہیں جو منسوخ کی گئی ہیں اور اس کے بدلے
اس جیسی یا اس سے بہَّت آیات دی گئی ہیں-
شارحین کی اس روایت پر نکتہ سنجی ہے کہ یہ آیات رسول الله صلی الله علیہ وسلم
جان بوجھ کر نہیں نسیان کی وجہ سے بھولے ایسا متعدد نے کہا مثالفتح املنعم رشح
صحيح مسلم املؤلف :األستاذ الدكتور موىس شاهي الشي :كنت أسقطتها من سورة كذا أي
كنت أسقطتها نسيانًا ال عمدًا،
صحیح بخاری میں ہے
ض اللَّ ُه َعنْ َها، ل بْ ُن ُم ْسهِر ،أَخ َ َْربنَا ِهشَ امَ ،ع ْن أَبِي ِهَ ،ع ْن َعائِشَ َة َر ِ َ ِرش بْ ُن آ َد َم ،أَخ َ َْربنَا َع ِ ُّ
َح َّدثَنا ب ْ ُ
قَال َْتَ :س ِم َع النَّب ُِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم قَا ِرئًا يَ ْق َرأُ ِم َن اللَّ ْيلِ ِف امل َْسج ِِد ،فَق ََال« :يَ ْر َح ُم ُه اللَّ ُه
لَ َق ْد أَ ْذكَ َر ِّن كَذَا َوكَذَا آيَ ًة أَ ْس َقطْتُ َها ِم ْن ُسو َر ِة كَذَا َوكَذَا
االله رحم کرے اس پر اس نے یاد دال دیں وہ اور وہ آیات جو اس سورہ میں اور اس سورہ
میں سے گر گئیں تھیں
گر گئیں یعنی منسوخ ہو گئیں تھیں – اگرچہ اس رصیح بات کو متام شارحین نے منسوخ
آیات یا قرات قرار نہیں دیا ہے البتہ مرقاة املفاتيح رشح مشكاة املصابيح میں مال علی
القاری نے کہا
َِس ،أَ ْي ن ُِسخَتْ تِ َال َوت ُ ُه
َويَكُو ُن َم ْعنَى قَ ْولِ ِه ن ِ َ
اور ممکن ہے کہ قول نبوی میں بھول گیا یعنی ان کی تالوت منسوخ ہوئی تھا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بعض آیات بھال دی گئیں اس کا مطلب ہے کہ اس کے
جیسی دورسی آیت دی یا حکم منسوخ ہوا
بعض آیات ہیں جن کی قرات منسوخ ہوئی اور حکم باقی رہا مثال رجم-بعض آیات ہیں
جن کا حکم منسوخ ہوا اور قرآن میں موجود ہیں مثال روزے کی چند آیات
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان کہ ان صحابی نے گر جانے والی آیات کی قرات
کی سے معلوم ہوا کہ یہ شخص جس کا قرآن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سنا اس
کی قرات باطل تھی کیونکہ وہ منسوخ آیات کی قرات کر رہا تھا جو رسول الله بھول
چکے تھے – اس شخص کو اصالح کی رضورت تھی – اس کو خرب کی جاتی کہ تو منسوخ
آیات کی قرات کیوں کر رہا ہے ؟ لیکن ایسا روایت میں بیان نہیں ہوا کہ رسول الله نے
اس کو طلب کر کے نئی آیات قرات کرنے کا حکم دیا یا خرب دی ہو کہ یہ قرات اب
منسوخ ہوئی –
دورسی طرف اگر یہ وہ آیات تھیں جن کا حکم منسوخ ہوا لیکن قرات باقی رہی تو ایسا
ممکن نہیں کہ یہ آیات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھال دی گئی ہوں
ابن حجر نے فتح الباری میں کہا لَ ْم أَقِ ْف َع َل ت َ ْعيِ ِي ْاْليَ ِ
ات الْ َم ْذكُو َر ِة کون سی آیات تھیں
ان کا تَ ْعيِ ِي نہیں ہو سکا
اس روایت کی تہہ میں عجیب بات ہے جو غور کرے اس پر اس کی نکارت ظاہر ہو
سکتی ہے
رسول الله ﷺ کا طالق دینا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کو طالق نہیں دی –
َع ْن أَ ِب أُ َسيْد ـ رىض الله عنه ـ ق ََال َخ َر ْجنَا َم َع النَّب ِِّي صل الله عليه وسلم َحتَّى انْطَلَ ْقنَا إِ َل
َحائِط يُق َُال لَ ُه الشَّ ْوطَُ ،حتَّى انْتَ َه ْينَا إِ َل َحائِط ْ َِي فَ َجل َْسنَا بَ ْينَ ُه َام فَق ََال النَّب ُِّي صل الله عليه
وسلم ” ا ْجلِ ُسوا هَا ُهنَا ”َ .و َدخ ََل َوقَ ْد أُ ِ َِت بِالْ َج ْونِيَّ ِة ،فَأُنْ ِزل َْت ِف بَيْت ِف نَخْل ِف بَيْت أُ َميْ َمةُ
رشا ِح َيل َو َم َع َها دَايَتُ َها َح ِاضنَة لَ َها ،فَل ََّام َدخ ََل َعلَيْ َها النَّب ُِّي صل الله عليه بِنْتُ النُّ ْع َامنِ بْنِ َ َ
لسوقَ ِة .ق ََال فَأَ ْه َوى بِ َي ِد ِه وسلم ق ََال ” َهبِي نَف َْس ِك ِِل ” .قَالَتْ َوه َْل ت َ َه ُب الْ َملِكَ ُة نَف َْس َها لِ ُّ
يَضَ ُع يَدَهُ َعلَ ْي َها لِ َت ْسكُ َن فَقَال َْت أَ ُعوذُ بِاللَّ ِه ِم ْن َك .فَق ََال ” قَ ْد ُعذ ِْت مبِ َ َعاذ ” .ث ُ َّم َخ َر َج َعلَ ْي َنا،
فَق ََال ” يَا أَبَا أُ َسيْد اك ُْس َها َرا ِزقِيَّتَ ْ ِي َوأَلْ ِح ْق َها بِأَ ْهلِ َها
حمزہ بن ابی اسید نے اور ان سے ابواسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے اور ایک باغ میں پہنچے جس کا نام ” شوط “ تھا ۔
جب وہاں جا کر اور باغوں کے درمیان پہنچے تو بیٹھ گئے ،آنحرضت صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ یہیں بیٹھو ،پھر باغ میں گئے ،جو نیہ الئی جا چکی تھیں
اور انہیں کھجور کے ایک گھر میں اتارا جو امیمہ بنت نعامن بن رشاحیل کا گھر
تھا ۔ ان کے ساتھ ایک دایہ بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے تھی ۔ جب حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو فرمایا کہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے ۔ اس
نے کہا کیا کوئی شہزادی کسی عام آدمی کے لیے اپنے آپ کو حوالہ کر سکتی ہے ؟ بیان
کیا کہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا شفقت کا ہاتھ ان کی طرف بڑھا کر اس
کے رس پر رکھا تو اس نے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں ۔ آنحرضت صلی
الل ہ علیہ وسلم نے فرمایا ،تم نے اسی سے پناہ مانگی جس سے پناہ مانگی جاتی ہے ۔
اس کے بعد آنحرضت صلی اللہ علیہ وسلم باہر ہامرے پاس ترشیف الئے اور فرمایا ،
ابواسید ! اسے دو رازقیہ کپڑے پہنا کر اسے اس کے گھر پہنچا آؤ
راقم کہتا ہے یہ پورا واقعہ معمہ ہے -میں ابھی تک یہ نہیں جان سکا کہ اس
قصہ کو گھڑنے کی وجہ کیا ہے ؟ اس روایت کا کوئی سیاسی مقصد تھا جو معلوم نہیں
ہوا-
جونیہ کو امیمہ کے گھر میں رکھا گیا – ایک اور روایت کے مطابق امیمہ سے بھی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کر لیا پھر اس کو بھی طالق دے دی -پھر
قتلہ سے نکاح کیا جو مرتد ہو گئی -یاللعجب
جب اسامء بنت نعامن نے آٖپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آٖپ صلی
اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آٖگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آٖپ غمگین نہ ہوں
میں آٖپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آٖپ صلی اللہ
علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آٖپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آٖگے بڑہے تو انہیں آٖپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خرب ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر
قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر
مکشوع مرادی نے ان سے نکاح کیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک
ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے
نکاح کرلیا یہ بات حرضت صدیق رضی الله عنہ کو گراں گزری لیکن عمر نے انہیں کہا
کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آٖپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ
کرایا اور اللہ تعالی نے آٖپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے،
راقم کہتا ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کسی الجونية نامی عورت سے شادی
کی اور وہ اس نے الله کی پناہ مانگی -یہ واقعہ صحیح بخاری میں ہے اور کتب
حدیث میں اس کی سند میں َح ْم َز ُة بْ ُن أَ ِب أُ َسيْد َمالِ ُك بْ ُن َربِي َع َة َّ
السا ِع ِد ُّي الْ َمد ِ ُّ
َّن کا تفرد
ہے -یہ قلیل حدیث ہے اور متقدمین میں اس کی توثیق سوائے ابن حبان کے کسی نے
نہیں کی
راقم اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا معلوم نہیں کہ امام بخاری نے یہ حدیث کس بنا
پر لکھی ہے کیونکہ انہوں نے خود تاریخ الکبیر میں اس کی توثیق نہیں کی -اس کی
اس ب ُن َس ْهلِ بنِ َس ْعد األَن َْصا ِر ُّي ہے – یہ ثقہ ہیں -لیکن اس خرب کا
دورسی سند میں َع َّب ُ
انفراد ایسا ہے کہ یہ امہات املومنین ہی بیان کریں تو صحیح سمجھی جا سکتی ہے
بعض روایات میں نام أميمة بنت النعامن بن رشاحيل لیا گیا ہے
اس کے لئے ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا نے بھی یہ بیان کیا -
کتاب معرفة الصحابة البن منده میں اس کی سند ہے
أخربنا أبو عمرو أحمد بن محمد بن إبراهيم ،حدثنا محمد بن عل بن راشد الطربي ،حدثنا
يحيى بن عبد الله بن الضحاك ،عن األوزاعي ،عن الزهري ،عن عروة ،عن عائشة :أن الجونية
ملا أِت بها النبي صل الله عليه وسلم قالت :أعوذ بالله منك ،فقال النبي صل الله عليه
.وسلم :لقد عذت مبعاذ ،الحقي بأهلك
َونَا الْ ُح َم ْي ِد ُّي ,نَا الْ َولِيدُ ,نَا األَ ْوزَا ِع ُّي ،ق ََالَ :سأَل ُْت ال ُّز ْهر َِّي :أَ ُّي أَ ْز َواجِ النَّب ِِّي َص َّل الله َعلَ ْي ِه
َو َسلَّ َم ْاستَ َعاذَتْ ِمنْهُ؟ ق ََال :أَخ َ َْرب ِّن ُع ْر َوةَُ ,ع ْن َعائِشَ ةَ ,أَ َّن ابْنَ َة الْ َج ْونِ ل ََّام أُد ِْخلَتْ َع َل َر ُسولِ
الله َص َّل الله َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم َو َدنَا ِمنْ َها ,قَالَتْ :أَ ُعوذُ بِالله ِمنْ َك ,فَق ََال لَ َها« :لَ َق ْد ُعذ ِْت بِ َع ِظيم
».الْ َح ِقي بِأَ ْهلِ ِك
اس میں الولید بن مسلم ہے جس کا األَ ْوزَا ِع ُّي سے سامع پر محدثین کو اعَّتاض ہے
کیا زبردستی شادی ہو سکتی ہے ؟ جو عورت رسول الله سے شادی نہ کرنا چاہتی ہو
ممکن نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اس سے شادی کرتے -مورخین کے بقول
َوكَا َن ت َ َز ُّو ُج ُه إِيَّاهَا ِف شَ ْه ِر َربِيع األَ َّو ِل َسنَ َة تِ ْسع ِم َن الْ ِه ْج َر ِة
ک ِم َّآم اَفَآ َء اللّٰ ُہ َعلَ ْیکَ ک الّٰتِ ْ ٖٓی ات َ ْی َت ا ُ ُج ْو َر ُھ َّن َو َما َملَک َْت یَ ِم ْینُ َ ک ا َ ْز َوا َج َ یٖٓاَیُّ َھا النَّب ُِّی اِنَّآ ا َ ْحلَلْنَا لَ َ
ک َوبَن ِت خلتِکَ الّٰتِ ْی ھَا َج ْر َن َمعَکَ َوا ْم َراَ ًۃ ُّم ْؤ ِم َن ًۃ اِ ْن ک َوبَن ِت خَالِ َ ک َوبَن ِت َع ّٰمتِ َ َوبَن ِت َع ِّم َ
ِ ِ ِ
ک م ْن ُد ْونِ الْ ُم ْؤمنیْ َن قَ ْد َعل ْمنَا َما ِ ِ ِ ِ ِ
َّو َھبَتْ نَف َْس َھا للنَّب ِِّی ا ْن ا َ َرا َد النَّب ُِّی اَ ْن یَّ ْستَنْک َح َھا خَال َص ًۃ لَّ َ
فَ َرضْ نَا َعلَیْ ِھ ْم ِف ْ ٖٓی ا َ ْز َوا ِج ِھ ْم َو َما َملَک َْت اَیْ َامنُ ُھ ْم لِکَیْ َال یَکُ ْو َن َعلَیْکَ َح َرج َوکَا َن الل ُّٰہ َغ ُف ْو ًرا
َّر ِح ْی ًام .ت ُ ْرج ِْی َم ْن ت َشَ آ ُء ِمنْ ُھ َّن َوتُ ْء ِو ْٖٓی اِلَ ْیکَ َم ْن ت َشَ آ ُء َو َمنِ ابْتَ َغ ْی َت ِم َّم ْن َع َزل َْت ف ََال ُجنَ َ
اح
ک ذلِکَ اَدْآی ا َ ْن ت َ َق َّر ا َ ْع ُی ُن ُھ َّن َو َال یَ ْح َز َّن َویَ ْرضَ ْی َن مبِ َآ اتَ ْی َت ُھ َّن کُلُّ ُھ َّن َوالل ُّٰہ یَ ْعلَ ُم َما ِف ْی َعلَ ْی َ
ِ ِ
