Professional Documents
Culture Documents
Nahjul Blaghah Urdu
Nahjul Blaghah Urdu
ت ت تق ٹ ت ت ت ئ
إليه أحوالهم وفيها Oيقسمهم إلى أقسام
ت ٹ خ ن ت
اس کے بحعد ج ھاڑو دے ق ک سی م کردی ا کرے ھ
ے اور ث ن ی کے کڑے ن ے و سو ی دھاگہ اور رو ب ب ی ت المال می ں دا ل ہن وے ھ ق ج ے تکہ تامی ر الموم ی ن ت
ہ ( )1اری خ نکا مسلمہ
دے اور اس ب ی اد پرآپ ے ع مان کی ع طا کردہ ج اگی روں کو واپسی کا کم دی دی ا اور صد ہ کے عدل و ا صاف مکیت گواہ نی ت امت علی ق ے اکہ ی ہ زمی ن نروز ئی ث مازادا کرے ھ کردور عت
ق ن ے۔ ھ ں یہت ق
ئ ت ح س کے ةرزکو پ ئ
یمت سی ک مان کہ ے
ٹ گوا نواپس م سے ھر کےکاون ٹ ث خمان کے گ
ت ن ع ل ن ع
ال لے ل ی ا گ ی ا۔ل ی کن اس ئ
کا ض
ررحم ہی ں جک ی ا گ ی ا اور ان کے ب مہسسے م ق نن ہ بغر ا و ھا ج ہاں ی ت ی ٰ ب
عض ہ وا ضواہ ان ی ظامی ہ ش
اگر ہ ب
ض ت گ موں پ ن
ً ح
ے رحمانی ہ ا ہا ی ب ے کہے قی ہ سوال ا ھا دی ا ہ ک چ
ے۔پ ھر ی ہ کو ی ا ہ ر
ن ی پ ب کرل یحہ
خ ن م ل ال م اور ے ا
کرل ی ہ مع ں ق یم ھر ے ا ق
ق فپ کا ن ک سا
ب م تی و اء ر ے س ے
کی ہ ج ا ے اس رہ ا ظ
م یہ کا اوت پہ خ فاور لم کہ ے ہ ح وانل ال
ب نج ثتب
واب
کےئب اب اشے اسےتی ہ ج اگی ر کمت دا سے ع طا (ص) پر کب رحم ک ی ا گ ی ا ھا ج و وا نعا تدک کی ح دار ھی اور ئاس ن تں ت ی مہ رسول ثاکرم ت ے۔کل ب لی نال ت می ی ا حاد ہ ھی ہی ں ثہ ت ق
ے اور اس ے ای ک ی ری عت مر ب کی ج ا ی ہ ے ی ا ہ ر دور کے ل ے اور ک ی ا اوالد ع مان کامر ب ہ اوالد رسول (ص) سے بل د ر ہ کردی ھی۔اوالد ع مان و ح تدار ف ئھی ہ ہی ں ہ
کا محور سرکاری مصالح اورج ماع ی وا د ی ہ وے ہ ی ں ؟
میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ِ ِ ِذ َّميِت مِب ا أَقُ ُ ِ
ضامن ہوں اور جس شخص پر گذشتہ اقوام کی سزائوں ت لَه صَّر َح ْ يم) إِ َّن َم ْن َ ول َرهينَةٌ (وأَنَا به َزع ٌ َ
نے عبرتوں کو واضح کردیا ہو اسے تقوی شبہات میں الت ْق َوى َع ْن ت َح َجَزتْه َّ الْعِبر ع َّما ب ي َديه ِمن الْمثُاَل ِ
داخل ہونے سے یقینا روک دے گا۔ آگاہ ہو جائو آج َ ُ َ َنْي َ َ ْ َ َ
ت َك َهْيئَتِ َها َي ْو َم ِ ِ
تمہارے لئے وہ آزمائشی دور پلٹ آیا ہے جو اس وقت َت َق ُّح ِم الشُُّب َهات أَاَل وإِ َّن بَليَّتَ ُك ْم قَ ْد َع َاد ْ
تھا جب پروردگار نے اپنے رسول (ص) کوبھیجا تھا۔قسم ث اللَّه نَبِيَّه صلىهللاعليهوآله والَّ ِذي َب َعثَه بِاحْلَ ِّق لَتَُب ْلَبلُ َّن َب َع َ
ہے اس پروردگار کی جس نے آپ(ص) کو حق کے
ِ
ساتھ مبعوث کیا تھا کہ تم سختی کے ساتھ تہ و باال کئے َبْلَبلَةً ولَُتغَْر َبلُ َّن َغ ْر َبلَةً ولَتُ َساطُ َّن َس ْو َط الْق ْد ِر َحىَّت َيعُ َ
ود
جائو گے تمہیں باقاعدہ چھانا جائے گا اور دیگ کی
طرح چمچے الٹ پلٹ کیا جائے گا یہاں تک کہ اسفل َس َفلَ ُك ْم -ولَيَ ْسبِ َق َّن َسابُِقو َن َس َفلُ ُك ْم أ َْعاَل ُك ْم وأ َْعاَل ُك ْم أ ْأْ
اوراعلی اسفل بن جائے اور جو پیچھے
ٰ اعلی ہو جائے
ٰ صَر َّن َسبَّاقُو َن َكانُوا َسَب ُقوا -واللَّه صُروا -ولَُي َق ِّ َكانُوا قَ َّ
رہ گئے ہیں وہ آگے بڑھ جائیں اور جوآگے بڑھ گئے ہیں
وہ پیچھے آجائیں۔خدا گواہ ہے کہ میں نے نہ کسی کلمہ ت هِبَ َذا ت ك ْذبَةً -ولََق ْد نُبِّْئ ُ
ما َكتَمت ومْش ةً واَل َك َذب ِ
ُْ َ ْ ُ َ َ
س مُحِ َل ِ
ِ الْ َم َق ِام َ
کو چھپایا ہے اورنہ کوئی غلط بیانی کی ہے اور مجھے
اس منزل اور اس دن کی پہلے ہی خبردے دی گئی تھی۔ وه َذا الَْي ْوم -أَاَل وإ َّن اخْلَطَايَا َخْي ٌل مُشُ ٌ
ت هِبِ ْم يِف النَّا ِر - علَيها أَهلُها ِ -
یاد رکھو کہ خطائیں وہ سر کش سواریاں ہیں جن پر اہل ت جُلُ ُم َها َفَت َق َّح َم ْ وخل َع ْ ُ َ َْ ْ َ
خطا کو سوار کردیا جائے اور ان کی لگام کو ڈھیال
چھوڑ دیا جائے اور وہ سوار کو لے کرجہنم میں پھاند الت ْق َوى َمطَايَا ذُلُ ٌل مُحِ َل َعلَْي َها أ َْهلُ َها، أَاَل وإِ َّن َّ
پڑیں اورتقوی ان رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے اط ٌل ولِ ُك ٍّل أ َْه ٌل وأ ُْعطُوا أَ ِز َّمَتها فَأَورد ْتهم اجْل نَّةَ -ح ٌّق وب ِ
َ َ َ ََْ ُُ َ
جن پر لوگ سوار کیے جائیں اور ان کی لگام ان کے
ہاتھوں میں دے دی جائے تو وہ اپنے سواروں کو جنت اط ُل لََق ِدمياً َف َع َل -ولَئِ ْن قَ َّل احْلَ ُّق َفلَُرمَّبَا َ -فلَئِن أ َِمر الْب ِ
ْ َ َ
تک پہنچادیں۔
دنیا میں حق و باطل دونوں ہیں اور دونوں کے اہل بھی
ہیں۔اب اگر باطل زیادہ ہوگیا ہے تو یہ ہمیشہ سے ہوتا
چال آیا ہے اور اگر حق کم ہوگیا ہے تو یہ بھی ہوتا رہا
ہے
اور اس کے خالف بھی ہو سکتا ہے۔اگرچہ ایسا کم ہی ولَ َع َّل ولََقلَّ َما أ َْد َبَر َش ْيءٌ فَأَ ْقبَ َل!
ہوتا ہے کہ کوئی شے پیچھے ہٹ جانے کے بعد دوبارہ
منظر عام پرآجائے ۔ قال السيد الشريف وأقول إن يف هذا الكالم األدىن من
سیدرضی :اس مختصر سے کالم میں اس قدر خوبیاں
پائی جاتی ہیں جہاں تک کسی کی داد و تعریف نہیں پہنچ مواقع اإلحسان ما ال تبلغه مواقع االستحسان وإن حظ
سکتی ہے اور اس میں حیرت و استعجاب کا حصہ
العجب منه أكثر من حظ العجب به وفيه مع احلال اليت
پسندیدگی کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔اس میں فصاحت
کے وہ پہلو بھی ہیں جن کو کوئی زبان بیان نہیں کر وصفنا زوائد من الفصاحة ال يقوم هبا لسان وال يطلع
سکتی ہے اور ان کی گہرائیوں کا کوئی انسان ادراک
نہیں کر سکتا ہے۔اور اس حقیقت کو وہی انسان سمجھ فجها إنسان وال يعرف ما أقول إال من ضرب يف هذه
سکتا ہے جس نے فن بالغت کا حق ادا کیا ہو اور اس الصناعة حبق وجرى فيها على عرق (وما َي ْع ِقلُها إِاَّل
کے رگ و ریشہ سے با خبر ہو۔ اور ان حقائق کو اہل
علم کے عالوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ الْعالِ ُمو َن).
اسی خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو تین حصوں ومن هذه الخطبة وفيها يقسم الناس إلى ثالثة أصناف
میں تقسیم کیا گیا ہے
ِ ِ
وہ شخص کسی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں رکھتا بيع جَنَا وطَال ٌاع َس ِر ٌ ُشغ َل َم ِن اجْلَنَّةُ والن ُ
َّار أ ََم َامه َ -س ٍ
ِ ِ
ضلَّةٌ صٌر يِف النَّا ِر َه َوى الْيَم ُ
جس کی نگاہ میں جنت و جہنم کا نقشہ ہو۔ تیز رفتاری
سے کام کرنے واال نجات پا لیتا ہے اور سست رفتاری ال َم َ ِّم ُ
ني والش َ وم َق ِّ
بَطيءٌ َر َجا ُ
اب وآثَ ُاريق الْو ْسطَى ِهي اجْل َّادةُ َعلَْيها باقِي الْ ِكتَ ِ َِّ
سے کام کرکے جنت کی طلب گاری کرنے واال بھی امید َ َ َ َ والطر ُ ُ
وار رہتا ہے لیکن کوتاہی کرنے واال جہنم میں گر پڑتا
السن َِّة النُّب َّو ِة ِ -
ومْن َها َمْن َف ُذ ُّ
ہے۔دائیں بائیں گمراہیوں کی منزلیں ہیں اور سیدھا راستہ ُ
صرف درمیانی راستہ ہے۔ای راستہ پر رہ جانے والی
کتاب خدا اور نبوت کے آثار ہیں اور اسی سے شریعت
کا نفاذ ہوتا ہے
ِ
صريُ الْ َعاقبَ ِة َهلَ َوإِلَيها م ِ
اور اسی کی طرف عاقبت کی بازگشت ہے۔غلط ادعا
ا ْفرَت ى) خاب َم ِن
ك َم ِن َّاد َعى و ( َ َْ َ
کرنے واال ہالک ہوا اور افترا کرنے واال ناکام
ِ
ك و َك َفى بِالْ َم ْرء َج ْهاًل أَاَّل ِ
ونامرادہوا۔جس نے حق کے مقابلہ میں سر نکاال وہ ہالک ص ْف َحتَه ل ْل َح ِّق َهلَ َ َم ْن أَبْ َدى َ
ہوگیا اور انسان کی جہالت ()1کے لئے اتنا ہی کافی ہے ِ ِ
کہ اسے اپنی ذات کا بھی عرفان نہ ہو۔ جو بنیاد تقوی َص ٍل واَل يَظْ َمأُ الت ْق َوى سْن ُخ أ ْ ك َعلَى َّ ف قَ ْد َره اَل َي ْهل ُ َي ْع ِر َ
ذات علَيها زرع َقوٍم -فَاسترِت وا يِف بيوتِ ُكم (وأ ِ
َصل ُحوا َ
پرقائم ہوتی ہے اس میں ہالکت نہیں ہوتی ہے اوراس کے
ہوتے ہوئے کسی قوم کی کھیتی پیاس سے برباد نہیں
ُُ ْ ْ َْ ُ َ َْ َْ ُ ْ
ہوتی ہے۔اب تم اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ جائو اور َبْينِ ُك ْم) -والت َّْوبَةُ ِم ْن َو َرائِ ُك ْم واَل حَيْ َم ْد َح ِام ٌد إِاَّل َربَّه واَل
اپنے باہمی امور کی اصالح کرو۔توبہ تمہارے سامنے
َيلُ ْم اَل ئِ ٌم إِاَّل َن ْف َسه.
ہے۔ تعریف کرنے والے کافرض ہے کہ اپنے رب کی
تعریف کرے اور مالمت کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے
ق نفس خکیش مالمت فکرے۔
ت ن ف حت ن ن
ے کہنوہ ہ ی ے ل ی کن ا سان کی د س
ق ا کرد عت ودی ان عر سارا اک ر رو ں م طرت ے اور اس کی ن ے پ ن اہ صال ئن
ہ
ش م
ن نبس ی پ ن ہ قی ہ ن ن تی ی مالک ب ای اس ہ
ہ ب
وں کا
ن ی ش ہ ب ت سان کو
ٹ ےا
ات ئ ن
)مالک کا ف
ت (1
ے۔ سی اعرےک ہ
ے کہ ا سان کو ا ی ی درو یمت کا ا دازہ ہ و ک ج
ے و ج ہالت کی ب د ری ن م زل ہ مج
ے کو ی چ ارہ ی ھت ا ہ ے اور می ہ اپ ان صالحی وں سے ا دہ ہی ں ا ھا ا ہ
خ
ن پن ے: ک ی ا وب کہا ہ
ف ن ا یہ ی ت
ذات کاقا سان کو عر ان ہ ہ وا
خ اک پ ھر خ اک ھی او ات سے آگے ن ہ ب ڑھی
()17
(ان نا اہلوں کے بارے میں جوصالحیت کے بغیر فیصلہ ()17
کا کام شروع کر دیتے ہیں اور اسی ذیل میں دوبد ترین
اقسام مخلوقات کا ذکربھی ہے) عليهالسالم ومن كالم له
قسم اول :یاد رکھو کہ پروردگار کی نگاہ میں بد ترین في صفة من يتصدى للحكم بين األمة وليس لذلك
خالئق دو طرح کے افراد ہیں۔وہ شخص جسے پروردگار
نے اسی کے رحم و کرم()1پرچھوڑدیا ہے اور وہ بأهل وفيها :أبغض الخالئق إلى اللَّه صنفان
درمیانی راستہ سے ہٹ گیا ہے۔صرف بدعت کا دلدادہ
ہے اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔یہ دوسرے ض اخْلَاَل ئِ ِق إِىَل اللَّه َر ُجاَل ِن َ -ر ُج ٌل الصنف األولَّ :
إن أ َْبغَ َ
افراد کے لئے ایک مستقل فتنہ ہے اور سابق افراد کی السبِ ِيل َم ْشغُ ٌ
وف ص ِد َّ ِ ِ
َو َكلَه اللَّه إِىَل َن ْفسه َف ُه َو َجائٌر َع ْن قَ ْ
ہدایت سے بہکا ہوا ہے۔اپنے پیروکاروں کوگمراہ کرنے
ِ ِ ٍ ِ ٍ
واال ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی یہ ض ٌّ
ال ضاَل لَة َ -ف ُه َو فْتنَةٌ ل َم ِن ا ْفتَنَتَ بِه َ ود َعاء َ بِكَاَل ِم بِ ْد َعة ُ
دوسروں کی غلطیوں کا بھی بوجھ اٹھانے واال ہے اور
ضلٌّ لِ َم ِن ا ْقتَ َدى بِه يِف َحيَاتِه عن ه ْد ِي من َكا َن َقبلَه -م ِ
ُ ْ َْ َ َْ
ان کی خطائوں میں بھی گرفتار ہے۔
ئ
ال َخطَايَتا َغرْيِ ه َر ْه ٌن خِب َ ِطيئَتِه. وب ْع نَد نَوفَاتِه -مَحَّ ٌ
َ
ت قق ن ن ش خ
نطرحف قکی کو ی پ اب ن دی ن ہ ہ و حاال کہ در ح ی ت ی ہ ب د ری ت
کے حال پر چ ھوڑ دے اوروہ ج و چ اہ ی ں کری ں کسی ت
ے کہ پروردگار ا ہی ں ان ن ()1ج اہ لل ا سا وں نکی ہ می ہ فی ہ واہ بش ہ و ی ہ
ناس ئ نسے و ی قات کوسلب کرکے اس کے حال پر چ ھوڑ دی ا و ے ورن ہ گر
ے رحم و کرم کے سای ہ می ں رکھ ے کہ مالک اسے پا ے۔ا قسان کین الح و ہبود اسی ی ت ہ
ں م عذاب ا ٰہی فہ
ص ل
ے اور پروردگار اس کے ے گا کہ اس ے کا ات کا ا ت دار حا ل کرل ی ا ہ ے۔اگرچ ہ اسے احساس ی ہی رہ وہ محوں می ں رعون' ارون' مرود' یزی د' حج اج اور م وکل ب ن سکت ا ہ
ے۔ ان
ب ہ ہر م ادہ یز ہت ب ر پ حال
قسم دوم :وہ شخص جس نے جہالتوں()1کو سمیٹ لیا ہے
اور انہیں کے سہارے جاہلوں کے درمیان دوڑ لگا رہا وض ٌع يِف ُج َّه ِال األ َُّم ِة الصنف الثاين :ورجل قَمش جهاًل م ِ
َ ُ ٌ َ َ َْ ُ
ہے۔فتنوں کی تاریکیوں میں دوڑ رہا ہے اور امن و صلح اش الْ ِفْتنَ ِة َع ٍم مِب َا يِف َع ْق ِد اهْلُْدنَِة قَ ْد مَسَّاهَع ٍاد يِف أَ ْغبَ ِ
کے فوائدسے یکسر غافل ہے۔انسان نما لوگوں نے اسکا
استَكَْثَر ِم ْن مَجْ ٍع َما قَ َّل ِ ِ
نام عالم رکھ دیا ہے حاالنکہ اس کا علم سے کوئی تعلق س بِه بَ َّكَر فَ ْ أَ ْشبَاه النَّاس َعالماً ولَْي َ
نہیں ہے۔صبح سویرے ان باتوں کی تالش میں نکل پڑتا
آج ٍن وا ْكتََثَر ِم ْن ِمْنه خير مِم َّا َكثر حىَّت إِ َذا ارَتوى ِمن م ٍاء ِ
ہے جن کا قلیل ان کے کثیر سے بہتر ہے۔یہاں تک کہ ْ َ َْ َُ َ ٌَْ
س اضياً َ ِ ِ ِ ِ َّاس قَ َِغرْيِ طَائِلٍ َجلَس َبنْي َ الن ِ
ضامناً لتَ ْخليص َما الْتَبَ َ
جب گندہ پانی سے سیراب ہو جاتا ہے اور مہمل اوربے
فائدہ باتوں کو جمع کرلیتا ہے تو لوگوں کے درمیان
َ
ِ ِ ِ
قاضی بن کر بیٹھ جاتا ہے اوراس امر کی ذمہ داری لے ت به إ ْح َدى الْ ُمْب َه َمات َهيَّأَ هَلَا َح ْشواً َعلَى َغرْيِ ه فَِإ ْن َنَزلَ ْ
ات يِف ِمثْ ِل س الشُّبه ِ ِ ِ
َرثًّا م ْن َرأْيِه مُثَّ قَطَ َع بِه َف ُه َو م ْن لَْب ِ ُ َ
لیتا ہے کہ جو امور دوسرے لوگوں پر مشتبہ ہیں وہ
انہیں صاف کردیگا۔اس کے بعد جب کو ئی مبہم مسئلہ
َخطَأَ -فَِإ ْن ِ
آجاتا ہے تو اس کے لئے بے سود اورفرسودہ دالئل کو اب أ َْم أ ْ نَ ْس ِج الْ َعْن َكبُوت -اَل يَ ْد ِري أ َ
َص َ
َخطَأَ وإِ ْن أ ْ
اکٹھا کرتا ہے اور انہیں سے فیصلہ کر دیتا ہے۔یہ شبہات
َخطَأَ َر َجا أَ ْن يَ ُكو َن اف أَ ْن يَ ُكو َن قَ ْد أ ْ اب َخ َ َص َ
أَ
میں اسی طرح گرفتار ہے جس طرح مکڑی اپنے جالے
اش ر َّكاب ع َشو ٍ ٍ ِ
میں پھنس جاتی ہے۔اسے یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ ات اب َجاه ٌل َخبَّا ُط َج َهااَل ت َع ٍ َ ُ َ َ َص َ قَ ْد أ َ
صحیح فیصلہ کیا ہے یا غلط۔اگر صحیح کیا ہے تو بھی ضر ٍس قَ ِ ِ ِِ
ڈرتا ہے کہ شائد غلط ہو۔اور اگر غلط کیا ہے تو بھی یہ اط ٍع - ض َعلَى الْع ْل ِم ب ْ مَلْ َي َع َّ
امید رکھتا ہے کہ شائد صحیح ہو ۔ ایسا جاہل ہے جو
جہالتوں میں بھٹک رہا ہے اور ایسا اندھا ہے جو
اندھیروں کی سواری پر سوار ہو۔نہ علم میں کوئی حتمی
ن ف ت ت سمجھا ہےئبات ش ئ ت ق
ن ت
ے ہ ی ںشکہ ا ہی ں یش صلہ کرے کا ح فق لوگ گا وں ی ا ہر می ںخاسی ب ات کواپ ن ا ام ی از صورکر ق ن عض ( )1ق اض ی وں کی ہ سم ر دور قم ں رہ ی ے اورن ر عالق ہ م ں ا ی ا قی ے۔ب
خ خ ت ی پ ج ہ ہ ہ ی ہ ی ص
تی ہی سم ری ح سے ئ
روع ہ و کرس نان ا راد ئ ے اور ے ئجس ے دی ن دا کو ب اہفاور لق دا کو گضمراہ نک ی ا ہ ے۔ یتہی وہ سم نہ ے اگرچ ہ ان می کسی سم کی ئصالحی ت ہنی ں ہ تحا پل نہئ
ے کے ے کو ے را کی سی ک ہ ن اور ں ہ ے و ہ ں یہ ی را سے صلہ ی کے طرح سی ک ں م لہ س م ے ا اور ں ہ ےکرد طے ی اآسا کو ل اس کے دوسروں و ج ے ی گ چ
ت ہ ک
ل ن ی ی پ ی ی ب م ہ
ت ی ار ہ وے ہ ی ں۔
اورنہ کسی حققت کو پرکھا ہے۔روایات کو یوں اڑا دیتا
ِ الر ِ ِ الرواي ِ
ہے جس طرح تیز ہوا تنکوں کو اڑا دیتی ہے۔خدا گواہ ص َدا ِر يم اَل َمل ٌّي واللَّه بِِإ ْ يح اهْلَش َ ات ذَ ْر َو ِّ يَ ْذ ُرو ِّ َ َ
ہے کہ یہ ان فیصلوں کے صادر کرنے کے قابل نہیں َما َو َر َد َعلَْيه -واَل أ َْهل لِ َما ُقِّر َظ بِه اَل حَيْسب الْعِْلم يِف
ہے جو اس پر وار د ہوتے ہیں اور اس کام کا اہل نہیں َ ُ َ ٌ
ہے جو اس کے حوالہ کیا گیا ہے۔جس چیز کوناقابل توجہ ِ
َن ِم ْن َو َراء َما َبلَ َغ َم ْذ َهباً َش ْي ٍء مِم َّا أَنْ َكَره -واَل َيَرى أ َّ
لِغَرْيِ ه -وإِ ْن أَظْلَ َم َعلَْيه أ َْمٌر ا ْكتَتَ َم بِه لِ َما َي ْعلَ ُم ِم ْن َج ْه ِل
سمجھتا ہے اس میں علم کا احتمال بھی نہیں دیتاہے
اوراپنی پہنچ کے ماوراء کسی اور رائے کا تر بھی نہیں
کرتا ہے۔اگر کوئی مسئلہ واضح نہیں ہوتا ہے تواسے ِّماءُ -وَت َع ُّج ِمْنه ضائه الد َ
َن ْف ِسه -تَصرخ ِمن جو ِر قَ ِ
ُْ ُ ْ َ ْ َ
چھپا دیتا ہے کہ اسے اپنی جہالت کا علم ہے۔ناحق بہائے
ہوئے خون اس کے فیصلوں کے ظلم سے فریادی اور يشو َن ُج َّهااًل يث إِىَل اللَّه أَ ْش ُكو ِ -م ْن َم ْع َش ٍر يَعِ ُ الْ َم َوا ِر ُ
غلط تقسیم کی ہوئی میراث چال رہی ہے۔میں خدا کی اب إِ َذا ضاَّل اًل -لَْيس فِي ِهم ِس ْلعةٌ أ َْبور ِمن الْ ِكتَ ِ ومَيُوتُو َن ُ
بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے َ ْ َ َُ َ
ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مر جاتے ہیں تو ضاللت تُلِ َي َح َّق تِاَل َوتِه -واَل ِس ْل َعةٌ أَْن َف ُق َبْيعاً -واَل أَ ْغلَى مَثَناً
اضعِه -واَل ِعْن َد ُه ْم أَنْ َكُر ِم َن ف عن مو ِ ِ ِ ِ ِ
کے ساتھ۔ان کے نزدیک کوئی متاع کتاب خدا سے زیادہ
بے قیمت نہیں ہے اگر اس کی واقعی تالوت کی جائے م َن الْكتَاب إ َذا ُحِّر َ َ ْ َ َ
اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اورفائدہ مند ف ِم َن الْ ُمْن َك ِر!
وف واَل أ َْعَر ُالْمعر ِ
نہیں ہے اگر اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے۔ ان
َ ُْ
کے لئے معروف سے زیادہ منکر کچھ نہیں ہے اور ()18
منکر سے زیادہ معروف کچھ نہیں ہے۔
عليهالسالم ومن كالم له
()18
آپ کا ارشاد گرامی
في ذم اختالف العلماء في الفتيا
ٰ
فتوی کے بارے میں اور (علماء کے درمیان 2اختالف وفيه يذم أهل الرأي ويكل أمر الحكم في أمور الدين
اسی میں اہل رائے کی مذمت اور قرآن کی مرجعت کا
للقرآن
ذکر کیا گیا ہے)
مذمت اہل رائے: ذم أهل الرأي
ان لوگوں کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی ِ ِ تَ ِرد علَى أ ِ ِ
مسئلہ کا فیصلہ آتا ہے تو وہ اپنی رائے سے فیصلہ کر َح َك ِام َفيَ ْح ُك ُم َحده ُم الْ َقضيَّةُ يِف ُح ْك ٍم م َن األ ْ ُ َ َ
ِ
ضيَّةُ بِ َعْين َها َعلَى َغرْيِ ه َفيَ ْح ُك ُمك الْ َق ِ ِ ِ
دیتا ہے اور پھر یہی قضیہ بعینہ دوسرے کے پاس جاتا
ہے تو وہ اس کے خالف فیصلہ کر دیتا ہے۔اس کے بعد
ف َيها بَِرأْيِه مُثَّ تَ ِر ُد ت ْل َ
ك ِعْن َد ا ِإل َم ِام الَّ ِذي ِ ِ خِبِ ِ ِ
تمام قضاة اس حاکم کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے ضاةُ بِ َذل َ ف َيها اَل ف َق ْوله مُثَّ جَيْتَ ِم ُع الْ ُق َ
انہیں قاضی بنایا ہے تو وہ سب کی رائے کی تائید کر
اح ٌد ونَبُِّي ُه ْماسَت ْقضاهم َفيص ِّوب آراءهم مَجِ يعاً وإِهَل هم و ِ
دیتا ہے جب کہ سب کا خدا ایک' نبی ایک اور کتاب ایک ُُ ْ َ ْ َ ُ ْ ُ َ ُ َ َُ ْ
ہے۔تو کیا خدا ( )1ہی نے انہیں اختالف کا حکم دیا ہے اح ٌد!اح ٌد وكِتَابهم و ِ وِ
ُُ ْ َ َ
اور یہ اس کی اطاعت کر رہے ہیں یا اس نے انہیں ِ ِ اِل
اختالف سے منع کیا ہے مگر پھربھی اس کی مخالفت کر اه ْم َعْنه أَفَأ ََمَر ُه ُم اللَّه ُسْب َحانَه بِا ْختاَل ف فَأَطَاعُوه -أ َْم َن َه ُ
رہے ہیں ؟ یا خدا نے دین ناقص نازل کیا ہے اوران سے ص ْوه!/ َف َع َ
اس کی تکمیل کے لئے مدد مانگی ہے یا یہ سبخود اس
کی خدائی ہی میں شریک ہیں اور انہیں یہ حق حاصل الحكم للقرآن
ہے کہ یہ بات کہیں اور خدا کا فرض ہے کہ وہ قبول
اسَت َعا َن هِبِ ْم َعلَى إِمْتَ ِامه ِ ِ
کرے یاخدانے دین کامل نازل کیا تھا اور رسول اکرم أ َْم أَْنَز َل اللَّه ُسْب َحانَه ديناً نَاقصاً -فَ ْ
(ص)نے اس کی تبلیغ اور ادائیگی میں کوتاہی کردی ہے ضى أ َْم وعلَْيه أَ ْن َيْر َأ َْم َكانُوا ُشَر َكاءَ لَه َفلَ ُه ْم أَ ْن َي ُقولُوا َ
جب کہ اس کا اعالن ہے کہ ہم نے کتاب میں کسی طرح
کی کوتاہی نہیں کی ہے اور اس میں ہر شے کا بیان ول
الر ُس ُ
صَر َّ أَْنَز َل اللَّه ُسْب َحانَه ِديناً تَ ّاماً َف َق َّ
موجود ہے۔اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کا ایک حصہ ول: صلىهللاعليهوآله َع ْن َتْبلِيغِه وأ ََدائِه -واللَّه ُسْب َحانَه َي ُق ُ
دوسرے کی تصدیق کرت ہے اور اس میں کسی طرح کا
اختالف نہیں ہے۔ یہ قرآن غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو تاب ِم ْن َش ْي ٍء) وفِيه تِْبيَا ٌن لِ ُك ِّل َش ْي ٍء (ما َفَّرطْنا يِف الْ ِك ِ
اس میں بے پناہ اختالف ہوتا۔ یہ قرآن وہ ہے ۔
ف فِيه اختِاَل َ ضه َب ْعضاً وأَنَّه اَل ْ ِّق َب ْع ُصد ُ اب يُ َ
وذَ َكر أ َّ ِ
َن الْكتَ َ َ
ِ ِ ِ ِ
َف َق َال ُسْب َحانَه( :ولَ ْو كا َن م ْن عْند َغرْيِ اهلل لََو َج ُدوا فيه
اختِالفاً َكثِرياً) وإِ َّن الْ ُق ْرآ َن ْ
ن ئف ن ن ئ ت ت ن ن
ئ ت ے رار کر ئ ے سئ ئامی ر ال قموم ی ن ت
ے اور اسے
ے کا کونی راس ہ ہی ں ہ اب کسی راے پرست اغ سانئکے لق ےخ اور ن اب کرد نی ا ہ
ہم ب سد کا ماالت
ے ا ک ن ہا ک م ح
ئ ا مام کے
ن لہ م ے کہ
()1ی اد رہ
ے۔ ی ہں ہ واز ج ی کو اک اس ی اور ے را ر ی ب کے گا۔اس ڑے ا
ی پ ارکر ت کوا اد ی ب ل ی ل ی کے ے کر عمال ب می ں راے اور ی اس کو اس مذہ
جس کا ظاہرخوبصورت اورب اطن عمیق اور گہرا ہے يق ِ ِ ِ ِ
اس کے عجائب فنا ہونے والے نہیں ہیں اور تاریکیوں يق وبَاطنُه َعم ٌ ظَاهُره أَن ٌ
کاخاتمہ اس کےعالوہ اور کسی کالم سے نہیں ہو سکتا ف الظُّلُ َم ُ
ات ضي َغَرائِبُه واَل تُك َ
ْش ُ
اَل َت ْف عجائِبه واَل َتْن َق ِ
ىَن َ َ ُ
ہے۔
إِاَّل بِه.
()19
()19
آپ کا ارشاد گرامی
جسے اس وقت فرمایا جب منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے عليهالسالم ومن كالم له
تھے اوراشعث بن قیس نے ٹوک دیا کہ یہ بیان آپ خود قاله لألشعث بن قيس وهو على منبر الكوفة يخطب،
اپنے خالف دے رہے ہیں۔ آپ نے پہلے نگاہوں کونیچا2
کرکے سکوت فرمایا اور پھرپر جالل انداز سے فرمایا2: فمضى في بعض كالمه شيء اعترضه األشعث فيه،
تجھے کیاخبرکہ کون سی بات میرےموافق ہے اور کون
سی میرے خالف ہےتجھ پرخدا اور تمام لعنت کرنے فقال :يا أمير المؤمنين ،هذه عليك ال لك ،فخفض
والوں کی لعنت۔تو سخن باف اور تانے بانے درست عليهالسالم 2إليه بصره ثم قال:
کرنے والے کافرزند ہےتو منافق ہے اورتیرا باپ کھال
ِِ مِم
ہوا کافر تھا۔خدا کی قسم توایک مرتبہ کفر کا قیدی بنا ك لَ ْعنَةُ اللَّه ولَ ْعنَةُ الاَّل عن َ
ني يك َما َعلَ َّي َّا يِل َعلَْي َ َما يُ ْد ِر َ
اوردوسری مرتبہ اسالم کا لیکن نہ تیرا مال کامآیا نہ ِ ٍِ ِ َحائِ ٌ
حسب۔اورجوشخص بھی اپنی قوم کی طرف تلوار کو
َسَر َك الْ ُك ْفُرك ابْ ُن َحائك ُمنَاف ٌق ابْ ُن َكاف ٍر واللَّه لََق ْد أ َ
راستہ بتائے گا اور موت کو کھینچ کرالئے گا وہ اس َمَّر ًة وا ِإل ْساَل ُم
بات کاحقدار ہےکہ قریب والےاس سے نفرت کریں أُخرى فَما فَ َد َاك ِمن و ِ ٍ
اوردوروالےاس پربھروسہ نہ کریں۔ ك وإِ َّن ك واَل َح َسبُ َ اح َدة ِمْن ُه َما َمالُ َ َْ َْ َ
(سیدرضی:امام کامقصدیہ ہے کہ اشعث بن قیس ایک ي أَ ْنف حَلَ ِر ٌّاق إِلَْي ِه ُم احْلَْت َ
وس َ
ف َ ْامَرأً َد َّل َعلَى َق ْو ِمه َّ
السْي َ
مرتبہ دور کفرمیں قیدی بنا تھااور دوسری مرتبہ اسالم
النےکے بعد!۔تلوارکی رہنمائی کا مقصدیہ ہےکہ جب ب واَل يَأْ َمنَه األ َْب َع ُد!مَيُْقتَه األَ ْقَر ُ
یمامہ میں خالد بن ولیدنےچڑھائی کی تواس نےاپنی قوم
سے غداری کی اورسب کوخالدکی تلوارکےحوالہ کردیا قال السيد الشريف يريد عليهالسالم أنه أسر يف الكفر مرة
جس کے بعدسے اس کالقب''عرف النار''ہوگیاجواس ويف اإلسالم مرة .وأما قوله عليهالسالم دل على قومه
دورمیں ہرغدارکالقب ہواکرتا تھا)۔
السيف فأراد به حديثا كان لألشعث مع خالد بن الوليد
باليمامة غر فيه قومه ومكر هبم حىت أوقع هبم خالد وكان
قومه بعد ذلك يسمونه عرف النار وهو اسم للغادر
عندهم.
()20 ()20
آپ کا ارشاد گرامی
عليهالسالم ومن كالم له
جس میں غفلت 2سے بیدار کیا گیا ہے اور خدا کی طرف
دوڑ کرآنے کی دعوت دی گئی ہے وفيه ينفر من الغفلة وينبه إلى الفرار للَّه
یقینا جن حاالت کو تم سے پہلے مرنے والوں نے دیکھ ات ِمْن ُك ْم -جَلَ ِز ْعتُ ْم فَِإنَّ ُك ْم لَ ْو قَ ْد َع َايْنتُ ْم َما قَ ْد َعايَ َن َم ْن َم َ
لیا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتے تو پریشان و مضطرب ہو
ِ ِ ِ
جاتے اور بات سننے اور اطاعت کرنے کے لئے تیار ہو وب َعْن ُك ْم َما قَ ْد ووه ْلتُ ْم ومَس ْعتُ ْم وأَطَ ْعتُ ْم -ولَك ْن حَمْ ُج ٌ َ
جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی وہ چیزیں تمہارے لئے
ص ْرمُتْ إِ ْن ِ
پس حجاب ہیں اور عنقریب یہ پردہ اٹھنے واال ہے۔بیشک اب -ولََق ْد بُ ِّ يب َما يُطَْر ُح احْل َج ُ َع َاينُوا -وقَ ِر ٌ
تمہیں سب کچھ دکھایا جا چکا ہے اگر تم نگاہ بینا رکھتے وه ِديتُ ْم إِ ِن ْاهتَ َد ْيتُ ْم -وحِب َ ٍّق ِ ِ
ص ْرمُتْ وأُمْس ْعتُ ْم إِ ْن مَس ْعتُ ْم ُ - أَبْ َ
ہو اور سب کچھ سنایا جا چکا ہے اگرتم گوش شنوار
رکھتے ہو اور تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اگرتم ہدایت وز ِج ْرمُتْ مِب َا فِيه ُم ْز َد َجٌر - ِ
اهَرتْ ُك ُم الْعَبُر ُول لَ ُك ْم لََق ْد َج َ أَقُ ُ
حاصل کرنا چاہو اور میں بالکل برحق کہہ رہا ہوں کہ الس َم ِاء إِاَّل الْبَ َشُر.
وما يَُبلِّ ُغ َع ِن اللَّه َب ْع َد ُر ُس ِل ََّ
عبرتیں تمہارے سامنے کھل کر آچکی ہیں اورتمہیں اس
قدر ڈرایا جا چکا ہے جو بقدر کافی ہے اور ظاہر ہے کہ ()21
آسمانی فرشتوں کے بعد ٰالہی پیغام کو انسان ہی پہنچانے
واال ہے۔ عليهالسالم ومن خطبة له
()21 وهي كلمة جامعة للعظة والحكمة
فَِإ َّن الْغَايَةَ أ ََم َام ُك ْم وإِ َّن َو َراءَ ُك ُم َّ
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ اعةَ حَتْ ُدو ُك ْم
بیشک منزل مقصود تمہارے سامنے ہے اور ساعت موت الس َ
تمہارے تعاقب میں ہے اور تمہیں اپنے ساتھ لے کر چل
رہی ہے۔
اپنا بوجھ ()1ہلکا کر لو تاکہ پہلے والوں سے ملحق ہو خَتََّف ُفوا َت ْلح ُقوا فَِإمَّنَا يْنتَظَر بِأ ََّولِ ُكم ِ
آخُر ُك ْم.
جائو کہ ابھی تمہارے سابقین سے تمہارا انتظار کرایا جا ْ ُ ُ َ
رہا ہے۔ قال السيد الشريف أقول إن هذا الكالم لو وزن بعد كالم
سید رضی :اس کالم کو کالم خدا و رسول (ص) کے بعد
کسی کالم کے ساتھ رکھ دیا جائے تو اس کا پلہ بھاری اهلل سبحانه وبعد كالم رسول اهلل صلىهللاعليهوآله بكل
ہی رہے گا اور یہ سب سے آگے نکل جائے گا۔'' حتففوا كالم ملال به راجحا وبرز عليه سابقا .فأما قوله
سے زیادہ مختصر اوربلیغ کالم تو کبھی دیکھا حلقوا'' عليهالسالم ختففوا تلحقوا فما مسع كالم أقل منه مسموعا
اور سنا ہی نہیں گیا ہے۔اسی کلمہ میں کس قدر گہرائی وال أكثر منه حمصوال وما أبعد غورها من كلمة وأنقع
پائی جاتی ہے اور اس حکمت کا چشمہ کس قدرشفاف
ہے۔ہم نے کتاب خصائص میں اس کی قدرو قیمت اور نطفتها من حكمة وقد نبهنا يف كتاب اخلصائص على
عظمت و شرافت پر مکمل تبصر ہ کیا ہے۔ عظم قدرها وشرف جوهرها.
()22
()22
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت عليهالسالم ومن خطبة له
توڑدی ہے حين بلغه خبر الناكثين ببيعته وفيها يذم عملهم
ويلزمهم دم عثمان ويتهددهم بالحرب
ن ے د ت ا ے اور وہ اسی دن ن ن ن
ج ی ک ی ح ئ ن ن ن ن ئ ش ن
داری
ت یپہ ئا ی
ی ب ھ ن تہ ن ئ ڑ ں ت ہ گے آ کو
ق سان ا و ے
ہ ھ جبو
ن ہی اور ے ا
ثی م ہ ت ھ ر ت کی
ق ھ جبو ک ا ے کے
ت ق ل ی دگی ت ز ی
ئ اس ا اہ گ کہ ے
کن ی ہ
ں ہ ں کو ی
()1اس می ت
ن
ے ے ج و ی یک وں کی طرف سب ت کرے ہ وے بل د ری ن م زلوں ک چ گ ے ور ہ ا سان کا بوج ھ ہ لکا ہ و ج اے و ی ز دم بڑھا کر ان ساب ی ن سے لحق ہ و سکت ا ہ می ں مب ت ال رہ ج ا ا ہ
ت پ ت قف ن ت ن ت ئ ہ ی ں۔ من
ن
ے اور جس کا بوج ھ ے وہ یچ ھ
ے رہ ج ا ا ہ نج ھ زی خادہ ہ و ا ہے نکہ ا لہ می ں جشس کا بو نآ ا رہ ت ا ہ ے ےمشج کس کا ج رب ہ ہ ر ا نسان کی ز ن دگی می ں برابر سام امی ر ال تمو ی ن کی دی ہ و ی تی ہ مث ال وہ ہ
ے: ے۔ اعرے ک ی ا وب کہا ہ نکا احساس ہی ں ہ ے کہ ا سان کو گ اہ وںنکے پوج ھ ہ وے ے۔صری ل ی ہ ہ ے وہ آگے بڑھ ج ا ا ہ ہ لکا ہ و ا ہ
ے ن ہ دی ا نب ار گن ہ ے پ ی دل
ت چل
اب وت می ں کا دھوں پر سوارآی ا ہ وں
آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع
کردیا ہے اور فوج کوجمع کرلیا ہے تاکہ ظلم اپنی منزل
پر پلٹ آئے اور باطل اپنے مرکز کی طرف واپس ذم الناكثين
آجائے۔خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ مجھ پر کوئی سچا ِ ِ
الزام لگایا ہے اور نہ میرے اور اپنے درمیان کوئی
ود
ب َجلَبَه لَيعُ َ أَاَل وإِ َّن الشَّْيطَا َن قَ ْد َذ َّمَر حْزبَه ْ
واستَ ْجلَ َ
صابِه واللَّه َما أَنْ َكُروا ِ ِ اجْل ور إِىَل أَوطَانِه ِ
انصاف کیا ہے۔
یہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جو خود
وي ْرج َع الْبَاط ُل إِىَل ن َ َ ْ َْ ُ
صفاً. علَي مْن َكراً -واَل جعلُوا بييِن وبيَنهم نَ ِ
انہوں نے نظر انداز کیا ہے اور اس خون کا تقاضا کر َ َ َْ َْ ُ ْ َ َّ ُ
رہے ہیں جوخود انہوں نے بہایا ہے۔پھر اگر میں ان کے
ساتھ شریک تھا تو ان کا بھی تو ایک حصہ تھا اور وہ
دم عثمان
تنہا مجرم تھے تو ذمہ داری بھی انہیں پر ہے۔بیشک ان ودماً ُه ْم َس َف ُكوه َ -فلَئِ ْن وإِن َُّه ْم لَيَطْلُبُو َن َح ّقاً ُه ْم َتَر ُكوه َ
کی عظیم ترین دلیل بھی انہیں کے خالف ہے۔یہ اس ماں
ص َيب ُه ْم ِمْنه -ولَئِ ْن َكانُوا ُكْنت َش ِري َكهم فِيه فَِإ َّن هَل م لَنَ ِ
سے دود ھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ ختم ہو چکا ہے ُْ ُْ ُ
اور اس بدعت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو مر چکی َولُوه ُدويِن فَ َما التَّبِ َعةُ إِاَّل ِعْن َد ُه ْم -وإِ َّن أ َْعظَ َم ُح َّجتِ ِه ْم
(
ئ ت ف
بالحرب،ويلقي عليهم التبعة لعدم طاعته ن
ف ف ق ے ام ر المومن ن نکی خ الف ت کے خ الف غ
ے ص ی ن کا م ی دانت کا ئرزار گرم ک ی ا۔اس کے ب عد ہ ر نعال ہ می ں ت ن ہ و ساد کی گآ ب ھڑکا ی اکہ کے پہلن اوتن کا اعالن کر ب ی ی ( )1عاو ہ
کام ی ہ ک
ن ا سے ن ں م ات ک حر ں یہ ا کے ہ او ع ں۔ یک کرس
ق ہ ے ظ شام عدل و ا صاف کو سکون کے سا ھ خرا ج ن ن
ا آپ ے۔اور ک بنہ ہ و س ی صخ آپ کوما یک ل حہ کےے سکونش
ئ
ی ی ش ی مغ پ ف ل م ن ت ی
اس ے ان ب ار پر وں پر ارت کا کقام روع کرے۔چ ن ا چ ہ ئ ق کردے کر رواقن ہ کردی ا کہ عراق کے نم ت فلف ثعال ش ک ص س ی ان بف ظنتعوف کوتچ ھ ہ زار کا ل ت ب ھی ھا کہ ب ی غ ضامد کے ای خ
ھڑے ہ شوے اور اس کے ے۔ب ا غی سب ب ئھاگ ک ئ سے م اب لہ ن ہ کرسکا صرف چ د ا راد ابنت ن دم رہق ن ض اس ل کرحملہ فکردی ا ج ہاںش ح رت کا م صر خسا سرحدی بح ا ی دست ہ ئ ھا اور وہ خ
آپ ے م ب ر پئر آکر وم کوق ی رت قدال ی ل ی کن کو ی ل کرت ی ارن ہ ہ توفسکا جس اور ا کرد ن
ب ی ف ی چ ے
ش کو رت ح ے ر ادی میئں دا ل ہ وگ ی ا اور ی حد لوٹ مچ ا ی۔ج فس کی ب
غ ب عد س ی ان کا ل خ کر آب
س کی ی ادت می ضں روان ہ ہخ وگ ی ا مگر ا اق ف ی ن ب د ی عخ
س ےل کے لہ ب ا
ق
م کے ان ی صورت حال کو دشی کھ کر چ ن د ا راد کو غ ی رت آگئی اور ای ک لنکر نس
ت اس اور ےش گو آپ ود فروان ہ ہ کے ب عد ق
ب ش اس و ت سنی ان کا ل کر واشپسف ج ا چ کا ھا اوری ہ ل کر ج ن گ کے ب ی ر قواپ ن
ے کہ ی ہ اسازی مزاج کے ب اوج ود قی ہ نطتب ہئار فاد رمای نا۔ عض ح نرت تکا ی ال ہ ے ت سخآگ ی ا اور آپش ف ن ب خسے ف
ے کہ م اب لہ ی لہ ہ ی پر ار اد رمای ا ھا ب ہر حال صورت وا عہ ا ہا ی ا سوس اک اور درد اک ھی اور اسالم می ں ے اور عض کا کہ ا ہ کے ب تعد ار اد رمای ا ہ طب ہ کو ہ شواپس آے ئ
اس کی ب ی مار مث الی ں پ ا ی ج ا ی ہ ی ں۔
اما بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ
ہے جسے پروردگارنے اپنے مخصوص اولیاء کے لئے
ٰ
تقوی کا لباس اور ہللا کی محفوظ و مستحکم کھوال ہے۔یہ فضل الجهاد
اب اجْلَن َِّة َ -فتَ َحه اللَّه اب ِمن أ َْبو ِ ِ ِ
زرہ اور مضبوط سپرہے۔جس نے اعراض کرتے ہوئے
نظر انداز کردیا اسے ہللا ذلت کا لباس پہنا دے گا اور اس أ ََّما َب ْع ُد فَإ َّن اجْل َه َاد بَ ٌ ْ َ
صينَةُ ودرع اللَّه احْل ِ ِ ِ خِلَ َّ ِ ِ ِ
پر مصیبت حاوی ہو جائے گی اور اسے ذلت و خواری
َ الت ْق َوى ُ ْ - اس َّ وه َو لبَ ُ اصة أ َْوليَائه ُ
کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے گا اوراس کے دل پر غفلت کا
ِ
پردہ ڈال دیا جائے گا اور جہاد کو ضائع کرنے کی بنا پر بوجنَّتُه الْ َوثي َقةُ -فَ َم ْن َتَر َكه َر ْغبَةً َعْنه أَلْبَ َسه اللَّه ثَ ْو َ ُ
ِ ث بِ َّ ُّ ِ
وض ِر َ الصغَا ِر والْ َق َماءَة ُ الذ ِّل ومَش لَه الْبَاَل ءُ ُ -
حق اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اسے ذلت ب
برداشت کرناپڑے گی اور وہ انصاف سے محروم ہو وديِّ َ
جائے گا ضيِي ِع اجْلِ َه ِاد - يل احْلَ ُّق ِمْنه بِتَ ْ ِ ِِ ِ ِ
َعلَى َق ْلبه باإل ْس َهاب وأُد َ
آگاہ ہو جائو کہ میں نے تم لوگوں کواس قوم سے جہاد
ف. وسيم اخْلَسف ِ ِ
کرنے کے لئے دن میں پکارا اور رات میں آواز دی۔خفیہ َّص َومن َع الن َ َ ْ َ ُ
طریقہ سے دعوت دی اور علی االعالن آمادہ کیا اور استنهاض الناس
برابر سمجھایاکہ ان کے حملہ کرنے سے پہلے تم میدان
میں نکل آئو کہ خدا کی قسم جس قوم سے اس کے گھر أَاَل وإِيِّن قَ ْد َد َع ْوتُ ُك ْم إِىَل قِتَ ِال َه ُؤاَل ِء الْ َق ْوِم -لَْياًل ونَ َهاراً
کے اندر جنگ کی جاتی ہے اس کا حصہ ذلت کے عالوہ ِ
کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن تم نے ٹال مٹول کیا اورسستی کا
وه ْم َقْب َل أَ ْن َي ْغُزو ُك ْم - ت لَ ُك ُم ا ْغُز ُ وسّراً وإِ ْعاَل ناً -و ُق ْل ُ
مظاہرہ کیا۔یہاں تک کہ تم پر مسلسل حملے شروع ط يِف عُ ْق ِر َدا ِر ِه ْم إِاَّل ذَلُّوا - ي َق ْو ٌم قَ َُّف َواللَّه َما غُ ِز َ
ہوگئے اور تمہارے عالقوں پر قبضہ کرلیا گیا۔( دیکھو َفتوا َك ْلتم وخَت اذَلْتم -حىَّت شنَّت علَي ُكم الْغَارات ِ
یہ بنی غامد کے آدمی ( سفیان بن عوف) کی فوج انبار ت
ومل َك ْ ََ ُ ْ َ ُ ْ َ ُ ْ َ ْ ُ َ ُ ُ
میں داخل ہوگئی ہے اوراس نے حسان بن حسان بکری ت َخْيلُه ٍِ
کو قتل کردیا ہے اور تمہارے سپاہیوں کوان کے مراکز َخو َغامد [و] قَ ْد َو َر َد ْ وه َذا أ ُ َعلَْي ُك ُم األ َْوطَا ُن َ -
سے نکال باہر کردیا ہے ي -وأ ََز َال األَْنبَ َار وقَ ْد َقتَ َل َح َّسا َن بْ َن َح َّسا َن الْبَ ْك ِر َّ
َخْيلَ ُك ْم َع ْن َم َساحِلِ َها
اورمجھے تو یہاں تک خبر ملی ہے کہ دشمن کا ایک
الر ُج َل ِمْن ُه ْم َكا َن يَ ْد ُخ ُل َ -علَى الْ َم ْرأ َِة َن َّ ولََق ْد َبلَغَيِن أ َّ
ایک سپاہی مسلمان یا مسلمانوں کے معاہدہ میں رہنے
والی عورت کے پاس وارد ہوتا تھااوراس کے پیروں اه َد ِة َفَيْنتَزِعُ ِح ْجلَ َها و ُقلَُب َها الْمسلِم ِة واألُخرى الْمع ِ
َْ ُ َ ُْ َ
کےکڑے ' ہاتھ کے کنگن 'گلے کے گلو بند اور کان کے اِل ِ ِ ِ
گوشوارے اتار لیتا تھا اور وہ سوائے انا ہلل پڑھنے اور ورعَُث َها َما مَتْتَن ُع مْنه إِاَّل بِا ْسرِت ْ َج ِ
اع وقَاَل ئ َد َها ُ
ين َما نَ َال َر ُجاًل ِمْن ُه ْم َك ْل ٌم ِ اِل رِت ِ
صَرفُوا َواف ِر َ وا ْس ْ َحام مُثَّ انْ َ
رحم و کرم کی درخواست کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی
تھی اور وہ سارا سازو سامان لے کر چال جاتاتھا نہ کوئی
زخز کھاتا تھا اور نہ کسی طرح کا خون بہتا تھا۔اس ات ِم ْن َب ْع ِد َه َذا ِ
َن ْامَرأً ُم ْسلماً َم َ يق هَلُ ْم َد ٌم َ -فلَ ْو أ َّ واَل أُِر َ
صورت حال کے بعداگر کوئی مرد مسلمان صدمہ سے
َسفاً َ -ما َكا َن بِه َملُوماً بَ ْل َكا َن بِه ِعْن ِدي َج ِديراً َ -فيَا أَ
مربھی جائے توقابل مالمت نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک
اجتِ َم ِ ِ ِ ِ
حق بجانب ہے کس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز اع ب اهْلَ َّم -م َن ْ ب وجَيْل ُ يت الْ َق ْل َ َع َجباً َع َجباً واللَّه مُي ُ
صورت حال ہے۔خدا کی قسم یہ بات دل کوہ مردہ بنا هؤاَل ِء الْ َقوِم علَى ب ِ
دینے والی اور ہم و غم کو سیمٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اطلِ ِه ْم -وَت َفُّرقِ ُك ْم َع ْن َح ِّق ُك ْم - ْ َ َ َُ
ني ِص ْرمُتْ َغَرضاً يُْر َمى -يُغَ ُار ِ
َف ُقْبحاً لَ ُك ْم وَتَرحاً ح َ
اپنے باطل پرمجتمع اورمتحد ہیں اور تم اپنے حق پر بھی
متحد نہیں ہو۔تمہارا برا ہو کیا افسوسناک حال ہے تمہارا۔
صى اللَّه ِ
کہ تم تیر اندازوں کا مستقل نشانہ بن گئے ہو۔تم پر حملہ َعلَْي ُك ْم واَل تُغريُو َن -و ُت ْغَز ْو َن واَل َت ْغُزو َن ويُ ْع َ
کیا جارہا ہے اور تم حملہ نہیں کرتے ہوتم سے جنگ کی السرْيِ إِلَْي ِه ْم يِف أَيَّ ِام احْلَِّر ُ -ق ْلتُ ْم
ض ْو َن -فَِإ َذا أ ََم ْرتُ ُك ْم بِ َّ وَت ْر َ
جا رہی ہے اور تم باہرنہیں نکلتے ہو۔لوگ خدا کی نا
فرمانی کر رہے ہیں اورتم اس صورت حال سے خوش َه ِذه مَحَ َّارةُ الْ َقْي ِظ أ َْم ِه ْلنَا يُ َسبَّ ْخ َعنَّا احْلَُّر وإِ َذا أ ََم ْرتُ ُك ْم
ہو۔میں تمہیں گرمی میں جہاد کے لئے نکلنے کی دعوت ِ ِ
دیتا ہ وں تو کہتے ہو کہ شدیدگرمی ہے۔تھوڑی مہلت السرْيِ إِلَْي ِه ْم يِف الشِّتَاء ُ -ق ْلتُ ْم َهذه َ
صبَ َّارةُ الْ ُقِّر أ َْم ِه ْلنَا بِ َّ
دیجئے کہ گرمی گزرجائے۔اس کے بعد سردی میں بالتا َيْن َسلِ ْخ َعنَّا الَْبْر ُد ُ -ك ُّل َه َذا فَِراراً ِم َن احْلَِّر والْ ُقِّر -فَِإ َذا
ہوں تو کہتے ہو سخت جاڑا پڑ رہا ہے ذراٹھہر جائیےکہ
سردی ختم ہوجائے حاالنکہ یہ سب جنگ سےفرارکرنے ف أََفُّر! ُكْنتُ ْم ِم َن احْلَِّر والْ ُقِّر تَِفُّرو َن -فَأَْنتُ ْم واللَّه ِم َن َّ
السْي ِ
کے بہانے ہیں ورنہ جو قوم سردی اورگرمی
سےفرارکرتی ہووہ تلواروں سےکس قدر فرار کرے گی۔
اے مردوں کی شکل و صورت والواور واقعا نا مردو!
تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں حجلہ نشین
عورتوں جیسی ہیں۔میری دلی خواہش تھی کہ کاش میں
تمہیں نہ دیکھتا ()1اورتم سے متعارف نہ ہوتا۔جس کا
نتیجہ صرف ندامت اور رنج و افسوس ہے۔ ہللا تمہیں البرم بالناس
غارت کردے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے وم األَطْ َف ِال وعُ ُق ُ
ول الر َجال واَل ِر َج َال ُ -حلُ ُ
يا أَ ْشباه ِّ ِ
َ َ
اور میرے سینہ کورنج و غم سے چھلکا دیا ہے۔تم نے
ت أَيِّن مَلْ أ ََر ُك ْم ومَلْ أ َْع ِرفْ ُك ْم َم ْع ِرفَةً - ِ ِ ِ ِ
ہرسانس میں ہم و غم کے گھونٹ پالئے ہیں اور اپنی نا َربَّات احْل َجال لََود ْد ُ
واللَّه َجَّر ْ
فرمانی اور سرکشی سے میری رائے کوبھی بیکار وبے
اثر بنادیا ہے یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنے لگے
ت َس َدماً ت نَ َدماً وأ َْع َقبَ ْ
ہیں کہ فرزند ابو طالب بہادرتو ہیں لیکن انہیں فنون جنگ ص ْد ِري َغْيظاً وش َحْنتُ ْم َقَاَتلَ ُك ُم اللَّه لََق ْد َمألْمُتْ َق ْليِب َقْيحاً َ
کا علم نہیں ہے۔
ہللا ان کا بھال کرے۔کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہے جو َّه َم ِام أَْن َفاساً وأَفْ َسدْمُتْ َعلَ َّي َرأْيِي ب الت ْ يِن
وجَّر ْعتُ ُمو نُغَ َ َ -
بِالْعِصي ِ ِ
مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو اور مجھ سے ش إِ َّن ابْ َن ت ُقَريْ ٌ ان واخْل ْذاَل ِن َ -حىَّت لََق ْد قَالَ ْ َْ
پہلے سے کوئی مقام رکھتا ہو۔میں نے جہاد کے لئے اس
ب رجل ُشجاعٌ ولَ ِكن اَل ِع ْلم لَه بِاحْل ر ِ ِ ِ
وقت قیام کیا ہے جب میری عمر 20سال بھی نہیں تھی ب. َْ َ ْ أَبيطَال ٍ َ ُ ٌ َ
اور اب تو 60سے زیادہ ہو چکی ہے۔لیکن کیا کیا جائے۔
جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہے اس کی رائے کوئی َش ُّد هَلَا ِمَراساً وأَقْ َد ُم فِ َيها َح ٌد ِمْن ُه ْم أ َ
وه ْل أ َ وه ْم َ -
ِ
للَّه أَبُ ُ
ضت فِيها وما بلَ ْغ ِ ِ
وها
ين َ - ت الْع ْش ِر َ َم َقاماً ميِّن -لََق ْد َن َه ْ ُ َ َ َ ُ
رائے نہیں ہوتی ہے۔
ي لِ َم ْن اَل ِ
ِّني ولَك ْن اَل َرأْ َ الست َت َعلَى ِّ أَنَا َذا قَ ْد َذ َّرفْ ُ
ش ن ف ئ
يطاع!
َُ ُ ق
کی کلوں کو ان ئ کہ و طالب جنیسا ا سان ہ و اور نوہ ان سے اس ق درقب د دل ہ راہ ح رت علی ب ن ابی ن
ض
ےنکہ ان کا سز ب خ
ئ تن
ے ا ا ہن ی کا قی ہ وم کی ذلت وقرسوا ی کے ل کسی ت ()1
ن ئ
ے۔اس م نام پر موالے کا قات رت می ں ب ھیئاس کا ا ج ام ہ م کے عالوہ چقک ھق ہی ں
ج ے شاورآ کے ابل نہی ں ے نکھ ن اب ھی گوارہ ن ہ کر ا ہ و۔ای سی وم دن ی ا می ں زن دہ رتہ ی
نکسی در نب ھی اور قسر براہ ما ہرا کہ ے ہ
ہ
امر ت ی ی ناورف سر نک ی ے م ری را تے کوب ھی ر اد کرد ائے اور حن ہ
رما اف
ن
مہاری کہ ے ا ارہ دے ا ک اورن کت ہ کی طرف بقھی اش
ئ ی ہ ت شب ب ی ہ ح ق خی ت ن یہ ک ی ق
وم ے اسے ظ ر ےت اسی ل غ اعت ن ہ ھا ے کہ ای د ی ہ راے اور ن ئکم ابل اط ن الع طکر ا ہ ی کردے و ان ہم ا سان ی ہی اس کی اطاعت تسے ا کارت ت ت نذکی اور عب ری کیخوں ن ہ ہ و اگر وم
س اسب اور ئلط ہ وے ہ ی ں ج ن ت ن ے اور اس کے ت ا ج ب ہر ن م ب
ن اج ماعی ہ و و اجحماع کا ا حراف کام کونھی ے۔ ئ نصوصی ت کے سان ھ اگر قکام ہ ی ا تداز کردی ا ہئ
حال ا نمن ش نل کر دی ت ا ہ
اس کے ی ج ہ می ں ن اور ے ی کرد ن روع ن ا ا ب ے ت اہ ب کے
ن سردی و گرمی ئ
اور ا ی کرد کار ا سے ے کر ہاد ج ق نب طا م کے کم کے
ن خ آپ ے وم کہ ن افی آ ے مسا کے ات ش کا ے کاش جنرب ہ موال
گ و ج ہاد ہی ں ھان ج تس ے اپ ی ساری ز دگیقاسالمی حاال کہ علی سے زی ادہ ا خسالم می ںنکو یب ماہ ر جش ن ف ت ں ہ ں
ب ب ث ییہ رئ ا سے
ت گ
مس س
ے ہ کہ ن ا ن روع کرد ا کہ ع تلی ون ن
ج ی د م وں ی
ے اور اپ ی اری خ ح ی ات کو اس کا گواہ رار دی ا مج اہ دات کے م ی دا وں می ں گزاری ھی اور ل ل ی غ آزما ی کا بوت دی ا ھا اور جس کی طرف ود آپ ے ھی ا ارہ رمای ا ہ
ے۔ ہ
()28
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
(جو اس خطبہ کی ایک فصل کی حیثیت 2رکھتا ہے جس
کاآغاز'' الحمد ہلل غیر مقنوط من رحمة '' سے ہوا ہے
اور اس میں گیارہ تنبیہات 2ہیں)2
اما بعد!یہ دنیا پیٹھ پھیر چکی ہے اور اس نے اپنے وداع
کا اعالن کردیا ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے اور اس
کے آثارنمایاں ہوگئے ہیں۔یاد رکھو کہ آج میدان عمل ہے
اور کل مقابلہ ہوگا جہاں سبقت کرنے والے کا انعام جنت
ہوگا اوربدعمل کا انجام جہنم ہوگا۔کیا اب بھی کوئی ایسا ()28
نہیں ہے جو موت سے پہلے خطائوں سے توبہ کرلے
اور سختی کے دن سے پہلے اپنے نفس کے لئے عمل عليهالسالم ومن خطبة له
کرلے۔یاد رکھو کہ تم آج امیدوں کے دنوں میں ہو جس وهو فصل من الخطبة التي أولها «الحمد للَّه غير
کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے تو جس شخص نے امید
کے دنوں میں موت آنے سے پہلے عمل کرلیا اسے اس مقنوط من رحمته» وفيه أحد عشر تنبيها
کا عمل یقینا فائدہ پہنچائے گا اور موت کوئی نقصان نہیں اع -وإِ َّن ِ
اآلخَر َة ت بَِو َد ٍ أ ََّما َب ْع ُد فَِإ َّن ُّ
پہنچائے گی لیکن جس نے موت سے پہلے امید کے ت وآ َذنَ ْ الد ْنيَا أ َْد َبَر ْ
دنوں میں عمل نہیں کیا اس نے عمل کی منزل میں گھاٹا ت بِاطِّاَل ٍع أَاَل وإِ َّن الَْي ْو َم الْ ِم ْ
ض َم َار ت وأَ ْشَرفَ ْ قَ ْد أَْقَبلَ ْ
اٹھایا اور اس کی موت بھی نقصان دہ ہوگی۔ ِ
آگاہ ہو جائو۔تم لوگ راحت کے حاالت میں اسی طرح بَّار -أَفَاَل تَائ ٌ والسَب َقةُ اجْلَنَّةُ والْغَايَةُ الن ُ
اق َّ - السبَ َ
و َغداً ِّ
عمل کرو جس طرح خوف کے عالم میں کرتے ہو ِم ْن َخ ِطيئَتِه َقْب َل َمنِيَّتِه أَاَل َع ِام ٌل لَِن ْف ِسه َقْب َل َي ْوِم بُ ْؤ ِسه أَاَل
َج ٌل -فَ َم ْن َع ِم َل يِف أَيَّ ِام ِ ِ ِ ِ
وإنَّ ُك ْم يِف أَيَّام أ ََم ٍل م ْن َو َرائه أ َ
َجلِه َ -ف َق ْد َن َف َعه َع َملُه ومَلْ يَ ْ ِ
َجلُه ضُر ْره أ َ ضو ِر أ َ أ ََمله َقْب َل ُح ُ
َجلِه َ -ف َق ْد َخ ِسَر ضو ِر أ َ
ِ
صَر يِف أَيَّ ِام أ ََمله َقْب َل ُح ُ
وم ْن قَ َّ َ -
َجلُه – وضَّره أ َ
َع َملُه َ
الر ْهبَ ِة
الر ْغبَ ِة َك َما َت ْع َملُو َن يِف َّاع َملُوا يِف َّ أَاَل فَ ْ
کہ میں()1نے جنت جیسا کوئی مطلوب نہیں دیکھا ہے
جس کے طلب گار سب سو رہے ہیں اور جہنم جیسا أَاَل وإِيِّن مَلْ أ ََر َكاجْلَن َِّة نَ َام طَالُِب َها واَل َكالنَّا ِر نَ َام َها ِربُ َها -
ِ ِ
کوئی خطرہ نہیں دیکھا جس سے بھاگنے والے سب
خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔یاد رکھو کہ جسے حق
يم
وم ْن اَل يَ ْستَق ُ ضُّره الْبَاط ُل َ - أَاَل وإِنَّه َم ْن اَل َيْن َفعُه احْلَ ُّق يَ ُ
ِ بِه اهْلَُدى جَيُُّر بِه َّ
فائدہ پہنچا سکے گا اسے باطل ضرور نقصان پہنچائے الر َدى -أَاَل وإِنَّ ُك ْم قَ ْد أُم ْرمُتْ الضاَل ُل إِىَل َّ
بِالظَّع ِن ودلِْلتم علَى َّ ِ
الزاد -وإِ َّن أ ْ
گا اور جسے ہدایت سیدھے راستہ پر نہ ال سکے گی
اف َعلَْي ُك ُم َخ ُ ف َما أ َ َخ َو َ ْ ُ ُْ َ
اسے گمراہی بہر حال کھینچ کر ہالکت تک پہنچادے
گی۔ آگاہ ہو جائو کہ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور الد ْنيَا ِم َن
ول األ ََم ِل َ -فَتَز َّو ُدوا يِف ُّ ان اتِّبَاعُ اهْلََوى وطُ ُ ا ْثنَتَ ِ
تمہیں زاد سفر بھی بتایا جا چکا ہے اور تمہارے لئے
سب سے بڑا خوفناک خطرہ دو چیزوں کا ہے۔خواہشات الد ْنيَا َ -ما حَتْ ُر ُزو َن بِه أَْن ُف َس ُك ْم َغداً. ُّ
کا اتباع اور امیدوں کا طوالنی ہونا۔لہٰ ذا جب تک دنیا میں قال السيد الشريفرضيهللاعنهوأقول إنه لو كان كالم
ہواس دنیا سے وہ زاد راہ حاصل کرلو جس کے ذریعہ
کل اپنے نفس کا تحفظ کرسکو۔ يأخذ باألعناق -إىل الزهد يف الدنيا -ويضطر إىل عمل
سید رضی :اگر کوئی ایسا کالم ہو سکتا ہے جو انسان
کی گردن پکڑ کر اسے زہد کی منزل تک پہنچا دے اور اآلخرة -لكان هذا الكالم -وكفى به قاطعا لعالئق
اسے عمل آخرت پر مجبور کردے تو وہ یہی کالم ہے۔یہ اآلمال -وقادحا زناد االتعاظ واالزدجار -
کالم دنیا کی امیدوں کے قطع کرنے اوروعظ و نصیحت
قبول کرنے کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے کافی
ش شخ ق ن ہوتا ق۔
ئ ق ئ ت
ے اور اق ہ ت کا م ت خ ٹ
چ
ے وہ ج ن خ
ئ
س گ صنسے پو ھ ے۔ج خ ہسے ب ڑی کو ی ی ت اورصدا جت ہی ں ش
ح اس دن ی اعمکی اس ن د
ش ئ
ا کہ وگا حاالت نکا ج ائ زہ نل ی ا ج اے و ان ندازہ ہ کےک ئ )زمان ہ
( 1ش خ
ن ی ل ئ ن ج ی
ے اور ی ہ طرہ از ود ل ے نکہتی ہ مع وق از ود ھر آے نواال ہ خ ں ین س ےہی ب طرح سو رہوں اس خ ف ے۔ عمکن م زل ل می ں ندو ج ن ہ سے پ اہ ما گت ا ئ امق ج ن
ے وہن ہ م کے ش
ے۔ن ہ ج
ن ص کو د ھ جس
ے کہ مذہ ب ہ ے ہ ی ں ب لکہ دو وں کا ی ال ی ہ ہ ر کر ام
ن ظ ب ا اک ے چ نسے اس زدہ و سے م ہ ت ہ
ن اور ں ن ی ہ ے
ہ ر کر ل ی کو ے ل کے ٹ ت اع کے
ن ت ن ہ واال
ف ے جا
سے چ اے کا ب ن دوب ست بن ھی کری تں گے اور اس سلسلہ میئ ں ے کہ وہ ج ت کا ا ظ ام ب ھی کخری ں گے اور ج ہ م ئ ہش ات کا ھ ی کہ نلے ل ی ا نب اس ے ہوں ن ےہ ںج
ی س یا راد می ں چک ھ ائ
ے سب نلے۔دولت کے خ دوسرے تپر ب ن
ھروسہ ن ہی ں کر ات
ہ خ نل م تتلف ہ ی ں۔ی ہاں کوئی کے چ د روز مع وق کا عاملہ اس سے الک
خ ب مئ ے۔حاال خکہ دن ی ات داری ہی ں ہ ئ خہ ماری کوتی ذمہ ش
ے یہ ت ً
ے ہ ی شں۔ دا ج ا خ فحرام کر ق سب تود را وں کی ی د ن ن ے ل کے ں۔عہدہ
ف غ ن ی ہ ےن ب ے ت وای د ود سب ے ل کے ں۔عورت ی ہ ے مر ود سب ے ل کے ہرت ے ہ ی نں۔ ود دوڑ ش
ن
ے۔کاش ی ہ ا سان وا عا م ت اق اور و زدہ ہ و ا ے اور ا سان لت کی ی د سو ج ا ا ہ ے جس کا معاملہ دوسروں کے رحم و کرم پرچ ھوڑ دی ا ج ا ا ہ تاب قدی مع وق ج ت ج یسا تمحبوب ہ
و ی ی ن ا اس کا ی ہ کردار ن ہ ہ و ا۔''فاعتربوا یا اولی اال بصار''
خصوصیت کے ساتھ حضرت کا یہ ارشاد کہ''آج میدان
ومن أعجبه قوله عليهالسالم -أال وإن اليوم املضمار
عمل ہے اور کل مقابلہ۔اس کے بعد منزل مقصود جنت
ہے اور انجام جہنم۔اس میں الفاظ کی عظمت ' معانی کی وغدا السباق -والسبقة اجلنة والغاية النار -فإن فيه مع
قدر و منزلت تمثیل کی صداقت اور تشبیہ کی واقعیت کے
ساتھ وہ عجیب و غریب رازنجات اورلطافت مفہوم ہے فخامة اللفظ وعظم قدر املعىن -وصادق التمثيل وواقع
جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔پھر حضرت نے جنت و التشبيه -سرا عجيبا ومعىن لطيفا -وهو قوله عليهالسالم
جہنم کے بارے میں ''سبقہ''} اور ''غایتہ'' کا لفظ استعمال
کیا ہے جس میں صرف لفظی اختالف نہیں ہے بلکہ والسبقة اجلنة والغاية النار -فخالف بني اللفظني
واقعا ً معنوی افتراق وامتیاز پایا جاتا ہے کہ نہ جہنم کو
الختالف املعنيني -ومل يقل السبقة النار -كما قال
سبقہ ( منزل) کہاجا سکتا ہے اور نہ جنت کو غایة
(انجام) جہاں تک انسان خود بخودپہنچ جائے گا بلکہ السبقة اجلنة -ألن االستباق إمنا يكون إىل أمر حمبوب -
جنت کے لئے دوڑ دھوپ کرنا ہوگی جس کے بعد انعام
ملنے واال ہے اور جہنم بدعملی کے نتیجہ میں خودبخود وغرض مطلوب -وهذه صفة اجلنة -وليس هذا املعىن
سامنے آجائے گا۔اس کے لئے کسی اشتیاق اورمحنت کی موجودا يف النار -نعوذ باهلل منها فلم جيز أن يقول -
ضرورت نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر آپ نے جہنم کو غایتہ
قرار دیا ہے جس طرح کہ قرآن مجید نے اسے ''مصیر '' والسبقة النار بل قال والغاية النار -ألن الغاية قد ينتهي
سے تعبیر کیا ہے۔ ''فان مصیر کم الی النار ''حقیقتا ً اس إليها من ال يسره االنتهاء إليها -ومن يسره ذلك فصلح
نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا باطن
انتہائی عجیب و غریب اور اس کی گہرائی انتہائی لطیف أن يعرب هبا عن األمرين معا -فهي يف هذا املوضع
ہے اوریہ تنہا اس کالم کی بات نہیں ہے۔حضرت کے كاملصري واملآل -قال اهلل تعاىل( :قُل مَتَتَّعوا فَِإ َّن م ِ
کلمات میں عام طور سے یہی بالغت پائی جاتی ہے اور ص َري ُك ْم َ ْ ُ
سبقتكم إِىَل النَّا ِر) -وال جيوز يف هذا املوضع أن يقال ْ -
اس کے معانی میں اسی طرح کی لطافت اور گہرائی
نظر آتی ہے۔بعض روایات میں جنت کے لئے سبقتہ کے
بجائے سبقتہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انعام بسكون الباء إىل النار -فتأمل ذلك فباطنه عجيب وغوره
کے ہیں بعيد لطيف -وكذلك أكثر كالمه عليهالسالم -ويف
والسْبقة اجلنة
بعض النسخ -وقد جاء يف رواية أخرى ُّ
بضم السني -والسبقة عندهم اسم ملا جيعل للسابق -
اور کھلی ہوئی بات ہے کہ انعام بھی کسی مذموم عمل پر
إذا سبق من مال أو عرض -واملعنيان متقاربان -ألن
نہیں ملتا ہے بلکہ اس کا تعلق بھی قابل تعریف اعمال ہی
سے ہوتا ہے لہٰ ذا عمل بہر حال ضروری ہے اور عمل کا ذلك ال يكون جزاء على فعل األمر املذموم -وإمنا يكون
قابل تعریف ہونا بھی الزمی ہے۔
جزاء على فعل األمر احملمود.
()29
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ()29
جب تحکیم کے بعد معاویہ()1کے سپاہی 2ضحاک بن قیس عليهالسالم ومن خطبة له
نے حجاج کے قابلہ 2پر حملہ کردیا اور حضرت کواس کی
خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے الحاج
ّ بعد غارة الضحاك بن قيس صاحب معاوية على
کے لئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا2: بعد قصة الحكمين
اے وہ لوگو!جن کے جسم ایک جگہ پر ہیں اور خواہشات
الگ الگ ہیں۔تمہارا کالم تو سخت ترین پتھر کوبھی نرم وفيها يستنهض أصحابه ملا حدث يف األطراف
کر سکتا ہے لیکن تمہارے حرکات دشمنوں کوبھی
َّاس الْ ُم ْجتَ ِم َعةُ أَبْ َدانُ ُه ْم -الْ ُم ْختَلِ َفةُ أ َْه َو ُاؤ ُه ْم
أَيُّ َها الن ُ
تمہارے بارے میں پرامید بنا دیتے ہیں۔تم محفلوں میں
بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہو کہ خدا کی پناہ لیکن ب وفِ ْعلُ ُك ْم يُطْ ِم ُع فِي ُك ُم الص َّم الصِّاَل َ وهي ُّ َكاَل م ُكم ي ِ
ُ ُْ
جب جنگ کا نقشہ کرے گا اس کے دل کوکبھی سکون نہ
ملے گا۔تمہارے پاس صرف بہانے ہیں اور غلط سلط ت فَإذَا َجاءَ
ت و َكْي َ ِ س َكْي َ َع َداءَ – َت ُقولُو َن يِف الْ َم َجالِ ِ األ ْ
ت َد ْع َوةُ َم ْن َد َعا ُك ْم - ِ ِ ِ الْ ِقتَ ُ
حوالے اورپھر مجھ سے تاخیر جنگ کی فرمائش جیسے
کوئی نا دہندہ قرض کوٹالنا چاہتا ہے۔یاد رکھو ذلیل آدمی
ال ُقْلتُ ْم حيدي َحيَاد َما َعَّز ْ
يل واَل استراح َق ْلب من قَاسا ُكم -أَعالِيل بِأ ِ
ذلت کو نہیں روک سکتا ہے اورحق محنت کے بغیر َضال َ ْ ََ َ ُ َ ْ َ ْ َ ُ َ
حاصل نہیں ہو سکتاہے۔
ول اَل مَيْنَ ُع اع ِذي الدَّي ِن الْمطُ ِ يل دفَ َ
وسأَلْتمويِن التَّطْ ِو ِ
ْ َ َ َ ُُ
يل ق -واَل يُ ْد َر ُك احْلَ ُّق إِاَّل بِانجْلِ ِّد َّ ِ
ف ن ق ق
ے ائ ی ں کقہی ں ایسا نن ب یٹ ن م ب ت ق الضَّْي َم الذل ُ
( )1نعاو ہ کا ائک مست
ن پ یش کردی ں قاور امویشا کار ے مسا کے وم المس ا عی وا آپ
ش کہ و ہ ہ ل م مصدسی ہس ھی ش ھا کہ نامی ر المو ی ن ک ت
سی آن چخ ی ن سے ت ہ ضھ پ ئ ن م کی ی
ن
وہ ل قل ری غہ دوا ی وں مئی ںل لگا رہ تئا خھا۔آ خ ر ای ثکن مر ب ہ حاک ب ن ی نس کوچ ارہ زار نکال شکر دےتکر روا ہ کردی ا اور تاس ے سارے عال ہ می ں ک ت و ےن ے۔اس خکا ج شازہ ل ج ا
ی ن ل
ئاں ک کہ حج رب ن عدی چ ار ہ زار ے۔ی ہ ہ رت دال ی ن کن کو لی اطر واہ ا ر ہشی ں ہ وا۔اور لوگ ج گ سے ک فارہ ک ی کرے ر ا۔آپ ے م ب رپ قرآکر توم کو ی ن ن ی ون روع کرد
وں کو لےشکر کل پ نڑےفاور م ام دمر پردو وں کا سام ا ہ وگ ی ا ی کن معاوی ہ کا ل کرب ھاگ کھڑا ہ وا اورصرف 19ا راد معاوی ہ کے کام آے ج ب کہ حج ر کے س پ اہ ی وں می ں دو فس پ اہ ی ن
ا راد ے ج ام ہادت وش رمای ا۔
تم جب اپنے گھر کا دفاع نہ کر سکوگے تو کس کے گھر َي إِ َم ٍام َب ْع ِدي ُت َقاتِلُو َن َي َدا ٍر َب ْع َد َدا ِر ُك ْم مَتَْنعُو َن َ -
وم َع أ ِّ أ َّ
کا دفاع کروگے اور جب میرے ساتھ جہاد نہ کروگے تو
کس کے ساتھ جہاد کروگے۔خدا کی قسم وہ فریب خوردہ وم ْن فَ َاز بِ ُك ْم َف َق ْد فَ َاز
ور واللَّه َم ْن َغَر ْرمُتُوه َ - -الْ َم ْغُر ُ
ہے جو تمہارے دھوکہ میں آجائے اور جو تمہارے
سہارے کامیابی چاہے گا اسے صرف نا کامی کا تیر ہاتھ
وم ْن َر َمى بِ ُك ْم َف َق ْد َر َمى بِأَ ْف َو َق ب َ َخيَ ِ
الس ْه ِم األ ْواللَّه بِ َّ
ِّق َق ْولَ ُك ْم -واَل أَطْ َم ُع يِف ِ
آئے گا۔اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر پھینکا اس نے وہ
تیر پھینکا جس کا پیکان ٹوٹ چکا ہے اور سو فار ختم ہو
ُصد ُت واللَّه اَل أ َ َصبَ ْح ُ نَاص ٍل أ ْ
نَص ِر ُكم -واَل أ ِ
ُوع ُد الْ َع ُد َّو بِ ُك ْم َ -ما بَالُ ُك ْم َما َد َوا ُؤ ُك ْم
چکا ہے۔خدا کی قسم میں ان حاالت میں نہ تمہارے قول ْ ْ
کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی ال أ َْمثَالُ ُك ْم -أََق ْواًل بِغَرْيِ ِع ْل ٍم -
َما ِطبُّ ُك ْم -الْ َق ْو ُم ِر َج ٌ
امیدرکھتا ہوں اور نہ تمہارے ذریعہ کسی دشمن کو تہدید
کر سکتا ہوں۔آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تمہاری دوا کیا و َغ ْفلةً ِم ْن َغرْيِ َو َر ٍع -وطَ َمعاً يِف َغرْيِ َح ٍّق!؟
ہے؟ تمہارا عالج کیا ہے؟ آخر وہ لوگ بھی تو تمہارے
ہی جیسے انسان ہیں ۔یہ بغیر علم کی باتیں کب تک اوریہ ()30
تقوی کی غفلت تابکے اوربغیر حق کے بلندی کی ٰ بغیر
خواہش کہاں تک؟ عليهالسالم ومن كالم له
()30 في معنى قتل عثمان
آپ کا ارشاد گرامی وهو حكم له على عثمان وعليه وعلى الناس بما فعلوا
قتل عثمان کی حقیقت کے بارے میں
یاد رکھواگر میں نے اس قتل()1کاحکم دیا ہوتا تو یقینا میں وبراءة له من دمه
قاتل ہوتا
ق قئ ت بِه لَ ُكنت قاتِاًل
ْ ُث َ ن لَ تْو أ ََم ْر ُ
ف ت
ے خ ان دان والوں کے حوا ئ ت ش ن ت ن س
لے کردی ا ھا جس کی ری اد ن حا ہ پا
ے ب کو مال
ن لا ت ی ب ت
اور ھا
ئ ا ی کرد م سارے ملک تپر ب ی امی ہ کا ا ت فدار ا
مان تے ف ے کہ ع ئ ()1ی ہ اری خ کا م لمہ ش
ہ
ے درم ی ان می ثں پڑ کرنمصالحت کرا نی اوری ہ طے ہ وگ ی ا کہ مدی ن ہ ے۔امیفر الموم ی ن ن ےل ھ گ ھی اور کو ہ اور مصر ک کے لوگ ر نی اد لےئکر آ الم می ں روع ہ وگ ی ئ پورے عالم اس ض
ے ہتر ب ات کا ا کار کردی اخ تاور والی مصر کے ن ی کن مخ ال ی ن کے ج اے کے ب عد ع مان ت الح کی ج ابے اور خمصر کا حاکم دمحمب ن ابی بکر کو ب ادی ا ج اے ۔ف ق
روری اص کے حاالت کی
سے آگاہ ک ی ا قو وب ہ نکا امکان ب ھی م ہش وگ ی ا اورنچ اروں ن ام دمحمب ن ا ی بکر کے ت ل کا رمان نیھ ج د ا۔ ط راست ہ م ں پکڑ ل ا نگ ا اور اب جخ تو لوگوں تے واپس آکر ثمدی ن
والوں کو حاالت ب ن
ن ہ خ ہ ئ ب ی ی ی خ ی م طرف ئ ب
ے اعمال اور ی امی ہ کی ا رب اء وازی کی سزا بردا ت کر ا پڑی ے۔اورب اآل ر ع مان کو اپ ے ھ سے محاصرہ ہ وگ ی ا۔اب امنی ر المو ی ن کی مدا لت کے امکا ات ھی م وگ
اور پ ھر کو ی مروان ی ا معاوی ہ کام ہی ں آی ا۔
اور اگر میں نے منع کیا ہوتا تو یقینا میں مدد گار قرار
صَره اَل اصراً َ -غْيَر أ َّ أَو َنهيت عْنه لَ ُكْنت نَ ِ
پاتا۔لیکن بہر حال یہ بات طے شدہ ہے کہ جن بنی امیہ َن َم ْن نَ َ ُ ْ َْ ُ َ
ِ ِ
نے مدد کی ہے وہ اپنے کو ان سے بہتر نہیں کہہ سکتے
ہیں جنہوں نے نظر انداز کردیا ہے اور جن لوگوں نے
وم ْن َخ َذلَه اَل ول َخ َذلَه َم ْن أَنَا َخْيٌر مْنه َ - يع أَ ْن َي ُق َ يَ ْستَط ُ
نظرانداز کردیا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس نے صَره َم ْن ُه َو َخْيٌر ِميِّن وأَنَا َج ِام ٌع لَ ُك ْم ول نَ َ يع أَ ْن َي ُق َ ِ
يَ ْستَط ُ
مدد کی ہے وہ ہم سے بہتر تھا۔اب میں اس قتل کا خالصہ ع ولِلَّه وج ِز ْعتُ ْم فَأ َ
َسأْمُتُ اجْلََز َ َساءَ األَثََرةَ َ استَأْثََر فَأ َ
أ َْمَره ْ
بتائے دیتا ہوں' ''عثمان نے خالفت کو اختیار کیا تو بد
ترین طریقہ سے اختیار کیا اورتم گھبرا گئے تو بری ْم َواقِ ٌع يِف الْ ُم ْستَأْثِِر واجْلَاز ِ
ِع ُحك ٌ
طرح سے گھبرا گئے اوراب ہللا دونوں کے بارے میں
فیصلہ کرنے واال ہے ''۔ ()31
()31 عليهالسالم ومن كالم له
آپ کا ارشاد گرامی لما أنفذ عبد اهلل بن عباس -إلى الزبير يستفيئه إلى
جب آپ نے عبدہللا بن عباس کو زبیر کے پاس بھیجا کہ
اسے جنگ سے پہلے اطاعت 2امام کی طرف واپس لے
طاعته قبل حرب الجمل
آئیں۔ َّك إِ ْن َتْل َقه جَتِ ْده َكالث َّْو ِر َعاقِصاً َق ْرنَه اَل َتْل َقنَي َّ طَْل َحةَ -فَِإن َ
خبردار طلحہ سے مالقات نہ کرناکہ اس سے مالقات
کروگے تواسےاس بیل جیساپائوگےجس کے سینگ ول -ولَ ِك ِن الْ َق ُّ
الز َبْيَر ول ُهو َّ
الذلُ ُ وي ُق ُ َ ب َ الص ْع َ
ب َّ َيْر َك ُ
مڑے ہوئے ہوں۔وہ سرکش سواری پرسوار ہوتا ہے ك َ -عَر ْفتَيِن ِ فَِإنَّه أَلْنَيُ َع ِري َكةً َف ُق ْل لَه َي ُق ُ
اوراسے رام کیا ہوا کہتا ہے۔تم صرف زبیر سے مالقات ك ابْ ُن َخال َ ول لَ َ
کرنا کہ اس کی طبیعت قدرے نرم ہےاس سے کہناکہ بِاحْلِ َجا ِز وأَنْ َك ْرتَيِن بِالْعَِر ِاق -فَ َما َع َدا مِم َّا بَ َدا.
تمہارے ماموں زاد بھائی نے فرمایا ہےکہ تم نے حجاز
میں مجھے پہچانا تھا اور عراق میں آکربالکل بھول گئے قال السيد الشريف وهو عليهالسالم أول من مسعت منه
ہوآخر یہ نیا سانحہ کیا ہوگیا ہے۔ هذه الكلمة -أعين فما عدا مما بدا.
سید رضی :ما عدا ما بدا '' یہ فقرہ پہلے پہل تاریخ
عربیت میں امیر المومنین ہی سے سنا گیا ہے۔
()32
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
جس میں زمانہ 2کے ظلم کاتذکرہ ہے اورلوگوں کی پانچ ()32
قسموں کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد زہد کی
دعوت دی گئی ہے۔ عليهالسالم ومن خطبة له
ایہا الناس! ہم ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں جو
سرکش اور نا شکرا ہے یہاں نیک کردار برا سمجھا جاتا وفيها يصف زمانه بالجور ،ويقسم الناس فيه خمسة
ہے اورظالم اپنے ظلم میں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔نہ ہم علم أصناف ،ثم يزهد في الدنيا
سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ جن چیزوں سے نا
واقف ہیں ان کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور نہ کسی معنى جور الزمان
مصیبت کا اس وقت تک احساس کرتے ہیں جب تک وہ ود وزم ٍن َكنُ ٍ ٍ
نازل نہ ہو جائے۔بعض وہ ہیں جو تلوارکھینچے ہوئے
ود َصبَ ْحنَا يِف َد ْه ٍر َعنُ َ َ َّاس -إِنَّا قَ ْد أ ْ أَيُّ َها الن ُ
اپنے شرکا اعالن کر رہے ہیں اور اپنے سوار و پیادہ کو وي ْز َد ُاد الظَّامِلُ فِيه عُُت ّواً اَل َنْنتَ ِف ُع ِ ِ
يُ َع ُّد فيه الْ ُم ْحس ُن ُمسيئاً َ -
ِ
جمع کر رہے ہیں۔اپنے نفس کو مال دنیا کے حصول اور
لشکرکی قیادت یا منبر کی بلندی پر عروج کے لئے وقف ف قَا ِر َعةًمِب َا َعلِ ْمنَا واَل نَ ْسأ َُل َع َّما َج ِه ْلنَا -واَل نَتَ َخ َّو ُ
کردیا ہے اور اپنے دین کو برباد کر دیا ہے اوریہ بد َحىَّت حَتُ َّل بِنَا.
ترین تجارت ہے کہ تم دنیا کواپنے نفس کی قیمت بنا دو
یا اجرآخرت کا بدل قراردے دو۔بعض وہ ہیں جو دنیا کو أصناف المسيئين
آخرت کے اعمال کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں والنَّاس علَى أَربع ِة أَصنَ ٍ
اورآخرت کو دنیا کے ذریعہ نہیں حاصل کرنا چاہتے اف ُ َ ْ ََ ْ
ہیں۔انہوں نے نگاہوں کونیچا بنالیا ہے۔قدم ناپ ناپ کر ض -إِاَّل َم َهانَةُ َن ْف ِسه ِمْن ُه ْم َم ْن اَل مَيَْنعُه الْ َف َس َاد يِف األ َْر ِ
رکھتے ہیں۔دامن کو سمیٹ لیا ہے اوراپنے نفس کوگویا
امانتداری کے لئے آراستہ کرلیا ہے اور پروردگار کی ت لِ َسْي ِفهصل ُ
ومْنهم الْم ِ ِ
يض َوفْ ِره ُ ْ ُ ْ
ِ
و َكاَل لَةُ َحدِّه ونَض ُ
پردہ داری کومعصیت کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔
ور ِجلِه قَ ْد أَ ْشَر َط ب َْيله َ
والْمعلِن بِشِّره -والْمجلِ خِب ِ
ُْ ُ ُْ ُ َ
وده أ َْو ب َي ُق ُ َن ْفسه وأ َْوبَ َق ِدينَه حِلُطَ ٍام َيْنتَ ِهُزه أ َْو ِم ْقنَ ٍ
َ
ك مَثَناً - ِ ِ س الْ َمْت َجُر أَ ْن َتَرى ُّ ِ ِ ٍ
الد ْنيَا لَن ْفس َ مْنرَب َي ْفَرعُه -ولَبْئ َ
ك ِعْن َد اللَّه ِع َوضاً – مِم
و َّا لَ َ
اآلخر ِة واَل يطْلُب ِ ِ ومْن ُهم من يطْلُب ُّ ِ ِ
اآلخَرةَ َ ُ الد ْنيَا ب َع َم ِل َ ْ َْ َ ُ
ب ِم ْن ِ ِ
الد ْنيَا -قَ ْد طَ َام َن م ْن َش ْخصه -وقَ َار َ بِ َع َم ِل ُّ
ف ِم ْن َن ْف ِسه لِأل ََمانَِة - وز ْخَر َ ِ
َخطْ ِوه ومَشََّر م ْن َث ْوبِه َ -
صيَ ِة -واخَّتَ َذ ِسْتر اللَّه َذ ِريعةً إِىَل الْمع ِ
َْ َ َ
بعض وہ ہیں جنہیں حصول اقتدارسے نفس کی کمزوری ِ ِ ب الْم ْل ِ ِ ِ
اوراسباب کی نابودی نے دور رکھا ہے اور جب حاالت ضئُولَةُ َن ْفسه وانْقطَاعُ ك ُ ومْن ُه ْم َم ْن أ َْب َع َده َع ْن طَلَ ُ
اع ِة - ِ
نے ساز گاری کا سہارا نہیں دیا تواس کا نام قناعت رکھ ال َعلَى َحاله َ -فتَ َحلَّى بِ ْ
اس ِم الْ َقنَ َ صَرتْه احْلَ َُسبَبِه َف َق َ
ِ اس أَه ِل َّ ِ ِ
س ِم ْن َذل َ
لیا ہے۔یہ لوگ اہل زہد کالباس زیب تن کئے ہوئے ہیں
جب کہ نہ ان کی شام زاہدانہ ہے اورنہ صبح۔ اح واَل ك يِف َمَر ٍ الز َه َادة -ولَْي َ وَتَزيَّ َن بِلبَ ِ ْ
(پانچویں 2قسم) َم ْغ ًدى .
اس کے بعد کچھ لوگ باقی رہ گئے ہیں جن کی نگاہوں
الراغبون في اللَّه
کو بازگشت کی یاد نے جھکا دیا ہے اوران کے آنسوئوں
کو خوف محشر نے جاری کردیا ہے۔ان میں بعض آوارہ ص َار ُه ْم ِذ ْكُر الْ َم ْر ِج ِع -وأ ََر َ
اق ض أَبْ َ ال َغ َّوبَِق َي ِر َج ٌ
وطن اور دور افتادہ ہیں اور بعض خوفزدہ اورگوشہ ٍ
فوخائِ ٍف الْ َم ْح َش ِر َ -ف ُه ْم َبنْي َ َش ِريد نَ ٍّاد َ وع ُه ْم َخ ْو ُ
ُد ُم َ
نشین ہیں۔بعض کی زبانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور
وج ٍع اع خُمْلِ ٍ ٍ ٍِ
ص وثَ ْكاَل َن ُم َ ود ٍ وساكت َمكْعُوم َ وع َ َم ْق ُم ٍ
بعض اخالص کے ساتھ محو دعا ہیں اور درد رسیدہ کی
طرح رنجیدہ ہیں۔انہیں خوف حکام نے گمنامی کی منزل
اجُج ٍ -قَ ْد أَمْخَلَْت ُهم الت َِّقيَّةُ ومَشِ لَْت ُهم ِّ
الذلَّةُ َ -ف ُه ْم يِف حَبْ ٍر أ َ
تک پہنچادیا ہے۔ ُ ُ
اوربے چارگی نے انہیں گھیر لیا ہے۔گویا وہ ایک
ض ِامَزةٌ و ُقلُوبُ ُه ْم قَ ِر َحةٌ قَ ْد َو َعظُوا َحىَّت َملُّوا أَْف َو ُاه ُه ْم َ
کھارے سمندر کے اندر زندگی گزار رہے ہیں جہاں منہ
بند ہیں اور دل زخمی ہیں۔انہوں نے اس قدر موعظہ کیا وقُ ِهُروا َحىَّت َذلُّوا وقُتِلُوا َحىَّت َقلُّوا.
ہے کہ تھک گئے ہیں اور وہ اسقدر دبائے گئے ہیں کہ
باآلخر دب گئے ہیں اوراس قدر مارے گئے ہیں کہ ان
کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے
التزهيد في الدنيا
ل ٰہذا اب دنیا کو تمہاری نگاہوں میں کیکر کے چھلوں اور
اون کے ریزوں سے بھی زیادہ پست ہونا چاہیے اور َصغََر ِم ْن ُحثَالَ ِة الْ َقَر ِظ ِ
الد ْنيَا يِف أ َْعيُن ُك ْم -أ ْ
َفْلتَ ُك ِن ُّ
اپنے پہلے والوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے قبل
اس کے کہ بعد والے تمہارے انجام سے عبرت حاصل اض ِة اجْلَلَ ِم واتَّعِظُوا مِب َ ْن َكا َن َقْبلَ ُك ْم َ -قْب َل أَ ْن َيتَّعِ َ
ظ و ُقَر َ
ِ ِ
کریں۔اس دنیا کو نظرانداز کردو۔یہ بہت ذلیل ہے یہ ان
کے کام نہیں آئی ہے جو تم سے زیادہ اس سے دل لگانے
تضْ يمةً فَِإن ََّها قَ ْد َرفَ َ
وها ذَم َ ض َوارفُ ُ ب ُك ْم َم ْن َب ْع َد ُك ْم ْ -
والے تھے۔ ف هِبَا ِمْن ُك ْم.َم ْن َكا َن أَ ْشغَ َ
سید رضی :بعض جاہلوں نے اس خطبہ کو معاویہ کی قال الشريفرضيهللاعنهأقول وهذه اخلطبة رمبا نسبها من
طرف منسوب کردیا ہے جب کہ بال شک یہ امیرالمومنین
کا کالم ہے اوربھال کیاربطہ ہے سونے اورمٹی میں اور ال علم له إىل معاوية -وهي من كالم أمري املؤمنني
شیریں اور شور میں؟ اس حقیقت کی نشاندہی فن بالغت
کے ماہر اوربا بصیرت تنقیدی نظر رکھنے والے عالم
عليهالسالم الذي ال يشك فيه -وأين الذهب من الرغام
عمرو بن بحر الجاحظ نے بھی کی ہے جب اس خطبہ وأين العذب من األجاج -وقد دل على ذلك الدليل
کو'' البیان والتبیین'' میں نقل کرنے کے بعد یہ تبصرہ کیا
ہے کہ بعض لوگوں نے اسے معاویہ کی طرف منسوب اخلريت ونقده الناقد البصري -عمرو بن حبر اجلاحظ -
کردیا ہے حاالنکہ یہ حضرت علی علیہ السالم کے انداز فإنه ذكر هذه اخلطبة يف كتاب البيان والتبيني -وذكر من
بیان سے زیادہ ملتا جلتا ہے کہ آپ ہی اس طرح لوگوں
کے اقسام ' مذاہب اورقہر و ذلت اورتقیہ و خوف کا تذکر نسبها إىل معاوية -مث تكلم من بعدها بكالم يف معناها -
ہ کیا کرتے تھے ورنہ معاویہ کو کب اپنی گفتگومیں
زاہدوں کا اندازیا عابدوں کا طریقہ اختیار کرتے دیکھا
مجلته أنه قال وهذا الكالم بكالم علي عليهالسالم أشبه -
گیا ہے۔ ومبذهبه يف تصنيف الناس -ويف اإلخبار عما هم عليه من
()32 القهر واإلذالل -ومن التقية واخلوف أليق -قال ومىت
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
وجدنا معاوية يف حال من األحوال -يسلك يف كالمه
(اہل بصرہ سے جہاد کے لئے نکلتے وقت جس میں آپ
نے رسولوں کی بعثت کی حکمت اورپھر اپنی فضیلت مسلك الزهاد ومذاهب العباد!
اورخوارج کی رذیلت کاذکر کیا ہے)
عبدہللا بن عباس کا بیان ہے کہ میں مقام ذی قار میں امیر
()33
المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ اپنی نعلین کی عليهالسالم ومن خطبة له
مرمت کر رہے تھے۔آپ نے فرمایا:ابن عباس !ان
جوتیوں کی کیا قیمت ہے '؟ عند خروجه لقتال أهل البصرة ،وفيها حكمة مبعث
الرسل،
ثم يذكر فضله ويذم الخارجين
ت َعلَى أ َِم ِري ِ
قَ َال َعْب ُد اللَّه بْ ُن َعبَّاسرضيهللاعنهَ -د َخ ْل ُ
ِ ِ ِِ
ف َن ْعلَه َف َق َال يِل ني عليهالسالم بِذي قَا ٍر ُ
وه َو خَي ْص ُ الْ ُم ْؤمن َ
يمةُ َه َذا الن َّْع ِل ِ
َما ق َ
ب إِيَلَّ ِ ِ
يمةَ هَلَا َ -ف َق َال عليهالسالم واللَّه هَل َي أ َ
َح ُّ ت اَل ق ََف ُق ْل ُ
میں نے عرض کی کچھ نہیں! فرمایاکہ خدا کی قسم یہ
مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز()1ہیں مگریہ کہ
اطاًل -مُثَّ َخَر َجِمن إِمرتِ ُكم -إِاَّل أَ ْن أُقِيم ح ّقاً أَو أ َْدفَع ب ِ
حکومت کے ذریعہ میں کسی حق کو قائم کر سکوں یا َ َ ْ ََ ْ َْ ْ
کسی باطل کو دفع کرسکوں۔اس کے بعد لوگوں کے
َّاس َف َق َال:
ب الن َ فَ َخطَ َ
درمیان آکر یہ خطبہ ارشاد فرمایا:۔
ہللا نے حضرت محمد (ص) کواس وقت مبعوث کیا جب
عربوں میں کوئی نہ آسمانی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ
نبوت کا دعویدار تھا۔آپ نے لوگوں کو کھینچ کران کے
مقام تک پہنچایا اور انہیں منزل نجات سے آشنا بنادیا حكمة بعثة النبي
یہاں تک کہ ان کی کجی درست ہوگئی اوران کے حاالت
استوار ہوگئے۔ َح ٌد ِم َنسأَ ث حُمَ َّمداً صلىهللاعليهوآلهوسلم -ولَْي َ إِ َّن اللَّه َب َع َ
آگاہ ہو جائو کہ بخدا قسم میں اس صورت حال کے تبدیل ب ي ْقرأُ كِتَاباً واَل يد ِ ِ
کرنے والوں میں شامل تھا یہاں تک کہ حاالت مکمل َّاس َحىَّت اق الن َ َّعي نُُب َّو ًة -فَ َس َ َ الْ َعَر َ َ
طور پرتبدیل ہوگئے اورمیں نہ کمزور ہوا اور نہ خوفزدہ
ہوا اورآج بھی میرا یہ سفر ویسے ہی مقاصد کے لئے
ت َقنَا ُت ُه ْم وبلَّغَ ُه ْم َمْن َجاَت ُه ْم فَ ْ
اسَت َق َام ْ َب َّوأ َُه ْم حَمَلََّت ُه ْم َ
ہے۔میں باطل کے شکم کو چاک کرکے اس کے پہلو ص َفا ُت ُه ْم .
َّت َواطْ َمأَن ْ
سے وہ حق نکال لوں گا جسے اس نے مظالم کی تہوں
میں چھپادیا ہے۔
فضل علي
ت حِب َ َذافِ ِري َها َما احىَّت َت َولَّ ْ
ِ أَما واللَّه إِ ْن ُكْن ِ
ت لَفي َساقَت َه َ ُ َ
ت وإِ َّن َم ِس ِريي َه َذا لِ ِمثْلِ َها -فَألَْن ُقنَب َّ ت واَل َجُبْن ُ َع َج ْز ُ
ق ً
اط َل َحىَّت خَي ُْر َج احْلَ ُّق ِمن جنبِه.
ئ ْ َْ ف
الْب ِ
َ
ت ن ت نخ گت ن خ ق
ے۔اوراگر وا عا پ نخج ہ ن ف ا ا و ہ مردہ ل
ت ے کا ذ ہ الک
ج بت ب ن کر امک ن ں یم ان
ت اور ے ہ ی عوام ال ن است می ں مزنی د وت پ ی داہ و ج ا
ے ا داز نگو سے ض ے کہ ایس ()1اس م ام پر ی ہ ق ی ال ن ہ ک ی ائج ات ت
ہ
ے کی ر کردار کو چ ہ ہ ج ہ چ
ے کی ک ی ا رورت ھی۔ا ہی ں ان کے حال پر ھوڑدی ا و ا۔ و ا ج ام وے واال ھا و ج ا ا اورب اآل ر لوگ اپ پ
ے و ھر ب ارب اردہ را ے ھ تعلی ہ السالم اسی در عاج زآگ امام
ت ف ف ض ن ت ن ف ق ن ت ت ے؟ جا
ض ن گ
ے م ط ی ت گو ہی قں ہ و س ش ئ
ن ج اف ا ب ھیعروف کی م زل می ں ری ہ ب ن س م ک طری ردعمل ہ ت
ے ج وامرب ال ے۔اکت اہ ٹ ناور ارا گی ای ق
مست ہ ی کت ف ہ ا تک ورہ و ہ وس
ت م ی ا ب ذ ج ک ی ا ہ ی کہ ےل اس
ب
ن گاہ ی تں ناس ب ل کوب ھی دی کھنرہ ی ھی ں ج ہاں م لسل ہ دای ات کے پ یش ظ ر چ ن د ا راد
مکم ے۔پض ق
ھرامام کی اس کے ب عد ب ھی اق مام جح ت کا ری ضئ ہت حرحال ب ا ی رہ ج ا اہ ق ے۔ل ی کن ت ضہ
ہ
ے سا ھ ہی ں دی ا ضاور ج نہاد ل ہی ں وسکا۔ ش ے کہ خ ا و در ت ت ہ ب رورپ ی داہ و ج اے نہ ی ں
عم ہ
ن ت
پ خ
م ن لت ب اتسہ ے۔ نی ہ اوربن
م
ے ھ اوراس و تت ھی پ ی دا و گ ق ب ت
ے اور لصی ن ا ی کو ا ی ل کا ے کہ تاگر امی ر المو ن ی ن ے کوت ات ت ی ار کرل ی ا ہ و ا و د من اسے ر ا م دی اور ی عت کی عالمت ب ا ی اس قکے عالوہ ی ہ ت ک ہ ھی ابل وج ہ ہ
ے اوراسالم کی روح عمل اور حری ک دی داری مردہ وکر رہ ج ا ی۔ ب ہا ہ رار دے لی
ن
میرا قریش سے کیا تعلق ہے۔میں نے کل ان سے کفرکی
بناپرجہاد کیا تھا اورآج فتنہ اور گمراہی کی بنا پر جہاد
کروںگا۔میں ان کا پرانا مد مقابل ہوں اور آج بھی ان کے
مقابلہ پرتیارہوں۔خدا کی قسم قریش کو ہم سے کوئی عداوت
نہیں ہے مگر یہ کہ پروردگارنے ہمیں منتخب قراردیا ہے توبيخ الخارجين عليه
اور ہم نے ان کو اپنی جماعت میں داخل کرنا چاہا تو وہ ان َّه ْم ِ
ين -وألُقَاتلَن ُ
ِ
ش -واللَّه لََق ْد قَا َت ْلُت ُه ْم َكاف ِر َ َما يِل ولُِقَريْ ٍ
اشعارکے مصداق ہوگئے(:ہماری جان کی قسم یہ شراب
س َكما أَنَا ص ِ ني -وإِيِّن لَ َ ِ ِ ِ
ناب صباح -یہ چرب چرب غذائیں ہمارا صدقہ ہیں)(ہمیں احُب ُه ُم الَْي ْو َم - َ صاحُب ُه ْم باأل َْم ِ َ َم ْفتُون َ
اختَ َارنَا َعلَْي ِه ْم - ش إِاَّل أ َّ ِ ِ
َن اللَّه ْ واللَّه َما َتْنق ُم منَّا ُقَريْ ٌ
نے تم کو یہ ساری بلندیاں دی ہیں-وگرنہ تیغ و سناں بس
ہمارا حصہ ہیں)
()34 اه ْم يِف َحيِّ ِزنَا -فَ َكانُوا َك َما قَ َال األ ََّو ُل: فَأ َْد َخ ْلنَ ُ
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ صاحِب اً
ض َ ك الْ َم ْح َ ت لَ َع ْم ِري ُشْربَ َ أ ََد ْم َ
(جس میں خوارج کےقصہ کےبعد لوگوں کو اہل شام الزبْ ِد الْ ُم َقشََّر َة الْبُ ْجَرا
ك بِ ُّ وأَ ْكلَ َ
سےجہادکےلئےآمادہ کیاگیا 2ہےاور انکے حاالت پرافسوس
کا اظہار کرتےہوئےانہیں نصیحت 2کی گئی ہے) اك الْ َعاَل ءَ ومَلْ تَ ُك ْن وحَنْ ُن َو َهْبنَ َ
والس ْمَرا
ك اجْلُْر َد ُّ ِ
حیف ہےتمہارے حال پر۔میں تمہیں مالمت کرتے ()1کرتے وحطْنَا َح ْولَ َ َعليّاً ُ
تھک گیا
( )34
عليهالسالم ومن خطبة له
في استنفار الناس إلى أهل الشام بعد فراغه من أمر
الخوارج وفيها يتأفف بالناس ،وينصح لهم بطريق السداد
ق ً ت ن ت خ ن ت ِعتَئابَ ُ
ك ْم -ف
ِ أ ٍّ
ُف لَ ُك ْم لََق ْد َسئ ْم ُ
ن خ ق
ے۔اوراگر وا عا ے
ج خ ہن ف ا و ہ مردہ ت ل نکا ذ ہ الک
ج بت ب ے کر امک
ن ں یمت ان اور ے ہ ی عوام ال ن اس تمی ں مزیند وت پ ی دا ہ و ج ا ض نسے ے ا داز گ ت گو ے کہ ایس()1اس م ام پر ی ہ ق ی ال ن ہ ک ی ائج ات ت
ہ ہ ج ہ چ ف ن پ ت امام علی
کردار کو
ے کی ر ف ے واال ھا و ج ا ا لاور ب اآل ر لوگ اپ رورت ھی۔ا تہی ں ان کے حال پر ن ھوڑضدی ا و ا۔ واف ج ام و ے و شھر ب تار ب ار دہ راے کی کطیق ا گ ن ے ھ اسی در عاج ز آگ تہ السالم ئ ن
عروف کی من ز ل می ں ری ض ہ س م م ا ب امر و ج ت
ے ہ ل عم رد طری ق
ک ت
س می ا گی ارا اورن ٹ اہ تک ے۔ا ہ ی ک س
ت و ہ ں ق یہ گو ت ی ض
م ے
ف ہ ا تک س و ہ و ورہ
ت م ی ا ب ذ ج ک ی ا ہ ی کہ ے
ل ل ؟اس ےت پ ہ چج ا
اس ن ب ل کو ب ھی دی کھ رہ ین ھی ں ج ہاں لسل ہ دای ات کے نں ے۔پ قھر ضامام کی گاہ ی حال ب ا ی رہ ج ا ا ہکے ب عد ب ھی ا مام جحقت کا ری ہ ب ہرئ ت ے۔ ی کن اس ت پ ھی ب نن ج نا ا فہ ض
ب
الوہ ی ہ ن کت ہع کے اسق کا۔ و ہ ں ہ لت ے سات ھ ہی ں د ا اور ہاد مکم در وق ا کہ ے ات اور ہ ےھ ے ش و ہتدا ت پ ھی ب ت و اس اور
ن ں ہ ے ن ا و ہ دا پ رور راد ا دت چ ر ظ ش ی
لت عم س ن ی ن ل ت یمخ ج پ ن ی بض ن ہ ی گ ت خ ی ی ج ب ق
ے اور ے اور لصی ن ا ی کو اہ ی ل کا ب ہا ہ راردے ی ارکرل ی ا ہ و ا و د من اسے ر ام دی اورب ی عت کی عالمت ب ا ی ے کہ تاگر امی رالموم ی ن ے سک و ا ت ی ت ھی ابل وج ہ عمہ
ن
ے۔ اسالم کی روح ل اور حری ک دی داری مردہ ہ و کر رہ ج ا ی ہ
کیا تم لوگ واقعا آخرت کے عوض زندگانی دنیا پر
الذ ِّل ِم َن
اآلخر ِة) ِعوضاً -وبِ ُّ ِ ياة ُّ ِ (أَر ِضيتم بِاحْل ِ
راضی ہوگئے ہو اورتم نے ذلت کوعزت کا بدل سمجھ لیا الدنْيا م َن َ َ َ ُْ َ
ِ ِ ِ
الْعِّز َخلَفاً -إِذَا َد َع ْوتُ ُك ْم إِىَل ج َهاد َع ُد ِّو ُك ْم َد َار ْ
ہے ؟ کہ جب میں تمہیں دشمن سے جہاد کی دعوت دیتا ت أ َْعُينُ ُك ْم
ہوں تو تم آنکھیں پھرانے لگتے ہو جیسے موت کی بے
ول يِف َسكَْر ٍة - الذه ِ ِ ِ ِ
ہوشی طاری ہو اور غفلت کے نشہ میں مبتال ہو۔تم پر َكأَنَّ ُك ْم م َن الْ َم ْوت يِف َغ ْمَر ٍة وم َن ُّ ُ
جیسے میری گفتگو کے دروازے بند ہوگئے ہیں کہ تم
گمراہ ہوتے جا رہے ہو اورتمہارے دلوں پردیوانگی کا َن ُقلُوبَ ُك ْم َمأْلُ َ
وسةٌ يُْرتَ ُج َعلَْي ُك ْم َح َوا ِري َفَت ْع َم ُهو َن و َكأ َّ
يِل ِِ ٍ ِ ِ
اثر ہوگیا ہے کہ تمہاری سمجھ ہی میں کچھ نہیں آرہا
ہے۔تم کبھی میرے لئے قابل اعتماد نہیں ہوسکتے ہو اور
يس اللَّيَايِل َ
وما فَأَْنتُ ْم اَل َت ْعقلُو َن َ -ما أَْنتُ ْم بث َقة َسج َ
نہ ایسا ستون ہو جس پر بھروسہ کیا جا سکے اور نہ ال بِ ُك ْم -واَل َز َوافُِر ِعٍّز يُ ْفَت َقُر إِلَْي ُك ْم َ -ما أَْنتُ ْم بُِر ْك ٍن مُيَ ُ
عزت کے وسائل ہو جس کی ضرورت محسوس کی جا ب ت ِم ْن َجانِ ٍ ض َّل ُر َعا ُت َها -فَ ُكلَّ َما مُجِ َع ْ
أَْنتُ ْم إِاَّل َكِإبِ ٍل َ
سکے تو تو ان اونٹوں جیسے ہو جن کے چرواہے گم ہو
آخَر – ا ْنتَ َشر ِ
جائیں کہ جب ایک طرف سے جمع کئے جاتے ہیں تو ت م ْن َ َ ْ
دوسری طرف سے بھڑک جاتے ہیں۔
ادو َن واَل ب أَْنتُ ْم -تُ َك ُلَبِْئس لَعمر اللَّه س ْعر نَا ِر احْل ر ِ
خداکی قسم۔تم بد ترین افراد ہوجن کے ذریعہ آتش جنگ َْ ُُ َ َُْ
کو بھڑکا یا جا سکے۔تمہارے ساتھ مکر کیا جاتا ہے اور ِ تَ ِك ُ
تم کوئی تدبیر بھی نہیں کرتے ہو۔تمہارے عالقے کم ہو
ضو َن اَل يُنَ ُام َعْن ُك ْم ص أَطَْرافُ ُك ْم فَاَل مَتْتَع ُ
يدو َن -وتُْنَت َق ُ
ِ ِ ٍ
تے جا رہے ہیں اورتمہیں غصہ بھی نہیں آتا ہے۔دشمن ب واللَّه الْ ُمتَ َخاذلُو َن -وامْيُ اهو َن -غُل َ وأَْنتُ ْم يِف َغ ْفلَة َس ُ
تمہاری طرف سے غافل نہیں ہے مگر تم غفلت کی نیند ِ ِ َّ ِ
سو رہے ہو۔خدا کی قسم سستی برتنے والے ہمیشہ واستَ َحَّر
س الْ َو َغى ْ الله -إيِّن ألَظُ ُّن ب ُك ْم أَ ْن لَ ْو مَح َ
الرأْ ِس ٍِ ِ ِ
اج َّت قَد ا ْن َفَر ْجتُ ْم َع ِن ابْ ِن أَيِب طَالب انْفَر َ الْ َم ْو ُ
مغلوب ہو جاتے ہیں اور بخدا میں تمہارے بارے میں
یہی خیال رکھتا ہوں کہ اگرجنگ نے زور پکڑ لیا اور
موت کا بازار گرم ہوگیا تو تم فرزند ابو طالب سے یوں .
