Professional Documents
Culture Documents
علم عروض
علم عروض
بارہ علوِم ادبیاِت عربی میں سے علِم عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت
کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کالم موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے
منظوم کالم کی کسوٹی ہے اور اس علم کے ،دیگر تمام علوم کی طرح ،کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کالِم
موزوں کہنے کے لیے الزم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کالم کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب
سے پہلے جنھوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطالق کیا وہ ابو عبد الرحٰم ن خلیل بن احمد بصری ہیں جن کا زمانہ
دوسری صدی ہجری تھا۔
وجہ تسمیہ
عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔[ ]1جو درج ذیل ہیں۔
تاریخ
مولوی نجم الغنی رامپوری نے لکھا ہے کہ خلیل بن احمد نے اس علم کو کوبہ گاذر کی آواز سے استخراج کیا۔[ ]2جب کہ
ڈاکٹر تقی عابدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں "مشہور ہے کہ اس علم کے بانی خلیل بن احمد ایک دن چاندی کے ورق بنانے
کی دکان کے سامنے سے گذر رہے تھے ،چاندی کے ورق کوٹنے کی مسلسل آواز کو سن کر ان کے منہ سے یہ جملہ نکال کہ "خدا
کی قسم اس آواز سے ایک علم ظاہر ہوتا ہے" جس کو انھوں نے بعد میں علِم عروض کا نام دیا۔[ ]3لیکن کچھ محققین کے
[]4
نزدیک یہ قول انتہائی ضعیف ہے۔
دوسری طرف خلیل بن احمد کو اس علم کا موجد یا بانی کہنا بھی درست نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے
قوانین بننے سے پہلے بھی شعر کہے جاتے تھے بلکہ ایام جاہلیت کے عربی شعرا تو بہت مشہور ہیں تو کیا اس وقت اشعار
میں وزن موجود نہیں تھا؟ یقینًا تھا لیکن اس وقت کے شعرا کے نزدیک وزن کا معیار علِم عروض کے قوانین کی بجائے،
ذوِق سلیم اور وجدان تھا اور انہی شعرا کے کالم کو سامنے رکھ کر خلیل بن احمد نے اس علم کے قوانین متعین کیے لیکن
اس وقت کے شعرا کسی معیار یا میزان کے نہ ہونے کی وجہ سے غلطی بھی کر جاتے تھے اور انہی غلطیوں کو بعد میں علِم
عروض میں زحافات اور سکتہ کا نام دیا گیا اور یوں یہ بات بالکل درست ہے کہ عروض کے قواعد شاعری کو سامنے رکھ کر
بنائے گئے نہ کہ ان قواعد کو سامنے رکھ کر شاعری کی جاتی ہے۔ لیکن خلیل بن احمد کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ سب
سے پہلے انھوں نے اسی علم کے قواعد و قوانین ریاضی اور موسیقی کے اصولوں پر وضع کیے اور ان کا اطالق شاعری پر
کیا۔
جدید تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا کہ خلیل بن احمد نے ،جو ریاضی اور موسیقی کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ سنسکرت
زبان سے بھی واقفیت رکھتا تھا ،سنسکرت عروض کے اصولوں اور اصطالحوں سے فائدہ اٹھا کر کچھ یونانی اور عربی
قدیم طریقوں کو مال کر پندرہ بحروں اور پانچ دائروں کو ایجاد کیا اور اس بیان کی تائید البیرونی کی "کتاب الہند" سے
بھی ہوتی ہے۔[ ]5یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سنسکرت سمیت زیادہ تر ہندوستانی زبانوں اور عربی و فارسی میں شعر کا
وزن جانچنے کا جو نظام رائج ہے وہ "ہجائی نظام" پر مشتمل ہے ،عربی و فارسی و اردو میں اسے علِم عروض جب کہ
سنسکرت میں“چھند شاسترا“ (چھند = عروض ؛ شاسترا = علم)ِ ،پ نگاال نامی ماہر نے سنسکرت علم عروض پر ایک کتاب
