Professional Documents
Culture Documents
Selection of Urdu Rubaiyat by Muhammad Waris
Selection of Urdu Rubaiyat by Muhammad Waris
مناظر 7159
0ڈاؤنلوڈ
صنف رباعی کے جامع تعارف اور کئی شعرا کی منتخب رباعیات پر مشتمل یہ کتابچہ آپ کی سخن شناس
طبیعت کے لئے کسی جادو اثر نسخہ کیمیا اور کسی کنزز بے بہا سے کم نہیں۔
صفحہ27 /
مختصر تعارف
اصنازف سخن میں رباعی ایک خاصے کی چیز ہے ،چار مصرعوں میں جامع سے جامع مضمون کو
خوبصورتی سے مکمل کر دینا دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔
رباعی عربی لفظ ررببع سے ہے جسکا مطلب چار ہے یعنی اس میں چار مصرعے ہوتے ہیں ،رباعی کو دو بیتی
اور ترانہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اردو شاعری فارسی سے اور فارسی شاعری عربی شاعری سے نکلی ہے
لیکن رباعی خالصت ا فارسی شعراء کی ایجاد ہے۔ رباعی کی ابتدا کے متعلق بہت سی ابحاث ،واقعات اور
حکایات ملتی ہیں ،جنہیں طوالت کے خوف سے چھوڑتا ہوں۔
رباعی کے اوزان مخصوص ہیں ،بحر ہزج کے چوبیس وزن رباعی کے لیئے مخصوص ہیں ،جن میں غزل،
نظم وغیرہ کہنا بھ ی جائز ہے ،لیکن ان اوزان کے علوہ اگر دو یا زیادہ شعر کسی اور وزن میں ہوں تو وہ
رباعی نہیں بلکہ قطعہ کہلتے ہیں ،رباعی کے اوزان پر تفصیلی اور جامع بحث اگلے مضمون میں آرہی ہے۔
رباعی کا پہل ،دوسرا ،اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں ،تیسرے مصرعے میں بھی قافیہ لیا جا سکتا ہے۔
رباعی کی خوبصورتی کا دار و مدار چوتھے مصرعے پر ہوتا ہے جس کے حسن اور برجستگی سے پہلے تین
مصرعوں کو بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔
رباعی کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا ،لیکن شعراء کرام کی روایت رہی ہے کہ رباعی میں زیادہ تر
پند و نصائح ،تصوف ،حمد ،نعت ،منقبت ،فلسفہ ،اخلقیات اور دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کے موضوع بیان کرتے
ہیں۔ عشقیہ رباعیاں خال خال ہی ملتی ہیں۔
فارسی شاعری کا باوا آدم ،رودکی ،رباعی کا اولین شاعر مانا جاتا ہے ،رودکی کے علوہ بابا طاہر عریاں،
سرمد شہ ید ،ابوسعید ابوالخیر ،فرید الدین عطار ،حافظ شیرازی اور شیخ سعدی وغیرہ معروف و مشہور
رباعی گو ہیں لیکن فارسی شاعری میں جس شاعر کا نام رباعی گو کی حیثیت سے امر ہو گیا ہے وہ عمر
خیام ہے۔
فارسی شعرا کے تتبع میں اردو شعرا نے بھی رباعی گوئی میں اپنی اپنی طبع کی جولنیاں دکھائی ہیں۔
مشہ ور اردو رباعی گو شعرا میں میر تقی میر ،سودا ،میر درد ،میر انیس ،غالب ،ذوق ،مومن ،حالی ،اکبر الہ
آبادی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن جس شاعر نے صحیح معنوں میں اردو رباعی سے کام لیا ہے وہ علمہ اقبال
