You are on page 1of 11

‫سورة بقرة سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں

گنتی پوری کر لے۔ ہللا‬


‫تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے‪ ،‬تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا۔ اور چاہتا ہے کہ تم تعداد پوری کرو اور ہللا نے جو تمہیں ہدایت بخشی ہے اس پر اس‬ ‫‪۱۸۵‬‬
‫کی بڑائی کرو اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔‬
‫آگے ُیِرْیُد ُہّٰللا ِبُک ُم اْلُیْسَر سے آخر آیت تک صعودی ترتیب کے ساتھ اوپر کے تمام احکام کی حکمت ومصلحت واضح فرما دی۔ اوپر جو باتیں بیان ہوئی‬
‫تھیں ان کو ایک مرتبہ پھر ذہن کے سامنے کر لیجئے ایک تو یہ بات بیان ہوئی تھی کہ رمضان کا مہینہ روزوں کے لئے مخصوص کیا گیا؟ دوسری یہ‬
‫کہ فدیہ کی اجازت منسوخ کر دی گئی اب سفر اور بیماری کے زمانے کے روزوں کی تعداد بھی پوری کرنی ہو گی۔ تیسری یہ کہ سفر اور مرض کی‬
‫حالت میں روزے دوسرے دنوں پر ملتوی کئے جا سکتے ہیں۔ ان تینوں کی حکمت وعلت نیچے سے شروع کر کے اوپر کی طرف چڑھتے ہوئے یوں‬
‫بیان فرمائی کہ سفر اور بیماری کی حالت میں روزے ملتوی کر دینے کی اجازت تمہیں اس لئے دی گئی کہ ہللا تعالٰی تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا‬
‫ہے‪ ،‬وہ تمہیں کسی تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا‪ ،‬فدیہ کی اجازت اس لئے منسوخ کر دی گِئ کہ تم رمضان کے روزوں کی تعداد پوری کرو اور اس خیر‬
‫وبرکت سے محروم نہ ہو جو اس کے اندر مضمر ہے اور رمضان کے مہینہ کو اس کے لئے مخصوص اس وجہ سے فرمایا کہ تم اس نعمت عظمٰی پر‬
‫ہللا کی بڑائی اور اس کا شکر کرو جو تمہیں قرآن کی صورت میں اس مبارک مہینے میں عطا ہوئی۔‬
‫ِلُتَک ِّبُر وا َہّٰللا َع ٰل ی َم ا َہَداُک ْم میں تکبیر سے مراد خدا کی عظمت وجاللت اور اس کی بزرگی وکبریائی کے احساس و اعتراف کی وہ حالت ہے جو ایک‬
‫روزہ دار پر روزے کی حالت میں عمًال طاری ہوتی ہے اور جس کے سبب سے بندہ اپنی تمام جائز خواہشوں سے بھی محض اپنے رب کی رضا اور‬
‫ٰا‬
‫خوشنودی کی طلب میں دست بردار ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت پر مسلم کی اس حدیث سے بھی روشنی پڑتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ "کل عمل ابن دم‬
‫یضاعف‪ ،‬الحسنۃ بعشر امثالھا الی سبع مائۃ ضعف‪ ،‬قال ہللا تعالٰی اال الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ‪ ،‬یدع شھوتہ وطعامہ من اجلی" ابن آدم کا ہر نیک عمل‬
‫بڑھایا جائے گا‪ ،‬دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک‪ ،‬ہللا تعالٰی کا ارشاد ہے کہ صرف روزے کا معاملہ اس سے مختلف ہے‪ ،‬یہ خاص میرے لئے‬
‫ہے اور میں ہی اپنے ہاتھوں اس کا بدلہ دوں گا کیونکہ بندہ صرف میری ہی خاطر اپنی خواہشوں اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔‬

‫َو ْذ ُقْلَنا ِلْلَم اَل ِئَكِة اُجْسُد وا آِلَد َم َفَس َج ُد وا اَّل ْبِليَس َأٰىَب َو اْس َتْكَرَب َو اَك َن ِم َن اْلاَك ِف ِر يَن‬ ‫‪34‬‬

