You are on page 1of 55

‫انتخاب اردو رباعیات‬

‫محمد وارث )اسد( مصنف‬

‫تعداد الفاظ‬ ‫‪9420‬‬

‫‪ 2311‬تعداد منفرد الفاظ‬

‫مناظر‬ ‫‪7159‬‬

‫‪ 0‬ڈاؤنلوڈ‬

‫صنف رباعی کے جامع تعارف اور کئی شعرا کی منتخب رباعیات پر مشتمل یہ کتابچہ آپ کی سخن شناس‬
‫طبیعت کے لئے کسی جادو اثر نسخہ کیمیا اور کسی کنزز بے بہا سے کم نہیں۔‬

‫صفحہ‪27 /‬‬

‫مختصر تعارف‬

‫اصنازف سخن میں رباعی ایک خاصے کی چیز ہے‪ ،‬چار مصرعوں میں جامع سے جامع مضمون کو‬
‫خوبصورتی سے مکمل کر دینا دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔‬

‫رباعی عربی لفظ ررببع سے ہے جسکا مطلب چار ہے یعنی اس میں چار مصرعے ہوتے ہیں‪ ،‬رباعی کو دو بیتی‬
‫اور ترانہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اردو شاعری فارسی سے اور فارسی شاعری عربی شاعری سے نکلی ہے‬
‫لیکن رباعی خالصت ا فارسی شعراء کی ایجاد ہے۔ رباعی کی ابتدا کے متعلق بہت سی ابحاث‪ ،‬واقعات اور‬
‫حکایات ملتی ہیں‪ ،‬جنہیں طوالت کے خوف سے چھوڑتا ہوں۔‬

‫رباعی کے اوزان مخصوص ہیں‪ ،‬بحر ہزج کے چوبیس وزن رباعی کے لیئے مخصوص ہیں‪ ،‬جن میں غزل‪،‬‬
‫نظم وغیرہ کہنا بھ ی جائز ہے‪ ،‬لیکن ان اوزان کے علوہ اگر دو یا زیادہ شعر کسی اور وزن میں ہوں تو وہ‬
‫رباعی نہیں بلکہ قطعہ کہلتے ہیں‪ ،‬رباعی کے اوزان پر تفصیلی اور جامع بحث اگلے مضمون میں آرہی ہے۔‬
‫رباعی کا پہل‪ ،‬دوسرا‪ ،‬اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں‪ ،‬تیسرے مصرعے میں بھی قافیہ لیا جا سکتا ہے۔‬
‫رباعی کی خوبصورتی کا دار و مدار چوتھے مصرعے پر ہوتا ہے جس کے حسن اور برجستگی سے پہلے تین‬
‫مصرعوں کو بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔‬

‫رباعی کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا‪ ،‬لیکن شعراء کرام کی روایت رہی ہے کہ رباعی میں زیادہ تر‬
‫پند و نصائح‪ ،‬تصوف‪ ،‬حمد‪ ،‬نعت‪ ،‬منقبت‪ ،‬فلسفہ‪ ،‬اخلقیات اور دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کے موضوع بیان کرتے‬
‫ہیں۔ عشقیہ رباعیاں خال خال ہی ملتی ہیں۔‬

‫فارسی شاعری کا باوا آدم‪ ،‬رودکی‪ ،‬رباعی کا اولین شاعر مانا جاتا ہے‪ ،‬رودکی کے علوہ بابا طاہر عریاں‪،‬‬
‫سرمد شہ ید‪ ،‬ابوسعید ابوالخیر‪ ،‬فرید الدین عطار‪ ،‬حافظ شیرازی اور شیخ سعدی وغیرہ معروف و مشہور‬
‫رباعی گو ہیں لیکن فارسی شاعری میں جس شاعر کا نام رباعی گو کی حیثیت سے امر ہو گیا ہے وہ عمر‬
‫خیام ہے۔‬

‫فارسی شعرا کے تتبع میں اردو شعرا نے بھی رباعی گوئی میں اپنی اپنی طبع کی جولنیاں دکھائی ہیں۔‬
‫مشہ ور اردو رباعی گو شعرا میں میر تقی میر‪ ،‬سودا‪ ،‬میر درد‪ ،‬میر انیس‪ ،‬غالب‪ ،‬ذوق‪ ،‬مومن‪ ،‬حالی‪ ،‬اکبر الہ‬
‫آبادی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن جس شاعر نے صحیح معنوں میں اردو رباعی سے کام لیا ہے وہ علمہ اقبال‬
‫ہیں۔ غالب کی طرح علمہ نے بھی اردو اور فارسی میں رباعیاں کہی ہیں اور کیا کمال کہی ہیں۔‬

‫اقبال کی رباعیات‪ ،‬رباعی کے مروجہ اوزان کی قید میں نہیں ہیں‪ ،‬لیکن اقبال نے اپنی کتب میں انہیں رباعی‬
‫ہی کہ ا ہے ‪ ،‬اسطرف ایک اشارہ سید قدرت اللہ نقوی نے کیا ہے لیکن اس موضوع پر باوجود تلش کے مجھے‬
‫مواد نہیں مل سکا۔ میری ناقص سمجھ میں یہی آتا ہے کہ اقبال نے اس سلسلے میں بابا طاہر عریاں کا تتبع کیا‬
‫ہے۔ بابا طاہر کی دوبیتیاں عموما رباعیات ہی سمجھی جاتی ہیں لیکن ان کے اوزان بھی رباعی کے مروجہ‬
‫اوزان سے مختلف ہیں۔ اس موضوع پر کچھ اور بحث آگے ایک استفسار میں آ رہی ہے‪ ،‬فی الوقت یہ کہ اس‬
‫کتاب میں میں نے وہی رباعیات شامل کی ہیں جو رباعی کے چوبیس اوزان میں ہیں سو اس میں علمہ اقبال‬
‫کی رباعیات یا قطعات شامل نہیں ہیں۔‬

‫اقبال کے بعد‪ ،‬افسوس‪ ،‬اردو رباعی کا چلن بہت کم رہ گیا ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ ترقی پسند‬
‫تحریک اور "جدیدیت" کی لہ ر میں جب نئے اردو شعرا نے شاعری میں تجربات کیے اور آزاد نظم کا چلن عام‬
‫ہوا تو اس سے کلسیکی اصنازف سخن پیچھے چلی گئیں‪ ،‬نہ صرف انکا رواج کم ہو گیا بلکہ ایک طرح سے‬
‫ان سے نفرت بھی کی گئی۔ مشہور ناقد سلیم احمد نے اس کلسیکیت کی مخالفت میں غزل کو بھی "وحشی‬
‫صنزف سخن" کہہ دیا۔ اور یہی کچھ حال رباعی کے ساتھ ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رباعی کے اوزان پر‬
‫عبور حاصل کرنا عموما مشکل سمجھا جاتا ہے کیونکہ معمولی سی غلطی سے رباعی کا وزن خراب ہو جاتا‬
‫ہے اس لیے عام طور پر رباعی کی صنف میں وہی شعرا طبع آزمائی کرتے ہیں جن کو اس کے اوزان پر‬
‫عبور حاصل ہوتا ہے۔‬

‫اقبال کے بعد کے معروف رباعی گو شعرا میں جوش‪ ،‬فانی‪ ،‬فراق‪ ،‬شمس الرحمن فاروقی اور صبا اکبر آبادی‬
‫وغیرہ کے نام ہیں۔ احمد فراز اور ناصر کاظمی نے بھی چند ایک رباعیاں کہی ہیں لیکن جن شعرا نے اس‬
‫دور میں باللتزام رباعیاں کہی ہیں ان میں عبدالعزیز خالد‪ ،‬صادقین اور امجد حیدرآبادی کے نام اہم ہیں۔‬
‫محمد وارث‬

‫رباعی کے اوزان پر ایک بحث‬

‫رباعی بھی خاصے کی چیز ہے‪ ،‬قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے‬
‫کیلیے یہ ی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں‪ ،‬حالنکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان‬
‫کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل‬
‫کرنا کچھ مشکل نہیں ہے‪ ،‬اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو‬
‫ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔‬

‫ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں‪ ،‬اگر ایک‬
‫ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو‬
‫پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی‬
‫الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور‬
‫ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے‪ ،‬جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا‪ ،‬مثال کے طور پر‪ ،‬چوبیس میں سے‬
‫بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فزعل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں‪ ،‬تفصیل انشاءاللہ نیچے‬
‫آئے گی۔‬

‫رباعی کی بحر‪ ،‬افاعیل اور انکی ترتیب‬

‫رباعی کی بحر‪ ،‬بحزر ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی‪ ،‬جو‬
‫مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں‪ ،‬اس میں استعمال ہوتے ہیں۔‬

‫رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں‪ ،‬جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں‪ ،‬زحافات کے نام اور ان کے استعمال‬
‫کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابزل برداشت نہیں بنانا چاہتا‪ ،‬صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔‬

‫مفاعیلن‬

‫مفاعیل‬

‫مفعولن‬

‫مفاعلن‬
‫مفعول‬

‫فاعلن‬

‫فعول‬

‫بفزعل‬

‫فاع‬

‫فع‬

‫اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے‪ ،‬یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن‬
‫سے حاصل ہونے وال ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا‪ ،‬اگر آئے گا تو رباعی کا وزن‬
‫خراب ہو جائے گا۔‬

‫کسی بھی مثمن بحر کی طرح‪ ،‬رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی‬

‫صدر )یا ابتدا(‬

‫حشو‬

‫حشو‬

‫عرض )یا ضرب(‬

‫اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی‬
‫اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے‪ ،‬جیسے‬

‫صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن‪ ،‬کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔‬

‫ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع‪ ،‬فاع‪ ،‬فزعل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا‪ ،‬اور کوئی رکن‬
‫نہیں آ سکتا۔‬

‫مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے‪ ،‬اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔‬

‫مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں‪ ،‬کسی اور جگہ نہیں‬
‫آتے۔‬
‫مفاعیلن اور مفاعیل کے علوہ‪ ،‬مفعولن‪ ،‬مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔‬

‫اسکے علوہ‪ ،‬رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ‬
‫یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چرازغ سخن" میں لکھا ہے۔‬

‫سبب پئے سبب و وتد پئے وتد‬

‫یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد‬
‫کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا‪ ،‬مثال کے طور پر‪ ،‬ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے‬
‫ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔‬

‫فرض کریں‪ ،‬رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے‪ ،‬یعنی پہل رکن مفعول ہو گیا‪ ،‬اب دوسرے رکن میں جو تمام‬
‫افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں‬

‫مفاعیلن‬

‫مفاعیل‬

‫مفاعلن‬

‫مفعولن‬

‫مفعول‬

‫فاعلن‬

‫اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد‪ ،‬پہل رکن مفعول ہے جو کہ‬
‫وتد پر ختم ہو رہ ا ہے سو اگل رکن لزمی وتد سے شروع ہوگا‪ ،‬اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے‬
‫شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں‬

‫مفاعیلن‬

‫مفاعیل‬

‫مفاعلن‬
‫یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا‪ ،‬فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو‬
‫رکن ہو گئے یعنی‬

‫مفعول مفاعیل‬

‫اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگل رکن بھی لزمی وتد سے شروع ہوگا‪ ،‬یہ پھر تین ہیں‪ ،‬مفاعیلن‪،‬‬
‫مفاعیل‪ ،‬مفاعلن لیکن ہ م جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے‬
‫کوئی آئے گا‪ ،‬فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیلن‬

‫اب رہ گیا چوتھا رکن‪ ،‬جس میں فع‪ ،‬فاع‪ ،‬فزعل اور فعول ہی آ سکتے ہیں‪ ،‬کلیہ ذہن میں رکھیے‪ ،‬مفاعیلن سبب‬
‫پر ختم ہو رہا ہے سو اگل رکن سبب سے شروع ہوگا‪ ،‬وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیلن فع‬

‫اب کسی بھی بحر کی طرح‪ ،‬آخری رکن میں عمزل تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور‬
‫دوسرا وزن بھی مل گیا‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع‬

‫اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے‪ ،‬اب انہی کی مدد سے ہم‬
‫رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔‬

‫اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے‪ ،‬جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے‪ ،‬اسکے بارہ اوزان‬
‫کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے‬
‫اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے‪ ،‬لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی‬
‫گو شاعر نہیں مانتا اور بلتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔‬

‫شجرۂ اخرب اور اسکے بارہ اوزان‬

‫ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں‬
‫ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو‪ ،‬خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے‪ ،‬ممکن ہے کسی‬
‫‪،‬کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو‪ ،‬شجرے کی تصویر دیکھیے‬

‫اوزان شجرہ اخرب‬

‫اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔‬

‫جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگل‬
‫رکن مفاعیلن‪ ،‬مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں‪ ،‬سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں‬
‫سو‬

‫مفعول مفاعیلن‬

‫یہ سبب پر ختم ہوا سو اگل رکن لزمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن‪ ،‬مفعول اور فاعلن‬
‫لیکن ہ م جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے‪ ،‬مفعولن اور مفعول اور ان‬
‫دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے‬

‫مفعول مفاعیلن مفعولن‬

‫مفعول مفاعیلن مفعول‬

‫اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگل رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہل مکمل وزن مل گیا‬

‫مفعول مفاعیلن مفعولن فع )وزن نمبر ‪(1‬‬


‫فع کو فاع سے بدلیں دوسرا وزن حاصل ہو گیا‬

‫مفعول مفاعیلن مفعولن فاع )وزن نمبر ‪(2‬‬

‫اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فزعل ہے سو‬

‫مفعول مفاعیلن مفعول فزعل )وزن نمبر ‪(3‬‬

‫فزعل کو فعول سے بدل لیں‪ ،‬ایک اور وزن مل گیا‬

‫مفعول مفاعیلن مفعول فعول )وزن نمبر ‪(4‬‬

‫اب پھ ر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں‪ ،‬مفعول کے بعد مفاعیل لئے یعنی‬

‫مفعول مفاعیل‬

‫مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن وتد سے شروع ہوگا‪ ،‬مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل‬
‫ہونگے یعنی‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیلن‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیل‬

‫مفاعیلن سبب پر ختم ہوا سو فع آئے گا یعنی‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیلن فع )وزن نمبر ‪(5‬‬


‫مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع )وزن نمبر ‪(6‬‬

‫تیسرے رکن میں مفاعیل لئیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن فزعل ہوا‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیل فزعل )وزن نمبر ‪(7‬‬

‫مفعول مفاعیل مفاعیل فعول )وزن نمبر ‪(8‬‬

‫آٹھ وزن مل گئے‪ ،‬اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لنے سے ملیں گے یعنی‬

‫مفعول مفاعلن‬

‫یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں‪ ،‬مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن‬
‫تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا‬

‫مفعول مفاعلن مفاعیلن‬

‫مفعول مفاعلن مفاعیل‬

‫مفاعیلن کے ساتھ فع آئے گا سو‬

‫مفعول مفاعلن مفاعیلن فع )وزن نمبر ‪(9‬‬

‫مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع )وزن نمبر ‪(10‬‬

‫مفاعیل کے ساتھ فزعل آئے گا سو‬


‫مفعول مفاعلن مفاعیل فزعل )وزن نمبر ‪(11‬‬

‫مفعول مفاعلن مفاعیل فعول )وزن نمبر ‪(12‬‬

‫گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے‪ ،‬اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے‬
‫ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔‬

‫شجرۂ اخرم اور اسکے بارہ اوزان‬

‫‪،‬پہلے اس شجرہ کی تصویر دیکھ لیں‬

‫اوزان شجرہ اخرم‬

‫جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا‬
‫رکن سبب ہی سے شروع ہوگا‪ ،‬جو کہ تین ہیں‪ ،‬مفعولن‪ ،‬مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں‬

‫مفعولن مفعولن‬

‫یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا‪ ،‬وہ دو ہیں‪ ،‬مفعولن اور مفعول کیونکہ‬
‫فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو‬

‫مفعولن مفعولن مفعولن‬

‫مفعولن مفعولن مفعول‬

‫مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لزمی طور پر اگل رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو‬
‫مفعولن مفعولن مفعولن فع )وزن نمبر ‪(1‬‬

‫اور فع کو فاع سے بدلیں تو‬

‫مفعولن مفعولن مفعولن فاع )وزن نمبر ‪(2‬‬

‫تیسرے رکن میں مفعول لئیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لزمی فزعل ہوگا سو‬

‫مفعولن مفعولن مفعول فزعل )وزن نمبر ‪(3‬‬

‫اور فزعل کو فعول سے بدلیں تو‬

‫مفعولن مفعولن مفعول فعول )وزن نمبر ‪(4‬‬

‫اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لتے ہیں یعنی‬

‫مفعولن مفعول‬

‫اب مفعول وتد پر ختم ہوا‪ ،‬تیسرا رکن لزمی وتد سے شروع ہوگا‪ ،‬یہ تین ہیں‪ ،‬مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن‬
‫لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے‪ ،‬مفاعیلن اور مفاعیل‬
‫یعنی‬

‫مفعولن مفعول مفاعیلن‬

‫مفعولن مفعول مفاعیل‬

‫مفاعیلن کے بعد فع آیا تو‬


‫مفعولن مفعول مفاعیلن فع )وزن نمبر ‪(5‬‬

‫اور‬

‫مفعولن مفعول مفاعیلن فاع )وزن نمبر ‪(6‬‬

‫اب تیسرے رکن میں مفاعیل لئیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فزعل آیا یعنی‬

‫مفعولن مفعول مفاعیل فزعل )وزن نمبر ‪(7‬‬

‫اور مفعولن مفعول مفاعیل فعول )وزن نمبر ‪(8‬‬

‫اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے‪ ،‬اس کو لئیں گے تو مزید چار‬
‫وزن مل جائیں گے۔‬

‫مفعولن فاعلن‬

‫فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن مفاعیلن‪ ،‬مفاعیل یا مفاعلن ہوگا‪ ،‬مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل‬
‫رہ گئے‬

‫مفعولن فاعلن مفاعیلن‬

‫مفعولن فاعلن مفاعیل‬

‫مفاعیلن کے بعد فع آیا تو‬


‫مفعولن فاعلن مفاعیلن فع )وزن نمبر ‪(9‬‬

‫اور‬

‫مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع )وزن نمبر ‪(10‬‬

‫تیسرے رکن میں مفاعیل لئے تو اسکے بعد فزعل آیا سو‬

‫مفعولن فاعلن مفاعیل فزعل )وزن نمبر ‪(11‬‬

‫اور مفعولن فاعلن مفاعیل فعول )وزن نمبر ‪(12‬‬

‫اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے‬
‫دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔‬

‫یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا‪ ،‬اسکے علوہ بھی کئی ایک‬
‫طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لؤں‪ ،‬امید ہے‬
‫قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔‬

‫محمد وارث‬

‫رباعی کے حوالے سے کچھ استفسارات اور انکے جوابات‬

‫میرے مضمون رباعی کے اوزان پر ایک بحث کے حوالے سے مجھ سے کچھ کچھ استفسارات کیے گئے‪ ،‬میں‬
‫نے انکے جواب لکھ دیے تھے‪ ،‬جو کہ درج ذیل ہیں۔‬

‫استفسار‪ :‬یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "ل حول ول قوة ال باللہ" رباعی کا وزن ہے۔ تو کیا یہ چوبیس‬
‫اوزان میں سے ایک ہے؟ اور وہ وزن کیا ہے؟‬
‫جواب‪ :‬دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات ایسی ہیں جو اتفاقا کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔‬
‫انہی میں سے یہ آ آیۃ کریمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتی ہے۔‬

‫اسکی تقطیع کچھ یوں ہے‬

‫ل حول و ل قووۃ ال باللہ‬

‫ل حوبل ‪ -‬مفعول‬

‫و ل قو بو ‪ -‬مفاعیل‬

‫بت زال ل بل ‪ -‬مفاعیلن‬

‫ل ہ ‪ -‬فاع‬

‫یعنی اسکا وزن 'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔‬

‫بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ‬
‫جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ‬
‫کا مکمل وزن لیا جائے۔‬

‫یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے‪ ،‬اور اساتذہ عموما رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن‬
‫یاد کروایا کرتے تھے۔‬

‫مولنا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے‬

‫کیا پاس تھا قوزل حق کا‪ ،‬اللہ اللہ‬

‫تنہا تھے‪ ،‬پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ‬

‫میں اور اطاعزت یزیزد گمراہ‬


‫ل بحوبل و ل رقووۃۃ اول باللہ‬

‫استفسار‪ :‬غالب کی مشہور رباعی جس پر ماہرین عروض نے اعتراض کیا ہے‬

‫دل رک رک کر بند ہوگیا ہے غالب‬

‫اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے‬

‫جواب‪ :‬غالب کی مذکورہ رباعی کی بھی دلچسپ صورتحال ہے۔‬

‫ردکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب‬

‫دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب‬

‫واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں‬

‫سونا سوگند ہو گیا ہے غالب‬

‫کہ ا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے‬
‫میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن‬
‫سے خارج ہے۔‬

‫غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علمہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوازن غالب میں‬
‫کیا تھ ا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔‬

‫میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولنا غلم رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوازن غالب اور‬
‫اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'ررک' دوسرے مصرعے سے‬
‫نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی‬
‫ہے حالنکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔‬

‫یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں‬
‫آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے‬

‫دل ررک کر بند ہو گیا ہے غالب‬

‫تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو‬
‫جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلم شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور‬
‫رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟‬

‫مولنا نجم الدین غنی رامپوری نے عل زم عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض‬
‫غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس‬
‫پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔‬

‫قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا‬
‫کہ نا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون‬
‫سمجھا ہے‪ ،‬اور جیسا کہ اہزل علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں‬
‫اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن‬
‫'بد' یا 'فع' لیا ہے۔‬

‫اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی‬

‫دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب‬

‫دل رک رک ‪ -‬مفعولن‬

‫کر بد ہہ ‪ -‬مفعول‬

‫گیا ہے غا ‪ -‬مفاعیلن‬

‫لب ‪ -‬فع‬

‫یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔‬
‫اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے‪ ،‬یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو‬
‫رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو‪ ،‬بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار‬
‫رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے‪ ،‬کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا‬
‫ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔‬

‫استفسار‪ :‬اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی‬
‫رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا‬
‫ل "تراشیدم‪ ،‬پرستیدم‪ ،‬شکستم" وال قطعہ۔‬‫ہے؟ مث ا‬

‫جواب‪ :‬یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے‪ ،‬باقی فرق ضمنی سے ہیں۔‬
‫جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔‬

‫اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی‬
‫رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو‬
‫رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔‬

‫لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی‬
‫کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ‬
‫انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالنکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن‬
‫نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔‬

‫خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار‬
‫کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علمہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی‬
‫غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علمہ نے ایسا کیوں کیا۔‬

‫میرے نزدیک‪ ،‬رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے‬
‫ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔‬

‫ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں‪ ،‬انہوں نے‬
‫صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلم کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالنکہ وہ رباعی‬
‫کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب‬
‫لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک‪ ،‬جتنے بھی مشہور‬
‫رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں‬
‫فرق ضروری ہے۔‬

‫محمد وارث‬

‫رباعیات‬

‫ابراہیم ذوق‬

‫سبطیزن نبی یعنی بحسن اور رحسین‬

‫زہرا و علی کے دونوں نور العین‬

‫عینک ہے تماشائے دو عالم کے لئے‬

‫اے ذوق لگا آنکھوں سے انکی نعلین‬

‫کیا فائدہ فکزر بیش و کم سے ہوگا‬

‫ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہوگا‬

‫جو کچھ بھی ہوا‪ ،‬ہوا کرم سے تیرے‬

‫جو کچھ ہوگا‪ ،‬ترے کرم سے ہوگا‬

‫اے ذوق کبھی رتو نہ خوش اوقات ہوا‬

‫اک دم نہ ترا صرزف مناجات ہوا‬

‫تھا جب کہ جوان‪ ،‬تھا جوازن بدمست‬

‫جب پیر ہوا‪ ،‬پیزر خرابات ہوا‬

‫اعلآی جو علی کی ہے امامت کا مقام‬


‫رکھتے ہیں خبر راس سے یہاں خاص و عام‬

‫جو لوگ صزف واول میثاق میں تھے‬

‫پوچھے کوئی ران سے کہ وہ کیسا تھا امام‬

‫ردنیا کے الم ذوق ارٹھا جائیں گے‬

‫ہم کیا کہیں کیا آئے تھے کیا جائیں گے‬

‫جب آئے تھے روتے ہوئے آپ آئے تھے‬

‫اب جائیں گے اوروں کو ررل جائیں گے‬

‫احمد فراز‬

‫لفظوں میں فسانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ‬

‫لمحوں میں زمانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ‬

‫رتو زہر ہی دے شراب کہہ کر ساقی‬

‫جینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ہم لوگ‬

‫اک راہہ طویل اک کڑی ہے یارو‬

‫افتاد عجیب آ پڑی ہے یارو‬

‫کس سمت چلیں کدھر نہ جائیں آخر‬

‫دوراہے پہ زندگی کھڑی ہے یارو‬

‫راڑتے پنچھی شکار کرنے والو‬

‫گلزار میں گیر و دار کرنے والو‬

‫کتنی کلیاں بمسل کے رکھ دیں تم نے‬

‫تزئیزن رگل و بہار کرنے والو‬


‫ظلمات کو موزج نور کیسے سمجھیں‬

‫پھر برق کو برزق طور کیسے سمجھیں‬

‫مانا کہ یہی مصلحت اندیشی ہے‬

‫ہم لوگ مگر حضور کیسے سمجھیں‬

‫جب روح کسی بوجھ سے تھک جاتی ہے‬

‫احساس کی بلو اور بھڑک جاتی ہے‬

‫میں بڑھتا ہوں زندگی کی جانب لیکن‬

‫زنجیر سی پاؤں میں چھنک جاتی ہے‬

‫اسد اللہ خان غالب‬

‫ردکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب‬

‫دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب‬

‫واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں‬

‫سونا سوگند ہو گیا ہے غالب‬

‫سید حیدر نظم طباطبائی نے سب سے پہلے اپنی کتاب "شرح دیوازن غالب" میں اس پر اعتراض کیا تھا کہ اسکا‬
‫دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے‪ ،‬اس کے بعد اس رباعی پر خوب خوب بحثیں ہوئیں اور اب‬
‫بھی ہوتی ہیں۔ ناقدیزن غالب اور "قتیلزن غالب" اسے پر بہت سر پھٹول کر چکے‪ ،‬قتیزل غالب ہوں سو سید‬
‫قدرت اللہ نقوی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں جنہوں نے اس مصرعے کو با وزن ثابت کیا ہے۔ اور اس پر کچھ‬
‫بحث اس کتاب کے ابتدائی حصے میں آ چکی ہے۔‬

‫جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری‬

‫کہتے ہیں مجھے وہ رافضی و دھری‬

‫دھری کیوں کر ہو جو کہ ہووے صوفی‬


‫شیعی کیوں کر ہو ماوراء الونہری‬

‫مشکل ہے ز بس کلم میرا‪ ،‬اے زدل‬

‫رسن رسن کے اسے سخنورازن کازمل‬

‫آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش‬

‫گویم مشکل‪ ،‬و گر نہ گویم مشزکل‬

‫آتش بازی ہے جیسے شغزل اطفال‬

‫ہے سوزز جگر کا بھی راسی بطور کا حال‬

‫تھا موجزد عشق بھی قیامت کوئی‬

‫لڑکوں کے لیے گیا ہے کیا کھیل نکال‬

‫دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا‬

‫راس سے گلہ مند ہو گیا ہے گویا‬

‫پر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں‬

‫غالب‪ ،‬منہ بند ہو گیا ہے گویا‬

‫کہتے ہیں "کہ اب وہ بمردم آزار نہیں‬

‫"عوشاق کی پرسش سے اسے عار نہیں‬

‫جو ہاتھ کے ظلم سے اٹھایا ہوگا‬

‫کیوں کر مانوں کہ راس میں تلوار نہیں‬

‫یہ رباعی صنعزت ایہام )ایہام گوئی( کی بہترین مثال ہے‪ ،‬اس صنعت میں شاعر کوئی ذو معنی لفظ استعمال کر‬
‫کے دو معنی بیان کرتا ہے اور دونوں صحیح ہوتے ہیں‪ ،‬ایک سامنے ہوتا اور فوری سمجھ میں آ جاتا ہے‪،‬‬
‫دوسرا بعید اور کچھ تامل سے سمجھ میں آتا ہے۔ اور شاعر کی مراد عموما بعید معنی ہوتے ہیں۔ اس رباعی‬
‫میں ہاتھ اٹھانا ذو معنی ہے‪ ،‬ظلم کرنے کے لیئے ہاتھ اٹھانا سامنے ہے اور کسی کام سے ہاتھ اٹھا لینا بعید۔‬
‫اکبر اآلہ آبادی‬

