You are on page 1of 10

‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬


Importance of modern dressing in Shariah
Abstract
Modern dressing is very sensitive issue among Muslims both for male and female,
it creates sometime confusion that what are our limits in dressing and which
dressing is actually called the modern dressing. So I try to address the confusion
about modern dressing in the light of Islamic “Shariah”

Islam is against the modern dressing but it says that it should not be out of your
limits.so the article deals to concept of modern dressing in Islam, dress code in
Islam as well as the usage of different types of dressing like thin, fitted, short and
expensive which is not according to Islam. Through this article I will clarify the
confusion which makes us confused about modern dressing and how much it is
allowed to follow.

There are no any restrictions to wear or not modern dressing but Islam provided
guidance about dressing. Islam told us the limits of dressing which have to be
followed by both for male and female. And these limits are the dress code by
Islam.

Key words: Modren, Dress, Shariah, use of dress, Muslims

‫ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫ن ٹ‬
‫الہ ور‬،‫سپ یری ئ ر یو ی ورس ی‬،‫اسالم ی ات‬،‫لی کچ رار‬

‫لباس کی تعریف‬

‫سورت االنعام میں لفظ یلبسکم لبس کے مادہ سے بنا ہے۔ جس کے اصلی معنی چھپا لینے اور ڈھانپ‬
‫لینے کے ہیں۔ اسی معنی سے لباس ان کپڑوں کہ کہا جاتا ہے جو انسانی بدن کو ڈھانپ لے۔‬

1
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫لباس انسان کے لئے باعث حسن بھی ہے اور جانوروں سے انسان کو ممتاز بھی کرتا ہے۔کبھی کسی‬
‫حیوان کو آپ لباس میں نہیں دیکھیں گئے یہ شعور ہللا نے انسانوں کو دیا تا کہ انکا ستر لوگوں پر واضح‬
‫نہ ہو۔‬

‫ہللا تعالی کا فرمان ہے کہ‬

‫خَی ٌر ؕ ٰذلک م ۡن ٰا ٰیت ہّٰللا‬ ‫ۡ‬


‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ َ ِ‬ ‫ک ۡ‬ ‫ار ۡی َس ۡو ٰاتِ ُکۡـم َو ِر ۡی ًشا ؕ َو لِبَاسُ التَّ ۡق ٰوی ۙ ٰذلِ َ‬ ‫ٰ‬
‫ٰیبَنِ ۡۤی ا َد َم قَ ۡد اَ ۡنزَ لنَا َعلَ ۡی ُکمۡ لِبَاسًا یُّ َو ِ‬
‫﴾لَ َعلَّہُمۡ یَ َّذ َّکر ُۡونَ ﴿‪۲۶‬‬

‫اے آدم ( علیہ السالم ) کی اوالد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی‬
‫تقوے کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے یہ ہللا ٰ‬
‫تعالی کی‬ ‫ٰ‬ ‫چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور‬
‫نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔‬

‫موالنا غالم رسول سیعدی لباس کی تعریف یوں کرتے ہیں۔‬

‫لباس کا لفظ لبس سے نکال ہے لبس کے ہیں چھپا لینا۔ ہر وہ چیز جو انسان کی قبیح چیز کو چھپا لے وہ‬
‫لباس کہالتی ہے۔‬

‫امام احمد بن حنبل متوفیـ ‪ 241‬ھ روایت کرتے ہیں ‪ :‬حضرت علی (رض) نے تین درہم کا ایک کپڑا‬
‫خریدا آپ نے اس کو پہننے کے بعد کہا ‪ :‬ہللا کے لیے حمد ہے جس نے مجھے ایسا لباس عطا کیا جس‬
‫سے میں لوگوں میں جمال حاصل کروں اور اس سے اپنی شرم گاہ کو چھپاتا ہوں‪ ،‬پھر کہا ‪ :‬میں نے‬
‫رسول ہللا (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (مسند احمد‪ ،‬ص ‪ ،157‬تفسیر‬
‫ابن ابی حات‬

‫امام راغب اصفہانی لباس کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ‬

‫ہر وہ چیز جو انسان کی بری اور ناپسندیدہ چیز کو چھپا لے اسے لباس کہتے ہیں شوہرـ اپنی بیویـ اور’’‬
‫بیوی اپنے شوہر کو بری چیزوں سے چھپا لیتی ہے‪ ،‬وہ ایک دوسرےـ کی پارسائیـ کی حفاظت کرتے‬
‫ہیں اور پارسائی کے خالف چیزوں سے ایک دوسرےـ کے لیے رکاوٹ ہوتے ہیں اس لیے انہیں ایک‬
‫دوسرے کا لباس فرمایا ہے‬

