Professional Documents
Culture Documents
خواجہ میر درد
خواجہ میر درد
وہ قادرالکالم شاعر ہیں جن کی شاعری میں دبستان لکھنؤ اور -1
دبستان دہلی دونوں کی خصوصیات کا رنگ جھلکتا ہے ۔یعنی ان کئ شاعری
داخلیت کی آئینہ دار بھی ہے اور خارجی کیفیات کا مرقع بھی پیش کرتی ہے
۔ان کا کالم عاشقانہ مضامین سے بھرا ہوا ہے اور صوفیانہ افکار کا بھی
ترجمان ہے ۔جذبہ عشق کی آنچ ان کی شاعری میں شروع سے آخر تک
محسوس ہوتی ہے ۔البتہ کہیں تندوتیز ہے اور کہیں ہلکی اور دھیمی ہے ۔
مصحفی کے کالم میں میر تقی میر کے غم عشق کی -2
گھالوٹ ملتی ہے ۔مصحفی کی شاعری میں ان کے ذاتی اور عصری حاالت
کے عالوہ توکل ،قناعت ،استغنا ،دنیا کی بے ثباتی ،احساس محرومی ،عشق
حقیقی کا درد غم اور درد وسوز جیسے موضوعات کی فراوانی ملتی ہے۔
مصحفی کے کالم میں موضوعات کی رنگا رنگی ،انداز بیان کی -3
جدت وندرت ،شاندار تراکیب ،نادر تشبیہات ،عمدہ استعارات ،صنائع بدائع کا
خوب صورت استعمال ملتا ہے ۔انھوں نے اپنی شاعری میں جمال پسندی ،مترنم
آہنگ اور انسانی نفسیات کے مختلف کے مختلف بہلووں کو بھی اجاگر کیا گیا
ہے ۔
مصحفی کا شمار کالسیکی اردو شاعری کے اساتذہ میں ہوتا ہے ۔ -4
انھوں نے اپنی شاعری میں میر تقی میر کی دردمندی اور مرزا سودا کی
شوکت بیان کو اس انداز سے سمویا ہے کہ ایک نئی طرز اظہار کے بانی قرار
پائے ہیں۔ ان کے کالم میں تصنع اور بناوٹ نام کو نہیں ۔ "دل سے جو بات
نکلتی ہے اثر رکھتی ہے " کے مصداق ان کے شعر دل سے نکلتے ہیں اور
دلوں میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔
۔
مرزا اسدہللا خاں غالب کا کالم اردو اور فاسی ادب کا -1
وہ سرمایہء نازش ہے جس نے ڈیڑھ صدی پیشتر تخیل مضامین کی ندرت
،اسلوب وادا کی جدت ،تشبیہات واستعارات کی نزہت اور عمدہ الفاظ وتراکیب
کی شان وشوکت کا ایک ایسا باب روشن کردیا ہے ،جس میں معانی و مطالب کا
ایک نیا جہاں نظر آنے لگا ۔غالب ارتقائے شعر کی وہ کڑی ہے جو حیات جاوید
پاگئی ہے ۔
غالب کے کالم کو اہل نقدونظر نے اردو ادب کا باقاعدہ -2
فلسفہ قرار دیا ہے ۔ان کی طبیعت میں اگرچہ مشکل پسندی ہے مگر مضامین
کی رنگا رنگی ،خیاالت میں غیر معمولی رفعت اور زبان و بیان پر پوری
قدرت اور فارسی کی نئی نئی تراکیب نے ان کے کالم کو چارچاند لگا دیے
ہیں۔
غالب کے کالم سے اردو شاعری میں ایک نئے دور -3
کی ابتدا ہوئی۔ان کا کالم جدید اور منفرد انداز کا حامل ہے ۔حقیقت نگاری ،آالم
روزگار اور حاالت زمانہ سے الجھ کر زندگی سے پیار ،اپنے اندرونی
دردوکرب کو طنزومزاح اور شوخی وظرافت کی نذر کردینا غالب ہی کا طرہ
امتیاز ہے
مرزا اسدہللا خاں غالب کے کالم میں فلسفہ وحکمت ،پند و -4
نصائح ،صوفیانہ خیاالت ،ایجازواختصار ،رمزوایمائیت ،مصوری وموسیقیت،
مضامین رشک ،خیاالت کی وسعت ،مضامین کی نیرنگیاں ،انسانی نفسیات کی
ترجمانی ،مبالغہ آرائی اور شاعرانہ تعلی جیسے محاسن کی فراوانی انھیں
دوسرے شعرا سے منفرد کرتی ہے ۔
-1عالمہ اقبال وہ آفاقی شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعرانہ صالحیتوں کو
دیگر شاعروں کی طرح محبوب مجازی کے زلف ورخسار اور لب شیریں کی
تعریف وتوصیف یا ہجر و وصال کے لیے صرف نہیں کیا بل کہ اقبال نے اپنی
فکری قوت اور تخلیقی صالحیتوں کو ملت اسالمیہ کے لیے وقف کیا ۔ انھوں
نے اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ہللا اور اس کے رسول کے
عشق واطاعت کا درس دیا ۔ ان کے شاعری کے بنیادی افکار عشق
حقیقی،فلسفہ خودی ،ذوق عمل سے مزین ہیں۔
-2اقبال کی شاعری ایک درس عمل ہے ؛ ایک پیغام زندگی ہے نیز آزادی
،عزت و وقار ،غیرت مندی و خودداری کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم کا
درجہ رکھتی ہے ۔ چناں چہ ان کے کالم میں قاری کو فلسفہ خودی کی اہمیت
واہمیت ،فقر ودرویشی کی کی عظمت ،تصوف وروحانیت کی چاشنی ،امید
ورجا کی سرشاری ،اور اعلی مقاصد کے حصول کے لیے جہد مسلسل اور
عمل پیہم کی زندگی گزارنے کی ترغیب ملتی ہے ۔
-3اقبال کی شاعری بذات خود ایک نئی روایت کا سر چشمہ ہے ۔وہ اپنے
ایک ایک شعر میں قران وسنت سے رہنمائی لیتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی
شاعری میں جہاں مسلمانوں کو بلند نگاہی ،عرفان نفس ،آداب سحر گاہی کا
درس ملتا ہے ؛ وہاں ان کا کالم طرزا ادا کی جدت ،زبان وبیان کے حسن اور
شعری محاسن کا ایک خوب صورت مرقع نظر آتا ہے ۔
نا صر کاظمی
ناصر کاظمی اردو غزل کا معتبر حوالہ ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد -1
شاعروں کی جو نسل سامنے آئی ؛اس میں ناصر کاظمی سب سے زیادہ نمایاں
اور منفرد حیثیت کے مالک ہیں ۔قیام پاکستان سے قبل خاص معاشرتی حاالت
کے سبب نظم کے مقابلے میں غزل اپنا مقام و مرتبہ کھو چکی تھی ۔ناصر نے
اس مرحلے پر غزل کی تجدید کی اور اس میں ایسے امکانات داخل کیے جو
ایک طرف تو شاعری کی روایت میں خوب صورت اضافہ ہے ۔
ناصر کی غزل زندگی کی سچی اور منھ بولتی تصویر ہے ۔ان کے -2
نزدیک شعر کہنا اور اور سانس لینا ایک ہی عمل ہے ۔ناصر کے ہاں تشبیہ ،
استعارہ کی تازگی اور تصویر کاری ہی نہیں بل کہ خلوص کی گرمی اور
تجربے کی روشنی بھی ضروری ہے ۔
-3