ہی الگ ہو جائو گے جس طرح جسم سے سر الگ ہو
جاتا ہے
خدا کی قسم اگر کوئی شخص اپنے دشمن کو قابو دے وي ْه ِش ُم ِ ِ ِ
واللَّه إ َّن ْامَرأً مُيَ ِّك ُن َع ُد َّوه م ْن َن ْفسه َ -ي ْعُر ُق حَلْ َمه َ
دیتا ہے کہ وہ اس کا گوشت اتارے اور ہڈی توڑ ڈالے
ِ
اور کھال کے ٹکڑے ٹکڑے کردے تو ایسا شخص يف َماضعِ ٌ يم َع ْجُزه َ -
ِ
وي ْف ِري /ج ْل َده لَ َعظ ٌ َعظْ َمه َ -
عاجزی کی آخری سرحد پر ہے اور اس کا وہ دل انتہائی ِ ِ
کمزور ہے جو اس کے پہلوؤں کے درمیان ہے تم چاہو
ت- ت فَ ُك ْن َذ َاك إِ ْن شْئ َص ْد ِره أَنْ َ ت َعلَْيه َج َوان ُح َ ض َّم ْ ُ
ِِ ِ ضر ٌ ِ ِ
فَأ ََّما أَنَا َف َواللَّه ُدو َن أَ ْن أ ُْع ِط َي َذل َ
ب بالْ َم ْشَرفيَّة تَطريُ ك َْ
تو ایسے ہی ہوجاؤ لیکن خدا گواہ ہے کہ اس نوبت کے
آنے سے پہلے تلوار چالؤں گا کہ کھوپڑیاں ٹکڑے
وي ْف َعل اهلل) ِمْنه َفراش اهْل ِام وتَ ِطيح َّ ِ
ٹکڑے ہو کر اڑتی دکھائی دیں گے اور ہاتھ پیر کٹ کر الس َواع ُد واألَقْ َد ُام ُ َ ( - ُ َ ُ َ
گرتے نظرآئیں گے ۔ اس کے بعد خدا جو ك (مِم َّا يَشاءُ) – ِ
َب ْع َد َذل َ
چاہے گا وہ کرے گا ۔
ایہا الناس !یقینا ایک حق میرا تمہارے ذمہ ہے اورایک طريق السداد
()1
ن ن ن
لنصرته
ت ئب ت ش ش ت ئ ف
کہ
غ ے یھ ج دی ا ھا ج ب ض دو ہ زار کال کر عی ن ال مر پترحملہ کرے ن
کے ل ل سدان ہ کاروا ی وں می ں سے ای ک عمل ی ہ ب ھی ھا کہفاس ے تعمان ب قن ب ی رن کینسر کردگی می تں ن ( )1قمعاوی ہ کی م
پ
رت کے پ اس ی ام ے۔مالک ے ح ن ئ ن ج ی ع ت نر المو ن کی طرف سے م
سب مو ود ہ ھق
ےل کن وہ ن مالک ب ثن کعب ای ک ہ زار ا راد کے سا نھ ق ال ہ کی گرا تی تکر رےئ ھ
ہوے ف ی ے خنط یہ ارش اد ف رما ا ل ی کنن خ اطر خ واہ ا رن باس و ت امی
ےہ یے دوسرے ب ا ل نکوبف ھینش امل کر ا چ اہ ا اور ج ی س آپ ق
ل کن کے سئا ھ ی ار ہ
ے ب ی لہ ت پا م
ش اح ئ ن ب عدی وا۔صرف ہ ہ خ ی ب خنیھ ج ا۔آپس
ے ل کر معاوی ہ آ ی ہ و ی کمک کودی کھ رار کرگ ی ا ی کن وم کے دامن پر ا رما ی کادھب ہ رہ گ ی ا کہ عام ف کے ہ مراہ پ چ اس آدمی روان ہ کرد ی نن ضلی م ے ع ب دالرحمن بئنتم ن فم ف ب
ا راد ے ح رت کے کالم پر کو ی وج ہ ہی ں دی۔
ِ ِ منِ مِب
يب إِ َذا َد َع ْو ُ يع إِ َذا أ ََم ْر ُ
میں ایسے افراد میں مبتال ہوگیا ہوں جنہیں حکم دیتا ہوں
ت اَل أَبَا ت واَل جُي ُ يت َ ْن اَل يُط ُ ُ ُ
تو اطاعت نہیں کرتے ہیں اور بالتا ہوں تو لبیک نہیں
ِ ِ
کہتے ہیں۔خدا تمہارا برا کرے ' اپنے پروردگار کی مدد ين جَيْ َمعُ ُك ْم واَل ص ِر ُك ْم َربَّ ُك ْم -أ ََما د ٌ لَ ُك ْم َما َتْنتَظُرو َن بِنَ ْ
کرنے میں کس چیز کا انتظار کر رہے ہو۔کیا تمہیں جمع مَحِ يَّةَ حُت ِمش ُكم أَقُ ِ
کرنے واال دین نہیں ہے اور کیا جوش دالنے والی غیرت ص ِرخاً وأُنَ ِادي ُك ْم ُمَتغَ ِّوثاً وم في ُك ْم ُم ْستَ ْ ْ ُ ْ ُ
ِ
نہیں ہے۔میں تم میں کھڑا ہو کر آواز دیتا ہوں اور تمہیں
فریاد کے لئے بالتا ہوں لیکن نہ میری بات سنتے ہو اور
فَاَل تَ ْس َمعُو َن يِل َق ْواًل واَل تُطيعُو َن يِل أ َْمراً َ -حىَّت تَ َكش َ
َّف
ب الْ َم َساءَ ِة -فَ َما يُ ْد َر ُك بِ ُك ْم ثَ ٌار واَل األ ُُمور َع ْن َعواقِ ِ
نہ میرے حکم کی اطاعت کرتے ہو۔یہاں تک کہ حاالت َ ُ
ِ
ص ِر إِ ْخ َوان ُك ْم -فَ َج ْر َج ْرمُتْ يُْبلَ ُغ بِ ُك ْم َمَر ٌام َ -د َع ْوتُ ُك ْم إِىَل نَ ْ
کے بد ترین نتائج سامنے آجائیں ۔سچی بات یہ ہے کہ
تمہارے ذریعہ نہ کسی خون نا حق کا بدلہ لیا جا سکتا
ہے اور نہ کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔میں نے ِّض ِو األ َْدبَِر مُثَّ
َسِّر وَتثَا َق ْلتُ ْم َتثَاقُ َل الن ْ َجْر َجَر َة اجْلَ َم ِل األ َ
تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لئے پکارا مگر تم
اس اونٹ کی طرح بلبال نے لگے جس کی ناف میں درد يف – ( َكأَمَّن ا يُساقُو َن ضعِ ٌ ب َ
ِ ِ ِ
َخَر َج إيَلَّ مْن ُك ْم ُجَنْي ٌد ُمتَ َذائ ٌ
ِ
وه ْم َيْنظُُرو َن). إِىَل الْ َم ْوت ُ
ہو اور اس کمزور شتر کی طرح سست پڑ گئے جس کی
پشت زخمی ہو۔اس کے بعد تم سے ایک مختصر سی
کمزور' پریشان حال سپاہ برآمد ہوئی اس طرح جیسے قال السيد الشريف -أقول قوله عليهالسالم متذائب أي
انہیں موت کی طرف ڈھکیال جا رہا ہو اور یہ بے کسی
سے موت دیکھ رہے ہوں۔ مضطرب -من قوهلم تذاءبت الريح أي اضطرب هبوهبا
سیدرضی :حضرت کے کالم میں متذائب مضطرب کے -ومنه مسي الذئب ذئبا الضطراب مشيته.
معنی میں ہے کہ عرب اس لفظ کو اس ہوا کے بارے
میں استعمال کرتے ہیں جس کا رخ معین نہیں ہوتا ہے
اوربھیڑئیے کوبھی ذئب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی
چال بے ہنگم ہو تی ہے۔
()40 ()40
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(خوارج کے بارے میں ان کا یہ مقولہ سن کر کہ'' حکم
ہللا کے عالوہ کسی کے لئے نہیں ہے)
في الخوارج لما سمع قولهم «ال حكم إال هلل»
یہ ایک کلمہ حق ہے جس سے باطل معنی مراد لئے قَ َال عليهالسالم َ :كلِمةُ ح ٍّق يراد هِب ا ب ِ
اط ٌل َ -ن َع ْم إِنَّه اَل
گئے ہیں۔بیشک حکم صرف ہللا کے لئے ہے۔لیکن ان َ َ َُ ُ َ َ
لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور امارت()1بھی صرف ْم إِاَّل لِلَّه -ولَ ِك َّن َه ُؤاَل ِء َي ُقولُو َن اَل إِ ْمَر َة إِاَّل لِلَّه وإِنَّه ُحك َ
ہللا کے لئے ہے حاالنکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام
اج ٍر َ -ي ْع َم ُل يِف إِ ْمَرتِه الْ ُم ْؤ ِم ُن َّاس ِمن أَِم ٍري بٍّر أَو فَ ِ ِ
انسانیت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہر حال ضروری َ ْ اَل بُ َّد للن ِ ْ
َج َل وجُيْ َم ُع بِه ِ ِ ِ ِ
ہے چاہے نیک کردار ہو یا فاسق کہ حکومت کے -ويَ ْستَ ْمت ُع ف َيها الْ َكافُر -ويَُبلِّ ُغ اللَّه ف َيها األ َ
زیرسایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے
اور کافر بھی مزے اڑا سکتا ہے اور ہللا ہرچیز کو اس السبُ ُل -ويُ ْؤ َخ ُذ بِه الْ َف ْيءُ -ويُ َقاتَ ُل بِه الْ َع ُد ُّو وتَأْ َم ُن بِه ُّ
اح ِم ْن لِلضَّعِ ِ
يف ِم َن الْ َق ِو ِّ
يح َبٌّر ويُ ْسَتَر َ ي َ -حىَّت يَ ْسرَتِ َ
کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے اور مال غنیمت و خراج
وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اور دشمنوں سے جنگ کی جاتی
ہے اور راستوں کا تحفظ کیا جاتا ہے اور طاقتور سے
فَ ِ
اج ٍر.
کمزور کا حق لیا جاتا ہے تاکہ نیک کردار انسان کو ِ ِ ٍ
راحت ملے اوربد کردار انسان سے راحت ملے۔ يم ُه ْم قَ َال: ُخَرى أَنَّه عليهالسالم لَ َّما مَس َع حَتْك َ ويِف ِر َوايَة أ ْ
(ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کو تحکیم کی اطالع ْم اللَّه أَْنتَ ِظُر فِي ُك ْم.ُحك َ
ملی توفرمایا)'' میں تمہارے بارے میں حکم خدا کا
ت
انتظار کر رہا ہوں '' ف
.
ت ت ت ق ت ف ت
ے۔ہکومت کا وج ود تسماج می ں حاکم و محکوم کا ام ی از پ یندا کر ا تدعوی ی ہ تھا کہ ح ن ح()1س رہ وی ں صدی میق ں ایچک چ لس ہت نخایسا ب ھیم پ ی داہ توا ھا جس کا م صد مزاج کی تحمای ت ھا اوراسق کا ق
ے۔اوردوسرےتکو ئی ہ حخق ن ہی ں ہ و ا ت ق ہا و ہ ق
ق ح ا ک ے کر الم ع سئ ا ت اط کو ہ ف ک ے۔ا
ج ہ ت ی ل طب ا ا رہ حروم دوسراق اور ں ی ا ل
ن ن واہ ی خ ج ہ ی ل ح ق م ں ھی ا ھی ا کو ہ ک
ی ت طب ا سے کومت
ن نت
ے ئسے ا ہا ی طر اک ہ ے فاور خح ی ب خت کے اع ب ار ے کہ نی ہ ب یسان ظ وں میئں ا ہا ی حسی فن ہ الفت ہ ی ں ی کن ی ت امر ی ہ ہ کے ساری ب ا ی ں مزاج ا سا ی تے اور ی ہ ف ہ
ے۔سارے سادات کا فود نود عالج ہ و ج اے گا۔ ئ اورعام حکام کو عدالت کا پ اب د نلی م نکرل ی ا ج ا
ن ع
ے کہ حاکم ا ٰلی کو معصوم اورب ی ان فکردہفم اسد خکا عالجفی ہ
س ل ح ب ہ
مذکورہ ب اال لس ہ کے الف طرت کی روش ھی وہ ھی جس ے 1920ئ می ں اس کا ج ازہ کال دی ا اور پ ھر کو ی ایسا ا مق ی ہی ں پ ی دا ہ وا۔
پھر فرمایا:حکومت نیک ہوتی ہے تو متقی کو کام کرنے
کا موقع ملتا ہے اورحاکم فاسق و فاجر ہوتا ہے تو بد
وقَ َال أ ََّما ا ِإل ْمَرةُ الَْبَّرةُ َفَي ْع َم ُل فِ َيها الت َِّق ُّي -وأ ََّما ا ِإل ْمَرةُ
َّق ُّي -إِىَل أَ ْن َتْن َق ِط َع ُم َّدتُه وتُ ْد ِر َكهاجرةُ َفيتمتَّع فِيها الش ِ ِ
بختوں کو مزہ اڑانے کا موقع ملتا ہے یہاں تک کہ اس الْ َف َ ََ َ ُ َ
َمنِيَّتُه
کی مدت تمام ہو جائے اور موت اسے اپنی گرفت میں
لے لے
()41 ()41
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(جس میں غداری سے روکا گیا ہے اور اس کے نتائج
سے ڈرایا گیا ہے) وفيها ينهى عن الغدر ويحذر منه
ایہا الناس!یاد رکھو وفا ہمیشہ صداقت کے ساتھ رہتی ہے الص ْد ِق واَل أ َْعلَ ُم ُجنَّةً أ َْوقَى َّاس إِ َّن الْ َوفَاءَ َت ْوأ َُم ِّ
أَيُّ َها الن ُ
اور میں اس سے بہتر محافظ کوئی سپرنہیں جانتا ہوں
َصبَ ْحنَا ِ ِ ِ ِ
اور جسے باز گشت کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے وہ ف الْ َم ْرج ُع -ولََق ْد أ ْ وما َي ْغد ُر َم ْن َعل َم َكْي َ مْنه َ -
غداری نہیں کرتا ہے۔ہم ایک ایسے دورمیں واقع ہوئے ان قَ ِد اخَّتَ َذ أَ ْكَثُر أ َْهلِه الْغَ ْد َر َكْيساً ونَ َسَب ُه ْم أ َْه ُليِف َزم ٍ
َ
ہیں جس کی اکثریت نے غداری اور مکاری کا نام
ہوشیاری رکھ لیا ہے۔اور اہل جہالت نے اس کا نام حسن ِ ِ ِ
اجْلَ ْه ِل فيه إِىَل ُح ْس ِن احْل يلَة َ -ما هَلُ ْم قَا َتلَ ُه ُم اللَّه -قَ ْد َيَرى
تدبیر رکھ لیا ہے۔آخر انہیں کیا ہوگیا ہے۔خدا انہیں غارت
کرے۔وہ انسان جو حاالت کے الٹ پھیر کو دیکھ چکا ہے ودونَ َها َمانِ ٌع ِ -م ْن أ َْم ِر اللَّه ِ ِ
ب َو ْجه احْل يلَة ُ احْلَُّو ُل الْ ُقلَّ ُ
وہ بھی حیلہ کے رخ کو جانتا ہے لیکن امرو نہی ٰالہی ويْنتَ ِهُز
ي َعنْي ٍ َب ْع َد الْ ُق ْد َر ِة َعلَْي َها َ - ِ
و َن ْهيه َ -فيَ َدعُ َها َرأْ َ
اس کا راستہ روک لیتے ہیں اور وہ امکان رکھنے کے
باوجود اس راستہ کو ترک کر دیتا ہے اور وہ شخص اس صَت َها َم ْن اَل َح ِرجيَةَ لَه يِف الدِّي ِن. ُفْر َ
موقع سے فائدہ اٹھالیتا ہے جس کے لئے دین سد راہ نہیں
ہوتا ہے۔
()42
آپ کا ارشاد گرامی ()42
(جس میں اتباع خواہشات اور طول امل سے ڈرایا گیا عليهالسالم ومن كالم له
ہے)
ایہاالناس! میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو وفيه يحذر من اتباع الهوى وطول األمل في الدنيا
چیزوں کا خوف رکھتا ہوں۔اتباع خواہشات اور درازی ِ
امید کہ اتباع خواہشات انسان کو راہ حق سے روک دیتا اف َعلَْي ُك ُم -ا ْثنَان اتِّبَاعُ َخ ُ ف َما أ َ َّاس إِ َّن أ ْ
َخ َو َ أَيُّ َها الن ُ
ہے اور طول امل آخرت کو بھال دیتا ہے۔یاد رکھو دنیا ص ُّد َع ِن احْلَ ِّق - ول األ ََم ِل فَأ ََّما اتِّبَاعُ اهْلََوى َفيَ ُ اهْلََوى وطُ ُ
منہ پھیر کر جا رہی ہے اور اس میں سے کچھ باقی نہیں
رہ گیا ہے مگر اتنا جتنا برتن سے چیز کوانڈیل دینے ول األ ََم ِل
وأ ََّما طُ ُ
اآلخَر َة -أَاَل وإِ َّن َُّفيْن ِسي ِ
ت َح َّذاءَ َفلَ ْم َيْب َق الد ْنيَا قَ ْد َولَّ ْ
کے بعد تہ میں باقی رہ جاتا ہے اور آخرت اب سامنے
آرہی ہے۔ ُ
صابُّ َها أَاَل وإِ َّن ِ ِ ِ
دنیا وآخرت دونوں کی اپنی اوالد ہیں۔ل ٰہذا تم آخرت کے اصطََّب َها َصبَابَة ا ِإلنَاء ْ - صبَابَةٌ َك ُ مْن َها إِاَّل ُ
ت ولِ ُك ٍّل ِمْن ُه َما َبنُو َن -فَ ُكونُوا ِم ْن أ َْبنَ ِاء
فرزندوں میں شامل ہو جائو اور خبردار فرزندان دنیا میں ِ
شمار ہونا اس لئے کہ عنقریب ہر فرزند کو اس کے ماں اآلخَر َة قَ ْد أَْقَبلَ ْ
کے ()1ساتھ مالدیا جائے گا۔آج عمل کی منزل ہے اور اآلخَر ِة واَل تَ ُكونُوا ِم ْن أ َْبنَ ِاء ُّ
الد ْنيَا -فَِإ َّن ُك َّل َولَ ٍد َسُي ْل َح ُق ِ
کوئی حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہے اور
ِ ِ ِ ِ ِِ
کوئی عمل کی گنجائش نہیں ہے۔ اب و َغداً بأَبيه َي ْو َم الْقيَ َامة -وإ َّن الَْي ْو َم َع َم ٌل واَل ح َس َ
سید رضی شریف نے فرمایا " میں کہتا ہوں کہ (الحذاء) اب واَل َع َم َل. ِ
یعنی جلدی اور بعض لوگوں نے جذاء بھی روایت کی ح َس ٌ
ہے قال الشريف -أقول احلذاء السريعة -ومن الناس من
شخ
ت
شخ ئ
جذاء. نيرويه
حق ق ث ئ ن ق
ق تش ق
کی ی ص اپ قےب ئ ت اں ہ ر ص کواس کی ماں کے ام سے پمک قارا ج اے گا کہ م ناں ہ ی ایخک اب ت ی ت ہ ےخ اور وہ ن اوروا عات پر ئہ)ا خسان کی عا ب ت کا دارومدارح ا ق خ ( 1ت
رورش پ ا و اکہ ت ی امت
ن پ ں یم گود کی رت آ ں یم ا ی د
ئ کہ ے
ہ ہ ی صد پ اک الم س لا ہ ی لع ے۔امام ہ ائتک س و ہ ں یہ الف ت ا ی کو
ہ ں یم ص ی
ن ماں کی ے لئی کن ہ ئ می ں و ا ت الف ہ و سکت ا
ی
اس تدن و ت ی م ہ توں خگے ج ن کاف کو خی ب اپ ن ہ ہ وگا اور ماں کو ب ھی یچ ھ ن ن
ے سے ب ہ ر ی ہ ہ
ے ے سہارا ب ن ے چ ھوڑ کرآے ہ وں گے۔ایسا ب کے دن اسی سے مالد ی
ے نجت ا و ور ہ اب اء د ی ا ن
کہ ی ہی ں سے سہارے کا ا ظ ام کرلو اور پورے ا ظ ام کے سا ھ آ رت کا س را ت ی ار کرو۔
()43 ()43
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن كالم له
(جب جریربن 2عبدہللا البجلی کو معاویہ کے پاس بھیجنے
اور معاویہ کے انکار بیعت کے بعد اصحاب 2کو اہل شام
وقد أشار عليه أصحابه باالستعداد لحرب أهل الشام
سے جنگ پرآمادہ کرنا چاہا) 2 بعد إرساله جرير بن عبد اهلل
اس وقت میری اہل شام سے جنگ کی تیاری جب کہ
جریر وہاں موجود ہیں شام پر تمام دروازے بند کردینا البجلي إىل معاوية ومل ينزل معاوية على بيعته
ہے اور انہیں خیرکے راستہ سے روک دینا ہے اگروہ وج ِر ٌير ِعْن َد ُه ْم -إِغْاَل ٌق ِ إِ َّن ْ ِ ِ حِل ِ
خیر کا ارادہ بھی کرنا چاہیں۔میں نے جریر کے لئے است ْع َدادي َْرب أ َْه ِل الشَّام َ
ایک وقت مقرر کردیا ہے۔اس کے بعدوہ وہاں یا کسی ف أل َْهلِه َع ْن خَرْيٍ إِ ْن أ ََر ُادوه -ولَ ِك ْن قَ ْد َوقَّ ُّ
ت وص ْر ٌ ِ ِ
للشَّام َ
دھوکہ کی بنا پر رک سکتے ہیں یا نا فرمانی کی بنا پر۔ جِل ِري ٍر وقْتاً اَل ي ِقيم بع َده -إِاَّل خَمْ ُدوعاً أَو ع ِ
اور دونوں صورتوں میں میری رائے یہی ہے کہ انتظار والرأْ ُ
ي اصياً َّ - ْ َ ُ ُ َْ َ َ
کیا جائے لہٰ ذا ابھی پیشقدمی نہ کرو اور میں منع بھی ِعْن ِدي َم َع األَنَ ِاة فَأ َْر ِو ُدوا واَل أَ ْكَره لَ ُك ُم ا ِإل ْع َد َاد .
نہیں کرتا ہوں اگر اندراندر تیاری()1کرتے رہو۔
میں نے اس مسئلہ پر مکمل غور و فکرکرلیا ہے اوراس ت ظَ ْهَره وبَطْنَه وعْينَه و َقلَّْب ُ
ف َه َذا األ َْم ِر َ ت أَنْ َ
ضَربْ ُ ولََق ْد َ
کے ظاہر و باطن کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے۔اب میرے َ -فلَ ْم أ ََر يِل فِيه إِاَّل الْ ِقتَ َال أَ ِو الْ ُك ْفَر -مِب َا َجاءَ حُمَ َّم ٌد
سامنے دو ہی راستے ہیں یا جنگ کروں یا بیانات پیغمبر
ِ ٍ
السالم (ص) کا انکار کردوں۔مجھ سے پہلے اس قوم کا ثَح َد َصلىهللاعليهوآلهوسلم -إِنَّه قَ ْد َكا َن َعلَى األ َُّمة َوال أ ْ
ایک حکمران تھا۔اس نے اسالم میں بدعتیں ایجاد کیں اور
لوگوں کوبولنے کا موقع دیا تو لوگوں نے زبان کھولی۔ َّاس َم َقااًل َف َقالُوا مُثَّ َن َق ُموا َفغََّيُروا.
َح َداثاً -وأ َْو َج َد الن َ أْ
پھراپنی ناراضگی کااظہار کیا اورآخر میں سماج کا
ف ڈھانچہ بدل قدیا۔ ت
ف ئ ش
ہ ش ہ م تق ض ن ہ ن تق ض عم ت
طرف اش ارہ
ے کہ د من کو کو ی ب ہا ہ را م ہ کرو اور وا عی اح ی اط کا ا ا ی ہ ہ
ے کہ اس کے کرو ری ب سے و ی ار ر و ے کہ لی اح ی اط کا ا ا ی ہ ہ ہت ئ ( )1یقہ اس قامر کی ن
ے ی ار رہ و۔ اورہ ر و ت م اب لہ کرے کے ل
()44 ()44
حضرت کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(اس موقع پر جب مصقلہ 2بن ہیرہ شیبانی نے آپ کے ()1
عامل سبے بنی ناجیہ کے اسیرکو خرید کر آزاد کردیا لما هرب مصقلة بن هبيرة الشيباني إلى معاوية ،وكان
اور جب حضرت نے اس سے قیمت کامطالبہ 2کیا تو بد قد ابتاع سبي بني ناجية من عامل أمير المؤمنين
دیانتی کرتے ہوئے شام کی طرف فرار کر گیا)
خدا برے کرے مصقلہ کاکہ اس نے کام شریفوں جیسا کیا عليهالسالم 2وأعتقهم ،فلما طالبه بالمال خاس به وهرب
لیکن فرار غالموں} کی طرح کیا۔ابھی اس کے مداح نے
زبان کھولی بھی نہیں تھی کہ اسنے خود ہی خاموش
إلى الشام
کردیا اور اس کی تعریف میں کچھ کہنے واال کچھ کہنے
بھی نہ پایا تھا کہ اس نے منہ بند کردیا۔اگر وہیں ٹھہرا
رہتا تو میں جس قدر ممکن ہوتا اس سے لے لیتا اورباقی
کے لئے اس کے مال کی زیادتی کا انتظار کرتا۔
الساد ِة و َفَّر فِرار الْعبِ ِ ِ
يد - ََ َ َقبَّ َح اللَّه َم ْ
ص َقلَةَ َ -ف َع َل ف ْع َل َّ َ
َّق و ِ ِ
اص َفه َحىَّت صد َ َ َس َكتَه -واَل َ فَ َما أَنْطَ َق َماد َحه َحىَّت أ ْ
وره ب َّكته ولَو أَقَام ألَخ ْذنَتا ميسوره وا ْنتظَر مِب ِ
ن ش ق ت خ خ
ش ن ن غ ت ننَا َاله ُوفُ َ
ش ش َ ْ خ َ َ ْ َ َ َْ ُ َ ق خ
ق
نن را ت د ضکا ا دام ق ھا جس کودب اے ب کے ای ک نص ری ت ف ں ای ک ب ی اج ی ہ ق خ یان مل وارج ے جنن ور شوں کاآ از ک ی ا تھا ے فکہ حکی م نکے ب تعد ن ہ ( )1ئاس ضوا عہ کانالصہ ی ہ
رت م ق ل ب ن یسقری احی ع ے برپ ا کرے لگا و ح ف کودب ا دی ا ھا ی کنخ ری ت دوسرےش عالن ح
وں فمی ں ت ے ح شرت ے زی ادہ بن ن صہ کو روا ہ ک ی ا ھا اور انہوں ے اسئ ورش ب کے ل
ے ت ن ہ کو دب ا دی ا اور ب ہتق سے ا راد کو ی دی ب ن ال ی ا۔ ی دیوں دی اورب اآلن ر حض خرت کے ل کر ق مک یھ ج ف ے
نک قادھر اب ن عشب اس ے ب صرہ کے ل ق اور ا ی کرد ہ روا کر ت
کردے ل کا زار کو دو ہ
کے بل عدت کردی۔اس ف ش صرف ایفک سط ادا
کرآزاد کردی ا اور یمتضکی ن ش ئ ن ں ری د سے گزر ہ وا۔اس ے ی دی ئوں کی ری اد بپر ا ہی ف کے ہرخ راست ہ می ں مص لہ ے کہ ن ےض ھ ہ خکو لے کر ٹج ا ر
ے ام ب ھاگ گ ی ا۔ح رت ے رمای ا کہ کام ری وں کا ک ی ا ھا ی کن ے اور ج ان چ اے کے ل اموش ب ی ھ گ ی ثا۔ح رت ے ب ار ارم طالب ہ ک ی ا۔آ ر می ں کو ہ آکردو الکھ درہ م دےد ی ً
ت ت ت ن ئ ق ت ن وا۔ ہ ت اب ی ہ ل ی واق عا ذل
ق ن ی ق
ے اورج ب م روض کے پ اس ے ب لکہ حاالت کا ا ظ ار ک ی ا ج ا ا ہ تاسالم تکے قاس ا ون کی اطالع تہ و ی کہ رض کی ادا گی می ں ج بر ہی ں ک ی ا ج ا ا ہ ف کاش اسے ن
ے۔! امکا ات راہ م ہ و ج اے ہ ی ں ب رض کا م طالب ہ ک ی ا ج ا ا ہ
()45 ()45
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(یہ عید الفطر کے موقع پرآپ کے طویل خطبہ کا ایک
جز ہے جس میں حمد خدا اور مذمت دنیا کا ذکر کیا گیا وهو بعض خطبة طويلة خطبها يوم الفطر وفيها يحمد
ہے) اهلل ويذم الدنيا
تمام تعریف اس ہللا کے لئے ہے جس کی رحمت سے
مایوس نہیں ہوا جاتا اور جس کی نعمت سے کسی کا حمد اهلل
دامن خالی نہیں ہے۔نہ کوئی شخص اس کی مغرفت سے
وط ِم ْن َرمْح َتِه -واَل خَمْلٍُّو ِم ْن نِ ْع َمتِه - احْل م ُد لِلَّه َغير م ْقنُ ٍ
مایوس ہو سکتا ہے اور نہ کسی میں اس کی عبادت سے َْ َ َْ
ِ ِ ِ
وس من م ْغفرته -واَل مسَتْن َك ٍِ ِ
ف َع ْن عبَ َادته - واَل َمأْيُ ٍ ْ َ َ
اکڑنے کا امکان ہے۔نہ اس کی رحمت تمام ہوتی ہے اور
نہ اس کی نعمت کا سلسلہ رکتا ہے۔
ُْ
یہ دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کے لئے فنا اور اس کے الَّ ِذي اَل َتْبَر ُح ِمْنه َرمْح َةٌ -واَل ُت ْف َق ُد لَه نِ ْع َمةٌ.
باشندوں کے لئے جال وطنی مقدر ہے۔یہ دیکھنے میں
شیریں اور سر سبز ہے جو اپنے طلب گار کی طرف
ذم الدنيا
والد ْنيا دار ميِن هَل ا الْ َفناء -وألَهلِها ِمْنها اجْل اَل ء ِ
وه َي ُّ َ َ ٌ ُ َ َ َ ُ
تیزی سے بڑھتی ہے اور اس کے دل میں سما جاتی ہے۔
ل ٰہذا خبردار اس سے کوچ کی تیاری کرو اور بہترین زاد
َْ َ َ ُ
راہ لے کر چلو۔اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال ت بَِق ْل ِ
ب ب -والْتَبَ َس ْ ت لِلطَّالِ ِ ِ
ضَراءُ -وقَ ْد َعجلَ ْ ُح ْل َوةٌ َخ ْ
نہ کرنا اور جتنے سے کام چل جائے اس سے زیادہ کا الز ِاد -ضَرتِ ُك ْم ِم َن َّ َح َس ِن َما حِب َ ْ ِ ِ ِ
النَّاظ ِر -فَ ْارحَت لُوا مْن َها بِأ ْ
مطالبہ نہ کرنا۔
اف واَل تَطْلُبُوا ِمْن َها أَ ْكَثَر ِم َن واَل تَسأَلُوا فِيها َفو َق الْ َك َف ِ
()46 َ ْ ْ
آپ کا ارشاد گرامی الْبَاَل ِغ
(جب شام کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور اس دعا کو ()46
رکاب میں پائوں 2رکھتے ہوئے درد زبان فرمایا)2
خدایا:میں سفر کی مشقت اور واپسی کے اندوہ و غم عليهالسالم ومن كالم له
عند عزمه على المسير إلى الشام
وهو دعاء دعا به ربه عند وضع رجله في الركاب
ك ِم ْن َو ْعثَ ِاء َّ
الس َف ِر اللَّ ُه َّم إِيِّن أَعُوذُ بِ َ
اور اہل و مال و اوالد کی بد حالی سے تیرے پناہ چاہتا ب وس ِ
وء الْ َمْنظَ ِر -يِف األ َْه ِل والْ َم ِال والْ َولَ ِد ِ
ہوں۔تو ہی سفرکا ساتھی ہے اور گھر کا نگراں ہے کہ یہ و َكآبَة الْ ُمْن َقلَ ِ ُ
ت اخْلَلِي َفةُ يِف ب يِف َّ
الس َف ِر -وأَنْ َ
-اللَّه َّم أَنْت َّ ِ
دونوں کام تیرے عالوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا کہ
الصاح ُ ُ َ
جسے گھر میں چھوڑ دیا جائے وہ سفرمیں کام نہیں آتا
ہے اور جسے سفرمیں ساتھ لے لیاجائے گا وہ گھر کی ف اَل يَ ُكو ُن األ َْه ِل -واَل جَيْ َمعُ ُه َما َغْيُر َك -أل َّ
َن الْ ُم ْستَ ْخلَ َ
نگرانی نہیں کر سکتا ہے۔ ب اَل يَ ُكو ُن ُم ْستَ ْخلَفاً.
ص َح ُ ص َحباً -والْ ُم ْستَ ْ ُم ْستَ ْ
سید رضی :اس دعا کا ابتدائی حصہ سرکار دوعالم
(ص) سے نقل کیا گیا ہے اور آخری حصہ موالئے قال السيد الشريف رضيهللاعنه -وابتداء هذا الكالم
کائنات کی تضمین کا ہے جو سرکار (ص) کے کلمات
مروي عن رسول اهلل صلىهللاعليهوآلهوسلم -وقد قفاه
کی بہترین توضیح اور تکمیل ہے ۔'' ال جیمعهما غریک
أمري املؤمنني عليهالسالم بأبلغ كالم ومتمه بأحسن متام -
''
من قوله وال جيمعهما غريك -إىل آخر الفصل.
()47
آپ کا ارشاد گرامی
()47
(کوفہ کے بارے میں ) عليهالسالم ومن كالم له
اے کوفہ! جیسے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے بازار في ذكر الكوفة
عکاظ کے چمڑے کی طرح کھینچا جا رہا ہے۔تجھ
ِ ِ ِ ِِ
پرحوادث کے حملے ہو رہے ہیں اور تجھے زلزلوں کا ِّين َم َّد األَد ِمي الْعُ َكاظ ِّي تُ ْعَرك َ
ني َكأَيِّن بك يَا ُكوفَةُ مُتَد َ
مرکب بنادیا گیا ہے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ جو ظالم َعلَم أَنَّه ما أَر َاد بِ ِ بِالنَّوا ِز ِل وتُر َكبِ َ ِ ِ ِ ِ
و جابر بھی تیرے ساتھ کوئی برائی کرنا چاہے گا ك ني بالزَّاَل زل -وإيِّن أل ْ ُ َ َ ْ َ
ِ
ور َماه بَِقات ٍل! ِ ِ ِ
َجبَّ ٌار ُسوءاً -إاَّل ْابتَاَل ه اللَّه ب َشاغ ٍل َ
پروردگار اسے کسی نہ کسی مصیبت میں مبتال کردے
گا اور اسے کسی قاتل کی زد پر لے آئے گا۔
()48 ()48
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ2 عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة
پر ارشاد فرمایا تھا)
پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی خارجا من الكوفة إلى صفين
چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی
حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس
کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔
امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا
ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ب لَْي ٌل و َغ َس َق واحْلَ ْم ُد لِلَّه ُكلَّ َما اَل َح ِ
احْلَ ْم ُد للَّه ُكلَّ َما َوقَ َ
ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس جَن م وخ َفق واحْل م ُد لِلَّه َغير م ْف ُق ِ
ود ا ِإل ْن َع ِام واَل ُم َكافَِإ
دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری()1ایک َْ َ ْ ٌ َ َ َْ
مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں ض ِال. ا ِإلفْ َ
مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر وم ه َذا الْ ِم ْلطَ ِ ِ
سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر اط ِّميِت وأ ََم ْر ُت ُه ْم بِلُُز َ ت ُم َقد َأ ََّما َب ْع ُد َف َق ْد َب َعثْ ُ
سکوں۔ ت أَ ْن أَقْطَ َع َه ِذه النُّطْ َفةَ إِىَل ِ
َحىَّت يَأْتَي ُه ْم أ َْم ِري -وقَ ْد َرأَيْ ُ
سید رضی :ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور
ِ ِشر ِذم ٍة ِمْن ُكم -موطِّنِني أَ ْكن َ ِ
اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال اف د ْجلَةَ -فَأُهْن َ
ض ُه ْم ْ َُ َ َ ْ َ
ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب ِ ِ ِ
و غریب تعبیرات میں ہے۔ َم َع ُك ْم إِىَل َع ُد ِّو ُك ْم -وأ ْ
َج َعلَ ُه ْم م ْن أ َْم َداد الْ ُق َّوة لَ ُك ْم.
قال السيد الشريف أقول يعين عليهالسالم بامللطاط هاهنا
السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال
ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من األرض
ويعين بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات
وعجيبها.
ض ف ن تت خ ق ش ن تت ن ئ
رات
مکمں ت
غ
کے آ از می ں ا ا ہ نکر ا چ اہ ے اور انغکے ذری عہ ل کر کی ()1اس ج ماعت سے مراد اہ ل مدا ن ہ ی ں ج ہی ں حض رتش اس ج ہاد می ں ش املت کر ا چ اہ
ے۔طل طب ہ ض
ےنھ وت می ن
ش ے ھ ش
ے۔ ور م ق اور یئاء ل سا ھ روب و زواللسے پری ان قہی ں ہ و ا چ ثاہ ن ی اورست ارہ کے ت کاذکر ناسامر کی نطرف ب ھی ا ارہ ہ و سکت ا ے کہ ل کراسالم کو رات کی ار کی ت اور ست تاروں ئ
ے زوال و کے اس ے اء حمدو ابل روردگار و ج کن ی ں ہ ے ا ھی ے و ت ناری کی کو ی ق صان ہی ں پ ہن ا سکتی ے اورہست اروں کا ک ا ب ھروسہ ے۔ست یارے و ڈوب ب
ل ہ پ ی ج ہ ی ہ ت ش ن چ غہ
ے۔! ے اور وہ ہ می ہ ب دٔہ مومن کے سا ھ رہ ت ا ہ
روب ہی ں ہ
()49 ()49
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم
کا تذکرہ کیا گیا ہے) وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم اإللهي
ِ ِ ِ ِ
ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی
گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی
ت َعلَْيه أ َْعاَل ُم ودلَّ ْ
احْلَ ْم ُد للَّه الَّذي بَطَ َن َخفيَّات األ َُم ُو ِر َ -
ص ِري -فَاَل َعنْي ُ َم ْن مَلْ َيَره الظُّهو ِر -وامَتنَع علَى ع ِ الْب ِ
ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی ْ َ َ َنْي َ ُ
نگاہ میں آنے واال نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے
صُره َ -سبَ َق يِف الْعُلُِّو فَاَل ُتْن ِكره -واَل َق ْلب من أَْثبتَه يب ِ
والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی ُ َ ْ َ ُْ ُ
ِ ب يِف ُّ ِ
اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ب مْنه - الدنُ ِّو فَاَل َش ْيءَ أَْقَر ُ َش ْيءَ أ َْعلَى مْنه -و َقُر َ
ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے
بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی اع َده َع ْن َش ْي ٍء ِم ْن َخ ْل ِقه -واَل ُقْربُه فَاَل ِ
است ْعاَل ُؤه بَ َ
ْ
يد ِص َفتِه ول علَى حَت ِد ِ ِ ساواهم يِف الْم َك ِ
شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے
مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت
ان بِه -مَلْ يُطْل ِع الْعُ ُق َ َ ْ َ َ َ ُْ
برابر کی جگہ پر ال سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی ب َم ْع ِرفَتِه َ -ف ُه َو الَّ ِذي تَ ْش َه ُد لَه -ومَلْ حَيْ ُجْب َها َع ْن و ِاج ِ
َ
صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب ِ ِ ِ ِ
ود َ -علَى إ ْقَرار َق ْلب ذي اجْلُ ُحود َ -ت َعاىَل اللَّه ِ أَعاَل م الْوج ِ
معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ْ ُ ُُ
ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے اح ُدو َن لَه عُلُّواً َكبِرياً!ع َّما ي ُقولُه الْم َشِّبهو َن بِه -واجْل ِ
َ ُ ُ َ َ
وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے
تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں
سے بلند وباالتر ہے۔
()50 ()50
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر
دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے) وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه
فتنوں) )1کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع الفتن
کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے
إِمَّنَا ب ْدء وقُ ِ ِ
جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خالف فَح َك ٌام ُتْبتَ َدعُ -خُيَالَ ُ وع الْفنَت ِ أ َْه َواءٌ ُتتَّبَ ُع وأ ْ َ ُُ
ال ِر َجااًل َعلَى َغرْيِ ويَت َوىَّل َعلَْي َها ِر َج ٌ ِ ِ
اب اللَّه َ -
ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو
جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر ف َيها كتَ ُ
ص ِم ْن ِمَز ِ ِدي ِن اللَّه َ -فلَو أ َّ ِ
باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب اج احْلَ ِّق -مَلْ َن الْبَاط َل َخلَ َ ْ
گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی مالوٹ س الْب ِ َن احْل َّق خلَ ِ ِ
سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن اط ِل ص م ْن لَْب ِ َ ين ولَ ْو أ َّ َ َ َ ف َعلَى الْ ُم ْرتَاد َ خَي ْ َ
ين -ولَ ِك ْن يُ ْؤ َخ ُذ ِم ْن َه َذا ِِ
ت َعْنه أَلْ ُس ُن الْ ُم َعاند َ -ا ْن َقطَ َع ْ
ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں
سے ' اور پھر دونوں کو مال دیا جاتا ہے اورایسے ہی
ك يَ ْسَت ْويِل ِ ث َفيمزج ِ ِ ِض ْغ ٌ ِ
مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے ان َ -ف ُهنَال َ ث وم ْن َه َذا ض ْغ ٌ ُ ْ َ َ
اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے ت هَلُ ْم) ِم َن َّ ِ ِِ
لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ين َسَب َق ْويْن ُجو (الذ َ الشَّْيطَا ُن َعلَى أ َْوليَائه َ -
ہے۔ سىن).اللَّه (احْلُ ْ
ت خ ت ف ن خ ہش
ےناور ی ہی اری ی سے روع ہ و ا
ش ت
تیروی اور بندع وں قکی ای ج اد ات کی ے کہ دن ی ا کا ہ ر ت ہضوا ق()1اس ارش اد گرامی کا آغ از ل ف ظ ان مانسے ہ وا ے ج و اس ات ل
ن ہ خ پ ئ کی د ی ل ہ
غخ ب ہ ق
ن
ت موالہ '' کا ا کار ہ
ت تک ں ''من ئ ی ہ
اور اگرم صب و ا ت دار کی واش ش م ق ے ہ وے ک
ن
کے احکام و ع ہ ت کے الف می راث پ تاب خ ن داے کہ اگر امت اسالمی ہ ے روز ئاول کت ہ ح ی تت
ے ہ وے و آج اسالم ب الکل (ص) کے سا ھ سن و سال اورصحاب ی ت و راب ئت فکے ج ھگڑے ن ہئ امل کرد ی ے ہ فوےف اور ص ت ی مب ر ف ن
ک ی ا ہ و ااور چک ھ لوگت چک ھ لوگوں کے ہ مدرد ہ ہ وگ
خ الص اورصری ح ہخ و ا اورنامت می تں کسی طرح کا ت ن ہ و ساد ن ہ ہ و ا۔ل ی کن ا سوس کہ ی ہ سب چک ھ ہ وگ ی ا اور امت ای ک دا می ت ن ہ می ں مب ت ال ہ وگ ی جس کا سلسلہ چ ودہ صدیوں سے
ے گا۔ ے اور دا ج اے کب ک ج اری رہ ج اری ہ
()51
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ()51
(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا عليهالسالم ومن خطبة له
کر صفین 2کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی
بند کردیا) لما غلب أصحاب معاوية أصحابه عليهالسالم على
دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا
ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء
جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود
پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی
میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو
استَطْ َع ُمو ُك ُم الْ ِقتَ َال فَأَقُِّروا َعلَى َم َذلٍَّة وتَأْ ِخ ِري حَمَلَّ ٍة - ِ
کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا
ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت قَد ْ
ت يِف ِ ِ وف ِمن الد ِ
کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔ ِّماء َت ْر َو ْوا م َن الْ َماء فَالْ َم ْو ُ السيُ َ َ َ أ َْو َر ُّووا ُّ
ين -أَاَل وإِ َّن ِ يِف ِ ِ ِ
ين،واحْلَيَاةُ َم ْوت ُك ْم قَاه ِر َ
()52
َحيَات ُك ْم َم ْق ُهور َ
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
س َعلَْي ِه ُم اخْلََبَر َ -حىَّت ِ ِ
ُم َعا ِويَةَ قَ َاد لُ َمةً م َن الْغَُواة َ -
وع َّم َ
(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب 2اور پیش
پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں اض الْ َمنِيَّ ِة.
ور ُه ْم أَ ْغَر َ
َج َعلُوا حُنُ َ
کاتذکرہ کیا گیا ہے )
آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا ()52
اعالن کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی عليهالسالم ومن خطبة له
اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور
اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور وهي في التزهيد في الدنيا وثواب اهلل للزاهد ونعم اهلل
اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔
على الخالق
التزهيد في الدنيا
اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے عليهالسالم ومن كالم له
خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل
دیتے ( لیکن حاالت نے ایسا نہ کرنے دیا)
ِ ِ ِ
اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے صَر َهاش َم بْ َن عُْتبَةَ -ولَ ْو َولَّْيتُه إِيَّ َ
اها ت َت ْوليَةَ م ْ وقَ ْد أ ََر ْد ُ
اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ
صةَ بِاَل َذ ٍّم لِ ُم َح َّم ِد لَ َّما َخلَّى هَلُ ُم الْ َع ْر َ
(
()74
عليهالسالم ومن خطبة له
لما عزموا على بيعة عثمان
ن ن ش فض ن ئ ت
ے کہ قاگر معاذ ہللا امام حسن و امام
ے۔حد ی ہ ہن
ن ہ ا ی ل امک سے کرم و ل ہ یم ہ ے ہوں ے۔ا ت ئ
ہ ں یہ واب ت ج ی ات می ں کو ف کے اس کردار کا اری خ کائ نن ق ()1آل دمحم (ص) ق
مست ف
نکے ب عد ب ھی مروان ے ج ہوں ے قوا عہ کرب ال ہ ا تک ن کے طرز عمل کو ک ی ا کہا ج ا س ق ق ید ب عالا ن یز امام و ے خ ا ج ا ی کرل صور ھی نوا ی ت ب
ض ن ا سے حاالت کے ل ب حسی ن کی س ارش ن کو
ش ب ح ن کےن گھر والوں کو پ ئ اہ دی ن
ے کہ و ت پڑے پر ہ ر ای ک کے ے۔در ی ت ی ہ ھی ی ہودی ت کی احیف کک اخ ہ سے پ اہ کی درن واست کی ہ ب
رت ے حی ا ے ح ص ت ےناور اس ب ک ہ سا ل
ے۔ م ی س
ے کے ب عد پروردگار کی ح وں کی ھی پرواہ ہ کرو۔ہللا دی ن ا الم کو ہ ر دور کی ہودی ت سے وظ ر ھ ی ے ذ ی ل ب ن ج ا و اور کام ل م
تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ وو اللَّه َح ُّق الن ِ هِب ِ ِ ِ
خالفت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت َّاس َا م ْن َغرْي ي َ - لََق ْد َعل ْمتُ ْم أَيِّن أ َ
تک حاالت()2کاساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے ني -ومَلْ يَ ُك ْن فِ َيها َج ْوٌر ِِ
ور الْ ُم ْسلم َ ت أ ُُم ُ
ِ
ُسل َم َّن َما َسل َم ْ
أل ِ
ْ
مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود
وز ْهداً اصةً -الْتِماساً ألَج ِر َذلِك وفَ ْ ِ إِاَّل َعلَ َّي َخ َّ
رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کر سکوں اور ضله ُ - ْ َ َ
اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر يما َتنَافَ ْستُ ُموه ِم ْن ُز ْخُرفِه و ِزبْ ِر ِجهفَ
ِ
سکوں جس کے لئے تم سب مرے جا رہے ہو۔
()75 ()75
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا لما بلغه اتهام بني أمية له بالمشاركة في دم عثمان
الزام لگا 2رہے ہیں)
کیا بنی امیہ کے واقعی معلومات انہیں مجھ پر الزام
تراشی سے نہیں روک سکے اور کیا جاہلوں کو میرے ِ
کارنامے اس اتہام سے باز نہیں رکھ سکے؟ یقینا ع اجْلُ َّه َال
َوما َو َز َ أَومَلْ َيْنه بَيِن أ َُميَّةَ ع ْل ُم َها يِب َع ْن َق ْريِف أ َ
پروردگار نے تہمت و افترا کے خالف جو نصیحت َسابَِقيِت َع ْن ُت َه َميِت -ولَ َما َو َعظَ ُهم اللَّه بِه أ َْبلَ ُغ ِم ْن لِسايِن
فرمائی ہے وہ میرے بیان سے کہیں زیادہ بلیغ ہے۔میں َ ُ
ِِ ِ ِ ِ
بہر حال ان بے دینوں پرحجت تمام کرنے واال'ان عہد وعلَىني َ ني الْ ُم ْرتَابِ َ
يم النَّاكث َ
وخص ُ ني َ يج الْ َما ِرق َ -أَنَا َحج ُ
ِ كِتَ ِ
الص ُدو ِر جُتَ َازى الْعبَ ُ ال ومِبَا يِف ُّ اب اللَّه ُت ْعَر ُ
شکن مبتالئے تشکیک افراد کا دشمن ہوں۔اور تمام مشتبہ اد!
معامالت کو کتاب خداپرپیش کرنا چاہیے۔اور روز قیامت
ض األ َْمثَ ُ
بندوں کا حساب ان کے دلوں کے مضمرات (نیتوں) ہی
ف ئ ن ن قق تپر نہوگا۔ ک ت
ے۔ی ہ در ح ی ت ع ظ
ق ئ خ ف ق ن
ان راہ م
ے سکون و اطمی ن ف قل ام ا سا ی تش کے ن ئ
ہ ے کسی ہ دف اور م تصد ح ی ات کائمر ب ہ ہی ں ئر ھ ی ل ے کہ قال ت می رے ہ ن)امی ر الموم ی ن کا م صد ی ہ (2
گا۔دوسرا رہ اس ے اوپر ن لم کو بردا ت ظ
کرلوں ن ںا م اور
ئ گا ے ا و ےقسکوت ج ا ز ہ ت رے م و ا وگ ص ب
ے۔ل خہٰذافاگر ی ہ م صد کسی ھی ذری نعہ سے حا ل ہ عہ ی ذر ک ا کا ے کر
ش ش پ ئن ی جے لی ل ی ی ے کہ ب اطل ال ت سے مکمل عدل و ا اصف اور س ہ ی
ات کی دل
ے کہ اگر لم کا ان ہ می ری ذات کن موالے کا ات لکا م اء ی خہ ہ ہ حال م ع ت و کی ان ن ی
ق اطم و کون ہ ل ی ت ب
ش ن ن ل ش
ے۔ ہ وگی و بردا ت کرلوں گا ی کن عوام ال اس ہ وں گے اور می رے پ اس مادی طا ت ہ وگی و ہ رگز بردا ت ہ کروں گا کہ ی ہ عہد ا ٰہی کے الف ہ
()76
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ()76
(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے) ومن خطبة له عليهالسالم
خدا رحمت نازل()1کرے اس بندہ پر جو کسی حکمت کو
سنے تو محفوظ کرلے اور اسے کسی ہدایت کی دعوت في الحث على العمل الصالح
دی جائے تو اس سے قریب تر ہو جائے اور کسی راہنما
سے وابستہ ہو جائے تو نجات حاصل کرلے۔اپنے ىود ِع َي إِىَل َر َش ٍاد فَ َدنَا ِ
َرح َم اللَّه ْامَرأً مَس َع ُحكْماً َف َو َع ُ
ِ
پروردگار کو ہر وقت نظر میں رکھے اور گناہوں سے
َّم وأ حِب ِ ٍ
ڈرتا رہے۔خالص اعمال کوآگے بڑھائے اور نیک اعمال اف َذ ْنبَه قَد َ وخ َ ب َربَّه َ َخ َذ ُ ْجَزة َهاد َفنَ َجا َ -راقَ َ َ
ب حِل ِ ِ
کرتا رہے۔قابل ذخیرہ ثواب حاصل کرے۔قابل پرہیز
َ واجَتنَ
ب َم ْذ ُخوراً ْ َ صا اً -ا ْكتَ َس وعم َل َ َخالصاً َ
چیزوں سے اجتناب کرے۔مقصد کو نگاہوں میں رکھے۔ ِ
ب اجرسمیٹ لے۔خواہشات پر غالب آجائے اورتمنائوں کو َحَر َز ع َوضاً َك َابَر َه َواه و َك َّذ َ ور َمى َغَرضاً وأ ْ حَمْ ُذوراً َ -
ٰ
اورتقوی کو جھٹالدے ۔صبر کو نجات کا مرکب بنالے والت ْق َوى عُ َّد َة َوفَاتِه - الصْبَر َم ِطيَّةَ جَنَاتِه َّ ُمنَاه َ -ج َع َل َّ
وفات کاذخیرہ قرار دے لے۔روشن راستہ پر چلے اور
ِ
واضح شاہراہ کو اختیار کرلے۔مہلت حیات کو غنیمت ضاءَ -ا ْغَتنَ َم ب الطَِّري َقةَ الْغََّراءَ ولَ ِز َم الْ َم َح َّجةَ الَْبْي َ َرك َ
قراردے اور موت کی طرف خود سبقت کرے اور عمل
بڑھے۔ کرآگے لے راہ زاد کا
َج َل و َتَز َّو َد ِم َن الْ َع َم ِل.
الْ َم َه َل ئوبَ َاد َر انأل َ
ض ش غ ف ئ
ل ہ ش م ے اور مسلم و کا ر۔دی خن ئ ت ل ش
سے آگے آگے
ے۔ی ہ می ہ ب ا ٰہی خ سب کو ا ل ہ
ح
ے قدی ن
دارو ب ے حد وسی ع ہ رحمت قا ٰہی کا دا رہن ب ے کہ ں کو ی قک ہی ں ہ ی لی
( ت)1اس م
چ
ے۔لہٰذا اس دن رحمت داکے ے اور داے واحد غہار کی کومت کا دن ہ کادن ہ ساب
ے۔وہ ح ن
ے اش رحمت کا اس ح اق آسان ہی ںئ
ہ ن روز ی امت اس خ ے۔ ئکن ت لت قی ہ
ے اور ان کے ب ی ر رحمة اللعالمنی ن کا کل فمہ اور ان کی حمب ت کا دعوی ب ھی کام
ہ ارہ ک ی ا
ن ان مام چ یزوں کوا ت ی ارکر ا ہ وگا ج خن کی طرف موالے کائ ن ات ے ل کے ناس ح اق
ے۔دن ا کے ا کام الگ ہ ں اور آ رت کے ا کام الگ ہ ں۔ی ہاں کا ظ ام رحمت الگ ے اور وہ اں کا ظ ام کا ات و م ازات الگ۔ ٰ
ج م ہ ی ح ی ح ی ہی ں آسکت ا ہ
()77 ()77
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے
وذلك حين منعه Oسعيد بن العاص حقه
محروم کردیا)
یہ بنی امیہ مجھے میراث پیغمبر(ص) کوبھی تھوڑا اث حُمَ َّم ٍدإِ َّن بَيِن أ َُميَّةَ لَُي َف ِّوقُونَيِن تَُر َ
تھوڑا کرکے دے رہے ہیں حاالنکہ اگر میں زندہ رہ گیا
ِ ِ
تو اس طرح جھاڑ کرپھینک()1دوں گاجس طرح قصاب صلىهللاعليهوآلهوسلمَت ْف ِويقاً -واللَّه لَئ ْن بَق ُ
يت هَلُ ْم -
گوشت کے ٹکڑے سے مٹی کوجھاڑ دیتا ہے۔
سید رضی :بعض روایات میں '' وذام تربہ''کے بجائے ض اللَّ َّح ِام الْ ِوذَ َام الرَّتِ بَةَ!
َّه ْم َن ْف َضن ُ
ألَْن ُف َ
''تراب الوذمہ''ہے جو معنی کے اعتبارسےمعکوس قال الشريف -ويروى الرتاب الوذمة وهو على القلب .
ترکیب ہے۔''لیفو قوفنی''کامفہوم ہے مال کا تھوڑا تھوڑا
کرکے دنیا جس طرح کہ اونٹ کا دودھ نکاال جاتا ہے۔ قال الشريف وقوله عليهالسالم ليفوقونين -أي يعطونين
فواق اونٹ کا ایک مرتبہ کا دوھا ہوا دودھ ہے اوروذام
وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑےکےہیں یعنی
من املال قليال كفواق الناقة -وهو احللبة الواحدة من
جگہ یاآنتوں کاوہ ٹکڑا جوزمین پر گر جائے۔ لبنها .-والوذام مجع وذمة -وهي احلزة من الكرش أو
()78 الكبد تقع يف الرتاب فتنفض.
آپ کی دعا
()78
(جسے برابر 2تکرار 2فرمایا کرتے تھے)
خدایا میری خاطر ان چیزوں کو معاف کردے جنہیں تو كان عليهالسالم2 من كلمات
مجھ سے بہتر جانتا ہے اور اگر پھران امور کی تکرار
ہوتو تو ' بھی مغفرت کی تکرار فرما:
من كلمات كان عليهالسالم 2يدعو بها
ِ ِ
ت أ َْعلَ ُم بِه ميِّن -فَِإ ْن عُ ْد ُ
ت َفعُ ْد َعلَ َّي اللَّ ُه َّم ا ْغف ْر يِل َما أَنْ َ
ن
بِالْ َم ْغ ِفَر تِة
ٹ ن ش ن
ے ن ہ معدہ کی اورن ہ ج گرنکے کڑے کی خ۔ی ہ وہ گروہ ی ں ج و ت
الگ ہ و ج ا تے والے کپ نڑے سے چ
ن پ کئ
ن ں ن ہ ج نگر کی ہ ت
ش نکی ح ی ث ی ت ا بسالم میے تکہ ب ی امی ہ
ہ (ت )1تک ی حلسی ن ش ب ی ہ
ے اوراسے ج ھاڑے کے ب عد ہ ی ری دار کے حوالے کر ا ہ
ے اکہ دکان ب د ام ہ ہ وے پ اے ے ی کن گو ت کا اسنعمال کرے واال اسے ھی بردا ت ہی ں کر ا ہ ہت ج ا تی ن
ے!اور اج ر ا ج رب ہ کار اور ب ذ ذوق ہ کہا ج اسک
خدایا ان وعدوں کے بارے میں بھی مغفرت فرما جن کا
ت ِم ْن َن ْف ِسي ومَلْ جَتِ ْد لَه َوفَاءً ِعْن ِدي ِ
اللَّ ُه َّم ا ْغف ْر يِل َما َوأَيْ ُ
تجھ سے وعدہ کیا گیا لیکن انہیں وفا نہ کیا جاسکا۔خدایا
ان اعمال کی بھی غفرت فرما جن میں زبان سے تیری ك بِلِ َسايِن مُثَّ َخالََفه َق ْليِب
ت بِه إِلَْي َ
ِ
-اللَّ ُه َّم ا ْغف ْر يِل َما َت َقَّربْ ُ
قربت اختیار کی گئی لیکن دل نے اس کی مخالفت ہی اظ وس َقطَ ِ
ات األَلْ َف ِ ات األَحْل ِ اللَّه َّم ا ْغ ِفر يِل رمز ِ
کی۔ اظ َ َ ْ َ ََ ُ
خدایا آنکھوں کے طنز یہ اشاروں ۔دہن کے ناشائستہ ات اللِّسانِ ان وه َفو ِ وشهو ِ
ات اجْل نَ ِ
کلمات۔دل کی بے جا خواہشات اور زبان کی ہر زہ َ َ َ َ َََ
سرائیوں کو بھی معاف فرمادے۔ ()79
()79 عليهالسالم ومن كالم له
آپ کا ارشاد گرامی
قاله لبعض أصحابه -لما عزم على المسير إلى
(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب2
نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی الخوارج ،وقد قال له :إن سرت يا أمير المؤمنين ،في
دوسرا وقت اختیار 2فرمائیں۔اس 2وقت کامیابی 2کے هذا الوقت ،خشيت أال تظفر بمرادك ،من طريق علم
امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی
اندازہ ہوتا ہے) النجوم
کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہیں وہ ساعت معلوم ہے
جس میں نکلنے والے سے بالئیں ٹل جائیں گی اورتم اس َم ْن اع ِة الَّيِت َّك َت ْه ِدي إِىَل َّ
الس َ فقال عليهالسالم :أََتْزعُ ُم أَن َ
َم ْن اع ِة الَّيِت ف ِم َن َّ ص ِر َ ِ
الس َ السوءُ -وخُتَِّو ُ ف َعْنه ُّ َس َار ف َيها ُ
ساعت سے ڈرانا چاہتے ہو جس میں سفر کرنے واال
نقصانات میں گھرجائے گا؟ یاد رکھو جو تمہارے اس
بیان کی تصدیق کرے گا وہ قرآن کی تکذیب کرنے واال بك َ َذا َف َق ْد َك َّذ َ
اق بِه الضُُّّر فَمن ص َّدقَ َ هِب
َْ َ َس َار فِ َيها َح َ
ہوگا اور محبوب اشیاء کے حصول اور نا پسندیدہ امور واسَت ْغ َع ِن ااِل ْستِعانَِة بِاللَّه -يِف َنْي ِل الْم ْحب ِ
وب
کے دفع کرنے میں مدد خدا سے بے نیاز ہو جائے گا۔کیا َ ُ َ الْ ُق ْرآ َن ْ -ىَن
ك لِْل َع ِام ِل بِأ َْم ِر َك -أَ ْن ِ
تمہاریخواہش یہ ہے کہ تمہارے افعال کے مطابق عمل ودفْ ِع الْ َمكُْروه وَتْبتَغِي يِف َق ْول َ َ
کرنے واال پروردگار کے بجائے تمہاری ہی تعریف ِ
کرے اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اسے اس ساعت ت َه َد ْيتَه إِىَل ك أَنْ ََّك بَِز ْع ِم َ
ك احْلَ ْم َد ُدو َن َربِّه -ألَن َ يُوليَ َ
کا پتہ بتا دیا ہے جس میں منفعت حاصل کی جاتی ہے اع ِة -الَّيِت نَ َال فِ َيها َّ
الن ْف َع وأ َِم َن الضَُّّر. الس َ
َّ
اور نقصانات سے محفوظ رہا جاتا ہے۔
ایہا الناس! خبر دار نجوم کا()1مت حاصل کرو مگر اتنا مث أقبل عليهالسالم على الناس فقال:
ہی جس سے برو بحر میں راستے دریافت کئے جا
أَيُّها النَّاس -إِيَّا ُكم وتعلُّم النُّج ِ
وم إِاَّل َما يُ ْهتَ َدى بِه يِف َبٍّر
سکیں۔ کہ یہ علم کہانت کی طرف لے جاتا ہے اور منجم ْ ََ َ ُ ُ َ
بھی ایک طرح کا کاہن ( غیب کی خبر دینے واال ) ہو أَو حَب ٍر -فَِإنَّها تَ ْدعو إِىَل الْ َكهانَِة -والْمن ِّجم َكالْ َك ِ
اه ِن
جاتا ہے جب کہ کاہن جادوگرجیسا ہوتا ہے اور جادو گر َُ ُ َ َ ُ ْ ْ
کافر جیسا ہوتا ہے اور کافر کا انجام جہنم ہے۔چلو نام احُر َكالْ َكافِ ِر -والْ َكافُِر يِف النَّا ِر
والس ِ
اح ِر َّ الس ِ والْ َك ِ
اه ُن َك َّ
خدا لے کرنکل پڑو۔
اس ِم اللَّه ِ
()80 سريُوا َعلَى ْ
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ()80
(جنگ جمل سے فراغت کے بعد عورتوں کی مذمت کے عليهالسالم ومن خطبة له
بارے میں)
لوگو! یاد رکھو کہ عورتیں ایمان کے اعتبارسے' میراث بعد فراغه من حرب الجمل في ذم النساء ببيان
کے حصہ کے اعتبار سے اور عقل کے اعتبارسے نقصهن
ناقص ہوتی ہیں۔
ہیں اگر انہیں پاکیزہ دل ' سننے والے کان ' مضبوط فضل التذكير
رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہو جائیں۔ل ٰہذا ہللا سے ڈرو
ت ُقلُوباً اع َ ِ َفيا هَل ا أَمثَااًل صائِبةً ومو ِ
اس شخص کی طرح جس نے نصیحتوں کو سنا تو دل ص َادفَ ْظ َشافيَةً -لَ ْو َ َ َ ََ َ َ ْ
وآراءً َعا ِز َمةً وأَلْبَاباً َحا ِز َمةً - ِ ِ
میں خشوع پیدا ہوگیا اور گناہ کیا تو فوراً اعتراف کرلیا َزاكيَةً وأَمْسَاعاً َواعيَةً َ -
فَ َّات ُقوا اللَّه تَِقيَّةَ َم ْن مَسِ َع فَ َخ َش َع وا ْقَتَر َ
اورخوف خدا پیدا ہوا تو عمل شروع کردیا۔آخرت()2سے
ڈرا تو عمل کی طرف سبقت کی۔قیامت کا یقین پیدا کیا تو
ف- اعَتَر َف فَ ْ
َح َس َن وعُِّبَر ِ ِ
بہترین اعمال انجام دئیے۔عبرت دالئی گئی تو عبرت
حاصل کرلی ۔خوف دالیا گیا تو ڈرگی۔روکا گیا تو رک
وحاذَ َر َفبَ َاد َر وأ َْي َق َن فَأ ْ
ووج َل َف َعم َل َ َ
فَاعتبروح ِّذر فَح ِذر ِ
گیا۔صدائے حق پر لبیک کہی تو اس کی طرف متوجہ اب فَأَنَ َ
اب َج َ
وزجَر فَ ْاز َد َجَر وأ َ ْ ََ َ ُ َ َ َ ُ
ہوگیااور مڑ کرآگیا تو توبہ کرلی۔بزرگوں کی اقتدا کی تو اب وا ْقتَ َدى
ان کے نقش قدم پر چال اج َع َفتَ َ ور ََ
نئ ن خ ت
ن
ئ
ى فاحت َذ
َ َْ ئ
خ ش ب ن شف ن
ے کہ کو ی تس ہ ک ل
اسبکی ضی ی ں صتحت م د اور ن ا نش ہ ی ں ی کن شم ل ی ہ ہ
صح ص ح اور ن ے کہ تمالک کائ ن ات کی ب ی تان کی ہ و ن ی مث الی تں صائ ب و ت یح ں کو ی ت ک ہی ں نہ
ش ن
ش(ف)1اس می خ
ے۔ن ح وںص
ی ہ می ک کی رط اسی ں یم وں سا ا ۔اور
ف ے ہ ا ت و ہ روری ئ ھی ا کر ز ی رہ پ ھ ا س کے عمال س ا اور ا کر عمال س ا کا اس لکہ ب ے ہ ا ن و ہ ں یہ کارآمد ک حد کی
ن ہ س ٹ صرف
ا ن
ش
وں۔راے می ں اسئ حکام ہ وئاور نکر می ں ہ و ت ی اری ہ و۔ی ہ چ اروں نع ن ئاصر ہی ں ے والے کان ہ وں۔طی ب و طاہ ر ندل ہ سن
ن ے۔
ش ہ ےنچ ارع ن اصر کاہ و االزمی
ئ
ل کے ف سےتف ائ دہ ات ھاےئ
ن ن ئ
ے اوروہ مواعظ و صا ح کے ے کہ اسمی ں ا ہی ں ع اصر می ں سے کو ی ہ کو ی ع صر کم ہ و ج ا ا ہ ے اور عالم ب ری ت کی کمزوری ی ہی ہ ہ یث ں و یص ح وں کا کو ی ا ت دہ ہی ں ہ و سکت ا ہ
ن ن ن غ ف ق ن ے۔ ا رات سے محروم رہ ج ا ا نہ
ن
ں۔ز دگی پر م طب ق ں ہ ے
ئ
کے ے و ہ دوز
ن
ا لطف سے ت ال و صاحت اظ
ف
ہ کن ے کہ ل ی ہی اور پ اکی زہ ت ری ن شق ًہ ی ن ر
ت
ن س ح کا دگی مومن کی ز
خ ب ی ہ ق ی ل ت ت ئ ب ف ال ی
ے ہ ی ں کہ ک ی ا وا عا ہ ماری زن دگیشمی ں ی ہ حاالت اور کی ی ات پ اے ج اے ہ ی ن
ہ ئ ی ن ی ت مرد ن ن)ای ک ئ (2
ے اور ہ می ں ہے وہ ماری عا ب ت ن ی ر خ ں۔اگر ایسا ہ ے اورن ز دگی کا ام حان کرنے کے لت ل نکرے کے
ص
حاالت سے عب رت حا ت نل کر فیقچ اہ ی لوگوں ق ے نو ہ می نں اس دار عبئرت می ں گذ ت ہ ن ج ات کی ام ی د رک نھ ا چ اہ ی
ے اور ابئسے اصالح د ی ا وآ شرت کے ق کے ب ف ے اور اگرنایسا ہی ں ہ
ے تموالےنکائ ن ات کا کہ گذ ت ہ لوگ ہ ر ی د و ہ ے۔ک ا ب لی غ رہ ھی نراہ م ن ہ ہف و سک خ نع ازل ہ و ج اے اور وصی ت کرے کا مو ن ک ا چا موت کہ
ہ ئ و ہ ہ ے۔ایسا عمل می ں لگ ج ا ا چ اہ ی
ے اور اس ے ب اآل ر ا ہی ں گر ت ار کرل ی ا اوران کی وعدہ گاہ ک پ ہ چ ا دی ا۔ ے ل ی کن موت کے چ گل سے آزاد ن ہ ہ و سک ب ن د اور ہ ر پ اب ن دی ح ی ات سے آزاد گو
منظر حق دکھایا گیا تو دیکھ لیا۔طلب حق میں تیز رفتاری ع طَالِباً وجَنَا َها ِرباً -فَأَفَ َاد َذ ِخ َري ًة
َسَر َي َفَرأَى فَأ ْ ِ
وأُر َ
سے بڑھا اور باطل سے فرار کرکے نجات حاصل کرلی۔
اپنے لئے ذخیرہ آخرت جمع کرلیا اور اپنے باطن کو واستَظْ َهَر َزاداً لَِي ْوِم َر ِحيلِه وع َّمَر َم َعاداً ْ - اب َس ِر َير ًة َ وأَطَ َ
پاک کرلیا۔آخرت کے گھر کو آباد کیا اور زاد راہ کو جمع ووجه سبِيلِه وح ِال حاجتِه ِ ِ -
کرلیا اس دن کے لئے جس دن یہاں سے کوچ کرنا ہے
َّم أ ََم َامهوم ْوط ِن فَاقَته وقَد َ َ َ َ َ َْ َ
اور آخرت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اعمال کا محتاج لِ َدا ِر ُم َق ِامه -فَ َّات ُقوا اللَّه ِعبَ َاد اللَّه ِج َهةَ َما َخلَ َق ُك ْم لَه -
ہونا ہے اورمحل فقر کی طرف جانا ہے اور ہمیشہ کے
گھر کے لئے سامان آگے آگے بھیج دیا۔ ہللا کے بندو! ہللا واستَ ِحقُّوا ِمْنه ِ ِ ِ
واح َذ ُروا مْنه ُكْنه َما َح َّذ َر ُك ْم م ْن َن ْفسه ْ - ْ
سے ڈرو اس جہت کی غرض سے جس کے لئے تم کو ص ْد ِق ِم َيع ِاده -واحْلَ َذ ِر ِم ْن َه ْو ِل ما أَع َّد لَ ُكم بِالتَّنَ ُّج ِز لِ ِ
پیدا کیا گیا ہے اور اس کاخوف پیدا کرو اس طرح جس َ َ ْ
طرح اس نے تمہیں اپنے عظمت کا خوف دالیا ہے اور َم َع ِاده.
اس اجر کا استحقاق پیدا کرو جس کو اس نے تمہارے
لئے مہیا کیا ہے اس کے سچے وعدہ کے پورا کرنے التذكير بضروب النعم
اور قیامت کے ہول سے بچنے کے مطالبہ کے ساتھ۔ صاراً لِتَ ْجلَُو اها وأَبْ َ
ِِ
ومنهاَ :ج َع َل لَ ُك ْم أَمْسَاعاً لتَع َي َما َعنَ َ
اس نے تمہیں کان عنایت کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں
کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی َحنَائِ َها ِ
ضائ َها ُ -ماَل ئ َمةً أل ْ
َع ِ ِ
اها وأَ ْشاَل ءً َجام َعةً أل ْ َ َع ْن َع َش َ
عطا کریں اور جسم کے وہ حصے دئیے جو مختلف وم َد ِد عُ ُم ِر َها بِأَبْ َد ٍان قَائِ َم ٍة بِأ َْرفَاقِ َها
ص َو ِر َها ُ
يب ُيِف َتركِ ِ
ْ
اعضاء کو سمیٹنے والے ہیں اور ان کے پیچ و خم کے
وجباتِ ت نِع ِمه وم ِ وب رائِ َد ٍة ألَرزاقِها -يِف جُم لِّاَل ِ ٍ
لئے مناسب ہیں۔صورتوں کی ترکیب اور عمروں کی َ ُ َ َ َْ َ و ُقلُ َ
مدت کے اعتبارسے ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنی ِِ ِ ِِ
ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں اور ایسے دلوں کے َّر لَ ُك ْم أ َْع َماراًوح َواج ِز َعافيَته وقَد َ منَنه َ
ساتھ جو اپنے رزق کی تالش میں رہتے ہیں اس کی
عظیم ترین نعمتوں ' احسان مند بنانے والی بخششوں اور
سالمتی کے حصاروں کے درمیان۔اس نے تمہارے لئے
وہ عمریں قرار دی ہیں جن
کو تم سے مخفی رکھا ہے اور تمہارے لئے ماضی میں
ِ ِ ِ
گر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں۔وہ ف لَ ُك ْم عرَب اً م ْن آثَا ِر الْ َماض َ
ني وخلَّ َ
َسَتَر َها َعْن ُك ْم َ -
لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لطف و اندوز ہو رہوے وم ْسَت ْف َس ِح َخنَاقِ ِه ْم ِ ِ
َقْبلَ ُك ْم -م ْن ُم ْستَ ْمتَ ِع َخاَل ق ِه ْم ُ
تھے اور ہر بندھن سے آزاد تھے لیکن موت نے انہیں
امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا اور اجل اآلم ِال َ
وش َّذ َب ُه ْم َعْن َها خَتَُّر ُم أ َْر َه َقْت ُه ُم الْ َمنَايَا ُدو َن َ
کی ہالکت سامانیوں نے انہیں حصول مقصد سے الگ اآلج ِال -مَلْ مَيَْه ُدوا يِف َساَل َم ِة األَبْ َد ِان -ومَلْ َي ْعتَرِب وا يِف َ
کردیا۔انہوں نے بدن کی سالمتی کے وقت کوئی تیاری ُ
ِ ِ
نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل ِ ِاَّل يِن
اضة الشَّبَاب إ َح َوا َ ض َ ف األ ََو ِان َف َه ْل َيْنتَظُر أ َْه ُل بَ َ أُنُ ِ
نہیں کی تھی۔تو کیا جوانی کی ترو تازہ عمریں رکھنے ِ
والے بڑھاپے میں کمرجھک جانے کا انتظار کر رہے الس َق ِم -وأ َْه ُل الص َّح ِة إِاَّل َن َوا ِز َل َّ
ض َار ِة ِّ اهْلََرم -وأ َْه ُل َغ َ
الزي ِال وأُز ِ ِ ِ ِ ِِ
ُمدَّة الَْب َقاء إاَّل آ ِونَةَ الْ َفنَاء َم َع ُقْرب ِّ َ
ہیں اور کیا صحت کی تازگی رکھنے والے مصیبتوں وف
اور بیماریوں کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا ُ
اِل ِ
بقا کی مدت رکھنے والے فنا کے وقت کے منتظر ہیں ص اجْلََر ِ
ض ص ِ ض وغُ َ ض ِ ا نْت َق ِال َ
وعلَ ِز الْ َقلَ ِق وأَ ِمَل الْ َم َ
جب کہ وقت زوال قریب ہوگا اورانتقال کی ساعت ُّت ااِل ستِغَاثَِة بِنُصر ِة احْل َف َد ِة واألَقْ ِرب ِاء -واأل ِ
َعَّز ِة وَتلَف ِ
(
نزدیک تر ہوگی اور بستر مرگ پر قلق کی بے چینیاں َ َْ َ ْ
ِ ِ
)1اورسوزو تپش کا رنج و الم اور لعاب دہن کے پھندے
ہوں گے اور وہ ہنگام ہوگا جب انسان اقربا اوالد اعزا
بوالْ ُقَرنَاء َف َه ْل َد َف َعت األَقَا ِر ُ
احباب سے مدد طلب کرنے کے لئے ادھر ادھر دیکھ رہا
ت مم
ہوگا۔تو خکیا آج ت تک کبھی اقربا نے موت کوغ دفع کردیا
ئ ت شغ ت ت ن ض
ب دن ی ا کے مام م ا ل مام کرکے بست ر پقرآے و اس طب ہ کی نالوت بکرے اور اس ئکے مض امی ن پر ور کرے۔پ ھر اگر کن ہ و و سان ج ت
ق ے کہ ان ہ رورت اس ب ات کی ن ( )1ش
ے اور دروازہھوحملہ آور ہ و ج ا قی ں اور کمرہ کی آواز ب اہ رننہ ج ا سک
کمرہ کی رو ی گل کرکے دروازہ ب د تکر نکے ب ر کا صور پ ی دا کرے اور ی ہ سوے کہ اگر اس و ت کسی طرف سے سا پ ،چ ت
ے اور اس کے سو ں م ارے کے ر سے چسے کس طرح ن ات حاصل کرے گا۔ش ائ د ی ہی صورا ق اور اس نمصی نب ت
ن
ے کا ا بمنکان ب ھی نتہ ہن و ونا سان ک ی ا کرے گا ک
چن ی ب ت ب ن ن خ ب ج ئ ن ن ھول کر ب ن ظھاگ
ن
ے کا مو ع ہی ں دی ی ہ ی ں اور کسی ہ کسی وہ م می ں چ سو ں یم ارے ب کے رت آ ھی ے ل کے ےح ل ک
ی غ ی مت ا ف
اں ی گ ر کی ا ی د ہ ور ے
ک سن کر رآمادہ ے
ست ل پکا ےرا کے ے
چ ق سے ر ن ا م اک ول ہ
ے۔ مب ت ال کرکے ج ات کا ی ی ن دال دی ی ہ ی ں اور پ ھر ا سان اعمال سے ی کسر ا ل ہ و ج ا ا ہ
ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔مرنے
والے کو تو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی ات َر ِهيناً ودر يِف حَم لَّ ِة األَمو ِ
َ َْ
ِ
ب وقَ ْد غُ َ
ِ ِ
أ َْو َن َف َعت الن ََّواح ُ
قبر میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے ت اهْلََو ُّام ِج ْل َدتَه - ضج ِع و ِحيداً قَ ْد هتَ َك ِ
َ ِِ
ويِف ضيق الْ َم ْ َ َ
مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور
ِ ِ ت النَّو ِاه ِ
پامالیوں نے اس کے جسم کی تازگی کو بوسیدہ کردیا ف آثَ َاره -وحَمَا وع َفت الْ َع َواص ُ ك ج َّدتَه َ وأ َْبلَ ِ َ ُ
ہے۔آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹا دیا ہے اور روز گار
اد َش ِحبَةً َب ْع َد بَضَّتِ َها ِ ِ
کے حادثات نے اس کے نشانات کو محو کردیا ہے۔جسم َج َس ُ وص َارت األ ْ احْلَ َدثَا ُن َم َعال َمه َ
اح ُم ْر َت َهنَةً بِثِ َق ِل أ َْعبَائِ َها هِت ِ ِ
تازگی کے بعدہالک ہوگئے ہیں اور ہڈیاں طاقت کے بعد والْعظَ ُام خَن َر ًة َب ْع َد ُق َّو َا -واأل َْر َو ُ
بوسیدہ ہوگئی ہیں۔روحیں اپنے بوجھ کی گرانی میں
گرفتار ہیں اور اب غیب کی خبروں کا یقین آگیا ہے۔اب صالِ ِح َع َملِ َها -واَل ِ موقِنَةً بِغَي ِ ِ
ب أَْنبَائ َها اَل تُ ْسَتَز ُاد م ْن َ ْ ُ
ِ ِ تُسَتعتَ ِ
ب م ْن َسيِّ ِئ َزلَل َها أَولَ ْستُ ْم أ َْبنَاءَ الْ َق ْوم واآلبَاءَ
نہ نیک اعمال میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے۔اور ہ بد
ترین لغزشوں کی معافی طلب کی جا سکتی ہے۔تو کیا تم ْ ْ ُ
لوگ انہیں آباء اجداد کی اوالد نہیں ہو اور کیا انہیں کے وإِ ْخ َوا َن ُه ْم واألَقْ ِربَاءَ -حَتْتَ ُذو َن أ َْمثِلََت ُه ْم وَت ْر َكبُو َن قِ َّدَت ُه ْم
بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے
اسيَةٌ َع ْن َحظِّ َها اَل ِهيَةٌ َع ْن وتَطَئُو َن ج َّادَتهم فَالْ ُقلُوب قَ ِ
ُ َ ُْ
جا رہے ہو اور انہیں کے طریقہ کو پانئاے ہوئے ہو اور
انہیں کے راستہ پر گامزن ہو؟ ۔حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا َن الْ َم ْعيِن َّ ِس َو َاهاض َما ِر َها َكأ َّ ُر ْش ِد َها َ -سالِ َكةٌ يِف َغرْيِ ِم ْ
حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت
سے غافل ہوگئے ہیں' غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے اها. الر ْش َد يِف إِ ْحَرا ِز ُد ْنيَ َ و َكأ َّ
َن ُّ
ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہللا کا مخاطب ان کے عالوہ التحذير من هول الصراط
کوئی اور ہے اور شائد ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع
اط ومزالِ ِق دح ِ َن جَم ا َز ُكم علَى ِّ ِ
کر لینے میں ہے۔یاد رکھو تمہاری گزر گاہ صراط اور ضه الصَر َ َ َ ْ واعلَ ُموا أ َّ َ ْ َ ْ
اس کی ہالکت خیز لغزشیں ہیں۔تمہیں ان لغزشوں کے
ہولناک مراحل اور طرح طرح کے خطر ناک منازل سے
ات أ َْه َوالِه فَ َّات ُقوا اللَّه ِعبَ َاد اللَّه -
وأَها ِو ِيل زلَلِه وتَار ِ
َ َ َ
گزرنا ہے۔ہللا کے بندو! ہللا سے ڈرو۔اس طرح جس طرح
وہ
تَِقيَّةَ ِذي لُ ٍّ
صاحب عقل ڈرتا ہے جس کے دل کو فکرآخرت نے
مشغول کرلیا ہو اور اس کے بدن کو خوف خدانے خستہ ف بَ َدنَهب اخْلَْو ُ صَ الت َف ُّكُر َقْلبَه -وأَنْ َ ب َشغَ َل َّ
حال بنادیا ہو اور شب بیداری نے اس کی بچی کھچی نیند الر َجاءُ َه َو ِاجَر َي ْو ِمه َّه ُّج ُد ِغَر َار َن ْو ِمه -وأَظْ َمأَ َّ َس َهَر الت َ
وأ ْ
کو بھی بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوں نے اس کے
الزه ُد َشهواتِه -وأَوجف ِّ ِ ِ
دل کی تپش کو پیاس میں گزار دیا ہو اور زہد نے اس الذ ْكُر بِل َسانه وقَد َ
َّم َْ َ ف ُّ ْ َ َ وظَلَ َ
کے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا السبِ ِيل - ض ِح َّ ِ َّ اخْلَو َ ِ
اس کی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت ب الْ َم َخال َج َع ْن َو َ ف أل ََمانه -وَتنَك َ ْ
وب -ومَلْ َت ْفتِْله َّه ِج الْمطْلُ ِ ِِ ِ ك أَقْ َ
کے امن و امان کے لئے یہیں خوف کا راستہ اختیار کیا ص َد الْ َم َسالك إىَل الن ْ َ وسلَ ََ
ہو اور سیدھی راہ پر چلنے کے لئے ٹیڑھی راہوں سے ِ
کترا کر چال ہو اور مطلوبہ راستہ تک پہنچنے کے لئے ات األ ُُمو ِر -ت الْغُُرو ِر -ومَلْ َت ْع َم َعلَْيه ُم ْشتَبِ َه ُ فَاتاَل ُ
ِ ظَافِراً بَِفرح ِة الْب ْشرى ور ِ
احة الن ُّْع َمى يِف أَْن َع ِم َن ْومه َ
وآم ِن
معتدل ترین راستہ اختیار کیا ہو'نہ خوش فریبیوں نے اس
میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امورنے اس کی
َْ ُ َ َ َ
اجلَ ِة مَحِ يداً وقَدَّم زاد ِ
اآلجلَ ِة يو ِمه -وقَ ْد عبر معبر الْع ِ
آنکھوں پر پردہ ڈاال ہو۔بشارت کی مسرت اورنعمتوں کی َََ ََ َ َ ْ َ َ َ َْ
راحت حاصل کرلی ہو۔دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف ور ِغب يِف َسعِيداً -وبَ َاد َر ِم ْن َو َج ٍل وأَ ْك َم َ يِف
انداز سے گزر جائے اورآخرت کا زاد راہ نیک بختی ش َم َه ٍل َ َ
کے ساتھ آگے بھیج دے۔وہاں کے خطرات کے پیش نظر ب يِف َي ْو ِمه َغ َده -ونَظََر وراقَ َ
ٍ
ب َع ْن َهَرب َ طَلَب -وذَ َه َ
ٍ
قُ ُدماً أ ََم َامه فَ َك َفى بِاجْلَن َِّة َث َواباً ونَ َوااًل و َك َفى بِالنَّا ِر ِع َقاباً
عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری
سے قدم بڑھایا۔طلب آخرت میں رغبت کے ساتھ آگے بڑا
اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔آج کے دن کل پر صرياً -و َك َفى بِالْ ِكتَ ِ
اب ووبااًل -و َك َفى بِاللَّه مْنتَ ِقماً ونَ ِ
نگاہ رکھی اور ہمیشہ اگلی منزلوں کودیکھتا رہا۔یقینا
ُ ََ
صيماً ! ح ِجيجاً وخ ِ
ثواب اور عطا کے لئے جنت اور عذاب و وبال کے لئے َ َ
جہنم سے باالتر کیا ہے اور اور پھر خدا سے بہتر مدد
کرنے واال اور انتقام لینے واال کون ہے اور قرآن کے
عالوہ حجت اور سند کیا ہے
بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی وصیت الوصية بالتقوى
کرتا ہوں جس نے ڈرانے والی اشیاء کے ذریعہ عذر کا
خاتمہ کردیا ہے اور راستہ دکھا کر حجت تمام کردی واحتَ َّج مِب َا َن َه َج
ْ ُوصي ُك ْم بَِت ْق َوى اللَّه الَّ ِذي أ َْع َذ َر مِب َا أَنْ َذ َرأ ِ
ہے۔تمہیں اس دشمن ()1سے ہوشیار کردیا ہے جو خاموی ِ
سے دلوں میں نفوذ کر جاتا ہے اورچپکے سے کان میں الص ُدو ِر َخفيّاً -و َن َف َ
ث يِف وح َّذ َر ُك ْم َع ُد ّواً َن َف َذ يِف ُّ
َ -
پھونک دیتا ہے اوراس طرح گمراہ اور ہالک کر دیتا ے اآلذَ ِان جَنِ ياً فَأَض َّل وأَردى ووع َد فَمىَّن وزيَّن سيِّئ ِ
ات ّ َ َْ ََ َ َ َ ََ
اور وعدہ کرکے امیدوں میں مبتال کر دیتا ہے۔بد ترین ِ ِ ِ
جرائم کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اور مہلک وه َّو َن ُموبَِقات الْ َعظَائ ِم َحىَّت إِذَا ْ
استَ ْد َر َج قَ ِرينَتَه اجْلََرائ ِم َ
وح َّذ َر ِ
واسَت ْعظَ َم َما َه َّو َن َ واسَت ْغلَ َق َرهينَتَه أَنْ َكَر َما َزيَّ َن ْ
گناہوں کو آسان بنا دیتا ہے ۔یہاں تک کہ جب اپنے ساتھی
نفس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اپنے قیدی کو ْ
باقاعدہ گرفتار کر لیتا ہے تو جس کو خوبصورت بنایا تھا َما أ ََّم َن.
اسی کو منکر بنا دیتا ہے اور جسےآسان بنایا تھا اسی کو
عظیم کہنے لگتا ہے اور جس کی طرف سے محفوظ
ومنها في صفة خلق اإلنسان
َستَا ِر وشغُ ِات األ َْر َح ِام ُ أَم ه َذا الَّ ِذي أَنْ َشأَه يِف ظُلُم ِ
بنادیا تھا اسی سے ڈرانے لگتا ہے۔ذرا اس مخلوق کو
ف األ ْ َ َْ
دیکھو جسے بنانے والے نے رحم کی تاریکیوں
وولِيداً ويَافِعاً ِ نُطْ َفةً ِدهاقاً وعلَ َقةً حِم اقاً ِ
اورمتعدد پردوں کے اندر یوں بنایا کہ اچھلتا ہوا نطفہ تھا وراضعاً َ وجنيناً َ َ َ َ َ
پھر منجمد خون بنا۔پھرجنین بنا۔پھر رضاعت کی منزل
میں آیا پھر طفل نوخیز بنا پھر جوان ہوگیا اور اس کے
مُثَّ َمنَ َحه َق ْلباً َحافِظاً
ن ن ن مالک نے اسے( 2ت)محفوظ کرنے شواال تدل بعد ت ق ن ق
اوراسینے ا نہی ں ج ت ن
ھا من د اک آدم ا ا ارےہ م ہ ے کہ تاس ے رآن جم ی د می ں ب ار ب ار صہ ن ب ل
ن ف بب آدم و ا یس کومدہسلراسکر اوالد آدم کو م ج ن ق ی لہن ت ی
کہ ے ا کردت ہ و
ل روردگار ئکا کرم ہ ن
(1خ)شپ ف ض
ل ہ
ے اورای ک محہ رصت کو ظ ر تا داز ہی ں کر ا نچ اہ ت ا ے پر ال نوا ہ ل ناوالد آدم سے ا ام ی ے سے کاال گ یما ہ پ ب سے ب ارگاہ اق ٰہی کی و گوار ا وں سے کاال نھا اور ھر
ے و اس کے ذہ ی کرب ع ہ ت گن ہ ےجکہ گ ن
کے یبٹعدن ج ب ا سان ان کا تار کاب کرلی ت ا ہ ب ے۔اس
ن ہ ا ت یاد ب نئ یز م اور مولی کو وں ا ت و کے وں ا سب سے ب ڑا ہ ر ی ہ ہے۔اس کا ئ ہ ن
ق ن ت ت ے۔ ے دی تن ا ہ
سے ہی ں ھ ت ت نے اسے چ ی ن ل ے ناور ای ک لمحہ کے ہ دال ا ت ے گ ن اہ کی اہ می ت و عظ ن مت کا احساس ل کے ے کو بڑھا
وروں سے ب د ر ہ و کر رہ ج ا ا اور ا سان کنسی یمت پر ے ہ ی ں کہ اگر ی ہ ن ہ ہ وے وخا ساننکا وج ود ج ا ئ ن س ا ات سا ا ن ن ہ سے ں م ات
ت سا ا کروڑوں کے
ن ات )مالک کائ ن ش(2
ی ح ی ی ی ح ق خ ق
ت ممات و
ے ج ذنب ن ن کے ب عد اپ
ش ں۔اس دے دی ت ت ف ے آ کھی ں ل نسے ب ا ب رئب ن ا فے کےحاالت ٹ کے
ئ ف ے کے ابل ن ہ ہ و ا۔ مالک ے پ ہال کرم ی ہ کقی ا کہ دن ی ا ئ ات کہ
ےج ا ظ خا رف م لو
ے آ ا ا کن ہ و ا ن ن ب نزب ان دے دی اور پ ھر مع ت
ے حا ظ ہ دے دی اور ہ ی ہ حا ظ ہ ہ ہ و ا و ب ار ب ار ا ی اء کا سام سے کسی و ت ھی ا دہ ا ھاے کے ل لومات ف ت ے االت کے ا ہار کے ل ی ن
اور ا سان صاحب علم ہ وے کے ب عد ب ھی ج اہ ل ہ ی رہ ج ا ا۔ اع ب روای ا اولی اال ب صار
ولِسانا فِظا وبصرا ِحظا لِيفهم معترِب ا ويقصر مزد ِجرا بولنے والی زبان' دیکھنے والی آنکھ عنایت کردی تاکہ
ً َ ْ َ َ ُ ْ َ ً ُ َ َ ُ ْ َ ً عبرت کے ساتھ سمجھ سکے اور نصیحت کا اثر لیتے
ِّ َ ً اَل ً َ َ ً اَل
ِ ِ
ط ہوئے برائیوں سے باز رہے لیکن جب اس کے اعضاء وخبَ َ واسَت َوى مثَالُه َن َفَر ُم ْستَ ْكرِب اً َ َ -حىَّت إِ َذا قَ َام ْاعت َدالُه ْ
ِ میں اعتدال پیدا ہوگیا اور اس کا قدو قامت اپنی منزل تک
س ْعياً ل ُد ْنيَاه لَذات پہنچ گیا تو غرور و تکبر سے اکڑ گیا اوراندھے پن کے
ب َهواه َك ِادحاً َ ِ يِف َّ ِ حِت يِف ِ
َسادراً َما اً َغ ْر َ
ات أَربِه -مُثَّ اَل حَي ت ِسب ر ِزيَّةً واَل خَي شع تَِقيَّةً ساتھ بھٹکنے لگا اور ہوا وہوس کے ڈول بھر بھر کر طَربِه وب َدو ِ
ُ َ ْ َ ُ َ ْ َ َ ََ
کھینچنے لگا۔طرب کی لذتوں اورخواہشات کی تمنائوں
ِ ِ ِ
اش يِف َه ْف َوته يَسرياً مَلْ يُف ْد ِ ِ
میں دنیا کے لئے انتھک کوشش کرنے لگا۔نہ کسی وع َ ات يِف فْتنَته َغ ِريراً َ فَ َم َ
ض مفترضا -دمِه ته فجعات المنِي ِة يِف غ ِ مصیبت کا خیال رہ گیا اورنہ کسی خوف و خطر کا اثر
رہ گیا۔فتنوں کے درمیان فریب خوردہ مرگیا اورمختصر
ِع َوضاً ومَلْ َي ْق ِ ُ ْ َ َ ً َ َْ َ َ َ ُ ْ َ َّ ُرَّب
سی زندگی کو بے ہودگیوں میں گزار کیا۔نہ کسی اجر کا اهراً يِف احه -فَظَ َّل س ِادراً وبات س ِ احه وسنَ ِن ِمر ِ مِج ِ
َ َ َ َ َ َ َ
انتظام کیا اورنہ کسی فریضہ کو ادا کیا۔اسی باقیماندہ سر َغمر ِ
کشی کے()1عالم میں مگر بار مصیبتیں اس پر ٹوٹ پڑیں۔ َخَس َق ِام َبنْي َ أ ٍ اع واأل ْ ات اآلاَل ِم -وطََوا ِر ِق األ َْو َج ِ ََ
اور وہ حیرت زدہ رہ گیا۔اب راتیں جاگنے میں گزر رہی وداعيَة بِالْ َويْ ِل َجَزعاًٍ ِ ِ
ووالد َشف ٍيق - ٍ ِ َش ِق ٍيق
تھیں کہشاید قسم کے آالم تھے اور طرح طرح کے
َ َ
امراض واسقام جب کہ حقیقی بھائی اور مہربان باپ
والی ماں اورفریاد ت
ئ ن ض ن کرنے ق ئ ت
س س ن ت ن ت غف ن ئ
ے اور ای ک لمحہ لت کا سلسلہ مام ہ ہ وا ھا ناور شلذت ا جدوزی ح ی نات کا ل گل ا ت م نھا کہ اچ ا ک ح رت ملک الموت ازل ہ وگ سی۔اب ھی ئ ن ےت ئ ےکب کی
ن سان ا رے غ ئ ے ()1ہ ا
۔ادھر مہرب ان ب اپے۔ادھر اوالد ادھر اح ب اب ن کے ا در ہ ن
ف ے ھر خ ں یہ ں یم بل و ئ
ت د ہ را ی و اور ان ا نب حرا ص سانق ے۔ا و ہ ار ق ق کے ے ا ج لے ر ی ب ے ی د لت کی مہ
ہ ے والی ب ہن۔ل ی یب حل ی ی ئ گ ن پ ن
ے والے کے کسی ے ئاور ن ہ مر ن
ہ کربفموت کے لمحہ می ں ی ف بن ھی ہینں کرا سئکت اک ی کو کن ت ن و ادھر رب ان ہ
ن ی اھ ب نی ماں۔ادھر والی ے ٹ ی ہ ی س سرو ادھر
ت ب
ے ئھی کو ی راس ہ شہنی ں چ ھوڑا ج ا رہ ا
ےنکےنل ےئ اور سا س لے ہ ی ہ ا ھوں سے نن می ں لپ تی ٹ ا ج ا رہ ا ہ ے کہ اس یک ب عد اپ ے ب لکہ اس سے زی ادہ تکرب اکق ی ہ م ظ ر نہ کام آسکتپا ہن
ے پ اے اور ہ وا ی ا رو ی کا گزرب ھی ن ہ ے کہ کو ی سوراخ ب یھی ہ رہ یج ہ ا ا ا کرد د ب سے طرف اروں چ کر ڈال ں یم رے یھد ا کے ر ب سے رام واح ادب ہ ج در ت ہای ئناور ھر ے ہ
ق ف ے۔ ن ن ہ وے پ ا
ن
ئ ت
کے و ت ئد ن ئ
ہ
مارے سی کے م ہ نسے ہ کال ہ ن ککہ خ
ت ن ے و ے ہا
خ ں ی ہ ہ ی ڈالو ہ
اور ات ن ا ہ ی ہ ں لکہ ض رت ود ب ھی خہ پ ان
ن اک
ی
ے ہ ی ں: ےفہ ی کو حمب ت کی عالمت اوردوس ی کے حق کی ادا گی صور کر رہ اک ڈال
ئ ق یخ ب ح ٹ
م
دوست آے و ت د ن ن کر لے اک ں یم وں ی
ھ ن
ے لگ
ے ز دگی ب ھر کی حمب ت کا صلہ ید
انا هلل وانا الیه راجعون
اور اضطراب سے سینہ کو بی کرنے والی بہن بھی
موجود تھی لیکن انسان سکرا ت مومن کی مدہوشیوں ۔ لص ْد ِر َقلَقاً -والْ َم ْرءُ يِف َسكَْر ٍة ُم ْل ِهثٍَة و َغ ْمَر ٍة واَل ِد َم ٍة لِ َّ
وس ْوقٍَة ُمْتعِبَ ٍة -مُثَّ ٍ ٍ ٍ ٍ ِ ٍ
وج ْذبَة ُم ْك ِربَة َ َكا ِرثَة وأَنَّة ُموج َعة َ
شدید قسم کی بدحواسیوں۔درد ناک قسم کی فریادوں اور
کرب انگیز قسم کی نزع کی کیفیتوں اور تھکا دین والی
شدتوں میں مبتال تھا۔ اس کے بعد اسے مایوسی کے عالم ب ُمْن َقاداً َسلِساً مُثَّ أُلْ ِق َي َعلَى أُدرِج يِف أَ ْك َفانِه مبلِساً ِ
وجذ َ ُ ُْ ْ َ
األ ِ ِ
ض َو َس َق ٍم -حَتْ ِملُه َح َف َدةُ ب ونِ ْ
میں کفن میں لپیٹ دیا گیا اور وہ نہایت درجہ آسانی اور صٍ
خود سپردگی کے ساتھ کھینچا جانے لگا اس کے بعد يع َو َ َع َواد َرج َ ْ
اسے تختہ پر لٹا دیا گیا اس عالم میں کہ خستہ حال اور ومْن َقطَ ِع َز ْو َرتِه ِ ِِ
وح َش َدةُ ا ِإل ْخ َوان إىَل َدا ِر غُْربَته ُ -
ِ
الْ ِولْ َدان َ
بیماریوں سے نڈھال ہو چکا تھا۔اوالد اوربرادری کے ِ
ِ
لوگ اسے اٹھا کر اس گھر کی طرف لے جا رہے تھے ور َج َعف الْ ُم َشيِّ ُع َ وم ْفَرد َو ْح َشته َ -حىَّت إِ َذا انْ َ
صَر َ ُ
ِ ِ ِ ِ ِ
الس َؤ ِال َ
وع ْثَر ِة الْ ُمَت َف ِّج ُع -أُقْع َد يِف ُح ْفَرته جَن يّاً لَب ْهتَة ُّ
جو غربت کاگھر تھا اور جہاں مالقاتوں کا سلسلہ بند تھا
اور تنہائی کی وحشت کا دور دورہ تھا یہاں تک کہ جب
مشایعت کرنے والے واپس آگئے اور گریہ و زاری صلِيَةُ ول احْلَمي ِم وتَ ْ
ك بلِيَّةً نُز ُ ِ ِ
ا ْمت َحان -وأ َْعظَ ُم َما ُهنَال َ َ ُ
اِل ِ ِ
الزفِ ِري اَل َفْتَرةٌ اجْل ِحي ِم و َفورات َّ ِ
کرنے والے پلٹ گئے تو اسے قبر میں دوبارہ اٹھا کربٹھا
دیا گیا ۔سوال و جواب کی دہشت اور امتحان کی لغزشوں ات َّ السع ِري َ -
وس ْو َر ُ َْ ُ َ
کا سامنا کرنے کے لئے۔اور وہاں کی سب سے بڑی ِ
ُم ِرحيَةٌ -واَل َد َعةٌ ُم ِزحيَةٌ واَل ُق َّوةٌ َحاجَزةٌ واَل َم ْوتَةٌ
مصیبت تو کھولتے ہوئے پانی کا نزول اور جہنم کا درود ِ
وع َذ ِ ِ ِ
ہے جہاں آگ بھڑک رہی ہوگی اور شعلے بلند ہو رہے اب نَاجَزةٌ ،واَل سنَةٌ ُم َسلِّيَةٌ َ -بنْي َ أَطْ َوا ِر الْ َم ْوتَات َ
ہوں گے۔نہ کوئی راحت کا وقفہ ہوگا اور نہ سکون کا ات -إِنَّا بِاللَّه َعائِ ُذو َن! الساع ِ
لمحہ۔نہ کوئی طاقت عذاب کو روکنے والی ہوگی اور نہ َّ َ
ين عُ ِّمُروا َفنَعِ ُموا وعُلِّ ُموا َف َف ِه ُموا - َّ ِ ِ
کوئی موت سکون بخش ہوگی۔حد یہ ہے کہ کوئی تسلی عبَ َاد اللَّه أَيْ َن الذ َ
بخش نیند بھی نہ ہوگی۔طرح طرح کی موتیں ہوں گی اور
دمبدم کا عذاب ۔بیشک ہم اس منزل پر پروردگار کی پناہ
کے طلب گار ہیں۔بندگان خدا!کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں
عمر یں دی گئیں تو خوب مزے اڑائے اور بتایا گیا تو
سب سمجھ گئے
لیکن مہلت دی گئی تو غفلت میں پڑ گئے۔صحت و
سالمتی دی گئی تو اس نعمت کوبھول گئے۔انہیں کافی ومنِ ُحوا وسلِّ ُموا َفنَ ُسوا -أ ُْم ِهلُوا طَ ِوياًل ُ
ِ
وأُنْظُروا َفلَ َه ْوا ُ
طویل مہلت دی گئی اور کافی اچھی نعمتیں دی گئی اور اح َذ ُروا ِ مَجِ ياًل -وح ِّذروا أَلِيماً ِ
انہیں دردناک عذاب سے ڈرایا بھی گیا اور بہترین ووع ُدوا َجسيماً ْ - ُ ُ ُ
نعمتوںکاوعدہ بھی کیا گیا۔لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔اب تم وب الْ ُم ْس ِخطَةَ. وب الْ ُم َو ِّرطَةَ والْعُيُ َ الذنُ َ ُّ
لوگمہلک گناہوں سے پرہیز کرو اور خدا کو ناراض
کرنے والے عیوب سے دور رہو۔تم صاحبان سماعت و
اع َ -ه ْل ِم ْن َمنَ ٍ
اص اع والْ َعافِيَ ِة والْ َمتَ ِصا ِر واألَمْسَ ِ أُويِل األَبْ َ
بصارت اور اہل عافیت و ثروت ہو بتائو کیا بچائو کی ص -أ َْو َم َع ٍاذ أ َْو َماَل ٍذ أ َْو فَِرا ٍر أ َْو حَمَا ٍر أ َْم اَل – أ َْو َخاَل ٍ
کوئی جگہ یاچھٹکارہ کی کوئی گنجائش ہے۔کوئی ٹھکانہ
یا پناہ گاہ ہے۔کوئیجائے فرار یا دنیا میں واپسی کی کوئی صَرفُو َن أ َْم مِب َا ذَا َت ْغَتُّرو َن -وإِمَّنَا (فَأَىَّن ُت ْؤفَ ُكو َن) أ َْم أَيْ َن تُ ْ
ض -قِ ُ ات الطُّْو ِل والْ َع ْر ِ ض ذَ ِ َح ِد ُك ْم ِم َن األ َْر ِ َح ُّ
صورت ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کدھر بہکے جا رہے يد قَدِّه
ہواور کہاں تم کو لے جایا جا رہا ہے یا کس دھوکہ میں ظأَ
پڑے ہو؟ اق ُم ْه َم ٌل ُمَت َعفِّراً َعلَى َخدِّه -اآل َن ِعبَ َاد اللَّه واخْلِنَ ُ
یاد رکھو اس طویل و عریض زمین میں تمہاری قسمت والروح مرسل -يِف َفينَ ِة ا ِإلر َش ِاد وراح ِة األ ِ
صرف بقدر قامت جگہ ہے جہاں رخساروں کو خاک پر اح ِة
َج َساد وبَ َ َ َ ْ ْ ْ ُّ ُ ُ ْ َ ٌ
رہنا ہے۔ ف الْ َم ِشيَّ ِة وإِنْظَا ِر الت َّْوبَِة - ااِل ْحتِ َش ِاد ومه ِل الْب ِقيَّ ِة وأُنُ ِ
بندگان خدا! ابھی موقع ہے۔رسی ڈھیلی ے۔روح آزاد ہے۔
ََ َ
تم ہدایت کی منزل اور جسمانی راحت کی جگہ پرہو۔ ض ِيق َّ
والر ْو ِع ك والْم ِ
َ اح احْلَ ْوبَِة َقْب َل َّ
الضْن ِ وانِْف َس ِ
ب الْ ُمْنتَظَ ِر -وإِ ْخ َذ ِة الْ َع ِزي ِز وم الْغَائِ ِ وق و َقبل قُد ِ
والز ُه ِ ْ َ ُ
مجلسوںکے اجتماع میں ہو اور بقیہ زندگی کی مہلت
سالمت ہے اور راستہ اختیار کرنے کی آزادی ہے اور
ُّ
توبہ کی مہلت ہے اور جگہ کی وسعت ہے قبل اس کے الْ ُم ْقتَ ِد ِر.
کہ تنگی لحد۔ضیق مکان ۔خوف اورجانکنی کا شکار ہو
جائو اور قبل اس کے کہ وہ موت آجائے جس کا انتظار
ہو رہا ہے اور وہ پروردگار اپنی گرفت میں لیلے جو
صاحب عزت وغلبہ اور صاحب طاقت و قدرت ہے۔
سید رضی :کہا جاتا ہے کہ جب حضرت نے اس خطبہ قال الشريف -ويف اخلرب أنه عليهالسالم ملا خطب هبذه
کو ارشاد فرمایا تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے
اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوردل لرزنے لگے۔ اخلطبة -اقشعرت هلا اجللود وبكت العيون ورجفت
بعض لوگ اس خطبہ کو ''خطبہ غراء '' کے نام سے یاد
کرتے ہیں۔
القلوب -ومن الناس من يسمي هذه اخلطبة الغراء
()84
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
(جس میں عمرو عاص کاذکر کیا گیا ہے)
تعجب ہے نابغہ کے بیٹے سے۔کہ یہ اہل شام سے بیان
کرتا ہے کہ میرے مزاج میں مزاح پایا جاتاہے اور میں ()84
کوئی کھیل تماشہ واال انسان ہوں اور ہنسی مذاق میں لگا
رہتا ہوں۔یقینا اس نے یہ بات غلط کہی ہے اور اس کی بنا عليهالسالم ومن خطبة له
پر گناہ گار بھی ہوا ہے۔ في ذكر عمرو بن العاص
آگاہ ہوجائو کہ بد ترین کالم غلط بیانی ہے اور یہ جب
بولتا ہے تو جھوٹ ہی بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے
تو وعدہ خالفی ہی کرتا ہے اور جب اس سے کچھ مانگا
َن يِف َّ ُد َعابَةً وأَيِّن َعجباً اِل بْ ِن النَّابِغَ ِة يْزعُم أل َْه ِل الش ِ
َّام أ َّ
جاتا ہے تو بخل ہی کرتا ہے اورجب خود مانگتا ہے تو َ ُ َ
مِث ِ
س -لََق ْد قَ َال بَاطاًل ونَطَ َق آ اً ِ ِ ِ
س وأ َُمار ُ ْامُر ٌؤ ت ْل َعابَةٌ أ َُعاف ُ
چمٹ جاتا ہے۔عہدو پیمان میں خیانت کرتا ہے۔قرابتوں
میں قطع رحم کرتا ہے۔جنگ کے وقت دیکھو تو کیا کیا -أَما وشُّر الْ َقو ِل الْ َك ِذب إِنَّه لَي ُق ُ ِ
امرو نہیں کرتا ہے جب تک تلواریں اپنی منزل پر زور ب ويَعِ ُد ول َفيَكْذ ُ ُ َ َ َ ْ
نہ پکڑ لیں۔ورنہ جب ایسا ہو جاتا ہے تواس کا سب سے ف وخَيُو ُن الْ َع ْه َد ِ ِ
بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن کے سامنے اپنی پشت کو ف ويُ ْسأ َُل َفيَْب َخ ُل ويَ ْسأ َُل َفُي ْلح ُ َفيُ ْخل ُ
وآم ٍر ُه َو - َي ز ِاج ٍر ِ وي ْقطَع ا ِإل َّل فَِإ َذا َكا َن ِعْن َد احْل ر ِ
پیش کردے۔خداگواہ ہے کہ مجھے کھیل کود سے یا موت ب فَأ ُّ َ َْ َ ُ
نے روک رکھا ہے اور اسے حرف حق سے نسیان ِ ِ ِ
آخرت نے روک رکھا ہے
ك َكا َن أَ ْكَبُر وف َمآخ َذ َها -فَِإ َذا َكا َن َذل َ السيُ ُ َما مَلْ تَأْ ُخذ ُّ
يدتِه أَ ْن مَيْنَ َح الْ َق ْر َم َسبَّتَه -أ ََما واللَّه إِيِّن
[أَ ْكَبَر] َم ِك َ
ت -وإِنَّه لَيَ ْمَنعُه ِم ْن َق ْو ِل ب ِذ ْكر الْمو ِ ِ ِ
لَيَ ْمَنعُيِن م َن اللَّع ِ ُ َ ْ
اآلخَر ِة - احْل ِّق نِسيا ُن ِ
َ َْ
ِ ِ ِ ِ
إنَّه مَلْ يُبَاي ْع ُم َعا ِويَةَ َحىَّت َشَر َط أَ ْن يُ ْؤتيَه أَتيَّةً َ
اس نے معاویہ کی بیعت بھی اس وقت تک نہیں کی جب ض َخ لَه
تک اس سے یہ طے نہیں کرلیا کہ اسے کوئی ہدیہ دے وي ْر َ
ِ ِ
گا اور اس کے سامنے ترک دین پر کوئی تحفہ پیش َعلَى َت ْرك الدِّي ِن َرض َ
يخةً
کرے گا۔
()85
()85
(جس میں پروردگار کے آٹھ صفات 2کاتذکرہ کیا گیا ہے)
عليهالسالم ومن خطبة له
میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے عالوہ کوئی خدا نہیں ہے۔ وفيها صفات ثمان من صفات الجالل
وہ اکیال ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔وہ ایسا اول ہے
جس سے پہلے کچھ نہیں ہے اور ایسا آخر ہے جس کی يك لَه -األ ََّو ُل اَل وأَ ْش َه ُد أَ ْن اَل إِلَه إِاَّل اللَّه َو ْح َده اَل َش ِر َ
کوئی حد معین نہیں ہے۔خیاالت اس کی کسی صفت کا
واآلخُر اَل َغايَةَ لَه -اَل َت َق ُع األ َْو َه ُام لَه َعلَى َشيء َقبلَه ِ
ادراک نہیں کر سکتے ہیں اور دل اس کی کوئی کیفیت َْ ْ
طے نہیں کر سکتا ہے۔اس کی ذات کے نہ اجزا ہیں اور وب ِمْنه َعلَى َكْي ِفيَّ ٍة -واَل َتنَالُه ص َفة -واَل ُت ْع َق ُد الْ ُقلُ ُ
ِ ٍ
نہ ٹکڑے اورنہ وہ دل و نگاہ کے احاطہ کے اندر آسکتا
ہے۔ وب. ص ُار والْ ُقلُ ُ ط بِه األَبْ َيض -واَل حُتِ ي ُ ِ
َّج ِزئَةُ والتَّْبع ُ الت ْ
ِ
بندگان خدا! مفید عبرتوں سے نصیحت حاصل کرواور
واضح نشانیوں سے عبرت لو۔بلیغ ڈرانے والی چیزوں
واعتَرِب ُوا بِاآل ِي ومنها :فَاتَّعِظُوا ِعبَ َاد اللَّه بِالْعِرَبِ الن ََّواف ِع ْ -
واز َد ِجروا بِالنُّ ُذ ِر الَْبوالِ ِغ وا ْنتَ ِفعُوا بِ ِّ
الذ ْك ِر َّ ِ
سے اثر قبول کرو اور ذکر و موعظت سے فائدہ حاصل َ الس َواط ِع ْ ُ
کرو۔یہ سمجھو کہ گویا موت اپنے پنجے تمہارے اندر ِِ ِ ِ ِِ
گاڑ چکی ہے اورامیدوں کے رشتے تم سے منقطع
تب الْ َمنيَّة -وا ْن َقطَ َع ْ والْ َم َواعظ -فَ َكأَ ْن قَ ْد َعل َقْت ُك ْم خَمَال ُ
ات األ ُُمو ِر ِ ِمن ُكم عاَل ئِق األُمنِي ِة -مِه
ہوچکے ہیں اوردہشت ناک حاالت نے تم پرحملہ کردیا ود َْت ُك ْم ُم ْفظ َع ُ َ ْ ْ َ ُ ْ َّ
ہے اورآخری منزل کی طرف لیجانے کا عمل شروع
ہوچکا ہے۔یاد رکھو کہ '' ہر نفس کے ساتھ ایک ہنکانے س َم َعها ف ( ُك ُّل َن ْف ٍ ود) َ - والسيَاقَةُ إِىَل (الْ ِو ْر ُد الْ َم ْو ُر ُ
ِّ
واال ہے اور ایک گواہ رہتا ہے''۔ہنکانے واال قیامت کی اه ٌد يَ ْش َه ُد سائِق وش ِهي ٌد) -سائِق يسو ُقها إِىَل ش ِرها وش ِ
طرف کھینچ کرلے جا رہا ہے اور گواہی دینے واال
َ ٌ َ ُ َ حَمْ َ َ َ ٌ َ
اعمال کی نگرانی کر رہا ہے َعلَْي َها بِ َع َملِ َها.