‫لِبَاسٌ لَّ ُك ْم َوَأنتُ ْم لِبَاسٌ نِ َسآِئ ُك ْم هُن‬

‫‪2‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‬


‫ن‬
‫ے‬ ‫ل ب اس کیسا ہ و ا چ اہ ی‬
‫ب ض‬ ‫ت ت تق‬ ‫ظ‬ ‫تق‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫روری‬ ‫ھی‬ ‫اس‬ ‫لب‬ ‫کا‬ ‫وی‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫ھ‬ ‫یسا‬ ‫ک‬ ‫اس‬ ‫ب‬ ‫ری‬
‫ہت ل‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫مراد‬ ‫سے‬ ‫اس‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫اس‬ ‫ب‬ ‫تل‬ ‫کا‬ ‫وی‬ ‫ب ہت تری ن ل ب اس‬
‫ن‬ ‫اگر ق وی کا ل اس ن ہ ہ و و لوگ ل اس پ ہن کر ب ھی رہ ن ہ معلوم ہ وے ہ ں۔ ی عنی ل اس اس ق درت ن‬
‫گ ا ہ و کہ ج سم کے خ دوخ ال‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫ب‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ب نہ ج ظ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن ں‬
‫ج‬
‫ے لع ت و ا سی عور وں پر و ل ب اس ہن کر ھی‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫اس ا ا ب اری ک ھی ا و کہ سم اہ ر و۔ ہللا عالی کا ار اد ہ‬ ‫بت‬ ‫ل‬ ‫ہوں۔‬ ‫ن مای ا‬
‫ن‬
‫گی محسوس ہ و ی ہ ی ں۔‬

‫انسان نے لباس کب پہننا شروع کیا؟ ضرورت سے فیشن تک کا سفر‬

‫۞ فَاَكَاَل م ۡنها فَبد َۡت لَهما س ۡو ٰا تُہما وطَفقَاـ ي ۡخص ٰفن َعلَ ۡيهما م ۡن ورق ۡالجـنَّ ‌ة وع ٰۤ‬
‫َصى ٰا َد ُم َربَّ ٗه فَ َغ ٰو ۖ‌‬
‫ى‬ ‫ِ َ ِ َّ َ ِ َ ِ َ‬ ‫َُ َ ِ َ ِ ِ‬ ‫َُ َ‬ ‫ِ َ َ‬

‫تو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہرـ ہوگئیں اور وہ اپنے (بدنوں) پر‬
‫بہشت کے پتّے چپکانے لگے۔ اور آدم نے اپنے پروردگارـ کے حکم خالف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے)‬
‫بےراہ ہو گئے‬

‫۞ ثُ َّم ۡاجت َٰبهُ َربُّ ٗه فَت َ‬


‫َاب َعلَ ۡي ِه َوه َٰدى‬

‫پھر ان کے پروردگار نے ان کو نوازا تو ان پر مہربانیـ سے توجہ فرمائیـ اور سیدھیـ راہ بتائی۔‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫پن ن‬ ‫ئ ن‬
‫ے ‪ -‬عرف برہ ن ہ۔ ل ی کن حالی ہ م طالعات کے‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ے‬ ‫گزار‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ن ی‬‫حالت‬ ‫طری‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫دگی‬ ‫ز‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫سان‬ ‫سے‪ ،‬اب ت دا ی ا‬
‫صدیوں ت ق ً‬
‫نن ش‬
‫ے ہ مارے آب اؤ اج داد ے ل ب اس پ ہ ا روع ک ی ا۔‬ ‫م طابق‪ ،‬ری ب ا ‪ 170,000‬سال پہل‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت ن‬ ‫ن خ خ‬ ‫ت‬ ‫ٹ‬ ‫ق‬
‫نن ہ عب ہ کا طواف کرے ا کا کہ ن ا ھا کہ ج یسا ہللا عالی‬
‫عرب می ں ی ہ رواج عام ہ و گ ی ا ھا کہ لوگ برہ ہ ا‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫احمد‬ ‫اسرار‬ ‫ر‬ ‫ڈاک‬ ‫ول‬
‫ن‬
‫ب‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے۔پ ھر ہللا عالی ے سورت العراف کی ی ہ آی ت ازل کی جس می ں‬
‫ت‬ ‫ے ہ یت رہ ت ا ہ‬
‫ے و ا سان کو ایس‬
‫ض‬ ‫ے ہ می ں پ ی دا ک ی ا ہ‬
‫ظ‬ ‫ن‬
‫ے جسم چ ھ پ ا سکو مہارا ست ر کسی پر اہ ر ن ہ ہ و۔ قرآن میں لباس کے حکم‬ ‫ل ب اس کا مﷺصد وا ح ہ و گ ی ا کہ ل ب اس ا ارا اکہ اپ‬
‫کے بعد لوگوں نے لباس پہننا شروع کیا اور عرب میں بھی آہستہ آہستہ برہنہ طواف کا رواج بھی ختم‬
‫ہوا۔لباس کا آغاز انسان کے ستر کی حفاظت اور انسان کر گرمی سردی سے بچانے کےلئے ہوا تھا لیکن‬
‫غیر مسلم اسکی اہمیت کو نہ سمجھ سکے تو انہوں نے اپنی تہذیب کے مطابقـ مختصر‪،‬تنگ اور باریک‬
‫لباس پہننا شروع کر دیا۔ برصغیر میں جب انگریزوں نے مسلمانوں کی تہذیب کو مٹانے کی کوشش کی‬
‫تو کچھ مسلمان اپنی کم علمی کی وجہ سے مغربی تہذیب سے متاثر ہوئے اور جدید لباس کا تصور آیا۔‬

