Professional Documents
Culture Documents
عبارت نمبر 3-اقبال نے آکر اسلامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہنمائی درکار ہے ۔-1
عبارت نمبر 3-اقبال نے آکر اسلامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہنمائی درکار ہے ۔-1
تشریح :زیر تشریح اقتباس میں مصنف نے برصغیر میں مسلمانوں کے مذہبی وسیاسی احوال کی
اصالح وتربیت کے لیے مفکر اسالم عالمہ محمد اقبال کے خاص اسالمی فسلفہ حیات کو اجاگر کیا ہے ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب هندوستان میں مسلمان دو واضح طبقات میں تقسیم ہو چکے تھے ۔ ایک طرف مغرب
پسند طبقہ تھا جو سر سید کے جدید تعلیمی نظریات اور بطور خاص علی گڑھ کالج کے نظام تعلیم کے
زیر اثر معرض وجود میں آیا اور دوسرا مذہب پسند طبقہ تھا ،جو قدیم علوم سے وابستہ اور علی گڑھ
تحریک کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا۔ سرسید مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو سنوارنے کے لیے ،
معاشی تنگ دستی کو دور کرنے کے لیے ؛ انگریزوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے ؛ جدید علوم ،
خاص طور پر انگریزی تعلیم کی ضرورت واہمیت پر زور دے رہے تھے تاکہ مسلمان انگریزی تعلیم
سے بہرہ ور ہو کر سرکاری عہدے اور نوکریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔ جب کہ دوسری
طرف علی گڑھ تحریک کے زیر اثر مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے اثرات اور انگریزوں کے مظالم
سے تنگ آکر مذہبی طبقہ انگریزی زبان سے سخت نفرت کا اظہار کر رہا تھا ۔
ان حاالت میں عالمہ اقبال نے ایک طرف عربی اور فارسی زبان پر عبور حاصل کرکے قرآن
وسنت کے اسرار ورموز کو سمجھا نیز اسالمی علوم ومعارف کا دقت نظری سے مطالعہ کیا اوردوسری
طرف انگریزی اور جرمن زبانوں پر عبور حاصل کر کے مغربی علوم میں بھی خاص مہارت حاصل
کر لی ۔ مغربی علوم کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اپنی محققانہ بالغ نظری سے مغرب افکار ونظریات
کے اثرات کا بھی مشاہدہ کرکے اپنا خاص فلسفہ قوم کے سامنے رکھا ۔ وہ خاص فلسفہ عالمہ اقبال کا
ہے ۔ اس فلسفہ خودی میں مفکر اسالم عالمہ اقبال نے انسان کی انفرادی شہرہ آفاق تصور خودی
نشو و نما اور اجتماعی ترقی کےزریں اصول بیان کیے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان بلکہ ایک مرد
مسلماں کامل ترین انسان بننے کے اہل ہو جاتا ہے ۔ مصنف کے مطابق اقبال نے انسان کے روحانی ارتقا
کے لیے تین درجے بیان کیے ہیں :اطاعت ،ضبط نفس اور نیابت الہی ۔ حضرت اقبال نے ہللا اور اس
کے رسول کی اطاعت کو خودی کے ارتقا کے سفر کی پہلی منزل قرار دیا ہے جس کا حکم ہللا تعالی
نے قرآن مجید میں یوں دیا ہے
یا ایھاالذین آمنوا اطیعوا ہللا واطیعوا الرسول (سورۃ النسآ ء )59:
ترجمہ " :اے ایمان والو !ہللا اور رسول کی اطاعت کرو "
ہللا تعالی نے عالم باال میں تمام ارواح کے لشکر سے مخاطب ہو کر اپنی الوہیت کا اقرار لیا جس
وعدہ الست بھی کہا جاتا ہے ۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ اے بار الہ ! ہم جہاں کہیں بھی ہوں گےتیری ہی
عبادت اور بندگی کریں گے ،تجھے ہی اپنا خالق ومالک اور معبود حقیقی سمجھیں گے ۔ ہماری جبین
نیاز تیری بارگاہ ہی میں جھکے گی اور ہم تیری ہی اطاعت کریں ،تجھے ہم وحدہ ال شریک جانیں گے
اور ہماری محبت ،ہماری نفرت ،ہماری دوستی ،ہماری دشمنی کا معیار تیری اطاعت اور تیری رضا
و خوش نودی ہو گی ۔ اسی تصور توحید کو عالمہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے-:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
جہاں تک اطاعت رسول کی بات ہے تو اس کی اہمیت بھی ظاہرو باہر ہے ۔چوں کہ ہللا تعالی نے انسانیت
کی رشد و هدایت کے لیے کم وبیش ایک الکھ بیس بزار انبیاء ورسل کوبھیجا ۔ تاجدار کائنات ،نبی آخر
الزمان صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سید االنبیاء بن کر تشریف الئے ۔ ہللا تعالی نے آپ کی اطاعت اپنی
اطاعت و رضا کے حصول کاذریعہ قرار دیا ہے ۔ ارشاد ہوا
ترجمہ " :جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے ہللا کی اطاعت کی "
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کائنات انسانی کو توحید باری تعالی کا پیغام ہللا کے رسول نے دیا ۔لہذا آپ
کی ذات ہمارے ایمان کا حاصل ہے اور اطاعت رسول سے گریز دراصل بارگاہ خداوندی سے گریز ہے
۔ بقول شاعر
کامل نہیں کسی کا ایماں تیرے بغیر
ہے رحمت خدا بھی گریزاں تیرے بغیر
اقبال کے نزدیک خودی کے ارتقائی سفر کی دوسری منزل ضبط نفس ہے ۔ جس کا مطلب نفسانی
خواہشات پر قابو پانا ہے ۔ تصوف اور روحانیت میں ضبط نفس کے لیے تہذیب نفس ،تصفیہ باطن اور
صفائے قلب کی اصطالحات مستعمل ہیں ۔ انسان مادی وجود اور روح سے مرکب ہے ۔ مادی وجود میں
