Professional Documents
Culture Documents
ایک مکڑا اور مکھی
ایک مکڑا اور مکھی
:تمہیدی نوٹ
اس نظم میں بچوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ دشمن خواہ الکھ چکنی چپڑی اور خوشامد کی باتیں کرے ،اس کے
بہکانے اور پھسالنے میں ہرگز نہیں آنا چاہیے۔
:پہال بند
ایک کوئی مکڑا کسی مکھی سے کہنے لگا کہ تم ہر روز اس راستہ سے گزرتی; ہو لیکن کبھی میرے گھر کے
بھاگ نہ جاگے ،کسی دن بھولے سے یہاں نہ آئیں۔ بیگانوں سے نہ مال جائے تو کوئی ہرج نہیں مگر اپنوں سے
اس طرح الگ تھلگ نہ رہنا چاہیے۔
اگر تم میرے گھر آؤ تو میرے لئے یہ بڑی عزت اور فخر کی بات ہے۔ اگر تم انا پسند کرو; تو وہ سامنے سیڑھی
لگی ہوئی ہے اس سے آ سکتی ہو۔
مکھی نے مکڑے کی بات سن کر جواب دیا۔ جناب یہ دھوکا کسی احمق کو دیجئے گا۔
مکھی اس فریب کے جال میں کبھی نہیں آ سکتی جو کوئی آپ کی سیڑھی پر ایک دفعہ بھی چڑھ جائے وہ پھر
زندہ سالمت نہیں اتر سکتا
:دوسرا بند
مکڑا بوال۔ واہ! تم مجھے فریبی سمجھتی ہو؟ تم جیسا مورکھ; بھی دنیا میں کوئی نہ ہو گا۔ میں تو تمہاری آؤ بھگت
کرنا چاہتا تھا۔ ورنہ اس میں میرا ذاتی فائدہ تو کچھ بھی نہ تھا۔
خدا جانے تم کہاں سے اڑتی ہوئی آئی ہو۔ میرے گھر میں جو ٹھہر جاؤ تو اس میں کیا برائی ہے۔
میرا گھر باہر سے تو ایک چھوٹا سا ناچیز جھونپڑا; نظر آتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس میں بہت سی چیزیں
تمہارے دکھانے کے الئق ہیں۔
اس کے دروازے پر باریک اور نفیس پردے پڑے ہوئے ہیں اور میں نے دیواروں میں آئینے لگا کر انہیں سجا
رکھا ہے۔
مہمانوں کے آرام کرنے کو بچھونے موجود ہیں ،یہ سامان ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ مکھی بولی یہ سب ٹھیک
سہی ،لیکن میں اور آپ کے گھر آؤں؟ یہ امید ہر گز نہ رکھئے گا۔ خدا مجھے ان نرم بچھونوں سے بچائے ہی
رکھے۔ ان پر کوئی; سو جائے تو پھر زندہ اٹھ نہیں سکتا۔
:تیسرا بند
مکڑے نے اس کی سنی تو جی میں کہا ،میں اسے کیونکر; پھانسوں ،یہ کم بخت تو سیانی ہے اور مجھے خوب
جانتی بوجھتی ہے۔
دنیا میں چاپلوسی سے سینکڑوں کام انجام پاتے ہیں۔ زمانہ میں جسے دیکھو بس یہی چاہتا ہے کہ لوگ میری
خوشامد کرتے رہیں۔ بہتر یہ ہے کہ میں بھی اسی ہتھکنڈے سے کام لے دیکھوں۔
یہ سوچ کر مکھی سے کہنے کگا ،بڑی بی! خدا نے آپ کو بڑا اونچا مرتبہ; دیا ہے۔ جو کوئی آپ کو ایک نظر ہی
دیکھ لے اسے آپکی صورت سے بڑا پیار ہو جاتا ہے۔
واہ واہ! آپ کی آنکھیں ہیں یا ہیرے کے چمکتے ہوئے ریزے! خدا نے آپ کا سر کلغی سے سجا دیا ہے۔ یہ
خوبصورتی ،یہ لباس ،یہ اچھائی ،یہ صفائی ،سبحان ہللا! پھر اس پر اڑتے ہوئے گانا تو قیامت ڈھا رہا ہے۔
مکھی نے چاپلوسی کی باتیں سنی تو اس کا دل نرم ہو گیا۔ بولی ،مجھے آپ سے کوئی اندیشہ نہیں۔
میں کسی کی بات نہ ماننے کی عادت کو برا سمجھتی ہوں۔ سچ یہ ہے کہ کسی کا دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا۔
یہ بات کہتی ہوئی اپنی جگہ سے اڑی اور مکڑے کے پاس پہنچی تو اس نے اچھل کر اسے پکڑ لیا۔
وہ بہت دنوں سے بھوکا تھا۔ اب جو اسے شکار (مکھی) ہاتھ لگا تو گھر بیٹھ کر اسے مزے سے کھا لیا۔
ای ک پ ہاڑ اور گلہری
:تمہیدی نوٹ
یہ نظم امریکہ کے مشہور ادیب ،فلسفی اور شاعر آر ڈبلیو ایمرسن کے کالم سے اخذ کی گئی ہے۔ اس میں
مکالمے کے ذریعہ سے بچوں کق سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز نکمی اور بری نہیں۔ ایمرسن
1803ء میں پیدا ہوا اور 1882ء میں وفات پائی۔
:پہال بند
کوئی پہاڑ ایک گلہری سے کہہ رہا تھا کہ تجھے کچھ بھی شرم ہو تو جا کر ڈوب مرے۔ تو ذرا سی چیز ہو کر
اتنا گھمنڈ کر رہی ہے۔ واہ کیا کہنا! اس عقل ،دانائی اور سمجھ بوجھ کی کیا بات ہے! خدا کی قدرت ہے کہ اس
کی ایک نہایت کم درجہ مخلوق اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھ رہی ہے ،جو بے وقوف; ہے ،وہ خود کو عقل مند
خیال کرتی ہے۔
میری اونچی شان اور مرتبے کے آگے تیری کیا حیثیت ہے؟ میری ٹھاٹھ باٹھ اور بلندی کے سامنے زمین نیچی
ہے۔
!جو خوبی مجھ میں وہ تیری قسمت میں کہاں ہے؟ بھال کہاں پہاڑ اور کہاں غریب جانور;
:دوسرا بند
یہ سن کر گلہری نے کہا ،زرا منہ سنبھال کر بول۔ یہ باتیں فضول; اور بے اصل ہیں۔۔ انہیں دل سے نکال دے۔
اگر میں تیری طرح بڑی نہیں تو کیا پرواہ ہے! تو بھی آخر میری طرح چھوٹا نہیں۔ ہر چیز سے خدا کی قدرت
ظاہر ہے۔ کوئی بڑا ہے کوئی; چھوٹا ہے۔ یہ بھی اس کی کاریگری; ہے۔
تجھے اس نے دنیا میں بڑا بنا دیا اور مجھے درخت پر چڑھنا سکھا دیا۔ تجھ میں پاؤں تک اٹھانے کی طاقت نہیں۔
بس بڑائی ہی بڑائی ہے اور کیا خوبی ہے۔
اگر تو بڑا ہے تو مجھ سا کوئی دکھا اور نہیں تو یہ چھا لیا ہی زرا توڑ دے۔ دنیا میں کوئی چیز نکمی نہیں۔ قدرت
کے کارخانہ میں کوئی برا نہیں۔