ہیں۔ غالب کی طرح علمہ نے بھی اردو اور فارسی میں رباعیاں کہی ہیں اور کیا کمال کہی ہیں۔
اقبال کی رباعیات ،رباعی کے مروجہ اوزان کی قید میں نہیں ہیں ،لیکن اقبال نے اپنی کتب میں انہیں رباعی
ہی کہ ا ہے ،اسطرف ایک اشارہ سید قدرت اللہ نقوی نے کیا ہے لیکن اس موضوع پر باوجود تلش کے مجھے
مواد نہیں مل سکا۔ میری ناقص سمجھ میں یہی آتا ہے کہ اقبال نے اس سلسلے میں بابا طاہر عریاں کا تتبع کیا
ہے۔ بابا طاہر کی دوبیتیاں عموما رباعیات ہی سمجھی جاتی ہیں لیکن ان کے اوزان بھی رباعی کے مروجہ
اوزان سے مختلف ہیں۔ اس موضوع پر کچھ اور بحث آگے ایک استفسار میں آ رہی ہے ،فی الوقت یہ کہ اس
کتاب میں میں نے وہی رباعیات شامل کی ہیں جو رباعی کے چوبیس اوزان میں ہیں سو اس میں علمہ اقبال
کی رباعیات یا قطعات شامل نہیں ہیں۔
اقبال کے بعد ،افسوس ،اردو رباعی کا چلن بہت کم رہ گیا ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ ترقی پسند
تحریک اور "جدیدیت" کی لہ ر میں جب نئے اردو شعرا نے شاعری میں تجربات کیے اور آزاد نظم کا چلن عام
ہوا تو اس سے کلسیکی اصنازف سخن پیچھے چلی گئیں ،نہ صرف انکا رواج کم ہو گیا بلکہ ایک طرح سے
ان سے نفرت بھی کی گئی۔ مشہور ناقد سلیم احمد نے اس کلسیکیت کی مخالفت میں غزل کو بھی "وحشی
صنزف سخن" کہہ دیا۔ اور یہی کچھ حال رباعی کے ساتھ ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رباعی کے اوزان پر
عبور حاصل کرنا عموما مشکل سمجھا جاتا ہے کیونکہ معمولی سی غلطی سے رباعی کا وزن خراب ہو جاتا
ہے اس لیے عام طور پر رباعی کی صنف میں وہی شعرا طبع آزمائی کرتے ہیں جن کو اس کے اوزان پر
عبور حاصل ہوتا ہے۔
اقبال کے بعد کے معروف رباعی گو شعرا میں جوش ،فانی ،فراق ،شمس الرحمن فاروقی اور صبا اکبر آبادی
وغیرہ کے نام ہیں۔ احمد فراز اور ناصر کاظمی نے بھی چند ایک رباعیاں کہی ہیں لیکن جن شعرا نے اس
دور میں باللتزام رباعیاں کہی ہیں ان میں عبدالعزیز خالد ،صادقین اور امجد حیدرآبادی کے نام اہم ہیں۔
محمد وارث
رباعی بھی خاصے کی چیز ہے ،قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے
کیلیے یہ ی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں ،حالنکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان
کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل
کرنا کچھ مشکل نہیں ہے ،اور یہ مضمون بنیادی طور پر اسی موضوع پر ہے جس میں رباعی کے اوزان کو
ایک خاص ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ ایک رباعی میں مخلتف اوزان ہی اکھٹے کیے جائیں ،اگر ایک
ہی وزن میں چاروں مصرعے ہوں تو پھر بھی رباعی ہے اور اگر ایک ہی وزن میں بیسیوں رباعیاں ہوں تو
پھر بھی رباعیاں ہی ہیں لیکن اس میں مختلف اوزان کو اکھٹا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ شاعر اپنے مافی