لکھی تھی جس کا نام “ ِپ نگاال چھند شاسترا “ ہے۔
خلیل بن احمد کی پندرہ بحروں کے بعد اس میں چار بحروں کا اضافہ ایران والوں نے کیا اور یہی انیس بحریں ابھی تک
رائج ہیں ،گو نہ تو تمام انیس بحریں عربی میں مستعمل ہیں اور نہ فارسی میں اور نہ اردو میں ،ان تینوں زبانوں کے بولنے
والوں نے اپنی اپنی زبان اور اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی ضروریات کے مطابق کچھ مخصوص بحریں استعمال کی ہیں،
یہاں یہ واضح رہے کہ یہ انیس بحریں سالم حالت میں ہیں یعنی ان میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کیا جاتا لیکن انہی
بحروں میں جب مختلف زحافات کے استعمال کے بعد جو نئی بحریں بنتی ہیں تو ان کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں
پہنچ جاتی ہے۔
اس علم پر پہلی مستقل کتاب تیسری صدی ہجری میں ابو اسحاق زجاج (وفات 300ھ) لکھی اور ان کے بعد کئی ایک
کتب اس موضوع پر عربی اور فارسی میں لکھی گئیں لیکن اس موضوع پر سب سے مشہور کتب شمس قیس رازی کی
"المعجم" اور نصیر الدین طوسی کی "معیار االشعار" ہے اور بعد والی کتب میں عمومًا انہی دو کتب کی بازگشت ہے۔ یہ
[]6
بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر نے بھی اس علم پر ایک کتاب لکھی تھی۔
اردو میں اس علم پر اتھارٹی کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب مولوی نجم الغنی رامپوری کی "بحر الفصاحت" ہے جو پانچ
حصوں پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ علِم عروض پر ہے ،یہ کتاب بیسویں صدی کے اوائل میں چھپی تھی جب کہ 1924ء
میں مصنف نے کافی اضافے اور ترامیم کے بعد اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا اور اب یہی ایڈیشن مروج ہے۔ اس موضوع
پر دوسری اہم ترین کتاب مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی "چراِغ سخن" ہے جو 1914ء میں پہلی بار طبع ہوئی۔
شعر کی تعریف
شعر کے لغوی معنوی جاننا اور بوجھنا وغیرہ کے ہیں اور جیسا کہ اوپر گذرا کہ علِم عروض کسی "شعر" کو جانچتا ہے تو
اس سے ایک اصولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شعر ہے کیا؟ اور کس چیز کو شعر کہتے ہیں جس کو علِم عروض جانچتا
ہے۔ یہ ایک نزاعی مسئلہ ہے اور صدیوں سے علما و ماہریِن فن اس کا جواب دے رہے ہیں لیکن ابھی تک شعر کی ایک ایسی
جامع تعریف متعین نہیں ہو سکی جو سب فریقین کے لیے قابِل قبول ہو۔
کسی بھی شعر کی عمومًا دو طرح کی تعریفیں کی جاتی ہیں ،ایک منطقی اور دوسری عروضی اور عمومًا ان دو تعریفوں
کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے نزاعی صورت حال پیدا ہوتی ہے ،ہم ان دونوں کو مختصرًا بیان کرتے ہیں۔
منطقی تعریف
منطقی تعریف عمومًا شعر کی ایک جامع اور انتہائی وسیع تعریف ہوتی ہے جو ماہریِن علم منطق بیان کرتے ہیں اور شعر
کی اساس تخیل کو قرار دیتے ہیں۔
عروضی تعریف
علِم عروض کے ماہرین دو جمع دو چار یعنی معروضی معیار کے قائل ہیں اور کسی بھی شعر کہالئے جانے کے امیدوار جملے
کو ریاضی کے اصولوں پر وضع کردہ معیار پر جانچتے ہیں اور اس پر "ہاں" یا "ناں" کا حکم لگاتے ہیں۔ اور ابِن رشیق کے
تقریبًا ہزار سال قبل بنائے گئے معیار کو ہی ،کسی نہ کسی شکل ،میں مانتے ہیں جو کچھ یوں ہے:
کسی بھی کالم کے شعر ہونے کے لیے اس تعریف میں تین معیار ہیں:
.1وزن
.2قافیہ
.3قصد یا ارادہ یا کوشش
اور اب ہم تینوں معیاروں کو کسی قدر تفصیل سے دیکھتے ہیں لیکن جس ترتیب سے یہ تعریف میں آئے ہیں اس سے الٹی
