Professional Documents
Culture Documents
قرآن - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
قرآن - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
قرآن ،قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی :القرآن الكريم) دین اسالم کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسالم کے
پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کالم الہی ہے[ ]2[]1اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر
اسالم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالٰی کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل
علیہ السالم التے تھے [ ]3جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی
علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ
صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی
تحریف سے پاک سے محفوظ ہے[ ،]6[]5[]4قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ
کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے ،جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں
چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تالوت عبادت ہے۔[ ]7نیز صحف ابراہیم ،زبور[ ]8اور تورات و
انجیل[ ]10[]9کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب
اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بالغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے
تمام عربی کتابوں میں اعلٰی ترین مقام دیا گیا ہے۔[ ]17[]16[]15[]14[]13[]12[]11نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و
صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان
کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثًال سیبویہ ،ابو االسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے
یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
گو کہ نزول قرآن سے قبل عربی زبان کا ادب خاصا وسیع اور اس کا دامن الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے
لبریز تھا لیکن وہ متحد نہیں تھی۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیا[ ]18اور
حسن کالم ،روانی ،فصاحت و بالغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر
تھے۔[ ]19نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا ،جیسا کہ بہت سی سامی زبانیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا
زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید ماال مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے
رکھا۔[]23[]22[]21[]20
خود کو ہم آہنگ
قرآن میں کل 114سورتیں ہیں جن میں سے 87مکہ میں نازل ہوئیں اور وہ مکی سورتیں کہالتی ہیں اور 27مدینہ میں
نازل ہوئیں اور مدنی سورتیں کہالتی ہیں ۔[ ]24مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن کو اللہ نے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر
محمد پر تقریبًا 23برس کے عرصہ میں اتارا۔ نزول قرآن کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب پیغمبر محمد چالیس
برس کے تھے اور ان کی وفات سنہ 11ھ بمطابق 632ء تک جاری رہا۔ نیز مسلمان یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وفات نبوی
ہیں]26[]25[، کے بعد صحابہ نے اسے مکمل اہتمام و حفاظت کے ساتھ منتقل کیا اور اس کی آیتیں محکمات کا درجہ رکھتی
نیز قرآن تا قیامت قابل عمل اور ہر دور کے حاالت کا حل پیش کرتا ہے۔[ ]27قرآن کا سب سے پہال ترجمہ سلمان فارسی نے
کیا۔ یہ سورۃ الفاتحہ کا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو الکھوں
کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ،جسے مسلمان روز ہر نماز
میں بھی پڑھتے ہیں اور انفرادی طور پر تالوت بھی کرتے ہیں۔ عالوہ ازیں مسلمان ہر سال رمضان کے مہینہ میں تراویح
کی نماز میں کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کی عام زندگی ،عقائد و نظریات ،فلسفہ
اسالمی ،اسالمی سیاسیات ،معاشیات ،اخالقیات اور علوم و فنون کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
وفات نبوی کے بعد عمر بن خطاب کی تجویز پر ،خلیفہ اول ابو بکر صدیق کے حکم سے اور زید بن ثابت انصاری کی
سربراہی میں قرآن کو مصحف کی شکل میں یکجا کیا گیا۔ عمر بن خطاب کی وفات کے بعد یہ نسخہ ام المومنین حفصہ
بنت عمر کے پاس محفوظ رہا۔ خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے جب لہجوں کے اختالف کی بنا پر قرات میں اختالف دیکھا تو
حفصہ سے قریش کے لہجہ میں تحریر شدہ ُا س نسخہ کے نقل کی اجازت چاہی تاکہ اسے معیار بنایا جائے۔ اجازت ملنے کے
بعد انہوں نے مصحف کی متعدد نقلیں تیار کرکے پورے عالم اسالم میں بھیج دیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ
اس مصحف کی پیروی کریں۔ ان نسخوں میں سے ایک نسخہ انہوں نے اپنے پاس بھی رکھا۔ یہ تمام نسخے اب مصحف
عثمانی کہالتے ہیں۔[ ]28بیشتر محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام نسخے ابو بکر کے تیار کردہ نسخہ کی ہو بہو نقل تھے،
[]30[]29
ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی۔
مسلمانوں کے مطابق قرآن پیغمبر محمد کا معجزہ ہے اور اس کی آیتیں تمام انسانوں کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتی ہیں
کہ کوئی اس کے مثل نہیں بنا سکتا ]31[،نیز یہ قرآن پیغمبر محمد کی نبوت کی دلیل[ ]32اور صحف آدم سے شروع ہونے
والے اور صحف ابراہیم ،تورات ،زبور اور انجیل تک آسمانی پیغام کا یہ سلسلہ قرآن پر ختم ہوا۔[ ]33قرآن کی تشریحات کو
اسالمی اصطالح میں تفسیر کہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔ قرآنی تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں
میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرف اردو زبان میں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔
نوح کا کشتی.)Zübdetü't-Tevarih(,گلگامش سیالب کا مہاکاوی" کی توریت اور قرآن میں ایک بار پھر تشریح کی گئی ہے.
[]35[]34
وجہ تسمیہ اور معنی
قرآن میں لفظ قرآن قریبًا 70دفعہ آیا ہے اور متعّد د معانی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ عربی زبان کے فعل قرأ کا مصدر ہے
جس کے معنی ہیں ’’ُا س نے پڑھا ‘‘ یا ’’ُا س نے تالوت کی‘‘۔سریانی زبان میں اس کے مساوی (ܩܪܝܢܐ) qeryānāکا لفظ ہے
جس کا مطلب ہے ’’صحیفہ پڑھنا‘‘ یا ’’سبق‘‘۔۔[ ]36اگرچہ کئی مغربی عالم اس لفظ کو سریانی زبان سے ماخوذ سمجھتے
ہیں ،مگر اکثر مسلمان علما اس کی اصل خود لفظ قرأ کو ہی قرار دیتے ہیں[ ]37بہرحال محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے
وقت تک یہ ایک عربی اصطالح بن چکی تھی[]37۔ لفظ قرآن کا ایک اہم مطلب ’’تالوت کرنا‘‘ ہے جیسا کہ اس ابتدائی قرآنی
[]38
آیت میں بیان ہوا ہے’’ :یقینًا اس کا جمع کرنا اور اس کی تالوت ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔
دوسری آیات میں قرآن کا مطلب ’’ایک خاص حّص ہ جس کی تالوت (محمد نے ) کی ‘‘کے بھی ہیں۔ نماز میں تالوت کے اس
مطلب کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے جیسا کہ اس آیت میں’’:اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش
رہو‘‘۔[ ]39جب دوسرے صحائف جیسا کہ تورات اور انجیل کے ساتھ یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ’’تدوین شدہ
صحیفہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔
اس اصطالح سے ملتے جلتے کئی مترادف بھی قرآن میں کئی مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ ہر مترادف کا اپنا ایک خاص
مطلب ہے مگر بعض مخصوص سیاق و سباق میں ان کا استعمال لفظ قرآنکے مساوی ہو جاتا ہے مثال ًکتاب(بمعنی کتاب)،