اس کے درجات مختلف()1اوراس کی منزلیں پست و بلند ومنها يف صفة اجلنة
ہیں لیکن اس کی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں اور اس
کے باشندوں کو کہیں اور کوچ کرنے نہیں ہے۔اس میں ات -اَل َيْن َق ِط ُع
ومنَا ِز ُل ُمَت َفا ِوتَ ٌ
ت َاضاَل ٌ ات مَت َف ِ
َد َر َج ٌ ُ
ہمیشہ رہنے واال بھی بوڑھا نہیں ہوتا ہے اور اس کے
َس ِ ِ ِ
رہنے والوں کو فقرو فاقہ سے سابقہ نہیں پڑتاہے۔ يم َها -واَل َي ْهَر ُم َخال ُد َها واَل َيْبأ ُ يم َها واَل يَظْ َع ُن ُمق ُنَع ُ
()86 َساكُِن َها
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ()86
(جس میں صفات 2خالق '' جل جاللہ'' 2کاذکر کیا گیا ہے
تقوی کی نصیحت 2کی گئی ہے) ٰ اور پھر لوگوں کو
عليهالسالم ومن خطبة له
بیشک وہ پوشیدہ اسرار کا عالم اور دلوں کے رازوں وفيها بيان صفات الحق جل جالله ،ثم عظة الناس
سے با خبر ہے۔اسے ہرشے پر احاطہ حاصل ہے اوروہ
ہر شے پرغالب ہے۔اور طاقت رکھنے واال ہے۔ بالتقوى والمشورة
موعظہ َّمائَِر -لَه ا ِإل َحاطَةُ بِ ُك ِّل َش ْي ٍء
وخَبَر الض َ
قَ ْد علِم َّ ِ
السَرائَر َ ََ
تم میں سے ہرشخص کا فرض ہے کہ مہلت کے دنوں ٍ ٍ
والْغَلَبَةُ لِ ُك ِّل َش ْيء -والْ ُق َّوةُ َعلَى ُك ِّل َش ْيء.
میں عمل کرے قبل اس کے کہ موت حائل ہو جائے اور
فرصت کے دنوں میں کام کرے قبل اس کے کہ مشغول عظة الناس
ہو جائے۔ابھی جب کہ سانس لینے کاموقع ہے
َجلِه ويِف ِ ِ ِ ِ ِ ِ
َفْلَي ْع َم ِل الْ َعام ُل مْن ُك ْم يِف أَيَّام َم َهله َقْب َل إ ْر َهاق أ َ
اغه َقبل أَو ِان ُشغُلِه -ويِف مَتَنف ِ
َّسه َفر ِ
فئ ت ست ت ن ئ خ نت ن
ن
ُ ت َ
خ َ ْ ق بَ
ے۔ ا ی ہ دہ ا کا ات در ان ضو ے ی و ہ ں ہ رد س ش ہ وا ے اور وہ اں کی کو ی ے کہ ج ب ج ت می ں ہ ر ن عمت
ئ کا ا ظ ام ہ ال پ ی ندا ہ و ا
نی ہ
ت ان
ک ج ہ ک ی مئ
ش کرے گا وہ ناں پ ہق چ ج اے گا اور یت ہ سب درج ات ب ی کار ہ و کر رہ ج ا ی ں گے۔ل ینکن اس کا وا ن ح سا ج وا ب ی ہ ہ ج ہخ واہ ےہہ یی بل ن
ات ی واال ج
عض او ()1
ست من پ
ے کہ ن ق ت ت ن کی زل م
ن د س ی ن زل ق
ے ن۔ج ن ئت والے پا ے ہ وں۔ہ وس کا ام ج ہ م ے ج ن ے ہ وں اوراپ ی او ات سے بل نن د ر گہ تکی ہ وس رک ے ج و اپ ی من زل ن ہ پ
ے ہ ں یہ ت ہ م ن ھ ج ن ق ا چ ہ ہ ں ی ہنت ام م کا لوگوں
ق
والوں کے خ ادم اور وکر ہ ی ں و خ دمت کے سہارے دیگر و کروں کی طرح بل ن د م ن ازل ت ک پ ہ چ ج ا ی ں جس کی طرف ن امات
ت ے کہ بل د م ے ہ ی ں۔ی ہ اورب ات ہ ش امات کو پش ہچ ا ف
م ن
ہ ج
ے کہ'' ہ مارے ی عہ ہ مارے سا ھ ت می ں ہ مارے درج ہ می ں وں گے'' امام ے ا ارہ رمای ا ہ
قبل اس کے کہ گال گھونٹ دیا جائے۔اپنے نفس اور اپنی َقْب َل أَ ْن يُ ْؤ َخ َذ بِ َكظَ ِمه ولْيُ َم ِّه ْد لَِن ْف ِسه وقَ َد ِمه ولْيََتَز َّو ْد ِم ْن
منزل کے لئے سامان مہیا کرلے اور اس کوچ کے
گھرسے اس قیام کے گھر کے لئے زاد راہ فراہم کرلے۔ َدا ِر ظَ ْعنِه لِ َدا ِر إِقَ َامتِه -فَاللَّه اللَّه
لوگو! ہللا کو یاد رکھو اور اس سے ڈرتے رہو اور اس أَيُّها الن ِ
کتاب کے بارے میں جس کا تم کو محافظ بنایا گیا ہے واسَت ْو َد َع ُك ْم ِم ْن ِ ِ
استَ ْح َفظَ ُك ْم م ْن كتَابِه ْ - يما ْ َّاس ف َُ َ
اوران حقوق کے بارے میں جن کا تم کو امانت دار قرار ُح ُقوقه -فَِإ َّن اللَّه ُسْب َحانَه مَلْ خَي ْلُ ْق ُك ْم َعبَثاً ومَلْ َيْتُر ْك ُك ْمِ
دیا گیاہے۔اس لئے کہ اس نے تم کو بیکارنہیں پیدا کیا ہے
اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور نہ کسی جہالت ُس ًدى -ومَلْ يَ َد ْع ُك ْم يِف َج َهالٍَة واَل َع ًمى قَ ْد مَسَّى آثَ َار ُك ْم
اورتاریکی میں رکھاہے۔تمہارے لئے آثار کو بیان کردیا ِ ِ
ہے۔اعمال کو بتا دیا ہے اورمدت حیات کو لکھ دیا ہے۔وہ
ابآجالَ ُك ْم -وأَْنَز َل َعلَْي ُك ُم الْكتَ َ ب َ وعل َم أ َْع َمالَ ُك ْم و َكتَ َ َ
وع َّمَر فِي ُك ْم نَبِيَّه أ َْز َماناً َحىَّت أَ ْك َم َل ٍ ِ ِ
کتاب نازل کردی ہے جس میں ہر شے کا بیان پایا (تْبياناً ل ُك ِّل َش ْيء) َ -
جاتاہے اور ایک مدت تک اپنے پیغمبر (ص) کو تمہارے
درمیان رکھ چکا ہے۔یہاں تک کہ تمہارے لئے اپنے اس يما أَْنَز َل ِم ْن كِتَابِه ِدينَه الَّ ِذي َر ِض َي لَِن ْف ِسه - ِ
لَه ولَ ُك ْم -ف َ
وم َكا ِر َهه - وأَْنهى إِلَي ُكم َعلَى لِسانِه حَمَابَّه ِمن األ ْ ِ
َع َمال َ
دن کو کامل کردیا ہے جسے اس نے پسندیدہ قراردیا ہے
اور تمہارے لئے پیغمبر (ص) کی زبان سے ان تمام َ َ َ ْ ْ
اعمال کو پہنچادیا ہے جن کو وہ دوست رکھتا ہے یا جن و َن َو ِاهيَه وأ ََو ِامَره وأَلْ َقى إِلَْي ُك ُم الْ َم ْع ِذ َر َة -واخَّتَ َذ َعلَْي ُك ُم
سے نفرت کرتا ہے۔اپنے اوامر و نواہی کر بتا دیا ہے يد) -وأَنْ َذ َر ُك ْم ( َبنْي َ يَ َد ْي احْل َّجةَ وقَدَّم (إِلَي ُكم بِالْو ِع ِ
اوردالئل تمہارے سامنے رکھ دئیے ہیں اور حجت تمام َ ْ ْ َ ُ
رِب ِ ِ ٍ ِ ٍ
کرد ی ہے اورڈرانے دھمکانے کا انتظام کردیا ہے واص ُوا هَلَا استَ ْد ِر ُكوا بَقيَّةَ أَيَّام ُك ْم ْ َعذاب َشديد) فَ ْ
اورعذاب کے آنے سے پہلے ہی ہوشیار کردیا ہے۔لہٰ ذا
اب جتنے دن باقی رہ گئے ہیں انہیں میں تدارک کرلو يل يِف َكثِ ِري األَيَّ ِام الَّيِت تَ ُكو ُن ِمْن ُك ْم فِ َيها ِ ِ
أَْن ُف َس ُك ْم فَإن ََّها قَل ٌ
اور اپنے نفس کو صبر پرآمادہ کرلو کہ یہ دن ایام غفلت صوا ألَْن ُف ِس ُك ْم ِ ِ
َّشاغُ ُل َع ِن الْ َم ْوعظَة واَل ُتَر ِّخ ُ الْغَ ْفلَةُ -والت َ
کے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں جب تم نے موعظہ
ب الظَّلَ َم ِة ِ ب بِ ُك ُم ُّ
سننے کابھی موقع نہیں نکاال۔خبردار اپنے نفس کو آزاد ص َم َذاه َ الر َخ ُ َ -فتَ ْذ َه َ
مت چھوڑو ورنہ یہآزادی تم کو ظالموں کے راستہ پر
لے جائے گی
اوراس کے ساتھ نرمی نہ بر تو ورنہ یہ تمہیں مصیبتوں
صيَ ِة ِ -عبَ َاد واَل تُ َد ِاهنُوا َفيهجم بِ ُكم ا ِإل ْدها ُن علَى الْمع ِ
میں جھونک دے گا۔ َْ ُ َ ُ َ َ َْ
بندگان خدا! اپنے نفس کا سب سے سچا مخلص وہی ہے َّه ْم
ُ َّاس لَِن ْف ِسه أَطْ َوعُ ُه ْم لَِربِّه -وإِ َّن أَ َغشص َح الن ِ َ اللَّه إِ َّن أَنْ
جو پروردگار کا سب سے بڑا اطاعت گزار ہے اور اپنے
نفس سے سب سے بڑا خیانت کرنے واال وہی ہے جو اه ْم لَِربِّه -والْ َم ْغبُو ُن َم ْن َغنَبَ نَ ْف َسه صُ لَن ْفسه أ َْع َ
ِ ِ
ظ بِغ ِ ه -اپنے پروردگار کا معصیت کار ہے ۔خسارہ میں وہ ہے
جو خود اپنے نفس کوگھاٹے میں رکھے اور قابل رشک
ِ
يد َم ْن ُوع َ َرْي والْ َم ْغبُو ُط َم ْن َسلِ َم لَه ِدينُه َّ -
والسعِ ُ
وہ ہے جس کا دین سالمت رہ جائے۔نیک بخت وہ ہے جو ع هِلََواه وغُُرو ِره ِ
والشَّق ُّي َم ِن اخْن َ َد َ
دوسروں کے حاالت سے نصیحت حاصل کرلے اورب د
بخت وہ ہے جو خواہشات کے دھوکہ میں آجائے۔ الريَ ِاء ِش ْر ٌك -وجُمَالَ َسةَ أ َْه ِل اهْلََوى َن يَ ِس َري ِّ واعلَ ُموا أ َّ ْ
یاد رکھو کہ مختصر سا شائبہ ریا کاری بھی ایک طرح ِ ِ
ب فَِإنَّه ِ ِ مْنساةٌ لِ ِإلميَ ِ
کا شرک ہے اورخواہش ()1پرستوں کی صحبت بھی ضَرةٌ للشَّْيطَان َجانبُوا الْ َكذ َ ان وحَمْ َ َ َ
ایمان سے غافل بنانے والی ہے اور شیطان کو ہمیشہ الص ِاد ُق َعلَى َش َفا َمْن َج ٍاة و َكَر َام ٍة - ان َّ - جُمَانِب لِ ِإلميَ ِ
سامنے النے والی ہے۔جھوٹ سے پرہیز کرو کہ وہ ٌ
اس ُدوا -فَِإ َّن ایمان سے کنارہ کش رہتا ہے۔سچ بولنے واال ہمیشہ نجات ٍ ٍ ِ ِ
وم َهانَة -واَل حَتَ َ ب َعلَى َشَرف َم ْه َواة َ والْ َكاذ ُ
اور کرامت کے کنارہ پر رہت ہے اور جھوٹ بولنے واال
ہمیشہ تباہی اورذلت کے دہانہ پر رہتا ہے۔خبردار ایک ب -واَل احْلَ َس َد يَأْ ُك ُل ا ِإلميَا َن َك َما تَأْ ُك ُل الن ُ
َّار احْلَطَ َ
ِ
دوسرے سے حسد نہ کرنا کہ''حسد ایمان کو اس طرح َن األ ََم َل يُ ْس ِهي الْ َع ْق َل - ضوا فَِإن ََّها احْلَال َقةُ ْ
واعلَ ُموا أ َّ َتبَا َغ ُ
کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی
ہے''۔ اورآپس میں ایک دوسرے سے بغض نہ رکھنا کہ
بغض ایمان کا صفایا کرتا دیتا ہے اوریاد رکھو کہ
غ دیتی ہے خواہش عقل کو بھال ف
ت
۔لوگوں کی ی ب ت ' پ اضکی زہ کردار لوگوں پر
ت مہم ت کھ ن ب ئ
ن ہ ن ن مح ت( 1ت
صرے ش کے ب ق
ذکرے۔س ی است ق
ض ں۔د ی ا ھر کی ف ل ب ا ی ں ی ئل کوقدکے ت لے لیں ا ل د ی ا کی لوںغکا ج ا زہ ئ )آپ ج ب چ اہ یت ش
گے و ک ی ا ایسی مح لوں می غںتمال کہ م رب ی ن ب ھی حنا ر ہ وں گے۔ی ی ن ا ی ہ م امات ی اطی ن کے ح ور اور ای مان سے
ض فں ی ا جآ ر ظ رہ ی و ہرے
ن ت ے طر ج کے م پ کے اش غ فہمت
ح
ے۔ے اوراس کے ب ی ر ب اہ ی کے عالوہ چک ھ ہی ں ہ لت کے مرا ل ہ ی ں ج ن سے اج اب ہ ر مسلمان کا ری ہ ہ
اور ذکر خداسے غافل بنا دیتی ہے ۔خواہشات کوجھٹالئو الذ ْكر فَأَ ْك ِذبوا األَمل -فَِإنَّه غُرور وص ِ
احبُه ِ ِّ
کہ یہ صرف دھوکہ ہیں اور ان کا ساتھ دینے واال ایک ُ ٌ َ ُ ََ ويُْنسي َ
فریب خوردہ انسان ہے اورکچھ نہیں ہے۔ ور.
َم ْغُر ٌ
()87 ()87
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
عليهالسالم ومن خطبة له
(جس میں متقین اورفاسقین کے صفات کاتذکرہ کیا گیا
ہے اور لوگوں کوتنبیہ 2کی گئی ہے ) وهي في بيان صفات المتقين وصفات الفساق والتنبيه
بندگان خدا!ہللا کی نگاہ میں سب سے محبوب بندہ وہ ہے
جس کی خدانے اس کے نفس کے خالف مدد کی ہے اور
إلى مكان العترة الطيبة والظن الخاطئ لبعض الناس
اس نے اندر حزن اور باہرخوف کا لباس پہن لیا ہے ۔اس ب ِعبَ ِاد اللَّه إِلَْيه َعْبداً -أ ََعانَه اللَّه َعلَى ِ ِ ِ
عبَ َاد اللَّه إ َّن م ْن أ َ
َح ِّ
کے دل میں ہدات کا چراغ روشن ہے اور اس نے آنے
اح ِ ِ
والے دن کی مہمانی کا انتظام کرلیا ہے۔اپنے نفس کے صبَ ُ ف َفَز َهَر م ْ ب اخْلَْو َاستَ ْش َعَر احْلُْز َن -وجَتَْلبَ َ
َن ْفسه فَ ْ
ِ ِ ِ ِ ِ
اهْلَُدى يِف َق ْلبِه -وأ ََع َّد الْقَرى لَي ْومه النَّا ِزل به َ -ف َقَّر َ
لئے آنے والے بعید ( موت) کو قریب کرلیا ہے اور ب
سخت مرحلہ کوآسان کرلیا ہے۔دیکھا ہے تو بصیرت پیدا
صَر وذَ َكَر يد وه َّو َن الش ِ ِ ِ
کی ہے اور خدا کو یاد کیا ہے تو عمل میں کثرت پیدا کی يد -نَظََر فَأَبْ َ َّد َ َعلَى َن ْفسه الْبَع َ َ
ہے۔ ہدایت کے اس چشمہ شیریں و خوشگوار سے
ت لَه َم َوا ِر ُده - فَاستَكَْثر -وار َتوى ِمن ع ْذ ٍ ٍ
سیراب ہوگیا ہے جس پر وارد ہونے کو آسان بنادیا گیا ب ُفَرات ُس ِّهلَ ْ ْ َ ْ َ ْ َ
ِ ب َن َهاًل وسلَ َ ِ
ہے جس کے نتیجہ میں خوب چھک کر پی لیا ہے اور
سیدھے راستہ پرچل پڑا ہے۔خواہشات کے لباس کو جدا
يل
ك َسبياًل َج َدداً قَ ْد َخلَ َع َسَراب َ َ فَ َش ِر َ
احداً ا ْن َفَر َد بِهوم -إِاَّل مَه اً و ِ ات وخَت لَّى ِمن اهْل م ِ الشَّهو ِ
کردیا ہے اور تمام افکارسے آزاد ہوگیاہے صرف ایک ّ َ َ َ ُُ ََ
ِ ِ ِ ِ ِ
وم َش َار َكة أ َْه ِل اهْلََوى َ
فکر آخرت باقی رہ گئی ہے جس کے زیر اثر گمراہی وص َار م ْن
کی منزل سے نکل آیا ہے اور اہل ہو اور ہوس کی فَ َخَر َج م ْن ص َفة الْ َع َمى ُ -
الر َدىاب َّ اب اهْلَُدى -ومغَالِ ِيق أ َْبو ِ يح أ َْبو ِ ِ
شرکت سے دور ہوگیا ہے۔ہدایت کے دروازہ کی کلید بن َ َ َم َفات ِ َ
گیا ہے اور گمراہی کے دروازوں کا قفل بن گیا ہے
اپنے راستہ کو دیکھ لیا ہے اور اسی پر چل پڑا ہے۔اس
لئے کہ وہ اپنے یقین میں بالکل نور آفتاب جیسی روشنی
ف َمنَ َاره -وقَطَ َع وعَر َك َسبِيلَه َ صَر طَ ِري َقه َ
وسلَ َ قَ ْد أَبْ َ
ك ِمن الْعرى بِأَوثَِقها ِ -
وم َن احْلِبَ ِال ِ
رکھتا ہے۔اپنے نفس کو بلند ترین امور کی خاطر راہ خدا
میں آمادہ کرلیا ہے کہ ہرآنے والے مسئلہ کو حل کردے
واستَ ْم َس َ َ َُ ْ َ غ َم َاره ْ
ني علَى ِمثْ ِل ِ ِ ِ ِ
گا اور فروغ کو ان کی اصل کی طرف پلٹا دے گا۔وہ س -قَ ْد َّم ِ
ض ْوء الش ْ َ بِأ َْمتَن َها َف ُه َو م َن الْيَق ِ َ
ِ ِ
ص َدا ِر ُك ِّل ب َن ْف َسه للَّه ُسْب َحانَه يِف أ َْرفَ ِع األ ُُمو ِر -م ْن إِ ْ
تاریکیوں کا چراغ ہے اوراندھیروں کا روشن کرنے
واال۔مبہمات کی کلید ہے تو مشکالت کا دفع کرنے واال صَ نَ َ
ات وا ِر ٍد علَيه وتَصيِ ِري ُك ِّل َفر ٍع إِىَل أَصلِه ِ -مصباح ظُلُم ٍ
اور پھرصحرائوں میں رہنمائی کرنے واال۔وہ بولتا ہے تو َْ ُ َ ْ ْ َ َْ ْ
بات کو سمجھا لیتا ہے اور چپ رہتا ہے تو سالمتی کا
بندوبست کرلیتا ہے ۔اس نے ہللا سے اخالص برتا ہے تو
َّاف
َكش ُ
ت دلِيل َفلَو ٍ ِ ٍ ٍ ٍ ِ
ات اح ُمْب َه َمات َ -دفَّاعُ ُم ْعضاَل َ ُ َ َع َش َوات م ْفتَ ُ
ہللا نے اسے اپنا بندہ مخلص بنا لیا ہے۔اب وہ دین خدا کا
معدن ہے اور زمین خدا کا رکن اعظم۔اس نے اپنے نفس ول َفي ْف ِهم ويس ُكت َفيسلَم -قَ ْد أَخلَ ِ
کے لئے عدل کو الزم قرار دے لیا ہے اور اس کے عدل صه استَ ْخلَ َ ص للَّه فَ ْ ْ َ َي ُق ُ ُ ُ َ ْ ُ َ ْ ُ
کی پہلی منزل یہ ہے کہ خواہشات کو اپنے نفس سے َ -ف ُه َو ِم ْن َم َع ِاد ِن ِدينِه وأ َْوتَ ِاد أ َْر ِضه -قَ ْد أَلَْز َم نَ ْف َسه
دور کردیا ہے اور اب حق ہی کو بیان کرتا ہے اور اسی
ف ِ ِ ِ
پر عمل کرتا ہے نیکی کی کوئی منزل ایسی نہیں ہے الْ َع ْد َل فَ َكا َن أ ََّو َل َع ْدله َن ْف ُي اهْلََوى َع ْن َن ْفسه -يَص ُ
جس کا قصد نہ کرتا ہو اور کوئی ایسا احتمال نہیں ے وي ْع َمل بِه اَل يَ َدعُ لِْلخَرْيِ َغايَةً إِاَّل أ ََّم َها واَل َم ِظنَّةً إِاَّل
جس کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔اپنے امور کی زمام کتاب خدا احْلَ َّق َ ُ
کے حوالہ کردی ہے اور اب وہی اس کی قائد اور پیشوا اب ِم ْن ِز َم ِامهَ /ف ُه َو قَائِ ُده وإِ َم ُامه ِ
ص َد َها قَ ْد أ َْم َك َن الْكتَ َ قَ َ
ہے جہاں اس کا سامان اترتا ہے وہیں وارد ہو جاتا ہے
اور جہاں اس کی منزل ہوتی ہے وہیں پڑائو ڈال دیتا ہے۔ ث َكا َن َمْن ِزلُه. ويْن ِز ُل َحْي ُ
ث َح َّل َث َقلُه َ حَيُ ُّل َحْي ُ
اس کے بر خالف ایک شخص وہ بھی ہے جس نے اپنا
نام عالم رکھ لیا ہے حاالنکہ علم سے کوئی واسطہ نہیں صفات الفساق
س َج َهائِ َل ِم ْن وآخر قَ ْد تَس َّمى َعالِماً ولَْي ِ
س به -فَا ْقتَبَ َ
ہے۔جاہلوں سے جہالت کو حاصل کیا ہے اور گمراہوں
سے گمراہی کو۔لوگوں کے واسطے دھوکہ کے پھندے َ َ َُ
ضاَّل ٍل ِ ِ
يل م ْن ُ
َضال َ ُج َّه ٍال وأ َ
اور مکرو فریب کے جال بچھادئیے ہیں۔کتاب کی تاویل
َّاس أَ ْشَراكاً ِم ْن َحبَائِ ِل غُُرو ٍر و َق ْو ِل ُزو ٍر قَ ْدب لِلن ِ صَ ونَ َ
اپنی رائے کے مطابق کی ہے اور حق کو اپنے خواہشات
کی طرف موڑدیا ہے۔لوگوں کو بڑے بڑے جرائم کی ف احْلَ َّق َعلَى أ َْه َوائِه - وعطَ َ
ِ
اب َعلَى َآرائه َ -
ِ
مَحَ َل الْكتَ َ
طرف سے محفوظ بناتا ہے اور ان کے لئے گناہان کبیرہ
ف يؤ ِمن النَّاس ِمن الْعظَائِ ِم ويه ِّو ُن َكبِري اجْل رائِ ِم -ي ُق ُ ِ
کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔کہتا یہی ہے کہ میں شبہات کے ول أَق ُ َ َ ََ َُ ُْ ُ َ َ َ
مواقع پر توقف کرتا ہوں لیکن واقعا ً انہیں میں گر پڑتا ِ ِ ِ
ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں بدعتوں سے الگ رہتا ہوں
وبْيَن َها
ع َ ول أ َْعتَ ِز ُل الْبِ َد َ
وي ُق ُ
عْن َد الشُُّب َهات وف َيها َوقَ َع َ -
حاالنکہ انہیں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے اس کی صورت ب َحَي َو ٍان - ب َق ْل ُ
الصورةُ ص ِ ٍ
ورةُ إنْ َسان والْ َق ْل ُ
اضطَ َج َع -فَ ُّ َ ُ َ ْ
انسانوں جیسی ہے لیکن دل جانوروں جیسا ہے ۔نہ ہدایت
کے دروازوں کو پہچانتا ہے کہ اس کا اتباع کرے اور نہ
ص َّد َعْنهاب الْ َع َمى َفيَ ُ اب اهْلَُدى َفيَتَّبِ َعه -واَل بَ َ ف بَ َ اَل َي ْع ِر ُ
گمراہی کے راستہ کو جانتا ہے کہ اس سے الگ رہے۔یہ َحيَ ِاء!
ت األ ْك َميِّ ُ
ِ
وذَل َ
در حقیقت ایک چلتی پھرتی میت ہے اور کچھ نہیں ہے۔
تو آخر تم لوگ کدھر جا رہے ہو اور تمہیں کس سمت عترة النبي
موڑا جا رہا ہے ؟ جب کہ نشانات قائم ہیں ۔اورآیات ات ِ (فَأَيْ َن تَ ْذ َهبُو َن) وأَىَّن ُت ْؤفَ ُكو َن واأل ْ
واضح ہیں۔منارے نصب کئے جا چکے ہیں اور تمہیں َعاَل ُم قَائ َمةٌ واآليَ ُ
ِ
بھٹکا یا جا رہا ہے اورتم بھٹکے جا رہے ہو۔دیکھو فصوبَةٌ -فَأَيْ َن يُتَاه بِ ُك ْم و َكْي َ َواض َحةٌ والْ َمنَ ُار َمْن ُ
تمہارے درمیان تمہارے نبی کی عترت موجود ہے۔یہ ِ
سب حق کے زمام دار دین کے پرچم اور صداقت کے وبْينَ ُك ْم عْتَرةُ نَبِيِّ ُك ْم ُ -
وه ْم أَ ِز َّمةُ احْلَ ِّق وأ َْعاَل ُم َت ْع َم ُهو َن َ
ترجمان ہیں۔انہیں قرآن کریم کی بہترین منزل پر جگہ دو آن -الص ْد ِق -فَأَنْ ِزلُوهم بِأَحس ِن منَا ِز ِل الْ ُقر ِ
ْ ُْ ْ َ َ الدِّي ِن وأَلْ ِسنَةُ ِّ
اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے
اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں۔ ود اهْلِي ِم الْعِطَ ِ
اش . و ِر ُد ُ
وه ْم ُو ُر َ
وها َع ْن َخامَتِ النَّبِيِّ َ
لوگو! حضرت خاتم النبیین کے اس ارشاد گرامی پر
عمل کروکہ '' ہمارا مرنے واال میت نہیں ہوتا ہے اور ہم
ني صلىهللاعليهوآلهوسلم أَيُّ َها الن ُ
َّاس ُخ ُذ َ
میںسے کوئی مردو زمانہ سے بوسیدہ نہیں ہوتا ہے'' خبر ويْبلَى َم ْن بَلِ َي ِمنَّا س َيِّت َ -
إِنَّه مَيُوت من مات ِمنَّا ولَي مِب ٍ
ْ َ ُ َْ َ َ
دار وہ نہ کہو جو تم نہیں جانتے ہو۔اس لئے کہ بسا
س بِبَ ٍال -فَاَل َت ُقولُوا مِب َا اَل َت ْع ِرفُو َنولَْي َ
اوقات حق اسی میں ہوتا ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو
واع ِذ ُروا َم ْن اَل ُح َّجةَ لَ ُك ْم يما ُتْن ِكُرو َن ْ -
ِ ِ
فَإ َّن أَ ْكَثَر احْلَ ِّق ف َ
اور جس کے خالف تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اس
کے عذر کوقبول کرلو اور وہ میں ہوں۔کیا میں نے ثقل الث َق ِل األَ ْكرَبِ وأَْتُر ْك فِي ُك ُم وه َو أَنَا -أَمَلْ أ َْع َم ْل فِي ُك ْم بِ ََّعلَْيه ُ
اکبر قرآن پر عمل نہیں کیا ہے اور کیا ثقل اصغر اہلبیت ِ الث َقل األَصغَر -قَ ْد ر َكز ِ
کو تمہارے درمیان نہیں رکھا ہے ۔میں نے تمہارے وو َق ْفتُ ُك ْم ت في ُك ْم َرايَةَ ا ِإلميَان َ - َ ْ ُ َّ َ ْ َ
درمیان ایمان کے پرچم کو نصب کردیا ہے اور تمہیں ود احْلَاَل ِل واحْلََر ِام -وأَلْبَ ْستُ ُك ُم الْ َعافِيَةَ ِم ْن َع ْديِل علَى ح ُد ِ
َ ُ
حالل و حرام کے حدود سے آگاہ کردیا ہے۔اپنے عدل کی
بنا پر تمہیں لباس عافیت پہنایا ہے۔اوراپنے قول و فعل وف ِم ْن َق ْويِل وفِ ْعلِي -وأ ََر ْيتُ ُك ْم -و َفَر ْشتُ ُك ُم الْ َم ْعُر َ
کی نیکیوں کو تمہارے لئے فرش کردیا ہے اورتمہیں
يما اَل الرأْ ِ ِ َكرائِم األ ِ ِ ِ
اپنے بلند ترین اخالق کا منظر دکھال دیا ہے۔لہٰذا خبردار يفَ َخاَل ق م ْن َن ْفسي -فَاَل تَ ْسَت ْعملُوا َّ َ َ َ ْ
جس بات کی گہرائی تک نگاہیں نہیں پہنچ سکتی ہیں اور صُر -واَل َتَتغَْلغَ ُل إِلَْيه الْ ِف َكُر. يُ ْد ِر ُك َق ْعَره الْبَ َ
جہاں تک فکر کی رسائی نہیں ہے اس میں اپنی رائے
کو استعمال نہ کرنا۔ ظن خاطئ
(ابنی امیہ کے مظالم نے اس قدر دہشت زدہ بنادیا ہے
الد ْنيَا َم ْع ُقولَةٌ َعلَى بَيِن أ َُميَّةَ
َن ُّ ومنهاَ :حىَّت يَظُ َّن الظَّ ُّ
ان أ َّ
کہ )
بعض لوگ خیال کر رہے ہیں کہ دنیا بنی امیہ کے دامن ص ْف َو َها -واَل يُْرفَ ُع َع ْن َه ِذه مَتْنَ ُح ُه ْم َد َّر َها وتُو ِر ُد ُه ْم َ
سے باندھ دی گئی ہے۔انہیں کو اپنے فوائد سے فیض
یاب کرے گی اور وہی اس کے چشمہ پر وارد ہوتے ك -بَ ْل ِه َي األ َُّم ِة سوطُها واَل سي ُفها و َك َذب الظَّ ُّ ِ ِ
ان ل َذل َ َ َْ َ َْ َ
رہیں گے اور اب اس امت کے سرے ان کے تازیانے ِ
ش َيتَطَ َّع ُمو َن َها بُْر َهةً -مُثَّ َي ْلفظُو َن َهاجَمَّةٌ ِم ْن لَ ِذيذ الْ َعْي ِ
ِ
اورتلواریں اٹھ نہیں سکتی ہیں۔حاالنکہ یہ خیال بالکل
غلط ہے۔یہ حکومت فقط ایک لذیذ قسم کا آب دہن ہے مُجْلَةً!
جسے تھوڑی دیر چوسیں گے اور پھر خود ہی تھوک
دیں گے۔
()88 ()88
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(جس میں لوگوں کی ہالکت کے اسباب بیان کئے گئے
ہیں) وفيها بيان لألسباب التي تهلك الناس
امابعد!پروردگار نےکسی دورکےظالموں کی کمراسوقت ط إِاَّل َب ْع َد مَتِْه ٍيل ص ْم َجبَّا ِري َد ْه ٍر قَ ُّ أ ََّما بع ُد فَِإ َّن اللَّه مَل ي ْق ِ
تک نہیں توڑی ہےجب تک انہیں مہلت اورڈھیل نہیں َْ َْ
َح ٍد ِم َن األ َُم ِم إِاَّل َب ْع َد أ َْز ٍل ٍ
دےدی ہے اورکسی قوم کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کواس وقت ور َخاء -ومَلْ جَيُْب ْر َعظْ َم أ َ َ
ٍ ِ ِ ٍ
وبَاَل ء -ويِف ُدون َما ْ
تک جوڑا نہیں ہے جب تک اسےمصیبتوں اوربالئوں
میں مبتال نہیں کیا ہےاپنے لئےجن مصیبتوں کاتم استَ ْد َب ْرمُتْ
وما ْ اسَت ْقَب ْلتُ ْم م ْن َعْتب َ
نےسامناکیاہے اورجن حادثات سےتم گزرچکے ہوانہیں يب واَل ُك ُّل ِذي ب بِلَبِ ٍ وما ُك ُّل ِذي َقْل ٍ ب ُم ْعتََبٌر َ - ِم ْن َخطْ ٍ
میں سامان عبرت موجود ہےمگر مشکل یہ ہےکہ ہردل ِ ِ ِ ِ ِ
واالعقل مند نہیں ہوتا ہےاور ہرکان واالسمیع یا ہرآنکھ وما يِل َ اَل مَسْ ٍع ب َسمي ٍع -واَل ُك ُّل نَاظ ٍر ببَص ٍري َ -فيَا َع َجباً َ
واالبصیرنہیں ہوتا ہےکس قدر حیرت انگیز بات ف ُح َج ِج َها يِف أَعجب ِمن خطَِإ ه ِذه الْ ِفر ِق -علَى اختِاَل ِ
َ ْ َْ ُ ْ َ َ
ہےاورمیں کس طرح تعجب نہ کروں کہ یہ تمام فرقے َ
اپنےاپنے دین کے بارے میں مختلف دالئل رکھنےکے صو َن أَثََر نَيِب ٍّ واَل َي ْقتَ ُدو َن بِ َع َم ِل َو ِص ٍّي - ِدينِ َها -اَل َي ْقتَ ُّ
باوجود سب غلطی پر ہیں کہ نہ نبی (ص) کے نقش قدم ب َ -ي ْع َملُو َن يِف ب واَل يَعِفُّو َن َع ْن َعْي ٍ واَل يُ ْؤ ِمنُو َن بِغَْي ٍ
پرچلتے ہیں اورنہ انکےاعمال کی پیروی کرتےہیں۔نہ
غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ عیب سے پرہیز کرتے وف فِي ِه ْم َما ات -الْ َم ْعُر ُ ات وي ِسريو َن يِف الشَّهو ِ
ََ َ ُ
الشُّبه ِ
َُ
ہیں۔شبہات پرعمل کرتے ہیں اور خواہشات کے راستوں
َعرفُوا والْ ُمْن َكر ِعْن َد ُه ْم َما أَنْ َكروا َ -م ْفَزعُ ُه ْم يِف
پر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ان کے نزدیک معروف وہی ُ ُ َ
ہےجس کو یہ نیکی سمجھیں اورمنکروہی ہے جس کایہ ات َعلَى ت إِىَل أَْن ُف ِس ِهم -وَتع ِويلُهم يِف الْم ِه َّم ِ ضاَل ِ الْمع ِ
انکار کردیں۔مشکالت میں ان کا مرجع خود ان کی ذات ُ ْ ُْ ْ ُْ
ِ ِ َآرائِ ِه ْم َ -كأ َّ
ہے اورمبہم مسائل میں ان کا اعتمادصرف اپنی رائے َخ َذَن ُك َّل ْام ِر ٍئ مْن ُه ْم إِ َم ُام َن ْفسه -قَ ْد أ َ
پرہےگویا کہ ان میں ہر شخص اپنے نفس کاامام ہے۔اور ات. اب حُمْ َكم ٍ َسب ٍ ِ ِ ٍ ِ ِ
اپنی ہر رائے کو مستحکم وسائل اور مضبوط دالئل کا َ يما َيَرى بعًُرى ث َقات وأ ْ َ مْن َها ف َ
نتیجہ سمجھتا ہے۔
()89 ()89
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(رسول اکرم (ص) اور تبلیغ امام کے بارے میں)
في الرسول األعظم صلىهللاعليهوآلهوسلم وبالغ اإلمام
ہللا نے انہیں اس دور میں بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ
موقوف تھا اور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں۔ عنه
فتنے سر اٹھائے ہوئے تھے اور جملہ امور میں ایک
انتشار کی کیفیت تھی اور جنگ کے شعلے بھڑک رہے ول َه ْج َع ٍة ِم َن الرس ِل -وطُ ِ ِ
ني َفْتَر ٍة م َن ُّ ُ أ َْر َسلَه َعلَى ِح ِ
تھے۔دنیا کی روشنی کجالئی ہوئی تھی اور اس کا فریب األ َُم ِم،
واضح تھا۔باغ زندگی کے پتے زرد ہوگئے تھے اور
ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہوچلی تھی۔پانی بھی تہ ظ ِم َن واعتَِز ٍام ِم َن الْ ِفنَت ِ -وانْتِ َشا ٍر ِم َن األ ُُمو ِر وَتلَ ٌّ
ْ
نشین ہو چکا تھا اور ہدایت کے منارے بھی مٹ گئے اس َفةُ النُّو ِر ظَاهرةُ الْغُرو ِر َ -علَى ِح ِ ِ والد ْنيا َك ِ ِ
تھے اور ہالکت کے ناشنات بھی نمایاں تھے۔یہ دنیا اپنے
ني َ ُ احْلُُروب ُّ َ
اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور اپنے طلب اس ِم ْن مَثَِر َها وا ْغ ِو َرا ٍر ِم ْن َمائِ َها اص ِفَرا ٍر ِم ْن َو َرقِ َها -وإِيَ ٍ ْ
گاروں کے سامنے منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی۔اس کا
ثمرہ فتنہ تھا اور اس کی غذا مردار۔اس کا اندرونی لباس الر َدى -فَ ِه َي ت أ َْعاَل ُم َّ ت َمنَ ُار اهْلَُدى وظَ َهَر ْ -قَ ْد َد َر َس ْ
خوف تھا اوربیرونی لباس تلوار۔لہٰ ذا بندگان خداتم عبرت
حاصل کرو اور ان حاالت کو یاد کرو جن میں تمہارے
ُمتَ َج ِّه َمةٌ أل َْهلِ َها َعابِ َسةٌ يِف َو ْجه طَالِبِ َها مَثَُر َها الْ ِفْتنَةُ
ف .- ف ِ وطَعامها اجْلِي َفةُ ِ
باپ دادا اوربھائی بندہ گرفتار ہیں اور ان کا حساب دے السْي ُ ودثَ ُار َها َّ وش َع ُار َها اخْلَْو ُ َ َُ
رہے ہیں۔
يك الَّيِت آبَا ُؤ ُك ْم وإِ ْخ َوانُ ُك ْم ِ ِ
اعتَرِب ُوا عبَ َاد اللَّه -وا ْذ ُكُروا ت َ فَ ْ
میری جان کی قسم! ابھی ان کے اور تمہارے درمیان
هِب
زیادہ زمانہ نہیں گزرا ہے اور نہ صدیوں کا فاصلہ ہوا تاسبُو َن -ولَ َع ْم ِري َما َت َق َاد َم ْ وعلَْي َها حُمَ َ
َا ُم ْر َت َهنُو َن َ
ہے اور نہ آج کا دن کل کے دن سے زیادہ دور ہے جب بِ ُكم واَل هِبِم الْعهود -واَل خلَ ِ
تم انہیں بزرگوں کے صلب میں تھے۔ وبْيَن ُه ُم يما َبْينَ ُك ْم َ تفَ َ ْ ُ ُُ ُ ْ
خدا کی قسم رسول اکرم (ص) نے تمہیں کوئی ایسی بات ِ
وما أَْنتُم الَْي ْو َم م ْن َي ْو َم ُكْنتُ ْم يِف
نہیں سنائی ہے جسے آج میں نہیں سنا رہا ہوں اب والْ ُقُرو ُن ُ َ - َح َق ُ األ ْ
ول َشْيئاً -إِاَّل الر ُس ُيد .-واللَّه َما أَمْسَ َع ُك ُم َّ أَصاَل هِبِم بِبعِ ٍ
ْ ْ َ
ِ
وها أَنَا َذا ُم ْسمعُ ُك ُموه - َ
اور تمہارے کان بھی کل کے کان سے کم نہیں ہیں اور
َّت ون أَمْس ِ
اع ُك ْم بِاأل َْم ِ وما أَمْس اع ُكم الْيوم بِ ُد ِ
جس طرح کل انہوں نے لوگوں کی آنکھیں کھول دی س -واَل ُشق ْ َ َ َ ُ ُ َْ َ
ِ
تھیں اور دل بنادئیے تھے ویسے ہی آج میں بھی تمہیں ان - الزم ِ
ك َّ َ ت هَلُ ُم األَفْئِ َدةُ يِف ذَل َ ِ
ص ُار -واَل ُجعلَ ْ هَلُ ُم األَبْ َ
وہ ساری چیزیں دے رہا ہوں اور خدا گواہ ہے کہ تمہیں
وو اللَّه َما بُ ِّ
ص ْرمُتْ إِاَّل وقَ ْد أ ُْع ِطيتُم ِم ْثلَها يِف ه َذا َّ ِ
کوئی ایسی چیز نہیں دکھالئی جا رہی ہے جس سے الز َمان َ - ْ َ َ
تمہارے بزرگ نا واقف تھے اور نہ کوئی ایسی خاص وح ِر ُموه -ولََق ْد ب ْع َد ُهم َشْيئاً ج ِهلُوه -واَل أ ْ ِ ِ
بات بتائی جا رہی ہے جس سے وہ محروم رہے ہوں۔اور ُصفيتُ ْم به ُ َ َ ْ
دیکھو تم پر ایک مصیبت نازل ہوگئی ہے اس اونٹنی کے ت بِ ُك ُم الْبَلِيَّةُ َجائِاًل ِخطَ ُام َها ِر ْخواً بِطَانُ َها فَاَل
َنَزلَ ْ
ِ
َصبَ َح فيه أ َْه ُل الْغُُرو ِر -فَِإمَّنَا ُه َو ِظلٌّ مَمْ ُد ٌ
مانند جس کی نکیل جھول رہی ہو اور جس کا تنگ
ڈھیالہوگیا ہولہٰ ذا خبردار تمہیں پچھلے فریب خوردہ
ود َيغَُّرنَّ ُك ْم َما أ ْ
لوگوں کی زندگی دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ یہ عیش دنیا إِىَل أَج ٍل مع ُد ٍ
ود. َ َْ
ایک پھیال ہوا سایہ ہے جس کی مدت معین ہے اور پھر
سمٹ جائے گا۔ ()90
()90
عليهالسالم ومن خطبة له
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
وتشتمل على قدم الخالق وعظم مخلوقاته ،ويختمها
(جس میں معبود کے قدم اور اس کی مخلوقات کی
عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے موعظہ پر اختتام کیا گیا بالوعظ
ہے)
ساری تعریف اس ہللا کے لئے ہے جوبغیر دیکھے وف ِم ْن َغرْيِ ُر ْؤيٍَة واخْلَالِ ِق ِم ْن َغرْيِ َر ِويٍَّة
احْل م ُد لِلَّه الْمعر ِ
َ ُْ َْ
ِ ِ ِ
معروف ہے اور بغیر سوچے پیدا کرنے واال ہے۔وہ
تہمیشہ سے قائم اوردائم ہے جب نہ یہ برجوں والےآسمان
اج -واَل .الَّذي مَلْ َيَز ْل قَائماً َدائماً إِ ْذ اَل مَسَاءٌ َذ ُ
ات أ َْبَر ٍ
ھ ے اورنہ بلند دروازوں والے حجابات ۔نہ اندھیری اج واَل َجبَ ٌل اج واَل حَبٌْر َس ٍ اج واَل لَْي ٌل َد ٍ ات إِْرتَ ٍ
ب َذ ُ ُح ُج ٌ
رات تھی اور نہ ٹھہرے ہوئے سمندر۔نہ لمبے چوڑے ات ِم َه ٍادض َذ ُ اج -واَل أ َْر ٌ اج واَل فَ ٌّج ذُو ْاع ِو َج ٍ ذُو فِ َج ٍ
راستوں والے پہاڑ تھے اورنہ ٹیڑھی ترچھی پہاڑی
ِ ٍ ِ
راہیں۔نہ بچھے ہوئے فرش والی زمین تھی اور نہ کس ك ُمْبتَدعُ واَل َخ ْل ٌق ذُو ْاعتِ َماد َذل َ
بل والی مخلوقات ۔وہی مخلوقات کا ایجاد کرنے واال ہے
اور وہی آخرمیں سب کا وارث ہے۔وہی سب کا معبود ہے
اخْلَْل ِق ِ ِ
اور سب کا رازق ہے۔شمس وقمراسی کی مرضی سے س والْ َق َمُرَّم ُ ورا ِزقُه -والش ْ ِ
ووارثُه وإلَه اخْلَْلق َ َ
ٍ
ان ُك َّل بَعِيد. ٍ ِ
ان ُك َّل جديد وي َقِّرب ِ ِ
ضاتِه -يبلي ِ دائِب ِ
ان يِف َم ْر َ
مسلسل حرکت میں ہیں کہ ہر نئے کو پرانا کردیتے ہیں
اور ہر بعید کو قریب تر بنا دیتے ہیں۔ ُ َ َ ُْ َ ََ
اس نے سب کے رزق کو تقسیم کیا ہے اور سب کے آثار وع َد َد أَْن ُف ِس ِه ْم
صى آثَ َار ُه ْم وأ َْع َماهَلُ ْم َ - َح َ
قَ َس َم أ َْر َزا َق ُه ْم وأ ْ
و اعمال کا احصاء کیا ہے۔اسی نے ہر ایک کی سانسوں وخائِنَةَ أ َْعينِ ِهم وما خُتْ ِفي ص ُدورهم ِمن الض ِ
َّم ِري -
کا شمار کیا ہے اور ہر ایک کی نگاہ کی خیانت اورسینہ ُ ُُْ َ ُ ْ َ َ
ِ
وم ْسَت ْو َد َع ُه ْم م َن األ َْر َح ِام والظُّ ُهو ِر -إِىَل أَ ْن
کے چھپے ہوئے اسرار اور اصالب وارحام میں ان کے
مراکز کا حساب رکھا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی آخری
وم ْسَت َقَّر ُه ْم ُ ُ
ات. هِبِ
منزل تک پہنچ جائیں۔دہی دہ ہے جس کا غضب دشمنوں اهى ُم الْغَايَ ُ َتَتنَ َ
َّت نِْق َمتُه َعلَى أ َْع َدائِه يِف َس َع ِة َرمْح َتِه - ِ
ُه َو الَّذي ا ْشتَد ْ
پر اس کی وسعت رحمت کے باوجود شدید ہے اور اس
کی رحمت اس کے دوستوں کے لئے اس کے شدت
َّة نِْقمتِه -قَ ِ ِِ ِ ِ
غضب کے باوجود وسیع ہے۔جو اس پر غلبہ پیدا کرنا اهُر َم ْن َعازَّه ت َرمْح َتُه أل َْوليَائه يِف شد َ َّس َع ْوات َ
چاہے اس کے حق میں قاہر ہے اور جو کوئی اس سے
ب َم ْن َع َاداه َم ْن ِ وم َد ِّمر َم ْن َشاقَّه ُ ِ ُّ
جھگڑا کرنا چاہیے اس کے حق میں تباہ کرنے واال ہے۔ ومذل َم ْن نَ َاواه و َغال ُ ُ ُ
ہر مخالفت کرنے والے کا ذلیل کرنے واال اور ہر دشمنی َت َو َّك َل َعلَْيه َك َفاه
کرنے والے پر غالب آنے واال ہے ۔جواس پر توکل کرتا
ف ت کافی نہو نجاتا ہے ئ خ
ن ش ہے()1اس نکے لئے ئ
( 1ئ) وں ت و روردگار کی کسی صف ت اور اس کے کسی کمال م ں اس کا کو ی مث ل و ن ظ ر ا ر ک و وز ر ہ ں ے ل
ے صوصی ت کے سا ھ چ ار ص ات ل کے دگی ز ی اس ا کن ی ی ی ہ یی ی ی پ نت ی
ن ن بن ن ت ئ ف ں :ن ا ہا ی انہ م ہ ی ت
ت ب
ن
ن
ے۔ ے دی ت ا ہ دوسروں کا دست گر حہیق قں نے اور تاف ہی ں ق ئ ن ے کا ی ہ و ج ا ا ہ کے ل
ے اوپر اع مادنکرے والوں ت 1۔وہ اپ
ے۔ے کہ سوال ہ کرے خوالوں تکو ھی ع طا کر ا ہ ے ب لکہ ق ی ت ی ہ ہ ل ہی ں ہ ق کا ائ ئ ے اور کنسی طرح کی یر ہق ا کر طا
ن ع کو لے ا و ے کر سوال ق ر ہ 2۔وہ
ے۔ ہ راہ می ں رچ کر ا ت اسی کی ےن اور ن
ہ خ رض دی ت ا
ن
تمی ں سے ئ ے ضہ وے مال کے فد ی
ن ے واال اسی ی ے حاال نکہ ہ ر رض ہ د ہ 3۔وہ ہش ر رض ہ کوادانکر دی ت ا
ے کہ انشلوگوں کوب ھی اس ب ات ے ہ ی ں۔ی ہ اورشب ات نہ ے ہ ی ں اور کو ی ی ا کار ی ر ا ج ام ہی ں دی ت ے ری ہ کوادا کر ن ن ے جہ ب کہ وہ اپ ھی ا عام دی ت ا ہ 4خ۔وہ کرین نہ ادا کرے والوں کوب ش
ے
ہ کا ات ب اس ہ یکر ےہ ں یہ ہ یکر ے۔ ی ہ ن وہ کی کرم کے اس ہ ی کہ '' ے
ن ا
عت یہ د ں یہ کو ''دوسروں اور ے ص یہ ا د ں یم کہ ں یرک ادا ہ ے کہ اس ب ات کا ی
کر کا ی ال رکھ ا چ اہ ی
ے۔ وازا سے وں م دوسری ق طا کے حت ل م ھی بکو دوسروں ہ ے۔اگر دی عمت کہ ہ می ں ی ہ
ہ م ب چ ہ
اور جو اس سے سوال کرتا ہے اسے عطا کر دیتا ہے۔
جو اسے قرض دیتا ہے اسے ادا کر دیتا ہے اور جواس
وم ْن َش َكَره َجَزاه. ضاه َ ضه قَ َ وم ْن َسأَلَه أ َْعطَاه َ -
وم ْن أَْقَر َ َ
ِ ِ ِ
کا شکریہ ادا کرتا ہے اس کو جزا دیتا ہے۔ وها
وحاسبُ َ وزنُوا َ - عبَ َاد اللَّه ِزنُوا أَْن ُف َس ُك ْم م ْن َقْب ِل أَ ْن تُ َ
بندگان خدا!اپنے آپ کو تول لو قبل اس کے کہ تمہارا ِ ِ ِ ِ
وزن کیا جائے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرلو قبل اس َّسوا َقْب َل ض ِيق اخْل نَاق وا ْن َق ُ
ادوا اسبُوا -و َتَنف ُ م ْن َقْب ِل أَ ْن حُتَ َ
کے کہ تمہارا حساب کیا جائے ۔گلے کا پھندہ تنگ ہونے واعلَ ُموا أَنَّه َم ْن مَلْ يُ َع ْن َعلَى َن ْف ِسه -اق ْ السي ِ ِ
َقْب َل عُْنف ِّ َ
سے پہلے سانس لے لو اور زبر دستی لے جائے جانے
سے پہلے از خود جانے کے لئے تیار ہو جائو اور یاد وز ِاجٌر -مَلْ يَ ُك ْن لَه ِم ْن َغرْيِ َها ظ َ
حىَّت ي ُكو َن لَه ِمْنها و ِ
اع ٌ َ َ َ َ
رکھو کہ جوشخص خود اپنے نفس کی مدد کرکے اسے
نصیحت اورتنبیہ نہیں کرتا ہے اس کو کوئی دوسرا نہ
ظ. اَل َز ِاجٌر واَل َواع ٌ
ِ
نصیحت کرسکتا ہے اورنہ تنبیہ کر سکتا ہے۔ ()91
()91
عليهالسالم ومن خطبة له
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
(اس خطبہ کو خطبہ اشباح 2کہا جاتا ہے جسے آپ کے
تعرف بخطبة األشباح وهي من جالئل خطبه
جلیل ترین خطبات میں شمار کیا گیا ہے ) عليهالسالم2
مسعدہ بن صدقہ نے امام جعفر صادق سے روایت کی الص ِاد ِق َج ْع َف ِر بْ ِن حُمَ َّم ٍد
ص َدقَةَ َع ِن َّ
َر َوى َم ْس َع َدةُ بْ ُن َ
ہے کہ امیر المومنین نے یہ خطبہ منبر کوفہ سے اس
وقت ارشاد فرمایا تھا جب ایک شخص نے آپ سے یہ ني هِبَ ِذه اخْلُطْبَ ِة ِِ عليهالسالم أَنَّه قَ َال :خطَ ِ
ب أَمريُ الْ ُم ْؤمن َ َ َ
َن َر ُجاًل أَتَاه َف َق َال لَه يَا أ َِم َري ِ
َعلَى ِمْنرَبِ الْ ُكوفَ ِة -وذَل َ
ك أ َّ
تقضا کیا کہ پروردگار کے اوصاف اس طرح بیان کریں
کہ گویا وہ ہماری نگاہ کے سامنے ہے تاکہ ہماری
معرفت اور محبت ٰالہی میں اضافہ ہو جائے۔ ف لَنَا َربَّنَا ِمثْ َل َما نََراه ِعيَاناً -لَِنْز َد َاد لَه ني ِ -ص ْ ِِ
الْ ُم ْؤمن َ
آپ کو اس بات پر غصہ آگیا اور آپ نے نماز جماعت کا
اعالن فرمادیا
ب ونَ َادى الصَّاَل ةَ َج ِام َعةً - ِ
ُحبّاً وبِه َم ْع ِرفَةً َ -فغَض َ
صعِ َد الْ ِمْنَبَر ِ ِ
ص الْ َم ْسج ُد بِأ َْهله -فَ َ
۔مسجد مسلمانوں سے چھلک اٹھی تو آپ منبر پرتشریف
لے گئے اور اس عالم میں خطبہ ارشاد فرمایا کہ آپ کے
َّاس َحىَّت َغ َّ
اجتَ َم َع الن ُفَ ْ
وصلَّى ِ ِ
چہرہ کا رنگ بدال ہواتھا اور غیظ و غضب کے ب ُمَتغَِّيُر اللَّ ْون -فَ َحم َد اللَّه وأَْثىَن َعلَْيه َ ض ٌ/
وه َو ُم ْغ َ
ُ
آثارنمودار تھے۔حمدو ثنائے ٰالہی اورصلوات و سالم کے
بعد ارشاد فرمایا:۔
َعلَى النَّيِب ِّ صلىهللاعليهوآلهوسلمثُ َّم قَ َال:
ساری تعریف اس پروردگار کے لئے ہے جس کے وصف اللَّه تعالى
خزانہ میں فضل و کرم کے روک دینے اور عطائوں کے
ْديهاحْل م ُد لِلَّه الَّ ِذي اَل ي ِفره الْمْنع واجْل مود واَل يك ِ
منجمد کر دینے سے اضافہ نہیں ہوتا ہے اور جودو کرم ُ َ ُ َ ُ ُُ ُ َْ
کے تسلسل سے کمی نہیں آتی ہے۔اس لئے کہ اس کے
ص ِس َواه و ُك ُّل َمانِ ٍع ٍ ِ
عالوہ ہر عطا کرنے والے کے یہاں کمی ہو جاتی ہے ود -إِ ْذ ُك ُّل ُم ْع /ط ُمْنتَق ٌ ا ِإل ْعطَاءُ واجْلُ ُ
اور اس کے ماسواہر نہ دینے واال قابل مذمت ہوتا ہے۔وہ م ْذموم ما خاَل ه -وهو الْمنَّا ُن بَِفوائِ ِد النِّع ِم وعوائِ ِد الْم ِز ِ
يد
مفید ترین نعمتوں اور مسلسل روزیوں کے ذریعہ احسان
َ َ ََ َ َُ َ َ ُ ٌَ َ
َّر أَْق َواَت ُه ْم - والْ ِقس ِم ِ -عيالُه اخْلَاَل ئِق َ ِ
کرنے واال ہے۔مخلوقات اس کی ذمہداری می ہیں اور ضم َن أ َْر َزا َق ُه ْم وقَد َ ُ َ َ
س مِب َا ِ ونَهج سبِيل َّ ِ
ني إِلَْيه والطَّالبِ َ الراغبِ َ
اس نے سب کے رزق کی ضمانت دی ہے اور روزی
معین کردی ہے۔اپنی طرف توجہ کرنے والوں اور اپنے ني َما لَ َديْه -ولَْي َ ََ َ َ
ِ
َج َو َد ِمْنه مِب َا مَلْ يُ ْسأ َْل -األ ََّو ُل الَّذي مَلْ يَ ُك ْن لَه َقْب ٌل ِ
عطا یا کے سائلوں کے لئے راستہ کھول دیا ہے اور ُسئ َل بِأ ْ
مانگ نے والوں کو نہ مانگ نے والوں سے زیادہ عطا
س له َب ْع ٌد َفيَ ُكو َن ِ َّ ِ
نہیں کرتا ہے۔وہ ایسا اول ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں َفيَ ُكو َن َش ْيءٌ َقْبلَه -واآلخُر الذي لَْي َ
صا ِر َع ْن أَ ْن َتنَالَه أ َْو َشيء بع َده ِ ِ َّ -
ہے کہ اس سے پہلے کوئی ہو جائے اور ایسا آخر ہے
جس کی کوئی انتہا نہیں ہے کہ اس کے بعد کوئی رہ
والرادعُ أَنَاس َّي األَبْ َ ْ ٌ َْ
ف ِمْنه احْلَ ُ ِ
جائے۔وہ آنکھوں کی بینائی کو اپنی ذات تک پہنچنے اور ال -واَل ف َعلَْيه َد ْهٌر َفيَ ْختَل َ اخَتلَ َتُ ْد ِر َكه َما ْ
اس کا ادراک کرنے سے روکے ہوئے ہے۔اس پر زمانہ تَّس ْب َما َتَنف َ ال ولَ ْو َو َه َ وز َعلَْيه ااِل نْتِ َق ُان َفيَ ُج ََكا َن يِف م َك ٍ
َ
کے معدن اپنی سانسوں سے باہرنکالتے ہیں یا جنہیں
ِ ِ ِ ِ
سمندرکے صدف مسکرا کرباہر پھینک دیتے ہیں چاہے اف الْبِ َحا ِر م ْن َص َد ُ ت َعْنه أ ْ وضح َك ْ َعْنه َم َعاد ُن اجْل بَ ِال َ -
وہ چاندی ہو یا سونا۔موتی ہوں یا مرجان توبھی اس کے
ان َما يد الْمرج ِ ِ ِ ان ونُثَ َار ِة الد ِّفِلِِّز اللُّج ِ والْعِ ْقي ِ
کرم پر کوئی اثرنہ پڑے گا۔ وحص َ ْ َ ُّر َ َ َ نْي
أَثَّر َذلِك يِف جودهِ
َ َ ُ
اور نہ اس کے خزانوں کی وسعت میں کوئی کمی آسکتی
واَل أَْن َف َد َس َعةَ َما ِعْن َده -ولَ َكا َن ِعْن َده ِم ْن َذ َخائِِر األَْن َعامِم َا
ہے ۔اوراس کے پاس نعمتوں کے وہ خزانے رہ جائی
ِ ِ ِ ِ
گے جنہیں مانگ نے والوں کے مطالبات ختم نہیں کر يضهب األَنَ ِام -ألَنَّه اجْلََو ُاد الَّذي اَل يَغ ُ اَل ُتْنف ُده َمطَال ُ
سکتے ہیں۔اس لئے کہ وہ ایسا جواد و کریم ہے کہ نہ ِ سؤ ُال َّ ِِ
ني.
اح الْ ُمل ِّح َ ِ ِ
سائلوں کا سوال اس کے یہاں کمی پیدا کر سکتا ہے اور ني -واَل يُْبخلُه إحْلَ ُ السائل َ َُ
نہ مفلسوں کا اصرار اسے بخیل بنا سکتا ہے۔ صفاته تعالى في القرآن
قرآن مجید میں صفات پروردگار
صفات خدا کے بارے میں سوال کرنے والو! قرآن مجید ك الْ ُق ْرآ ُن َعلَْيه ِم ْن ِص َفتِه فَا ْئتَ َّم السائِ ُل -فَ َما َدلَّ َ
فَانْظُْر أَيُّ َها َّ
نے جن صفات)(1کی نشان دہی کی ہے انہیں کا اتباع ك الشَّْيطَا ُن ِع ْل َمه -مِم َّا ِ ِ ِ ِ
واستَض ْئ بنُو ِر ه َدايَته َ
وما َكلََّف َ بِه ْ
کرو۔اوراسی کے نور ہدایت کے سے روشنی حاصل
ِ لَْيس يِف الْ ِكتَ ِ
کرو اور جس علم کی طرف شیطان متوجہ کرے اور اس ضه -واَل يِف ُسنَّة النَّيِب ِّ ك َفْر ُ اب َعلَْي َ َ
کا کوئی فریضہ نہ کتاب ٰالہی میں موجود ہو اور نہ سنت صلىهللاعليهوآلهوسلم وأَئِ َّم ِة اهْلَُدى أََثره -فَ ِكل ِع ْلمه إىَلِ
پیغمبر (ص) اور ارشادات ائمہ ٰ
ہدی میں تو اس کا علم ْ َ ُ
ِ
پروردگار کے حوالے کردو کہ۔یہی اس کے حق کی واعلَ ْم
كْ - ك ُمْنَت َهى َح ِّق اللَّه َعلَْي َ اللَّه ُسْب َحانَه -فَِإ َّن َذل َ
آخری حد ہے اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی َّ ِ
افراد ہیں جنہیں غیب ٰالہی کے سامنے پڑے ہوئے پردوں اه ْم َ -ع ِن اقْتِ َح ِام ين أَ ْغنَ ُ
الر ِاس ِخ يِف ِ
ني الْع ْل ِم ُه ُم الذ َ َ َن َّ أ َّ
وب -ا ِإل ْقَر ُار جِب ُ ْملَ ِة َما َج ِهلُوا ضروب ِة ُدو َن الْغُي ِ ُّ ِ
الس َدد الْ َم ْ ُ َ
کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز
بنادیا ہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ُ
وب فَ َم َد َح اللَّه َت َعاىَل ْاعرِت َا َف ُه ْم ب الْم ْحج ِ ِ ِ
ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی َت ْفس َريه م َن الْغَْي ِ َ ُ
ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیں کر سکتا اس بِالْ َع ْج ِز -
کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور
ن
اسی
ن ق ن
!
ئ ج ن ف
ماء اع ف
الم کا ل ے ج فیسا کہ ب عض ع
ہے ہ ین ں ان فکے عالوہ دیگراسئماءنو ص ف ات کا اطالق ہی شں ہ وسکت اض ے ص ات ب ی ان غکرد ی ے کہ نرآن جم ی د ے تلب ی ہ ہیت قںفہ ()1اس کا م ط
ج
ے کہ ن ص ات م ط ص ک ب خ قال ے۔کہن ن
اسماءف الہی ہ و ی ہ ہ ی ں اور صوص آی ئ ن
ے۔ب لکہ اس ار اد کا وا ح سا ہوم ی ہ ہ ت کاہ ا الق ج ا ز ہین ں ہ ات و روای ات کے ی ر سی ام ی ا ی ہ
ے کسی زب ان اور کسی ل جہ ہ ی می ں یک وں ہ ہ و۔ ے چ اہے ان کا اطالق ج ا ز ہی ں ہ
کی رآن کری م ے ی کردی ہ
ِ ِ ِ
َع ْن َتنَ ُاول َما مَلْ حُي يطُوا بِه ع ْلماً -ومَسَّى َتْر َك ُه ُم الت َ
صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات َّع ُّم َق -
کی تحقیق ان کے ذمہ نہیں ہے اس کی گہرائیوں میں
ث َع ْن ُكْن ِهه ُر ُسوخاً ِ
جانے کاخیال نہیں رکھتے ہیں۔ يما مَلْ يُ َكلِّ ْف ُه ُم الْبَ ْح َفَ
تم بھی اسی بات پراکتفا کرو اور اپنی عقل کے مطابق ِ فَا ْقتَ ِ
عظمت ٰالہی کا اندازہ نہ کرو کہ ہالک ہونے والوں میں ك -واَل ُت َقد ِّْر َعظَ َمةَ اللَّه ُسْب َحانَه َعلَى ص ْر َعلَى َذل َ
شمار ہو جائو۔ دیکھو و ایسا قادر ہے کہ جب فکریں اس ني ُه َو الْ َق ِاد ُر الَّ ِذي إِ َذا ِ ِِ
ك َ -فتَ ُكو َن م َن اهْلَالك َ
ِ
قَ ْد ِر َع ْقل َ
کی قدرت کی انتہا معلوم کرنے کے لئے آگے بڑھتی ہیں
اور ہر طرح کے وسوسہ سے پاکیزہ خیال اس کی وح َاو َل الْ ِفكُْر ِ ِ
ْارمَتَت األ َْو َه ُام لتُ ْد ِر َك ُمْن َقطَ َع قُ ْد َرته َ -
ِ
سلطنت کے پوشیدہ اسرار کو اپنی زد میں النا چاہتا ہے ات الْوسا ِو ِس -أَ ْن ي َقع علَيه يِف ع ِمي َق ِ ِ ِ
اور دل والہانہ طور پر اس کے صفات کی کیفیت معلوم
ات َ َ َْ َ الْ ُمَبَّرأُ م ْن َخطََر َ َ
کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اورعقل کی راہیں اس ي يِف َكْي ِفيَّ ِة ت الْ ُقلُ ِ ِ
وب إلَْيه لتَ ْج ِر َ
ُ
وب ملَ ُكوتِه -وَتوهَّل ِ
ََ ِ
غُيُ َ
کی ذات کاعلم حاصل کرنے کے لئے صفات کی رسائی ِ ِ
سے آگے بڑھنا چاہتی ہیں تو وہ انہیں اس عالم میں ث اَل َتْبلُغُه ول يِف َحْي ُ اخل الْع ُق ِ
ت َم َد ُ ُ ضْ ِص َفاته -و َغ َم َ
ِ ِ ِ ِ ِ
يوب َم َها ِو َ ات -لَتنَ ُاول ع ْل ِم َذاته َر َد َع َها وه َي جَتُ ُ الص َف ُ
مایوس واپس کردیتا ہے کہ وہ عالم غیب کی گہرائیوں ِّ
کی راہیں طے کر رہی ہوتی ہیں اورمکمل طور پر اس
ت إِ ْذ ُجبِ َه ْ صةً إِلَْيه ُسْب َحانَه َفَر َج َع ْ ِ
کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں عقلیں اس ت ُس َدف ِ الْغُيُوب ُمتَ َخلِّ َ
اعتراف کے ساتھ پلٹ آتی ہیں کہ غلط فکروں سے اس
اف ُكْنه َم ْع ِرفَتِه -واَل ال جِب و ِر ااِل عتِس ِ ِ ِ
کی معرفت کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوسکتا ہے اور ُمعْرَت فَةً -بأَنَّه اَل يُنَ ُ َ ْ ْ َ
صاحبان فکر کے دلوں میں اس کے جالل و عزت کا اطَرةٌ ِم ْن َت ْق ِدي ِر َجاَل ِل ِعَّزتِه ات خ ِ
َ
الر ِويَّ ِ
خَت ْطُُر بِبَ ِال أُويِل َّ
ایک کرشمہ بھی خطور نہیں کر سکتا ہے۔اس نے ِ
مخلوقات کو بغیر کسی نمونہ کو نگاہ میں رکھے ہوئے ع اخْلَْل َق َعلَى َغرْيِ ِمثَ ٍال ْامتََثلَه واَل ِم ْق َدا ٍر الَّذي ْابتَ َد َ
ایجاد کیا ہے اور کسی ماسبق کے خالق و معبود کے ود َكا َن َقْبلَه -وأ ََرانَا ِم ْن احت َذى علَيه ِمن خالِ ٍق معب ٍ
نقشہ کے بغیر پیدا کیا ہے۔اس نے اپنی قدرت کے ْ َ َ ْ ْ َ َ ُْ
ْمتِه - ِ ب ما نَطََق ْ ِ ِ ِ ِ
اختیارات ' اپنی حکمت کے منہ بولتے آثار اورمخلوقات ت به آثَ ُار حك َ وع َجائ ِ َ َملَ ُكوت قُ ْد َرته َ -
کے اج ِة ِم َن اخْلَْل ِق رِت ِ
واع َاف احْلَ َ ْ
اض ِطَرا ِر قِيَ ِام احْلُ َّج ِة إِىَل أَ ْن ي ِقيمها مِبِس ِ
لئے اس کے سہارے کی احتیاج کے اقرارکے ذریعہ اس
حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے کہ ہم اس کی معرفت اك ُق َّوتِه َ -ما َدلَّنَا بِ ْ ُ ََ َ
ِ ِ ِ
پردلیل قائم ہونے کا اقرار کرلیں کہ جن جدید ترین اشیاء
کو اس کے آثار صنعت نے ایجاد کیا ہے اور نشان ہائے
َح َدثَْت َها آثَ ُار لَه َعلَى َم ْع ِرفَته -فَظَ َهَرت الْبَ َدائ ُع -الَّيِت أ ْ
ص َار ُك ُّل َما َخلَ َق ُح َّجةً لَه صْنعتِه وأ َْعاَل م ِحك ِ
حکمت نے پیدا کیا ہے وہ سب بالکل واضح ہیں اور ہر ْمته -فَ َ ُ َ ََ
ص ِامتاً فَ ُح َّجتُه بِالتَّ ْدبِ ِري ِ
ودلياًل َعلَْيه -وإِ ْن َكا َن َخ ْلقاً َ
مخلوق اس کے وجود کے لئے ایک مستقل حجت اور
دلیل ہے کہ اگر وہ خاموش()1بھی ہے تو اس کی تدبیر َ
بول رہی ہے اور اس کی داللت ایجاد کرنے والے پر قائم وداَل لَتُه َعلَى الْ ُمْب ِد ِع قَائِ َمةٌ ِ
نَاط َقةٌ َ -
ہے۔
ك -وتَاَل ُح ِم َن من شَّبهك بِتباي ِن أَع ِ ِ
خدایا :میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے بھی تیری ضاء َخ ْلق َ فَأَ ْش َه ُد أ َّ َ ْ َ َ َ ََ ُ ْ َ
مخلوقات کے اعضاء کے اختالف اور ان کے جوڑوں ك -مَلْ َي ْع ِق ْد ْمتِ َ ِ ِ ِ ِِ ِ ِ ِِ
ح َقاق َم َفاصله ُم الْ ُم ْحتَجبَة لتَ ْدبري حك َ
ِ ِ
کے سروں کے ملنے سے تیری حکمت کی تدبیر کے
ِ ِ
لئے تیری شبیہ قراردیا۔اس نے اپنے ضمیر کے غیب کو ني بِأَنَّه اَل ك -ومَلْ يُبَاش ْر َق ْلبَه الْيَق ُ ض ِم ِريه َعلَى َم ْع ِرفَتِ َ
ب َ َغْي َ
تیری معرفت سے وابستہ نہیں کیا اور اس کے دل میں یہ ني - ِ ك -و َكأَنَّه مَل يسمع َتبُّر َؤ التَّابِعِ ِ نِ َّد لَ َ
یقین پیوست نہیں ہوا کہ تیرا کوئی مثل نہیں ہے اورگویا ني م َن الْ َمْتبُوع َ َ ََْْْ َ
ني -إِ ْذ نُ َس ِّوي ُك ْم ض ٍ ِ
اس نے یہ پیغام نہیں سنا کہ ایک دن مرید اپنے پیرو الل ُمبِ ٍ إِ ْذ َي ُقولُو َن «تَا هلل إِ ْن ُكنَّا لَفي َ
مرشد سے یہ کہہ کر بیزاری کریں گے کہ '' بخدا ہم ِ بِر ِّ ِ
کھلی ہوئی گمراہی میں تھے جب تم کو رب العالمین کے ك إِ ْذ َشَّب ُه َ
وك ب الْ َعادلُو َن بِ َ ني» َ -ك َذ َ ب الْعالَم َ َ
ني بِأ َْو َه ِام ِه ْم ِ بِأَصنَ ِام ِهم -وحَن لُ َ ِ
برابر قرار دے رہے تھے۔بے شک تیرے برابر
وك ح ْليَةَ الْ َم ْخلُوق َ َ ْ ْ
قراردینے والے جھوٹے ہیں کہ انہوں نے تجھے اپنے
اصنام سے تشبیہ دی ہے اور اپنے او ہام کی بنا پر
خیاالت
ن اپنے
ت اور
ن
کردیا تہے
ت مخلوقات نکا تحلیہ عطا
ن تجھے ت خ غف ن
دازہ ہ و ج ا ا کہ جس نگاہ سے ے اد ٰی امل سے کام ل ی ا ہ و ا و اسے ائ
ے جن ب کہ اس ن ہ ے کہ وہ وج ود ئو حکمت الٰہی جکیت دل ی ل الش کر رہ نا
ہ ث( 1ق)ا سان تکی لت کی آ ری حد ی ہ
خ
ق حکی م اورشرصا ع کری م
ے ہ ی ں نکہ غاگر کو ی ال ٹے ئزب ا ی سے آواز دے رہت
ئبے ی ہ دو وں اپتی زب ان ے۔اور جس دماغ سے دال ل حکمت کی س ج و کر رہ ا ہ ہآن ار ت تدرت کو الش کر رہ ا ت
مارا وج ود ب تھی ن ہ ہ و ا۔ہ م اس کی عظ ق متن و حکمت کے ب ہت ری ن گواہ ہ ی ں۔ہ مارے ہ وے ہ وے دال ل حکمت و عظ مت کا الش کر ا ب ل می ں ک ورہ رکھ کر ہرمی ں ہ نہ و ا و پہ ن
ے۔ے اوری ہ کار ع ال ء ہی ں ہ ے کے م رادف ہ ڈھ ڈورہ ی ٹ
ِ خِب ِ ِ
وك جَتْ ِزئَةَ الْ ُم َج َّس َمات ََواط ِره ْم -وقَد ُ
کی بنا پرمجسموں کی طرح تیرے ٹکڑے کردئیے ہیں وك َعلَى َّر َ وجَّزءُ َ َ
اور اپنی عقلوں کی سوجھ بوجھ سے تجھے مختلف
طاقتوں والی مخلوقات کے پیمانے پر ناپ تول دیا ہے۔ اخْلِْل َق ِة الْ ُم ْختَلِ َف ِة الْ ُق َوى بَِقَرائِ ِح عُ ُقوهِلِ ْم -وأَ ْش َه ُد أ َّ
َن َم ْن
ِ ِ ٍ
َس َاو َاك بِ َش ْيء ِم ْن َخ ْلق َ
میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ جس نے بھی تجھے
کسی کے برابر قراردیا ہے اس نے تیرا ہمسر بنادیا اور
كك -والْ َعاد ُل بِ َ ك َف َق ْد َع َد َل بِ َ
جسنے تیرا ہمسر بنادیا اسنے آیات محکمات کی تنزیل کا ت َعْنه َش َو ِاه ُد ك -ونَطََق ْ ات آيَاتِ َت بِه حُمْ َك َم ُ
ِ
َكافٌر مِب َا َتَنَّزلَ ْ
انکار کردیا ہے اور واضح ترین دالئل کے بیانات کو
َّك أَنْت اللَّه الَّ ِذي مَل َتَتنَاه يِف الْع ُق ِ ُح َج ِج َبِّينَاتِ َ
جھٹال دیا ہے۔بے شک تو وہ خدا ہے جو عقلوں کی ول ُ ْ ك -وإِن َ َ
حدوں میں نہیں آسکتا ہے کہ افکار کی روانی میں اتب فِ ْك ِرها م َكيَّفاً واَل يِف ر ِويَّ ِ َ -فتَ ُكو َن يِف َم َه ِّ
کیفیوں کی زد میں آجائے او نہ غورو فکر کی جوالنیوں َ َ ُ
ِ
میں سما سکتا ہے کہ محدود اورتصرفات کا پابند َخ َواط ِر َها َفتَ ُكو َن حَمْ ُدوداً ُم َ
صَّرفاً .
ہوجائے۔
ومنها
(ایک دوسرا حصہ )
ف تَ ْدبِ َريه ِ
مالک نے ہر مخلوق کی مقدار معین کی ہے اور محکم ودبََّره فَأَلْطَ َ
َح َك َم َت ْقد َيره َ َّر َما َخلَ َق فَأ ْ قَد َ
ترین معین کی ہے اور ہر ایک کی تدبیر کی ہے اور ِ ِ ِ
لطیف ترین تدبیر کی ہے ہرایک کو ایک رخ پر لگا دیا ص ْر ُدو َن ود َمْن ِزلَته -ومَلْ َي ْق ُ وو َّج َهه ل ِو ْج َهته َفلَ ْم َيَت َع َّد ُح ُد ََ
ہے تو اس نے اپنی منزلت کے حدود سے تجاوز بھی ض ِّي َعلَى ااِل نْتِه ِاء إِىَل َغايتِه -ومَل يستَصعِب إِ ْذ أ ُِمر بِالْم ِ
نہیں کیا ہے اور انتہا تک پہنچنے میں کوتاہی بھی نہیں َ ُ َْْ ْ ْ َ َ
ور َع ْن َم ِشيئَتِه - ِ ِ
کی ہے اور مالک کے ارادہ پر چلنے کا حکم دے دیا گیا ص َد َرت األ ُُم ُ ف وإِمَّنَا َ إَِر َادته -فَ َكْي َ
تو اس سے سرتابی بھی نہیں کی ہے اور یہ ممکن بھی
آل إِلَْي َها -واَل اف األَ ْشيَ ِاء بِاَل َر ِويَِّة فِ ْك ٍر َ
َصنَ َ ِ
الْ ُمْنش ُئ أ ْ
کیسے تھا جب کہ سب اس کی مشیت سے منظر عام
پرآئے ہیں۔وہ تمام اشیاء کا ایجاد کرنے واال ہے بغیر اس َض َمَر َعلَْي َها -واَل جَتْ ِربٍَة أَفَ َاد َها ِم ْن قَ ِرحيَ ِة َغ ِر َيز ٍة أ ْ
کے کہ فکر کی جوالنیوں کی طرف رجوع کرے یا
باع َع َجائِ ِ يك أ ََعانَه َعلَى ابْتِ َد ِ ث الدُّهو ِر -واَل َش ِر ٍ حو ِاد ِ
طبیعت کی داخلی روانی کا سہارا لے یا حوادث زمانہ ُ ََ
کے تجربات سے فائدہ اٹھائے عجیب و غریب مخلوقات األ ُُمو ِر
کے بنانے میں کسی شریک کی مدد کا محتاج ہو۔
اس کی مخلوقات اس کے امر سے تمام ہوئی ہے
ِ َفتَ َّم خ ْل ُقه بِأَم ِره وأَ ْذعن لِطَ ِ
اب إِىَل َد ْع َوته مَلْ
اور اس کی اطاعت میں سربسجود ہے۔اس کی دعوت پر
لبیک کہتی ہے اور اس راہ میں نہ دیر کرنے والے کی َج َاعته وأ َ ََ َ ْ َ
ِ
ث الْ ُمْبط ِئ واَل أَنَاةُ الْ ُمَتلَ ِّك ِئ فَأَقَ َام م َنِ
سستی کاشکار ہوتی ہے اور نہ حیلہ و حجت کرنے والے ض ُدونَه َريْ َُيعْرَتِ ْ
کی ڈھیل میںمبتال ہوتی ہے ۔اس نے اشیاء کی کجی کو ِ ِ
سیدھا رکھا ہے۔ان کے حدود کو مقررکردیا ہے۔اپنی ود َها -واَل ءَ َم بُِق ْد َرته َبنْي َ األَ ْشيَاء أ ََو َد َها و َن َه َج ُح ُد َ
َجنَاساً - ِِ
اب َقَرائن َها و َفَّر َق َها أ ْ َسبَ َ ص َل أ ْ وو َض ِّاد َها َ - ُمتَ َ
قدرت سے ان کے متضاد عناصر میں تناسب پیدا کردیا
ہے اور نفس و بدن کا رشتہ جوڑ دیا ہے ۔انہیں حدود و
ات -بَ َدايَا ود واألَقْ َدا ِر والْغَرائِِز واهْل يئ ِ ات يِف احْل ُد ِخُمْتَلِ َف ٍ
مقادیر' طبائع و ہیات کی مختلف جنسوں میں تقسیم کردیا ََْ َ ُ
ہے۔یہ نو ایجاد مخلوق ہے جس کی صنعت مستحکم
وابتَ َد َع َها! ِ
رکھی ہے اور اس کی فطرت و خلقت کو اپنے ارادہ کے صْن َع َها وفَطََر َها َعلَى َما أ ََر َاد ْ َح َك َم ُ
َخاَل ئ َق أ ْ
مطابق رکھا ہے۔ ومنها في صفة السماء
ِ ِ ِ
ونَظَ َم بِاَل َت ْعل ٍيق َر َه َوات ُفَرج َها واَل َح َم ُ
(کچھ آسمان کے بارے میں)
وع
ص ُد َ
اس نے بغیر کسی چیز سے وابستہ کئے آسمانوں کے
ِ ِ ِ ِ ِ
نشیب و فراز کو منظم کرادیا ہے اور اس کے شگافوں وبنْي َ أ َْز َواج َها و َذلَّ َل ل ْل َهابِط َ
ني َّج َبْيَن َها َ .ووش َ
انْفَراج َها َ
کومال دیا ہے اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ
جکڑ دیا ہے اور اس کا حکم لے کر اترنے والے اور َع َم ِال َخ ْل ِقه ُحُزونَةَ ِم ْعَر ِاج َها - ين بِأ ْ
بِأَم ِره ِ ِ َّ -
والصاعد َ ْ
بندوں کے اعمال کو لے کر جانے والے فرشتوں کے ت عَُرى أَ ْشَر ِاج َها و َفتَ َق ِ
ونَ َاد َاها َب ْع َد إِ ْذ ه َي ُد َخا ٌن فَالْتَ َح َم ْ
لئے بلندی کی نا ہمواریوں کو ہموار کردیا ہے۔ابھی یہ
ُّه ِ ِ هِب اق ِ اِل ِ ِ
آسمان دھوئیں کی شکل میں تھے کہ مالک نے انہیں آواز ب صداً م َن الش ُ ت أ َْب َوا َا -وأَقَ َام َر َ ص َوام َ َب ْع َد ا ْرتتَ َ
دی اور ان کے تسموں کے رشتے آپس میں جڑ گئے اور ور يِف َخْر ِق ِ ِ هِب ِِ
ان کے دروازے بند رہنے کے بعد کھل گئے۔پھر اس نے الث ََّواقب َعلَى ن َقا َا وأ َْم َس َك َها م ْن أَ ْن مُتُ َ
ِ ِ ِ ِ
ان کے سوراخوں پر ٹوٹتے ہوئے ستاروں کے نگہبان وج َع َلف ُم ْستَ ْسل َمةً أل َْم ِره َ اهْلََواء بِأَيْده وأ ََمَر َها أَ ْن تَق َ
کھڑے کر دئیے اور اپنے دست قدرت سے اس امر سے
روک دیا کہ ہوا کے پھیالئو میں ادھرادھرچلے جائیں۔ صَرةً لَِن َها ِر َها مَشْسها آيةً مب ِ
َ َ َ ُْ
انہیں حکم دیاکہ اس کے حکم کے سامنے سرپا تسلیم
کھڑے رہیں ۔ان کے آفتاب کودن کے لئے روشن نشانی
َجَرامُهَا يِف َمنَاقِ ِل جَمَْرامُهَا ِ ِ
اورماہتاب کو رات کی دھندلی نشانی قراردے دیا اور
دونوں کو ان کے بہائو کی منزل پرڈال دیا ہے اور ان وقَ َمَر َها آيَةً مَمْ ُح َّوةً م ْن لَْيل َها -وأ ْ
کی گزر گاہوں میں رفتارکی مقدار معین کردی ہے تاکہ ِج َد َر ِج ِه َما -لِيُ َمِّيَز َبنْي َ اللَّْي ِل
َّر َسْيَرمُهَا يِف َم َدار ِ
-وقَد َ
ان کے ذریعہ دن اور رات کا امتیاز قائم ہو سکے اور ان
کی مقدار سے سال وغیرہ کا حساب کیا جا سکے۔پھر اب مِب ََق ِادي ِرمِه َا - ِ
ني واحْل َس ُ
والنَّها ِر هِبِما -ولِيعلَم ع َدد ِّ ِ
السن َ ُْ َ َ ُ َ َ
فضائے بسیط میں سب کے مدار معلق کردئیے اور ان اتمُثَّ علَّق يِف ج ِّوها َفلَ َكها ونَا َط هِب ا ِزينََتها ِ -من خ ِفيَّ ِ
سے اس زینت کو وابستہ کردیا جو چھوٹے چھوٹے ْ َ َ َ َ ََ َ َ
تاروں اوربڑے بڑے ستاروں کے چراغوں سے پیدا ور َمى ُم ْسرَتِ قِي َّ
الس ْم ِع ِِ
يح َك َواكب َها َ - صابِ ِوم ََد َرا ِريِّ َها َ
ہوئی تھی۔آوازوں کے چرانے والوں کے لئے ٹوٹتے
َجَر َاها َعلَى أَ ْذاَل ِل تَ ْس ِخ ِري َها ِم ْن ب ُش ُهبِ َها -وأ ْ بَِثواقِ ِ
تاروں سے سنگسار کا انتظام کردیا اور انہیں بھی اپنے َ
وطها وصع ِ ِ ِ ات ثَابِتِها ِ - َثب ِ
جبر و قہر کی راہوں پر لگا دیا کہ جو ثابت ہیں وہ ثابت ود َها وهبُ َ ُ ُ ومس ِري َسائ ِر َها ُ َ َ َ
رہیں۔جو سیار ہیں وہ سیار رہیں۔بلند و پست نیک و بدسب
وسها وسع ِ
ود َها. ِ
اسی کی مرضی کے تابع رہیں ۔ وحُنُ َ ُ ُ
(اوصاف مالئکہ کا حصہ) ومنها في صفة المالئكة
اس کے بعد اس نے آسمانوں کوآباد کرنے اوراپنی
سلطنت کے بلند ترین طبقہ کو بسانے()1کیلئے مالئکہ الص ِف ِ
يح ان مَس اواتِه ِ -
وع َم َار ِة َّ ِ
مُثَّ َخلَ َق ُسْب َحانَه ِإل ْس َك َ َ
جیسی انوکھی مخلوق کو پیدا کیا اور ان سے آسمانی ومألَ هِبِ ْم ِ ِ ِ ِ ِ األ ْ ِ
راستوں کے شگافتوں کو پر کردیا اورفضا کی پہنائیوں َعلَى م ْن َملَ ُكوته َ -خ ْلقاً بَديعاً م ْن َماَل ئ َكته َ -
وق أَجوائِها وب فَجو ِ
ات هِبِ ُفر ِ ِ
کو معمور کردیا۔انہیں شگافوں کے درمیان تسبیح کرنے وح َشا ْم ُفتُ َ ْ َ َ َنْي َ َ َ وج ف َجاج َها َ ُ َ
والے فرشتوں کی آوازیں قدس کی چار دیواری ' عظمت
کے ني ِ -مْن ُه ْم يِف َحظَائِِرالْ ُق ُد ِس ِ
وج َز َج ُل الْ ُم َسبِّح َ
ك الْ ُفُر ِتِْل َ
ب، وسُتر ِ
ات احْلُ ُج ِ
ئغ ن ق ن ئ ت غ ئ
ضُ َ
ےن ی ب ے۔ ف رآن جم ی د ے ای مان لکے ل ت ہ ے اوراس کاعلم دن ی ا کے عفام وسا ل ئکے ذریشعہ ممکن ہی ں ہ ے کہ مال کہقاور ج ن ات کا مس ئ لہ ی ب ی ئات تسے علق رکھت ا )وا ح ر شہ ( 1ق
ی
ے۔ کنشا ن ی س ت ئ ل ع ل ض
سے استن ادہ ک ی ا ج ا کت ا ہ ے دیگر ار ن ادات امامل کے
ن راد ا ے۔دیگر
ف ہ سے مان یا ان ب صاح صرف ق کا لہ
ن س م اس ٰذا
ن ہ ے
ہ ا یرارد اساسی رط کو ارار ت کے
ے کہ وہ اں کے ب ا شدے ل ہی ں ہ کے نا در آب ادی اں پ ا ی ج ا یت ہ ی ں اور ی ہاں کے ا راد کاکوہ اں ز دہ ن ہ رہ سک ا اس بنات نکی دل ی ف
ے کہ آسما وں ش ب ات ن و ب ہر حال وا ح ہ و چ کی ہن
ے۔امام صادق شکا ار ناد ےخاور اس سامان ز دگی ع ای ت رمای ا ہ نے ہ ر ج گہ کے ب ا ئدہ می ں وہ اں کے اع ب ار سے صالحی ت ح ی ات ر ش ھی ہ ب ھی ز دہ ن ہ رہ سکی ں۔مالک
(الہی ت ہ و اال سالم ہرست ا ی) ے ہ ی ں اور دس الکھ آدم ۔اور ہ ماری زمی ن کے ب ا ن دے آ ری آدم کی اوالد می ں ہ ی ں دا
ی ک پ عالم الکھ دس ے ے کہ پروردگار عالم گرامی ہ
يج الَّ ِذي تَ ْستَ ُّ الر ِج ِ ِ ِ ِ ِ
حجابات ' بزرگی کے سرا پردوں کے پیچھے گونج رہی
ہیں اوہر اس گونج کے پیچھے جس سے کان کے پردے ك ك َّ وو َراءَ َذل َ
وسَرادقَات الْ َم ْجد َ - ُ
پھٹ جاتے ہیں۔نور کی وہ تجلیاں ہیں جو نگاہوں کو وہاں وغ َها - ِمْنه األَمْس اع -سبحات نُو ٍر َتردع األَبصار عن بلُ ِ
تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں اوروہ ناکام ہو کر اپنی
َْ ُ ْ َ َ َْ ُ َ ُ ُُ َ ُ
ص َو ٍر ِ ِ ِ
حدود پر ٹھہر جاتی ہے۔ اس نے ان فرشتوں کو مختلف ف َخاسئَةً َعلَى ُح ُدود َها .-وأَنْ َشأ َُه ْم َعلَى ُ َفتَق ُ
َجنِ َح ٍة) تُ َسبِّ ُح َجاَل َل ٍ ِ ٍ
خُمْتَل َفات وأَقْ َدا ٍر ُمَت َفا ِوتَات ( -أُويِل أ ْ
شکلوں اور الگ الگ پیمانوں کے مطابق پیدا کیا ہے۔
انہیں بال و پر عنایت کئے ہیں اوروہ اس کے جالل و
عزت کی تسبیح میں مصروف ہیں۔مخلوقات میں اس کی صْنعِه -واَل ِ ِ
عَّزته -اَل َيْنتَحلُو َن َما ظَ َهَر يِف اخْلَْل ِق م ْن ُ
ِِ
نمایاں صنعت کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے ہیں۔اور مِم
کسی چیز کی تخلیق کا ادعا نہیں کرتے ہیں۔یہ ہللا کے يَدَّعُو َن أَن َُّه ْم خَي ْلُ ُقو َن َشْيئاً َم َعه َّا ا ْن َفَر َد بِه ( -بَ ْل ِع ٌ
باد
وه ْم بِأ َْم ِره َي ْع َملُو َن) - ِ
محترم بندے ہیں جو اس پر کسی بات میں سبقت نہیں
کرتے ہیں اور اسی کے حکم کے مطابق عمل کر رہے
ُمكَْر ُمو َن ال يَ ْسبِ ُقونَه بِالْ َق ْول ُ
ك أ َْه َل األ ََمانَِة َعلَى َو ْحيِه -ومَحَّلَ ُه ْم ِ ِ
ہیں ''۔ہللا نے انہیں اپنی وحی کا امین بنایا ہے اورمرسلین يما ُهنَال َ َج َعلَ ُه ُم اللَّه ف َ
صم ُهم ِم ْن ريْ ِ ِ ِ
ني َو َدائ َع أ َْم ِره و َن ْهيِه َ - إِىَل الْ ُم ْر َسل َ
کی طرف اپنے امرو نہی کی امانتوں کا حامل قرار دیا ب
ہے۔انہیں شکوک و شبہات سے محفوظ رکھا ہے کہ وع َ َ ْ َ
َّه ْم ات -فَما ِمْنهم زائِ ٌغ عن سبِ ِيل مر ِ الشُّبه ِ
کوئی بھی اس کی مرضی کی راہ سے انحراف کرنے ضاته -وأ ََمد ُ َ ُ ْ َ َ ْ َ َْ َ َُ
واال نہیں ہے۔سب کواپنی کارآمد امداد سے نوازا ہے اور
الس ِكينَ ِةات َّ بَِفوائِ ِد الْمعونَِة -وأَ ْشعر ُقلُوبهم َتواضع إِخب ِ
سب کے دل میں عاجزی اور شکستگی کی تواضع پیدا ََ َ ُ ْ َ ُ َ ْ َ َُ َ
ِ ِ
کردی ہے ۔ ان کے لئے اپنی تمجید کی سہولت کے
دروازے کھول دئیے ہیں اور توحید کی نشانیوں کے لئے
ب هَلُ ْم َمنَاراً صَ -و َفتَ َح هَلُ ْم أ َْب َواباً ذُلُاًل إِىَل مَتَاجيده -ونَ َ
ات اآلثَ ِام ِ ِ ِ ِ ِ
واضح منارے قائم کردئیے ہیں۔ان پر گناہوں کا بوجھ بھی َواض َحةً َعلَى أ َْعاَل ِم َت ْوحيده -مَلْ ُتثْق ْل ُه ْم ُم ْؤصَر ُ
نہیں ہے اور انہیں شب و روز کی گردشیں اپنے ارادوں وكالش ُك ُ ب اللَّيَايِل واألَيَّ ِام -ومَلْ َت ْرِم ُّ ِ
-ومَلْ َتْرحَت ْل ُه ْم عُ َق ُ
پرچال بھی نہیں سکتی ہیں۔شکوک و شبہات ان کے
مستحکم ایمان کو اپنے خیاالت کے تیروں کا نشانہ بھی بَِن َوا ِز ِع َها َع ِزميَةَ إِميَاهِنِ ْم -ومَلْ َتعْرَتِ ِك الظُّنُو ُن َعلَى َم َعاقِ ِد
يَِقينِ ِه ْم
نہیں بنا سکتے ہیں اور وہم و گمان ان کے یقین کی
پختگی پرحملہ آور بھی نہیں ہوسکتے
ہیں۔ان کے درمیان حسد کی چنگاری بھی نہیں بھڑکتی ِ واَل قَ َدح ِ
ہے اورحیرت و استعجاب ان کے ضیمروں کی معرفت
يما َبْيَن ُه ْم -واَل َسلَبَْت ُه ُم ت قَاد َحةُ ا ِإل َح ِن ف َ َ ْ
وما َس َك َن ِم ْن احْل يرةُ ما اَل َق ِمن مع ِرفَتِه بِ ِ ِ
کو سلب بھی نہیں کر سکتے ہیں اور ان کے سینوں میں ض َمائ ِره ْم َ - َ ْ َْ َْ َ َ
چھپے ہوئے عظمت دہیب و جاللت ٰالہی کے ذخیروں کو ِ ِ ِ ِ ِ ِ
چھین بھی نہیں سکتے ہیں اور وسوسوں نے کبھی یہ ص ُدو ِره ْم -ومَلْ تَطْ َم ْع في ِه ُم وهْيبَة َجاَل لَته يِف أَْثنَاء ُ َعظَ َمته َ
سوچا بھی نہیں ہے کہ ان کی فکر کو زنگ آلود بنا دیں ومْن ُه ْم َم ْن ُهو يِف الْوسا ِوس َفَت ْق ِ ع بِرينِها علَى فِ ْك ِر ِهم ِ
ان میں بعض وہ ہیں جنہیں بوجھل بادلوں ۔بلند ترین َ ْ َ َ ُ رَت َ َ ْ َ َ
پہاڑوں اور تاریک ترین ظلمتوں کے پردوں میں رکھا ُّم ِخ ويِف َقْتَر ِة الد ِحَّل ويِف ِعظَ ِم اجْلِبَ ِال الش َّ َخ ْل ِق الْغَ َم ِام ُّ
ِ
الظَّاَل ِم األ َْي َه ِم ومْن ُه ْم َم ْن قَ ْد َخَرقَ ْ
ہے اور بعض وہ ہیں جن کے پیروں نے)(1زمین کے
آخری طبقہ کو پارہ کردیا ہے اور وہ ان سفید پرچموں ت أَقْ َد ُام ُه ْم خُتُ َ
وم
ت يِف خَمَا ِر ِق ات بِ ٍ الس ْفلَى -فَ ِهي َكراي ٍ األ َْر ِ
جیسے ہیں جو فضا کی وسعتوں کو چیر کرباہر نکل يض قَ ْد َن َف َذ ْ َ ََ ض ُّ
گئے ہوں۔جن کے نیچے ایک ہلکی ہوا ہو جوانہیں ان کی ِ
حدوں پر روکے رہے۔انہیں عبادت کی مشغولیت نے ہر ت ِم َن ث ا ْنَت َه ْ يح َهفَّافَةٌ حَتْبِ ُس َها َعلَى َحْي ُ اهْلََواء -وحَتَْت َها ِر ٌ
ال ِعبَ َادتِه - اسَت ْفَر َغْت ُه ْم أَ ْشغَ ُ ِِ ِ ِ
احْلُ ُدود الْ ُمَتنَاهيَة -قَد ْ
)(2چیز سے بے فکربنادیا ہے اور ایمان کے حقائق نے
ان کے اور معرفت کے درمیان گہرا رابطہ پیدا کردیا
ہے۔اور یقین کامل نے ہر چیز سے رشتہ توڑ کر انہیں وبنْي َ َم ْع ِرفَتِه وقَطَ َع ُه ُم ِ ِ
ت َح َقائ ُق ا ِإلميَان َبْيَن ُه ْم َ صلَ ْوو َ َ
ن ن
مالک کی طرف مشتاق بنادیا ہے۔ ا ِإلي َقا ُن بِه إِىَل الْ َولَه إِلَْيه
ن ئ ض ے لی ق ت کی ن ہ ت ل کیتے کہ مالئ کہ کا ع ن
ے۔جن ب ان کا جخسم ورا ی رورت ہی ں ہ ن کی کو ی ق ن
خ اس ر ئ
ہ ا ظ ب کن ہ ط ی م کو
ط س حات بت مام کے آسمان
ت و ن یمز لم ہ اوی ی ئ اس ے ()1ب عض علماء
ے۔ ورا ی ت می ں م ت لف ں ہ ل ع الف ات ی کو ں م اس اور ے ا ت وڑ کو حدود مام کے ات ماد ف خ
ل سم ج کا ان و ےت ئ
ں ہ و ا کاد ات
ی ہ ب ی ہ ک ن ت ت ی طی ب ی ہ ے اورخاس پر ی
ماد
ن شہ
ن خ ں۔ ی ہ ے ک آس ے م سا ں یمخ وں صور لف ت م وہ اور ں
ن ی ہ ی ا ج ی ا پ ت ی حال ص کی ے ا ئ کال ا ت ین ار نکر
ن ت ت ن ت ن
ے ے ہ ی ں۔حی رت ا گی ز اس کسا ی ما ی کی وسعت ہ آسمان کی آ ری بل دی ک احاطہ کر سک ے وہ زمی ن کی آ ئریث ہنسے ت عت حی رت تا گی ز ہی ں ہ مال کہ کے ورا ی اج ئسام کی وس
سردار ب
ق ے۔ ہ ا ن ڑ پ ں یہ ر ا ی کو ر پ عت س و کی ادر ت چاور ئ ے
ہ ا ا ج سما ھی جس می ں اس گروہ مال کہ کا
ے اور اس ن ا تک س کر کون ادت
ت ع ادہ ز سے اس وں ہ ہ )ظ اہ ر ے کہ جس کی زن قدگی م ں دن ا کے سا ل ارت و زراعت ' مالزمت و ص عت اور رش ت ہ و راب ت ش امل ن (2
ب ہ ب بی ن اور ات ے کہ ب عض ہللا کے ب ن ج م ی ی ہ
ص عت ب ھی ض ھی ارت ج اور ے ہ ھی
ت زراعت ں
ن یم دگی ز کی ن ے ب ھی ہ ی ں ج ست ی ا دے ن ت ہ ب ہ ی ے۔ ہ ا ق تک سے زی ادہ ع ب ادات کو کون و ت دے س
ے اور ث قس است ب ھی ۔رش ت ہ بتھی ے اور راب ب ل
ح ن
ے اور ان کی ای ک رب ت ت ن ھی ی کن ضاس کے ب اوج ود ا ی تع ب ادت کرے ہ ی ں کہ مالک کو آرام کرے کا کم دی ا پڑ ا ہ ن ہ ی ہ
ے ہ ی ں۔ ل م
ے ی ا وہ ای ک ی د سے مر ی عبود کاسودا کر ی ع ب ادت لی ن پر ب ھاری ہ و ج ا ی ہ
ان کی رغبتیں مالک کی نعمتوں سے ہٹ کر کسی اور
کی طرف نہیں ہیں کہ انہوں نے معرفت کی حالوت
ومَلْ جُتَا ِو ْز َر َغبَاتُ ُه ْم َما ِعْن َده إِىَل َما ِعْن َد َغرْيِ ه -قَ ْد ذَاقُوا
کامزہ چکھ لیا ہے اور محبت کے سیراب کرنے والے الر ِويَِّة ِم ْن حَمَبَّتِه -
وش ِربُوا بِالْ َكأْ ِس َّ َحاَل َوةَ َم ْع ِرفَتِه َ -
جام سے سر شار ہوگئے ہیں ۔اور ان کے دلوں کی تہ ِ هِبِ ِ
میں اس کا خوف جڑ پکڑ چکا ہے جس کی بنا پر انہوں يجةُ ِخي َفتِه -فَ َحَن ْوا ت م ْن ُس َويْ َداء ُقلُو ْم َوش َ
ومَتَ َّكنَ ِ
ْ
الر ْغبَ ِة ِ ِ
اع ِة ْاعتِ َد َال ظُ ُهو ِره ْم -ومَلْ يُْنف ْد طُ ُ بِطُ ِ
ول الطَّ َ
نے مسلسل اطاعت سے اپنی سیدھی کمروں کو خمیدہ
بنالیا ہے اور طول رغبت ()1کے باوجود ان کے تضرع و
ول َّ
زاری کاخزانہ ختم نہیں ہوا ہے اور نہ کمال تقرب کے الزلْ َف ِة ِربَ َق ِ
ضُّرعه ْم -واَل أَطْلَ َق َعْن ُه ْم َعظ ُ
يم ُّ إِلَْيه َم َّادةَ تَ َ ِ ِ
باوجود ان کے خشوع کی رسیاں ڈھلی ہوئی ہیں اورنہ ِ ِ
خود پسندی نے ان پر غلبہ حاصل کیا ہے کہ وہ اپنے
ف اب َفيَ ْستَكْثُروا َما َسلَ َ ُخ ُشوع ِه ْم -ومَلْ َيَت َوهَّلُ ُم ا ِإل ْع َج ُ
ت هَل م استِ َكانَةُ ا ِإلجاَل ِل -نَ ِ
صيباً يِف ِ
گذشتہ اعمال کو زیادہ تصور کرنے لگیں اور نہ جالل ْ مْن ُه ْم -واَل َتَر َك ْ ُ ُ ْ
(
نظرانداز کر دیتا ہے۔یاد رکھو اگر میں تم کو اس ناگوار مث قالَ :ه َذا َجَزاءُ َم ْن َتَر َك الْعُ ْق َدةَ -أ ََما واللَّه لَ ْو أَيِّن
امر( جنگ) پرمامور کر دیتا جس میں یقینا ہللا نے تمہیں ني أ ََم ْرتُ ُك ْم -بِه مَحَْلتُ ُك ْم َعلَى الْ َمكُْروه -الَّ ِذي جَيْ َع ُل حَ
ِ
لئے خیر رکھا تھا۔اس طرح کہ تم سیدھے رہتے تو تمہیں
اسَت َق ْمتُ ْم َه َد ْيتُ ُك ْم -وإِ ِن ْاع َو َج ْجتُ ْم ِ ِ
ہدایت دیتا اور ٹیڑھے ہو جاتے تو سیدھا کردیتا اورانکار اللَّه فيه خَرْي اً -فَِإن ْ
کرتے تو اس کا عالج کرتا تو یہ انتہائی مستحکم طریقہ
کار ہوتا۔لیکن یہ کام کس کے ذریعہ کرتا اور کس کے ت الْ ُو ْث َقى -ولَ ِك ْن َق َّومتُ ُكم -وإِ ْن أَبيتُم تَ َدار ْكتُ ُكم لَ َكانَ ِ
َْ ْ َ ْ ْ ْ
ِ
ي بِ ُك ْم وأَْنتُ ْم َدائِي َ -كنَاق ِ
بھروسہ پر کرتا۔میں تمہارے ذریعہ قوم کا عالج کرنا ش مِب َ ْن وإِىَل َم ْن -أُِر ُ
يد أَ ْن أ َُدا ِو َ
چاہتا تھا لیکن تمہیں تو میری بیماری ہو۔یہ تو ایسا ہی
ِ ِ
ہوتا جیسے کانٹے سے کانٹا نکاال جائے جب کہ اس کا ض ْل َع َها َم َع َها -اللَّ ُه َّم َن َ وه َو َي ْعلَ ُم أ َّالش َّْو َكة بِالش َّْو َكة ُ -
جھکائو اسی کی طرف ہو۔خدایا! گواہ رہنا کہ اس موذی ي -و َكلَّ ِ الد ِو ِّ
َّاء َّ َطبَّاء ه َذا الد ِ
قَ ْد ملَّ ِ
مرض کے اطباء عاجزآچکے ہیں اور اس کنویں سے ت الن َّْز َعةُ تأ َُ َ ْ
ين ُدعُوا إِىَل ا ِإل ْساَل ِم ِ َّ ِ بِأَ ْشطَ ِ
رسی نکالنے والے تھک چکے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ الرك ِّي -أَيْ َن الْ َق ْو ُم الذ َ ان َّ
جنہیں اسالم کی دعوت دی گئی تو فوراً قبول کرلی
َف َقبِلُوه -
ق تت ن ن کن ن ن ف ت ل ن ت ق
اصرار ک ی ا و م ے ی زوں پر رآن دی کھے پر ن ے ص ی ن می ں جن گ تج اری فر ھلوگوں ے جم ھ نسے ناطاعتظ کاعہدو پ یمان ک ی ا قھا ی کن ج ب می نںت ت ن ے کہ م ہ ( 1ن) ن م صد ی ہ
ے؟ ے آگ ی ا و اب ری اد کرے کاک ی ا ج واز ہ ے ا دام کا ایسا ہ ی ی ج ہ ہ و ا ہ
ے ج و سام ے عہدوپ یمان کو ظ ر ا داز کردی ا اہ ر ہ
ے کہ ایس کرج گ ب دی کام طالب ہ کردی ا اور اپ
يجوا إِىَل اجْلِ َه ِاد َف َوهِلُوا َولَه ِ
اور انہوں نے قرآن کو پڑھا تو باقاعدہ عمل بھی کیااور
جہاد کے لئے آمادہکئے گئے تو اس طرح شوق سے َح َك ُموه وه ُ و َقَرءُوا الْ ُق ْرآ َن فَأ ْ
ِ اللِّ َق ِ ِ
آگے بڑھے جس طرح اونٹنی اپنے بچوں کی طرف َخ ُذوا وف أَ ْغ َم َاد َها وأ َ السيُ َ وسلَبُوا ُّ اح إىَل أ َْواَل د َها َ -
بڑھتی ہے۔انہوں نے تلواروں کو نیا موں سے نکال لیا
ك اف األ َْر ِ بِأَطْر ِ
اور دستہ دستہ ۔صف بہ صف آگے بڑھ کر تمام اطراف ض َهلَ َ ص ّفاً َب ْع ٌ وص ّفاً َ ض َز ْحفاً َز ْحفاً َ - َ
زمین پر قبضہ کرلیا۔ان میں بعض چلے گئے اور بعض َحيَ ِاء -واَل يُ َعَّز ْو َن َع ِن ض جَنَا اَل يُبَشَُّرو َن بِاأل ْ وب ْع ٌَ
باقی رہ گئے ۔ انہیں نہ زندگی کی بشارت سے دلچسپی
ون ِم َن ون ِمن الْب َك ِاء -مُخْص الْبطُ ِ ِ
تھی اور نہ مردوں کی تعزیت سے۔ان کی آنکھیں خوف ُ ُ الْ َم ْوتَى ُم ْره الْعُيُ َ ُ
خدا میں گریہ سےسفید ہوگئی تھیں ۔پیٹ روزوں سے
ص ْفُر األَلْ َو ِان ِم َن َّ
الس َه ِر الش َفاه ِمن الد ِ الصيَ ِام ذُبُ ُل ِّ
دھنس گئے تھے ' ہونٹ دعا کرتے کرتے خشک ہوگئے ُّعاء ُ - َ َ ِّ
تھے۔چہرے شب بیداری سے زرد ہوگئے تھے اور الذ ِاهبُو َن ك إِ ْخوايِن َّ ِ
ني -أُولَئ َ َ
ِِ ِ
َعلَى ُو ُجوه ِه ْم َغَبَرةُ اخْلَاشع َ
چہروں پر خاکساری کی گرد پڑی ہوئی تھی یہی میرے
پہلے والے بھائی تھے جن کے بارے میں ہمارا حق ہے ض األَيْ ِدي َعلَى فَِراقِ ِه ْم -فَ َح َّق لَنَا أَ ْن نَظْ َمأَ إِلَْي ِه ْم -و َن َع َّ
کہ ہم ان کی طرف پیاسوں کی طرح نگاہ کریں اور ان يد أَ ْن حَيُ َّل ِدينَ ُك ْم
-إِ َّن الشَّْيطَا َن يُ َسيِّن لَ ُك ْم طُُرقَه ويُِر ُ
کے فراق میں اپنے ہی ہات کاٹیں۔
یقیناشیطان تمہارے لئے اپنی راہوں کو آسان بنا دیتا ہے اع ِة الْ ُف ْرقَةَ وبِالْ ُف ْرقَ ِة الْ ِفْتنَةَ - ِ
عُ ْق َدةً عُ ْق َدةً -ويُ ْعطيَ ُك ْم بِاجْلَ َم َ
يحةَ مِم َّْن أ َْه َد َاها ِ هِت ِ فَ ِ
اور چاہتا ہے کہ ایک ایک کرکے تمہاری ساری گرہیں
کھول دے۔وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر اصدفُوا َع ْن َنَز َغاته ونَ َفثَا وا ْقَبلُوا النَّص َ ْ
وها َعلَى أَْن ُف ِس ُك ْم ِ
فتنوں میں مبتال کرنا چاہتا ہے ل ٰہذا اس کے خیاالت
واعقلُ َإِلَْي ُك ْم ْ
اوراس کی جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور اس
شخص کی نصیحت قبول کرو جو تمہیں نصیحت کا تحفہ
دے رہا ہے اور اپنے دل میں اس کی گرہ باندھ لو۔
()122
آپ کا ارشاد گرامی ()122
( جب آپ خوارج کے اس پڑائو کی طرف تشریف لے عليهالسالم ومن كالم له
گئے جو تحکیم کے انکار 2پراڑا ہوا تھا۔اورفرمایا)
کیا تم سب ہمارے ساتھ صفین میں تھے؟ لوگوں نے کہا قاله للخوارج وقد Oخرج إلى معسكرهم -وهم
بعض افراد تھے اوربعض نہیں تھے اوربعض نہیں
تھے! فرمایا تو تم دو حصوں میں تقسیم ہو جائو۔صفین عليهالسالم2 مقيمون على إنكار الحكومة فقال
والے الگ اور غیر صفین والے الگ ۔تاکہمیں ہر ایک ومنَّا َم ْنأَ ُكلُّ ُكم َش ِه َد معنَا ِصفِّني َ -ف َقالُوا ِمنَّا من َش ِه َد ِ -
سے اس کے حال کے مطابق گفتگو کرو۔اس کے بعد قوم َْ َ ََ ْ
ِ ِ
سے پکار کر فرمایا کہ تم سب خاموش ہو جائو اور مَلْ يَ ْش َه ْد -قَ َال فَ ْامتَ ُازوا فْر َقَتنْي ِ َ -ف ْليَ ُك ْن َم ْن َش ِه َد صف َ
ِّني
میری بات سنو اور اپنے دلوں کو بھی میری طرف
وم ْن مَلْ يَ ْش َه ْد َها فِْرقَةً َ -حىَّت أُ َكلِّ َم ُكالًّ ِمْن ُك ْم فْرقَةً َ -
ِ
متوجہ رکھو کہ اگر میں کسی بات کی گواہی طلب کروں
تو ہر شخص اپنے علم کے مطابق جواب دے سکے۔( یہ َّاس َف َق َال أ َْم ِس ُكوا َع ِن الْكَاَل ِم - بكَاَل مه -ونَ َادى الن َ
ِ ِ
کہہ کر آپنے ایک طویل گفتگو فرمائی جس کا ایک
حصہ یہ تھا) ذرا بتالئو کہ جب صفین والوں نے حیلہ و صتُوا لَِق ْويِل -وأَقْبِلُوا بِأَفْئِ َدتِ ُك ْم إِيَلَّ -فَ َم ْن نَ َش ْدنَاهوأَنْ ِ
مکر اورجعل و فریب سے نیزوں پر قرآن بلندکردئیے َش َه َاد ًة َف ْلَي ُق ْل بِعِْل ِمه فِ َيها -مُثَّ َكلَّ َم ُه ْم عليهالسالم بِكَاَل ٍم
تھے تو کیا تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ سب ہمارے بھائی
اور ہمارے ساتھ کے مسلمان ہیں۔اب ہم سے معافی کے طَ ِو ٍيل ِ -م ْن مُجْلَتِه أَ ْن قَ َال عليهالسالم :أَمَلْ َت ُقولُوا ِعْن َد
طلب گار ہیں اور کتاب خداسے فیصلہ چاہتے ہیں ل ٰہذا
وخ ِد َيعةً إِ ْخ َوانُنَا
ومكْراً َ
ِ
ف حيلَةً وغيلَةً َ -
اح ِ
ص َ
رفْعِ ِهم الْم ِ
َ ُ َ َ
مناسب یہ ہے کہ ان کی بات مان لی جائے اورانہیں
ِ ِ
احوا إِىَل كتَاب اللَّه ِ
سانس لینے کا موقع دے دیا جائے۔میں نے تمہیں سمجھایا واسَتَر ُ
اسَت َقالُونَا ْ وأ َْه ُل َد ْع َوتنَا ْ -
تھا کہ اس کا ظاہر ایمان ہے لیکن باطن صرف ظلم اور ول ِمْنهم ِ َّ -
تعدی ہے۔اس کی ابتدا رحمت و راحت ہے لیکن اس کا يس َعْن ُه ْم - والتْنف ُ ي الْ َقبُ ُ ُ ْ الرأْ ُ
ُسْب َحانَه -فَ َّ
اطنُه عُ ْد َوا ٌن - اهره إِميَا ٌن -وب ِ ِ
ت لَ ُك ْم َه َذا أ َْمٌر ظَ َُف ُق ْل ُ
انجام شرمندگی اور ندامت ہے ل ٰہذا اپنی حالت پر قائم رہو
اور اپنے راستہ کو مت چھوڑو َ
يموا َعلَى َشأْنِ ُك ْم -والَْز ُموا ِ ِ
وأ ََّولُه َرمْح َةٌ وآخُره نَ َد َامةٌ فَأَق ُ
طَ ِري َقتَ ُك ْم -
اور جہاد پر دانتوں کو بھینچے رہو اور کسیبکواس
اع ٍقوعضُّوا علَى اجْلِه ِاد بَنو ِاج ِذ ُكم -واَل َت ْلتَ ِفتُوا إِىَل نَ ِ
کرنے والے کی بکواس کو مت سنو کہ اس کے قبول ْ َ ََ َ َ
کرلینے میں گمراہی ہے اور نظر انداز کردینے میں ذلت ت َه ِذه َض َّل وإِ ْن تُِر َك َذ َّل -وقَ ْد َكانَ ْ يب أ َ
ِ ِ
َن َع َق -إ ْن أُج َ
ہے۔لیکن جب تحکیم کی بات طے ہوگئی تو میں نے
دیکھا کہ تمہیں لوگوں نے اس کی رضا مندی دی تھی وها -واللَّه لَئِ ْن أ ََبْيُت َها َما الْ َف ْعلَةُ وقَ ْد َرأ َْيتُ ُك ْم أ َْعطَْيتُ ُم َ
حاالنکہ خدا گواہ ہے کہ اگرمیں نے اس سے انکار کردیا وو اللَّه إِ ْن يضُت َها -واَل مَحَّلَيِن اللَّه ذَ ْنَب َها َ ت َعلَ َّي فَ ِر َ َو َجبَ ْ
ہوتا تو اس سے مجھ پر کوئی فریضہ عائد نہ ہوتا۔اورنہ
اب لَ َمعِي َما ِ ِ ِ ِ
پروردگار مجھے گناہ گار قراردیتا اور اگر میں نے اسے جْئُت َها إِيِّن لَْل ُمح ُّق الَّذي يُتَّبَ ُع -وإِ َّن الْكتَ َ
اختیار کیا ہوتا تو میں ہی وہ صاحب حق تھا جس کا اتباع فَار ْقتُه م ْذ ص ِحبتُه َفلَ َق ْد ُكنَّا مع رس ِ
ہونا چاہیے تھا کہ کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب ول اللَّه ََ َ ُ َ ُ َ ْ
سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے کبھی جدائی نہیں ہوئی۔ہم صلىهللاعليهوآلهوسلم -وإِ َّن الْ َقتل لَيدور علَى ِ
اآلباء ْ َ َُ ُ َ
رسول اکرم (ص) کے زمانے میں اس وقت جنگ کرتے
ات -فَ َما َنْز َد ُاد َعلَى ُك ِّل واألَبنَ ِاء -وا ِإلخو ِان والْ َقراب ِ
تھے جب مقابلہ پر خاندانوں کے بزرگ بچے۔بھائی بند ََ َْ ْ
اور رشتہ دار ہوتے تھے لیکن ہر مصیبت و شدت پر
ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا اور ہم امر ٰالہی کے
ضيّاً َعلَى احْلَ ِّق -وتَ ْسلِيماً َّة -إِاَّل إِميَاناً وم ِ
ُ
وشد ٍ
صيب ٍة ِ ِ
ُم َ
ِ ض اجْلَِر ِ ِ
سامنے سر تسلیم خم کئے رہتے تھے۔راہ حق میں َصبَ ْحنَا اح -ولَكنَّا إِمَّنَا أ ْ ض ِ وصرْب اً َعلَى َم َ لأل َْم ِر َ -
نُ َقاتِ ُل إِ ْخ َوانَنَا يِف ا ِإل ْساَل ِم َ -علَى َما َد َخ َل فِيه ِم َن َّ
بڑھتے ہی جاتے تھے اور زخموں کی ٹیس پر صبر ہی
کرتے تھے مگر افسوس کہ اب ہمیں مسلمان بھائیوں الزيْ ِغ
سے جنگ کرنا پڑ رہی ہے کہ ان میں کجی۔انحراف ۔شبہ صلَ ٍة ِ ِ
اج -والشُّْب َهة والتَّأْ ِو ِيل -فَِإذَا طَم ْعنَا يِف َخ ْ وااِل ْع ِو َج ِ
اور غلط تاویالت کادخل ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود
هِب ِ ِ ِ ِ هِب
اگرکوئی راستہ نکل آئے جس سے خدا ہمارے انتشار کو يما َبْيَننَا - َيلُ ُّم اللَّه َا َش َعَثنَا -ونَتَ َداىَن َا إىَل الْبَقيَّة ف َ
دور کردے اورہم ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہے َر ِغْبنَا فِ َيها وأ َْم َسكْنَا َع َّما ِس َو َاها.