‫لباس کی شرعی حثیت‬

‫‪3‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫اسالم زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں رہنمائیـ کرتا ہے‪ ،‬بشمول عوامی شائستگیـ کے معامالت۔‬
‫اگرچہ اسالم میں لباس کے انداز یا لباس کی قسم کے بارے میں کوئی مقررہ معیار نہیں ہے جو‬
‫مسلمانوں کو پہننا چاہیے‪ ،‬لیکن کچھ کم از کم تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا ضروریـ ہے۔‬

‫اسالم کے پاس رہنمائی اور احکام کے دو ذرائع ہیں‪ :‬قرآن‪ ،‬جسے ہللا کا نازل کردہ کالم سمجھا جاتا ہے‪،‬‬
‫اور حدیث ‪ -‬پیغمبر محمد کی روایات‪ ،‬جو انسانی رول ماڈل اور رہنما کے طور پر کام کرتی ہیں۔‬

‫یہ بھی یاد رکھناـ چاہیے کہ جب لباس پہننے کی بات آتی ہے تو اخالقیات کے ضابطے اس وقت بہت‬
‫آرام دہ ہوتے ہیں جب لوگ گھر اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جب مسلمان عوام میں ظاہر‬
‫ہوتے ہیں تو درج ذیل تقاضوں کی پیروی کرتے ہیں‪ ،‬نہ کہ اپنے گھروں کی رازداری میں۔‬

‫اسی طرح اسالم زیب و زینت سے منع نہیں کرتا لیکن اسالم کے اصولوں کی پاسداری کو اہم قرارـ دیتا‬
‫ہے۔لباس کی بھی کویئ قید نہیں کہ لباس کس طرح کا ہونا چاہیے لیکن اس کے کچھ اصول اور مقاصد‬
‫مقرر کیے ہیں جنکی پیرویـ سے لباس کی شرعی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔‬

‫اسالمی لباس بعض اوقات غیر مسلموں کی طرف سے تنقید کا باعث بنتا ہے۔ تاہم‪ ،‬لباس کے تقاضوں کا‬
‫مقصد مردوں یا عورتوں میں سے کسی کے لیے پابندی نہیں ہے۔ زیادہ تر مسلمان جو معمولی لباس‬
‫پہنتے ہیں وہ اسے کسی بھی طرح سے ناقابل عمل نہیں سمجھتے ہیں اور وہ زندگی کے تمام شعبوں‬
‫میں اپنی سرگرمیاں آسانی سے جاری رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔‬

‫لباس ایسا ہو خالف شرع نہ ہو۔‬

‫ص ْب ِن ع ِ‬
‫َاص ٍم ‪،‬‬ ‫َح َّدثَنَا ُعبَ ْي ُد بْنُ ِإ ْس َما ِعي َل ‪ ،‬ع َْن َأبِي ُأ َسا َمةَ ‪ ،‬ع َْن ُعبَ ْي ِد هَّللا ِ ‪ ،‬ع َْن ُخبَ ْي ِ‬
‫ب ب ِْن َع ْب ِد الرَّحْ َم ِن ‪ ،‬ع َْن َح ْف ِ‬
‫صاَل تَي ِْن نَهَى ع َْن‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َـم نَهَى ع َْن بَ ْي َعتَي ِْن َوع َْن لِ ْب َستَي ِْن َوع َْن َ‬ ‫ع َْن َأبِي هُ َر ْي َرةَ ‪َ ،‬أ ّن َرس َ‬
‫ُول هَّللا ِ َ‬
‫ص َّما ِء ‪َ ،‬و َع ِن‬ ‫ُب ال َّش ْمسُ ‪َ ،‬وع َِن ا ْشتِ َم ِ‬
‫ال ال َّ‬ ‫َطلُ َع ال َّش ْمسُ ‪َ ،‬وبَ ْع َد ْال َعصْ ِر َحتَّى تَ ْغر َ‬ ‫صاَل ِة بَ ْع َد ْالفَجْ ِر َحتَّى ت ْ‬
‫ال َّ‬
‫ضي بِفَرْ ِج ِه ِإلَى ال َّس َما ِء ‪َ ،‬و َع ِن ْال ُمنَابَ َذ ِة َو ْال ُماَل َم َسةِ‬
‫ب َوا ِح ٍد يُ ْف ِ‬
‫‪ .‬ااِل حْ تِبَا ِء فِي ثَوْ ٍ‬

‫نبی کریمـ صلی ہللا علیہ وسلمـ نے دو طرح کی خرید و فروخت اور دو طرح کے لباس اور دو وقتوں کی‬
‫نمازوں سے منع فرمایا۔ـ آپ صلی ہللا علیہ وسلمـ نے نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر‬
‫کے بعد غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ( اور کپڑوں میں ) اشتمال صماء یعنی ایک‬
‫کپڑا اپنے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ شرمگاہ کھل جائے۔ اور ( احتباء ) یعنی ایک کپڑے میں گوٹ‬
‫مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ـ (البخاری‪)584‬‬

‫‪4‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫انسان کی مجموعی شکل باوقارـ اور معمولی ہونی چاہیے۔ چمکدار‪ ،‬چمکدار لباس تکنیکی طور پر جسم‬
‫کی نمائش کے لیے درج باال تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے‪ ،‬لیکن یہ مجموعی طور پر شائستگیـ کے‬
‫مقصد کو ناکام بنا دیتا ہے اور اس لیے اس کی حوصلہـ شکنی کی جاتی ہے۔‬

‫خواتین کے لیے‪ :‬عام طور پر‪ ،‬شائستگی کے معیارات عورت کو اپنا جسم‪ ،‬خاص طور پر اپنے سینے‬
‫کو ڈھانپنے کا مطالبہـ کرتے ہیں۔ قرآن خواتین کو "اپنے سینے پر اپنے سر ڈھانپنے" کا مطالبہ کرتا ہے‬
‫‪ ،‬اور پیغمبرـ محمد نے ہدایت کی کہ خواتین کو اپنے چہرے اور ہاتھوں کے عالوہ اپنے جسم کو ڈھانپنا‬
‫چاہیے۔‬

‫مردوں کے لیے‪ :‬جسم پر ڈھکنے کی کم از کم مقدار ناف اور گھٹنے کے درمیان ہے۔ تاہم تقوی کے‬
‫طور پر پورے جسم کو ڈھانپنا الزمی ہے‬

‫لباس کا مقصد جسم کی نمائش نا ہو۔‬

‫یعنی لباس کافی ڈھیال ہونا چاہیے تاکہ جسم کی شکل کو خاکہ یا تمیز نہ ہو۔ مردوں اور عورتوں دونوں‬
‫کے لیے جلد سے تنگ‪ ،‬جسم کو گلے لگانے والے کپڑے کی حوصلہ شکنی کی جاتی‬

‫پیغمبر محمد صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک بار خبردارـ کیا تھا کہ بعد کی نسلوں میں‪ ،‬ایسے لوگ ہوں گے‬
‫جو "جو لباس پہنے پھر بھی ننگے ہوں گے۔" مردوں یا عورتوں میں سے کسی ایک کے لیے نظر آنے‬
‫واال لباس معمولی نہیں ہے۔ لباس اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ اس کی جلد کا رنگ نظر نہ آئے اور نہ ہی اس‬
‫کے نیچے جسم کی شکل ہو۔‬

