You are on page 1of 17

‫علم عروض‬

‫علوِم ادبیاِت عربی‬

‫‪1‬۔ علِم صرف‬


‫‪2‬۔ علِم نحو‬
‫‪3‬۔ علِم عروض‬
‫‪4‬۔ علِم شعر‬
‫‪5‬۔ علِم قافیہ‬
‫‪6‬۔ علِم معانی‬
‫‪7‬۔ علِم بیان‬
‫‪8‬۔ علِم لغت‬
‫‪9‬۔ علِم اشتقاق‬
‫‪10‬۔ علِم انشاء‬
‫‪11‬۔ علِم خط‬
‫‪12‬۔ علِم تاریخ‬

‫بارہ علوِم ادبیاِت عربی میں سے علِم عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت‬
‫کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کالم موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے‬
‫منظوم کالم کی کسوٹی ہے اور اس علم کے‪ ،‬دیگر تمام علوم کی طرح‪ ،‬کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کالِم‬
‫موزوں کہنے کے لیے الزم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کالم کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب‬
‫سے پہلے جنھوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطالق کیا وہ ابو عبد الرحٰم ن خلیل بن احمد بصری ہیں جن کا زمانہ‬
‫دوسری صدی ہجری تھا۔‬
‫وجہ تسمیہ‬
‫عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔[‪ ]1‬جو درج ذیل ہیں۔‬

‫‪ .1‬خیمہ کا مرکزی ستون جس پر خیمہ تانا جاتا‬


‫ہے۔‬
‫‪ .2‬وہ اونٹنی جو وحشی اور سرکش ہو۔‬
‫‪ .3‬پہاڑوں پر بنے ہوئے تنگ راستے کو۔‬
‫‪ .4‬مکہ اور مدینہ کو‬
‫‪ .5‬کسی شعر کے مصرِع اول کے آخری کلمہ کو‬
‫‪ .6‬شعر کے وزن کی کسوٹی اور ترازو کو‬
‫‪ .7‬ظاہر ہونا یا عارض ہونے کو‬
‫‪ .8‬مانند‪ ،‬مثال یا نظیر کو‬
‫‪ .9‬فحوٰی اور مفی کالم کو‬
‫‪ .10‬احتیاج اور ضرورت کو‬
‫‪ .11‬منتہج اور ابر کو‬
‫[‪]2‬‬
‫اس بابت میں کہ اس مخصوص علم کو "علِم عروض" ہی کیوں کہتے ہیں کئی ایک قول رائج ہیں جو درج ذیل ہیں۔‬

‫خلیل بن احمد نے جب یہ علم ایجاد کیا تو وہ مکہ‬


‫میں تھا سو تبرکًا اس شہر کے نام سے اس علم کو‬
‫منسوب کیا۔‬
‫اس علم کو عروض اس لیے کہتے ہیں کہ اس پر‬
‫شعر کو عرض کرتے ہیں یعن شعر کو اس پر‬
‫جانچتے ہیں تا کہ موزوں و غیر موزوں عالحدہ ہو‬
‫جائے۔‬
‫عروض طرف اور کنارۂ چیز کے معنی ہیں چونکہ یہ‬
‫علم بھی بعض علموں سے کنارے پر ہے اس لیے‬
‫عروض نام رکھا۔‬
‫بعض کہتے ہیں کہ لفظ عروض کی ترکیب میں عین‬
‫و را و ضاد ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں‪ ،‬چونکہ‬
‫اس علم سے وزِن صحیح اور غیر صحیح میں فرق‬
‫ظاہر ہوتا ہے اس لیے عروض کہتے ہیں۔‬
‫بعض کہتے ہیں کہ عروض لغت میں راِہ کشادہ کے‬
‫معنی میں ہے جس طرح پہاڑ کے رستے درہ یا‬
‫گھاٹی میں ہو کر شہروں اور مقاموں کو جاتے ہیں‪،‬‬
‫اسی طرح اس علم کے ذریعے سے شعِر موزوں اور‬
‫ناموزوں کی طرف پہنچتے ہیں۔ اس کے جاننے سے‬
‫شعِر غلط اور صحیح معلوم ہو جاتا ہے۔ (جب کہ‬
‫ڈاکٹر سید تقی عابدی یہ وجہ لکھی ہے کہ "بعض‬
‫لوگ کہتے ہیں جس طرح پہاڑوں پر چڑھنے کے‬
‫راستے مشکل اور تنگ ہوتے ہیں اسی طرح یہ علم‬
‫مشکل اور سخت ہے جس پر عمل کر کے موزوں اور‬
‫ہے۔")[‪]3‬‬ ‫ناموزوں کالم میں فرق کیا جا سکتا‬
‫بعض کہتے ہیں کہ عروض بادل کے معنی میں ہے‪،‬‬
‫جسطرح بادل اور اس سے پیدا ہوئی چیزوں میں‬
‫نفع زیادہ ہے اسی طرح اس علم میں نفع کثیر ہے۔‬
‫بعض کہتے ہیں کہ شعر کے مصرِع اول کے لفِظ آخر‬
‫کا نام عروض ہے اور اس علم میں اس کا ذکر زیادہ‬
‫آتا ہے اس لیے یہ بھی عروض کہالتا ہے۔‬
‫بہرحال اس علم کے نام کی وجہ کچھ بھی ہو اس کا کام وہی ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا یعنی موزوں و ناموزوں کالم کو‬
‫جانچنا اور جس کے قواعد و ضوابط کی تفصیل نیچے آئے گی۔‬

‫تاریخ‬
‫مولوی نجم الغنی رامپوری نے لکھا ہے کہ خلیل بن احمد نے اس علم کو کوبہ گاذر کی آواز سے استخراج کیا۔[‪ ]2‬جب کہ‬
‫ڈاکٹر تقی عابدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں "مشہور ہے کہ اس علم کے بانی خلیل بن احمد ایک دن چاندی کے ورق بنانے‬
‫کی دکان کے سامنے سے گذر رہے تھے‪ ،‬چاندی کے ورق کوٹنے کی مسلسل آواز کو سن کر ان کے منہ سے یہ جملہ نکال کہ "خدا‬
‫کی قسم اس آواز سے ایک علم ظاہر ہوتا ہے" جس کو انھوں نے بعد میں علِم عروض کا نام دیا۔[‪ ]3‬لیکن کچھ محققین کے‬
‫[‪]4‬‬
‫نزدیک یہ قول انتہائی ضعیف ہے۔‬

‫دوسری طرف خلیل بن احمد کو اس علم کا موجد یا بانی کہنا بھی درست نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے‬
‫قوانین بننے سے پہلے بھی شعر کہے جاتے تھے بلکہ ایام جاہلیت کے عربی شعرا تو بہت مشہور ہیں تو کیا اس وقت اشعار‬
‫میں وزن موجود نہیں تھا؟ یقینًا تھا لیکن اس وقت کے شعرا کے نزدیک وزن کا معیار علِم عروض کے قوانین کی بجائے‪،‬‬
‫ذوِق سلیم اور وجدان تھا اور انہی شعرا کے کالم کو سامنے رکھ کر خلیل بن احمد نے اس علم کے قوانین متعین کیے لیکن‬
‫اس وقت کے شعرا کسی معیار یا میزان کے نہ ہونے کی وجہ سے غلطی بھی کر جاتے تھے اور انہی غلطیوں کو بعد میں علِم‬
‫عروض میں زحافات اور سکتہ کا نام دیا گیا اور یوں یہ بات بالکل درست ہے کہ عروض کے قواعد شاعری کو سامنے رکھ کر‬
‫بنائے گئے نہ کہ ان قواعد کو سامنے رکھ کر شاعری کی جاتی ہے۔ لیکن خلیل بن احمد کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ سب‬
‫سے پہلے انھوں نے اسی علم کے قواعد و قوانین ریاضی اور موسیقی کے اصولوں پر وضع کیے اور ان کا اطالق شاعری پر‬
‫کیا۔‬

‫جدید تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا کہ خلیل بن احمد نے‪ ،‬جو ریاضی اور موسیقی کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ سنسکرت‬
‫زبان سے بھی واقفیت رکھتا تھا‪ ،‬سنسکرت عروض کے اصولوں اور اصطالحوں سے فائدہ اٹھا کر کچھ یونانی اور عربی‬
‫قدیم طریقوں کو مال کر پندرہ بحروں اور پانچ دائروں کو ایجاد کیا اور اس بیان کی تائید البیرونی کی "کتاب الہند" سے‬
‫بھی ہوتی ہے۔[‪ ]5‬یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سنسکرت سمیت زیادہ تر ہندوستانی زبانوں اور عربی و فارسی میں شعر کا‬
‫وزن جانچنے کا جو نظام رائج ہے وہ "ہجائی نظام" پر مشتمل ہے‪ ،‬عربی و فارسی و اردو میں اسے علِم عروض جب کہ‬
‫سنسکرت میں“چھند شاسترا“ (چھند = عروض ؛ شاسترا = علم)‪ِ ،‬پ نگاال نامی ماہر نے سنسکرت علم عروض پر ایک کتاب‬
‫لکھی تھی جس کا نام “ ِپ نگاال چھند شاسترا “ ہے۔‬

‫خلیل بن احمد کی پندرہ بحروں کے بعد اس میں چار بحروں کا اضافہ ایران والوں نے کیا اور یہی انیس بحریں ابھی تک‬
‫رائج ہیں‪ ،‬گو نہ تو تمام انیس بحریں عربی میں مستعمل ہیں اور نہ فارسی میں اور نہ اردو میں‪ ،‬ان تینوں زبانوں کے بولنے‬
‫والوں نے اپنی اپنی زبان اور اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی ضروریات کے مطابق کچھ مخصوص بحریں استعمال کی ہیں‪،‬‬
‫یہاں یہ واضح رہے کہ یہ انیس بحریں سالم حالت میں ہیں یعنی ان میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کیا جاتا لیکن انہی‬
‫بحروں میں جب مختلف زحافات کے استعمال کے بعد جو نئی بحریں بنتی ہیں تو ان کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں‬
‫پہنچ جاتی ہے۔‬

‫اس علم پر پہلی مستقل کتاب تیسری صدی ہجری میں ابو اسحاق زجاج (وفات ‪ 300‬ھ) لکھی اور ان کے بعد کئی ایک‬
‫کتب اس موضوع پر عربی اور فارسی میں لکھی گئیں لیکن اس موضوع پر سب سے مشہور کتب شمس قیس رازی کی‬
‫"المعجم" اور نصیر الدین طوسی کی "معیار االشعار" ہے اور بعد والی کتب میں عمومًا انہی دو کتب کی بازگشت ہے۔ یہ‬
‫[‪]6‬‬
‫بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر نے بھی اس علم پر ایک کتاب لکھی تھی۔‬

‫اردو میں اس علم پر اتھارٹی کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب مولوی نجم الغنی رامپوری کی "بحر الفصاحت" ہے جو پانچ‬
‫حصوں پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ علِم عروض پر ہے‪ ،‬یہ کتاب بیسویں صدی کے اوائل میں چھپی تھی جب کہ ‪1924‬ء‬
‫میں مصنف نے کافی اضافے اور ترامیم کے بعد اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا اور اب یہی ایڈیشن مروج ہے۔ اس موضوع‬
‫پر دوسری اہم ترین کتاب مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی "چراِغ سخن" ہے جو ‪1914‬ء میں پہلی بار طبع ہوئی۔‬

‫شعر کی تعریف‬
‫شعر کے لغوی معنوی جاننا اور بوجھنا وغیرہ کے ہیں اور جیسا کہ اوپر گذرا کہ علِم عروض کسی "شعر" کو جانچتا ہے تو‬
‫اس سے ایک اصولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شعر ہے کیا؟ اور کس چیز کو شعر کہتے ہیں جس کو علِم عروض جانچتا‬
‫ہے۔ یہ ایک نزاعی مسئلہ ہے اور صدیوں سے علما و ماہریِن فن اس کا جواب دے رہے ہیں لیکن ابھی تک شعر کی ایک ایسی‬
‫جامع تعریف متعین نہیں ہو سکی جو سب فریقین کے لیے قابِل قبول ہو۔‬

‫کسی بھی شعر کی عمومًا دو طرح کی تعریفیں کی جاتی ہیں‪ ،‬ایک منطقی اور دوسری عروضی اور عمومًا ان دو تعریفوں‬
‫کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے نزاعی صورت حال پیدا ہوتی ہے‪ ،‬ہم ان دونوں کو مختصرًا بیان کرتے ہیں۔‬
‫منطقی تعریف‬
‫منطقی تعریف عمومًا شعر کی ایک جامع اور انتہائی وسیع تعریف ہوتی ہے جو ماہریِن علم منطق بیان کرتے ہیں اور شعر‬
‫کی اساس تخیل کو قرار دیتے ہیں۔‬