سہے تعلقات کو باقی رکھ سکیں تو ہم اسی راستہ کو
پسند کریں گے اور دوسرے راستہ سے ہاتھ روک لیں
گے۔
()123 ()123
آپ کا ارشاد گرامی
عليهالسالم ومن كالم له
(جو صفین کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا تھا)
دیکھو ! اگر تم سے کوئی شخص بھی جنگ کے وقت قاله ألصحابه في ساحة الحرب -بصفين
اپنے اندر قوت قلب اور اپنے کسی بھائی میں کمزوری س ِم ْن َن ْف ِسه َ -ربَاطَةَ َجأْ ٍش ِعْن َد وأ ُّ ٍ ِ
َي ْام ِرئ مْن ُك ْم أ َ
َح َّ
کا احساس کرے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے بھائی سے
َح ٍد ِم ْن إِ ْخ َوانِه فَ َشاًل َ -فْليَ ُذ َّ ِ ِ
اسی طرح دفاع کرے جس طرح اپنے نفس سے کرتا ہے ب َع ْن ورأَى م ْن أ َ اللِّ َقاءَ ،
ض َل هِبَا َعلَْيه َ -ك َما يَ ُذ ُّ ض ِل جَنْ َدتِه -الَّيِت فُ ِّ أ َِخيه بَِف ْ
کہ خدا چاہتا تو اسے بھی ویسا ہی بنا دیتا لیکن اس نے
تمہیں ایک خاص فضیلت عطا فرمائی ہے۔
ب َع ْن
ِ ِ ِ
دیکھو!موت ایک تیز رفتار طلب گار ہے جس سے نہ بت طَال ٌ َن ْفسه َ -فلَ ْو َشاءَ اللَّه جَلَ َعلَه م ْثلَه -إِ َّن الْ َم ْو َ
کوئی ٹھہرا ہوا بچ سکتا ہے اور نہ بھاگنے واال بچ نکل ِ ِ
سکتا ہے اور بہترین موت شہادت ہے۔قسم ہے اس ب -إِ َّن أَ ْكَر َم يم -واَل يُ ْعجُزه اهْلَا ِر ُ يث اَل َي ُفوتُه الْ ُمق ُ َحثِ ٌ
ت الْ َقْتل -والَّ ِذي َن ْفس اب ِن أَيِب طَالِ ٍ ِ الْمو ِ
ب بِيَده -ألَلْ ُ
پروردگار کی جس کے قبضہ قدرت میں فرزند ابو طالب ف
کی جان ہے کہ میرے لئے تلوار کی ہزار ضربیں ُ ْ ُ َْ
اش يِف َغرْيِ ِ ٍ ِ ِ
السْيف أ َْه َو ُن َعلَ َّي -م ْن ميتَة َعلَى الْفَر ِ ِ ٍ
ض ْربَة بِ َّ
اطاعت خداسے الگ ہو کر بستر پرمرنے سے بہتر ہیں۔ َ
گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ ویسی ہی آوازیں الضب ِ ِ ِ طَ ِ
نکال رہے ہو جیسی سو سماروں کے جسموں کی رگڑ
اب يش ِّ َ اعة اللَّه و َكأَيِّن أَنْظُُر إِلَْي ُك ْم -تَكشُّو َن َكش َ َ
سے پیدا ہوتی ہیں کہ نہ اپناحق حاصل کر رہے ہو اورنہ ضْيماً -قَ ْد ُخلِّيتُ ْم والطَِّر َ
يق -اَل تَأْ ُخ ُذو َن َح ّقاً واَل مَتَْنعُو َن َ
ذلت کا دفاع کر رہے ہو جب کہ تمہیں راستہ پر
کھالچھوڑ دیا گیا ہے اور نجات اسی کے لئے ہے جو َّجاةُ لِْل ُم ْقتَ ِح ِم واهْلَلَ َكةُ لِْل ُمَتلَ ِّوِم .
-فَالن َ
جنگ میں کود پڑے اورہالکت اسی کے لئے ہے
جودیکھتا ہی رہ جائے ۔
()124 ()124
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(اپنے اصحاب کو جنگ پرآمادہ کرتے ہوئے)
في حث أصحابه على القتال
زرہ پوش افراد کو آگے بڑھائو اوربے زرہ لوگوں کو
پیچھے رکھو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سر
سے اچٹ جاتی ہیں اورنیزوں کے اطراف سے پہلوئوں
َضَر ِ
اس وعضُّوا َعلَى األ ْ ِ
کو بچائے رکھو کہ اس سے نیزوں کے رخ پلٹ جاتے َخُروا احْلَاسَر َ - ِع وأ ِّ ِّموا الدَّار َ َف َقد ُ
ہیں۔نگاہوں کو نیچا رکھو کہ اس سے قوت قلب میں افوف ع ِن اهْل ِام -والْتووا يِف أَطْر ِ -فَِإنَّه أَْن لِ ُّ ِ
اضافہ ہوتا ہے اورحوصلے بلند رہتے ہیں۔آوازیں دھیمی َ َُ لسيُ َ َ ىَب
ص َار فَِإنَّه أ َْربَ ُ ِِ ِ
رکھو کہ اس سے کمزوری دور ہوتی ہے۔دیکھو اپنے ط اح فَِإنَّه أ َْم َو ُر لألَسنَّة -وغُضُّوا األَبْ َ الر َم ِِّ
پرچم کا خیال رکھنا۔وہ نہ جھکنے پائے اور نہ اکیال
ات فَِإنَّه أَطَْر ُد ِ َس َكن لِْل ُقلُ ِ ِ
رہنے پائے اسے صرف بہادر افراد اور عزت کے َص َو َ وب -وأَميتُوا األ ْ ل ْل َجأْ ِش وأ ْ ُ
ِ ِ ِ
پاسبانوں کے ہاتھ میں رکھنا کہ مصائب پر صبر کرنے وها
وها -واَل جَتْ َعلُ َ وها واَل خُت لُّ َ ل ْل َف َش ِل َ -
ور َايتَ ُك ْم فَاَل مُت يلُ َ
والے ہی پرچموں کے گرد جمع ہوتے ہیں اور داہنے ِ
بائیں آگے ' پیچھے ہرطرف سے گھیرا ڈال کر اس کا الذ َم َار ِمْن ُك ْم -فَِإ َّن ني ِّ ِِ ِ
إِاَّل بِأَيْدي ُش ْج َعان ُك ْم -والْ َمانع َ
تحفظ کرتے ہیں۔نہ اس سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ ين حَيُفُّو َن بَِرايَاهِتِ ْم َّ ِ ِِ
ين َعلَى نُُزول احْلََقائق ُ -ه ُم الذ َ
ِ َّ ِ
الصاب ِر َ
اسے دشمنوں کے حوالے کردیں اورنہ آگے بڑھ جاتے
وو َراءَ َها ،وأ ََم َام َها -اَل ِ ِ
ہیں کہ وہ تنہا رہ جائے۔ -ويَكْتَن ُفو َن َها ح َفا َفْي َها َ
دیکھو۔ہرشخص اپنے مقابل کا خود مقابلہ کرے اور اپنے ِ
بھائی کابھی ساتھ دے اورخبردار اپنے مقابلہ کو اپنے َّمو َن َعلَْي َها َفُي ْف ِر ُد َ
وها وها -واَل َيَت َقد ُ َخُرو َن َعْن َها َفيُ ْسل ُم َ َيتَأ َّ
ساتھی کے حوالہ نہ کردینا کہ اس پر یہ اور اس کا َخاه بَِن ْف ِسه -ومَلْ يَ ِك ْل قِْرنَه إِىَل وآسى أ َ
ِ
َجَزأَ ْامُر ٌؤ ق ْرنَه َ أْ
ساتھی دونوں مل کرحملہ کردیں۔ أ َِخيه َ -فيجتَ ِمع علَيه قِرنُه وقِر ُن أ ِ
خداکی قسم اگر تم دنیا کی تلوار سے بچ کر بھاگ بھی َخيه -وامْيُ اللَّه لَئِ ْن َْ َ َْ ْ ْ
نکلے تو آخرت کی تلوار سے بچ کر نہیں جاسکتے ہو۔ اآلخَر ِة - ف ِ اجلَ ِة -اَل تَسلَموا ِمن سْي ِ ف الْع ِ ِ ِ
پھر تم تو عرب کے جوانمردوں اور سربلند افراد ہو۔ ْ ُ ْ َ َفَر ْرمُتْ م ْن َسْي َ
تمہیں معلوم ہے کہ فرار میں خدا کا غضب بھی ہے کو َعظَ ُم -إِ َّن يِف الْ ِفَرا ِر والسنَ ُام األ ْ
ب َّ وأَْنتُم هَلَ ِاميم الْعر ِ
ْ ُ ََ
َم ْو ِج َد َة اللَّه
اور ہمیشہ کی ذلت بھی ہے۔فرار کرنے واال نہ اپنی عمر والذ َّل الاَّل ِزم والْعار الْباقِي -وإِ َّن الْ َف َّار لَغَير م ِز ٍ
يد يِف ُّ
میں اضافہ کر سکتا ہے اور نہ اپنے وقت کے درمیان ُْ َ َ ََ َ َ
حائل ہو سکتا ہے۔کون ہے جو ہلل کی طرف یوں جائے الرائِ ُح إِىَل اللَّه وبنْي َ َي ْو ِمه َ -م ِن َّ عُ ُم ِره -واَل حَمْ ُجو ٍز َبْينَه َ
جس طرح پیاسا ()1پانی کی طرف جاتا ہے۔جنت نیزوں آن ي ِرد الْماء -اجْل نَّةُ حَت ت أَطْر ِ َّ ِ
کے اطراف کے سایہ میں ہے آج ہر ایک کے حاالت کا اف الْ َع َوايِل -الَْي ْو َم َكالظ ْم َ ُ َ َ َ ْ َ َ
امتحان ہو جائے گا۔خدا کی قسم مجھے دشمنوں سے َخبَ ُار -واللَّه ألَنَا أَ ْش َو ُق إِىَل لَِقائِ ِه ْم ِمْن ُه ْم إِىَل ُتْبلَى األ ْ
جنگ کا اشتیاق اس سے زیادہ ہے جتنا انہیں اپنے
ِ ِ
گھروں کا اشتیاق ہے۔خدایا :یہ ظالم اگرحق کو رد کردیں اعَت ُه ْم - ض مَجَ َ ض ْ ديَا ِره ْم -اللَّ ُه َّم فَِإ ْن َر ُّدوا احْلَ َّق فَافْ ُ
توان کی جماعت کو پراگندہ کردے۔ان کے کلمہ کو متحد
اه ْم إِن َُّه ْم لَ ْن َيُزولُوا َع ْن ِ خِب وشت ِ
نہ ہونے دے۔ان کو ان کے کئے کی سزا دیدے کہ یہ اس ِّت َكل َمَت ُه ْم وأَبْس ْل ُه ْم َطَايَ ُ َ ْ
وضر ٍ ِ ِ ِ ٍ ِِ ِ
وقت تک اپنے موقف سے نہ ہٹیں گے جب تک نیزے ان ب يم ْ َ - َم َواقفه ْم ُ -دو َن طَ ْع ٍن د َراك خَي ُْر ُج مْن ُه ُم النَّس ُ
کے جسموں میں نسیم سحر کے راستے نہ بنا دیں اور السو ِ ِ ي ْفلِق اهْل ام وي ِط ِ
تلواریں ان کے سروں کو شگافتہ ' ہڈیوں کو چور چور اع َد واألَقْ َد َام - يح الْعظَ َام -ويُْند ُر َّ َ َ ُ ََ ُ ُ
اسر -ويُرمَجُوا بِالْ َكتَائِ ِ
ب ِ ِ ِِ
وحىَّت يُْر َم ْوا بالْ َمنَاسر َتْتَبعُ َها الْ َمنَ ُ
اور ہاتھ پیر کو شکستہ نہ بنادیں اور جب تک ان پر
لشکر کے بعد لشکر اورسپاہ کے بعد سپاہ حملہ آور نہ ہو ْ َ
يس َيْتلُوه ِ ِ ِ ِِ ِ
جائیں اور ان کے شہروں پر مسلسل فوجوں کی یلغار نہ وحىَّت جُيََّر بباَل ده ُم اخْلَم ُ بَ - وها احْلَاَل ئ ُ َت ْق ُف َ
ہو اور گھوڑے ان کی زمینوں کو آخرتک روند نہ ڈالیں اح ِر أ َْر ِض ِه ْم - ول يِف َنو ِ ِ
اور ان کی چراگاہوں اورسبزہ زاروں کو پامال نہ کردیں۔ وحىَّت تَ ْد َع َق اخْلُيُ ُ َ يس َ - اخْلَم ُ
وم َسا ِر ِح ِه ْم. ِ وبِأ ْ ِ
َعنَان َم َسارِهِب ْم َ
قال السيد الشريف أقول -الدعق الدق أي تدق اخليول
حبوافرها أرضهم -ونواحر أرضهم متقابالهتا -ويقال
ت تتقابل.
تش
قمنازل بين فالن تتناحر أي
ئ نئ ئ ندن ا صرف ض رور ات کی کم
ن ن ن ق
ے اور ب ڑے سے ہ ی گ ی ا ب ےت نل کے ل ی
خ ش ی ی ے۔ی ہہ الوہ کہی ں ہی ں ئ ے کہ ا سان خکی زن شدگی کی ہ ر گی کا عالج ج ن ت کے ع ہ ()1ح نی ت امر ی ہ
ت ن ت
ڑے ا سان کا صہ ب نھی اس کے واہ ات سے کم ر ے ورن ہ سارے روے زم ن ر حکومت کرے واال ب
ے اور دامان زمی ن می ں اس ھی اسف سے ب ی ر کا نواہ ش م درہ ت ا ہ ے کہ وہ اں ہ رخ واہ ی پ ہ ح ب
ے۔اب س اور لذت گاہ نکی س تکی ن کا سامان موج ود ہ ن ت ش ہ نالن ک ی ا گ ی ات
ن ارے میئ ں ی ہ اع
ے جس کے ب ئ ہ صرف ج ن ت
ے۔ی ہ ن ں ہ عت ہی ں
ت س سے زی ادہ کی و
ت ن
ے سا ھی نوں کو ا ت ن ت
ےےہ ت ے کہ ج ت لواروں کے سای ہ کےیچ س ک ہ کی طرف م وج ہ ک ی ا ہ ی ے۔موالے کا ات ے اپ ے کہ وہ ا ت ک ج اے کاراس ہ ک ی ا ہ سوال صف یتہ رہ ج ا ا ہ
ے کہ اسی راہ می ں ہ ر ج ذب ہ دل کی سکی ن کا سامان پ ای ا ج ا ا طرف اس طرح بڑھو جس طرح پ ی اسا پ ا ی کی طرف بڑھت ا ہ دان ج ہاد کی ن ئ ٰذا ہل ے ہاد دان
ب
م
ت ی ش ہ ج اور اس کا راس ہ خصرف ی ن
م
ے۔ ے اور پ ھر دی ن دا کی سر بل دی سے ب اال ر کو ی رف ھی ہی ں ہ ہ
()125 ()125
(آپ کا ارشاد گرامی) عليهالسالم ومن كالم له
(تحکیم کے بارے میں ۔حکمین کی داستان سننے کے
بعد) في التحكيموذلك بعد سماعه ألمر الحكمين
یاد رکھو! ہم نے افراد کوحکم نہیں بنایا تھا بلکہ قرآن کو الر َج َال -وإِمَّنَا َح َّك ْمنَا الْ ُق ْرآ َن َه َذا الْ ُق ْرآ ُن - إِنَّا مَلْ حُنَ ِّك ِم ِّ
حکم قراردیا تھا اور قرآن وہی کتاب ہے جو دو دفینوں
َّفَت ِ -اَل يْن ِطق بِلِس ٍ إِمَّنَا ُه َو َخ ٍّ
کے درمیان موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ خود ان واَل َ ُ َ ور َبنْي َ الد َّ نْي
ط َم ْسطُ ٌ
ان -وإِمَّنَا َيْن ِط ُق َعْنه ِّ ب َّد لَه ِمن َترمُج ٍ
نہیں بولتاہے اور اسے ترجمان کی ضرورت ہوتی ہے
اور ترجمان افراد ہی ہوتے ہیں ۔اس قوم نے ہمیں دعوت
ال -ولَ َّما َد َعانَا الر َج ُ ْ ْ َ ُ
دی کہ ہم قرآن سے فیصلہ کرائیں تو ہم تو قرآن سے رو الْ َق ْو ُم -إىَل أَ ْن حُنَ ِّك َم َبْيَننَا الْ ُق ْرآ َن -مَلْ نَ ُك ِن الْ َف ِر َ
يق
گردانی کرنے والے نہیں تھے جب کہ پروردگار نے
اب اللَّه ُسْب َحانَه وَت َعاىَل -وقَ ْد قَ َ َّ
ال الله فرمادیا ہے کہ اپنے اختالفات کوخدا اور رسول کی
الْمَتويِّل َ -عن كِتَ ِ
ْ َُ َ
والرس ِ ِ ٍ ِ
ناز ْعتُ ْم يِف َش ْيء َفُر ُّدوه إىَل اهلل َّ ُ
ول) طرف موڑو دواورخدا کی طرف موڑنے کا مطلب اس
کی کتاب سے فیصلہ کرانا ہے اور رسول (ص) کی
ُسْب َحانَه ( -فَإ ْن تَ َ
الرس ِ ِ ِِ ِ ِ
طرف موڑنے کا مقصد بھی سنت کا اتباع کرنا ہے اور ول أَ ْن ور ُّده إىَل َّ ُ َ -فَر ُّده إىَل اللَّه أَ ْن حَنْ ُك َم بكتَابه َ -
یہ طے ہے کہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ
اب اللَّه -فنحن الص ْد ِق يِف كِتَ ِ نَأْ ُخ َذ بِ ُسنَّتِه -فَِإ َذا ُح ِك َم بِ ِّ
ََ ْ ُ فیصلہ کیا جائے تو اس کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی
َّاس بِه -وإِ ْن ح ِكم بِسن َِّة رس ِ
ول اللَّه َح ُّق الن ِ
اولی و
ہیں اور اسی طرح سنت پیغمبر کے لئے سب سے ٰ ُ َ ُ َُ أَ
اقرب ہم ہی ہیں۔اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے تحکیم کی
مہلت کیوں()1دی؟ تو اس کا راز یہ ہے کہ میں چاہتا تھا َّاس وأ َْواَل ُه ْم هِبَا - َح ُّق الن ِصلىهللاعليهوآلهوسلمَ -فنَ ْح ُن أ َ
كي ِم کہ بے خبر با خبر ہو جائے وأ ََّما َقولُ ُكم -مِل جع ْلت بينك وبينهم أَجاًل يِف التَّح ِ
ْ ْ ْ َ َ َ َ َْ َ َ َْ َ ُ ْ َ
-فَِإمَّنَا َفع ْلت ت َذلِك لِيتبنَّي اجْل ِ
اه ُل -
ت َ ُ َ َََ َ َ
الع حاصل فکرلی ں اور ج و ل کی اط ے دون وں اف راد کو ا ک فسال کی مہلت دی ھی ت اکہ اس دوران ن ا واق ف اف راد حق و اط تت ئ ف ن
( )1ق ح رت ے حکی م کا ی صلہ کر حقے ہ و
ض
ئ ش ب ئ خ ی ن
م اص کی مکئاری نکا کار ہ و ج ف ہ ے بتر ات راد پہل
تا ی ں۔ گر اکھسوس یئہ ہ
ے ت ی مرحلہ می نں قگمراہ ہ و ج ا ی ی صں اور عبمر و ع ن ن ے ق کرلی فں۔ایسا ہ ہ و کرب کسی م دار می ں حقفسےضآگاہ ہ ی تں وہ مزی د ن ی ق
ے ت ی ار ہی ں ہ وے ہ ی ں اور لی ہ و ی ے کے ل ے اد کے لوں کو ھی ما ے ہ ی ں اور اپ ے ع ل و کر تکو نہ ئر ای ک سے ب اال ر صور کر ےتہ ی ں ج و ا تپ ئ ے ا راد رور رہ
کہ ہ ر دور می ں ایس
ے؟ ہ ت ی ی ح ا ک کی ن ید عالم ا امام ب ا و ے ا
ی یہ گ ا ک و ا ر ب ایسا ھ سا ے کہ ج ب امام کے ب ات ہ
ی ث ی
اورباخبرتحقیق کرلے کہ شائد پروردگار اس وقفہ میں
صلِ َح يِف َه ِذه اهْلُْدنَِة -أ َْمَر مِل
امت کے امور کی اصالح کردے اور اس کا گال نہ ت الْ َعا ُ -ولَ َع َّل اللَّه أَ ْن يُ ْ ويتَثَبَّ َ
َ
گھونٹا جائے کہ تحقیق حق سے پہلے گمراہی کے پہلے َه ِذه األ َُّم ِة -واَل ُت ْؤ َخ َذ بِأَ ْكظَ ِام َها َ -فَت ْع َجل َع ْن َتَبنُّي ِ
ہی مرحلہ میں بھٹک جائے۔اوریاد رکھو کہ پروردگار َ
َّ ِ ضل الن ِ ِ ِ
کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جسے حق پر عملدار َّاس عْن َد الله - احْلَ ِّق -و َتْن َق َاد أل ََّول الْغَ ِّي -إ َّن أَفْ َ َ
آمد کرنا (چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو)باطل پر صه و َكَرثَه ِم َن ب إِلَْيه -وإِ ْن َن َق َ َح َّ ِ
َم ْن َكا َن الْ َع َم ُل باحْلَ ِّق أ َ
عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہو( چاہے اس میں فائدہ
وز َاده -فَأَيْ َن يُتَاه بِ ُك ْم - ِ ِ
ہی کیوں نہ ہو) تو آخر تمہیں کدھر لے جایا جا رہا ہے الْبَاط ِل -وإِ ْن َجَّر إِلَْيه فَائ َدةً َ
استَعِدُّوا لِْل َم ِس ِري إِىَل َق ْوٍم َحيَ َارى َ -ع ِن ِ ِ
اور تمہارے پاس شیطان کدھر سے آگیا ہے۔دیکھو اس
قوم سے جہاد کے لئے تیار ہو جائو جو حق کے معاملہ وم ْن أَيْ َن أُتيتُ ْم ْ -
میں اس طرح سرگرداں ہے کہ اسے کچھ دکھائی ہی ني بِاجْلَ ْو ِر اَل َي ْع ِدلُو َن بِه - صرونَه -وم ِ
وزع َ ُ َ ِ
احْلَ ِّق اَل يُْب ُ
نہیں دیتا ہے اورباطل پر اس طرح اتارو کردی گئی ہے
ب َع ِن الطَِّر ِيق َ -ما أَْنتُ ْم بَِوثِي َق ٍة اب -نُ ُك ٍ ج َف ٍاة َع ِن الْ ِكتَ ِ
کہ سیدھے راستہ پر آنا ہی نہیں چاہتی ہے۔یہ کتاب ُ
خداسے الگ اور راہ حق سے منحرف ہیں مگر تم بھی َّاش
س ُحش ُ ِ ي ْعلَ ُق هِبَا -واَل َزوافِ ِر ِعٍّز ي ْعتَ َ ِ
قابل اعتماد افراد اور الئق تمسک شرف کے پاسبان نہیں ص ُم إلَْي َها -لَبْئ َ ُ َ ُ
يت ِمْن ُك ْم َبْرحاً ِ ب أَْنتُ ْم -أ ٍّ نَا ِر احْل ر ِ
ہو۔تم آتش جنگ کے بھڑکانے کا بد ترین ذریعہ ہو۔تم پر ُف لَ ُك ْم -لََق ْد لَق ُ َْ
حیف ہے میں نے تم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔تمہیں
َحَر ُار ِص ْد ٍق ِعْن َد ِ ِ
علی االعالن بھی پکارا ہے اورآہستہ بھی سمجھایا ہے وي ْوماً أُنَاجي ُك ْم -فَاَل أ ْ َي ْوماً أُنَادي ُك ْم َ -
لیکن تم نہ آواز جنگ پر سچے شریف ثابت ہوئے اور َّج ِاء . ٍِ ِ ِ
ِّداء -واَل إ ْخ َوا ُن ث َقة عْن َد الن َ
الن ِ
َ
نہ راز داری پر قابل اعتماد ساتھی نکلے۔
()126 ()126
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(جب عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا) لما عوتب على التسوية في العطاء
کیاتم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن
أَتَأْمرويِّن أَ ْن أَطْلُب الن ِ ِ ِ
رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں يم ْن ُولِّ ُ
يت َعلَْيه - َّصَر باجْلَ ْور -ف َ
َ ْ ُُ
ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔خدا
کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک
الس َم ِاء وما أ ََّم جَنْ ٌم يِف َّ ِ
ور به َما مَسََر مَس ريٌ َ -
واللَّه اَل أَطُ ِ
ُ
ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز ف وإِمَّنَا ت َبْيَن ُه ْم -فَ َكْي َ ال يِل لَ َس َّويْ ُ
جَنْماً -لَ ْو َكا َن الْ َم ُ
نہیں ہوسکتا ہے۔یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں
برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خداہے اور ال اللَّه -أَاَل وإِ َّن إِ ْعطَاءَ الْ َم ِال يِف َغرْيِ َحقِّه َتْب ِذ ٌير ال َم ُالْ َم ُ
یادرکھو کہ مال کا نا حق عطا کردینا بھی اسراف اور ضعُه يِف احبَه يِف ُّ اف -وهو يرفَع ص ِ وإِ ْسَر ٌ
فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اوریہ کام انسان کو دنیا
الد ْنيَا -ويَ َ ُ َ َْ ُ َ
ِ ِ
میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔ َّاس ويُِهينُه عْن َد اللَّه -ومَلْ يَ َ
ض ِع اآلخَر ِة -ويُ ْك ِر ُمه يِف الن ِ
لوگوں میں محترم بھی بنادیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں
پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو نا
ْامُر ٌؤ َمالَه يِف َغرْيِ َحقِّه واَل ِعْن َد َغرْيِ أ َْهلِه -إِاَّل َحَر َمه اللَّه
ت بِه الن َّْع ُل َي ْوماً ِ
حق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کے ُشكَْر ُه ْم -و َكا َن لغَرْيِ ه ُو ُّد ُه ْم -فَِإ ْن َزلَّ ْ
شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اس کی محبت
کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے ۔پھر اگرکسی اج إِىَل َمعُونَتِ ِه ْم فَ َشُّر َخلِ ٍيل -وأَأل َُم َخ ِدي ٍن ! احتَ َ -فَ ْ
دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتا ج ہوگیا
تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ()127
ہیں۔ عليهالسالم ومن كالم له
()127
وفيه يبين بعض أحكام الدين ويكشف للخوارج
آپ کا ارشاد گرامی
الشبهة وينقض حكم الحكمين
(جس میں بعض احکام 2دین کے بیان کے ساتھ خوارج
کے شبہات کا ازالہ 2اورحکمین کے توڑ کا فیصلہ بیان ت -فَلِ َموضلَْل ُ
ت َ فَِإ ْن أ ََبْيتُ ْم إِاَّل أَ ْن َت ْزعُ ُموا أَيِّن أ ْ
َخطَأْ ُ
کیا گیا ہے) ِ ٍ
اگر تمہارااصرار اسی بات پرہےکہ مجھےخطاکاراور ضاَل يِل -ضلِّلُو َن َع َّامةَ أ َُّمة حُمَ َّمد صلىهللاعليهوآلهوسلم بِ َ تُ َ
گمراہ قرار دو تو ساری امت پیغمبر (ص) کو کیوں خطا وتَأْ ُخ ُذو َن ُه ْم خِب َطَئِي -
کار قراردےرہےہواور میری'' غلطی '' کا مواخذہ ان
سے کیوں کر
ِِ
وتُ َكفُِّرو َن ُه ْم بِ ُذنُويِب ُ -سيُوفُ ُك ْم َعلَى َع َواتق ُك ْم -تَ َ
رہے ہو اور میرے ''گناہ '' کی بناپر انہیں کیوں کافر
ضعُو َن َها
قرار دے رہے ہو۔تمہاری تلواریں تمہارے کاندھوں پر
رکھی ہیں جہاں چاہتے ہو خطا ' بے خطا چالدیتے ہو ب ِ
ب َ ْن مَلْ يُ ْذن ْ
والس ْق ِم -وخَت ْلِطُو َن من أَ ْذنَ مِب
َْ َ اض َع الُْب ْر ِء ُّ مو ِ
ََ
اور گناہ گار اوربے گناہ میں کوئی فرق نہیں کرتے ہو ِ
حاالنکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (ص) نے زنائے ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َر َج َم َن َر ُس َ -وقَ ْد َعل ْمتُ ْم أ َّ
صلَّى َعلَْيه مُثَّ َو َّرثَه أ َْهلَه -و َقتَ َل ص َن -مُثَّ َ الزايِن َ الْ ُم ْح َ
محضہ کے مجرم کو سنگسار کیا تواس کی نمازجنازہ َّ
بھی پڑھی تھی اور اس کے اہل کو وارث بھی قرار دیا
تھا۔اور اسی طرح قاتل کو قتل کیا تو اس کی میراث بھی وجلَ َد َّ يِن
الزا َ السا ِر َق َ ث ِم َرياثَه أ َْهلَه -وقَطَ َع َّ وو َّر َ ِ
الْ َقات َل َ
تقسیم کی اور چور کے ہاتھ کاٹے یا غیر شادی شدہ زنا
ص ِن -مُثَّ قَ َس َم َعلَْي ِه َما ِم َن الْ َف ْي ِء ونَ َك َحا َغْيَر الْ ُم ْح َ
کار کو کوڑے لگوائے تو انہیں مال غنیمت میں حصہ
ول اللَّهَخ َذ ُه ْم َر ُس ُ ِ ِ
بھی دیا اور ان کا مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کرایا الْ ُم ْسل َمات -فَأ َ
گویا کہ آپ نے ان کے گناہوں کا مواخذہ کیا اور ان کے ِ هِبِ
بارے میں حق خداکو قائم کیا لیکن اسالم میں ان کے صلىهللاعليهوآلهوسلمبِ ُذنُو ْم -وأَقَ َام َح َّق اللَّه في ِه ْم -ومَلْ
ِج أَمْسَاء ُهم ِم ْن َبنْي ِ ِ ِ
مَيَْن ْع ُه ْم َس ْه َم ُه ْم م َن ا ِإل ْساَل م -ومَلْ خُيْر ْ َ ْ
حصہ کو نہیں روکا اور نہ ان کے نام کواہل اسالم کی
فہرست سے خارج کیا۔مگر تم بد ترین افراد ہو کہ شیطان
تمہارے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتا ہے وم ْن َر َمى بِه الشَّْيطَا ُن َّاس َ - أ َْهلِه -مُثَّ أَْنتُ ْم ِشَر ُار الن ِ
اورتمہیں صحرائے ضاللت میں ڈال دیتا ہے اور عنقریب بان -حُمِ ٌّ ك يِف َّ ِصْن َف ِ ِ مر ِاميه وضر ِ ِ
میرے بارے میں دو طرح کے افراد گمراہ ہوں گے۔ وسَي ْهل ُب به ت َيهه َ - ََ َ ََ َ
ض ُم ْف ِر ٌط ب إِىَل َغ ِ احْل ِّق ِ - ب بِه احْلُ ُّ ِ
محبت میں غلو کرنے والے جنہیں محبت غیرحق کی ومْبغ ٌ ُ رْي َ ُم ْفر ٌط يَ ْذ َه ُ
طرف لے جائے گی اور عداوت میں زیادتی کرنے والے
جنہیں عداوت باطل کی طرف کھینچ لے جائے گی۔ َّاس يِف َّ َحااًل
وخْيُر الن ِ ض إِىَل َغرْيِ احْلَ ِّق َ - ب بِه الُْب ْغ ُ يَ ْذ َه ُ
اوربہترین افراد وہ ہوں گے جو درمیانی منزل پر ہوں َعظَ َم -فَِإ َّن الس َو َاد األ ْ
ط فَالَْز ُموه -والَْز ُموا َّ ط األ َْو َس ُ َّم ُالن َ
ل ٰہذا تم بھی اسی راستہ کو اختیار کرو اور اسی نظر یہ
کی جماعت کے ساتھ ہو جائو کہ ہللا کاہاتھ اسی جماعت اع ِة -وإِيَّا ُك ْم والْ ُف ْرقَةَ! يَ َد اللَّه َم َع اجْلَ َم َ
کے ساتھ ہے اورخبردارتفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو
ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے
وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس طرح گلہ
َن الشَّاذَّ ِم َن الْغَنَ ِم َّاس لِلشَّيطَ ِ ِ
سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑئیے کی نذر ہوجاتی
ان َ -ك َما أ َّ فَِإ َّن الشَّاذَّ م َن الن ِ ْ
ہے۔آگاہ ہو جائو کہ جو بھی اس انحراف کا نعرہ لگائے ِّعا ِر فَا ْقُتلُوه -ولَ ْو َكا َن ب .أَاَل َم ْن َد َعا إِىَل َه َذا الش َ لذئْ ِلِ ِّ
اسے قتل کردو چاہے وہ میرے ہی عمامہ کے نیچے
ِِ ِ حَتْ ِ
کیوں نہ ہو۔ ان دونوں افراد کو حکم بنایا گیا تھا تاکہ ان َحيَات ع َم َاميِت َهذه -فَِإمَّنَا ُح ِّك َم احْلَ َك َمان ليُ ْحيِيَا َما أ ْ َ
امور کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور ان ات الْ ُق ْرآ ُن -وإِ ْحيَ ُاؤه ااِل ْجتِ َماعُ َعلَْيه ِ
الْ ُق ْرآ ُن -ومُي يتَا َما أ ََم َ
امور کو مردہ بنادیں جنہیں قرآن نے مردہ بنا دیا ہے اور
زندہکرنے کے معنی اس پر اتفاق کرنے اورمردہ بنانے اه ْماق َعْنه -فَِإ ْن َجَّرنَا الْ ُق ْرآ ُن إِلَْي ِه ُم اتََّب ْعنَ ُ -وإِ َماَتتُه ااِل فْرِت َ ُ
کے معنی اس سے الگ ہو جانے کے ہیں۔ہم اس بات پر
آت اَل أَبَا لَ ُك ْم جُبْراً - -وإِ ْن جَّرهم إِلَينَا اتَّبعونَا َ -فلَم ِ
تیار تھے کہ اگر قرآن ہمیں دشمن کی طرف کھینچ لے ْ َ ُ ْ ْ َُ
جائے گا تو ہم ان کا اتباع کرلیں گے اور اگر انہیں واَل َخَت ْلتُ ُك ْم َع ْن أ َْم ِر ُك ْم -واَل لَبَّ ْستُه َعلَْي ُك ْم -إِمَّنَا
ہماری طرف لے آئے گا تو انہیں آنا پڑے گا لیکن خدا
َخ ْذنَا َعلَْي ِه َما اجتَمع رأْي ملَئِ ُكم علَى ِ
تمہارا برا کرے۔اس بات میںمیں نے کوئی غلط کام تو اختيَا ِر َر ُجلَنْي ِ -أ َ ْ ََ َ ُ َ ْ َ ْ
نہیں کیا اور نہ تمہیں کوئی دھوکہ دیا ہے۔اور نہ کسی صَرانِه - أَاَّل يَتعدَّيا الْ ُقرآ َن َفتَاها عْنه -وَتر َكا احْل َّق ومُه ا يب ِ
َ َ َ ُْ َ َ ََ َ ْ
بات کو شبہ میں رکھا ہے۔لیکن تمہاری جماعت نے
دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا اورمیں نے ان پر استِْثنَ ُاؤنَا
ضيَا َعلَْيه -وقَ ْد َسبَ َق ْ و َكا َن اجْلَ ْو ُر َه َوامُهَا فَ َم َ
والص ْم ِد لِْل َح ِّق ُسوءَ َرأْيِ ِه َما وم ِة بِالْ َع ْد ِل َّ -
شرط لگا دی کہ قرآن کے حدود سے تجاوز نہیں کریں
گے مگر وہ دونوں قرآن سے منحرف ہوگئے اورحق کو َعلَْي ِه َما يِف احْلُ ُك َ
دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا اور اصل بات یہ ہے کہ وجور حك ِ
ْم ِه َما.
ان کا مقصد ہی ظلم تھا اوروہ اسی راستہ پرچلے گئے
ََْ ُ
جب کہ میں نے ان کی غلط رائے اورظالمانہ فیصلہ سے ()128
پہلے ہی فیصلہ میں عدالت اور ارادہ حق کی شرط
لگادی تھی۔ عليهالسالم ومن كالم له
()128 فيما يخبر به عن المالحم بالبصرة
آپ کا ارشادگرامی
(بصرہ کے حوادث کی خبر دیتے ہوئے )
اے()1احنف ! گویا کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا ہوں ش -الَّ ِذي اَل يَ ُكو ُن لَه ف َكأَيِّن بِه وقَ ْد َس َار بِاجْلَْي ِ َحنَ ُ
يَا أ ْ
جو ایک ایسا لشکر لے کر آیا ہے جس میں نہ گردو غبار
ہے اور نہ شورو غوغا ۔نہ لجاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے ب -واَل َق ْع َق َعةُ جُلُ ٍم واَل مَحْ َح َمةُ َخْي ٍل - غُبَ ٌار واَل جَلَ ٌ
اور نہ گھوڑوں کی ہنہناہٹ ۔یہ زمین کو اسی طرح روند
َّع ِام. ِ ِ
رہے ہیں جس طرح شتر مرغ کے پیر۔ ض بِأَقْ َدام ِه ْم َ -كأَن ََّها أَقْ َد ُام الن َ
يُثريُو َن األ َْر َ
سید رضی :حضرت نے اس خبر میں صاحب زنج کی قال الشريف يومئ بذلك إىل صاحب الزنج.
طرف اشارہ کیا ہے( جس کا نام علی بن محمد تھااور اس
نے 225ھ میں بصرہ میں غالموں کو مالکوں کے خالف مُثَّ قَ َال عليهالسالم َ -ويْ ٌل لِ ِس َك ِك ُك ُم الْ َع ِامَر ِة والدُّو ِر
ِ الْمزخرفَِة -الَّيِت هَل ا أَجنِحةٌ َكأ ِ ِ
ُّسو ِر َ -
متحد کیا اور ہر غالم سے اس کے مالک کو 500کوڑے يم
لگوائے ۔ وخَراط ُ َجن َحة الن ُ ْ َ ْ َ َُ ْ َ
افسوس ہے تمہاری آباد گلیوں اور ان سجے سجائے َكخر ِ
اطي ِم ََ
مکانات کے حال پر جن کے چھجے گدوں کے پر اور الْ ِفيلَ ِة ِ -من أُولَئِ َّ ِ
ہاتھیوں کے سونڈ کے مانند ہے ان لوگوں کی طرف سے ب قَتِيلُ ُه ْم -واَل يُ ْف َق ُد ين اَل يُْن َد ُ
ك الذ َ َ ْ َ
جن کے مقتول پر گریہ نہیں کیاجاتا ہے اور ان کے ِ ِ
الد ْنيَا ل َو ْج ِه َها -وقَاد ُر َها بَِق ْد ِر َها َغائُِب ُه ْم -أَنَا َك ُّ
اب ُّ
غائب کو تالش نہیں کیا جاتا ہے۔میں دنیا کو منہ کے بھل
اوندھا کر دینے واال اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے اظُر َها بِ َعْينِ َها.
ونَ ِ
واال اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے
دیکھنے واال ہوں۔ منه في وصف األتراك
(ترکوں کے بارے میں ) وه ُه ُم الْ َم َج ُّ
ان الْ ُمطََّرقَةُ) - َكأَيِّن أ ََر ُاه ْم َق ْوماً – ( َكأ َّ
َن ُو ُج َ
میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جن کے چہرہ
چمڑے سے منڈھی ڈھال کے مانند ہیں۔ریشم و دیبا کے اق - وي ْعتَ ِقبُو َن اخْلَْي َل الْعِتَ َ
اج َ -السَر َق والدِّيبَ َ
َيْلبَ ُسو َن َّ
ِ اك ِ
است ْحَر ُار َقْت ٍل َ -حىَّت مَيْش َي الْ َم ْجُر ُ
وح َعلَى ويَ ُكو ُن ُهنَ َ ْ
لباس پہنتے ہیں اور بہترین اصیل گھوڑوں سے محبت
رکھتے ہیں۔ان کے درمیان عنقریب قتل کی گرم بازاری
ول - الْ تم ْقتُ ِ
گزریں گے
ن ق ق مقتول کے اوپر سے
ق
جہاں زخمی
ن
ہوگی ن ن خ ن ق َ
ے عال ہ می ں ام ن جم م
اکرم (ص) کیت زیشارت ہی ںئکی گر اسالم خ بول ک ی ا اورج گ ل کے مو ع پر اپ رسول
ئ ے ہوں ےج ف ہ طاب سے سی نتب ف ح ا سردار
ف کے
ن ( 1ن)ب نی می م ف
ن ئ ن م
ے اور پ ھر ج گ ص ی ن می ں موالے کا ات کے سا ھ ری ک ہ وگ
ے اور ج ہاد راہ داکا حق ادا کردی ا المو ی ن کے ت وں کا د اع کرے رہ
اوراب بھاگنے والے قیدیوں سے کم ہوں گے ( یہ
ت أَقَ َّل ِم َن الْ َمأْ ُسو ِر. ِ
تاتاریوں کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے جہاں چنگیز خاں ويَ ُكو َن الْ ُم ْفل ُ
ِِ ِ ِ
اور اس کی قوم نے تمام اسالمی ملکوں کو تباہ و برباد ني
يت يَا أَم َري الْ ُم ْؤمن َ َص َحابِه -لََق ْد أ ُْعط َ ضأ ْ َف َق َال لَه َب ْع ُ
کردیا اور کتے' سور کو اپنی غذا بنا کر ایسے حملے
کئے کہ شہروں کو خاک میں مال دیا) یہ سن کر ایک ك عليهالسالم وقَ َال لِ َّلر ُج ِل و َكا َن ض ِح َ ب -فَ َ ِع ْلم الْغَْي ِ
َ
شخص نے کہا کہ آپ تو علم غیب کی باتیں کر رہے ہیں َك ْلبِيّاً.
تو آپ نے مسکرا کر اس کلبی شخص سے فرمایا اے
برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ صاحب علم سے ب -وإِمَّنَا ُه َو َت َعلُّ ٌم ِم ْن ِذي ب لَْيس ُهو بِعِْل ِم َغْي ٍ
َ َ
َخا َك ْل ٍ يَا أ َ
تعلم ہے۔علم غیب قیامت کا اور ان چیزوں کا علم ہے جن
َّده اللَّه الس ِ ِع ْل ٍم -وإِمَّنَا ِع ْلم الْغَي ِ ِ
کو خدانے قرآن مجید میں شمار کردیا ہے کہ ہللا کے وما َعد َ اعة َ - ب ع ْل ُم َّ َ ُ ْ
پاس قیامت کا علم ہے اور بارش کابرسانے واال وہی ہے اعة -ويَُنِّز ُل ِ ُسْب َحانَه بَِق ْولِه – (إِ َّن اهلل عْن َده ع ْل ُم َّ
الس َ
ِ ِ
اور پیٹ میں پلنے والے بچہ کا مقدر وہی جانتا ہے۔اس
س ما ذا ِ ِ يِف
کے عالوہ کسی کو نہیں معلوم ہے کہ کل کیا کمائے گا وي ْعلَ ُم ما األ َْرحام -وما تَ ْدري َن ْف ٌ ث َ الْغَْي َ
وت) اآليَةَ - س بِأ ِّ
َي أ َْر ٍ ِ ِ
ض مَتُ ُ ب َغداً -وما تَ ْدري َن ْف ٌ تَكْس ُ
اور کس سر زمین پرموت آئے گی۔ پروردگار جانتا ہے
کہ رحم کا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی حسین ہے یا قبیح' سخی
ہے یا بخیل' شقی ہے یا سعید' کون جہنم کا کندہ بن جائے َفَي ْعلَ ُم اللَّه ُسْب َحانَه َما يِف األ َْر َح ِام ِ -م ْن ذَ َك ٍر أ َْو أُْنثَى
يح أَو مَجِ ٍيل -وس ِخي أَو خَبِ ٍيل -وش ِقي أَو سعِ ٍ
وقَبِ ٍ ْ
گا اور کون جنت میں ابنیاء کرام کا ہمنشین ہوگا۔یہ وہ علم يد - َ ٍّ ْ َ َ ٍّ ْ
غیب ہے جسے خدا کے عالوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔اس
کے عالوہ جو بھی علم ہے وہ ایسا علم ہے جسے ہللا نے ني ُمَرافِقاً - ِ ِِ
وم ْن يَ ُكو ُن يِف النَّا ِر َحطَباً -أ َْو يِف اجْل نَان للنَّبِيِّ َ َ
پیغمبر (ص) کو تعلیم دیا ہے اور انہوں نے مجھے اس ِ ِ ِ
ب الَّذي اَل ي ْعلَمه أ ِ َف َه َذا ع ْلم الْغَْي ِ
کی تعلیم دی ہے اورمیرے حق میں دعا کی ہے کہ میرا وما س َوى َح ٌد إاَّل اللَّه َ - َ ُ َ ُ
ِ ِ ِ َذلِ َ ِ
سینہ اسے محفوظ کرلے اور اس دل میں اسے محفوظ
کردے جومیرے پہلو میں ہے۔
ود َعا يِل بأَ ْن يَعيَه ك فَع ْل ٌم َ -علَّ َمه اللَّه نَبِيَّه َف َعلَّ َمنيه َ -
ضطَ َّم َعلَْيه َج َواحِنِ ي ص ْد ِري -وتَ ْ َ
()129 ()129
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(ناپ تول کے بارے میں )
ہللا کے بندو! تم اور جو کچھ اس دنیا سے توقع رکھتے
في ذكر المكاييل والموازين
ہو سب ایک مقررہ مدت کے مہمان ہیں اور ایسے وما تَأْ ُملُو َن ِ -م ْن َه ِذه ُّ
الد ْنيَا أَثْ ِويَاءُ
ِ
عبَ َاد اللَّه إنَّ ُك ْم َ
ِ
قرضدار ہیں جن سے قرضہ کامطالبہ ہو رہا ہو۔عمریں
وع َم ٌل مؤ َّجلُو َن ِ -
گھٹ رہی ہیں اور اعمال محفوظ کئے جا رہے ہیں۔کتنے وص َ - َج ٌل َمْن ُق ٌ ض ْو َن أ َومدينُو َن ُم ْقتَ َ َ َُ
دوڑ دھوپ کرنے والے ہیں جن کی محنت برباد ہو رہی اسٌر -وقَ ْد ب َك ِاد ٍح خ ِ ور َّ ب َدائِ ٍ
ہے اور کتنے کوشش کرنے والے ہیں جو مسلسل گھاٹے َ ضيَّ ٌع ُب ُم َ حَمْ ُفو ٌظ َ -فُر َّ
کاشکار ہیں تم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہو َصبَ ْحتُ ْم يِف َز َم ٍن اَل َي ْز َد ُاد اخْلَْيُر فِيه إِاَّل إِ ْدبَاراً -واَل الشَُّّر أْ
جس میں نیکی مسلسل منہ پھیر کر جا رہی ہے اور
َّاس إِاَّل طَ َمعاً - فِيه إِاَّل إِ ْقبَااًل -واَل الشَّْيطَا ُن يِف َهاَل ِك الن ِ
برائی برابر سامنے آرہی ہے۔شیطان لوگوں کو تباہ
کرنے کی ہوس میں لگا ہوا ہے۔اس کا سازو سامان يستُه يدتُه وأ َْم َكنَ ْ ِ
ت فَر َ ت َم ِك َ ت عُ َّدتُه َ -
وع َّم ْ َف َه َذا أ ََوا ٌن قَ ِويَ ْ
مستحکم ہو چکا ہے۔اس کی سازشیں عام ہو چکی ہیں
ِ ت ِم َن الن ِ ك حي ُ ِ ِ
اور اس کے شکار اس کے قابو میں ہیں۔تم جدھر چاہو صر إِاَّل
َّاس َ -ف َه ْل ُتْب ُ ث شْئ َ ب بِطَْرف َ َ ْ اض ِر ْ
ْ -
نگاہ اٹھا کر دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقر کی
َّل نِ ْع َمةَ اللَّه ُك ْفراً -أ َْو خَبِ ياًل فَِقرياً يُ َكابِ ُد َف ْقراً -أ َْو َغنِيّاً بَد َ
مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت
خدا کی نا شکری کی ہے اور اس بخیل کے جس نے َن بِأُذُنِه َع ْن مَسْ ِع اخَّتَ َذ الْبُ ْخ َل حِب َ ِّق اللَّه َوفْراً -أ َْو ُمتَ َمِّرداً َكأ َّ
حق خدا میں بخل ہی کو مال کے اضافہ کا ذریعہ بنا لیا
وصلَ َحا ُؤ ُك ْم -وأَيْ َن ِِ
ہے اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے َخيَ ُار ُك ْم ُ الْ َم َواعظ َوقْراً -أَيْ َن أ ْ
لئے بہترے ہوگئے ہیں اور کچھ نظرنہیں آئے گا۔کہاں اسبِ ِه ْم - أَحرار ُكم ومُس حا ُؤ ُكم -وأَين الْمَتو ِّرعو َن يِف م َك ِ
َ َْ ُ َ ُ َْ ُ ْ َ َ ْ
چلے گئے وہ نیک اور صالح بندے اور کدھر ہیں وہ
س قَ ْد ظَ َعنُوا مَجِ يعاً َ -ع ْن ِِ ِ يِف
شریف اور کریم النفس لوگ ۔کہاں ہیں وہ افراد جو کسب والْ ُمَتَنِّز ُهو َن َم َذاهبه ْم -أَلَْي َ
معاش میں احتیاط برتنے والے تھے اور راستوں میں َه ِذه ُّ
الد ْنيَا الدَّنِيَّ ِة -
پاکیزہ راستہ اختیار کرنے والے تھے کیا سب کے سب
اس پست اور زندگی کو مکدربنا دینے والی دنیا سے نہیں
چلے گئے
وه ْل ُخلِ ْقتُ ْم إِاَّل يِف ُحثَالٍَة -اَل اجلَ ِة الْمَنغ ِ والْع ِ
اور کیا تمہیں ایسے افراد میں نہیں چھوڑ گئے جن کی
حقارت اور جن کے ذکر سے اعراض کی بنا پر ہونٹ ِّصة َ - ُ َ َ
ِ ِ
صغَاراً ل َق ْد ِره ْم و َذ َهاباً َع ْن ِ ِ َتْلتَ ِقي إِاَّل بِ َذ ِّم ِه ُم َّ
سوائے ان کی مذمت کے کسی بات کے لئے آپس میں است ْالش َفتَان ْ -
نہیں ملتے ہیں۔اناہلل وانا الیہ راجعون۔فساد اس قدر پھیل ِ ِ
چکا ہے کہ نہ کوئی حاالت کا بدلنے واالہے اور نہ ف «إِنَّا للَّه وإِنَّا إِلَْيه راجعُو َن» -ظَ َهَر الْ َف َس ُ
اد ِذ ْك ِر ِه ْم َ -
کوئی منع کرنے واال اور نہخود پر پرہیز کرنے واال ہے۔
تو کیا تم انہیں حاالت کے ذریعہ خدا کے مقدس جوارمیں
يدو َن أَ ْن فَاَل ُمْن ِكٌر ُمغَِّيٌر -واَل َز ِاجٌر ُم ْز َد ِجٌر -أَفَبِ َه َذا تُِر ُ
رہنا چاہیے ہو اوراس کے عزیز ترین دوست بننا چاہتے جُتَا ِو ُروا اللَّه يِف َدا ِر قُ ْد ِسه -وتَ ُكونُوا أ ََعَّز أ َْولِيَائِه ِعْن َده -
ہو۔افسوس ! ہللا کو جنت کے بارے میں دھوکہ نہیں دیا
جا سکتا ہے اور نہ اس کی مرضی کو اطاعت کے بغیر
ضاتُه إِاَّلال َم ْر َ ات اَل خُيْ َدعُ اللَّه َع ْن َجنَّتِه -واَل ُتنَ ُ َهْي َه َ
ِ ِ ِ بِطَ ِ
حاصل کیا جا سکتا ہے۔ہللا لعنت کرے ان لوگوں پر جو ني لَه - ين بِالْ َم ْعُروف التَّا ِرك َ اعته -لَ َع َن اللَّه اآلم ِر َ َ
دوسروں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود عمل نہیں ِِ ِ
کرتے ہیں ۔سماج کو برائیوں سے روکتے ہیں اور خود ني بِه. ني َع ِن الْ ُمْن َك ِر الْ َعامل َ
والنَّاه َ
انہیں میں مبتال ہیں۔
()130
()130
آپ کا ارشاد گرامی
عليهالسالم ومن كالم له
(جو آپ نے ابو ذر غفاری سے فرمایا جب انہیں ربذہ ألبي ذر رحمهاهلل -لما أخرج إلى الربذة
کی طرف شہر بدر کردیا گیا )
ابو ذر تمہارا غیظ و غضب ہللا کے لئے ہے ل ٰہذا اس سے
ت لَه -إِ َّن الْ َق ْو َم ِ ضب ِ يا أَبا َذ ٍّر إِن َ ِ
امید وابستہ رکھو جس کے لئے یہ غیظ و غضب اختیار ت للَّه فَ ْار ُج َم ْن َغضْب َ َّك َغ ْ َ َ َ
کیا ہے۔قوم کو تم سے اپنی دنیاکے بارے میں خطرہ تھا ِ ِ ِ
ك -فَا ْتر ْك يِف اه ْم وخ ْفَت ُه ْم َعلَى دين َ وك َعلَى ُد ْنيَ ُ َخافُ َ
اور تمہیں ان سے اپنے دین کے بارے میں خوف تھا ل ٰہذا ُ
جس کا انہیں خطرہ تھا وہ ان کے لئے چھوڑ دو اور جس ب ِمْن ُه ْم مِب َا ِخ ْفَت ُه ْم َعلَْيه -
واهُر ْ
وك َعلَْيه ْ - أَيْ ِدي ِه ْم َما َخافُ َ
کے لئے تمہیں خوف تھا اسے بچاکرنکل جائو۔یہ لوگ
بہر حال اس کے محتاج ہیں جس کو تم نے ان سے روکا َح َو َج ُه ْم إِىَل َما َمَن ْعَت ُه ْم -
فَ َما أ ْ
ہے
اورتم اس سے بہرحال بے نیاز ہو جس سے ان لوگوں
الرابِ ُح َغداً واألَ ْكَثُر
وسَت ْعلَ ُم َم ِن َّ
وك َ - اك َع َّما َمَنعُ َ وما أَ ْغنَ َ
َ
نے تمہیں محروم کیا ہے عنقریب یہ معلوم ہو جائے گا
کہ فائدہ میں کون رہا اور کس سے حسد کرنے والے ات واألَر ِضني َكا َنتا علَى عبدٍ ِ الس َم َاو
َن َّ ُح َّسداً -ولَ ْو أ َّ
َ َ َ َ َْ
زیادہ ہیں۔یاد رکھو کہ کسی بندہ خدا پر اگر زمین وآسمان
دونوں کے راستے بند ہوجائیں اور وہ تقوائے ٰالہی َرتْقاً -مُثَّ َّات َقى اللَّه جَلَ َع َل اللَّه لَه ِمْن ُه َما خَمَْرجاً -اَل
ِ َّك إِاَّل احْل ُّق -واَل ي ِ يُ ْؤنِ َسن َ
َّك إِاَّل الْبَاط ُل َ -فلَ ْو قَبِْل َ
ت وح َشن َ
اختیار کرلے تو ہللا اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ
ضرور نکال دے گا۔دیکھو تمہیں صرف حق سے انس ُ َ
اور باطل سے وحشت ہونی چاہیے تم اگر ان کی دنیا کو وك.ت ِمْن َها أل ََّمنُ َ ضَوك -ولَ ْو َقَر ْ َحبُّ َاه ْم أل َُد ْنيَ ُ
قبول کر لیتے تو یہ تم سے محبت کرتے اور اگردنیا میں
سے اپنا حصہ لے لیتے تو تمہاری طرف سے مطمئن ہو ()131
جاتے ۔
عليهالسالم ومن كالم له
()131
وفيه يبين سبب طلبه الحكم ويصف اإلمام الحق
آپ کا ارشاد گرامی
(جس میں اپنی حکومت طلبی کا سبب بیان فرمایا ہے
الن ُفوس الْمختلِ َفةُ والْ ُقلُوب الْمتشتِّتةُ -الش ِ
اور امام بر حق کے اوصاف کا تذکرہ کیا ہے ) َّاه َدةُ ُ َُ َ َ أَيَُّت َها ُّ ُ ُ ْ َ
اے وہ لوگو جن کے نفس مختلف ہیں اوردل متفرق۔بدن
حاضر ہیں اور عقلیں غائب ۔میں تمہیں مہرانی کے ساتھ أَبْ َدانُ ُه ْم والْغَائِبَةُ َعْن ُه ْم عُ ُقوهُلُ ْم -أَظْأ َُر ُك ْم َعلَى احْلَ ِّق -
حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کر تے ہو َس ِد - ِ ِ وأَْنتُم َتْن ِفرو َن عْنه نُ ُف ِ
ور الْم ْعَزى /م ْن َو ْع َو َعة األ ََ ْ ُ َ
جیسے شیر کی ڈرکار سے بکریاں۔افسوس تمہارے
ِ ِ ِ
ذریعہ عدل کی تاریکیوں کو کیسے روشن کیا جا سکتا يم ْاع ِو َج َ
اج ات أَ ْن أَطْلَ َع ب ُك ْم َسَر َار الْ َع ْدل -أ َْو أُق َ َهْي َه َ
َّك َت ْعلَ ُم -أَنَّه مَلْ يَ ُك ِن الَّ ِذي َكا َن ِمنَّا
ہے اور حق میں پیداہو جانے والی کجی کو کس طرح
سیدھا کیا جا سکتا ہے۔خدایا تو جانتا ہے کہ میں نے احْلَ ِّق -اللَّ ُه َّم إِن َ
ول احْلُطَ ِام ض ِ ٍِ ِ ٍ يِف
حکومت کے بارے میں جو اقدام کیا ہے اس میں نہ
اس َش ْيء م ْن فُ ُ ُمنَافَ َسةً ُس ْلطَان -واَل الْت َم َ
سلطنت کی اللچ تھی اور نہمالی دنیا کی تالش۔میرا مقصد
مِل ِ ِ
صرف یہ تھا کہ دین کے آثارکو ان کی منزل تک ك- -ولَ ِك ْن لنَ ِر َد الْ َم َعا َ ِم ْن دينِ َ
پہنچائوں
اور شہروں میں اصالح پیدا کردوں تاکہ مظلوم بندے ومو َن ِم ْن ِعبَ ِاد َك ِ ِ
صاَل َح يِف باَل د َك َ -فيَأْ َم َن الْ َمظْلُ ُ ونُظْ ِهَر ا ِإل ْ
محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔خدایا
ِ ِ
تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیریر طرف -و ُت َق َام الْ ُم َعطَّلَةُ م ْن ُح ُدود َك -اللَّ ُه َّم إِيِّن أ ََّو ُل َم ْن أَنَ َ
اب
رخ کیا ہے۔تیری آواز سنی ہے اوراسے قبول کیا ہے
اور تیری بندگی میں رسول اکرم (ص) کے عالوہ کسی ول اللَّه بِالصَّاَل ِة.اب -مَلْ يَ ْسبِ ْقيِن إِاَّل َر ُس ُ
َج َ
ِ
-ومَس َع وأ َ
نے بھی مجھ پرسبقت نہیں کی ہے۔ وج - وقَ ْد َعلِ ْمتُ ْم أَنَّه اَل َيْنبَغِي أَ ْن يَ ُكو َن الْ َوايِل َعلَى الْ ُفُر ِ
تم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوگوں کی آبرو۔ ان کی جان۔ان
ِ ِِ ِ مِن والد ِ
ٰ
منافع۔الہی احکام اور امامت مسلمین کاذمہ دار نہ کے يل - ني الْبَخ ُ َح َك ِام -وإِ َم َامة الْ ُم ْسلم َ ِّماء والْ َمغَا ِ واأل ْ َ
ضلَّ ُه ْم جِب َ ْهلِه - ِ هِلِ
کوئی بخیل ہو سکتا ہے کہ وہ اموال مسلمین پر ہمیشہ اهل َفي ِ
دانت لگائے رہے گا۔اور نہ کوئی جاہل ہوسکتا ہے کہ وہ َفتَ ُكو َن يِف أ َْم َوا ْم َن ْه َمتُه -واَل اجْلَ ُ ُ
اپنی جہالت سے لوگوں کو گمراہ کردے گا اور نہ کوئی َّخ َذ واَل اجْل ايِف َفي ْقطَعهم جِب َفائِه -واَل احْل ائِف لِلدُّو ِل َفيت ِ
بد اخالق ہو سکتا ہے کہ وہ بد اخالقی کے چر کے لگاتا
َ ُ َ َ َ َ َُ ْ َ
ب ِ ِ يِف ٍ
رہے گا اور نہ کوئی مالیات کابددیانت ہوسکتا ہے کہوہ َق ْوماً ُدو َن َق ْوم -واَل الْ ُم ْرتَشي احْلُ ْكم َ -فيَ ْذ َه َ
اط ِع -واَل الْ ُم َعطِّ ُل لِ ُّ
لسن َِّة وق -وي ِقف هِب ا دو َن الْم َق ِ بِاحْل ُق ِ
ایک کو مال دے گا اور ایک کومحروم کردے گا اورنہ
کوئی فیصلہ میں رشوت لینے واال ہو سکتا ہے کہ وہ َ َ َ ُ َ ُ
ك األ َُّمةَ. ِ
حقوق کو برباد کردے گا اور انہیں ان کی منزل تک نہ َفُي ْهل َ
پہنچنے دے گا اور نہ کوئی سنت کو معطل کرنے واال
ہوسکتا ہے کہ وہ امت کو ہالک و برباد کردے گا۔ ()132
()132 عليهالسالم ومن خطبة له
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
يعظ فيها ويزهد في الدنيا
(جس میں لوگوں کو نصیحت 2فرمائی ہے اور زہد کی
ترغیب دی ہے )
شکر ہے خدا کا اس پر بھی جو دیا ہے اور اس پر بھی حمد اللَّه
جولے لیا ہے ۔اس کے انعام پر بھی
َخ َذ وأ َْعطَى -
حَنْ َم ُده َعلَى َما أ َ
اور اس کے امتحان پربھی۔وہ ہر مخفی چیز کے اندر اضُراطن لِ ُك ِّل خ ِفيَّ ٍة -واحْل ِ ِ
کابھی علم رکھتا ہے اور ہر پوشیدہ امر کے لئے حاضر َ َ وابَتلَى – الْبَ ُ وعلَى َما أ َْبلَى ْ َ
بھی ہے۔دلوں کے اندر چھپے ہوئے اسرار اورآنکھوں وما خَتُو ُن الْعُيُو ُن
ور َ - الص ُد ُ لِ ُك ِّل َس ِر َير ٍة -الْ َعامِلُ مِب َا تُ ِك ُّن ُّ
َن حُمَ َّمداً جَنِيبُه وبَعِيثُه -
کی خیانت سب کو بخوبی جانتا ہے اورمیں اس بات کی
گواہی دیتا ہوں کہ اس کے عالوہ کوئی خدا نہیں ہے اور
-ونَ ْش َه ُد أَ ْن اَل إِلَه َغْيُره -وأ َّ
حضرت محمد (ص)اس کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور ب اللِّ َسا َن. َش َه َاد ًة يُ َوافِ ُق فِ َيها ِّ
السُّر ا ِإل ْعاَل َن والْ َق ْل ُ
اس گواہی میں باطن ظاہر سے اور دل زبان سے ہم آہنگ
ہے۔ عظة الناس
خدا کی قسم وہ شے جو حقیقت ہے اورکھیل تماشہ نہیں ِ ِ ِ ِ
ہے۔حق ہے اور جھوٹ نہیں ہے وہ صرف موت ہے
ب- ب -واحْلَ ُّق اَل الْ َكذ ُ ومنها :فَإنَّه واللَّه اجْل ُّد اَل اللَّع ُ
جس کے داعی نے اپنی آواز سب کو سنا دی ہے اورجس اعيه -وأ َْع َج َل َح ِاديه -فَاَل وما هو إِاَّل الْموت أَمْس ع د ِ
َْ ُ ََ َ َ َُ
کا ہنکانے واال جلدی مچائے ہوئے ہے ل ٰہذا خبردار ِ ِ
لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکہ میں نہ ڈال دے۔ ت َم ْن َكا َن ك -وقَ ْد َرأَيْ َ َّاس م ْن َن ْفس َ َّك َس َو ُاد الن َِيغَُّرن َ
ِ ِ َقبلَك -مِم َّن مَج ع الْم َال ِ
بوحذ َر ا ِإلقْاَل َل -وأَم َن الْ َع َواق َ
تم دیکھ چکے ہو کہ تم سے پہلے والوں نے مالک جمع
کیا۔افالس سے خوفزدہ رہے۔انجام سے بے خبر رہے۔ َ ْ ََ َ ْ َ
ول أَم ٍل ِ
صرف لمبی لمبی امیدوں اور موت کی تاخیر کے خیال ت فَأ َْز َع َجه ف َنَز َل بِه الْ َم ْو ُ َج ٍل َ -كْي َ واستْب َع َاد أ َ
طُ َ َ ْ
میں رہے اورایک مرتبہ موت نازل ہوگئی اور اس نے
َخ َذه ِم ْن َمأْ َمنِه -حَمْ ُمواًل َعلَى أ َْع َو ِاد الْ َمنَايَا ِ
َع ْن َوطَنه -وأ َ
انہیں وطن سے بے وطن کردیا ۔محفوظ مقامات سے
گرفتار کرلیا اور تابوت پر اٹھوادیا جہاں لوگ کاندھوں ب- الر َج َال -مَحْاًل َعلَى الْمنَاكِ ِ ال ِّ َ -يَت َعاطَى بِه ِّ
الر َج ُ
َ
پر اٹھائے ہوئے۔انگلیوں کاسہارا دئیے ہوئے ایک َّ ِ
دوسرے کے حوالے کر رہے تھے۔کیاتم نے ان لوگوں ين يَأْ ُملُو َن بَعِيداً - ِ ِ
وإ ْم َساكاً باألَنَام ِل -أ ََما َرأ َْيتُ ُم الذ َ
ِ
ت بُيُو ُت ُه ْم ِ ِ
کو نہیں دیکھا جو دور دراز امیدیں رکھتے تھے
اورمستحکم مکانات بناتے تھے اوربے تحاشہ مال جمع
َصبَ َح ْ فأ ْ ويْبنُو َن َمشيداً وجَيْ َمعُو َن َكثرياً َ -كْي َ َ
ِ ِ
کرتے تھے کہ کس طرح ان کے گھر قبروں میں تبدیل ني - ت أ َْم َواهُلُ ْم ل ْل َوا ِرث َوص َار ْ
وما مَجَعُوا بُوراً َ - ُقبُوراً َ -
ِ ٍ
ين -اَل يِف َح َسنَ ٍة يَِز ُ
ہوگئے اورسب کیا دھرا تباہ ہوگیا۔اب اموال ورثہ کے
لئے ہیں اور ازواج دوسرے لوگوں کے لئے نہ نیکیوں
يدو َن آخ ِر َ اج ُه ْم ل َق ْوم َوأ َْز َو ُ
میں اضافہ کر سکتے ہیں
اور نہ برائیوں کے سلسلہ میں رضائے ٰالہی کا سامان واَل ِم ْن َسيِّئَ ٍة يَ ْسَت ْعتِبُو َن -فَ َم ْن أَ ْش َعَر َّ
الت ْق َوى َق ْلبَه َبَّر َز
ٰ
تقوی کو شعار فراہم کر سکتے ہیں۔یاد رکھو جس نے
بنالیا وہی آگے نکل گیا اور اسی کا عمل کامیاب ہوگیا۔لہٰذا واع َملُوا لِْل َجن َِّة
َم َهلُه -وفَ َاز َع َملُه فَ ْاهتَبِلُوا َهَبلَ َها ْ -
تقوی کے موقع کو غنیمت سمجھ اور جنت کے لئے اس ِ
کے اعمال انجام دے لو۔یہ دنیا تمہارے قیام ()1کی جگہ الد ْنيَا مَلْ خُتْلَ ْق لَ ُك ْم َد َار ُم َق ٍام -بَ ْل ُخل َق ْ
ت َع َملَ َها -فَِإ َّن ُّ
ِ
نہیں ہے۔یہ فقط ایک گزر گاہ ہے کہ یہاں سے ہمیشگی لَ ُك ْم جَمَازاً -لَتَز َّو ُدوا ِمْن َها األ ْ
َع َم َال إِىَل َدا ِر الْ َقَرا ِر -
کے مکان کے لئے سامان فراہم کرلو لہٰ ذا جلدی تیاری
کرو اور سواریوں کو کوچ کے لئے اپنے سے قریب تر ور لِ ِّلزيَ ِال . ٍ ِ
فَ ُكونُوا مْن َها َعلَى أ َْوفَاز -و َقِّربُوا الظُّ ُه َ
کرلو۔
()133
()133
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
ومن خطبة له عليهالسالم
(جس میں ہللا کی عظمت اور قرآن کی جاللت کا ذکر ہے يعظم اللَّه سبحانه ويذكر القرآن والنبي ويعظ الناس
اور پھر لوگوں کو نصیحت بھی کی گئی ہے )
(پروردگار ) دنیا و آخرت دونوں نے اپنی باگ ڈور اسی
کے حوالہ کر رکھی ہے اور زمین و آسمان نے اپنی عظمة اللَّه تعالى
کنجیاں اسی کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔اس کی بارگاہ ِ ِ
میں صبح و شام سر سبز شاداب درخت سجدہ ریز رہتے الد ْنيَا واآلخَرةُ بِأَ ِز َّمت َها -وقَ َذفَ ْ
ت إِلَْيه ت لَه ُّوا ْن َق َاد ْ
ت لَه بِالْغُ ُد ِّو ِ
ہیں اور اپنی لکڑی سے چمکدار آگ نکالتے رہتے ہیں
اور اسی کے حکم کے مطابق پکے ہوئے پھل پیش کر
وس َج َد ْ يد َها َ - ضو َن َم َقال َ
ات واأل ََر ُ
الس َم َاو ُ
َّ
تے رہتے ہیں۔ ضبَاهِنَا ت لَه ِم ْن قُ ْ َّاضَرةُ -وقَ َد َح ْ واآلص ِال األَ ْشجار الن ِ
َُ َ
ت أُ ُكلَ َها بِ َكلِ َماتِه الث َِّم ُار الْيَانَِعةُ.ضيئَةَ -وآتَ ْ النِّريا َن الْم ِ
نَ ُ
ن ع ن ن ن ن ن ن ن
ن ت
ے اور ی ہے جس ئسے غگزر نکر ای ک ظ ی م م زل کی طرف ج ا ا نہ ے ب لکہ ای ک گذر گاہ ہ نہ د ی ا ا سان کی م زل ہی ں ہ ے کہ ی نی کا راز ی ہی ای ک ک ف ہ ہہ
ب ()1ا سا ی ز دگی می ں کام ی ا
ے کہ دوخ وں ج گہ کاات ہ ے۔ی ہ اورب ت ے کارآمدن ب ادی ا ہ ن ے اور ی ہاں کے سا تمان کو و تہ اں ت
کے ل دی ہے ی ہاں کسے تسامان ت را م تکرے کی اج ہازت دی تئ ے کہ اس ئ فمالک کا کرم ہ
ے ہ ی ں ل ی کن آ رتے۔ ی اورمالدارد ی ا سج ا سک ے ولکام آ ا ہ دے دی ا ج تا ا ہ ے راہ خ دا می ں
ق ل کے
ش ے اور و اں
ہ
ئ ے فو کام آ ا خ
ہ ے سامان ر ھاج ا ال ے کہ ی ہاں کے ن رق ی ہن ہ ت
ے۔ ے اور ج ن کا اع ماد وعدہ ٔ ا ٰہی پر ہ
وی ہ ٰ
ے ج ن کا عارہ ے ل ے ہ ی ں ۔وہ صرف کری م اور صاحب ی ر ا راد کے ہی ں ب ا سک
(قرآن حکیم)
کتاب خدا نگاہ کے سامنے ہے۔یہ وہ ناطق ہے جس کی
زبان عاجز نہیں ہوتی ہے اور یہ وہ گھر ہے جس کے
القرآن
ارکان منہدم نہیں ہوتے ہیں۔یہی وہ عزت ہے جس کے اط ٌق اَل َي ْعيَا لِ َسانُه - منها :وكِتَاب اللَّه ب أَظْه ِر ُكم -نَ ِ
ُ َنْي َ ُ ْ
اعوان و انصار شکست خوردہ نہیں ہوتے ہیں۔
وبيت اَل ُته َدم أَر َكانُه ِ -
وعٌّز اَل ُت ْهَز ُم أ َْع َوانُه.
(رسول اکرم (ص)) َْ ٌ ْ ُ ْ
ہللا نے آپ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکا رسول اللَّه
ہوا تھا اور زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔آپ کے ذریعہ
رسولوں کے سلسلہ کو تمام کیا اور وحی کے سلسلہ کو الر ُس ِل -وَتنَ ُاز ٍع ِم َن ني َفْتَر ٍة ِم َن ُّ منها :أ َْر َسلَه َعلَى ِح ِ
وختَ َم بِه الْ َو ْح َي -فَ َج َ
اه َد يِف األَلْ ُس ِن َ -ف َقفَّى بِه ُّ
موقوف کیا تو آپ نے بھی اس سے انحراف کرنے
والوں اور اس کاہمسرٹھہرانے والوں سے جم کر جہاد الر ُس َل َ
ني بِه. ِِ ِ
کیا۔ ين َعْنه والْ َعادل َ اللَّه الْ ُم ْدب ِر َ
(دنیا) الدنيا
یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اس
کے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جب کہ صاحب بصیرت صُر مِم َّا َعمى -اَل يب ِ
ُْ ص ِر األ ْ َ الد ْنيَا ُمْنَت َهى بَ َ منها :وإِمَّنَا ُّ
کی نگاہ اس پار نکل جاتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ منزل
َّار وي ْعلَ ُم أ َّ ِ
اس کے ماورا ہے۔صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے َن الد َ صُره َ - َو َراءَ َها َشْيئاً -والْبَصريُ َيْن ُف ُذ َها بَ َ
واال ہے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے واال ہے۔ صريُ ِمْن َها وراءها -فَالْب ِ
َ َ َ ََ
بصیرا اس سے زاد راہ فراہم کرنے واال ہے اور اندھا
اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے واال ہے ۔ صريُ ِمْن َها ُمَتَز ِّو ٌد اخص -والْب ِ
َ
ِ
َع َمى إِلَْي َها َش ٌ ص -واأل ْ َشاخ ٌ
ِ
(موعظہ) َع َمى هَلَا ُمَتَز ِّو ٌد. -واأل ْ
یاد رکھو کہ دنیا میں جو شے بھی ہے اس کامالک سیر
ہوجاتا ہے اور اکتا جاتا ہے عالوہ زندگی کے کہ کوئی عظة الناس
شخص موت میں راحت نہیں محسوس کرتا ہے واعلَموا أَنَّه لَيس ِمن َشي ٍء -إِاَّل وي َكاد ص ِ
احبُه َ ُ َ ْ َ ْ ْ منهاُ ْ :
ِ ِ ِ ِ ِ
احةً - يَ ْشبَ ُع مْنه -ومَيَلُّه إاَّل احْلَيَا َة فَإنَّه اَل جَي ُد يِف الْ َم ْوت َر َ
اور یہ بات اس حکمت ( )1کی طرح ہے جس میں مردہ ب الْميِّ ِ ِ ِ وإِمَّنَا َذلِك مِب ْن ِزلَ ِة احْلِك ِ َّ ِ
دلوں کیزندگی ،اندھی آنکھوں کی بصارت ' بہرے کانوں
ت- ْمة -اليِت ه َي َحيَاةٌ ل ْل َق ْل َ َ َ َ
کی سماعت اور پیاسے کی سیرابی کا سامان ہے اور الص َّم ِاء -و ِر ٌّ
ي صٌر لِْل َعنْي ِ الْ َع ْميَ ِاء -ومَسْ ٌع لِألُذُ ِن َّ
وبَ َ
اسی میں ساری مالداری ہے اور مکمل سالمتی ہے۔ یہ والساَل مةُ -كِتَاب اللَّه ُتب ِ ِ ِ ِ ِ
کتاب خدا ہے جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا صُرو َن ْ ُ للظَّ ْمآن وف َيها الْغىَن ُكلُّه َّ َ
ض- ضه بَِب ْع ٍ بِه -وَتْن ِط ُقو َن بِه وتَسمعو َن بِه ِ -
سارا سامان موجود ہے۔اس میں ایک حصہ دوسرے کی
وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے۔
ويْنط ُق َب ْع ُ
َ َُْ
ف يِف اللَّه -واَل ِ ضه َعلَى َب ْع ٍ
یہ خدا کے بارے میں اختالف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ض -واَل خَي ْتَل ُ ويَ ْش َه ُد َب ْع ُ
ِ ِ ِ خُيَالِف بِ ِ
صاحبِه َع ِن اللَّه -قَد ْ
ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔مگر تم نے آپس
يما
اصطَلَ ْحتُ ْم َعلَى الْغ ِّل ف َ ُ َ
میں کینہ و حسد پر اتفاق کرلیا ہے اور اسی گھورےپر
صا َفْيتُ ْم َعلَى ِِ
پر سبزہ اگ آیا ہے۔امیدوں کی محبت میں ایک دوسرے ت الْ َم ْر َعى َعلَى د َمن ُك ْم -وتَ َ َبْينَ ُك ْم -و َنبَ َ
سے ہم آہنگ ہوا اور مال جمع کرنے میں یک دوسرے ِ ِ
اسَت َه َام
ب األ َْم َوال -لََقد ْ اآلم ِال -و َت َع َاد ْيتُم يِف َكس ِ ب َ ُح ِّ
کے دشمن ہو۔شیطان نے تمہیں سر گرداں کردیا ہے ْ ْ
ور -واللَّه الْ ُم ْسَت َعا ُن َعلَى ِ بِ ُك ُم اخْلَبِ ُ
يث وتَاه ب ُك ُم الْغُُر ُ
اورفریب نے تم کو بہکا دیا ہے۔اب ہللا ہی میرے اور
تمہارے نفسوں کے مقابلہ میں ایک سہارا ہے۔
َن ْف ِسي وأَْن ُف ِس ُك ْم.
()134
آپ کا ارشاد گرامی ()134
(جب عمر نے روم کی جنگ کے بارے میں آپ سے عليهالسالم ومن كالم له
مشورہ کیا)
ہللا نے صاحبا ن دین کے لئے یہ ذمہ داری لے لی ہے وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو
کہ وہ ان کے حدود کو تقویت دے گا
الروم
ت
وقد تو َّكل اللَّه -ألَه ِل ه َذا الدِّي ِن بِِإعزا ِز احْل وز ِة
خ ْ َ خ َْ َ َ ْ َ َ نَ ن خ ْ َ
ئ ت مئ ن ن ن ن
ے موت ے اور اسی ل
ہ ہ ط
عم اور ا جنام کی طرف تسے م ن ہی ں و ائ ن ے اعمال ے کہ ا سان ناپ ےل یکی واہ ش عام طور سےخآ ہرت کے نوف سے پ ی دا و ی ہ
ہ )اگرچ ہ دن ی امی ں ز ت دہ رہ
( 1ت
دن اور رات سان ا ےل کے اسی اور ے
ہ ا کر ادہم آ ر پ ےکر ل کو سان ا و ج ے ت ہ
جت ب ہ ذ ہی ی لکہ ے ں
ی ہ ب ہ ب ش وا ہ
ب ی خ عی ود ج وا کے اس کن ے جض ہا ا لرز سے صور کے
س
صح ح اورف کر لی م سے ل ی اے تکہ اس واہ ش ح ی ات کو حکمت کے سا ھ اس عمال کرے اور اس سے ویسا ہ ی کام لے ج و حکمت ی ات کی ہ ب ے۔ رورت اس خ ہ کوای ک کردی ت ا
ت
ب ن
ے۔ے ور ہ ی ہی واہ ش و ب ال ج ان ھی ب ن سک ی ہ جا اہ
اور ان کے محفوظ مقامات کی حفاظت کرے گا۔اور جس
صُرو َن - وسرْتِ الْعور ِة .والَّ ِذي نَصرهم -وهم قَلِيل اَل يْنتَ ِ
نے ان کی اس وقت مدد کی ہے جب وہ قلت کی بنا پر ََ ُ ْ ُ ْ ٌ َ َ َْ َ
وت/. ِ ِ
انتقام کے قابل بھی نہ تے اور اپنی حفاظت کا انتظام بھی يل اَل مَيْتَنعُو َن َ -ح ٌّي اَل مَيُ ُ وه ْم قَل ٌ
ومَن َع ُه ْم ُ
َ
نہ کر سکتے تھے وہ ابھی بھی زندہ ہے اور اس کے ِ ِ
لئے موت نہیں ہے۔تم اگر خود دشمن کی طرف جائو گے ب- ك َ -فَت ْل َق ُه ْم َفُتْن َك َّْك مَىَت تَس ْر إِىَل َه َذا الْ َع ُد ِّو بَِن ْفس َ
إِن َ
س اَل تَ ُكن لِْلمسلِ ِمني َكانَِفةٌ دو َن أَقْ ِ ِ ِ
صى باَل ده ْم -لَْي َ
اور ان کا سامنا کروگے اور نکبت ( )1میں مبتال ہوگئے
تو مسلمانوں کے لئے آخری شہرکے عالوہ کوئی پناہ گاہ َ ُ ْ ُْ َ
حِم
نہ رہ جائے گی اور تمہارے بعد میدان میں کوئی مرکز ث إِلَْي ِه ْم َر ُجاًل َْرباً - َب ْع َد َك َم ْر ِج ٌع َي ْر ِجعُو َن إِلَْيه -فَ ْاب َع ْ
بھی نہ رہ جائے گا جس کی طرف رجوع کرسکیں ل ٰہذا
يح ِة -فَِإ ْن أَظْ َهَر اللَّه فَ َذ َاك ِ ِ ِ
مناسب یہی ہے کہ کسی تجربہ کارآدمی کو بھیج دو اور واحف ْز َم َعه أ َْه َل الْبَاَل ء والنَّص َ ْ
ِ ِ
اس کے ساتھ صاحبان خیرو مہارت کی ایک جماعت کو ومثَابَةً
َّاس َ ت ِر ْدءاً للن ِ ُخَرى ُ -كْن َ ب -وإِ ْن تَ ُك ِن األ ْ َما حُت ُّ
کردو۔اس کے بعداگر خدا نے غلبہ دے دیا تویہی ِ ِِ
تمہارامقصد ہے اور اگر اس کے خالف ہوگیا تو تم ني.
ل ْل ُم ْسلم َ
لوگوں کا سہارااورمسلمانوں کےلئے ایک پلٹنےکا مرکز
رہو گے۔ ()135
()135 عليهالسالم ومن كالم له
آپ کا ارشاد گرامی وقد وقعت Oمشاجرة بينه وبين عثمان فقال المغيرة بن
(جب آپ کااورعثمان 2کے درمیان اختالفات پیداہوا عليهالسالم األخنس لعثمان :أنا أكفيكه ،فقال علي
اورمغیرہ بن اخنس نے عثمان سے کہا کہ میں ان کا کام
ت ت
تمام کرسکتا ہوں توآپ نےفرمایا) 2 ئ
للمغيرة:
بشھ خ ن ش ت
دم مہاری اری خ ے کہ م ی دان ج تہاد می ں ث ب ات ق ئ ت ہ ے کا م ورہ اس ن کت ہ کی طرف اش ارہ ج دان کے ی مرد م ی تک
ت ن
ن()1م ی دان ج ن گ میت ں کب ت و رسوا ی کے اح مال نکے سا ھ کسی
س ہ ن ت
کردو اکہ اسالم فکی رسوا قی ہ و ت ک ن ف
ئن کی ای ک ج ماعت کے قسا تھ ت ہ
ےق ک ت ی ت ت ن
ے
ی
روا ہ ت سی ج رب ہ کار م ص کو ماہ ری ے لمہٰذا م فاسبع ہی ہ ے اورق ہ ی ہق مہارے بس کاکام ہ ہی ں ہ
ے ہ ی د ب ل کا ح ا کو اسی خ ر
ی ا ےہ ا و ہ ح ہ ال ع ں یم دور کے س ج گا ے ا ج ی ہ ل حال ہر ب و ب ل کا '' م ظ ا ح ا '' ں یہ عد ب کے ے۔اس ن
اورمذہ ب کا و ب ن ہ ی ت
ر رار ر ار
ت ن ہ ش ن ج ش ے۔ھا کہ ش د دتاخ ت الف ات اور ے ن اہ صائ سر ظ ر ا داز کر د ی ہ تاوربمج اہ دی ن کوی کمن
ی م نورہ دی ا ج نو اسالم اور مسلما وں کے ح تقف می ں ھا۔ ن و اور ا ک
ی یں ہ غ ی در سے ورہفظ م ود و ا ب کے ب مق پ ب
خ ف خی حوصلہ ک ا
قی ق
کا ن ھی امی ر المو ی
یہ ئ
ے اور اسالم کے ح ظ کی ذمہ ے ی از ہی ں ب ا سکت ا ہ سے ا ت الف م صد اور مذہ ب کی ح ا ت کو ذمہ داری سے ب ے کہا راد ت سے ب ہر حال ب ا ب ر ھق ے کہ آپ اس حئ ی ت اس ل
ے وہ بر سرا ت دار ہ و ی ا ن ہ ہ و۔ ے چ اہداری ہ ر مسلمان پر عا د ہ و ی ہ
اے بد نسل ملعون کے بچے ! اور اس درخت کے پھل ع
َص َل هَلَا واَل َف ْر ََّجَر ِة الَّيِت اَل أ ْ ني األ َْبرَتِ -والش َ يَا ابْن اللَّعِ ِ
جس کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ فرع۔تو میرے لئے َ
ِ ِ
کافی ہو جائے گا؟ خدا کی قسم جس کا تومدد گار ہوگا ت نَاصُره - ت تَكْفييِن َ -ف َو اللَّه َما أ ََعَّز اللَّه َم ْن أَنْ َ -أَنْ َ
اسکے لئے عزت نہیں ہے اور جسے تو اٹھائے گا وہ
کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوگا۔نکل جا۔ہللا تیری منزل کو اخُر ْج َعنَّا أ َْب َع َد اللَّه َن َو َاك مُثَّ ضه ْ - ت ُمْن ِه ُ واَل قَ َام َم ْن أَنْ َ
دور کردے۔جا اپنی کوششیں تمام کرلے۔خدا تجھ پر رحم ت! ك إِ ْن أ َْب َقْي َ ْابلُ ْغ َج ْه َد َك -فَاَل أ َْب َقى اللَّه َعلَْي َ
نہ کرے گا اگر تو مجھ پرترس بھی کھائے۔
()136 ()136
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(بیعت کے بارے میں ) في أمر البيعة
میرے ہاتھوں پر تمہاری بیعت کوئی نا گہانی حادثہ نہیں
احداً مَل تَ ُكن بيعتُ ُكم إِيَّاي َف ْلتَةً -ولَيس أَم ِري وأَمر ُكم و ِ
ہے۔اور میرا اور تمہارا معاملہ ایک جیسا بھی نہیں ہے۔ ُْ ْ َ ْ َ ْ ْ ْ َْ َ ْ َ
-إِيِّن أُِري ُد ُك ْم لِلَّه وأَْنتُ ْم تُِر ُ
يدونَيِن ألَْن ُف ِس ُك ْم.
میں تمہیں ہللا کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے فائدہ
کے لئے چاہتے ہو۔
لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں میری مدد أَيُّها النَّاس أ َِعينُويِن علَى أَْن ُف ِس ُكم وامْي اللَّه ألُنْ ِ
ص َف َّن ْ ُ َ ُ َ
کرو۔خدا کی قسم میں مظلوم کوظالم سے اس کاحق مِل
ود َّن الظَّا َ خِبِ َز َامتِه َ -حىَّت أُو ِر َده الْمظْلُ ِ ِ ِ
دلوائوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال وم م ْن ظَالمه وألَقُ َ َ َ
کرکھینچوں گا تاکہ اسے چشمہ حق پر وارد کردوں َمْن َه َل احْلَ ِّق وإِ ْن َكا َن َكا ِرهاً.
چاہے وہ کسی قدرناراض کیوں نہ ہو۔
()137 ()137
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(طلحہ و زبیر اور ان کی بیعت کے بارے میں ) في شأن طلحة والزبير وفي البيعة له
خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ میری کسی واقعی برائی کی
گرفت کی ہے اورنہ میرے اور اپنے طلحة والزبير
واللَّه َما أَنْ َكُروا َعلَ َّي ُمْن َكراً -واَل َج َعلُوا َبْييِن َ
وبْيَن ُه ْم
ِ
صفاً -وإِن َُّه ْم لَيَطْلُبُو َن َح ّقاً ُه ْم َتَر ُكوه َ
درمیان انصاف سے کام لیا ہے۔یہ ایک ایسے حق کا
ودماً ُه ْم َس َف ُكوه نْ
مطالبہ ( )1کر رہے ہیں جس کو خود انہوں نے نظر انداز
کیا ہے اورایسے خون کابدلہ چاہتے ہیں جس کو خود ص َيب ُه ْم ِمْنه -وإِ ْن -فَِإ ْن ُكْنت َش ِري َكهم فِيه فَِإ َّن هَل م نَ ِ
ُْ ُْ ُ
انہوں نے بہایا ہے۔اگرمیں اس معاملہ میں شریک تھا تو هِلِ ِ ِ
ایک حصہ ان کا بھی ہوگا اور اگر یہ تنہا ذمہدار تھے تو َكانُوا َولُوه ُدويِن فَ َما الطَّلبَةُ إِاَّل قَبلَ ُه ْم -وإِ َّن أ ََّو َل َع ْد ْم
مطالبہ خود انہیں سے ہونا چاہیے اور سب سے پہلے ْم َعلَى أَْن ُف ِس ِه ْم –
لَْل ُحك ُ
انہیں اپنے خالف فیصلہ کرنا چاہیے۔
(الحمد ہلل )میرے ساتھ میری بصیرت ہے نہ میں نے س َعلَ َّي -وإِن ََّها لَْل ِفئَةُ ِ
ت واَل لُب َ
ِ ِ
وإِ َّن َمعي لَبَص َرييِت َما لَبَ ْس ُ
اپنے کو دھوکہ میں رکھا ہے اور نہ مجھے دھوکہ دیا جا
سکا ہے۔یہ لوگ ایک باغی گروہ ہیں جن میں میرے اغيَةُ فِ َيها احْلَ َمأُ واحْلُ َّمةُ -والشُّْب َهةُ الْ ُم ْغ ِدفَةُ وإِ َّن األ َْمَرالْب ِ
َ
قرابتدار بھی ہیں اور بچھو کا ڈنک بھی ہے اور ِ
صابِه -وا ْن َقطَ َع ل َسانُه ِ ِ ِ
پھرحقائق کی پردہ پوشی کرنے والے شبہ بھی ہے۔ اح الْبَاط ُل َع ْن ن َ لََواض ٌح -وقَ ْد َز َ
حاالنکہ مسئلہ بالکل واضح ہے اور باطل اپنے مرکز َع ْن َش ْغبِه -
سے ہٹ چکا ہے اور اس کی زبان شور و شغب کے
حِت
سلسلہ میں کٹ چکی ہے۔ ص ُد ُرو َن وامْيُ اللَّه ألُفْ ِرطَ َّن هَلُ ْم َح ْوضاً أَنَا َما ُه -اَل يَ ْ
خدا کی قسم میں ان کے لئے ایسا حوض چھلکائوں گا
جس سے پانی نکالنے واال بھی میں ہی ہوں گا۔یہ نہ اس
ي -واَل َيعُبُّو َن َب ْع َده يِف َح ْس ٍي ! َعْنه بِ ِر ٍّ
سے سیراب ہو کر جا سکیں گے اور نہ اس کے بعد
سکیں گے ۔ ئ
ن رہ
پینے ًکے الئق غ
کسی غ تاالب سے ٹپانی ت ف
ن ن ن ن خ ن ن ف
ے ا ا گاد عرہ کا طی ل کی دوسرے ق ورا و ں گل ے نا طرف کی طی ل ی پ ا ں اہگ کی ا د ب کہ ےق ا وگ ہ ل دا ں م طرت کے دور سے ق ئسوا ی
کاروب ار ز یل خ ا ئ
ت(ک)1ی ہ ش
خ ل یج ث ھ ی ئش ض ی ی ی ہ جث ی
کے ب عدش ودلوگوںخ کو ت ل ع مان نپرآمادہ ک ی ا۔اسن ےن کہ پہلکام ح رت عا ہئ ے ک ی ا من نصح ح ادراک ن تہ کر سکی ں ۔ ت نل ع قمان کے ب عد ی ہی ئ
اورلوگ ح ا ق کا ی ا ہمخس ئ لہ م ث ت ب ہ ہ و ج اے
ب ن م گ
دان ہ وتے کا ا ارہ
ی ےحمرد م ی ت ن ے آ ر کک ت
الم می ں اپ ش ے امی ر المو ہ یہ ی ون ع مان کی ندعوی دار ب ن ی ںک ی ناور پ نھر ان کے نسا ھ ل کر یتہی ز ا ہ ا دامشطلحہ و زبیر تے بھی ک ی نا۔اسی ل
ح
ے کردار سے می ہ الگ ر ھ ی ہ ی ں اور ق کا سا ھ د ی ہ ی ں ی ا ق ے کو ایس ت
حرکات ہی ں ک ی ا کرے ہ ی ں۔ب لکہ ریف عور ی ں ھی اپ ے کہ تمردان ج گ اس طرح سوا ی ن ن دی قا ئہ
ے۔ ہ ی و ہ ں یہ گی دور ں یم کردار کے ے۔ان ج ہ ی ا رہ م پر ا
مسئلہ بیعت
تم لوگ'' کل '' بیعت بیعت کا شور مچاتے ہوئے میری
طرف اس طرح آئے تھے جس طرح نبی جننے والی
أمر البيعة
اونٹنی اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہے۔میں نے اپنی وذ الْ َمطَافِ ِيل َعلَى أ َْواَل ِد َها - منه - :فَأَ ْقب ْلتم إِيَلَّ إِ ْقب َال الْع ِ
َ ُ َ ُْ
مٹھی بند کرلی مگر تم نے کھول دی۔میں نے اپنا ہاتھ
روک لیا مگر تم نے کھینچ لیا۔خدایا تو گواہ رہنا کہ ان وها - ت َكفِّي َفبَ َسطْتُ ُم َ ضُ َت ُقولُو َن الَْبْي َعةَ الَْبْي َعةَ َ -قبَ ْ
دونوں نے مجھ سے قطع تعلق کرکے مجھ پر ظلم کیا وها -اللَّ ُه َّم إِن َُّه َما قَطَ َعايِن ِ
ہے اور میری بیعت توڑ کرل وگوں کو میرے خالف ونَ َاز َعْت ُك ْم يَدي فَ َجا َذ ْبتُ ُم َ
َّ يِن
اکسایا ہے ۔ اب تو ان کی گرہوں کو کھول دے اور احلُ ْل َماَّاس َعلَ َّي -فَ ْ وظَلَ َما -ونَ َكثَا َبْي َعيِت وأَلبَا الن َ
جورسی انہوں نے بٹی ہے اس میں استحکام نہ پیدا ہونے ِ ِ مِه ِ
دے اور انہیں ان کی امیدوں اور ان کے اعمال کے بد َع َق َدا واَل حُتْك ْم هَلَُما َما أ َْبَر َما -وأَر َا الْ َم َساءَ َة ف َ
يما أَمَّاَل
ت هِبِ َما ِ ِ ِ ِ
ترین نتائج کو دکھالدے۔میں نے جنگ سے پہلے انہیں واستَأَْنْي ُ
استَثَْبُت ُه َما َقْب َل الْقتَال ْ - وعماَل -ولََقد ْ َ
بہت روکنا چاہا اور میدان جہاد میں اترنے سے پہلے
بہت کچھ مہلت دی۔ لیکن ان دونوں نے نعمت کا انکار ور َّدا الْ َعافِيَةَ. ِّع َمةَ َ
اع َ -فغَ َمطَا الن ْ أ ََم َام الْ ِوقَ ِ
کردیا اور عافیت کو رد کردیا۔
()138
()138
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(جس میں مستقبل کے حوادث کا اشارہ ہے) يومئ فيها إلى ذكر المالحم
وہ بندہ ٔ خدا خواہشات کو ہدایت کی طرف موڑدے گا جب ِ
لوگ ہدایت کو خواہشات کی طرف موڑ رہے ہوں گے ف اهْلََوى َعلَى اهْلَُدى -إِ َذا َعطَُفوا اهْلَُدى َعلَى اهْلََوى َي ْعط ُ
الرأْي علَى الْ ُقر ِ
آن -إِ َذا َعطَُفوا الْ ُق ْرآ َن َعلَى ِ -
اوروہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جب لوگ
قرآن کو رائے کی طرف جھکا رہے ہوں گے۔ ْ ف َّ َ َ وي ْعط َُ
(دوسرا حصہ) یہاں تک کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی الرأْ ِي.
َّ
ہو جائے گی دانت نکالے ہوئے اورتھنوں کوپر کئے
ہوئے۔لیکن
اق بَ ِادياً نَ َو ِاج ُذ َها
ومنها -حىَّت َت ُقوم احْل رب بِ ُكم علَى س ٍ
َ َْ ُ ْ َ َ َ
َخاَل ُف َها
-مَمْلُوءَةً أ ْ
اس طرح کہ اس کا دودھ پینے میں شیریں معلوم ہوگا
وسيَأْيِت َغ ٌد مِب َا ٍ ِ
اور اسکا انجام بہت برا ہوگا۔یاد رکھو کہ کل اور کل بہت ضاعُ َها َع ْل َقماً َعاقبَُت َها -أَاَل ويِف َغد َ ُح ْلواً َر َ
( )1جلد وہ حاالت لے کر آنے واال ہے جس کاتمہیں اندازہ اَل َت ْع ِرفُو َن -يَأْ ُخ ُذ الْ َوايِل ِم ْن َغرْيِ َها عُ َّماهَلَا َعلَى َم َسا ِو ِئ
نہیں ہےاس جماعت سے باہر کا والی تمام عمال کی بد هِل
اعمالیوں کا محاسبہ کرے گا اورزمین تمام جگرکے ض أَفَالِي َذ َكبِ ِد َها -و ُت ْل ِقي إِلَْيه ِج لَه األ َْر ُ أ َْع َما َا -وخُتْر ُ
ٹکڑوں کو نکال دےگی اور نہایت آسانی کےساتھ اپنی
کنجیاں اسکے حوالہ کردے گی اور پھروہ تمہیں
الس َري ِة -وحُيْيِي ف َع ْد ُل ِّ يد َها َ -فرُيِ ي ُك ْم َكْي َ ِس ْلماً َم َقالِ َ
دکھالئے گا کہ عادالنہ سیرت کیا ہوتی ہےاورمردہ کتاب والسن َِّة.
اب ُّ ت الْ ِكتَ ِ َميِّ َ
و سنت کوکس طرح زندہ کیا جاتا ہے۔
ص بِرايَاتِه يِف ِ ِ ِ
(تیسرا حصہ)میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ ایک شخص منها َ -كأَيِّن به قَ ْد َن َع َق بالشَّام -وفَ َح َ َ
وس - ف الضَُّر ِ ِ
ف َعلَْي َها َعطْ َ ض َواحي ُكوفَا َن َ -ف َعطَ َ
شام میں للکار رہاہے اورکوفہ کے گرد اس کے جھنڈے
لہرا رہے ہیں وہ اس کی طرف کاٹنے والی اونٹنی کی
َ
ت يِف ِ الرءُ ِ ض بِ ُّ
طرح متوجہ ہے اور زمین پر سروں کا فرش بچھا رہا ت فَاغَرتُه و َث ُقلَ ْ وس -قَ ْد َفغََر ْ ش األ َْر َ و َفَر َ
ہے۔اس کا منہ کھال ہوا ہے اور زمین پراس کی دھمک
محسوس ہو رہی ہے۔وہ دور دورتک جوالنیاں دکھالنے
الص ْولَِة -واللَّه
يم َّ ِ ِ
يد اجْلَ ْولَة َعظ َ ض َوطْأَتُه بَعِ َ األ َْر ِ
واال ہے اورشدید ترین حملے کرنے واال ہےخداکی قسم ض َ -حىَّت اَل َيْب َقى ِمْن ُك ْم إِاَّل اف األ َْر ِ لَيشِّردنَّ ُكم يِف أَطْر ِ
َ َُ َ ْ
وہ تمہیں اطراف زمین میں اس طرح منتشر کردےگا کہ ِ ِ
صرف اتنے ہی آدمی باقی رہ جائیںگے جیسے آنکھ میں ك َ -حىَّت يل َكالْ ُك ْح ِل يِف الْ َعنْي ِ -فَاَل َتَزالُو َن َك َذل َ قَل ٌ
سرمہ۔اورپھرتمہارا یہی حشررہےگا۔یہاں تک کہ عربوں السنَ َنَحاَل ِم َها -فَالَْز ُموا ُّ بأْ ِ
وب إىَل الْ َعَرب َع َوا ِز ُ
َتئُ ِ
َ
کی گم شدہ عقل پلٹ کرآجائے لہٰ ذا ابھی غنیمت
ہےمضبوط طریقہ' واضح آثار اوراس قریبی عہدسے يب الَّ ِذي َعلَْيه بَاقِي ِ
الْ َقائ َمةَ واآلثَ َار الَْبِّينَةَ -والْ َع ْه َد الْ َق ِر َ
وابستہ رہوجس میں نبوت کےپائیدار آثار ہیں اوری ہ یاد
َن الشَّْيطَا َن -إِمَّنَا يُ َسيِّن لَ ُك ْم طُُرقَه واعلَ ُموا أ َّ ِ
رکھوکہ شیطان اپنےراستوں کو ہموار رکھتا ہے تاکہ تم النُُّب َّوة ْ -
اسکےنقش قدم پربرابرچلتے رہو۔ لِتَتَّبِعُوا َع ِقبَه.
نت خ ن ن قئ ن ت ئ ت ن
ن ئ خ ن ئ ن
ے مام زاے اگل ے ج خبق دا یک ما ن دہ دن ی ا کے ئ
مام حکام کا محاسب ہ کرکے عدل وا صاف کا ظ ام ا م کردے اور زمی ن پا ے سراپ ا ا ظ ار ہ ()1ا سان ی ت اس عہد زری ں کے ل
دے۔د ی ا می ں راحت و اطمی ن ان کا دور دورہ ہ و اور دی ن دا ا ت دار لی کا مالک ہ و ج اے
()139 ()139
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
ٰ
(شوری کے موقع پر) في وقت الشورى
(یاد رکھو )کہ مجھ سے پہلے حق کی دعوتدت نے واال
وعائِ َد ِة ِِ ِ ِ ِ
صلہ رحم کرنے واال اور جود و کرم کا مظاہرہ کرنے َح ٌد َقْبلي إِىَل َد ْع َوة َح ٍّق -وصلَة َرح ٍم َ ِع أ َلَ ْن يُ ْسر َ
َكَرٍم -فَامْسَعُوا َق ْويِل وعُوا َمْن ِط ِقي َ -ع َسى أَ ْن َتَر ْوا َه َذا
واال کوئی نہ ہوگا۔لہٰ ذا میرے قول پر کان دھرو اورمیری
گفتگو کو سمجھو کہ عنقریب تم دیکھوگے کہ اس مسئلہ
وف وخُتَا ُن فِيه ضى فِيه ُّ ِ ِ ِ
پر تلواریں نکل رہی ہیں ۔عہد و پیمان توڑے جا رہے ہیں
السيُ ُ األ َْمَر م ْن َب ْعد َه َذا الَْي ْوم ُ -تْنتَ َ
اورتم میں سے بعض گمراہوں کے پیشوا ہوئے جا رہے
ہیں اوربعض جاہلوں کے پیرو کار۔ الضاَل لَ ِة -
ض ُك ْم أَئِ َّمةً أل َْه ِل َّ
ود َ -حىَّت يَ ُكو َن َب ْع ُ الْعُ ُه ُ
()140 وش َيعةً أل َْه ِل اجْلَ َهالَ ِة.
ِ
آپ کا ارشادگرامی
()140
(لوگوں کو برائی سے روکتے ہوئے )
دیکھو جو لوگ گناہوں سے محفوظ ہیں اور خدانے ان پر عليهالسالم2 ومن كالم له
اس سالمتی کا احسان کیا ہے ان کے شایان شان یہی ہے
کہ گناہ گاروں اورخطا کاروں پر رحم کریں اور اپنی في النهي عن غيبة الناس
سالمتی کاشکریہ ہی ان پرغالب رہے اور انہیں ان الساَل َم ِة -وع إِلَْي ِه ْم يِف َّ
صنُ ِ وإِمَّنَا يْنبغِي ألَه ِل الْعِ ِ
ص َمة والْ َم ْْ ْ ََ
حرکات سے روکتا رہے۔چہ مائیکہ انسان خودعیب دار
الشكُْر ُه َو ِ ِ
وب والْ َم ْعصيَة -ويَ ُكو َن ُّ الذنُ ِ
أَ ْن َيْرمَحُوا أ َْهل ُّ
ہواور اپنے بھائی کا عیب بیان کرے اور اس کے عیب َ
ِ
ف بِالْ َعائ ِ ِ ِ
ب َعلَْي ِه ْم -واحْلَاجَز هَلُ ْم َعْن ُه ْم -فَ َكْي َ
کی بنا پراس کی سرزنش بھی کرے۔یہ شخص یہ کیوں ب
نہیں یاد کرتاہے کہ پروردگارنے اس کے جن عیوب الْغَال َ
وعَّيَره بَِب ْل َواه -أ ََما ذَ َكَر َم ْو ِض َع َسرْتِ اللَّه ِ
کوچھپا کر رکھا ہے وہ اس سے بڑے ہیں جن پر َخاه َ
اب أ َ الَّذي َع َ
یہسرزنش کر رہا ہے اوراس عیب پر کس طرح مذمت
ب الَّ ِذي َعابَه بِه - َعلَْيه ِم ْن ذُنُوبِه -مِم َّا ُهو أ َْعظَم ِم َن َّ
الذنْ ِ
کر رہاہے جس کاخود مرتکب ہوتاہے َ ُ
ِ
ب م ْثلَه ِ ِ ٍ
ف يَ ُذ ُّمه ب َذنْب قَ ْد َرك َ
و َكْي َ
اور اگر بعینہ اس کامرتکب نہیں ہوتا ہے تو اس کے
صى اللَّه ِ
ب بِ َعْينه َ -ف َق ْد َع َ فَِإ ْن مَلْ يَ ُك ْن ركِب َذلِ َ َّ
عالوہ دوسرے گناہ کرتا ہے جو اس سے بھی عظیم تر ك الذنْ َ َ َ
ِ ِ فِ ِ مِم
ہیں اورخدا کی قسم اگر اس سے عظیم تر نہیں بھی ہیں صاه يما س َواه َّا ُه َو أ َْعظَ ُم مْنه -وامْيُ اللَّه لَئ ْن مَلْ يَ ُك ْن َع َ َ
تو کمتر تو ضرور ہی ہیں اور ایسی صورت میں برائی ِ
کرنے اور سرزنش کرنے کی جرٔات بہر حال اس سے
ب الن ِ
َّاس الصغ ِري جَلَراءتُه َعلَى َعْي ِ
ََ صاه يِف َّ يِف الْ َكبِ ِري َ -
وع َ
بھی عظیم تر ہے۔ بندہ خدا:دوسرے کے عیب بیان کرنے أَ ْكَبُر.
میں جلدی نہ کر شائد خدانے اسے معاف کردیا ہو
بأ ٍِ
اوراپنے نفس معمولی گناہکے بارے میں محفوظ تصور ور لَهَحد ب َذنْبِه َ -فلَ َعلَّه َم ْغ ُف ٌ يَا َعْب َد اللَّه اَل َت ْع َج ْل يِف َعْي ِ َ
صيَ ٍة َ -فلَ َعلَّ َ
ك صغِري مع ِ ِ
نہ کر۔شائد کہ خدا اسی پر عذاب کردے۔ہر شخص کو
چاہیے کہ دوسرے کے عیب بیان کرنے سے پرہیز
ب َعلَْيه ك ُم َع َّذ ٌ واَل تَأْ َم ْن َعلَى َن ْفس َ َ َ َ ْ
کرے کہ اسے اپنا عیب بھی معلومہے اور اگر عیب سے ب ف َم ْن َعلِم ِمْن ُكم َعْيب َغرْيِ ه لِما َي ْعلَم ِم ْن َعْي ِ َ -فْليَ ْك ُف ْ
َ ُ َ ْ َ
اغاًل لَه َعلَى ُم َعافَاتِه مِم َّا ْابتُلِ َي بِه
محفوظ ہے تو اس سالمتی کے شکریہ ہی میں مشغول الشكْر َش ِ ِ
رہے ۔ َن ْفسه -ولْيَ ُك ِن ُّ ُ
()141 َغْيُره.
آپ کا ارشاد گرامی ()141
(جس میں غیبت کے سننے سے روکا گیاہے اورحق و
باطل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے ) عليهالسالم ومن كالم له
لوگو! جو شخص بھی اپنے بھائی کے دین کی پختگی في النهي عن سماع الغيبة وفي الفرق بين الحق
اور طریقہ کار کی درستگی کا علم رکھتا ہے اسے اس
کے بارے میں دوسروں کے اقوال پر کان نہیں دھرنا والباطل
چاہیے کہ کبھی کبھی انسان تیر اندازی کرتا ہے اوراس
وس َد َاد طَ ِر ٍيق أَيُّها النَّاس -من عر َ ِ ِ ِ ِ
کا تیرخطاکرجاتا ہے اورباتیں بناتا ہے اور حرف باطل ف م ْن أَخيه َوثي َقةَ دي ٍن َ ُ َ ْ ََ َ
الر ِامي
الر َج ِال -أ ََما إِنَّه قَ ْد َيْر ِمي َّ ِ ِ
-فَاَل يَ ْس َم َع َّن فيه أَقَاو َ
يل ِّ
بہر حال فنا ہو جاتا ہے اورہللا سب کا سننے واال بھی ہے
اور گواہ بھی ہے۔یاد رکھو کہ حق و باطل میں صرف السهام وحُيِ يل الْكَاَل م -وب ِ ِ ِ
چار انگلیوں کا فاصلہ ہوتاہے۔ ورك َيبُ ُ اط ُل ذَل َ َ ُ -وخُتْط ُئ ِّ َ ُ ُ
وش ِهي ٌد -أَما إِنَّه لَيس ب احْل ِّق والْب ِ
اط ِل إِاَّل ِ
واللَّه مَس ٌ
لوگوں نے عرض کی حضور اس کا کیا مطلب ہے ؟
ْ َ َنْي َ َ َ َ يع َ
َصابِ َع.أ َْربَ ُع أ َ
فسئل عليهالسالم عن معىن قوله هذا -
تو آپ نے آنکھ اور کان کے درمیان چار انگلیاں رکھ کر فجمع أصابعه ووضعها بني أذنه وعينه مث قال الْب ِ
اط ُل أَ ْن
فرمایا کہ باطل وہ ہے جو صرف سنا سنایاہوتا ہے َ
ت! ت -واحْلَ ُّق أَ ْن َت ُق َ َت ُق َ ِ
اورحق وہ ہے جو اپنی آنکھ کا دیکھا ہوا ہوتا ہے۔ ول َرأَيْ ُ ول مَس ْع ُ
()142
()142
آپ کا ارشاد گرامی
عليهالسالم ومن كالم له
(نا اہل کے ساتھ احسان کرنے کے بارے میں )
یاد رکھو غیر مستحق کے ساتھ احسان کرنے والے اورنا المعروف في غير أهله
وعْن َد َغرْيِ أ َْهلِه ِم َنوف يِف َغ ِ حقِّه ِ - اض ِع الْمعر ِ ولَيس لِو ِ
اہل کے ساتھ نیکی کرنے والے کے حصہ میں کمینے
لوگوں کی تعریف اوربدترین افراد کی مدح و ثنا ہی آتی رْي َ َ ُْ ْ َ َ
ِ ِ احْل ِّ ِ
ہے اوروہ جب تک کرم کرتا رہتا ہے جہال کہتے رہتے
ہیں کہ کس قدر کریم اورسخی ہے یہ شخص۔حاالنکہ ہللا
يما أَتَى إاَّل حَمْ َم َدةُ اللِّئَام -و َثنَاءُ األَ ْشَرا ِر َ
وم َقالَةُ ظفَ َ
ِ
کے معاملہ میں یہی شخص بخیل بھی ہوتا ہے۔ وه َو َع ْن َج َو َد يَ َده ُ - اجْلُ َّه َال َ -ما َد َام ُمْنعماً َعلَْي ِه ْم َما أ ْ
(دیکھو اگر خدا کسی شخص کو مال دے تو اس کا َذ ِ
ات اللَّه خِب َْي ٌل!