‫ہونا۔ ِإ‬
‫بِإ ل س‪ ،‬باب أفعال‪ ،‬ابالسا‪ ،‬سخت مایوسی کے باعث غمگین ِإ‬
‫ءب ی ۔ قبول نہ کرنا۔‬
‫ک ب ر‪ ،‬است‪ :‬بڑائی چاہنا‪ ،‬خواہ مخواہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے حق کا انکار کردینا۔‬
‫اور یاد کرو جب کہ ہم نے کہا فرشتوں سے کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں‬
‫سے بن گیا۔‬
‫سجدہ کا لفظ عربی زبان میں جھکنے کے معنی میں آتا ہے‪ ،‬جھکنے کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں۔ کسی کے آگے تعظیم کے طور پر سر نیہوڑا دینا‬
‫بھی جھکنا ہے اور پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھ دینا بھی جھکنا ہے۔ پچھلے مذاہب میں تعظیم کی یہ قسم غیر ہللا کے لئے جائز تھی لیکن عمومًا اس‬
‫کی حد وہی تھی جو ہمارے ہاں رکوع کی ہے۔ بنی اسرائیل میں اس طرح کے تعظیمی سجدے کا عام رواج تھا اور تورات کے مختلف مقامات سے اس‬
‫کی جو شکل معین ہوتی ہے وہ رکوع سے ملتی جلتی ہوئی ہے۔ اسالم نے تعظیم کی اس شکل کو خدائے رب العزت کے لئے خاص کر دیا۔ اس کی وجہ‬
‫یہ ہے کہ اسالم خدا کا آخری اور کامل دین ہے‪ ،‬اس نے توحید کی حقیقت کو مکمل طور پر اجاگر کر دینے کے لئے خدا کے لئے تعظیم وتذلل کی‬
‫شکلیں بھی خاص کر دی ہیں تاکہ اس کے اندر شرک کے داخل ہونے کے لئے کوئی رخنہ باقی نہ رہ جائے۔ فرشتوں کو آدم کے لئے سجدہ کرنے کا‬
‫حکم دینے میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے اس لئے کہ اوًال تو یہ سجدہ خدا کے حکم کی تعمیل میں تھا اس لئے گویا خدا ہی کو سجدہ تھا‪ ،‬ثانیًا سجدہ‬
‫شرک کی عالمت‪،‬اسالم میں قرار دیا گیا ہے۔ اسالم سے پہلے اس کی اہمیت تعظیم کے ایک طریقہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔ اگر یہ کہا گیا ہے کہ‬
‫آدم کو سجدہ کرو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدم کو تعظیم بجا الو‪ ،‬اس سے زیادہ اس کا مفہوم نہیں ہے۔ فرشتوں کو آدم کی تعظیم بجاالنے کا حکم کیوں‬
‫دیا گیا؟ ہمارے نزدیک یہ ہللا تعالٰی کی طرف سے فرشتوں کی اطاعت اور بندگی کا امتحان تھا۔ کسی کا امتحان اسی چیز میں لیا جاتا ہے جو اس کے‬
‫نفس پر شاق ہوسکے۔ فرشتوں کی خلقت چونکہ نور سے ہوئی ہے اور وہ خدا کی تسبیح وتقدیس کے لئے پیدا ہوئے ہیں‪ ،‬اس وجہ سے آدمؑ خاکی کی‬
‫تعظیم بجا النے کے حکم میں ان کے لئے ایک بڑی آزمائش تھی لیکن فرشتے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اصلی عزت و سرفرازی نور‬
‫یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں ہے بلکہ پیدا کرنے والے کے احکام کی بے چون وچرا تعمیل میں ہے۔ چنانچہ وہ اس امتحان میں پورے اترے۔ اس میں‬
‫شبہ نہیں ہے کہ فرشتوں کے اس سجدے سے آدمؑ کی بڑائی کا ایک پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے لیکن یہاں مقصود آدم کی بڑائی کا اظہار نہیں بلکہ فرشتوں‬
‫کی بندگی و اطاعت کا اظہار ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ جو خدا کے مطیع وفرمانبردار ہوتے ہیں وہ نسل ونسب کے غرور میں مبتال ہو کر ابلیس کی‬
‫طرح اکڑا نہیں کرتے بلکہ وہ اس طرح کی ہر چیز کو خدا کا فضل واحسان سمجھتے ہیں اور اس فضل واحسان کا احساس ان کے اندر غرور وتکبر کے‬
‫بجائے تواضع اور بندگی پیدا کرتا ہے۔ موقع کالم کے لحاظ سے یہ بات ان بنی اسرائیل کے لئے ایک سبق ہے جو نبی امی ﷺ کے معاملہ میں‬
‫فرشتوں کی سی روش اختیار کرنے کے بجائے شیطان کی پیروی میں غرور نسل ونسب کے فتنے میں مبتال ہو گئے تھے۔ جو لوگ فرشتوں کی طرف‬
‫سے آدم کی اس تعطیم کو آدم کی علمی فضیلت کا نتیجہ سمجھتے ہیں میرے نزدیک ان کے اس خیال کے لئے کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ اپنی ذریت‬
‫کے اسماء کا علم جس طرح خدا کے بتانے سے آدمؑ کا حاصل ہو گیا اسی طرح آدم کے بتانے سے فرشتوں کو حاصل ہو گیا‪ ،‬پھر اس میں آدمؑ کی ایسی‬
‫فضیلت کا کیا پہلو ہے جس کی بنا پر فرشتوں کو ان کے سجدہ کا حکم دیا جائے۔ عالوہ ازیں اس بات کا بھی کوئی قوی ثبوت موجود نہیں ہے کہ فرشتوں‬
‫کو آدم کی اس تعظیم کا حکم اسی وقت دیا گیا جب آدمؑ نے ان کو ناموں سے آگاہ کیا ہے۔ بالشبہ سجدہ کے حکم کا ذکر یہاں تعلیم اسماء کے ذکر کے بعد‬
‫ہی آیا ہے لیکن محض اتنی سی بات اس امر کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے کہ پہلی چیز اس دوسری چیز کا نتیجہ ہے۔ اول تو سجدے کے حکم کا بیان‬
‫لفظ "اذ " سے شروع ہوتا ہے جو اس بات کے لئے ایک قوی قرینہ فراہم کرتا ہے کہ یہ ایک مستقل بات ہو‪ ،‬ضروری نہیں ہے کہ یہ پہلی بات کے بعد ہی‬
‫پیش آئی ہو۔ ثانیًا قرآن مجید کے دوسرے مواقع سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کو آدم کے سجدے کا حکم نہ صرف آدم کی علمی فضیلت کے اظہار‬
‫‪:‬سے پہلے بلکہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے دیا گیا تھا۔ مثًال فرمایا ہے‬
‫َوِإْذ َقاَل َر ُّبَك ِلْلَم َالِئَك ِة ِإِّني َخ اِلٌق َبَش ًر ا ِّم ن َص ْلَص اٍل ِّم ْن َح َمٍإ َّم ْس ُنوٍن َفِإَذ ا َسَّو ْيُتُه َو َنَفْخ ُت ِفيِه ِم ن ُّر وِح ي َفَقُعوْا َلُه َس اِج ِد يَن َفَسَج َد اْلَم آلِئَك ُة ُك ُّلُهْم َأْج َم ُعوَن ِإَّال ِإْبِليَس‬
‫َأَبى َأن َيُك وَن َم َع الَّس اِج ِد يَن ۔ (حجر ‪ )۳۱-۲۸ :‬اور یاد کرو جب کہ تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے‬
‫ایک بشر بنانے واال ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک لوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گرجانا تو سارے فرشتوں نے‬
‫سجدہ کیا مگر ابلیس نے۔ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔‬
‫اس مضمون کی آیتیں قرآن مجید میں اور بھی ہیں جن سے واضح ہے کہ فرشتوں کو آدم کے سجدے کا حکم آدم کی پیدائش سے پہلے دیا گیا تھا ۔فرشتوں‬
‫کے لئے یہ بات بڑی ہی آزمائش کی تھی کہ وہ نور کے مخلوق ہونے کے باوجود آدم خاکی کو‪ ،‬جو سڑی ہوئی کیچڑ سے وجود میں آیا ہے سجدہ کریں‬
‫ابلیس‪ ،‬ابَلَس سے افعیل کے وزن پر ہے۔ ابلس کے معنی غمگین ہونے‪ ،‬انکار کرنے اور مایوس ہونے کے ہیں۔ ابلیس دراصل اس جن کا لقب ہے جس‬
‫‪:‬نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ قرآن مجید میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ جنات میں سے تھا۔ سورہ کہف میں ہے‬
‫َوِاْذ ُقْلَنا ِلْلَم آلِء َک ِۃ اْسُج ُد ْو ا ٰاِل َد َم َفَسَج ُد ْو ا ِااَّل ِاْبِلْیَس َک اَن ِم َن اْلِج ِّن َفَفَس َق َعْن َاْمِر َر ِّبٖہ اور یاد کرو جب کہ ہم نے کہا فرشتوں سے کہ سجدو کرو آدم کو تو‬
‫انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے‪ ،‬وہ جنات میں سے تھا‪ ،‬اس نے اپنے رب کے حکم سے انحراف کیا۔‬
‫قرآن مجید نے مکلف مخلوقات کی حیثیت سے تین مخلوقات کا ذکر کیا ہے۔ فرشتے‪ ،‬جنات اور بنی آدم۔ شیطان کوئی مستقل مخلوق نہیں ہے۔ جنوں اور‬
‫انسانوں میں سے جو لوگ خدا کی نافرمانی کی روش اختیار کر لیتے ہیں وہ لوگ ابلیس کی ذریت اور اس کے اولیاء میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس قسم‬
‫کے جنات اور انسان گمراہی پر پیدا نہیں کئے گئے‪ ،‬پیدا تو یہ ہوئے ہیں اسی فطرت پر جس پر ہللا تعالٰی نے تمام جنوں اور انسانوں کو اختیار کی نعمت‬
‫سے نوازا ہے‪ ،‬اس وجہ سے ان میں سے جو لوگ اپنے لئے گمراہی کے راستے ہی کو پسند کر لیتے ہیں ہللا تعالٰی ان کو اسی راستے پر چلنے کے لئے‬
‫چھوڑ دیتا ہے۔‬
‫یہاں ایک بات بعض لوگوں کو کھٹکے گی۔ وہ یہ کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا نہ کہ جنات کو تو ابلیس کو جو جنات میں سے تھا سجدہ نہ‬
‫کرنے پر لعنت کا مستحق کیوں قرار دیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنات اور فرشتوں میں اصلی فرق خصائص اور صفات کے پہلو سے ہے اپنی خلقت‬
‫کے لحاظ سے جنات فرشتوں سے زیادہ دوری نہیں رکھتے‪ ،‬فرشتے نور سے پیدا ہوئے اور جنات نار سے۔ اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علی سبیل‬
‫التغلیب جنات بھی اس حکم سجدہ میں شامل تھے‪ ،‬لیکن ان کے گمراہ فرد ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا۔ یہ رائے ہمارے بعض پچھلے مفسرین نے بھی‬
‫‪:‬ظاہر فرمائی ہے اور مجھے یہ رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔؂‪ ( ۱‬؂‪ ۱‬قاضی بیضاوی رحمۃ ہللا علیہ کے الفاظ مالحظہ ہوں‬
‫او الجن ایًض ا کانوا مامورین مع الملئکۃ لکنہ استغنی بذکر الملئکۃ عن ذکرھم فانہ اذا علم ان االکابر مامورون بالتذلل الحد والتوسل بہ علم ان اال صاغر‬
‫ایض مامورون بہ والضمیر فی فسجدوا راجع الی القبیلتین (یا جن بھی فرشتوں کے ساتھ سجدہ کے حکم میں شامل تھے لیکن فرشتوں کے ذکر کے بعد‬
‫جنات کے ذکر کی ضرورت اس وجہ سے باقی نہیں رہی کہ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ بڑوں کو کسی کی تعظیم و تکریم کا حکم ہوا ہے تو اس سے یہ‬
‫بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ چھوٹے بھی اس حکم میں شامل ہیں۔ اس صورت میں فسجدوا کی جو ضمیر ہے وہ دونوں کی طرف لوٹے گی)۔‬
‫َو ُقْلَنا اَي آَد ُم اْس ُكْن َأنَت َو َز ْو ُج َك اْلَج َّنَة َو اَلُك ِم َهْنا َر َغًد ا َح ْيُث ِش ْئُتَم ا َو اَل َتْقَر اَب َه ٰـ ِذ ِه الَّش َج َر َة‬ ‫‪35‬‬