‫بے سود ہے گنج و مال و دولت کی تلش‬

‫ذولت ہے دراصل جاہ و شوکت کی تلش‬

‫اکبر تو سروزر طبع کو علم میں ڈھونڈ‬

‫محنت میں کر سکون و راحت کی تلش‬

‫غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھھا‬

‫افعازل مضر سے کچھ نہ کرنا اچھھا‬

‫اکبر نے سنا ہے اہزل غیرت سے یہی‬

‫جینا ذولت سے ہو تو مرنا اچھھا‬

‫اونچا نیت کا اپنی زینہ رکھنا‬

‫احباب سے صاف اپنا سینہ رکھنا‬

‫صہ آنا تو نیچرل ہے اکبر‬


‫غو‬

‫لیکن ہے شدید عیب کینہ رکھنا‬

‫الطاف حسین حالی‬

‫کیا پاس تھا قوزل حق کا‪ ،‬اللہ اللہ‬

‫تنہا تھے‪ ،‬پہ اعدا سے یہ فرماتے تھے شاہ‬

‫میں اور اطاعزت یزیزد گمراہ‬

‫ل بحوبل و ل رقووۃۃ اول باللہ‬

‫پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے‬


‫اسلم کا زگر کر نہ ابھرنا دیکھے‬

‫مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد‬

‫دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے‬

‫ہندو سے لڑیں نہ گبر سے بیر کریں‬

‫شر سے بچیں اور شر کے عوض خیر کریں‬

‫جو کہتے ہیں یہ کہ‪ ،‬ہے جہونم دنیا‬

‫وہ آئیں اور اس بہشت کی سیر کریں‬

‫ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا‬

‫یا گھر ہے وہ خود ہزار آزاروں کا‬

‫ہم کچھ نہیں جانتے پہ اتنی ہے خبر‬

‫اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا‬

‫ربلربل کی چبمن میں ہم زبانی چھوڑی‬

‫بزم شعرا میں شعر خوانی چھوڑی‬

‫جب سے دزل زندہ رتو نے ہم کو چھوڑا‬

‫ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی‬

‫حالی رہہ راست جو کہ چلتے ہیں سدا‬

‫خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیروں کا‬

‫لیکن ران بھیڑیوں سے واجب ہے حذر‬

‫بھیڑوں کے لباس میں ہیں جو جلوہ نما‬

‫جو لوگ ہیں نیکیوں میں مشہور بہت‬


‫ہوں نیکیوں پر اپنے نہ مغرور بہت‬

‫نیکی ہی خود اک بدی ہے گر ہو نہ خلوص‬

‫نیکی سے بدی نہیں ہے کچھ ردور بہت‬

‫یاروں میں نہ پایا جب کوئی عیب و گناہ‬

‫کافر کہا واعظ نے انہیں اور گمراہ‬

‫جھوٹے کو نہیں ملتی شہادت جس وقت‬

‫لتا ہے خدا کو اپنے دعوے پہ گواہ‬

‫ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا‬

‫آتش پہ مغاں نے راگ گایا تیرا‬

‫دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے‬

‫انکار کسی سے بن نہ آیا تیرا‬

‫تازیست وہ محزو نقزش موہوم رہے‬

‫جو طالزب دوستازن معصوم رہے‬

‫اصحاب سے بات بات پر جو بگڑے‬

‫صحبت کی وہ برکتوں سے محروم رہے‬

‫نیکوں کو نہ ٹھہرائیو بد اے فرزند‬

‫اک آدھ ادا ان کی اگر ہو نہ پسند‬

‫کچھ نقص انار کی لطافت میں نہیں‬

‫ہوں اس میں اگر گلے سڑے دانے چند‬

‫ہو عیب کی رخو کہ ہو ہنر کی عادت‬


‫مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت‬

‫چھٹتے ہی چھٹے گا اس گلی میں جانا‬

‫عادت اور وہ بھی عمر بھر کی عادت‬

‫مرنے پہ مرے وہ روز و شب روئیں گے‬

‫جب یاد کریں گے مجھے تب روئیں گے‬

‫الفت پہ‪ ،‬وفا پہ‪ ،‬جاں نثاری پہ مری‬

‫آگے نہیں روئے تھے تو اب روئیں گے‬

‫امجد حیدرآبادی‬

‫رخ مہر ہے‪ ،‬قد خزط شعاعی کی طرح‬

‫وہ گلوہٴ اومت میں ہے راعی کی طرح‬

‫اس خاتزم انبیاء کا آخر میں ظہور‬

‫ہے مصرعہ آخزر رباعی کی طرح‬

‫کچھ اپنا پتا اس نے بتایا تو نہیں‬

‫اب تک اس کا سراغ پایا تو نہیں‬

‫ملتی ہوئی ہے دل کی کھٹک آہٹ سے‬

‫دیکھو‪ ،‬دیکھو‪ ،‬کہیں وہ آیا تو نہیں‬

‫غم سے ترے اپنا دل نہ کیوں شاد کروں‬

‫جب تو سنتا ہے‪ ،‬کیوں فریاد کروں‬

‫میں یاد کروں تو توو مجھے یاد کرے‬

‫توو یاد کرے تو میں نہ کیوں یاد کروں‬


‫گردش کیوں کو بکو ہے‪ ،‬معلوم نہیں‬

‫دل کی کیا آرزو ہے‪ ،‬معلوم نہیں‬

‫جب دیکھئے جستجو میں سر گرداں ہوں‬

‫کس چیز کی جستجو ہے معلوم نہیں‬

‫کس متن کی تفسیر ہوں‪ ،‬معلوم نہیں‬

‫کس ہاتھ کی تحریر ہوں معلوم نہیں‬

‫میں ہوں کہ مرے پردے میں ہے اور کوئی‬

‫صورت ہوں کہ تصویر ہوں‪ ،‬معلوم نہیں‬

‫ہر چیز مسبوب سبب سے مانگو‬

‫منت سے‪ ،‬خوشامد سے‪ ،‬ادب سے مانگو‬

‫کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلتے ہو‬

‫بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو‬

‫پہنچا ہے سزر عرش مقدر میرا‬

‫مرکز پہ ہوا ہے ختم چکر میرا‬

‫ہے سارے جہاں کا سر مرے قدموں پر‬

‫تیرے قدموں پہ جب سے ہے سر میرا‬

‫ہر ذورہ پہ فضزل کبریا ہوتا ہے‬

‫اک چشم زدن میں کیا سے کیا ہوتا ہے‬

‫اصنام دبی زباں سے یہ کہتے ہیں‬

‫وہ چاہے تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے‬


‫ضائع فرما نہ سرفروشی کو مری‬

‫مٹی میں مل نہ گرم جوشی کو مری‬

‫آیا ہوں کفن پہن کے اے روب غفور‬

‫دھوبا نہ لگے سفید پوشی کو مری‬

‫مفلس ہوں نہ مال ہے نہ سرمایہ ہے‬

‫کیا پوچھتا ہے مجھ سے تو‪ ،‬کیا لیا ہے‬

‫امجد تری رحمت کے بھروسے یارب‬

‫بند آنکھ کیے یوں ہی چل آیا ہے‬

‫بجتا ہو ستار اور مضراب نہ ہو‬

‫پھیلی ہوئی چاندنی ہو‪ ،‬مہتاب نہ ہو‬

‫میں‪ ،‬میں نہیں ہو سکتا نہ ہو تو جب تک‬

‫ممکن ہی نہیں‪ ،‬حباب ہو‪ ،‬آب نہ ہو‬

‫اک اک کی تاک میں لگا رہتا ہے‬

‫خوں ایک کا اک کے ہاتھ سے بہتا ہے‬

‫انسان کے خبزث باطنی کے آگے‬

‫شیطان بھی لحول ول پڑھتا ہے‬

‫ہر دم اس کی عنایزت تازہ ہے‬

‫اس کی رحمت بغیر اندازہ ہے‬

‫جتنا ممکن ہے کھٹکھٹاتے جاؤ‬

‫یہ دسزت دعا خدا کا دروازہ ہے‬


‫بچپن ہی کے پہلو میں جوانی بھی تو ہے‬

‫باقی ہی کی آغوش میں فانی بھی تو ہے‬

‫سمجھے ہو غلط روح جدا‪ ،‬جسم جدا‬

‫جو برف کی شکل ہے‪ ،‬وہ پانی بھی تو ہے‬

‫امیر مینائی‬

‫بالفرض حیازت جاودانی تم ہو‬

‫بالفرض کہ آزب زندگانی تم ہو‬

‫ہم سے نہ ملو تو خاک سمجھیں تم کو‬

‫لیں نام نہ پیاس کا جو پانی تم ہو‬

‫غائب بہت اے جان جہاں رہتے ہو‬

‫مانند نظر ہم سے نہاں رہتے ہو‬

‫ہر چند کہ آنکھوں میں ہو تم‪ ،‬دل میں ہو تم‬

‫معلوم نہیں پر کہ کہاں رہتے ہو‬

‫کیا تیری جدائی میں ستم دیکھتے ہیں‬

‫دیکھے نہ وہ دشمن بھی جو ہم دیکھتے ہیں‬

‫اس ظلم پہ اس جور پہ خاموش رہے‬

‫ایسا تو جہاں میں کوئی کم دیکھتے ہیں‬

‫جوش ملیح آبادی‬


‫کیا صرف رمسلمان کے پیارے ہیں رحسین‬

‫چرزخ نوزع ببشر کے تارے ہیں رحسین‬

‫انسان کو بیدار تو ہو لینے دو‬

‫ہر قوم پکارے گی‪ ،‬ہمارے ہیں رحسین‬

‫اوہام کو ہر بقبدم پہ ٹھکراتے ہیں‬

‫بادیان سے ہر گام پہ ٹکراتے ہیں‬

‫لیکن جس وقت کوئی کہتا ہے رحسین‬

‫ہم اہزل بخرابات بھی رجھک جاتے ہیں‬

‫سینے پہ مرے نقزش بقبدم کس کا ہے‬

‫رندی میں یہ باجلل و بحبشم کس کا ہے‬

‫زاہد‪ ،‬مرے اس ہات کے ساغر کو نہ دیکھ‬

‫یہ دیکھ کہ اس سر پہ بعبلم کس کا ہے‬

‫زاس وقت بسربک بات نہیں ہو سکتی‬

‫توہیزن خرابات نہیں ہو سکتی‬

‫جبریزل امیں آئے ہیں رمجرے کے لیے‬

‫کہہ دو کہ ملقات نہیں ہو سکتی‬

‫لفزظ "اقوام" میں کوئی جان نہیں‬

‫اک نوع میں ہو دوئی‪ ،‬یہ امکان نہیں‬

‫جو مشرزک یزداں ہے وہ ناداں ہے فقط‬

‫جو مشرزک انساں ہے وہ انسان نہیں‬


‫کاش اہزل چمن یہ باغباں کو سمجھائیں‬

‫جھونکوں کو یہ حکم دے کہ دھومیں نہ مچائیں‬

‫تا صبح کو غنچوں کے چٹکنے کی صدا‬

‫مرجھائے ہوئے پھول نہ سننے پائیں‬

‫انجام کے آغاز کو دیکھا میں نے‬

‫ماضی کے ہر انداز کو دیکھا میں نے‬

‫کل نام ترا لیا جو ربوئے رگل نے‬

‫تا دیر اس آواز کو دیکھا میں نے‬

‫زردار کا خوناس نہیں جاتا ہے‬

‫ہر آن کا وسواس نہیں جاتا ہے‬

‫ہوتا ہے جو شدوت ہوس پر مبنی‬

‫تا مرگ وہ افلس نہیں جاتا ہے‬

‫دل کی جانب‪ ،‬رجوع ہوتا ہوں میں‬

‫سر تا بقدم‪ ،‬خضوع ہوتا ہوں میں‬

‫جب مہزر رمبیں غروب ہو جاتا ہے‬

‫پیمانہ بکف‪ ،‬طلوع ہوتا ہوں میں‬

‫خوشی محمد ناظر‬

‫مستوں میں نہیں وہ عشق و مستی باقی‬

‫وہ پیزر مغاں ہے اور نہ ساقی باقی‬

‫مے خانہ میں مے حافظ و رومی کی نہیں‬