ترتیب میں۔
قصد یا ارادہ
شعر پر اس قدغن کا مقصد یہ ہے کہ شعر وہ ہے جو شعر کے ارادے اور نیت سے کہا جائے نہ کہ ہر کسی موزوں جملے کو
شعر کہا جائے۔ بحروں کی ذیلی تعداد سینکڑوں میں ہے لہذا بے شمار جملے اور کلمے کسی نہ کسی بحر کے وزن پر پورا
اترتے ہیں لہذا موزوں ہو جاتے ہیں لیکن ان کو اس قدغن کی رو سے شعر نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن اس قدغن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی کئی ایسی آیات ہیں جو کسی نہ کسی وزن پر پوری اترتی
ہیں ،جیسے الحول و ال قوۃ اال باللہ جو بحِر ہزج میں ہے اور رباعی کا ایک وزن'مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع' ہے۔ اس کے
عالوہ بحر الفصاحت میں اٹھارہ آیات لکھی ہیں جو کے کسی نہ کسی وزن پر پورا اترتی ہیں ]11[ ،مثًال
لیکن شعرا میں ایک عام خیال یہ ہے کہ جو کالم ارادے یا قصد یا کوشش سے کہا جائے وہ آورد ہے اور آمد کے مقابلے میں
کم تر درجے کا ہے ،مثًال مشہور شاعر جوش ملیح آبادی اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔
قافیہ
(تفصیلی مضمون کے لیے دیکھیے قافیہ)
قافیہ کا لفظ 'قفا' یا 'قفو' سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی 'پیچھے آنا واال' یا 'پیرو کار' کے ہیں ،چونکہ عربی شاعری
میں شعر کا اختتام قافیہ پر ہوتا ہے اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ،واضح رہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں ضروری نہیں کہ
شعر کا اختتام قافیے پر ہو ،بلکہ زیادہ تر شعر کا اختتام ردیف پر ہوتا ہے جو فارسی شاعروں کی ایجاد ہے اور عربی شاعری
میں مستعمل نہیں۔
اصطالح میں قافیہ حروف اور حرکات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کی تکرار مختلف الفاظ کے ساتھ شعر کے آخر یا
ردیف سے پہلے آئے جیسے دَم ن ،چَم ن ،زَم ن یا ِد ل ،محِف ل ،قاِت ل وغیرہ الفاظ کو ہم قافیہ کہا جائے گا۔
قافیہ شعر میں حسن و نغمگی و ترنم پیدا کرتا ہے اور اس سے شعر خوبصورت اور ُپ ر لطف ہو جاتا ہے۔ عربی شاعری کے
قدماء سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک ،قافیے کو شاعری کا جزِو الینفک سمجھا جاتا تھا اور جس شعر میں قافیہ
نہیں ہوتا تھا اس کو سرے سے شعر ہی نہیں مانا جاتا تھا اور شعر کو شعر کہلوانے کے لیے اس میں قافیہ النا الزم تھا جیسا
کہ ہم اوپر شعر کی عروضی تعریف میں دیکھ چکے۔ اس سلسلے میں بو علی سینا کا یہ قول انتہائی مشہور ہے۔
[]13
جو مقفٰی نہیں وہ ہمارے نزدیک شعر نہیں -بو علی سینا
اور اسی طرح مشہور فارسی شاعر شیخ فرید الدین عطار کا قافیے کے متعلق یہ شعر
اور یوں قدما اور کالسیکی شعرا کے ہاں قافیہ شعر کا حصہ ٹھہرا ،لیکن قصد کی طرح ،قافیہ بھی جدید شعرا کی تنقید
کی زد میں آیا اور بِر صغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے موالنا الطاف حسین حالی نے اس کی طرف توجہ کی اور قافیے کو
ادائے مطلب میں خلل انداز سمجھا اور یوں وہ ان جدید شعرا کے پیشرو ٹھہرے جو قافیے کو ایک قید سمجھتے ہیں اور یہ
سمجھتے ہیں کہ قافیے کی قید کی وجہ سے شاعر اپنے خیاالت صحیح طور پر نظم نہیں کر سکتے ہیں اور قافیہ النے کے
چکر میں قافیے کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں اور شعر کا مطلب فوت ہو جاتا ہے۔
ایک طرف تو قافیہ بحیثیت قید کے شعرا اور ناقدین کی تنقید کی زد میں آیا اور دوسری طرف قافیے پر قافیہ چڑھانے کی