‫عورتوں کا لباس مردوں کے لباس سے مشابہ نا ہو۔‬

‫ص ْب ِن ع ِ‬
‫َاص ٍم ‪،‬‬ ‫َح َّدثَنَا ُعبَ ْي ُد بْنُ ِإ ْس َما ِعي َل ‪ ،‬ع َْن َأبِي ُأ َسا َمةَ ‪ ،‬ع َْن ُعبَ ْي ِد هَّللا ِ ‪ ،‬ع َْن ُخبَ ْي ِ‬
‫ب ب ِْن َع ْب ِد الرَّحْ َم ِن ‪ ،‬ع َْن َح ْف ِ‬
‫صاَل تَي ِْن نَهَى ع َْن‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َـم نَهَى ع َْن بَ ْي َعتَي ِْن َوع َْن لِ ْب َستَي ِْن َوع َْن َ‬ ‫ع َْن َأبِي هُ َر ْي َرةَ ‪َ ،‬أ ّن َرس َ‬
‫ُول هَّللا ِ َ‬
‫ص َّما ِء ‪َ ،‬و َع ِن‬ ‫ُب ال َّش ْمسُ ‪َ ،‬وع َِن ا ْشتِ َم ِ‬
‫ال ال َّ‬ ‫َطلُ َع ال َّش ْمسُ ‪َ ،‬وبَ ْع َد ْال َعصْ ِر َحتَّى تَ ْغر َ‬ ‫صاَل ِة بَ ْع َد ْالفَجْ ِر َحتَّى ت ْ‬
‫ال َّ‬
‫ضي بِفَرْ ِج ِه ِإلَى ال َّس َما ِء ‪َ ،‬و َع ِن ْال ُمنَابَ َذ ِة َو ْال ُماَل َم َسة‬
‫ب َوا ِح ٍد يُ ْف ِ‬
‫‪ .‬ااِل حْ تِبَا ِء فِي ثَوْ ٍ‬

‫عبدالعزیز نے بیان کیا کہ قطعا ً نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا کہ جو مرد ریشمیـ لباس دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں اسے ہرگز نہیں پہن سکے گا۔‬

‫‪5‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫اسالم لوگوں کو اس بات پر فخر کرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ کون ہیں۔ مسلمانوں کو مسلمانوں جیسا‬
‫نظر آنا چاہیے نہ کہ اپنے اردگردـ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی محض تقلید پسند کریں۔ خواتین کو اپنی‬
‫نسوانیت پر فخر کرنا چاہیے اور مردوں کی طرح لباس نہیں پہننا چاہیے۔ اور مردوں کو چاہیے کہ وہ‬
‫اپنی مردانگیـ پر فخرـ کریں اور ان کے لباس میں عورتوں کی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس وجہ‬
‫سے‪ ،‬مسلمان مردوں کو سوناـ یا ریشم پہننے سے منع کیا گیا ہے‪ ،‬کیونکہ یہ نسائی لوازمات سمجھے‬
‫جاتے ہیں۔‬

‫لباس مذہب اور تہذیب کی عکاسی کرتا ہو۔‬

‫قرآن ہدایت دیتا ہے کہ لباس کا مقصد ہماری نجی جگہوں کو ڈھانپنا اور زینت بنانا ہے ۔ مسلمانوں کا‬
‫پہنا ہوا لباس صاف ستھرا اور مہذب ہونا چاہیے‪ ،‬نہ تو حد سے زیادہ فینسیـ اور نہ ہی چیتھڑے۔ کسی کو‬
‫ایسا لباس نہیں پہننا چاہئے جس کا مقصد دوسروں کی تعریف یا ہمدردیـ حاصل کرنا ہو۔‬

‫نبی ﷺ کا فرمان ہے وہ عورتیں جو کپڑے پہننے کا باوجودـ ننگی ہوتیـ ہیں نہ وہ جنت میں داخل ہونگیـ‬
‫ناہ اسکی خوشبو ہائیں گی۔ اس ھدیث مبارکہ میں ماڈرن لباس پہننے والیوں کےلئے واضح پیغام ہے۔‬

‫اسالمی لباس بعض اوقات غیر مسلموں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ تاہم‪ ،‬لباس کے تقاضوں کا‬
‫مقصد مردوں یا عورتوں میں سے کسی کے لیے پابندی نہیں ہے۔ زیادہ تر مسلمان جو معمولی لباس‬
‫پہنتے ہیں وہ اسے کسی بھی طرح سے ناقابل عمل نہیں سمجھتے ہیں اور وہ زندگی کے تمام شعبوں‬
‫میں اپنی سرگرمیاں آسانی سے جاری رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔‬
‫ش‬
‫ج دی د ل ب اس کی رعی ح ی ث ی ت‬