فرض ہے کہ قرابتداروں ( )1کاخیال رکھے۔مہمانوں کی
مہمان نوازی کرے۔قیدیوں اورخستہ حالوں کو آزاد مواضع المعروفO
کرائے۔فقیروں اور قرض داروں کی امداد کرے۔اپنے
نفس کو حقوق کی ادائیگی اور مصائب پر آمادہ کرے کہ ص ْل بِه الْ َقَرابَةَ -ولْيُ ْح ِس ْن ِمْنهفَمن آتَاه اللَّه مااًل َفْلي ِ
َ َ َْ
اس میں ثواب کی امید پائی جاتی ہے اور ان تمام ِ ِ ِ ِ
ك بِه األَس َري والْ َعايِن َ -ولُْي ْعط مْنه الْ َفق َري الضيَافَةَ ولَْي ُف َّ
ِّ
خصلتوں کے حاصل کرنے ہی میں دنیا کی شرافتیں اور
ِِ ِ ِ والْغَا ِرم -ولْي ْ رِب
کرامتیں ہیں اور انہیں سے آخرت کے فضائل بھی ص ْ َن ْف َسه َعلَى احْلُُقوق والن ََّوائب ابْتغَاءَ َ َ
حاصل ہوتے ہیں۔انشاء ہللا۔ ِ ِ ِ ِ هِب ِ
الد ْنيَا - ف َم َكا ِرم ُّ صال َشَر ُ الث ََّواب -فَِإ َّن َف ْوزاً َذه اخْل َ
اآلخَر ِة إِ ْن َشاءَ اللَّه. ودر ُك فَضائِ ِل ِ
ن ف ت شخ ت ت ن ت ت َْ َ
ن ق ص ص
صرف کرے خ ں یم موارد ں یہ ا کو ال م ے
ن پا کہ ے
ن
ہ رض
ت اک ص
کی عر ف کے عالوہ ھ ہ ا ھ آے واال ہ ں ے اور اس م ں ن ہ ر دن ر ہ و ے
ہ ات ے جس کا مال اور ا ج ام ب ہ ر ہ و
ش ے کہ نمال وہ یمبح ہ ر ہ و ا ہ
ے اورشی ی ن ا یح ح ہ ج()1اگر ی ہ ب ات خیح ح ہ
ے اور
یہا ی ی ح ک ہ ی ف ک
چ ی خ
کرداروں د ب اور اہلوں ج سے صرف ل ے ہ ور
ی یہ ت ب ے ا
ن گ ا ک ارہ خ ا ں یم ن کیخ طرف اس طب نہ ن خ
ے۔ ے۔پروردگار ہ ر ص کو اس ج ہالت اور ری ا کاری سے م وظ ر ھ ہ ی ر آ رت۔ب لکہ ی ہ د ی ا اور آ رت دو وں کی ب اہ ی اور برب ادی کا سب ب ہ
()143
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ()143
(طلب بارش کے سلسلہ 2میں ) عليهالسالم ومن خطبة له
یاد رکھو کہ جو زمین تمہارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور
جو آسمان تمہارے سر پر سایہ فگن ہے دونوں تمہارے في االستسقاء
رب کے اطاعت گذار ہیں اور یہ جو اپنی برکتیں تمہیں
عطا کر رہے ہیں تو ان کا دل تمہارے حال پر نہیں کڑھ وفيه تنبيه العباد وجوب استغاثة رحمة اللَّه إذا حبس
رہا ہے۔اور نہ یہ تم سے تقرب چاہتے ہیں اورنہکسی عنهم رحمة المطر
خیر کے امیدوار ہیں۔بات صرف یہ ہے کہ انہیں تمہارے
فائدوں کے بارے میں حکم دے دیا گیا ہے تو یہ اطاعت ض الَّيِت تُِقلُّ ُك ْم َّ -
والس َماءَ الَّيِت تُ ِظلُّ ُك ْم أَاَل وإِ َّن األ َْر َ
پروردگار کر رہے ہیں اور انہیں تمہارے مصالح کے
ود ِان لَ ُك ْم بَِبَر َكتِ ِه َما ِ ِِ
حدود پرکھڑا کردیا گیا ہے تو کھڑے ہوئے ہیں۔ َصبَ َحتَا جَتُ َ
وما أ ْ
ُمط َيعتَان لَربِّ ُك ْم َ -
یاد رکھو کہ ہللا بد اعمالیوں کے موقع پر اپنے بندوں کو َت َو ُّجعاً لَ ُك ْم -واَل ُزلْ َفةً إِلَْي ُك ْم واَل خِلَرْيٍ َت ْر ُج َوانِه ِمْن ُك ْم -
ان مصائب میں مبتال کردیتا ہے کہ پھل گم ہو جاتے ہیں ۔ ولَ ِكن أ ُِمرتَا مِب َنَافِعِ ُكم فَأَطَاعتا -وأُقِيمتا علَى ح ُد ِ
برکتیں رک جاتی ہیں۔خیرات کے خزانوں کے منہ بند ود ََ َ ُ ََ ْ ْ َ
ہو جاتے ہیں تاکہ توبہ کرنے واال توبہ کرلے اور صاحِلِ ُك ْم َف َق َامتَا.
َم َ
بازآجانے واال بازآجائے۔نصیحت حاصل کرنے واال
ص الثَّمر ِ َعم ِال َّ ِ ِ ِ ِ ِ ِ
نصیحت حاصل کرلے اور گناہوں سے رکنے واال رک ات السيِّئَة -بَن ْق ِ َ َ إ َّن اللَّه َيْبتَلي عبَ َاده عْن َد األ ْ َ
جائے ۔ پروردگارنے استغفار کو رزق کے نزول اور ِ ِ ِ ِ ِ ِ
مخلوقات پررحمت کے ورود کاذریعہ قرار دے دیا ہے۔ بوب تَائ ٌ س الَْبَر َكات -وإِغْاَل ق َخَزائ ِن اخْلَْيَرات ليَتُ َ وحْب َِ
اس کا ارشاد گرامی ہے کہ '' اپنے رب سے استغفار کرو وي ْز َد ِجَر ُم ْز َد ِجٌر -وقَ ْد ويتَ َذ َّكَر ُمتَ َذ ِّكٌر َ
ِ ِ
-ويُ ْقل َع ُم ْقل ٌع َ
کہ وہ بہت زیادہ بخشنے واال ہے۔وہ استغفار کے نتیجہ
ورمْح َِة جعل اللَّه سبحانَه ااِل ستِ ْغ َفار سبباً -لِ ُدرو ِر ِّ ِ
میں تم پرموسال دھار پانی برسائے گا۔تمہاری اموال اور الر ْزق َ ُ ْ َ ََ ُْ َ ََ َ
اوالد کے ذریعہ مدد کرے گا۔تمہارے لئے باغات
اسَت ْغ ِفُروا َربَّ ُك ْم إِنَّه كا َن َغفَّاراً - اخْلَْل ِق َف َق َال ُسْب َحانَه ْ ( -
اورنہریں قراردے گا'' ہللا اس بندہ پر رحم کرے
السماء علَي ُكم ِم ْدراراً -ومُيْ ِد ْد ُكم بِأَم ٍ ِ ِ
ني - وال وبَن َ ْ ْ يُْرس ِل َّ َ َ ْ ْ
َّات وجَيْ َع ْل لَ ُك ْم أَهْن اراً) َ -فَر ِح َم اللَّه ْامَرأً وجَي عل لَ ُكم جن ٍ
َْ ْ ْ َ
جو توبہ کی طرف متوجہ ہوجائے خطائوں سے معافی واسَت َق َال َخ ِطيئَتَه وبَ َاد َر َمنِيَّتَه. اسَت ْقبَ َل َت ْو َبتَه ْ - ْ
مانگے اور موت سے پہلے نیک اعمال کرلے۔
ِ ِ اللَّه َّم إِنَّا خرجنَا إِلَي َ ِ
خدایا ہم پردوں کے پیچھے اور مکانات کے گوشوں سے وب ْع َد َستَا ِر واألَ ْكنَان َ - ك م ْن حَتْت األ ْ ََ ْ ْ ُ
تیری طرف نکل پڑے ہیں۔ہمارے بچے اور جانور سب ِ
فریادی ہیں۔ہم تیریر رحمت کی خواہش رکھتے ہیں۔تیری ني
وراج َ ك َ
ِ
ني يِف َرمْح َت َ ِ ِ ِ
يج الَْب َهائ ِم والْ ِولْ َدان َ -راغبِ َ َع ِج ِ
ضل نِعمتِك ِِ -
نعمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب اور غضب سے
خوفزدہ ہیں۔خدایا ہمیں باران رحمت سے سیراب کردے
ك -اللَّ ُه َّم ك ونِْق َمتِ َ ني ِم ْن َع َذابِ َ وخائف َ َ فَ ْ َ ْ َ َ
اور ہمیں مایوس بندوں میں قرارنہدینا اور نہ قحط سے ني -واَل ُت ْهلِكْنَا ِِ ِ
ك واَل جَتْ َع ْلنَا م َن الْ َقانط َ
فَ ِ
اسقنَا َغْيثَ َ ْ
ہالک کر دینا اور نہ ہم سے ان اعمال کا محاسبہ کرنا ِ
الس َف َهاءُ منَّا يَا أ َْر َح َم مِب ِ
ني -واَل ُت َؤاخ ْذنَا َا َف َع َل ُّ ِ بِ ِّ
جوہمارے جاہلوں نے انجام دئیے ہیں۔اے سب سے زیادہ السن َ
ك َما اَل ك -نَ ْش ُكو إِلَْي َ ني -اللَّ ُه َّم إِنَّا َخَر ْجنَا إِلَْي َ َّ مِح ِ
رحم کرنے والے۔ الرا َ
خدایا :ہم تیری طرف ان حاالت کی فریاد لے کر آئے ہیں خَي ْ َفى علَي َ ِ
َجاءَْتنَا ني أَجْل أَْتنَا الْم َ ِ
جو تجھ سے مخفی نہیں ہیں اور اس وقت نکلے ہیں جب ضاي ُق الْ َو ْعَرةُ وأ َ ك-ح َ َ َ َْ
ب الْ ُمَت َع ِّسَرةُ - ِ ِ الْم َق ِ
ط الْ ُم ْجدبَةُ -وأ َْعيَْتنَا الْ َمطَال ُ اح ُ
ہمیں سخت تنگیوں نے مجبور کردیا ہے اور قحط سالیوں
نے بے بس بنا دیا ہے اورشدید حاجت مندیوں نے ال چار َ
ِ ِ
کردیا ہے اور دشوار ترین فتنوں نے تابڑ توڑ حملے کر ك أَاَّل صعبَةُ -اللَّ ُه َّم إِنَّا نَ ْسأَلُ َ ت َعلَْينَا الْفنَتُ الْ ُم ْستَ ْ وتَاَل مَحَ ْ
رکھے ہیں۔خدایا ہماری التماس یہ ہے کہ ہمیں محروم اطَبنَا بِ ُذنُوبِنَا - َتر َّدنَا خائِبِني -واَل َت ْقلِبنَا وامِجِ ني واَل خُتَ ِ
واپس نہ کرنا اور ہمیں نا مراد نہ پلٹانا ۔ہم سے ہمارے َ َ َ ُ َ َ
واَل ُت َقايِسنا بِأ ِ
گناہوں کی بات نہکرنا اور ہمارے اعمال کا محاسبہ نہ كوبَر َكتَ َ ك َ َع َمالنَا -اللَّ ُه َّم انْ ُش ْر َعلَْينَا َغْيثَ َ ََ ْ
کرنا بلکہ ہم پر اپنی بارش رحمت ' اپنی برکت ' اپنے
رزق اور کرم کا دامن پھیال دے اور ہمیں ایسی سیرابی واس ِقنَا ُس ْقيَا نَاقِ َعةً ُم ْر ِويَةً ُم ْع ِشبَةًك ْ ورمْح َتَ َ
ك َ -و ِر ْزقَ َ
عطا فرما جوتشنگی کو مٹانے والی۔سیرو سیراب کرنے
والی اورسبزہ اگانے والی ہو۔تاکہ جو کھیتیاں گئی گذری
ہوگئی ہیں دوبارہ اگ آئیں اور جو زمینیں مردہ ہوگئی
ہیں وہ زندہ ہو جائیں۔یہ سیرابی فائدہ مند اور بے پناہ
پھلوں والی ہو جس سے ہموار زمینیں سیراب ہو جائیں
اور وادیاں بہہ نکلیں۔درختوں میں پتے نکل آئیں اور ات -نَافِ َعةَ احْلَيَا هِب
ات وحُتْيِي َا َما قَ ْد َم َ
ت َا َما قَ ْد فَ َ
ُتْنبِ هِب
ُ
بازار کی قیمتیں نیچے آجائیں کہ تو ہرشے پر قادر ہے۔
يل الْبُطْنَا َن ِ ِ هِب ِ ِ
()144 َكث َريةَ الْ ُم ْجَتىَن تُ ْروي َا الْق َيعا َن -وتُس ُ
َس َع َار إِن َ ِ
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ َّك َعلَى َما تَ َشاءُ وتَ ْسَت ْو ِر ُق األَ ْش َج َار وتُ ْرخ ُ
ص األ ْ
(جس میں بعثت انبیاء 2کاتذکرہ کیا گیا ہے) قَ ِد ٌير.
پروردگار نے مرسلین کرام کو مخصوص وحی سے
نواز کر بھیجاہے اور انہیں اپنے بندوں پر اپنی حجت
()144
بنادیا ہے تاکہ بندوں کی یہ حجت تمام نہ ہونے پائے کہ عليهالسالم ومن خطبة له
ان کے عذر کاخاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔پروردگار نے ان
لوگوں کو اسی لسان صدق کے ذریعہ راہ حق کی طرف مبعث الرسل
ث اللَّه رسلَه مِب َا خ َّ ِ ِ
ص ُه ْم به م ْن َو ْحيِه َ -
دعوت دی ہے۔اسے مخلوقات کاحال مکمل طور سے
معلوم ہے وہ نہ ان کے چھپے ہوئے اسرارسے بے خبر وج َعلَ ُه ْم ُح َّجةً َ َب َع َ ُ ُ
ب احْلُ َّجةُ هَلُ ْم بَِت ْر ِك ا ِإل ْع َذا ِر إِلَْي ِه ْم ِ ِ اَّل ِ
ہے اورنہ ان پوشیدہ باتوں سے نا واقف ہے جو ان کے
لَه َعلَى َخ ْلقه -لئَ جَت َ
دلوں کے اندر مخفی ہے۔ وہ اپنے احکام کے ذریعہ ان کا -فَ َدعاهم بِلِس ِ
امتحان لینا چاہتا ہے کہ حسن عمل کے اعتبارسے کون الص ْد ِق إِىَل َسبِ ِيل احْلَ ِّق -أَاَل إِ َّن اللَّه ان ِّ َ ُْ َ
سب سے بہتر ہے تاکہ جزاء میں ثواب عطا کرے اور
پاداش میں مبتالئے عذاب کردے۔
َخ َف ْوهف اخْلَْل َق َك ْش َفةً -اَل أَنَّه َج ِه َل َما أ ْ َت َعاىَل قَ ْد َك َش َ
ض َمائِِر ِه ْم – ولَ ِك ْن ون َ ون أَسرا ِر ِهم -ومكْنُ ِ
ص َْ ْ َ
ِمن م ِ
َْ ُ
(اہل بیت علیہم السالم)2
ِ
کہاں ہیں وہ لوگ جن کاخیال یہ ہے کہ ہمارے بجائے
اب َجَزاءً َح َس ُن َع َماًل َ -فيَ ُكو َن الث ََّو ُ ليَْبلَُو ُه ْم أَيُّ ُه ْم أ ْ
وہی راسخون فی العلم ہیں اوریہ خیال صرف جھوٹ اور ِ
ہمارے خالف بغاوت سے پیدا ہوا ہےکہ خدانے ہمیں بلند اب َب َواءً . والْع َق ُ
بنادیا ے اورانہیں پست رکھا ہےہمیں کماالت عنایت فرما
دئیے ہیں اور انہیں محروم رکھاہےہمیں اپنی رحمت میں
داخل کرلیاہےاورانہیں باہررکھا ہے ہمارے ہی ذریعہ
سے ہدایت
ق
حمد اللَّه
ق خ ض
سی ب ھی حال می نںن
ن تبر رار رکھ ن ا اور باسن
سے ک ے کہ اس کا ہ ر حال می ں ن و ای مان اور ع ی دہبو کردار ہکے معاملہ سے مراد دی ن ے کہ اہ ل ب ی ت ن ( )1عض حن را نت کا ی خال ہ
ب
اور ج ان چ اے کی پ اہ گانہ ی ں ڈھو ڈےدست بردار ہ و ج اے ہ ی ں ن سےن نن ید ھی ں م ت ب مصن ی اد لوگ ہ نور ے ں یہ ات کی س ب کے ص رش ا و ہ ہ ردار دست
ن ی ٰ نی ہ ب خ ب ہ ض ت ب
ے بشلکہ
کے بسنکا کام ہیئں تہسان ق ئ
ادراک ہ ر ا ق ے جس کا زل ہ کی وراشیمم ن ان
ن ی عظ قمت اور ے کہاس سے تمراد اہ ل ب ی ت کی روحا ق عض ح رات کا ی الل یہ ں۔اورع ظ ئ ےہیلگ
ن ب ب
ے ام حان دہ ے کو ھی ا ل کر ا پڑھے گا۔ور ہ صرف ع ی دہ ا م کرے کے ل ےن کن ب ہر حال اس صور می ں ھی ان کے ش دم پر چ ل درکار ہ
ئم رف ض ے ظی اس کے
ئل
ے۔اور آزماے ہ وے دل کی رورت ہی ں ہ
میں اس کی حمد کرتا ہوں اس کے انعام کا شکریہ ادا ف ُح ُقوقِه -
َستَعِينُه َعلَى وظَائِ ِ
َ
ِ
أَمْح َ ُده ُشكْراً ِإل ْن َعامه -وأ ْ
کرنے کے لئے اور اس سے مدد چاہتا ہوں اس کے
حقوق سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ۔اس کا لشکر غالب يم الْ َم ْج ِد. ِ ِ ِ
َعز َيز اجْلُْند َعظ َ
ے اور بزرگی عظیم ہے۔
میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ محمد (ص) ہللا کے الثناء على النبي
َن حُم َّمداً عب ُده ورسولُه -دعا إِىَل طَ ِ
اهَر
اعته وقَ َ وأَ ْش َه ُد أ َّ َ َ ْ َ ُ
بندہ اور اس کے رسول ہیں۔انہوں نے اس کی اطاعت
کیدعوتدی ہے اور اس کے دشمنوں پرغلبہ حاصل کیا
َ ََ
اجتِ َماعٌ َعلَى ِ ِ ِ
ہے اس کے دین میں جہاد کے ذریعہ۔انہیں اس بات سے أ َْع َداءَه ج َهاداً َع ْن دينِه -اَل َيثْنِيه َع ْن َذل َ
ك ْ
نہ ظالموں کا ان کے جھٹالنے پراجتماع روک سکا ہے
اس ِإلطْ َف ِاء نُو ِره. ِ ِِ
تَكْذيبه -والْت َم ٌ
اور نہ ان کی نور ہدایت کو خاموش کرنے کی خواہش
منع کرسکی ہے۔ العظة بالتقوى
تقوی ٰالہی سے وابستہ ہو جائو کہ اس کی
ٰ تم لوگ
ریسمان کے بندھن مضبوط اور اس کی پناہ کی چوٹی وم ْع ِقاًل ِ ِ فَ ْ ِ ِ
اعتَص ُموا بَت ْق َوى اللَّه فَإ َّن هَلَا َحْباًل َوثيقاً عُْر َوتُه َ -
ہرجہت سے محفوظ ہے۔موت اور اس کی سختیوں کے
وام َه ُدوا لَه ِ ِ ِ ِ
سامنے آنے سے پہلے اس کی طرف سبقت کرو اور اس ت و َغ َمَراته ْ َمنيعاً ذ ْر َوتُه -وبَاد ُروا الْ َم ْو َ
کے آنے سے پہلے زمین کو ہموار کرلو۔اس کے نزول َقْب َل ُحلُولِه -وأ َِعدُّوا لَه َقْب َل نُُزولِه فَِإ َّن الْغَايَةَ الْ ِقيَ َامةُ -
سے پہلے تیاری مکمل کرلو کہ انجام کار بہر حال قیامت
ہے۔اور یہ بات ہر اس شخص کی نصیحت کے لئے کافی وم ْعتَرَب اً لِ َم ْن َج ِه َل -و َقْب َل ِ ِ
ك َواعظاً ل َم ْن َع َق َل ُ
ِ
و َك َفى بِ َذل َ
ہے جو صاحب عقل ہو اور اس میں جاہل کے لئے بھی وشد ِ
َّة اس ِ - وغ الْغَايَِة َما َت ْعلَ ُمو َن ِم ْن ِض ِيق األ َْر َم ِ
بُلُ ِ
عبرت کا سامان ہے اورتمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس
فات الْ َفز ِع واختِاَل ِ ا ِإلباَل ِس وهو ِل الْمطَّلَ ِع -وروع ِ
انجام تک پہنچنے سے پہلے تنگی لحد اور شدت برزخ ْ َ َْ َ َْ ُ ْ
کا بھی سامنا ہے جہاں برزخ کی ہولناکی۔خوف کی دہشت
وخي َف ِة اع وظُْلم ِة اللَّح ِد ِ - اك األَمْسَ ِ َضاَل ِع -واستِ َك ِ األ ْ
۔پسلیوں کا ادھر سے ادھر ہو جانا۔کانوں کا بہر ہو جانا۔ َ ْ ْ
قبر کی تاریکیاں ۔عذاب کی دھمکیاں۔قبر کے شگاف کا الص ِف ِ
يح . ور ْدِم َّ يح َ الْ َو ْع ِد و َغ ِّم َّ
الض ِر ِ
بند کیا جانا اور پتھر کی سلوں سے پاٹ دیا جانابھی ہے۔
اضيَةٌ بِ ُك ْم َعلَى َسنَ ٍن - الد ْنيا م ِ ِ ِ
فَاللَّه اللَّه عبَ َاد اللَّه -فَإ َّن ُّ َ َ
بندگان خدا! ہللا کو یادرکھو کہ دنیا تمہارے لئے ایک ہی
راستہ پر چل رہی ہے اور تم قیامت کے ساتھ ایک ہی
والساعةُ يِف َقر ٍن -و َكأَنَّها قَ ْد جاءت بِأَ ْشر ِ
رسی میں بندھے ہوئے ہو اورگویا کہ اس نے اپنے اط َها ََْ َ َ َ وأَْنتُ ْم َّ َ
عالمات کو نمایاں کردیا ہے اور اس کے جھنڈے قریب اطها -وو َق َفت بِ ُكم علَى ِصر ِ ِ
آچکے ہیں۔اورتمہیں اپنے راستہ پرکھڑا کردیا ہے
اط َها و َكأَن ََّها َ َ ْ ْ َ ت بِأَ ْفَر َ وأَ ِزفَ ْ
ت بِ َكاَل كِلِها وانْصرم ِ هِل
اورگویا کہ وہ اپنے زلزلوں سمیت نمودار ہوگئی ہے اور ت ََ َ َ ت بَِزاَل ِز َا -وأَنَ َ
اخ ْ قَ ْد أَ ْشَرفَ ْ
اپنے سینے ٹیک دئیے ہیں اور دنیا نے اپنے اہل سے منہ
موڑ لیا ہے ۔اور انہیں اپنی گود سے الگ کردیا ہے۔گویا ت َكَي ْوٍم ضن َها -فَ َكانَ ْ
الد ْنيا بِأَهلِها -وأَخرجْتهم ِمن ِح ْ ِ
َْ َ ُ ْ ْ ُّ َ ْ َ
يد َها َرثّاً ومَسِ ُين َها َغثّاً وص َار َج ِد ُ ضى أ َْو َش ْه ٍر ا ْن َق َ
کہ یہ ایک دن تھا جو گزر گیا یا ایک مہینہ تھاجو بیت
گیا۔اور اس کا جدید کہنہ ہوگیا اور اس کا تندرست الغر ضى – َ َم َ
ہوگیا۔اس موقف میں جس کی جگہ تنگ ہے اور جس کے ك الْ َم َق ِام وأ ُُمو ٍر ُم ْشتَبِ َه ٍة ِعظَ ٍام -ونَا ٍر ضْن ِ ف َ -يِف موقِ ٍ
َْ
امور مشتبہ اور عظیم ہیں۔وہ آگ ہے جس کا زخم کاری ِ ٍ ِ ٍ
يد َكلَُب َها َعال جَلَُب َها َ -ساط ٍع هَلَُب َها ُمَتغَيِّظ َزفريُ َها ش ِد ٍ
ہے اور جس کے شعلے بلند ہیں۔اس کی بھڑک نمایاں َ
يد مُخُودها َ -ذ ٍاك وقُودها خَمُ ٍ
وف َج ٍج سعِريها بعِ ٍ
ہے اور بھڑکنے کی آوازیں غضب ناک ہیں۔اس کی
لپیٹیں تیز ہیں اور بجھنے کے امکانات بعید ہیں۔اس کا
ُ َُ َُ ُ -متَأ ِّ َ ُ َ َ
ٍِ ِ ٍ َو ِع ُ
بھڑکنا تیز ہے اور اس کے خطرات دہشت ناک ہیں۔اس ور َهايد َها َ -ع ٍم َقَر ُار َها ُمظْل َمة أَقْطَ ُار َها َ -حاميَة قُ ُد ُ
کا گڑھا تاریک ہے اور اس کے اطراف اندھیرا ہی َّة ُز َمراً) وسيق الَّ ِذين َّات َقوا ربَّهم إِىَل اجْل ن ِ ِ ِ ٍ
اندھیرا ہے۔اس کی دیگیں کھولتی ہوئی ہیں اور اس کی َ ور َها ْ ُ َ ْ َ َ ( - فَظ َيعة أ ُُم ُ
وز ْح ِز ُحوا َع ِن النَّا ِر ِ ِ
امور دہشت ناک ہیں۔اس وقت صرف خدا رکھنے والوں اب ُ - اب وا ْن َقطَ َع الْعتَ ُ -قَ ْد أُم َن الْ َع َذ ُ
کو گروہ گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا جہاں
ضوا الْ َم ْث َوى والْ َقَر َار واطْمأَن هِبِ
عذاب سے محفوظ ہوں گے اور عتاب کا سلسلہ ختم ہو ور َُّار َ - َّت ُم الد ُ َ ْ
چکا ہوگا جہنم سے الگ کر دئیے جائیں گے اور اپنے
گھرمیں اطمینان سے رہیں گے۔جہاں اپنی منزل اور اپنے
مستقر سے خوش ہوں گے
۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں پاکیزہ تھے اور
الد ْنيَا َزاكِيَةً -وأ َْعُيُن ُه ْم بَاكِيَةً - ت أ َْع َماهُلُ ْم يِف ُّ َّ ِ
جن کی آنکھیں خوف خدا سے گریاں تھیں ۔ان کی راتیں ين َكانَ ْ الذ َ
خشوع اور استغفار کی بناپ ردن جیسی تھیں اور ان کے واستِ ْغ َف ًارا -و َكا َناه ْم َن َهاراً خَتَشُّعاً ْ و َكا َن لَْيلُ ُه ْم يِف ُد ْنيَ ُ
دن وحشت اورگوشہ نشینی کی بنا پر رات جیسے تھے۔
ہللا نے جنت کو ان کی بازگشت کی منزل بنا دیا ہے اور َن َه ُار ُه ْم لَْياًل َت َو ُّحشاً وانِْقطَاعاً -فَ َج َع َل اللَّه هَلُ ُم اجْلَنَّةَ َمآباً
جزاء آخرت کو ان کا ثواب ''یہ حقیقتا ً اسی انعام کے ك َدائِ ٍم واجْل زاء َثواباً ( -وكانُوا أَح َّق هِب ا وأ َْهلَها) -يِف م ْل ٍ
حقدار اور اہل تھے '' جو ملک دائم اور نعیم ابدی میں ُ َ ََ َ َ
رہنے والے ہیں۔ بندگان خدا! ان باتوں کا خیال رکھو جن ونَعِي ٍم قَائِ ٍم.
کے ذریعہ سے کامیابی حاصل کرنے واال کامیاب ہوتا
اعتِه
ضَ
فَارعوا ِعباد اللَّه ما بِ ِرعايتِه ي ُف ِ
وز فَائُز ُك ْم -وبِِإ َ ْ َْ َ َ َ َ َ َ ُ
ہے اور جن کو ضائع کردینے سے باطل والوں کا گھاٹا
ہوتا ہے ۔ اپنی موت کی طرف اعمال کے ساتھ سبقت َع َمالِ ُك ْم -فَِإنَّ ُك ْم
آجالَ ُك ْم بِأ ْ
ِ ِ
خَي ْ َسُر ُمْبطلُ ُك ْم -وبَاد ُروا َ
کرو کہ تم گذشتہ اعمال کے گروی ہو اور پہلے والے
اعمال کے مقروض ہو اور اب گویا کہ خوفناک امر نازل وم ِدينُو َن مِب َا قَد َّْمتُ ْم -و َكأَ ْن قَ ْد
َسلَ ْفتُ ْم َ -
مِب
ُم ْر َت َهنُو َن َا أ ْ
ہو چکا ہے جس سے نہ واپسی کا امکان ہے اور نہ وف -فَاَل َر ْج َعةً َتنَالُو َن واَل َع ْثَر ًة ُت َقالُو َن َنَز َل بِ ُك ُم الْ َم ُخ ُ
گناہوں کی معافی مانگنے کی گنجائش ہے۔ہللا ہمیں اور
وع َفا َعنَّا -استعملَنا اللَّه وإِيَّا ُكم بِطَاعتِه وطَ ِ ِ
تمہیں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کی توفیق دے اعة َر ُسوله َ - َ ْ َ َْ ْ َ َ
اوراپنے فضل و رحمت سے ہم دونوں سے در گزر ض ِل َرمْح َتِه.
وعْن ُك ْم بَِف ْ َ
فرمائے ۔ زمین سے چمٹے رہو اور بالئوں ( )1پر صبر
کرتے رہو۔اپنے ہاتھ اور اپنی تلواروں کو زبان کی واصرِب ُوا َعلَى الْبَاَل ِء -واَل حُتَِّر ُكوا بِأَيْ ِدي ُك ْم ض ْ الَْز ُموا األ َْر َ
خواہشات کا تابع نہ بنانا
ت ف ف
وسيُوفِ ُك ْم يِف َه َوى أَلْ ِسنَتِ ُك ْم ُ
ت ٹ ن تت ش ق ن ت
ے کی اھ ا لوار کہ ھی
ض ش ے اورنہ ر ای ک کیت طری خئواہ ھ ے کرس ہ ے تکہ امام کےئمخ لص ا حاب م ن ا ق یتن ناور عان دی تن کی رو ن کوت رداش ت ن ھ اس در س شگی ن ()1حاالت ئ
ہت ک
ض ب م ص من کا خ
ے کہ کو ی کام مر ت ی الٰہی اور مصلحت ے ھ ے۔ل ی کن ح رت ی تہ ق ہی ں چ ا کے ج ذب ا ی ا تسان کی ئ م ن ا اورآرزو ہ و ی ہن ش دور
خ ر ہ و ج ے ا ج ا ی کرد مہ خ ا اج ازت ملخج اے اور د
ے صب رو سکون کی ل ی ن کی اور اس امر کی طرف م وج ہ ک ی ا کہ اسالم ت ات کے اب ع ہ و تج ا ی ں لہٰذا پہل الف ہ و اور تم رے م لصی ب
آپکے ش ے ھی ج ذب ات و واہ خ ہ ش نکی ش ی خاسالم کے ت ن
ف واہ ئش ات کاش اب ع ش ہی ں ہ و ا قہ ن
۔اس کے ب عد مخ لصی نن کے اس ن یت ک ج ذئب ہ کی شطرف وج ہ ئ ںش یل چ ر پ ارہ اس اور
ئ ں یرک اع ب ا کا اس ات وا کہ ے ہ ہ ی ان ے۔ا کس تالم
اس کت ہ کی طرف وج ہتدال ی کہن ن
ہادت کا ست ہ و نج ا ی ں۔اور ی ہ مایوسی کا کار ہ و ج ا تی ں ۔ل ئہٰذا ش ےپ ق ے ہ ی ں۔ک ہی ں ایسا خن ہ ہ و کہ نان کے حوصتل ہادت و رب ا ی ر شھ کہ ی ہ وقن ن رما ی ت
مدار لوارت چ الے پر ہی ںے لتہٰذا اس ن کتئہ تکیتطرفش وج ہش دال ی کہ ہادت کا دارو ئ ہت ر پ ی ا ب ر ہ بذ ج ھ الص ی ت کےت سا دارو مدار اق ن ت ے۔ ہادت کا ن ہ ں
خ یمدار لوارچ الے پر ہ
دارو ش
ے و مہارا مار ہدا اورصالحی ن می ں ہ و ج اے گا م ہی ں اس ب
ے لہٰذا م اس ج ذب ہ کے سا ھ بس ر پر ھی مرگ ت کے سا ھ ج ذب ہ رب ا ی پر ہ الص ی ن ض ا مدارن دارو کا ہادت
ش ے۔ ہ
ے۔ سلسلہ می ں پری ان ہ وے کی رورت ہی ں ہ
ات ِمْن ُك ْم ِ مِب
واَل تَ ْسَت ْعجلُوا َا مَلْ يُ َع ِّج ْله اللَّه لَ ُك ْم .فَِإنَّه َم ْن َم َ
اور جس چیز میں خدا نے عجلت نہیں رکھی اس کی
جلدی نہ کرنا کہ اگر کوئی شخص خدا و رسول (ص) و
اہل بیت کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے بستر پر وح ِّق َر ُسولِه ِ
وه َو َعلَى َم ْع ِرفَة َح ِّق َربِّه َ -
ِ ِ
َعلَى فَراشه ُ -
مرجائے تو وہ بھی شہید ہی مرتا ہے اور اس کا اجر بھی ِ
خدا ہی کے ذمہ ہوتا ہے اور وہ اپنی نیت کے مطابق َجُره َعلَى اهلل) - ات َش ِهيداً -و ( َوقَ َع أ ْ وأ َْه ِل َبْيته َم َ
نیک اعمال کا ثواب بھی حاصل کر لیتا ہے کہ خود نیت
النيَّةُ
ت ِّ واسَتوجب َثواب ما َنوى ِمن صالِ ِح عملِه -وقَام ِ
بھی تلوار کھینچنے کے قائم مقام ہو جاتی ہے اور ہر َ ْ ْ َ َ َ َ َ َ ْ َ ََ
ٍ م َقام إِ ِ ِ ِ ِ ِ
شے کی ایک مدت ہوتی ہے اور اس کا ایک وقت معین صاَل ته ل َسْيفه -فَإ َّن ل ُك ِّل َش ْيء ُم َّد ًة وأ َ
َجاًل . َ َ ْ
ہوتا ہے۔
()191
()191
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(جس میں حمد خدا۔ثنائے 2رسول (ص) اور وصیت زہد و يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويوصي بالزهد والتقوى
ٰ
تقوی کا تذکرہ کیا گیا ہے )
ب ُجْن ُده اشي يِف اخْلَْل ِق مَحْ ُده -والْغَالِ ِ احْل م ُد لِلَّه الْ َف ِ
َْ
ساری تعریف اس ہللا کے لئے ہے جس کی حمد ہمہ
گیراورجس کا لشکرغالب ہے اور جس کی عظمت بلند و والْمَتعايِل جدُّه -أَمْح َ ُده َعلَى نِع ِمه الت َُّؤ ِام وآاَل ئِه الْعِظَامِ
باال ہے۔میں اس کی مسلسل نعمتوں اور عظیم ترین
َ َُ َ
مہربانیوں پراس کی حمد کرتا ہوں کہ اس کا حلم اس قدر وعلِ َم
ضى َ -
ِ
-الَّذي َعظُ َم ح ْل ُمه َف َع َفا َ
وع َد َل يِف ُك ِّل َما قَ َ
ِ
ومْن ِشئِ ِه ْم ِ ِِ ِ ِ ِ
ضى ُ -مْبتَد ِع اخْلَاَل ئ ِق بع ْلمه ُ
عظیم ہے کہ وہ ہر ایک کو معاف کرتا ہے اورپھر ہر
فیصلہ میں انصاف سے بھی کام لیتا ہے اور جو کچھ وما َم ََما مَيْضي َ
صانِ ٍع ْمه -بِاَل اقْتِ َد ٍاء واَل َتعلِي ٍم -واَل ِ ٍ ِ ِ ِ حِب ك ِ
گزر گیا اور گزر رہا ہے سب کا جاننے واال بھی ہے۔وہ احت َذاء لمثَال َ ْ ْ ُ
صابَِة َخطٍَإ واَل َح ْ ِ
مخلوقات کو صرف اپنے علم سے پیدا کرنے واال ہے
اور اپنے حکم سے ایجاد کرنے واال ہے۔نہ کسی کی اقتدا
ضَر ِة َم ٍإل. َحكي ٍم -واَل إِ َ
کی ہے اور نہ کسی سے تعلیم لی ہے۔نہ کسی صانع
حکیم کی مثال کی پیروی کی ہے اور نہ کسی غلطی کا
شکار ہوا ہے اورنہ مشیروں کی موجودگی میں کام انجام
دیا ہے۔
اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص)اس کے بندہ اور الرسول األعظم
رسول ہیں۔انہیں اس وقت بھیجاہے جب لوگ گمراہیوں
میں چکر کاٹ رہے تھے اورحیرانیوں میں غلطاں و ض ِربُو َنَّاس يَ ْ
ور ُسولُه ْ -ابَت َعثَه والن ُ َن حُمَ َّمداً َعْب ُده َ وأَ ْش َه ُد أ َّ
پیچاں تھے۔ہالکت کی مہاریں انہیں کھینچ رہی تھیں اور
کدورت و زنگ کے تالے ان کے دلوں پر پڑے ہوئے
وجو َن يِف َحْيَر ٍة قَ ْد قَ َاد ْت ُه ْم أَ ِز َّمةُ احْلَنْي ِ - يِف َغ ْمَر ٍة -ومَيُ ُ
تھے۔ الريْ ِن !
ال َّ ت َعلَى أَفْئِ َدهِتِ ْم أَْق َف ُ واسَت ْغلَ َق ْ
ْ
ٰ
تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں ٰ بندگان خدا! میں تمہیں
()1
کہ یہ تمہارے اوپر ہللا کا حق ہے اور اس سے تمہارا الوصية بالزهد والتقوى
حق پروردگار پیدا ہوتا ہے۔اس کے لئے الہ سے مدد ُوصي ُك ْم بَِت ْق َوى اللَّه -فَِإن ََّها َح ُّق اللَّه َعلَْي ُك ْم - ِعباد اللَّه أ ِ
مانگو اور اس کے ذریعہ اسی سے مدد طلب کرو کہ یہ ََ
تقوی آج دنیا میں سپر اورحفاظت کاذریعہ اور کل جنت ٰ وجبَةُ َعلَى اللَّه َح َّق ُك ْم وأَ ْن تَ ْستَعِينُوا َعلَْي َها بِاللَّه - والْم ِ
ُ
تک پہنچنے کا راستہ ہے۔اس کا مسلک واضح اور اس ِ ِ هِب
وتَ ْستَعينُوا َا َعلَى اللَّه -فَِإ َّن َّ ِ
کا راہر و فائدہ حاصل کرنے واال ہے۔اور اس کا امانت الت ْق َوى يِف الَْي ْوم احْل ْر ُز واجْلُنَّةُ
ٰ
تقوی اپنے کو ان پر بھی دار حفاظت کرنے واال ہے۔یہ وسالِ ُك َها ِ ِ
يق إىَل اجْلَنَّة َ -م ْسلَ ُك َها َواض ٌح َ
-ويِف َغ ٍد الطَِّر ُ ِ
پیش کرتا رہا ے جو گزرگئے اور ان پر بھی پیش کر رہا
ہے جو باقی رہ گئے ظ -مَلْ َتْبَر ْح َعا ِر َ
ضةً َن ْف َس َها َعلَى وم ْسَت ْو َدعُ َها َحافِ ٌ َراب ٌح ُ
ِ
ين
َ ني ِمْن ُك ْم -والْغَاقبِ ِر َ
األُم ِم الْم ِ
اض َئ َ
نت فض عم
ن ق ن ن ھ ک
ے۔لہٰذا اس ل
ے۔اس کا ہ ر ل کرم پروردگار اور ل ا ٰہی کا ی ج ہ ہ ے کہ ب دہ ک لسی نیمت پر پروردگار پرحق پ ی قدا کرے کے ابل ہی ں ہ وئسکت ا ہ نلی ہ و ی ب ات ہ ( 1ئ)
ے کہ وہ اطاعت ا ٰہی ا ج ام دے کر اس کے م اب لہ می ں صاحب حق ہ و ج اے اوراس پر اسی طرح حق پ ی دا کرلے جس طرح اس کا حق ع ب ادت و ہ ں یہ کان ا ی کا کو
ن ض ف ے۔ ر دہ اطاعتم ر ب ن
ن ن ن ن ب ہ پ ہ
ے وعدہ ےنکہ می نں اپ ے ب ارے می ں ین ہ اعالنئ کردی ا ہ سے ا عام اورج زا کا وعدہ کرل ی ا ہن
ے اور اپ ے کہ اس ے ب دوں ن ناس حق تسے مراد ھی پروردگار نکا ی ہ ل و کرم ہ خ
ے پ اس ے اپ ے کہ فاس ن اس ل
کے ا عام کا م طالب ہ کرے ہ ن نزا اور اس ث ے اعمال کی ج ے کہ وہ مالک سےئاپ ہ ح الف ہی قں کر ا ہ وں ئجسعم ن
کے ب عد ہ ر ب دہ کو ی ہ ق پ ی دا غوگ ی ا ممہ کے پ ن
ے وعدہ کو و ا کرے کا ذمہ دار ے اورن وہ اپاوعدہ ک ی ا ہ
ن سے واب ک ن ے کہ مالک ے ف
اس ے۔ب لکہ اس ل ے کہ ی ہ ب ات ی ر کن ہ سے اور ا ی طا ت سے کو نی ل ان ج ام دی ا ہ
ے اپ ی ع ب ادات کے ذری عہ وعدہ ال ن
ٰہی کی ے کہ ا ہوں ن ہق (ص) کام ہوم نیق ہین ے۔روای ات می فں حق دمحمت (ص)شو آل دمحم ف ہ اور اس سے ذرہ برابر ا حراف ہی ں کر سکت ا ے تن فہ
ے ہ ی ں۔ب رط ی کہ وہ ب ھی ا ہی ں کے ش دم پر چ لی ں اور ا ہی ں کی طرح اطاعت و ع ب ادت ا ج ام ب
ے کہ ان کے وس ی لہ سے دیگر ا راد ھی است ادہ کرسک و ان کا ا اشحق پ ی دا کرل ی ا ہ
ے کی کو ش کری ں ۔ دی
حِل ِ
اجت ِه ْم إِلَْي َها َغداً -إِ َذا أ ََع َاد اللَّه َما أَبْ َدى -وأ َ
ہیں کہ سب کو کل اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ جب
َخ َذ َما َ َ
پروردگار اپنی مخلوقات کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو کچھ
عطا کیا ہے اسے واپس لیلے گا اور جن نعمتوں سے َس َدى -فَ َما أَقَ َّل َم ْن قَبِلَ َها ومَحَلَ َها َح َّق وسأ ََل َع َّما أ ْأ َْعطَى َ
نوازا ہے ان کا سوال کرے گا۔کس قدر کم ہیں وہ افراد ِ
جنہوں نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کا واقعی حق وه ْم أ َْه ُل ِص َف ِة اللَّه
ك األََقلُّو َن َع َدداً ُ - مَحْل َها -أُولَئِ َ
ور) - ول ( -وقَلِ ِ ِ ِ ُسْب َحانَه إِ ْذ َي ُق ُ
الش ُك ُ
ي َّ يل م ْن عباد َ
اداکیا ہے۔یہ لوگ عدد میں بہت کم ہیں لیکن پروردگار
کی اس توصیف کے حقدار ہیں کہ''} میرے شکر گزر ٌ
بندے بہت کم ہیں ''۔ اب اپنے کانوںکو اس کی طرف اع ُك ْم إِلَْي َها وأَلِظُّوا جِبِ ِّد ُك ْم َعلَْي َها -
فَأَه ِطعوا بِأَمْس ِ
َ ْ ُ
ف ُم َوافِقاً ومن ُك ِّل خُمَالِ ٍ ِ ٍ واعتَاض ِ
مصروف کرو اورسعی و کوشش سے اس کی پابندی
کرو اوراسے گزرتی ہوئی کوتاہیوں کا بدل قرار دو۔اور وها م ْن ُك ِّل َسلَف َخلَفاً ْ - ْ ُ َ
ِ هِب ِ هِب
ہر مخالف کے مقابلہ میں موافق بنائو۔اس کے ذریعہ اپنی -أَيْقظُوا َا َن ْو َم ُك ْم واقْطَعُوا َا َي ْو َم ُك ْم -وأَ ْشعُر َ
وها
نیند کو بیداری میں تبدیل کرواور اپنے دن گزار دو۔اسے هِب هِب
اپنے دلوں کا شعار بنائو اور اسی کے ذریعہ اپنے گناہوں َس َق َامود ُاووا َا األ ْ ضوا َا ذُنُوبَ ُك ْم َ - وار َح ُ ُقلُوبَ ُك ْم ْ
ِ
کودھوڈالو۔اپنے امراض کا عالج کرو اپنی موت کی
طرف سبقت کرو۔ان سے عبرت حاصل کرو جنہوں نے
اع َها واَل َي ْعتَرِب َ َّن بِ ُك ْم
َض َ وبَاد ُروا هِبَا احْلِ َم َام ْ -
واعتَرِب ُوا مِب َ ْن أ َ
اس کو ضائع کردیا ہے اور خبردار وہ تم سے عبرت نہ ص َّونُوا هِبَا -و ُكونُوا َع ِن وها وتَ َ صونُ َ اع َها -أَاَل فَ ُ َم ْن أَطَ َ
ِ
الد ْنيَا نَُّزاهاً -وإِىَل اآلخَر ِة ُواَّل هاً -واَل تَ َ
حاصل کرنے پائیں جنہوں نے اس کا راستہ اختیار کیا ُّ
ضعُوا َم ْن
ہے۔اس کی حفاظت کرو اور اس کے ذریعہ سے اپنی
حفاظت کرودنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے الت ْق َوى -واَل َت ْر َفعُوا َم ْن َر َف َعْته ُّ
الد ْنيَا - َر َف َعْته َّ
تقوی بلند کردے اسے پست متٰ عاشق بن جائو۔جسے
بنائو اور جسے دنیا اونچا بنادے اسے بلند مت سمجھو۔
اس دنیا کے
چمکنے والے بادل ( )1پرنظر نہ کرو اور اس کے اط َق َها -واَل جُتِيبُوا واَل تَ ِشيموا با ِر َقها واَل تَسمعوا نَ ِ
َُْ ُ َ َ
ترجمان کی بات مت سنو اس کے آوازدینے والے کی
آواز پرلبیک مت کہو اور اس کی چمک دمک سے َعاَل قِ َها - ِ
ضيئُوا بِِإ ْشَراق َها -واَل ُت ْفَتنُوا بِأ ْ اع َقها واَل تَستَ ِ
ْ
ِ
نَ َ
روشنی مت حاصل کرو اور اس کی قیمتی چیزوں پر ِ ِ ِ
جان مت دو۔اس لئے کہ اس کی بجلی فقط چمک دمک ب -وأ َْم َواهَلَا حَمْ ُروبَةٌ ب ونُطْ َق َها َكاذ ٌ فَإ َّن َب ْر َق َها َخال ٌ
حِم ِ
ہے اور اس کی باتیں سراسر غلط ہیں۔اس کے اموال
لٹنے والے ہیں اور اس کا سامان چھننے واال ہے۔ آگاہ ہو
صدِّيَةُ الْ َعنُو ُن واجْلَا َةُ وأ َْعاَل َق َها َم ْسلُوبَةٌ -أَاَل وه َي الْ ُمتَ َ
ود ِ
جائو کہ یہ دنیا جھلک دکھا کر منہ موڑ لینے والی ود -والْ َعنُ ُ ود الْ َكنُ ُ احْلَُرو ُن -والْ َمائنَةُ اخْلَئُو ُن واجْلَ ُح ُ
چنڈال ' منہ زور اڑیل' جھوٹی' خائن' ہٹ دھرم' نا شکری ووطْأَُت َها ِزلَْز ٌال ال َ ود َ -حاهُلَا انْتِ َق ٌ ود الْ َميُ ُ
ود واحْلَيُ ُ الص ُد ُ
َّ
کرنے والی ' سیدھی راہ سے منحرف اورمنہ پھیرنے
ُّها َه ْز ٌل وعُ ْلو َها س ْفل َ -دار حر ٍ ِ ِ
والی اور کجرو پیچ و تاب کھانے والی ہے۔اس کا طریقہ ب ُ ُ ٌ ُ ََ -وعُّز َها ذُ ٌّل وجد َ
انتاقل ہے اوراس کا ہر قدم زلزلہ انگیز ہے۔اس کی عزت اق وحَل ٍ
اق وسي ٍ ٍ ِ وعطَ ٍ ب و َن ْه ٍ
وسلَ ٍ
بھی ذلت ہے اوراس کی واقعیت بھی مذاق ہے۔اس کی َ ب -أ َْهلُ َها َعلَى َساق َ ب َ َ
ِ ِ
بلندی پستی ہے اور یہ جنگ و جدل ۔حرب و ضرب ' ت َم َها ِربُ َها - ت َم َذاهُب َها وأ َْع َجَز ْ وفَر ٍاق -قَ ْد حَتََّيَر ْ
لوٹ مار' ہالکت و تباہی کا گھر ہے۔اس کے رہنے والے
پابہ رکاب ہیں اور چل چالئو کے لئے تیار ہیں۔ان کی
کیفیت و صل و فراق کی کشمکش کی ہے۔جہاں راستے
گم ہوگئے ہیں اور گریز کی راہیں مشکل ہوگئی ہیں اور
منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔محفوظ گھاٹیوں نے انہیں
ق ت مشکالت نکے حوالہ
ق ف ق ت ن ئ خ ن
حاالت متی ں رار
ے کہ فاسنکے ن س
ے۔اس کبا پ ہنال عی ب و ی ہ ہ
کون و رار ہی تں ہ ن غ کی کسی کیت ی ت می ں
ش اس اور ف ے
ہ ں یہ ت ار ب الع ب ا حال ی ے کہ است دن ی ا کا کو ن( )1دا ج ا ت ا ہ
ے سے مست ی د ہیی ں ہنوے پ ا ا ہ ے کی آزادغیوں ئ ے۔ا سان چ پ تروب ہ وج ا ا ہ ن ص ح کا سویترا ھوڑی دیر منی ں دوپہ نرب ئن ج ا ا ہ ہی ںن ہ
ھوڑی دیرمی ںص ت
ے اور آ ت نابنکا ب ابن ت ے۔ ب
ے جس ے کہ عئ ی کی بکمزورقی اں حملہ آور ہ و نج ا ی ہ ی ں رض کو ین حالت ا سی ہی ں ہ ے تاور ج وا یسکی رع ا ی وں سے لذت ا دوز ہی ں ہ وے پ ا ا ہ کہ ج توا ی کی دھوپ آج ا ی ہ
ے ہ ی ں اور ے دولت م د دولت کو رو رہ ےضکہ الگ الگ کو ی دور ھی ابل اطمی ن ان ہی ں ہ اوردوسرا عی ب ی ہ ت
ہق ے۔ ے کسی حد ک پر کون کہا ج اسک ے اور جسپغر اع ب ارغک ی ا ج ا سک
ے اوالد اوالد کے طلب گارہ ی ں اور اوالد والے اوالد کی خ ن اطر ن
ے ہ ی ں اورصحت م د صحت تکے ا وں سے عاج ز ہ ی ں۔ب ریشب رب ت کو۔ب ی مار ب ی ماریوں کا مث ی ہ پڑھ رہ
ت ئ ت خ ئ ق تق ض ئ ق پری ان ۔
ئرت کے وس ی لہ کے طور پر اس عمال ک ی اج اے اس کی عم وں می ں ے کہندن ی ا کو ہ دف اور مق صد صور ن ہ ک ی ا ج اے اور ائسے صرف آ ہ ےخع ل ی ہی ن ت ا ا
ئ ں ای سی تصورت حال م ی
ے چ ھوڑ دی ا ج اے ۔ ن
ے اور ب ا ی کو اس کے اہ ل کے ل سے ا ا ہ ی لے ل ی ا ج اے ج ا آ رت می ں کام آے واال ہ
کردیا ہے اور منزلوں نے انہیں دور پھینک دیا ہے۔ َسلَ َمْت ُه ُم الْ َم َعاقِ ُل -ولََفظَْت ُه ُم الْ َمنَا ِز ُل ِ
ت َمطَالُب َها فَأ ْوخابَ َْ
دانشمندیوں نے بھی انہیں درماندہ کردیا ہے۔اب جو بنچ
گئے ہیں ان میں کچھ کی کونچیں کٹی ہوئی ہیں۔کچھ اج َم ْع ُقو ٍ/ر وحَلْ ٍم جَمْ ُزو ٍر - وأ َْعيَْت ُه ُم الْ َم َحا ِو ُل -فَ ِم ْن نَ ٍ
وصافِ ٍق ِ
گوشت کے لوتھڑے ہیں جن کی کھال اتار لی گئی ہے۔
کچھ کٹے ہوئے جسم اور بہتے ہوئے خون جیسے ہیں۔ اض َعلَى يَ َديْه َ وع ٍّ
وح َ - ودٍم َم ْس ُف ٍ وح َ وش ْل ٍو َم ْذبُ ٍ
کچھ اپنے ہاتھ کاٹنے والے ہیں اور کچھ کف افسوس ور ِاج ٍع َع ْن ِ
وزار َعلَى َرأْيه َ -
وم ْرتَِف ٍق خِب َدَّيْه َ ٍ ب َكفَّْيه ُ -
ِ
ملنے والے۔کچھ فکرو تردد میں کہنیاں رخساروں پر
ني ت الْغِيلَةُ -واَل ِ ت احْلِيلَةُ وأَْقبلَ ِ عز ِمه -وقَ ْد أ َْدبر ِ
رکھے ہوئے اور کچھ اپنی فکر سے بیزار اور اپنے تح َ َ َ ََ َْ
ارادہ سے رجوع کرنے والے ہیں۔حیلوں نے منہ پھیر لیا ب َما ات و َذ َه َات َما فَ َات -قَ ْد فَ َ ات َهْي َه َ اص َهْي َه َ َمنَ ٍ
ہے اور ہالکت سامنے آگئی ہے مگر چھٹکارے کا وقت
ت ُّ حِل هِل ضِ
نکل چکا ہے۔یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے جو چیز گزر ت َعلَْي ِه ُم الد ْنيَا َ ِال بَا َا ( -فَما بَ َك ْ وم َبَ - َذ َه َ
گئی وہ گزر گئی اورجو وقت چال گیاوہ چال گیا اور دنیا
اپنے حال میں من مانی کرتی ہوئی گزر گئی۔نہ ان پر ض وما كانُوا ُمْنظَ ِر َ
ين). السماءُ واأل َْر ُ َّ
آسمان رویا اور نہزمین اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی۔
()192 ()192
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ عليهالسالم ومن خطبة له
(خطبہ قاصعہ)
تسمى القاصعة
(اس خطبہ میں ابلیس کے تکبر کی مذمت کی گئی ہے
اور اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے وهي تتضمن ذم إبليس لعنه اللَّه ،على استكباره وتركه
تعصب اور غرور کا راستہ اسی نے اختیار کیاہے لہٰ ذا
السجود آلدم عليهالسالم ، 2وأنه أول من أظهر العصبية
اس سے اجتناب ضروری ہے )
ساری تعریف اس ہللا کے لئے ہے جس کا لباس عزت وتبع الحمية ،وتحذير الناس من سلوك طريقته.
اور کبریائی ہے اور اس نے اس کمال میں کسی کو
شریک نہیں بنایا ہے۔اس نے ان دونوں صفتوں کو ہر واختَ َارمُهَا لَِن ْف ِسه احْل م ُد لِلَّه الَّ ِذي لَبِ ِ ِ
س الْعَّز والْكرْبِ يَاءَ ْ - َ َْ
ایک کے لئے حرام اور ممنوع قرار دے کر صر ف اپنی وحَرماً َعلَى َغرْيِ ه - مِح ِ
عزت و جالل کے لئے منتخب کرلیا ہے وج َعلَ ُه َما ًى َ ُدو َن َخ ْلقه َ -
اورجس نے بھی ان دونوں صفتوں میں اس سے مقابلہ واصطََفامُهَا جِلَاَل لِه. ْ
کرنا چاہا ہے سے ملعون قرار دے دیا ہے۔اس کے بعد
اسی رخ سے مالئکہ مقربین ( )1کا امتحان لیا ہے تاکہ رأس العصيان
ِ ِ ِ ِ
وج َع َل اللَّ ْعنَةَ َعلَى َم ْن نَ َاز َعه في ِه َما م ْن عبَاده -مُثَّ ْ
تواضع کرنے والوں اور غرور رکھنے والوں میں امتیاز اختََبَر
قائم ہو جائے اور اسی بنیاد پر َ
ني ِمْن ُه ْم ِم َن ِِ ِِ بِ َذلِ َ ِ
ني -ليَم َيز الْ ُمَت َواضع َ ك َماَل ئ َكتَه الْ ُم َقَّربِ َ
ين الْمستَ ْكرِب ِ
ت ٹ خ ن ن خ ش نَ ُ ْئ
ے۔ کردار ککا مظ اہ رہ کر ا ئہ صمت ت
ت ات و واہ ش ات سے نکرا کرع خ ب ے ج ہاں ا نسان سارے ج ذ ںہ کی عصمت ب رج یسی نا ت ت ی اری ہی ن
ئ
ے کہ مال کہ ئںہ ک ہی ن ش()1اس می ں کو ی ئ
ن ن ص ف
ے ہی شں ہ ی ں نکہ ا ہی ں کسینطرح کا ا ت ی ارت حا ل خ ہ ہ و۔ ور ہاگر ایسالہ و ا و ہ ت لی نفن کے کو ی ے کہ مال کہ ب الکل ج مادات و ب ا ات ج ی لس ت ہ ک ہی قں ل ی نکن اس می ں ب ھی تکو ی ش ئ
ے ت ی کن ب الکل ا سا وں ج ی سا ص ع
ں ہ ی تں۔ا ہی ں ل و رک کا ان ت ی بار حا ل ہ کن ب ر ج ی س
ے ہی ت ن ی م صد ہ و ا۔انتمی ں ج ذب ات و احساسات ہ ی ں ی ن نمع ی ہ وت اور ن ہ ا نم حان کا کو ت
ع م ئ
ے۔اور اسی ج ذب ہ کی ئ ے۔اسی ب ا پر ان کا ام حان تل ی ا گ ی ا اورن ام حان صرف ج ذب ہ حب ذات اور ا ا ی ت سے ن لق تھا کہ ی ہ ج ذب ہ ملک کے ا در ھی ب ظ اہ ر پ ای ا ج ا ا ہ ت ہی ں ہ ئ
ے ل یک ن اسی پ تیکر خ اکی می ں روح کمال کو پ تھون ک کر ا ن ا بل ن د ب ن ا دی ا کہ مال کہروں سے رو د دی ا ج ا ا ہن ت پی سے طور
ت ام ع ےس ا گ ا
ی ی یت جداک پ سے
ن '' صر
ن ن ن ر
ہئ ق ی ع ست پ '' ر ا ظ ب ئ
کو آدم ےآزما م ب نل
کے ش
ع ئ ت ص ے اور درت ے ا سا وں کو ب ھی م وج ہ کردی ا کہ ٹ مہارا کمال ے قکے ال ق ہ وگ ت
ے۔لہٰذا ج ب ے۔ مہارا کمال ہ مارے راب طہ اور لق سے ہ مہاریخا ل سے ہی ئں ہ تکے جسود ن
ے گا م صاحب کمال رہ وگے اور جس دن ی ہ راب طہ وٹ ج اے گا م اک کاڈھی ر ہ و ج ا وگے اور بس۔! ک ی ہ راب طہ بر رار رہ
اس دلوں کے راز اور غیب کے اسرار سے با خبر وب -وحَمْجوب ِ
ات ات الْ ُقلُ ِ ضمر ِ مِل مِب
پروردگار نے یہ اعالن کردیا کہ '' میں مٹی سے ایک ُ َ وه َو الْ َعا ُ ُ ْ َ َ َف َق َال ُسْب َحانَه ُ
بشر پیدا کرنے واال ہوں اور جب اس کا پیکر تیار ہو تني -فَِإذا َس َّو ْيتُه و َن َف ْخ ُ وب (إِيِّن خالِ ٌق بَ َشراً ِم ْن ِط ٍ الْغُي ِ
ُ
جائے اورمیں اس میںروح کمال پھونک دوں تو تم سب
ين -فَ َس َج َد الْ َمالئِ َكةُ ِِ ِ ِ ِ
سجدہ میں گر پڑتا '' جس کے بعد تمام مالئکہ نے سجدہ فيه م ْن ُروحي َف َقعُوا لَه ساجد َ
ضْته احْلَ ِميَّةُ فَا ْفتَ َخَر َعلَى ِاَّل ِ ِ ُّ
يس) ْ -اعَتَر َ ُكل ُه ْم أَمْج َعُو َن إ إبْل َ
کرلیا۔صرف ابلیس نے انکار کردیا '' کہ اسے تعصب
الحق ہوگیا اور اس نے اپنی تخلیق کے مادہ سے آدم پر
فخر کیا اور اپنی اصل کی بنا پراستکبار کا شکار ہوگیا َصلِه َ -ف َع ُد ُّو اللَّه إِ َم ُامب َعلَْيه أل ْ ص َ/آد َم خِب َْل ِقه -وَت َع َّ َ
ِ رِب ِ
ين -الَّذي َو َ صبِ َ
جس کے بعد یہ دشمن خدا تمام متعصب افراد کا پیشوا اس
اعلی بن گیا۔اسی نے
ٰ اور تمام متکبر لوگوں کا مورث َس َ ض َع أ َ ف الْ ُم ْستَ ْك َ وسلَ ُ ني َ الْ ُمَت َع ِّ
وادر ِ ِ الْع ِ
عصبیت کی بنیاد قائم کی اور اسی نے پروردگارسے َّعُّز ِز
اس الت َ ع لبَ َ ع اللَّه ِر َداءَ اجْلَرْبِ يَّة َ َ َّ - صبِيَّة ونَ َاز َََ
جبروت کی رداء میں مقابلہ کیا اور اپنے خیال میں عزت
اع التَّ َذلُّ ِل. ِ
و جالل کا لباس زیب تن کر لیا اور تواضع کا نقاب اتار وخلَ َع قنَ َ َ
کر پھینک دیا۔ ض َعه بَِتَرفُّعِه فَ َج َعلَه وو َ ِ ِ
صغََّره اللَّه بتَكَرُّب ه َ - ف َ أَاَل َتَر ْو َن َكْي َ
اب کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ پروردگار نے کس طرح
اسے تکبر کی بنا پرچھوٹا بنادیا ہے اور بلندی کے اظہار اآلخَر ِة َسعِرياً؟! الد ْنيا م ْدحوراً -وأَع َّد لَه يِف ِ
َ يِف ُّ َ َ ُ
کے بنیاد پر پست کردیا ہے۔دنیا میں اسے ملعون قرار
دے دیا ہے اور آخرت میں اس کے لئے آتش جہنم کا ابتالء اللَّه لخلقه
انتظام کردیا ہے۔ ولَو أَراد اللَّه أَ ْن خَي ْلُق ِ
اگر پروردگار یہ چاہتا کہ آدم کو ایک ایسے نورس ے
ص َار
ف األَبْ َآد َم م ْن نُو ٍر -خَي ْطَ ُ َ َ ْ ََ
ِ ٍ ِ
خلق کرے جس کی ضیاء آنکھوں کو چکا چوند کردے
ول ُر َو ُاؤه -وطيب يَأْ ُخ ُذ األَْن َف َ
اس ويْب َهُر الْعُ ُق َ
ضيَ ُاؤه َ
اورجس کی رونق عقلوں کو مبہوت کردے یا ایسی اق خ ِ
خوشبو سے بنائے جس مہک سانسوں کو جکڑلے تو اض َعةً - َعنَ ُ َ ت لَه األ ْ َع ْرفُه لََف َع َل -ولَ ْو َف َع َل لَظَلَّ ْ
یقینا کر سکتا تھا اور اگر ایسا کر دیتا تو یقینا گردنیں ان َّت الَْب ْل َوى فِيه َعلَى الْ َماَل ئِ َك ِة .ولَ ِك َّن اللَّه ُسْب َحانَه وخَلَف ِ
کے سمنے جھک جاتیں اور مالئکہ کا امتحان آسان ہو
جاتا لیکن وہ ان چیزوں سے امتحان لینا چاہتا تھا جن کی َصلَه
ض َما جَيْ َهلُو َن أ ْ َيْبتَلِي َخ ْل َقه بَِب ْع ِ
اصل معلوم نہ ہوتاکہ اسی
امتحان سے ان کا امتیاز قائم ہو سکے ۔اور ان کے
استکبار کا عالج کیا جا سکے اور انہیں غرور سے ور
مَتْيِيزاً بِااِل ْختِبَا ِر هَلُ ْم و َن ْفياً لِاِل ْستِكْبَا ِر َعْن ُه ْم -وإِ ْب َعاداً
رکھا جا سکے۔ لِْل ُخيَاَل ِء ِمْن ُه ْم.
تو اب تم سب پروردگار کے ابلیس کے ساتھ برتائو سے
عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور طلب العبرة
ِ ِ ِ َّ ِِ ِ فَ ْ رِب مِب
بے پناہ جدو جہد کو تباہ کردیا جب کہ وہ چھ ہزار سال
عبادت کر چکا تھا۔ جس کے بارے میں کسی کو معلوم
ط َع َملَه يس -إِ ْذ أ ْ
َحبَ َ اعتَ ُوا َا َكا َن م ْن ف ْعل الله بإبْل َ
فيد -و َكا َن قَ ْد عب َد اللَّه ِستَّةَ آاَل ِ وج ْه َده اجْلَ ِه َ َّ ِ
نہیں ہے کہ وہ دنیا کے سال تھے یاآخرت کے مگر ایک ََ يل َ الطو َ
ساعت کے تکبر نے سب کو ملیا میٹ کردیا تو اب اس اآلخَر ِة َ -ع ْن الد ْنيا أَم ِمن ِسيِن ِ ِ ِ ٍ
کے بعد کون ایسی معصیت کرکے عذاب ٰالہی سے َسنَة -اَل يُ ْد َرى أَم ْن سيِن ُّ َ ْ ْ
يس يَ ْسلَ ُم َعلَى اللَّه ِِ كِ ِ س ٍ ِ ٍ
محفوظ رہ سکتا ہے۔
اعة َواح َدة -فَ َم ْن َذا َب ْع َد إبْل َ رْب َ َ
صيَتِه َ -كاَّل َما َكا َن اللَّه ُسْب َحانَه لِيُ ْد ِخ َل اجْلَنَّةَ
()1
یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ جس جرم کی بنا پر ملک مِبِثْ ِل مع ِ
کو نکال باہر کیا اس کے ساتھ بشر کو داخل جنت کردے َْ
ِ ِ
جب کہ خدا کا قانون زمین و آسمان کے لئے ایک ہی ْمه يِف أ َْه ِل ِ
َخَر َج به مْن َها َملَكاً -إ َّن ُحك َ بَ َشراً -بِأ َْم ٍر أ ْ
جیسا ہے اور ہللا اور کسی خاص بندہ کے درمیان کوئی
َح ٍد ِم ْن السم ِاء وأَه ِل األَر ِ ِ
ایسا خاص تعلق نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے اس چیز کو وبنْي َ أ َ وما َبنْي َ اللَّه َ ض لََواح ٌد َ - َّ َ ْ ْ
حالل کردے جو سارے عالمین کے لئے حرام قرار دی ني. ِ خ ْل ِقه هوادةٌ -يِف إِب ِ مِح
ت ت ہے۔ ق
احة ًى َحَّر َمه َعلَى الْ َعالَم َ َ تَ َ ََ َ
ف ق ض ق
سے ملک کے ل ظ سے کس ت
طرح عب یفر ک ی ا گ ی ا ے کہ قسورٔہ کہف کی آی ت ش 50ظمی ں اب لیس کو جت ن ات می ں ق راردی ا گ ی ا ہ ق
ے قو اس م ن ام پر ا ت )اس م ام پر ی ہ سوال کرور پ ی داہضو ا ہ (1
ے۔ای مان کے احکام ان مام ا راد کے ہ
ح ق
ے اور م ام ج زا می ں ی ت پر گاہ کی ج ا ی ہ ک ی ہ
ف می ں می ہ اہ ر فکو د ھا ج ا ئا ک
ے کہ م ام ت لی ن ہ ج
اس کا واب ب ال لل وا ح ظ ے ۔ل ی کن ئہ
عل ک ت ہ م ئ
ت ے ج و وانعی صاح ب ان ای مان ہ ی ں۔ ق ً ق ہ ے ل
ن صرفشان ا راد کے ف ے ی کن ای ئمان کی ج زا اور اس کا ا تعام ہ ے ہ ی ں ج ن ئکا اہ ر ا نی مانل
م
ے و اور ال کہ کی ے وا عا وم ج ن سے ق ر ھ ے کے دعوی دار ہ ی ں چ اہ لک ہت و ن
ع
ےم ئ ں ج و اپ
ج کام ًمی ں وہ مام ا راد ا لق ہ ی
ے کہ مال ئکہ کے اح ق ہیعہی حالشمال فکہ اور ج ات کا ف
ے۔ ے ج و وا عا ملک ہ ی ں اور اس کا وم ن سے کو ی لق ہی ں ہ ےہ ظ مت و را ت صرف ان راد کے ل
بندگان خدا ! اس دشمن خدا سے ہوشیار رہو۔کہیں تمہیں
بھی اپنے مرض میں مبتال نہ کردے اور کہیں اپنی آواز
پرکھینچ نہ لے اور تم پر اپنے سوار اور پیادہ لشکر سے
حملہ نہ کردے۔اس لئے کہ میری جان کی قسم اس نے
تمہارے لئے شر انگیزی کے تیر کو چلئہ کمان میں
جوڑ لیا ہے اور کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے التحذير من الشيطان
اورتمہیں بہت نزدیک سے نشانہ بنانا چاہتا ہے۔اس نے
صاف کہہ دیا ہے کہ '' پروردگار جس طرح تونے اح َذ ُروا ِعبَ َاد اللَّه َع ُد َّو اللَّه أَ ْن يُ ْع ِديَ ُك ْم بِ َدائِه -وأَ ْن فَ ْ
مجھے بہکا دیا ہے اب میںبھی ان کے لئے گناہوں کو ور ِجلِه - خِب ِ
ب َعلَْي ُك ْم َْيله َ
ِ ِِ ِ
يَ ْستَفَّز ُك ْم بن َدائه وأَ ْن جُيْل َ
ِ
آراستہ کردوں گا اور ان سب کو گمراہ کردوں گا ''
حاالنکہ یہ بات بالکل اٹکل پچو سے کہی تھی اور بالکل يد -وأَ ْغَر َق إِلَْي ُك ْم َفلَعم ِري لََق ْد َف َّو َق لَ ُكم سهم الْو ِع ِ
ْ َْ َ َ َْ
غلط اندازہ کی بنا پر زبان سے نکالی تھی لیکن غرور ٍ ِ ِ ِ
يب َ -ف َق َال بِالن َّْز ِع الشَّديد -ور َما ُكم م ْن َم َكان قَ ِر ٍ
کی اوالد ' تعصب کی برادری اورتکبر و جاہلیت کے َ ْ
شہسواروں نے اس کی بات کی تصدیق کردی۔یہاں تک
ض -وألُ ْغ ِو َين ُ
َّه ْم ب مِب ا أَ ْغ َو ْيتَيِن أل َُز ِّينَ َّن هَلُ ْم يِف األ َْر ِ
( َر ِّ
کہ جب تم میں سے منہ زوری کرنے والے اس کے
ص ٍ يد ورمْج اً بِظَ ٍّن َغ ِ م ِ ِ ٍ ٍِ ِ
مطیع ہوگئے اور اس کی طمع تم میں مستحکم ہوگئی تو يب - رْي ُ ني) -قَ ْذفاً بغَْيب بَع َ أَمْج َع َ
بات پردٔہ رازسے نکل کرمنظر عام آگئی۔اس نے اپنے صبِيَّ ِة -و ُف ْر َسا ُن الْ ِكرْبِ ِِ
ص َّدقَه بِه أ َْبنَاءُ احْلَميَّة وإِ ْخ َوا ُن الْ َع َ َ
اقتدار کو تم پر قائم کرلیا اور اپنے لشکروں کا رخ
تمہاری طرف موڑ دیا۔انہوں نے تمہیں ذلت کے غاروں ت لَه اجْلَاحِم َةُ ِمْن ُك ْم - ِِ ِ
واجْلَاهليَّة َ -حىَّت إِ َذا ا ْن َق َاد ْ
میں ڈھکیل دیا اور تمہیں قتل و خون کے بھنور میں اعيَّةُ ِمْنه فِي ُكم َ -فنَجم ِ
پھنسا دیا اور مسلسل زخمی کرکے پامال کر دیا۔تمہاری ال ِم َن ت احْلَ ُ ََ ْ
ت الطَّم ِ
َ
واستَح َكم ِ
ْ ْ َ
ِ ِّ ِ
اسَت ْف َح َل ُس ْلطَانُه َعلَْي ُك ْم - السِّر اخْلَف ِّي إِىَل األ َْم ِر اجْلَل ِّي ْ -
آنکھوں نے تمہیں ذلت کے غاروں میں ڈھکیل دیا اور
تمہیں قتل و خون کے بھنور میں پھنسا دیا اور مسلسل
الذ ِّل - ات ُّ وده حَنْو ُكم -فَأَقْحمو ُكم وجَل ِ ودلَف جِب نُ ِ
زخمی کرکے پامال کر دیا تمہاری آنکھوں میں نیزے َُ ْ َ َ َ ْ َ َ ُ
اح ِة ِ ِ ِ
َحلُّو ُك ْم َو َرطَات الْ َقْت ِل -وأ َْوطَئُو ُك ْم إثْ َخا َن اجْل َر َ
چبھودئیے تمہارے حلق میں خنجر چال
وأ َ
وحّزاً يِف ُحلُوقِ ُك ْم ِ
طَ ْعناً يِف عُيُون ُك ْم َ -
دئیے اورتمہاری ناک کورگڑ دیا ۔تمہارے جوڑ بند کو
وس ْوقاً خِب ََزائِ ِم الْ َق ْه ِر اخ ِر ُكم -وقَ ِ ِِ ودقّاً لِمنَ ِ
توڑ دیا اورتمہاری ناک میں قہرو غلبہ کی نکیل ڈال کر صداً ل َم َقاتل ُك ْم َ ْ ْ َ َ
ِ ِ ِ
تمہیں اس آگ کی طرف کھینچ لیا جو تمہارے ہی َصبَ َح أ َْعظَ َم يِف دين ُك ْم َح ْرجاً -إِىَل النَّا ِر الْ ُم َعدَّة لَ ُك ْم -فَأ ْ
واسطے مہیا کی گئی ہے۔وہ تمہارے دین کو ا ن سب ِ َّ ِ
َصبَ ْحتُ ْم هَلُ ْم
ين أ ْ يِف
سے زیادہ مجروح کرنے واال اور تمہاری دنیا میں ان -وأ َْو َرى ُد ْنيَا ُك ْم قَ ْدحاً -م َن الذ َ
ِ
اج َعلُوا َعلَْيه َح َّد ُك ْم ولَه ني -فَ ْ وعلَْي ِه ْم ُمتَأَلِّبِ َ
ني َ ُمنَاصبِ َ
سب سے زیادہ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکانے واال ہے جن
س مقابلہ کی تم ن تیاری کر رکھی ہے اور جن کے
ووقَ َع يِف ِج َّد ُكم َ -فلَعمر اللَّه لََق ْد فَخر علَى أ ِ
خالف تم نے لشکر جمع کئے ہیں۔لہٰ ذا اب اپنے غیظ و َصل ُك ْم َ - ََ َ ْ َُْ ْ
ِ خِب
ودفَ َع يِف نَ َسبِ ُك ْم -وأ ْ َح َسبِ ُك ْم َ
غضب کا مرکز اسی کو قرار دو اور ساری کوشش اسی
ص َدب َْيله َعلَْي ُك ْم وقَ َ َجلَ َ
ک خالف صرف کرو۔خدا کی قسم اس نے تمہاری اصل
پر اپنی برتری کا اظہر کیا ہے اور تمہارے حسب میں ض ِربُو َن ِمْن ُك ْم ان ويَ ْ بِر ِجلِه سبِيلَ ُكم -ي ْقتَنِصونَ ُكم بِ ُك ِّل م َك ٍ
َ َ ْ َ ُ ْ َ
عیب نکاال ہے اور تمہارے نسب پر طعنہ دیا ہے ٍ ٍ حِبِ ِ ٍ
اورتمہارے خالف لشکر جمع کیا ہے اور تمہارے راستہ
ُك َّل َبنَان -اَل مَتْتَنعُو َن يلَة واَل تَ ْد َفعُو َن بِ َع ِزميَة -يِف
کو اپنے پیادوں سے روند نے کا ارادہ کیا ہے۔جو ہر وج ْولَِة بَاَل ٍء - حوم ِة ذُ ٍّل وح ْل َق ِة ِض ٍيق -وعر ِ ٍ
صة َم ْوت َ َْ َ َ َْ َ
جگہ تمہارا شکار کرناچاہتے ہیں اور ہر مقام پر تمہارے
فَأَطْ ِفئوا ما َكمن يِف ُقلُوبِ ُكم ِ -من نِري ِان الْعصبِيَّ ِة وأَح َقادِ
ایک ایک انگلی کے پور پر ضرب لگانا چاہتے ہیں ْ ْ ْ َ ََ ُ َ ََ
اورتم نہ کسی حیلہ سے اپنا بچائو کرتے ہو اور نہ کسی ك احْلَ ِميَّةُ تَ ُكو ُن يِف الْ ُم ْسلِ ِم ِ -م ْن ِِ
اجْلَاهليَّ ِة -فَِإمَّنَا تِْل َ
عزم و ارادہ سے اپنا دفاع کرتے ہو درانحالیکہ تم ذلت
خطَر ِ
کے بھنور' تنگی کے دائرہ' موت کے میدان اور بالئوں واعتَ ِم ُدوا ان وخَنََواتِه و َنَز َغاتِه و َن َفثَاتِه ْ - ات الشَّيطَ ِ
ْ َ َ
کی جوالنگاہ میں ہو۔اب تمہارا فرض ہے کہ تمہارے
دلوںمیں جو عصبیت اور جاہلیت کے کینوں کی آگ ت أَقْ َد ِام ُك ْم َّعُّز ِز حَتْ َ
ِ
ض َع التَّ َذلُّ ِل َعلَى ُرءُوس ُك ْم -وإِلْ َقاءَ الت َ َو ْ
بھڑک رہی ہے اسے بجھا دو کہ یہ غرور ایک مسلمان وخ ْل َع التَّكَرُّبِ ِم ْن أ َْعنَاقِ ُك ْم َ -
کے اندر شیطانی وسوسوں ' نخوتوں ' فتنہ انگیزیوں اور
فسوں کا ریوں کا نتیجہ ہے۔ اپنے سرپر تواضع کا تاج
رکھنے کا عزم کرو اور تکبر کو اپنے پیروں تلے رکھ
کر کچل دو۔غرور کے طوق کو اپنی گردنوں سے اتار
کرپھینک دواور
ِِ ِ
واخَّت ُذوا الت ََّو ُ
اپنے اور اپنے دشمن ابلیس اور اس کے لشکروں کے
يس
وبنْي َ َع ُد ِّو ُك ْم إبْل َ اض َع َ -م ْسلَ َحةً َبْينَ ُك ْم َ
درمیان تواضع و انکسار کا مورچہ قائم کرلو کہ اس نے
ہر قوم میں سے اپنے لشکر ' مدد گار' پیادہ ' سوار سب ور ِجاًل ٍ ِ ِ ِ
وجنُوده -فَإ َّن لَه م ْن ُك ِّل أ َُّمة ُجنُوداً وأ َْع َواناً َ - ُ
کاانتظام کرلیا ہے اور خبردار اس شخص کے جیسے نہ ِ
و ُف ْر َساناً -واَل تَ ُكونُوا َكالْمتَ َكرِّبِ َعلَى ابْ ِن أ ُِّمه -م ْن َغرْيِ
ہو جائو جس نے اپنے مانجائے ( )1کے مقابلہ میں غرور ُ
کیا بغیر اس کے کہ ہللا نے اسے کوئی فضیلت عطا کی ض ٍل َج َعلَه اللَّه فِيه ِ -س َوى َما أَحْلََقت الْ َعظَ َمةُ بَِن ْفسه
ِ ِ َما فَ ْ
ہو عالوہ اس کے حسد کی عداوت نے اس کے نفس میں
ت احْلَ ِميَّةُ يِف َقْلبِه ِم ْن نَا ِرِمن ع َداو ِة احْل س ِد -وقَ َدح ِ
عظمت کا احساسا پیدا کردا دیا اور بیجا غیرت نے اس َ ْ َ َ ََ
کے دل میں غضب کی آگ بھڑکا دی شیطان نے اس کی
يح الْ ِكرْبِ -الَّ ِذي ب -و َن َف َخ الشَّْيطَا ُن يِف أَنِْفه ِم ْن ِر ِ ضِ الْغَ َ
ناک میں تکبر کی ہوا پھونک دی اور انجام کارندامت ہی
ہاتھ آئی اور قیامت تک کے تمام قاتلوں کا گناہ اس کے ني إِىَل َي ْوِم الْ ِقيَ َام ِة. ِِ
أ َْع َقبَه اللَّه بِه الن ََّد َامةَ -وأَلَْز َمه آثَ َام الْ َقاتل َ
ذمہ آگیا کہ اس نے قتل کی بنیاد قائم کی ہے۔
یاد رکھو تم نے ہللا سے کھلم کھال دشمنی اور صاحبان التحذير من الكبر
ایمان سے جنگ کا اعالن کرکے ظلم کی انتہا کردی ہے أَاَل وقَ ْد أ َْم َعْنتُ ْم يِف الَْب ْغ ِي وأَفْ َسدْمُتْ يِف األ َْر ِ
اور زمین میں فساد برپا کردیا ہے۔خدارا خدا سے ڈرو۔ ص َار َحةًض ُ -م َ
ني بِالْ ُم َح َاربَِة -فَاللَّه اللَّه ِ ِِ لِلَّه بِالْمنَ ِ
تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخرکے سلسلہ میں کہ ومبَ َار َز ًة ل ْل ُم ْؤمن َ
اصبَة ُ - ُ َ
یہ عداوتوں کے پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان کی فسوں
اهلِيَّ ِة -فَِإنَّه ماَل قِح الشَّنَئَانِ يِف كِ ِ احْل ِميَّ ِة وفَخ ِر اجْل ِ
کاری کی منزل ہے۔اسی کے ذریعہ اس نے گذشتہ َ ُ ْ َ رْب َ
قوموں اور اگلی نسلوں کودھوکہ دیا ہے ۔یہاں تک کہ وہ اضيَةَ والْ ُقُرو َن ان -الَّيِت خ َدع هِب ا األُمم الْم ِ ومنَافِخ الشَّيطَ ِ
لوگ جہالت کے اندھیروں اور ضاللت کے گڑھوں میں َ َ َ ََ َ َ ُ ْ
ِ ِ ِ
گر پڑے ۔وہ اپنے ہنکانے والے کے مکمل تابع اور وم َها ِوي اخْلَاليَةَ َ -حىَّت أ َْعَن ُقوا يِف َحنَاد ِس َج َهالَته َ
ضاَل لَتِه -ذُلُاًل َع ْن ِسيَاقِه ُسلُساً يِف قِيَ ِاده -أ َْمراً
کھینچنے والے کے سراپا اطاعت تھے۔یہی وہ امر ہے
جس میں قلوب سب َ
وب فِيه
ُ ت الْ ُقلُ تَ َشابه ِ
ََ
ن خ ن ئ خ ن حق ق ن ت ن ق ش ق
ے ی ی ب ھا ی کا ون کردی ا اور ہللا کی پ اکی زہ زمی ن کو ون ا ق سے ر گی ن
ح ب
ے ج ہاں ا ی ل ے صرف حسد اور ق بعصب کی ب ی اد پر اپ ارہ ہ ش
س ہ اب ی ل ناور اب ی قلت کی خ
طرف ا ()1
ے گا۔ ہ ر حال ہر ب صہ ی حک ا کا ل ی ا ں یم رم ج ر ہ کے س ا
یج وگ ہ روع سلہل کا ون کردی ا اور اس طرح د ی ا می ں ل و
ور بِه. ضاي َق ِ ِ ِ
الص ُد ُ
ت ُّ وَتتَ َاب َعت الْ ُقُرو ُن َعلَْيه -وكرْب اً تَ َ َ
ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور
یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ
ہیں۔ التحذير من طاعة الكبراء
آگاہ ہو جائو ۔اپنے ان بزرگوں اور سرداروں کی
()1
ين َّ ِ ِ أَاَل فَاحْل َذر احْل َذر ِمن طَ ِ ِ
اطاعت سے محتاط رہو جنہوں نے اپنے حسب پر اعة َس َادات ُك ْم و ُكَبَرائ ُك ْم -الذ َ ََ ََ ْ َ
غرور کیا اور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے۔بد تَ َكَّبُروا َع ْن َح َسبِ ِه ْم و َتَر َّفعُوا َف ْو َق نَ َسبِ ِه ْم -وأَلْ َق ُوا اهْلَ ِجينَةَ
نما چیزوں کو ہللا کے سر ڈال دیا اوراس کے احسانات کا
صریحی انکار کردیا۔انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ صنَ َع هِبِ ْم ُ -م َك َابَرةً اح ُدوا اللَّه َعلَى َما َ وج َ
ِ
َعلَى َرهِّب ْمَ ،
صبِيَّ ِة - َس ِ ِ ِ آِل ِ لَِق ِ
اس الْ َع َ ومغَالَبَةً اَل ئه -فَإن َُّه ْم َق َواع ُد أ َ ضائه ُ
کیا ہے اور اس کی نعمتوں پرغلبہ حاصل کرنا چاہا ہے۔
یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد۔فتنہ کے ستون۔اور
َ
اهلِيَّ ِة -فَ َّات ُقوا وف اعتِز ِاء اجْل ِ ِ ِ ِ ِ
جاہلیت کے غرورکی تلواریں ہیں۔ َ وسيُ ُ ْ َ ود َعائ ُم أ َْر َكان الْفْتنَة ُ
َ
ہللا سے ڈرو اور خبر دار اس کی نعمتوں کے دشمن اور
اس کے دئیے ہوئے فضاء کے حاسد نہ بنو۔ان جھوٹے
ضلِه ِعْن َد ُك ْم َض َداداً -واَل لَِف ْ اللَّه واَل تَ ُكونُوا لِنِ َع ِمه َعلَْي ُك ْم أ ْ
ِ َّ ِ ِ
مدعیان اسالم کا اتباع نہ کروجن کے گندہ پانی کو اپنے ص ْف ِو ُك ْم ين َش ِر ْبتُ ْم بِ َ ُح َّساداً -واَل تُطيعُوا األ َْدعيَاءَ الذ َ
صاف پانی میں مال کر پی رہے ہو اور جن کی بیماریوں َك َدرهم -وخلَطْتُم بِ ِ ِ
کو تم نے اپنی صحت کے ساتھ مخلوط کردیا ہے اور جن
ض ُه ْم وأ َْد َخ ْلتُ ْم يِف
ص َّحت ُك ْم َمَر َ َ ْ َُْ
وق وأَحاَل س الْع ُق ِ اطلَهم -وهم أَساس الْ ُفس ِ ِ
وق َح ِّق ُك ْم بَ ُ ْ ُ ْ َ ُ ُ
کے باطل کو اپنے حق میں شامل کرلیا ہے۔یہ لوگ فسق
وفجور کی بنیاد ہیں اور نا فرمانیوں کے ساتھ چپکے ْ ُ ُ
ہوئے ہیں -
ابلیس نے انہیں گمراہی کی سواری بنالیا ہے اور ایسا
ول َعلَى
ص ُ هِبِ اخَّتَ َذهم إِبلِيس مطَايا َ ٍ
لشکر قرار دے لیا ہے جس کے ذریعہ لوگوں پر حملہ وجْنداً ْم يَ ُضاَل ل ُ - ُْ ْ ُ َ َ
کرتا ہے اور یہی اس کے ترجمان ہیں جن کی زبان سے
َّاس -وَتَرامِج َةً َيْن ِط ُق َعلَى أَلْ ِسنَتِ ِه ْم -
الن ِ
ت ہں ت وہ بولتا ہے ن ت ئ ق
ش کرنے ی جس ی ے کو اس ق در عظ ینم ب ن ا کر پلی ن
ا کن ن ے ہ ی و ے جت ن کی ح ی ث یغت چک ھ ہی ں ہ ہ ا نو سے ب ڑا ہ ات ھ انغر ی سوں تاور سرداروں کا ہ
اور برب ادی می ں سب ت ت ی ( )1وم نکی تش ب اہ
ت پ خ کا ن دازہ ت
ے اورہ ے ہ ی ں کہ ہللا ے ہ م کو قبل ن ضد ب ایق ا ے اور ری ب ب ن دگان دا کو ی ہ سجم ھا ا چ اہ
غ ت ہ صب ع ن اد رور اور کب ر کے فعالوہ چک ھ ہیض ں ہ و اے۔ان کے پ است ع ف ہ نکر ا مم ںکل ہ و اق
ے رہ و ب اوت کا ارادہ مت کرو کہ ی ہ ا و در الٰہی ہ
ے کہ اس کے ی صلہ پر را ی رہ و اور ہ ماری اطاعت کی راہ پر چ ل اب مہارا رض ہ اسی غے ی پست رارش دی ا ہ
ے لہٰذا خ
ے۔ ے اور ی ہ ان اسالم کے الف ہ سے ب اوت ہ
تمہاری عقلوں کو چھیننے کے لئے اور تمہاری آنکھوں اع ُك ْماسرِت اقاً لِع ُقولِ ُكم ودخواًل يِف عيونِ ُكم -ونَ ْفثاً يِف أَمْس ِ
میں سما جانے کے لئے اور تمہارے کانوں میں اپنی
َ ُُ ْ َْ ُ ْ ُُ
باتوں کو پھونکنے کے لئے اس نے تمہیںاپنے تیروں کا ومأْ َخ َذ يَ ِده. ِ ِ
وم ْوط َئ قَ َدمه َ
ِ
-فَ َج َعلَ ُك ْم َم ْر َمى َنْبله َ
نشانہ اور اپنے قدموں کی جوالنگاہ اور اپنے ہاتھ کا
کھولنا بنالیا ہے۔
العبرة بالماضين
دیکھو تم سے پہلے استکبار کرنے والی قوموں پر ين ِم ْن َقْبلِ ُك ْم ِ -م ْن رِب ِ
اب األ َُم َم الْ ُم ْستَ ْك ََص َ
فَ ْ رِب مِب
اعتَ ُوا َا أ َ
جوخداکا عذاب ۔حملہ۔قہر اور عتاب نازل ہوا ہے اس
سے عبرت حاصل کرو۔ان کے رخساروں کے بھل لیٹنے ومثُاَل تِه -واتَّعِظُوا مِب َثَا ِوي بأْ ِس اللَّه وصواَل تِه ِ ِ
ووقَائعه َ َ َْ َ
اور پہلوئوں کے بھل گرنے سے نصیحت حاصل کرو۔ہللا واستَعِي ُذوا بِاللَّه ِم ْن لََواقِ ِح ِع ُجنُو ْم ْ -
ود ِهم ومصار ِ هِبِ
ُخ ُد ْ َ َ
ِ
کی بارگاہ میں تکبر کی پیداوار کی منزلوں سے اس
ِ ِ ِ ِ
طرح پناہ مانگو جس طرح زمانہ کے حوادث سے پناہ صَّه ِر َفلَ ْو َر َّخ َ الْكرْبِ َ -ك َما تَ ْستَعي ُذونَه م ْن طََوا ِرق الد ْ
ص فِيه خِلَ َّ
اص ِة أَنْبِيَائِه اللَّه يِف الْ ِك ِ أل ٍ ِ ِ ِ
مانگتے ہو۔اگر پروردگار تکبر کی اجازت کسی بندہ کو
دے سکتا تو سب سے پہلے اپنے مخصوص انبیاء اور َحد م ْن عبَاده -لََر َّخ َ رْب َ
ور ِض َي هَلُ ُم ِ ِ ِِ ِ
-وأ َْوليَائه ولَكنَّه ُسْب َحانَه َكَّره إلَْيه ُم التَّ َكابَُر َ -
اولیاء کو اجازت دیتا لیکن اس بے نیاز نے ان کے لئے
بھی تکبر کو نا پسند قراردیا ہے اور ان کی بھی تواضع
ہی سے خوش ہوا ہے۔انہوں نے اپنے رخساروں کو وعفَّروا يِف
ود ُه ْم ُ َ - ض ُخ ُد َ ص ُقوا بِاأل َْر ِ اض َع -فَأَلْ َالت ََّو ُ
زمین سے چپکادیا تھا اور اپنے چہروں کوخاک پر رکھ ني - ِ ِِ اب وجوههم -وخ َفضوا أ ِ ِ
دیا تھا اور اپنے شانوں کو مومنین کے لئے جھکا دیا تھا۔ َجن َحَت ُه ْم ل ْل ُم ْؤمن َ َ ُ ْ التَُّر ُ ُ َ ُ ْ
ص ِة ضع ِف ِ /
یہ سب سماج کے وہ کمزور بنادئیے جانے والے افراد اختََبَر ُه ُم اللَّه بِالْ َم ْخ َم َ ني -قَد ْ و َكانُوا َق ْوماً ُم ْستَ ْ َ َ
تھے جن کا خدا نے بھوک سے امتحان لیا۔مصائب سے ِ ِ
آزمایا۔خوفناک مراحل سے اختیارکیا اور ناخوشگوار
ض ُه ْموامتَ َحَن ُه ْم بِالْ َم َخا ِوف وخَمَ َ وابتَاَل ُه ْم بِالْ َم ْج َه َدة ْ - ْ
حاالت میں انہیں تہ و باال کرکے دیکھ لیا۔خبردار خدا کی ط بِالْ َم ِال والْ َولَ ِد - والس ْخ َضى ُّ بِالْ َم َكا ِره -فَاَل َت ْعتَرِب ُوا ِّ
الر َ
خوشنودی اور ناراضگی کا معیار مال اور اوالد کو
قرارنہ دینا کہ تم فتنہ کی منزلوں کو نہیں پہچانتے ہو اور َج ْهاًل مِب ََواقِ ِع الْ ِفْتنَ ِة -وااِل ْختِبَا ِر يِف َم ْو ِض ِع الْغِىَن وااِل قْتِ َدا ِر
تمہیں نہیں معلوم ہے کہ خدا مالداری اور اقتدار سے کس َ -ف َق ْد قَ َال ُسْب َحانَه وَت َعاىَل -
طرح امتحان لیتا ہے۔اس نے صاف اعالن کردیا ہے'' کیا
ان لوگوں
کا خیال یہ ہے کہ ہم انہیں مال و اوالد کی فراوانی عطا ني -نُسارِعُ هَلُ ْم يِف (أَحَي سبو َن أَمَّن ا مُنِدُّهم بِه ِمن ٍ ِ
کرکے ان کی نیکیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔حقیقت یہ مال وبَن َ ُْ ْ ْ َُ
اخْل ِ
ات بَ ْل ال يَ ْشعُُرو َن) فَِإ َّن اللَّه ُسْب َحانَه خَي ْتَرِب ُ ِعبَ َاده
ہے کہ انہیں کوئی شعورنہیں ہے۔ َرْي
ہللا اپنے کو اونچا سمجھنے والوں کا امتحان اپنے کمزور
ني يِف أ َْعيُنِ ِه ْم الْمست ْكرِب ِ ين يِف أَْن ُف ِس ِهم -بِأَولِيائِه الْمست ْ ِ
قرار دئیے جانے والے اولیاء کے ذریعہ لیا کرتا ہے۔ ض َعف َ ْ ْ َ ُ َْ ُ َْ َ
موسی بن عمران ( )1اپنے بھائی ہارون کے ساتھ ٰ دیکھو –
فرعون کے دربار میں اس شان سے داخل ہوئے کہ ان
کے بدن پرائون کا پیراہن تھا اور ان کے ہاتھ میں ایک تواضع األنبياء
عصا تھا۔ان حضرات نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر اسالم
َخوه َه ُارو ُن ِ
قبول کرلے گا تو اس کے ملک اور اس کی عزت کودوام وم َعه /أ ُ
وسى بْ ُن ع ْمَرا َن َ ولََق ْد َد َخ َل ُم َ
وف - الص ِ وعلَْي ِه َما َم َدارِعُ ُّ ِ
و بقا عطا کردیں گے۔تو اس نے لوگوں سے کہا '' کیا تم عليهالسالم َ -علَى ف ْر َع ْو َن َ
لوگ ان دونوں کے حال پر تعجب نہیں کر رہے ہو جو ِ ِِ ِ
اس فقرو فاقہ کی حالت میں میرے پاس آئے ہیں اور ود َو َام
َسلَ َم َ -ب َقاءَ ُم ْلكه َ وبِأَيْدي ِه َما الْعص ُّي فَ َشَرطَا لَه إِ ْن أ ْ
میرے ملک کو دوام کی ضمانت دے رہے ہیں۔اگر یہ ان يِل َد َو َام الْعِِّزِعِّزه َ -ف َق َال أَاَل َتعجبو َن ِمن ه َذي ِن ي ْش ِرطَ ِ
ْ َُ ْ َ ْ َ
ایسے ہی اونچے ہیں تو ان پر سونے کے کنگن کیوں
ك -ومُهَا مِب َا َتر ْو َن ِم ْن َحال الْ َف ْق ِر ُّ
والذ ِّل - ِ -وب َقاء الْم ْل ِ
َ َ ُ
نہیں نازل ہوئے ؟'' اس کی نظر میںسونا اور اس کی جمع َ
آوری ایک عظیم کارنامہ تھا اور اون کا لباس پہننا ذلت لذ َه ِ ِ
ب -إِ ْعظَاماً ل َّ ِ
َسا ِورةٌ م ْن َذ َه ٍ ِ ِ
کی عالمت تھا۔حاالنکہ اگر پروردگار چاہتا تو انبیاء کرام
ب َف َهاَّل أُلْق َي َعلَْيه َما أ َ َ
کی بعثت کے ساتھ ہی ان کے لئے سونے وف ولُْب ِسه -ولَ ْو أ ََر َاد اللَّه ُسْب َحانَه لص ِ واحتِ َقاراً لِ ُّومَجْعه ْ -
ِ
ن ئ ف
ث َب َعَث ُه ْم
ن غ
ألَ ًنْبِيَائِه َ -حْي ُ
ق
دے دعوت کی ققئن ح
ید سے
خ ااور گے
ت وں ے ہ وے رعون کے درب ار می ں ک نھڑے ہ پہ ()1وا عا ک ی جاعی ب و ری ب م ظ ر رہ نا ہ وگا ج ب ہللا کے دو مخ لص ب ن دے معمولی ل ب اس
ن ی
گے اوروہ مسکرا کر درب اریوں کی طرف دی کھ رہ ا ہ وگا۔ذرا ان دوتوں کی ج رٔات ود کھو داے و ت ک ی دعوت ب دگی ے ہ وں ن ے ہ وں گے اور اس سے ج زاتو ا ی کعام کا وعدہ کر رہ رہ
ے ہ ی ں۔ ن س الین م سے ڈرا رہ
ت ث ی ت کے سا ھ عذاب ےتہ ی ں اور معمولی ح ی ہ ر کر وعدہ
ق کا عامات ا ود نج وا ب کے اسن ب ل دہ ی وس ئ
ب ۔ ھو د و ے
ل ص حو ھر پناور ں۔ ی ہ ے
ہ ر دے
ئ ہللا والے ل ط ت و ج بروت سے مرعوب ہی ں ے کہ نپ غ ن موسی ے ان حاالت کی کو ی پرواہ ہی ں کی اورن ہای ت س نکون و و ار ئ لی ت ن
ے رہ ن کے سا حھ اپ ا ی ام س ا ن ک س ت کن ج اب ب ٰ
ے ہ دی ا ج اے ۔ ح
ے لمہ ق بل د کردی ا ج اے اور ق کی آواز کو دب ے کہ ل طان ج ابر کے سام ی
ہ وے ہ ی ں اور ہ ری ن ج ہاد ہی ہ
کے خزانے ' طالئے خالص کے معادن ' باغات کے ان َ ِ ان -ومع ِاد َن الْعِ ْقي ِ الذ ْهب ِ
کشت زاروں کے ذروازے کھول دیتا اور ان کے ساتھ
سومغَار َ َ ََ وز ِّ َ أَ ْن َي ْفتَ َح هَلُ ْم ُكنُ َ
ني ِ ان -وأَ ْن حَي شر معهم طُيور َّ ِ اجْلِنَ ِ
فضا میں پرواز کرنے والے پرندے اور زمین کے وش األ ََرض َ وو ُح َ الس َماء ُ ْ َُ َ َ ُ ْ ُ َ
چوپایوں کو ان کا تابع فرمان بنادیتا۔لیکن ایسا کردیتا تو
آزمائش ختم ہو جاتی اور انعامات کا سلسلہ بھی بند ہو ط الْبَاَل ءُ وبَطَ َل اجْلََزاء -لََف َع َل -ولَ ْو َف َع َل لَ َس َق َ
ت األَْنباء ولَما وج ِ ِ ُ،واضمحلَّ ِ
ور الْ ُمْبَتلَنْي َ - ُج ُ ب ل ْل َقابِل َ
ني أ ُ
جاتا۔اورآسمانی خبریں بھی بیکار و برباد ہو جاتیں۔نہ
مصائب کو قبول کرنے والوں کو امتحان دینے والے کا َُ َ ََ َ َْ َ
تواَل استَح َّق الْم ْؤ ِمنُو َن َثواب الْمح ِسنِني -واَل لَ ِزم ِ
اجر ملتا اورنہ صاحبان ایمان کو نیک کرداروں جیسا َ َ َ ُْ َ ْ َ ُ
انعام ملتا اور نہ الفاظ معانی کا ساتھ دیتے۔ األَمْس اء معانِيها -ولَ ِك َّن اللَّه سبحانَه جعل رسلَه أُويِل ُق َّوةٍ
البتہ پروردگار نے اپنے مرسلین کو ارادوں کے ُْ َ َ َ َ ُ ُ َ ُ ََ ََ
اعتبارسے انتہائی صاحب قوت قرار دیا ہے اگرچہ َعنُيُ ِم ْن َحااَل هِتِ ْم - يما َتَرى األ ْ
ِ ِ
يِف َعَزائ ِم ِه ْم َ -
وض َع َفةً ف َ
دیکھنے میں حاالت کے اعتبار سے بہت کمزور ہیں ان
کے پاس وہ قناعت ہے جس نے لوگوں کے دل و نگاہ کو اص ٍة مَتْألُ ص َ وخ َ
ِ
وب والْعُيُو َن غىًن َ - اعة مَتْألُ الْ ُقلُ َ
مع َقنَ ٍ
ََ َ
ان کے بے نیازی سے معمور کردیا ہے اور وہ غربت اع أَ ًذىص َار واألَمْسَ َ األَبْ َ
ہے جس کی بنا پر لوگوں کی آنکھوں اور کانوں کو اذیت
ِ ٍ ولَو َكانَ ِ
ہوتی ہے۔ ض ُام - ت األَنْبِيَاءُ أ َْه َل ُق َّوة اَل ُتَر ُام وعَّز ٍة اَل تُ َ ْ
اگر انبیاء کرام ایسی قوت کے مالک ہوتے جس کا ارادہ
الر َح ِال - الر َج ِال وتُ َش ُّد إِلَْيه عُ َق ُد ِّ اق ِّ ٍ
وم ْلك مُتَ ُّد حَنْ َوه أ َْعنَ ُ
بھی نہ کیا جا سکے اورایسی عزت کے دارا ہوتے جس ُ
کو ذلیل نہ کیا جا سکے اور ایسی سلطنت کے حامل ِ اِل
ك أ َْهو َن َعلَى اخْلَْل ِق يِف ا ْعتبَا ِر -وأ َْب َع َد هَلُ ْم يِف ِ
ہوتے جس کی طرف گردنیں اٹھتی ہوں اور سواریوں لَ َكا َن َذل َ َ
ااِل ستِكْبا ِر -وآَل منوا عن رهب ٍة قَ ِ
اهَر ٍة هَلُ ْم أ َْو َر ْغبَ ٍة َمائِلَ ٍة
کے پاالن کسے جاتے ہوں تو یہ بات لوگوں کی عبرت َُ َ ْ َ ْ َ ْ َ
هِبِ ْم -فَ َكانَت ِّ
ِ
حاصل کرنے کے لئے آسان ہوتی اور انہیں استکبار سے
بآسانی دور کر سکتی اور سب کے سب قہرآمیز خوف
ات ُم ْقتَ َس َمةً - ات ُم ْشَتَر َكةً واحْلَ َسنَ ُ النيَّ ُ
اور لذت آمیز رغبت کی بنا پر ایمان لے آتے۔سب کی ولَ ِك َّن اللَّه ُسْب َحانَه أ ََر َاد أَ ْن يَ ُكو َن ااِل تِّبَاعُ لُِر ُسلِه -
نیتیں ایک جیسی ہوتیں اور سب کے درمیان نیکیاں تقسیم والت ِ
ہو جاتیں لیکن اس نے یہ چاہا ہے کہ اس کے رسولوں يق بِ ُكتُبِه
َّصد ُْ
کا اتباع اور اس کی کتابوں کی
اعتِه ِ اِل ِ اِل ِ ِ
واخْلُ ُشوعُ ل َو ْج ِهه -وا ْست َكانَةُ أل َْم ِره وا ْست ْساَل ُم لطَ َ
تصدیق اور اس کی بارگاہ میں خضوع اوراس کے
اوامرکے سامنے فروتنی ۔سب اس کی ذات اقدس سے
مخصوص رہیں اور اس میں کسی طرح کی مالوٹ نہ اصةً اَل تَ ُشوبُ َها ِم ْن َغرْيِ َها َشائِبَةٌ و ُكلَّ َما
-أ ُُموراً لَه َخ َّ
ہونے پائے اور ظاہر ہے کہ جس قدرآزمائش اور امتحان ِ اِل ِ ِ
میں شدت ہوگی اس قدراجر و ثواب بھی زیاد ہوگا۔ َكانَت الَْب ْل َوى وا ْختبَ ُار أ َْعظَ َم َ -كانَت الْ َمثُوبَةُ واجْلََزاءُ
کیا تم یہ نہیں دیکھتے ہو کہ پروردگار عالم نے آدم کے َجَز َل – أْ
دور سےآج تک اولین و آخرین سب کا امتحان لیا ہے۔ان
پتھروں ( )1کے ذریعہ جن کا بظاہر نہ کوئی نفع ہے اور الكعبة المقدسة
نہ نقصان ۔نہ ان کے پاس بصارت ہے اور نہ سماعت۔
آد َم َن اللَّه سبحانَه اختَبر -األ ََّولِ ِ أَاَل َتَر ْو َن أ َّ
لیکن انہیں سے اپناوہ محترم مکان بنوادیا ہے جسے ني م ْن لَ ُد ْن َ َ ُْ َ ْ ََ
لوگوں کے قیام کا ذریعہ قراردے دیاہے اور پھر اسے ين ِم ْن َه َذا الْ َعا ِمَل - ِ ِ
صلىهللاعليهوآلهوسلمإىَل اآلخ ِر َ
ایسی جگہ قراردیا ہے جو روئے زمین پر انتہائی ضُّر واَل َتْن َفع واَل ُتب ِ
پتھریلی و بلند زمینوں میں انتہائی مٹی والی۔وادیوں میں صُر واَل تَ ْس َم ُع -فَ َج َعلَ َها ْ ُ َح َجا ٍر اَل تَ ُ بِأ ْ
ض َعه بِأ َْو َع ِر بَِق ِ
اع بيته احْل رام الَّ ِذي جعلَه لِلن ِ ِ
اطراف کے اعتبارسے انتہائی تنگ ہے۔اس کے اطراف
سخت قسم کے پہاڑ ' نرم قسم کے ریتلے میدان ' کہ پانی
َّاس قيَاماً – مُثَّ َو َ ََ ََْ ََ َ
والے چشمے اور منتشر قسم کی بستیاں ہیں جہاں نہ َضيَ ِق
الد ْنيَا َم َدراً -وأ ْ ض َح َجراً -وأَقَ ِّل َنتَائِِق ُّ األ َْر ِ
اونٹ پرورش پا سکتے ہیں اور نہ گائے اور نہ بکریاں۔
ون األ َْو ِديَِة قُطْراً َ -بنْي َ ِجبَ ٍال َخ ِشنَ ٍة و ِر َم ٍال َد ِمثٍَة - بطُ ِ
ُ
اس کے بعد اس نے آدم اوران کی اوالد کو حکم دے دیا
کہ اپنے کاندھوں کو اس کی طرف موڑ دیں اور ف واَل هِب ٍ ِ ٍ
وعُيُون َوشلَة و ُقًرى ُمْن َقط َعة -اَل َيْز ُكو َا ُخ ٌّ ِ ٍ
ِ
وولَ َده أَ ْن َي ْثنُوا آد َم عليهالسالم َ ف -مُثَّ أ ََمَر َ َحافٌر واَل ِظ ْل ٌ
ت ت أ َْعطَا َف ُه ْم حَنْ َوه -
ن ن
ے حکم خ ن ن ع ن خ ش
اس کا گھر ے۔سب تسے پہل آدم سے ہ ق ہ ن
سے دا ے ا ہوں اب نے ب لکہ ج فے کہ عمی ر ا ہ کعب ہ کا لق ج اب ابرا ی نم سے ہی ں ہ ن()1ی ہ اس امر کی طرف ا ارہ ن
ہ
کے مو ع پر اس عمی ر کو نبل ن د کرل ی ا گ ی ا اور اس کے ب عد ج ن اب اس کا نطواف ک ی ا اور پ ھر اپ ی اوالد کو طواف کا حکم دی ا اور ی ہ سلسلہ یو ہی چ لت ا رہ ا ی ہاں ت ک کہ طو ان وح ق ئب ای اہ اور ن
سے مسلمان ناس گھر کا طواف ا د ساری ن ۔اور ے م ا ک ت آج سلہ ے دور می ں اس کی دیواروں کوتبل ن د کرکے ا ک کان کی نح ی ی ت دے دی جس کا س ا ے ابرانی م
ی ہ ل ث حی ئ م ی پ
ئ
ے مس ئ نلہ اس کی سب ت کا ے ج و ہ
ن ئت ئ نکا ہی ں ئ ل
ے ۔ ی کن مس لہ اسنکی مخادی ح ی ث ی
ت
ت الک نھوں مکا وں سے کم ر ہ خ ے ہ ی ں ج ب کہ اس کی عمی ری ث ی ے نآرہ ل کے
کرے ن
ے جس طرح کہ سرکار دوعالم (ص) ے ودموالے کا ات کو ''ا ت بم زلة الکعبة '' کہہ کر مرج ع عوام سے ئمرج عن ال ق ب ادیئ ا ہ ے اور ائ ن پ خروردگار نے اپ ی طرف دے ندی ہ
ے۔ ہ ی گ رہ ں یہ ش ا ج گ ی کو کی حراف ے کہ اس سے ا و واص ب ادی ا ہ
اس طرح اسے سفروں سے فائدہ اٹھانے کی منزل اور
پاالنوں کے اتارنے کی جگہ بنادیا جس کی طرف لوگ َس َفا ِر ِه ْم و َغايَةً لِ ُم ْل َقى ِر َحاهِلِ ْم - ِ
ص َار َمثَابَةً ل ُمْنتَ َج ِع أ ْ فَ َ
دور افتادہ بے آب وگیاہ بیابانو ۔دور دراز گھاٹیوں کے َت ْه ِوي إِلَْيه مِث َ ُار األَفْئِ َد ِة ِم ْن َم َفا ِو ِز قِ َفا ٍر َس ِحي َق ٍة -
نشیبی راستوں ۔زمین سے کٹے ہوئے دریائوں کے
وجَزائِِر حِب َا ٍر ُمْن َق ِط َع ٍة َ -حىَّت ومها ِوي فِج ٍ ِ ٍ
جزیروں سے دل و جان سے متوجہ ہوتے ہیں تاکہ ذلت اج َعمي َقة َ َ ََ
کے ساتھ اپنے کاندھوں کو حرکت دیں اوراس کے ِ ِ
گرداپنے پروردگار کی الوہیت کا اعالن کریں اور پیدل
وي ْر ُملُو َن َعلَى َي ُهُّزوا َمنَاكَب ُه ْم ذُلُاًل -يُ َهلِّلُو َن للَّه َح ْولَه َ
أَقْ َد ِام ِهم ُ -ش ْعثاً غُرْب اً لَه قَ ْد َنب ُذوا َّ ِ
اس عالم میں دوڑتے رہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے
يل َو َراءَ
السَراب َ َ ْ
ہوں اور سر پر خاک پڑی ہوئی ہو۔اپنے پیراہنوں کو اتر ِ ِ ِ ِ
ِ
وش َّو ُهوا بإ ْع َفاء الشُّعُو ِر حَمَاس َن َخ ْلقه ُم - ِِ ظُ ُهو ِره ْم َ -
کرپھینک دیں۔اور بال بڑھا کراپنے حسن و جمال کو بد
واختِبَاراً ُمبِيناً ومَتْ ِحيصاً ِ ابتِاَل ء ع ِظيماً ِ
نما بنالیں۔یہ ایک عظیم ابتالء ۔شدید امتحان اور واضح
اختیار ہے جس کے ذریعہ عدبیت کی مکمل آزمائش ہو
وامت َحاناً َشديداً ْ - ْ ْ ًَ
صلَةً إِىَل َجنَّتِه -ولَ ْو أ ََر َاد ِ ِ ِ
رہی ہے ۔ پروردگارنے اس مکان کو رحمت کا ذریعہ وو ْبَليغاً َ -ج َعلَه اللَّه َسبَباً لَرمْح َته ُ
اور جنت کا وسیلہ بنادیا ہے۔وہ اگر چاہتا تو اس گھر کو ِ ِ
اور اس کے تمام مشاعر کو باغات اور نہرون کے وم َشاعَره الْعظَ َام َ -بنْي َ ُسْب َحانَه -أَ ْن يَ َ
ض َع َبْيتَه احْلََر َام َ
وس ْه ٍل و َقَرا ٍر َ -ج َّم األَ ْش َجا ِر َدايِن َ الث َِّما ِر ٍ
درمیان نرم و ہموار زمین پر بنا دیتا جہاں گھنے درخت َجنَّات وأَْن َها ٍر َ
ہوتے اور قریب قریب پھل ۔عمارتیں ایک دوسرے سے
جڑی ہوتیں اورآبادیاں ایک دوسرے سے متصل ۔کہیں ض ٍةور ْو َ ٍ ِ
ف الْبُىَن ُمتَّص َل الْ ُقَرى َ -بنْي َ بَُّرة مَسَْراءَ َ ُ -م ْلتَ َّ
سرخی مائل گندم کے پودے ہوتے اور کہیں س سر سبز اص ُم ْغ ِدقَ ٍة -و ِريَ ٍ
اض وعَر ٍ اف حُمْ ِدقٍَة ِ ضراء -وأَري ٍ
َْ َخ ْ َ َ
باغات ۔کہیںچمن زار ہوتا اور کہیں پانی میں ڈوبے ہوئے
میدان کہیں سر سبز و شاداب کشت زار ہوتے اور کہیں صغَُر قَ ْد ُر اجْلََز ِاء َعلَى ٍ ِ
نَاضَر ٍة وطُُرق َعامَر ٍة -لَ َكا َن قَ ْد َ
ِ
آباد گزر گاہیں لیکن اس طرح آزمائش کی سہولت کے ولاس الْ َم ْح ُم ُ ِ ِ ب َ ِ َحس ِ
ساتھ جزاکی مقدار بھی گھٹ جاتی ہے۔ ض ْعف الْبَاَل ء -ولَ ْو َكا َن اإل َس ُ َ
ٍ هِب
اور اگر جس بنیاد پر اس مکان کو کھڑا کیا گیا ہے وہ
ضَراءَ َح َج ُار الْ َم ْرفُوعُ َا َ -بنْي َ ُز ُمُّر َدة َخ ْ َعلَْي َها -واأل ْ
سبز زمرد اور سرخ یاقوت جیسے پتھروں اورنور و
ضیا کی وضيَ ٍاء،
وياقُوتٍَة مَحْراء ونُو ٍر ِ
ََ َ
تابانیوں سے عبارت ہوتی تو سینوں پر شکوک کے خَل ف ِ
حملے کم ہو جاتے اور دلوں سے ابلیس کی محنتوں کا
اه َد َة
ض َع جُمَ َ الص ُدو ِر -ولََو َ َّك يِف ُّص َار َعةَ الش ِّ ك ُم َ َّف َذل َ َ َ
اثر ختم ہو جاتا اور لوگوں کے خلجان قلب کا سلسلہ تمام َّاس - ب ِم َن الن ِ الريْ ِوب -ولََن َفى ُم ْعَتلَ َج َّ إِبْلِيس َع ِن الْ ُقلُ ِ
ہو جاتا۔لیکن پروردگار اپنے بندوں کو سخت ترین حاالت
َ
ويَت َعبَّ ُد ُه ْم بِأَْن َو ِ
اع ِ ِ ولَ ِك َّن اللَّه خَي ْتَرِب ُ عبَ َاده بِأَْن َو ِ
ِ
سے آزمانا چاہتا ہے۔اور ان سے سنگین ترین مشقتوں َّدائد َ - اع الش َ
وب الْم َكا ِره -إِ ْخراجاً لِلتَّكَرُّبِ ضر ِ اه ِد ِ ِ ِ - الْمج ِ
ويْبتَليه ْم ب ُ ُ
کے ذریعہ بندگی کرانا چاہتا ہے اور انہیں طرح طرح
کے ناخوشگوار حاالت سے آزمانا چاہتا ہے تاکہ ان کے َ َ َ ََ
دلوں سے تکبر نکل جائے اور ان کے نفوس میں تواضع
ِ ِ
ِم ْن ُقلُو ْم -وإِ ْس َكاناً للتَّ َذلُّ ِل يِف نُ ُفوس ِه ْم -وليَ ْج َع َل
ِ هِبِ
اور فروتنی کو جگہ مل جائے اور اسی بات کو فضل و
َسبَاباً ذُلُاًل لِ َع ْف ِوه/. ضله -وأ ْ
َذلِك أَبواباً ُفتحاً إِىَل فَ ْ ِ
َ َْ ُ
کرم کے کھلے ہوئے دروازوں اور عفو و مغفرت کے
آسان ترین و سائل میں قراردیدے۔ عود إلى التحذير
دیکھو دنیا میں سر کشی کے انجام' آخرت میں ظلم کے
وآج ِل وخام ِة الظُّْل ِم وس ِ
وء اج ِل الْب ْغ ِي ِ - فَاللَّه اللَّه يِف ع ِ
عذاب اور تکبر کے بد ترین نتیجہ کے بارے میں خدا ُ َََ َ َ
ِِ ِِ ِ
وم ِك َ َعاقبَة الْكرْبِ -فَِإن ََّها َم ْ
سے ڈرو کہ یہ کتبر شیطان کا عظیم ترین جال اوربزرگ
يدتُه يس الْعُظْ َمى َصيَ َدةُ إبْل َ
ترین مکر ہے جو دلوں میں اس طرح اتر جاتا ہے
السم ِ
وم الْ ُكبرى -الَّيِت تُسا ِور ُقلُوب ِّ ِ
جیسے زہر قاتل کہ نہ اس کا اثرزائل ہوتا ہے اور نہ اس الر َجال ُم َس َاو َر َة ُّ ُ َ َ ُ َْ
کا وار خطا کرتا ہے۔نہ کسی عالم کے علم کی بنا پر اور
نہ کسی نادار پر اس کے پھٹے کپڑوں کی بنا پر۔ َحداً -اَل َعالِماً ِ ِِ
الْ َقاتلَة -فَ َما تُكْدي أَبَداً واَل تُ ْش ِوي أ َ
ِ ِ ِ ِِ ِ
اور اسی مصیبت ( )1سے پروردگارنے اپنے صاحبان
زکوة اور مخصوص دونوں میں ایمان بندوں کونماز اور ٰ
س اللَّه ك َما َحَر َ لع ْلمه واَل ُمقالًّ يِف ط ْم ِره َ -
وع ْن َذل َ
روزہ کی مشقت کے ذریعہ بچایا ہے کہ ان کے اعضاء اه َد ِة ات َّ ِ
والز َك َوات -وجُمَ َ
الصلَو ِ ِعب َاده الْم ْؤ ِمنِ َ ِ
ني -ب َّ َ َ ُ
الصي ِام يِف األَيَّ ِام الْم ْفروض ِ
ات
ن ن ئ ف ش ش
َُ َ ِّ َ ن
سے
ے پروردگارے ا سان کواس حملہ پ ن ے۔اس
نل اور است ک ب ار شہ
اورش ی طانظ کا سب سے ب ڑا حرب ہ ساد ش ق ے خ سان کی سب سے بڑی مصی ب ت ن ی طان کا ات ب خ
اع ضہ ن ئ ا نب()1
ی قا عہ یذر کے ة ش
زکو اور وگا
ن ہ دا پ ہ ذ ج اک ے کر ت ردا ب ت م عہ ی ذر کے
ئ ن
وگا۔روہ ہ ہار ا کا وع و وع عہ ی ذر کے ماز نکہ ا کرد ب جوا کو ةزکو اور روزہ
ف ماز' ئ
ے کے ے چن ا
ت ب ی
ے اور جس کی ب ن ا پر ا سان ٰ ی طن ت سے ری ب ر
ن غ ک خ ق ی ق نل
حم تت کے ت ا ج می ں ر اور م ٰساکی ن کو م دم کرے کا ی ال پ ی دا ہ وگا اور اس طرح وہ رور ل ج اے گا ج و است ک ب ار کی ب ی اد ب ن ت ا ہ
ے۔ ہ وج ا اہ
صا ِر ِه ْم -وتَ ْذلِياًل ِ ِ
تَ ْسكيناً ألَطَْراف ِه ْم وخَت ْشيعاً ألَبْ َ
ِ
و جوارح کو سکون مل جائے ۔نگاہوں میں خشوع پیدا ہو
جائے۔نفس میں احساس ذلت پیدا ہو' دل بارگاہ ٰالہی میں
جھک جائیں اور ان سے غرور نکل جائے اور اس بنیاد وس ِه ْم وخَت ْ ِفيضاً لُِقلُوهِبِ ْم -وإِ ْذ َهاباً لِْل ُخيَاَل ِء َعْن ُه ْم -لُِن ُف ِ
پر کہ نماز میں نازک چہرے تواضع کے ساتھ خاک آلود ولِما يِف َذلِ َ ِ ِ ِ ِ
اق الْوجوه بِالتُّر ِ
کیے جاتے ہیں اور محترم اعضاء و جوارح کو ذلت کے اضعاً -اب َت َو ُ َ ك م ْن َت ْعف ِري عتَ ُ ُ َ
ض تَصاغُراً -وحُل وقِ ِ ِ ِ
ِح بِاأل َْر ِ َ صاق َكَرائ ِم اجْلََوار ِ والْت َ
ساتھ زمین سے مال دیا جاتا ہے۔اور روزہ میں احساس
عاجزی کے ساتھ پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں اور ٰ
زکوة ُ
میںزمین کے بہترین نتائج کو فقر اور مساکین کے حوالے الز َك ِاة ِم ْن
الصيَ ِام تَ َذلُّاًل َ -م َع َما يِف َّون ِم َن ِّ ون بِالْمتُ ِ
ُ
الْبطُ ِ
ُ
کردیا جاتا ہے۔ذرا دیکھو ان اعمال میں کس طرح تفاخر ك إِىَل أَه ِل الْمس َكنَةِ ض -و َغ ِ َذلِ ِ
ص ْرف مَثََرات األ َْر ِِ
کے آثار کو جڑ سے اکھاڑ کرپھینک دیا جاتا ہے اور ْ َْ رْي َ َ
تکبر کے نمایاں ہونے والے آثارکودبادیا جاتا ہے۔ والْ َف ْق ِر/.