آیۃ (بمعنی نشان) اور سورۃ (بمعنی صحیفہ)۔ آخری دو مذکورہ اصطالحات ’’وحی کے مخصوص حّص وں‘‘ کے مطلب میں
بھی استعمال ہوتی ہیں۔ بیشتر اوقات جب یہ الفاظ ’’ال‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مطلب ’’وحی‘ ‘ کا ہوتا ہے جو
وقفہ وقفہ سے نازل کی گئی ہو ۔[ ]41[]40بعض مزید ایسے الفاظ یہ ہیں:ذکر (بمعنی یاد دہانی) اور حکمۃ (بمعنی دانائی)۔
قرآن اپنے آپ کو الفرقان(حق اور باطل کے درمیان میں فرق کرنے واال) ،اّم الکتاب ،ہٰد ی (راہنمائی) ،حکمۃ(دانائی) ،ذکر (یاد
دہانی) اور تنزیل (وحی یا اونچے مقام سے نیچے بھیجی جانے والی چیز) بیان کرتا ہے۔ ایک اور اصطالح الکتاب بھی ہے،
اگرچہ یہ عربی زبان میں دوسرے صحائف مثًال تورات اور انجیل کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قرآن سے اسم صفت
’’قرآنی‘‘ ہے۔ مصحف کی اصطالح اکثر مخصوص قرآنی مسّو دات کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ
اصطالح قرآن میں گذشتہ کتابوں کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے۔
آج کی اقدار کے لحاظ سے قرآن پر مبنی تفہیمات پریشانی کا باعث ہیں۔ مثال کے طور پر؛جنگوں میں گرفتار خواتین کی
صورت حال ایک اہم مسئلہ ہے۔ قرآن مجید کے روایتی تراجم کے مطابق ،یہ خواتین ایسی پراپرٹی کی طرح ہیں جو خرید
و فروخت کی جاسکتی ہیں۔ دوسری زیر قبضہ عورتوں کی طرح ،حقوق رکھنے والے (جنگجو یا وصول کنندگان) ان کی
رضامندی کے بغیر اپنے جسم پر جنسی تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ (المومن (]42[)5-6:23دیکھیں :جنگی جرائم)
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے جو پیغمبر محمد پر نازل ہوئی اور اس کا پڑھنا ،سننا اور اس
پر عمل کرنا موجب تقرب الہی اور باعث اطمینان قلب ہے۔ بیشتر مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ قرآن ان کی تہذیب و تمدن اور
معاشرت کی بنیاد ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کرنا الزمی ہے۔ ڈاکٹر وصفی عاشور ابو زید
لکھتے ہیں:
قرآن مجید اس امت کے لیے الفانی کتاب ،ان کا دستور حیات اور رہنما و رہبر ہے۔ نیز قرآن دعوت اسالمی
کی بھی الزوال کتاب اور ہر دور میں اس کی رہنما ہے۔ قوم ،معاشرہ ،خاندان اور فرد ہر ایک کی زندگی
میں اس کی خاصی اہمیت ہے۔ قرآن تعمیر انسان اور اس کی شخصیت ،ضمیر اور عقل و فکر کی تعمیر
”
سے بحث کرتا اور ایسے قوانین وضع کرتا ہے جن کی مدد سے خاندان کے ڈھانچے کو محفوظ ،امن و
“ سکون سے ُپ ر اور محبت و عافیت کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ نیز قرآن انسانی معاشرے کی تعمیر بھی ان
خطوط پر کرتا ہے جن پر چل کر ایک معاشرہ اپنی مخفی صالحیتوں کو بروئے کار ال سکے۔
[]43
مسلمانوں کے نزدیک کوئی مسلمان قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا ،یہی کتاب اس کا سرمایہ زندگی ،سرمہ بصیرت اور
رہبر کامل ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کی ہر شے اس کتاب سے مربوط ہے ،اسی سے ان کے عقائد ماخوذ ہیں ،یہی ان کی
عبادتوں کا تعارف کراتی اور رضائے الہی کے حصول میں مددگار بنتی ہے۔ نیز اخالق و معامالت میں جن امور کی رہنمائی
ہے۔[]44 درکار ہے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ جو مسلمان اس کتاب پر عمل نہیں کرتے وہ گمراہ ہیں اور ان کا انجام تاریک
جیسا کہ حسب ذیل آیتوں اور احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ اسرا میں ہے
:سورہ طہ میں ہے
:نیز عبد الرحمن دارمی
نے علی بن ابی طالب کی روایت نقل کی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ:
میں نے رسول اللہ سے سنا :عنقریب کچھ فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے دریافت کیا ،ان سے نکلنے کی کیا
صورت ہوگی؟ کہا" :اللہ کی کتاب ،جس میں تمہارے اگلوں کی سرگزشت اور تمہارے پچھلوں کی خبر
ہے۔ اس میں تمہارے باہمی اختالف کا فیصلہ ہے ،یہ کتاب قول فیصل ہے ہنسی مذاق نہیں۔ اس کتاب کو
”
جس زور آور نے چھوڑا اللہ نے اس کی کمر توڑ دی ،جس نے اسے چھوڑ کر کہیں اور سے ہدایت طلب کی
اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ،یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس سے خواہشوں میں کجی نہیں
“ پیدا ہوتی ،زبانیں مشتبہ نہیں ہوتیں ،علما اس سے سیر نہیں ہوتے یہ کتاب کثرت استعمال سے پرانی
نہیں ہوتی اور نہ اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں۔
[]45
چنانچہ قرآن میں عقائد کا مفصل تذکرہ ،عبادات مثًال روزہ ،زکوۃ ،حج وغیرہ کے احکام ،نیز خرید و فروخت ،نکاح و طالق،
وراثت و تجارت کے احکام بھی درج ہیں۔ اخالق و آداب کا بھی مفصل ذکر ہے۔[ ]46متعدد علما و مفسرین نے "احکام قرآن"
کے موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں فقہی احکام سے متعلق آیتوں کو یکجا کیا اور عبادات و معامالت
میں ان آیتوں سے مستنبط شدہ احکام کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے تاکہ احکام قرآن سے شناسائی میں سہولت ہو۔
مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں امور زندگی کے متعلق جو ہدایات اور رہنمائی موجود تھیں ،قرآن ان
سب پر مشتمل ہے۔ وہ سورہ مائدہ کی درج ذیل آیت سے استدالل کرتے ہیں
:سورہ مائدہ
مفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن سابقہ کتابوں زبور ،تورات اور انجیل کے تمام مضامین پر مشتمل ہے اور اخالق و معامالت کے
بہت سے امور میں ان کتابوں سے زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔[ ]47قرآن وہ کتاب ہے جو سابقہ کتابوں کی تمام حق باتوں کا
حکم کرتا اور ان پر عمل کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس کتاب میں گزشتہ قوموں ،امتوں اور انبیا و رسولوں کی حکایتیں بھی بیان
کی گئی ہیں۔ تاہم اس میں فروعی احکام مذکور نہیں ،محض کلیات کا احاطہ کیا گیا ہے جو یہ ہیں :تحفظ دین ،تحفظ
مال۔[]48 ذات ،تحفظ عقل ،تحفظ نسب اور تحفظ
عالوہ ازیں مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں اہمیت و فضیلت میں زیادہ ہیں ،بعض آیتیں انہیں حسد اور
شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔ جو آیتیں فضیلت میں ممتاز ہیں ان میں آیت الکرسی ،سورہ بقرہ کی آیت
نمبر 255اور اہل تشیع کے یہاں سورہ بقرہ کی آیت 256 ،255اور 257قابل ذکر ہیں ،ان کا پڑھنا مستحب خیال کیا جاتا
ہے۔[ ]54[]53[]52[]51[]50[]49علمائے اسالم کا کہنا ہے کہ اللہ کے ناموں اور صفات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی
عظمت بڑھ گئی ،ان کا پڑھنا شیطان اور اس کے تسلط سے گھر اور انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔[ ]56[]55اسی طرح ایک
سورہ فلق بھی ہے جسے مسلمان غیر محسوس برائیوں اور آفتوں سے بچنے کے لیے پڑھتے ہیں۔[ ]57سورہ ناس بھی شیطان
ہے۔[]58 کے شر و فتن سے بچنے کے لیے پڑھی جاتی
تاریخ
مسلمانوں کا ماننا ہے کہ قرآن (بیانیہ ثقافت) سب سے پہلے محمد toپر مکی کے پہاڑ حرا کے ایک غار میں فرشتہ جبرئیل
نے نازل کیا اور پھر ان کی وفات تک تئیس سال کے عرصے میں۔
اسالمی تاریخ کے محققین نے اسالم کی جائے پیدائش اور وقت کے ساتھ قبلہ کی تبدیلی کا جائزہ لیا۔پیٹریسیا کرون ،
مائیکل کک اور متعدد دیگر محققین نے متن اور آثار قدیمہ کی تحقیق کی بنیاد پر یہ فرض کیا ہے کہ "مسجد الحرام" مکہ
تھا۔[]62[]61[]60[]59 مکرمہ میں واقع نہیں تھا ،بلکہ جزیرہ نما شمال مغرب میں
بترا؛ اسالمی تاریخ اور آثار قدیمہ کے محقق ڈین گبسن کے مطابق ،یہ وہ جگہ تھی جہاں محمد اپنی جوانی میں رہتے تھے اور اپنے پہلے انکشافات
[]63
کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلی مسلمان مساجد اور قبرستان دکھاتے ہیں ،یہ بھی مسلمانوں کی قبلہ اول کی سمت تھی.
