You are on page 1of 19

‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬

‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫ٹ خ‬
‫ش‬‫‪2020‬ء‬ ‫سمس تر‪:‬ن زاں‪ ،‬ن‬
‫ام حا ی م ق مب ر ‪1‬‬
‫ن‬
‫سوال مب ر‪ :1‬سورۃ النساء کے مضامین کا خالصہ بیان کرنے کے بعد اس کی آیت نمبر ‪ 1‬تا ‪ 5‬کا با محاورہ ترجمہ اور‬
‫تشریح کیجئے۔‬
‫خالصۃ سورۃ النساء‬
‫‪ ‬تعارف ‪ :‬سورۃ النساء مدنی سورت ہے جس میں ایک سو چھیالیس آیات ہیں ۔‬
‫نام کی وجہ‪ :   ‬اس سورۃ کو سورۃ النساء اس لیے کہاگیا ہے کہ اس میں خصوصیت کے ساتھ عورتوں سے متعلق‬
‫احکامات ‪ ‬کا ذکر ہے ۔‬
‫فضیلت ‪ :‬حضرت عبدہللا‪   ‬بن مسعود ‪ ‬اور حضرت عبدہللا‪  ‬بن عباس رضی ہللا عنھما فرماتے ہیں کہ اس سورت میں‬
‫کچھ آیتیں ایسی ہیں ‪ ‬جو اس امت ‪  ‬کے لیے ‪ ‬ہراس چیز‪  ‬سے بہتر ہے ‪ ‬جن پر سورج نکلتا ‪ ‬اور غروب ہوتا ہے ‪ ‬۔‬
‫يُ ِري ُد هَّللا ُ ِليُبَيِّنَ لَ ُك ْم۔۔ہللا اپنے احکام صاف صاف بیان کرنا چاہتا ہے ۔‬ ‫‪‬‬

‫َوهَّللا ُ يُ ِري ُد َأن يَت َ‬


‫ُوب َعلَ ْي ُك ْم۔۔۔۔ہللا اپنی رحمت کرنا اور اپنے بندے کی ‪ ‬توبہ قبول ‪ ‬کرنا چاہتا ہے ۔‬ ‫‪‬‬

‫ض ِعيفًاہللا نے انسان کو ضعیف بنایا ہے۔ اسی وجہ سے احکام بھی‬


‫سانُ َ‬ ‫يُ ِري ُد هَّللا ُ َأن يُ َخفِّفَ عَن ُك ْم ۚ َو ُخلِ َ‬
‫ق اِإْل ن َ‬ ‫‪‬‬

‫ہلکے اور آسان ‪ ‬دیے ہیں ‪ ‬تاکہ انسان‪  ‬پر تخفیف ہوسکے ‪ ‬۔‬
‫ِإنَّ هَّللا َ اَل يَ ْظلِ ُم ِم ْثقَا َل َذ َّر ٍة ہللا ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں‪  ‬کرتا ۔‬ ‫‪‬‬

‫ِإن ت َْجتَنِبُوا َكبَاِئ َر َما تُ ْن َه ْونَ عنہ ۔ اگر بندہ کبیرہ گناہوں ‪ ‬سے بچے تو صغیرہ ‪  ‬ہللا ٰ‬
‫تعالی خود ہی معاف ‪ ‬کردیتا‬ ‫‪‬‬

‫ہے ۔‬
‫ِإنَّ هَّللا َ اَل يَ ْغفِ ُر َأن يُش َْر َك لمن یشاء ۔ہللا مشرک کے سوا باقی ‪ ‬جس کو چاہے بخش دے۔‬ ‫‪‬‬

‫ولو انھم اذظلموا انفسھم جاءک ۔۔ گناہ سرزرد ہوجانے کے بعد ‪ ‬مسلمان نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں ‪ ‬اور آپ‬ ‫‪‬‬

‫تعالی اس مسلمان کے گناہ ‪ ‬معاف‬


‫ٰ‬ ‫سے ہللا ‪ ‬کے دربار میں ‪ ‬اپنے گناہوں ‪ ‬کی معافی کی درخواست ‪ ‬کریں تو ‪ ‬ہللا‬
‫فرمادیتے ہیں ۔‬
‫مختصر تفسیر ‪:‬‬
‫ٰ‬
‫تقوی کا‪  ‬حکم نازل فرمایا‪  ‬کہ ساری عبادتیں ‪ ‬صرف ہللا ‪ ‬کے لیے ہوں ‪ ‬اور دل ‪ ‬میں‬ ‫٭ اس‪  ‬سورت میں ہللا نے اوال‬
‫صرف اسی کا خوف ‪ ‬ہو‬
‫٭ پھر حضرت حوا علیہ السالم کی پیدائش کا ذکر کیا کہ وہ آدم علیہ السالم‪  ‬کی پسلی سے پیدا ہوئیں ‪ ‬اور پسلی ‪ ‬کے‬
‫ٹیڑھے ہونے کی بناء پر ‪ ‬عورتوں کا مزاج بھی ٹیڑھا ہوتا ہے ‪ ‬اس لیے اگر عورتوں کو ٹیڑھی حالت میں رکھ کر ‪ ‬ہی‬
‫ان سے فائدہ اٹھایا جائے ‪ ‬تو اٹھایا جاسکتا ہے ‪ ‬انہیں سیدھا کرنا ممکن نہیں ‪ ‬۔‬
‫٭ پھر قرابت ‪ ‬داری‪  ‬جوڑنے اور ‪  ‬نیکی کرنے کا حکم دیا کہ تم سب ‪ ‬ایک ہی ماں باپ ‪ ‬کے اوالد ‪ ‬ہو پس آپس میں‬
‫شفقت ‪ ‬کرو۔‬
‫وتعالی ‪ ‬نے یتیموں ‪ ‬کے ساتھ‬
‫ٰ‬ ‫بالخصوص قریبی رشتہ داروں ‪ ‬کے ساتھ حسن سلوک ‪ ‬کا معاملہ ‪ ‬کرو! پھر ہللا سبحانہ‬
‫احسان‪  ‬کرنے اور بلوغ ‪ ‬کی عمر ‪  ‬کو پہنچنے ‪  ‬تک ان ‪ ‬کے مال کی حفاظت ‪ ‬کرنے کا ‪ ‬حکم فرمایا۔ یتیم ‪ ‬لڑکیوں ‪ ‬سے‬

‫‪1‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫اس نیت ‪ ‬کے ساتھ ‪ ‬پر نکاح ‪ ‬کی ممانعت ‪ ‬فرمادی ‪ ‬کہ ان کو مہر ‪ ‬وحقوق ‪  ‬سے محروم ‪ ‬رکھاجائے ‪ ‬لیکن اگر ‪ ‬ان کا‬
‫مہر ‪ ‬مقرر ‪ ‬کردیاجائے ‪ ‬اور ان کے حقوق کا خیال ‪ ‬رکھاجائے ‪ ‬تو کوئی حرج ‪ ‬نہیں ۔‬
‫وتعالی نے مردوں ‪ ‬کو چار نکاح ‪ ‬کی اجازت ‪ ‬دی اور اس سے زائد عورتوں ‪  ‬سے نکاح ‪ ‬سے‬
‫ٰ‬ ‫‪ ‬٭ پھر ہللا سبحانہ‬
‫ممانعت ‪ ‬فرمادی ‪ ‬اور اجازت ‪ ‬بھی اس صورت میں مرحمت ‪ ‬فرمائی ‪ ‬جب ان تمام ‪ ‬کے معامالت ‪ ‬میں عدل وانصاف ‪ ‬کو‬
‫قائم ‪ ‬رکھا ‪ ‬جائے گا ‪ ‬اگر عدل وانصاف ‪ ‬نہ کرنے ‪ ‬کا‪  ‬خوف ‪ ‬ہو تو ایک ہی نکاح ‪ ‬پر اکتفاء ‪ ‬کیاجائے ۔ ( اگر چہ ‪ ‬نکاح‬
‫ہوجائے گا )‬
‫وتعالی نے میراث ‪ ‬کے مفصل احکامات ‪ ‬نازل ‪ ‬فرمائے اور عورت ‪ ‬کے لیے بھی ترکہ ‪ ‬میں سے‬
‫ٰ‬ ‫٭‪  ‬پھر ‪ ‬ہللا سبحانہ‬
‫اس کا حصہ مقرر ‪ ‬کردیا اور ‪ ‬تفصیل ‪ ‬کے ساتھ ‪ ‬اوالد ماں باپ‪،‬میاں بیوی ‪ ‬اور اخیافی بہن بھائیوں ‪  ‬کے حصوں ‪ ‬کا‬
‫ذکر فرمایا ‪ ‬اور میت نے اگر کوئی جائز مالی وصیت کی ہے تو ‪ ‬وراثت کی تقسیم سے پہلے ‪ ‬وصیت کو نافذ کرنے کا‬
‫حکم دیا ۔ اگر میت ‪ ‬قرض دار ہے ‪ ‬تو وراثت ‪ ‬کی تقسیم ‪ ‬اور وصیت سے پہلے ‪ ‬اس کے قرض ‪  ‬کو ادا ‪ ‬کرنے کا اہتمام‬
‫الزم قرار دیا ہے ۔‬
‫٭ اور یہ‪  ‬بھی فرمادیا کہ ‪  ‬یہ سب ہللا کی طے کردہ حدود ہیں ‪ ‬جو ان سے تجاوز کرے گا ‪ ،‬جہنم ‪ ‬میں ڈال دیاجائے گا‬
‫اس کے بعد ہللا نے بدفعلی کی سزا تجویز فرمائی ۔ توبہ ‪ ‬کی شرط بیان‪  ‬فرمائی ‪ ‬کہ سکرات ‪ ‬کی حالت میں توبہ قبول‬
‫نہیں ‪،‬اس سے پہلے پہلے توبہ قبول ہے ‪ ،‬بیویوں ‪  ‬کے ساتھ حسن ‪ ‬سلوک کرنے ‪ ‬اور میراث میں ‪ ‬ان کو حصہ ‪ ‬دینے‬
‫کی تاکید فرمائی ۔ شوہر ‪ ‬اپنی بیوی کو جو مہر ‪ ‬یا تحفہ ‪ ‬دیتا ہے وہ اس سے واپسی نہ لے ‪،‬یہ حکم بیان فرمایا۔‬
‫تعالی نے باپ کی منکوحہ عورتوں کو ان کے بیٹوں ‪  ‬پر ہمیشہ کے لیے حرام کردیا اور ساتھ ساتھ ان‬
‫ٰ‬ ‫٭ہللا سبحانہ‬
‫عورتوں ‪ ‬کا حخم بھی ‪ ‬نازل فرمادیا ‪ ‬جن سے ہمیشہ ‪ ‬کے لئے ‪ ‬یا وقتی ‪ ‬طور پر نکاح حرام ‪  ‬ہے۔ تین قسم ‪ ‬کے رشتے‬
‫وہ ہیں ‪ ‬جن سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے ‪: ‬‬
‫‪)1‬۔۔۔۔خونی رشتے‬
‫‪)2‬۔۔۔۔رضاعی رشتے‬
‫‪)3‬۔۔۔۔سسرالی رشتے‬
‫‪ ‬جبکہ دو رشتے ایسے ہیں جن سے وقتی طور پر نکاح حرام‪  ‬ہے ۔‬
‫‪)1‬دو محرم عورتوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا حرام ہے ۔‬
‫‪)2‬ایک عورت کسی مرد کے نکاح میں ہے ‪ ‬تو طالق لے ‪ ‬اور اس کی عدت گزارے بغیر ‪ ‬کسی دوسرے ‪ ‬مرد کے لیے‬
‫اس سے نکاح جائز نہیں ‪ ‬۔‬
‫یہ بھی بیان ہوا کہ نکاح کے لیے مہر دینا ضروری ہے ‪ ‬نیز یہ کہ نکاح کا مقصد عفت اور پاکدامنی ‪ ‬کا حصول ہو‬
‫محض شہوت ‪ ‬رانی نہیں ‪ ‬اسی وجہ سے ‪ ‬نکاح متعہ حرام ہے ‪ ،‬ساتھ ساتھ ‪ ‬شراب کی حرمت اور تیمم کی اجازت ‪ ،‬تیمم‬
‫کس چیز ‪ ‬سے کیاجائے ‪ ‬اور تیمم کا آسان طریقہ ‪ ‬بیان‪  ‬فرمایا ‪ ،‬ساتھ ہی ‪ ‬ادائیگی ‪ ‬امانت کا حکم ‪ ‬نازل فرمایا اور قرآن‬
‫واحادیث ‪ ‬اور اجتہاد ‪ ‬علماء کو چھوڑ ‪ ‬کر کسی اور ‪ ‬ذریعے ‪ ‬سے فیصلہ ‪ ‬کرنے سے روک ‪ ‬دیاگیا ۔ا ور ‪ ‬جہاد کا حکم‬