‫اسالم جدت کے خالف نہیں نہ ہی جدید لباس سے منع کرتا ہے لیکن جیسا کہ سوال آتا ہے پینٹ پہن‬
‫سکتے ہیں یا نہیں تو اسالم پینٹ سے منع نہیں کرتا لیکن پینٹ ایسی نوعیت کی ہو کہ جسم کے خدو خال‬
‫واضح نہ ہوں۔لیکن آجکل کے جدید لباس کی بات کریں تو وہ شرعی تقاضوں پر پورا اتراتا نظر نہیں آتا‬
‫کیونکہ ماڈرن لباس نے اسالم میں لباس کے مقصد کے ختم کر دیا ہے اور اس سے بے حیائی اور بے‬
‫پردگی کی وجہ سے اسالم اور علما اکرام ماڈرن لباس پر تنقید کرتےہیں۔ عورتیں مردوں کا سا لباس‬
‫پہننے میں فخر محسوس کرتی ہیں‪ ،‬برقعہ کی جگہ مختصرـ لباس نے لے لی ہے۔مرد ریشمیـ اور رنگ‬

‫‪6‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬
‫برنگے لباس پہنے نظر آتے ہیں مسلمان مغربی ٰ‬
‫تہذب کو ترقی سمجھ کر اپنا رہے ہیں لیکن اپنے لیئے‬
‫دوذخ کا سامان تیار کر رہے ہیں کیونکہ شریعت میں ایسے کسی لباس کی گنجائش نہیں ہے۔‬

‫مرد اور عورت دونوں کے لئے ماڈرن لباس کے بارے میں حکم‬

‫حیا کے قوانین مردوں کے مقابلے عورتوں کے لیے کچھ مختلف ہیں۔ دونوں کو ڈھیلے کپڑے پہننے کی‬
‫ضرورت ہے جو چمٹے نہ ہوں اور جسم کی شکل کو ظاہر نہ کریں۔ تاہم‪ ،‬جب کہ یہ خیال کیا جاتا ہے‬
‫کہ محمد نے عورتوں کو چہرے اور ہاتھوں کے عالوہ اپنے تمام جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا تھا‪،‬‬
‫مردوں کو صرفـ اپنی ناف اور گھٹنوں کے درمیان کا حصہ ڈھانپنے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم‪ ،‬زیادہ تر‬
‫جدید اسالمی معاشروں میں مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ٹانگیں اور بازوـ ڈھانپیں‪ ،‬جیسا کہ‬
‫خواتین ہیں۔ مردوں کے لیے ریشم اور سونا پہننا بھی منع تھا جب کہ خواتین کو انہیں پہننے کی اجازت‬
‫تھی۔ چونکہـ شائستگی کا حصہ کسی کی دولت کی نمائش نہیں کرتا ہے‪ ،‬اس لیے اسالمی لباس زیب تن‬
‫نہیں ہوتا یا مہنگا نہیں ہوتا‪ ،‬لیکن لباس عام طور پر سادہ ہوتا ہے ج و کہ اسالمی لباس کے اصولوں کے‬
‫مطابق ہیں۔‬

‫کافروں واال لباس جس طرح مردوں کے لیے ممنوع ہے‪ ،‬عورتوں کے لیے بھی کافرـ عورتوں کا لباس‬
‫ممنوع ہے۔ غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنا بھی مرد و عورت دونوں کے لیے حرام ہے ۔درندوں‬
‫اور چیتوں کی کھالوں کا لباس بھی دونوں کے لیے ممنوعـ ہے۔ لباس پہننے کا آغاز دائیں جانب سے کیا‬
‫جائے‪ ،‬اس حکم کے مخاطب بھی مرد و عورت دونوں ہیں۔ ۔ سادگی اختیار کرنے کے حکم میں مرد و‬
‫عورت دونوں شامل ہیں۔ عورتیں ہر قسم کے رنگ کا لباس پہن سکتی ہیں لیکن اس میں مردوں کی یا‬
‫غیر مسلموں کی مشابہت نہ ہو‬