‫َفَتُكواَن ِم َن الَّظ اِلِم َني‬


‫س ک ن (ن) سکونت اختیار کرنا۔‬
‫اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی دونوں رہو جنت میں اور اس میں سے کھاؤ فراغت کے ساتھ جہاں سے چاہو اور اس درخت کے پاس نہ‬
‫پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے بن جاؤ گے۔‬
‫شجرہ پر الف الم داخل ہے جس سے یہ بات تو واضح ہے کہ جہاں تک آدم اور حوا علیہما السالم کا تعلق ہے‪ ،‬ان کو یہ درخت تعین اور تخصیص کے‬
‫ساتھ بتا دیا گیا تھا۔ رہا یہ سوال کہ یہ درخت کس چیز کا تھا؟ تو اس سوال کا جواب نہ تو قرآن مجید نے دیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی میں اس کا‬
‫جواب موجود ہے اس وجہ سے اس کو معلوم کرنے کی کوشش ایک الحاصل کوشش ہے۔ اصل چیز جو یہاں قرآن مجید بتانی چاہتا ہے وہ تو یہ ہے کہ‬
‫ہللا تعالٰی نے جس طرح فرشتوں اور جنات کی وفاداری اور اطاعت کا امتحان آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر لیا اسی طرح آدمؑ کی اطاعت و وفاداری‬
‫کا امتحان ان کے لئے جنت کے درختوں میں سے ایک درخت کو حرام ٹھہرا کر لیا۔ نعمتوں سے بھری ہوئی اس جنت میں صرف ایک درخت ایسا تھا‬
‫جس سے فائدہ اٹھانے سے حضرت آدمؑ کو روکا گیا تھا۔ لیکن انسان کی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جس چیز سے وہ روک دیا جاتا ہے اسی کا وہ‬
‫زیادہ حریص بن جایا کرتا ہے۔ چنانچہ ابلیس نے آدمؑ کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ان کو یہ سمجھانا شروع کر دیا کہ زندگی جاوداں اور ملک‬
‫الزوال کا راز اگر مضمر ہے تو بس اسی درخت کے پھلوں میں ہے جس سے ان کو محروم کر دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آدمؑ شیطان کے اس چکمے‬
‫میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھا بیٹھے۔ لیکن یہ غلطی کر گزرنے کے بعد شیطان کی طرح اپنی غلطی پر ضد نہیں کی بلکہ اس پر نادم ہوئے اور‬
‫توبہ کی۔ بالکل اسی طرح کی صورت حال اس دنیا میں ہمارے سامنے ہے۔ اس زمین کی ہر نعمت ہمارے لئے مباح ہے۔ صرف گنتی کی چند چیزیں جن‬
‫سے خدا نے ہمیں روکا ہے لیکن ہم میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ وہ شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے سبب سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اور دنیا‬
‫کی ساری ترقی اور کامیابی کا راز بس انہی چند چیزوں کے اندر چھپا ہوا ہے جن سے خدا نے روک دیا ہے اور پھر ستم یہ ہے کہ نافرمانی کر کے‬
‫اپنے باپ کی طرح نادم ہونے اور توبہ کرنے کے بجائے ابلیس کی طرح اکڑتے اور ضد کرتے ہیں۔‬
‫َفَأَز َّلُهَم ا الَّش ْي َط اُن َع َهْنا َفَأْخ َر ُهَج َم ا ِم َّم ا اَك اَن ِف يِه ۖ َو ُقْلَنا اْهِب ُط وا َبْع ُض ْمُك ِلَبْع ٍض َعُد ٌّو ۖ َو َلْمُك يِف اَأْلْر ِض‬ ‫‪36‬‬

‫ُم ْس َتَقٌّر َو َمَتاٌع ٰىَل ِح ٍني‬


‫ِإ‬
‫ز ل ل‪( ،‬ض)بال ارادہ پھسل جانا‪ ،‬ازالال‪،‬‬
‫ھ ب ط (ض)بلندی سے نیچے اترنا‬
‫عداوت۔عدو‪ ،‬واحد جمع مذکر مؤنث سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔‬
‫َق‬
‫ق ر ر‪ ،‬کسی چیز کا ٹھنڈا ہو کر جم جانا۔ٹھہرنا‪ ،‬قرار؛ ٹھہراؤ‪ ،‬استقرار‪ ،‬قرار پکڑنا‪ ،‬مست ر‪ ،‬اسم المفعول بطوِر ظرف‪ :‬ٹھکانہ‬
‫مال متاع‪ ،‬فائدے کا عارضی سامان‬
‫تو شیطان نے ان کو وہاں سے پھسال دیا اور ان کو نکلوا چھوڑا اس عیش و آرام سے جس میں وہ تھے۔ اور ہم نے کہا کہ اترو تم ایک دوسرے کے‬
‫دشمن ہو گے اور تمہارے لیے ایک وقت خاص تک زمین میں رہنا بسنا اور کھانا بلسنا ہے۔‬
‫ِاْه ِبُطوا کا یہ خطاب حضرت ابن عباؓس ا ور بعض دوسرے اہل تاویل کے نزدیک حضرت آدم‪ ،‬حوا اور ابلیس سے ہے اور ابن زید کے نزدیک آدم وحوا‬
‫اور ان کی ذریت سے۔ ہمارے نزدیک ان میں سے صحیح تاویل حضرت ابن عباس رضی ہللا کی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں یہ جو فرمایا کہ‬
‫تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے تو یہ دشمنی اپنی فطری بنیاد اگر رکھتی ہے تو آدم اور ابلیس کے اندر ہی رکھتی ہے‪ ،‬آدم وحوا کے اندر نہیں رکھتی۔‬
‫آدم وحوا کے درمیان تو فطری ربط الفت اور مودت کا ہے‪،‬اسی طرح اوالد آدم کے اندر بھی فطری ربط وتعلق دراصل اخوت اور محبت کا ہے۔ ان کے‬
‫اندر دشمنی اور عداوت کا بیج اگر پڑتا ہے تو شیطان کی کوششوں سے پڑتا ہے اور اسی کی فساد انگیزیوں سے یہ پرورش بھی پاتا ہے۔ انسان کی اپنی‬
‫فطرت کے اندر اس تخم فساد کی پرورش کے لئے کچھ زیادہ صالحیت نہیں ہے۔ شیطان اور آدم کی اس فطری عداوت کا ذکر قرآن مجید میں متعدد جگہ‬
‫آیا بھی ہے۔‬
‫ٰط‬ ‫َذ‬
‫َفُقْلَنا َیاآَد ُم ِاَّن ٰہ ا َعُد ٌّو َّلَک َو ِلَز ْو ِج َک اَل ُیْخ ِرَج َّنُک َم ا ِم َن اْلَج َّنِۃ‪ٰ ۱۱۷( .‬ہ ) ہم نے کہا اے آدؑم یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو کہیں یہ تمہیں‬
‫َف‬
‫جنت سے نکلوا نہ چھوڑے۔‬
‫اوالد آدم میں سے اگر بہت سے لوگ ابلیس اور اس کی ذریت سے دوستی قائم کر لیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے درمیان فطری تعلق‬
‫درحقیقت دوستی ہی کا ہے۔ فطری تعلق تو ان کے درمیان دشمنی کا ہے اور دشمنی ہی کا رہنا چاہئے‪ ،‬جیسا کہ اوپر کی کہف والی آیت سے اشارہ نکلتا‬
‫ہے‪ ،‬لیکن بہت سے لوگ اپنی نادانی اور ناعاقبت اندیشی کے سبب سے اپنے دشمنوں ہی کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کے آلہ کار بن کر خود‬
‫اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں۔‬