‫‪2‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫نازل ہوا کہ ‪ ‬مظلوم مسلمانوں کی مدد ‪ ‬کے لیے ہر دور ‪ ‬میں جہاد فرض‪  ‬ہے ‪ ‬اور مجاہدہن ‪ ‬پر میدان ‪ ‬جہاد میں ہر وقت‬
‫ہللا کی نصرت ‪ ‬رہتی ہے ۔‬
‫‪ ‬٭ پھر ‪ ‬قتل خطا ‪ ‬پر دیت ‪ ‬اور قتل عمد ‪ ‬پر قصاص ‪ ‬کا حکم نازل فرمایا ‪ ‬تاکہ مسلمانوں ‪ ‬کی جانوں ‪  ‬کی حفاظت‬
‫ہوسکے ‪ ‬اور نماز قصر ‪ ‬وخوف کے احکامات ‪ ‬کہ سفر ‪ ‬میں ہو ‪ ‬یا میدان ‪ ‬جنگ میں ‪ ‬نماز کسی حال میں ‪ ‬معاف نہیں‬
‫اور حالت جنگ ‪ ‬میں نماز ادا ‪ ‬کرنے کا طریقہ واضح فرمادیا ۔‬
‫٭ مسلمانوں کو کفار ‪ ‬ومنافقین کی دوستی ‪ ‬سے روک دیاگیا مگر صرف بچاؤ ‪ ‬کے لئے ظاہر داری ‪ ‬کے طور پر کوئی‪ ‬‬
‫حرج نہیں ۔‬
‫قرب قیامت ‪ ‬میں حضرت عیسی ؑ ‪ ‬کا آپ ﷺ کے امتی ‪ ‬اور خلیفہ ‪ ‬کے طور پر ‪ ‬نازل ہونے ‪  ‬اور قرآن ‪ ‬کے احکامات ‪ ‬پر‬
‫تعالی ‪ ‬نے کاللہ ‪ ‬کے مفصل احکام ذکر کیے ‪  ‬کہ اگر کسی ‪ ‬کے بیٹے اور‬
‫ٰ‬ ‫عمل ‪ ‬کرنے کا ذکر ‪  ‬ہے ‪ ،‬پھر ‪ ‬ہللا سبحانہ‬
‫پوتے نہ ہو تو ان کی میراث ‪ ‬کسی طور پر ‪ ‬تقسیم کی جائے ‪ ‬گی ۔‬
‫‪ ‬احکام‪ :‬اس سورت ‪ ‬میں بکثرت ‪ ‬احکامات ‪ ‬نازل ہوئے ۔ کچھ احکام‪  ‬پہلے ‪ ‬بیان کیے جاچکے ہیں چند احکامات ‪ ‬کا‬
‫مزید ‪ ‬یہاں ذکر ‪ ‬کیاجارہاہے ۔‬
‫‪1‬۔‪ ‬خالفت‪  ‬شریعت ‪ ‬تجارت کی ممانعت ‪ ‬جس میں بال رضامندی ‪ ‬زبردستی کوئی ‪ ‬سودا کرنا ‪ ،‬دھوکہ دہی ‪ ‬کرنا‪  ،‬سود‬
‫خوری ‪ ،‬رشوت ‪ ‬خوری اور جوا وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫‪ ،2‬کبیرہ ‪ ‬گناہوں سے بچنے کا حکم ‪ ‬اور اگر کبیرہ ‪ ‬سرزرد ہوجائے ‪ ‬تو فورا توبہ کر لی جائے ۔‬
‫‪3‬۔نافرمان بیوی کی اصالح کا ایک تدریجی طریقہ ہے ‪ ،‬سب سے ‪  ‬پہلے اسے پیار ‪  ‬محبت اور ‪ ‬بہترین اخالق سے‬
‫سمجھابجھا کر ‪ ‬قائل کیاجائے ‪ ‬اس سے قابو میں نہ آئے ‪ ‬تو بستر الگ کریاجائے ‪ ‬اس سے بھی معاملہ نہ سلجھے ‪ ‬تو‬
‫ہلکی مار جائز ہے ‪ ‬جس میں چہرے اور ہڈی ‪ ‬پر نہ مارا جائے ‪ ‬اور پٹائی کے نشان ‪ ‬کبھی نہ پڑیں ‪ ‬اس سے بھی ‪ ‬جب‬
‫معاملہ ‪ ‬حل نہ ہوتو دونوں خاندانوں ‪ ‬کے بڑے اس معاملہ کو حل کریں ۔‬
‫‪4‬۔‪ ‬ماں باپ قریبی ‪ ‬پڑوسی ‪ ‬ورشتہ داروں ‪ ‬کے ساتھ احسان ‪ ‬کرنے کا حکم‬
‫‪5‬۔‪ ‬شراب حرام ہے ۔‬
‫‪6‬۔ان حالتوں میں تیمم جائز ہے ۔‬
‫(الف)‪ ‬پانی استعمال کرنے سے مرض بڑھ جائے گا یا بیمار ہوجائے گا ۔‬
‫(ب)‪ ‬حالت سفر میں جب ایک میل کے اندر اندر کہیں پانی کے آثار نظڑ نہ آرہے ہوں ۔‬
‫‪( ‬ج)‪ ‬پانی ہو مگر اس کے استعمال سے ‪ ‬کسی دشمن وغیرہ کا خوف ہو۔ نیز ‪ ‬بڑی ناپاکی کی حالت میں بھی تیمم‪  ‬ہی‬
‫کریں گے ۔‬
‫‪7‬۔جنابت کی حالت میں ‪ ‬نماز پڑھنا ‪ ‬اور مسجد سے ‪ ‬گزرناجائز نہیں ۔‬
‫‪8‬۔‪ ‬ادائیگی ‪ ‬امانت کا‪  ‬حکم ‪  ‬کہ کسی ‪ ‬بھی طرح ‪ ‬امانت‪  ‬میں خیانت جائز نہیں ۔‬
‫‪9‬۔‪ ‬ہللا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ علماء ‪ ‬وامیر کی اطاعت کا حکم ‪،‬‬
‫‪10‬۔‪ ‬قرآن ‪ ‬اور احادیث ‪ ‬سے اعراض ‪ ‬کر کے ‪ ‬کسی اور‪  ‬سے فیصلہ کرانا منع ہے ۔‬

‫‪3‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫‪11‬۔ ‪ ‬کظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے جہاد فرض ہے ۔‬
‫‪12‬۔‪ ‬سالم کرنے کے ‪ ‬احکام وآداب کہ سالم ‪ ‬کا جواب بہتر ‪ ‬طریقے ‪ ‬سے دینا چاہیے ‪ ‬۔‬
‫‪13‬۔‪ ‬جہاد اور تمام معامالت میں سنی سنائی باتیں ‪ ‬نقل کرنے سے منع ‪ ‬کیاگیا ۔‬
‫‪14 ‬۔ ‪ ‬قتل خطا پر دیت اور کفار ہ آئے گا‬
‫‪15‬۔‪ ‬قتل عمد پر ‪ ‬قصاص آئے گا ‪ ‬کفارہ نہیں ۔‬
‫‪16‬۔‪  ‬واقعہ کی تحقیق کے بغیر فیصلے کرنا جائز نہیں ۔‬
‫‪17‬۔‪ ‬جہاں اسالم پر عمل کرنا مشکل ہو وہاں‪  ‬سے ہجرت کرنا ‪ ‬ضروری ہے ‪ ‬۔‬
‫‪18‬۔ ‪  ‬ہجرت کرتے وقت اجر وثواب ‪ ‬نیت کے اعتبار سے ہوتا ہے ‪ ‬۔‬
‫‪19‬۔‪  ‬نماز قصر کا اجراء‬
‫‪20‬۔‪ ‬حالت جنگ میں‪  ‬نماز‪  ‬خوف کو ادا کرنے کا طریقہ‬
‫‪21 ‬۔‪  ‬حالت امن ‪ ‬میں نمازوں کو ‪ ‬ان کے وقت مقررہ ‪ ‬پر ادا کرنا ضروری ‪ ‬ہے ۔‬
‫‪22‬۔‪  ‬اصالح بین الناس ‪ ‬کا حکم اور ‪ ‬اس کی فضیلت‬
‫‪23‬۔‪ ‬سچی گواہی کو چھپانا جائز نہیں ‪ ‬خواہ وہ کسی کے ‪ ‬بھی خالف ہو ۔‬
‫‪24‬۔‪  ‬گناہ کی مجلس میں بیٹھنا‪  ‬بھی گناہ ہے ۔‬
‫‪25‬۔‪ ‬پرائی اک چرچا‪  ‬نہ کیاجائے ‪ ‬مگر ظالم کے ظلم کو بیان کرنا‪  ‬جائز ہے ‪ ‬۔‬
‫‪26‬۔‪  ‬کاللہ ( وہ شخص ‪ ‬جس کے والدین بھی نہ ہوں اور اوالد بھی نہ ہوں ) ‪ ‬کی میراث کا ذکر ۔‬
‫سا ًء َواتَّقُوا• هَّللا َ الَّ ِذي‬
‫ث ِم ْن ُه َما ِر َجااًل َكثِي ًرا َونِ َ‬ ‫اح َد ٍة َو َخلَ َ‬
‫ق ِم ْن َها ْ‬
‫زَو َج َها َوبَ َّ‬ ‫س َو ِ‬ ‫يَا َأيُّ َها النَّ ُ‬
‫اس اتَّقُوا َربَّ ُك ُم الَّ ِذي َخلَقَ ُك ْم ِمنْ نَ ْف ٍ‬
‫سا َءلُونَ بِ ِه َواَأْل ْر َحا َم ِإنَّ هَّللا َ َكانَ َعلَ ْي ُك ْم َرقِيبًا[‪]1‬‬
‫تَ َ‬
‫اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں‬
‫سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیال دیں اور ہللا سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے‬
‫ہو اور رشتوں سے بھی‪ ،‬بے شک ہللا ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔‬
‫تعالی اپنے تقوے کا حکم دیتا ہے کہ جسم سے اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں‬
‫ٰ‬ ‫محبت و مودت کا آفاقی اصول ہللا‬
‫اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے‪ ،‬پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی‬
‫شخص یعنی آدم علیہ السالم سے پیدا کیا ہے‪ ،‬ان کی بیوی یعنی حواء علیہما السالم کو بھی انہی سے پیدا کیا‪ ،‬آپ‬
‫سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حواء کو پیدا کیا‪ ،‬آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور‬
‫اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے انس پیدا ہوا۔‬

‫سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کی حاجت و شہوت مرد‬
‫میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لیے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے۔ پس تم اپنی‬
‫عورتوں کو روکے رکھو‪ ،‬صحیح حدیث میں ہے عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے‬

‫‪4‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی‬
‫چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]3331:‬‬
‫‪1488‬‬

‫پھر فرمایا ان دونوں سے یعنی آدم اور حواء سے بہت سے انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیال دیئے جن‬
‫تعالی کے قبضے میں‬
‫ٰ‬ ‫کی قسمیں‪ ،‬صفتیں‪ ،‬رنگ روپ‪ ،‬بول چال میں بہت کچھ اختالف ہے‪ ،‬جس طرح یہ سب پہلے ہللا‬
‫تھے اور پھر انہیں اس نے ادھر ادھر پھیال دیا‪ ،‬ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے قبضے میں کر کے ایک‬
‫میدان میں جمع کرے گا۔‬