ک النِّ َسآ ُء منْم بَ ْع ُد َو َْلا َ ْن تَبَد ََّل بِ ِھ َّن م ْن اَ ْز َواج َّولَ ْو ِ ِ ِ
قُلُ ْوبِکُ ْم َوکَا َن الل ُّٰہ َعلیْ ًام َحلیْ ًامَ .ال یَح ُّل لَ َ
ک ُح ْسنُ ُھ َّن اِ َّال َما َملَکَتْ یَ ِمیْنُکَ َوکَا َن الل ُّٰہ َعلی ک ُِّل شَ ْیء َّرقِیْبًا( .االحزاب۵۰ :۳۳۔)۵۲ ا َ ْع َجبَ َ
اے پیغمرب( صلی اللہ علیہ وسلم) ،ہم نے متھاری وہ بیویاں متھارے لیے جائز ٹھہرائی ’’
ہیں جن کے مہر تم ادا کرچکے ہو اور (اسی طرح)وہ (خاندانی) عورتیں جو (متھارے
کسی جنگی اقدام کے نتیجے میں) اللہ متھارے قبضے میں لے آئے اور متھاری وہ چچا
زاد ،پھوپھی زاد ،ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنھوں نے متھارے ساتھ ہجرت کی ہے اور
وہ مسلامن عورت جواپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کردے ،اگر نبی اس سے نکاح کرنا
چاہے۔ یہ حکم دورسے مسلامنوں سے الگ رصف آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے
خاص ہے۔ ہم کو معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے معاملے میں
ان پر فرض کیا ہے۔(اس لیے خاص ہے)کہ اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں) تم پر کوئی
تنگی نہ رہے۔ اور (اگر کوئی کوتاہی ہو تو)اللہ بخشنے واال ہے ،اس کی شفقت ابدی ہے۔
متھیں اختیار ہے کہ ان میں سے جسے چاہو ،الگ رکھو اور جسے چاہو ،ساتھ رکھو ،اور
جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بال لو۔ اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ
نہیں۔ یہ وضاحت اس کے زیادہ قرین ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ
رنجیدہ نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی تم ان سب کو دو گے ،اس پر راضی رہیں گی۔ اور
اللہ جانتا ہے جو متھارے دلوں میں ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔ ان کے عالوہ کوئی
عورت متھارے لیے جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ ،
اگرچہ وہ متھیں کتنی ہی پسند ہوں۔ لونڈیاں البتہ (اس کے بعد بھی) جائز ہیں اور (یہ
‘‘حقیقت ہے کہ)اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھے ہوئے۔
آیات میں موجود ہے
ان کے عالوہ کوئی عورت متھارے لیے جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کی جگہ
اور بیویاں لے آؤ
سن ٧هجري مي املقوقس حاكم مرص نے ماریہ قبطیہ اپ صلی الله علیہ وسلم کو تحفہ
میں دیں اپ نے ان کو لونڈی بنا لیا بیوی نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے اس وقت یہ مزید
نکاح کی پابندی آ چکی تھی اس بنا پر راقم سمجھتا ہے کہ یہ قصہ قتیلہ جو واقدی
اور ہشام نے بیان کیا گھڑا ہوا ہے
جونیہ اور امیمہ بنت نعامن بھی مجہول خواتین ہیں جن کو معلوم بھی نہیں تھا
کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کون ہیں – یہ روایات کسی صورت صحیح نہیں لگتیں-
وتزنت
کیا اسالم میں توریت پڑھنا حرام ہے
ب
جوا ْ
مسند احمد کی روایت ہے
رسيْ ُج بْ ُن ال ُّن ْع َامنِ ،ق ََالَ :ح َّدث َ َنا هُشَ ْيم ،أَخ َ َْربنَا ُم َجالِدَ ،عنِ الشَّ ْعب ِِّيَ ،ع ْن َجابِ ِر بْنِ َع ْب ِد الله ،أَ َّن َح َّدث َ َنا ُ َ
َ َ ِ ِ َ ِ ِ
َّاب ،أ ََت النَّب َِّي َص َّل الل ُه َعلَيْه َو َسلَّ َم بِكتَاب أ َصابَ ُه م ْن بَ ْعض أ ْه ِل الْكُتُ ِب ،فَ َق َرأهُ َع َل َ ُع َم َر بْ َن الْ َخط ِ
النَّب ُِّي َص َّل الل ُه َعلَيْ ِه َو َسلَّ َم فَغ َِض َب َوق ََال« :أَ ُمتَ َه ِّوكُو َن ِفي َها يَا ابْ َن الْ َخط ِ
َّابَ ،والَّ ِذي نَف ِِْس بِيَ ِد ِه لَ َق ْد
َشء فَيُخ ِ ُْربوكُ ْم بِ َحق فَتُكَ ِّذبُوا بِ ِه ،أَ ْو بِبَ ِ
اطل فَتُ َص ِّدقُوا بِ ِه، ِجئْتُكُ ْم بِ َها بَيْضَ ا َء نَ ِقيَّةً ،الَ ت َْسأَلُو ُه ْم َع ْن َ ْ
وىس كَا َن َح ىياَ ،ما َو ِس َع ُه ِإالَّ أَ ْن يَتَّ ِب َع ِنيَوالَّ ِذي نَف ِِْس بِ َي ِد ِه لَ ْو أَ َّن ُم َ
جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ عمر بن الخطاب رضی الله تعالی عنہ اپنے باتھوں میں اہل
کتاب کی کوئی تحریر لے کر آئے ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے اس کو پڑھا اپ صلی
الله علیہ وسلم غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ اے ابن الخطاب! کیا تم لوگوں کو تردد اور
اضطراب میں ڈالنا چاہتے ہو ۔ وہ ذات جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک میں ایک پاکیزہ
چمکداررشیعت متہارے لئے الیا ہوں تم ان سے سوال نہ کرو جس کی وہ متہیں سچی خربدیں
پھر تم تکذیب کرو یا باطل کہیں اور تم تصدیق کر بیٹھو .وہ ذات جس کے باتھ میں میری جان
ہے اگر موسی علیہ السالم زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرتے تو تم رضور گمراہ
ہوجاتے۔
شعيب األرناؤوط کہتے ہیں إسناده ضعيف اسکی اسناد ضعیف ہیں
یہ روایت منت کی تبدیلی کے ساتھ َع ْب ِد الله بْنِ ث َابِت سے بھی مروی ہے سند ہے
َح َّدثَنَا َعبْ ُد ال َّرزَّاقِ ،ق ََال :أَخ َ َْربنَا ُس ْفيَانَُ ،ع ْن َجابِرَ ،ع ْن الشَّ ْعب ِِّيَ ،ع ْن َعبْ ِد الله بْنِ ث َابِت
سنن دارمی کے مطابق یہ کتاب جو عمر رضی الله تعالی عنہ پڑھ رہے تھے التَّ ْو َرا ِة تھی سند ہے
أَخ َ َْربنَا ُم َح َّم ُد بْ ُن الْ َع َال ِءَ ،ح َّدثَنَا ابْ ُن منُ َُْيَ ،ع ْن ُم َجالِدَ ،ع ْن َعا ِمرَ ،ع ْن َجابِر َر ِ َ
ض الله َعنْ ُه