الضمیر کو بہتر سے بہتر انداز میں اور مختلف الفاظ کے چناؤ کے ساتھ بیان کر سکتا ہے اور پھر بنیادی طور
ان اوزان میں فرق بھی بہت تھوڑا ہے ،جس سے آہنگ پر فرق نہیں پڑتا ،مثال کے طور پر ،چوبیس میں سے
بارہ اوزان تو صرف فع کو فاع اور فزعل کو فعول سے بدلنے سے حاصل ہو جاتے ہیں ،تفصیل انشاءاللہ نیچے
آئے گی۔
رباعی کی بحر ،بحزر ہزج ہے جسکا بنیادی رکن 'مفاعیلن' ہے اور اسی مفاعیلن کے مختلف وزن ہی ،جو
مختلف زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں ،اس میں استعمال ہوتے ہیں۔
رباعی میں دس افاعیل آتے ہیں ،جو کہ مفاعیلن ہی سے حاصل ہوتے ہیں ،زحافات کے نام اور ان کے استعمال
کا طریقہ لکھ کر اس مضمون کو بالکل ہی ناقابزل برداشت نہیں بنانا چاہتا ،صرف افاعیل لکھ رہا ہوں۔
مفاعیلن
مفاعیل
مفعولن
مفاعلن
مفعول
فاعلن
فعول
بفزعل
فاع
فع
اس میں نوٹ کرنے کی خاص بات یہ ہے کہ 'فعولن' اس فہرست میں نہیں ہے ،یعنی فعولن جو کہ مفاعیلن
سے حاصل ہونے وال ایک انتہائی مستعمل رکن ہے وہ رباعی میں نہیں آتا ،اگر آئے گا تو رباعی کا وزن
خراب ہو جائے گا۔
کسی بھی مثمن بحر کی طرح ،رباعی کی بحر کے بھی چار رکن ہیں یعنی
حشو
حشو
اور نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اوپر والے دس افاعیل میں سے جو بھی چار بحر میں استعمال ہونگے انکی
اس بحر کی ترتیب میں اپنی اپنی جگہ مخصوص ہے ،جیسے
صدر یعنی پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آئے گا یا مفعولن ،کوئی اور رکن نہیں آ سکتا۔
ضرب یعنی چوتھے رکن میں ہمیشہ فع ،فاع ،فزعل اور فعول میں سے کوئی ایک آئے گا ،اور کوئی رکن
نہیں آ سکتا۔
مفاعلن اور فاعلن ہمیشہ پہلے حشو یعنی دوسرے رکن میں ہی آئیں گے ،اور کسی بھی جگہ نہیں آ سکتے۔
مفاعیلن اور مفاعیل دونوں حشو میں یعنی دوسرے اور تیسرے رکن میں آسکتے ہیں ،کسی اور جگہ نہیں
آتے۔
مفاعیلن اور مفاعیل کے علوہ ،مفعولن ،مفعول بھی دونوں حشو میں آ سکتے ہیں۔
اسکے علوہ ،رباعی کے مختلف افاعیل کی ترتیب یاد رکھنے میں قدما کا جو کلیہ سب سے اہم ہے وہ کچھ
یوں ہے جو کہ مرزا یاس یگانہ نے اپنی کتاب "چرازغ سخن" میں لکھا ہے۔
یوں سمجھیے کہ یہی رباعی کے اوزان کی کلید ہے یعنی ایک سبب کے بعد ہمیشہ سبب آئے گا اور ایک وتد
کے بعد ہمیشہ وتد آئے گا ،مثال کے طور پر ،ایک شاعر ایک رباعی شروع کرتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے
ہیں کہ رباعی یا تو مفعول سے شروع ہوگی یا مفععولن سے۔
فرض کریں ،رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے ،یعنی پہل رکن مفعول ہو گیا ،اب دوسرے رکن میں جو تمام
افاعیل آ سکتے ہیں وہ یہ ہیں
مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
مفعولن
مفعول
فاعلن
اب اس بنیادی کلیے کو ذہن میں رکھیے کہ سبب کے بعد سبب اور وتد کے بعد وتد ،پہل رکن مفعول ہے جو کہ
وتد پر ختم ہو رہ ا ہے سو اگل رکن لزمی وتد سے شروع ہوگا ،اوپر والی فہرست میں جو افاعیل وتد سے
شروع ہو رہے ہیں وہ یہ ہیں
مفاعیلن
مفاعیل
مفاعلن
یعنی مفعول کے بعد اب صرف ان تین میں سے کوئی رکن آئے گا ،فرض کریں مفاعیل آیا اور ہمارے پاس دو
رکن ہو گئے یعنی
مفعول مفاعیل
اب مفاعیل بھی وتد پر ختم ہو رہا ہے سو اگل رکن بھی لزمی وتد سے شروع ہوگا ،یہ پھر تین ہیں ،مفاعیلن،
مفاعیل ،مفاعلن لیکن ہ م جانتے ہیں کہ مفاعلن تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن اور مفاعیل میں سے
کوئی آئے گا ،فرض کریں مفاعیلن لیا تو اب تین رکن ہو گئے
اب رہ گیا چوتھا رکن ،جس میں فع ،فاع ،فزعل اور فعول ہی آ سکتے ہیں ،کلیہ ذہن میں رکھیے ،مفاعیلن سبب
پر ختم ہو رہا ہے سو اگل رکن سبب سے شروع ہوگا ،وہ فع ہے سو رباعی کا وزن مل گیا
اب کسی بھی بحر کی طرح ،آخری رکن میں عمزل تسبیغ کی یہاں بھی اجازت ہے سو فع کو فاع کریں اور
دوسرا وزن بھی مل گیا
اوپر والے کلیات کو استعمال کرتے ہوئے ہم نے رباعی کے دو وزن حاصل کر لیے ،اب انہی کی مدد سے ہم
رباعی کے سارے وزن یعنی چوبیس حاصل کریں گے۔
اساتذہ نے رباعی کو دو شجروں میں تقسیم کیا ہے ،جو رباعی مفعول سے شروع ہوتی ہے ،اسکے بارہ اوزان
کو شجرۂ اخرب کہتے ہیں اور جو رباعی مفعولن سے شروع ہوتی ہے اسکے بارہ اوزان کو شجرۂ اخرم
کہتے ہیں ،اور یہ دونوں نام بھی زحافات کے نام پر ہیں۔ یہاں ایک وضاحت یہ کہ بعض قدیم اساتذہ نے
اخرب اور اخرم اوزان کو ایک ہی رباعی میں باندھنے سے منع کیا ہے ،لیکن اس بات کو کوئی بھی رباعی
گو شاعر نہیں مانتا اور بلتکلف اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں جمع کرتے ہیں۔
ان اوزان کو شجرہ کہا جاتا ہے لیکن اس خاکسار کے محدود مطالعے میں عروض کی کوئی ایسی کتاب نہیں
ہے جس میں اس کو ایک شجرہ کی طرح واضح کیا گیا ہو ،خاکسار یہ کوشش کر رہا ہے ،ممکن ہے کسی
،کتاب میں اسے اس صورت میں لکھا گیا ہو ،شجرے کی تصویر دیکھیے
اب اس شجرہ کو اوپر والے اصولوں کی روشنی میں کھول کر بیان کرتا ہوں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس شجرہ میں پہلے رکن میں ہمیشہ مفعول آتا ہے جو وتد پہ ختم ہوتا ہے سو اگل
رکن مفاعیلن ،مفاعیل اور مفاعلن ہونگے جو کہ وتد سے شروع ہوتے ہیں ،سب سے پہلے مفاعیلن کو لیتے ہیں
سو
مفعول مفاعیلن
یہ سبب پر ختم ہوا سو اگل رکن لزمی سبب سے شروع ہوگا جو کہ تین ہیں یعنی مفعولن ،مفعول اور فاعلن
لیکن ہ م جانتے ہیں کہ تیسرے رکن میں فاعلن نہیں آ سکتا سو صرف دو رہ گئے ،مفعولن اور مفعول اور ان
دو افاعیل سے یہ اوزان حاصل ہوئے
اب مفعولن سبب پر ختم ہوا سو اگل رکن فع ہوگا جو کہ سبب ہے سو پہل مکمل وزن مل گیا