‫پس ہللا سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت‪ ،‬عبادت بجا التے رہو‪ ،‬اسی ہللا کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم‬
‫آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو‪ ،‬مثالً یہ کہنا کہ میں تجھے ہللا کو یاد دال کر اور رشتے کو یاد دال کر یوں کہتا‬
‫ہوں‪[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪  ]519/7:‬اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو‪[ ،‬تفسیر‬
‫ابن جریر الطبری‪  ]518/7:‬ہللا جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ‬
‫رحمی‪ ،‬نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو ۔‪[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪ ]522-519/7:‬‬
‫ب َواَل تَْأ ُكلُوا َأ ْم َوالَ ُه ْ•م ِإلَى َأ ْم َوالِ ُك ْم ِإنَّهُ َكانَ ُحوبًا َكبِي ًرا[‪ ]2‬وَِإنْ ِخ ْفتُ ْم َأاَّل‬ ‫َوآتُوا ا ْليَتَا َمى َأ ْم َوالَ ُه ْ•م َواَل تَتَبَ َّدلُوا ا ْل َخبِ َ‬
‫يث بِالطَّيِّ ِ‬
‫اح َدةً َأ ْو َما َملَ َكتْ َأ ْي َمانُ ُك ْم َذلِكَ‬
‫سا ِء َم ْثنَى َوثُاَل َث َو ُربَا َع فَِإنْ ِخ ْفتُ ْم َأاَّل تَ ْع ِدلُوا فَ َو ِ‬ ‫سطُوا فِي ا ْليَتَا َمى فَا ْن ِك ُحوا َما طَ َ‬
‫اب لَ ُك ْم ِمنَ النِّ َ‬ ‫تُ ْق ِ‬
‫سا فَ ُكلُوهُ َهنِيًئا َم ِريًئا[‪]4‬‬ ‫ص ُدقَاتِ ِهنَّ نِ ْحلَةً فَِإنْ ِطبْنَ لَ ُك ْم عَنْ ش ْ‬
‫َي ٍء ِم ْنهُ نَ ْف ً‬ ‫سا َء َ‬ ‫َأ ْدنَى َأاَّل تَ ُعولُوا[‪َ  ]3‬وآتُوا النِّ َ‬
‫اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور گندی چیز کو اچھی چیز کے عوض بدل کر نہ لو اور نہ ان کے اموال اپنے‬
‫مالوں سے مال کر کھائو‪ ،‬یقینا یہ ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔‪  ‬اور اگر تم ڈروکہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں‬
‫کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو‪ ،‬دو دو سے اور تین تین سے اور چار‬
‫چار سے‪ ،‬پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے‪ ،‬یا جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں (یعنی‬
‫لونڈیاں)۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔‪ ‬اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو‪ ،‬پھر اگر وہ اس‬
‫میں سے کوئی چیز تمھارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائیں تو اسے کھالو‪ ،‬اس حال میں کہ مزے دار‪،‬‬
‫خوشگوار ہے۔‪ ‬‬
‫تعالی یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫تمہارے پاس ہوں انہیں سونپ دو‪ ،‬پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو‪ ،‬اپنے مالوں کے ساتھ‬
‫مال کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو‪ ،‬حالل رزق جب ہللا رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں‬
‫منہ اٹھاؤ؟‬
‫تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حالل مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو‪ ،‬دبال پتال‬
‫جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو‪ ،‬بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو‪ ،‬ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی‬

‫‪5‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫نیت نہ رکھو‪ ،‬پہلے لوگ ایسا کر لیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی‬
‫دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کر دی‪ ،‬کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم‬
‫نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ‬
‫کر کے اب امتیاز کیا ہے؟ ان کے مال تلف نہ کرو‪ ،‬یہ بڑا گناہ ہے‪ ،‬ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے‬
‫کے مروی ہیں‪[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪:525/7:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫ابوداؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی‪« ‬حوب»‪ ‬کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے‪[ ‬سنن ابوداود‪،3892:‬قال الشيخ‬
‫األلباني‪:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫سیدنا ابوایوب رضی ہللا عنہ نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طالق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم‪ ‬نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طالق میں گناہ ہے‪[ ،‬طبرانی کبیر‪:136/25:‬ضعیف]‪  ‬چنانچہ وہ اپنے ارادے سے باز‬
‫رہے‪ ،‬ایک روایت میں یہ واقعہ سیدنا ابوطلحہ رضی ہللا عنہ اور سیدہ ام سلیم رضی ہللا عنہا کا مروی ہے۔‪[ ‬مستدرک‬
‫حاکم‪:302/2:‬ضعیف]‪ ‬‬

‫پھر فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا‬
‫کوئی اور نہیں اس لیے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو‬
‫اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کر لو۔‬
‫سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی‬
‫پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے اللچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح‬
‫کر لیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]4573:‬‬
‫صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی ہللا عنہما نے سیدہ عائشہ رضی ہللا عنہا سے اس آیت کا مطلب‬
‫پوچھا تو آپ نے فرمایا‪ :‬بھانجے‪ ،‬یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں‬
‫شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کر لے لیکن جو مہر وغیرہ اور‬
‫جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت کو چھوڑ دے اور کسی‬
‫دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کر لے‪ ،‬پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے‬
‫سا ِء قُ ِل اللَّـهُ يُ ْفتِي ُك ْ•م فِي ِهنَّ »‪-4[ ‬النساء‪  ]127:‬نازل ہوئی وہاں فرمایا‬
‫ستَ ْفتُونَ َك فِي النِّ َ‬
‫اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت‪َ « ‬ويَ ْ‬
‫گیا ہے کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بیرغبتی کرتے‬
‫ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کر‬
‫لیں۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]4574:‬‬
‫ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں‪ ،‬ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے‬
‫جس سے چاہیں نکاح کر لیں اگر چاہیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار‬
‫اع ِل ا ْل َماَل ِئ َك ِة‬ ‫ت َواَأْل ْر ِ‬
‫ض َج ِ‬ ‫اوا ِ‬
‫س َم َ‬ ‫چار‪ ،‬جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں‪ ،‬فرماتا ہے‪« :‬ا ْل َح ْم ُد لِلَّـ ِه فَ ِ‬
‫اط ِر ال َّ‬

‫‪6‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫تعالی اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے‬
‫ٰ‬ ‫ساًل ُأولِي َأ ْجنِ َح ٍة َم ْثنَ ٰى َوثُاَل َث َو ُربَاعَ»‪ -35[ ‬فاطر‪  ]1:‬الخ یعنی‪ ” ‬جن فرشتوں کو ہللا‬
‫ُر ُ‬
‫ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ‬
‫پر والے فرشتے بھی ہیں “‪ ‬کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے۔‬
‫لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے‬
‫تعالی اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس‬
‫ٰ‬ ‫کہ سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما اور جمہور کا قول ہے‪ ،‬یہاں ہللا‬
‫اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا‪ ،‬امام شافعی رحمہ ہللا فرماتے ہیں حدیث جو‬
‫قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتال دیا ہے کہ سوائے رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے کسی کے لیے چار‬
‫سے زیادہ بیویوں کا بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے۔‬
‫سو ُه ْم َوقُولُوا لَ ُه ْم قَ ْواًل َم ْع ُروفًا[‪ ]5‬‬ ‫سفَ َها َء َأ ْم َوالَ ُك ُ•م الَّتِي َج َع َل هَّللا ُ لَ ُك ْم قِيَا ًما َو ْ‬
‫ار ُزقُو ُه ْم فِي َها َوا ْك ُ‬ ‫َواَل تُْؤ تُوا ال ُّ‬
‫اور بے سمجھوں کو اپنے مال نہ دو‪ ،‬جو ہللا نے تمھارے قائم رہنے کا ذریعہ بنائے ہیں اور انھیں ان میں سے کھانے‬
‫کے لیے دو اور انھیں پہننے کے لیے دو اور ان سے اچھی بات کہو۔‪ ‬‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی لوگوں کو منع فرماتا ہے کہ کم عقل بیویوں کو مال کے تصرف سے روکیں‪ ،‬مال کو ہللا‬
‫ٰ‬ ‫ہللا سبحانہ و‬
‫تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے‪ ،‬اس سے معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے مال کے‬
‫خرچ سے روک دینا چاہیئے‪ ،‬مثالً نابالغ بچہ ہو یا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل‪ ،‬بیوقوف ہو اور بےدین ہو‪ ،‬بری طرح‬
‫اپنے مال کو لٹا رہا ہو‪ ،‬اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے وہ اپنے کل مال سے بھی ادا نہیں‬
‫کر سکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے قبضے سے لے لے گا اور اسے‬
‫بےدخل کر دے گا۔‬
‫سفَ َها َء»‪ ‬سے مراد تیری اوالد اور عورتیں ہیں‪[ ،‬تفسیر ابن جریر‬
‫سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں یہاں‪« ‬ال ُّ‬
‫الطبری‪ ]562/7:‬‬
‫اسی طرح سیدنا ابن مسعود رضی ہللا عنہ‪ ،‬حکم بن عبینہ‪ ،‬حسن اور ضحاک رحمہ ہللا علیہم سے بھی مروی ہے کہ‬
‫اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں‪[ ،‬تفسیر ابن جریر الطبری‪ ]562/7:‬‬
‫سعید بن جبیر فرماتے ہیں یتیم مراد ہیں‪ ،‬مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں۔‬
‫ابن ابی حاتم میں ہے‪ ‬رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪” :‬بیشک عورتیں بیوقوف ہیں مگر جو اپنے خاوند کی‬
‫اطاعت گزار ہوں“‪(  ، ‬ضعیف‪ :‬اس کی سند میں عثمان بن ابی عاتکہ اور بن یزید دونوں راوی ضعیف ہیں) ابن مردویہ‬
‫میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے‪ ،‬سیدنا ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرکش خادم ہیں‪.‬‬
‫پھر فرماتا ہے انہیں کھالؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہا فرماتے ہیں یعنی تیرا مال جس پر‬
‫تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو نہ دے ڈال کہ پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے بلکہ اپنا مال اپنے‬
‫قبضے میں رکھ اس کی اصالح کرتا رہ اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست کر اور ان کے خرچ‬
‫اٹھا۔‬