میں نے تمام عالمین کو پرکھ کر دیکھ لیا ہے ۔ کوئی
شخص ایسا نہیں ہے جس میں کسی شے کا تعصب پایا
جاتا ہو اور اس کے پیچھے کوئی ایسی علت نہ ہو جس
سے جاہل دھوکہ کھا جائیں یا ایسی دلیل نہ ہو جو
فضائل الفرائض
احمقوںکی عقل سے چپک جائے۔عالوہ تم لوگو کے کہ تم انْظُُروا إِىَل َما يِف َه ِذه األَ ْف َع ِال ِ -م ْن قَ ْم ِع َن َو ِاج ِم الْ َف ْخ ِر
ایسی چیز کا تعصب رکھتے ہو جس کی کوئی علت اور ِ ِ
جس کا کوئی سبب نہیں ہے۔دیکھو ابلیس نے آدم کے َحداً ِم َن تأَ ت فَ َما َو َج ْد ُ وقَ ْد ِع طََوال ِع الْكرْبِ ولََق ْد نَظَْر ُ
مقابلہ میں عصبیت کا اظہار کیا تو اپنی اصل کی بنیاد پر ب لِ َش ْي ٍء ِم َن األَ ْشيَ ِاء إِاَّل َع ْن ِعلَّ ٍة - صُ ني َ -يَت َع َّ ِ
الْ َعالَم َ
اور ان کی تخلیق پر طنز کیا اور یہ کہہ دیا کہ میں
آگسے بنا ہوں اورت مخاک سے بنے ہو۔ الس َف َه ِاء
ول ُّ ط بِع ُق ِ ٍ ِ ِ
حَتْتَم ُل مَتْ ِويه اجْلُ َهاَل ء -أ َْو ُح َّجة تَلي ُ ُ
ِ
اسی طرح کا امتوں کے دولت مندوں نے اپنی نعمتوں
کے آثار کی بنا پر غرورکا مظاہرہ کیا اوریہ اعالن کردیا ب واَل ف لَه َسبَ ٌ صبُو َن أل َْم ٍر َما يُ ْعَر َُغْيَر ُك ْم -فَِإنَّ ُك ْم َتَت َع َّ
َصلِه -وطَ َع َن َعلَْيه آد َم أل ْ ب َعلَى َ صَ يس َفَت َع َّ ِِ
علةٌ -أ ََّما إبْل ُ
ِ َّ
ت ِطييِن ٌّ.ي وأَنْ َ يِف ِخ ْل َقتِه َ -ف َق َال أَنَا نَا ِر ٌّ
عصبية المال
صبُوا آِل ثَا ِر َم َواقِ ِع
وأ ََّما األَ ْغنِيَاءُ ِم ْن ُمْتَرفَ ِة األ َُم ِم َ -فَت َع َّ
ِّع ِم -الن َ
مِب
ف (قالُوا حَنْ ُن أَ ْكَثُر أ َْموااًل وأ َْوالداً -وما حَنْ ُن َُع َّذبِ َ
کہ '' ہم زیادہ مال و اوالد والے ہیں لہٰ ذا ہم پر عذاب نہیں ني) -
ہو سکتا ہے '' لیکن تمہارے پاس تو ایسی کوئی بنیاد بھی
َ
نہیں ہے۔لہٰ ذا اگر فخر ہی کرنا ہے تو بہترین عادات ' قابل صبُ ُك ْم لِ َم َكا ِرِم صبِيَّ ِة َ -فْليَ ُك ْن َت َع ُّ ِ
فَِإ ْن َكا َن اَل بُ َّد م َن الْ َع َ
تحسین اعمال اورحسین ترین خصائل کی بنا پر کرو جس
اس ِن األ ُُمو ِر -الَّيِت اخْلِص ِال -وحَم ِام ِد األَ ْفع ِال وحَم ِ
کے بارے میں عرب کے خاندانوں۔قبائل کیس رداروں َ َ َ َ
ب ات الْعر ِ ِ ِ َت َفاضلَ ِ
ُّج َداءُ -م ْن بُيُوتَ َ َ ت ف َيها الْ ُم َج َداءُ والن َ
کے بزرگ اور شریف لوگ کیا کرتے تھے۔یعنی پسندیدہ َ ْ
اعلی مراتب اورقابل تعریف
ٰ اخالق ' عظیم دانائی '
َحاَل ِم يب ال َقبائِ ِل -بِاألَخاَل ِق َّ ِ ِ ِ
کارنامے۔ الرغيبَة واأل ْ ْ وي َعاس ِ َ َ
ود ِة َ -فَت َع َّ ِ ِ الْع ِظ ِ
َخطَا ِر اجْلَليلَة واآلثَا ِر الْ َم ْح ُم َ
تم بھی انہیں قابل ستائش اعمال پر فخر کرو۔ہمسایوں کا صبُوا
تحفظ کرو۔عہدو پیمان کو پورا کرو۔نیک لوگوں کی يمة -واأل ْ َ َ
اطاعت کرو سر کشوں کی مخالفت کرو۔فضل و کرم الذ َم ِامخِلِاَل ِل احْلَ ْم ِد ِم َن احْلِْف ِظ لِْل ِجوا ِر -والْوفَ ِاء بِ ِّ
َ َ
کواختیار کرو۔ظلم و سرکشی سے پرہیز کرو۔خون ریزی ِ ِ ِِِ والطَّ ِ ِ
سے پناہمانگو۔خلق خدا کی ساتھ انصاف کرو۔غصہ کو
ض ِل - ِ
َخذ بالْ َف ْ اعة ل ْلرِب ِّ -والْ َم ْعصيَة ل ْلكرْب واأل ْ
ِ َ
پی جائو ۔فسد فی االرض سے اجتناب کرو کہ یہی صفات اف لِْل َخ ْل ِق ف ع ِن الْب ْغ ِي وا ِإلعظَ ِام لِْل َقْت ِل -وا ِإلنْص ِ
َ ْ والْ َك ِّ َ َ
و کماالت قابل فخر و مباہات ہیں۔
بد ترین اعمال کی بنا پر گذشتہ امتوں پرنازل ہونے والے والْ َكظْ ِم لِْلغَْي ِظ.
عذاب سے اپنے کومحفوظ رکھو۔خیرو شر ہر حال میں واح َذ ُروا َما َنَز َل بِاأل َُم ِم ض ْ اب الْ َف َس ِاد يِف األ َْر ِ واجتِنَ ِْ
ان لوگوں کو یاد رکھو اور خبر دار ان کے جیسے بد
ِ َقبلَ ُكم ِ -من الْمثُاَل ِ
کردار نہ ہوجانا۔ َع َم ِال - ت بِ ُسوء األَ ْف َع ِال وذَ ِمي ِم األ ْ ْ ْ َ َ
اگر تم نے ان کے اچھے برے حاالت پر غورکرلیا
َفتَ َذ َّكُروا يِف اخْلَرْيِ والشَِّّر أ ْ
()1
لیکن کیاکروں کہ وہ مکرو فریب اور فسق و فجوربھی وي ْف ُجُر -ولَ ْو اَل
َّاس -ولَ ِك ْن ُك ُّل غُ َد َر ٍة ت ِم ْن أ َْد َهى الن ِ ِ
کر لیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے نا پسند نہ ہوتی تو
َكَراهيَةُ الْغَ ْد ِر لَ ُكْن ُ
مجھ سے زیادہ ہوشیار کوئی نہ ہوتا لیکن میرا نظریہ یہ
ہے کہ ہر مکرو فریب گناہ ہے اور ہر گناہ پروردگار ف بِه َي ْو َم فُ َجَرةٌ و ُك ُّل فُ َجَر ٍة ُك َفَرةٌ -ولِ ُك ِّل َغ ِاد ٍر لَِواءٌ يُ ْعَر ُ
کے احکام کی نا فرمانی ہے ہر غدارکے ہاتھ میں قیامت الْ ِقيَ َام ِة».
کے دن ایک جھنڈا دے دیا جائے گا جس سے اسے
يد ِة . يد ِة واَل أُست ْغمز بِالش ِ
عرصہ محشر میں پہچان لیا جائے گا۔ َّد َ َْ َُ ُسَت ْغ َف ُل بِالْ َم ِك َ
واللَّه َما أ ْ
خدا کی قسم مجھے نہ ان مکاریوں سے غفلت میں ڈاال
سختیوں سے دبایا جا سکتا شہے۔جا سکتا ہےناور نہ ان ق ن نف ئ
(ص) ق رارد ا ہ و اورخ ود سرکار دو عالم (ص) ے اب مدی ن ہ علم رار د اہ و اس سے ز ادہ ہ وش ارتہ و م ن کھ
اور صاحب ن د ی ی ی ئ تب ہ ش خ ی ف رسول ن س
ب
ے روردگار ع( )1ن لی ہ و ب ہ ل ی ج پ
ے
س کہ ے ات ی
ے اس کی ئس ی قاست زیتادہ کام ی اب قھی۔حاال کہ اس اسی ج س ہ
لم و ہ رشکون و کت ا ہ
ے کہ معای ہ زی ادہم قو ی ار اور زیرک ھا اور ئ
ے ہ قلر وس لہنکو ا ز رار دی ت ا ھا اور اس کا م صد ب ے۔ کنن اس کے ب او ود عض ادان ا راد کا یغال ہ
صرفھی ق خ ق ت ج ی لے کہ معاوی ہ صدت کے نحصول کے ق ہ راز مکاری ناور ق دارین ئب لکہ ئ ناس کاے۔ہ کا راز ہ و ق ی اری تاورہ وش م ن دی ت ہی ں
اور ہ آپ نکام ت صد ا ت دار د ی کا حصول ھا۔ آپ کا م صد دی ن دا کا ی ام وازکا ذری عہ ھا خگاہ می ں ہم صد نوس ی لہ کے ج ضحت حکومتق ھا اور نموالے نکا اتٹکی ن ت تحصول ا ت دار اور ن
ے۔ پ ہ ا ڑ ا ھ کر ال ی اک وردگار ر پ ی مر ں یم س اس ر ھا اور اس راہ می ں ا سان کو ہ ر دم پ ھو ک پ ھو ک کرا ھا اپڑ ہ ہ
اور ے ا
()201 ()201
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(جس میں واضح راستوں پرچلنے کی نصیحت 2فرمائی
يعظ بسلوك الطريق الواضح
گئی ہے )
ایہا الناس ! دیکھو ہدایت کے راستہ پرچلنے والوں کی َّاس -اَل تَ ْسَت ْو ِح ُشوا يِف طَ ِر ِيق اهْلَُدى لِِقلَّ ِة أ َْهلِه - أَيُّ َها الن ُ
قلت کی بنا پرچلنے سے مت گھبرائو کہ لوگوں نے ایک
وجوعُ َها ِ ٍِِ فَِإ َّن الن ِ
ایسے دستر خوان پر اجتماع کرلیا ہے جس میں سیر اجتَ َمعُوا َعلَى َمائ َدة شَبعُ َها قَصريٌ ُ - َّاس قَد ْ َ
ہونے کی مدت بہت کم ہے اوربھوک کی مدت بہت طویل
ہے۔ طَ ِو ٌ
يل.
لوگو! یاد رکھو کہ رضا مندی اورناراضگی ہی سارے ط -وإِمَّنَا َع َقَر والس ْخ ُ
ضا ُّ الر َ
َّاس ِّ أَيُّ َها الن ِمَّن
َّاس إ َا جَيْ َم ُع الن َ ُ
انسانوں کو ایک نقطہ پر جمع کر دیتی ہے۔ناقہ صالح
ِ ِ َّ ِ
ود َر ُج ٌل َواح ٌد َ -ف َع َّم ُه ُم الله بالْ َع َذاب لَ َّما َع ُّموه
کے پیرایک ہی انسان نے کاٹے تھے لیکن ہللا نے عذاب نَاقَةَ مَثُ َ
سب پر نازل کردیا کہ باقی لوگ اس کے عمل سے
ني) - ِِ بِ ِّ
راضی تھے ۔اورفرمادیا کہ ان لوگوں نے ناقہ کے پیر َصبَ ُحوا نادم َ ضا َ -ف َق َال ُسْب َحانَه ( َف َع َقُروها فَأ ْ الر َ
کاٹ ڈالے اور آخر میں ندامت کا شکار ہوگئے۔ان کا الس َّك ِة
ض ُه ْم بِاخْلَ ْس َف ِة ُ -خ َو َار ِّ ت أ َْر ُ فَ َما َكا َن إِاَّل أَ ْن َخ َار ْ
عذاب یہ تھا کہ زمین جھٹکے سے گھڑگھڑانے لگی جس
طرح کہ نرم زمین میں لوہے کی تپتی ہوئی پھالی چالئی ض اخْلََّو َار ِة .الْ ُم ْح َم ِاة يِف األ َْر ِ
جاتی ہے۔ ِ
لوگو!دیکھو جو روشن راستہ پرچلتا ہے وہ سر چشمہ
وم ْن
يق الْ َواض َح َو َر َد الْ َماءَ َ - ك الطَِّر َ َّاس َم ْن َسلَ َأَيُّ َها الن ُ
تک پہنچ جاتا ہےاورجو اس کے خالف کرتا ف َوقَ َع يِف التِّيه! َخالَ َ
ہےوہگمراہی میں پڑ جاتا ہے۔
()202
()202
وم ْن كَاَل ٍم لَه عليهالسالم ِ
آپ کا ارشاد گرامی
ر ِوي َع ْنه أَنَّه قَالَه ِع ْن َد َدفْ ِن سيِّ َد ِة النِّس ِاء فَ ِ
اط َمةَ
(کہا جاتا ہے کہ یہ کلمات سیدة النساء فاطمہ زہراء َ َ َ
کے دفن کے موقع پر پیغمبراسالم( 2ص) سے راز دارانہ2
ول اللَّه ِ
عليهالسالمَ 2كال ُْمنَاجي بِه َر ُس َ
گفتگو کے اندازسے کہے گئے ہیں ۔
صلىهللاعليهوآلهوسلمِ 2ع ْن َد َق ْب ِره.
سالم ہو آپ پر اے خدا کے رسول (ص) ! میری طرف
سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جوآپ کے
ك النَّا ِزلَ ِة يِفوع ِن ْابنَتِ َ
ول اللَّه َعيِّن َ - ك يَا َر ُس َ الساَل ُم َعلَْي ََّ
والس ِريع ِة اللَّح ِ ِ
جوار میں نازل ہو رہی ہے اوربہت جلدی آپ سے ملحق
ہو رہی ہے۔ یا رسول ہللا (ص) ! میری قوت صبر آپ کی
ول اللَّه َع ْن ك -قَ َّل يَا َر ُس َ اق بِ َ ج َوا ِر َك َ َ َّ -
منتخب روز گار دختر کے بارے میں ختم ہوئی جا رہی َسي يِل ور َّق َعْن َها جَتَلُّ ِدي -إِاَّل أ َّ
َن يِف التَّأ ِّ صرْب ي َ
ك َِ ِ
صفيَّتِ َ َ
ِ ِ ِ ِ ِ ِ
بِ َعظي ِم ُف ْرقَت َ
ہے اور میری ہمت ساتھ چھوڑے دے رہی ہے صرف
ك َم ْوض َع َت َعٍّز َ -فلَ َق ْد ك -وفَاد ِح ُمصيبَت َ
سہارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ
و َّس ْدتُك يِف م ْلح ِ
اورجانکاہ حادثہ پر صبر کرلیا ہے تواب بھی صبر ت َبنْي َ حَنْ ِري اض ْودة َقرْبِ َك -وفَ َ َ َ ُ َ َ
کروں گا کہ میں نے ہی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور راجعو َن) َ -فلَ َقدِ ف (إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيه ِ
میرے ہی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا ُ ْ كَ - وص ْد ِري َن ْف ُس َ َ
بہر حال میں ہللا ہی کے لئے ہوں اور مجھے بھی اس کی الر ِهينَةُ -أ ََّما ُحْزيِن فَ َس ْر َم ٌد ت َّ ت الْو ِديعةُ وأ ُِخ َذ ِ ِ ِ
اسُت ْرج َع َ َ ْ
بارگاہ میں واپس جانا ہے۔آج امانت واپس چلی گئی اور
ِ
جوچیز میری تحویل میں تھی وہ مجھ سے چھڑالی گئی۔ ت وأ ََّما لَْيلي فَ ُم َس َّه ٌد -إِىَل أَ ْن خَي ْتَ َار اللَّه يِل َد َار َك الَّيِت أَنْ َ
هِب ِ
ض ِم َها ضافُِر أ َُّمتِ َ
ك بِتَ َ
اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیرے راتیں نذر بیداری
ہیں جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھرتک نہ پہنچا ك َعلَى َه ْ ك ْابنَتُ َ وسُتنَبِّئُ َ
يم َ - َا ُمق ٌ
دے جہاں آپ کا قیام ہے۔عنقریب آپ کی دختر نیک واستَ ْخرِب ْ َها احْلَ َال َ -ه َذا ومَلْ يَطُ ِل الس َؤ َال ْ َح ِف َها ُّ -فَأ ْ
اختران حاالت کی اطالع دے گی کہ کس طرح آپ کی
امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا آپ والساَل ُم َعلَْي ُك َما َساَل َم الذ ْكُر َّ - ك ِّ الْ َع ْه ُد ومَلْ خَي ْ ُل ِمْن َ
اس سے مفصل سوال فرمائیں اورجملہ حاالت دریافت ف فَاَل َع ْن َماَل لٍَة - ص ِر ْ ِ ٍ
ُم َو ِّد ٍع اَل قَال واَل َسئ ٍم -فَِإ ْن أَنْ َ
کریں۔
وء ظَ ٍّن وإِ ْن أُقِم فَاَل عن س ِ
افسوس کہ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب آپ کا زمانہ ْ َْ ُ
گزرے دیر نہیں ہوئی ہے اور ابھی آپ کاتذکرہ باقی ہے۔
میرا سالم ہو آپ دونوں پر۔اس شخص کا سالم جو
رخصت کرنے واال ہے اور دل تنگ و ملول نہیں ہے ۔
میں اگراس قبر سے واپس چال جائوں تو یہ کسی دل
تنگی کا نتیجہ نہیں ہے اور اگر یہیں ٹھہر جائوں تو یہ
اس وعدہ کی ہے اعتبار ہ ی
مِب َا و َع َد اللَّه َّ ِ
الصاب ِر َ
نہیں ہے جو پروردگار نے صبرکرنے والوں سے کیا ين.
ہے۔ َ
()203 ()203
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(دنیا سے پرہیزاورآخرت 2کی ترغیب کے بارےمیں) في التزهيد من الدنيا والترغيب في اآلخرة
لوگو! یہ دنیا ایک گذر گاہ ہے ۔قرار کی منزل آخرت ہی
ہے ل ٰہذا اس گزر گاہ سے وہاں کا سامان لے کرآگے
بڑھو اور اس کے سامنے اپنے پردہ ٔ راز کو چاک مت واآلخَرةُ َد ُار َقَرا ٍر -فَ ُخ ُذوا ِ َّاس إِمَّنَا ُّ
الد ْنيَا َد ُار جَمَا ٍز
کرو جو تمہارے اسرار سے با خبر ہے۔دنیا سے اپنے أَيُّ َها الن ُ
َستَ َار ُك ْم ِعْن َد َم ْن َي ْعلَ ُم ِ ِ ِ
دلوں ( )1کو باہر نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدنکو م ْن مَمَِّر ُك ْم ل َم َقِّر ُك ْم -واَل َت ْهت ُكوا أ ْ
یہاں سے نکاال جائے۔یہاں صرف تمہارا امتحان لیا جا
رہا ہے ورنہ تمہاری خلقت کسی اور جگہ کے لئے ہے۔ الد ْنيَا ُقلُوبَ ُك ْم ِ -م ْن َقْب ِل أَ ْن
َخ ِر ُجوا ِم َن ُّ َسَر َار ُك ْم -وأ ْ أْ
کوئی بھی شخص جب مرتا ہے تو ادھر والے یہ سوال اختُرِب ْ مُتْ ولِغَرْيِ َها ُخلِ ْقتُ ْم -إِ َّن ِ ِ
خَت ُْر َج مْن َها أَبْ َدانُ ُك ْم -فَف َيها ْ
کرتے ہیں کہ کیا چھوڑ کر گیا ہے اورادھرکے فرشتے
یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا لے کرآیا ہے ؟ ہللا تمہارا ت الْ َماَل ئِ َكةُ َما
ك قَ َال النَّاس ما َتر َك؟ وقَالَ ِ
َُ َ الْ َم ْرءَ إِذَا َهلَ َ
قَد ِ
َّم -للَّه آبَا ُؤ ُك ْم َف َقد ُ
بھالکرے کچھ وہاں بھیج دو جو مالک کے پاس تمہارے
قرضہ کے طورپ ر رہے گا۔اور سب یہیں چھوڑ کرمت
ِّموا َب ْعضاً يَ ُك ْن لَ ُك ْم َقْرضاً -واَل َ
جائو کہ تمہارے ذمہ ایک بوجھ بن جائے ۔ خُتْلِ ُفوا ُكالًّ َفيَ ُكو َن َفْرضاً َعلَْي ُك ْم.
()204
()204
آپ کا ارشاد گرامی
(جس کے ذریعہ اپنے اصحاب 2کوآوازدیاکرتے تھے )
عليهالسالم ومن كالم له
خدا تم پر رحم کرے تیار ہوجائو کہ تمہیں کوچ كان كثيرا ما ينادي به أصحابه
کرنےکے لئے پکارا جا چکا ہے اور خبر دار دنیا کی
الر ِح ِيل وأَقِلُّوا مِح
طرف زیادہ ي فِي ُك ْم بِ َّ ِ
جَتَ َّهُزوا َر َ ُك ُم اللَّه َف َق ْد نُود َ
ن ن ن
الْعُْر َجةَ َعلَى تُّ
الد ْنيَا
ن ق ن ن ن ن ت
()1اسالم کا مدعا رک د ا م
ے اور اس ے کہ ا سانخرہ ب ا ی ت کی ز دگی تگزارے۔اسالم کا م بصد صرف ی ہ ہ
ے کہ د یتا ا سان کی ز دگی کا وس ی لہ رہ ہے اور ہن وہ نی ہ چ اہ ت ا ن
ہن
ئہی ں ن بن ی
ے۔ س ک
ے اور اسے سی ھی گڑھے می ں گرا ک ی ہ س
ے پ اے۔ور ہ حب د ی ا ا سان کو ز دگی کے ہ ر طرہ سے دوچ ار کر ک ی ہ کے دل کا مکی ن ہ ن
صالِ ِح َما حِب َ ْ
الز ِاد -فَِإ َّن أ ََم َام ُك ْمضَرتِ ُك ْم ِم َن َّ ِ
- -وا ْن َقلبُوا بِ َ
توجہ مت کرو ۔جو بہترین زاد راہ تمہارے سامنے ہے
اسے لے کر مالک کی بارگاہ کی طف پلٹ جائو کہ
تمہارے سامنے ایک بڑی دشوار گزار گھاٹی ہے۔اورچند ع َقبةً َكئوداً ومنَا ِز َل خَمُوفَةً مهولَةً -اَل ب َّد ِمن الْور ِ
ود ُ َ ُُ َُ َ ََ ُ
خطرنک اورخوفناک منزلیں ہیں جن پر بہر حال وارد ِ
ہونا ہے اور وہیں ٹھہرنا بھی ہے۔اوریہ یاد رکھو کہموت ظ الْ َمنِيَّ ِة
َن َماَل ِح َ َعلَْي َها والْ ُوقُوف ِعْن َد َها ْ .-
واعلَ ُموا أ َّ
کی نگاہیں تم سے قریب تر ہوچکی ہیں اورتم اس کے ت فِي ُك ْم - ِ ِ ِ
حَنْ َو ُك ْم َدانيَةٌ -و َكأَنَّ ُك ْم مِب َ َخالبِ َها وقَ ْد نَشبَ ْ
پنجوں میں آچکے ہو جو تمہارے اندر گڑا ئے جا چکے
ت الْ َم ْح ُذو ِر ضاَل ُ/ وقَ ْد دمَه ْت ُكم فِيها م ْف ِظعات األُمو ِر ومع ِ
ہیں۔موت کے شدید ترین مسائالوردشوار ترین مشکالت َ َ ْ َ ُ َ ُ ُ ُْ
تم پر چھا چکے ہیں ۔اب دنیا کے تعلقات کوختم کرو
واستَظْ ِهُروا بَِز ِاد َّ
الت ْق َوى. الد ْنيَا ْ َ .-ف َقطِّعُوا َعاَل ئِ َق ُّ
اورآخرت کے زاد راہ تقویکے ذریعہ اپنی طاقت کا
انتظام کرو۔(واضح رہےکہ اس سے پہلے بھی اسی قسم وقد مضى شيء من هذا الكالم فيما تقدم -خبالف هذه
کاایک کالم دوسری روایت کے مطابق گزر چکا ہے)
الرواية
()205
آپ کا ارشاد گرامی ()205
( جس میں طلحہ و زبیر کو مخاطب بنایا گیا ہے جب ان عليهالسالم ومن كالم له
دونوں نے بیعت کے باوجود مشورہ کرنے اورمدد نہ
مانگنے پر آپ سے ناراضگی 2کا ظہار کیا ) كلم به طلحة والزبير -بعد بيعته بالخالفة وقد عتبا
تم نے معمولی سی بات پرتو غصہ کا اظہار کردیا لیکن عليه من ترك مشورتهما،
بڑی باتوں کو پس پشت ڈال دیا۔کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ
تمہارا کون ساحق ( )1ایسا ہے جس سے میں نے تم کو واالستعانة في األمور بهما
َي َش ْي ٍء
لََق ْد َن َق ْمتُ َما يَ ِسرياً وأ َْر َجأْمُتَا َكثِرياً -أَاَل خُتْرِب َايِن أ ُّ
محروم
ق ئ
َكا َن لنَ ُك َمانفِيه َح ٌّق َد َف ئْعتُ ُك َما َعْنه
نق ح قت س ت ت ن ت ئ ت ت م
ے اب ک ی ا ج اسک
ے کہ جم ھ سے ے اورق ان کے عزات م بکی ی ق وں کوب ف ے تاکہ طلحہ اور زبیر کی ی وں کا محاسنب ہ ک ی ا ج ان ک ے کی ا ہ وں کاحقذکرہ اس ل ہ
ےئ ان مام پ ت لو )امی ںر المو ی تن ن ق ( 1ن
ئ ک ئ
ے پر سی م ک ی ا جج ان رہ ا نھا ھی م دمات می ں ی صلہ سے عاج نزی کا ت ے گھرا غ پ امالی ہ و رہ ی ھی ۔کب ھی اتسالمی سرمای ہ کو ا ھا۔لپ کی
ت وق ھی ے کبھ
ف ود
غ ج و م ص ا مام ہ ی ں یمت و ے زماپہتل
ت ہ ت ح ج ت ی ی بک
ےو ں
چ ف ی ہف ہ ھ ک ایسا کہ ب ج ی۔اورآج و ں یہ ش ی
ن فب کو کو رت و ت
می م ی رگ کی ن
لوگوں م ود و ا ب کے اس کن ت ا ہ ار ا ک صلہ
و۔اس کا م طلب یہ جے کہ مہاراخ ع ی لط ر پ طور حی ر ص
غ ہ ئھی اور ھا راف تتاعم غ
ے۔ج ب ت ک ی ہ م ادات مح وظ ع
ے م ادات سے لق ہ صرف اپ ہ ئں یہ ے۔ ہ نں یہ سےش بت مذہ اور
ئ ن ید ق ل ف ہ ی خ ت ہ ے گو ادہ م آ ر پ اوت
ن ت ب
ے ہ و۔ ے ہ ی ں و ورش اورہ گامہ پرآمادہ وگ ے ' م ے ہ ر لطی پر سکو ا ت ی ار ک ی ا اور آج ج ب م ادات طرہ می ں پڑ گ ھ
َي َح ٍّق َر َف َعه إِيَلَّ ت َعلَْي ُك َما بِه -أ َْم أ ُّ
کردیا ہے ؟ یا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر میں نے
قبضہ کرلیا ہے ؟ یا کسی مسلمان نے کوئی مقدمہ پیش َي قَ ْس ٍم ْ
استَأَْث ْر ُ أ َْم أ ُّ
ِِ أ ِ
کیا ہو اور میں اس کا فیصلہ نہ کر سکا ہوں یا اس سے تَخطَأْ ُ ت َعْنه أ َْم َج ِه ْلتُه أ َْم أ ْ ضعُ ْف ُ/
ني َ - َح ٌد م َن الْ ُم ْسلم َ َ
ناواقف رہا ہوں یا اس میں کسی غلطی کا شکار ہوگیا
ہوں۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے نہ خالفت کی خواہش تھی بَابَه!
اور نہ حکومت کی احتیاج۔تمہیں لوگوں نے مجھے اس ت يِل يِف اخْلِاَل فَ ِة َر ْغبَةٌ -واَل يِف الْ ِواَل يَِة إِْربَةٌ واللَّه َما َكانَ ْ
امر کی دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔اس کے بعد جب
یہ میرے ہاتھ میں آگئی تو میں نے اس سلسلہ میں کتاب -ولَ ِكنَّ ُك ْم َد َع ْومُتُويِن إِلَْي َها ومَحَْلتُ ُمويِن َعلَْي َها َ -فلَ َّما
خدا اور اس کے دستور پر نگاہ کی اور جو اس نے حکم ت إِيَلَّ نَظَر ُ ِ ِ ِ
دیا تھا اس کا اتباع کیا اور اس طرح رسول اکرم (ص)
ض َع لَنَا -وأ ََمَرنَا وما َو َ ت إىَل كتَاب اللَّه َ ْ ضْ أَفْ َ
ِ ِ
کی سنت کی اقتدا کی۔جس کے بعد نہ مجھے تمہاری باحْلُ ْك ِم به فَاتََّب ْعتُه َ -
وما اسْنَت َّ النَّيِب ُّ
رائے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ تمہارے عالوہ ِ
کسی کی رائے کی اور نہمیں کسی حکم سے جاہل تھا کہ ك إِىَل َحتَ ْج يِف َذل َ صلىهللاعليهوآلهوسلم َفا ْقتَ َد ْيتُه َ -فلَ ْم أ ْ
ْم َج ِه ْلتُه ِ
َرأْي ُك َما واَل َرأْ ِي َغرْيِ ُك َما -واَل َوقَ َع ُحك ٌ
تم سے مشورہ کرتا یا تمہارے عالوہ دیگر برادران اسالم
سے۔اور اگر ایی کوئی ضرورت ہوتی تو میں نہ تمہیں
ِ ِِ ِ فَأ ِ
نظر انداز کرتا اورنہ دیگر مسلمانوں کو۔رہ گیا یہ مسئلہ ك مَلْ ني -ولَ ْو َكا َن َذل َ َستَش َري ُك َما وإِ ْخ َوايِن م َن الْ ُم ْسلم َ ْ
کہ میں نے بیت المال کی تقسیم میں برابری سے کاملیا ب َعْن ُك َما واَل َع ْن َغرْيِ ُك َما .-وأ ََّما َما ذَ َك ْرمُتَا ِم ْن أ َْم ِر أ َْر َغ ْ
ہے تو یہ نہمیری ذاتی رائے ہے اور نہاس پر میری
خواہش کی حکمرانی ہے بلکہ میں نے دیکھا کہ اس َح ُك ْم أَنَا فِيه بَِرأْيِي -واَل ك أ َْمٌر مَلْ أ ْ
ِ األ ِ
ُس َوة -فَِإ َّن َذل َ ْ
سلسلہ میں رسول اکرم (ص) کی طرف سے ہم سے ِ ِ
پہلے فیصلہ ہوچکا ہے تو خدا کے معین کئے ہوئے حق ت أَنَا وأَْنتُ َما َما َجاءَ بِه َر ُس ُ
ول َوليتُه َه ًوى ميِّن -بَ ْل َو َج ْد ُ
َحتَ ْج إِلَْي ُك َما اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َق ْد فُِر َ ِ
غ مْنه َ -فلَ ْم أ ْ
اور اس کے جاری کئے ہوئے حکم کے بعد کسی کی
کوئی ضرورت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ خدا شاہد ہے کہ اس
ْمه - غ اللَّه ِمن قَس ِمه -وأَم ِ ِ
سلسلہ میں نہ تمہیں شکایت کا کوئی حق ہے اور نہ ضى فيه ُحك َ ْ َ ْ ْ يما قَ ْد َفَر َ فَ
تمہارے عالوہ کسی اور کو۔ہللا ہم سب کے دلوں کو حق س لَ ُك َما واللَّه ِعْن ِدي واَل لِغَرْيِ ُك َما يِف َه َذا عُْتىَب .- َفلَْي َ
کی راہ پر لگا دے اور سب کو صبر و شکیبائی کی
توفیق عطا فرمائے ۔ َخ َذ اللَّه بُِقلُوبِنَا و ُقلُوبِ ُك ْم إِىَل احْلَ ِّق -وأَهْلََمنَا وإِيَّا ُك ُم أَ
الصْبَر.
َّ
ِ
مث قال عليهالسالم َ -رح َم اللَّه َر ُجاًل َرأَى َح ّقاً فَأ َ
خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے جو حق کو دیکھ َعا َن
لے تو اس پرعمل کرے یا ظلم کو دیکھ لے تو اسے
ٹھکرا دے اورصاحب حق میں اس کا ساتھ دے ۔ َعلَْيه -أ َْو َرأَى َج ْوراً َفَر َّده -و َكا َن َع ْوناً بِاحْلَ ِّق َعلَى
()206 صِ
احبِه. َ
آپ کا ارشاد گرامی
()206
(جب آپ نے جنگ صفین کے زمانہ 2میں اپنے بعض
اصحاب کے بارے میں سنا کہ وہ اہل شام کو برا بھال عليهالسالم ومن كالم له
کہہ رہے ہیں )
میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم
وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام
گالیاں دینے والے ہو جائو۔بہترین بات یہ ہے کہ تم ان حربهم بصفين
کے اعمال اورحاالت کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح
رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے
کے بجائے یہ دعا کرو کہ خدایا! ہم سب کے خونوں
کومفحوظ کردے اور ہمارے معامالت کی اصالح کردے
ِ
اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ص ْفتُ ْمني -ولَكنَّ ُك ْم لَ ْو َو َ إِيِّن أَ ْكَره لَ ُك ْم أَ ْن تَ ُكونُوا َسبَّابِ َ
ناواقف لوگحق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل
کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں۔
ب يِف الْ َق ْو ِل وأ َْبلَ َغ يِف َص َو َ
أ َْع َماهَلُ ْم وذَ َك ْرمُتْ َحاهَلُ ْم َ -كا َن أ ْ
()207 اح ِق ْن ِد َماءَنَا الْعُ ْذ ِر -و ُق ْلتُ ْم َم َكا َن َسبِّ ُك ْم إِيَّ ُ
اه ْم -اللَّ ُه َّم ْ
آپ کا ارشاد گرامی واه ِد ِه ْم ِم ْن ودماءهم -وأَصلِح ذَات بينِنَا ِ
وبْين ِه ْم ْ
ْ ْ َ َْ َ َ َُ ْ
ِ
(جنگ صفین کے دورا ن جب امام حسن کو میدان جنگ ي َع ِن ف احْلَ َّق َم ْن َج ِهلَه َ -
وي ْر َع ِو َ ضاَل لَتِ ِه ْم َ -حىَّت َي ْع ِر َ
َ
کی طرف سبقت کرتے ہوئے دیکھ لیا)
دیکھو! اس فرزند کو روک لو کہیں اس کاصدمہ مجھے الْغَ ِّي والْعُ ْد َو ِان َم ْن هَلِ َج بِه .
بے حال نہکردے ۔میں ان دونوں ( حسن و حسین ) کو
موت کے مقابلہ میں زیادہ عزیز رکھتا ہوں ()207
عليهالسالم ومن كالم له
في بعض أيام صفين -وقد رأى الحسن ابنه
عليهالسالم 2يتسرع إلى الحرب
س هِبَ َذيْ ِن ِ يِن يِن ِ
ْامل ُكوا َعيِّن َه َذا الْغُاَل َم اَل َي ُه َّد -فَإنَّ أَْن َف ُ
تيعيِن احْل سن واحْل س عليهالسالم -علَى الْمو ِ
َ َْ َ ْ َ َ َ ُ َ نْي َ
کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے مرجانے سے نسل رسول لِئَاَّل يْن َق ِطع هِبِما نَسل رس ِ
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم.
(ص) منقطع ہو جائے۔ َ َ َ َُُْ
سید رضی :املکوا عنی ھذا الغالم:عرب کا بلند ترین قال السيد الشريف -قوله عليهالسالم املكوا عين هذا
کالم اور فصیح ترین محاورہ ہے۔
الغالم -من أعلى الكالم وأفصحه.
()208
آپ کا ارشاد گرامی
()208
(جو اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ کے اصحاب میں عليهالسالم ومن كالم له
تحکیم کے بارے میں اختالف ہوگیا تھا) قاله لما اضطرب عليه أصحابه في أمر الحكومة
لوگو! یاد رکھو کہ میرے معامالت تمہارے ساتھ بالکل
صحیح چل رہے تھے جب تک جنگ نے تمہیں خستہ ب َ -حىَّت َّاس إِنَّه مَلْ َيَز ْل أ َْم ِري َم َع ُك ْم َعلَى َما أ ُِح ُّأَيُّ َها الن ُ
حال نہیں کردیا تھا۔اس کے بعد معامالت بگڑ گئے
ت- هَنِ َكْت ُكم احْل رب -وقَ ْد واللَّه أَخ َذ ِ
حاالنکہ خداگواہ ہے کہاگر جنگ نے تم سے کچھ کولے ت مْن ُك ْم وَتَر َك ْ َ ْ ُ َْ ُ
لیا اورکچھ کوچھوڑ دیا تو اس کی زد تمہارے دشمن پر ِ ِ
زیادہ ہی پڑی ہے۔ افسو س کہ میں کل تمہارا حاکم تھا وه َي ل َع ُد ِّو ُك ْم أَْن َه ُ
ك.
لََق ْد ُكْنت أَم ِ ِ
اور آج محکوم بنایا جا رہا ہوں۔کل تمہیں میں روکا کرتا تت الَْي ْو َم َمأْ ُموراً -و ُكْن ُ َصبَ ْح ُ س أَمرياً فَأ ْ ُ ْ
تھااور آج تم مجھے روک رہے ہو۔بات صرف یہ ہے کہ أَم ِ ِ
تمہیں زندگی زیادہ پیاری ہے اورمیں تمہیں کسی ایسی ت الَْي ْو َم َمْن ِهيّاً -وقَ ْد أ ْ
َحبَْبتُ ُم الَْب َقاءَ َصبَ ْح ُس نَاهياً فَأ ْ ْ
چیز پرآمادہ نہیں کرسکتا ہوں جوتمہیں ناگوار اور ناپسند س يِل أَ ْن أَمْحِ لَ ُك ْم َعلَى َما تَكَْر ُهو َن! ولَْي َ
ہو۔
()209
آپ کا ارشاد گرامی ()209
(جب بصرہ میں اپنے صحابی عالء بن زیاد حارثی کے عليهالسالم ومن كالم له
گھر عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے گھر
کی وسعت کا مشاہدہ فرمایا ) بالبصرة -وقد دخل على العالء بن زياد الحارثي وهو
من أصحابه
يعوده ،فلما رأى سعة داره قال:
تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان ( )1کو لے کر کیا ت إِلَْي َها يِف صنَ ُع بِ ِس َع ِة َه ِذه الدَّا ِر يِف ُّ
الد ْنيَا -وأَنْ َ ت تَ ْ َما ُكْن َ
کروگے جب کہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے۔تم
اگرچاہو تو اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کرسکتے ہو اآلخر ِة ُكْنت أَحوج -وبلَى إِ ْن ِشْئت بلَ ْغت هِب ا ِ
اآلخَر َة ِ
َ َ َ َ َ َْ َ َ َ
کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو۔قرابتداروں سے
صلہ رحم کرو اورموقع و محل کے مطابق حقوق کوادا الر ِح َم -وتُطْلِ ُع ِمْن َها ص ُل فِ َيها َّ َ -ت ْق ِري فِيها الضَّيف وتَ ِ
َ ْ َ
وق مطَالِعها -فَِإذاً أَنْت قَ ْد بلَ ْغت هِب ا ِ
اآلخَر َة. احْلُُق َ َ َ َ
کرو کہ اس طرح آخرت کوحاصل کرسکتے ہو۔
یہ سن کرعالء بن زیاد نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین َ َ َ َ
اص َم ك أ َِخي ع ِ ني أَ ْش ُكو إِلَْي َ ِِ ِ
میں اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی شکایت کرناچاہتا ہوں۔ َ َف َق َال لَه الْ َعاَل ءُ -يَا أَم َري الْ ُم ْؤمن َ
فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ عرض کی کہ انہوں نے ِ ٍ
ایک عبا اوڑھ لی ہے اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہے۔
الد ْنيَاس الْ َعبَاءَةَ وخَتَلَّى َع ِن ُّ وما لَه -قَ َال لَب َ بْ َن ِزيَاد -قَ َال َ
اسَت َه َام -قَ َال علَي بِه َفلَ َّما جاء قَ َال :يا ع َد َّ ِ ِ
فرمایا انہیں بالئو ۔عاصم حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا
ي َن ْفسه لََقد ْ َ ُ ََ َ َّ
کہ: مِح
اے دشمن جان! تجھے شیطان خبیث نے گرویدہ بنا لیا َح َّل وولَ َد َك -أََتَرى اللَّه أ َ ك َ ت أ َْهلَ َيث -أ ََما َر ْ َ ك اخْلَبِ ُ بِ َ
ت أ َْه َو ُن َعلَى اللَّه ِ
ك الطَّيِّبَات ُ
وه َو يَكَْره أَ ْن تَأْ ُخ َذ َها -أَنْ َ
ہے۔تجھے اپنے اہل و عیال پر کیوں رحم نہیں آتا ہے۔کیا
تیراخیال یہ ہے کہ خدانے پاکیزہ چیزوں کو حالل تو کیا لَ َ
ِ
ہے لیکن وہ ان کے استعمال کو نا پسند کرتا ہے۔تو خدا كِم ْن ذَل َ
کی بارگاہ میں اس سے زیادہ پست ہے۔
عاصم نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! آپ بھی تو كت يِف ُخ ُشونَِة َم ْلبَ ِس َ ني َ -ه َذا أَنْ َ
ِِ ِ
قَ َال يَا أَم َري الْ ُم ْؤمن َ
ِ
وج ُشوبَِة َمأْ َكل َ
کھردرا لباس اور معمولی} کھانے پر گذارا کر رہے ہیں۔ ك!
فرمایا :تم پر حیف ہے کہ تم نے میراقیاس اپنے اوپر ُ
کرلیا ہے جب کہ پروردگارنے ائمہ حق پرفرض کردیا ض َعلَى ت -إِ َّن اللَّه َت َعاىَل َفَر َ ت َكأَنْ َ ك إِيِّن لَ ْس ُ قَ َال َوحْيَ َ
ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو
قراردیںتاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پر کسی پیچ و تاب کا
ض َع َف ِة الن ِ
َّاس َ -كْياَل ِّروا أَْن ُف َس ُه ْم بِ َ ِ ِِ
أَئ َّمة -الْ َع ْدل أَ ْن يُ َقد ُ
ئ ن
شکار ہو۔
ت ت
َيتََبيَّ َغ بِالْ َف ِق ِري َف ْقُره!
ف ق ق ن ئ غ
ے۔ل یش کن اگر اسف کام صد مہمان وازی صلہف ارح ن
ام تادا ی گی ح وق ح ظ داری ہ ے ہ و و اس کا ام دن ی ا ل راض کے
عت ذا ی ا ن ے کہ کانئ ت
کی وعس م طرف اش ارہ ہ ت ()1یظہ اس امر کی
ے کہ ی ہ ی صلہ ی وں سے ہ وگا
ے۔ رق صرف ی ہ ہ ے اور ی ہ دی ن و مذہ ب ہ ی کا ای ک عب ہ ہ
ن
کاکو ی لقند ی داری سے ہی ں ہرو۔ا ہار عظ ن نمت علم و مذہ ب ہ و و اس ئآب ن ت
ے۔ ے کو ی دوسرا ہی ں ہے واال صرف پروردگار ہ اور ی وں کا ج ا
()210 ()210
آپ کا ارشاد گرامی عليهالسالم ومن كالم له
(جب کسی شخص نے آپ سے بدعتی احادیث اورمتضاد
وقد سأله سائل عن أحاديث البدع -وعما في أيدي
روایات کے بارے میں سوال کیا )
لوگوں کے ہاتھوں میں حق و باطل ( )1صدق و کذب ' الناس من اختالف الخبر فقال عليهالسالم: 2
ناسخ ومنسوخ ،عام وخاص ' محکم و متشابہ اور حقیقت
و وہم سب کچھ ہے اور کذب و افترا کا سلسلہ رسول
وص ْدقاً و َك ِذباً ونَ ِ اطاًل ِ - َّاس ح ّقاً وب ِ ِ ِ
إ َّن يِف أَيْدي الن ِ َ َ
اکرم (ص) کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا جس کے
بعد آپ نے منبر سے اعالن کیا تھا کہ '' جس شخص نے
اسخاً
وح ْفظاًومْنسوخاً -وعاماً وخاصاً -وحُمْ َكماً ومتَ َشاهِب اً ِ
بھی میری طرف سے غلط بات بیان کی اسے اپنی جگہ ُ َّ َ ّ َ ُ
جہنم میں بنا لینا چاہیے ۔''
ول اللَّهوومْه اً -ولََق ْد ُك ِذب َعلَى رس ِ
یاد رکھو کہ حدیث کے بیان والے چار طرح کے افراد َُ َ َ
ہوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ہے: صلىهللاعليهوآلهوسلم َعلَى َع ْه ِده َ -حىَّت قَ َام َخ ِطيباً َف َق َال -
ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظہار کرتا ہے۔اسالم کی
وضع قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افتراء ب َعلَ َّي ُمَت َع ِّمداً َف ْليَتََب َّوأْ َم ْق َع َده ِم َن النَّا ِر».
َم ْن َك َذ َ
میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اکرم س: ِ ِ ٍ وإِمَّنَا أَتَ َ ِ ِ ِ
(ص) کے خالف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے۔ کہ س هَلُ ْم َخام ٌ اك باحْلَديث أ َْر َب َعةُ ر َجال لَْي َ
اگر لوگوں کومعلوم ہو جائے کہ یہ منافق اورجھوٹا تو المنافقون
یقینا اس کے بیان کی تصدیق نہ کریں گے لیکن مشکل یہ ِ ِ ِ
ہے کہ ِّع بِا ِإل ْساَل ِم -اَل َيتَأَمَّثُ واَل
صن ٌَر ُج ٌل ُمنَاف ٌق ُمظْ ِهٌر ل ِإلميَان ُمتَ َ
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم ْذب َعلَى رس ِ ِ
َُ َيتَ َحَّر ُج -يَك ُ
ب مَلْ َي ْقَبلُوا ِمْنه - ِ ِ ِ
َّاس أَنَّه ُمنَاف ٌق َكاذ ٌ ُمَت َع ِّمداً َ -فلَ ْو َعل َم الن ُ
َّه ْم
ُ ص ِّدقُوا َق ْولَه -ولَ ِكنوضمَلْ يُ َ
ن ق ق تف نق ن ع ع
ابل بول ب ھی ہ ی ں ناور ا ل ے کہ اسالمی ع ضلوم می ث
ے کہ سارا عالم اسالم اس ت طہ تپر م عق ہ
ے قکہ روای ات ض ت ثکاق ہ و ا غاس ب تات کی د ی ل ہ
ںق لم رج تال اور لم ورای غ ق( 1ق
)وا ح رہ
ابل بول ب ھی۔اور راوی ح رات ہ اورمع ب ر ب ھی ہ ی ں اور ی ر ہ اور ی ر مع ب ر ب ھی۔اس کے ب عد عدالت صحاب ہ اور اع ب ار مام لماء کا ع ی دہ۔ای ک م حکہ کے عالوہ چک ھ ہی ں
ے۔ ہ
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہے۔اس نے حضور ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلمَ -رآه احب رس ِ قَالُوا ِ
کودیکھا ہے ۔ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے ص ُ َُ َ
ِ ِ ِ ِ
حاصل کیا ہے اور اس طرح اس کے بیان کو قبول َخَبَر َك اللَّه ف َعْنه َفيَأْ ُخ ُذو َن بَِق ْوله -وقَ ْد أ ْ ومَس َع مْنه ولَق َ
کرلیتے ہیں جب کہخود پروردگار بھی منافقین کے بارے
ك مُثَّ ص َف ُه ْم بِه لَ َ مِب ع ِن الْمنَافِ ِق مِب
میں خبر دے چکا ہے اور ان کے اوصاف کاتذکرہ ص َف ُه ْم َا َو َ وو ََخَبَر َك َ - ني َا أ ْ َ ُ َ
کرچکا ہے اور یہ رسول اکرم (ص) کے بعد بھی باقی ُّع ِاة إِىَل النَّا ِر ب ُقوا بع َده َ -فَت َقَّربوا إِىَل أَئِ َّم ِة َّ ِ
الضاَل لَة -والد َ ُ َ َْ
رہ گئے تھے اور گمراہی کے پیشوائوں ( )1اور جہنم
وه ْم ُح َّكاماً ان َ -ف َولَّْو ُه ُم األ ْ الزو ِر والْبهتَ ِ بِ ُّ
کے داعیوں کی طرف اسی غلط بیانی اور افترا پردازی وج َعلُ َُع َم َال َ ُْ
سے تقرب حاصل کرتے تھے ۔وہ انہیں عہدے دیتے َّاس َم َع َّاس -فَأَ َكلُوا هِبِم ُّ ِمَّن اب الن ِ َعلَى ِرقَ ِ
رہے اور لوگوں کی گردنوں پر حکمراں بناتے رہے اور الد ْنيَا وإ َا الن ُ ُ
انہیں کے ذریعہ دنیا کو کھاتے رہے اور لوگ تو بہر َح ُد األ َْر َب َع ِة. والد ْنيَا -إِاَّل َم ْن َع َ
ص َم اللَّه َف َه َذا أ َ وك ُّ الْملُ ِ
ُ
حال بادشاہوں اوردنیا داروں ہی کے ساتھ رہتے ہیں۔
عالوہ ان کے جنہیں ہللا اس شر سے محفوظ کرلے۔یہ الخاطئون
چار میں سے ایک قسم ہے۔
ول اللَّه َشْيئاً مَلْ حَيْ َفظْه َعلَى َو ْج ِهه - ورجل مَسِ ع ِمن رس ِ
دوسرا شخص وہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) سے َ ٌُ َ ْ َُ
ِ ِ ِ
کوئی بات سنی ہے لیکن اسے صحیح طریقہ سے محفوظ
وي ْر ِويه َ
وي ْع َم ُل َف َوه َم فيه ومَلْ َيَت َع َّم ْد َكذباً َف ُه َو يِف يَ َديْه َ -
نہیں کرس کا ہے اوراس میں غلطی کا شکار ہوگیا ہے۔
ول اللَّه ول أَنَا مَسِ عتُه ِمن رس ِ وي ُق ُ ِ
جان بوجھ کرجھوٹ نہیں بولتا ہے۔جوکچھ اس کے ہاتھ ْ َُْ به َ -
میں ہے اسی کی روایت کرتا ہے اوراسی پرعمل کرتا صلىهللاعليهوآلهوسلم َ -فلَ ْو َعلِ َم الْ ُم ْسلِ ُمو َن أَنَّه َو ِه َم فِيه
ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ میں نے رسول اکرم (ص) سے
ِ ِ
سنا ہے حاالنکہ اگر مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ اس ضه!/ ك لََرفَ َمَلْ َي ْقَبلُوه ِمْنه -ولَ ْو َعل َم ُه َو أَنَّه َك َذل َ
سے غلطی ہوگئی ہے تو ہرگز اس کی بات قبول نہ کریں
گے بلکہ اگر اسے خودبھی معلوم ہوجائے کہ یہ بات اس
گا۔
کرے ف ق
نقل نہیں ن ت
طرح نہیں ہے نتو ترک کردے گا اور خ ن ئق ش ن فق ض ن ض
ن ب ن ی ن ب
ہ ے کہ م ا ی ن کا کاروب ار ہ می ہ حکام کی اال ی سے چ لت ا ہ
ے ور ہ حکام دی ا ت دار وں اورا سی روای ات کے ری دار ہ ی ں و م ا ی ن کا ()1ح رت ے ی ہ خ تھی وا ح کردی ا ہ
ے۔کاروب ار ای ک دن می ں م ہ و سکت ا ہ
تیسری قسم اس شخص کی ہے جس نے رسول اکرم أهل الشبهة
(ص) کو حکم دیتے سنا ہے لیکن حضرت نے جب منع
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َشْيئاً ث مَسِ ع ِمن رس ِ ِ
کیا تو اسے اطالع نہیں ہو سکی یا حضرت کو منع ور ُج ٌل ثَال ٌ َ ْ َ ُ َ
کرتے دیکھا ہے پھر جب آپ نے دوبارہ حکم دیا تو
اطالع نہ ہو سکی' اس شخص نے منسوخ کو محفوظ
وه َو اَل َي ْعلَ ُم -أ َْو مَسِ َعه َيْن َهى
-يَأْ ُمُر بِه مُثَّ إِنَّه َن َهى َعْنه ُ
وه َو اَل َي ْعلَ ُم -فَ َح ِف َ ٍ
کرلیا ہے اور ناسخ کو محفوظ نہیں کر سکا ہے کہاگر وخ ومَلْ ظ الْ َمْن ُس َ َع ْن َش ْيء مُثَّ أ ََمَر بِه ُ
اسے معلوم ہو جائے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے تو
اسے ترک کردے گا اور اگرمسلمانوں کو معلوم ہوجائے ضه -ولَ ْو َعلِ َم ِ حَي َف ِظ الن ِ
َّاس َخ َ -فلَ ْو َعل َم أَنَّه َمْن ُس ٌ
وخ لََرفَ َ ْ
ِ
ضوه – الْ ُم ْسل ُمو َن إِ ْذ مَسِ عُوه ِمْنه أَنَّه َمْن ُس ٌ
وخ لََرفَ ُ
کہ اس نے منسوخ کی روایت کی ہے تو وہ بھی اسے
نظر اندازکردیں گے۔
چوتھی قسم اس شخص کی ہے جس نے خدا اور رسول الصادقون الحافظون
(ص) کے خالف غلط بیانی سے کام نہیں لیا ہے اور وہ
خوف خدا اورتعظیم رسول خدا کی بنیاد پر جھوٹ کا ب َعلَى اللَّه واَل َعلَى َر ُسولِه - ِ
وآخُر َرابِ ٌع -مَلْ يَكْذ ْ َ
دشمن بھی ہے اور اس سے بھول چوک بھی نہیں ہوئی ول اللَّه ب خوفاً ِمن اللَّه وَتع ِظيماً لِرس ِ مْبغِ ٌ ِ ِ ِ
ہے بلکہ جیسے رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے ویسے َُ ْ ض ل ْل َكذ َ ْ َ ُ
ہی محفوظ کر رکھا ہے نہ اس میں کسی طرح کااضافہ ظ َما مَسِ َع َعلَى صلىهللاعليهوآلهوسلم -ومَلْ يَ ِه ْم بَ ْل َح ِف َ
کیا ہے اور نہ کمی کی ہے۔ناسخ ہی کو محفوظ کیا ہے ِ ِ
اور اس پر عمل کیا ہے اور منسوخ کو یاد رکھا ہے۔لیکن
صَو ْج ِهه -فَ َجاءَ بِه َعلَى َما مَس َعه -مَلْ يَِز ْد فيه ومَلْ َيْن ُق ْ
اس سے اجتناب کیا ہے ۔خاص و عام اورمحکم و متشابہ وخ
ظ الْ َمْن ُس َ وح ِف َ ِ ِ
ظ النَّاس َخ َف َعم َل به َ -
ِمْنه َ -فهو ح ِف َ ِ
َُ َ
کوبھی پہچانتا ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کرتا
ہےلیکن مشکل یہ ہےکہ کبھی کبھی رسول اکرم (ص) اص والْ َع َّام والْ ُم ْح َك َم والْ ُمتَ َشابِه
ف اخْلَ َّ وعَر َ َّب َعْنه َ - فَ َجن َ
کے ارشادات کے دورخ ( )1ہوتے تھے ۔بعض کا تعلق ض َع ُك َّل َش ْي ٍء َم ْو ِض َعه/.
َ -ف َو َ
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم وقَ ْد َكا َن ي ُكو ُن ِمن رس ِ
َُْ َ
ان فَكَاَل ٌم الْكَاَل م -لَه وجه ِ
َ َْ ُ
ك َش ْيءٌ إِاَّل َسأَلْتُه َعْنه ِ ِ
يَ ْس َمعُوا -و َكا َن اَل مَيُُّر يِب م ْن ذَل َ
اختِاَل فِ ِه ْم
َّاس يِف ْ
ِ
وحفظْتُه َ -ف َهذه ُو ُجوه َما َعلَْيه الن ُ
ِ
َ
هِتِ ِ ِ
وعلَل ِه ْم يِف نِر َوايَا ْم.
خ ن ت ق ت خ
ن سان کی زن دگی کے م ت لف خ
ے ب ر ا تسان اسے دو ز دگی وں پرئ محمول ب ے کہ ہ ک رخ دوسرے سے ب الکل اج ن ب ی ہ و ا ق ت عض شاو بات ای
رخ ہ وے ہ ں اور ب
ی ()1جس طرح ای ک ا
ے ے اور ہ ر رخ کے ل ت ہ
ن ج ک
دوسرے سے بت ال ل ا ن ب ی اور ب ی گا ہ ہ و ا ت رخ ن ت لف رخ ہ وے ہ یئں خاور عض اوحق قات ای ک خ ے۔اسی طرح معاش رہ اور روای ات کے ب ھی م ت ت کردی ت ا ف
ہ
ےرخ ی ا ای ک ہ یب روای ت کو لے اڑ ا ہ ے و وہ ای نک ہ ی ئ اس ی ت سے ب ا ب خر ہنی ں ہ و ا تہ ص ی کو اگر ں۔اب ی ہ ے
خ نو کے الگ ا کام ہ ت رخ ر ہاور
ت ے ہ ا و الگ م ہوم تہ
ث
ح
ے۔ی ا حق ق
اس ب ی ان ھی ہدوسرا رخ ت ش ے کہ ز دگی کا کو ی ہ ے اوراسے ی ہ ب ر ہی ں ہ و شی ں ے ود قرسول اکرم (ص) سے س ن ا ہن ن یے کہ م ہ اور وئوق و اع ب ارکے سا ھ قی ہ ب ی ن کر ا
ے اور ی ت ے اور اس طرح ا ت ب اہ ات کا ای ک سلسلہ روع ہ و ج ا ا ہ ے ی ا ب ی ان ہ وے واال ہ اسب مو شع پر ب ی نان ہ وچ کا تہ ئ ن ے ج و ب ل ینا ب عد کا کو ی اور ب ھی پ ہلو ت
ہ دوسرےت ہمکو ی گ ن ہ
ے۔ ہ ا و ں یہ اہ ی بت ا ا اہ س دا و دہ ی د کہ حاال ے روای ات می ں گم ہ و ج ا ہ
ی
خاص افراد سے ہوتاتھا اور بعض کلمات عام ہوتے تھے
ف َما َعىَن اللَّه اص و َكاَل ٌم َعامٌّ َ -فيَ ْس َمعُه َم ْن اَل َي ْع ِر ُ َخ ٌّ
اور ان کلمات کو وہشخص بھی سن لیتا تھا جسے یہ نہیں
معلوم تھا کہ خدا و رسول کا مقصد کیا ہے اور اسے سن ول اللَّه ُسْب َحانَه بِه -واَل َما َعىَن َر ُس ُ
کر اس کی ایک توجیہ کرلیتا تھا بغیر اس نکتہ کا ادراک
الس ِام ُع ويُو ِّج ُهه َعلَى َغرْيِ صلىهللاعليهوآلهوسلمَ -فيَ ْح ِملُه َّ
کئے ہوئے۔کہ اس کالم کا مفہوم اور مقصد کیا ہے اوریہ َ
س ص َد بِه وما خرج ِمن أ ِ مع ِرفَ ٍة مِب َعنَاه -وما قُ ِ
َجله -ولَْي َ
کس بنیاد پر صادر ہوا ہے۔اور تمام اصحاب رسول اکرم
(ص) میں یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ آپ سے سوال َ ََ َ ْ ْ َ ْ َْ
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َم ْن َكا َن اب رس ِ ُك ُّل أ ْ ِ
کرسکیں اورباقاعدہ تحقیق کرسکیں بلکہ اس بات کا َص َح َ ُ
انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی صحرائی یا پردیسی آکر ِ ِ ِ ِ
آپ سے سوال کرے تو وہ بھی سن لیں ۔یہ صرف میں يَ ْسأَلُه ويَ ْسَت ْفه ُمه َ -حىَّت إ ْن َكانُوا لَيُحبُّو َن أَ ْن جَي يءَ
تھا کہ میرے سامنے سے کوئی ایسی بات نہیں گزرتی ئ َ -فيَ ْسأَلَه عليهالسالم َحىَّت َعَرايِب ُّ والطَّا ِر ُ
األ ْ
تھی مگر یہ کہ میں دریافت بھی کرلیتا تھا اور محفوظ
بھی کرلیتا تھا۔ َفيَ ْسأَلَه عليه السالم َحىَّت يَ ْس َمعُوا -و َكا َن اَل مَيُُّر يِب ِم ْن
یہ ہیں لوگوں کے درمیان اختالفات کے اسباب اور وح ِفظْتُه َ -ف َه ِذه ُو ُجوه َما َعلَْيه ِ
ك َش ْيءٌ إاَّل َسأَلْتُه َعْنه َ
ِ
َذل َ
روایات میں تضاد کے عوامل و محرکات۔
وعلَلِ ِه ْم يِف ِر َوايَاهِتِ ْم
النَّاس يِف اختِاَل فِ ِهم ِ
ْ ْ ُ
()211
آپ کے خطبہ کا ایک حصہ
(حیرت انگیز تخلیق کائنات 2کے بارے میں )
یہ پروردگار کے اقتدار کی طاقت اور اس کی صناعی
کی حیرت انگیز لطافت ہے کہ اس نے گہرے اور
متالطم سمندر ( )1میں ایک خشک اور ٹھوس زمین کو
پیدا
()211
عليهالسالم ومن خطبة له
في عجيب صنعة الكون
صْن َعتِه -أَ ْن ِِ ِ ِ ِ ِ
و َكا َن م ِن اقْت َدا ِر َجَبُروته -وبَدي ِع لَطَائف َ
ف َيبَساً اخ ِر -الْمَتراكِ ِم الْمَت َق ِ
اص ِ
ُ َُ َج َع َل ِم ْن َم ِاء الْبَ ْح ِر َّ
الز ِ
ت اگر دشمن اطاعت کے زیر سایہ آجائیں تو یہی ہمارا ب -وإِ ْن َتوافَ ِ
َ اع ِة فَ َذ َاك الَّ ِذي حُنِ ُّ ِ
ادوا إِىَل ظ ِّل الطَّ َ فَِإ ْن َع ُ
مدعا ہے اور اگر معامالت افتراف اورنا فرمانی کی
ك منزل ہی کی طرف بڑھیں تو تم اپنے اطاعت گزاروں کو اع َ مِب اق والْعِ ِ
صيَان -فَا ْن َه ْد َ ْن أَطَ َ ْ ور بِالْ َق ْوِم إِىَل ِّ
الش َق ِ
األ ُُم ُ
اك واستغ ِن مِب ِن انقاد معك عمن تقاعس عنك لے کر نافرمانوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہو۔اور اپنے إِىَل َم ْن َع
َ ْ َ َ َ َ َ ْ ص َ ْ َ ْ َ ْ َ َ َ َ َ َ َّ َ
فرمانبرداروں کے وسیلہ سے انحراف کرن والوں سے
بے نیاز ہوجائو
( )1جب اصحاب جمل بصرہ میں وارد ہوئے تو وہاں کے حضرت ک عامل عثمان بن حنیف نے آپ کے نام ایک خط لکھا
جس میں بصرہ کی صورت حال کا ذکر کیا گیا تھا۔آپ نے اس کے جواب میںتحریر فرمایا کہ جنگ میں پہل کرنا ہمارا کام
نہیں ہے ل ٰہ ذا تمہارا پہال کام یہ ہے کہ ان پر اتمام حجت کرو پھراگر اطاعت امام پرآمادہ ہو جائیں تو بہترین بات ہے ورنہ
تمہارے پاس فرمانبردار قسم کے افراد موجود ہیں۔انہیں ساتھ لے کرظالموں کا مقابلہ کرنا اور خبر دار جنگ کے معاملہ میں
کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا کہ جنگ کا میدان قربانی کا میدان ہے اور اس میں وہی افراد ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو
جان و دل سے قربانی کے لئے تیار ہوں۔ورنہ اگر بادل نا خواستہ فوج اکٹھا بھی کرلی گئی تو یہ خطرہ بہر حال رہے گا کہ
یہ عین وقت پر چھوڑ کر فرار کر سکتے ہیں جس کا تجربہ تاریخ اسالم میں بارہا ہو چکا ہیاورجس کا ثبوت خود قرآن حکیم
میں موجود ہے ۔
وده أَ ْغىَن ِم ْن ِ ِ ِ
فَِإ َّن الْ ُمتَ َكا ِره َمغيبُه َخْيٌر م ْن َم ْش َهده -و ُقعُ ُ
کہ بادل ناخواستہ حاضری دینے والوں کی حاضری سے
غیبت بہتر ہے اور ان کا بیٹھ جانا ہی اٹھ جانے سے
زیادہ مفید ہے۔ وضه. نُه ِ
ُ
()5 ()5
مکتوب
عليهالسالم ومن كتاب له
(آذر بائیجان 2کے عامل اشعث بن قیس کے نام)
یہ تمہارا منصب کوئی لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمہاری إلى أشعث بن قيس -عامل أذربيجان
گردن پر امانت ٰالہی ہے اور تم ایک بلند ہستی کے زیر ِ
نگرانی حفاظت پر مامور ہو۔تمہیں رعایا کے معاملہ میں
ك أ ََمانَةٌ - ك بِطُ ْع َم ٍة ولَ ِكنَّه يِف عُنُق َ س لَ َ وإِ َّن َع َملَ َ
ك لَْي َ
ات يِف ِ
اس طرح کے اقدام کا حق نہیں ہے اور خبردار کسی ك أَ ْن َت ْفتَ َ س لَ َك -لَْي َ ت ُم ْسَت ْر ًعى ل َم ْن َف ْوقَ َ وأَنْ َ
مستحکم دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ مت ڈالنا۔
تمہارے ہاتھوں میں جو مال ہے۔یہ بھی پروردگار کے ال ِم ْن َم ِال ك َم ٌ اطَر إِاَّل بَِوثِي َق ٍة -ويِف يَ َديْ َ
ر ِعيَّ ٍة -واَل خُتَ ِ
َ
ِ
ت م ْن ُخَّزانه َحىَّت تُ َسلِّ َمه إِيَلَّ - ِ
اللَّه َ -عَّز َ
اموال کا ایک حصہ ہے اورتم اس کے ذمہ دار ہو جب
تک میرے حوالہ نہ کردو اور شائد اس نصیحت کی بنا وج َّل وأَنْ َ
پرمیں تمہارا برا ولی نہ ہوگا۔والسالم والساَل ُم.
ك َّ ك لَ َ ولَ َعلِّي أَاَّل أَ ُكو َن َشَّر ُواَل تِ َ
()6 ()6
مکتوب
عليهالسالم ومن كتاب له
(معاویہ کے نام)
دیکھ میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے ابوبکر و إلى معاوية
عمر و عثمان کی بیعت کی تھی اور اسی طرح کی ہے
ين بَ َايعُوا أَبَا بَ ْك ٍر وعُ َمَر وعُثْ َما َن - َّ ِ ِ
جس طرح ان کی بیعت کی تھی کہ نہ کسی حاضر کو إنَّه بَ َاي َعيِن الْ َق ْو ُم الذ َ
نظر ثانی کا حق تھا اورنہ کسی غائب کو رد کردینے کا َّاه ِد أَ ْن خَي ْتَ َار -واَل
علَى ما بايعوهم علَيه َ -فلَم ي ُكن لِلش ِ
َْ ْ َ َ َ َُ ُ ْ َ ْ
اختیار تھا۔ ِ ِ
صا ِر - ِ ِ ِِ
شوری کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتاٰ ين واألَنْ َ ل ْلغَائب أَ ْن َيُر َّد -وإمَّنَا الش َ
ُّورى ل ْل ُم َهاج ِر َ
اجتَ َمعُوا َعلَى َر ُج ٍل ومَسَّْوه إِ َماماً ِ
فَِإن ْ
ہے ل ٰہذاوہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام
نامزد کردیں
تو گویا کہ اسی میں رضائے ٰالہی ہے اوراگر کوئی ِ َكا َن َذلِ ِ
شخص تنقید کرکے یا بدعت کی بنیاد پر اس امر سے
ِج - ضا -فَِإ ْن َخَر َج َع ْن أ َْم ِره ْم َخار ٌ ك للَّه ِر ً َ
بالکل باہرنکل جائے تو لوگوں کا فرض ہے کہ اسے بِطَ ْع ٍن أ َْو بِ ْد َع ٍة َر ُّدوه إِىَل َما َخَر َج ِمْنه -فَِإ ْن أَىَب قَاَتلُوه
واپس الئیں اوراگر انکار کردے تواس سے جنگ کریں ِِ ِ
کہ اسنے مومنین کے راستہ سے ہٹ کر راہ نکالی ہے
وواَّل ه اللَّه َما َت َوىَّل .ني َ - َعلَى اتِّبَاعه َغْيَر َسبِ ِيل الْ ُم ْؤمن َ
ِ ِ
ت بِ َع ْقل َ
اورہللا بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا جدھر وہ پھر گیا
ہے ۔
ك ُدو َن َه َو َاك - ولَ َع ْم ِري يَا ُم َعا ِويَةُ لَئ ْن نَظَْر َ
لَتَ ِج َديِّن أَبرأَ الن ِ ِ
معاویہ! میری جان کی قسم! اگر توخواہشات کو چھوڑ ت يِفَّاس م ْن َدِم عُثْ َما َن -ولََت ْعلَ َم َّن أَيِّن ُكْن ُ َْ
کرعقل کی نگاہوں سے دیکھے گا تو مجھے سب سے
زیادہ خون عثمان ( )1سے پاکدامن پائے گا اورتجھے والساَل ُم.
ك َّ عُْزلٍَة َعْنه -إِاَّل أَ ْن َتتَ َجىَّن َفتَ َج َّن َما بَ َدا لَ َ
معلوم ہو جائے گاکہ میں اس مسئلہ سے بالکل الگ تھلک
تھا۔مگر یہ کہ تو حقائق کی پردہ پوشی کرکے الزام ہی ()7
لگاناچاہے تو تجھے مکمل اختیار ہے ( یہ گذشتہ بیعتوں عليهالسالم ومن كتاب منه
کی صورت حال کی طرف اشارہ ہے ورنہ اسالم میں
ٰ
شوری سے طے نہیں ہوتی ہے ۔جوادی ) خالفت إليه أيضا
()7 ك َم ْو ِعظَةٌ ُم َو َّ
صلَةٌ و ِر َسالَةٌ حُمََّبَرةٌ - أ ََّما َب ْع ُد َف َق ْد أََتْتيِن ِمْن َ
مکتوب
(معاویہ ہی کے نام )
امابعد! میرے پاس تیری بے جوڑنصیحتوں کامجموعہ
اور تیراخوبصورت سجایا بنایا ہوا خط وارد ہوا ہے
ت ت ف ن خ جسے حق ق ق ن ق
ے کہ توہ ان کا ح ظ کر ا چ اہ ت ا و اس کے پ اس ث ت ت ت
ر ہ اوع ود داری ذمہ ر مام کی مان ونف
خ
کہ ے ا الن عا کا ت اس محمود ع ادت ے عبش ر پ ت ہ االمامتمی ں اس ی
م ی ہپ ع تیع ہ ک ت()1ع ب ن
ے۔وہ ت ام کا حاکم نھا اوراس کے پ اس ئای ک ت ظ ی م نرقی ن وج م خوج ود تھی جس سے کسی ق
طرح کا کام ل ی ا ج تا س ثکت ا ھا۔ ن مامت ر امکا ات موج ود نھ
ب ھا۔ا ف الب یوںتکا ی ال ھا کہآپ پردو وں طرف سے دب ا ونپڑ رہ ا ت ح ع
ے عت بول کرلی ں و ع مان کو ب ا ضآسا ی منعزول ک ی اج ا نسکت فا ہ آپ ی ت ریاگر ان ب امام ث نلی کیخی ہ ی ث تی ت ہی ں ھی ت ن ق
ے حاالت می ں ح رت ے جس ای ما ی راست ے ہ ی ں۔ایس س
چ کا ی ج م اور ں ہ
ک یتےسن کر ظ ح کا صب رے
فی ش م م کر ا ٹ ہ کو وں ی ب ال ا و ں اہ
چ ی آپ کہ ھا ال ی کا مان اورع ف
ے اس سے زی ادہ کسی رو ب ر کے امکان می ں ہی ں ھا۔ اورعر ا ی حکمت کا مظ اہ رہ ک ی ا ہ
اب ْام ِر ٍئ ِ ِ مَنَّْقتها بِ ِ
ضْيَت َها بِ ُسوء َرأْيِ َ
تیرے گمراہی کے قلم نے لکھا ہے اور اس پر تیری بے
عقلی نے امضاء کیا ہے ۔یہ ایک ایس شخص کا خط ہے ك -وكتَ ُ ك وأ َْم َ
ضاَل ل َََ َ
جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور صٌر َي ْه ِديه -واَل قَائِ ٌد يُْر ِش ُده قَ ْد َد َعاه اهْلََوى
س لَه بَ َ لَْي َ
نہراستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو ِ
اس نے لبیک کہہ دی اور گمراہینے کھینچا تو اس کے وض َّل
الضاَل ُل فَاتََّب َعه َ -ف َه َجَر اَل غطاً َ َجابَه -وقَ َاده َّ فَأ َ
پیچھے چل پڑا اور اس کے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا َخابِطاً.
اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا۔
ِ ِ ِ
دیکھو یہ بیعت ایک مرتبہ ہوتی ہے جس کے بعد نہ کسی ومْنه ألَن ََّها َبْي َعةٌ َواح َدةٌ اَل يَُثىَّن ف َيها النَّظَُر -واَل يُ ْستَأْنَ ُ
ف
اع ٌن والْ ُمَر ِّوي فِ َيها ُم َد ِاه ٌن .
فِيها اخْلِيار -اخْلَارِج ِمْنها طَ ِ
کو نظر ثانی کا حق ہوتا ہے اورنہ دوبارہ اختیار کرنے
کا۔اس سے باہرنکل جانے واال اسالمی نظام پرمعترض ُ َ َ َُ
شمار کیا جاتا ہے اوراس میں سوچ بچار کرنے واالمنافق
کہا جاتا ہے۔
()8
()8 عليهالسالم ومن كتاب له
مکتوب إلى جرير بن عبد اهلل البجلي -لما أرسله إلى معاوية
ِ أ ََّما بع ُد فَِإ َذا أَتَ َ ِ
(جریر بن عبدہللا بجلی کے نام جب انہیں معاویہ کی
فہمائش کے لئے روانہ فرمایا)2
ص ِل ُ
وخ ْذه اك كتَايِب فَامْح ْل ُم َعا ِويَةَ َعلَى الْ َف ْ َْ
ٍ ِ ٍ ِ
ب جُمْليَة أ َْو س ْل ٍم خُمْ ِزيَة - ِ
بِاأل َْم ِر اجْل ْزم -مُثَّ َخِّيره بنْي َ حر ٍ
اما بعد()6۔جب تمہیں یہ میراخط مل جائے تو معاویہ ْ َ َْ َ
ِ ِ
ب فَانْبِ ْذ إِلَْيه -وإِن ْ فَِإن ْ
سے حتمی فیصلہ کا مطالبہ کردینا اورایک آخری بات الس ْل َم فَ ُخ ْذ
طے کر لینا اوراسے خبردار کردینا کہاب دو ہی راستے اختَ َار ِّ اختَ َار احْلَْر َ
ہیں۔یا فنا کردینے والی جنگ یا رسواکن صلح۔اب اگر وہ والساَل ُم.
َبْي َعتَه َّ
جنگ کو اختیار کرے توبات چیت ختم کردینا اور جنگ
کی تیاری کرنا اور اگر صلح کی بات کرے تو فوراً اس
سے بیعت لے لینا۔والسالم۔
()9
مکتوب
(معاویہ کے نام ) ()9
کا ارادہ تھاکہ ہمارے پیغمبر (ص) ہماری قوم قریش ()1
کو قتل کردے اور ہمیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے۔ عليهالسالم ومن كتاب له
انہوںنے ہمارے بارے میں رنج و غم کے اسباب فراہم
کئے اور ہم سے طرح طرح کے برتائو کئے۔ہمیں راحت إلى معاوية
فَأَراد َقومنا َقْتل نَبِِّينا واجتِياح أ ِ
َصلنَا -ومَهُّوا بِنَا اهْلُُم َ
وم
و آرام سے روک دیا اور ہمارے لئے مختلف قسم کے
خوف کا انتظام کیا۔کبھی ہمیں نا ہموار پہاڑوں میں پناہ َ َ ْ َُ َ َ ْ َ َ ْ
َحلَ ُسونَا ِ ِ
لینے پر مجبور کیا اور کبھی ہمارے لئے جنگ کی آگ ب وأ ْ ومَنعُونَا الْ َع ْذ َ
يل َ - و َف َعلُوا بنَا األَفَاع َ
بھڑکا دی۔لیکن پروردگار نے ہمیں طاقت دی کہ ہم ان
واضطَُّرونَا إِىَل َجبَ ٍل َو ْع ٍر -وأ َْوقَ ُدوا لَنَا نَ َار فْ - اخْلَْو َ
کے دین کی حفاظت کریں اوران کی حرمت سے ہر
طرح سے دفاع کریں۔ہم میں صاحبان ایمان اجرآخرت ب َع ْن َح ْو َزتِه َّ -
والر ْم ِي ب َ -ف َعَز َم اللَّه لَنَا َعلَى َّ
الذ ِّ احْل ر ِ
َْ
کے طلب گارتھے اور کفار اپنی اصل کی حمایت کر ِ ِ ِ
رہے تھے ۔قریش میں جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ َجَر و َكافُرنَا ك األ ِْم ْن َو َراء ُح ْر َمته ُ -م ْؤمُننَا َيْبغي بِ َذل َ
ِ ِ ِ
ان مشکالت سے آزاد تھے۔یا اس لئے کہ انہوں نے کوئی ش ِخ ْل ٌو مِم َّا حَنْ ُن فِيه َسلَ َم ِم ْن ُقَريْ ٍ َص ِل َ -
وم ْن أ ْ
ِ
حُيَامي َع ِن األ ْ
حفاظتی معادہ کرلیا تھا یا ان کے پاس قبیلہ تھا جوان کے
ف مَيَْنعه -أَو ع ِشري ٍة َت ُقوم دونَه َفهو ِمن الْ َقْت ِل مِب َ َك ِ
ان حِبِ ْل ٍ
سامنے کھڑا ہو جاتاتھا اور وہ قتل سے محفوظ رہتے ُ ْ َ َ ُ ُ َُ َ
تھے۔اور رسول اکرم (ص) کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ
أ َْم ٍن
کے شعلے بھڑک اٹھتے تھے
ت
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم إِذا ا ر الْبأْس ،
َ مْح ََّ َ ئ ُ ئ
و َكا َن َر ُس ُ
ت ن ق ئ ن ق ت ن
اور ا ی وگ
ت
نسالم کے آے کے ب عد ان ت مامنحی ث ی وں کا خ ا مہنہ ا کن ن ظ ام ق ب ا لی ب ن ی ادوں پ ترچ ل رہ ا ت ھا خاور ہ ر ب ی لہ کو کو ی ن ہ کو ی ح ی ی ت حاصل ھی ل ی ش کی ز دگی کا سارا ( )1ری ن
ب گ ل ئ ث ن ب خ
ے دی ن کو چ ا پ (ص)کے ھراے کے ذری عہ ا ف ے ی کن پ قروردگار عالم ئے رسول اکرم گےآ ماس کے ی ج ہ می ئں قسب ے اسالمشکے نالف ا حاد کرل ی ا اورم ت لف مشعرکے ھی سا
ے ۔ن ہ کسی ب ی لہ پ می ں کو ی ابو طالب ج یسا محا ظ پ ی دا ہ وا۔ اورن ہ عب ی دہ ج یسا ہ مج اہ د ۔ ن ہ ص ن ب
ے اور ہ کسی کو ی ہ رف حا ل ہ اوراس مینں کو ی ب ی لہ ھیش ان کا ری ک ہی ں ہ ف لی ا ق
ن ئ ے اورن ہ ج ع ر ج یسا ط ی ار۔
ی یہ ا ک دا پ ہداء ل دا کسی ب ی لہب نے شحمزہ ج شیسا س ی
ے۔ ے اور اسالم کی گردن پران کے عالوہ کسی کا کو ی احسان ہی ں ہ ی ہ صرف ی ہ ا م کا رف ہ
اور لوگ پیچھے ہٹنے لگے تھے تو آپ اپنے اہل بیت
َص َحابَه َحَّر هِبِ ِ
کو آگے بڑھا دیتے تھے اوروہ اپنے کو سپر بناکر َّم أ َْه َل َبْيته َ -ف َوقَى ْم أ ْ َّاس -قَد َ َح َج َم الن ُ وأ ْ
ث َي ْو َم بَ ْد ٍر - َسن َِّة َ -ف ُقتِل عبي َدةُ بن احْل ا ِر ِ وف واأل ِ السي ِ
اصحاب کو تلوار اورنیزوں کی گرمی سے محفوظ َ َُ ْ ْ ُ َ ُّ ُ
رکھتے تھے چنانچہ بدرکے دن جناب عبیدہ بن الحارث
مارے گئے۔احد کے دن حمزہ شہید ہوئے اورموتہ میں ُح ٍد -وقُتِ َل َج ْع َفٌر َي ْو َم ُم ْؤتَةَ -وأ ََر َاد َم ْن ِ
وقُت َل مَحَْزةُ َي ْو َم أ ُ
َّه َاد ِة - ِ ِ ِ ِ
ت امْسَه -مثْ َل الَّذي أ ََر ُادوا م َن الش َ ت ذَ َك ْر ُ لَ ْو شْئ ُ
جعفر کام آگئے ۔
ایک شخص نے جس کا نام بتا سکتا ہوںانہیں لوگوں
َّه ِر - ِ ومنِيَّتَه أ ِّ ِ
جیسی شہادت کا قصد کیاتھا لیکن ان سب کی موت جلدی ت َ -فيَا َع َجباً للد ْ ُجلَ ْ ت َ آجاهَلُ ْم عُ ِّجلَ ْ
ولَك َّن َ
آگئی اور اس کی موت پیچھے ٹال دی گئی۔
ت يُ ْقَر ُن يِب َم ْن مَلْ يَ ْس َع بَِق َد ِمي -ومَلْ تَ ُك ْن لَه ِ
إِ ْذ ص ْر ُ
کس قدر تعجب خیز ہے زمانہ کا یہ حال کہ میرا مقابلہ
ایسے افراد سے ہوتا ہے جو کبھی میرے ساتھ قدم مال َكسابَِقيِت -الَّيِت اَل ي ْديِل أَح ٌد مِبِثْلِها -إِاَّل أَ ْن يد ِ
َّع َي َ َ َ ُ َ
کر نہیں چلے اورنہاس دین میں ان کا کوئی کارنامہ ہے ِ
جو مجھ سے موازنہ کیا جا سکے مگر یہ کہ کوئی َّع َما اَل أ َْع ِرفُه واَل أَظُ ُّن اللَّه َي ْع ِرفُه -واحْلَ ْم ُد للَّه َعلَى ُمد ٍ
کادعوی کرے جس کونہ میںٰ مدعی کسی ایسے شرف ُك ِّل َح ٍال.
جانتا ہوں۔اورنہ ''شائد ''خدا ہی جانتا ہے۔مگر بہر حال ہر
حال میں خداکا شکرہے۔ ت يِف ك -فَِإيِّن نَظَْر ُ ت ِم ْن َدفْ ِع َقَتلَ ِة عُثْ َما َن إِلَْي َ وأ ََّما َما َسأَلْ َ
رہ گیا تمہارا یہ مطالبہ کہ میں قاتالن عثمان کو تمہارے ك واَل إِىَل َغرْيِ َك - َه َذا األ َْم ِر َ -فلَ ْم أ ََره يَ َسعُيِن َد ْفعُ ُه ْم إِلَْي َ
حوالے کردوں تو میں نے اس مسئلہ میں کافی غور کیا
ولَعم ِري لَئِن مَل َتْنزِع عن َغيِّك ِ ِ
ے۔میرے امکان میں انہیں نہ تمہارے حوالہ کرنا ہے ك -لََت ْع ِر َفن ُ
َّه ْم وش َقاق َ ْ ْ ْ َْ َ َْ
اورنہ کسی اور کے ۔میری جان کی قسم اگر تم اپنی ِ
گمراہی اورعداوت سے بازنہ آئے تو عنقریب انہیں ك طَلََب ُه ْم يِف َبٍّر واَل حَبْ ٍر - ك -اَل يُ َكلِّ ُفونَ َ َع ْن قَل ٍيل يَطْلُبُونَ َ
ِ
ب يَ ُسوءُ َك ِو ْج َدانُه - واَل َجبَ ٍل واَل َس ْه ٍل -إاَّل أَنَّه طَلَ ٌ
دیکھو گے کہ یہ تمہیں بھی ڈھونڈھ لیں گے اوراس بات
کی زحمت نہ دیں گے کہ تم انہیں خشکی یا تری ۔پہاڑ یا
صحرا میں تالش کرو۔البتہ یہ وہ طلب ہوگی جس کا پالینا والساَل ُم أل َْهلِه. وز ْوٌر اَل يَ ُسُّر َك لُْقيَانُه َّ َ
باعث مسرت نہ ہوگا اور وہ مالقات ہوگی جس سے کسی
طرح کی خوشی نہ ہوگی۔اور سالم اس کے اہل پر۔
()10
مکتوب ()10
(معاویہ ہی کے نام ) عليهالسالم ومن كتاب له
اس وقت کیا کروگے جب اس دنیاکے یہ سارے لباس تم
سے اترجائیں جس کی زینت سے تم نے اپنے کوآراستہ إليه أيضا
کر رکھا ہے اورجس کی لذت نے تم کودھوکہ میں ڈال
دیا ہے۔اس دنیانے تم کوآوازدی تو تم نے لبیک کہہ دی
ت َعْن َ ِ و َكيف أَنْت ِ
اورتمہیں کھینچنا چاہا تو تم کھینچتے چلے گئے اوراس
کے احکام کی اطاعت کرتے رہے۔قریب ہے کہ کوئی يب َما أَنْ َ
ت ك َجاَل ب ُ صان ٌع -إِ َذا تَ َك َّش َف ْ ْ َ َ َ
بتانے واال تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے جن سے ت بِلَ َّذهِتَا - ِ
ت بِ ِزينَت َها َ
وخ َد َع ْ
ِ ِ
فيه -م ْن ُد ْنيَا قَ ْد َتَب َّه َج ْ
کوئی سپر بچانے والی نہیں ہے لہٰ ذا مناسب ہے کہ اس
ٰ
َجْبَت َها،
ك فَأ ََد َعْت َ
دعوی سے باز آجائواور حساب و کتاب کا سامان تیار
ك أَ ْن وش ُك فَأَطَعَتها -وإِنَّه ي ِ
کرلو۔آنے والی مصیبتوں کے لئے کمر بستہ ہو جائو اور ُ ك فَاتََّب ْعَت َها -وأ ََمَرتْ َ ْ َ وقَ َادتْ َ
گمراہوں کو اپنی سماعت پر حاوینہ بنائو ورنہ ایسا نہ کیا ي ِق َفك واقِف علَى ما اَل يْن ِج ِ جِم
تو میں تہیں ان تمام چیزوں سے با خبر کردوں گا جن س َع ْن يك مْنه َ ٌّن -فَا ْق َع ْ َ َ َ ٌ َ َ ُ َ
ِ وخ ْذ أ ُْهبةَ احْلِس ِ
سے تم غافل ہو۔تم عیش و عشرت کے دلدادہ ہو۔شیطان
نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اپنی امیدوں کو
ك- اب ومَشِّْر ل َما قَ ْد َنَز َل بِ َ َ َه َذا األ َْم ِر َ ُ -
ِ
حاصل کرلیا ہے اورتمہارے رگ و پے میں روح ك َماك -وإِاَّل َت ْف َع ْل أ ُْعل ْم َ واَل مُتَ ِّك ِن الْغَُوا َة ِم ْن مَسْعِ َ
ك -فَِإن َ ت ِم ْن َن ْف ِس َ
اورخون کی طرح سرایت کرگیا ہے۔
معاویہ! آخر تم لوگ کب رعایا ( )1کی نگرانی کے قابل
َخ َذ الشَّْيطَا ُن ف قَ ْد أ َ َّك ُمْتَر ٌ أَ ْغ َف ْل َ
ِ
اور امت کے مسائل کے والی تھے جب کہ تمہارے وح
الر ِ ك جَمَْرى ُّ وجَرى ِمْن َ يك أ ََملَه َ وبلَ َغ ف َ ك َمأْ َخ َذه َ - ِمْن َ
والدَِّم.
وواَل َة أ َْم ِر األ َُّم ِة - وم ُكْنتُم يا معا ِويةُ ساسةَ َّ ِ ِ
الرعيَّة ُ - َىَت ْ َ ُ َ َ َ َ
ن ن ن ق
کاری ' ع ی اری
سے من ن ے ورن ہ س ی است ن ہ اکس کے بسکا ہی ں
ش ن کہ اس کام کا ا ج ام دی نخ اہ ر کسشو
ےکاملہ ہ اوررعای ت فئپر تس ی ناست سےشمراد س ی است عادلہ ت اس م ام (1غ)
ب ہ ہ ب
ے اور اس را می ں کسی ھی حرب ہ کو ظ را داز ہی ں ک ی اے اورابو س فی ان ے ہ رمحاذ پر اسالم کے الف ل کرک ی کی ہ مرادلی ج اے وق ی امی ہ می ہ سے س ی است مدار ھ
ب ن اور داری
ے۔ ے اورک ھی ب ی عت کرکے اسالم کا ص ای ا ک ی ا ہے ۔ب کی ھ م ی دا وں می ں م اب لہ ک ی ا ہہ
اس ٍق -و َنعوذُ بِاللَّه ِمن لُز ِ فب ِ ٍ ٍ ِ ِ
بغَرْيِ قَ َدم َساب ٍق واَل َشَر َ
پاس نہ کوئی سابقہ شرف ہے اور نہ کوئی بلند و باال وم
عزت۔ہم ہللا سے تمام دیرینہ بد بختیوں سے پناہ مانگتے ْ ُ ُ
ُح ِّذ ُر َك أَ ْن تَ ُكو َن ُمتَ َم ِادياً يِف ِغَّر ِة سوابِ ِق َّ ِ
ہیں اورتمہیں باخبر کرتے ہیں کہ خبر دار امیدوں کے الش َقاء -وأ َ ََ
دھوکہ میں اور ظاہر و باطن کے اختالف میں مبتال ہوکر
ف الْ َعاَل نِيَ ِة َّ
والس ِر َير ِة. ِ ِِ
گمراہی میں دورتک مت چلے جائو۔تم نے مجھے جنگ األ ُْمنيِّة -خُمْتَل َ
کی دعوت دی ہے تو بہتر یہ ہے کہ لوگوں کوالگ کردو
واخُر ْج إِيَلَّ ِ ِ وقَ ْد َد َعو َ ِ
اور بذات خود میدان میں آجائو۔ فریقین کو جنگ سے َّاس َجانباً ْ - ت إىَل احْلَْرب فَ َد ِع الن َ ْ
ين َعلَى َق ْلبِه ِ ِ ِ ِِ ِ
معاف کردواور ہم ( )1تم براہ راست مقابلہ کرلیں تاکہ وأ َْعف الْ َف ِري َقنْي م َن الْقتَال -لَت ْعلَ َم أَيُّنَا الْ َم ِر ُ
ص ِره -فَأَنَا أَبُو َح َس ٍن -قَاتِ ُل َجد َ
تمہیں معلوم ہو جائے کہ کس کے دل پر زنگ لگ گیا
ہے اور کس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔میں
ِّك والْ ُمغَطَّى َعلَى بَ َ
ف َمعِي ِ َخيك ِ ِ
وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ السْي ُ
ك َّ ك َش ْدخاً َي ْو َم بَ ْد ٍر -وذَل َ وخال َ وأ َ َ
بن ربیعہ ) ماموں ( ولید بن عتبہ ) اور بھائی حنظلہ کا ِ
سر توڑ کرخاتمہ کردیا ہے۔ اورابھی وہ تلوار میرے پاس ت ِديناً واَل استَْب َدلْ ُ ب أَلْ َقى َع ُد ِّوي َ -ما ْ ك الْ َق ْل ِ -وبِ َذل َ
ہے اورمیں اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ اج الَّ ِذي َتَر ْكتُ ُموه ت نَبِيّاً -وإِيِّن لَ َعلَى الْ ِمْن َه ِ استَ ْح َدثْ ُ ْ
کروں گا۔میں نےنہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی
ني. ِ ِ ِ ِ
اختیار کیا ہے میں اسی راستہ پرچل رہا ہوں جسے تم ود َخ ْلتُ ْم فيه ُمكَْره َ ني َ - طَائع َ
نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا اورپھرمجبوراً
ِ َّك ِجْئ ِ
داخل ہوگئے تھے ۔تمہارا خیال ہے کہ تم خون عثمان کا ت ت ثَائراً بِ َدِم عُثْ َما َن -ولََق ْد َعل ْم َ ت أَن َ َ وز َع ْم َ َ
بدلہ لینے آئے ہو۔تو تمہیں تو معلوم ہےکہ اس خون کی ث َحْي ُ
جگہ کہاں ہے۔اگرواقعی مطالبہ کرنا ہے تو وہیں جا
کرکرو۔مجھےتو یہ منظرنظر آرہا ہے()8کہ جنگ تمہیں ت طَالِباً -فَ َكأَيِّن اك إِ ْن ُكْن َ َوقَ َع َد ُم عُثْ َما َن -فَاطْلُْبه ِم ْن ُهنَ َ
دانتوں سےکاٹ رہی ہےاورتم اس طرح فریاد کر رہےہو
يج اجْلِ َم ِال ب -إِذَا عضَّْتك ِ ض ُّج ِمن احْل ر ِ ك تَ ِ
جس طرح اونٹ سامان کی گرانی سےبلبالنے لگتے ہیں ضج َ َ َ َ َ َْ قَ ْد َرأ َْيتُ َ
ئ
ًاورتمہاری جماعت
تخ ف ن ف ت ت ت ن
ك اعتِ َ جِب
بِاألَْث َق ِال -و َكأَيِّن َ َم َ
ل ( )1ضنرت کا ہ وہ نطال ہ ت ھا س کی مرو عاص ے ب ن ئ
ھی ا ی دن کردی ھی ی کن معاوی ہ ورا اڑ گ ی ا اوراس ے کہا کہ و ال ت کاام ی د وار دکھا ی دے رہ ا ہ
ے اور پ ھر م ی دان کا
ب ک ی بم ب ج ع ع ت ح
ے۔ رخ کرے کا ارادہ ھی ہی ں ک ی ا کہ لی کی لوارسے چ کر ل ج ا ا محاالت می ں سے ہ
مسلسل تلوار کی ضرب اورموت کی گرم بازاری اور
ض ِاء الْ َواقِ ِع
ب الْ ُمتَتَابِ ِع -والْ َق َتَ ْدعُويِن جَزعاً ِمن الضَّر ِ
َ ْ َ
کشتوں کے پشتے لگ جانے کی بنا پر مجھے کتاب
ِ ِ
اب اللَّه -وه َي َكافَرةٌ ِ
ِع إِىَل كتَ ِ
خداکی دعوت دے رہی ہے جب کہ خود اس کتاب کی صار َِع َب ْع َد َم َ صار َ وم َ
َ
دیدہ و دانستہ منکر ہے یا بیعت کرنے کے بعد بیعت ِ ِ
شکنی کرنے والی ہے۔ َجاح َدةٌ أ َْو ُمبَايِ َعةٌ َحائ َدةٌ .
()11 ()11
آپ کی نصیحت2 عليهالسالم ومن وصية له
(جو اپنےلشکرکودشمن کی طرف روانہ
کرتےہوئےفرمائی ہے ) وصى بها جيشا بعثه إلى العدو
جب تم کسی دشمن پر واردہونا یا اگر وہ تم پر وارد ہو تو
دیکھو ( )1تمہارے پڑائو ٹیلوں کے سامنے یا پہاڑوں
کے دامن میں یا نہروں کے موڑ پر ہوں تاکہ یہ تمہارے فَِإ َذا َنَزلْتُ ْم بِ َع ُد ٍّو أ َْو َنَز َل بِ ُك ْم َ -فْليَ ُك ْن ُم َع ْس َكُر ُك ْم يِف ُقبُ ِل
لئے وسیلہ حفاظت بھی رہیں اوردشمن کو روک بھی
سکیں۔اورجنگ ہمیشہ ایک یا دو محاذوں پر کرنا اور
اح اجْلِبَ ِال أ َْو أَْثنَ ِاء األَْن َها ِر َ -كْي َما اف -أ َْو ِس َف ِ األَ ْشر ِ
َ
ِ
ودونَ ُك ْم َمَر ّداً -ولْتَ ُك ْن ُم َقاَتلَتُ ُك ْم م ْن ِ
اپنے نگرانوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور ٹیلوں کی بلند يَ ُكو َن لَ ُك ْم ر ْدءاً ُ
سطحوںپرمعین کر دیناتاکہ دشمن نہ کسی خطرناک جگہ
اصي اح ٍد أَ ِو ا ْثَن ِ -واجعلُوا لَ ُكم ر َقباء يِف صي ِ وجه و ِ
سے حملہ کر سکے اورنہ محفوظ جگہ سے اور یہ یاد ْ ُ َ َ ََ َْ نْي َْ َ
رکھنا کہ فوج کاہر اول دستہ فوج کا نگراں ہوتا ہے اب -لِئَاَّل يَأْتِيَ ُك ُم الْ َع ُد ُّو ِم ْن ض ِ اجْلِب ِال -ومناكِ ِ ِ
ب اهْل َ ََ َ
اوراس کی اطالعات کاذریعہ مخبر افراد ہوتے ہیں۔
خبردار آپس میں منتشر نہ ہو جانا۔جہاں اترنا سب ایک ِّمةَ الْ َق ْوِم عُيُونُ ُه ْم - َن ُم َقد َ ان خَمَافَ ٍة أ َْو أ َْم ٍن ْ -
واعلَ ُموا أ َّ م َك ِ
َ
ساتھ اترنا اور جب کوچ کرنا تو سب ساتھ کوچ کرنا۔اور
جب رات ہو جائے تو نیزوں کو اپنے گرد گاڑ دینا اور
والت َفُّر َق -فَِإذَا َنَزلْتُ ْم ِّم ِة طَاَل ئِعُ ُه ْم وإِيَّا ُك ْم َّ
وعُيُو َن الْ ُم َقد َ
خبردار نیند کا مزہ چکھنے کا ارادہ نہ کرنا مگر یہ کہ فَانْ ِزلُوا مَجِ يعاً -وإِذَا ْارحَتَْلتُ ْم فَ ْارحَتِلُوا مَجِ يعاً -وإِذَا َغ ِشيَ ُك ُم
ایک آدھ جھپکی لگ جائے ۔
اح كِ َّفةً -واَل تَ ُذوقُوا الن َّْو َم إِاَّل ِغَراراً الر َم َ
اج َعلُوا ِّ اللَّْي ُل فَ ْ
تن ن شقف ن ض ںةً
ض َم َأ َْو َم ْ
ے کہ جس دورمی ںسجس طرح کا م ی دانناورجس طرح کے اسلحہ ہض وں ان قس ب نکی ظ ی م ا قہی ں اصولوں
الم کا فرض ہ ش اور ش ائ د اس ہ
(1ن)ی ہ وہ ہ دای ات ی ج و ہ ردورمی ں کام آ نے نوالی ہن ی ں
م
ے۔حاالت اورا لحوں کے ب دل ج اے سے اصول حرب و رب اور وا ی ن ج ہاد و ت ال می ں فکی ی ناد پر کرے ج ن کی طر ف امی ر ا مو ی ن ی دو ر ی زہ و م ی ر می ں ا ارہ رمای ا ہ
ل
ے۔ رق ہی ں ہ وسکت ا ہ
()12
آپ کی نصیحت2 ()12
(جو معقل بن قیس ریاحی کواس وقت فرمائی ہے جب
عليهالسالم ومن وصية له
انہیں تین ہزار کا لشکر دے کرشام کی طرف روانہ
فرمایا ہے ) وصى بها معقل بن قيس الرياحي -حين أنفذه إلى
اس ہللا سے ڈرتے رہنا جس کی بارگاہ میںبہر حال حاضر
ہونا ہے اورجس کے عالوہ کوئی آخری منزل نہیں ہے۔ الشام في ثالثة آالف مقدمة له
جنگ اسی سے کرنا جو تم سے جنگ کرے۔ٹھنڈے
اوقات میں صبح و شام سفر کرنا اور گرمی کے وقت
میں قافلہ کو روک کر لوگوں کو آرام کرنے دینا۔آہستہ
سفر کرنا اوراول شب میں سفرمت کرناکہ پروردگارنے ِ ِ
رات کو سکون کے کے لئے بنایا ہے اور اسے قیام کے ك ُدونَه ك ِم ْن ل َقائِه -واَل ُمْنَت َهى لَ َ ات َِّق اللَّه الَّذي اَل بُ َّد لَ َ
لئے قرار دیا ہے۔سفر کے لئے نہیں۔لہٰ ذا رات میں اپنے وس ِر الَْب ْر َديْ ِن و َغ ِّو ْركِ - -واَل ُت َقاتِلَ َّن إِاَّل َم ْن قَاَتلَ َ
بدن کوآرام دینا اوراپنی سواری کے لئے سکون فراہم
کرنا۔اس کیبعد جب دیکھ لینا کہ سحر طلوع ہو رہی ہے السرْيِ واَل تَ ِس ْر أ ََّو َل اللَّْي ِل -فَِإ َّن اللَّه ورفِّه يِف َّ َّاس َ - بِالن ِ
اور صبح روشن ہو رہی ہے تو برکت خدا کے سہارے
ك جعلَه س َكناً وقَدَّره م َقاماً اَل ظَعناً -فَأَر ِ
اٹھ کھڑے ہونا۔ اورجب دشمن کا سامناہو جائے تو اپنے ِح فيه بَ َدنَ َ ْ ْ َ ُ ََ َ
اصحاب کے درمیان ٹھہرنا اورنہ دشمن سے اس قدر الس َحُر -أ َْو ني َيْنبَ ِط ُح َّ تح َ
ور ِّوح ظَهر َك -فَِإ َذا و َق ْف ِ
َ َ َ ْ َْ
قریب ہو جانا کہ جیسے جنگ چھیڑنا چاہیے ہو۔اور نہ ِ ِ ِ ِ ِ
اس قدر دور ہو جانا کہ جیسے جنگ سے خوفزدہ ہو۔یہاں ني َيْن َفجُر الْ َف ْجُر فَس ْر َعلَى َبَر َكة اللَّه -فَِإ َذا لَق َ
يت حَ
تک کہ میرا حکم آجائے اوردیکھوخبردار دشمن کی ك َو َسطاً -واَل تَ ْد ُن ِم َن الْ َق ْوِم ُدنُ َّو َص َحابِ َ ف م ْن أ ْ
الْع ُد َّو فَِق ْ ِ
َ
دشمنی تمہیں اس بات پرآمادہ نہ کردے کہ اسے حق کی
ِ َم ْن يُِر ُ
دعوت دینے اورحجت تمام کرنے سے پہلے جنگ کا اع ْد َعْن ُه ْم َتبَاعُ َد َم ْن ب -واَل َتبَ َ ب احْلَْر َ يد أَ ْن يُْنش َ
ك أ َْم ِري -واَل حَيْ ِملَنَّ ُك ُم َشنَآنُ ُه ْم س َ -حىَّت يَأْتِيَ َ
آغاز کردو
اب الْبَأْ ََي َه ُ
()1
خُتْرِب ُنَا بِبَاَل ِء اللَّه َت َعاىَل ِعْن َدنَا -ونِ ْع َمتِه َعلَْينَا يِف نَبِِّينَا -
اعي مسد ِ ِ ِِ ِ ِ
ِّده ك َكنَاق ِل الت َّْمر إىَل َه َجَر -أ َْو َد ُ َ ت يِف َذل َ فَ ُكْن َ
َّاس يِف ا ِإل ْساَل ِم فُاَل ٌن ضل الن ِ ت أ َّ
َن أَفْ َ َ وز َع ْم َ ِّض ِال َ - إِىَل الن َ
ف ئ شخ ئ
وفُاَل ٌن -
ت ظ ض ت ت ت ن خ
کہ ح رت علی ئ ی ن ظکے ض ا لت قکا ھا کی طرف اش ارہ ک ی ا ھا۔سب سے ب ڑا مس ئ لہنحض رات ی ل تعدد مسا ت س
ت ب
()1م تعاوی ہثے ی ہن ط ابو فامامہ ب اہ تلی کے ذری عہ یھس ج ا ھا اور ت
اس می خںفم
ف ص پ
آپ ان کے ب اےت می ں ا ی یح ح راےت کا ا ہارن کردی ضں و وم ب د ن ہ و ے۔اب اگر
ت ے ھ ئسلہ سے چ و ھا ی ہ ف لی ئم کر ق ھی ج کو آپ کو ل ت ا ہی ں ا راد کی ف ئ سا ھ اک ری ش
کے
لت ی ات قمظ لومفی ئ
ت ن کل ک اپ ی ی و نو ج اے گا اوراگر ان لکے بض خا ل نکا ا رار کرلی ں ضو گوی ا ان ت مامنکلمات کیئکذی ب کردی ج ک ن ی ا ض ت ن ہ ھڑا ہ
ت ت
یا ں یم رہ عام اور گی ے جا
ے کی لت ی ن رما ی
ئاور ے تمعاوی ہ کو اس مس ئ لہ سے الگ ئرہ ت کے ب ج ا
ے ن ی کرل یتا اوروا ح ج واب د
ے ح رت ے ئاس حساس صورت حالکا وبی ا قدازہ ت خکے ب ارے می قں ب ی ان کرے ھ
ے مسا ل می ں م ہی ں راے ے؟ لہٰذا ایسمان ہی ں ھا مہارا ک ی ا ذکر ہمہارا نب اپ ب ھیئمسل ن
خ اور اس و تت و ےض ئ اس کی او ن ات سے ب ھی بت ا ب ر کردی ا کہ ی ثہ مس لہ ت
صدر اسالم کا ہ ف سے ئ ن
ے۔ ے کہ ان ا ل می ں مہارے ا دان کا کو ی ذکر ہی ں ہ ے۔الب ہ ی ہ ب ہر حال اب ت ہ و ج ا ا ہ ے کا کو ی حق ہی ں ہ دی
ِ ت أ َْمراً إِ ْن مَتَّ ْاعَتَزلَ َ
ك ُكلُّه -وإ ْن َن َق َ
اورفالں افراد سے بہتر تھے تو یہ تو ایسی بات ہے کہ ك
اگر ایسی بات ہے کہ اگر صیح بھی ہو تو اس کا تم سے ص مَلْ َي ْل َح ْق َ فَ َذ َك ْر َ
س ول َّ ِ َثْلمه -وما أَنْت والْ َف ِ
کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر غلط بھی ہو تو تمہارا کوئی والسائ َ ض َ اض َل والْ َم ْف ُ َ َ ُ
نقصان نہیں ہے۔تمہارا اس فاضل و مفضول ،حاکم و ِ ِ ِ ِ ِ
رعایا کے مسئلہ سے کیاتعلق ہے۔بھال آزاد کردہ اور ان وما للطُّلَ َقاء وأ َْبنَاء الطُّلَ َقاء -والت َّْمي َيز َبنْي َ وس َ - والْ َم ُس َ
يف طََب َقاهِتِ ْم هِتِ ِ ِ ِ
کی اوالد کومہاجرین اولین کے درمیان امتیاز قائم کرنے۔ يب َد َر َجا ْم وَت ْع ِر َ ني -و َت ْرت َ ين األ ََّول َ الْ ُم َهاج ِر َ
ان کے درجات کا تعین کرنے اور ان کے طبقات کے
پہنچوانے کا حق کیا ہے(یہ تو اس وقت مسلمان بھی نہیں س ِمْن َها -وطَِف َق حَيْ ُك ُم فِ َيها ِ
ات لََق ْد َح َّن ق ْد ٌح لَْي َ َ -هْي َه َ
ْم هَلَا -أَاَل َت ْربَ ُع أَيُّ َها ا ِإلنْ َسا ُن َعلَى ظَْلعِ َ
تھے ) افسوس کہ جوئے کے تیروں کے ساتھ باہر کے ك
تیر بھی آواز نکالنے لگے اور مسائل میں و لوگ بھی َم ْن َعلَْيه احْلُك ُ
کرنے لگے جن کے خالف خود ہی فیصلہ ہونے واال َخَر َك الْ َق َد ُر ث أ َّ َخُر َحْي ُ ك -و َتتَأ َّ ور َذ ْر ِع َ صَ ف قُ ُ -وَت ْع ِر ُ
وب واَل ظََفُر الظَّافِ ِر.