فقد روي نحو عن ابن عباس عند أحمد وابن ماجه ،وعن جابر عند ابن حبان ،وعن عبد الله بن
ثابت عند أحمد وابن سعد والحاكم ف الكنى ،والطرباّن ف الكبُي ،والبيهقي ف شعب اْلميان
پس اسی طرح ابن عباس کی سند سے احمد اور ابن ماجہ نے اور جابر کی سند سے ابن حبان نے
اور عبد الله بن ثابت سے احمد اور ابن سعد نے اور الحاکم نے لکنی میں اور طربانی نے کبیر
میں اور بیہقی نے شعب اْلميان میں روایت کیا ہے
اس روایت کی متام اسناد میں راوی ُم َجالِ ُد ب ُن َس ِعيْ ِد بنِ ُع َم ْ ُِي بنِ ب ِْسطَا َم ال َه ْمد ِ ُّ
َاّن املتوفی ١٤٤ھ
کا تفرد ہے
ابْ ُن َع ِدي کہتے ہیں اس کی حدیث :لَ ُه َعنِ الشَّ ْعب ِِّيَ ،ع ْن َجابِر أَ َحا ِديْثُ َصالِ َحة صالح ہیں
قال أبو عبد الله :مجالد عن الشعبي وغُيه ،ضعيف الحديث« .سؤاالته» احمد کہتے ہیں مجالد
کی الشعبي سے روایت ضعیف ہے
ابن سعد کہتے ہیں كان ضعيفا ف الحديث ،حدیث میں ضعیف ہے
املجروحین میں ابن حبان کہتے ہیں كان رديء الحفظ يقلب األسانيد ويرفع ،ردی حافظہ اور اسناد
تبدیل کرنا اور انکو اونچا کرنا کام تھا
ابن حبان راوی مجالد بن سعید کی ایک مخدوش روایت املجروحین میں نقل کرتے ہیں
َّاك َع ْن أَ ِب َس ِعيد َعنِ النَّبِي َص َّل اللَّ ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ِإ َّن أَه َْل الْ َجنَّ ِة
ق ََال أَبُو َحاتِم َر َوى ُم َجالِد َع ْن أَ ِب الْ َود ِ
الس َام ِء ف ي ر ل َ ََُي ْو َن أَ ْع َل ِعلِّ ِّي َ
ي ك ََام تَ َر ْو َن الْكَ ْوك ََب ال ُّد ِّ َّ ِ َّ
ابی سعید الخدری رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرماتا
ي کو ایسے دیکھتے ہیں جسے آسامن میں تارہ کہ بے شک اہل جنت أَ ْع َل ِعلِّ ِّي َ
محدثین کے نزدیک اس مجروح روایت کو دلیل بناتے ہوئے ابو جابر دامانوی نے دین الخالص
قسط اول میں لکھا تھا
سلف صالحین نے علیین اور سجین کو اعامل ناموں کے دفَّت کے عالوہ روحوں کامسکن کہا
ہےتوانکی یہ بات بالکل بے بنیاد نہیں
قارئین جس روایت کو محدثین راوی پر جرح میں پیش کر رہے ہیں فرقہ اہل حدیث اس کو دلیل
میں پیش کر رہا ہے کیسا تضاد ہے .یہ ایک اعَّتاض تھا
كَا َن يَحيى القَطان يُضَ ِّع ُفهُ .يَحيى القَطان اسکی تضعیف کرتے تھے
وكَا َن ابْن َمهدي ال يروي عنه .ابْن َمهدي اس سے روایت نہیں کرتے تھے
نسائی کہتے ہیں ثقه ہے اور ليس بالقوى قوی نہیں بھی کہتے ہیں
امام مسلم نے صحیح میں الشعبِي کی سند سے الط ََّالق میں رصف ایک روایت نقل کی ہے .امام
مسلم نے اس کی سند اس طرح پیش کی ہے
َح َّدث َ ِني ُزه ْ َُُي بْ ُن َح ْربَ ،ح َّدث َ َنا هُشَ ْيم ،أَخ َ َْربنَا َس َّيارَ ،و ُح َص ْيَ ،و ُم ِغ َُيةَُ ،وأَشْ َعثُ َ ،و ُم َجالِدَ ،و ِإ ْس َام ِع ُيل بْ ُن
أَ ِب خَالِدَ ،ودَا ُودُ ،كُلُّ ُه ْم َعنِ الشَّ ْعب ِِّي،
یعنی سات راویوں بشمول َ ُم َجالِد نے طالق کی ایک روایت الشَّ ْعب ِِّي سے نقل کی ہے
بس رصف یہی روایت ہے جس پر اس کو صحیح مسلم کا راوی گردانا جاتا ہے
حیرت ہے کہ عرب علامء میں شعيب األرناؤوط کے عالوہ عرص حارض میں کوئی اس روایت کو
ضعیف نہیں کہتا بلکہ سب شوق سے اس کو فتووں میں لکھتے ہیں
اس بحث کا لب لباب ہے کہ مجالد کی کتب ساموی کے بارے میں روایت منکر ہے
يا معرش املسلمي ،كيف تسألون أهل الكتاب عن َشء ،وكتابكم الذي أنزل الله عل نبيكم صل الله
عليه وسلم أحدث األخبار بالله ،محضا مل يشب ،وقد حدثكم الله :أن أهل الكتاب قد بدلوا من كتب
الله وغُيوا ،فكتبوا بأيديهم الكتب ،قالوا :هو من عند الله ليشَّتوا بذلك َثنا قليال ،أوال ينهاكم ما
جاءكم من العلم عن مسألتهم؟ فال والله ،ما رأينا رجال منهم يسألكم عن الذي أنزل عليكم
اے مسلامنوں تم اہل کتاب سے کیسے سوال کر لیتے ہو ان چیزوں پر ان کا ذکر الله نے اس کتاب
میں کیا ہے جو اس نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم پر نازل کی ہے … اور اللہ نے تم کو بتا دیا
ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب بدلی اور اپنے ہاتھ سے لکھا اور کہا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے اس کو
جو ان کے پاس ہے اس کو قلیل قیمت پر بیچ دیا -میں تم کو کیوں نہ منع کروں ان مسائل میں
ان سے سوال کرنے سے جن کا علم تم کو آ چکا ہے -اللہ کی قسم میں نہیں دیکھتا کہ وہ تم
سے سوال کرتے ہو جو تم پر نازل ہوا ہے
کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے سورۃ العنکبوت آیت ٥١میں فرمایا ہے کہ
أ َولَ ْم يَكْ ِف ِه ْم اَنَّآ اَنْ َزلْنَا َعلَيْ َك الْ ِكت َب يُتْل َعلَيْ ِه ْم
لیکن اس آیت کی یہ تفسیر نہیں ابن کثیر مقدمہ میں لکھتے ہیں
َو َم ْعنَى ذَلِ َك :أو مل يَكْ ِف ِه ْم آيَة دَالَّة َع َل ِص ْدقِ َك ِإنْ َزالُنَا الْ ُق ْرآ َن َعلَيْ َك َوأَنْتَ َر ُجل أُ ِّمي
اور اس کا معنی ہے أو مل يَكْ ِف ِه ْم آيَة دال ہے کہ قرآن الله نے نازل کیا ہے اور اپ ایک امی رسول
ہیں
َو َما أَ ْر َسلْنَا ِم ْن قَ ْبلِ َك ِإالَّ ِر َجاالً نُو ِحي إِلَ ْي ِه ْم ف َْاسأَلُوا أَه َْل ال ِّذكْ ِر ِإ ْن كُنْتُ ْم الَ تَ ْعلَ ُمو َن
اور ہم نے اپ سے پہلے جن رسولوں کو بھیجا وہ سب مرد تھے ہم ان پر وحی کرتے تھے پس
اہل ذکر سے پوچھ لو اگرتم (لوگوں) کو معلوم نہیں ہے
عربوں کو کہا جا رہا ہے کہ اہل کتاب سے پوچھ لو یہی تفسیر ابن عباس سے نقل کی گئی ہے.