‫لباس کے دو فائدے اور ماڈرن لباس‬

‫اسالم میں لباس کے دو فائدے بتائے گئے‪ ،‬ایک ستر پوشی‪ ،‬دوسرے سردی گرمی سے حفاظت اور‬
‫آرائش بدن اور پہلے فائدہ کو مقدم کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ انسانیـ لباس کا اصل مقصد ستر‬
‫پوشی ہے‪ ،‬اور یہی اس کا عام جانوروں سے امتیاز ہے‪ ،‬کہ جانوروں کا لباس جو قدرتی طورـ پر ان‬
‫کے بدن کا جزء بنادیا گیا ہے اس کا کام صرف سردی گرمی سے حفاظت یا زینت ہے‪ ،‬ستر پوشی کا‬
‫اس میں اتنا اہتمام نہیں‪ ،‬البتہ اعضائے مخصوصہ کی وضع ان کے بدن میں اس طرح رکھ دی کہ بالکل‬
‫کھلے نہ رہیں‬
‫‪7‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫اور حضرت آدم و حواء اور اغواء شیطانی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لباس کے ذکر کرنے میں اس‬
‫طرف اشارہ ہے کہ انسان کے لئے ننگا ہونا اور قابل شرم اعضاء کا دوسروں کے سامنے کھلنا انتہائی‬
‫ذلت و رسوائی اور بےحیائی کی عالمت اور طرح طرح کے شرو فسادـ کا مقدمہ ہے۔‬

‫انسان پر شیطان کا پہال حملہ اس کو ننگا کرنے کی صورتـ میں ہوا آج بھی نئی شیطانی تہذیب انسان کو‬
‫برہنہ یا نیم برہنہ کرنے میں لگی ہوئی ہے‬

‫اور یہی وجہ ہے کہ شیطان کا سب سے پہال حملہ انسان کے خالف اسی راہ سے ہوا کہ اس کا لباس‬
‫اتر گیا‪ ،‬اور آج بھی شیطان اپنے شاگردوں کے ذریعے جب انسان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو تہذیب و‬
‫شائستگی کا نام لے کر سب سے پہلے اس کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے عام سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا‬
‫کردیتا ہے اور شیطان نے جس کا نام ترقی رکھ دیا ہے وہ عورت کو شرم و حیاء سے محرومـ کرکے‬
‫منظر عام پر نیم برہنہ حالت میں لے آنے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوتی۔‬

‫ایمان کے بعد سب سے پہال فرض ستر پوشی ہے‬

‫شیطان نے انسان کے اس کمزور پہلو کو بھانپ کر پہال حملہ انسان کی ستر پوشی پر کیا‪ ،‬تو شریعت‬
‫اسالم جو انسان کی ہر صالح و فالح کی کفیل ہے‪ ،‬اس نے ستر پوشی کا اہتمام اتنا کیا کہ ایمان کے بعد‬
‫سب سے پہال فرض ستر پوشی کو قرار دیا‪ ،‬نماز‪ ،‬روزہ وغیرہ سب اس کے بعد ہے۔‬

‫حضرت فاروقـ اعظم (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب‬
‫کوئی شخص نیا لباس پہنے تو اس کو چاہئے کہ لباس پہننے کے وقت یہ دعا پڑھے‬

‫الحمد ہّٰلل الذی کسانی ما اواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی۔‬

‫یعنی شکر اس ذات کا جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعہ میں اپنے ستر کا پردہ کروں اور ”‬
‫زینت حاصل کروں “۔‬

‫صنَ ُكۡـم ِّم ۢۡن بَ ۡا ِس ُكۚـمۡ‌ فَهَ ۡل اَ ۡنـتُمۡ ٰش ِكر ُۡونَ‬ ‫ص ۡن َعةَ لَب ُۡو ٍ‬
‫س لَّـ ُكمۡ لِتُ ۡح ِ‬ ‫۞ َو َعلَّمۡ ٰنهُ َ‬

‫اور ہم نے دائود کو تمہارے لئے خاص لباس (زرہ) بنانا سکھایا تاکہ وہ تم کو جنگوں میں محفوظ‬
‫رکھے‪ ،‬پس کیا تم شکر ادا کرو‬
‫ن‬
‫ل ب اس اور س ت رسول ﷺ‬
‫‪8‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ج و ب ی کری م ﷺ کا پ س ن دی دہ ل ب اس ھا ج و آپﷺ پ ہ ن ا پ س ن د‬ ‫اس‬
‫ب ہ‬ ‫ل‬ ‫وہ‬ ‫مراد‬ ‫سے‬ ‫ت‬ ‫اس تاور س‬
‫لب ت‬
‫ے۔‬ ‫کرے ھ‬
‫طهَ ُر َوَأ ْ‬
‫طيَبُ َو َكفِّنُوا فِيهَا َموْ تَا ُك ْم»ـ‬ ‫يض فَِإنَّهَا َأ ْ‬
‫اب ْالبِ َ‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم قَا َل‪ْ :‬‬
‫«البَسُوا الثِّيَ َ‬ ‫َوعَن َس ُم َرة َأ َّن النَّبِ َّ‬
‫ي َ‬
‫‪َ .‬ر َواهُ َأحْ َم ُد َوالتِّرْ ِم ِذيُّ َوالنَّ َساِئ ُّي َوابْنُ َما َجه‬