ہے۔اے شخص تو اپنے لنگڑے پن کو دیکھ کر اپنی حد ك َغلَبةُ الْم ْغلُ ِ
پرٹھہرتاکیوں نہیں ہے اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا -فَ َما َعلَْي َ َ َ
کیوں نہیں ہے اور جہاں قضا و قدر نے تجھے رکھ دیا ص ِد -أَاَل َتَرى اب يِف التِّيه َر َّواغٌ َع ِن الْ َق ْ َّك لَ َذ َّه ٌ وإِن َ
ہے وہیں پیچھے ہٹ کرجاتا کیوں نہیں ہے۔تجھے کسی
ِ ِِ ِ َغْيَر خُمْرِب ٍ لَ َ
مغلوب کی شکست یا غالب کی فتح سے کیا تعلق ہے۔ َن َق ْوماً ِّث -أ َّ ُحد ُ ك -ولَك ْن بن ْع َمة اللَّه أ َ
صا ِر - ِ ِ ْ ِ يِف ِ
استُ ْشه ُدوا َسب ِيل اللَّه َت َعاىَل م َن الْ ُم َهاج ِر َ
تو تو ہمیشہ گمراہیوں میں ہاتھ پائوں مارنے واال
اوردرمیانی راہسے انحراف کرنے واال ہے۔میں تجھے با ين واألَنْ َ
يل َسيِّ ُد ضل -حىَّت إِذَا است ْش ِه َد ش ِه ُ ِ ِ
خبر نہیں کررہا ہوں بلکہ نعمتخدا کا تذکرہ کر رہا ہوں يدنَا ق َ َ ُْ ول ُك ٍّل فَ ْ ٌ َ
ورنہ کیا تجھے نہیں معلوم ہے کہ مہاجرین وانصار کی
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم صه َر ُس ُ وخ َّ الش ِ
ایک بڑی جماعت نے راہ خدا میں جانیں دی ہیں اور ُّه َداء َ - َ
سب صاحبان فضل ہیں لیکن جب ہمارا کوئی شہید ہوا َن َق ْوماً صاَل تِه َعلَْيه -أَواَل َتَرى أ َّ ِ
ني تَ ْكبِ َريةً عْن َد َ
ِ
بِ َسْبع َ
ہے تو اسے سید الشہدا کہا گیا ہے اور رسول اکرم (ص)
نے اس کے جنازہ کی نمازمیں ستر تکبیریں کہی ہیں۔ ت أَيْ ِدي ِه ْم يِف َسبِ ِيل اللَّه -ولِ ُك ٍّل قُطِّ َع ْ
اسی طرح تجھے معلوم ہے کہ راہ خدا میں بہت سوں
کے ہاتھ کٹے ہیں اورصاحبان
شرف ہیں لیکن جب ہمارے آدمی کے ہاتھ کاٹے گئے يل ِ ِ ِ ِِ ِ ِ ِ ِ ِِ
تواسے جنت میں طیار اورذوالجناحین بنادیا گیا اور اگر ض ٌل َ -حىَّت إ َذا فُع َل ب َواحدنَا َما فُع َل ب َواحده ْم -ق َ فَ ْ
احنْي ِ -ولَ ْو اَل َما َن َهى اللَّه َعْنه ِ
پروردگار نے اپنے منہ سے اپنی تعریف سے منع نہ کیا الطَّيَّ ُار يِف اجْلَنَّة وذُو اجْلَنَ َ
ہو تو بیان کرنے واال بے شمار فضائل بیان کرتا جنہیں
ضائِ َل مَجَّةً َت ْع ِر ُف َها ِ ِِ ِ ِ
صاحبان ایمان کے دل پہچانتے ہیں اور سننے والوں کے م ْن َتْزكيَة الْ َم ْرء َن ْف َسه -لَ َذ َكَر َذاكٌر فَ َ
ني -فَ َد ْع ُقلُوب الْم ْؤ ِمنِني -واَل مَتُ ُّجها آ َذا ُن َّ ِ ِ
کان بھی الگ نہیں کرنا چاہتے چھوڑو ان کاذکر جن کا
السامع َ َ ُ ُ َ
تیرنشانہسے خطا کرنے واال ہے۔ہمیں دیکھو جو
َّاس َب ْع ُد الر ِميَّةُ -فَِإنَّا ِ ت بِه َّ
پروردگار کے براہ راست ساختہ پر داختہ ہیں اورباقی صنَائ ُع َر ِّبنَا والن ُ َ ك َم ْن َمالَ ْ َعْن َ
لوگ ہمارے احسانات کا نتیجہ ہیں ہماری قدیمی عزت ي طَ ْولِنَا َعلَى صنَائِ ُع لَنَا -مَلْ مَيَْن ْعنَا قَ ِدميُ ِعِّزنَا -واَل َع ِاد َُّ
اور تمہاری قوم پر برتری ہمارے لئے اس امر سے مانع
نہیں ہوئی کہ ہم نے تم کو اپنے ساتھ شامل کرلیا تو تم ك أَ ْن َخلَطْنَا ُك ْم بِأَْن ُف ِسنَا َ -فنَ َك ْحنَا وأَنْ َك ْحنَا -فِ ْع َل َق ْو ِم َ
اك -وأَىَّن ي ُكو ُن ذَلِ َ ِ األَ ْك َف ِاء ولَ ْستُ ْم ُهنَ َ
سے رشتے ( )1لئے اور تمہیں رشتے دئیے جو عام سے
برابر کے لوگوں میں کیا جاتا ہے اور تم ہمارے برابر ك ومنَّا النَّيِب ُّ َ
کے نہیں ہو اور ہو بھی کس طرح سکتے ہو جب کہ ہم فومْن ُكم أَس ُد األَحاَل ِ ومنَّا أَس ُد اللَّه ِ ومْن ُكم الْم َك ِّذب ِ - ِ
ْ ْ َ َ ُ ُ ُ
میں سے رسول اکرم (ص) ہیں اور تم میں سے ان کی
ومْن ُكم ِصبيةُ النَّا ِر ِ -
ومنَّا اب أَه ِل اجْل ن َِّة ِ ِ ِ
تکذیب کرنے واال۔ہم میں اسد ہللا ہیں اور تم میں اسد ْ َْ -ومنَّا َسيِّ َدا َشبَ ْ َ
االحالف۔ہم میں سرداران جوانان جنت ہیں اورتم میں ب -يِف َكثِ ٍري مِم َّا ْ
خير نِس ِاء الْعالَ ِمني ِ
ومْن ُكم مَحَّالَةُ احْلَطَ ِ َُْ َ َ َ
جہنمی لڑکے۔ہم میں سیدة نساء العالمین ہیں اور تم میں
حمالتہ الحطب اور ایسی بے شمار چیزیں ہی جوہمارے وعلَْي ُك ْم.
لَنَا َ
حق میں ہیں اور تمہارے خالف۔ ہمارا اسالم بھی مشہور
اب اللَّه جَيْ َم ُع ِ فَِإساَل منا قَ ْد مُسِ ع ِ ِ
ہے اور ہمارا قبل اسالم کاشرف بھی نا قابل انکار ہے وجاهليَُّتنَا اَل تُ ْدفَ ُع -وكتَ ُ َ َ ْ َُ
اور کتاب خدا نے ہمارے منتشر اوصاف کو جمع کردیا لَنَا َما َش َّذ َعنَّا -
ہے۔یہ کہہ کر کہ
ن
.
ن خ ق ٹ ف ق ن ن ت ش
نبو س ی ان شکی ب ی ی امقحئب ی ب ہ سے تود ع د کرل ی ا قحاال کہ عام
کی پ ظروردہ لڑکی وں کا ع ف د ب ق ی امی ہ می ں کردی ا اور ا
ے ہ ا ھن ے اپ(ص) ن اکرم
ے تکہ رسول ت ()1ی ہ اس امرش تکی طرف ا ئارہ ہ
ے لہٰذا ہ م ے ب ھی ر ت ہ داری ا م کرلی او ر مہاری او ات کا ا رارد ی کا کو مہ ک ری ا ے الم سا کہ و گر م ں۔ ے کر الش ری
یہ ئ
ل ن
ہ چ ی ہ سے لوگ ر ت وں کے ل ب ب
را ے خطور ن
ے اور سماج مذہ ب پرحکومت ن ہ کرے پ اے ۔ ی ال ہی ں ک ی ا اکہ مذہ ب سماج پر حاکم رہ
اولی ہیں '' اور یہ کہہ
''قرابت دار بعض بعض کے لئے ٰ ض ُه ْم أ َْوىل حام َب ْع ُ وهو َقولُه سْبحانَه وَتعاىَل ( -وأُولُوا األَر ِ
کر کہ '' ابراہیم کے لئے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہیں ْ َ َُ ْ ُ َ
جنہوں نے ان کا اتباع کیا ہے اور پیغمبر (ص) اور تاب اهلل) -و َق ْولُه َت َعاىَل ( :إِ َّن أ َْوىَل الن ِ
َّاس ض يِف كِ ِ بَِب ْع ٍ
صاحبان ایمان اور ہللا صاحبان ایمان کاولی ہے '' یعنی ہم َّ ِ راه ِ ِِ ِ
اولی ہیں اوراطاعت و اتباع
قرابت کے اعتبارسے بھی ٰ
ين َآمنُوا -واهلل ين اتََّبعُوه -وه َذا النَّيِب ُّ والذ َ يم لَلَّذ َ بإبْ َ
کے اعتبار سے بھی اس کے بعد جب مہاجرین نے ني) َ -فنَ ْح ُن َمَّر ًة أ َْوىَل بِالْ َقَرابَِة وتَ َار ًة أ َْوىَل ِِ
َويِل ُّ الْ ُم ْؤمن َ
انصار کے خالف روز سقیفہ قرابت پیغمبر(ص) سے
صا ِر َ -ي ْو َم ِ بِالطَّ ِ
استدالل کیا اور کامیاب بھی ہوگئے ۔تواگر کامیابی کا احتَ َّج الْ ُم َهاجُرو َن َعلَى األَنْ َ اعة -ولَ َّما ْ َ
راز یہی ہے تو حق ہمارے ساتھ ہے نہ کہ تمہارے ساتھ ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َفلَ ُجوا َعلَْي ِه ْم الس ِقي َف ِة بِرس ِ َّ
ٰ
دعوی باقی ہے۔ اوراگر کوئی اور دلیل ہے تو انصار کا َُ
تمہارا خیال ہے کہ میں تمام خلفاء سے حسد رکھتا ہوں -فَِإ ْن يَ ُك ِن الْ َفلَ ُج بِه فَاحْلَ ُّق لَنَا ُدونَ ُك ْم -وإِ ْن يَ ُك ْن بِغَرْيِ ه
اورمیں نے سب کے خالف بغاوت کی ہے تو اگر یہ ِ ِ
صحیح بھی ہے تو اس کاظلم تم پر نہیں ہے کہ تم سے ت أَيِّن ل ُك ِّل اخْلُلَ َفاء َح َس ْد ُ
ت وز َع ْم َ ص ُار َعلَى َد ْع َو ُاه ْمَ . فَاألَنْ َ
ك َفلَيس ِ ِ ِ
معذرت کی جائے ( یہ وہ غلطی ہے جس سے تم پر ت ك َك َذل َ ْ َ ت -فَِإ ْن يَ ُك ْن ذَل َ وعلَى ُكلِّ ِه ْم َبغَْي ُ َ
کوئی حرف نہیں آتا) بقول شاعر اجْلِنايةُ علَيك َ -في ُكو َن الْع ْذر إِلَيك .وتِْلك ش َكاةٌ ظَ ِ
اورتمہارا یہ کہنا کہ میں اس طرح کھینچا جا رہا تھا جس اهٌر َ َ ُ ُ َْ ََ َْ َ َ
طرح نکیل ڈال کر اونٹ کو کھینچا جاتا ہے تاکہ مجھ ك َع ُار َها
سے بیعت لی جائے تو خدا کی قس تم نے میری مذمت َعْن َ
ت إِيِّن ُكْن ُ
کرنا چاہی اور نا دانستہ طور پر تعریف کر بیٹھے اور
مجھے رسوا کرنا چاہا تھا مگرخودرسوا ہوگئے ۔
وش َحىَّت اد اجْلَ َم ُل الْ َم ْخ ُش ُاد َ -ك َما يُ َق ُ ت أُقَ ُ و ُق ْل َ
مسلمان کے لئے اس بات میں کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ ت -وأَ ْن أُبَايِ َع؛ ولَ َع ْمُر اللَّه لََق ْد أ ََر ْد َ
ت أَ ْن تَ ُذ َّم فَ َم َد ْح َ
مظلوم ہو جائے جب تک کہ وہ دین کے معاملہ میں شک اض ٍة يِف ِ ِ
میں مبتال نہ ہو اور اس کا یقین شبہ میں نہ پڑ ض َوما َعلَى الْ ُم ْسل ِم م ْن َغ َ تَ - ض ْح َ ض َح فَا ْفتَ ََت ْف َ
اكاً يِف ِدينِهأَ ْن يَ ُكو َن َمظْلُوماً َ -ما مَلْ يَ ُك ْن َش َّ
واَل مرتَاباً بِي ِقينِه ِ -
وهذه ُح َّجيِت إِىَل َغرْيِ َك قَ ْ
جائے۔میری دلیل اصل میں دوسروں کے مقابلہ میں ہے ص ُد َها -
لیکن جس قدر مناسب تھا میں نے تم سے بھی بیان کردیا۔ َ ُْ َ
اس کے بعد تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ك ِمْن َها بَِق ْد ِر َما َسنَ َح ِم ْن ِذ ْك ِر َها. ت لَ َ ِ
ولَكيِّن أَطْلَ ْق ُ
ت َما َكا َن ِم ْن أ َْم ِري وأ َْم ِر عُثْ َما َن َ -فلَ َ
ذکرکیا ہے تو اس میں تمہارا حق ہے کہ تمہیں جواب دیا
جائے اس لئے کہ تم ان کے قرابت دار ہو لیکن یہ سچ ك أَ ْن جُتَ َ
اب مُثَّ ذَ َك ْر َ
ك ِمْنه -فَأ َُّينَا َكا َن أ َْع َدى لَه وأ َْه َدى إِىَل ِ ِ مِح
سچ بتائو کہ ہم دونوں میں ان کا زیادہ دشمن کون تھا َع ْن َهذه لَر ِ َ
اورکس نے ان کے قتل کا سامان فراہم کیا تھا۔اسنے جس
واستَ َكفَّه -أ َْم َم ِن ِِ
نے نصرت کی پیشکش کی اوراسے بٹھا دیا گیا اور اسَت ْق َع َده ْ صَرتَه فَ ْ َم َقاتله أ ََم ْن بَ َذ َل لَه نُ ْ
روکدیا گیا یا اسنے جس سے نصرت کا مطالبہ کیاگیا اور ث الْ َمنُو َن إِلَْيه َ -حىَّت أَتَى قَ َد ُره اخى َعْنه وبَ َّ صَره َفَتَر َ اسَتْن َْ
اس نے سستی برتی اورموت کا رخ ان کی طرف موڑ
ني ِمْن ُك ْم - ِ
دیا۔یہاں تک کہ قضا و قدرنے اپنا کام پورا کردیا۔خدا کی َعلَْيه َ -كاَّل واللَّه اَل َّه (قَ ْد َي ْعلَ ُم اهلل الْ ُم َع ِّوق َ
س إِاَّل قَلِياًل ) والْقائِلِ ِ هِنِ
قسم میں ہرگز اس کا مجرم نہیں ہوں اور ہللا ان لوگوں ِ
کو بھی جانتا ہے جو روکنے والے تھے اور اپنے ني إل ْخوا ْم َهلُ َّم إلَْينا -وال يَأْتُو َن الْبَأْ َ َ
بھائیوں سے کہہ رہے تھے کہ ہماری طرف چلے آئو .-
اور جنگ میں بہت کم حصہ لینے والے تھے۔ وما ُكْنت ألَعت ِذر ِمن أَيِّن ُكْن ِ
میں اس بات کی معذرت نہیں کر سکتا کہ میں ان کی َح َداثاً -فَِإ ْن ت أَنْق ُم َعلَْيه أ ْ ُ ُ َْ َ ْ َ
ب ملُ ٍ الذنْ ِ ِ ِ ِ َكا َن َّ
ب إلَْيه إ ْر َشادي وه َدايَيِت لَه َ -فُر َّ َ
بدعتوں پر برابر اعتراض کر رہا تھا کہ اگر یہ ارشاد وم اَل ُ
اور ہدایت بھی کوئی گناہ تھا تو بہت سے ایسے لوگ
ہوتے ہیں جن کی بے گناہ بھی مالمت کی جاتی ہے اور ب لَه - ذَنْ َ
وقَ ْد يَ ْستَ ِف ُ
''کبھی کبھی واقعی نصیحت کرنے والے بھی بد نام ہو
جاتے ہیں ' ' میں نے اپنے امکان بھر اصالح کی کوشش
ص ُح يد الظِّنَّةَ الْ ُمَتنَ ِّ
کی اور میری توفیق صرف ہللا کے سہارے ہے۔اسی پر ت -وما َت ْوفِ ِيقي إِاَّل استَطَ ْع ُ
الح َما ْ ص َ ت (إِاَّل ا ِإل ْ وما أ ََر ْد ُ
َ
میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میری توجہ ہے ''
يب) بِاهلل علَيه َتو َّك ْل ِ ِ
تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تمہارے پاس ت وإلَْيه أُن ُ َْ َ ُ
َص َحايِب ِعْن َد َك س يِل وأل ْ ت أَنَّه لَْي َ وذَ َك ْر َ
َضحكْت بع َد ِ إِاَّل َّ
ت بَيِن است ْعبَا ٍر مَىَت أَلْ َفْي َ
میرے اور میرے اصحاب کے لئے ( )1تلوار کے عالوہ
کچھ نہیں ہے تو یہ کہہ کر تم نے روتے کو ہنسا دیا ہے ف َ -فلَ َق ْد أ ْ َ َ َ ْ ْ السْي ُ
السي ِ ِ ب ع ِن األ ِ ِِ ِ ِ
بھال تم نے اوالد عبدالمطلب کو کب دشمنوں سے پیچھے ني؟! ف خُمََّوف َ ني -وبِ َّ ْ َع َداء نَاكل َ َعْبد الْ ُمطَّل ِ َ ْ
ث قَلِياًل َي ْل َح ِق اهْلَْي َجا مَحَ ْل
ہٹتے یا تلوار سے خوفزدہ ہوتے دیکھا ہے ؟
''ذرا ٹھہر جائو کہ حمل میدان جنگ تک پہنچ جائے '' َفلَبِّ ْ
عنقریب جسے تم ڈھونڈ رہے ہو وہ تمہیں خود ہی تالش ك َما تَ ْستَْبعِ ُد -وأَنَا ب ِمْن َ
وي ْقُر ُبَ - ك َم ْن تَطْلُ ُ فَ َسيَطْلُبُ َ
کرلے گا اور جس چیز کو بعید خیال کر رہے ہو اسے
صا ِر - ِ ِ يِف ِ
قریب کردے گا۔اب میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار ين واألَنْ َُم ْرق ٌل حَنْ َو َك َج ْح َف ٍل م َن الْ ُم َهاج ِر َ
کے لشکر کے ساتھ بہت جلد آرہا ہوں اور میرے ساتھ وہ يد ِزحامهم س ِ ٍِ ِِ ٍ ِ
بھی ہیں جو ان کے نقش قدم پر ٹھیک طریقہ سے چلنے
اط ٍع َقتَ ُام ُه ْم ني هَلُ ْم بإ ْح َسان َ -شد َ ُ ُ ْ َ والتَّابِع َ
ت -أَح ُّ ِ ِ ِ ِ -متَسربِلِني سرابِيل الْمو ِ
والے ہیں۔ان کا حملہ شدید ہوگااور غبار جنگ ساری
ب اللِّ َقاء إلَْيه ْم ل َقاءُ َ ُ َْ َ ََ َ َ ْ
فضا میں منتشر ہوگا۔یہ موت کا لباس پہنے ہوں گے اور ِ مِش رهِّبِم -وقَ ْد ِ
ان کی نظر میں بہترین مالقات پروردگار کی مالقات وف َها يَّةٌ -قَ ْد وسيُ ٌ صحبَْت ُه ْم ذُِّريَّةٌ بَ ْد ِريَّةٌ ُ َ َ ْ
ِ ِ ِ هِل ِ ِ
صا َا -يِف أَخ َ
ہوگی۔ان کے ساتھ اصحاب بدر کی ذریت اوربنی ہاشم ك
کی تلواریں ہوں گی۔تم نے ان کی تلواروں کی کاٹ اپنے
ِّك وأ َْهل َ وجد َك َ وخال َ
يك َ ت َم َواق َع ن َ َعَرفْ َ
( -وما ِهي ِمن الظَّالِ ِمني بِبعِ ٍ
يد)
بھائی ماموں ،نانا اور خاندان والوں میں دیکھ لی ہے َ َ َ َ
اور وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہے ''
()29
()29
آپ کا مکتوب گرامی عليهالسالم ومن كتاب له
ن
(اہل بصرہ کے نام) إلى أهل البصرة
ت ن نھمکی صاحب ذوال ف ق ار کو دے رہ ا ے ج ب کہ ئاسے معلوم ے ع ت ق
ے جس ے دس برس کی ع تمرمی ں مام کہ لی اس ب ہادر کا ام ہ ہ ن ت ہ ت لوار کی د
ب ے کہ معاوی ہ ہ ف( )1یشامت کی ب ات
رت کی رات لوار کی چ ھا وں می ں ہای ت سکون و اطمی ن ان سے سوی ا ہ
ے اور ب درکے م ی دان می ں مام روسا (ص) تکون چ اخ تے کاوعدہ ک ی ا ھا اور ہ جت ک فارو م ر شکی ن سے رسول ناکرم
ے۔ای ں چ ہ بوالجع ی است ء ک ار و م رکی ن اور زعماء ب ی امی ہ کا ن ہا ا مہ کردی ا ہ
وش َقاقِ ُك ْم َ -ما مَلْ َت ْغَب ْوا َعْنه وقَ ْد َكا َن ِم ِن انْتِ َشا ِر حبلِ ُكم ِ
تمہاری تفرقہ ( )2پردازی اورمخالفت کا جو عالم تھا وہ
تم سے مخفی نہیں ہے لیکن میں نے تمہارے مجرموں َْ ْ
ف َع ْن ُم ْدبِ ِر ُك ْم - ِ
السْي َ
ت َّ ت َع ْن جُمْ ِرم ُك ْم َ
ور َف ْع ُ َ -ف َع َف ْو ُ
کو معاف کردیا۔بھاگنے والوں سے تلوار اٹھالی۔آنے
والوں کو بڑھ کرگلے لگالیا۔اب اس کے بعد بھی اگر
ور الْ ُم ْر ِديَةُ - ت ِمن م ْقبِلِ ُكم -فَِإ ْن َخطَ ْ ِ ِ
تمہاری تباہ کن راء اور تمہارے ظالمانہ افکار کی ت ب ُك ُم األ ُُم ُ وقَب ْل ُ ْ ُ ْ
حماقت تمہیں میری مخالفت اورعہد شکنی پر آمادہ کر وخاَل يِف َ -ف َها أَنَا ذَا وس َفه اآلر ِاء اجْل ائِر ِة إِىَل منَاب َذيِت ِ
رہی ہے تو یاد رکھو کہمیں نے گھوڑوں کو قریب کرلیا ُ َ َ ََ َ
ت ِر َكايِب -ولَئِ ْن أَجْلَأْمُتُويِن إِىَل قَ ْد َقَّرب ِ ِ
ہے۔اونٹوں پر سامان بار کرلیا ہے اوراگر تم نے ور َح ْل ُت جيَادي َ ُْ
الْ َم ِس ِري إِلَْي ُك ْم -ألُوقِ َع َّن بِ ُك ْم َو ْق َعةً -اَل يَ ُكو ُن َي ْو ُم اجْلَ َم ِل
گھرسے نکلنے پر مجبور کردیا تو ایسی معرکہ آرائی
کروں گا کہ جنگ جمل فقط زبان کی چاٹ رہ جائے گی۔
اع ِة ِمْن ُك ْم إِلَيها إِاَّل َكلَع َق ِة اَل ِع ٍق -مع أَيِّن عا ِر ٌ ِ ِ
میں تمہارے اطاعت گذاروں کے شرف کو پہچانتا ہوں
ف لذي الطَّ َ ََ َ ْ َْ
اورمخلصین کے حق کو جانتا ہوں ۔میرے لئے یہ ممکن
َّهماً إِىَل َّص ِ ِ ِِ
نہیں ہے کہ مجرم سے آگے بڑھ کربے خطا پر حملہ يحة َحقَّه َ -غْيُر ُمتَ َجا ِو ٍز ُمت َ ضلَه -ولذي الن َ فَ ْ
کردوں یا عہد شکن سے تجاوز کرکے وفادار سے بھی ي واَل نَاكِثاً إِىَل َويِف ٍّ. بَِر ٍّ
تعرض کروں۔
()30 ()30
آپ کا مکتوب گرامی عليهالسالم ومن كتاب له
(معاویہ کے نام ) إلى معاوية
جو کچھ سازو سامان تمہارے پاس ہے اس میں ہللا سے
ڈرو اور جواس کاحق تمہارے اوپر ہے اس پر نگاہ وار ِج ْع إِىَل
كْ -ك -وانْظُْر يِف َحقِّه َعلَْي َ
ِ ِ
فَاتَّق اللَّه ف َ
يما لَ َديْ َ
َم ْع ِرفَ ِة َما
رکھو۔ اس حق کی معرفت کی طرف پلٹ آئو جس سے
ئ ن ئ ت ث ئش نا ب ن ث ت ض ہن ف
حرف ہ وگ یناور ج ن ت نگ ج م خل مانشب ن حن ی ف کو عامل ب ن ا کر ئ یھ ج دی ا ل۔اس کے ب عد
نعا ہ وارد ہ و ی غں نواکشری ت م ت ئ نو اداری کا اعالن ک ی ا و ح رت ے ہل
ے اہ ل ب صرے (1ن)
ب
ور ال ا روع کردی ا نو آپ ے ی ہ ی ہی ط ی گ
ن مدی ہ واپس چ لی ی ں۔ ںکن ئمعاوی ہ ے پ ھر دوب ارہن ن ب
اور عا ہ ھی
ع نسب کو م ت
عاف نکردی ا ت سے طور عام ے تآپ کن کی وب فت آگئپی ل ی
ئ م ن
ے۔لہٰذا ہ وش م ی آج ا و اورمعاوی ہ کے ب ہکاے پر راہ حق سے ا حراف ن ہ کرو۔ ے ھی ج گ و اب ہ وے والی ہ روا ہ رمای ا کہ ج گ ج ل و صرف مزہ چ کھاے کے ل
ن
واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔دیکھو اطاعت کے نشانات
وسبُاًل ِ اَل ُتع َذر جِب هالَتِه -فَِإ َّن لِلطَّ ِ
واضح ،راستے روشن ،شاہراہیں سیدھی ہیں اور منزل اعة أ َْعاَل ماً َواض َحةً ُ - َ ْ ُ ََ
اس ِ َّ
مقصود سامنے ہے جس پر تمام عقل والے وارد ہوتے َنِّيَر ًة وحَمَ َّجةً َن ْه َجةً و َغايَةً ُمطلَبَةً -يَر ُد َها األَ ْكيَ ُ
ہیں۔اور پست فطرت اس کی مخالفت کرتے ہیں۔جو اس
ب َعْن َها َج َار َع ِن احْلَ ِّق ِ
ہدف سے منحرف ہوگیا وہ راہ حق سے ہٹ گیا اور اس َ -م ْن نَ َك َ وخُيَال ُف َها األَنْ َك ُ
گمراہی میںٹھوکر کھانے لگا۔ہللا نے اس کی نعمتوں کو َح َّل بِه نِْق َمتَه - ِ
ط يِف التِّيه -و َغَّيَر اللَّه ن ْع َمتَه وأ َ وخبَ ََ
سلب کرلیا اور اپناعذاب اس پروارد کردیا۔ل ٰہذا اپنے نفس
کاخیال رکھو اوراسے ہالکت سے بچائو کہ پروردگار ثوحْي ُكَ - ك َسبِيلَ َ ك َف َق ْد َبنَّي َ اللَّه لَ َ ك َن ْف َس َ َفَن ْف َس َ
نے تمہارے لئے راستہ کو واضح کردیا ہے اور وہ منزل ت إِىَل َغايَِة ُخ ْس ٍر وحَمَلَّ ِة َجَريْ َ ور َك َ -ف َق ْد أ ْ ك أ ُُم ُت بِ َ اه ْ َتنَ َ
بتادی ہے جہاں تک امور کو جانا ہے۔تم نہایت تیزی سے
بدترین خسارہ اور کفر کی منزل کی طرف بھاگے جا ك َغيّاً - ك َشّراً وأَقْ َح َمْت َ ك قَ ْد أ َْوجَلَْت َُك ْف ٍر -فَِإ َّن َن ْف َس َ
رہے ہو۔تمہارے نفس نے تمہیں بدبختی میں ڈال دیا ہے
ك. ِ ِ
اور گمراہی میں جھونک دیا ہے۔ہالکت کی منزلوں میں ك الْ َم َسال َ ت َعلَْي َ ك وأ َْو َعَر ْ ك الْ َم َهال َ وأ َْو َر َدتْ َ
وارد کردیا ہے اور صحیح راستوں کودشوار گزار
بنادیاہے۔ ()31
()31 عليهالسالم ومن وصية له
آپ کا وصیت نامہ للحسن بن علي عليهالسالم -كتبها إليه بحاضرين
( جسے امام حسن کے نام صفین سے واپسی پر مقام عند انصرافه من صفين:
حاضرین 2میں تحریر فرمایا ہے )
یہ وصیت ایک ایسے باپ ( )1کی ہے۔جو فنا ہونے واال ان الْ ُم ْدبِ ِر الْعُ ُم ِر -الْ ُم ْستَ ْسلِ ِم
ان الْم ِقِّر لِ َّلزم ِ
َ
ِِ ِ
م َن الْ َوالد الْ َف ُ
ِ
اور زمانہ کے تصرفات کا اقرار کرنے واال ہے۔جس کی
عمرخاتمہ کے قریب ہے اور وہ دنیا کے مصائب کے لِ ُّ
لد ْنيَا
ن ن سامنے
ض ن
ہرحال ی ہ اینک ت
عام ے۔ب
ئ ا ا ت ام ے اور س ی د ر ین علی ہ الرح نمہ ے اسے امام حسن کےض کے ام خ
ن ہ
ف
ح دمحم اب ()1ب عض ش ارح ن کا خ ال ے کہ ہ وص ت ن امہ ن
ہ ی ب ہ ی ن ن ی ہ ی فی ن ج ی ن
ے ورن ہ ناس کا مکمل م مون موالے کائ ن ن م ے فاور اپ ی خ
ے قہ و ا ب ٹ
ہ ات پرع طب ت ع ت طوط پر وصی ت نو ن یص حت کر اعچ اہ ی ت م ش
اوالد کو ا ہی ں ت س ادہ کر ا چ اہ ی
ے جس سے ہ ر ب اپ کو نا ت
ن ہ وصی ت امہ
ے کوے جس می ں ظ ی م ری ن ب اپ ے ظ ی م ری ن ی ےفوصی ت امے کسی ای فک رد سے م صوص ہ واکرصے ہ ی ں۔ی ہ ا سا ی ت کا ظ ی م ری ن ور ہ امام حسن پر۔ تاور ہ ایساور ن ہ ق
م
ے اکہ دیگر ا راد لت اس سے است ادہ کری ں ب لکہ عب رت حا ل کری ں ۔ مخ اطب رار دی ا ہ
اع ِن عْنها َغداً -إِىَل الْمولُ ِ ِ ِ َّ ِ
الساك ِن َم َساك َن الْ َم ْوتَى والظَّ َ َ
سپرانداختہ ہے۔مرنے والوں کی بستی میں مقیم ہے اور ود
کل یہاں سے کوچ کرنے واال ہے ۔ اس فرزند کے نام جو َْ
ك- يل َم ْن قَ ْد َهلَ َ الْم َؤ ِّم ِل َما اَل يُ ْد ِر ُك ِ ِ ِ َّ -
دنیا میں وہ امیدیں رکھے ہوئے ہے جو حاصل ہونے السالك َسب َ ُ
والی نہیں ہیں اورہالک ہوجانے والوں کے راستے پر ب وعبدِ ِ ض األَس َق ِام ور ِهينَ ِة األَيَّ ِام -ور ِميَّ ِة الْمصائِ
گامزن ہے ' بیماریوں کا نشانہ اور روز گار کے ہاتھوں َْ َ َ َ َ َغَر ِ ْ
اج ِر الْغُرو ِر -و َغ ِر ِمي الْمنَايا وأ َِس ِري الْمو ِ الد ْنيا وتَ ِ
گوی ہے۔مصائب زمانہ کا ہدف اور دنیا کا پابند ہے۔اس
کا فریب کاریوں کا تاجر اوروت کا قرضدار ہے۔اجل کا
ت- َْ َ َ ُ ُّ َ
وص ِري ِع ِ صِ وم وقَ ِري ِن األ ِ يف اهْل م ِ وحلِ ِ
قیدی اور رنج و غم کا ساتھی مصیبتوں کاہمنشیں ہے ب اآلفَات َ َحَزان -ونُ ُ ْ ُُ َ
اورآفتوں کا نشانہ ' خواہشات کامارا ہوا ہے اورمرنے ات.ات وخلِي َف ِة األَمو ِ الشَّهو ِ
والوں کا جانشین۔ َْ َ ََ
ت ِم ْن إِ ْدبَا ِر ُّ ِ ِ
وح
الد ْنيَا َعيِّن -ومُجُ ِ يما َتَبَّيْن ُأ ََّما َب ْع ُد -فَإ َّن ف َ
اما بعد! میرے لئے دنیا کے منہ پھیر لینے ۔زمانہ کے
ظلم و زیادتی کرنے اورآخرت کے میری طرف آنے کی
وجہ سے جن باتوں کا انکشاف ہوگیا ہے انہوں نے اآلخَر ِة إِيَلَّ َ -ما َيَزعُيِن َع ْن ِذ ْك ِر َم ْن الدَّه ِر علَي وإِ ْقب ِال ِ
ْ َ َّ َ
اي -وااِل ْهتِ َم ِام مِب َا َو َرائِي َ -غْيَر أَيِّن َحْي ُ ِ
مجھے دوسروں کے ذکر اوراغیار کے اندیشہ سے ث َت َفَّر َد يِب
روک دیا ہے۔مگر جب میں تمام لوگوں کی فکرسے الگ س َو َ
ِ دو َن مُه ِ
ہو کر اپنی فکر میں پڑا تو میریرائے نے مجھے وصَرفَيِن َع ْن ص َدفَيِن َرأْيِي َ َّاس َه ُّم َن ْفسي -فَ َ وم الن ِ ُ ُ
ضى يِب إِىَل ِج ٍّد اَل
خواہشات سے روک دیا اور مجھ پرواقعی حقیقت
منکشف ہوگئی جس نے مجھے اس محنت و مشقت تک ض أ َْم ِري -فَأَفْ َ وصَّر َح يِل حَمْ ُ اي َ - َه َو َ
ك ِ ِ ٍ ِ ِ
پہنچا دیا جس میں کسی طرح کا کیل نہیں ہے اور اس وو َج ْدتُ َ ب َ ب -وص ْدق اَل يَ ُشوبُه َكذ ٌ يَ ُكو ُن فيه لَع ٌ
صداقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کی غلط بیانی
كَصابَ َ ك ُكلِّي َ -حىَّت َكأ َّ بع ِ
نہیں ہے۔میں نے تم کو اپنا ہی ایک حصہ پایا بلکہ تم کو َن َشْيئاً لَ ْو أ َ ضي -بَ ْل َو َج ْدتُ َ َْ
اپنا سراپا وجود سمجھا کہ تمہاری تکلیف میری تکلیف اك أَتَايِن – َف َعنَايِن ِم ْن أ َْم ِر َك ت لَ ْو أَتَ َ َصابَيِن -و َكأ َّ
َن الْ َم ْو َ أَ
ہے اور تمہاری موت میری موت ہے اس لئے مجھے
تمہارے معامالت کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنے ك كِتَايِب - ت إِلَْي َ ِ ِ ِ
َما َي ْعنييِن م ْن أ َْم ِر نَ ْفسي -فَ َكتَْب ُ
معامالت کی ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے یہ تحریر
لکھی دی ہے جس کے ذریعہ تمہاری امداد کرنا چاہتا ُم ْستَظْ ِهراً بِه
ہوں
چاہیے میں زندہ رہوں یا مرجائوں۔ يت. إِ ْن أَنَا ب ِقيت لَ َ ِ
فرزند! میں تم کو خوف خدا اور اس کے احکام کی ك أ َْو فَن ُ َ ُ
وم أَم ِره ِ -
وع َم َار ِة ِ ُوص َ ِ فَِإيِّن أ ِ
پابندی کی وصیت کرتا ہوں۔اپنے دل کواس کی یاد سے َي بُيَنَّ ولُُز ْ يك بَت ْق َوى اللَّه أ ْ
ب أ َْوثَ ُق ِم ْن ص ِام حِب َْبلِه -وأ ُّ اِل ِ َقْلبِ ِ
آباد رکھنا اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنا کہ
اس سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ تمہارے اور خداا کے
َي َسبَ ٍ ك بِذ ْك ِره وا ْعت َ َ
درمیان نہیں ہے۔ ت بِه. َخ ْذ َ
تأَ وبنْي َ اللَّه -إِ ْن أَنْ َ
ك َ ب َبْينَ َ َسبَ ٍ
اپنے دل کو موعظہ سے زندہ رکھنا اور اس کے
خواہشات کو زہد سے مردہ بنادینا۔اسے یقین کے ذریعہ الز َه َاد ِة -و َق ِّوه بِالْيَ ِق ِ
ني ك بِالْ َم ْو ِعظَِة وأ َِمْته بِ ََّح ِي َق ْلبَ َ أْ
قوی رکھنا اورحکمت کے ذریعہ نورانی رکھنا۔ذکر موت ت و َقِّر ْره بِالْ َفنَ ِاء - و َن ِّوره بِاحْلِكْم ِة -و َذلِّْله بِ ِذ ْك ِر الْمو ِ
َْ َ ْ
کے ذریعہ رام کرنااورفناکے ذریعہ قابو میں رکھنا۔دنیا
کے حوادث سے آگاہ رکھنا اور زمانہ کے حملہ اور لیل شَّه ِر وفُ ْح َ ص ْولَةَ الد ْ وح ِّذ ْره َ
الد ْنيَا َ - ص ْره فَ َجائِ َع ُّ وبَ ِّ
ونہار کے تصرفات سے ہوشیار رکھنا۔اس پر گذشتہ ِ ب اللَّيَايِل واألَيَّ ِام ْ - َت َقلُّ ِ
لوگوں کے اخبار کو پیش کرتے رہنا اور پہلے والوں پر
ني - َخبَ َار الْ َماض َ ض َعلَْيه أ ْ واع ِر ْ
ك ِمن األ ََّولِني ِ -
وس ْر يِف مِب
پڑنے والے مصائبکویاد دالتے رہنا۔ان کے دیار و آثار
میں سر گرم سفر رہنا اور دیکھتے رہنا کہ انہوں نے کیا
َ اب َم ْن َكا َن َقْبلَ َ َ َص َ وذَ ِّك ْره َا أ َ
وع َّما ا ْنَت َقلُوا وأَيْ َن ِ ِِ ِ ِِ
کیا ہے اور کہاں سے کہاں چل گئے ہیں۔کہاں واردہوئے يما َف َعلُوا َ ديَاره ْم وآثَاره ْم -فَانْظُْر ف َ
َحبَّ ِة -َّك جَتِ ُدهم قَ ِد ا ْنَت َقلُوا ع ِن األ ِ ِ
َحلُّوا و َنَزلُوا -فَإن َ ُ ْ
ہیں اورکہاں ڈیرہ ڈاال ہے۔پھر تم دیکھو گے کہ وہ احباب
کی دنیا سے منتقل ہوگئے ہیں اور دیار غربت میں وارد َ
ِ ِ
ہوگئے ہیں اور گویا کہ عنقریت تم بھی انہیں میں شامل ت ِ
َّك َع ْن قَل ٍيل قَ ْد ص ْر َ وحلُّوا ديَ َار الْغُْربَِة -و َكأَن َ َ
ہو جائو گے لہٰ ذا اپنی منزل کو ٹھیک کرلو
اك - ك بِ ُد ْنيَ َآخَرتَ ََكأَح ِد ِهم -فَأَصلِح م ْثو َاك واَل تَبِع ِ
اورخبردارآخرت کو دنیا کے عوض فروخت نہ کرنا ۔جن ْ ْ ََْ َ ْ
ف واخْلِطَ ِ ِ
باتوں کو نہیں جانتے ہو ان کے بارے میں بات نہ کرنا ف- يما مَلْ تُ َكلَّ ْ اب ف َ َ يما اَل َت ْع ِر ُ
ود ِع الْ َق ْو َل ف َ َ
اور جن کے مکلف نہیں ہوان کے بارے میں گفتگو
نہکرنا جس راستہ میں گمراہی کا خوف ہو ادھر قدم آگینہ ف ِعْن َد ضاَل لَتَه -فَِإ َّن الْ َك َّت َ
ِ
ك َع ْن طَ ِر ٍيق إِذَا خ ْف َ وأ َْم ِس ْ
بڑھانا کہ گمراہی کے تحیر سے پہلے ٹھہر جانا ہولناک وب األَهو ِال وأْمر بِالْمعر ِ
وف الضاَل ِل َخْير ِمن ر ُك ِ َحْيَر ِة َّ
مرحلوں میں وارد ہو جانے سے بہترہے۔نیکیوں کا حکم ُْ َ ُْ َْ ٌ ُْ
دیتے رہنا تاکہ اس کے تَ ُك ْن
ِ ِ ِ
ك -وبَايِ ْن َم ْن ِم ْن أ َْهله -وأَنْ ِك ِر الْ ُمْن َكَر بِيَد َك ول َسانِ َ
اہل میں شمار ہو اور برائیوں سے اپنے ہاتھ اور زبان کی
طاقت سے منع کرتے رہنا اور برائی کرنے والوں سے
اپنے امکان بھر دور رہنا۔راہ خدا میں جہاد کا حق ادا اه ْد يِف اللَّه َح َّق ِج َه ِاده -واَل تَأْ ُخ ْذ َك َفعلَه جِب ه ِد َك -وج ِ
َ َ ُْ
کردینا اور خبردار اس راہ میں کسی مالمت گر کی ض الْغَمر ِ ِ ِ
مالمت کی پرواہ نہ کرنا۔حق کی خاطر جہاد بھی ہو
ث َكا َن ات ل ْل َح ِّق َحْي ُ وخ ِ َ َ يِف اللَّه لَ ْو َمةُ اَل ئ ٍم ُ -
سختیوں میں کود پڑنا۔اور دین کا علم حاصل کرنا اپنے َّصُّبَر َعلَى الْ َمكُْروه - ك الت َ وع ِّو ْد َن ْف َس َوَت َفقَّه يِف الدِّي ِن َ -
نفس کو نا خوشگوار حاالت میں صبر کا عادی بادینا
اوریاد رکھنا کہ بہترین اخالق حق کی راہ میں صبر کرنا ك يِف أ ُُمو ِر َك َّصُبُر يِف احْلَ ِّق -وأَجْلِ ْئ َن ْف َس َ ون ْع َم اخْلُلُ ُق الت َ
ِ
ومانِ ٍع ٍ ك -فَِإن َ ِ ِ ِ
ُكلِّ َها إِىَل إِهَل َ
َّك ُت ْلجُئ َها إىَل َك ْهف َح ِري ٍز َ
ہے۔اپنے تمام امورمیں پروردگار کی طرف رجوع کرنا
کہ اس طرح ایک محفوظ ترین پناہ گاہ کاسہارا لو گے
ِ ِِ ِ ع ِزي ٍز -وأ ِ
اور بہترین محافظ کی پناہ میں رہوگے۔پروردگار سے ك -فَإ َّن بيَده الْ َعطَاءَ ص يِف الْ َم ْسأَلَ ِة لَربِّ َ َخل ْ ْ َ
واحْلِْر َما َن -وأَ ْكثِ ِر ااِل ْستِ َخ َار َة وَت َف َّه ْم َو ِصيَّيِت -واَل
سوال کرنے میں مخلص رہنا کہ عطا کرنا اور محروم
کردینا اسی کے ہاتھ میں ہے مالک سے مسلسل طلب
خیرکرتے رہنا اور میری وصیت پر غور کرتے رہنا۔اس ص ْفحاً -فَِإ َّن َخْيَر الْ َق ْو ِل َما َن َف َع ْ -
واعلَ ْم ك َ تَ ْذهَنَب َّ َعْن َ
سے پہلو بچا کر گذر نہ جانا کہ بہترین کالم وہی ہے جو
فائدہ مند ہواور یاد رکھو کہ جس علم میں فائدہ نہ ہو اس أَنَّه اَل َخْيَر يِف ِع ْل ٍم اَل َيْن َف ُع -واَل يُْنَت َف ُع بِعِْل ٍم اَل حَيِ ُّق
میں کوئی خیر نہیں ہے اور جو علم سیکھنے کے الئق َت َعلُّ ُمه.
نہ ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
فرزند! میں نے دیکھا کہ اب میرا سن بہت زیادہ ہو چکا ورأ َْيتُيِن أ َْز َد ُاد أَي ب إِيِّن لَ َّما رأَيتُيِن قَ ْد بلَ ْغ ِ
ہے اور مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہوں ل ٰہذا میں نے فوراً ت سنّاً َ - َ ُ َْ ْ ُيَنَّ
ِ
صااًل مْن َها ِ ت بَِو ِصيَّيِت إِلَْي َ
یہ وصیت لکھ دی اور ان مضامین کو درج کردیا کہیں تخ َ ك -وأ َْو َر ْد ُ َو ْهناً -بَ َاد ْر ُ
ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی بات تمہارے حوالہ کرنے
ك مِب َا يِف
ض َي إِلَْي َ َقبل أَ ْن يعجل يِب أَجلِي -دو َن أَ ْن أُفْ ِ
سے پہلے مجھے موت آجائے یا جسم کے نقص کی ُ ْ َ َْ َ َ َ
ِ ِ ِ ِ
طرح رائے کو کمزور تصور کیا جانے لگے یا وصیت
سے پہلے ہی خواہشات کے غلبے اوردنیا کے فتنے تم
ت يِف ج ْسمي - صُ ص يِف َرأْيِي َك َما نُق ْ َن ْفسي -أ َْو أَ ْن أُْن َق َ
تک نہ پہنچ جائیں۔ اور تمہارا حال الد ْنيَا َ -فتَ ُكو َن ات اهْلََوى وفِنَت ِ ُّ ك بعض َغلَب ِ ِ
أ َْو يَ ْسبِ َقيِن إلَْي َ َ ْ ُ َ
بھڑک اٹھنے والے اونٹ جیسا ہو جائے۔ یقینا نوجوان
ض اخْلَالِيَ ِة ث َكاأل َْر ِ الن ُفو ِر -وإِمَّنَا َق ْلب احْل َد ِ
ُ َ ب َّ الص ْع ِ
َك َّ
کادل ایک خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ جو چیز اس
ٍ ِ ِ
میں ڈال دی جائے اسے قبول کرلیتا ہے ل ٰہذا میں نے چاہا ب َقْب َل أَ ْن ك بِاأل ََد ِ َ -ما أُلْق َي ف َيها ِم ْن َش ْيء قَبِلَْته َ -فبَ َاد ْرتُ َ
کہ تمہیں دل کے سخت ہونے اور عقل کے مشغول ہو ي ْقسو َق ْلبك -وي ْشتغِل لُبُّ ِ
جانے سے پہلے وصیت کردوں تاکہ تم سنجیدہ فکر کے ك ِم َن ك لتَ ْسَت ْقبِ َل جِبِ ِّد َرأْيِ َ َ َُ ُ َ َ َ َ َ
ب بُ ْغيَتَه وجَتْ ِر َبتَه - اك أ َْهل التَّجا ِر ِ
األ َْم ِر َ -ما قَ ْد َك َف َ ُ َ
ساتھ اس امر کو قبول کرلو جس کی تالش اور جس کے
تجربہ کی زحمت سے تمہیں تجربہ کار لوگوں نے بچا
يت ِم ْن ِعاَل ِج ِ يت َمئُونَةَ الطَّلَ ِ ِ
لیا ہے۔اب تمہاری طلب کی زحمت ختم ہوچکی ہے ب -وعُوف َ َفتَ ُكو َن قَ ْد ُكف َ
ِ ِ
اك ِم ْن َذل َ َّج ِربَِة -فَأَتَ َ
اورتمہیں تجربہ کی مشکل سے نجات مل چکی ہے۔
تمہارے پاس وہ حقائق ازخود آگئے ہیں جن کو ہم تالش
كواستَبَا َن لَ َ ك َما قَ ْد ُكنَّا نَأْتيه ْ - الت ْ
ِ
کیا کرتے تھے اور تمہارے لئے وہ تمام باتیں واضح تَي بُيَنَّ إِيِّن وإِ ْن مَلْ أَ ُك ْن عُ ِّم ْر ُ َما ُرمَّبَا أَظْلَ َم َعلَْينَا مْنه أ ْ
ہوچکی ہیں جو ہمارے لئے مبہم تھیں۔ هِلِ ِ
فرزند! اگرچہ میں نے اتنی عمرنہیں پائی جتنی اگلے
ت يِف ت يِف أ َْع َما ْم وفَ َّك ْر ُ عُ ُمَر َم ْن َكا َن َقْبلي َ -ف َق ْد نَظَْر ُ
لوگوں کی ہواکرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال میں َح ِد ِه ْم -بَ ْل ت َكأ َ
ِ
ت يِف آثَا ِره ْم َحىَّت عُ ْد ُ
ِ أ ِ
َخبَا ِره ْم -وس ْر ُ ْ
غور کیا ہے اور ان کے اخبارمیں فکر کی ہے اور ان
کے آثار میںسیرو سیاحت کی ہے اور میں صاف اور گندہ ت َم َع أ ََّوهِلِ ْم إِىَل ِ ِ مِب
َكأَيِّن َا ا ْنَت َهى إِيَلَّ م ْن أ ُُمو ِره ْم -قَ ْد عُ ِّم ْر ُ
ضَر ِره ِ آخ ِر ِهم َ -فعرفْت ص ْفو َذلِ َ ِ ِ
ك م ْن َك َد ِره و َن ْف َعه م ْن َ
کی خوب پہچانتا ہوں۔نفع و ضرر میں امتیاز رکھتا ہوں۔
میں نے ہر امر کی چھان پھٹک کر اس کا خالص نکال ْ ََ ُ َ َ
ِ -فَاستَخلَصت لَ َ ِ
لیا ہے۔اور بہترین تالش کرلیا ہے اور بے معنی چیزوں ك ت لَ َ ك م ْن ُك ِّل أ َْم ٍر خَن يلَه -وَت َو َّخْي ُ ْ ْ ْ ُ
کو تم سے دور کردیا ہے اوری ہ چاہا ہے کہ تمہیں اسی
وقت ادب کی تعلیم دے دوں جب کہ تم عمر کے ابتدائی ث َعنَايِن ِم ْن ت َحْي ُ ورأَيْ ُ ك جَمْ ُهولَه َ - ت َعْن َ وصَرفْ ُمَج يلَه َ
ِ
ِ ِ
يق - أ َْم ِر َك َما َي ْعيِن الْ َوال َد الشَّف َ
حصہ میں ہو اور زمانہ کے حاالت کا سامنا کر رہے ہو۔
تمہاری نیت سالم ہے اورنفس صاف و پاکیزہ ہے اس
لئے کہ مجھے تمہارے بارے میں اتنی ہی فکر ہے جتنی
ایک مہربان باپ کو اپنی اوالد کی ہوتی ہے۔
ِ
ت ُم ْقبِ ُل ت َعلَْيه ِم ْن أ ََدبِ َ
اب میں اپنی تربیت کا آغاز کتاب خدا اور اس کی تاویل ۔
قوانین اسالم اور اس کے احکام حالل و حرام سے کر ك -وأَنْ َ ك أَ ْن يَ ُكو َن َذل َ وأَمْج َ ْع ُ
رہا ہوں اور تمہیں چھوڑ کردوسرے کی طرف نہیں صافِيَ ٍة - س َ يم ٍة و َن ْف ٍ ٍِ ِ
َّه ِر -ذُو نيَّة َسل َ الْعُ ُم ِر ُ
وم ْقتَبَ ُل الد ْ
وج َّل -وتَأْ ِويلِه وأَ ْن أ َْبتَ ِدئَ َ ِ ِ ِ ِ
جانا۔پھر مجھے یہخوف بھی ہے کہ کہیں لوگوں کے
عقائد و افکار و خواہشات کااختالف تمہارے لئے اسی ك بَت ْعلي ِم كتَاب اللَّه َعَّز َ
ُجا ِو ُز ِ ِ وشرائِ ِع ا ِإلساَل ِم وأ ِ
طرح مشتبہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں کے لئے
ہوگیا ہے ل ٰہذا ان کا مستحکم کردینا میری نظرمیں ا سے
وحَرامه -اَل أ َ وحاَل له َ َح َكامه َ ْ ْ ََ
ِ
زیادہ محبوب ہے کہ تمہیں ایسے حاالت کے حوالے ك َ -ما س َعلَْي َ ِ
ت أَ ْن َي ْلتَب َ ك إِىَل َغرْيِ ه -مُثَّ أَ ْش َف ْق ُ ك بِ َ َذل َ
کردوں جن میں ہالکت سے محفوظ رہنے کا اطمینان س اختلَف النَّاس فِيه ِمن أَهوائِ ِهم ِ ِ ِ َّ ِ
نہیں ہے۔اگرچہ مجھے یہ تعلیم دیتے ہوئے اچھا نہیں لگ وآرائه ْم -مثْ َل الذي الْتَبَ َ ْ َْ ْ َ َْ َ ُ
ِ
رہا ہے۔لیکن مجھے امید ہے کہ پروردگار تمہیں نیکی ت ِم ْن َتْنبِي ِه َ
ك ك َعلَى َما َك ِر ْه ُ َعلَْي ِه ْم -فَ َكا َن إِ ْح َك ُام َذل َ
ب إِيَلَّ ِ -م ْن إِ ْساَل ِم َ
کی توفیق دے گا اور سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرے
گا۔اسی بنیاد پر یہ وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔
ك بِهك إِىَل أ َْم ٍر اَل َآم ُن َعلَْي َ َح َّ
لَه أ َ
فرزند! یاد رکھو کہ میری بہترین وصیت جسے تمہیں ك اللَّه فِيه لُِر ْش ِد َك -وأَ ْن ت أَ ْن يُ َو ِّف َق َ ور َج ْو ُ
اهْلَلَ َكةَ َ -
تقوی ٰالہی اختیار کرو اور اس
ٰ اخذ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ
کے فرائض پر اکتفا کرو اوروہ تمام طریقے جن پر ك َو ِصيَّيِت َه ِذه. ت إِلَْي َ
يه ِديك لَِق ِ
صد َك َف َع ِه ْد َُْ َ َ ْ
تمہارے باپ دادا اور تمہارے گھرانے کے نیکج کردار
افراد چلتے رہے ہیں انہیں پر چلتے رہو کہ انہوں نے آخ ٌذ بِه إِيَلَّ ِم ْن َو ِصيَّيِت
ب ما أَنْت ِ
َح َّ َ َ َن أ َ واعلَ ْم يَا بُيَنَّ -أ َّ
ْ
ضه اللَّه َعلَْي َ اِل ِ
ك- ص ُار َعلَى َما َفَر َ َت ْق َوى اللَّه -وا قْت َ
اپنے بارے میں کسی ایسی فکر کونظرانداز نہیںکیا جو
تمہاری نظر میں ہے اور کسی خیال کو فرو گذاشت نہیں
کیا ہے اور اسی فکرونظر نے ہی انہیں اس نتیجہ تک والصاحِلُو َن
ك َّ - ضى َعلَْيه األ ََّولُو َن ِم ْن آبَائِ َ َخ ُذ مِب َا َم َ
واأل ْ
پہنچا یا ہے کہ معروف چیزوں کوحاصل کرلیں اور ال
ك -فَِإن َُّه ْم مَلْ يَ َدعُوا أَ ْن نَظَُروا ألَْن ُف ِس ِه ْم َك َما ِم ْن أ َْه ِل َبْيتِ َ
یعنی چیزوں سے پرہیز کریں۔اب اگر تمہارا نفس ان
آخُر اظر -وفَ َّكروا َكما أَنْت م َف ِّكر -مُثَّ ر َّدهم ِ أَنْ ِ
چیزوں کو بغیر جانے پہچانے قبول کرنے کے لئے تیار َ ُْ ُ َ َ ُ ٌ ت نَ ٌ َ
نہیں ہے تو پھر اس کی تحقیق باقاعدہ علم و فہم کے ساتھ ك إِىَل األَخ ِذ مِب َا عرفُوا -وا ِإلمس ِ ِ
ہونی چاہیے اور شبہات میں مبتال نہیں ہونا چاہیے اك َع َّما مَلْ يُ َكلَّ ُفوا - َْ ََ ْ ذَل َ
ك ُدو َن أَ ْن َت ْعلَ َم َك َما َعلِ ُموا ِ
ك أَ ْن َت ْقبَ َل ذَل َ ت َن ْف ُس َفَِإ ْن أَبَ ْ
ك بَِت َف ُّه ٍم وَتعلُّ ٍم -اَل بَِتو ُّر ِط الشُّبه ِ
ات َ -فْلي ُكن طَلَب ِ
َُ َ َ ك ذَل َ َ ْ َُ
ك بِااِل ْستِ َعانَِة ِ وعلَ ِق اخْل صوم ِ
ات -وابْ َدأْ َقْب َل نَظَ ِر َك يِف َذل َ
اورنہ جھگڑوں کا شکار ہونا چاہیے اور ان مسائل میں
نظر کرنے سے پہلے اپنے پروردگار سے مدد طلب کرو ُ ُُ َ
ك -وَت ْر ِك ُك ِّل َشائِبَ ٍة ِِ ِ
اور توفیق کے ئے اس کی طرف توجہ کرو اور ہر اس والر ْغبَ ِة إِلَْيه يِف َت ْوفيق َ
ك َّ - بِِإهَل َ
شائبہ کو چھوڑ دو جو کسی شبہ میں ڈال دے یا کسی ٍ ٍ
گمراہی کے حوالے کردے ۔پھر اگر تمہیں اطمینان ہو
ت أَ ْن ضاَل لَة -فَِإ ْن أ َْي َقْن َ ك إِىَل َ ك يِف ُشْب َهة أ َْو أ ْ
َسلَ َمْت َ أ َْوجَلَْت َ
جائے کہ تمہارا دل صاف اور خاشع ہوگیا ہے اور كاجتَ َم َع -و َكا َن مَهُّ َ ك فَ ْ ك فَ َخ َش َع -ومَتَّ َرأْيُ َ ص َفا َق ْلبُ َقَ ْد َ
تمہاری رائے تام دکامل ہوگئی ہے اور تمہارے پاس ِ ِ ِ
صرف یہی ایک فکر رہ گئی ہے تو جن باتوں کو میں ك -وإِ ْن مَلْ ت لَ َيما فَ َّس ْر ُ
ك مَهّاً َواحداً -فَانْظُْر ف َ يِف َذل َ
نے واضح کیا ہے ان میں غورو فکر کرنا ورنہ اگر اغ نَظَ ِر َك وفِ ْك ِر َك - ك -و َفَر ِ ب ِم ْن َن ْف ِس َ ك َما حُتِ ُّ جَيْتَ ِم ْع لَ َ
حسب منشاء فکرونظر کا فراغ حاصل نہیں ہوا ہے تو یاد
رکھو کہ اس طرف صرف شبکور اونٹنی کی طرح ہاتھ س َّ
ط الْ َع ْش َواءَ وَتَت َو َّر ُط الظ ْل َماءَ -ولَْي َ َّك إِمَّنَا خَت ْبِ ُ
اعلَ ْم أَن َ
فَ ْ
پیر مارتے رہو گے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہوگے
ك ِ ط -وا ِإل ْم َس ُ ب الدِّي ِن َم ْن َخبَ َ ِ
اور دین کا طلب گار وہ نہیں ہے جواندھیروں میں ہاتھ اك َع ْن ذَل َ ط أ َْو َخلَ َ طَال ُ
پائوں مارے اورباتوں کومخلوط کردے۔اس سے تو أ َْمثَ ُل .
ٹھہرجانا ہی بہتر ہے۔
ك ِ ك الْمو ِ َفت َف َّهم يا ب و ِصيَّيِت -واعلَم أ َّ ِ
فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ جان لو کہ جو
موت کا مالک ہے وہی زندگی کا مالک ہے اور جو خالق
ت ُه َو َمال ُ َن َمال َ َ ْ ْ ْ َ ْ َ ُيَنَّ َ
احْل ي ِاة -وأ َّ ِ
ہے وہی موت دینے واال ہے اور جوفناکرنے واال ے وہی َن الْ ُم ْفيِن َ ُه َو الْ ُمعِ ُ
يد يت -وأ َّ ِ
َن اخْلَال َق ُه َو الْ ُمم ُ ََ
دوبارہ واپس النے واال ہے اور جو مبتال کرنے واال ہے
وہی عافیت دینے واال ہے اور یہ دنیا اسی حالت میں
الد ْنيَا مَلْ تَ ُك ْن لِتَ ْستَ ِقَّر -
َن ُّ َن الْ ُمْبتَلِي ُه َو الْ ُم َعايِف -وأ َّ
َ
وأ َّ
مستقررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قراردیا ہے یعنی إِاَّل َعلَى َما َج َعلَ َها اللَّه َعلَْيه ِم َن الن َّْع َم ِاء وااِل بْتِاَل ِء -واجْلََز ِاء
نعمت ،آزمائش ،آخرت کی جزا یا وہ بات جو تم نہیں مِم ِ
جانتے ہو۔اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ ك يِف الْ َم َعاد -أ َْو َما َشاءَ َّا اَل َت ْعلَ ُم -فَِإ ْن أَ ْش َك َل َعلَْي َ
ِ
آئے تو اس اپنی جہالت پر محمول کرنا کہ تم ابتدا میں
جب پیدا ہو ئے ہو تو جاہل ہی پیداہوئے ہو بعد میں علم
ك -فَِإن َ
َّك أ ََّو ُل َما ك فَامْحِ ْله َعلَى َج َهالَتِ َ َش ْيءٌ ِم ْن ذَل َ
ِ ِ
حاصل کیا ہے اور اسی بنا پر مجہوالت وما أَ ْكَثَر َما جَتْ َه ُلتَ - ت بِه َجاهاًل مُثَّ عُلِّ ْم َ ُخل ْق َ
ض ُّل فِيه بصر َك مُثَّ ُتب ِ ك -وي ِ ِ ِ
م َن األ َْم ِر َ
کی تعداد کثیر ہے جس میں انسانی رائے متحیر رہ جاتی
ہے اورنگاہ بہک جاتی ہے اوربعد میں صحیح حقیقت
صُره ْ َ َُ ويتَ َحَّيُر فيه َرأْيُ َ َ
بع َد َذلِك فَاعت ِ ِ
نظر آتی ہے۔لہٰ ذا اس مالک سے وابستہ رہو جس نے پیدا وس َّو َاك -
ك َ ور َزقَ َ
ك َ ص ْم بِالَّذي َخلَ َق َ َ ْ َ َْ
کیا ہے۔روزی دی ہے اورمعتدل بنایا ہے۔اسی کی عبادت
ك. ومْنه َش َف َقتُ َك ِ ولْيَ ُك ْن لَه َت َعبُّ ُد َك -وإِلَْيه َر ْغبَتُ َ
کرو' اسی کی طرف توجہ کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔
بیٹا! یہ یاد رکھو کہ تمہیں خدا ے بارے میں اس طرح َحداً مَلْ يُْنبِ ْئ َع ِن اللَّه ُسْب َحانَه َ -ك َما أَْنبَأَ َن أ َ واعلَ ْم يَا بُيَنَّ أ َّ
ْ
کی خبریں کوئی نہیں دے سکتا ہے جس طرح رسول
اکرم (ص) نے دی ہیں لہٰ ذا ان کو بخوشی اپنا پیشوا اور ض بِه َرائِداً وإِىَل ول صلىهللاعليهوآلهوسلم -فَ ْار َ الر ُس ُ َعْنه َّ
راہ نجات کا قائد تسلیم کرو۔میں نے تمہاری نصیحت میں
يحةً -وإِن َ
َّك لَ ْن َتْبلُ َغ يِف النَّج ِاة قَائِداً -فَِإيِّن مَل آلُ َ ِ
کوئی کمی نہیں کی ہے اور نہ تم کوشش کے باوجود ك نَص َ ْ َ
ِ
اپنے بارے میں اتنا سوچ سکتے ہو جتنا میں نے دیکھ لیا ك.ت َمْبلَ َغ نَظَ ِري لَ َ اجَت َه ْد َ
ِ
ك -وإِن ْ النَّظَ ِر لَن ْف ِس َ
ہے۔
ك َش ِر ٌ ِ
فرزند ! یاد رکھو اگر خدا کے لئے کوئی شریک بھی ك ُر ُسلُه - يك ألََتْت َ واعلَ ْم يَا بُيَنَّ -أَنَّه لَ ْو َكا َن لَربِّ َْ
ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت
اورحکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے وص َفاتِه - ولَرأَيت آثَار م ْل ِكه وس ْلطَانِه -ولَعرفْت أَْفعالَه ِ
ََ َ َ ُ ََْ َ ُ
افعال وصفات کاب ھی کچھ پتہ ہوتا۔لیکن ایسا کچھ نہں ض ُّاده يِف ُم ْل ِكه ف َن ْف َسه -اَل يُ َ ص َ
ِ
ولَكنَّه إِلَه َواح ٌد َك َما َو َ
ِ
ہے ل ٰہ ذا خدا ایک ہے جیسا کہاس نے خود بیان کیا ہے۔
اس کے ملک میں اس سے کوئی ٹکرانے واال نہیں ہے ول أَبَداً ومَلْ َيَز ْل -أ ََّو ٌل َقْب َل األَ ْشيَ ِاء بِاَل أ ََّولِيَّ ٍة َح ٌد واَل َيُز ُ أَ
ِ هِن ٍ ِ
-وآخٌر َب ْع َد األَ ْشيَاء بِاَل َايَة َ -عظُ َم َع ْن أَ ْن َتثْبُ َ
اور نہاس کے لئے کسی طرح کا زوال ہے۔وہ اولیت کی
حدوں کے بغیر سب سے اول ہے اور کسی انتہا کے
ت
ب أَو بص ٍر -فَِإذَا عرفْ ِ ِ
بغیر سب سے آخرتک رہنے واال ہے وہ اس بات سے ك فَا ْف َع ْل - ت ذَل َ ََ َ ُربُوبِيَّتُه بِِإ َحاطَة َق ْل ٍ ْ َ َ
عظیم تر ہے کہ اس کی ربوبیت کا اثبات فکرو نظر کے
احاطہ سے کیاجائے اگرتم نے اس حقیقت کو پہچان لیا ك أَ ْن َي ْف َعلَه يِف ِصغَ ِر َخطَ ِره -وقِلَّ ِة ِ ِ
َك َما َيْنبَغِي ل ِمثْل َ
اجتِه إِىَل ربِّه يِف طَلَ ِ م ْق ِدرتِه و َك ْثر ِة عج ِزه ِ -
ب وعظي ِم َح َ
ہے تو اس طرح عمل کرو جس طرحتم جیسے معمولی
حیثیت ' قلیل طاقت ' کثیر عاجزی اور پروردگار کی َ َ َ َْ َ َ
طرف اطاعت کی طلب' عتاب اعتِه -واخْلَ ْشيَ ِة ِم ْن عُ ُقوبَتِه - طَ َ
والش َف َق ِة ِم ْن ُس ْخ ِطه فَِإنَّه مَلْ يَأْ ُم ْر َك إِاَّل حِب َ َس ٍن -ومَلْ َيْن َه َ
کے خوف اورناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے ك َّ
والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیز کاحکم اطاعت کی
طلب ' عتاب کے خوفاور ناراضگی کے اندیشہ میں يح.إِاَّل َع ْن قَبِ ٍ
حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیزکا
حکم دیا ہیوہ بہترین ہے اورجس سے منع کیا ہے وہ بد وز َواهِلَا وانْتِ َقاهِلَا
وحا َا َ -
الد ْنيا هِل
ك َع ِن ُّ َ َ يَا بُيَنَّ إِيِّن قَ ْد أَْنبَأْتُ َ
ترین ہے۔ ِ ِ ِ ِ
فرزند! میں تمہیں دنیا۔اس کے حاالت ۔ تصرفات ،زوال توضَربْ ُ وما أُع َّد أل َْهل َها ف َيها َ - ك َع ِن اآلخَر ِة َ -وأَْنبَأْتُ َ
اور انتقال سب کے بارے میں با خبر کردیا ہے ك فِي ِه َمااأل َْمثَ َال -لَِت ْعتَرِب َ هِبَا وحَتْ ُذ َو َعلَْي َها -إِمَّنَا َمثَ ُل َم ْن لَ َ
اورآخرت اور ا س میں صاحبان ایمان کے لئے مہیا
ِ هِبِ ٍ
نعمتوں کا بھی پتہ بتادیاہے اور دونوں کے لئے مثالیں يب - الد ْنيَا َك َمثَ ِل َق ْوم َس ْف ٍر َ -نبَا ْم َمْن ِز ٌل َجد ٌ َخَبَر ُّ
بیان کردی ہیںتاکہ تم عبرت حاصل کرس کو اور اس سے ِ
ہوشیار رہو۔ احتَ َملُوا َو ْعثَاءَوجنَاباً َم ِريعاً -فَ ْ فَأ َُّموا َمْن ِزاًل َخصيباً َ
اق َّ ِ الطَِّر ِيق وفَِر َ
یاد رکھو کہ جس نے دنیا کو بخوبی پہچان لیا ہے اس کی الس َف ِر ُ
وج ُشوبَةَ وخ ُشونَةَ َّ الصد ِيق ُ -
مثال اس مسافر قوم جیسی ہے۔جس کاحقط زدہ منزل سے ِِ
س املطْ َع ِم -لِيَأْتُوا َس َعةَ َدا ِر ِه ْم َ ِ
دل اچاٹ ہوجائے اوروہ کسی سرسبز و شاداب عالقہ کا ومْنز َل َقَراره ْم َ -فلَْي َ
ارادہ کرے اورزحمت راہ۔فراق احباب ' دشواری سفر ' ك أَلَماً -واَل َيَر ْو َن َن َف َقةً فِيه َم ْغَرماً جَيَِ ُدو َن لِشي ٍء ِمن ذَلِ
بدمزگی اطعام وغیرہ جیسی تمام مصیبتیں برداشت کرلے
َْ ْ َ
هِلِ ِ مِم
تاکہ وسیع گھر اور قرار کی منزل تک پہنچ جائے کہ اه ْمب إِلَْي ِه ْم َّا َقَّر َب ُه ْم م ْن َمْن ِز ْم -وأ َْدنَ ُ َح ُّ -واَل َش ْيءَ أ َ
ایسے لوگ ان تمام باتوں میں کسی تکلیف کا احساس
ِم ْن حَمَلَّتِ ِه ْم.
نہیں کرتے اور نہ اس راہ میں خرچ کو نقصان تصور
کرتے ہیں اور ان کی نظر میں اس سے زیادہ محبوب يب َ -فنَبَا ص ٍ ومثَل م ِن ا ْغَتَّر هِب ا َكمثَ ِل َقوٍم َكانُوا مِب َْن ِز ٍل خ ِ
َ َ َ ْ َ َُ
کوئی شے نہیں ہ جو انہیں منزل سے قریب تر کردے
يبهِبِم إِىَل َمْن ِز ٍل َج ِد ٍ
اور اپنے مرکز تک پہنچادے ۔ ْ
اوراس دنیا سے دھوکہ کھاجانے والوں کی مثال اس قوم
کی ہے جو سرسبز و شاداب مقام پر رہے اور وہاں سے
دالچٹ جائے تو قحط زدہ عالقہ کی طرف چلی جائے
کہ اس کی نظرمیں قدیم حاالت کے چھٹ جانے سے س َش ْيءٌ أَ ْكَره إِلَْي ِه ْم واَل أَفْظَ َع ِعْن َد ُه ْم ِ -م ْن ُم َف َارقَ ِة َ -فلَْي َ
زیادہ نا گوار اوردشوار گذار کوئی شے نہیں ہے کہ اب
صريُو َن إِلَْيه. ما َكانُوا فِيه -إِىَل ما يهجمو َن علَيه وي ِ
جس منزل پروارد ہوئے ہیں اور جہاں تک پہنچے ہیں وہ َ َْ ُ ُ َ ْ َ َ
کسی قیمت پر اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔ يا ب اجعل َن ْفس ِ ِ
بیٹا! دیکھو اپنے اورغیرکے درمیان میزان اپنے نفس کو وبنْي َ َغرْيِ َك -ك َ يما َبْينَ َك م َيزاناً ف َ َ ُيَنَّ ْ َ ْ َ َ
ِ ب لِغَرْيِ َك َما حُتِ ُّ
ب لَن ْف ِس َ َحبِ ْ
قرار دو اور دوسرے کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے ك -وا ْكَره لَه َما تَكَْره هَلَا -
لئے پسند کرسکتے ہو اور اس کے لئے بھی وہ بات نا فَأ ْ
پسند کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو۔کسی پر ظلم ب أَ ْن َح ِس ْن َك َما حُتِ ُّ ب أَ ْن تُظْلَ َم -وأ ْ واَل تَظْلِ ْم َك َما اَل حُتِ ُّ
نہ کرناکہ اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے ہو اور ہرایک
کے ساتھ نیکی کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے
ك َما تَ ْسَت ْقبِ ُحه ِم ْن َغرْيِ َك واسَت ْقبِ ْح ِم ْن نَ ْف ِس َ
كْ - حُيْ َس َن إِلَْي َ
ساتھ نیک برتائو کریں اور جس چیز کو دوسرے سے ك -واَل َت ُق ْل ضاه هَلُ ْم ِم ْن َن ْف ِس َ ض ِم َن الن ِ
َّاس مِب َا َت ْر َ وار َْ -
برا سمجھتے ہواسے اپنے لئے بھی برا ہی تصور کرنا۔
لوگوں کی اس بات سے راضی ہو جانا جس سے اپنی ب أَ ْن َما اَل َت ْعلَ ُم وإِ ْن قَ َّل َما َت ْعلَ ُم -واَل َت ُق ْل َما اَل حُتِ ُّ
بات سے لوگوں کو راضی کرنا چاہتے ہو۔بال علم کوئی ك.
بات زبان سے نہ نکالنا اگرچہ تمہارا علم بہت کم ہے اور
يُ َق َال لَ َ
اب وآفَةُ األَلْب ِالصو ِ ِ
َن ا ِإل ْع َج َ
کسی کے بارے میں وہ بات نہ کہنا جو اپنے بارے میں واعلَ ْم أ َّ
پسند نہ کرتے ہو۔
اس َعاب -فَ ْ َ اب ض ُّد َّ َ ْ
يت يِف َك ْد ِحك واَل تَ ُكن خا ِزناً لِغَ ِ َك -وإِ َذا أَنْ ِ
یاد رکھو کہ خود پسندی راہ صواب کے خالف اورعقلوں ت ُهد َ َ رْي ْ َ َ
کی بیماری ہے لہٰ ذا اپنی کوشش تیز تر کرواور اپنے مال
ك. ِ لَِق ِ
کودوسروں کے لئے ذخیرہ نہ بنائو اور اگر درمیانی َخ َش َع َما تَ ُكو ُن لَربِّ َ
صد َك فَ ُك ْن أ ْ ْ
وم َشق ٍَّة َش ِد َ
يد ٍة َن أَمامك طَ ِريقاً َذا مسافَ ٍة بعِ َ ٍ
راستہ کی ہدایت مل جائے تو اپنے رب کے سامنے سب
سے زیادہ خضو ع و خشوع سے پیش آنا۔ يدة َ - ََ َ واعلَ ْم أ َّ َ َ َ ْ
اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے وہ راستہ ہے جس کی ك فِيه َع ْن ُح ْس ِن ااِل ْرتِيَ ِاد -وقَ ْد ِر -وأَنَّه اَل ِغىَن بِ َ
الز ِاد
مسافت بعید اورمشقت شدید ہے اس میں تم بہترین زاد راہ
کی تالش اوربقدر ضرورت زاد راہ کی فراہمی سے ك ِم َن َّ بَاَل ِغ َ
َّة الظَّ ْه ِر -فَاَل حَتْ ِملَ َّن َعلَى ظَ ْه ِر َك َف ْو َق طَاقَتِ َ مع ِخف ِ
بے نیاز ہو سکتے ہو۔البتہ بوجھ ہلکا رکھو اور اپنی ك-
طاقت سے زیادہ اپنی پشت پر بوجھ مت الدو کہ یہ گراں ََ
ت ِم ْن أ َْه ِل ِ
باری ایک و بال بن جائے ۔اور پھر جب کوئی فقیر مل ك -وإِ َذا َو َج ْد َ ك َوبَااًل َعلَْي َ َفيَ ُكو َن ثِْق ُل َذل َ
ِ ِ ِ
ك َز َاد َك إِىَل َي ْوم الْقيَ َام ِة َ -فُي َواف َ الْ َفاقَِة َم ْن حَيْ ِم ُل لَ َ
جائے اور تمہارے زاد راہ کو قیامت تک پہنچا سکتا ہو
اور کل وقت ضرورت مکمل طریقہ سے تمہارے حوالے
يك بِه
کر سکتا ہو تو اسے غنیمت سمجھو اورمال اسی کے اج إِلَْيه -فَا ْغتَنِ ْمه ومَحِّْله إِيَّاه -وأَ ْكثِْر ِم ْن ث حَتْتَ ُ َغداً َحْي ُ
حوالے کردو اور زیادہ سے زیادہ اس کو دے دو کہ شائد
ك تَطْلُبُه فَاَل جَتِ ُده - يده وأَنْ ِ َتز ِو ِ
بعد میں تالش کرو اور وہ نہ مل سکے اور اسے بھی ت قَادٌر َعلَْيه َ -فلَ َعلَّ َ َ ْ
ك يِف ح ِال ِغن َ ِ ِ
وا ْغتَن ْم َم ِن ْ
غنیمت سمجھو جو تمہاری دولت مندی کے دورمیں تم ك
سے قرض مانگے تاکہ اس دن ادا کردے جب تمہاری ضاءَه لَ َ اك -ليَ ْج َع َل قَ َ ض ََ َ / اسَت ْقَر َ
ِ
غربت کا دن ہو۔ ك.يِف َي ْوم عُ ْسَرتِ َ
اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے بڑی دشوار گزار منزل
َن أَمامك ع َقبةً َكئوداً -الْم ِخ ُّ ِ
ہے جس میں ہلکے بوجھ واال سنگین بار والے سے کہیں َح َس ُن ف ف َيها أ ْ ُ واعلَ ْم أ َّ َ َ َ َ َ ُ ْ
زیادہ بہتر ہوگا اوردھیرے چلنے واال تیزرفتار سے کہیں
زیادہ بدحال ہوگا اور تمہاری منزل بہرحال جنت یا جہنم
ِع - َحااًل ِم َن -والْ ُمْب ِط ُئ َعلَْي َها أَْقبَ ُح َحااًل ِم َن الْ ُم ْسر ِ
ہے ل ٰہذا اپنے نفس کے لئے منزل سے پہلے جگہ تالش ك هِبَا اَل حَمَالَةَ -إِ َّما َعلَى َجن ٍَّة أ َْو َعلَى نَا ٍر - َن َم ْهبِطَ َ
وأ َّ
کرلو اور ورود سے پہلے اسے ہموار کرلو کہ موت کے ِ ِ ِ
بعد نہ خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی امکان ہوگا اور ك- ووطِّ ِئ الْ َمْن ِز َل َقْب َل ُحلُول َ ك َ ك َقْب َل نُُزول َ فَ ْارتَ ْد لَن ْف ِس َ
ف. صَر ٌ ب واَل إِىَل ُّ ِ
الد ْنيَا ُمْن َ س َب ْع َد الْ َم ْوت ُم ْسَت ْعتَ ٌ َفلَْي َ
نہ دنیا میں واپس آنے کا۔
یاد رکھو کہ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کے تمام
ض -قَ ْد أ َِذ َن ات واأل َْر ِ السماو ِ ِ واعلَم أ َّ َّ ِ ِ ِ
خزانے ہیں اسنے تم کو دعا کرنے کا حکم دیا ہے َن الذي بيَده َخَزائ ُن َّ َ َ ْ ْ
اورقبولیت کی ضمانت دی ہے اور تمہیں مامور کیا ہے ِ
کہ تم سوال کرو تاکہ وہ عطا کرے اور تم طلب رحمت ك بِا ِإل َجابَِة وأ ََمَر َك أَ ْن تَ ْسأَلَه َّل لَ َ
ُّعاء -وتَ َكف َ ك يِف الد َ لَ َ
مِح ِ ِ
کرو تاکہوہ تم پر رحم کرے اس نے تمہارے اور اپنے
درمیان کوئی حاجب نہیں رکھا ہے اور نہ تمہیں کسی
وبْينَه َم ْن ك َ ك،ومَلْ جَيْ َع ْل َبْينَ َ ك -وتَ ْسَتْر َه /لَي ْرمَحَ َ لُي ْع ِطيَ َ
ك إِلَْيه ِ
سفارش ك إِىَل َم ْن يَ ْش َف ُع لَ َ ك َعْنه -ومَلْ يُْلجْئ َ حَيْ ُجبُ َ
الن ْق َم ِة - ِ
ك بِ ِّ ت ِم َن الت َّْوبَِة -ومَلْ يُ َعاج ْل َ ومَلْ مَيَْن ْع َ ِ
کرنے والے کا محتاج بنایا ہے ۔گناہ کرنے کی صورت
میں توبہ سے بھی نہیں روکا ہے اور عذاب میں جلدی َسأْ َ
ك إ ْن أ َ
يحةُ بِ َ ك حي ُ ِ ِ
بھی نہیں کی ہے اور توبہ کرنے پر طعنے بھی نہیں دیتا ك ث الْ َفض َ ض ْح َ َ ْ ومَلْ يُ َعِّي ْر َك بِا ِإلنَابَة ومَلْ َي ْف َ
ہے اور تمہیں رسوابھی نہیں کرتا ہے اگر تم اس کے ِ
حقدار ہو۔اس نے توبہ قبول کرنے میں بھی کسی سختی كول ا ِإلنَابَِة -ومَلْ يُنَاق ْش َ ك يِف َقب ِ
ِّد َعلَْي َ ُ أ َْوىَل -ومَلْ يُ َشد ْ
كوع َ ِ بِاجْل ِرميَِة -ومَل ي ْؤيِس َ ِ
ك م َن الرَّمْح َة -بَ ْل َج َع َل نُُز َ
سے کام نہیں لیا ہے اور جرائم پر سخت محاسبہ کرکے
رحمت سے مایوس بھی نہیں کیا ہے بلکہ گناہوں سے ُْ ْ َ
ب ِ الذنْ َِع ِن َّ
علیحدگی کو بھی ایک حسنہ بنادیا ہے اور پھرب رائی وح َس َ ك َواح َد ًة َ - ب َسيِّئَتَ َ وح َس َ ب َح َسنَةً َ -
میں ایککو ایک شمار کیا ہے اورنیکیوں میں ایک کو
اب ِ
دس بنادا ہے۔توبہ اور طلب رضا کا دروازہ کھول دیا ہے اب الْ َمتَاب وبَ َ ك بَ َ ك َع ْشراً -و َفتَ َح لَ َ َح َسنَتَ َ
کہ جب بھی آواز دو فوراً سن لیتا ہے اور جب مناجات اجْيتَه َعلِ َم ِ ِ ِ اِل ِ ِ ِ
ا ْست ْعتَاب -فَإ َذا نَ َاد ْيتَه مَس َع ن َد َاك -وإ َذا نَ َ
کرو تو اس سے بھی با خبر رہتا ہے تم اپنی حاجتیں اس
کے حوالے کر سکتے ہو۔اسے اپنے حاالت بتا سکتے ہو كات َن ْف ِس َ ك -وأ َْبثَثْتَه َذ َ اجتِ َ ضي ِ حِب
ت إلَْيه َ َ جَنْ َو َاك -فَأَفْ َ ْ َ
واسَت َعْنتَه
ك ْ ْش ْفتَه ُكُروبَ َواستَك َ كْ - وم َ وش َكو َ ِ
ت إلَْيه مُهُ َ
۔اپنے رنج و غم کی شکایت کر سکتے ہو۔ اپنے حزن و
الم کے زوال کا مطالبہ کرس کتے ہو۔انپے امور میں مدد َ ْ
مانگ سکتے ہو اور اس کے خزانہ رحمت سے اتنا وسأَلْتَه ِم ْن َخَزائِ ِن َرمْح َتِه َما اَل َي ْق ِد ُر َعلَى َعلَى أ ُُمو ِر َك َ -
وس َع ِة ِ ِ ِ
ِ
َع َما ِر وص َّحة األَبْ َدان َ - إِ ْعطَائِه َغْيُره ِ -م ْن ِزيَ َادة األ ْ
سوال کر سکتے ہو جتنا کوئی دوسرا بہرحال نہیں دے
سکتا ہے چاہے وہ عمر میں اضافہ ہو یا بدن کی صحت
ِ
یا رزق کی وسعت۔اس کے بعد اس نے دعا کی اجازت كيح َخَزائِنِه -مِب َا أَذ َن لَ َ األَرز ِاق -مُثَّ جعل يِف ي َدي َ ِ
ك َم َفات َ ََ َ َ ْ َْ
دے کر گویا خزائن رحمت کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں فِيه ِمن مسأَلَتِه -فَم ِشئت است ْفتحت بِالد ِ
دے دی ہیں کہ جب چاہو ان کنجیوں سے نعمت کے اب
ُّعاء أ َْب َو َ َ ىَت ْ َ ْ َ َ ْ َ َ َْْ
َّك ِ
يب َرمْح َته -فَاَل يُ َقنِّطَن َ ِ ِ ِ
ت َشآب َ واستَ ْمطَْر َ
ن ْع َمته ْ -
دروازے کھول سکتے ہواور رحمت کی بارشوں کو برسا
سکتے ہو۔لہٰ ذا خبردار قبولیت کی تاخیرتمہیں مایوس نہ
ت ورمَّبَا أ ِّ إِبطَاء إِجابتِه -فَِإ َّن الْع ِطيَّةَ علَى قَ ْد ِر ِّ ِ
کردے کہ عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہوا کرتا ہے اور کبھی ُخَر ْ النيَّة ُ - َ َ ْ ُ ََ
کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیر کردی جاتی ہے کہ اس السائِ ِل -
َج ِر َّ ِ ِ
میں سائل کے اجرمیں اضافہ ك أ َْعظَ َم أل ْ ك ا ِإل َجابَةُ ليَ ُكو َن َذل َ َعْن َ
ِ ِ ِ
َجَز َل ل َعطَاء اآلم ِل ُ -
اور امیدوا ر کے عطیہ میں زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے
اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کا سوال کرو اور وہ نہ
َّيءَ فَاَل ُت ْؤتَاه -ت الش ْ ورمَّبَا َسأَلْ َ وأ ْ
ملے لیکن اس کے بعد جلد یا بدیر اس سے بہتر مل ك لِ َما ف َعْن َص ِر َ ِ ِ ِ
يت خَرْي اً مْنه َعاجاًل أ َْو آجاًل -أ َْو ُ
ِ
وأُوت َ
ِ ِ
ب أ َْم ٍر قَ ْد طَلَْبتَه فيه َهاَل ُك دينِ َ
جائے یا اسے تمہاری بھالئی کے لئے روک دیا گیا ہو۔
اس لئے کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو تم نے
ك لَ ْو ك َ -فلَُر َّ ُه َو َخْيٌر لَ َ
ك مَجَالُه -ويُْن َفى أُوتِيته َ -ف ْلت ُكن مسأَلَت ِ
طلب کیا ہے وہاگر مل جائے تو دین کی بربادی کاخطرہ يما َيْب َق لَ َ
كفَ َ َْْ َُ َ
ہے۔ل ٰہذا اسی چیز کا سوال کرو جس میں تمہارا حسن
باقی رہے اور تم وبال سے محفوظ رہو۔مال نہ باقی رہنے ك واَل َتْب َقى لَه.ال اَل َيْب َقى لَ َ ك َوبَالُه -فَالْ َم َُعْن َ
واال ہے اور نہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔
فرزند ! یاد رکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا لد ْنيَا -ولِْل َفنَ ِاء آلخَر ِة اَل لِ ُّ
َّك إِمَّنَا خلِ ْقت لِ ِ
ُ َ واعلَ ْم يَا بُيَنَّ أَن َ
ْ
ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایا گیا ہے دنیا ِ ِ ِ ِ ِ
اَل ل ْلب َقاء ول ْلمو ِ
میں باقی رہنے کے لئے نہیں ۔تمہاری تخلیق موت کے ودا ِر بُْلغَ ٍة ٍ
َّك يِف ُق ْل َعة َ ت اَل ل ْل َحيَاة -وأَن َ َْ َ
ِ ِ -وطَ ِر ٍيق إِىَل ِ
لئے ہوئی ہے زندگی کے لئے نہیں اورتم اس گھر میں ہو
جہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت
يد الْ َم ْوت الَّذي اَل اآلخَر ِة -وأَن َ
َّك طَ ِر ُ
سامان فراہم کرنا ہے۔اور تم آخرت کے راستہ پر ہو۔موت َيْن ُجو ِمْنه َها ِربُه -واَل َي ُفوتُه طَالِبُه واَل بُ َّد أَنَّه ُم ْد ِر ُكه
مہارا پیچھا کئے ہوئے ہے جس سے کوئی بھاگنے واال
ت َعلَى َح ٍال َسيِّئَ ٍة - ك وأَنْ َ فَ ُك ْن ِمْنه َعلَى َح َذ ِر أَ ْن يُ ْد ِر َك َ
بچ نہیں سکتا ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا
ہے۔وہ بہر حال اسے پالے گی۔لہٰ ذا اس کی طرف سے كول َبْينَ َك ِمْن َها بِالت َّْوبَِة َ -فيَ ُح َ ِّث َن ْف َس َت حُتَد ُ قَ ْد ُكْن َ
ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں کسی برے حال میں پکڑ لے ِ
اورتم خالی توبہ کے لئے سوچتے ہی رہ جائو اور وہ ك. ْت َن ْف َس َ
ت قَ ْد أ َْهلَك َ ك -فَِإ َذا أَنْ َ وبنْي َ َذل ََ
تمہارے اور توبہ کے درمیان حائل ہو جائے کہ اس ذكر الموت
طرح گویا تم نے اپنے نفس کو ہالک کردیا۔
ت ِ
وذ ْك ِر َما َت ْه ُج ُم َعلَْيه - يا ب أَ ْكثِر ِمن ِذ ْك ِر الْمو ِ
فرزند! موت کو برابر یاد کرتے رہو اور ان حاالت کو َْ َ ُيَنَّ ْ ْ
ضي بع َد الْمو ِ
ت إِلَْيه َ -حىَّت يَأْتِيَ َ ِ
یاد کرتے رہو جن پراچانک وارد ہونا ہے اور جہاں تک
موت کے بعد جانا ہے تاکہ وہ تمہارے پاس آئے
ك و ُت ْف َ ْ َ ْ
ت ِمْنه ِح ْذ َر َك َ -
تو تم احتیاطی سامان کرچکے ہو اور اپنی طاقت کو
ت لَه أ َْز َر َك -واَل وش َد ْد َ َخ ْذ َ وقَ ْد أ َ
مضبوط بنا چکے ہو اور وہ اچانک آکر تم پرقبضہ نہ
کرلے اور خبردار اہل دنیا کو دنیا کی طرف جھکتے اور اك أَ ْن َت ْغَتَّر مِب َا َتَرى ِم ْن إِ ْخاَل ِد ك َب ْغتَةً َفيَْب َهَر َك -وإِيَّ َ يَأْتِيَ َ
اس پرمرتے دیکھ کرتم دھوکہ میں نہ آجانا کہ پروردگار
تمہیں اس کے بارے میں بتا چکا ہے اور وہ خود بھی
الد ْنيَا إِلَْي َها -وتَ َكالُبِ ِه ْم َعلَْي َها َف َق ْد َنبَّأ ََك اللَّه َعْن َها -
أ َْه ِل ُّ
ك َع ْن َم َسا ِو َيها ِ و َنع ِ
اپنے مصائب سنا چکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح ت لَ َ ك َع ْن َن ْفس َها وتَ َك َّش َف ْ ت ه َي لَ َ َْ
کر چکی ہے۔دنیا دار افراد صرف بھونکنے والے کتے
ِ ِ
اورپھاڑ کھانے والے درندے ہیں جہاں ایک دوسرے پر ض َهاضا ِريَةٌ -يَ ِهُّر َب ْع ُ ب َعا ِويَةٌ وسبَاعٌ َ -فَِإمَّنَا أ َْهلُ َها كاَل ٌ
صغِ َري َها ِ
وي ْق َهُر َكبِريُ َها َ ض ويَأْ ُك ُل َع ِز ُيز َها َذليلَ َها َ - َعلَى َب ْع ٍ
بھونکتا ہے اور طاقت واال کمزور کو کھا جاتا ہے اور
بڑا چھوٹے کو کچل ڈالتا ہے۔یہ سب جانور ہیں جن میں
بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض وارہ جنہوں نے اپنی ت عُ ُقوهَلَا َضلَّ ْ
ُخَرى ُم ْه َملَةٌ -قَ ْد أ َ َ -ن َع ٌم ُم َع َّقلَةٌ وأ ْ
عقلیں گم کردی ہیں اور نا معلوم راستہ پر چل پڑے ہیں۔
س هَلَا ت جَمْهوهَل ا -سروح ع ٍ ِ ٍ ٍ ِ
گویا دشوار گذار وادیوں میں مصیبتوں میں چرنے والے اهة ب َواد َو ْعث ،لَْي َ ُُ ُ َ َ وركبَ ْ ُ َ َ
هِبِ
ت ُم ُّ
الد ْنيَا ِ ِ ِ
ہیں جہاں نہ کوئی چرواہا ہے جو سیدھے راستہ پر لگا يم َها َ -سلَ َك ْ يم يُس ُ يم َها واَل ُمس ٌ اع يُق ُ َر ٍ
سکے اور نہکوئی چرانے واال ہے جو انہیں چرا سکے۔
دنیا نے انہیں گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا ہے اور ان صا ِر ِه ْم َع ْن َمنَا ِر اهْلَُدى - ت بِأَبْ َ َخ َذ ْ
يق الْ َع َمى -وأ َ طَ ِر َ
ِ ِ هِت
اهوا يِف َحْيَر َا و َغ ِرقُوا يِف ن ْع َمت َها -واخَّتَ ُذ َ
کی بصارت کو منارہ ٔ ہدایت کے مقابلہ میں سلب کرلیا
ہے اوروہ حیرت کے عالم میں سر گرداں ہیں
وها َربّاً َفتَ ُ
اورنعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔دنیا کو اپنا معبود بنالیا ت هِبِ ْم ولَعِبُوا هِبَا -ونَ ُسوا َما َو َراءَ َها. ِ
َفلَعبَ ْ
ہے اوروہ ان سے کھیل رہی ہے اوروہ اس سے کھیل
روہے ہیں اور سب نے آخرت کو یکسر بھال دیا ہے۔ الترفق في الطلب
ٹھہرو! اندھرے کو چھٹنے دو۔ایسا محسوس ہوگا جیسے ت األَظْ َعا ُن - رويداً يس ِفر الظَّاَل م َ -كأَ ْن قَ ْد ورد ِ
قافلے آخرت کی منزل میں اتر چکے ہیں اور قریب ہے َََ ُ َُْ ُ ْ ُ
ع أَ ْن َيْل َح َق ي ِ
کہ تیز رفتار افراد اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائیں۔ َسَر َ
ك َم ْن أ ْ وش ُ ُ
فرزند ! یاد رکھو کہ جو شب و روز کی سواری پر سوار
َّه َار -فَِإنَّه َن من َكانَ ِ
ہے وہ گویا سر گرم سفر ہے چاہے ٹھہرا ہی کیوں نہ ت َمطيَّتُه اللَّْي َل والن َ
ْ واعلَ ْم يَا بُيَنَّ -أ َّ َ ْ
ْ
يُ َس ُار بِه وإِ ْن َكا َن َواقِفاً
رہے اور مسافت قطع کررہا ہے چاہے اطمینان سے مقیم وي ْقطَ ُع الْ َم َسافَةَ وإِ ْن َكا َن ُم ِقيماً َو ِادعاً . َ
ہی کیوں نہ رہے۔یہ بات یقین کے ساتھ سمجھ لو کہ تم نہ
ِ
ہر امید کو پا سکتے ہو اور نہ اجل سے آگے جاسکتے ہو ك -وأَن َ
َّك َجلَ َك ولَ ْن َت ْع ُد َو أ َ واعلَ ْم يَقيناً أَن َ
َّك لَ ْن َتْبلُ َغ أ ََملَ َ ْ
تم اگلے لوگوں کے راستہ ہی پر چل رہے ہو ل ٰہذا طلب ب وأَمْجِ ل يِف ِّض يِف الطَّلَ ِ ك -فَ َخف ْ يِف َسبِ ِيل َم ْن َكا َن َقْبلَ َ
میں نرم رفتاری سے کام لو اور کسب معاش میں میانہ ْ
س ٍ ِ ب -فَِإنَّه ر َّ ٍ الْمكْتَس ِ
ب طَلَب قَ ْد َجَّر إىَل َحَرب -ولَْي َ
روی اختیار کرو۔ورنہ بہت سی طلب انسان کو مال کی
محرومی تک پہنچا دیتی ہے اور ہر طلب کرنے واال
ُ ُ َ
ٍ مِب ِ
ُك ُّل طَالب َْر ُزوق -واَل ُك ُّل جُمْم ٍل َ ْحُروم -وأَ ْك ِر ْم ٍ مِب ٍ ِ
کامیاب بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہر اعتدال سے کام لینے
واال محروم ہی ہوت ہے۔اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی ب - الر َغائِ ِ
ك إِىَل َّ ك َع ْن ُك ِّل َدنِيَّ ٍة -وإِ ْن َسا َقْت َ َن ْف َس َ
سے بلند تر رکھو چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہنچا
ہی کیوں نہ دے ۔اس لئے کہ جو عزت نفس دے دو گے ك ِع َوضاً -واَل تَ ُك ْن اض مِب َا َتْب ُذ ُل ِم ْن َن ْف ِس َ فَِإن َ
َّك لَ ْن َت ْعتَ َ
اس کا کوئی بدل نہیں مل سکتا اورخبردار کسی کے غالم
نہبن جانا جب کہ پروردگار نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے۔
الوما َخْيُر خَرْيٍ اَل يُنَ ُ ك اللَّه ُحّراً َ - َعْب َد َغرْيِ َك وقَ ْد َج َعلَ َ
دیکھو اس خیر میں کوئی خیر نہیں ہے جو شرکے ذریعہ ال إِاَّل بِعُ ْس ٍر .
إِاَّل بِ َشٍّر -ويُ ْس ٍر اَل يُنَ ُ
حاصل ہو اوروہآسانی آسانی نہیں ہے جو دشواری کے
وجف بِك مطَايا الطَّم ِع َ -فتو ِرد َك من ِ ِ وإِيَّ َ
راستہ سے ملے ۔ اه َل ُ َ ََ َ اك أَ ْن تُ َ َ َ َ
خبردار طمع کی سواریاں تیز رفتاری دکھال کر تمہیں ِ ِ
ہالکت کے چشموں پرنہ وارد کردیں اور اگر ممکن ہو وبنْي َ اللَّه ذُو ك َ ت أَاَّل يَ ُكو َن َبْينَ َ استَطَ ْع َ اهْلَلَ َكة -وإِن ْ
کہ تمہارے اور خدا کے درمیان کوئی صاحب نعمت نہ ك -وإِ َّن ك ِ
وآخ ٌذ َس ْه َم َ َّك ُم ْد ِر ٌك قَ ْس َم َ نِ ْع َم ٍة فَا ْف َع ْل -فَِإن َ
آنے پائے تو ایسا ہی کرو کہ تمہیں تمہارا حصہ بہر حال
ملنے واال ہے۔اور اپنا نصیب بہر حال لینے والے ہو الْيَ ِس َري ِم َن اللَّه ُسْب َحانَه أ َْعظَ ُم وأَ ْكَر ُم ِم َن الْ َكثِ ِري ِم ْن َخ ْل ِقه
اورہللا کی طرف سے تھوڑا بھی مخلوقات کے بہت سے -وإِ ْن َكا َن ُكلٌّ ِمْنه.
زیادہ بہتر ہوتا ہے۔اگرچہ سب ہللا ہی کی طرف سے ہوتا
ہے۔ وصايا شتى
خاموشی سے پیدا ہونے والی کوتاہی کی تالفی ِ
ص ْمتِ َ
ك ِ
يك َما َفَر َط م ْن َ
وتَاَل ف َ
كِ - ِ
ظ َما يِف ات ِم ْن َمْن ِطق َ أَيْ َسُر ِم ْن إِ ْد َراكِ َ
کرلینا گفتگو سے ہونے والے نقصان کے تدارک سے
وح ْف ُ ك َما فَ َ
آسان ترہے برتن کے اندر کا سامان منہ بند کرکے
ب إِيَلَّ ِم ْنَح ُّ ظ َما يِف يَ َديْ َ الْ ِوع ِاء بِ َش ِّد الْ ِو َك ِاء ِ -
محفوظ کیا جاتا ہے اور اپنے ہاتھ کی دولت کا محفوظ كأَ وح ْف ُ َ
کرلینا دوسرے کے ہاتھ کی نعمت کے طلب کرنے سے ومرارةُ الْيَأْ ِس َخْير ِمن الطَّلَ ِ ِ ِ
زیادہ بہتر ہے۔مایوسی کی تلخی کوبرداشت کرنا لوگوں
ب ٌ َ طَلَب َما يِف يَ َد ْي َغرْي َك َ َ َ -
کے سامنے ہاتھ پھیالنے س بہتر ہے اور پاکدامانی کے َّة َخْيٌر ِم َن الْغِىَن َم َع الْ ُف ُجو ِر - َّاس -واحْلِرفَةُ مع الْعِف ِ
ْ ََ إِىَل الن ِ
ساتھ محنت مشقت کرنا فسق و فجور کے ساتھ مالداری
ضُّره َ -م ْن أَ ْكَثَر بس ٍ ِ والْمرء أَح َف ُ ِ ِ
سے بہتر ہے۔ يما يَ ُ اع ف َ ور َّ َ ظ لسِّره ُ َْ ُ ْ
ہر انسان اپنے راز کو دوسروں سے زیادہ محفوظ رکھ صَر -قَا ِر ْن أ َْه َل اخْلَرْيِ تَ ُك ْن ِمْن ُه ْم - وم ْن َت َف َّكَر أَبْ َ
أ َْه َجَر َ
سکتا ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو اس امر کے لئے
س الطَّ َع ُام احْلََر ُام -وظُْل ُم ِ نِب ِ
دوڑ رہے ہیں جوان کے لئے نقصان دہ ہے ۔زیادہ بات وبَاي ْن أ َْه َل الشَِّّر تَ ْ َعْن ُه ْم -بْئ َ
کرنے واال بکواس کرنے لگتا ہے اور غوروفکر کرنے
ش الظُّْل ِم -إِذَا َكا َن ِّ ِ ِ
واال بصیر ہو جاتا ہے۔اہل خیرکے ساتھ رہو تاکہ انہیں
الرفْ ُق ُخْرقاً َكا َن اخْلُْر ُق الضَّعيف أَفْ َح ُ
ورمَّبَا نَ َ ِ
ص َح َّواءُ َداءً والدَّاءُ َد َواءً ُ - رفْقاً ُ -رمَّبَا َكا َن الد َ
میں شمار ہواوراہل شر سے الگ رہو تاکہ ان سے الگ
حساب کئے جائو۔بدترین طعام مال حرام ہے اوربد ترین
ظلم کمزورآدمی پر ظلم ہے۔نرمی نا مناسب ہو تو سختی اك وااِل تِّ َك َال َعلَى ص ُح -وإِيَّ َ ش الْ ُم ْسَتْن ََّاص ِح و َغ ََّغير الن ِ
ُْ
ہی مناسب ہے۔کبھی کبھی دوا مرض بن جاتی ہے ب- ظ التَّجا ِر ِ ِ الْم فَِإنَّها ب ِ
اورمرض دوا اور کبھی کبھی غیر مخلص بھی نصیحت ضائ ُع الن َّْو َكى -والْ َع ْق ُل ح ْف ُ َ ُ ىَن َ َ َ
ِ
کی بات کردیتا ہے اورکبھی کبھی مخلص بھی خیانت صةَ َقْب َل أَ ْن تَ ُكو َن ك -بَاد ِر الْ ُف ْر َ ت َما َو َعظَ َ وخْيُر َما َجَّربْ َ
َ
سے کام لے لیتا ہے۔دیکھو خبر دار خواہشات پر اعتماد
وب – صيب واَل ُك ُّل َغائِ ٍ ٍِ ِ
نہکرنا کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہیں۔عقلمندی تجربات کے ب َيئُ ُ س ُك ُّل طَالب يُ ُ صةً -لَْي َ غُ َّ
محفوظ رکھنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس
سے نصیحت حاصل ہو۔فرصت سے فائدہ اٹھائو قبل اس وم ْف َس َدةُ الْ َم َع ِاد - ومن الْ َفس ِاد إِضاعةُ َّ ِ
الزاد َ َ َ َ َ
ِ
کے کہ رنج و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے۔ہر طلب گار
مطلوب کو حاصل بھی نہیں کرتا ہے اور ہر غائب پلٹ
کربھی نہیں آتا ہے۔
فساد کی ایک قسم زاد راہ کاضائع کردینا اورعاقبت
َّاجر خُمَ ِ ِ
ف يَأْتِ َ ولِ ُك ِّل أ َْم ٍر َعاقِبَةٌ َس ْو َ
کو برباد کر دینا بھی ہے۔ہر امر کی ایک عاقبت ہے اور
اطٌر ك -الت ُ ِّر لَ َ
يك َما قُد َ
عنقریب وہ تمہیں مل جائے گا جو تمہارے لئے مقدر ہوا
ہے۔تجارتکرنے واال وہی ہوتا ہے جو مال کو خطرہ میں ني واَل يِف ني َم ِه ٍب يَ ِس ٍري أَمْنَى ِم ْن َكثِ ٍري اَل َخْير يِف ُمعِ ٍ ور َّ
َ ُ
ڈال سکے ۔بسا اوقات تھوڑا مال زیادہ سے زیادہ با برکت ِ ِ ِ
ہوتا ہے۔اس مدد گار میں کوئی خیر نہیں ہے جو ذلیل ہو وده -واَل ك َقعُ ُ َّهَر َما َذ َّل لَ َ ني َ -ساه ِل الد ْ صد ٍيق ظَن ٍ َ
ِ ِ ٍ ِ
اور وہ دوست بیکار ہے جوبدنام ہو۔زمانہ ک ساتھ سہولت
کا برتائو کرو جب تک اس کا اونٹ قابو میں رہے اور
ك َمطيَّةُ اك أَ ْن جَتْ َم َح بِ َ خُتَاط ْر بِ َش ْيء َر َجاءَ أَ ْك َثَر مْنه -وإِيَّ َ
کسی چیز کو اس سے زیادہ کی امید میں خطرہ میں مت اللَّ َج ِ
اج .
ڈالو۔خبر دار کہیں دشمنی اور عناد کی سواری تم سے
الصلَ ِة ِ -
وعْن َد ص ْر ِمه َعلَى ِّ َخ َ ِ ك ِمن أ ِ ِ
منہ زوری نہ کرنے لگے۔ يك عْن َد َ امْح ْل َن ْف َس َ ْ
اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے وده َعلَى وعْن َد مُج ِف والْم َقارب ِة ِ - وده َعلَى اللَّطَ ِ ص ُد ِ
مقابلہ میں تعلقات ' اعراض کے مقابلہ میں مہربانی بخل ُ ُ ََ ُ
کے مقابلہ میں عطا ' دوری کے مقابلہ میں قربت ' شدت ِ ِ ِ
الدنُ ِّو -وعْن َد شدَّته َعلَى ِ ِ
الْبَ ْذ ِل -وعْن َد َتبَاعُده َعلَى ُّ
وعْن َد ُج ْر ِمه َعلَى الْعُ ْذ ِر َ -حىَّت َكأَن َ ني ِ -
کے مقابل میں نرمی اورجرم کے موقع پر معذرت کے اللِّ ِ
لئے آمادہ کرو گویا کہ تم اس کے بندے ہو اوراس نے تم
َّك لَه َعْب ٌد
ِ
پر کوئی احسان کیا ہے اور خبردار احسان کوبھی بے ك يِف َغرْيِ ض َع َذل َ اك أَ ْن تَ َ ك -وإِيَّ َ و َكأَنَّه ذُو نِ ْع َم ٍة َعلَْي َ
محل نہ قرار دینا اورنہ کسی نا اہل کے ساتھ احسان کرنا۔
مو ِضعِه -أَو أَ ْن َت ْفعلَه بِغَ ِ أَهلِه -اَل َتت ِ
َّخ َذ َّن َع ُد َّو
اپنے دشمن کے دوست کو اپنا دوست نہ بنانا کہ تم اپنے َ رْي ْ ْ َْ
دوست کے دشمن ہو جائو اور اپنے بھائی کو مخلصانہ اكَخ َ ِ ِ ِ ِ ِ
نصیحت کرتے رہنا چاہے اسے اچھی لگیں یا بری۔غصہ ضأَ ك -واحْمَ ْ صدي َق َ ي َ صديقاً َفُت َعاد َ ك َ صديق َ َ
ظ فَِإيِّن ِ
کو پی جائو کہ میں نے انجام کارکے اعتبارسے اس سے يحةً -وجَتََّر ِع الْغَْي َ ت أ َْو قَبِ َ يحةَ َ -ح َسنَةً َكانَ ْ النَّص َ
َحلَى ِمْن َها َعاقِبَةً -واَل أَلَ َّذ َمغَبَّةً -ولِ ْن
زیادہ یریں کوئی گھونٹ نہیں دیکھا ہے اورنہ عاقبت کے
لحاظ سے لذیذ تر۔اور جو تمہارے ساتھ سختی کرے اس مَلْ أ ََر ُج ْر َعةً أ ْ
ِ ك فَِإنَّه ي ِ ِ
کے لئے نرم ہو جائو شاید کبھی وہ بھی نرم ہو جائے ۔ وخ ْذ َعلَى كُ - ني لَ َ ك أَ ْن يَل َ وش ُ ُ ل َم ْن َغالَظَ َ
اپنے دشمن کے ساتھ احسان کرو کہ اس میں دو میں سے
ایک کامیابی اور شیریں َحلَى الظََّفَريْ ِن - ض ِل فَِإنَّه أ َْع ُد ِّو َك بِالْ َف ْ
ك -بَِقيَّةً استَْب ِق لَه ِم ْن َن ْف ِس َ ت قَ ِط َيعةَ أ َِخ َ وإِ ْن أ ََر ْد َ
ترین کامیابی ہے اور اگراپنے بھائی سے قطع تعلق کرنا
چاہو تو اپنے نفس میں اتنی گنجائش رکھو کہاگراسے يك فَ ْ
ِ ِ
کسی دن واپسی کاخیال پیدا ہو تو واپس آسکے ۔جو ك خَرْي اً وم ْن ظَ َّن بِ َك َي ْوماً َما َ - َيْرج ُع إِلَْي َها إِ ْن بَ َدا لَه َذل َ
تمہارے بارے میں اچھا خیال رکھے اس کے خیال کو
يك اتِّ َكااًل َعلَى َما َخ َ ضيع َّن ح َّق أ ِ ِ
غلط نہ ہونے دینا۔باہمی روابط کی بناپر کسی بھائی کے ِّق ظَنَّه -واَل تُ َ َ صد ْ فَ َ
حق کو ضائع نہ کرنا کہ جس کے حق کو ضائع کردیا ت َحقَّه -واَل َض ْع ََخ َم ْن أ َ ك بِأ ٍس لَ َ ِ
وبْينَه -فَإنَّه لَْي َك َ َبْينَ َ
پھروہ واقعا ً بھائی نہیں ہے اور دیکھو تمہارے گھر والے
تمہاری وجہ سے بد بخت نہ ہونے پائیں اورجو تم سے يم ْن َز ِه َد ِ
ك -واَل َت ْر َغنَب َّ ف َ ك أَ ْش َقى اخْلَْل ِق بِ َ يَ ُك ْن أ َْهلُ َ
ك ِمْن َ وك أَْق َوى َعلَى قَ ِط َيعتِ َ
کنارہ کش ہونا چاہے اس کے پیچھے نہ لگے رہو۔تمہارا ك َعلَى َخ َك -واَل يَ ُكونَ َّن أ ُ َعْن َ
کوئی بھائی تم سےقطع تعلقات میں تم پربازی نہ لے
ِ
جائے اورتم تعلقات مضبوط کرلو اورخبردار برائی ك َعلَى ِصلَتِه -واَل تَ ُكونَ َّن َعلَى ا ِإل َساءَة أَْق َوى ِمْن َ
کرنے میں نیکی کرنے سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ نہ
ك -فَِإنَّه ك ظُْل ُم َم ْن ظَلَ َم َ ان -واَل يَكُْبَر َّن َعلَْي َ ا ِإلحس ِ
کرنا اور کسی ظالم کے ظلم کو بہت بڑا تصور نہ کرنا َْ
کہوہ اپنے کو نقصان پہنچا رہا ہے اور تمہیں فائدہ پہنچا س َجَزاءُ َم ْن َسَّر َك أَ ْن ك -ولَْي َ ضَّرتِه و َن ْفعِ َ
يَ ْس َعى يِف َم َ
رہا ہے اور جو تمہیں فائدہ پہنچائے ( )1اس کی جزا یہ
نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ برائی کرو۔ تَ ُسوءَه.