اب تیسرے رکن میں مفعول کو لیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن وتد سے شروع ہوگا جو فزعل ہے سو
اب پھ ر دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور اگلے چار وزن حاصل کرتے ہیں ،مفعول کے بعد مفاعیل لئے یعنی
مفعول مفاعیل
مفاعیل وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن وتد سے شروع ہوگا ،مفاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو مفاعیلن یا مفاعیل
ہونگے یعنی
تیسرے رکن میں مفاعیل لئیے جو وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن فزعل ہوا
آٹھ وزن مل گئے ،اگلے چار دوسرے رکن میں مفاعلن لنے سے ملیں گے یعنی
مفعول مفاعلن
یہ بھی وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن وتد سے شروع ہوگا جو کہ دو ہیں ،مفاعیلن اور مفاعیل کیونکہ مفاعلن
تیسرے رکن میں نہیں آ سکتا
گویا ایک خاص ترتیب سے چلتے ہوئے ہمیں رباعی کے بارہ وزن مل گئے ،اگلے بارہ وزن شجرہ اخرم کے
ہیں اور اسی طرح حاصل ہونگے۔
جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یہ شجرہ ہمیشہ مفعولن سے شروع ہوتا ہے جو کہ سبب پر ختم ہوتا ہے سو دوسرا
رکن سبب ہی سے شروع ہوگا ،جو کہ تین ہیں ،مفعولن ،مفعول اور فاعلن۔ مفعولن سے شروع کرتے ہیں
مفعولن مفعولن
یہ بھی سبب پر ختم ہوا سو تیسرا رکن بھی سبب سے شروع ہوگا ،وہ دو ہیں ،مفعولن اور مفعول کیونکہ
فاعلن یہاں نہیں آ سکتا سو
مفعولن سبب پر ختم ہوا سو لزمی طور پر اگل رکن سبب سے شروع ہوگا جو فع ہے سو
مفعولن مفعولن مفعولن فع )وزن نمبر (1
تیسرے رکن میں مفعول لئیں جو وتد پر ختم ہوا سو چوتھا رکن لزمی فزعل ہوگا سو
اب واپس دوسرے رکن پر چلتے ہیں اور مفعولن کے بعد مفعول لتے ہیں یعنی
مفعولن مفعول
اب مفعول وتد پر ختم ہوا ،تیسرا رکن لزمی وتد سے شروع ہوگا ،یہ تین ہیں ،مفاعیلن مفاعیل اور مفاعلن
لیکن ہم جانتے ہیں کہ مفاعلن کبھی بھی تیسرے رکن میں نہیں آئے گا سو دو رہ گئے ،مفاعیلن اور مفاعیل
یعنی
اور
اب تیسرے رکن میں مفاعیل لئیں تو یہ وتد پر ختم ہوا سو اسکے بعد فزعل آیا یعنی
اب واپس دوسرے رکن کی طرف چلتے ہیں وہاں ہم فاعلن کو چھوڑ آئے تھے ،اس کو لئیں گے تو مزید چار
وزن مل جائیں گے۔
مفعولن فاعلن
فاعلن وتد پر ختم ہوا سو اگل رکن مفاعیلن ،مفاعیل یا مفاعلن ہوگا ،مفاعلن باہر ہوگیا تو مفاعیلن اور مفاعیل
رہ گئے
اور
تیسرے رکن میں مفاعیل لئے تو اسکے بعد فزعل آیا سو
اور یوں ہمیں 'سبب پئے سبب و وتد پئے وتد" کے اصول اور افاعیل و ارکان کی خاص ترتیب پر چلتے ہوئے
دونوں شجروں کے بارہ بارہ اوزان یعنی کل چوبیس وزن مل گئے۔
یہ وہ طریقہ جس کو سمجھتے ہوئے اس خاکسار نے رباعی کے اوزان کو سمجھا ،اسکے علوہ بھی کئی ایک