‫َفَتَلَّقٰى آَد ُم ِم ن َّر ِّبِه ِلَك َم اٍت َفَتاَب َعَلْي ِه ۚ ِإ َّنُه ُه َو الَّتَّو اُب الَّر ِح ُمي‬ ‫‪37‬‬

‫ل ق ی‪( ،‬س) ‪ ،‬باب َتَفُّعُل – َتَفَّع َل َيَتَفَّعُل َتَفُّع اًل کے وزن پرَتَص َّر َف َیَتَص َّرُف َتَص ُّر ًفا – تصرف کرنا۔ تلٰق ی‪ ،‬تکلف سے سیکھنا‪ ،‬مالقات میں سیکھنا‪ ،‬مثال‬
‫کتاب سے سیکھنا اس میں شامل نہیں‬

‫پھر آدم نے پا لیے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات تو اس نے اس کی توبہ قبول کی۔ بے شک وہی توبہ قبول کرنے واال اور رحم کرنے واال ہے۔‬
‫توبہ کے معنی رجوع کرنے کے ہیں۔ جب اس کا صلہ علٰی کے ساتھ آتا ہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر رحم کا مضمون چھپا‬
‫ہوا ہے۔ "َتَلّٰق ی" کے لفظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کے یہ الفاظ حضرت آدمؑ کے اوپر ہللا تعالٰی کی طرف سے نازل ہوئے۔ دوسری جگہ قرآن مجید‬
‫میں ان الفاظ کا حوالہ بھی ہے۔‬
‫ٰخ‬
‫َقاَال َرَّبَنا َظَلْم َنا َا َس َنا َو ِاْن َّلْم َتْغ ِفْر َلَنا َو َتْر َح ْم َنا َلَنُک ْو َنَّن ِم َن ا ِس ِرْیَن‬
‫ْل‬ ‫ْنُف‬ ‫(اعراف ‪)۲۳ :‬‬
‫اور ان دونوں نے دعا کی کہ اے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا تو ہم برباد ہونے والوں میں سے بن جائیں گے۔‬
‫توبہ کے لئے حضرت آدمؑ کا بے قرار ہونا اور توبہ کے الفاظ کا ان کے دل میں ڈاال جانا ہللا تعالٰی کی اس سنت کا پتہ دیتا ہےجو توبہ سے متعلق اس نے‬
‫پسند فرمائی ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ بندہ جب کوئی گناہ کر گزرتا ہے تو ندامت وشرمندگی اور ہللا تعالٰی کی طرف رجوع کرنے کا ایک احساس اس کے‬
‫اندر خود بخود ابھرتا ہے۔ یہ احساس اس کی فطرت کا ایک تقاضا ہے اور یہ اس وقت تک برابر ابھرتا ہے جب تک انسان غلطیوں اور گناہوں پر اصرار‬
‫کر کے اپنے اس احساس کو بالکل کچل کے نہ رکھ دے۔ اسی خاص کام کے لئے ہللا تعالٰی نے انسان کے اندر نفس لوامہ کو ودیعت فرمایا ہے۔‬

‫ُقْلَنا اْهِب ُط وا ِم َهْنا ِمَج يًع ا ۖ َف َّم ا َيْأِتَيَّنمُك ِّم يِّن ُهًد ى َفَم ن َتِب َع ُهَد اَي َفاَل َخ ْو ٌف َعَلِهْي ْم َو اَل ْمُه ْحَي َز ُنوَن‬ ‫‪38‬‬

‫ِاَّم ا‪ ،‬جملے میں دو دوفعہ استعمال ہوتا ِإہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے "یا"‪ ،‬اس جگہ یہ "ان" اور "ما" سے مل کر بنا ہے ۔یعنی اگر‪ ،‬ما زائد ہ تاکیدکے‬
‫معنی دیتا ہے۔ اس ِاما کے ساتھ مضارع ن ثقیلہ کے ساتھ آتا ہے۔‬
‫ہم نے کہا اترو یہاں سے سب‪ ،‬تو اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کے لیے نہ کوئی‬
‫خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‬
‫ن‬
‫یہ الفاظ دو مرتبہ دہرائے گئے ہیں ایک مرتبہ حضرت آدمؑ کی لغزش کے بعد اور پھر دوبارہ ان کی تو بہ کے بعد‪ -‬لغزش کے بعد اس کا ذکر اس لغزش‬
‫کا ت ی جہ بیان کرنے کے لئے ہوا ہے اور توبہ کے بعد اس امتحان کی حکمت بیان کرنے کے لئے۔ مطلب یہ ہے کہ ہللا تعالٰی اب تمہیں دنیا میں بھیج کر‬
‫تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے تاکہ تمہارے برے اور بھلے میں امتیاز ہو سکے تو جو اس امتحان میں پورے اتریں گے وہ اس جنت کے وارث ہوں گے‬
‫اور جو اس امتحان میں فیل ہو جائیں گے وہ اس جنت سے محروم رہیں گے۔ َفِاَّم ا َيْأِتَيَّنُك ْم ِم ِّني ُهًدى‪ :‬یہ ہللا تعالٰی کی طرف سے حضرت آدمؑ اور ان کی‬
‫ذریت کے لئے نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری کرنے کا پہال وعدہ ہے۔ حضرت آدمؑ کی لغزش سے انسانی فطرت اور انسانی عقل کا وہ ضعف ظاہر ہو گیا‬
‫جو انسان کو وحی اٰل ہی کی رہنمائی اور انبیا علیہم السالم کی دستگیری کا محتاج ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ انسان کی اس کمزوری پر نگاہ کرتے ہوئے ہللا‬
‫تعالٰی نے بطور تسکین وتسلی یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے روشنی بھیجے گا تو جو لوگ اس روشنی کی‬
‫قدر کریں گے ان کے لئے نہ کوئی خوف ہو گا نہ کوئی غم۔ "نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم" کے الفاظ قرآن مجید میں جنت کی تعبیر کے لئے‬
‫خاص ہیں۔ غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ جنت کی تعبیر کے لئے یہ الفاظ بہت جامع ہیں۔ خوف کسی پیش آنے والے خطرے کا ہوا کرتا ہے اور حزن‬
‫ماضی یا حاضر کے کسی خسارہ کا۔ ایسی جگہ‪ ،‬جہاں نہ ماضی کا کوئی غم ہو نہ مستقبل کا کوئی خطرہ‪ ،‬جنت ہی ہو سکتی ہے۔‬

‫َو اِذَّل يَن َكَفُر وا َو َكَّذ ُبوا ِبآاَي ِتَنا ُأوَلٰـ ِئَك َأَحْص اُب الَّناِر ۖ ْمُه ِف َهيا َخ اُدِل وَن‬ ‫‪39‬‬

‫اور جو کفر کریں گے اور جھٹالئیں گے میری آیتوں کو وہی لوگ دوزخ والے ہیں‪ ،‬وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‬
‫یہ آیت اوپر والی آیت کے بالمقابل ہے۔ اوپر والی آیت میں ان لوگوں کا صلہ بیان ہوا ہے جو ہللا تعالٰی کی اتاری ہوئی ہدایت کی پیروی کریں گے۔ اس آیت‬
‫میں ان لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے جو ہللا تعالٰی کی آیات کی تکذیب کریں گے۔ آیات کا لفظ آیت کی جمع ہے۔ آیت کے اصل معنی عالمت اور نشانی کے‬
‫ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ ان دالئل اور نشانیوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو آسمان وزمین اور آفاق ونفس کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور جو‬
‫خدا کی قدرت وحکمت اس کی توحید اور اس کے قانون جزاوسزا کی گواہی دے رہی ہیں۔ ان معجزات کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو حضرات انبیا‬
‫علیہم السالم کے ذریعے سے ظاہر ہوئے ہیں یا جن کے لئے کفار مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ قرآن مجید کی ان آیتوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جن سے‬
‫قرآن کی سورتیں مرکب ہیں۔ قرآن مجید کی آیات کے لئے اس لفظ کا استعمال اس حقیقت پر دلیل ہے کہ ان کی حیثیت بے دلیل احکامات کی نہیں ہے بلکہ‬
‫ان میں سے ہر آیت ایک دلیل وشہادت اور ایک حجت وبرہان کی حیثیت بھی رکھتی ہے‬

