You are on page 1of 3

‫غرور کا سر نیچا‬

‫ایک کسان کا بڑا سا کھیت تھا۔ اور اسی کے ساتھ اس کا پیارا سا گھر بھی بنا ہوا تھا۔ کسان‬

‫کےپاس کئی جانورتھے‪،‬جیسے ہل چالنے کے لیے اور کنویں سے پانی نکالنے کے لیے بیل‪ ،‬کھیت‬
‫کی حفاظت کے لیے کتے‪ ،‬گھر میں استعمال کے لیے مرغیاں ‪ ،‬دودھ کے لیے بھینس اور بکریاں۔‬
‫ان جانوروں کو کسان نے گھر کے پیچھے والے حصے میں ایک چھپر بنا کر رکھا ہوا تھا۔‬
‫کسان نے جو مرغیاں پالی ہوئی تھیں‪ ،‬ان میں ایک بہت صحت مند اور خوبصورت مرغا بھی تھا‪،‬اس‬
‫کے سر پر سرخ رنگ کا تاج تھا اور اس کے پر بھی بہت چمکدار سرخ اور سنہری تھے۔ وہ ایسے‬
‫شان سے چلتا تھا ‪،‬جیسے کوئی بادشاہ ہو۔ وہ اپنی خوبصورتی پر فخر کرتا تھا۔ اور بہت زیادہ‬
‫مغرور ہو گیا تھا۔دوسرے جانوروں کی طرف وہ حقارت سے دیکھا کرتا تھا اور ان کے ساتھ دوستی‬
‫بھی نہیں کرتا۔ بس اکیلے ہی گھومتا رہتا اور کھیت میں چگتا پھرتا۔‬
‫ایک مرتبہ ایک لومڑی گھومتے گھومتے اس کھیت کے پاس سے گزری۔ اس نے کھیت میں صحت‬
‫مند اور خوبصورت سا مرغا دیکھا تو اس کے منہ میں پانی بھر ٓایا۔ وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کس‬
‫طرح اس مرغے کو کھایا جائے۔اتنے میں مرغے نے لومڑی کو دیکھ لیا۔ اور خطرہ بھانپ کر وہ‬
‫فورًا اڑ کر قریب کے درخت پر بیٹھ گیا۔ لومڑی سمجھ گئی کہ مرغا کافی سمجھ دار ہے‪ ،‬کوئی‬
‫ترکیب استعمال کرنی پڑے گی‪ ،‬تب ہی یہ مرغا میرے ہاتھ ٓا سکتا ہے۔ یہ سوچ کر لومڑی نے‬
‫مرغے کے ساتھ گفتگو شروع کی۔‬
‫اے حسین مرغے‪ ،‬میں نے ٓاج تک اتنا خوبصورت مرغا نہیں دیکھا۔ تم تو ساری دنیا میں سب سے ’’‬
‫خوبصورت مرغے ہو۔ تم نیچے تو ٓأو۔ ہم کچھ دیر بات چیت کریں گے‘‘۔‬
‫مرغےنے کہا‪’’،‬نہیں بھئی‪ ،‬میں تو نیچے نہیں ٓأوں گا‪ ،‬اگر میں نیچے ٓایا تو تم مجھے کھا لوگی‘‘۔‬
‫لومڑی نے کہا‪،‬نہیں بھائی نہیں۔ میں تمہیں کیوں کھانے لگی؟ مگر ہاں‪،‬مجھے تم سے دوستی ضرور‬
‫‘‘کرنی ہے۔ تم جو صبح صبح اذان دیتے ہو نا‪ ،‬فجر میں اٹھ کر‪ ،‬وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔‬
‫اب جیسے ہی مرغے نے اپنی تعریف سنی‪ ،‬وہ فورًا نیچے اتر ٓایا۔لومڑی بہت چاالک تھی۔ پہلے دن‬
‫تو اس سے خوب گپ شپ لگائی۔ اور اپنے گھر چلی گئی۔ اسی طرح سے وہ تین ‪،‬چار دن تک لگاتار‬
‫ٓاتی رہی۔ اچھی اچھی باتیں کرتی۔ اس طرح اس نے مرغے سے دوستی کرلی۔ مرغا بھی لومڑی سے‬
‫مانوس ہوتا گیا۔‬
‫پھر ایک دن جب مرغا باتوں کے دوران کچھ غافل ہوا‪ ،‬تو لومڑی نے مرغے کو گردن سے پکڑ لیا۔‬
‫اور جنگل کی طرف دوڑنے لگی۔‬
‫اب مرغے کو اپنی بے وقوفی کا اندازہ ہوا۔ اس نے سب جانوروں کو مدد کے لیے پکارا۔ لیکن کسی‬
‫نے بھی اس کی پکار کو اہمیت نہیں دی۔ کیوں کہ وہ بھی کبھی ان سے بات چیت نہیں کرتا تھا۔اب وہ‬
‫سوچنے لگا کہ‪ ،‬جو کچھ کرنا ہے مجھے ہی کرنا ہے۔ لومڑی کے چنگل سے چھٹکارا کیسے پایا‬