افواہ ثقافت پر مبنی کاموں کے عالوہ ،اسالم کی ابتدائی تاریخ ،جب یہ ابھرا ،جس جغرافیہ میں یہ پیدا ہوا اور دنیا میں
پھیل گیا ،آج بھی واضح نہیں ہے ،اور مختلف جغرافیوں کی طرف اشارہ کرنے والے نتائج کو سامنے رکھا گیا ہے۔مطالعات
[]64
نے پیٹرا (اردن) کو اسالم کی جائے پیدائش کے ساتھ ساتھ کوفہ اور حرا (جنوبی عراق) کے طور پر اجاگر کیا۔
[]68[]67[]66[]65
نزول قرآن
علمائے اسالم کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختالف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج اترا۔ بعض آیتوں
سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس
اختالف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:
.1پہلے مرحلے میں قرآن لوح محفوظ پر نازل ہوا۔ اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت اور قرآن کو
ِف ي َلْو ٍح َّم ْح ُف وٍظ ناقابل تغیر کر دیا جائے۔[ ]69اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے َب ْل ُه َو ُق ْر آٌن َّم ِج يٌد
[ا]
.2لوح محفوظ سے آسمان میں موجود ایک مقام بیت العزت میں شب قدر کو نازل ہوا۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیتیں
َل َل ْل ْل ہیں ِإ َّن ا َأ نَز ْلَناُه ِف ي َلْي َلٍة ُّم َب اَر َكٍة ِإ َّن ا ُكَّنا ُم نِذ ِريَن
[پ]۔ درج ذیل حدیثیں بھی ِ ،إ َّن ا َأ نَز َناُه ِف ي ْي ِة ا َق ْد ِر
[ب]
اس کی دلیل ہیں :عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ "قرآن کو لوح محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے
ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا ،جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے تھے"۔[ ]70ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتاب
المرشد والوجيز عن هذا النزول میں لکھا ہے" :علما کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت
میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کالم الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے،
جب جبریل کا ان پر سے گذر ہوا تو انہیں ہوش آیا اور کہنے لگےَ :و اَل َت نَف ُع الَّش َف اَع ُة ِع نَد ُه ِإ اَّل ِلَم ْن َأ ِذ َن َلُه َح َّت ى ِإ َذ ا
[ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو اس ُف ِّز َع َع ن ُق ُلوِب ِه ْم َق اُلوا َم اَذ ا َق اَل َرُّب ُكْم َق اُلوا اْلَح َّق َو ُه َو اْلَع ِل ُّي اْلَكِب يُر
[ٹ][]71
کا امال کرایا ،چنانچہ قرآن میں مذکور ہےِ :ب َأ ْي ِد ي َس َف َر ٍة
.3بیت العزت سے جبریل نے بتدریج قلب پیغمبر پر اتارا ،نزول قرآن کا یہ مرحلہ تیئیس برس کے عرصہ پر محیط ہے۔
[ث]۔ تمام آسمانی کتابوں میں قرآن واحد کتاب ہے جو قرآن میں ہےَ :ق اَل َكاَّل َف اْذ َه َب ا ِب آَي اِت َنا ِإ َّن ا َم َع ُكم ُّم ْس َت ِم ُع وَن
َو َق اَل اَّلِذ يَن َكَف ُر وا َلْو اَل ُنِّز َل َع َلْي ِه اْلُق ْر آُن ُج ْم َلًة َو اِح َد ًة َكَذ ِلَك ِل ُنَث ِّب َت
بتدریج نازل ہوئی ،چنانچہ قرآن میں مذکور ہے:
[ج]۔ علما نے قرآن کے بتدریج نزول کی درج ذیل حکمتیں بیان کی ہیں: ِب ِه ُف َؤ اَد َك َو َر َّت ْلَناُه َت ْر ِت ياًل
.1کفار کی مخالفت ،اذیت رسانی اور سخت کشیدہ حاالت میں پیغمبر محمد کی دل بستگی ،سورہ فرقان
میں ہےَ :و َق اَل اَّلِذ يَن َكَف ُر وا َلْو اَل ُنِّز َل َع َلْي ِه اْلُق ْر آُن ُج ْم َلًة َو اِح َد ًة َكَذ ِلَك ِل ُنَث ِّب َت ِب ِه ُف َؤ اَد َك َو َر َّت ْلَناُه َت ْر ِت ياًل
[چ]۔ آیت "ورتلناہ ترتيًال" میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کے بتدریج نزول کا مقصد اس کے یاد
رکھنے اور سمجھنے میں سہولت بہم پہنچانا ہے۔
َو اَل َي ْأ ُت وَن َك ِب َم َث ٍل ِإ اَّل ِج ْئ َناَك .2مشرکین کے پیش کردہ شبہات کا رد اور ان کے دالئل کا یکے بعد دیگرے ِا بطال:
[ح]۔ ِب اْلَح ِّق َو َأ ْح َس َن َتْف ِس يًر ا
.3پیغمبر محمد اور ان کے ساتھیوں کے لیے قرآن کا یاد رکھنا اور اسے سمجھنا آسان ہو۔
.4احکام قرآن کے نفاذ میں آسانی فراہم کرنا۔ انسان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ جن رسوم و رواج اور
عادتوں میں وہ برسوں اور صدیوں سے جکڑا ہوا ہے انہیں دفعتًا چھوڑ دے ،مثًال شراب پینا۔
.5حسب ضرورت احکام کا نزول ،یعنی بسا اوقات صحابہ کسی پیش آمدہ صورت حال پر حکم الہی جاننا
چاہتے تو اس وقت متعلقہ آیت نازل ہوتی۔
بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز تاریخ قرآن کو دو
ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہال دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کا وحی کے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دور
خلفائے راشدین کا جس میں قرآن کو ایک مصحف میں یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔
عہد نبوی
الٹرا وایلیٹ الئٹ کے تحت قرآن ،صنعا -یمن U.V ،اور ایکس رے کا استعمال کرکے پوشیدہ متن اور متن کی تبدیلیاں ظاہر کی جاسکتی ہیں۔
اسالمی روایات کے مطابق محّم د پر پہلی وحی غار حرا میں ُا س وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لیے وہاں
گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ وحی 23برس کے عرصہ تک جاری رہا۔ احادیث اور اسالمی تاریخ کے مطابق ہجرت
مدینہ کے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسالمی معاشرہ قائم کر لیا تو آپ نے اپنے صحابہ کو قرآن کی تالوت اور اس کے
روزمّر ہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔ روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہ جنگ
بدر کے بعدجب قریش کے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو ُا ن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا
سکھانے کے بدلے اپنی آزادی حاصل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔ قرآن کو پتھروں ،ہڈیوں اور
کھجور کے پّت وں پر لکھا جانے لگا۔ اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکر سّنی اور شیعہ
دونوں روایات میں ملتا ہے۔ جیسا کہ محمد کا قرآن کو تبلیغ کے لیے استعمال کرنا ،دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز
تالوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم 632 ،عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب
کی شکل میں موجود نہ تھا۔ تمام علما اس بات پر مّت فق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہے کہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل
ہوتی ہے‘‘ اور عائشہ سے روایت ہے کہ’’ ،میں نے ایک بہت سرد دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی
ختم ہوئی تو) آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے
ساتھ نازل ہوئی۔ وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے’’مضبوط طاقتوں واال‘‘ ،وہ جو ’’بلند ترین ُا فق
پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا۔ پھر وہ نیچے ُا تر آیا۔ پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا ُا س سے بھی قریب تر‘‘۔ ویلچ
( )Welchجو ایک اسالمی سکالر ہیں Encyclopaedia of Islam ،میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وحی
کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہری شکل بیان کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول
کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔ ویلچ کے مطابق ،وحی کے موقع پر محمد کو ہال دینے والے جھٹکے ُا ن کے گرد لوگوں کے
لیے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعی مافوق الفطرت ہے۔ تاہم ،محمد کے ناقدین ان
مشاہدات کی بنا پر ُا ن کو مجنون ،کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے کیونکہ قدیم عرب میں کئی ایسے لوگ اس طرح کے
تجربات کے مّد عی تھے۔ ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی
دعٰو ی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے ۔
قرآن محمد کو ُا ّم ی قرار دیتا ہے جس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب دراصل کچھ پیچیدہ