‫اَي َبيِن َرْس اِئيَل اْذ ُكُر وا ِنْع َم َيِت اَّليِت َأْنَع ْم ُت َعَلْي ْمُك َو َأْو ُفوا ِبَع ْهِد ي ُأوِف ِبَع ْهِد ْمُك َو اَّي َي َفاْر َه ُبوِن‬ ‫‪40‬‬

‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫ِاْبن۔ جمع بُنوَن اور َبِنْیَن ۔ جمع مکسر َاْبَناُء (غیر منصرف)‬
‫کسی کی عظمت وجاللت کے تصور سے دل پر جو لرزش اور کپکپی کی حالت طاری ہوجاتی ہے اس کے لئے عربی زبان میں رھبت کا لفظ ہے۔‬
‫رھبانیت‪ ،‬خدا کے ڈر سے دنیا ترک کرنا۔‬
‫اے بنی اسرائیل یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد کو پورا کرو‪ ،‬میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا۔ اور مجھی سے ڈرو۔‬
‫اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کا لقب ہے‪ ،‬یہودی علما اس کے معنی بطل ہللا کے بتاتے ہیں۔ یہ معنی لینے میں غالبًا اس روایت کو بڑا دخل ہو گا جو یہود نے‬
‫تورات میں حضرت یعقوب ؑ کے ہللا تعالٰی کے ساتھ کشتی لڑنے کی داخل کر رکھی ہے۔ موالنا حمید الدین فراہی کی تحقیق میں یہ دولفظ دو جزوں سے‬
‫مرکب ہے۔ ِاسر اور ِایل۔ ِاسر کے معنی ان کی تحقیق میں بندہ کے ہیں اور ایل عبرانی میں اٰل ہ کے معنی کے لئے مشہور رہی ہے۔ اس طرح موالنا کے‬
‫نزدیک اسرائیل کے معنی عبدہللا یعنی ہللا کا بندہ کے ہوئے۔ یعقوب ؑ کا نام یعقوب اس لئے ہوا کہ حضرت اسٰح ق ؑ کے بعد ان کے پیدا ہونے کی بشارت‬
‫بھی ہللا تعالٰی نے حضرت ابراہیم ؑ کو سنا دی تھی۔‬
‫یاد کرو۔ یہ بنی اسرائیل کو دعوت بانداز مالمت ہے یعنی یاد کر لو اس لئے کہ تم بالکل بھولے بیٹھے ہو اور جو فضل میں نے تم پر کئے تھے ان کو تم‬
‫نے اپنے استحقاق ذاتی و خاندانی کا ثمرہ سمجھ لیا۔ نعمت سے یہاں ہللا تعالٰی نے اپنے جن افضال وعنایات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں‬
‫‪:‬جگہ جگہ ان کی تفصیل بھی بیان فرما دی ہے۔ اسی سورہ کے آگے والے رکوع میں فرمایا ہے‬
‫ٰی َبِنْٓی ِاْسَر آِء ْیَل اْذ ُک ُرْو ا ِنْع َم ِتَی اَّلِتْٓی َاْنَعْم ُت َع َلْْیُک ْم َو َاِّنْی َفَّض ْلُتُکْم َع َلی اْلٰع َلِم ْیَن ‪ ۴۷( .‬بقرہ) اے بنی اسرائیل میرے اس انعام کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیا‬
‫اور میں نے تم کو دنیا والوں پر فضیلت دی۔‬
‫اس آیت میں اس آانعام کا حوالہ دیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کو ہللا تعالٰی نے دنیا کی سیادت وامامت کی صورت میں عطا فرمایا تھا۔‬
‫َوِاْذ َقاَل ُم ْو ٰس ی ِلَقْو ِمٖہ ٰیَقْو ِم اْذ ُک ُرْو ا ِنْع َم َۃ ِہّٰللا َع َلْْیُک ْم ِاْذ َج َعَل ِفْیُک ْم َاْنِبَیآَء َو َج َعَلُک ْم ُم ُلْو ًک ا َو ٰاٰت ُک ْم َّم ا َلْم ُیْؤ ِت َاَح ًدا ِّم َن اْلٰع َلِم ْیَن ‪ ۲۰( .‬مائدہ) اور یاد کرو جب کہ‬
‫موٰس ی ؑ نے اپنی قوم سے کہا‪ ،‬اے میری قوم کے لوگو اپنے اوپر ہللا کے انعام کو یاد رکھو کہ اس نے تمہارے اندر انبیا اٹھائے۔ تم میں بادشاہ بنائے اور‬
‫تم کو وہ کچھ بخشا جو تم سے پہلے دنیا میں کسی قوم کو نہیں دیا۔‬
‫ان آیات سے اس اجمال کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے جو زیر بحث آیت میں ہے۔ مزید جو چیز اس آیت کے پیش نظر رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اول‬
‫تو فرمایا کہ میرا انعام اور پھر اس پر مزید اضافہ یہ فرمایا کہ جو میں نے تم پر انعام کیا‪ ،‬یہ تاکید اس لئے ہے کہ بنی اسرائیل کی تمام گمراہیوں کی‬
‫جڑ‪ ، ،‬یہی چیز تھی کہ ان کو جو بڑائیاں محض ہللا تعالٰی کے فضل وکرم سے حاصل ہوئیں ان کو انہوں نے اپنی اہلیت واستحقاق کا کرشمہ اور اپنے‬
‫نسل ونسب کا ایک قدرتی حق سمجھ لیا۔ یہاں ِنعَم ِتی اور َانَعمُت َع َلیُک م کے الفاظ سے ان کی اسی ذہنیت کی اصالح مقصود ہے اور آگے یہ چیز بالتدریج‬
‫کھلتی جائے گی۔‬
‫َو َأْو ُفوا ِبَعْهِد ي ُأوِف ِبَعْهِد ُك ْم ‪ :‬عہد سے مراد یوں تو پوری شریعت ہی ہے اس لئے کہ شریعت درحقیقت بندوں اور خدا کے درمیان ایک معاہدہ کی حیثیت‬
‫رکھتی ہے اور یہ معاہدہ ہللا تعالٰی کا ایک بہت بڑا انعام ہوتا ہے کیونکہ ہللا تعالٰی تمام آسمان وزمین کا خالق ومالک ہے کسی کی بھی یہ شان نہیں ہے کہ‬
‫تمام آسمان وزمین کا بادشاہ اس سے کوئی معاہدہ کرے‪ ،‬اس کے باوجود اگر وہ کسی کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی طرف‬
‫سے اس کو ایک بہت بڑا شرف بخشتا ہے لیکن یہاں اس عام معاہدہ کے ساتھ ساتھ اس خاص عہد کی طرف بھی اشارہ ہے جو بنی اسرائیل سے‬
‫آنحضرت ﷺ کے متعلق لیا گیا تھا۔ اس عہد کا ذکر تورات میں بھی ہے اور اس کی طرف قرآن میں بھی ارشادات کئے گئے ہیں۔ کتاب استثنا ‪۱۹-۱۵‬‬
‫‪:‬میں ہے‬
‫خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا‪ ،‬تم اس کو سننا ۔۔۔۔ میں ان کےلئے"‬
‫انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کالم اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے‬
‫" کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔‬
‫‪:‬قرآن مجید میں اس عہد کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے بنی اسرائیل کے لئے رحمت کی جو دعا کی‪ ،‬اس کے جواب میں ہللا تعالٰی نے فرمایا‬
‫َو َرْح َم ِتْی َو ِسَعْت ُک َّل َش ْْی ٍء َفَس َاْکُتُبَہا ِلَّلِذ ْیَن َیَّتُقْو َن َو ُیْؤ ُتْو َن الَّز ٰک وَۃ َو اَّلِذ ْیَن ُہْم ِبٰا ٰی ِتَنا ُیْؤ ِم ُنْو َن اَّلِذ ْیَن َیَّتِبُعْو َن الَّرُسْو َل الَّنِبَّی اُاْلِّمَّی اَّلِذْی َیِج ُد ْو َنُہ َم ْکُتْو ًبا ِع ْنَدُہْم ِفی‬
‫الَّتْو َر اِۃ َو اِاْل ْنِج ْیِل َیْاُم ُرُہْم ِباْلَم ْع ُرْو ِف َو َیْنٰہ ُہْم َع ِن اْلُم ْنَک ِر َو ُیِح ُّل َلُہُم الَّطِّیٰب ِت َو ُیَح ِّر ُم َع َلْْیِہُم اْلَخ بآِء َث َو َیَض ُع َع ْنُہْم ِاْص َرُہْم َو اَاْلْغ َالَل اَّلِتْی َک اَنْت َع َلْْیِہْم َفاَّلِذ ْیَن ٰا َم ُنْو ا ِبٖہ‬
‫َو َع َّز ُرْو ُہ َو َنَص ُرْو ُہ َو اَّتَبُعوا الُّنْو َر اَّلِذَی ُاْنِزَل َم َعٓٗہ ُاوٰٓل ِءَک ُہُم اْلُم ْفِلُح ْو َن ‪ ۱۵۶( .‬۔‪ ۱۵۷‬اعراف) اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے میں اس کو لکھ رکھوں‬
‫گا ان لوگوں کے لئے جو تقوٰی اختیار کریں گے‪ ،‬زکوۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان الئیں گے۔ یعنی جو پیروی کرتے ہیں رسول نبی‬
‫امی کی جن کو لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں۔ وہ ان کو حکم دیتے ہیں نیکی کا اور روکتے ہیں منکر سے اور ان کے لئے جائز‬
‫کرتے ہیں پاکیزہ چیزیں اور حرام کرتے ہیں ان پر ناپاک چیزیں اور دفع کرتے ہیں ان پر سے بوجھ اور پھندوں کو جو ان پر تھے۔ پس جو ان پر ایمان‬
‫الئے اور جنہوں نے ان کی حمایت کی اور مدد دی اور اس روشنی کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اتاری گئی ہو تو وہی لوگ فالح پانے والے ہیں۔‬
‫اس آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نبی ﷺسے متعلق بنی اسرائیل سے جو عہد ہللا تعالٰی نے لیا تھا اس میں بنی اسرائیل پر کیا ذمہ داری ڈالی‬
‫گئی تھی اور اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے صلے میں ہللا تعالٰی کی طرف سے ان کے لئے کیا وعدے کئے گئے تھے۔ َو ِاَّياَي َفاْر َهُبوِن ‪ :‬کسی کی‬
‫عظمت وجاللت کے تصور سے دل پر جو لرزش اور کپکپی کی حالت طاری ہوجاتی ہے اس کے لئے عربی زبان میں رھبت کا لفظ ہے اگر فعل کے‬
‫مفعول یا اس کے متعلق کو فعل پر مقدم کیا جائے تو یہ اس کے اہتمام اور اس پر زور دینے کی ایک شکل ہوتی ہے۔ عالوہ بریں اگر فعل پر "ف" آ‬
‫جائے تو یہ مزید اہتمام کی ایک دلیل ہے۔ علٰی ٰہ ذا القیاس اگر فعل کے بعد ضمیر بھی آ جائے تو اسی پہلو کی مزید وضاحت ہو گی۔ اس لحا ظ سے َو ِاَّياَي‬
‫َفاْر َهُبوِن کے معنی ہوں گے‪ ،‬پس صرف مجھی سے ڈرو۔ صرف مجھی سے ڈرو کا مطلب یہاں یہ ہے کہ میرے عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے میں‬
‫تمہاری دوسری مصلحتوں اور دوسرے اندیشوں پر میری عظمت وجاللت کے تصور کو غالب ہونا چاہئے۔ تم ڈرتے ہو کہ اگر تم نے نبی آخر الزمان کی‬
‫دعوت قبول کر لی تو تمہاری سیادت وریاست ختم ہو جائے گی‪ ،‬امیوں کو تم پر فضیلت حاصل ہو جائے گی‪ ،‬تمہارے عوام تمہارے دشمن بن کر اٹھ‬
‫کھڑے ہوں گے اور جو فوائد تم ان سے اب تک حاصل کرتے رہے ہو ان کے دروازے بند ہو جائیں گے حاالں کہ ڈرنے کی چیزیں یہ نہیں ہیں۔ ڈرنا تو‬
‫صرف مجھ سے چاہئے جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے‬