‫باقی ہے برانڈی اور وسکی باقی‬

‫گ رگلزستانی کیا کیا‬


‫زاس گل میں ہے رن ز‬

‫ہے خاک میں آزب زندگانی کیا کیا‬

‫انساں کی نظر ہی سطح بیں ہے ورنہ‬

‫ہر شے میں ہیں اسرازر نہانی کیا کیا‬

‫شاہ نصیر‬

‫بدلی ہے زمانے کی ہوا و تاثیر‬

‫صد چاک کروں کیوں نہ گریباں کو نصیر‬

‫آنسو کو سمجھتا تھا میں نور دیدہ‬

‫آخر کو ہوا یہ بھی مرا دامن گیر‬

‫جو اشک کہ آنکھوں سے جدا ہوتا ہے‬

‫مژگاں تلک آیا کہ فنا ہوتا ہے‬

‫آنکھوں سے کسی کی کوئی یا رب نہ گرے‬

‫آنکھوں کا گرا بہت برا ہوتا ہے‬

‫صادقین‬

‫ہم‪ ،‬رحسن پرستی کے قرینوں کے لیے‬

‫ہوجاتے ہیں معتکف مہینوں کے لیے‬

‫تصویر بناتے ہیں خود اپنی خاطر‬

‫اور شاعری کرتے ہیں حسینوں کے لیے‬


‫کرتا ہے یہ شور و شین‪ ،‬آیا کیوں ہے؟‬

‫کیا اس کو نہیں ہے چین‪ ،‬آیا کیوں ہے؟‬

‫خویام نے سرمد سے یہ پوچھا‪ ،‬آخر‬

‫زاس رکوچے میں صادقین آیا کیوں ہے؟‬

‫ہو شغزل مے و جام میں‪ ،‬آوارہ ہو‬

‫لگ جاؤ کسی کام میں‪ ،‬آوارہ ہو‬

‫اے سیود صادقین احمد نقوی‬

‫کیوں کوچۂ خویام میں آوارہ ہو‬

‫جاناں کے جمال کا جو کچھ ہو ادراک‬

‫ہوجاتی ہے اظہار کی صورت بیباک‬

‫لیلئے خیالت کا تن ڈھانپنے کو‬

‫ہیں طغرہ و تصویر و رباعی پوشاک‬

‫میں خانۂ زردار سجاؤں کیسے؟‬

‫افسانہ‪ ،‬حقیقت کو بتاؤں کیسے؟‬

‫موجود ہیں زندہ خار‪ ،‬آخر تصویر‬

‫زان کاغذی پھولوں کی بناؤں کیسے؟‬

‫ہم اپنے ہی دل کا خوں بہانے والے‬

‫اک نقزش محوبت ہیں بنانے والے‬

‫عشرت گہہ زردار میں کھینچیں تصویر؟‬

‫ہم کوچۂ جاناں کو سجانے والے‬


‫خون اپنا بہانے کو ہے حاضر فنکار‬

‫زاس بات پہ لیکن وہ نہیں ہے تویار‬

‫جاسوس جہاں کھیل رہے ہوں پوتے‬

‫ہو ایسی کمیں گاہ میں راس کا شہکار‬

‫کر کے کوئی تدبیر نہیں کھینچنے کا‬

‫نقش ایسا یہ دلگیر نہیں کھینچنے کا‬

‫رانی کی بناؤں گا کہ مہ وش وہ ہے‬

‫راجہ کی میں تصویر نہیں کھینچنے کا‬

‫ہر نقش میں تھا جلوۂ ایماں ساقی‬

‫آ کر ہوئے مایوس و پریشاں ساقی‬

‫کل میری نمائش میں بڑے مولوی آئے‬

‫یہ رسن کے کہ تصویریں ہیں عریاں ساقی‬

‫حرزف غیرت مٹا گیا ہے پانی‬

‫نقزش وحشت بنا گیا ہے پانی‬

‫رسن کر مری تصویروں کے دو اک عنوان‬

‫مولؤں کے منہ میں آ گیا ہے پانی‬

‫میں نے‪ ،‬تھی جگہ خالی‪ ،‬تو لکھھیں آیات‬

‫دیکھیں لٹیں جب کالی تو لکھھیں آیات‬

‫آیات کو دیکھا تو بنائے مکھڑے‬

‫مکھڑوں پہ نظر ڈالی تو لکھھیں آیات‬


‫دیکھا قد و گیسو میں کمازل محبوب‬

‫راف کتنے حسیں ہیں خد و خازل محبوب‬

‫یہ طغرہ و تصویر نہیں لوحوں پر‬

‫ہے سایۂ سایۂ جمازل محبوب‬

‫یہ دیکھ کے‪ ،‬رکھتا ہے خیالزت جدید‬

‫اس کو زر و دینار سے نفرت ہے شدید‬

‫پھر رروح القدس کے ہاتھ بھیجی تھی مجھے‬

‫ابجد کے خزانے کی موشیت نے کلید‬

‫منہ میں لیے اک چاندی کا چمچہ ساقی‬

‫دشمن ہوا اک قصر میں پیدا ساقی‬

‫اور چٹکی میں ابجد کے خزانے کی کلید‬

‫میں لے کے ہوں آفاق میں آیا ساقی‬

‫مہ پاروں کے گھیرے میں بھی لکھ سکتا ہوں‬

‫شام اور سویرے میں بھی لکھ سکتا ہوں‬

‫مکھڑوں کے تصوور کے جل کے میں چراغ‬

‫زلفوں کے اندھیرے میں بھی لکھ سکتا ہوں‬

‫لو وادیی الہام میں آ پہنچا ہے‬

‫لو‪ ،‬مملکزت جام میں آ پہنچا ہے‬

‫مانی بھی راسی شوخ کا جلوہ کرنے‬

‫اب کوچۂ خویام میں آ پہنچا ہے‬


‫ہیں گیسو و ابرو کے یہی خم اے یار‬

‫خامے میں ہے موقلم کا عابلم اے یار‬

‫عرفی کم و بیش تھا مصوور جتنا‬

‫اتنا ہی میں شاعر ہوں کم از کم اے یار‬

‫دو دن کو ہوں اس شہر میں اشعار کے میں‬

‫جو کچھ ہے چل جاؤں گا سب ہار کے میں‬

‫کرتا ہوں نگازر شعر‪ ،‬تیری خاطر‬

‫معشوقۂ تصویر کا حق مار کے میں‬

‫عاشق کیلیے رنج و الم رکھے ہیں‬

‫شاہوں کیلیے تاج و علم رکھے ہیں‬

‫میرے لیے کیا چیز ہے؟ میں نے پوچھا‬

‫آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں‬

‫اس صنف پہ عاشق تھا گواہی دو نجوم‬

‫تختی پہ لکھا کرتا تھا جب تھا معصوم‬

‫طفلی میں رباعیاں کئی تھیں مجھے یاد‬

‫کیا لفظ غزل ہے یہ نہیں تھا معلوم‬

‫روٹھا جو جمال ہے منایا میں نے‬

‫اک جشزن وصال ہے منایا میں نے‬

‫اس عمزر عزیز کا رباعی کہہ کر‬

‫چالیسواں سال ہے منایا میں نے‬


‫تخلیق میں معتکف یہ ہونا میرا‬

‫اب تک شزب ہستی میں نہ سونا میرا‬

‫خوطاطی ادھر ہے تو ادھر نوقاشی‬

‫وہ اوڑھنا میرا یہ بچھونا میرا‬

‫مکھڑے کی تو تنویر سے باتیں کی تھیں‬

‫اور زلف کی زنجیر سے باتیں کی تھیں‬

‫کل اک تری تصویر بنا کر میں نے‬

‫پھر کچھ تری تصویر سے باتیں کی تھیں‬

‫ایک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں‬

‫کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں‬

‫تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے‬

‫شعروں میں مصووری بھی کرکے دیکھوں‬

‫کیں لغزشیں شاعری میں واپس آیا‬

‫پھر کوچۂ بت گری میں واپس آیا‬

‫تصویروں نے سینے سے لگایا مجھ کو‬

‫جب شہزر مصووری میں واپس آیا‬

‫وعدہ جو کیا نوزر سحر سے میں نے‬

‫مقتل میں وفا کیا وہ سر سے میں نے‬

‫جولد کا کرنے کے لیے استقبال‬

‫چھڑکاؤ کیا خوزن جگر سے میں نے‬


‫یہ تو نہیں قدرت کا اشارہ نہ ہوا‬

‫میں پھر چل سوئے کفر‪ ،‬یارا نہ ہوا‬

‫اسلم سے بندے کا مشورف ہونا‬

‫اسلم کے مفتی کو گوارا نہ ہوا‬

‫سختی سے چٹانوں کی نہ ہومت ہارا‬

‫گ خارا‬
‫پھر موم سے بھی نرم تھا سن ز‬

‫پھوٹا وہیں فووارۂ آزب شیریں‬

‫کل سنگ پہ پھاوڑہ جو میں نے مارا‬

‫دنیا کو اٹھا تھا میں دکھانے کیا کیا‬

‫دنیا ہی سے بیٹھا ہوں چھپانے کیا کیا‬

‫قالین کے اوپر ہیں صحیفے لیکن‬

‫قالین کے نیچے ہے نہ جانے کیا کیا‬

‫دل کی مرے دنیا کہ بڑی ہے کالی‬

‫باتوں میں مری چھائی ہوئی ہریالی‬

‫جس شخص کو دیتا ہوں میں دل میں گالی‬

‫کہتا ہوں زبان سے‪ ،‬جنازب عالی‬

‫عبدالعزیز خالد‬

‫جس جازن جہاں کی تھی زمانے کو تلش‬

‫مقتوزل پس و پیش ہے‪ ،‬مصلوزب معاش‬


‫ہیں عزم کی لشوں کے دو رویہ انبار‬

‫"از چوزک "اگر" تا بہ عزا خانۂ "کاش‬

‫کرتے ہیں طلب جوع و خیانت سے پناہ‬

‫قوموں کو کیا کثرزت عصیاں نے تباہ‬

‫ہوتی نہیں فاسق کی مناجات قبول‬

‫رستے میں دعا کو روک لیتے ہیں گناہ‬

‫آوازز بقبلم کو بان ز‬


‫گ بنے کہتے ہیں‬

‫خوننابۂ دل کو موزج بمے کہتے ہیں‬

‫ل بشی کو مجوسم و مصوور کر کے‬

‫ہم صورت گر "نہیں" کو "ہے" کہتے ہیں‬

‫ادیان و مذاہب و ملل کی جنگیں‬

‫شائد ہی قیازم حشر سے پہلے رکیں‬

‫بندے ترے اے رزب توانا! کس سے‬

‫اس تاخت و تاراج کی فریاد کریں‬

‫اے داوزر بے نیاز اے ایززد پاک‬

‫کرتا ہوں گلہ تجھ سے )مرے منہ میں خاک(‬

‫کیوں اس قدر اندھیر تری دنیا میں‬

‫کیوں انساں اتنا شقی‪ ،‬اتنا سفاک؟‬

‫لبیک سے معمور ہے کعبے کی فضا‬

‫دن رات رہے اس میں بپا آہ و بکا‬


‫آئے کوئی اندر سے نہ اوپر سے ندا‬

‫دے منتظروں کو جو قبولی کا پتا‬

‫غلم ہمدانی مصحفی‬

‫ٹ ہوٹا ہے پڑا ایک طرف پیمانہ‬

‫بلوٹے ہے کوئی ایک طرف مستانہ‬

‫نے ذکر ہے یاں نماز نے روزے کا‬

‫مسجد نہ ہوئی‪ ،‬ہوا یہ قہوہ خانہ‬

‫مارے تزپ غم کے میں گل جاتا ہوں‬

‫اس دازغ جگر سے سب جل جاتا ہوں‬

‫موقوف بہ خس نہیں ہے جلنا میرا‬

‫جوں شمع کھڑا ہوں اور جل جاتا ہوں‬

‫نے شکوہٴ دوزر آسمانی کیجے‬

‫نے ذکزر شہاں نہ پاسبانی کیجے‬

‫اے مصحفی اب تو اس زمانے کے بیچ‬

‫جس طرح سے ہووے زندگانی کیجے‬

‫افسوس کہ دل کی بے قراری نہ گئی‬

‫فریاد و فغان و آہ و زاری نہ گئی‬

‫وہ کونسا روز ہے کہ تجھ بن جوں شمع‬

‫روتے ہوئے مجھ کو رات ساری نہ گئی‬


‫جو اشک ان آنکھوں سے جدا ہوتا ہے‬

‫مژگاں تلک آیا کہ فنا ہوتا ہے‬

‫نظروں سے گرے نہ کوئی ]‪ [1‬کسی کی یارب‬

‫نظروں سے گرا بہت برا ہوتا ہے‬

‫کوئی بروزن "فع" باندھا ہے )کلیازت مصحفی‪ ،‬دیوازن اول‪ ،‬مجلس ترقی ادب‪ ،‬لہور ‪1968‬ء(‬