ہے۔ قرون وسطٰی کے مفّس رین جیسا کہ طبری کے مطابق اس اصطالح کے دو مطالب ہیں:پہال تو یہ کہ عمومی طور پر
لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے العلم ہونا (اگرچہ اکثر مفّس رین پہلے
مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔ اس کے عالوہ ،محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبّو ت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا
جاتا تھا۔ جیسا کہ امام فخر الّد ین رازی کہتے ہیں کہ ،اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو ُا ن پر یہ شبہ
کیا جا سکتا تھا کہ ُا نہوں نے اپنے آبا و اجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔ کچھ عالم جیسا کہ واٹ دوسرے معنی کو زیادہ
ترجیح دیتے ہیں۔
خلفائے راشدین کے عہد میں جمع قرآن کے متعلق دو نقطہ نظر ہیں ،پہال نقطہ نظر اہل سنت کا ہے اور دوسرا امامیہ اہل
تشیع کا۔ اہل سنت کا متفقہ نقطہ نظر یہ ہے کہ ابو بکر صدیق کے عہد میں قرآن کو یکجا کرکے ایک مصحف میں محفوظ
کیا گیا اور عہد عثمان میں اسی مصحف کو باضابطہ نسخہ قرار دے کر بقیہ نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔[ ]72جبکہ اہل
تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ علی ابن ابی طالب نے وفات نبوی کے بعد مکمل قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا تھا[ ]73اور
ان کی ترتیب عثمانی مصحف کی ترتیب سے مختلف تھی لیکن بایں ہمہ انہوں نے اس مصحف پر اعتراض نہیں کیا اور اپنے
مرتب کردہ مصحف کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب کے مصحف کے چند امتیازات
تھے ،مثًال وہ ترتیب نزولی پر تھا یعنی منسوخ آیتوں کو ناسخ آیتوں سے پہلے اور مکی سورتوں کو مدنی سورتوں سے پہلے
درج کیا گیا تھا۔[ ]74اس کے حاشیے پر آیت کی مناسبت سے اہم تشریحات وغیرہ لکھی گئی تھیں[ ]75اور تفصیل کے ساتھ
آیتوں کا شان نزول اور مقام نزول بھی مذکور تھا۔ چنانچہ اسی ضمن میں جعفر صادق کا قول ہے" :فرمان رسول ہے :اگر
ہو"۔[]76 قرآن کو لوگ اس طرح پڑھیں جس طرح نازل ہوا ہے تو کبھی اختالف نہ
عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جمع قرآن کی کارروائی جنگ یمامہ کے بعد شروع ہوئی۔ جنگ
یمامہ میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی تو عمر بن خطاب ابو بکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ
حفاظ صحابہ کی وفات سے قبل قرآن کو یکجا کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ابو بکر صدیق نے زید بن ثابت کو اس کی ذمہ داری
دی کیونکہ وہ اس کے اہل بھی تھے اور عہد نبوی میں کاتب قرآن اور حافظ قرآن بھی تھے۔ عالوہ ازیں زید بن ثابت کی
فہم و فراست ،ذہانت و فطانت اور سچائی و امانت داری مشہور تھی۔ زید بن ثابت نے کاغذ کے ٹکڑوں ،ہڈیوں اور چمڑوں
کو اکٹھا کرکے اور حفاظ سے مل کر جمع قرآن کا آغاز کیا ،اس پورے عمل میں ابو بکر ،عمر اور بڑے صحابہ ان کی معاونت
اور نگرانی کر رہے تھے۔ قرآن کو ہر غلطی سے محفوظ رکھنے کے لیے ابو بکر و عمر نے یہ طریقہ کار وضع کیا کہ صحابہ
محض اپنے حافظہ اور سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کا تتبع کریں ،نیز ہر آیت کو دو ماخذ سے لیا جائے ،پہال عہد نبوی
میں لکھا ہوا اور دوسرا سینوں میں محفوظ۔ چنانچہ کسی آیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک اس پر دو
عادل گواہ اس کی گواہی نہ دے دیں کہ یہ آیت عہد نبوی میں لکھی گئی تھی۔[ ]77جمع قرآن کی کارروائی جاری رہی اور
سورہ توبہ کی آخری آیتوں پر اختتام کو پہنچی جو ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں۔ مکمل ہو جانے کے بعد یہ نسخہ ابو
بکر صدیق کے پاس رہا ،پھر عمر بن خطاب کے پاس اور بعد ازاں ان کی بیٹی حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رہا۔[ ]78تمام
علما کا اس پر اتفاق ہے کہ عہد صدیقی میں جمع قرآن سے قبل صحابہ کے پاس اپنے ذاتی مصحف موجود تھے جن میں
انہوں نے قرآن یا اس کا کچھ حصہ اکٹھا کر رکھا تھا لیکن یہ انفرادی کاوشیں تھیں اور انہیں یکجا کرنے میں تالش ،تواتر
اور اجماع صحابہ کا اس درجہ لحاظ نہیں رکھا گیا تھا جیسا عہد صدیقی میں ملحوظ رہا۔
عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد عثمان بن عفان خلیفہ بنے اور سنہ 650ء تک اسالم سرزمین شام ،مصر ،عراق و ایران اور
شمالی افریقا کے کچھ خطوں تک جا پہنچا۔ اہل سنت و الجماعت کے مصادر میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفان آرمینیا اور
آذربائیجان پر لشکر کشی کی تیاری کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں حذیفہ بن یمان ان کے پاس پہنچے اور یہ عرض گزاری:
"امیر المومنین! اس امت کو سنبھا لیے ،قبل اس کے کہ ان میں بھی کتاب اللہ کے سلسلہ میں ایسا ہی اختالف رونما ہو
جیسا یہود و نصارٰی کے یہاں ہوا"۔ حذیفہ بن یمان نے بتایا کہ تالوت قرآن میں عراقیوں اور شامیوں میں کیسا اختالف برپا
ہے اور ہر ایک اپنے طرز قرات کو درست سمجھ رہا ہے۔[ ]79یہ سن کر عثمان بن عفان نے فورًا حفصہ بن عمر کے پاس قاصد
بھیجا اور ان سے عہد ابو بکر کا مصحف طلب کیا۔ پھر زید بن ثابت ،عبد اللہ ابن زبیر ،سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن
حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ اس کی متعدد نقلیں تیار کریں۔ روایت میں لکھا ہے کہ عثمان نے ان سے کہا" :اگر کسی
جگہ تم میں اختالف ہو جائے تو اسے قریش کے لہجہ میں لکھنا ،کیونکہ قرآن انہی کے لہجہ ميں نازل ہوا ہے"۔ روایت میں
یہ بھی ہے کہ جب ان حضرات نے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان بن عفان نے اصل مصحف حفصہ کو لوٹا دیا اور اس کی نقلیں
سارے عالم اسالم میں بھیج دیں اور حکم دیا کہ اس کے سوا بقیہ تمام نسخے نذر آتش کر دیے جائیں۔[ ]81[]80چنانچہ اس
کے بعد تمام نسخے ختم ہو گئے اور یہی نسخہ باقی رہا جو مصحف عثمانی کہالتا ہے اور اب تک دنیا بھر میں یہی رائج چال
آرہا ہے۔
اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیغمبر محمد اپنی زندگی میں حفظ قرآن کا خاصا اہتمام کرتے تھے اور سب سے پہلے انہوں
نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ پیغمبر کی نگرانی ہی میں تمام آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا گیا۔[ ]82اہل تشیع کے
بڑے علما مثًال سید ابو القاسم خوئی وغیرہ نے اہل سنت کی کتابوں میں مذکور روایتوں (جن میں سر فہرست صحیح
بخاری کی روایت ہے) کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے تعارض اور اختالف کو واضح کیا اور ساتھ ہی اہل سنت کی
کتابوں میں درج ان روایتوں کو بھی پیش کیا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو عہد نبوی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ مثًال
طبرانی اور ابن عساکر شعبی سے نقل کرتے ہیں ،انہوں نے کہا" :چھ انصاری صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن کو یکجا کر لیا
تھا ،ابی بن کعب ،زید بن ثابت ،معاذ بن جبل ،ابو الدردا ،سعد بن عبید اور ابو زید"۔[ ]83اس روایت کو پیش کرنے کے بعد ابو
القاسم خوئی نے لکھا ہے کہ ان روایتوں میں لفظ "جمع" کے معنٰی مکمل قرآن کو محفوظ کر لینے کے ہیں اور اس سے یہ
بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چند افراد نے مختلف جگہوں سے قرآن کو اکٹھا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کر لیا تھا۔[]84
عہد عثمانی میں نقل مصحف کی کارروائی کے متعلق خوئی کہتے ہیں کہ اس جمع سے مراد تمام مسلمانوں کو ایک مصحف
پر متحد کرنا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس کے سوا تمام مصاحف کو جالنے کا حکم جاری کیا تھا اور مسلمانوں کو اختالف
[]85
قرات سے حکمًا منع کیا۔
ملکہ بلقیس کا شاہ سلیمان کا دورہ۔ ایڈورڈ پوئنٹر 1890 ،۔تورات کی روایت میں ،اپنی سات سو بیویاں اور تین سو لونڈیوں کے ساتھ ،سلیمان [،]86
جو اپنے بوڑھاپے میں گمراہ ہوا اور بتوں کی پوجا کرتا تھا ،قرآن ،نبی بادشاہ کی حیثیت سے داخل ہوتا ہے جو لوگوں ،جنات اور فطرت پر حکمرانی
کرتا ہے۔