طریقے ہیں لیکن میں نے اس میں کوشش کی ہے کہ اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب سے لؤں ،امید ہے
قارئین کیلیے یہ طریقہ رباعی کے اوزان سمجھنے کیلیے کارآمد اور فائدہ مند ہوگا۔
محمد وارث
میرے مضمون رباعی کے اوزان پر ایک بحث کے حوالے سے مجھ سے کچھ کچھ استفسارات کیے گئے ،میں
نے انکے جواب لکھ دیے تھے ،جو کہ درج ذیل ہیں۔
استفسار :یہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "ل حول ول قوة ال باللہ" رباعی کا وزن ہے۔ تو کیا یہ چوبیس
اوزان میں سے ایک ہے؟ اور وہ وزن کیا ہے؟
جواب :دراصل قرآن مجید کی چند ایک آیات ایسی ہیں جو اتفاقا کسی نہ کسی وزن پر موزوں ہو جاتی ہیں۔
انہی میں سے یہ آ آیۃ کریمہ بھی ہے کہ رباعی کے ایک وزن پر آ جاتی ہے۔
ل حوبل -مفعول
و ل قو بو -مفاعیل
ل ہ -فاع
بعض لوگ ضرورت شعری کے تحت اللہ کی ہ گرا دیتے ہیں اس صورت میں آخری رکن فاع کی جگہ فع آ
جائے گا اور یوں بھی رباعی کا وزن ہی رہے گا لیکن یہاں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے سو بہتر ہے کہ اللہ
کا مکمل وزن لیا جائے۔
یہ رباعی کا ایک انتہائی مستعمل وزن ہے ،اور اساتذہ عموما رباعی کے سلسلے میں سب سے پہلے یہی وزن
یاد کروایا کرتے تھے۔
مولنا الطاف حسین حالی کی ایک رباعی جس میں انہوں نے یہ وزن باندھا ہے
اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ ہے ۔۔ اس بارے میں وارث صاحب کی رائے کیا ہے
کہ ا جاتا ہے کہ رباعی کے اوزان پر گرفت بہت مشکل ہے اور بڑے بڑے شاعر بھی اسکے اوزان کے بارے
میں خطا کر جاتے ہیں جیسے کہ غالب سا شاعر بھی کہ اوپر والی رباعی میں دوسرا مصرع رباعی کے وزن
سے خارج ہے۔
غالب کے مذکورہ مصرعے پر سب سے پہلے یہ اعتراض علمہ نظم طباطبائی نے اپنی شرح دیوازن غالب میں
کیا تھ ا اور اسکے بعد سے 'سخن فہموں' اور 'غالب کے طرف داروں' میں اس پر خوب خوب بحث ہوئی ہے۔
میرے لیے حیرت اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولنا غلم رسول مہر نے اپنے مرتب کردہ دیوازن غالب اور
اپنی شہرہ آفاق شرح 'نوائے سروش' دونوں میں یہ رباعی لکھتے ہوئے ایک 'ررک' دوسرے مصرعے سے
نکال دیا ہے گویا اپنی طرف سے تصحیح کر دی ہے اور اسکی متنازعہ حیثیت پر بالکل بھی بحث نہیں کی
ہے حالنکہ مستند یہی ہے کہ غالب نے ' رک رک کر' ہی کہا ہے۔
یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اگر مذکورہ مصرعے میں سے ایک 'رک' نکال دیا جائے تو مصرعہ وزن میں
آ جاتا ہے۔ لیکن اس پر دو اعتراض ہیں ایک تو یہ کہ اگر مصرعہ اس طرح کر دیا جائے
تو وزن میں ضرور آئے گا لیکن اس مصرعے کی ساری دلکشی ختم ہو جائے گی بلکہ 'فضول سا' مصرعہ ہو
جائے گا۔ دوسرا یہ کہ غالب سے قادر الکلم شاعر کو کیا علم نہیں تھا کہ مصرع بے وزن ہو رہا ہے اور