‫بو علی سینا نے "کتاب الشفا" کی بحِث منطق میں‬


‫لکھا ہے"منطقی کی نظر قافیے اور وزن کی طرف‬
‫نہیں ہوتی‪ ،‬اس کے نزدیک تو یہ چاہیے کہ وہ کالم‬
‫[‪]7‬‬ ‫مخیل ہو۔"‬
‫نصیر الدین طوسی نے لکھا ہے "منطقی کے نزدیک‬
‫[‪]7‬‬ ‫کالِم مخیل شعر ہے۔"‬
‫موالنا شبلی نعمانی "شعر العجم" میں لکھتے ہیں‬
‫"اب منطقی پیرایہ میں شعر کی تعریف کرنا چاہیں‬
‫تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو جذبات الفاظ کے‬
‫[‪]8‬‬ ‫ذریعہ سے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔"‬
‫موالنا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی شہرہ آفاق‬
‫کتاب "مقدمۂ شعر و شاعری" میں قافیے اور وزن‬
‫کی قید کو شعر کی تعریف سے اڑا دیا ہے اور شعر‬
‫کی تخلیق میں تین چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے‪،‬‬
‫الفاظ۔[‪]9‬‬ ‫تخیل‪ ،‬مطالعہ کائنات اور تفحص‬
‫لیکن علِم عروض کے ماہرین اور زیادہ تر شعرا کے قریب یہ سب تعریفیں موضوعی ہیں اور قابِل قبول نہیں ہیں‪ ،‬اگر محض‬
‫تخیل یا جذبات کو ہی "شعر" کا معیار قرار دے دیا جائے تو پھر ہر ُپ ر از تخیل اور ُپ ر از جذبات جملہ چاہے وہ موزوں ہو یا‬
‫نہ ہو‪ ،‬مترنم یا ہم آہنگ (مقفٰی ) ہو نہ ہو یا قصدًا کہا گیا ہو یا نہ‪ ،‬شعر کہالئے گا اور ہم کسی معروضی معیار سے یہ نہیں‬
‫کہہ سکیں گے کہ فالں جملہ یا بات شعر ہے یا نہیں۔‬

‫عروضی تعریف‬
‫علِم عروض کے ماہرین دو جمع دو چار یعنی معروضی معیار کے قائل ہیں اور کسی بھی شعر کہالئے جانے کے امیدوار جملے‬
‫کو ریاضی کے اصولوں پر وضع کردہ معیار پر جانچتے ہیں اور اس پر "ہاں" یا "ناں" کا حکم لگاتے ہیں۔ اور ابِن رشیق کے‬
‫تقریبًا ہزار سال قبل بنائے گئے معیار کو ہی‪ ،‬کسی نہ کسی شکل‪ ،‬میں مانتے ہیں جو کچھ یوں ہے‪:‬‬

‫شعر ایسا کالم ہے جو موزوں اور مقفٰی‬


‫ہو اور بالقصد (باالارادہ) کہا گیا ہو ‪-‬‬
‫[‪]10‬‬ ‫ابِن رشیق‬

‫کسی بھی کالم کے شعر ہونے کے لیے اس تعریف میں تین معیار ہیں‪:‬‬

‫‪ .1‬وزن‬
‫‪ .2‬قافیہ‬
‫‪ .3‬قصد یا ارادہ یا کوشش‬
‫اور اب ہم تینوں معیاروں کو کسی قدر تفصیل سے دیکھتے ہیں لیکن جس ترتیب سے یہ تعریف میں آئے ہیں اس سے الٹی‬
‫ترتیب میں۔‬

‫قصد یا ارادہ‬
‫شعر پر اس قدغن کا مقصد یہ ہے کہ شعر وہ ہے جو شعر کے ارادے اور نیت سے کہا جائے نہ کہ ہر کسی موزوں جملے کو‬
‫شعر کہا جائے۔ بحروں کی ذیلی تعداد سینکڑوں میں ہے لہذا بے شمار جملے اور کلمے کسی نہ کسی بحر کے وزن پر پورا‬
‫اترتے ہیں لہذا موزوں ہو جاتے ہیں لیکن ان کو اس قدغن کی رو سے شعر نہیں کہا جا سکتا۔‬

‫لیکن اس قدغن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی کئی ایسی آیات ہیں جو کسی نہ کسی وزن پر پوری اترتی‬
‫ہیں‪ ،‬جیسے الحول و ال قوۃ اال باللہ جو بحِر ہزج میں ہے اور رباعی کا ایک وزن'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔ اس کے‬
‫عالوہ بحر الفصاحت میں اٹھارہ آیات لکھی ہیں جو کے کسی نہ کسی وزن پر پورا اترتی ہیں‪ ]11[ ،‬مثًال‬