اسرائیلیوں کی خروج کی کہانیوں میں "دلدلی عالقہ" (یم سف) [(]87عبرانی تورات میں عارضی رکنے کی جگہ کے طور پر درج ہے) ،بحیرہ احمر کی
افسانوی کراسنگ میں بدل جاتا ہے۔ ()Aivazovsky(]88[)68-52 :26
قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔ اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ
رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی
میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان اور رمضان کے مہینوں میں قرآن کئی دفعہ
ختم کرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں
ہو سکی۔ پہلی صدی ہجری کے لکھے ہوئے قرآن جو ترکی کے عجائب گھر توپ کاپی میں ہیں یا ایران کے شہر مشھد میں
امام علی رضا علیہ السالم کے روضہ کے عجائب گھر میں ہیں ،ان میں بعینہ یہی قرآن خِط کوفی میں دیکھا جا سکتا ہے
جو آج جدید طباعت کے بعد ہمارے سامنے ہے۔ اسے سات منزلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے عالوہ اس کی ایک اور
تقسیم سیپاروں کے حساب سے ہے۔ سیپارہ کا لفظی مطلب تیس ٹکروں کا ہے یعنی اس میں تیس سیپارے ہیں۔ ایک اور
تقسیم سورتوں کی ہے۔ قرآن میں 114سورتیں ہیں جن میں سے کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی سورت
سورۃ البقرہ ہے۔ سورتوں کے اندر مضمون کو آیات کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ
آیات ہیں۔ نیچے اس تقسیم کو پیش کیا گیا ہے۔
تالوت کے لیے قرآن کو سات منازل (منزل کی جمع) میں
تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ایک منزل روزانہ
ابتدا ابتدا
تالوت کرنے سے ایک ہفتہ میں قرآن مکمل ہو جاتا ہے۔ ایک جز یا جز یا
ماہ میں قرآن کو مکمل تالوت کرنے کے لیے تیس سیپاروں سورت آیت سورت آیت منزل منزل
سیپارہ سیپارہ
(جز) کی تقسیم کی گئی ہے۔ نمبر نمبر نمبر نمبر
قرآن کی ایک سو چودہ سورتیں ہیں۔ ہر سورت بسم اللہ 1 17 15 1 1 1
الرحٰم ن الرحیم سے شروع ہوتی ہے سوائے سورۃ التوبہ کے۔ 75 18 16 142 2 2
سب سے پہلی سورت سورۃ الفاتحہ ہے اور سب سے آخری
1 21 17 4 253 2 3
سورۃ الناس ہے۔ سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے جس 1
1 23 18 92 3 4
کی دو سو چھیاسی آیات ہیں اور سب سے چھوٹی سورت
سورۃ الکوثر ہے جس کی صرف تین آیات ہیں۔ 21 25 24 4 5
19
بعض اوقات ایک سیپارہ (جز) کو دو حصوں میں تقسیم کیا 26 27 148 4
6
جاتا ہے جنہیں َأ ْح زاب کہا جاتا ہے جو ِح ْز ب کی جمع ہے۔ ہر 60 27 20 1 5
5
ِح ْز ب کو چار َأ ْر باع جو ُر ْبع کی جمع ہے 45 29 21 83 5 7
ہر سورت میں تین سے لے کر دو سو چھیاسی تک آیات ہیں۔ 31 33 111 6 8
عمومًا بڑی سورتیں شروع کے سیپاروں میں اور چھوٹی 22 2
1 35 88 7 9
سورتیں آخری سیپارے میں ہیں۔
22 36 23 41 8 10
قرآن میں چھ ہزار سے زاید آیات ہیں۔
32 39 24 6 94 9 11
قرآن کی جس سورت کا بیشتر حصہ ہجرت مدینہ سے قبل
47 41 25 1 10 11
نازل ہوا وہ مکی کہالتی ہیں اور جو ہجرت مدنیہ کے بعد
نازل ہوئیں وہ مدنی کہالتی ہیں 2 46 6 11 12
26 3
1 50 53 12 13
قرآن کا سب سے پہال ترجمہ فارسی میں ہوا جو حضرت
سلمان فارسی نے کیا تھا۔ 31 51 27 2 15 14
مغربی زبانوں میں سب سے پہلے الطینی زبان میں ترجمہ ہوا 1 58 28 7
[]89
جو رابرٹ کیٹون نے 1143عیسوی میں کیا تھا۔ 1 67 29
قرآن کا پہال انگریزی ترجمہ الیگزینڈر راوس نے 1649میں 2 78 30
کیا۔
مدرجہ باال تقاسيم ميں سے سورتوں اور آيات كی تقسيم توقيفی ہے۔ يہ اللہ تعاٰل ی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی
حيات مباركہ ميں كر دی تھی۔ اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔ ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے
حفاظ ،قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔ ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں
تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم
قرآن پر بہت كام كيا ہے اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔ حميد
الدين فراہی ،امين احسن اصالحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔ ان علما نے قرآن كی
سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
ان كے كام كا خالصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:
قرآن کے ِا ن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور
ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
پہال باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر
ختم ہوتا ہے۔ ِا س میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی
سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
تیسرے باب میں
یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔ ِا س میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور
آخر میں ایک ،یعنی احزاب مدنی ہے۔
پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔
ِا س میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر
ختم ہوتا ہے۔ ِا س میں سات مکی اور ِا س کے بعد دس مدنی ہیں۔
ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر
ناس پر ختم ہوتا ہے۔ ِا س میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
ِا ن
میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے اور ُا س میں سورتیں ِا سی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی
گئی ہیں۔
پہلے باب کا موضوع یہود و نصارٰی پر اتمام حجت ُ،ا ن کی جگہ بنی اسٰم عیل میں سے ایک
نئی امت کی تاسیسُ ،ا س کا تزکیہ و تطہیر اور ُا س کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
دوسرے
باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا
بیان ہے۔
تیسرے ،چوتھے ،پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور
تزکیہ و تطہیر ہے۔
ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ُ،ا ن پر اتمام حجتِ ،ا س کے
نتیجے میں ُا نہیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق
[]90
کی بشارت ہے۔ ِا سے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
نص قرانی
قران کا اسلوب شعری ونثری اسلوب سے الگ ہے بایں طور پر کہ کسی بھی سورت میں کوئی مقدمہ ،کوئی خاص موضوع
یا خاتمہ نہیں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایک آیت میں ایک موضوع ہوتا ہے جو اس کے بعد یا پہلی آیت سے بالکل مختلف ہوتا
ہے۔[]92 ہے۔[ ]91اسی لیے قران کی کوئی آیت اپنی ما قبل آیت کا خاتمہ نہیں ہوتی ہے اور نہ اپنیما بعد کا مقدمہ ہوتی
صحابہ کرام اور تابعین میں قران میں اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اسے 30برابر حصوں میں منقسم کر دیا تاکہ تالوت کرنے
میں آسانی ہو اور رمضان میں رومیہ ایک پارہ کی تالوت کی جا سکے۔ یہ ایک اجتہادی عمل ہے جس پر مسلمان مستحب
سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ بعد ازاں ہر پارے کو نصفین میں تقسیم کیا اور ہر نصف کو ربعین میں۔
قران کے 30پارے
.6جزء " ال .4جزء " لن تنالوا البر " .5جزء " .3جزء " تلك .1البسملة أو " الحمد .2جزء " سيقول
والمحصنات "
يحب اللہ "
" /كل الطعام "
الرسل "
السفهاء "
للہ "
النساء النساء آل عمران البقرة البقرة الفاتحة
.12جزء " وما .11جزء " .9جزء " قال .7جزء " لتجدن " .8 " /جزء " ولو أننا
.10جزء " واعلموا "
من دابة "
يعتذرون "
المأل "
نزلنا "
وإذا سمعوا "
األنفال
هود التوبة األعراف األنعام المائدة
.18جزء " قد .16جزء " قال ألم " .17 " /جزء " .15جزء " .13جزء " وما أبرئ
.14جزء " الـر "
اقترب للناس "
أفلح "
أما السفينة "
سبحان "
نفسي "
الحجر
المؤمنون األنبياء الكهف اإلسراء يوسف
.23جزء " وما .24جزء " فمن .20جزء " فما كان .21جزء " وال .19جزء " وقال
.22جزء " ومن يقنت "
أظلم "
أنزلنا "
تجادلوا "
جواب قومہ "
الذين ال يرجون "
األحزاب
الزمر يـس العنكبوت النمل الفرقان
.29جزء " .27جزء " قال
.30جزء " عّم " .28جزء " قد سمع "
.25جزء " إليہ يرد "
.26جزء " حـم "
تبارك "
فما خطبكم "
النبأ المجادلة األحقاف فصلت
المـلك الذاريات
سورہ فاتحہ،قران کی پہلی سورہ ہے۔ ترتیب نزولی میں اس کا نمبر 5واں ہے.