‫َو آِم ُنوا ِبَم ا َأنَز ْلُت ُم َص ِّد ًقا ِّلَم ا َم َع ْمُك َو اَل َتُكوُنوا َأَّو َل اَك ِف ٍر ِبِه ۖ َو اَل َتْش ُرَت وا ِبآاَي يِت َثَم ًنا َقِلياًل َو اَّي َي‬ ‫‪41‬‬

‫ِإ‬ ‫َفاَّتُقوِن‬
‫اور ایمان الؤ اس چیز پر جو میں نے اتاری ہے تصدیق کرتی ہوئی اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے اور تم اس کے سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ‬
‫بنو اور میری آیات کو حقیر پونجی کے عوض نہ بیچو اور میرے غضب سے بچتے ہی رہو‪.‬‬
‫اس چیز کی تصدیق کرتا ہوا جوتمہارے پاس ہے۔ یعنی قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کو سچی ثابت کر رہا ہے جو تورات میں آخری نبی ﷺکی‬
‫بعثت اور اس بعثت کی خصوصیات سے متعلق وارد تھی۔ مقصود یہ ہے کہ اگر سمجھ سے کام لو تو قرآن مجید اور یہ پیغمبر تمہارے لئے چڑنے کی‬
‫چیز نہیں ہیں بلکہ سر اور آنکھوں پر بٹھانے کی چیز ہیں کیوں کہ ان کے ظہور سے سب سے زیادہ تمہارا ہی سر بلند ہوا ہے۔ تمہارے صحیفوں میں ان‬
‫کی پیشین گوئیاں موجود تھیں اور یہ پیشین گوئیاں اب تک اپنے حقیقی مصداق کے ظہور کی منتظر تھیں اب اس کتاب اور اس کے پیغمبر کے ظہور نے‬
‫ان کا مصداق دنیا کے سامنے پیش کر کے تمہاری کتاب کو سند تصدیق عطا کر دی تو تمہیں تو سب سے پہلے اس پر ایمان النے کے لئے آگے بڑھنا‬
‫چاہئے۔ اس تصدیق کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں تک تورات یا انجیل کے آسمانی صحیفے ہونے کا تعلق ہے قرآن مجید آشکارا طور پر ان کے آسمانی‬
‫ہونے کی تصدیق کرتا ہے‪ ،‬ان کے النے والوں کی نبوت ورسالت کی بھی نہایت غیر مبہم الفاظ میں تصدیق کرتا ہے‪ ،‬ان کی تعلیمات کی بھی اصولی‬
‫طور پر تصدیق کرتا ہے۔ قرآن اگر تردید کرتا ہے تو صرف ان چیزوں کی تردید کرتا ہے جو غلط طریقوں سے ان صحیفوں میں شامل کر دی گئی ہیں یا‬
‫تحریف کر کے جن کی اصلی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔ اس طرح غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ جہاں تک اصل تورات کا تعلق ہے قرآن مجید اس کی‬
‫سچائی کا گواہ بن کر نازل ہوا ہے وہ اس کو جھٹالتا نہیں بلکہ ان چیزوں سے اس کو بری قرار دیتا ہے جو اس کو جھٹالنے والی ہیں۔ َو اَل َتُك وُنٓو ا َاَّو َل‬
‫َك اِفٍۭر ِبِه ‪ :‬افعل کا مضاف الیہ اگر نکرہ مفرد ہو تو وہ تمیز کے مفہوم میں ہوا کرتا ہے لیکن اگر اس کی اضافت معرفہ کی طرف ہو تو اس شکل میں‬
‫مضاف الیہ جمع ہو گا۔ مثًال‬
‫ُقْل ِاْن َک اَن ِللَّرْح ٰم ِن َو َلٌد َفَاَنا َاَّو ُل اْلَعاِبِد ْیَن ‪ ۸۱( .‬زخرف) کہہ دو‪ ،‬اگر خدا کے کوئی اوالد ہو تو میں سب سے پہال عبادت کرنے واال ہوں۔‬
‫َاَّو َل َك اِفٍرۭ اور َاَّو َل الَک اِفِرین دونوں کے مواقع استعمال ہیں‪ ،‬استاذ امام موالنا حمید الدین فراہی رحمۃ ہللا علیہ ایک لطیف فرق بتاتے ہیں۔ جب اول کافر کا‬
‫استعمال ہو گا تو اس میں اس سے بحث نہیں ہو گی کہ اس کے عالوہ کوئی اور کافر پایا جاتا ہے یا نہیں اور دوسری شکل میں مفہوم یہ ہو گا کہ وہ‬
‫کفرکرنے والوں میں سب سے پہال شخص ہے۔ "کفر " کا لفظ حق کے انکار کے معنی میں بھی آتا ہے اور کفران نعمت کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ یہاں‬
‫یہ لفظ دونوں ہی مفہوموں پر حاوی معلوم ہوتا ہے کیوں کہ قرآن پر ایمان النے کا ان سے عہد لیا جاچکا تھا اس وجہ سے اس کا حق ہونا ان پر اچھی‬
‫طرح واضح تھا‪ ،‬اس بنا پر یہ ایک عظیم حق کا انکار ہوا۔ پھر قرآن مجید ان کے لئے ایک بہت بڑی نعمت بن کا نازل ہوا تھا‪ ،‬اس پر ایمان النے کی‬
‫صورت میں ہللا تعالٰی کی طرف سے ان کے لئے ابدی نعمتوں کے وعدے تھے‪ ،‬اس وجہ سے اس سے اعراض درحقیقت ایک بہت بڑا کفران نعمت بھی‬
‫تھا۔ سب سے پہلے اس کے کفر کرنے والے نہ بنو‪ ،‬کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب دوسرے کفر کر لیں تو تمہارے لئے کفر کرنا جائز ہو جائے گا‪ ،‬بلکہ‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ قرآن تمہاری کتاب کی تصدیق کرتا نازل ہوا ہے اور اس پر ایمان النے کا تم سے اس کے نزول سے پہلے ہی عہد لیا‬
‫جا چکا ہے اس وجہ سے اس کو قبول کرنے اور اس پر ایمان النے کی سب سے پہلے تم ہی سے توقع کی جاسکتی تھی لیکن یہ عجیب صورت حال ہے‬
‫کہ دوسرے تو اس سے ناآشنا ہونے کے باوجود اس پر ایمان النے کے لئے سبقت کریں اور تم اس سے پہلے سے آشنا ہو کر اس کی مخالفت کی راہ میں‬
‫سبقت کرو۔ اس طرح کے مواقع پر انہی کے ساتھ جو قید لگی ہوئی ہوتی ہے استاذ امام رحمہ ہللا علیہ کے نزدیک اس کا مقصود محض صورت واقعہ‬
‫کے گھناؤنے پن کو ظاہر کرنا ہوتا ہے‪ ،‬انہی کا اصل تعلق تو فعل سے ہوتا ہے‪ ،‬قید اس کے ساتھ محض اس لئے بڑھا دی جاتی ہے تاکہ وہ صورت حال‬
‫‪:‬سامنے آجائے جو اس کے ارتکاب میں مضمر ہے۔ مثًال قرآن مجید میں ارشا د ہوا ہے‬
‫َال َتْاُک ُلوا الِّر ٰب وا َاْض َعاًفا ُّم َض اَع َفًۃ‪ٰ ۱۳۰( .‬ا ل عمران) سود نہ کھاو‪ ،‬دگنا چوگنا کرتے ہوئے۔‬