رباعی کے اوزان میں نہیں آ رہا؟
مولنا نجم الدین غنی رامپوری نے عل زم عروض پر اپنی شہرہ آفاق کتاب 'بحر الفصاحت' میں بھی یہ اعتراض
غالب کے مصرعے پر کیا ہے اور اسکا جواب اس کتاب کے مرتب سید قدرت نقوی نے دیا ہے۔ انہوں نے اس
پر ایک علیحدہ سے مضمون بھی لکھا ہے جو کہ افسوس میری نظر سے نہیں گزرا۔
قدرت نقوی صاحب کے بقول لفظ 'بند' گو فارسی کا لفظ ہے اور وتد ہے یعنی اسکا وزن 'فاع' ہے لیکن ان کا
کہ نا ہے کہ غالب نے اس لفظ کا ہندی استعمال کیا ہے اور 'بند' کی نون کو نون فارسی کی بجائے مخلوط نون
سمجھا ہے ،اور جیسا کہ اہزل علم جانتے ہیں کہ نون مخلوط کا کوئی وزن نہیں ہوتا جیسا کہ لفظ 'آنکھ' میں
اس نون کا کوئی وزن نہیں ہے سو نقوی صاحب کے بقول غالب نے اس کو سبب باندھا ہے یعنی 'بند' کا وزن
'بد' یا 'فع' لیا ہے۔
اگر نقوی صاحب کے مفروضے کو مان لیا جائے تو پھر غالب کا مصرع وزن میں آ جاتا ہے یعنی
دل رک رک -مفعولن
کر بد ہہ -مفعول
گیا ہے غا -مفاعیلن
لب -فع
یعنی اسطرح یہ مصرع 'مفعولن مفعول مفاعیلن فع' کے وزن پر آ کر موزوں ہو جاتا ہے۔
اس خاکسار کی بھی رائے میں یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے ،یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ غالب کو
رباعی کے اوزان کا علم نہ ہو ،بلکہ یہ غالب کی اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے مصرعے کی دلکشی برقرار
رکھنے کیلیے 'بند' کا غلط وزن لے لیا ہے ،کیونکہ بہرحال بند میں نون مخلوط نہیں ہے بلکہ یہ لفظ فارسی کا
ہے اور اس میں نون فارسی ہے جیسے 'رنگ' جنگ وغیرہ میں۔
استفسار :اقبال کی دو بیتیاں جنہیں عرف عام میں رباعی بھی کہا جاتا ہے اور غالبا" اقبال نے انہیں خود بھی
رباعی کہا ہے ۔ اور وہ رباعی کے اوزان میں نہیں آتے ۔کیا ان سے قطعات کو رباعی کہنے کا جواز نکلتا
ل "تراشیدم ،پرستیدم ،شکستم" وال قطعہ۔ہے؟ مث ا
جواب :یہ بات تو طے ہے کہ رباعی اور قطعے میں بنیادی فرق وزن کا ہی ہے ،باقی فرق ضمنی سے ہیں۔
جو دو شعر رباعی کے مذکورہ چوبیس اوزان میں ہیں وہ رباعی ہے وگرنہ قطعہ۔
اگر اس فرق کو روا نہ رکھیں تو پھر رباعی بہ حیثیت صنف کے ختم ہی جائے گی لہذا اس خاکسار کی ذاتی
رائے میں اقبال نے اپنی دو بیتوں یا قطعات کو جو اپنی کتابوں میں رباعی لکھا ہے تو اس سے قطعے کو
رباعی کہنے کا جواز نہیں نکلتا۔
لیکن اس بات سے ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر اقبال نے ان دو بیتوں یا قطعات کو رباعی
کیوں کہا اور ان کی زندگی میں ہی جو اردو اور فارسی کتب طبع ہوئیں ان کو رباعی ہی لکھا ہے گویا یہ
انکی اجازت سے لکھا گیا ہے حالنکہ وہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ تھی؟ یہ تو ممکن
نہیں ہے کہ وہ رباعی کے اوزان کو نہ جانتے ہوں۔