‫بسم اللہ الرحمان الرحیم (بحر سریع‪ ،‬وزن مفعولن‬


‫مفعولن فاعالن)‬
‫انا اعطینک الکوثر (بحر متدارک‪ ،‬وزن فعلن فعلن‬
‫فعلن فعلن)‬
‫لن تنالوا البر حتی تنفقو (بحر رمل‪ ،‬وزن فاعالتن‬
‫فاعالتن فاعلن)‬
‫اور مشرکیِن عرب قرآن کو شاعری بھی کہتے تھے حاالنکہ نہ یہ شاعری ہے اور نہ ہی شاعری کی نیت اور ارادے سے کہا گیا‬
‫ہے لہذا مسلمانوں کا ایمان تو ہے ہی لیکن اس تعریف کی رو سے بھی قرآن مجید کی موزوں آیات شاعری نہیں ہے کیونکہ‬
‫"بالقصد" نہیں ہے۔‬

‫لیکن شعرا میں ایک عام خیال یہ ہے کہ جو کالم ارادے یا قصد یا کوشش سے کہا جائے وہ آورد ہے اور آمد کے مقابلے میں‬
‫کم تر درجے کا ہے‪ ،‬مثًال مشہور شاعر جوش ملیح آبادی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔‬

‫” شاعری کے باب میں بعض بزرگوں نے ایک‬


‫خالص دینی مصلحت کی بناء پر‪ ،‬جس کی‬
‫شرح کا یہاں موقع نہیں‪ ،‬یہ عجیب کلیہ وضع‬
‫فرمایا ہے کہ صرف اس موزوں کالم پر شعر کا‬
‫اطالق ہوگا جو "بالقصد" کہا گیا ہو‪ ،‬اگر یہ‬
‫کلیہ تسلیم کر لیا جائے تو چونکہ میں نے آج‬
‫کی تاریخ تک‪ ،‬ایک مصرع بھی "بالقصد"‬
‫موزوں کرنے کا ارتکاب نہیں کیا ہے‪ ،‬اس لیے‬
‫آپ کو اختیاِر کامل حاصل ہے کہ میرے تمام‬
‫کالم کو شاعری سے کلیۃ خارج فرما کر‪ ،‬میرے‬
‫غیِر شاعر ہونے کا اعالن فرما دیں‪ ،‬میں خوش‬
‫“‬ ‫[‪]12‬‬ ‫میرا خدا خوش۔‬
‫لیکن یہ غلط خیال عمومًا اس وجہ سے پھیال ہے کہ "بالقصد" کا مطلب "آورد" سے قریب لیا گیا ہے حاالنکہ اس کا مطلب‬
‫"شعر کی نیت" سے قریب لینا چاہیے کیونکہ چاہے شاعر کو آمد ہو یا آورد‪ ،‬نیت اس کی شعر کہنے کی ہی ہوتی ہے۔‬

‫قافیہ‬
‫(تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیے قافیہ)‬

‫قافیہ کا لفظ 'قفا' یا 'قفو' سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی 'پیچھے آنا واال' یا 'پیرو کار' کے ہیں‪ ،‬چونکہ عربی شاعری‬
‫میں شعر کا اختتام قافیہ پر ہوتا ہے اس لیے اسے یہ نام دیا گیا‪ ،‬واضح رہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں ضروری نہیں کہ‬
‫شعر کا اختتام قافیے پر ہو‪ ،‬بلکہ زیادہ تر شعر کا اختتام ردیف پر ہوتا ہے جو فارسی شاعروں کی ایجاد ہے اور عربی شاعری‬
‫میں مستعمل نہیں۔‬

‫اصطالح میں قافیہ حروف اور حرکات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی تکرار مختلف الفاظ کے ساتھ شعر کے آخر یا‬
‫ردیف سے پہلے آئے جیسے دَم ن‪ ،‬چَم ن‪ ،‬زَم ن یا ِد ل‪ ،‬محِف ل‪ ،‬قاِت ل وغیرہ الفاظ کو ہم قافیہ کہا جائے گا۔‬