تفسیر ابن کثیر کے مطابق ُم َجا ِهد َ ،عنِ ابْنِ َع َّباس ،أَ َّن الْ ُم َرا َد بِأَ ْه ِل ال ِّذكْرِ :أَه ُْل الْ ِكتَ ِ
اب
َع ْن ابْنِ عباس فسئلوا أَهْل ال ِّذكْ ِر يَ ْع ِني مرشيك قريشِ ،إ َّن محمدًا رسول الله ف التوراة واْلنجيل
سعید بن جبیر کہتے ہیں یہ عبدللہ بن سالم اور اہل توریت کے ایک گروہ کے بارے میں نازل
ہوئی ہے
عن سعيد بن جبُي ف قوله :فسئلوا أَ ْهل ال ِّذكْ ِر ق ََال :نَ َزلَتْ ِف َعبْد اللَّ ِه بْنِ َسالم ونفر ِم َن اهْل التوراة
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک اور روایت ہے جو بخاری روایت کرتے
اہل کتاب (یہودی) تورات کو خود عربانی زبان میں پڑھتے ہیں لیکن مسلامنوں کے لیے اس کی
تفسیر عربی میں کرتے ہیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تم تکذیب کرو بلکہ یہ کہا کرو :آمنا بالله وما أنزل
إليناہم ایامن الئے اللہ پر اور اس چیز پر جو ہامری طرف نازل کی گئی صحيح بخاري
اب ان کتب کا متام زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لہذا یہ مسئلہ نہیں ہو گا بلکہ نبی صلی
الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں صحابہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر عربانی سیکھ
لی تھی جس کا مقصد خط و کتابت تھا
بلغوا عني ولو آية ،وحدثوا عن بني إرسائيل وال حرج ،ومن كذب عل متعمدا ،فليتبوأ مقعده من
النار
پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک آیت ہی ہو اور روایت کرو بنی ارسائیل سے اس میں کوئی
حرج نہیں اور جس کسی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بوال وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
صحيح بخاري ،كتاب احاديث االنبياء ،باب :ما ذكر عن بني ارسائيل
ارسائیلیات اورسابقہ کتب ساموی میں فرق رکھنا رضوری ہے ان دونوں میں وہ چیزیں جو قرآن و
حدیث سے متفق ہوں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ان کا مقصد احقاق حق اور تبین ہو تو کوئی
حرج نہیں ہے ،قرآن میں خود کئی جگہ توریت و انجیل کا حوالہ دیا گیا ہے
ایک صاحب کا کہنا ہے اللہ تعالی نے رصف ایک ہی کتاب نازل کی ہے
جو قرآن ہے اور توریت ،زبور ،انجیل اسی کتاب کے صفاتی نام ہیں
جواب
توریت الله تعالی نے اپنی قدرت سے لکھی کہ کالم الہی کے الفاظ الواح پر ظاہر ہوتے گئے اس
میں کسی فرشتہ کا ذکر نہیں ملتا کہ اس نے لکھا
پھر قرآن عربی میں ہے اور انبیاء میں عربی بولنے والے رصف رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا
ہمیں علم ہے باقی کی زبان بھی الگ ہیں
وتزنت ےک نیت مکح
مدینہ میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مد مقابل ٹھیٹھ مولوی تھے جنہوں نے
دین کو پیشہ بنا رکھا تھا اور کتاب الله یعنی توریت کو چھپایا جاتا اور اس کے مقابلے پر
اپنا مسلک و روایت پیش کی جاتی – مدینے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم حاکم
تھے اور کئی موقعوں پر آپ نے یہود کو دین کی طرف بالیا اور صحیح بخاری کے مطابق
ان کے مدارس بھی گئے
صحیح بخاری کی حدیث ہے
أَ ِب ُه َريْ َر َة َر ِ َ
ض اللَّ ُه َع ْنهُ ،ق ََال :بَ ْي َن َام نَ ْح ُن ِف امل َْسج ِِدَ ،خ َر َج ال َّنب ُِّي َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم فَق ََال:
«انْطَلِقُوا إِ َل يَ ُهو َد» ،فَ َخ َر ْجنَا َحتَّى ِجئْنَا بَيْ َت املِ ْد َر ِاس فَق ََال :أَ ْسلِ ُموا ت َْسلَ ُمواَ ،وا ْعلَ ُموا أ َّنَ
األَ ْر َض لِلَّ ِه َو َر ُسولِ ِه
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ہم مسجد میں تھے رسول الله صلی الله علیہ
وسلم نکلے اور کہا یہود کی طرف چلو پس ہم نکلے یہاں تک کہ بیت املدارس پہنچے
پس آپ نے فرمایا اسالم قبول کرو امان ملے گا اور جان لو کہ زمین الله اور اس کے رسول
کے لئے ہے
ہامرے راویات پسند علامء کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ سابقہ رشیعت
منسوخ ہے جبکہ قرآن سوره املائدہ میں اہل کتاب کو کہتا ہے
قل ياأهل الكتاب لستم عل َشء حتى تقيموا التوراة واْلنجيل وما أنزل إليكم من ربكم
وليزيدن كثُيا منهم ما أنزل إليك من ربك طغيانا وكفرا فال تأس عل القوم الكافرين
کہو اے اہل کتاب تم کوئی چیز نہیں جب تک تم توریت و انجیل کو قائم نہیں کرتے اور
وہ جو متہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے ان کی رس
کشی و بغاوت میں ہی اضافہ ہوا – پس انکاریوں کی حالت پر افسوس نہ کرو
یعنی قرآن میں یہ واضح ہے کہ توریت و انجیل اہل کتاب کو پتا ہے لیکن اس کو چھپاتے
-ہیں اور اس کو قائم نہیں کرتے
ت
فْروايا ْ
یْضعي ْ
رجمْک ْ
مسند احمد کی روایت ہے
عن الشعبی ان علیاً جلد رشاحۃ یوم الخمیس ورجمھا یوم الجمعۃ وقال :اجلدھا بکتاب
’ اللّٰہ وارجمھا بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم(.احمد ،رقم )۸۳۹
شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے رشاحہ نامی عورت کو جمعرات کے دن
کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن اُسے رجم کرا دیا اور فرمایا :میں نے اِسے کتاب اللہ کے
مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگ سار کرتا
‘‘ہوں۔
کتاب جامع التحصيل ف أحكام املراسيل از العاليئ (املتوىف761 :هـ) کے مطابق
عامر بن رشاحيل الشعبي أحد األمئة روى عن عل رض الله عنه…..وهو ال يكتفي مبجرد
إمكان اللقاء
عامر بن رشاحيل الشعبي امئہ میں سے ایک ہیں علی سے روایت کرتے ہیں اور… .یہ
امکان لقاء کی بنیاد پر مجردا صحیح نہیں
یعنی شعبی کا سامع علی رضی الله عنہ سے مشکوک ہے
ت
ضْصحيحْروايا ْ
قْْبع ْ
ےْْمتعل ْ
رجمْس ْ
سنن النسائی کی روایت ہے
اس بْ ُن ُم َح َّمد الدُّو ِر ُّي ق ََالَ :ح َّدثَنَا أَبُو َعا ِمر ا ْل َع َق ِد ُّيَ ،ع ْن ِإبْ َرا ِهي َم بْنِ طَ ْه َامنََ ،ع ْن أَخ َ َْربنَا الْ َعبَّ ُ
ول الل ِه َص َّل الل ُه َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ق ََال: َع ْب ِد الْ َعزِي ِز بْنِ ُرفَ ْيعَ ،ع ْن ُع َب ْي ِد بْنِ ُع َم ُْيَ ،ع ْن َعائِشَ ةَ ،أَ َّن َر ُس َ