‫جائے۔ وقت کم تھا۔ لومڑی کسی بھی وقت اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی۔ اچانک اس کو ایک ترکیب‬
‫سوجھی۔ وہ لومڑی سے کہنے لگا۔‬
‫بی لومڑی‪ٓ ،‬اپ مجھے لے کر دوڑ لگا رہی ہیں‪ ،‬تو تھک گئی ہوں گی‪ ،‬ایسا کرتا ہوں کہ ٓاپ کو میں“‬
‫ایک کہانی سناتا ہوں‪ ،‬جس سے ٓاپ کا دل بھی بہل جائے گا اور تھکن بھی کم ہوجائے گی‘‘۔‬
‫یہ کہہ کر مرغے نے کہانی سنانا شروع کر دی۔’’ایک جنگل میں بہت بڑا سا شیر رہتا تھا۔ ایک گدھا‬
‫راستہ بھٹک کر اس جنگل میں ٓاگیا۔ وہاں کی ہری بھری اور نرم نرم گھاس دیکھ کر اس کا دل وہیں‬
‫لگ گیا۔ اور وہ واپس گھر جانے کے بجائے اسی جنگل میں رہنے لگا۔ روزانہ ہری ہری گھاس کھا‬
‫کھا کر خوب صحت مند ہوگیا۔ شیر روزانہ گدھے کو دیکھتا اور دل ہی دل میں اس کو کھانے کے‬
‫منصوبے بنایا کرتا۔‬
‫ایک دن موقع دیکھ کر شیر نے اسے پکڑ لیا۔ اب گدھے کی عقل ٹھکانے ٓا گئی کہ اچھا خاصا میں‬
‫اپنے مالک کمہار کے پاس رہتا تھا۔ میری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے میری جان تو چلی جائے گی۔‬
‫اس نے شیر سے بچنے کے لیےاس سے کہا‪ٓ ”،‬اپ تو جنگل کے بادشاہ ہیں۔ بادشاہ سالمت‪ ،‬یہ میرا‬
‫فرض ہے کہ میں ٓاپ کی خدمت کروں۔ ٓاپ اگر چہ مجھے کھانے کا ارادہ کر ہی چکے ہیں۔ تو اپنی‬
‫خواہش پوری کر لیں۔ لیکن میں بھی ٓاپ کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا کیجیے کہ ٓاپ مجھے پیچھے‬
‫سے کھانا شروع کریں اور میں ٓاپ کو گانا سناتا ہوں تاکہ ٓاپ کھانے کے دوران موسیقی سنتے‬
‫رہیں‘‘۔‬
‫شیر کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔وہ گدھے کے پیچھے کی طرف پہنچ گیا اور اس کو کھانا شروع‬
‫کرنے لگا۔ اتنے میں گدھے نے اپنے پیچھے کے دونوں پیروں سے دولتی جھاڑ دی۔ شیر کے منہ پر‬
‫ایسی زوردار الت پڑی کہ شیر دور جا کر گرا اور اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا‪ ،‬جس کی وجہ‬
‫سے وہ بے ہوش ہوگیا۔ اور گدھا سیدھا اپنے مالک کے پاس پہنچ گیا۔‬
‫یہ کہانی سنا کر مرغا کہنے لگا‪ٓ”،‬اپ ہی بتائیے کہ گدھے جیسا ذہین جانور اور کوئی ہوگا؟ کیسے‬
‫‘‘اس نے اپنی عقل استعمال کر کے اپنی جان بچائی۔‬
‫گدھے کی تعریف سن کر لومڑی کو بڑا غصہ ٓایا۔ وہ کہنے لگی‪ ”،‬ارے بے وقوف ‪ ،‬مجھ سے زیادہ‬
‫‘‘ذہین جانور کوئی ہو سکتا ہے؟‬
‫لیکن یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئی تھی کہ وہ منہ کھولےگی تو مرغا منہ سے نکل جائے گا اور ایسا‬
‫ہی ہوا۔ جیسے ہی لومڑی نے منہ کھوال مرغا زمین پر گر پڑا۔ اور فورًا اڑ کر ایک درخت کی شاخ‬
‫پر بیٹھ گیا۔ پھر لومڑی سے کہنے لگا‪ ’’،‬اب بتائیے سب سے زیادہ ذہین کون ہے گدھا‪ٓ ،‬اپ یا میں؟”‬
‫اس کے بعد مرغے نے سچے دل سے توبہ کرلی اور اپنا غرور چھوڑ کر سب کے ساتھ مل جل‬
‫کررہے گا۔ کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا کہ سب کے ساتھ وہ محفوظ رہ سکتا‬
‫ہے۔ اور اکیلے رہنے سے کوئی بھی دشمن حملہ کر سکتا ہے۔‬

You might also like