Professional Documents
Culture Documents
جونؔ سے نسبتِ تلمّذ ہے
جونؔ سے نسبتِ تلمّذ ہے
جون سے نسب ِ
بن جوسہ مشاعرے کی دعوت کیا ملی کہ جھیل کی طلسماتی فضاؤں نے
حصار کھینچ لیا۔ وادیء پرل کا یہ انمول نگینہ دیکھنے سیالنی کھنچے چلے
جاتے ہیں۔ دیو قامت درخت ،سبزہ زار ،چہچہاتے پرندے ،ڈبکیاں لگاتے
ابابیل ،تیرتی بطخیں ،پرسکون اور پرسکوت کشتیاں ،سجے سجائے
گھوڑے۔۔۔ کیا “فیسی نیشن” ہے۔
جنت نظیر کشمیر کا ماضی بے شمار تہذیبی رنگا رنگی لیے ہوئے ہے۔ کبھی
ڈل کنارے شالیمار ،نشاط ،نگین ،چار چنار میں رقص ،موسیقی اور شاعری
کی محفلیں جمتی تھیں۔ کشمیر اب پھر تہذیبی انگڑائی لینے لگا ہے۔ تھوڑا
عرصہ پہلے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے تحت کشمیر کا پہال مشاعرہ راوالکوٹ
میں ہوا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شعر کشمیر کا اٹوٹ انگ ہو گیا۔
سخن کے مقامی حلقوں میں بن جوسہ مشاعرہ اتنا اٹھا ہوا تھا کہ بن جوسہ
مصطفے زیدی کے ساتھ ساتھ کاشر ٰ روڈ کے بیٹھنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
بھی یاد آتا رہا ؎
بن جوسہ جانے کب سے آباد ہے۔ آبادی کا اندازہ اس کے تعلیمی اداروں کی
کثرت سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن آج مرکز نگاہ تفہیم العلوم ہائی اسکول بن
ب شام کی کہی نعت کی خوشبو جوسہ تھا۔ تقریب شروع ہو چکی تھی۔ صاح ِ
سے بن جوسہ کی فضائیں معطر تھیں ؎
پوشاک عمل جامہ کردار پہن لوں
سر تا بقدم اُسوہ سرکار پہن لوں
ایماں کے لیے حسن عمل بھی ہے ضروری
یہ کیا کہ فقط جبہ و دستار پہن لوں
ب صدارت تینوں
ب خمیازہ اور صاح ِب نظامت ،صاح ِ مشاعرے میں صاح ِ
زبان
مترنم تھے۔ لیکن آواز کا جادو عطاس احمد عطاس ،امتیاز شائق اورمی ِ
طاہر خیال کی
ِ ناظم مشاعرہ صداقت طاہر کے
ِ خاص فاروق صابر نے جگایا۔
اڑان دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے اپنی ایک پردرد نظم سے وہ
افسوں پڑھا کہ مشاعرہ ابتدا میں ہی انتہا کو چھونے لگا۔
مشاعرے میں دریا موضوعِ سخن رہا۔ کشمیر کے وسائل کے حوالے سے اہ ِل
کشمیر کا اضطراب واضح طور پر ان کے اشعار میں جھلکتا تھا۔ یوں لگ رہا
ک مزاحمت کا آغاز ہو گیا ہے ؎
تھا کہ نیلم و روبی کے لیے تحری ِ
کشمیری مشاعروں کا لو بلڈ پریشر نارمل کرنے میں کاشر کی حشرخیز داد کا
بڑا دخل ہے۔ داد کی یہ کاشری ادا منتشر مشاعرے کو کامیاب شو میں بدل
دیتی ہے۔ لیکن اس مشاعرے میں وہ فاتحانہ سکون میں تھے۔ سخن کی شاہراہ
پر شوزیب نے اتنی تازہ لکیریں کھینچی ہیں کہ ان کا مہاتمائی اطمیان قاب ِل فہم
ہے۔
بنجوسہ جھیل کے قریب ایک ہوٹل میں شاندار ڈنر کا اہتمام تھا۔ پہاڑوں کی
اس آغوش میں رات کی تمام تر رنگینیاں اترنے لگی تھیں۔ اصرار بھی بہت
تھا ،دل بھی مصر تھا ،قدم بھی بوجھل تھے۔۔۔۔ لیکن اٹھانے پڑ گئے؎