َ
” الَ يَ ِح ُّل َد َم ا ْمرِئ ُم ْسلِم ِإالَّ بِ ِإ ْحدَى ث ََال ِث ِخ َصال :زَان ِم ْح َصن يُ ْر َج ُم ،أ ْو َر ُجل قَتَ َل َر ُج ًال
ُم َت َع ِّمدًا فَ ُي ْق َت ُل ،أَ ْو َر ُجل يَ ْخ ُر ُج ِم َن ْاْل ِْسالَ مِ لِ ُي َحار َِب الل َه َع َّز َو َجل َو َر ُسولَ ُه فَ ُي ْق َت ُل أَ ْو يُ ْصل َُب أَ ْو
يُنْفَى ِم َن األْ َ ْر ِض
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مسلامن کا خون رصف تین صورتوں میں حالل
ہے :ایک شادی شدہ زانی اُسے رجم کیا جائے گا۔ دورسے وہ شخص جس نے کسی کو
جان بوجھ کر قتل کیا ہو ،اُسے اس شخص کے قصاص میں قتل کیا جائے گا ۔ تیسے وہ
شخص جو اسالم چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول سے آمادۂ جنگ ہو ،اُسے قتل کیا
روایت اپنے منت میں بالکل واضح ہے کہ شادی شدہ عورت کو رجم کر دیا گیا اور
رشیعت کا حکم آگے پیچھے کرنے کے جرم میں کنوارے آدمی کو سو کوڑے کے ساتھ
جال وطن بھی کیا گیا – غامدی صاحب نے اس کو تفتیش کا کیس بنا کر بیانات و شواہد
کا مطالبہ کیا ہے جو رصف اور رصف خلط مبحث ہے اور اس بحث سے روایت میں جو
بیان ہوا ہے اس پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ غیر شادی شدہ نے ایک شادی شدہ کے ساتھ زنا کیا
– مجرم کے باپ نے معاملہ ڈیل میں تبدیل کیا لیکن بالخر مقدمہ رسول الله صلی الله
علیہ وسلم تک پہنچا – یہ کس قسم کا خاندان تھا یا یہ کوئی سازش تھی یہ غیر رضوری
سواالت ہیں کیونکہ یہ اعَّتاض تو کسی بھی مقدمہ پر ہو سکتا ہے
نتیجہ :شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں گے
اور اگر ڈیل کرنے کی کوشش کرے تو جال وطن بھی کیاجائے گا
يه روایت دلیل ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے بدکاری کا
ارتکاب کرے تو اُس کی سزا غیر شادی شدہ کے لئے کوڑے ہونی چاہیے
لیکن اگر شادی شدہ مرد یا عورت غیر شادی شدہ مرد یا عورت سے زنا کرے تو شادی
شدہ کو رجم کیا جائے گا
امام مالک نے کہا کہ یحیی بن سعید نے کہا کہ سعید بن املسیب نے کہا الشَّ ْي ُخ
َوالشَّ يْخَة سے مراد الثَّيِّ َب َوالثَّيِّبَ َة (شادی شدہ زانی) ہے – یہ ادبی انداز ہے کہ انداز ہے
– کہ بڈھا یا بڈھی کو رجم کرو اس میں یہ مستمر ہے کہ وہ شادی شدہ ہیں
موطا کی روایت کی سند کا مسئلہ ہے کہ اس میں سعید بن املسیب کا سامع عمر رضی
الله عنہ سے نہیں ہے
کتاب جامع التحصيل ف أحكام املراسيل از العاليئ (املتوىف761 :هـ) کے مطابق
قال يحيى القطان سعيد بن املسيب عن عمر رض الله عنه مرسل
یحیی بن سعید جو اس روایت کے ایک راوی ہیں وہ خود کہتے ہیں کہ سعید بن املسیب
کی عمر رضی الله عنہ سے روایت مرسل ہے
کیونکہ سعید بن املسیب ،عمر رضی الله عنہ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے
عمر کو دیکھا کچھ سنا نہیں
شاید اسی وجہ سے امام بخاری نے یہ روایت ایک دورسی سند سے دی ہے – امام بخاری
اس کو عَنِ ابْنِ ِش َهابَ ،ع ْن ُعبَيْ ِد اللَّ ِه بْنِ َعبْ ِد اللَّ ِه بْنِ ُعتْبَ َة بْنِ َم ْس ُعود ،عَنِ ابْنِ َعبَّاس کی
سند سے صحیح میں دو جگہ لکھا ہے
(عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ) :بے شک ،اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو
حق کے ساتھ بھیجا اور اُن پر اپنی کتاب نازل کی۔ اُس میں آیت رجم بھی تھی ۔ چنانچہ
ہم نے اُسے پڑھا اور سمجھا اور یاد کیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی
اِسی بنا پررجم کیا اور اُن کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر
کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ کہنے والے کہیں گے کہ ہم تو رجم کی آیت اللہ کی
کتاب میں کہیں نہیں پاتے اور اِس طرح اللہ کے نازل کردہ ایک فرض کو چھوڑ کر گم راہ
ہوں گے ۔ یاد رکھو ،رجم اللہ کی کتاب میں ہر اُس مرد و عورت پر واجب ہے جو شادی
کے بعد زنا کرے
نتیجہ :شادی شدہ زانی رجم کیا جائے گا
غامدی صاحب نے الشیخ اور الشیخہ سے ایک بوڑھا اور بوڑھی لیا اور اس کو ایک مہمل
بات قرار دیا ہے – حاالنکہ جب بات زنا کے تناظر میں ہو تو اس کو سمجھنا مشکل نہیں
– مثال آج الشیخ کا لفظ علامء کے لئے عرب ملکوں میں عام ہے کسی کو الشیخ بوال
جائے تو وہ ہو سکتا ہے کوئی امیر آدمی ہو یا عامل ہو یا قبیلہ کا رسدار ہو -آج سیدنا کا
لفظ انبیاء کے ساتھ استعامل ہونے لگا ہے خود غامدی صاحب بھی کرتے ہیں لیکن سو
سال پہلے اس طرف انبیاء کے ساتھ سیدنا نہیں لکھا جاتا تھا – اسی طرح علم حدیث کے
قدیم قلمی نسخوں میں کہیں بھی انبیاء کے ناموں کے ساتھ صلی الله علیہ وسلم یا
علیہ السالم نہیں لکھا ملتا لیکن آج جو نئی کتب چھپ رہی ہیں ان میں یہ الحقہ عام ہے
– نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں الشیخ ایک عمر رسیده اور منجھے ہوئے شخص
کے لئے بوال جاتا تھا اور عربوں میں ایسے لوگ عموما شادی شدہ ہی ہوتے تھے -قرآن
میں شیخآ کا لفظ ہے جس کو سارہ علیہ السالم نے ابراہیم علیہ السالم کے لئے استعامل
کیا (سوره الهود)– الشيخ كبُي كا لفظ يعقوب عليه السالم کے لئے سوره یوسف میں ہے
اور شیخ مدین سس موسی کے لئے سوره قصص میں ہے – اور سوره الغآفر میں شیوخا کا
لفظ ہے – یعنی بعض کا یہ کہنا کہ شیخ کا لفظ غیر قرانی ہے اور مخمل میں ٹآٹ کا
پیوند ہے صحیح نہیں – الشیخ و الشیخہ کے حوالے سے کتب شیعہ مثال تهذيب
األحكام للطوِس ،195/8االستبصار ً ،377/3اور وسائل الشيعة از آلحر العامل 610/15
میں بھی روایت ہے جس کو بعض متقدمین شیعہ جمع القرآن پر اعَّتاض کے حوالے سے
پیش کرتے ہیں اس میں مبا قضيا الشهوة کے الفاظ بھی ہیں – ان کے اس پرو پگندے سے
متاثر ہو کر بعض لوگوں نے یہ حل نکاال کہ اس روایت کا انکار کر دیا جائے – اور اسی
وجہ سے اس پر بحث کا باب کھل گیا اور دور قدیم سے ابھی تک اس میں ایک خلجان
پایا جاتا ہے – فقہاء نے اس کا حل یہ دیا کہ آیت منسوخ ہوئی اور اس کا حکم باقی ہے