‫اس آیت میں مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر سود در سود کی شکل پیدا نہ ہو تو سود مباح ہے بلکہ مقصود اس صورت حال کے پیش کرنے سے اصل فعل کی‬
‫نفرت انگیز شکل کو سامنے کر دینا ہے۔ اس طرح زیر بحث ٹکڑے کے بعد فرمایا‪َ ،‬و اَل َتْش َتُرواِبَـاَٰي ِتى َثَم ًنا َقِلياًل (اور میری آیتوں کو حقیر پونجی کے‬
‫عوض نہ بیچو) تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر اچھے دام مل جائیں تو بیچ سکتے ہو‪ ،‬بلکہ نہی کا تعلق یہاں بھی اصل فعل سے ہے‪ ،‬یعنی روکا جس‬
‫چیز سے گیا ہے وہ دین فروشی ہے‪ ،‬لیکن َثَم ًنا َقِلياًل کی قید نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ دین فروشی کا یہ کاروبار نہایت ذلیل طریقہ سے ہو‬
‫رہا ہے کیوں کہ ہللا کی آیات کے بدلے میں اگر تمام دنیا بھی حاصل ہو جائے تو وہ بہرحال ایک متاع حقیر ہی ہے۔ ممکن ہے یہاں بعض لوگوں کے ذہن‬
‫میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن کے انکار میں یہود سے پہلے تو قریش نے سبقت کی تو قرآن نے سبقت کا الزام یہود پر کیوں عائد کیا؟ اس کا جواب یہ ہے‬
‫کہ یہ بات یہاں یہود سے بہ حیثیت قوم کے کہی جارہی ہے اور مقابل میں یہاں امی عرب بہ حیثیت قوم کے ہیں۔ عام اس سے کہ وہ عدنانی ہیں یا‬
‫قحطانی۔ اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ قریش نے قرآن کا انکار کرنے میں سبقت کی۔ پھر قریش کے انکار کی نوعیت بھی بہرحال یہ نہیں تھی کہ سارا‬
‫قریش اس کے انکار ہی کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ ان میں قرآن کے انکار کرنے والے بھی تھے اور قرآن پر جان نثار کرنے والے بھی تھے‪ ،‬لیکن بنی‬
‫اسرائیل کا حال اس سے بالکل مختلف تھا‪ ،‬یہ قرآن اور نبی کریم ﷺکی تکذیب اور مخالفت کے لئے من حیث القوم اٹھ کھڑے ہوئے اور آخر دم تک‬
‫اس مخالفت پر اڑے رہے۔ درآنحا لیکہ دین الہی کے وارث اور نبی خاتم ﷺسے متعلق پیشین گوئیوں کے امین ہونے کے سبب سے امی عربوں کے‬
‫مقابل میں ان کو َاَّو ل الُم ُؤ ِمِنیَن کا درجہ حاصل کرنا تھا۔ َو اَل َتْشَتُر وا ِبَٔـاَٰي ِتى َثَم ًنا َقِلياًل ‪ :‬میری آیات کو حقیر قیمت کے عوض نہ بیچو‪ ،‬یعنی اپنے دینی‬
‫مفادات ومصالح پر تورات اور اس کے احکام وہدایات کو قربان نہ کرو۔ یہ ایک جامع اسلوب بیان ہے جس میں یہود کی ان تمام عہد شکنیوں کی طرف‬
‫اشارہ ہو گیا ہے جن کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور جن کی تفصیل اسی سورہ میں آگے آرہی ہے۔ یہود سے ہللا تعالٰی نے جو آگے عہد لیا تھا اس میں تین‬
‫چیزیں خاص طو پر بہت نمایاں تھیں‪ ،‬ایک یہ کہ وہ تورات کی شریعت پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے‪ ،‬دوسری یہ کہ اس قرآن پر ایمان‬
‫الئیں گے جو ان پیشین گوئیوں کی تصدیق کرتا ہوا نازل ہوگا جو تورات میں موجود ہیں‪ ،‬تیسری یہ کہ ان کو جو کتاب عطا ہوئی ہے خلق کے سامنے‬
‫اس کی شہادت دیں گے‪ ،‬اس کے کسی جزو کو چھپائیں گے نہیں۔‬
‫اوپر والی آیت میں َو ِاَّیاَيى َفارَھُبوِن فرمایا تھا۔ یہاں َو ِاَّیاَيى َفٱَّتُقوِن فرمایا۔ پھر آگے کی ایک آیت میں خشوع کا لفظ آرہا ہے۔ رہبت‪ ،‬تقوٰی ‪ ،‬خشوع سب ایک‬
‫ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ کسی کی عظمت وجالل کے تصور سے دل پر جو لرزش اور کپکپی طاری ہوتی ہے وہ رہبت ہے۔ اس لرزش وکپکپی‬
‫سے صاحب عظمت وجالل کے لئے دل میں جو عجزوفروتنی اور پستی ونیازمندی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت میں بے نیازی کی جگہ فقر کا اور‬
‫گھمنڈ کی جگہ اخبات کا جو احساس ابھرتا ہے وہ خشوع ہے۔ اسی طرح اس صاحب عظمت وجالل کے قہروغضب سے بچنے‪ ،‬اس کے مقرر کردہ‬
‫حدود کی مخالفت سے احتراز اور اس کے احکام وآیات کی خالف ورزی سے اجتناب واحتیاط کی جو بے چینی طبیعت میں پیدا ہوتی ہے اور جو خلوت‬
‫وجلوت ہر جگہ آدمی کو بیدار اور چوکنا رکھتی ہے وہ تقوٰی ہے۔ "مجھ ہی سے بچو" کا ٹکڑا بیک وقت دوحقیقتوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ مجھے‬
‫کوئی بہت نرم چیز سمجھ کر میری گرفت اور میرے غضب سے بے پروا نہ ہو جاؤ۔ جو میری نعمت کی ناقدری کرتے ہیں‪ ،‬میرے عہد کو پامال کرتے‬
‫ہیں‪ ،‬میری آیات کو مال بیع وشرا سمجھتے ہیں۔ جب میرا غضب ان پر نازل ہوتا ہے تو وہ ان کی کمر توڑ کے رکھ دیتا ہے اور اس وقت کوئی نہیں ہوتا‬
‫ہے جو ان کو میرے غضب سے چھڑانے کے لئے کھڑا ہو سکے۔ دوسری حقیقت جو مفعول کی تقدیم سے یہاں پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم ڈرتے ہوکہ‬
‫اگر تم نے اصل حقیقت ظاہر کر دی تو تمہارے عوام بگڑ کھڑے ہوں گے تمہاری سرداری وپیشوائی خطرے میں پڑ جائے گی‪ ،‬تمہارے مقابل میں بنی‬
‫اسماعیل کا سراونچا ہوجائے گا اور تمہارے دوسرے دنیوی مفادات کو نقصان پہنچ جائے گا حاالنکہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی ڈرنے اور بچنے‬
‫کی نہیں ہے۔ اصل ڈرنے کی چیز اگر کوئی ہے تو صرف میرا غضب ہے کیوں کہ اس سے کوِئی پناہ نہیں دے سکتا۔ البتہ میں اگر چاہوں تو اپنے‬
‫غضب سے ڈرنے والوں کو ہر خطرہ سے بچا سکتا ہوں۔‬