‫‪7‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬ ‫ن‬
‫سوال مب ر ‪ :2‬سورۃ النساء کی آیت نمبر ‪ 33‬تا ‪ 35‬کا با محاورہ ترجمہ کیجئے اور ان کی روشنی میں خاندان کی اہمیت کو بیان‬
‫کیجئے۔‬
‫سَألُوا هَّللا َ ِمنْ فَ ْ‬
‫ضلِ ِه‬ ‫يب ِم َّما ا ْكتَ َ‬
‫سبْنَ َوا ْ‬ ‫ص ٌ‬ ‫سبُوا َولِلنِّ َ‬
‫سا ِء نَ ِ‬ ‫يب ِم َّما ا ْكتَ َ‬
‫ص ٌ‬‫لر َجا ِل نَ ِ‬ ‫ض ُك ْم َعلَى بَ ْع ٍ‬
‫ض لِ ِّ‬ ‫َواَل تَتَ َمنَّ ْوا َما فَ َّ‬
‫ض َل هَّللا ُ بِ ِه بَ ْع َ‬
‫َي ٍء َعلِي ًما[‪]32‬‬ ‫ِإنَّ هَّللا َ َكانَ بِ ُك ِّل ش ْ‬
‫اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں ہللا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے‪ ،‬مردوں کے لیے اس میں‬
‫سے ایک حصہ ہے‪ ،‬جو انھوں نے محنت سے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے‪ ،‬جو انھوں‬
‫نے محنت سے کمایا اور ہللا سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔ بے شک ہللا ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے‬
‫واال ہے۔‬
‫سیدہ ام سلمہ رضی ہللا عنہا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یا رسول ہللا ! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے‬
‫محروم ہیں‪ ،‬اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‪[ ‬سنن ترمذي‪:‬‬
‫‪،3022‬قال الشيخ األلباني‪:‬صحیح]‪ ‬‬
‫ضي ُع َع َم َل عَا ِم ٍل ِم ْن ُك ْم ِمنْ َذ َك ٍر َأ ْو ُأ ْنثَ ٰى بَ ْع ُ‬
‫ض ُك ْم ِمنْ بَ ْع ٍ‬
‫ض»‪-3[ ‬آل عمران‪:‬‬ ‫اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد پھر‪َ« ‬أنِّي اَل ُأ ِ‬
‫‪  ]195‬اتری۔‪[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪ ]9238:‬‬
‫اور یہ بھی روایت میں ہے کہ عورتوں نے یہ آرزو کی تھی کہ کاش کہ ہم بھی مرد ہوتے تو جہاد میں جاتے اور‬
‫روایت میں ہے کہ ایک عورت نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہا تھا کہ دیکھئیے مرد کو دو عورتوں کے برابر‬
‫حصہ ملتا ہے دو عورتوں کی شہادت مثل ایک مرد کے سمجھی جاتی ہے پھر عمل اس طرح ہے ایک نیکی آدھی‬
‫نیکی رہ جاتی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‪[ ‬تفسیر ابن ابی حاتم‪ ]5223/3:‬‬
‫سدی رحمہ ہللا فرماتے ہیں مردوں نے کہا تھا کہ جب دوہرے حصے کے مالک ہم ہیں تو دوہرا اجر بھی کیوں نہ‬
‫ملے؟ اور عورتوں نے درخواست کی تھی کہ جب ہم پر جہاد فرض ہی نہیں ہمیں تو شہادت کا ثواب کیوں نہیں ملتا؟‬
‫تعالی نے دونوں کو روکا اور حکم دیا کہ میرا فضل طلب کرتے رہو۔‬
‫ٰ‬ ‫اس پر ہللا‬
‫سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما سے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انسان یہ آرزو نہ کرے کہ کاش کہ فالں کا مال اور‬
‫اوالد میرا ہوتا؟ اس پر اس حدیث سے کوئی اشکال ثابت نہیں ہو سکتا جس میں ہے کہ حسد کے قابل صرف دو ہیں‬
‫ایک مالدار جو راہ ہللا اپنا مال لٹاتا ہے‪[ ،‬صحیح بخاری‪  ]73:‬اور دوسرا کہتا ہے کاش کہ میرے پاس بھی مال ہوتا تو‬
‫تعالی کے نزدیک اجر میں برابر ہیں اس لیے کہ یہ‬
‫ٰ‬ ‫میں بھی اسی طرح فی سبیل ہللا خرچ کرتا رہتا پس یہ دونوں ہللا‬
‫ممنوع نہیں یعنی ایسی نیکی کی حرص بری نہیں کسی نیک کام کو حاصل کرنے کی تمنا یا حرص کرنا محمود ہے اس‬
‫کے برعکس کسی کی چیز اپنے قبضے میں لینے کی نیت کرنا ہر طرح مذموم ہے جس طرح دینی فضیلت حاصل کرنے‬
‫کی حرض جائز رکھی ہے اور دنیوی فضیلت کی تمنا ناجائز ہے۔‬
‫پھر فرمایا ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا خیر کے بدلے خیر اور شر کے بدلے شر اور یہ بھی مراد ہو سکتی‬
‫ہے کہ ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق ورثہ دیا جاتا ہے۔‬

‫‪8‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہم سے ہمارا فضل مانگتے رہا کرو آپس میں ایک دوسرے کی فضیلت کی تمنا بےسود امر ہے‬
‫ہاں مجھ سے میرا فضل طلب کرو تو میں بخیل نہیں کریم ہوں وہاب ہوں دوں گا اور بہت کچھ دوں گا۔ رسول ہللا‪ ‬صلی‬
‫تعالی سے اس کا فضل طلب کرو ہللا سے مانگنا ہللا کو بہت پسند ہے‪ ،‬یاد رکھو‬
‫ٰ‬ ‫ہللا علیہ وسلم‪ ‬فرماتے ہیں‪” :‬لوگو ہللا‬
‫اعلی عبادت کشادگی اور وسعت و رحمت کا انتظار کرنا اور اس کی امید رکھنا ہیں۔‪[ ‬سنن ترمذي‪،3571:‬قال‬
‫ٰ‬ ‫سب سے‬
‫الشيخ األلباني‪:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫ش ِهيدًا[‪]33‬‬
‫َي ٍء َ‬ ‫َولِ ُك ٍّل َج َع ْلنَا َم َوالِ َي ِم َّما تَ َر َك ا ْل َوالِدَا ِن َواَأْل ْق َربُونَ َوالَّ ِذينَ َعقَدَتْ َأ ْي َمانُ ُك ْم فَآتُو ُه ْم نَ ِ‬
‫صيبَ ُه ْم ِإنَّ هَّللا َ َكانَ َعلَى ُك ِّل ش ْ‬
‫اور ہم نے اس (ترکے) میں جو والدین اور زیادہ قرابت والے چھوڑ جائیں‪ ،‬ہر ایک کے وارث مقرر کر دیے ہیں اور‬
‫جن لوگوں کو تمھارے عہد و پیمان نے باندھ رکھا ہے انھیں ان کا حصہ دو۔ بے شک ہللا ہمیشہ سے ہر چیز پر حاضر‬
‫ہے۔‬
‫بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہے۔‪:[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪ ]270/8:‬‬
‫بعض کہتے ہیں‪« ‬عصبہ»‪ ‬مراد ہیں؟ چچا کی اوالد کو بھی‪« ‬موالی»‪ ‬کہا جاتا ہے جیسے فضل بن عباس رحمہ ہللا کے‬
‫شعر میں ہے۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے لوگو! تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے عصبہ مقرر کر دئیے ہیں جو‬
‫اس مال کے وارث ہوں گے جسے ان کے ماں باپ اور قرابتدار چھوڑ مریں اور تمہارے منہ بولے بھائی ہیں تم جن کی‬
‫قسمیں کھا کر بھائی بنے ہو اور وہ تمہارے بھائی بنے ہیں انہیں ان کی میراث کا حصہ دو جیسے کہ قسموں کے وقت‬
‫تم میں عہد و پیمان ہو چکا تھا‪ ،‬یہ حکم ابتدائے اسالم میں تھا پھر منسوخ ہو گیا اور حکم ہوا کہ جن سے عہد و‬
‫پیمان ہوئے وہ نبھائے جائیں اور بھولے نہ جائیں لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی۔‬
‫صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہیں اور بعد کے جملہ‬
‫سے مراد یہ ہے کہ مہاجرین جب مدینہ شریف میں تشریف الئے تو یہ دستور تھا کہ ہر مہاجر اپنے انصاری بھائی بند‬
‫کا وارث ہوتا اس کے ذو رحم رشتہ دار وارث نہ ہوتے پس آیت نے اس طریقے کو منسوخ قرار دیا اور حکم ہوا کہ ان‬
‫کی مدد کرو انہیں فائدہ پہنچاؤ ان کی خیر خواہی کرو لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ہاں وصیت کر جاؤ۔‪[ ‬صحیح‬
‫بخاری‪ ]4580:‬‬
‫قبل از اسالم یہ دستور تھا کہ دو شخصوں میں عہد و پیمان ہو جاتا تھا کہ میں تیرا وارث اور تو میرا وارث اسی طرح‬
‫قبائل عرب عہد و پیمان کر لیتے تھے پس نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪” ‬جاہلیت کی قسمیں اور عہد و‬
‫پیمان کو اسالم اور مضبوظ کرتا ہے لیکن اب اسالم میں قسمیں اور اس قسم کے عہد نہیں اسے اس آیت نے منسوخ‬
‫قرار دے دیا اور فرمایا معاہدوں والوں کی بہ نسبت ذی رحم رشتہ دار کتاب ہللا کے حکم سے زیادہ ترجیح کے مستحق‬
‫ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے جاہلیت کی قسموں اور عہدوں کے بارے میں یہاں تک‬
‫تاکید فرمائی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ دئیے جائیں اور اس قسم کے توڑنے کو کہا جائے جو دارالندوہ میں ہوئی تھی‬
‫تو میں اسے بھی پسند نہیں کرتا۔‪[ ‬صحیح مسلم‪ ]2530:‬‬

‫‪9‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫ب بِ َما‬‫صالِ َحاتُ قَانِتَاتٌ َحافِظَاتٌ لِ ْل َغ ْي ِ‬ ‫ض َوبِ َما َأ ْنفَقُوا ِمنْ َأ ْم َوالِ ِه ْم فَال َّ‬ ‫سا ِء بِ َما فَ َّ‬
‫ض َل هَّللا ُ بَ ْع َ‬
‫ض ُه ْم َعلَى بَ ْع ٍ‬ ‫ال ِّر َجا ُل قَ َّوا ُمونَ َعلَى النِّ َ‬
‫سبِياًل ِإنَّ هَّللا َ‬ ‫اض ِربُوهُنَّ فَِإنْ َأطَ ْعنَ ُك ْ•م َفاَل تَ ْب ُغوا َعلَ ْي ِهنَّ َ‬ ‫ضا ِج ِع َو ْ‬ ‫شوزَ هُنَّ فَ ِعظُوهُنَّ َواه ُْج ُروهُنَّ فِي ا ْل َم َ‬ ‫َحفِظَ هَّللا ُ َوالاَّل تِي ت ََخافُونَ نُ ُ‬
‫َكانَ َعلِيًّا َكبِي ًرا[‪]34‬‬
‫مرد عورتوں پر نگران ہیں‪ ،‬اس وجہ سے کہ ہللا نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ‬
‫انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں‪ ،‬غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں‪ ،‬اس‬
‫لیے کہ ہللا نے (انھیں) محفوظ رکھا اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو‪ ،‬سو انھیں نصیحت کرو اور‬
‫بستروں میں ان سے الگ ہو جائو اور انھیں مارو‪ ،‬پھر اگر وہ تمھاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی‬
‫راستہ تالش نہ کرو‪ ،‬بے شک ہللا ہمیشہ سے بہت بلند‪ ،‬بہت بڑا ہے۔‬
‫تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے۔ اسے درست اور ٹھیک ٹھاک رکھنے واال ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫اس لیے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوت ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی‬
‫مرد ہی بن سکتا ہے نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی‬
‫عورت کو بنائیں۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]4425:‬‬
‫اسی طرح ہر طرح کا منصب قضاء وغیرہ بھی مردوں کے الئق ہی ہیں۔ دوسری وجہ افضیلت کی یہ ہے کہ مرد‬
‫عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثالً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا‬
‫پورا کرنا۔‬
‫پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے۔ اسی بنا پر مرد‬
‫لر َجا ِل َعلَ ْي ِهنَّ د ََر َجةٌ َواللَّـهُ َع ِزي ٌز َح ِكي ٌم»‪-2[ ‬البقرة‪:‬‬
‫کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے‪َ « ‬ولِ ِّ‬
‫‪ ]228‬‬
‫سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال‬
‫بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے۔‬
‫حسن بصری رحمہ ہللا فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت‬
‫کی پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دے ہی دیا تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا۔‪[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪:‬‬
‫‪:9305‬مرسل و ضعیف]‪ ‬‬
‫ایک اور روایت میں ہے کہ ایک انصاری رضی ہللا عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لیے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت‬
‫نے نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے کہا‪ :‬یا رسول ہللا ! میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے‪ ،‬جس کا نشان اب‬
‫تک میرے چہرے پر موجود ہے۔ نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪” :‬اسے حق نہ تھا“‪ ،‬وہیں یہ آیت اتری کہ‬
‫تعالی نے اور‬
‫ٰ‬ ‫ادب سکھانے کے لیے مرد عورتوں پر حاکم ہیں تو آپ نے فرمایا‪” :‬میں اور چاہتا تھا اور ہللا‬
‫چاہا۔“‪[ ‬میزان‪:8131:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫ن‬
‫سوال مب ر ‪ :3‬سورۃ النساء کی آیت نمبر ‪ 71‬تا ‪ 76‬کا بامحاورہ ترجمہ و تشریح کیجئے۔‬