‫حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ‪ ’’:‬سفید لباس پہنا کرو کیونکہـ وہ زیادہ پاکیزہ اور‬
‫زیادہ طیب ہے اور اپنے ُمردوں کو اسی میں کفنأو ۔‘‘ ‪ ،‬رواہ احمد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔‬

‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ْالقَ ِميصُ‬ ‫َكانَ َأ َحبَّ الثِّيَا ِ‬


‫ب ِإلَى َرسُو ِـل هَّللا ِ َ‬

‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ لباس قمیص تھی۔‬

‫ض ًعاـ هَّلِل ِ َوه َُو يَ ْق ِد ُر َعلَ ْي ِه َدعَاهُ هَّللا ُ يَوْ َم ْالقِيَا َم ِة َعلَى‬ ‫ك اللِّبَ َ‬
‫اس ت ََوا ُ‬ ‫ال‪َ :‬م ْن ت ََر َ‬ ‫َأ ّن َرسُو َـل هَّللا ِ َ‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم قَ َ‬
‫ان َشا َء يَ ْلبَ ُسهَا‬
‫ق َحتَّى يُ َخي َِّرهُ ِم ْن َأيِّ ُحلَ ِل اِإْل ي َم ِ‬
‫وس ْالخَاَل ِئ ِ‬
‫ُر ُء ِ‬

‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪” :‬جو شخص زینت کا لباس خالص ہللا کی رضا مندی اور اس‬
‫تعالی ایسے شخص کو قیامت‬
‫ٰ‬ ‫کی تواضع کی خاطر چھوڑ دے باوجود یہ کہ وہ اسے میسر ہے تو ہللا‬
‫کے دن تمام خالئق کے سامنے بالئے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے‪،‬‬
‫اور پہنے۔‬

‫‪9‬‬
‫جدید لباس کی شرعی حیثیت‬

‫حوالہـ جات‬
‫سورت االعراف ‪26:‬‬
‫سورت النور ‪31:‬‬
‫سورت البقرہ ‪187:‬‬
‫سورت االنبیا‪80:‬‬
‫ص ح ب خ اری‪584:‬‬
‫الحدی ث‪ ،‬یح‬
‫ص ح ب خ اری‪3054:‬‬
‫الحدی ث‪ ،‬یح‬
‫ص ح ب خ اری‪5832:‬‬
‫الحدی ث‪ ،‬یح‬
‫ص ح مسلم‪5413،‬‬‫الحدی ث‪ ،‬یح‬
‫ن‬
‫الحدی ث‪،‬س ن ابی داود‪4098،‬‬
‫ن‬
‫الحدی ث‪،‬س ن ابی داود‪4141،‬‬
‫عالمہ شبیر احمد عثمانی ‪،‬تفسیر عثمانی‪،‬تاج کمپنی لیمیٹڈ‪،‬الہور‪،‬ـ‪2001‬ص‪609:‬‬
‫زیب وزینت میں لباس کی شرعی حیثیت‪،‬آرٹیکل‪،‬سبین اکبر اسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسالمیات‪،‬بلوچستان‬
‫یونیورسٹیـ‬
‫ف‬ ‫ش‬ ‫ثن ف‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ع ما ی‪،‬م ی دمحم ی ع‪،‬معارف ال رآن‪،‬مکت ب ہ معارف ال رآن‪،‬کراچ ی‪،2002،‬ص‪406‬‬
‫ئ خ ت‬ ‫ف‬ ‫ث ئ‬
‫ن ا اللہ محمود‪ ،‬جمموعہ ت اوی براے وا ی ن‪،‬دار االش اعت‪،2002،‬ص‪17،‬‬
‫ٰ‬ ‫ش ثن ق‬
‫ب یر ع ما ی‪،‬ال رآن ال تحکی م‪،‬ص۔‪610‬‬
‫مش‬ ‫قق‬ ‫ف ن‬
‫کر و ظ ر‪،‬مرکزی ادارہ ح ی ات اسالمی‪ ،‬ی گن‪،2003،‬ص‪17‬‬
‫ی‬

‫‪،‬تفسیر تبیان القرآن‪ ،‬موالنا غالم رسول سیعدی‪،‬ناشر فرید بک سٹال‪،‬الہورـ‬


‫احکام ستر و حجاب‪،‬موالنا عبدالرحمن کیالنی‪،‬مکتبہـ السالم الہور‬

‫‪10‬‬

You might also like