‫َو اَل َتْلِب ُس وا اْلَح َّق اِب ْلَباِط ِل َو َتْكُتُم وا اْلَح َّق َو َأنْمُت َتْع َلُم وَن‬ ‫‪42‬‬

‫لبس الثوب کے معنی ہیں اس نے کپڑا پہن لیا۔ لبس االمر علیہ کے معنی ہیں اس نے معاملہ کو گڈمڈ کر دیا۔ َلَبَسُھم کے معنی ہوں گے‪ ،‬ان کو ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ خلط ملط کر دیا یا باہمدگر ٹکرا دیا۔ قرآن مجید میں ہے َاوَیلِبَس ُک م ِش َیًعا (یا تمہیں گروہ در گروہ کر کے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا‬
‫دے)۔ لبس الشیئی بالشیئی کے معنی ہوتے ہیں جو ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط اور گڈ مڈ کر دیا۔ آیت زیر بحث میں حق پر باطل کو‬
‫ڈھانک دینے کا مفہوم بھی لیا جاسکتا ہے۔ لبس کے اصل معنی میں یہ دونوں مفہوم مضمر ہیں اور یہاں یہ دونوں ہی بنتے ہیں۔‬
‫اور حق اور باطل کو گڈ مڈ نہ کرو حق کو چھپانے کے لیے درآں حالے کہ تم جانتے ہو‬
‫اشارہ ہے یہود کی اس بات کی طرف کہ انہوں نے تورات میں اپنی رائیں اور بدعتیں داخل کر کے ہللا تعالٰی کے اتارے ہوئے حق اور اپنے داخل کئے‬
‫‪:‬ہوئے باطل کو ایک ساتھ گڈ مڈ کر دیا ہے۔ قرآن مجید نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے‬
‫َفَو ْْی ٌل ِّلَّلِذ ْیَن َیْک ُتُبْو َن اْلِکٰت َب ِبَاْیِد ْیِہْم ُثَّم َیُقْو ُلْو َن ٰہَذ ا ِم ْن ِع ْنِد ِہّٰللا ِلَیْش َتُرْو ا ِبٖہ َثَم ًنا َقِلْیًال َفَو ْیٌل َّلُہْم ِّمَّم ا َکَتَبْت َاْیِد ْیِہْم َو َو ْیٌل ُہْم ِّمَّم ا َی ِس ُبْو َن ‪ ۷۹( .‬بقرہ) پس ہالکی ہے ان‬
‫ْک‬ ‫َّل‬
‫لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب تصنیف کرتے ہیں‪ ،‬پھر دعوٰی کرتے ہیں کہ یہ ہللا کے پاس سے آئی ہے تاکہ اس کے ذریعے سے حاصل‬
‫کریں حقیر قیمت‪ ،‬پس ان کی تباہی ہے اس چیز کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور ان کے لئے ہالکی ہے اس چیز کے باعث جو وہ کما رہے ہیں۔‬
‫یہود نے حق پر پردہ ڈالنے کے لئے تورات میں ہر قسم کے تصرفات کرڈالے تھے۔ بعض چیزیں انہوں نے اس میں اپنی طرف سے داخل کر دی تھیں‪،‬‬
‫بعض چیزیں اس میں سے نکال دی تھیں اور بعض چیزوں میں انہوں نے تبدیلیاں کر دی تھیں اور ان تمام تصرفات سے مقصود ان کا ان حقائق پر پردہ‬
‫ڈالنا تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی‪ ،‬ان کی قربان گاہ اور ان کے قبلہ وغیرہ سے متعلق تورات میں بیان ہوئے تھے اور جو آخری نبی ﷺکی‬
‫بعثت کی نشان دہی کرنے والے تھے۔ یہود کو چونکہ یہ بات دل سے ناپسند تھی کہ آنحضرت ﷺکی کوئی نشانی تورات سے ظاہر ہو اس وجہ سے‬
‫انہوں نے ان تمام باتوں کو چھپانے کی کوشش کی۔‬
‫حق سے مراد وہ حقائق ہیں جو تورات میں واضح کر دیے گئے تھے اور جو اب قرآن نے اپنی تائید وتصدیق سے واضح سے واضح تر کر دیے ہیں۔ ان‬
‫حقائق کا زیادہ تر تعلق نبی آخر الزمان کی نشانیوں سے تھا‪ ،‬جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جاچکا ہے‪ ،‬یہود ان نشانیوں پر پردہ ڈالنے سے خاص طور پر‬
‫دلچسپی رکھتے تھے۔‬

You might also like