[]93
سورہ العلق کی ابتدائی چار آیات ،یہ سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات ہیں حاالنکہ ترتیب قران میں اس کا نمبر 96واں ہے۔
قران 114سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[ ]94[]93پھر یہ سورتیں آیا مکی ہیں یا مدنی ہیں۔ مکی
سورہ وہ کہالتی ہے جو ہجرت مدینہ سے قبل نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما عقیدہ ،توحید اور اس کی دالئل کے
مضمون شامل ہیں۔ یہ کل 86سورتیں ہیں۔[ ]93مدنی سورہ وہ ہے جو ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ ان
سورتوں میں عموما شریعت ،احکام اور حالل و حرام کے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل 28سورتیں ہیں۔[ ]93تالوت کی آسانی
کے لیے علما نے ان سورتوں کی 3اقسام کی ہیں۔ طوال مفصل یعنی سورہ بقرہ ،وآل عمران ،والنساء ،والمائدہ ،واالنعام،
واالعراف ،وبراءة۔ وسميت بالطوال لطولها ،والطوال جمع طولى۔[]95۔ اوساط مفصل جو طوال مفصل ،یہ وہ سورتیں ہیں
جن میں تقریبًا 100آیتیں ہیں۔[ ]95تیسری قسم ہے قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی سورتیں شامل ہیں جو اوساط
ہیں۔[]95 مفصل میں نہیں
قرآن کی زبان
قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری ،مراکشی،
لبنانی ،کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں ،قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے
بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح ،جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف
میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف
ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو مِد نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد
الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے ،قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔
قرآن میں قصے بھی ہیں اور تاریخی واقعات بھی ،فلسفہ بھی ملے گا اور منطق بھی ،پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور
عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس
زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لٰھ ذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے
بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی
زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے ،اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان
کو (رحِم مادر میں) جونک کی طرح معّلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس
”
“ نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے عالوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا
تھا۔[]96 دیا جو وہ نہیں جانتا
۔ اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو ،جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے ،وہاں ہر شخص کو اس کی
“ []97
کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔
”
حروف مقطعات (عربی :مقطعات ،حواميم ،فواتح )قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے
جاتے ہیں ،ان کو آیات مقطعات اور ان حروف کو حروف مقطعات کہا جاتا ہے ،مثًال الم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے
آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل چودہ حروف ہیں ا ،ل ،م ،ص ،ر ،ک ،ہ ،ی ،ع ،س ،ج ،ق ،ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ ان کا
حقیقی مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ ،ٹکڑے ،کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ
عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز ( )codeہیں۔[ ]98یہ حروف 29سورتوں کی پہلی آیت
کے طور پر ہیں اور سورۃ الشورٰی ( سورۃ کا شمار )42 :کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ
حروف پر مشتمل 30جوڑ ( )combinationsہیں۔ جو 29سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔
جدید ذرائع
انٹرنیٹ کی ترقی سے جہاں مواد کو لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے وہاں قرآن کے بارے میں ویب سائٹوں کی بہتات ہے
جس میں سے کچھ تو درست مواد فراہم کرتے ہیں مگر بیشتر غلطیوں سے پاک نہیں۔ اس میں کچھ تو قرآن کو یونیکوڈ
میں لکھنے کی مشکالت ہیں مگر کچھ اسالم کے خالف کام کرنے والوں کا کام ہے جس میں قرآن کے عربی متن اور اس کے
ترجمہ کو بدل کر رکھا گیا ہے۔ جس کا عام قاری اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ایسی سائٹس کی
طرف رجوع کریں جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ درست یا تصدیق شدہ ہیں۔
اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا
مرکزی ادارہ بنایا جائے جس میں تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوں اور ماہرین کسی بھی
قرآنی ویب سائٹ کی تصدیق کر سکیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر سکیں جو ان کی ویب سائٹ پر لگائی جائے۔ جو
کم از کم عربی متن کی تصدیق کرے جیسا پاکستان میں چھپے ہوئے قرآن کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق کہ کوئی
قرآنی ویب سائٹ مصدقہ ہے کہ نہیں ،اس مرکزی ادارہ کی ویب سائٹ سے ہو سکے۔ چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگائی
جا سکتی اس لیے لوگوں کی اپنی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرکزی ادارہ کی تصدق شدہ ویب سائٹ کا استعمال کریں۔ تا
حال ایسا کوئی ادارہ نہیں مگر مستقبل میں یہ نہائت ضروری ہوگا۔
تفسیر
تراجم
تفصیلی مضامین کے لیے ترجمہ قرآن ،تراجم قرآن کی فہرست ،اردو تراجم قرآن کی فہرست اور انگریزی تراجم قرآن مالحظہ کریں۔
قرآن کے تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ بڑی زبانوں میں تراجم قرآن ایک سے زائد
لوگوں نے مختلف ادوار میں کیے ہیں۔ قرآن کے یورپی اور دیگر کئی زبانوں میں غیر مسلمان افراد نے بھی ترجمہ کیا ہے۔
اسی طرح کچھ تراجم بنا عربی متن کے بھی شائع کیے گئے ہیں ،جبکہ رومن رسم الخط میں بھی مختلف وجوہات کی بنا
پر تراجم ہوئے ہیں۔
قرآن کے عربی کے درمیان میں فارسی ترجمہ ایل خانی زمانے میں۔
یورپی زبان میں قرآن کا پہال ترجمہL'Alcoran de Mahomet، André du Ryer، 1647 :۔
سرورق پہلے جرمنی زبان میں قرآن کا ترجمہ ()1772۔
تحریری اسلوب
کوفی رسم الخط ،آٹھویں یا نویں صدی۔
تالوت
تجوید
تفصیلی مضمون کے لیے علم تجوید مالحظہ کریں۔
قرآن کے الفاظ کو ان کے حروف کو زبان سے درست مخارج سے ادا کرنے کا علم ،تجوید کہالتا ہے۔
قرأت
تفصیلی مضمون کے لیے قرأت مالحظہ کریں۔
مزید دیکھیے
تفسیر قرآن
بیرونی روابط
القرآن (بشمول آٹھ اردو) 35زبانوں میں 140سے زائد ترجمہ ()/http://al-quran.info
اسالم اور قران پر اردو ،عربی اور انگريزی تحقيقی كام كا اہم ماخذ ()/http://www.al-mawrid.org
قران کاعربی سے دس دوسری زبانوں میں ترجمہ ـ اردو ،ہسپانوی ،فرانسیسی ،انگریزی ،جرمن ،روسی ،چینی ،یونانی،
ترکی ،اینڈوینشین)/http://www.islamway.com/SF/quran( ،
قرآن کی ایک بڑی ویب سائٹ جس میں مشہور تفاسیر اور مشہور قاریوں کی تالوت بھی شامل ہے۔ (عربی زبان میں)