– اہل تشیع کے مطابق امام جعفر اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے الشيخ والشيخة
فارجموهام البتة مبا قضيا الشهوة اور رجم کا حکم دیتے یعنی رجم کی سزا کا حکم ان
کے ہاں بھی ہے – اہل تشیع کا جمع القرآن پر اعَّتاض غیر منطقی ہے کیونکہ قرآن ابو
بکر رضی الله عنہ نے جمع رضور کیا لیکن وہ عثامن رضی الله عنہ کے دور تک تقسیم
نہیں ہوا تھا – عمر رضی الله عنہ کے دور میں بھی جو قرآن پڑھا جاتا تھا اس کا کوئی
ایک نسخہ نہ تھا مختلف قرات تھیں اور یہ قرات علی اور عمر رضی الله عنہام اس
وقت تک کر رہے تھے جس سے ظاہر ہے کہ یہ آیت نہ علی کی قرات میں تھی نہ عمر
کی -سوال اٹھتا ہے کہ شیعوں نے اس قرات کو کب اور کیوں چھوڑا اگر یہ علی رضی
الله عنہ اور اہل بیت کی قرات تھی؟ اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے اور امام
جعفر کو تو پتا ہو گا کہ اصلی قرآن کیا ہے تو ایک دفعہ ہی اس کو امال کرا دیتے – انہوں
نے بھی ایسا نہیں کیا
بخاری کی اس حدیث میں کسی علت کا علم نہیں ہے لہذا اس کو رد نہیں کیا جاتا –
ممکن ہے رجم کی یہ آیت ہو اور منسوخ ہو گئی ہو ایسا دورسی آیات میں بھی ہوا ہے –
لیکن یہاں اس کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھ سکتے ہیں
اگر کوئی رجم کی سزا کو توریت کے تناظر میں سمجھے تو مسئلہ فورا حل ہو جاتا ہے
کہ یہ حکم یہود کے لئے توریت سے لیا گیا اور ایسا ممکن نہیں کہ رسول الله صلی الله
علیہ وسلم کی جانب سے یہود پر سخت سزا اور مسلامنوں پر کم تر سزا نافذ کی جاتی
– سوال اٹھتا ہے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ شادی شدہ یہودی نے شادی شدہ مسلامن
سے پہلے زنا کیا اور مقدمہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس پیش ہوا؟ مدینہ
میں یہود کے تین بڑےقبائل تھے دو نکال دے گئے – تسے قبیلہ بنو قريظة کے
مردوں کو قتل کیا گیا جس کا ذکر آ رہا ہے یہ سب سن ٥ہجری ميں ہوا – ایک روایت
کے مطابق یہود نے جب زنا کی اپنی خود ساختہ سزا کو نافذ کیا تو رسول الله صلی الله
علیہ وسلم نے ان کو کہا کہ توریت الو اور پڑھو تو ان کے ایک عامل َعبْ َد الل ِه ابْ َن
ُصو ِريَا نے اس کو پڑھا اور آیات پر ہاتھ رکھ کر اسکو چھپایا (مسند الحميدي ،مسند
أحمد ،صحیح ابن حبان ،رشح مشکل اْلثار ،البداية والنهاية ) – سیرت ابن اسحق اور
البداية والنهاية از ابن کثیر کے مطابق یہ اس وقت عرب میں یہود کا سب سے بڑا عامل تھا
اور بَ ِني ث َ ْعلَبَ َة بْنِ الْ ِفطْيَ ْونِ میں سے تھا – -سنن الکربی البیہقی کے مطابق اس توریت
کو پڑھنے والے واقعہ کے وقت ابن صوریا کے ساتھ بنی قریظہ والے تھے – ایک دورسی
روایت کے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلے جن کو رجم کا حکم
دیا وہ یہودی تھے (مصنف عبد الرزاق) -ان متام شواہد کی روشنی میں واضح ہے کہ یہود
پر رجم کی حد سن ٥ہجری یا اس سے قبل لگی اور یہ مدینہ میں سب سے پہلے یہود
پر لگی
غامدی صاحب کی رائے میں اس سزا کو مرشکین پر لگایا گیا کیونکہ ان پر امتام حجت ہو
گیا تھا – لیکن کیا اہل کتاب پر امتام حجت ہونے سے رہ گیا ظاہر ہے جس کو بھی رسول
الله صلی الله علیہ وسلم کی خرب پہنچی اس پر امتام حجت ہو گیا اور سوره البقرہ میں
اس کا مکمل بیان ہے کہ امتام حجت میں یہود شامل ہیں
اصل میں ارتاد کی سزا کا تعلق اصال اہل کتاب سے ہے – اہل کتاب کی اسٹریٹجی تھی
کہ صبح کو ایامن الو اور شام کو کافر ہو جاؤ غامدی صاحب سوره ال عمران کی آیات ٨٢
تا ٨٤کا ترجمہ کرتے ہیں
اور اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلامنوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے ،اُس پر صبح
ایامن الؤ اورشام کو اُس کا انکار کردیا کر و تاکہ وہ بھی برگشتہ ہوں۔ اور اپنے مذہب
والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانا کرو ۔۔۔ اِن سے کہہ دو( ،اے پیغمرب ) کہ ہدایت تو
اصل میں اللہ کی ہدایت ہے ۔۔۔ (اِس لیے کسی کی بات نہ مانا کرو کہ ) مبادا اِس طرح
کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جو متھیں ملی ہے یا تم سے وہ متھارے پروردگار کے
حضور میں حجت کرسکیں۔ اِن سے کہہ دو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ،جسے
چاہتا ہے عطاکردیتا ہے اوراللہ بڑی وسعت اوربڑے علم واال ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے،
اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے اور اللہ بڑے فضل واال ہے۔
اس رجحان کو روکنے کے لئے حکم نبوی تھا کہ جو دین بدلے اس کو قتل کر دو – یہود
کے مطابق اسی حکم کی بنیاد پر عیسی (علیہ السالم) کے قتل کا فتوی دیا گیا تھا کہ
اس نے (نعوذ باللہ) ابن الله ہونے کا دعوی کیا ہے (جو اصال یہود کا اتہام ہے) – توریت
کی استثنا کے باب ١٣کی آیات ٦تا ١٠ہے
استنسنا١٣٦
ارتاد پر مرشکین اور اہل کتاب کا قتل ہوا مثال یمن میں جب معآذ بن جبل رضی الله عنہ
پہنچے تو دیکھا ایسا ایک مقدمہ مرتد یہودی پر چل رہا ہے انہوں نے کہا میں گھوڑے
سے نہ اتروں گا جب تک اس کا قتل نہ ہو
یہودی تعداد میں کم تھے لہذا ان میں قتل کی سزا عمال ختم ہو چکی تھی وہ توریت
کی ان آیات پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے اور قرآن نے سوره املائدہ میں اہل کتاب کو کہا
کہ جو الله کا حکم نافذ نہ کرے وہ کافر ہے وہ ظامل ہے وہ فاسق ہے
لہذا رجم ہو یا عہد شکنی ہو یا ارتاد ہو ان سب کا حکم توریت سے لیا گیا اور اسی کو
اسالم میں جاری رکھا گیا – کیا یہ منبی بر انصاف تھا کہ ان سخت حدوں کو اہل کتاب پر
تو لگایا جائے لیکن اہل اسالم کو بچا لیا جائے؟ سوچئے
کیا توریت کے احکام اصال حمورابی کے احکام کا چربہ ہیں ؟ بعض لوگ کہتے ہیں
موسی علیہ السالم ایک فرضی کردار ہے کیونکہ قدیم تاریخ میں ان کا ذکر نہیں اور
آرکیالوجی سے بھی کچھ دریافت نہیں ہوا
جواب
جو چیز ایک دور میں قبولیت عامہ اختیار کر لے اس کو معروف کہا جاتا ہے اور ابراہیمی
ادیان میں اسی معروف پر بھی عمل ہوتا ہے اور یہی قانونی شکل لیتا ہے – حمورابی کوڈ