‫قافیہ شعر میں حسن و نغمگی و ترنم پیدا کرتا ہے اور اس سے شعر خوبصورت اور ُپ ر لطف ہو جاتا ہے۔ عربی شاعری کے‬
‫قدماء سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک‪ ،‬قافیے کو شاعری کا جزِو الینفک سمجھا جاتا تھا اور جس شعر میں قافیہ‬
‫نہیں ہوتا تھا اس کو سرے سے شعر ہی نہیں مانا جاتا تھا اور شعر کو شعر کہلوانے کے لیے اس میں قافیہ النا الزم تھا جیسا‬
‫کہ ہم اوپر شعر کی عروضی تعریف میں دیکھ چکے۔ اس سلسلے میں بو علی سینا کا یہ قول انتہائی مشہور ہے۔‬

‫[‪]13‬‬
‫جو مقفٰی نہیں وہ ہمارے نزدیک شعر نہیں‪ -‬بو علی سینا‬

‫اور اسی طرح مشہور فارسی شاعر شیخ فرید الدین عطار کا قافیے کے متعلق یہ شعر‬

‫گر قوافی را رواجے نیست‬


‫[‪]14‬‬
‫برسِر ہر خطبہ تاجے نیست‬

‫اگر قافیے کا رواج نہ ہوتا تو کسی خطبے (کالم) کے سر پر تاج نہ ہوتا۔‬

‫اور یوں قدما اور کالسیکی شعرا کے ہاں قافیہ شعر کا حصہ ٹھہرا‪ ،‬لیکن قصد کی طرح‪ ،‬قافیہ بھی جدید شعرا کی تنقید‬
‫کی زد میں آیا اور بِر صغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے موالنا الطاف حسین حالی نے اس کی طرف توجہ کی اور قافیے کو‬
‫ادائے مطلب میں خلل انداز سمجھا اور یوں وہ ان جدید شعرا کے پیشرو ٹھہرے جو قافیے کو ایک قید سمجھتے ہیں اور یہ‬
‫سمجھتے ہیں کہ قافیے کی قید کی وجہ سے شاعر اپنے خیاالت صحیح طور پر نظم نہیں کر سکتے ہیں اور قافیہ النے کے‬
‫چکر میں قافیے کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں اور شعر کا مطلب فوت ہو جاتا ہے۔‬
‫ایک طرف تو قافیہ بحیثیت قید کے شعرا اور ناقدین کی تنقید کی زد میں آیا اور دوسری طرف قافیے پر قافیہ چڑھانے کی‬
‫وجہ سے بھی تنقید کی زد میں آیا‪ ،‬بالخصوص لکھنؤ کے شعرا اور دہلی کے شعرا میں سے ابراہیم ذوق اس "قافیہ پیمائی"‬
‫کے لیے خاص طور پر بدنام ہیں کہ ایک ایک غزل میں تیس تیس چالیس چالیس قافیے ہیں اور اس پر بھی بس نہیں بلکہ‬
‫اسی غزل پر دو غزلہ اور سہ غزلہ لکھ ڈاال‪ ،‬اس لیے غالب کو کہنا پڑا تھا کہ "شاعری خیال آفرینی کا نام ہے نہ کہ قافیہ‬
‫پیمائی کا"۔‬

‫بیسیوں صدی کے اوائل میں جب برصغیر میں انگریزی ادب کا زیادہ رجحان پیدا ہوا تو ہمارے شعرا کے سامنے ‪Blank‬‬
‫‪ Verse‬یا نظِم مّع رٰی سامنے آئی جس میں قافیے سے آزادی تھی سو اردو میں نظِم معری کہے جانے لگی جس میں وزن اور‬
‫بحر کی تو پابندی کی جاتی تھی لیکن قافیے کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اردو شاعری میں آزاد نظم کا چلن عام ہوا‬
‫جس میں بھی وزن کی قید ہوتی ہے لیکن قافیے کی نہیں۔ نظِم معری اور آزاد نظم میں یہ فرق ہے کہ معری میں بحر کے‬
‫اراکین کو توڑا نہیں جاتا بلکہ جو معیار مقرر ہے اس کو قائم رکھا جاتا ہے لیکن آزاد نظم میں ایک شاعر بحر کے ارکان کو‬
‫اپنی مرضی سے توڑ سکتا ہے اور یوں اس میں مصرعے بڑے چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ نظم معرٰی کو تو کوئی خاص پزیرائی‬
‫نہیں ملی لیکن آزاد نظم اب اردو شاعری کا ایک اہم جزو ہے اور سبھی مشہور شعرا نے آزاد نظمیں کہی ہیں۔‬