‫فراق گورکھپوری‬

‫ہر جلوہ سے زاک درزس بنرمو لیتا ہوں‬

‫چھلکے ہوئے صد جام و سبو لیتا ہوں‬

‫اے جازن بہار تجھ پہ پڑتی ہے جب آنکھ‬

‫سنگیت کی سرحدوں کو رچھو لیتا ہوں‬

‫رتو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے‬

‫دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے‬

‫سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں‬

‫سکھ شانت کی گویا تو ہری کھیتی ہے‬

‫قاضی حبیب الرحمان‬

‫بے قیزد زمانی و مکانی کوئی‬

‫دل میں ہے دمکتی راجدھانی کوئی‬

‫زامکان و رمحال کے مباحث سے بورا‬

‫اے رمطرزب جاں‪ ،‬رام کہانی کوئی‬


‫شب‪ ،‬خواب میں کیا زعقزد رثرویا ڈولے‬

‫صبح آئے تو تعبیر کی نویا ڈولے‬

‫رفتار کی تیزی نے سنبھال ہہوا ہے‬

‫ممکن نہیں تقدیر کا پویا ڈولے‬

‫ہر شاخ پہ یہ شوزر عنادل کیا ہے؟‬

‫ہر موزج صبا‪ ،‬موزج سلسل‪ ،‬کیا ہے؟‬

‫ہر منظزر خوش دیکھ کے غمگیں رہنا‬

‫رکھلتا نہیں کچھ کہ یہ مرا دل‪ ،‬کیا ہے‬

‫قتیل شفائی‬

‫آئندہ نہ آنکھوں سے راتاروں گا غلف‬

‫کر دے یہ خطا اے مرے اللہ معاف‬

‫یہ دیکھ مرے ماتھے پہ تازہ اک زخم‬

‫بول ہوں میں فرسودہ رواجوں کے خلف‬

‫دریافت کرے وزن ہوا کا مجھ سے‬

‫پوچھے وہ کبھی رنگ صدا کا مجھ سے‬

‫ڈرتا ہوں وہ معلوم نہ کر بیٹھے کہیں‬

‫کیا ناطہ ہے ساون کی گھٹا کا مجھ سے‬

‫سانپوں کی طبرح رشوک رہا ہے واعظ‬

‫ہے گھاگ مگر رچوک رہا ہے واعظ‬


‫خاموش رہو اور تماشہ دیکھو‬

‫سورج پہ اگر رتھوک رہا ہے واعظ‬

‫محمد وارث‬

‫شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمبدم‬

‫آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے بنم‬

‫مردم رکش یوں ہوا زمانے کا چلن‬

‫اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم‬

‫ہے تیر سے رالفت نہ نشانے سے ہمیں‬

‫کھونے سے غبرض کوئی‪ ،‬نہ پانے سے ہمیں‬

‫گ لیلآی‪ ،‬خلق‬
‫سو بار کہے ہمیں س ز‬

‫کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں‬

‫بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی رسن لے‬

‫ہے چار دنوں کی زنزدگانی رسن لے‬

‫پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقزف عشق‬

‫کرتا ہے خراب کیوں جوانی‪ ،‬رسن لے‬

‫سوچا ہے سیاست پہ لکھوں گا میں بھی‬

‫یعنی کہ غلظت پہ لکھوں گا میں بھی‬

‫اپنی تو نظر آتی نہیں کوئی برائی‬

‫اوروں کی نجاست پہ لکھوں گا میں بھی‬


‫اک رسم تھی‪ ،‬سو ہے اب تلک وہ جاری‬

‫محنت جو لگی خوب تو چوٹیں کاری‬

‫جانے کیا سوچ کے بنایا تھا بلگ‬

‫خود ہی میں لکھاری ہوں خود ہی قاری‬

‫محبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھ‬

‫اپنوں پہ نظر رکھ‪ ،‬نہ رتو اغیار کو دیکھ‬

‫کیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسد‬

‫چھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھ‬

‫کیا محفزل اردو کی کروں میں توصیف‬

‫ثانی ہے کوئی جس کا نہ کوئی ہے حریف‬

‫دیکھے ہیں کثافت سے بھرے فورم‪ ،‬پر‬

‫اک نور کی محفل ہے‪ ،‬ہے اتنی یہ لطیف‬

‫مرزا رفیع سودا‬

‫گر یار کے سامنے میں رویا تو کیا‬

‫مژگاں میں جو سخت دل پرویا تو کیا‬

‫یہ دانۂ اشک سبز ہو نامعلوم‬

‫اس شور زمیں میں تخم بویا تو کیا‬

‫گر مہ سے بلندی میں ہوا تو دہ چند‬

‫پستوں کی طرف دیکھ کے مت ہو خورسند‬

‫جتنے کہ بلندوں کی ہیں نظروں میں پست‬


‫پستوں کی بھی نظروں میں ہیں اتنے ہی بلند‬

‫ایوازن عدالت میں تمھارے اے شاہ‬

‫کیا ظلم کو ہے دخل عیااذا باللہ‬

‫شیشے کا جو واں طاق سے رپٹے بھی پاؤں‬

‫پتھھر سے نکلتی ہے صدا‪ ،‬بسم اللہ‬

‫مومن خان مومن‬

‫اب ہم پہ جو ہر گھڑی وہ جھنجھلتے ہیں‬

‫الطازف قدیم آہ یاد آتے ہیں‬

‫تھا یا تو وہ لطف یا یہ نفرت‪ ،‬اللہ‬

‫لوگ ایسے بھی دنیا میں بدل جاتے ہیں‬

‫آتش دزل زار میں لگائی اس نے‬

‫برسوں جازن حزیں جلئی اس نے‬

‫پھینکا مجھ پر کل اختلطا پانی‬

‫بھڑکی ہوئی کیا آگ بجھائی اس نے‬

‫مومن لزم ہے وضع مرغوب بنے‬

‫جو رنگ ہو آدمی خوش اسلوب بنے‬

‫کیا خرقہ و عمامہ ہے اللہ اللہ‬

‫جب شکل بگڑ گئی تو تم خوب بنے‬

‫جب سے وہ گئے ادھر نہیں یاد کیا‬


‫بھیجی نہیں کچھ خبر‪ ،‬نہیں یاد کیا‬

‫ہم یاد میں جس کی آہ سب کچھ بھولے‬

‫راس نے ہمیں بھول کر نہیں‌ یاد کیا‬

‫میر انیس‬

‫عوزت رہے یارو آشنا کے آگے‬

‫محجوب نہ ہوں شاہ و گدا کے آگے‬

‫یہ پاؤں چلیں تو راہہ مول میں چلیں‬

‫یہ ہاتھ جب اٹھیں تو خدا کے آگے‬

‫پیری سے بدن زار ہوا زاری کر‬

‫دنیا سے انیس اب تو بیزاری کر‬

‫کہتے ہیں زبازن حال سے موئے سپید‬

‫ہے صبزح اجل کوچ کی تیاری کر‬

‫آغوزش لحد میں جبکہ سونا ہوگا‬

‫رجز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہوگا‬

‫تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیس‬

‫ہم ہووینگے اور قبر کا کونا ہوگا‬

‫خاموشی میں یاں لذزت گویائی ہے‬

‫آنکھیں ہیں بند عین ز بینائی ہے‬

‫نے دوست کا جھگڑا ہے نہ دشمن کا فساد‬

‫مرقد بھی عجب گوشۂ تنہائی ہے‬


‫کس رمنہ سے کہوں لئق تحسیں میں ہوں‬

‫کیا لطف جو رگل کہے کہ رنگیں میں ہوں‬

‫ہوتی ہے حلوزت سخن خود ظاہر‬

‫کہتی ہے کہیں شکر کہ شیریں میں ہوں؟‬

‫سینے میں یہ دم شمزع سحر گاہی ہے‬

‫جو ہے اس کارواں میں وہ راہی ہے‬

‫پیچھے کبھی قافلہ سے رہتا نہ انیس‬

‫اے عمزر دراز تیری کوتاہی ہے‬

‫رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے‬

‫وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے‬

‫کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی‬

‫جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے‬

‫صبدف میں آبرو دیتا ہے‬


‫گوہر کو ب‬

‫بندے کو بغیر جستجو دیتا ہے‬

‫انسان کو رزق‪ ،‬رگل کو ربو‪ ،‬سنگ کو لعل‬

‫جو کچھ دیتا ہے جس کو‪ ،‬رتو دیتا ہے‬

‫پہنچا جو کمال کو وطن سے نکل‬

‫قطرہ جو گہر بنا عدن سے نکل‬

‫تکمیزل کمال کی غریبی ہے دلیل‬

‫پختہ جو ثمر ہوا چمن سے نکل‬


‫پیری آئی اعضا سب چور ہوئے‬

‫یارازن شباب پاس سے دور ہوئے‬

‫رہتی ہے کفن کی یاد ہر وقت انیس‬

‫جو مشک سے بال تھے وہ کافور ہوئے‬

‫کیا کیا دنیا سے صاحزب مال گئے‬

‫دولت نہ گئی ساتھ‪ ،‬نہ اطفال گئے‬

‫پہنچا کے لحد تلک پھر آئے سب لوگ‬

‫ہمراہ اگر گئے تو اعمال گئے‬

‫رگلشن میں پھروں کہ سیزر صحرا دیکھوں‬

‫یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں‬

‫ہر جا تری قدرت کے ہیں لکھوں جلوے‬

‫حیراں ہہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں‬

‫آدم کو عبجب خدا نے رتبا بخشا‬

