Professional Documents
Culture Documents
الشیخ عبدالستار الحماد حفظ اللہ موالنا داود راز رحمہ اللہ
موالنا داود راز رحمه اهلل ،فوائد و مسائل ،تحت الحديث صحيح بخاري3045 :
https://islamicurdubooks.com/
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ اهلل ،فوائد و مسائل ،تحت الحديث صحيح
بخاري3045:
.3045حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا کہ رسول اللہ
ﷺ نے دس صحابہ پر مشتمل ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے
لیے روانہ فرمائی۔ آپ نے اس جماعت کا امیر حضرت عاصم بن
عمربن خطابؓ کے نانا حضرت عاصم بن ثابت انصاریؓ کو مقرر
فرمایا ،چنانچہ وہ لوگ (مدینے سے)چلے گئے۔ جب وہ مقام "هداة"
پر پہنچےجو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک
شاخ بنو لحیان کو کسی نے ان کی آمد کی خبر دی۔ اس قبیلے کے
تقریبًا دو سوتیرا نداز ان کی تالش میں نکلے اور ان کے قدموں کے
نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آخر ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں
صحابہ کرامؓ نے بیٹھ کرکھجوریں کھائی تھیں جو وہ مدینہ طیبہ
سے اپنے ہمراہ لے کر چلے تھے۔ تعاقب والوں نے کہا :یہ تو یثرب کی
کھجوریں معلوم ہوتی ہیں۔ باآلخر وہ ان کے قدموں کے نشانات سے
اندازہ لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں نے
انھیں دیکھ لیا تو انھوں نے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پناہ لے۔۔۔۔ (مکمل
[صحيح خباري ،حديث نمرب]3045: حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت خبیبؓ کو شہید کرنے والے ابو سروعہ عقبہ بن حارث ہیں۔
(صحیح البخاري ،المغازی ،حدیث)3989 :
یہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے نیز یہ وہی عقبہ بن حارث ہیں جنھوں نے ابو اہاب بن
عزیز کی بیٹی سے شادی کی تھی۔
پھر ایک سیاہ فام عورت نے بتایا کہ میں نے تجھے اور تیری بیوی دونوں کو دودھ
پالیا ہے تو انھوں نے مسئلے کی تحقیق کے لیے مکہ سے مدینہ طیبہ کا سفر کیا باآلخر
انھوں نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔
(صحیح البخاري ،العلم ،حدیث)88 :
2۔
امام بخاریؒ کا عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے ایک یہ کہ کیا انسان خود کو گرفتاری
کے لیے پیش کر سکتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیبؓ اور حضرت ابن دثنہؓ
کا واقعہ ہے کہ انھوں نے خود کو کفار کے سامنے گرفتاری کے لیے پیش کیا باآلخرجام
شہادت نوش فرمایا۔
دوسرا یہ کہ انسان خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے کی بجائے اپنی جان پر کھیل
جائے اور سرد ھڑکی بازی لگا دے ایسا کرنا بھی جائز بلکہ بہتر ہے کیونکہ حضرت
عاصم بن ثابتؓ نے گرفتاری دینے کی بجائے اپنی جان پر کھیلنے کو ترجیح دی اور
اپنے ساتھیوں سمیت میدان کار زار میں کام آئے۔
تیسرا یہ ہے کہ عین شہادت کے موقع پر دورکعت پڑھنا۔
اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیبؓ کا کردار پیش کیا کہ انھوں نے رب سے حقیقی
مالقات سے قبل روحانی مالقات کی خواہش کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔
3۔
ہمارے نزدیک عزیمت یہ ہے کہ انسان گرفتاری دینے کی بجائے خود کو اللہ کے حضور
قربانی کے لیے پیش کردے کیونکہ گرفتاری دینے سے ممکن ہے کہ اس سے کوئی ملکی
یا قومی راز حاصل کیے جاسکیں جو ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں ہاں اگر
حضرت خبیبؓ جیسا مستقل مزاج مجاہد ہو تو گرفتاری دینے کی اجازت ہے البتہ
عزیمت کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکے گا۔
واضح رہے کہ اس واقعے سے خود کش حملوں کا جواز کشیدہ کرنا محل نظر ہے۔
4۔
مقام غور ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت عاصم بن ثابتؓ کے جسم کی بھڑوں کے ذریعے
سے حفاظت کی لیکن کفار کے ہاتھوں انھیں قتل ہونے سے محفوظ نہ کیا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ شہادت تو مومن کا مقصود مطلوب ہے لیکن مرنے کے بعد ان
کے جسم کا کوئی حصہ کاٹنا ان کی توہین تھی۔
اس لیے اللہ تعالٰی نے ایسا بند و بست فرمایا کہ کافروں کو ان کے جسم کا کوئی
حصہ کاٹنے کی جرات نہ ہوئی۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري ،اردو ،حدیث/صفحہ نمبر3045 :
https://islamicurdubooks.com/