‫‪10‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫صيبَةٌ قَا َل قَ ْد َأ ْن َع َم‬
‫صابَ ْت ُك ْم ُم ِ‬ ‫طَئنَّ فَِإنْ َأ َ‬ ‫ت َأ ِو ا ْنفِ ُروا َج ِمي ًعا[‪ ]71‬وَِإنَّ ِم ْن ُك ْم لَ َمنْ َليُبَ ِّ‬ ‫يَا َأ ُّي َها الَّ ِذينَ آ َمنُوا ُخ ُذوا ِح ْذ َر ُك ْم فَا ْنفِ ُروا ثُبَا ٍ‬
‫ض ٌل ِمنَ هَّللا ِ لَيَقُولَنَّ َكَأنْ لَ ْم تَ ُكنْ بَ ْينَ ُك ْم َوبَ ْينَهُ َم َو َّدةٌ يَا َل ْيتَنِي ُك ْنتُ َم َع ُه ْم‬ ‫ش ِهيدًا[‪َ  ]72‬ولَِئنْ َأ َ‬
‫صابَ ُك ْم فَ ْ‬ ‫هَّللا ُ َعلَ َّي ِإ ْذ لَ ْم َأ ُكنْ َم َع ُه ْم َ‬
‫سبِي ِل هَّللا ِ فَيُ ْقتَ ْل َأ ْو يَ ْغلِ ْب‬
‫شرُونَ ا ْل َحيَاةَ ال ُّد ْنيَا بِاآْل ِخ َر ِة َو َمنْ يُقَاتِ ْل فِي َ‬ ‫فََأفُو َز فَ ْوزًا ع َِظي ًما[‪ ]73‬فَ ْليُقَاتِ ْل فِي َ‬
‫سبِي ِل هَّللا ِ الَّ ِذينَ يَ ْ‬
‫س ْوفَ نُْؤ تِي ِه َأ ْج ًرا َع ِظي ًما[‪]74‬‬ ‫َف َ‬

‫اے لوگو جو ایمان الئے ہو! اپنے بچائو کا سامان پکڑو‪ ،‬پھر دستوں کی صورت میں نکلو‪ ،‬یا اکٹھے ہو کر نکلو۔اور‬
‫بے شک تم میں سے یقینا کوئی ایسا بھی ہے جو ہر صورت دیر لگا دے گا‪ ،‬پھر اگر تمھیں کوئی مصیبت آپہنچی تو‬
‫کہے گا بے شک ہللا نے مجھ پر انعام فرمایا‪ ،‬جب کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔‪ ]72[ ‬اور اگر واقعی تمھیں ہللا‬
‫کی طرف سے کوئی فضل حاصل ہوگیا تو یقینا وہ ضرور کہے گا‪ ،‬جیسے تمھارے درمیان اور اس کے درمیان کوئی‬
‫دوستی نہ تھی‪ ،‬اے کاش کہ میں ان کے ساتھ ہوتا تو بہت بڑی کامیابی حاصل کرتا۔‪ ]73[ ‬پس الزم ہے کہ ہللا کے‬
‫راستے میں وہ لوگ لڑیں جو دنیا کی زندگی ٓاخرت کے بدلے بیچتے ہیں اور جو شخص ہللا کے راستے میں لڑے‪ ،‬پھر‬
‫قتل کر دیا جائے‪ ،‬یا غالب ٓاجائے تو ہم جلد ہی اسے بہت بڑا اجر دیں گے۔‪]74[ ‬‬
‫ہللا رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بچاؤ کے اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں تاکہ‬
‫دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہو جائے۔ ضرورت کے ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے رہیں قوت مضبوط کرتے‬
‫رہیں منظم مردانہ وار جہاد کے لیے بیک آواز اٹھ کھڑے ہوں چھوٹے چھوٹے لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی‬
‫تعالی کی راہ سے‬
‫ٰ‬ ‫صورت میں جیسا موقعہ ہو آواز سنتے ہی ہوشیار رہیں کہ منافقین کی خصلت ہے کہ خود بھی ہللا‬
‫جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں۔‬
‫تعالی اسے رسوا کرے اس کا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت‬
‫ٰ‬ ‫جیسے عبدہللا بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا ہللا‬
‫الہیہ سے مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں نقصان پہنچاتا‪ ،‬ان کے‬
‫آدمی شہید ہوتے تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے حق‬
‫تعالی کا انعام قرار دیتا لیکن بے خبر یہ نہیں سمجھتا کہ جو اجر و ثواب ان مجاہدین کو مال اس سب سے یہ بد‬
‫ٰ‬ ‫میں ہللا‬
‫نصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو تا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے صبر کے ثواب سمیٹتا یا شہادت‬
‫کے بلند مرتبے تک پہنچ جاتا۔‬
‫اور اگر مسلمان مجاہدین کو ہللا کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آ جاتے ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو‬
‫انہوں نے پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غالم لے کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے ساتھ لوٹتے تو یہ انگاروں پر‬
‫لوٹتا اور ایسے لمبے لمبے سانس لے کر ہائے وائے کرتا ہے اور اس طرح پچھتاتا ہے اور ایسے کلمات زبان سے‬
‫نکالتا ہے گویا یہ تمہارا کبھی تھا یہ نہیں یہ دین تمہارا نہیں بلکہ اس کا دین ہے اور کہتا افسوس میں ان کے ساتھ نہ‬
‫ہوا ورنہ مجھے بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی‪ ،‬غالم‪ ،‬مال‪ ،‬متاع واالبن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر‬
‫مٹا ہوا ہے۔‬

‫‪11‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫پس ہللا کی راہ میں نکل کھڑے ہونے والے مومنوں کو چاہیئے کہ ان سے جہاد کریں جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے‬
‫فروخت کر رہے ہیں اپنے کفر اور عدم ایمان کے باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے دنیا بناتے ہیں۔ سنو! ہللا کی راہ کا‬
‫مجاہد کبھی نقصان نہیں اٹھاتا اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر۔‬
‫َان الَّ ِذينَ يَقُولُونَ َربَّنَا َأ ْخ ِر ْجنَا ِمنْ َه ِذ ِه ا ْلقَ ْريَ ِة‬
‫سا ِء َوا ْل ِو ْلد ِ‬
‫ال ِّر َجا ِل َوالنِّ َ‬ ‫َض َعفِينَ ِمنَ‬ ‫ست ْ‬ ‫يل هَّللا ِ َوا ْل ُم ْ‬ ‫َو َما لَ ُك ْم اَل تُقَاتِلُونَ ِفي َ‬
‫سب ِ ِ‬
‫سبِي ِل هَّللا ِ َوالَّ ِذينَ َكفَ ُروا يُقَاتِلُونَ‬ ‫صي ًرا[‪ ]75‬الَّ ِذينَ آ َمنُوا يُقَاتِلُونَ ِفي َ‬ ‫لَ ُد ْنكَ نَ ِ‬ ‫اج َع ْ•ل لَنَا ِمنْ‬ ‫الظَّالِ ِم َأ ْهلُ َها َو ْ‬
‫اج َع ْل لَنَا ِمنْ لَ ُد ْن َك َولِيًّا َو ْ‬
‫ش ْيطَا ِن َكانَ َ‬
‫ض ِعيفًا[‪]76‬‬ ‫ت فَقَاتِلُوا َأ ْولِيَا َء ال َّ‬
‫ش ْيطَا ِن ِإنَّ َك ْي َد ال َّ‬ ‫سبِي ِل الطَّا ُغو ِ‬
‫ِفي َ‬
‫اور تمھیں کیا ہے کہ تم ہللا کے راستے میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو‬
‫کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس‬
‫سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مدد گار بنا۔‪ ]75[ ‬وہ لوگ جو ایمان الئے وہ ہللا کے‬
‫راستے میں لڑتے ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا وہ باطل معبود کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے‬
‫دوستوں سے لڑو‪ ،‬بے شک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔‪]76[ ‬‬
‫تعالی مومنوں کو اپنی راہ کے جہاد کی رغبت دالتا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ کمزور بے بس لوگ جو مکہ میں ہیں‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫جن میں عورتیں اور بچے بھی ہیں جو وہاں کے قیام سے اکتا گئے ہیں جن پر کفار نت نئی مصیبتیں توڑ رہے ہیں۔‬
‫جو محض بے بال و پر ہیں انہیں آزاد کراؤ‪ ،‬جو بیکس دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اسی بستی یعنی مکہ سے ہمارا نکلنا‬
‫ممکن ہو۔‬

‫ش ُّد قُ َّوةً ِّمنْ قَ ْريَتِكَ الَّتِ ْٓي اَ ْخ َر َج ْت َك ۚ اَ ْهلَ ْك ٰن ُه ْم فَاَل‬


‫مکہ شریف کو اس آیت میں بھی قریہ کہا گیا ہے‪َ « ‬و َكاَيِّنْ ِّمنْ قَ ْريَ ٍة ِه َى اَ َ‬
‫ص َر لَ ُه ْم»‪-47[ ‬محمد‪ ”  ]13:‬بہت سی بستیاں اس بستی سے زیادہ طاقتور تھیں جس بستی سے‪( ‬یعنی وہاں کے‬
‫نَا ِ‬
‫رہنے والوں نے)‪ ‬تمہیں نکاال “۔ اسی مکہ کے رہنے والے مسلمان کافروں کے ظلم کے شکایت بھی کر رہے ہیں اور‬
‫ساتھ ہی اپنی دعاؤں میں کہہ رہے ہیں کہ اے رب کسی کو اپنی طرف سے ہمارا ولی اور مددگار بنا کر ہماری امداد کو‬
‫بھیج۔‬
‫صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہما انہی کمزوروں میں تھے‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]4587:‬‬
‫ست َِط ْي ُع ْونَ ِح ْيلَةً َّواَل يَ ْهتَد ُْونَ َ‬
‫سبِ ْياًل »‪-4[ ‬‬ ‫ساۗ ِء َوا ْل ِو ْلد ِ‬
‫َان اَل يَ ْ‬ ‫الر َجا ِل َوالنِّ َ‬
‫َض َعفِيْنَ ِمنَ ِّ‬ ‫اور روایت میں ہے کہ آپ نے‪« ‬اِاَّل ا ْل ُم ْ‬
‫ست ْ‬
‫تعالی نے معذور‬
‫ٰ‬ ‫النساء‪  ]98:‬پڑھ کر فرمایا میں اور میری والدہ صاحبہ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہللا‬
‫رکھا۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]4588:‬‬

‫تعالی کی فرمانبرداری اور اس کی رضا جوئی کے لیے جہاد کرتے ہیں اور کفار اطاعت شیطان‬
‫ٰ‬ ‫ارشاد ہے‪ :‬ایماندار ہللا‬
‫میں لڑتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیئے کہ شیطان کے دوستوں سے جو ہللا کے دشمن ہیں دل کھول کر جنگ کریں اور‬
‫یقین مانیں کہ شیطان کے ہتھکنڈے اور اس کے مکر و فریب سب نقش برآب ہیں۔‬
‫ن‬
‫سوال مب ر ‪ :4‬سورۃ النساء کی آیت نمبر ‪ 104‬تا ‪ 112‬کا با محاورہ ترجمہ و تشریح کیجئے۔‬