‫گو جدید شعرا نے قافیے سے بے اعتنائی برتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قافیہ اب بھی اسی طرح قائم ہے جیسے صدیوں‬
‫پہلے قائم تھا‪ ،‬اردو غزل کا کوئی شعر قافیے کے بغیر شعر نہیں کہلوا سکتا اور اگر کسی شاعر کو قافیہ پسند نہیں تو وہ‬
‫غزل یا رباعی یا قطعہ یا مثنوی یا قصیدہ یا پابند نظم نہیں کہہ سکتا بلکہ اسے آزاد نظم کہنی پڑے گی بلکہ اب تو آزاد‬
‫نظم کے شاعر بھی آزاد نظم میں نغمگی اور ترنم کے لیے بالتزام قافیہ التے ہیں۔‬

‫وزن‬
‫افاعیل =‬

‫میں گناہ پر پشیماں تجھے فکِر پارسائی‬

‫تقطیع‬
‫شعر‪:‬‬

‫"رسم ـ دنیا نبھا گیا وہ بھی۔۔‬

‫چار آنسو بہا گیا وہ بھی۔۔"‬


‫بحر‪:‬‬

‫"فاعالتن مفاعلن فعلن"‬

‫مصرع اوال‪" :‬رسم ـ دنیا نبھا گیا وہ بھی"‬

‫تقطیع‪" :‬رس ِم دن یا=فا عال تن‪ِ ،‬ن با گیا=مفا علن‪ ،‬وہ بھی=فعلن‪"،،،‬‬

‫مصرع ثانی‪" :‬چار آنسو بہا گیا وہ بھی"‬

‫تقطیع‪" :‬چا رآ سو=فا عال تن‪ ،‬بہا گیا=مفا علن‪ ،‬وہ بھی=فعلن‪"،،،‬‬

‫اراکین‪ :‬مفاعلن۔ فعالتن۔ مفاعلن۔ َف ِع لن‬

‫سخن تھا قلب و نگہ میں دمِ زیارتِ ُح سن‬

‫حدودِ غم ذدگاں میں چہ معنی َن خَو ِت ُح سن؟‬

‫ُا سی گالب سے کیونکر تعفن ُا ٹھ رہا ہے‬

‫درونِ خواب جو کرتا رہا سفارتِ ُح سن‬

‫تمھارے دام میں آجاتا ہوں‪ ،‬بنفسِ نفیس‬

‫یہ میری سادگی ہے یا کوئی کرامتِ ُح سن؟‬

‫شاعر ‪ :‬دانش نذیر دانی ۔‬

‫تقطیع‬

‫‪ -1‬سخن تھا قلب و نگہ میں دمِ زیارتِ ُح سن‬

‫ُس َخ ن َت َق ل ۔۔۔ ُب ِن گہ میں ۔۔۔ د مے ز یا ۔۔۔۔ ر ِت ُح س ن‬

‫مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعاالتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالن‬

‫حدودِ غم ذدگاں میں چہ معنی َن خَو ِت ُح سن؟‬

‫ح ُد و ِد غم۔۔۔۔۔ َذ َد گا میں ۔۔۔۔۔ َچ مع ِن َن خ ۔۔۔۔۔۔۔ َو ِت ُح س ن‬

‫مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالن‬

‫‪ُ -2‬ا سی گالب سے کیونکر تعفن ُا ٹھ رہا ہے‬


‫ُا سی گ ال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ب س کو کر ۔۔۔۔۔۔۔ َت َع ف ُف ُن تھ ۔۔۔۔ ر َہ ہے‬

‫مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َف ِع لن‬

‫درونِ خواب جو کرتا رہا سفارتِ ُح سن‬

‫د ُر و ن خا ۔۔۔۔۔۔ ب ُج کر َت ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر ہا س فا۔۔۔۔۔۔۔ ر ِت ُح س ن‬

‫مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالن‬

‫‪ - 3‬تمھارے دام میں آجاتا ہوں‪ ،‬بنفسِ نفیس‬

‫ُت ما ِر دا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م ِم آ جا ۔۔۔۔۔۔ َت ہو َب نف۔۔۔۔۔۔ س ن فی س‬

‫مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالن‬

‫یہ میری سادگی ہے یا کوئی کرامتِ ُح سن؟‬

‫ی مے ِر سا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ د گ ہ یا ۔۔۔۔۔ ُک ئی ک را ۔۔۔۔ م ِت ُح س ن‬