‫ادن آی کے لیے مقازم اعل آی بخشا‬

‫عقل و ہنر و تمیز و جان و ایمان‬

‫زاس ایک کزف خاک کو کیا کیا بخشا‬

‫کیوں زر کی ہبوس میں دربدر پھرتا ہے‬

‫جانا ہے تجھے کہاں؟ کدھر پھرتا ہے؟‬

‫اللہ رے پیری میں ہبوس دنیا کی‬

‫تھک جاتے ہیں جب پاؤں تو سر پھرتا ہے‬


‫دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی‬

‫ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی‬

‫جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا‬

‫جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی‬

‫افسوس زمانے کا عبجب بطور ہوا‬

‫کیوں چرزخ کہن آج نیا بدور ہوا‬

‫بس یاں سے کہیں اور چلو جلد انیس‬

‫اب یاں کی زمیں اور‪ ،‬فبلک باور ہوا‬

‫میر درد‬

‫آرام نہ دن کو بے قراری کے سبب‬

‫نے رات کو چین آہ و زاری کے سبب‬

‫واقف نہ تھے ہم تو ان بلؤں سے کبھو‬

‫یہ کچھ دیکھا‪ ،‬سو تیری یاری کے سبب‬

‫ہم نے بھی کبھو جام و سبو دیکھا تھا‬

‫جو کچھ کہ نہیں ہے رو بہ رو‪ ،‬دیکھا تھا‬

‫ران باتوں کو اب جو غور کریے اے درد‬

‫کچھ خواب سا تھا کہ وہ کبھو دیکھا تھا‬

‫دیکھا ہے بمیں زندگی کا جب سے سپنا‬

‫جلنا ہی سدا ہے مجھ کو‪ ،‬زنت ہے کھپنا‬


‫تقصیر معاف تب ہی ہوگی اے درد‬

‫جوں شمع کروں گا جب قدم بوس اپنا‬

‫اے درد‪ ،‬اگرچہ مے میں ہے جوش و خروش‬

‫رہتے ہیں ولے اہزل تاومل خاموش‬

‫موجوں کو شراب کی وہ پی جاتے ہیں‬

‫گرداب کی مانند جو ہیں دریا نوش‬

‫میر مہدی مجروح‬

‫یارب تو گناہوں کو چھپانا میرے‬

‫اس حازل زبوں پہ رحم کھانا میرے‬

‫محشر میں نہ ہوگی منہ دکھانے کی جگہ‬

‫جو میں نے کیا‪ ،‬نہ منہ پہ لنا میرے‬

‫اسباب ہیں ایسے کہ پراگندہ ہوں‬

‫اور شرم معاصی سے سرافگندہ ہوں‬

‫یا ارحم الراحمیں کرم کی ہو نگاہ‬

‫گو غرزق گنہ ہوں پر ترا بندہ ہوں‬

‫میر تقی میر‬

‫ہر لحظہ جلتا ہے‪ ،‬رکڑھاتا ہے مجھے‬

‫ہر آن ستاتا ہے کھپاتا ہے مجھے‬

‫"کل میں نے کہا‪" ،‬رنج سے حاصل میرے؟‬


‫بول‪ ،‬ترا آزار خوش آتا ہے مجھے‬

‫مسجد میں تو شیخ کو خروشاں دیکھا‬

‫میخانہ میں جوزش بادہ نوشاں دیکھا‬

‫یک گوشۂ عافیت جہاں میں ہم نے‬

‫دیکھا سو محلوۂ خموشاں دیکھا‬

‫یاس یگانہ چنگیزی‬

‫دن رات اسے ہے دال روٹی کا دھیان‬

‫رہنے کو مکاں نہ خواب و خور کا سامان‬

‫مفلس کا شباب ایسا بے قدر ہوا‬

‫جیسے ہو ذلیل بے بلیا مہمان‬

‫نوظارہٴ بیدار بھی مہمل ٹھہرا‬

‫ہے ایک سے بڑھ کے ایک پردہ گہرا‬

‫افسانہٴ شاہزد حقیقت باطل‬

‫کہتا گونگا ہے اور رسنتا بہرا‬

‫راتیں یونہی کٹ جاتی ہیں روتے روتے‬

‫دن جاتے ہیں منہ اشکوں سے دھوتے دھوتے‬

‫دامن کو چھڑا کر وہ گیا ہے جب سے‬

‫ہاتھوں کے اسی دن سے اڑے ہیں توتے‬

‫پچھتائے ہیں خضر بھی کچھ ایسے پی کر‬


‫آئے نہ پلٹ کے پھر کبھی اپنے گھر‬

‫روپوش ہوئے ہیں دامزن صحرا میں‬

‫اے آزب حیات‪ ،‬خاک تیرے سر پر‬

‫متفرق رباعیات‬

‫تھا جوش و خروش اوتفاقی ساقی‬

‫اب زندہ زدلی کہاں ہے باقی ساقی‬

‫میخانے نے رنگ روپ بدل ایسا‬

‫میکش میکش رہا‪ ،‬نہ ساقی ساقی‬

‫)ابوالکلم آزاد(‬

‫تحقیق کو بے سود سمجھنے والو‬

‫انسان کو بے سود سمجھنے والو‬

‫تقدیر و توکل سے عمل بہتر ہے‬

‫اے وہم کو معبود سمجھنے والو‬

‫)احسان دانش(‬

‫میخانہ بدوش ہیں گھٹائیں ساقی‬

‫پیمانہ فروش ہیں فضائیں ساقی‬

‫اک جام پل کے مست کر دے مجھ کو‬

‫غارت گزر ہوش ہیں ہوائیں ساقی‬

‫)اختر شیرانی(‬

‫تیزی نہیں منجملۂ اوصازف کمال‬


‫کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال‬

‫خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی‬

‫ہاں راہہ طلب میں شرط ہے استقلل‬

‫)اسآمعیل میرٹھی(‬

‫قائل ہم بھی ہیں دوزخ و جنت کے‬

‫معنی کے ہیں معتقد نہیں صورت کے‬

‫دوزخ‪ ،‬تاریکیاں تری دوری کی‬

‫جنت‪ ،‬انوار ہیں تری قربت کے‬

‫)تلوک چند محروم(‬

‫دنیا میں رسول اور بھی لکھ سہی‬

‫زیبا ہے مگر حضور کو تازج شہی‬

‫ہے خاتمہٴ حسزن عناصر ان پر‬

‫ہیں مصرعہٴ آخر اس رباعی کے وہی‬

‫)حامد حسین قادری(‬

‫دل میں ہوزس درہم و دینار نہ رکھ‬

‫خم پشت ہے عصیاں کا بہت بار نہ رکھ‬

‫پیری میں سر زاس غرض سے ہلتا ہے صفی‬

‫یعنی دنیا سے اب سروکار نہ رکھ‬

‫)صفی لکھنوی(‬

‫کیا افسزر جمشید ہے کیا دولت بکے‬

‫بیکار ہے زر فشانزی حاتم بطے‬


‫میں بادہ گسار ہوں مجھے کافی ہے‬

‫یا ساغر ماہتاب یا ساغر بمے‬

‫)عابد لہوری(‬

‫ہر چند کہ موت کا طلب گار ہوں میں‬

‫رنج و الم و غم سے گرانبار ہوں میں‬

‫پر زندگی اپنی کہہ چکا ہوں تجھ کو‬

‫کس منہ سے کہوں زیست سے بیزار ہوں میں‬

‫)عبدالعلیم آسی غازی پوری(‬

‫نیرنگزی قدرت کے تماشے دیکھے‬

‫کیا کیا تری صنعت کے تماشے دیکھے‬

‫اک شکل کی لکھوں میں نہیں دو شکلیں‬

‫کثرت میں بھی وحدت کے تماشے دیکھے‬

‫)عرش ملیح آبادی(‬

‫سرمایہٴ غفلت ہے تماشائے جہاں‬

‫بینا ہے وہ جو نہ وا کرے آنکھ یہاں‬

‫ہر پردہٴ دید ہے حجازب غفلت‬

‫عارف ہی کو کھلتا ہے یہ رازز پنہاں‬

‫)عزیز بریلوی(‬

‫کچھ عشق میں تو مزہ نہ پایا ہم نے‬

‫اس دل ہی کو مفت میں گنوایا ہم نے‬

‫اور جس کے لیے گنوایا دل کو جرأت‬


‫اس کو اپنا کبھی نہ پایا ہم نے‬

‫)قلندر بخش جرأت(‬

‫ہے جسم مرا اور نہ جاں ہے باقی‬

‫تربت میں نہ کوئی استخواں ہے باقی‬

‫کرتا ہے خدا تو امتحاں تا دزم زیست‬

‫پر بت کا ہنوز امتحاں ہے باقی‬

‫)ناسخ(‬

‫ساقی مجھے پھر فکزر جہاں نے گھیرا‬

‫میخانہ سلمت رہے دائم تیرا‬

‫تجھ سا کوئی ساقی ہے نہ مجھ سا میخوار‬

‫بھر دے بھر دے پیالہ بھر دے میرا‬

‫)ناصر کاظمی(‬

‫غافل جو شباب میں نہیں دانا ہے‬

‫اپنا جو راسے کہے وہ دیوانہ ہے‬

‫رہتی ہی نہیں سبزہٴ عارض کی بہار‬

‫یہ رنگ ہے عارضی وہ بیگانہ ہے‬

‫)ناظر حسین خاں(‬

‫بندوں کو ضرور اپنے صلہ دیتا ہے‬

‫دیتا ہے‪ ،‬طبلب سے بھی سوا دیتا ہے‬

‫رتو مانگنے والوں کی طرح مانگ کے دیکھ‬

‫ہر مانگنے والے کو خدا دیتا ہے‬


‫)نثار اکبر آبادی(‬

‫مفہوزم عزا جاننے والے کم ہیں‬

‫احسان کو گرداننے والے کم ہیں‬

‫شوبیر ترے ماننے والے ہیں بہت‬

‫لیکن ترے پہچاننے والے کم ہیں‬

‫)نجم آفندی(‬

‫ملتا ہوں تو سر پہلے جھکا لیتا ہوں‬

‫پھر فرزش دل و چشم بچھا لیتا ہوں‬

‫کچھ ایسی ہے افتازد طبیعت اپنی‬

‫دشمن کو بھی میں دوست بنا لیتا ہوں‬

‫)نجم ندوی(‬

‫تجھ رمکھ کا ہے یہ پھول بچبمن کی زینت‬

‫تجھ شمع کا شعلہ ہے بابگن کی زینت‬

‫فردوس میں نرگس نے اشارے سوں کہا‬

‫"یہ نور ہے عالم کے بنبین کی زینت"‬

‫)ولی دکنی(‬

You might also like