خاکسار کے محدود علم میں ایسی کوئی کتاب یا مضمون نہیں گزرا جس میں اقبال سے اس بابت میں استفسار
کیا گیا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اگر علمہ کا جواب مل جاتا تو بات صاف ہو جاتی ہے لیکن اس کی
غیر موجودگی ظاہر ہے ہم صرف قیاس ہی کر سکتے ہیں کہ علمہ نے ایسا کیوں کیا۔
میرے نزدیک ،رباعی کا چونکہ لغوی مطلب چار مصرعے والی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اقبال نے اس وجہ سے
ان قطعات کو رباعی لکھ دیا ہو۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارسی کے ایک قدیم اور مشہور شاعر ہیں بابا طاہر عریاں ،انہوں نے
صرف رباعیات ہی کہی ہیں اور انکے کلم کو 'دو بیتی' بھی کہا جاتا ہے اور رباعی بھی حالنکہ وہ رباعی
کے مروجہ اوزان میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے انکے تتبع میں ایسا کیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب
لیکن ایک بات تو طے ہے کہ فارسی کے قدیم شعرا سے لیکر ہمارے عہد کے شعرا تک ،جتنے بھی مشہور
رباعی گو شعرا ہیں انہوں نے جب بھی رباعی کہی رباعی کے اوزان میں ہی کہی سو رباعی اور قطعہ میں
فرق ضروری ہے۔
محمد وارث
رباعیات
ابراہیم ذوق
احمد فراز
سید حیدر نظم طباطبائی نے سب سے پہلے اپنی کتاب "شرح دیوازن غالب" میں اس پر اعتراض کیا تھا کہ اسکا
دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے ،اس کے بعد اس رباعی پر خوب خوب بحثیں ہوئیں اور اب
بھی ہوتی ہیں۔ ناقدیزن غالب اور "قتیلزن غالب" اسے پر بہت سر پھٹول کر چکے ،قتیزل غالب ہوں سو سید
قدرت اللہ نقوی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں جنہوں نے اس مصرعے کو با وزن ثابت کیا ہے۔ اور اس پر کچھ
بحث اس کتاب کے ابتدائی حصے میں آ چکی ہے۔
یہ رباعی صنعزت ایہام )ایہام گوئی( کی بہترین مثال ہے ،اس صنعت میں شاعر کوئی ذو معنی لفظ استعمال کر
کے دو معنی بیان کرتا ہے اور دونوں صحیح ہوتے ہیں ،ایک سامنے ہوتا اور فوری سمجھ میں آ جاتا ہے،
دوسرا بعید اور کچھ تامل سے سمجھ میں آتا ہے۔ اور شاعر کی مراد عموما بعید معنی ہوتے ہیں۔ اس رباعی
میں ہاتھ اٹھانا ذو معنی ہے ،ظلم کرنے کے لیئے ہاتھ اٹھانا سامنے ہے اور کسی کام سے ہاتھ اٹھا لینا بعید۔
اکبر اآلہ آبادی
امجد حیدرآبادی
امیر مینائی
شاہ نصیر
صادقین
گ خارا
پھر موم سے بھی نرم تھا سن ز
عبدالعزیز خالد
کوئی بروزن "فع" باندھا ہے )کلیازت مصحفی ،دیوازن اول ،مجلس ترقی ادب ،لہور 1968ء(
فراق گورکھپوری
قتیل شفائی
محمد وارث
گ لیلآی ،خلق
سو بار کہے ہمیں س ز
میر انیس
میر درد
متفرق رباعیات
)ابوالکلم آزاد(
)احسان دانش(
)اختر شیرانی(
)اسآمعیل میرٹھی(
)صفی لکھنوی(
)عابد لہوری(
)عزیز بریلوی(
)ناسخ(
)ناصر کاظمی(
)نجم آفندی(
)نجم ندوی(
)ولی دکنی(