‫مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعالن‬

‫رباعی کی بحر‬
‫رباعی کی بحر ہے ‪ :‬الحول وال قوۃ اال باللہ‬

‫بیرونی روابط‬
‫علِم عروض ‪ -‬اردو گاہ (‪)https://xn--mgbqf7g.com/%d8%b9%d8%b1%d9%88%d8%b6‬‬

‫حوالہ جات‬
‫القمرصانٹر‬
‫‪22‬‬ ‫اولعابدی‪،‬‬
‫‪2003‬ء‪،‬‬ ‫طبِعتقی‬
‫الہور‪،‬سید‬
‫بازار‪،‬ڈاکٹر‬
‫شاعری از‬ ‫‪ .1‬رموِز‬
‫پرائزز‪ ،‬اردو‬
‫‪ ^ .2‬ا ب بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رام پوری‪،‬‬
‫مجلِس ترقِی ادب‪ ،‬کلب روڈ‪ ،‬الہور‪ ،‬طبع اول جون‬
‫‪2001‬ء‪ ،‬حصۂ دوم ص ‪11‬‬
‫‪ ^ .3‬ا ب رموِز شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی‪ ،‬القمر انٹر‬
‫پرائزز‪ ،‬اردو بازار‪ ،‬الہور‪ ،‬طبِع اول ‪2003‬ء ص ‪22‬‬
‫‪ .4‬تعلیقہ از سید قدرت نقوی بر بحر الفصاحت از مولوی‬
‫نجم الغنی رامپوری‪ ،‬مجلِس ترقِی ادب‪ ،‬کلب روڈ‪،‬‬
‫الہور‪ ،‬طبع اول جون ‪2001‬ء‪ ،‬حصۂ دوم ص ‪251‬‬
‫‪ .5‬رموِز شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی‪ ،‬القمر انٹر‬
‫پرائزز‪ ،‬اردو بازار‪ ،‬الہور‪ ،‬طبِع اول ‪2003‬ء ص ‪23‬‬
‫‪ .6‬رموِز شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی‪ ،‬القمر انٹر‬
‫پرائزز‪ ،‬اردو بازار‪ ،‬الہور‪ ،‬طبِع اول ‪2003‬ء ص ‪25‬‬
‫‪ ^ .7‬ا ب بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری‪،‬‬
‫مجلِس ترقِی ادب‪ ،‬کلب روڈ‪ ،‬الہور‪ ،‬طبع اول جون‬
‫‪2001‬ء‪ ،‬حصۂ اول ص ‪131‬‬
‫‪ .8‬شعر العجم از موالنا شبلی نعمانی‪ ،‬الفیصل‪ ،‬الہور‪،‬‬
‫‪1999‬ء حصہ چہارم ص ‪2‬‬
‫‪ .9‬مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی‬
‫‪ .10‬اصناِف ادب از رفیع الدین ہاشمی‪ ،‬سنِگ میل‪ ،‬الہور‪،‬‬
‫‪1991‬ء‪ ،‬ص ‪14‬‬

‫‪ .11‬بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری‪ ،‬مجلِس‬


‫ترقِی ادب‪ ،‬کلب روڈ‪ ،‬الہور‪ ،‬طبع اول جون ‪2001‬ء‪،‬‬
‫حصۂ اول ص ‪ 75‬تا ‪78‬‬
‫‪ .12‬یادوں کی برات از جوش ملیح آبادی‪ ،‬مکتبہ شعر و‬
‫ادب‪ ،‬الہور‪ ،‬مئی ‪1975‬ء‪ ،‬ص ‪13‬‬

‫‪ .13‬بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری‪ ،‬مجلِس‬


‫ترقِی ادب‪ ،‬کلب روڈ‪ ،‬الہور‪ ،‬طبع اول جون ‪2001‬ء‪،‬‬
‫حصۂ اول ص ‪139‬‬
‫‪ .14‬رموِز شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی‪ ،‬القمر انٹر‬
‫پرائزز‪ ،‬اردو بازار‪ ،‬الہور‪ ،‬طبِع اول ‪2003‬ء ص ‪305‬‬
‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬
‫‪&oldid=6049215‬علم_عروض=‪»title‬‬

‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 14‬فروری ‪2024‬ء کو ‪07:45‬‬


‫بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 4.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی‬
‫مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like