()/http://quran.muslim-web.com
حوالہ جات
" .1اإلتقان في علوم القرآن ،عبد الرحمن بن أبي بكر ،جالل الدين السيوطي ،ج/1صhttps://web.archive.org/web/201103( "8
مارچ 2011میں اصل (h 01152729/http://www.al-eman.com/library/book/book-view.htm?BID=156#s1). 01
سے آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ 23 )ttp://www.al-eman.com/library/book/book-view.htm?BID=156#s1
جنوری .2019
https://web.archive.org/web/20( " محمد عنز: مقالة بجريدة األهرام اليومى بقلم: "محفوظ في الصــدور قبل السطور المصدر.5
میں2015 ستمبر 150929093027/http://digital.ahram.org.eg/articles.aspx?Serial=274033&eid=7266). 29
23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ )http://digital.ahram.org.eg/articles.aspx?Serial=274033&eid=7266( اصل
.2019 جنوری
كشف األسرار، م1999- هـ1420 الطبعة األولى، دار الكتب العلمية، لشمس الدين ابن الجزري، "منجد المقرئين ومرشد الطالبين.7
https://web.archive.org/web/20110209174449/h( "29: ص، إرشاد الفحول،17ص/1ج:للنسفي مع نور األنوار للمالجيون
http://www.qiraatt.com/qi( میں اصل2011 فروری ttp://www.qiraatt.com/qiraatt/mktba/play-781.html). 09
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ )raatt/mktba/play-781.html
https://web.archive.org/web/20170824205833/htt( " مركز الفتوى- إسالم ويب- "ترتيب الكتب السماوية حسب النزول.8
2017 اگست p://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=36291). 24
سے )http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=36291( میں اصل
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.آرکائیو شدہ
Watton, Victor, (1993)، A student's approach to world religions:Islam، Hodder & Stoughton, pg 1. ISBN 0- .9
340-58795-4
.Alan Jones, The Koran, London 1994, ISBN 1-84212-609-1, opening page .11
.Arthur Arberry, The Koran Interpreted, London 1956, ISBN 0-684-82507-4, p. x .12
.Chejne, A. (1969) The Arabic Language: Its Role in History, University of Minnesota Press, Minneapolis .13
Nelson, K. (1985) The Art of Reciting the Quran, University of Texas Press, Austin .14
Nelson, K. (1985) The Art of Reciting the Quran, University of Texas Press, Austin .15
Taji-Farouki, S. (ed.) (2004) Modern Muslim Intellectuals and the Quran, Oxford University Press, Oxford .16
ed: Andrew )۔Kermani, Naved. Poetry and Language. In: The Blackwell Companion to the Qur'an (2006 .17
Rippin. Blackwell Publishing
http://ia700205.us.archive.org/2( " بالغة القرآن الكريم في اإلعجاز إعرابا وتفسيرا بإيجاز"إعداد بهجت عبد الواحد اليخلي.18
)0/items/waq61637/01_61637.pdf
https://web.archive.org/web/20160329225713/http://w( " "للجامعيين دور القرآن الكريم في الحفاظ على اللغة العربية.21
http://www.almdares.net/vz/sh( میں اصل2016 مارچ ww.almdares.net/vz/showthread.php?t=48107). 29
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ )owthread.php?t=48107
https://web.archive.o( "أثر القرآن الكريم في اللغة العربية والتحديات المعاصرة_ د۔محمد يوسف الشربجي: "بحوث حول القرآن.22
rg/web/20171224213542/http://www.voiceofarabic.net/index.php?option=com_content&view=article&id
http://www.voiceofarabic.net/index.php?option=com_cont( میں اصل2017 دسمبر =11:69&Itemid=330). 24
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ )ent&view=article&id=11:69&Itemid=330
تيسير التحرير ألمير،389ص/1ج: بدر الدين الزركشي، البرهان في علوم القرآن.228ص/1ج: "اإلحكام في أصول األحكام لآلمدي.25
https://web.archive.org/web/20170602084757/http://waqfeya.com/book.php?bid=14( "،3ص/3 ج:بادشاہ
اخذ شدہ.سے آرکائیو شدہ )http://www.waqfeya.com/book.php?bid=1462( میں اصل2017 جون 62). 02
.2019 جنوری23 بتاریخ
CRCC: Center For Muslim-Jewish Engagement: Resources: Religious Texts" (https://web.archive.org/we" .29
b/20110823104808/http://www.usc.edu/schools/college/crcc/engagement/resources/texts/muslim/ha
http://www.usc.edu/school( میں اصل2011 اگست dith/bukhari/061.sbt.html#006.061.510). Usc.edu. 23
سے )s/college/crcc/engagement/resources/texts/muslim/hadith/bukhari/061.sbt.html#006.061.510
.2010 مارچ16 اخذ شدہ بتاریخ.آرکائیو شدہ
: أنظر.30
William Montgomery Watt in The Cambridge History of Islam، p.32
F. E. Peters (1991)، pp.3–5: “Few have failed to be convinced that … the Quran is … the words of
”.Muhammad, perhaps even dictated by him after their recitation
https://web.( ")334ص/2 (ج، الطبعة الثالثة، مطبعة عيسى الحلبي، محمد عبد العظيم الزرقاني، "مناهل العرفان في علوم القرآن.31
archive.org/web/20170608154141/http://www.al-mostafa.info/data/arabic/depot/gap.php?file=000112-
http://www.al-mostafa.info/data/arabic/depot/( میں اصل2017 جون www.al-mostafa.com.pdf) (PDF). 08
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ. ) سے آرکائیو شدہgap.php?file=000112-www.al-mostafa.com.pdf) (PDF
The Monotheists: Jews, Christians, and Muslims in Conflict and Competition. )۔Peters, Francis E. (2003 .32
Princeton University Press. ISBN 0-691-12373-X. pp.12 and 13
http://www.islamweb.net/media/index.php?pag( منهج السلف في اإليمان بالكتب السماوية: موقع المقاالت، إسالم ويب.33
http://www.islamweb.net/media/inde( آرکائیو شدہ26/07/2003 :) ۔ تاريخ التحريرe=article&lang=A&id=13343
]islamweb.net [Error: unknown archive URL ] بذریعہx.php?page=article&lang=A&id=13343) [Date missing
http://sssjournal.com/DergiTamDetay.aspx?ID=811&Detay=Ozet .34
https://dergipark.org.tr/tr/download/article-file/557354 .35
http://www.britannica.com/eb/article-68890/Quran ^ ا ب.37
75:17: القرآن.38
7:204 : القرآن.39
20:2 : القرآن.40
25:32 : القرآن.41
https://sorularlaislamiyet.com/cariye-ne-demektir-ve-cariyeler-ile-cinsel-iliski-gunah-midir-0 .42
https://web.archive.org/web/2011110314291( " أهمية القرآن الكريم في حياة األفراد واألمة: مركز الفتوى، "إسالم ويب.44
0/http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&lang=A&Option=FatwaId&Id=115465).
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&lang=A&Option=Fat( میں اصل2011 نومبر03
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ )waId&Id=115465
https://web.archive.org/web/2011110314291( " أهمية القرآن الكريم في حياة األفراد واألمة: مركز الفتوى، "إسالم ويب.45
0/http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&lang=A&Option=FatwaId&Id=115465).