نفس کی صورت میں قدرت نے ایک Invisible devicsجوڑ دی ہے ۔ جس میں ہر وقت دنیا کے مال وزر
کے حصول کی آرزوئیں پنپتی رہتی ہیں ،عہدہ ومنصب کی خواہشات جنم لیتی رہتی ہے ۔ حکومت
واقتدار اور دنیوی عزت وشہرت کی تمنائیں مچلتی رہتی ہیں نیز جنسی اور ذہنی تلذذ کی خواہشات کا
بے لگام گھوڑا انسان کو ہر وقت برائیوں کی طرف راغب کرتا رہتا ہے اور انسان بسا اوقات اس نفس
کے دام تزویر میں آکر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے ۔ جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے :
ان النفس المارۃ بالسوء
" ترجمہ ":بے شک نفس انسان کو برائیوں کا خوب حکم دیتا ہے
نفس کی خواہشات ،مال ودولت دنیا کی ہوا و ہوس انسان اپنے مالک و خالق کے احکام کی پیروی
نہیں کر سکتا ۔ چناں چہ رشد وہدایت کے راستے پر چلنے والے اہل ایمان خودی کی تعمیر وتکمیل
کرنے والے اپنی خواہشات نفسانی کو ہللا کی رضا کے تابع کر لیتے ہیں ۔ ایسے بندگان خدا پیکر تسلیم
ورضا بن کر زندگی گزارتے ہیں ۔ صوفیائے کرام کے مطابق نفس انسانی ،روحانی تربیت و تہذیب
کے ذریعے نفس لوامہ اور ملہمہ کے درجے تک جا پہنچتا ہے ۔ نفس کے خالف جہاد کے نتیجے میں
نفس مطمئنہ کے درجے کو پہنچ جاتا ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے :
قد افلح من تزکی ":جس نے تزکیہ نفس کیا وہ فالح پاگیا
خودی کے استحکام کے لیے اپنی خواہشات کو ہللا کی رضا کے سامنے سر نگوں کرنے میں جب بندہ
مومن کامیاب ہو جاتا ہے تو ہللا تعالی کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ انسان پر
کسی کا خوف مسلط کیا جاتا ہے ،بھوک پیاس ،غربت وفالس مسلط کی جاتی ہے ،مال ودولت میں
کمی واقع ہوجاتی ہے ،یہ سب اس کے ایمان کا امتحان ہوتا ہے جسے اقبال نے ابتالء و آزمائش کی ان
تمام صورتوں میں ثابت قدم رہنے کا درس دہتے ہوئے کہا ہے -:
خودی کو نہ دے سیم وزر کے عوض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض
اقبال کے مطابق بندہ مومن جب اطاعت اور ضبط نفس پر استقامت کے ساتھ قائم رہتا ہے تو
خودی کے اعلی ترین مقام کو حاصل کر لیتا ہے ۔ہللا تعالی اسے اپنا نائب منتخب کر لیتا ہے ۔ اب
وہ خالفت خداوندی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے ۔ اس مقام رفیع پر پہنچ کر ہللا کی اس قدر
رضا و خوش نودی کا سزاوار ہو جاتا ہے کہ ہللا اپنے اس بندے کے دست دعا کو رد نہیں
کرتا ،اس کے دل سے نکلنے والی دعائیں بارگاہ الہی میں مستجاب ہونے لگتی ہیں ۔ جسے
عالمہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے -:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کسی بھی انسان کے لیے یہی اعلی ترین مقام ہے کہ وہ خالق ارض وسما ،مالک کون و مکاں ،رب
کے الحکم ہلل والملک ہلل قہار و جبار اور خدائے ستار و غفار کی نیابت کا حق دار بن جائے ۔
مطابق ہر طرف اس حاکم مطلق کے حکم کی تابع فرمائیاں ہیں ،دنیا کا ہر حاکم ،ہر طاقت ور سپہ
ساالر بارگاہ خداوندی میں ایک حقیر اور بے مایہ چیز مگر وہ بندہ مومن جسے ہللا مکمل کردے ،جسے
ہللا طاقت ور کر دے ،جسے ہللا اختیارات عطا کردے ،اس کی حقیقت بے مثل ہو جاتی ہے ۔ اقبال
کہتے ہیں ۔
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی
شعر
محسن الملك نے 1901ء كو اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك می مختلف مقامات پر
اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خالف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی
حفاظت كے لیے علی گڑھ كے طلبہ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنا پر گورنر میكڈانلڈ كی جانب
سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
۔
اردو كے خالف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے
سے انكار كر دیا۔
اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشكار ہو گئی۔ اس تحریك
كے بعد مسلمانوں كو اپنے ثقافتی ورثے كا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت كے تحفظ
كے لیے متحد ہوئی۔
ء میں یوپی کے لیفٹنینٹ گورنر سر انٹونی میکڈانل نے اردو کے خالف مہم شروع کی تو نواب1900
محسن الملک نے اس کا جواب دینے کے لیے لکھنؤ میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ محسن الملک نے اس جلسے
میں جس جوش و خروش سے تقریر کی ،اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یوں سمجھیے کہ الفاظ کا ایک الوا تھا
:جو ابل ابل کر پہاڑ سے نکل رہا تھا۔ آخر میں نواب محسن الملک نے یہ کہتے ہویے کہ
” اگر حکومت اردو کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔ہم اردو کی الش کو گومتی دریا میں
“ بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے
اور والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھا۔
“
نواب محسن الملک نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی