You are on page 1of 1

‫شیرازی چھوٹی عمر کے تھے کہ ایک دفعہ اپنے‬ ‫ؒ‬ ‫حضرت شیخ سعدی‬

‫والد صاحب کے ہمراہ عید کی نماز کے لیے جا رہے تھے کہ لوگوں‬


‫کی بہت بھیڑ تھی۔ اس لیے والد نے انہیں نصیحت کی کہ دیکھو بیٹا‬
‫میری انگلی نہ چھوڑنا‪ ،‬ورنہ رش اور بھیڑ میں گم ہو جائو گے‪ ،‬لیکن‬
‫راستے میں ننھے سعدی نے والد کی انگلی چھوڑ دی اور کھیل کود‬
‫میں مشغول ہو گئے (جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے) کھیل سے‬
‫فارغ ہو کر جب والد کو قریب نہ دیکھا تو مارے خوف کے رونے‬
‫لگے۔ اتنے میں والد بھی انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں آگئے۔ کان‬
‫کھینچتے ہوئے جھڑک کر فرمایا کہ ناسمجھ بچے میں نے تمہیں کہا‬
‫نہیں تھا کہ میری انگلی مضبوطی سے پکڑے رکھنا‪ ،‬لیکن تم نے دھیان‬
‫نہیں کیا اور میرا کہا نہ مانا اور پریشانی ہوئی۔ بڑی عمر میں حضرت‬
‫سعدی لوگوں کو یہ آب بیتی واقعہ سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم‬
‫دنیا کی بھیڑ میں گم ہونا نہیں چاہتے تو کسی نیک بندے کا دامن تھام‬
‫لو‪ ،‬ورنہ پریشانی میں ٹھوکریں کھاتے پھرو گے‪ ،‬جو بزرگوں کا دامن‬
‫چھوڑ دیتا ہے‪ ،‬وہ یونہی بھٹکتا رہتا ہے۔‬
‫سعدی نے ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک‬ ‫ؒ‬ ‫کتاب ’’بوستان‘‘ میں شیخ‬
‫مرتبہ کسی شہزادے کا قیمتی لعل گم ہو گیا‪ ،‬شب کے وقت کسی جگہ‬
‫گر گیا۔ اس نے حکم دیا کہ اس مقام کی تمام کنکریاں اٹھا کر جمع کریں۔‬
‫اس کا سبب پوچھا تو شہزادے نے کہا کہ اگر چھانٹ کر کنکریاں جمع‬
‫کی جائیں تو ممکن ہے کہ لعل ان میں نہ آئے اور جب ساری کنکریاں‬
‫اٹھائی جائیں گی تو ان میں لعل ضرور آئے گا۔ لوگوں نے شہزادے کے‬
‫حکم پر عمل کیا تو لعل مل گیا‪ ،‬کسی نے اس حکایت کا ترجمہ خوب کیا‬
‫ہے۔‬
‫اے خواجہ چہ پرسی از شب قدر نشانی‬
‫ہر شب شب قدر است اگر قدر بدانی‬

You might also like