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&lang=A&Option=Fat( میں اصل2011 نومبر03
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ )waId&Id=115465
http://www.islamweb.net/fatwa/i( القرآن الكريم يحتوي على أحكام العقائد والمعامالت واألخالق: مركز الفتوى، إسالم ويب.46
جمادى األولى19 األربعاء:) ۔ تاريخ التحريرndex.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&lang=A&Id=50814
http://web.archive.org/web/20180930202041/http://www.islamweb.net/f( آرکائیو شدہ2004 يوليو7 – 1425
بذریعہ وے بیک مشین atwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&lang=A&Id=50814) 2018-09-30
http://www.islamweb.net/fatwa/index.ph( القرآن اشتمل على ما في الكتب السابقة من كليات: مركز الفتوى، إسالم ويب.47
2011 اگست14 – 1432 رمضان14 األحد:) ۔ تاريخ التحريرp?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=162633
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=162633)( آرکائیو شدہ
]islamweb.net [Error: unknown archive URL [] بذریعہDate missing
http://www.islamweb.net/fatwa/index.ph( القرآن اشتمل على ما في الكتب السابقة من كليات: مركز الفتوى، إسالم ويب.48
2011 اگست14 – 1432 رمضان14 األحد:) ۔ تاريخ التحريرp?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=162633
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=162633)( آرکائیو شدہ
]islamweb.net [Error: unknown archive URL [] بذریعہDate missing
https://web.archive.org/web/20181001172450/http://porsem( " فقط یک آیہ یا سہ آیہ، "آیت الکرسی چند ایہ است.49
)http://porseman.org/q/show.aspx?id=94766( میں اصل2018 اکتوبر an.org/q/show.aspx?id=94766). 01
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page( ما صح في فضل آية الكرسي وما لم يصح: مركز الفتوى، إسالم ويب.55
آرکائیو2010 مئی13 – 1431 جمادى االول29 الخميس:=) ۔ تاريخ التحريرshowfatwa&Option=FatwaId&Id=135452
http://web.archive.org/web/20120704065653/http://www.islamweb.net:80/fatwa/index.php?page=( شدہ
بذریعہ وے بیک مشین2012 ئیجوال showfatwa&Option=FatwaId&Id=135452) 4
https://web.archive.org/web/20111210165450/ht( " تفسير سورة الناس، تفسير الطبري: المكتبة اإلسالمية، "إسالم ويب.58
tp://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=5117&idto=5117&bk_no=50&ID=5231).
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=5117&idto=5117&( میں اصل2011 دسمبر10
.2019 جنوری23 اخذ شدہ بتاریخ.سے آرکائیو شدہ )bk_no=50&ID=5231
https://bora.uib.no/bora-xmlui/bitstream/handle/1956/12367/144806851.pdf? .59
sequence=4&isAllowed=y
Meccan Trade And The Rise Of Islam, (Princeton, U.S.A: Princeton University Press, 1987 .60
https://repository.upenn.edu/cgi/viewcontent.cgi?article=5006&context=edissertations .61
https://dergipark.org.tr/tr/download/article-file/592002 .62
Dan Gibson: Qur'ānic geography: a survey and evaluation of the geographical references in the qurãn with .63
suggested solutions for various problems and issues. Independent Scholars Press, Surrey (BC) 2011,
ISBN 978-0-9733642-8-6
/https://www.zwemercenter.com/is-mecca-really-the-birthplace-of-islam .64
https://www.aymennjawad.org/23129/the-byzantine-arabic-chronicle-full-translation .65
https://www.youtube.com/watch?v=OD7Q1uo7OoA .68
. مؤسسة الوفاء: بيروت – لبنان.264 / 28 : بحار األنوار الجامعة لدرر أخبار األئمة األطهار.) هـ1414( محمد باقر، المجلسي.74
. مؤسسة الوفاء: بيروت – لبنان.391 / 35 : بحار األنوار الجامعة لدرر أخبار األئمة األطهار.) هـ1414( محمد باقر، المجلسي.75
. مؤسسة الوفاء: بيروت – لبنان.48 / 89 : بحار األنوار الجامعة لدرر أخبار األئمة األطهار.) هـ1414( محمد باقر، المجلسي.76
د۔ محمد: بقلم، )http://www.mokarabat.com/m1179.htm( جمع القرآن بين المصادر الُّس نية والمراجع الشيعية: مقربات.78
mokarabat.com ] بذریعہhttp://www.mokarabat.com/m1179.htm) [Date missing( عابد الجابري آرکائیو شدہ
][Error: unknown archive URL
د۔ محمد: بقلم، )http://www.mokarabat.com/m1179.htm( جمع القرآن بين المصادر الُّس نية والمراجع الشيعية: مقربات.79
mokarabat.com ] بذریعہhttp://www.mokarabat.com/m1179.htm) [Date missing( عابد الجابري آرکائیو شدہ
][Error: unknown archive URL
. دار النفائس: بيروت – لبنان. تاريخ الدولة العلّي ة العثمانية.) تحقيق الدكتور إحسان حقي، الطبعة العاشرة- 2006( محمد، فريد بك.80
.ISBN 9953-18-084-9
http://www.shiaweb.org/books/( "۔224 ص- "إعالم الَخ لف بمن قال بتحريف القرآن من أعالم الّس لف: شبكة الشيعة العالمية.82
http://www.shiaweb.org/books/tahrif/pa46.html)( ) الشيعة اإلمامية وجمع القرآن آرکائیو شدہtahrif/pa46.html
]shiaweb.org [Error: unknown archive URL [] بذریعہDate missing
د۔ محمد: بقلم، )http://www.mokarabat.com/m1179.htm( جمع القرآن بين المصادر الُّس نية والمراجع الشيعية: مقربات.83
mokarabat.com ] بذریعہhttp://www.mokarabat.com/m1179.htm) [Date missing( عابد الجابري آرکائیو شدہ
][Error: unknown archive URL
د۔ محمد: بقلم، )http://www.mokarabat.com/m1179.htm( جمع القرآن بين المصادر الُّس نية والمراجع الشيعية: مقربات.84
mokarabat.com ] بذریعہhttp://www.mokarabat.com/m1179.htm) [Date missing( عابد الجابري آرکائیو شدہ
][Error: unknown archive URL
د۔ محمد: بقلم، )http://www.mokarabat.com/m1179.htm( جمع القرآن بين المصادر الُّس نية والمراجع الشيعية: مقربات.85
mokarabat.com ] بذریعہhttp://www.mokarabat.com/m1179.htm) [Date missing( عابد الجابري آرکائیو شدہ
][Error: unknown archive URL
kutsalkitap.info/tr-1ki11.html .86
http://archive.wikiwix.com/cache/index2.php? .87
url=http%3A%2F%2Fba.21.free.fr%2Fseptuaginta%2Fexode%2Fexode_13.html
Slackman, Michael (3 April 2007). "Did the Red Sea Part? No Evidence, Archaeologists Say". The New .88
.York Times. Retrieved 27 October 2016
Islam: A Thousand Years of Faith and Power. New Haven: Yale )۔ اسالم۔ ایمان و قوت کے ہزار سال2002( .89
.University Press, p. 42
.91
Irene Blomm, William Theodore De Bary, Columbia University Press, 1990, p. 65 .92
https://web.( آرکائیو شدہ )http://www.holyquran.net/quran/index.html( فهرست القرآن الكريم: شبكة القرآن الكريم.94
بذریعہ وے archive.org/web/20171226182333/http://www.holyquran.net/quran/index.html) 2017-12-26
بیک مشین
الفاتحہ
البقرہ
آل عمران
النساء
المائدہ
االنعام
االعراف
االنفال
التوبہ
یونس
ہود
یوسف
الرعد
ابراہیم
الحجر
النحل
االسرا
الکہف
مریم
ٰط ٰہ
االنبیاء
الحج
المؤمنون
النور
الفرقان
الشعرآء
النمل
القصص
العنکبوت
الروم
لقمان
السجدہ
االحزاب
سبا
فاطر
ٰی س
الصافات
ص
الزمر
المؤمن
حم السجدہ
الشورٰی
الزخرف
الدخان
الجاثیہ
االحقاف
محمد
الفتح
الحجرات
ق
الذاریات
الطور
النجم
القمر
الرحٰم ن
الواقعہ
الحدید
المجادلہ
الحشر
الممتحنہ
الصف
الجمعہ
المنافقون
التغابن
الطالق
التحریم
الملک
القلم
الحاقہ
المعارج
نوح
الجن
المزمل
المدثر
القیامہ
الدہر
المرسالت
النباء
النازعات
عبس
التکویر
االنفطار
المطففین
االنشقاق
البروج
الطارق
االعلٰی
الغاشیہ
الفجر
البلد
الشمس
اللیل
الضحٰی
الم نشرح
التین
العلق
القدر
البینہ
الزلزال
العادیات
القارعہ
التکاثر
العصر
الہمزہ
الفیل
قریش
الماعون
الکوثر
الکافرون
النصر
لہب
االخالص
الفلق
الناس
:یہ خانہ
دیکھیں تبادلۂ خیال
)https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%B3%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%81:Sura&action=edit( ترمیم
Ben Bilal دن قبل بدست17
آخری ترمیم