‫‪12‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫ستَ ْغفِ ِر هَّللا َ ِإنَّ هَّللا َ َكانَ َغفُو ًرا‬
‫صي ًما[‪َ  ]105‬وا ْ‬ ‫س بِ َما َأ َرا َك هَّللا ُ َواَل تَ ُكنْ ِل ْل َخاِئنِينَ َخ ِ‬‫ق لِت َْح ُك َم بَيْنَ النَّا ِ‬ ‫ِإنَّا َأ ْن َز ْلنَا ِإلَ ْي َك ا ْل ِكت َ‬
‫َاب بِا ْل َح ِّ‬
‫س ُه ْم ِإنَّ هَّللا َ اَل يُ ِح ُّب َمنْ َكانَ َخ َّوانًا َأثِي ًما[‪]107‬‬
‫َن الَّ ِذينَ يَ ْختَانُونَ َأ ْنفُ َ‬‫َر ِحي ًما[‪َ  ]106‬واَل ت َُجا ِد ْل ع ِ‬
‫بے شک ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی‪ ،‬تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو‬
‫ہللا نے تجھے دکھایا ہے اور تو خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑنے واال نہ بن۔‪ ]105[ ‬اور ہللا سے بخشش مانگ‪،‬‬
‫یقینا ہللا ہمیشہ سے بے حد بخشنے واال‪ ،‬نہایت مہربان ہے۔‪ ]106[ ‬اور ان لوگوں کی طرف سے جھگڑا نہ کر جو اپنی‬
‫جانوں سے خیانت کرتے ہیں‪ ،‬یقینا ہللا ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو ہمیشہ بہت خائن‪ ،‬سخت گناہ گار ہو۔‪[ ‬‬
‫‪]107‬‬
‫تعالی نبی اکرم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو آپ پر ہللا نے اتارا ہے وہ مکمل طور پر اور‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ابتداء تا انتہا حق ہے‪ ،‬اس کی خبریں بھی حق اس کے فرمان بھی برحق۔ پھر فرماتا ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان وہ‬
‫تعالی تمہیں سمجھائے۔‬
‫ٰ‬ ‫انصاف کرو جو ہللا‬
‫بعض علمائے اصول نے اس سے استدالل کیا ہے کہ نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کو اجتہاد سے حکم کرنے کا اختیار‬
‫دیا گیا تھا‪ ،‬اس کی دلیل بخاری مسلم کی حدیث بھی ہے کہ‪ ‬نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے اپنے دروازے پر دو‬
‫جھگڑنے والوں کی آواز سنی تو آپ باہر آئے اور فرمانے لگے میں ایک انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق‬
‫فیصلہ کرتا ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ ایک شخص زیادہ حجت باز اور چرب زبان ہو اور میں اس کی باتوں کو صحیح‬
‫جان کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور جس کے حق میں فیصلہ کر دوں فی الواقع وہ حقدار نہ ہو تو وہ سمجھ‬
‫لے کہ وہ اس کے لیے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ لے لے یا چھوڑ دے۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]2680:‬‬
‫مسند احمد میں ہے کہ‪ ‬دو انصاری ایک ورثے کے بارے میں نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے پاس اپنا قضیہ الئے‬
‫واقعہ کو زمانہ گذر چکا تھا دونوں کے پاس گواہ کوئی نہ تھا تو اس وقت آپ نے وہی حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ‬
‫میرے فیصلے کی بنا پر اپنے بھائی کا حق نہ لے لے اگر ایسا کرے گا تو قیامت کے دن اپنی گردن میں جہنم کی آگ‬
‫لٹکا کر آئے گا اب تو وہ دونوں بزرگ رونے لگے اور ہر ایک کہنے لگا میں اپنا حق بھی اپنے بھائی کو دے رہا ہوں۔‬
‫نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا اب تم جاؤ اپنے طور پر جہاں تک تم سے ہو سکے ٹھیک ٹھیک حصے تقسیم‬
‫کرو پھر قرعہ ڈال کر حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے کو اپنا رہا سہا غلطی کا حق معاف کر دو۔‪ ‬ابوداؤد میں بھی یہ‬
‫حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ‪ ‬میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں‬
‫کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی۔‪[ ‬مسند احمد‪،308/6:‬قال الشيخ األلباني‪:‬صحیح]‪ ‬‬
‫ابن مردویہ میں ہے کہ‪ ‬انصار کا ایک گروہ ایک جہاد میں نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے ساتھ تھا وہاں ایک شخض‬
‫کی ایک چادر کسی نے چرالی اور اس چوری کا گمان طعمہ بن ابیرق کی طرف تھا نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کی‬
‫خدمت میں یہ قصہ پیش ہوا۔‬
‫چور نے اس چادر کو ایک شخص کے گھر میں اس کی بے خبری میں ڈال دیا اور اپنے کنبہ قبیلے والوں سے کہا میں‬
‫نے چادر فالں کے گھر میں ڈال دی ہے تم رات کو نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے پاس جاؤ اور آپ سے ذکر کرو کہ‬
‫ہمارا ساتھی تو چور نہیں چور فالں ہے اور ہم نے پتہ لگا لیا ہے کہ چادر بھی اس کے گھر میں موجود ہے اس طرح‬

‫‪13‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫آپ ہمارے ساتھی کی تمام لوگوں کی روبرو بریت کر دیجئے اور اس کی حمایت کیجئے ورنہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ہالک‬
‫نہ ہو جائے آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے ایسا ہی کیا۔‬
‫اس پر یہ آیتیں اتری اور جو لوگ اپنے جھوٹ کو پوشیدہ کر کے نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے پاس آئے تھے ان‬
‫ست َْخفُونَ ِمنَ هَّللا ِ َو ُه َو َم َع ُه ْم ِإ ْذ يُبَيِّتُونَ َما اَل يَ ْر َ‬
‫ض ٰى ِمنَ ا ْلقَ ْو ِل ۚ َو َكانَ هَّللا ُ بِ َما‬ ‫ست َْخفُونَ ِمنَ النَّا ِ‬
‫س َواَل يَ ْ‬ ‫کے بارے میں‪« ‬يَ ْ‬
‫طا»‪-4[  ‬النساء‪  ]108:‬سے دو آیتیں نازل ہوئیں۔‬ ‫يَ ْع َملُونَ ُم ِحي ً‬
‫ست َْخفُونَ ِمنَ هَّللا ِ َوه َُو َم َع ُه ْم ِإ ْذ يُبَيِّتُونَ َما اَل يَ ْر َ‬
‫ضى ِمنَ ا ْلقَ ْو ِل َو َكانَ هَّللا ُ بِ َما يَ ْع َملُونَ ُم ِحيطًا[‬ ‫س َواَل يَ ْ‬ ‫ست َْخفُونَ ِمنَ النَّا ِ‬ ‫يَ ْ‬
‫‪ ]108‬هَا َأ ْنتُ ْم َهُؤ اَل ِء َجا َد ْلتُ ْم َع ْن ُه ْم فِي ا ْل َحيَا ِة ال ُّد ْنيَا فَ َمنْ يُ َجا ِد ُل هَّللا َ َع ْن ُه ْم يَ ْو َم ا ْلقِيَا َم ِة َأ ْم َمنْ يَ ُكونُ َعلَ ْي ِه ْم َو ِكياًل [‪]109‬‬
‫وہ لوگوں سے چھپائو کرتے ہیں اور ہللا سے چھپائو نہیں کرتے‪ ،‬حاالنکہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کو‬
‫اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا اور ہللا ہمیشہ اس کا جو وہ کرتے ہیں‪ ،‬احاطہ کرنے واال ہے۔‪[ ‬‬
‫‪  ]108‬سن لو! تمھی وہ لوگ ہو جنھوں نے ان کی طرف سے دنیا کی زندگی میں جھگڑا کیا‪ ،‬تو ان کی طرف سے ہللا‬
‫سے قیامت کے دن کون جھگڑے گا‪ ،‬یا کون ان پر وکیل ہوگا؟‪]109[ ‬‬
‫یہ قصہ مطلول ترمذی کتاب التفسیر میں بزبانی قتادہ رحمہ ہللا اس طرح مروی ہے کہ ہمارے گھرانے کے بنوابیرق‬
‫قبیلے کا ایک گھر تھا جس میں بشر‪ ،‬بشیر اور مبشر تھے‪ ،‬بشیر ایک منافق شخص تھا اشعار کو کسی اور کی طرف‬
‫منسوب کر کے خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا۔‬
‫اصحاب رسول‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬جاتنے تھے کہ یہی خبیث ان اشعار کا کہنے واال ہے‪ ،‬یہ لوگ جاہلیت کے زمانے‬
‫سے ہی فاقہ مست چلے آتھے مدینے کے لوگوں کا اکثر کھانا جو اور کھجوریں تھیں‪ ،‬ہاں تونگر لوگ شام کے آئے‬
‫ہوئے قافلے والوں سے میدہ خرید لیتے جسے وہ خود اپنے لیے مخصوص کر لیتے‪ ،‬باقی گھر والے عموما ً جو اور‬
‫کھجوریں ہی کھاتے۔‬
‫میرے چچا رفاعہ یزید نے بھی شام کے آئے ہوئے قافلے سے ایک بورا میدہ کا خریدا اور اپنے باالخانے میں اسے‬
‫محفوظ کر دیا جہاں ہتھیار زرہیں تلواریں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں رات کو چوروں نے نیچے سے نقب لگا کر اناج‬
‫بھی نکال لیا اور ہتھیار بھی چرالے گئے۔‬
‫صبح میرے چچا میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا‪ ،‬اب ہم تجسس کرنے لگے تو پتہ چال کہ آج رات کو بنو‬
‫ابیرق کے گھر میں آگ جل رہی تھی اور کچھ کھا پکار رہے تھے غالبا ً وہ تمہارے ہاں سے چوری کر گئے ہیں‪ ،‬اس‬
‫سے پہلے جب اپنے گھرانے والوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے تو اس قبیلے کے لوگوں نے ہم سے کہا تھا کہ‬
‫تمہارا چور سیدنا لبید بن سہل رضی ہللا عنہ ہے‪ ،‬ہم جانتے تھے کہ سیدنا لبید رضی ہللا عنہ کا یہ کام نہیں وہ ایک‬
‫دیانتدار سچا مسلمان شخص تھا۔‬
‫سیدنا لبید رضی ہللا عنہ کو جب یہ خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے تلوار تانے بنوابیرق کے پاس آئے اور کہنے‬
‫لگے یا تو تم میری چوری ثابت کر ورنہ میں تمہیں قتل کر دونگا ان لوگوں نے ان کی برات کی اور معافی چاہ لی وہ‬
‫چلے گئے۔‬
‫ہم سب کے سب پوری تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ چوری بنوابیرق نے کی ہے‪ ،‬میرے چچا نے مجھے کہا‬

‫‪14‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫کہ تم جا کر رسول‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کو خبر تو دو‪ ،‬میں نے جا کر نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے سارا واقعہ‬
‫بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ آپ ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجئیے غلہ کی واپسی کی ضرورت نہیں‪ ،‬نبی کریم‪ ‬صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم‪ ‬نے مجھے اطمینان دالیا کہ اچھا میں اس کی تحقیق کروں گا۔‬
‫س ْب ِإ ْث ًما فَِإنَّ َما يَ ْك ِ‬
‫سبُهُ َعلَى نَ ْف ِ‬
‫س ِه َو َكانَ هَّللا ُ‬ ‫ستَ ْغفِ ِر هَّللا َ يَ ِج ِد هَّللا َ َغفُو ًرا َر ِحي ًما[‪َ  ]110‬و َمنْ يَ ْك ِ‬ ‫سو ًءا َأ ْو يَ ْظلِ ْم نَ ْف َ‬
‫سهُ ثُ َّم يَ ْ‬ ‫َو َمنْ يَ ْع َم ْل ُ‬
‫س ْب َخ ِطيَئةً َأ ْو ِإ ْث ًما ثُ َّم يَ ْر ِم بِ ِه بَ ِريًئا فَقَ ِد ْ‬
‫احتَ َم َل بُ ْهتَانًا وَِإ ْث ًما ُمبِينًا[‪]112‬‬ ‫َعلِي ًما َح ِكي ًما[‪َ  ]111‬و َمنْ يَ ْك ِ‬