یا توریت ایک ایسے دور میں ہیں جن میں معارشوں کی بقا کے لئے سخت قوانین کو
اپنانا رضوری تھا اور یہی اس دور میں انسانی ذہن کے لئے قابل قبول تھا – ملحدین کہہ
سکتے ہیں کہ موسی کو دشت میں بنی ارسائیل پر کنٹرول کے لئے سخت قوانین درکار
تھے لیکن بابل کے کشادہ و فارغ البال ملک میں اس قسم کے سخت احکام کیوں
لگائے گئے ؟ اس کے جواب میں یہی مضمر ہے کہ اس دور میں قبولیت عامہ اسی
جیسے قواینن کو تھی لہذا چند قوانین میں مامثلت اصال نقل یا رسقه نہیں
موسی علیہ السالم پر فراعنہ مرص کی تحریریں خاموش ہیں -نہ کتبوں پر کچھ مال نہ
تابوتوں پر نہ دیواروں پر نہ کھنڈرووں میں ان کے بارے میں کچھ مال – ایسا کیوں ہوا ؟
اس کا جواب ہے کہ موسی ایک فرد ہیں اور فرعونوں کے خاندان سے نہیں – کیا فراعنہ
مرص کے عالوہ کسی اور شخصیت کا ذکر مال؟ نہیں مال – کیونکہ بادشاہتوں میں رویل
فیملی ہی کی اہمیت ہوتی ہے اور مخالفین کا ذکر نہیں ہوتا اال یہ کہ وہ کوئی مشھور
بادشاہ ہو -موسی علیہ السالم ایک غریب و غالم قوم کے شخص تھے ان کا نام و نسب
فرآعنہ مرص کیوں لکھواتے؟ کہا جاتا ہے یونانی مورخ ہیروڈوٹس
Herodotus
جو تاریخ مرص میں طاق تھے انہوں بھی موسی کا ذکر نہیں کیا -لیکن کیا ہیروڈوٹس
جو ٤٨٤ق م میں پیدا ہوئے کیا متام مرص کی تاریخ لکھ گئے یا رصف اپنے زمانے کی ہی
لکھ پائے اور ان یونانی مورخین نے جو تاریخی غلطیاں کی ہیں ان کا ذکر ہم کیوں بھول
جاتے ہیں ؟ ہیروڈوٹس کو جھوٹ کا باپ بھی کہا جاتا ہے – اس کے بقول ایران میں
لومڑی کے سائز کی چونٹی ہوتی ہے جو سونا پھیالتی ہیں جب زمین میں سوراخ کرتی
ہیں تاریخ کتاب 3اقتباس ١٠٢تا – ١٠٥اسی قسم کے قول کو مفسین نے سوره
النمل میں سلیامن علیہ السالم سے کالم کرنے والی چیونٹی کی تفسیر کے لئے استمعال
کیا (ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں أَ ْو َر َد ابْ ُن َع َساكِ َر ِم ْن طَرِيقِ ِإ ْس َح َاق بْنِ ب ِْرش َع ْن َس ِعيد
َع ْن قَتَا َد َة عَنِ الْ َح َسنِ أَ َّن ْاس َم َه ِذ ِه النَّ ْملَ ِة َح َر ُسَ ،وأَنَّ َها ِم ْن قَبِيلَة يُق َُال لَ ُه ْم بَنُو الشَّ يْ َصانِ ،
وأنها كانت عرجاء ،وكانت بقدر الذئب ابن عساکر نے اسحاق بن برش عن سعید عن قتادہ
عن حسن کی سند سے روایت کیا ہے کہ وہ چیونٹی لومڑی کے سائز کی تھی -یہ ابن
کثیر کی غلطی ہے کیونکہ اس کی سند میں اسحاق بن برش ہے جو قصہ گو ہے اور
ضعیف ہے بلکہ محدثین کہتے ہیں موضوعآت بیان کرتا ہے)– بابل اور مرص کے حوالے
سے موصوف نے کافی زمین و آسامن کے قالبے مالئے اور ارکیلوجی سے ثابت ہوا کہ یہ
سب فرضی قصے تھے – لق و دق میسوپومتا کے شہروں کو ٹروپیکل جزیروں کی شکل
میں پیش کرنا انہی کا فن تھا – بحر الحال قصہ مخترص بندر کی بال طویلے کے رس کا
– مقولہ مشھور ہے
pyramids
آرکیالوجی سے ثابت ہو چکا ہے کہ مرص میں غالمی زوروں پر تھی اور تقریبا متام دنیا
میں ہی غالمی تھی – بعض عرب مفکروں مثال دکتور نديم عبد الشاىف السيار نے یہ شوشہ
چھوڑا کہ مرص میں بنی ارسائیل غالم نہیں تھے اور قدماء فراعنہ مرص موحد تھے – مرص
پر تحقیق کرنے والے مغربی محققین کے خیال میں رصف ایک فرعون بنام اخناتوں
Akhenaten
میں اس عقیدے کا اثر تھا اس کی موت کے بعد اس کی تصویریں مقابر و مندروں میں
توڑی گئیں اور اس کی توحید یہ تھی کہ رصف اتان دیوتا کی پوجا ہو – اس سے پہلے
اوربعد میں کسی فرعون کے لئے یہ عقیدہ نہیں ملتا -الغرض اگر کسی ممی کے رس کی
ہڈی پردراڑ ہو تو محققین اس پر پوری قتل کی کہانی بنا دیتے ہیں اور یہ مرص پر تحقیق
کا انداز ہے اس میں کوئی چیز حتمی نہیں ہے بلکہ تھیوری ہے – ایک نشان سے رائی کا
پربت بنا دیا جاتا ہے -قدیم تاریخ لکھنے سے بھی پہلے کی باتیں ثابت نہ ہوں تو ان کا
انکار نہیں کیا جا سکتا – دوم جتنی بھی قدیم تاریخیں ہیں وہ سب بائبل سے لی گئی
ہیں زمین کی عمر یہود کے مطابق ٦٠٠٠سال کے قریب ہے لہذآ جو بھی واقعہ قدیم
دور کا بتایا جاتا ہے وہ اسی مدت کے اندر کا ہی ہوتا ہے اس کی وجہ ہے کہ مغربی
محققین چاہے ملحد ہوں یا ال دین یا بے دین یا عقیدہ رکھنے والے ان کے پاس قدیم
تحریروں میں بائبل ہی ایک ذریعہ ہے جس سے یہ متام تواریخ مقرر کی گئی ہیں -لہذا
جملہ معَّتضہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیا انصاف ہے کہ بائبل کے نام نہاد
مصنف موسی کو فرضی کہا جائے اور ان کی کتاب سے قدیم تاریخ مقرر کی جاتی ہے-
قدیم مرص کی تواریخ
Manetho
سے منسوب ہے جو 3قبل مسیح کا ایک مرصی پروہیت تھا اور کہا جاتا ہے فراعنہ مرص
کے دین پر تھا – اس دور میں آرکیالوجی نہیں تھی لیکن اس کی مقرر کردہ تاریخ میں
کھینچ تان کر کے اس کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ ایک مستند ذریعہ ہو -کہنے
کا مقصد ہے جس چیز میں خود جھول ہو اس کی بنیاد پر الہامی کتب کو رد کرنا
سفیہانہ عمل ہے
زوبز
کیا داود علیہ السالم عبادت میں موسیقی کا استعامل کرتے تھے ؟
جواب
داود علیہ السالم موسیقی کا استمعال نہیں کرتے تھے جب وہ زبور کی قرات کرتے تو پرندے ان
کی آواز میں آواز مالتے اور پہاڑوں میں سے اس کو گونج اٹھتی تھی
اہل کتاب کی دو کتابیں ہیں
Book of Kings
aur
Book of Chronicles
ان دونوں میں اختالف ہے ایک کے مطابق موسیقی ہیکل میں استمعال ہوتی تھی دورسی میں اس
کا ذکر ہی نہیں لہذا عرص حارض کے اہل کتاب علامء کی رائے میں یہ بات درست نہیں کہ
موسیقی ہیکل میں استمعال ہوتی ہو گی
یہ تحقیق اس کتاب میں موجود ہے
https://www.amazon.com/Passion-Vitality-Foment-Dynamics-Judaism/dp/B007K54LHQ
موسیقی کا استمعال دورسے ہیکل کے دور میں ہوا کیونکہ یہ فارس کا عمل تھا انہوں نے ہیکل
واپس بنوایا اور اس میں موسیقی کو رواج دیا سند جواز کے لئے زبور میں موسیقی کا ذکر کیا گیا
عربوں کو بھی سازوں کا فارسیون سے علم ہوا
عبادت میں موسیقی کا استمعال نہیں ہوتا ہاں شادی بیاہ پر ہو سکتا ہے جیسا کہ روایات سے ہم
کو معلوم ہے
و اللہ اعلم