وجہ سے بھی تنقید کی زد میں آیا ،بالخصوص لکھنؤ کے شعرا اور دہلی کے شعرا میں سے ابراہیم ذوق اس "قافیہ پیمائی"
کے لیے خاص طور پر بدنام ہیں کہ ایک ایک غزل میں تیس تیس چالیس چالیس قافیے ہیں اور اس پر بھی بس نہیں بلکہ
اسی غزل پر دو غزلہ اور سہ غزلہ لکھ ڈاال ،اس لیے غالب کو کہنا پڑا تھا کہ "شاعری خیال آفرینی کا نام ہے نہ کہ قافیہ
پیمائی کا"۔
بیسیوں صدی کے اوائل میں جب برصغیر میں انگریزی ادب کا زیادہ رجحان پیدا ہوا تو ہمارے شعرا کے سامنے Blank
Verseیا نظِم مّع رٰی سامنے آئی جس میں قافیے سے آزادی تھی سو اردو میں نظِم معری کہے جانے لگی جس میں وزن اور
بحر کی تو پابندی کی جاتی تھی لیکن قافیے کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اردو شاعری میں آزاد نظم کا چلن عام ہوا
جس میں بھی وزن کی قید ہوتی ہے لیکن قافیے کی نہیں۔ نظِم معری اور آزاد نظم میں یہ فرق ہے کہ معری میں بحر کے
اراکین کو توڑا نہیں جاتا بلکہ جو معیار مقرر ہے اس کو قائم رکھا جاتا ہے لیکن آزاد نظم میں ایک شاعر بحر کے ارکان کو
اپنی مرضی سے توڑ سکتا ہے اور یوں اس میں مصرعے بڑے چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ نظم معرٰی کو تو کوئی خاص پزیرائی
نہیں ملی لیکن آزاد نظم اب اردو شاعری کا ایک اہم جزو ہے اور سبھی مشہور شعرا نے آزاد نظمیں کہی ہیں۔
گو جدید شعرا نے قافیے سے بے اعتنائی برتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قافیہ اب بھی اسی طرح قائم ہے جیسے صدیوں
پہلے قائم تھا ،اردو غزل کا کوئی شعر قافیے کے بغیر شعر نہیں کہلوا سکتا اور اگر کسی شاعر کو قافیہ پسند نہیں تو وہ
غزل یا رباعی یا قطعہ یا مثنوی یا قصیدہ یا پابند نظم نہیں کہہ سکتا بلکہ اسے آزاد نظم کہنی پڑے گی بلکہ اب تو آزاد
نظم کے شاعر بھی آزاد نظم میں نغمگی اور ترنم کے لیے بالتزام قافیہ التے ہیں۔
وزن
افاعیل =
تقطیع
شعر:
تقطیع" :رس ِم دن یا=فا عال تنِ ،ن با گیا=مفا علن ،وہ بھی=فعلن"،،،
تقطیع" :چا رآ سو=فا عال تن ،بہا گیا=مفا علن ،وہ بھی=فعلن"،،،
تقطیع
رباعی کی بحر
رباعی کی بحر ہے :الحول وال قوۃ اال باللہ
بیرونی روابط
علِم عروض -اردو گاہ ()https://xn--mgbqf7g.com/%d8%b9%d8%b1%d9%88%d8%b6
حوالہ جات
القمرصانٹر
22 اولعابدی،
2003ء، طبِعتقی
الہور،سید
بازار،ڈاکٹر
شاعری از .1رموِز
پرائزز ،اردو
^ .2ا ب بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رام پوری،
مجلِس ترقِی ادب ،کلب روڈ ،الہور ،طبع اول جون
2001ء ،حصۂ دوم ص 11
^ .3ا ب رموِز شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی ،القمر انٹر
پرائزز ،اردو بازار ،الہور ،طبِع اول 2003ء ص 22
.4تعلیقہ از سید قدرت نقوی بر بحر الفصاحت از مولوی
نجم الغنی رامپوری ،مجلِس ترقِی ادب ،کلب روڈ،
الہور ،طبع اول جون 2001ء ،حصۂ دوم ص 251
.5رموِز شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی ،القمر انٹر
پرائزز ،اردو بازار ،الہور ،طبِع اول 2003ء ص 23
.6رموِز شاعری از ڈاکٹر سید تقی عابدی ،القمر انٹر
پرائزز ،اردو بازار ،الہور ،طبِع اول 2003ء ص 25
^ .7ا ب بحر الفصاحت از مولوی نجم الغنی رامپوری،
مجلِس ترقِی ادب ،کلب روڈ ،الہور ،طبع اول جون
2001ء ،حصۂ اول ص 131
.8شعر العجم از موالنا شبلی نعمانی ،الفیصل ،الہور،
1999ء حصہ چہارم ص 2
.9مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی
.10اصناِف ادب از رفیع الدین ہاشمی ،سنِگ میل ،الہور،
1991ء ،ص 14