‫اور جو بھی کوئی برا کام کرے‪ ،‬یا اپنی جان پر ظلم کرے‪ ،‬پھر ہللا سے بخشش مانگے وہ ہللا کوبے حد بخشنے واال‪،‬‬
‫نہایت مہربان پائے گا۔‪ ]110[ ‬اور جو شخص کوئی گناہ کمائے تو وہ اسے صرف اپنی جان پر کماتا ہے اور ہللا ہمیشہ‬
‫سے سب کچھ جاننے واال‪ ،‬کمال حکمت واال ہے۔‪ ]111[ ‬اور جو بھی کوئی خطا‪ ،‬یا گناہ کمائے پھر اس کی تہمت کسی‬
‫بے گناہ پر لگا دے تو یقینا اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔‪]112[ ‬‬
‫تعالی اپنا کرم اور اپنی مہربانی کو بیان فرماتا ہے کہ جس گناہ سے جو کوئی توبہ کرے ہللا اس کی طرف مہربانی‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫سے رجوع کرتا ہے‪ ،‬ہر وہ شخص جو رب کی طرف جھکے رب اپنی مہربانی سے اور اپنی وسعت رحمت سے اسے‬
‫ڈھانپ لیتا ہے اور اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ کو بخشش دیتا ہے‪ ،‬چاہے وہ گناہ آسمان و زمین اور پہاڑوں سے بھی‬
‫بڑے ہوں‪،‬‬
‫بنو اسرائیل میں جب کوئی گناہ کرتا تو اس کے دروازے پر قدرتی حروف میں کفارہ لکھا ہوا نظر آ جاتا تھا جو اسے‬
‫ادا کرنا پڑتا اور انہیں یہ بھی حکم تھا کہ ان کے کپڑے پر اگر پیشاب لگ جائے تو اتنا کپڑا کتروا ڈالیں ہللا نے اس‬
‫امت پر آسانی کر دی پانی سے دھو لینا ہی کپڑے کی پاکی رکھی اور توبہ کر لیناہی گناہ کی معافی۔‬
‫ایک عورت نے سیدنا عبدہللا بن مفضل رضی ہللا عنہ سے سوال کیا کہ عورت نے بدکاری کی پھر جب بچہ ہوا تو اسے‬
‫سو ًءا َأ ْو‬
‫«و َمن يَ ْع َم ْل ُ‬
‫مار ڈاال آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے وہ روتی ہوئی واپس چلی تو آپ نے اسے بالیا اور‪َ  ‬‬
‫يَ ْظلِ ْم نَ ْف َ‬
‫سهُ ثُ َّم يَ ْ‬
‫ستَ ْغفِ ِر هَّللا َ يَ ِج ِد هَّللا َ َغفُو ًرا َّر ِحي ًما»‪-4[ ‬النساء‪  ]110:‬پڑھ کر سنائی تو اس نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور‬
‫واپس لوٹ گئی ‪.‬‬
‫نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬فرماتے ہیں جس مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعت‬
‫نماز ادا کر کے ہللا سے استغفار کرے تو ہللا اس کے اس گناہ کو بخش دیتا ہے‬
‫هّٰللا‬ ‫ستَ ْغفَ ُر ْوا لِ ُذنُ ْوبِ ِھ ْم ۠ َو َمنْ يَّ ْغفِ ُر ُّ‬ ‫هّٰللا‬
‫الذنُ ْو َب اِاَّل ُ‬ ‫س ُھ ْم َذ َك ُروا َ فَا ْ‬
‫شةً اَ ْو ظَلَ ُم ْٓوا اَ ْنفُ َ‬ ‫پھر آپ نے یہ آیت اور‪َ « ‬والَّ ِذيْنَ اِ َذا فَ َعلُ ْوا فَ ِ‬
‫اح َ‬
‫ص ُّر ْوا ع َٰلي َما َف َعلُ ْوا َو ُھ ْم يَ ْعلَ ُم ْونَ »‪-3[ ‬آل عمران‪  ]135:‬کی تالوت کی۔ “‪ ‬اس حدیث کا پورا بیان ہم نے مسند‬ ‫ڞ َولَ ْم يُ ِ‬
‫سیدنا ابوبکر رضی ہللا عنہ میں کر دیا ہے اور کچھ بیان سورۃ آل عمران کی تفسیر میں بھی گذرا ہے۔‬
‫سیدنا ابودرداء رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪ ‬رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کی عادت مبارک تھی کہ مجلس میں سے اُٹھ‬
‫کر اپنے کسی کام کے لیے کبھی جاتے اور واپس تشریف النے کا ارادہ بھی ہوتا جوتی یا کپڑا کچھ نہ کچھ چھوڑ‬
‫جاتے‪ ،‬ایک مرتبہ آپ اپنی جوتی چھوڑے ہوئے اُٹھے ڈولچی پانی کی ساتھ لے چلے میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا‬

‫‪15‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫آپ کچھ دور جا کر بغیر حاجت پوری کئے واپس آئے اور فرمانے لگے۔ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک‬
‫ستَ ْغفِ ِر هَّللا َ يَ ِج ِد هَّللا َ َغفُو ًرا‬ ‫سو ًءا َأ ْو يَ ْظلِ ْم نَ ْف َ‬
‫سهُ ثُ َّم يَ ْ‬ ‫آنے واال آیا اور مجھے یہ پیغام دے گیا‪ ،‬پھر آپ نے‪َ « ‬و َمن يَ ْع َم ْل ُ‬
‫َّر ِحي ًما»‪-4[ ‬النساء‪  ]110:‬پڑھی اور فرمایا میں اپنے صحابہ کو یہ خوشخبری سنانے کے لیے راستے میں ہی لوٹ آیا‬
‫ہوں۔‬
‫ستَ ْغفِ ِر هَّللا َ يَ ِج ِد هَّللا َ َغفُو ًرا َّر ِحي ًما»‪-4[ ‬النساء‪  ]110:‬یعنی ہر‬ ‫سو ًءا َأ ْو يَ ْظلِ ْم نَ ْف َ‬
‫سهُ ثُ َّم يَ ْ‬ ‫«و َمن يَ ْع َم ْل ُ‬
‫اس سے پہلے چونکہ‪َ  ‬‬
‫برائی کرنے والے کو اس کی برائی کا بدلہ ملے گا اتر چکی تھی اس لیے صحابہ رضی ہللا عنہم بہت پریشان‬
‫تھے ‪ .‬میں نے کہا یا رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کسی نے زنا کیا ہو؟ چوری کی ہو؟ پھر وہ استفغار کرے تو اسے‬
‫بھی ہللا بخش دے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں‪ ،‬میں نے دوبارہ پوچھا آپ نے کہا ہاں میں نے سہ بارہ دریافت کیا تو آپ نے‬
‫فرمایا ہاں گو ابودراداء کی ناک خاک آلود ہو ‪ .‬پس ابودرداء جب یہ حدیث بیان کرتے اپنی ناک پر مار کر بتاتے۔ اس‬
‫کی اسناد ضعیف ہے اور یہ حدیث غریب ہے۔‬
‫ن‬
‫سوال مب ر ‪ :5‬سورۃ النساء کی آیت نمبر ‪ 148‬تا ‪ 154‬کا با محاورہ ترجمہ و تشریح بیان کرتے ہوئے اہل ایمان کے‬
‫عقیدے کی وضاحت کیجئے۔‬
‫س ِمي ًعا َعلِي ًما[‪ِ ]148‬إنْ تُ ْبدُوا َخ ْي ًرا َأ ْو ت ُْخفُوهُ َأ ْو تَ ْعفُوا عَنْ ُ‬
‫سو ٍء‬ ‫سو ِء ِمنَ ا ْلقَ ْو ِل ِإاَّل َمنْ ظُلِ َم َو َكانَ هَّللا ُ َ‬
‫اَل يُ ِح ُّب هَّللا ُ ا ْل َج ْه َر بِال ُّ‬
‫فَِإنَّ هَّللا َ َكانَ َعفُ ًّوا قَ ِدي ًرا[‪]149‬‬
‫ہللا بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو اور ہللا ہمیشہ سے سب کچھ سننے‬
‫واال‪ ،‬سب کچھ جاننے واال ہے۔‪ ]148[ ‬اگر تم کوئی نیکی ظاہر کرو‪ ،‬یا اسے چھپائو‪ ،‬یا کسی برائی سے در گزر کرو تو‬
‫بے شک ہللا ہمیشہ سے بہت معاف کرنے واال‪ ،‬ہر چیز پر قدرت رکھنے واال ہے۔‪]149[ ‬‬
‫سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز‬
‫نہیں‪ ،‬ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کر لے تو افضل‬
‫یہی ہے۔‪[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪ ]344/9:‬‬

‫ابوداؤد میں ہے‪ ‬سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں۔‬
‫حضور رسول مقبول‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے یہ سن کر فرمایا! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو؟‪[ ‬سنن ابوداود‪:‬‬
‫‪،4909‬قال الشيخ األلباني‪:‬ضعیف]‪ ‬‬

‫حسن بصری رحمہ ہللا فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہیئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہیئے‪« ‬اللھم اعنی علیہ‬
‫واستخرج حقی منہ»‪ ” ‬یا ہللا اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے۔ “‪ ‬آپ سے ایک اور روایت‬
‫میں مروی ہے کہ‪ ‬اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کوسنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے۔‬

‫عبدالکریم بن مالک جزری رحمہ ہللا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں“گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو‬

‫‪16‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے۔“‪ ‬ایک اور آیت میں ہے‪َ « ‬ولَ َم ِن ا ْنت َ‬
‫َص َر بَ ْع َد‬
‫سبِ ْي ٍل»‪-42[ ‬الشورى‪ ”  ]41:‬جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے‪ ،‬اس پر‬ ‫ظُ ْل ِم ٖه فَا ُ ٰ‬
‫ولۗ ِٕىكَ َما َعلَ ْي ِه ْم ِّمنْ َ‬
‫کوئی مؤاخذہ نہیں۔ “‬

‫ابوداؤد میں ہے‪ ‬رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬فرماتے ہیں“دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے‪ ،‬جس نے گالیاں‬
‫دینا شروع کیا۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے۔‪[ ‬صحیح مسلم‪ ]2578:‬‬
‫ض َويُ ِريدُونَ َأنْ يَت َِّخ ُذوا‬ ‫ض َونَ ْكفُ ُر بِبَ ْع ٍ‬ ‫سلِ ِه َويُ ِريدُونَ َأنْ يُفَ ِّرقُوا بَيْنَ هَّللا ِ َو ُر ُ‬
‫سلِ ِه َويَقُولُونَ نُْؤ ِمنُ بِبَ ْع ٍ‬ ‫ِإنَّ الَّ ِذينَ يَ ْكفُرُونَ بِاهَّلل ِ َو ُر ُ‬
‫سبِياًل [‪ُ ]150‬أولَِئكَ ُه ُم ا ْل َكافِرُونَ َحقًّا َوَأ ْعتَ ْدنَا لِ ْل َكافِ ِرينَ َع َذابًا ُم ِهينًا[‪َ  ]151‬والَّ ِذينَ آ َمنُوا بِاهَّلل ِ َو ُر ُ‬
‫سلِ ِه َولَ ْم يُفَ ِّرقُوا بَيْنَ‬ ‫بَيْنَ َذلِكَ َ‬
‫س ْوفَ يُْؤ تِي ِه ْم ُأ ُجو َر ُه ْم َو َكانَ هَّللا ُ َغفُو ًرا َر ِحي ًما[‪]152‬‬
‫َأ َح ٍد ِم ْن ُه ْم ُأولَِئ َك َ‬

‫بے شک وہ لوگ جو ہللا اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہللا اور اس کے رسولوں‬
‫کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس کے‬
‫درمیان کوئی راستہ اختیار کریں۔‪ ]150[ ‬یہی لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے رسوا کرنے واال عذاب‬
‫تیار کر رکھا ہے۔‪ ]151[ ‬اور وہ لوگ جو ہللا اور اس کے رسولوں پر ایمان الئے اور انھوں نے ان میں سے کسی کے‬
‫درمیان تفریق نہ کی‪ ،‬یہی لوگ ہیں جنھیں وہ عنقریب ان کے اجر دے گا اور ہللا ہمیشہ سے بے حد بخشنے واال‪،‬‬
‫نہایت مہربان ہے۔‪]152[ ‬‬
‫عیسی علیہ السالم اور‬
‫ٰ‬ ‫اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو ایک نبی کو بھی نہ مانے کافر ہے‪ ،‬یہودی سوائے‬
‫محمد‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے اور تمام نبیوں کو مانتے تھے‪ ،‬نصرانی افضل الرسل خاتم االنبیاء محمد مصطفی‪ ‬صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم‪  ‬کے سوا تمام انبیاء پر ایمان رکھتے تھے‪ ،‬سامری یوشع علیہ السالم کے بعد کسی کی نبوت کے قائل نہ‬
‫موسی بن عمران علیہ السالم کے خلیفہ تھے۔‬
‫ٰ‬ ‫تھے‪ ،‬یوشع علیہ السالم‬
‫مجوسیوں کی نسبت مشہور ہے کہ وہ اپنا نبی زردشت کو مانتے تھے لیکن جب یہ بھی ان کی شریعت کے منکر ہو‬
‫تعالی نے وہ شریعت ہی ان سے اٹھا لی۔‪َ « ‬وهللاُ اَ ْعلَ ُم»‪ ‬۔‬
‫ٰ‬ ‫گئے تو ہللا‬
‫پس یہ لوگ ہیں جنہوں نے ہللا اور اس کے رسولوں میں تفریق کی یعنی کسی نبی کو مانا‪ ،‬کسی سے انکار کر دیا۔‬
‫کسی ربانی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی نفسانی خواہش جوش تعصب اور تقلید آبائی کی وجہ سے‪ ،‬اس سے یہ‬
‫بھی معلوم ہوا کہ ایک نبی کو نہ ماننے واال ہللا کے نزدیک تمام نبیوں کا منکر ہے۔‬
‫اس لیے کہ اگر اور انبیاء علیہم السالم کو بوجہ نبی ہونے کے مانتا تو اس نبی کو ماننا بھی اسی وجہ سے اسپر‬
‫ضروری تھا‪ ،‬جب وہ ایک کو نہیں مانتا تو معلوم ہوا کہ جنہیں وہ مانتا ہے انہیں بھی کسی دنیاوی غرض اور ہواؤں‬
‫کی وجہ سے مانتا ہے‪ ،‬ان کا شریعت ماننا یا نہ ماننا دونوں بے معنی ہے‪ ،‬ایسے لوگ حتما ً اور یقینا ً کافر ہیں‪ ،‬کسی‬
‫نبی پر ان کا شرعی ایمان نہیں بلکہ تقلیدی اور تعصبی ایمان ہے جو قابل قبول نہیں‪،‬‬

‫‪17‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫پس ان کفار کو اہانت اور رسوائی آمیز عذاب کئے جائیں گے۔ کیونکہ جن پر یہ ایمان نہ ال کر ان کی توہین کرتے تھے‬
‫اس کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی توہین ہو اور انہیں ذلت والے عذاب میں ڈاال جائے گا‪ ،‬ان کے ایمان نہ النے کی وجہ‬
‫خواہ غور و فکر کے بغیر نبوت کی تصدیق نہ کرنا ہو‪ ،‬خواہ حق واضح ہو چکنے کے بعد دنیوی وجہ سے منہ موڑ‬
‫کر نبوت سے انکار کرنا ہو۔‬
‫جیسے اکثر یہودی علماء کا شیوہ نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے بارے میں تھا کہ محض حسد کی وجہ سے آپ کی‬
‫عظیم الشان نبوت کے منکر تھے اور آپ کی مخالفت اور عداوت میں آ کر مقابلے پر تل گئے‪،‬‬
‫پس ہللا نے ان پر دنیا کی ذلت بھی مسلط کر دی اور آخرت کی ذلت کی مار بھی ان کے لیے تیار کر رکھی۔ پھر امت‬
‫محمد‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ ہللا پر ایمان رکھ کر تمام انبیاء علیہم السالم کو اور تمام آسمانی‬
‫کتابوں کو بھی الہامی کتابیں تسلیم کرتے ہیں۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے‪ُ « ‬ك ٌّل آ َمنَ بِاللَّـ ِه َو َماَل ِئ َكتِ ِه َو ُكتُبِ ِه َو ُر ُ‬
‫سلِ ِه اَل‬
‫ق بَيْنَ َأ َح ٍد ِّمن ُّر ُ‬
‫سلِ ِه»‪-2[ ‬البقرة‪ ]285:‬‬ ‫نُفَ ِّر ُ‬
‫پھر ان کے لیے جو اجر جمیل اور ثواب عظیم اس نے تیار کر رکھا ہے اسے بھی بیان فرما دیا کہ ان کے ایمان کامل‬
‫کے باعث انہیں اجر و ثواب عطا ہوں گے۔ اگر ان سے کوئی گناہ بھی سرزد ہو گیا تو ہللا معاف فرما دے گا اور ان پر‬
‫اپنی رحمت کی بارش برسائیں گے۔‬
‫اعقَةُ‬‫ص ِ‬‫سى َأ ْكبَ َر ِمنْ َذلِكَ فَقَالُوا َأ ِرنَا هَّللا َ َج ْه َرةً فََأ َخ َذ ْت ُه ُم ال َّ‬ ‫سَألُوا ُمو َ‬‫س َما ِء فَقَ ْد َ‬ ‫ب َأنْ تُنَ ِّز َل َعلَ ْي ِه ْم ِكتَابًا ِمنَ ال َّ‬ ‫سَألُ َك َأ ْه ُل ا ْل ِكتَا ِ‬ ‫يَ ْ‬
‫طو َر‬ ‫س ْلطَانًا ُمبِينًا[‪َ  ]153‬و َرفَ ْعنَا فَ ْوقَ ُه ُم ال ُّ‬ ‫سى ُ‬ ‫بِظُ ْل ِم ِه ْم ثُ َّم ات ََّخ ُذوا ا ْل ِع ْج َل ِمنْ بَ ْع ِد َما َجا َء ْت ُه ُم ا ْلبَيِّنَاتُ فَ َعفَ ْونَا عَنْ َذلِ َك َوآتَ ْينَا ُمو َ‬
‫ت َوَأ َخ ْذنَا ِم ْن ُه ْم ِميثَاقًا َغلِيظًا[‪]154‬‬ ‫س َّجدًا َوقُ ْلنَا لَ ُه ْم اَل تَ ْعدُوا فِي ال َّ‬
‫س ْب ِ‬ ‫بِ ِميثَاقِ ِه ْم َوقُ ْلنَا لَ ُه ُم اد ُْخلُوا ا ْلبَ َ‬
‫اب ُ‬

‫موسی سے اس سے بڑی‬
‫ٰ‬ ‫اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی کتاب اتارے‪ ،‬سو وہ تو‬
‫بات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے کہا ہمیں ہللا کو کھلم کھال دکھال‪ ،‬تو انھیں بجلی نے ان کے ظلم کی وجہ‬
‫سے پکڑ لیا‪ ،‬پھر انھوں نے بچھڑے کو پکڑ لیا‪ ،‬اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکی تھیں‪ ،‬تو ہم نے‬
‫موسی کو واضح غلبہ عطا کیا۔‪ ]153[ ‬اور ہم نے ان پر پہاڑ کو ان کا پختہ عہد لینے‬
‫ٰ‬ ‫اس سے در گزر کیا اور ہم نے‬
‫کے ساتھ اٹھا کھڑا کیا اور ہم نے ان سے کہا دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جائو اور ہم نے ان سے کہا کہ‬
‫ہفتے کے دن میں زیادتی مت کرو اور ہم نے ان سے ایک مضبوط عہد لیا۔‪]154[ ‬‬
‫موسی علیہ السالم ہللا کی طرف سے توراۃ‬
‫ٰ‬ ‫یہودیوں نے جناب رسالت مآب‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے کہا کہ جس طرح‬
‫ایک ساتھ لکھی ہوئی ہمارے پاس الئے‪ ،‬آپ بھی کوئی آسمانی کتاب پوری لکھی لکھائی لے آیئے۔ یہ بھی مروی ہے‬
‫تعالی خط بھیجے کہ ہم آپ کی نبوت کو مان لیں۔‬
‫ٰ‬ ‫کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے نام ہللا‬
‫یہ سوال بھی ان کا بدنیتی سے بطور مذاق اور کفر تھا۔ جیسا کہ اہل مکہ نے بھی اسی طرح کا ایک سوال کیا تھا۔ جس‬
‫طرح سورۃ سبحان میں مذکور ہے کہ“جب تک عرب کی سر زمین میں دریاؤں کی ریل پیل اور تروتازگی کا دور دورہ‬
‫نہ ہو جائے ہم آپ پر ایمان نہیں الئیں گے۔‪” ‬‬

‫‪18‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫کورس کا ام‪ :‬م طالعہ رآن حکی م(سورۃ ال ساء و سورۃ الما دۃ) (‪)4612‬‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں‪2020 ،‬ء‬
‫تعالی فرماتا ہے ان کی اس سرکشی اور بیجا سوال پر آپ‬
‫ٰ‬ ‫پس بطور تسلی کے نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے ہللا‬
‫موسی علیہ السالم سے اس سے بھی زیادہ بیہودہ سوال‬
‫ٰ‬ ‫کبیدہ خاطر نہ ہوں ان کی یہ بد عادت پرانی ہے‪ ،‬انہوں نے‬
‫تعالی خود کو دکھائے۔ اس تکبر اور سرکشی اور فضول سوالوں کی پاداش بھی یہ بھگت چکے ہیں‬
‫ٰ‬ ‫کیا تھا کہ ہمیں ہللا‬
‫یعنی ان پر آسمانی بجلی گری تھی۔‬
‫«واِ ْذ قُ ْلتُ ْم ٰي ُم ْو ٰسى لَنْ نُّْؤ ِمنَ لَكَ َح ٰتّى نَ َرى هّٰللا َ َج ْه َرةً‬
‫جیسے سورۃ البقرہ میں تفصیل وار بیان گذر چکا۔ مالحظہ ہو آیت‪َ  ‬‬
‫موسی علیہ السالم ہم تجھ پر ہرگز‬ ‫ٰ‬ ‫َفا َ َخ َذ ْت ُك ُم ال ٰ ّ‬
‫ص ِعقَةُ َواَ ْنتُ ْم تَ ْنظُ ُر ْونَ »‪-2[ ‬البقرة‪  ]55:‬یعنی‪ ” ‬جب تم نے کہا تھا کہ اے‬
‫تعالی کو ہم صاف طور پر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہیں بجلی کے کڑاکے‬
‫ٰ‬ ‫ایمان نہ الئیں گے جب تک کہ ہللا‬
‫نہ پکڑ لیا اور ایک دوسرے کے سامنے سب ہالک ہو گئے‪ ،‬پھر بھی ہم نے تمہاری موت کے بعد دوبارہ تمہیں زندہ کر‬
‫دیا تاکہ تم شکر کرو۔ “‬
‫پھر فرماتا ہے کہ‪” ‬بڑی بڑی نشانیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی ان لوگوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا۔“‪ ‬مصر‬
‫ٰ‬
‫موسیعلیہ السالم کے مقابلے میں ہالک ہونا اس کے تمام لشکروں کا نامرادی کی موت‬ ‫میں اپنے دشمن فرعون کا‬
‫مرنا‪ ،‬ان کا دریا سے بچ کر پار نکل آنا‪ ،‬ابھی ابھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوا تھا۔‬
‫لیکن وہاں سے چل کر کچھ دور جا کر ہی بت پرستوں کو بت پرستی کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے پیغمبر سے کہتے‬
‫ہیں‪ ” ‬ہمارا بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دو۔ “‪ ‬جس کا پورا بیان سورۃ االعراف میں ہے اور سورۃ طہٰ میں بھی۔‬

‫‪19‬‬

You might also like