اور فرزند ! یاد رکھو کہ رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک
رزق وہ ہے جسے تم تالش کررہے ہو اورایک رزق وہ ك الر ْز َق ِر ْزقَ ِ
ان ِ -ر ْز ٌق تَطْلُبُه و ِر ْز ٌق يَطْلُبُ َ واعلَ ْم يَا بُيَنَّ أ َّ
َن ِّ ْ
اج ِة اك -ما أَْقبح اخْلُض ِ ِ
ہے ( )2جوتم کو تالش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ
جائو گے تو وہ خود تم تک آجائے گا۔ضرورت کے وقت ت مَلْ تَأْته أَتَ َ َ َ َ ُ َ
وع عْن َد احْلَ َ -فَِإ ْن أَنْ َ
خضوع وخشوع کا اظہار کس قدر ذلیل ترین بات ہے
ق ت
-
ت ش ت خ ق ظ تئ خ
ے اور
آب کو روکدی ا ج ا ا ہت ے ناور کب ھی ل کر م ظعاوی ہ پر ب ن دشش
ہ ئاستالمی ا ال ی ات سے آگاہتک ی ا جئ ا ا ے خ۔ج ہاں الموں کو ہ ( )1م ج اس مس ئ لہ کا علق تدن ی امی ں ا ال ی بر ا و سے
ب ن ب
ے۔ ے جاور ال نموں سے ج ہاد ت ھی واج بنہ و ج ا ا ہ ے۔ور ہ اگر ندی ن و مذہ نب طرہ می ں پڑشج اے و مذہق بتسے زی ادہ عزیز ر کو ی ے ہی ت ں ہ ک ھی اب ن ل م کو سی رابئکردشی ا ج ا ا نہ
ے سان رزق کی ئالش می ں ہی نں ہ ےا نت ے کہق ی س ناہ ہ
ے ہ ی ں ج ہاں ی ہ احساس پ ی دا و ے موا ع آ تے مار ایس ے کہ ا سان کی ز دگی می ں ب ( )2ن اس می تں کو ی ک ہی ںن ہ
ے کہ ا سان کو ے کی ا ہے وا عات کا ا ظ ام اسی ل ئایس
ے۔اور پتروردگار ے ئ ہ اس کے سا ھ ج ارہ با ے اس کا رزق ن فہ ہاں ج ہاں ج ا رہ ا
اور ا سان ج ئ
ے ق الشئکر رہ اہ ب لکہ رزق ا قسان کو ف
ے ی ار ن ہ ہ و ج اے ۔ ے کے ل اس کی رزا ی ت اورای اے وعدہ کا ی ی ن ہ و ج اے اوروہ رزق کی راہ می ں عزت س ی ادار آرت کویچ
ت بِه ك ِم ْن ُد ْنيَ َواجْلََفاءَ ِعْن َد الْغِىَن -إِمَّنَا لَ َ
اور بے نیازی کے عالم میں بد سلوکی کس قدر قبیح
حرکت ہے۔اس دنیامیں تمہارا حصہ اتنا ہی ہے جس سے َصلَ ْح َ اك َما أ ْ
اپنی عاقبت کا انتظام کرس کو۔اور کسی چیزکے ہاتھ سے ك- ت ِم ْن يَ َديْ َ ت َجا ِزعاً َعلَى َما َت َفلَّ َ َم ْث َو َاك -وإِ ْن ُكْن َ
نکل جانے پر پریشنی کا اظہار کرنا ہے تو ہر اس چیز صل إِلَيك ِ - ِ
پر بھی فریاد کرو جو تم تک نہیں پہنچی ہے۔جو کچھ ہو استَد َّل َعلَى َما مَلْ اجَز ْع َعلَى ُك ِّل َما مَلْ يَ ْ ْ َ ْ فَ ْ
چکا ہے اس کے ذریعہ اس کاپتہ لگائو جو ہونے واال ہے ور أَ ْشبَاه -واَل تَ ُكونَ َّن مِم َّْن اَل ِ مِب
يَ ُك ْن َا قَ ْد َكا َن -فَإ َّن األ ُُم َ
کہ معامالت تمام کے تمام ایک ہی جیسے ہیں اور
خبردار ان لوگوں میں نہ ہو جائو جن پر اس وقت تک ظت يِف إِياَل ِمه -فَِإ َّن الْ َعاقِ َل َيتَّعِ ُ ِ
َتْن َفعُه الْعظَةُ إِاَّل إِ َذا بَالَ ْغ َ
ظ إِاَّل بِالضَّر ِ اب -والَْب َهائِ َم اَل َتتَّعِ ُ اآلد ِ بِ َ
نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی ہے جب تک پوری طرح
ك
ب .-اطَْر ْح َعْن َ ْ
تکلیف نہ پہنچائی جائے اس لئے کہ انسان عاقل ادب سے
ني َ -م ْن َتَر َك وحس ِن الْيَ ِق ِ وم بِ َعَزائِ ِم َّ ِ ات اهْل م ِ ِ ِ
نصیحت حاصل کرتا ہے اور جانور مار پیٹ سے سیدھا الصرْب ْ ُ - َوار َد ُُ
ہوتا ہے ۔دنیا میں وارد ہونے والے ہموم و آالم کو صبر اسب ِ َّ - ِ الْ َقص َد جار ِ َّ -
کے عزائم اور یقین کے حسن کے ذریعہ کردو۔یاد رکھو يق َم ْن والصد ُ ب ُمنَ ٌ والصاح ُ ْ ََ
ب بعِ ٍ
کہ جس نے بھی اعتدال کو چھوڑاوہ منحرف ہوگیا۔ساتھی
ایک طرح کا شریک نسب ہوتا ہے اور دوست وہ ہے جو
يد ور َّ َ يك الْ َع َمى ُ - ص َد َق َغْيبُه -واهْلََوى َش ِر ُ َ
ٍ ِ ِ ٍ ٍ ِ
غیبت میں بھی سچا دوست رہے۔خواہش اندھے پن کی يب َم ْن ب م ْن قَ ِريب -وقَ ِريب أ َْب َع ُد م ْن بَعيد -والْغَ ِر ُ أَْقَر ُ
مَلْ يَ ُك ْن لَه َحبِ ٌ
شریک کار ہوتی ہے۔بہت سے دور والے ایسے ہوتے وم ِناق َم ْذ َهبُه َ - ض َ يب َ -م ْن َت َعدَّى احْلَ َّق َ
ہیں جو قریب والوں سے قریب تر ہوتے ہیں اور بہت
سے قریب والے دور والوں سے زیادہ دور تر ہوتے ت بِه َخ ْذ َ بأَ صر َعلَى قَ ْد ِره َكا َن أ َْب َقى لَه -وأ َْوثَ ُق َسبَ ٍ
ا ْقتَ َ َ
ہیں ۔غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔جو حق سے ِ
آگے بڑھ جائے اس کے راستے تنگ ہو جاتے ہیں ك َف ُه َو وم ْن مَلْ يُبَال َ وبنْي َ اللَّه ُسْب َحانَه َ - ك َ ب َبْينَ َ َ -سبَ ٌ
اورجو اپنی حیثیت پر قائم رہتا ہے اس کی عزت باقی رہ َع ُد ُّو َك
جاتی ہے۔تمہارے ہاتھوں میں مضبوط ترین وسیلہ تمہارا
اورخدا کا رشتہ ہے۔اورجو تمہاری پروانہ کرے وہی
تمہارادشمن ہے
کبھی کبھی مایوسی بھی کامیابی بن جاتی ہے جب حرص
س َّ ِ -قَ ْد ي ُكو ُن الْيأْ ِ
و طمع موجب ہالکت ہو۔ہر عیب ظاہرنہیں ہوا کرتا ہے س إ ْد َراكاً إ َذا َكا َن الط َم ُع َهاَل كاً -لَْي َ َ ُ َ
ٍ
اورنہ ہرفرصت کو موقع بار بار مالکرتا ہے۔کبھی کبھی ورمَّبَا أ ْ
َخطَأَ اب ُ - ص ُ صة تُ َ ُك ُّل َع ْو َر ٍة تَظْ َهُر واَل ُك ُّل ُف ْر َ
ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھوں واال راستہ سے بھٹک جاتا ِ
ہے اور اندھا سیدھے راستہ کو پالیتاہے۔برائی کو پس َخ ِر الشََّّر فَِإن َ
َّك َع َمى ُر ْش َده -أ ِّ اب األ ْ َص َ ص َده وأ َ الْبَصريُ قَ ْ
پشت ڈالتے رہو کہ جب بھی چاہو اس کی طرف بڑھ اه ِل َت ْع ِد ُل ِصلَةَ الْ َعاقِ ِل َ -م ْن إِ َذا ِشْئت َتع َّج ْلته وقَ ِطيعةُ اجْل ِ
َ َ َ َ َ
سکتے ہو۔جاہل سے قطع تعلق عاقل سے تعلقات کے
برابر ہے۔جو زمانہ کی طرف سے مطمئن ہوجات ہے س ُك ُّل َم ْن َر َمى وم ْن أ َْعظَ َمه أ ََهانَه -لَْي َ الز َما َن َخانَه َ أ َِم َن َّ
زمانہ اس سے خیانت کرتا ہےاورجو اسے بڑا سمجھتا
الرفِ ِيق
الز َما ُن َ -س ْل َع ِن َّ اب -إِ َذا َتغََّيَر ُّ
الس ْلطَا ُن َتغََّيَر َّ َص َ أَ
ہے اسے ذلیل کر دیتا ہے ہر تیر انداز کا تیر نشانہ پر
نہیں بیٹھتا ہے جب حاکم بدل جاتا ہےتوزمانہ بد لجاتا اك أَ ْن تَ ْذ ُكَر ِم َن
وع ِن اجْلَا ِر َقْب َل الدَّا ِر إِيَّ َ
َقْب َل الطَِّر ِيق َ -
ہےرفیق سفر کے بارے میں راستہ پر چلنے سے پہلے ض ِحكاً -وإِ ْن ح َكي ِ
دریافت کرو اورہمسایہ کیبارے میں اپنے گھر سے پہلے ك َع ْن َغرْيِ َك. ت َذل َ َ َْ الْكَاَل ِم َما يَ ُكو ُن ُم ْ
خبر گیری کرو۔خبردار ایسی کوئی بات نہ کرنا
جومضحکہ خیزہو چاہے دوسروں ہی کی طرفسے نقل
الرأي في المرأة
اك ومشاورةَ الن ِ
سے مشورہ نہ کرنا کہ ان کی رائے ()1
کی جائے ۔
خبردار۔عورتوں
ِّساء -فَِإ َّن َرأَْي ُه َّن إِىَل أَفْ ٍن َ
وع ْز َم ُه َّن وإيَّ َ ُ َ َ َ َ
ِ
إِىَل وه ٍن -وا ْك ُفف علَي ِه َّن ِمن أَب ِ
کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں ك إِيَّ ُ
اه َّن صا ِره َّن حِبِ َجابِ َ
ْ َْ ْ َْ َْ
رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو -فَِإ َّن ِش َّدةَ احْلِج ِ
اب أ َْب َقى َعلَْي ِه َّن
کہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو باقی رکھنے َ
والی ہے ئ ت ت خ
ن ت ت ف ت :۔ ں ہ ے ا ے ا ماالت ا لف )اس کالم می ں م ت (1
ش
سے م ورہ ل ے ا سان کا کسی ج اہھ ک ا نت مال ہ ے کہ نہ اس دورکے حاالت کی طرف اش ارہ ے ج ب عور ی ں 99ی صد ی اہ ل ہ وا کر ی ھی ں اور اہ ر ے کہ پڑھے لک
ظ ی ج پ ح
ہ ج ہ ی ہ ای ن ح ی ن
نق ئ ف ئ خ ش ف ت ے۔ہ ں یہ ھ کچ الوہ ع کے کر ا ادا تی
ے لہٰذا اگر کو ی عورت اس ص ش کی ج ذب ا ی ئطرت ن
ے کہ اس کے م ورہ می ں ج ذب ات کی کار رما ی کا طرہ زی ادہ ہ
کی طرف ا ارہ ہ ے تکہ اس می ں شعورتن دوسرا انح تمال ی ہ ہ
ئ
ت ے۔ ئ عم ن ورہ کرے می تں کو ی حرج ہیش ں ہ تسے تبل د ر ہ و ج اے و اس سے م خ
ے اورآج ت ک ت
اسکمی ں ان م صوص عور وں کی طرف ا ارہ ہ و ج ن کی راے پر ل کرے سے عالم اسالم کا ای ک ب ڑا حصہ ب اہ ی کے گھاٹ ا ر گ ی ا ہ ے کہ یسرا اح مال ی ہ ہث
ے ہ ی ں۔ ے ج ا رہ اس ت ب اہ ی کے ا رات دی ھ
ِ
ك َم ْن اَل يُوثَ ُق بِه َش َّد ِ -م ْن إِ ْد َخال َوج ُه َّن بِأ َ
اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے
گھرمیں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔اگر س ُخُر ُ -ولَْي َ
ِ
ممکن ہوکہ وہ تمہارے عالوہ کسی کو نہ پچانیں توایسا ت أَاَّل َي ْع ِرفْ َن َغْيَر َك فَا ْف َع ْل -واَل استَطَ ْع َ َعلَْي ِه َّن -وإِن ْ
ك الْ َم ْرأََة ِم ْن أ َْم ِر َها َما َج َاو َز َن ْف َس َها -فَِإ َّن الْ َم ْرأََة
ہی کرو اورخبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ مُتَلِّ ِ
اختیارات نہ دواس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور
حاکم و متصرف نہیں ہے۔اس کے پاس ولحاظ کو اس کی ت بَِق ْهَر َمانٍَة -واَل َت ْع ُد بِ َكَر َامتِ َها َن ْف َس َها واَل َرحْيَانَةٌ ولَْي َس ْ
ذات سے آگے نہ بڑھائو اور اس میں دوسروں کی
سفارش کا حوصلہ نہ پیدا ہونے دو۔دیکھو خبردار غیرت اك والتَّغَايُر يِف َغرْيِ
َ تُطْ ِم ْع َها يِف أَ ْن تَ ْش َف َع لِغَرْيِ َها -وإِيَّ َ
يحةَ إِىَل َّ ك ي ْدعو َّ ِ ِ ِ
الس َق ِم - َم ْوض ِع َغْيَر ٍة -فَِإ َّن َذل َ َ ُ
کے مواقع کے عالوہ غیرت کا اظہارمت کرنا کہ اس
طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستہ پرچلی جائے الصح َ
ك َع َماًل ان ِم ْن َخ َد ِم َ ب -واجعل لِ ُك ِّل إِنْس ٍ والْرَبِ يئَةَ إِىَل ِّ
الريَ ِ
گی اور بے عیب بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ َ َْ ْ
َحَرى أَاَّل َيَت َوا َكلُوا يِف ِخ ْد َمتِ َ
اپنے ہر خادم کے لئے ایک عمل مقرر کردو جس کا
محاسبہ کرسکو کہ یہ بات ایک دوسرے کے حوالہ
ك - تَأْ ُخ ُذه بِه -فَِإنَّه أ ْ
کرنے کہیں زیادہ بہتر ہے۔اپنے قبیلہ کا احترام کرو کہ ك الَّ ِذي بِه تَ ِطريُ - اح َ وأَ ْك ِر ْم َع ِشريتَ َ ِ
ك -فَإن َُّه ْم َجنَ ُ َ
یہی تمہارے لئے پرپرواز کر مرتبہ رکھتے ہیں اور یہی وأَصلُ ِ
هِب ِ
تمہاری اصل ہیں جن کی طرف تمہاری باز گشت ہے ول.ص ُ ك الَّذي إِلَْيه تَصريُ ويَ ُد َك الَّيِت َا تَ ُ ْ َ
اور تمہارے ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ حملہ کرسکتے ہو۔
اپنے دین و دنیا کو پروردگار کے حوالہ کردو اور اس
سے دعا کرو کہ تمہارے حق میں دنیا و آخرت میں دعاء
بہترین فیصلہ کرے ۔والسالم
ك يِف اك -واسأَلْه خير الْ َق ِ ِ ِ
()32 ضاء لَ َ
ْ ََْ َ ود ْنيَ َ
ك ُاسَت ْود ِع اللَّه دينَ َ
ْ
والد ْنيا ِ
واآلخَر ِة َّ ِ ِ ِ ِ
آپ کا مکتوب گرامی والساَل ُم. الْ َعاجلَة واآلجلَة َ ُّ -
(معاویہ کے نام ) ()32
تم نے لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو ہالک کردیا ہے عليهالسالم ومن كتاب له
کہ انہیں اپنی
إلى معاوية
ت ِجياًل ِم َن الن ِ
َّاس َكثِرياً وأ َْر َديْ َ
ك وأَلْ َقْيَت ُه ْم يِف َم ْو ِج حَبْ ِر َك َ -ت ْغ َش ُ َ -خ َد ْعَت ُه ْم بِغَيِّ َ
گمراہی ( )1سے دھوکے میں رکھا ہے اور اپنے سمندر اه ُم
کی موجوں کے حوالہ کردیا ہے جہاں تاریکیاں انہیں
ات -فَ َج ُازوا َع ْن ِو ْج َهتِ ِه ْم هِبِ
ڈھانپے ہوئے ہیں اورشبہات کے تھپیڑے انہیں تہ و باال ات وَتتَاَل طَ ُم ُم الشُُّب َه ُ الظُّلُ َم ُ
کر رہے ہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ راہ حق سے ہٹ گئے اور ِ هِبِ
الٹے پائوں پلٹ گئے اور پیٹھ پھیر کرچلتے بنے اوراپنے صوا َعلَى أ َْع َقا ْم -وَت َولَّْوا َعلَى أ َْدبَا ِره ْم َ
وع َّولُوا ونَ َك ُ
صائِِر -فَِإن َُّه ْم ِ علَى أ هِبِ
حسب و نسب پربھروسہ کر بیٹھے عالوہ ان چند اہل
بصیرت کے جو واپس آگئے اور انہوں نے تمہیں
َح َسا ْم -إِاَّل َم ْن فَاءَ م ْن أ َْه ِل الْبَ َ َ ْ
پہچاننے کے بعد چھوڑ دیا اورتمہاری حمایت سے بھاگ ك - وهَربُوا إِىَل اللَّه ِم ْن ُم َو َاز َرتِ َ
كَ - وك َب ْع َد َم ْع ِرفَتِ َفَ َارقُ َ
کر ہللا کی طرف آگئے جب کہ تم نے انہیں دشواریوں ص ِد -فَات َِّق ت ْم َع ِن الْ َق ْ
ب وع َدلْ هِبِ
الص ْع ِ َ َ إِ ْذ مَحَْلَت ُه ْم َعلَى َّ
میں مبتال کردیا تھا اور راہ اعتدال سے ہٹا دیا تھا۔لہٰ ذا
اسے معاویہ اپنے بارے میں خدا سے ڈرو اور شیطان ب الشَّْيطَا َن قِيَ َاد َك - ك -وج ِاذ ِ
َ اللَّه يَا ُم َعا ِويَةُ يِف َن ْف ِس َ
واآلخَر َة قَ ِريبَةٌ ِمْن َ
ك ِ الد ْنيَا ُمْن َق ِط َعةٌ َعْن َ
سے جان چھڑائو کہ یہ دنیا بہر حال تم سے الگ ہونے
والی ہے اور آخرت بہت قریب ہے ۔والسالم
والساَل ُم.
ك َّ - فَِإ َّن ُّ
()33 ()33
آپ کامکتوب گرامی عليهالسالم2 ومن كتاب له
(مکہ کے عامل قثم ()2بن عباس 2کے نام)
اما بعد! میرے مغربی عالقہ کے جاسوس نے مجھے لکھ إلى قثم بن العباس -وهو عامله على مكة
کر اطالع دی ہے کہ موسم حج کے لئے شام کی طرف ب إِيَلَّ يُ ْعلِ ُميِن – أَنَّه ُو ِّجه ِ ِ ِ
أ ََّما َب ْع ُد فَإ َّن َعْييِن بالْ َم ْغ ِرب َكتَ َ
سے کچھ ایسے لوگوں کو بھیجا گیا ہے جو دلوں کے
الص ِّم
وب ُّ َّام -الْعم ِي الْ ُقلُ ِ إِىَل الْمو ِس ِم أُنَاس ِمن أ َْه ِل الش ِ
اندھے ' کانوں کے بہرے اورآنکھوں کے محروم ضیاء ُْ ٌ ْ َْ
ہیں۔یہ حق کو باطل سے مشتبہ کرنے والے ہیں اور خالق
اط ِل -اع الْ ُكمه األَبصا ِر -الَّ ِذين يْلبِسو َن احْل َّق بِالْب ِ
کی نافرمانی کرکے مخلوق کوخوش کرنے والے ہیں۔ َ َ ََ ُ َْ األَمْسَ ِ ْ
ن ت ن
صيَ ِة اخْلَالِ ِق
وق يِف مع ِ
ويُطيعُو َن الْ َم ْخلُ َ شَ ْ
ِ
ن ت
ن عام دی ا اورحت ات کو ست ر ہ زار۔ و اس ے درب ار می تں واردہ وا معاویخہ ےئ سب کون نایتک ای ک الکھ ا کے سا ھ معاوی ہ کےن نا عی ای ک ج ماعت خے کہ حت ات مجت()1طب ری کا ب ی انن
ہ
ق ات ے کہا شو جم ھ سے ب ھی ری د یل
ق ا۔ ی کرد وراپ الکھ ک ی ا ے ہ یاوعم ھاکہ ا س ئ ہ ی
ف ؟ ے
ج ن ض تح ت
ے۔ ہ دا ی ر ن ید کا
ض ان سے ت
ان ے ا قث
عراض ک ی ا معاوی ہ ے کہا کہ می ں ئ
ے اور اس کے ب عد معاوی ہ کے دورمی ں سمر ن د می ں ت ل ے عہدہ پر ا ز رہ ےج وح رت کی ہادت ت ک پا ےاورمکہ پر ح رت کےعامل ھ ( ئ )2ئم ع ب دہللا ب ن ع ب اس کےب ھا ی ھ
ے ےگکر د ی
اجلَها بِ ِ ِ وحَيْتَلِبُو َن ُّ
الد ْنيَا َد َّر َها بِالدِّي ِن -ويَ ْشَتُرو َن َع َ
ان کا کام دین کے ذریعہ دنیا کو دو ہنا ہے اوریہ نیک
آج ِل
کردار' پرہیز گار افراد کی آخرت کو دنیا کے ذریعہ
وز بِاخْلَرْيِ إِاَّل َع ِاملُه -واَل جُيَْزى ِ
خریدنے والے ہیں جب کہ خیر اس کا حصہ ہے جوخیر ني -ولَ ْن َي ُف َ األ َْبَرا ِر الْ ُمتَّق َ
ك قِيَ َام احْلَا ِزِم
کا کام کرے اورشر اس کے حصہ میں آتا ہے جو ِ جزاء الشَِّّر إِاَّل فَ ِ
شرکاعمل کرتا ہے۔دیکھو اپنے منصبی فرائض کے اعلُه -فَأَق ْم َعلَى َما يِف يَ َديْ َ ََ َ
سلسلہ میں ایک تجربہ کار' پختہ کار' مخلص ' ہوشیار ِ ِ ِ
يب -التَّابِ ِع ل ُس ْلطَانه الْ ُمطي ِع ِ
يب -والنَّاص ِح اللَّبِ ِ الصلِ ِ
َّ
انسان کی طرح قیام کرنا جو اپنے حاکم کا تابع اوراپنے
امام کا اطاعت گذار ہواور خبردار کوئی ایسا کام نہ کرنا وما يُ ْعتَ َذ ُر ِمْنه -واَل تَ ُك ْن ِعْن َد الن َّْع َم ِاء
اك َ ِإل َم ِامه -وإِيَّ َ
بَ ِطراً -واَل ِعْن َد الْبَأْ َس ِاء فَ ِشاًل َّ -
جس کی معذرت کرنا پڑے اورراحت وآرام میں مغرور
والساَل ُم.
نہ ہو جانا اورنہ شدت کے مواقع پرکمزوری کا مظاہرہ
کرنا۔والسالم
()34
()34
عليهالسالم ومن كتاب له
آپ کامکتوب گرامی
(محمدبن ابی بکرکے نام جب یہ اطالع ملی کہ وہ اپنی
إلى محمد بن أبي بكر لما بلغه توجده من عزله
معزولی اورمالک 2اشترکےتقریر 2سے رنجیدہ ہیں اور باألشتر عن مصر،ثم توفي األشتر في توجهه إلى هناك
پھرمالک اشتر مصر پہنچنے سےپہلےانتقال بھی
کرگئے ) قبل وصوله إليها
اما بعد!مجھے مالک اشتر کےمصر کی طرف بھیجنے
يح األَ ْشرَتِ إِىَلك ِم ْن تَ ْس ِر ِ ِ
کے بارے میں تمہاری بد دلی کی اطالع ملی ہے۔حاالنکہ أ ََّما َب ْع ُد َف َق ْد َبلَغَيِن َم ْوج َدتُ َ
ِ ِ
میں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کہ تمہیں کام میں کمزور ك يِف اجْلَ ْه َد - استِْبطَاءً لَ َك ْ ك -وإِيِّن مَلْ أَْف َع ْل َذل َ َع َمل َ
پایا تھا یا تم سے زیادہ محنت کامطالبہ کرناچاہا تھا بلکہ
اگرمیں نے تم سے تمہارے زیر اثر اقتدار کولیا بھی تھا ت يَ ِد َك ِم ْن ت َما حَتْ َ
ِ
ك يِف اجْل ِّد -ولَ ْو َنَز ْع ُ
ِ
واَل ْازديَاداً لَ َ
تو تمہیں ایسا کام دینا چاہتا تھا جو تمہارےلئےمشقت کے
اعتبار سے آسان ہو اورتمہیں پسند بھی ہوجس شخص کو
ب
ك َمئُونَةً -وأ َْع َج ُ ك َما ُه َو أَيْ َسُر َعلَْي َ ك -لََولَّْيتُ َ ُس ْلطَانِ َ
میں نے مصرکاعامل قراردیا تھا وہ ك ِواَل يَةً. إِلَْي َ
ِ ِ إِ َّن َّ
صَر - ت َولَّْيتُه أ َْمَر م ْ الر ُج َل الَّذي ُكْن ُ
میرا مردمخلص اورمیرےدشمن کے لئے سخت قسم کا وعلَى َع ُد ِّونَا َش ِديداً نَاقِماً َ -فَرمِح َه ِ
َكا َن َر ُجاًل لَنَا نَاصحاً َ
دشمن تھا۔خدااس پر رحمت نازل کرےاس نے اپنے دن
پورے کرلئے اوراپنی موت سے مالقات کرلی۔ہم اس ْم َل أَيَّ َامه – واَل قَى مِح َ َامه وحَنْ ُن َعْنه استَك َ
ِ
اللَّه َفلَ َقد ْ
سے بہر حال راضی ہیں۔ہللا اسے اپنی رضا عنایت
فرمائے اور اس کے ثواب کو مضاعف کردے اب تم
اب لَه - ف الث ََّو َ اع َ
وض َ ض َوانَه َ اضو َن -أ َْواَل ه اللَّه ِر َْر ُ
ك -ومَشِّر حِل ر ِ ص َريتِ َض علَى ب ِ فَأ ِ ِ
دشمن کے مقابلہ میں نکل پڑو اوراپن بصیرت پرچل
پڑو۔ جوتم سے جنگ کرے اس سے جنگ کرنے کے
ب َم ْن ْ َْ وام ِ َ َ َصح ْر ل َع ُد ِّو َك ْ ْ
لئے کمر کو کس لو اوردشمن کو راہ خدا کی دعوت دے ك) -وأَ ْكثِ ِر ااِل ْستِ َعانَةَ بِاللَّه ك و ( ْادعُ إِىل َسبِ ِيل َربِّ َ َح َاربَ َ
ِ
ك إِ ْن َشاءَ اللَّه. ك َعلَى َما يُْن ِز ُل بِ َ ك -ويُعِْن َ
دو۔اس کے بعد ہللا سے مسلسل مدد مانگتے رہوکہ وہی
تمہارےلئے ہر مہم میں کافی ہے اوروہی ہرنازل ہونے ك َما أَمَهَّ َيَكْف َ
والی مصیبت میں مدد کرنے واال ہے۔انشاء ہللا ()35
()35
عليهالسالم ومن كتاب له
آپ کامکتوب گرامی
إلى عبد اهلل بن العباس بعد مقتل محمد بن أبي بكر
(عبدہللا بن عباس کے نام۔محمد بن ابی بکر کی شہادت
ِ ِ ِ
کے بعد ) ت -وحُمَ َّم ُد بْ ُن أَيِب بَ ْك ٍر أ ََّما َب ْع ُد فَِإ َّن م ْ
صَر قَد ا ْفتُت َح ْ
امابعد! دیکھو مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے اور رمحهاهلل قَ ِد استُ ْش ِه َد -فَعِْن َد اللَّه حَنْتَ ِسبه ولَداً نَ ِ
محمد ( )1بن ابی بکر شہید ہوگئے ہیں( خدا ان پر رحمت اصحاً ُ َ ْ
نازل کرے ) میں ان کی مصیبت کا اجر خدا سے چاہتا وع ِاماًل َك ِادحاًَ
ہوں کہ وہ میرے مخلص فرزند اور محنت کش عامل
ش تھے ن ق نق ن
اص کی سرلکردگی می ں 4ہ زار کافل ئ کر مصرن کی طرف روان ہنک ی ا ق ع ل ا ن ا
ع ب شمرو ے ہ ی عاو م '' کہ ے ہ ا ی ک لق کو عہ وا اس ش ں یم حوادثف کے ھ
س 35 ں یم ب الذی مروج
خ ے ()1مسعودی
حاب کی بت یو ا ی کی ب ا پرم ی دان چ ض ھوڑ ا ص ا کن راد کوب ھی امل کردی ا۔م فام مس ن اة پردمحم ب نن ا ی بکرن اس ل کرکا م اب لہ ک ی ا ی خ ا ے
س اور اس می ں عاو ہ ب ن دی ج اور ابو اال عور ال لمی ج
ن ب ج ت ی ق ی م
ھے کی کھال می تں رکھ کر ذر آ ش کردی ا گ ی ا ف'' جئس کا نح رت کو ے ج ی ای ک ظگد ف نکے عال قہ می ں رن پڑا اور آ ر کاردمحم ب ن ابی بکر کو گر ت ار کرل ی ا گ ی ا اور ا نہی ں
مکم ی صرہ کے عام
پڑا۔اس کے ب عد دوب ارہ مصر
ر پ اد ی ب کی ی ا و ی ب کی عراق ل ہ ا کہ ک
ئ اںہ ی ا ی ادمر ارہ ا نا ک ات ن ب ذ ج ل ے پا اور کی کو اس ب ع ن ب دہللا ب ع لن ش ب الع ط
ف ا کی عہ وا اس ے ف حد صدمہ ہ توا اور ت
آپ ےئ بئ
ئ وں۔اور ہ موالے کائ ن ات کا درس عم ہ ن ت ش ے ں ج و راہ خ یک ن ہ ت ب ے ا راد کی ن ک ن
ے ل کے ردور ہ ل ہت ی ن ے ا شجہ ا کر ادہ ں
نی ج م دا ن ی ہ ا چ ا ھ
ت د ں یہ ھی ل س یا ا ی گو کہ ا ی رماد
ن ذکرہ
ق موت ک کا آرز وے ق
م ن ن ن ی ن ع
ے ی عوں می ں ا ل کر ا چ اے ہ ی ں۔ ے۔ لی ہ ا ہی ں د کھ ا پ س د کرے ہ ی ں اور ہ ا ہی ں اپ ے کہ جس وم می ں ج ذب ہ رب ا ی ہی ں ہ ہ
میری تیغ بران اورمیرے دفاعی ستون میں نے لوگوں کو َّاس َعلَى ِ ِ
ان سے ملحق ہو جانے پرآمادہ کیا تھا اور انہیں حکم دیا ت الن َ ت َحثَثْ ُور ْكناً َدافعاً -وقَ ْد ُكْن ُ وسْيفاً قَاطعاً ُ َ
ِ ِ ِ ِ ِ
تھا کہ جنگ سے پہلے ان کی مدد کو پہنچ جائیں اور ود َع ْو ُت ُه ْم سّراًحَلَاقه -وأ ََم ْر ُت ُه ْم بِغيَاثه َقْب َل الْ َو ْق َعة َ -
انہیں خفیہ اورعالنیہ ہر طرح دعوتعمل دی تھی اور بار وجهراً وعوداً وب ْدءاً -فَ ِمْنهم اآليِت َكا ِرهاً ِ
ومْن ُه ُم الْ ُم ْعتَ ُّل
بار آوازدی تھی لیکن بعض افراد بادل نا خواستہ آئے اور ُُ َ ْ َْ َ
َسأ َُل اللَّه َت َعاىَل أَ ْن جَيْ َع َل ِ ِ ِ ِ
بعض نے جھوٹے بہانے کردئیے ۔کچھ تو میرے حکم کو
نظرانداز کر کے گھر ہی میں بیٹھے رہ گئے ۔اب میں
َكاذباً -ومْن ُه ُم الْ َقاع ُد َخاذاًل -أ ْ
پروردگار سے دعاکرتا ہوں کہ مجھے ان کی طرف سے اجاًل َ -ف َواللَّه لَ ْو اَل طَ َمعِي ِعْن َد لَِقائِي يِل ِمْنهم َفرجاً ع ِ
ُْ َ َ
جلد کشائش امر عنایت فرمادے کہ خدا کی قسم اگر َّه َاد ِة -وَت ْو ِطييِن َن ْف ِسي َعلَى الْ َمنِيَّ ِة -َع ُد ِّوي يِف الش َ
مجھے دشمن سے مالقات کرکے وقت شہادت کی آرزو
احداً -واَل أَلْتَ ِق َي هِبِ ْم ألَحببت أَاَّل أَلْ َقى مع هؤاَل ِء يوماً و ِ
نہ ہوتی اور میں نے اپنے نفس کو موت کے لئے آمادہ نہ َ َ َ ُ َْ َ ْ َْ ُ
کرلیا ہوتا تو میں ہرگز یہ پسند نہ کرتا کہ ان لوگوں کے
ساتھ ایک دن بھی دشمن سے مقابلہ کروں یا خود ان
أَبَداً.
لوگوں سے مالقات کروں۔
()36
()36
عليهالسالم ومن كتاب له
آپ کامکتوب گرامی
(اپنے بھائی عقیل کے نام جس میں اپنے بعض إلى أخيه عقيل بن أبي طالب -في ذكر جيش أنفذه
لشکروں کا ذکر فرمایا 2ہے اور یہ درحقیقت عقیل کے إلى بعض األعداء
مکتوب کا جواب دے )
پس میں نے اس کی طرف مسلمانوں کا ایک لشکر وهو جواب كتاب كتبه إليه عقيل
عظیم روانہ کردیا اورجب اسے اس امرکی اطالع ملی تو ِ ِِ ِ ِ
اس نے دامن سمیٹ کر فرار اختیار کیا۔اور پشیمان ہو کر
ك ت إِلَْيه َجْيشاً َكثيفاً م َن الْ ُم ْسلم َ
ني َ -فلَ َّما َبلَغَه َذل َ فَ َسَّر ْح ُ
پیچھے ہٹ گیا تو ہمارے لشکرنے اسے راستہ میں جالیا ض الطَِّر ِيق -وقَ ْد ص نَ ِادماً َ -فلَ ِح ُقوه بَِب ْع ِ
مَشََّر َها ِرباً ونَ َك َ
ج ب کہ سورج ڈوبنے
ت الشَّمس لِ ِإلي ِ
اب طََّفلَ ِ
ْ ُ َ
کے قریب تھا نتیجہ یہ ہوا کہدونوں میں ایک مختصر اع ٍة
ف َس َ فَا ْقتََتلُوا َشْيئاً َكاَل واَل -فَما َكا َن إِاَّل َكموقِ ِ
جھڑپ ہوئی اورایک ساعت نہ گزرنے پائی تھی کہ اس َْ َ
نے بھاگ کر نجات حاصل کرلی جب کہ اسے گلے سے ِ ِ ِ
َحىَّت جَنَا َج ِريضاً َ -ب ْع َد َما أُخ َذ مْنه بالْ ُم َخن َِّق -ومَلْ َيْب َق
ِمْنه َغْيُر َّ
پکڑا جا چکا تھا اورچند سانسوں کے عالوہ کچھ باقی نہ
رہ گیا تھا۔اس طرح بڑی مشکل سے اس نے جان بچائی ك ُقَريْشاً الر َم ِق -فَألْياً بِألْ ٍي َما جَنَا -فَ َد ْع َعْن َ
اقالش َق ِ
الضاَل ِل -وجَتْ َواهَلُ ْم يِف ِّ اض ُه ْم يِف َّ
ل ٰہذا اب قریش اور گمراہی میں ان کی تیز رفتاری اور وَت ْر َك َ
تفرقہ میں ان کی گردش اور ضاللت میں ان کی منہ
اح ُه ْم يِف التِّيه -فَِإن َُّه ْم قَ ْد أَمْج َعُوا َعلَى َح ْريِب - مِج
زوری کا ذکر چھوڑ دو کہ ان لوگوں نے مجھ سے جنگ و َ َ
ب رس ِ ِ ِ ِ
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َكإمْج َاع ِه ْم َعلَى َحْر َ ُ
پر ویسے ہی اتفاق کرالی ہے جس طرح رسول اکرم
(ص) سے جنگ پر اتفاق کیا تھا ۔اب ہللا ہی قریش کو ان
کے کئے کا بدلہدے کہ انہوں نے میر ی قرابت کا رشتہ ت ُقَريْشاً َعيِّن اجْلََوا ِزي َ -ف َق ْد قَطَعُوا َرمِح ِ ي َقْبلي -فَ َجَز ْ
ِ
توڑ دیا اور مجھ سے میرے ماں جائے ( )1کی حکومت
سلب کرلی۔
وسلَبُويِن ُس ْلطَا َن ابْ ِن أ ُِّمي .
َ
ت َعْنه ِم ْن َرأْيِي يِف الْ ِقتَ ِال -فَِإ َّن َرأْيِي قِتَ ُ
اور یہ جو تم نے جنگ کے بارے میں میری رائے
دریافت کی ہے تو میری رائے یہی ہے کہ جن لوگوں
ال وأ ََّما َما َسأَلْ َ
يديِن َك ْثَرةُ الن ِ
ني َحىَّت أَلْ َقى اللَّه -اَل يَِز ُ ِ
نے جنگ کو حالل بنا رکھا ہے ان سے جنگ کرتا رہوں َّاس َح ْويِل الْ ُمحلِّ َ
یہاں تک کہ مالک کی بارگاہ میں حاضر ہو جائوں۔میرے
گرد لوگوں کا اجتماع میری عزت میں اضافہ نہیں کر يك - ِعَّز ًة -واَل َت َفُّر ُق ُه ْم َعيِّن َو ْح َشةً -واَل حَتْ َسنَب َّ ابْ َن أَبِ َ
سکتا ہے اور نہ ان کا متفرق ہوجانا میری وحشت میں ضِّرعاً ُمتَ َخشِّعاً -واَل ُم ِقّراً لِلضَّْي ِم
َّاس ُمتَ َ
َسلَ َمه الن ُ ولَ ْو أ ْ
اضافہ کرسکتا ہے اور میرے برادر اگر تمام لوگ بھی
میرا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ مجھے کمزوراورخوفزدہ نہ الز َم ِام لِْل َقائِ ِد -واَل َو ِطيءَ الظَّ ْه ِر س ِّ ِ
َواهناً -واَل َسل َ
ِ
پائیں گے اورظلم کا اقرارکرنے واال۔کمزور اور کسی
بلِ َّلراكِ ِ
قائد کے ہاتھ میں آسانی سے زمام پکڑا دینے واال اور
ف سوارکے لئے سواری کیس
ئ
فکسی ف ن ئ ئن
ے کہ سرکاردوعالم (ص) م لسل آپ کی والدہ ماج دہ ج ن اب اطمہ (ص) کو '' اب ن امی '' کے ل ظ سے ی اد رمای ا ہ
ے اس ل ت ت
سرکار دوعالم
ات ے ف موالے کا فن ()1
ب ن ت اسد کو اپ ی ماں کے ل ظ سے ی اد رمای ا کرے ھ
ے '' ھی امی ب عد امی ''
سہولت دینے واال پائیں گے ۔بلکہ میری وہی صورت َخو بَيِن َسلِي ٍم: ِ ِ
الْ ُمَت َق ِّعد -ولَكنَّه َك َما قَ َال أ ُ
حال ہوگی جس کے بارے میں قبیلہ بنی سلیم والے نے
ت فَِإنَّيِن ِ
کہا ہے۔: ف أَنْ َفَِإ ْن تَ ْسأَلييِن َكْي َ
'' اگر تو میری حالت کے بارے میں دریافت کر رہی ہے ان ِ
يب ب َّ ِ ور َعلَى ريْ ِ
تو سمجھ لے کرمیں زمانہ کے مشکالت میں صبر کرنے صل ُ
الز َم َ َ صبُ ٌَ
يَعُِّز َعلَ َّي أَ ْن ُتَرى يِب َكآبَةٌ
واال اورمستحکم ارادہ واال ہوں میرے لئے نا قابل
برداشت ہے کہ مجھے پریشان حال دیکھا جائے
يب ِ ٍ
اوردشمن طعنے دے یا دوست اس صورت حال سے ت َعاد أ َْو يُ َساءَ َحب ُ َفيَ ْش َم َ
رنجیدہ ہو جائے ''
()37
()37
آپ کا مکتوب گرامی عليهالسالم ومن كتاب له
(معاویہ کے نام) إلى معاوية
ك لِأل َْه َواءَ الْ ُمْبتَ َد َع ِة واحْلَْيَر ِة
اے سبحان ہللا۔تو نئی نئی خواہشات اورزحمت میں ڈالنے
والی حیرت و سر گردانی سے کس قدر چپکا ہوا ہے جب َش َّد لُُز َ
وم َ فَ ُسْب َحا َن اللَّه َ -ما أ َ
کہ تونے حقائق کو برباد کردیا ہے اوردالئل کو ٹھکرادیا اح الْ َوثَائِ ِق -الَّيِت ِه َي ضيِي ِع احْلََقائِِق واطَِّر ِ الْ ُمتََّب َع ِة َ -م َع تَ ْ
ہے جو الہ کو مطلوب اوربندوں پر اس کی حجت ہیں۔ رہ
ِ ِ ِ ِ ِ ِ
گیا تمہارا عثمان اور ان کے قالوں کے بارے میں اج َعلَى وعلَى عبَاده ُح َّجةٌ -فَأ ََّما إ ْكثَ ُار َك احْل َج َ للَّه ط ْلبَةٌ َ
عُثْ َما َن و َقَتلَتِه -فَِإن َ
َّك إِمَّنَا نَ َ
جھگڑا بڑھانا تواس کامختصر جواب یہ ہے کہ تم نے ث َكا َن
عثمان کی مدد اس وقت کی ہے جب مدد میں تمہارا فائدہ ت عُثْ َما َن َحْي ُ ص ْر َ
تھا اور اس وقت الوارث چھوڑ دیا تھا جب ( )1مددمیں والساَل ُم.
َّصُر لَه َّ ث َكا َن الن ْ وخ َذلْتَه َحْي ُكَ - َّصُر لَ َ
الن ْ
ق ف والسالم
ن ش
ان کا فائدہ تھا۔ ث نق ن
ے کہ عمقمان کے محاصرہ کے دورمی ں معاوی ہ ے حام سے اغی ک وج یزی د بخن اسد سری نکین ف
سرکردگی می ں ذری کے حوالہ قسے ش ی ہ
ا ک ل
خ اب ن ابی الحدی د ے ب ال ()1
اسی ن ن
رے کم کے ب ی ر مدی ہ می ں دا ل ت ہ ہ ف ب
کے ب اہ ر م ام ذی شب می ں یئم رہ ی ں اورکسی ھیف ن ق روان ہ کی اور اسے
وں۔چ ا چ ہ وج ث ق صورت می ں می ن
ت ث دای ت تدی دی کہ مدی ہ ئ ہ ق
ے واس وج کی مدد سے ع مان س کا کھال ہ وا م ہوم ی ہئھا کہ اگرا البی ج ماعت کام ی اب ن ہ ہ و سک
کے ب عد واکپس ام ب العلی گ ی۔خج ف
ن کا ج ا زہ لی ی رہ ی اور خت ل ع ثمان
م خ تام پر حاالتئ
کا ا مہ کرادی ا ج اے اور اس کے ب عد ون ع مان کاہ گامہ ھڑا کرکے لی سے ال ت سلب کرلی ج اے ۔
()38 ()38
آپ کامکتوب گرامی عليهالسالم ومن كتاب له
(مالک اشتر کی والیت کےموقع پر اہل مصرکے نام )
إلى أهل مصر Oلما ولى عليهم األشتر
بندٔہ خدا ! امیر المومنین علی کی طرف سے۔ اس قوم
کے نام جس نے خداکے لئے اپنے غضب کا اظہار کیا ضبُوا ِمن عب ِد اللَّه علِي أ َِم ِري الْم ْؤ ِمنِني -إِىَل الْ َقوِم الَّ ِذين َغ ِ
جب اس کی زمین میں اس کی معصیت کی گئی اور اس َ ْ ُ َ َ ٍّ ْ َْ
ِ يِف ِ ِ ِ ِ
کے حق کو برباد کردیا گیا۔ظلم نے ہر نیک و بدکاراور ب اجْلَ ْو ُر ضَر َ ب حِب َقِّه -فَ َ ني عُص َي أ َْرضه وذُه َ للَّه – ح َ
مقیم و مسافر پراپنے شامیانے تان دئیے اور نہ کوئی
اع ِن -فَاَل اج ِر -والْم ِقي ِم والظَّ ِ سر ِادقَه علَى الْبِّر والْ َف ِ
نیکی رہ گئی جس کے زیر سایہ آرام لیا جا سکے اور نہ ُ َ َ َُ
کوئی ایسی برائی رہگئی جس سے لوگ پرہیز کرتے ۔ اهى َعْنه. اح إِلَْيه -واَل ُمْن َكٌر يَُتنَ َوف يُ ْسَتَر ُ َم ْعُر ٌ
امابعد! میں نے تمہاری طرف بندگان خدا میں سے ایک
ایسے بندہ کو بھیجا ہے جو خوف کے دنوں میں سوتا ت إِلَْي ُك ْم َعْبداً ِم ْن ِعبَ ِاد اللَّه -اَل َينَ ُام أَيَّ َام
أ ََّما َب ْع ُد َف َق ْد َب َعثْ ُ
نہیں ہے اوردہشت کے اوقات میں دشمنوں سے خوفزدہ َع َد ِاء ساع ِ ِ
نہیں ہوت ہے اور فاجروں کے لئے آگ کی گرمی سے
َش َّد
الر ْو ِع -أ َ ات َّ اخْلَْوف -واَل َيْن ُك ُل َع ِن األ ْ َ َ
ِ ِ ِ
زیادہ شدید تر ہے اور اس کا نام مالک بن اشتر مذحجی َخو ك بْ ُن احْلَا ِرث أ ُ وه َو َمال َُعلَى الْ ُف َّجا ِر م ْن َح ِر ِيق النَّا ِر ُ -
ہے ل ٰہذا تم لوگاس کی بات سنواوراس کے ان اوامرکی
يما طَابَ َق احْلَ َّق -فَِإنَّه ِ ِ ِ
اطاعت کرو جو مطابق حق ہیں کہوہ ہللا کی تلواروں میں َم ْذح ٍج -فَامْسَعُوا لَه وأَطيعُوا أ َْمَره ف َ
يل الظُّبَ ِة واَل نَايِب ِ ِ َّ سي ٌ ِ
ف م ْن ُسيُوف الله -اَل َكل ُ
سے ایک تلوار ہے ( )1جس کی تلوار کند نہیں ہوتی ہے
اور جس کا وار اچٹ نہیں سکتا ہے۔وہ اگرکوچ کرنے
َْ
کاحکم دے تونکل کھڑے ہو اور اگر ٹھہرنے کے لئے
ِ ِ ِ
الض ِريبَة -فَِإ ْن أ ََمَر ُك ْم أَ ْن َتْنفُروا فَانْفُروا -وإِ ْن أ ََمَر ُك ْم َّ
کہے تو فوراً ٹھہر جائو اس لئے کہ ِ ِ
قئ ت عق
ق ن ن ن ق خ ن
يموا -يموا فَأَق ُ أَ ْن تُقف ُ
رات نکی نزوج ہ سے ل ات ا م
ت ے گ ن اہ ل کر ق
کے اسی ت
س ے ج اب مالک ب تن ویرہنکوب
ے جن سوس کہ عالم تاسالمنےپ ینہ ل ہب الدظ ب ن الول یل ید کو ض
دے دی ا ہ ا ض (1ئ)
ے س گی ن ج رم سے بری کردی ا۔ے اوراس پر ح رت عمر ک ے ا ی بر می کا ا ہار ک ی ا کن ح رت ابو بکر ے س ی اسی مصالح کے حت ا ہی ں ''سیف ہللا '' رار دے کر ا نکرل
ا ا للہ
ِّم إِاَّل َع ْن ِ ِ
فَِإنَّه اَل يُ ْقد ُم واَل حُيْج ُم -واَل يُ َؤ ِّخُر واَل يُ َقد ُ
وہ میرے امر کے بغیرنہ آگے بڑھا سکتا ہے اورنہ
پیچھے ہٹا سکتا ہے۔نہ حملہ کر سکتا ہےاور نہ پیچھے
يحتِه لَ ُك ْم - ِ ِ ِ ِ
ہٹ سکتا ہے میں نے اس کے معاملہ میں تمہیں اپنے أ َْم ِري -وقَ ْد آثَ ْرتُ ُك ْم به َعلَى َن ْفسي لنَص َ
اوپر مقدم کردیا ہے اور اپنے پاس سے جدا کردیا ہے کہ
يمتِه َعلَى َع ُد ِّو ُك ْم. ِ ِ ِ
وہ تمہارا مخلص ثابت ہوگا اور تمہارے دشمن کے مقابلہ وشدَّة َشك َ
میں انتہائی سخت گیر ہوگا۔ ()39
()39
عليهالسالم ومن كتاب له
آپ کامکتوب گرامی
(عمروبن العاص 2کے نام)
إلى عمرو بن العاص
تونے اپنے دین کوایک ایسے شخص کی دنیا کا تابع فَِإنَّك قَ ْد جع ْلت ِدينك َتبعاً لِ ُد ْنيا ام ِر ٍئ -ظَ ِ
اه ٍر َغيُّه َ ْ َ ََ َ َ َ َ
بنادیا ہے جس کی گمراہی واضح ہے اورا س کا پردہ ٔ ِ ِ مِب ِ ِ
عیوب چاک ہوچکا ہے۔وہ شریف انسان کو اپنی بزم میں يم خِبِ ْلطَتِهني الْ َكرميَ َ ْجلسه ويُ َسفِّه احْلَل َ
ِ
َم ْهتُوك سْتُره -يَش ُ
ٍ ِ
بٹھا کرعیب دار اورعقل مند کو اپنی مصاحبت سے احمق ب لِ ِّ
لض ْر َغ ِام اع الْ َك ْل ِ
ضلَه -اتِّبَ َ ت فَ ْ ت أََثَره وطَلَْب َ -فَاتََّب ْع َ
بنادیتا ہے ۔تونے اس کے نقش پر قدم جمائے ہیں۔اوراس
يستِه - ويْنتَ ِظر َما يُْل َقى إِلَْيه ِم ْن فَ ْ ِ مِب ِِ
کے بچے کھچے کی جستجو کی ہے جس طرح کہ ض ِل فَر َ َيلُوذُ َ َخالبه ُ َ -
کتاشیرکے پیچھے لگ جاتا ہے کہ اس کے پنجوں کی اك ِ
پناہ میں رہتا ہے اوراس وقت کا منتظر رہتا ہے جب
ت َما ت أ َْد َر ْك َ َخ ْذ َك – ولَ ْو بِاحْلَ ِّق أ َ وآخَرتَ َ ت ُد ْنيَ َفَأَ ْذ َهْب َ
وم ِن ابْ ِن أَيِب ُس ْفيَا َن - ك ِ ت -فَِإ ْن مُيَ ِّكيِّن اللَّه ِمْن َ
شیر اپنے شکار کا بچا کھچا پھینک دے اور وہ اسے طَلَْب َ
کھالے۔تم نے تو اپنی دنیا اورآخرت دونوں کوگنوادیا ہے۔
حاالنکہ اگر حق کی راہ پر رہے ہوتے جب بھی یہ مدعا َج ِز ُك َما مِب َا قَد َّْمتُ َما -وإِ ْن ُت ْع ِجَزا وَتْب َقيَا فَ َما أ ََم َام ُك َما َشٌّر أْ
حاصل ہو سکتا تھا۔بہر حال اب خدانے مجھے تم پر اور والساَل ُم.
لَ ُك َما َّ -
ابو سفیان کے بیٹے پر قابو دے دیا تو میں تمہارے
حرکات کا صحیح بدلہ دے دوں گا اور اگرتم بچ کرنکل
گئے اور میرے بعد تک باقی رہ گئے تو تمہارا آئندہ دور
تمہارے لئے سخت ترین ہوگا۔والسالم
()40
آپ کامکتوب گرامی
(بعض عمال کے نام)
امابعد!مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کی اطالع
ملی ہے۔اگر تم نے ایسا کیا ہے تو اپنے پروردگار ()40
کوناراض کیا ہے۔اپنے امام کی نا فرمانی کی ہے اور
اپنی امانتداری کوبھی رسوا کیا ہے۔مجھے یہ خبر ملی عليهالسالم ومن كتاب له
ہے کہ تم نے بیت المال کی زمین کو صاف کردیا ہے إلى بعض عماله
اور جو کچھ زیر قدم تھا اس پر قبضہ کرلیا ہے اور جو
کچھ ہاتھوں میں تھااسے کھاگئے ہو لہٰ ذا فوراً اپناحساب ت َف َع ْلتَه َف َق ْد ك أ َْمٌر -إِ ْن ُكْن َ أ ََّما َب ْع ُد َف َق ْد َبلَغَيِن َعْن َ
بھیج دواوریہ یاد رکھوکہ ہللا کا حساب لوگوں کے حساب
سے زیادہ سخت تر ہے ۔والسالم
ك
ت أ ََمانَتَ َ َخَزيْ َ ك وأ ْ ت إِ َم َام َصْي َوع َ
كَ - ت َربَّ َ َس َخطْ َ أْ
()41 ك- ت قَ َد َمْي َ ت َما حَتْ َ َخ ْذ َ
ض فَأ َ ت األ َْر َ َّك َجَّر ْد َ.بلَغَيِن أَن َ َ
واعلَ ْم أ َّ ِ
ك فَ ْارفَ ْع إِيَلَّ ح َسابَ َ
آپ کامکتوب گرامی َن كْ - ت يَ َديْ َت َما حَتْ َ وأَ َك ْل َ
(بعض عمال کے نام) والساَل ُم.
َّاس َّ اب الن ِ ِحساب اللَّه أ َْعظَم ِمن ِحس ِ
ُ ْ َ َ َ
اما بعد!میں نےتم کواپنی امانت میں شریک کا ر بنایاتھا
اورظاہرو باطن میں اپنا قرار دیا تھا اورہمدردی اورمدد ()41
گاری اور امانتداری کےاعتبارسے میرےگھروالوں میں عليهالسالم ومن كتاب له
تم سے زیادہ معتبر کوئی نہیں تھالیکن جب تم نے دیکھا
کہ زمانہ تمہارے ابن ()1عم إلى بعض عماله
ك ك يِف أ ََمانَيِت َ -
وج َع ْلتُ َ أ ََّما َب ْع ُد فَِإيِّن ُكْن ُ
ت أَ ْشَر ْكتُ َ
ِ
ك يِف ِش َعا ِري وبِطَانَيِت -ومَلْ يَ ُك ْن َر ُج ٌل ِم ْن أ َْهلي أ َْوثَ َق ِمْن َ
وم َو َاز َريِت وأ ََد ِاء األ ََمانَِة إِيَلَّ َ -فلَ َّما
اسايِت ُ
ِ
َن ْفسي -ل ُم َو َ
ِ
کا سایہ بکریوں کے باڑہ کیدیوار کے برابر ہو جائے اور إلى أمراء البالد في معنى الصالة
عصر کی نماز اس وقت پڑھا دیناجب آفتاب روشن اور
س ِم ْن ِ صلُّوا بِالن ِ
سفید رہے اوردن میں اتناوقت باقی رہجائے جب مسافر َّاس الظُّ ْهَر َ -حىَّت تَفيءَ الش ْ
َّم ُ أ ََّما َب ْع ُد فَ َ
هِبِ َم ْربِ ِ
وصلُّوا ُم الْ َع ْ
ض الْ َعْن ِز َ -
دو فرسخ جا سکتا ہو۔مغرب اس وقت ادا کرنا جب روزاہ
دار
ضاءُ َحيَّةٌ
س َبْي َ
َّم ُ
صَر والش ْ
ِ ِ ِ يِف ع ْ ِ
وصلُّوا
ني يُ َس ُار ف َيها َفْر َس َخان َ - َّها ِر -ح َ
ض ٍو م َن الن َ ُ
ني هِبِم الْم ْغ ِر ِ
بح َ ُ َ َ
افطارکرتا ہے اورحاجی عرفات سے کوچ کرتا ہے اور
عشاء اس وقت پڑانا جب شفیق چھپ جائے اورایک تہائی
رات نہ گزرنے پائے صبح کی نماز اس وقت ادا کرنا وصلُّوا هِبِ ُم الصائِم -وي ْدفَع احْل ُّ ِ
اج إِىَل مىًن َ - يُ ْفطُر َّ ُ َ ُ َ
ِ
جب آدمی اپنے ساتھی کے چہرہ کو پہچان سکے ۔ ان
کے ساتھ نماز پڑھو کمزور ترین آدمی کا لحاظ رکھ کر۔
وصلُّوا هِبِ ُم ِ
الش َف ُق إِىَل ثُلُث اللَّْي ِل َ -
ني َيَت َو َارى َّ ِ ِ
الْع َشاءَ ح َ
هِبِ ف وجه ِ
اور خبردار ان کے لئے صبر آزما نہ بن جائو۔ صاَل ةَوصلُّوا ْم َ صاحبِه َ - والر ُج ُل َي ْع ِر ُ َ ْ َ الْغَ َداةَ َّ
ِ أْ ِ
ني .َض َعف ِه ْم واَل تَ ُكونُوا َفتَّان َ
()53
آپ کامکتوب گرامی
()53
(جسے مالک بن اشتر نخعی کے نام تحریر 2فرمایا ہے۔
اس وقت جب انہیں محمد بن ابی بکرکے حاالت کے عليهالسالم ومن كتاب له
خراب ہو جانے کے بعد مصر اور اس کے اطراف
کاعامل مقرر فرمایا ۔اور یہ عہد نامہ حضرت ک تمام كتبه لألشتر النخعي -لما واله على مصر Oوأعمالها
سرکاری خطوط سب سے زیادہ مفصل اورمحاسن کالم کا حين اضطرب أمر أميرها محمد بن أبي بكر ،وهو
جامع ہے )
بسم ہللا الرحمن الرحیم أطول عهد كتبه وأجمعه للمحاسن.
یہ وہ قرآن ہے جو بندہ ٔ خدا امیرالمومنین علی نے مالک
بن اشتر نخعی کے نام لکھا ہے جب انہیں خراج جمع الر ِحي ِم
بِ ْس ِم اللَّه الرَّمْح َ ِن َّ
ِ ِِ ِ ِ
کرنے ' دشمن سے جہاد کرنے ' حاالت کی اصالح
کرنے اور شہروں کی آباد کاری کے لئے مصرکاعامل
ك بْ َن ني َ -مال َ َه َذا َما أ ََمَر بِه َعْب ُد اللَّه َعل ٌّي أَمريُ الْ ُم ْؤمن َ
قرار دے کر روانہ کیا سب سے پہال امر یہ ہے کہ ہللا صَر ِجبَايَةَ ِ
ني َواَّل ه م ْ
ِ ِ
احْلَا ِرث األَ ْشَتَر يِف َع ْهده إِلَْيه -ح َ
ِ
سے ڈرو ' اس کی اطاعت کواختیار کرو اورجن فرائض وجهاد ع ُد ِّوها -واستِصاَل ح أَهلِها ِ
وع َم َارةَ ِ ِ
و سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ ْ ْ َ َْ َخَراج َها َ َ َ َ
کوئی شخص ان کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں بِاَل ِد َها.
ہوسکتا ہے اورکوئی شخص
اع َما أ ََمَر بِه يِف كِتَابِه اعتِه -واتِّبَ ِأ ََمَره بَِت ْق َوى اللَّه وإِْيثَا ِر طَ َ
اع َها - ضه وسنَنِه -الَّيِت اَل يسع ُد أَح ٌد إِاَّل بِاتِّب ِ ِمن َفرائِ ِ
َ َ َْ َ ُ ْ َ
ودها وإِض ِ ِ
صَر اللَّه واَل يَ ْش َقى إِاَّل َم َع ُج ُح َ َ َ
ان کے انکاراور بربادی کے بغیر بد بخت نہیں قرار دیا
جا سکتا ہے اپنے دل ہاتھ اور زبان سے دین خدا کی مدد اعت َها -وأَ ْن َيْن ُ
َّل ِ ِ ِ ِ ِ ِ
کرتے رہنا کہ خدائے ''عزاسمہ} '' نے یہ ذمہ داری لی ُسْب َحانَه ب َق ْلبه ويَده ول َسانه -فَإنَّه َج َّل امْسُه قَ ْد تَ َكف َ
ہے کہ اپنے مدد گاروں کی مدد کرے گا اور اپنے دین
کی حمایت کرنے والوں کو عزت و شرف عنایت کرے
صَره وإِ ْعَزا ِز َم ْن أ ََعَّزه. ص ِر َم ْن نَ َ بِنَ ْ
ويَز َع َها ِعْن َد ْسر َن ْفسه ِمن الش ِ ِ
دوسراحکم یہ ہے کہ اپنے نفس کے خواہشات کو کچل
گا۔
َّه َوات َ - وأ ََمَره أَ ْن يَك َ َ َ َ
وء إِاَّل َما َر ِح َم اللَّه. الس ِس أ ََّم َارةٌ بِ ُّ ات -فَِإ َّن َّ اجْل مح ِ
دواور اس یمنہ زوریوں سے رو کے رہو کہ نفس الن ْف َ ََ َ
ٍ ِ
ك إِىَل بِاَل د قَ ْد َجَر ْ
برائیوں کاحکم دینے واال ہے جب تک پروردگار کا رحم
شامل نہ ہوجائے ۔اس کے بعد مالک یہ یاد رکھناکہ میں
ت ك -أَيِّن قَ ْد َو َّج ْهتُ َ مُثَّ ْاعلَ ْم يَا َمال ُ
َّاس وج ْو ٍر -وأ َّ ٍ علَيها دو ٌل َقبلَ َ ِ
نے تم کو ایسے عالقہ کی طرف بھیجا ہے جہاں عدل و َن الن َ ك -م ْن َع ْدل َ َ ْ َ َُ ْ
ت َتْنظُُر فِيه ِم ْن أ ُُمو ِر ِ ِ
ظلم کی مختلف حکومتیں گذر چکی ہیں اور لوگ
تمہارے معامالت کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جس َيْنظُُرو َن م ْن أ ُُمو ِر َك -يِف مثْ ِل َما ُكْن َ
نظر سے تم ان کے اعمال کو دیکھ رہے تھے ول فِي ِه ْم -وإِمَّنَا ت َت ُق ُ يك َما ُكْن َ
ِ
وي ُقولُو َن ف َ كَ -
ِ
الْ ُواَل ة َقْبلَ َ
اورتمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو تم دوسروں کے
ني -مِب َا جُيْ ِري اللَّه هَلُ ْم َعلَى أَلْ ُس ِن يستَ َد ُّل علَى َّ حِلِ
بارے میں کہہ رہے تھے ۔نیک کردار بندوں کی شناخت الصا َ ُْ َ
اس ذکرخیر سے ہوتی ہے جو ان کے لئے لوگوں کی الصالِ ِحك ذَ ِخ َريةُ الْ َع َم ِل َّ الذ َخائِِر إِلَْي َ ب َّ َح َّعبَاده َ -ف ْليَ ُك ْن أ َ
ِ ِ
زبانوں پر جاری ہوتا ہے لہٰ ذا تمہارامحبوب ترین ذخیرہ
عمل صالح کو ہونا چاہیے۔خواہشات کو روک کررکھو ك -فَِإ َّن ك َع َّما اَل حَيِ ُّل لَ َ وش َّح بَِن ْف ِس َك َه َو َاك ُ -فَ ْاملِ ْ
اور جو چیز حاللنہ ہو اس کے بارے میں نفس کو صرف س ا ِإلنْص ُ ِ ِ ُّح بِ َّ
کرنے سے بخل کرو کہ یہی بخل اس کے حق میں
تت أ َْو َك ِر َه ْ َحبَّ ْ
يما أ َ اف مْن َها ف َ َ الن ْف ِ الش َّ
ف هِبِ ْم - ِ ِِ وأَ ْشعِْر َق ْلبَ َ
انصاف ہے چاہے اسے اچھا لگے یا برا۔رعایا کے ساتھ ك الرَّمْح َةَ ل َّلرعيَّة -والْ َم َحبَّةَ هَلُ ْم واللُّطْ َ
مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعاربنالو
اورخبردار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندہ کے ضا ِرياً َت ْغتَنِ ُم أَ ْكلَ ُه ْم -واَل تَ ُكونَ َّن َعلَْي ِه ْم َسبُعاً َ
مثل نہ ہو جانا کہ انہیں کھاجانے ہی کو غنیمت سمجھنے
لگو۔کہ مخلوقات
ك يِف الدِّي ِن -وإِ َّما نَ ِظريٌ لَ َ فَِإنَّهم ِصْن َف ِ
ان إِ َّما أ ٌ
خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور ك يِف
( )1بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں جن سے َخ لَ َ ُْ
ِ ِ
اخْلَْل ِق َ -ي ْفُر ُط مْن ُه ُم َّ
لغزشیں بھی ہو جاتی ہیں اور انہیں خطائوں کا سامنا بھی ض هَلُ ُم الْعلَ ُل -ويُ ْؤتَى الزلَ ُل و َت ْع ِر ُ
کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یاد ھوکے سے ان سے ِ ِ
بھی ہوجاتی ہیں۔ل ٰہذا انہیں ویسے ہی معاف کریدنا جس َع ِط ِه ْم ِم ْن َع ْف ِو َك
َعلَى أَيْدي ِه ْم يِف الْ َع ْمد واخْلَطَِإ -فَأ ْ
طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے ك اللَّه ِم ْن ضى أَ ْن يُ ْع ِطيَ َ ب وَت ْر َ ك ِ -مثْ ِل الَّ ِذي حُتِ ُّ وص ْف ِح َ
َ
درگزر کرے کہ تم ان سے باالتر ہو اور تمہاراولی امرتم
ووايِل األ َْم ِر َعلَْي َ ِ
وص ْفحه -فَِإن َ
سے باال تر ہے اور پروردگار تمہارے والی سے بھی كك َف ْوقَ َ َّك َف ْو َق ُه ْم َ َع ْف ِوه َ
باالتر ہے اور اسنے تم سے ان کے معامالت کی انجام ِ
دہی کا مطالبہ کیا ہے اوراسے تمہارے لئے ذریعہ
وابتَاَل َك اك أ َْمَر ُه ْم ْ -واللَّه َف ْو َق َم ْن َواَّل َك -وقَد ْ
استَ ْك َف َ
ك بِنِ ْق َمتِه ب اللَّه فَِإنَّه اَل يَ َد لَ َ ك حِل ر ِ ِ هِبِ
آزمائش بنادیا ہے اورخبردار اپنے نفس کو ہللا کے مقابلہ ْم -واَل َتْنصنَب َّ َن ْف َس َ َْ
پرنہ اتاردینا۔کہ تمہارے پاس اس کے عذاب سے بچنے
کی طاقت نہیں ہے اورتم اس کے عفو اور رحم سے بے ورمْح َتِه -واَل َتْن َد َم َّن َعلَى َع ْف ٍو ك َع ْن َع ْف ِوه َ -واَل ِغىَن بِ َ
ِ ٍ
ت واَل َتْب َج َح َّن بِعُ ُقوبَة -واَل تُ ْس ِر َع َّن إِىَل بَاد َر ٍة َو َج ْد َ
نیازبھی نہیں ہو۔اور خبردار کسی کو معاف کردینے پر
نادم نہ ہونا اور کسی کو سزا دے کراکڑ نہ جانا۔غیظ و
ِ ِ
غضب کے اظہار یں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے آمُر فَأُطَاعُوحةً واَل َت ُقولَ َّن إيِّن ُم َؤ َّمٌر ُ مْن َها َمْن ُد َ
کی گنجائش پائی جاتی ہو اورخبردار یہ نہ کہنا کہ
مجھے حاکم بنایا گیا ہے لہٰ ذا میری شان یہ ہے کہ میں
ت ئ ت میری خاطاعت کی ق
ش دوں اور
ت حکم
ن ت ن ت ن
ے ج اے ہخ ی ں۔مسلمان کا اح رام لکہ ہ ر نص کو برابر کے ح وق دغ ی
ن ب ےہ ا ا
ق ج ا ی ل ں یہ کام سے
ت صبف ت ع ں مذہ بق ی
ے کہ اس ظ ام نمی ن ہ ازی ن کست ہ
غ ی ( )1سی ہ اس نالمی ظ تام کا ام
ے نکہ حاکم ہ ر لطی کاموا ت ذہ نتہ کرے ب لکہ ہے اورخ ان ح وق می ں ب ی ادی کت ہ ی ہ ق ے اور ی رم شلم کے ب ارے می ں ا ساخ ی ئح وق کا ح ظ ک ی اج ا ا ہ کے ا لم کی ب ا پر ہ و ا غہ ناس ن
ے ت'' رحمن کرو اکہ م پر رحم ک ی ا ت ے نکہ مذہ ب قکا ای ک مستٹ ق ن
ل ظ ام ہ ان کی طا وں سے در گزر کرے اوریت قہ ی نال رکھ کرے اور ت
وں کو بردا نت ت سان سجم ھ کرنان کی ل طی ف ا ہیئں ا ن
ے سے کمزور پر رحم کرو اکہ ے کہ م اپ ے ۔ درت کا ا ل ا ون ہ سماوات و ارض نسے و ع ہی ں کر ی چ اہ ی ق ے و اسے ج تب ار راد پرئرحم ہی ں کر ا ہے سے تکمزور ا خ ج اے ت''اگر ا سان اپ
ے۔ پروردگار م پر رحم کرے اور مہاری طا وں کو معاف کردے جس پر مہاری عا ب ت اور ر جش کادارومدار ہ
ب ِم َن ِ ك إِ ْد َغ ٌ ِ
فَِإ َّن َذل َ
جائے کہ اس طرح دل میں فساد داخل ہو جائے گا اور ال يِف الْ َق ْل ِ
دین کمزور پڑ جائے گا اور انسان تغیرات زمانہ سے ومْن َه َكةٌ للدِّي ِن وَت َقُّر ٌ بَ -
ث لَك ما أَنْ ِ
قریب تر ہو جائے گا۔اوراگر کبھی سلطنت و حکومت کو ك أ َُّب َهةً ت فيه ِم ْن ُس ْلطَانِ َ َح َد َ َ َ َ الْغرَيِ -وإِ َذا أ ْ
ِ
دیکھ کر تمہارے دل میں عظمت و کبریائی اور غرور
پیدا ہونے لگے تو پروردگار کے عظیم ترین ملک ك -وقُ ْد َرتِه ك اللَّه َف ْوقَ َ أَو خَمِيلَةً -فَانْظُر إِىَل ِعظَ ِم م ْل ِ
ُ ْ ْ
ِ ِ ِ ِ ِ
پرغور کرنا اور یہ دیکھنا کہ وہ تمہارے اوپر تم سے
زیادہ قدرت رکھتا ہے کہ اس طرح تمہاری سر کشی دب
ك يُطَام ُن ك -فَِإ َّن َذل َ ك َعلَى َما اَل َت ْقد ُر َعلَْيه م ْن َن ْفس َ ِمْن َ
ِ
جائے گی۔تمہاری طغیانی رک جائے گی اور تمہاری ك -ويَفيءُ ك ِم ْن َغ ْربِ َ ف َعْن َ ك -ويَ ُك ُّ اح َ ك ِمن ِطم ِ
إلَْي َ ْ َ
ِ
ِ
ك ِم ْن َع ْقل َ إِلَي َ مِب
گئی ہوئی عقل واپس آجائے گی۔
ك! ب َعْن َ ك َا َعَز َ ْ
دیکھوخبر دار ہللا سے اس کی عظمت میں مقابلہ اوراس
کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہوہ ہر جبار َّشبُّه بِه يِف َجَبُروتِه -فَِإ َّن وم َس َاماةَ اللَّه يِف َعظَ َمتِه والت َ اك ُ إِيَّ َ
کو ذلیل کردیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنا دیتا ہے۔ ِ
اپنی ذات ' اپنے اہل و عیال اوررعایا میں جن سے تمہیں ني ُك َّل خُمْتَ ٍال. اللَّه يُذ ُّل ُك َّل َجبَّا ٍر ويُِه ُ
تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اوراپنے اص ِةوم ْن َخ َّ كِ - َّاس ِم ْن َن ْف ِس َ ِ ِ
أَنْصف الله وأَنْصف الن َ
ِ ِ َّ
پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظالم
أَهلِك -ومن لَ ِ
ہو جائو گے اورجوہللا کے بندوں پر ظلم کرے گا اس َّك إِاَّل
ك -فَِإن َ ك فيه َه ًوى ِم ْن َر ِعيَّتِ َ ْ َ َْ َ
کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا اورجس کا ِ ِ
دشمن پروردگار ہو جائے گا اس کی ہردلیل باطل
ص َمه ُدو َن وم ْن ظَلَ َم عبَ َاد اللَّه َكا َن اللَّه َخ ْ َت ْف َع ْل تَظْل ْم َ -
ہوجائے گی اور وہ پروردگار کامد مقابل شمارکیا جائے ض ُح َّجتَه،و َكا َن لِلَّه َح ْرباً اص َمه اللَّه أ َْد َح َ وم ْن َخ َ عبَاده َ -
ِ ِ
گا جب تک اپنے ظلم سے بازنہ آجائے یا تو بہ نہ کرلے۔
ہللا کی نعمتوں کی بربادی اور اس کے عذاب میں عجلت س َش ْيءٌ أ َْد َعى إِىَل َت ْغيِ ِري نِ ْع َم ِة وب -ولَْي َ ِع أ َْو َيتُ َ َحىَّت َيْنز َ
ِ ٍ ِ ِ ِ ِ
اللَّه وَت ْعج ِيل ن ْق َمته -م ْن إِقَ َامة َعلَى ظُْل ٍم -فَِإ َّن اللَّه مَس ٌ
کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔اس يع
لئے کہ وہ مظلومنین کی فریاد کا سننے واال ہے اور
ص ِاد. ِ ِ ِِ دعو َة الْم ْ ِ
ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔ ني بِالْم ْر َ وه َو للظَّالم َ ين ُ - ضطَ َهد َ َ َْ ُ
تمہارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق
ك ب األ ُُمو ِر إِلَْي َ َح َّ ولْيَ ُك ْن أ َ
ِ
أ َْو َسطُ َها يِف احْلَ ِّق -وأ ََع ُّم َها يِف الْ َع ْد ِل وأَمْج َعُ َها ل ِر َ
کے اعتبار سے بہترین ،انصاف کے اعتبارسے سب کو
ضى
شامل اور رعایا کی مرضی سے اکثریت ( )1کے لئے
پسندیدہ ہوکہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضا اص ِة -وإِ َّن ضى اخْلَ َّ ف بِ ِر َ
الر ِعيَّ ِة -فَِإ َّن سخ َ ِ ِ
ط الْ َع َّامة جُيْح ُ ُْ َّ
مندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی
ناراضگی عام افراد کی رضا مندی کے ساتھ قابل معافی َح ٌد ِم َن سأَ
ِ
ضى الْ َع َّامة -ولَْي َ اصة يُ ْغَت َفُر َم َع ِر َ
ط اخْلَ َّ ِ ُس ْخ َ
ہو جاتی ہے ۔رعایا میں خواص سے زیادہ والی الر َخ ِاء -وأَقَ َّل َمعُونَةً لَه الر ِعيَّ ِة أَْث َق َل َعلَى الْ َوايِل َمئُونَةً يِف َّ َّ
پرخوشحالی میں بوجھ بننے واال اوربالئوں میں کم سے
اف -وأَقَ َّل اف وأَسأ ََل بِا ِإلحْل ِ يِف الْباَل ِء -وأَ ْكره لِ ِإلنْص ِ
کم مدد کرنے واال۔انصاف کرنا پسند کرنے واال اور َ ْ َ َ َ
اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے واال' عطا کے موقع پرکم ِ ِ ِ
سے کم شکریہ اداکرنے واال اور نہ دینے کے موقع
ف َض َع َ ُشكْراً عْن َد ا ِإل ْعطَاء وأَبْطَأَ عُ ْذراً عْن َد الْ َمْن ِع -وأ ْ
ِ ات الدَّه ِر ِ -من أَه ِل اخْلَ َّ ِ ص اً ِعْن َد ملِ َّم ِ
پربمشکل عذر قبول کرنے واال۔زمانہ کے مصائب میں اصة -وإِمَّنَا ع َم ُ
اد ْ ْ ْ ُ َ رْب
کم سے کم صبر کرنے واال۔کوئی نہیں ہوتا ہے
دین کا ستون ۔مسلمان کی اجتماعی طاقت ' دشمنو ں کے َع َد ِاء الْ َع َّامةُ ِم َن ِ
ني -والْعُ َّدةُ لأل ْ ِِ مِج
الدِّي ِن و َاعُ الْ ُم ْسلم َ
ك َم َع ُه ْم. ومْيلُ َ ِ ِ
األ َُّمة َ -ف ْليَ ُك ْن ص ْغ ُو َك هَلُ ْم َ
مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں ل ٰہذا
تمہارا جھکائو انہیں کی طرف ہونا چاہیے اور تمہارا
رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے۔رعایا میں سب ك وأَ ْشنَأ َُه ْم ِعْن َد َك -أَطْلَُب ُه ْم ك ِمْن َ ولْيَ ُك ْن أ َْب َع َد َر ِعيَّتِ َ
سے زیادہ دور اور تمہارے نزدیک مبغوض اس شخص ب الن ِ
َّاس لِم َعايِ ِ
کو ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کا َ
ت قئ ن ئ ت تالشتکرنے واال ہے ن ف ئ ت
کے ہ ر سماج من ں دو نطرح کے ا راد اے اے ہ ں :خ واص اور عوام۔خق واص وہ ہ وے ہ ں ج و ک ن ن ن
کے ا ل ہ و قے ہ ی ں اورئان ے ام ئی ازات ف ےل سی ہ کسی ب ی
ئاد پر اپ ی ی ج پ ق ی ( 1ن ش)د ی ا ت
ک پ ی ح ہ ص ن ہ
اورآ ات ک مو عئ پر ان کا تکو ی
خ ب اصم ہ
ن چ ہتے۔اگر ا جاھ ر ر ظ ش ی کو ت ثی کی ران ع
ہ خپمو ر واور ل اح مراعات
ت ادہ ی ز سے ادہ ز
ی یں م ون ا ں یہ ا کہ ے ت
ہ ا و ہنکا م ی
اء
ےہی ں ے آمادہ رہے ہ ی ں۔ہ ر دمت کے ل تسی م ی دان ح ی ات می ں ظ ر آے ہ ی ں۔اس کے بر الف عوام ال ن اس ہ ر مصی ب ت می ں سی ہ سپ ر ر ے اور ن ہ ی ہ ک ہ مصرف ہی ںقہ و ا
ش کئ ن ن خ ت ف ف ف اورکمئسے کم ح وقنکام طالب ہ کرے ہ ی ں۔ ت
ے ثکینکو ش کرے کہ ی ہی دی ن کا کرے اور ا نہی ںض وش ر ھ کے م نادات کا ح ظ ئ ت خ ے کہ عوام ال ن اس ہت ے قکہ حاکم کا رض ہ موالے کائ ن اتقے اسی ن کت ہ نکی طرف م وج ہ ک ی ا ت
کی ارا گین کاکو ی ا ر ہی ں ہ وگا اور امت کے س ون اور اس کی وت ہ ں اور ا ہی ں سے اسالم کی طا ت کا مظ اہ ر نہ ہ و ا ے اس کے ب عد واص ت ب
ے و ان ئ ف اراض ھی ہ وگ ئ غ ک ئہ ت ن خ ی لی ت
ے اوری ہ س ی الب بڑے ے و پ ھر اس طو ان کا کو ی عالج ہی ں ہ و سکت ا ہ ے اور وہ ب اوت پرآمادہ ہ وگ اس کے بر تالف اگر عوام ال اس ہ ا ھ سے ل گ ے رہ ی ںت گے نکن ت کام چ ل ت خ
ے۔ ج ہ ا ا لے اہ ب ھ اس ے ب ڑے ت و اج کو پ
ا
َّاس عيوباً الْوايِل أَح ُّق من سَترها -فَاَل تَك ِ
فَِإ َّن يِف الن ِ ُُ َ َ َ ْ َ َ َ
۔اس لئے کہ لوگوں میں بہر حال کمزوریاں پائی جاتی ْش َف َّن
ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری
والی پر ہے ل ٰہذا خبر دار جو عیب تمہارے سامنے نہیں ك- ك تَطْ ِهريُ َما ظَ َهَر لَ َ ك ِمْن َها -فَِإمَّنَا َعلَْي َ اب َعْن َ
َع َّما َغ َ
ہے اس کا انکشاف نہ کرنا۔ تمہاری ذمہ داری صرف
عیوب کی اصالح کردینا ہے اورغائبات کا فیصلہ کرنے
اسرُتِ الْ َع ْو َر َة َما
ك -فَ ْ اب َعْن َ واللَّه حَيْ ُك ُم َعلَى َما َغ َ
واال پروردگار ہے۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام ك- ب َسْتَره ِم ْن َر ِعيَّتِ َ ك َما حُتِ ُّ ت -يَ ْسرُتِ اللَّه ِمْن َ استَطَ ْع َْ
عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی ٍ أَطْلِ ْق َع ِن الن ِ
پردہ پوشی کی پروردگارسے تمنا کرتے ہو۔ لوگوں کی بك َسبَ َ َّاس عُ ْق َد َة ُك ِّل ِح ْقد -واقْطَ ْع َعْن َ
طرف سے کینہ کی ہر گروہ کو کھول دواوردشمنی کی
ك – واَل ض ُح لَ َ ُك ِّل ِوتْ ٍر -وَتغَاب عن ُك ِّل ما اَل ي ِ
ہر رسی کو کاٹ دو اور جوبات تمہارے لئے واضح نہ َ َ َ َْ
ہو اس سے انجان بن جائو اور ہرچغل خور کی تصدیق اش وإِ ْن تَ َشبَّه اع َي َغ ٌّ الس ِ
اع -فَِإ َّن َّ ص ِد ِيق َس ٍ َت ْع َجلَ َّن إِىَل تَ ْ
میں عجلت سے کام نہ لو کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کا ر ِِ
ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ بِالنَّاصح َ
ني.
آئے ِ
ض ِل - ك َع ِن الْ َف ْ ك خَبِياًل َي ْعد ُل بِ َورتِ َ ِ
واَل تُ ْدخلَ َّن يِف َم ُش َ
(مشاورت)
دیکھو اپنے مشورہ ( )1میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا ك َع ِن األ ُُمو ِر -واَل ضعِ ُف َ/
ويَعِ ُد َك الْ َف ْقَر -واَل َجبَاناً يُ ْ
ك الشََّره بِاجْلَ ْو ِر -فَِإ َّن الْبُ ْخ َل واجْلُنْب َ َح ِريصاً يَُزيِّ ُن لَ َ
کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹادے گا
اورفقرو فاقہ کاخوف دالتا رہے گا اور اسی طرح بزل
سے مشورہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنادے گا۔ ص َغَرائُِز َشىَّت -جَيْ َمعُ َها ُسوءُ الظَّ ِّن بِاللَّه. ِ
واحْل ْر َ
اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ
طریقہ سے مال جمع کرنے کوبھی تمہارے نگاہوں میں
آراستہ کردے گا۔یہ بخل بزدلی اور طمع اگرچہ الگ الگ
جذبات و خصائل ہیں لیکن ان سب کا قدر مشترک
پروردگار سے سوء ظن ہے جس کے بعد ان خصلتوں
غف ش ئ ئ ہے۔
ت کاظہور ہوتا ش خ
ن فق
ے کہ نحاکم کو کظسی عتب ہ ح ی ن شات نسے ا ل طرف وج ہ ندال ت غی فگ ی کی ہ ارے م ں دا ات کاذکر ک ا گ ا ے اور اس ن کت ن کے
ن بوں ع لفئ ت م )ان رات می ں ز دگی کے ن( 1ن
ن ہ ف ہ ت ی ی ہ ہ حی ی ب ق ب
ے ج و کومت کو ب اہ و برب اد کردے اورعوامی م ادات کو ذر ا ل کرکے ا ہی ں لم وس م کا ا ہ ب ادے ۔ ہی ں ہ و ا چ اہ ی
ے اور کسی محاذ پر ھی کو ی ایسا ا دام ہی ں کر ا چ ا ی
ِ
(وزارت)2 ك َو ِزيراً َ -
وم ْن ك َم ْن َكا َن لألَ ْشَرا ِر َقْبلَ َ إِ َّن َشَّر ُو َز َرائِ َ
اوردیکھو تمہارے وزراء میں سب سے زیادہ بدتر وہ ہے
جو تم سے پہلے اشرار کا وزیر رہ چکا ہواور ان کے ك بِطَانَةً -فَِإن َُّه ْم أ َْع َوا ُن َش ِر َك ُه ْم يِف اآلثَ ِام فَاَل يَ ُكونَ َّن لَ َ
ت و ِاج ٌد ِمْنهم َخْير اخْلَلَ ِ ِ ِ ِ
ف األَمَثَة وإ ْخ َوا ُن الظَّلَ َمة -وأَنْ َ َ
گناہوں میں شریک رہ چکا ہو۔لہٰ ذا خبردار! ایسے افراد
کو اپنے خواص میں شامل نہ کرنا کہ یہ ظالموں کے مدد ُْ َ
آصا ِر ِه ْم ِ ِِ ِِ ِ مِم
گار اورخیانت کاروں کے بھائی بند ہیں اور تمہیں ان س َعلَْيه مثْ ُل َ َّْ -ن لَه مثْ ُل َآرائه ْم و َن َفاذه ْم -ولَْي َ
وأ َْو َزا ِر ِه ْم وآثَ ِام ِه ْم -مِم َّْن مَلْ يُ َعا ِو ْن ظَالِماً َعلَى ظُْل ِمه واَل
کے بدلے بہترین افراد مل سکتے ہیں جن کے پاس انہیں
کی جیسی عقل اور کار کردگی ہو اور ان کے جیسے
مِث
گناہوکے بوجھ اورخطائوں کے انبار نہ ہوں۔نہ انہوں نے ك َح َس ُن لَ َ ك َمئُونَةً وأ ْ ف َعلَْي َ َخ ُّ كأَ آ اً َعلَى إِمْثِه -أُولَئِ َ
کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی
گناہ گار کا اس کے گناہمیں ساتھ دیا ہو۔یہ وہ لوگ ہیں ك َعطْفاً وأَقَ ُّل لِغَرْيِ َك إِلْفاً -فَاخَّتِ ْذ َمعُونَةً -وأَحْىَن َعلَْي َ
ك -مُثَّ لْيَ ُك ْن آ َثُر ُه ْم ِعْن َد َك أُولَئِك خ َّ خِل
جن کا بوجھ تمہارے لئے ہلکا ہوگا اوریہ تمہارے
بہترین مدد گار ہوں گے اورتمہاری طرف محبت کا
وح َفاَل تِ َ
ك َ اصةً َلَ َواتِ َ َ َ
ِ
جھکائو بھی رکھتے ہوں گے اور اغیار سے انس و الفت كيما يَ ُكو ُن ِمْن َ ك -وأََقلَّ ُه ْم ُم َس َ
اع َد ًة ف َ أَْق َوهَلُ ْم مِب ُِّر احْلَ ِّق لَ َ
ِ ِ ِ مِم
ك ِم ْن َه َو َاك َحْي ُ َّا َك ِره اللَّه أل َْوليَائِه َ -واقعاً َذل َ
بھی نہ رکھتے ہوں گے۔انہیں کو اپنے مخصوص ث َوقَ َع
اجتماعات میں اپنامصاحب قرار دینا اور پھر ان میں بھی
سب سے زیادہ حیثیت اسے دینا جو حق کے حرف تلخ
کو کہنے کی زیادہ ہمت رکھتا ہو اور تمہارے کسی والص ْد ِق -مُثَّ ُر ْ
ض ُه ْم َعلَى أَاَّل ص ْق بِأ َْه ِل الْ َو َر ِع ِّ
والْ َ
ایسے عمل میں تمہارا ساتھ نہ دے جسے پروردگار اپنے
اولیاء کے لئے نا پسند کرتا ہو چاہے وہ تمہاری وك -واَل يُطُْر َ
خواہشات سے کتنی زیادہ میل کیوں نہ کھاتی ہوں۔
(مصاحبت)2
تقوی اور اہل صداقت سے رکھناٰ اپنا قریبی رابطہ اہل
اور انہیں بھی اس امر کی تربت دینا کہ بال سبب تمہاری
تعریف نہ کریں اور کسی ایسے بے بنیاد
ِ
اط ٍل مَلْ َت ْف َع ْله -فَِإ َّن َك ْثَر َة ا ِإلطَْراء حُتْ ِد ُ وك بِب ِ
عمل کا غرورنہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ ث
زیادہ تعریف سے غرور پیدا ہوتا ہے اورغرور انسان کو َيْب َج ُح َ َ
سر کشی سے قریب تر بنا دیتا ہے ۔ الز ْه َو وتُ ْديِن ِم َن الْعَِّز ِة. َّ
دیکھوخبر دار! نیک کردار اور بد کردار تمہارے نزدیک
یکساں نہ ہونے پائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں واَل يَ ُكونَ َّن الْ ُم ْح ِس ُن والْ ُم ِسيءُ ِعْن َد َك مِب َْن ِزلٍَة َس َو ٍاء -فَِإ َّن
ان -وتَ ْد ِريباً ان يِف ا ِإلحس ِ ك َتز ِهيداً أل َْه ِل ا ِإلحس ِ ِ
نیکی سے بد دلی پیدا ہوگی اور بد کردار وں میں بد
کرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ہر شخص کے ساتھ ویسا ہی َْ َْ يِف َذل َ ْ
برتائو کرنا جس کے قابل اس نے اپنے کو بنایا ہے اور أل َْه ِل ا ِإل َساءَ ِة َعلَى ا ِإل َساءَ ِة -وأَلْ ِز ْم ُكالًّ ِمْن ُه ْم َما أَلَْز َم
یاد رکھنا کہ حاکم میں رعایا سے حسن ظن کی اسی قدر
توقع کرنی چاہیے جس قدر ان کے ساتھ احسان کیا ہے
س َش ْيءٌ بِأ َْد َعى -إِىَل ُح ْس ِن ظَ ِّن َر ٍ
اع واعلَ ْم أَنَّه لَْي َ
َن ْف َسه ْ
ات َعلَْي ِه ْم - بِر ِعيَّتِه ِ -من إِحسانِه إِلَي ِهم وخَت ْ ِف ِيفه الْمئونَ ِ
اور ان کے بوجھ کو ہلکا بنایا ہے اور ان کو کسی ایسے َُ ْ َْ ْ ْ َ
کام پر مجبور نہیں کیا ہے جو ان کے امکان میں نہ ہو۔ ِ ِ ِ ِ
ل ٰہ ذا تمہارا برتائو اس سلسلہ میں ایسا ہی ہونا چاہیے جس س لَه قَبلَ ُه ْم َ -ف ْليَ ُك ْن اه ْم َعلَى َما لَْي َ استكَْراهه إِيَّ ُ وَت ْرك ْ
ِ
سے تم رعایا سے زیادہ سے زیادہ حسن ظن پیدا کر ك- ك بِه ُح ْس ُن الظَّ ِّن بَِر ِعيَّتِ َ ك أ َْمٌر -جَيْتَ ِم ُع لَ َ ك يِف َذل َ ِمْن َ
سکو کہ یہ حسن ظن بہت سی اندرونی زحمتوں کو قطع
ِ فَِإ َّن ُح ْس َن الظَّ ِّن َي ْقطَ ُع َعْن َ
کردیتا ہے اور تمہارے حسن ظن کا بھی سب سے زیادہ َح َّق َم ْن صباً طَ ِوياًل -وإ َّن أ َ ك نَ َ
حقدار وہ ہے جس کے ساتھ تم نے بہترین سلوک کیا ہے۔ ُّك بِه لَ َم ْن َح ُس َن بَاَل ُؤ َك ِعْن َده . َح ُس َن ظَن َ
اور سب سے زیادہ بد ظنی کا حقدار وہ ہے جس کا
برتائو تمہارے ساتھ خراب رہا ہے۔ ُّك بِه لَ َم ْن َساءَ بَاَل ُؤ َك ِعْن َده -واَل َح َّق َم ْن َساءَ ظَن َ ِ
وإ َّن أ َ
دیکھو کسی ایسی نیک سنتکو مت توڑ دینا جس پر اس
امت کے بزرگوں نے عمل کیا ہے اور اسی کے ذریعہ ور َه ِذه األ َُّم ِة - ص ُد ُ
َتْن ُقض سنَّةً حِل ِ هِب
صا َةً َعم َل َا ُ ْ ُ َ
سماج میں الفت قائم ہوتی ہے اور رعایا کے حاالت کی الر ِعيَّةُ -واَل حُتْ ِدثَ َّن ت َعلَْي َها َّ وصلَ َح ْت َا األُلْ َفةُ َ
واجتَمع هِب
ْ ََ ْ
اصالح ہوئی ہے اور کسی ایسی سنت کو رائج نہ کردینا
اضي تِْل َ ضُّر بِ َشي ٍء ِمن م ِ
جو گذشتہ سنتوں کے حق میں نقصان دہ ہو کہ اس طرح َجُر السنَ ِن َ -فيَ ُكو َن األ ْ ك ُّ ْ َْ ُسنَّةً تَ ُ
اجر اس کے لئے ہوگا جس نے سنت کو ایجاد کیا ہے َّها -والْ ِو ْز ُر ِ
اور گناہ ل َم ْن َسن َ
تمہاری گردن پر ہوگا کہ تم نے اسے توڑ دیا ہے۔ ت ِمْن َها.
ضَ ك مِب َا َن َق ْ
َعلَْي َ
علماء کے ساتھ علمی مباحثہ اورحکما کے ساتھ سنجیدہ
بحث جاری رکھنا ان مسائل کے بارے میں جن سے يت َما وأَ ْكثِر م َدارسةَ الْعلَم ِاء ومنَاقَ َشةَ احْل َكم ِاء -يِف َتثْبِ ِ
ُ َ ْ ُ ََ َُ ُ
عالقہ کے امور کی اصالح ہوتی ہے اور وہ امور قائم
ك. َّاس َقْبلَ َ صلَح َعلَْيه أ َْمر بِاَل ِد َك -وإِقَامة ما ْ ِ
ِ
رہتے ہیں جن سے گذشتہ افراد کے حاالت کی اصالح اسَت َق َام به الن ُ َ َ ُ َ َ
ض- ض َها إِاَّل بَِب ْع ٍ ِ واعلَ ْم أ َّ
ہو تے ()1
ہوئی ہے۔
اوریاد رکھو کہ رعایا کے بہت سے طبقات
صلُ ُح َب ْع ُ
ات -اَل يَ ْ الرعيَّةَ طََب َق ٌ
َن َّ ْ
ومْن َها ض -فَ ِمْنها جنُود اللَّه ِ ض َها َع ْن َب ْع ٍ واَل ِغ بِبع ِ
ہیں جن میں کسی کی اصالح دوسرے کے بغیر نہیں ہو َ ُ ُ ىَن َ ْ
سکتی ہے اور کوئی دوسرے سے مستغنی نہیں ہو سکتا ال
ومْن َها عُ َّم ُ ومْنها قُضاةُ الْع ْد ِل ِ ُكتَّاب الْع َّام ِة واخْلَ َّ ِ ِ
ہے۔انہیں میں ہللا کے لشکرکے سپاہی ہیں اور انہیں میں اصة َ َ َ - ُ َ
عام اورخاص امور کے کاتب ہیں۔انہیں میں عدالت سے ِ
اج م ْن أ َْه ِل ِ ِ ِ
والرفْ ِق -ومْن َها أ َْه ُل اجْل ْزيَة واخْلََر ِاف ِّ ا ِإلنْص ِ
َ
فیصلہ کرنے والے ہیں اور انہیں میں انصاف اور نرمی الصنَاعاتِ ِ ِ ِ ِّ ِ
قائم کرنے والے عمال ہیں۔انہیں میں مسلمان اہل خراج ُّج ُار وأ َْه ُل ِّ َ َّاس -ومْن َها الت َّ وم ْسل َمة الن ِ الذ َّمة ُ
اور کافر اہلذمہ ہیں اور انہیں میں تجارت اورصنعت
اج ِة والْ َم ْس َكنَ ِة -و ُكلٌّ ومْنها الطَّب َقةُ ُّ ِ
الس ْفلَى م ْن َذ ِوي احْلَ َ َ َ
ِ
وحرفت والے افراد ہیں اور پھر انہیں میں فقراء و
يضةً يِف
ض َع َعلَى َحدِّه فَ ِر َ
مساکین کا پست ترین طبقہ بھی شامل ہے اور سب کے وو َ قَ ْد مَسَّى اللَّه لَه َس ْه َمه َ -
لئے پروردگار نے ایک حصہ معین کردیا ہے اور اپنی كِتَابِه أ َْو ُسن َِّة نَبِيِّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َع ْهداً ِ -مْنه ِعْن َدنَا
کتاب کے فرائض یا اپنے پیغمبرکی سنت میں اس کی
حدیں قائم کردی ہیں اور یہ وہ عہد ہے جو ہمارے پاس حَمْ ُفوظاً.
محفوظ ہے ۔
الر ِعيَّ ِة وزين الْواَل ِة ِ - ِ
فوجی دستے یہ حکم خدا سے رعایا کے محافظ اور وعُّز الدِّي ِن َُْ ُ صو ُن َّ ود بِِإ ْذن اللَّه ُح ُ
فَاجْلُنُ ُ
الر ِعيَّةُ إِاَّل هِبِ ْم -مُثَّ اَل قِ َو َام
والیوں کی زینت ہیں۔انہیں سے دین کی عزت ہے اور
وم َّ س َت ُق ُ ِ
یہی امن وامان کے وسائل ہیں رعایا کے امور کا قیام ان وسبُ ُل األ َْمن -ولَْي َ
ُ
کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور یہ دستے بھی قائم نہیں رہ لِْلجنُودِ
ض سکتے ئ ق ت ُ
ت ف ف خ ن ن ق
ے نکہ ا کرد ح وا ہ اور ے ا ام ر ذکرہ اک وں ذار اورذمہ ت ےنسماج کو 9حصوں ر سی م ک ا ے فاور سب کے صوص ات ' را ض ،ت اہ ()1اس م ام پر امی ر الموم یغ ن
سی ہ س ی ہش ی مکم ی می ی یہ پ مکم
ے اور معا رہ چ ی ن اور کون کی ز دگی کرے اکہ سماج کی ل اصالح ہ و ک ے لہٰذا ہ رای ک کا س
کے ب ی ر ل ہی ں ہ و کت کسیسکاکام دوسرے غ
ے قکہ دوسرے کی مد ئ رض ہت ئاہ
ے ورن ہ اس کے ب ی ر سماج ت ب اہ برب اد ہ و ج اے گا اور اس کی ذمہ داری مام طب ات پر ی کساں طورپر عا د ہ وگی۔ گزار ک
ہیں جب تک وہ خراج نہ نکال دیاجائے جس کے ذریعہ اج -الَّ ِذي َي ْق َو ْو َن بِه َعلَى ِج اللَّه هَلُ ْم ِم َن اخْلََر ِ ِ مِب
إاَّل َا خُيْر ُ
دشمن سے جہاد کی طاقت فراہم ہوتی ہے اورجس پر
حاالت کی اصالح میں اعتماد کیا جاتا ہے اوروہی ان صلِ ُح ُه ْم -ويَ ُكو ُن يما يُ ْ
ِ
وي ْعتَم ُدو َن َعلَْيه ف َ
ِجه ِاد ع ُد ِّو ِهم ِ -
َ َ ْ َ
کے حاالت کے درست کرنے کاذریعہ ہے ۔
اجتِ ِه ْم - ِ ِ
اس کے بعد ان دونوں صنفوں کا قیام قاضیوں ۔ عاملوں م ْن َو َراء َح َ
اور کاتبوں کے طبقہ کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ
سب عہدو پیمان کو مستحکم بناتے ہیں۔منافع کو جمع
ث ِ -م َن ف الثَّالِ ِ الصْن ِ مُثَّ اَل قِ َو َام هِلََذيْ ِن ِّ
الصْن َفنْي ِ إِاَّل بِ ِّ
کرتے ہیں اورمعمولی} اورغیرمعمولی} معامالت میں ان َّاب -لِ َما حُيْ ِك ُمو َن ِم َن الْ َم َعاقِ ِد ض ِاة والْع َّم ِال والْ ُكت ِ
ُ الْ ُق َ
وجَيْ َمعُو َن ِم َن الْ َمنَافِ ِع -ويُ ْؤمَتَنُو َن َعلَْيه ِم ْن َخ َو ِّ
پر اعتاد کیا جاتا ہے۔اس کے بعد ان سب کا قیام تجاراور
صنعت کا روں کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ وہ وسائل
اص األ ُُمو ِر
حیات کو فراہم کرتے ہیں۔بازاروں کوقائم رکھتے ہیں اور ُّجا ِر وذَ ِوي وع َو ِّام َها -واَل قِ َو َام هَلُ ْم مَجِ يعاً إِاَّل بِالت ََّ
لوگوں کی ضرورت کا سامان ان کی زحمت کے بغیر
يمونَه ِ ِِ ِ ِ ِ الصن ِ ِ
فراہم کردیتے ہیں۔ يما جَيْتَمعُو َن َعلَْيه م ْن َمَرافقه ْم -ويُق ُ اعات -ف َ ِّ َ َ
اس کے بعد فقراء و مساکین کا پست طبقہ ہے جو اعانت
َس َواقِ ِه ْم -ويَ ْك ُفونَ ُه ْم ِم َن التََّرفُّ ِق بِأَيْ ِدي ِه ْم َ -ما اَل م ْن أ ْ
ِ
و امداد کا حقدار ہے اور ہللا کے یہاں ہرایک کے لئے
سامان حیات مقرر ہے اور ہر ایک کا والی پر اتنی مقدار َيْبلُغُه ِرفْ ُق َغرْيِ ِه ْم –
میں حق ہے جس سے اس کے امر کی اصالح ہو سکے ِ َّ ِ
اوروالی اس فریضہ سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا ہے جب ين حَيِ ُّق اجة والْ َم ْس َكنَة -الذ َ
الس ْفلَى ِمن أَه ِل احْل ِ
ْ ْ َ َ مُثَّ الطََّب َقةُ ُّ
تک ان مسائل کا اہتمام نہ کرے اور ہللا سے مدد طلب نہ ومعُو َنُت ُه ْم -ويِف اللَّه لِ ُك ٍّل َس َعةٌ ولِ ُك ٍّل َعلَى ِرفْ ُد ُه ْم َ
کرے اوراپنے نفس کو حقوق کی ادائیگی اور اس راہ
س خَي ُْر ُج الْ َوايِل ِ -م ْن الْوايِل ح ٌّق بَِق ْد ِر ما ي ِ
کے خفیف وثقیل پر صبر کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے صل ُحه -ولَْي َ َ ُْ َ َ
ل ٰہذا لشکر کا سردار اسے قرار دینا جو ہللا ،رسول اور ك -إِاَّل بِااِل هتِم ِام وااِل ستِعانَةِ ح ِقي َق ِة ما أَلْزمه اللَّه ِمن َذلِ
امام کا سب سے زیادہ مخلص ' سب سے زیادہ پاکدامن َْ َْ ْ َ َ َ ََ
يما ِ ِ
ني َن ْفسه َعلَى لُُزوم احْلَ ِّق َّ ِ ِ بِاللَّه -وَتو ِط ِ
اور سب سے زیادہ برداشت کرنے واال ہو ۔ غصہ کے
موقع پرجلد بازی نہ کرتا ہو۔ عذر کوقبول کرلیتا ہو۔
والصرْب َعلَْيه ف َ ْ
ِ ِ ِ
کمزروروں پر مہربانی کرت ك ص َح ُه ْم يِف َن ْفس َ ف َعلَْيه أ َْو َث ُق َلَ :ف َو ِّل م ْن ُجنُود َك أَنْ َ َخ َّ
ضلَ ُه ْم ِح ْلماً مِم َّْن اه ْم َجْيباً وأَفْ َ ك وأَْن َق ُ
ِ ِ ِ
للَّه ولَر ُسوله و ِإل َم ِام َ
ُّع َف ِاء
َف بِالض َ وي ْرأ ُيح إىَل الْعُ ْذ ِر َ -
ب ويسرَتِ ِ
ض َْ ُ
يُْب ِطئ َع ِن الْغَ َ ِ
ُ
ف واَل َي ْقعُ ُد بِه ِ مِم ِ
ويْنبُو َعلَى األَقْ ِويَاء -و َّْن اَل يُثريُه الْعُْن ُ
ہو۔طاقتور افراد کے سامنے اکڑ جاتا ہو۔بد خوئی اسے
جوش میں نہ لے آئے اور کمزوریاسے بٹھانہ دے ۔ َ
عالقات عامہ: 2
ف. الض َّْع ُ
پھراس کے بعد اپنا رابطہ بلندخاندان ،نیک گھرنے ۔ اب -وأَه ِل الْبيوتَ ِ
ات َحس ِ ِ مُثَّ الْ َ ِ ِ
عمدہ روایات والے اور صاحبان ہمت و شجاعت و ْ ُُ ص ْق ب َذوي الْ ُمُروءَات واأل ْ َ
اع ِة والسوابِ ِق احْل سنَ ِة -مُثَّ أَه ِل الن ِ َّ حِل ِ
سخاوت و کرم سے مضبوط رکھو کہ یہ لوگ کرم کا َّج ََّج َدة والش َ ْ ْ ََ الصا َة َّ َ
ِ
اح ِة -فَِإن َُّه ْم مِج َاعٌ ِم َن الْ َكَرم ُ والس َخ ِاء َّ
سرمایہ اورنیکیوں کا سرچشمہ ہیں۔ان کے حاالت کی
اسی طرح دیکھ بھال رکھنا جس طرح ماں باپ اپنی بوش َع ٌ والس َم َ َّ
ان ِمن اوالد کے حاالت پرنظر رکھتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ َّد الْوالِ َد ِ ف -مُثَّ َت َف َّق ْد ِم ْن أ ُُمو ِر ِه ْم َما َيَت َفق ُ ِمن الْعر ِ
کوئی ایسا سلوک کرنا جو انہیں قوت بخشتا ہوتواسے
ْ َ َ ُْ
ِمِه
ش ْيءٌ َق َّو ْيَت ُه ْم بِه -واَل عظیم نہ خیال کرلینا اوراگر کوئی معمولی برتائو بھی کیا ك َ َولَد َا -واَل َيَت َفاقَ َم َّن يِف َن ْف ِس َ
ہے تو اسے حقیر سمجھ کر روک نہ دینا۔اس لئے کہ حَتْ ِقر َّن لُطْفاً َتعاه ْدَتهم بِه وإِ ْن قَ َّل -فَِإنَّه د ِ
اعيَةٌ هَلُ ْم إِىَل
اچھا سلوک انہیں اخالص کی دعوت دے گا اوران میں َ َ َ ُْ َ
سن ظن پیدا کرائے گا اورخبردار بڑے بڑے کاموں پر ُّد
ك -واَل تَ َد ْع َت َفق َ وح ْس ِن الظَّ ِّن بِ َك ُ يح ِة لَ َ ِ ِ
بَ ْذل النَّص َ
يم َها -فَِإ َّن لِْليَ ِس ِري ِم ْن يف أُمو ِر ِهم اتِّ َكااًل علَى ج ِس ِ ِ ِ
اعتبار کرکے چھوٹی چھوٹی ضروریات کی نگرانی
کونظرانداز نہ کردینا کہ معمولی مہربانی کابھی ایک اثر َ َ لَط ُ ُ
ضعاً يْنتَ ِفعو َن بِه -ولِْلج ِسي ِم موقِعاً اَل يسَت ْغنُو َن ہے جس سے لوگوں کوفائدہ ہوتا ہے اوربڑے کرم کا ك مو ِ ِ
لُطْف َ
بھی ایک مقام ہے جس سے لوگ مستغنی نہیں ہو سکتے ْ َ ْ َ َ ُ َ ْ َ
ہیں۔ َعْنه.
دفاع: اه ْم يِف َمعُونَتِه ُ اس
َ وس ُجْن ِد َك ِعْن َد َك َم ْن َو ولْيَ ُك ْن آثَُر ُرءُ ِ
اوردیکھو تمام سرداران لشکرمیں تمہارے نزدیک سب
سے زیادہ افضل اسے ہونا چاہیے جو فوجیوں کی امداد ض َل َعلَْي ِه ْم ِم ْن ِج َدتِه -مِب َا يَ َسعُ ُه ْم ويَ َس ُع َم ْن -وأَفْ َ
میں ہاتھ بٹاتا ہو اور اپنے اضافی مال سے ان پر اس قدر وف أ َْهلِي ِه ْم َ -حىَّت يَ ُكو َن مَهُّ ُه ْم وراءهم ِمن خلُ ِ
َ َ َُ ْ ْ ُ
کرم کرتا ہو کہ ان کے پسماندگان اور متعلقین کے لئے
بھی کافی ہو جائے تاکہ سب کا ایک ہی مقصد رہ جائے
اور
وہ ہے دشمن سے جہاد۔اس لئے کہ ان سے تمہاری ِ ِ ِ مَه اً و ِ
مہربانی ان کے دلوں کو تمہاری طرف موڑ دے گی۔اور
ف ك َعلَْي ِه ْم َي ْعط ُ احداً يِف ج َهاد الْ َع ُد ِّو -فَِإ َّن َعطْ َف َ ّ َ
استِ َق َامةُ الْ َع ْد ِل ِ
والیوں کے حق میں بہترین خنکی چشم کا سامان یہ ہے ض َل ُقَّر ِة َعنْي ِ الْ ُواَل ة ْ ك -وإِ َّن أَفْ َ وب ُه ْم َعلَْي َُقلُ َ
کہ ملک بھر میں عدل و انصاف قائم ہو جائے اور رعایا
میں محبت و الفت ظاہر ہو جائے اور یہکام اس وقت تک الر ِعيَّ ِة وإِنَّه اَل تَظْ َهر َمو َّدتُ ُه ْم إِاَّل
ُ َ ور َم َو َّد ِة َّ ِ ِ
يِف الْباَل د وظُ ُه ُ
يحُت ُه ْم إِاَّل حِبِ يطَتِ ِه ْم َعلَى ِ ِ ِ ِ
ص ُدو ِره ْم واَل تَص ُّح نَص َ بِ َساَل َمة ُ
ممکن نہیں ہے جب تک سینے سالمت نہ ہوں اور ان کی
خیر خواہی مکمل نہیں ہو سکتی ہے جب تک اپنے
حاکموں کے گرد گھیرا ڈال کر ان کی حفاظت نہ کریں استِْبطَ ِاء ِ واَل ِة األُمو ِر -وقِلَّ ِة ِ ِ هِلِ
است ْث َقال ُد َو ْم – وَت ْرك ْ ْ ُ ُ
اصل يِف حس ِن الثَّناءِ هِلِ هِتِ ِ
وو ِ ْ ُ ْ َ
اور پھر ان کے اقتدار کو سرکا بوجھ نہ سمجھیں اور ان
کی حکومت کے خاتمہ کا انتظار نہ کریں لہٰ ذا ان کی اع ُم َّد ْم -فَافْ َس ْح يِف َآما ْم َ انْقطَ ِ
امیدوں میں وسعت دینا اوربرابر کارناموں کی تعریف يد َما أ َْبلَى ذَ ُوو الْبَاَل ِء ِمْن ُه ْم -فَِإ َّن َك ْثَرةَ علَي ِهم -وَتع ِد ِ
ْ َْ ْ
کرتے رہنا بلکہ عظیم لوگوں کے کارناموں کو شمار ِ هِلِ حِل
کرتے رہنا کہ ایسے تذکروں کی کثرت بہادروں کو ض النَّاك َل إِ ْن اع -وحُتَِّر ُ ُّج َ الذ ْك ِر ُ ْس ِن أَْف َعا ْم َت ُهُّز الش َ ِّ
جوش دالتی ہے اور پیچھے ہٹ جانے والوں کو ابھار دیا َشاءَ اللَّه.
کرتی ہے۔انشاء ہللا ۔
ِ مُثَّ اع ِر ْ ِ
اس کے بعد ہر شخص کے کارنامہ کو پہچانتے رہنا اور
ض َّم َّن بَاَل ءَ ف ل ُك ِّل ْام ِر ٍئ مْن ُه ْم َما أ َْبلَى -واَل تَ ُ ْ
کسی کے کارنامہ کو دوسرے کے نامہ اعمال میں نہ
درج کردینا اوران کا مکمل بدلہ دینے میں کوتاہی نہ کرنا صَر َّن بِه ُدو َن َغايَِة بَاَل ئِه -واَل ْام ِر ٍئ إِىَل َغرْيِ ه -واَل ُت َق ِّ
اور کسی شخص کی سماجی حیثیت تمہیں اس بات پر ف ْام ِر ٍئ -إِىَل أَ ْن ُت ْع ِظ َم ِم ْن بَاَل ئِه َما َكا َن َّك َشَر ُ يَ ْدعُ َون َ
آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معمولی کام کو بڑا قراردے
دویا کسی چھوٹے آدمی کے بڑے کارنامہ کو معمولی صغَِر ِم ْن بَاَل ئِه َما َكا َن ض َعةُ ْام ِر ٍئ إِىَل أَ ْن تَ ْستَ ْ صغرياً -واَل َ
ِ
َ
بنادو۔ ِ
َعظيماً.
جو امور مشکل دکھائی دیں اورتمہارے لئے مشتبہ ہو
وب -ويَ ْشتَبِه ك ِمن اخْلُطُ ِ واردد إِىَل اللَّه ورسولِه ما ي ْ ِ
جائیں۔انہیں ہللا اور رسول کی طرف پلٹا دو۔کہ پروردگار
نے جس قوم کو ہدایت دینا چاہی ہے اس سے فرمایا ہے
ضلعُ َ َ َُ َ ُ ْ ُْ
ِ ٍ علَي َ ِ
کہ ''ایمان والو! ہللا ' رسول اورصاحبان امر کی ب ك م َن األ ُُمو ِر َ -ف َق ْد قَ َال اللَّه َت َعاىَل ل َق ْوم أ َ
َح َّ َْ
َطيعوا اهلل وأ ِ ِ َّ ِ ِ
َطيعُوا ين َآمنُوا أ ُ إ ْر َش َاد ُه ْم ( -يا أَيُّ َها الذ َ
ول -وأُويِل األ َْم ِر ِمْن ُك ْم الر ُس ََّ
الر ُّد إِىَل والرس ِ ِ ٍ
ناز ْعتُ ْم يِف َش ْيء َفُر ُّدوه إىَل اهلل َّ ُ فَِإ ْن تَ َ
اطاعت کرو۔اس کے بعد کسی شے میں تمہارا اختالف
ہو جا ئے تو اسے ہللا اور رسول کی طرف پلٹا دو ''تو ہللا
ول) -فَ َّ
َخ ُذ
ول األ ْ الرس ِ َخ ُذ مِب ُ ْح َك ِم كِتَابِه ِ َّ - اللَّه األ ْ
کی طرف پلٹانے کا مطلب اس کی کتاب محکم کی طرف والر ُّد إىَل َّ ُ
بِ ُسنَّتِه اجْلَ ِام َع ِة َغرْيِ الْ ُم َفِّرقَِة.
پلٹا نا ہے۔
قضاوت:
اس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان ك -مِم َّْن ك يِف َن ْف ِس َ ض َل َر ِعيَّتِ َ اخَتْر لِْل ُح ْك ِم َبنْي َ الن ِ
َّاس أَفْ َ مُثَّ ْ
افراد کا انتخاب ( )1کرنا جو رعایا میںتمہارے نزدیک سب ضُِ اَل تَ ِ
سے زیادہ بہتر ہوں۔اس اعتبار سے کہ نہ معامالت وم -واَل َيتَ َم َادى ص ُ ور واَل مُتَ ِّح ُكه اخْلُ ُ يق به األ ُُم ُ
میںتنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کرنے والوں صُر ِم َن الْ َف ْي ِء إِىَل احْلَ ِّق إِذَا َعَرفَه - الزلَّة -واَل حَيْ َ
يِف َّ ِ
پر غصہ کرتے ہوں۔نہ غلطی پر اڑ جاتے ہوں اور حق
کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کرآنے ف َن ْف ُسه َعلَى طَ َم ٍع -واَل يَكْتَ ِفي بِأ َْدىَن َف ْه ٍم واَل تُ ْش ِر ُ
وآخ َذ ُه ْم بِاحْلُ َج ِج - ِ
صاه وأ َْو َق َف ُه ْم يِف الشُُّب َهات َ
میں تکلف کرتے ہوں اورنہ ان کا نفس اللچ کی طرف
ادنی فہم پر اکتفا
جھکتا ہو اورنہ معامالت کی تحقیق میں ٰ ُدو َن أَقْ َ
َصبر ُهم َعلَى تَ َكش ِ وأََقلَّهم َتبُّرماً مِب ُر ِ
کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔شبہات میں توقف ُّف ص ِم -وأ ْ َ َ ْ اج َعة اخْلَ ْ َ َ ُْ َ
کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار ِ
کرنے والے ہوں۔فریقین کی بحثوں سیاکتا نہ جاتے ہوں اح احْلُ ْك ِم - ِّض ِ
َصَر َم ُه ْم عْن َد ات َ األ ُُمو ِر -وأ ْ
اور معامالت کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا
مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد
نہایت وضاحت سے ت ف قض ق
ت ن ن ت ت ئ خ مت ن ے :ف ض ذکرہ ک ی ا گ ی ا ہ
ت سب ذی ل قص ات کا
غ
وں کے ح ن ض ق ی (1خ)اس م نام پر ا
ے کے ابل ہ و ۔2۔ئمام ترعای ا سے ا ت لی ت کی ب ی اد پر ن ب ک ی ا گ ی ا ہ و ۔3۔ مسا ل می قں ا جل تھ ہ ج ا ا ہ و ب لکہ ب شلکہ صاحب ظ ر وشاس ب اط ہ و ۔ اوت کر ت 1۔ فود قحاکم کی گاہ م ں غ
اکڑ ت ا ن ہ ہ و۔6۔الئ چل ی ن قہ ہ و۔7۔نمعامالت کی مکم فل ق ح ی ق کر ا ہ و اورکاہ لی کا نکار ن ہ ہ و ۔ ت8۔ ب ہات کے ر پ اس
ف و ے ن ا ج و طی ہ
ن ق 4ق۔ ری ی ن کے ج یھگڑوں پر صہ ن ہ کر ا ہ و ۔5ق۔ ل
نمراج عہ کرے سے تاکت ا ا ن ہ ہ و ب تلکہن کی طرف ازی سے کام ن ہ لی ت ا ہ و ب لکہ دیگر تم ق قررہ وا ی ن کی ب ی قاد پر ی صلہ تکر ا ہ و ۔9۔دال ل کو بول کرےضواال ہ و ۔ئ 10ت۔ ق ری ی ف مو ع پ بر ج لد ب س ن
ے پ ن اہ وت صب ئرو حمل کا تمالک ہ و۔12۔ب ات وا ح ہ و ج اے و ط عی ی صلہ کرے می ں ت کلف ن ہ کر ا ہ و ۔13۔ عریف ب ں ن ی ات می ے کی صالحی ت رکھت ا ہ و۔11۔ ح ت پوری غ حث ن
سے م رور ن ہ ہ و ا ہ و۔14۔ لوگوں کے اب ھارے سے کسی کی طرف ج ھکا و ن ہ پ ی دا کر ا ہ و۔
فیصلہ کر دیتے ہوں۔نہ کسی کی تعریف سے مغرور
يل مِم َّن اَل يزد ِهيه إِطْراء واَل يست ِميلُه إِ ْغراء -وأُولَئِ ِ
ہوتے ہوں اور نہ کسی کے ابھارنے پر اونچے ہو جاتے ك قَل ٌ َ ٌَ َ َْ ٌَ ْ َْ َ
يل ِ ِ يِف -مُثَّ أَ ْكثِر َتعاه َد قَ ِ
ضائه -وافْ َس ْح لَه الْبَ ْذل َما يُز ُ
ہوں۔ایسے افراد یقینا کم ہیں۔لیکن ہیں ۔ َ ْ َُ
پھر اس کے بعد تم خودبھی ان کے فیصلوں کی نگرانی
َّاس -وأ َْع ِطه ِم َن الْ َمْن ِزلَ ِة اجتُه إِىَل الن ِ ِ ِ
کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کر علَّتَه -وتَق ُّل َم َعهَ /ح َ
ِ ِ ك َما اَل يَطْ َم ُع فِيه َغْيُره ِم ْن َخ َّ
ك -ليَأْ َم َن بِ َذل َ اصتِ َ
دینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں ك
کے محتاج نہ رہ جائیںانہیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اورمقام لَ َديْ َ
عطا کرنا جس کی تمہارے خواص بھی طمع نہ کرتے ك نَظَراً بَلِيغاً - ِ
الر َج ِال لَه ِعْن َد َك -فَانْظُْر يِف ذَل َا ْغتِيَ َال ِّ
ِّين قَ ْد َكا َن أ َِسرياً يِف أَيْ ِدي األَ ْشَرا ِر -يُ ْع َم ُل
ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہنچانے سے ِ
محفوظ ہو جائیںگے۔مگراس معاملہ پر بھی گہری نگاہ فَإ َّن َه َذا الد َ
ب بِه ُّ
الد ْنيَا. ِ ِ
فيه باهْلََوى وتُطْلَ ُ
رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرار کے ہاتھوں می قیدی رہ
چکا ہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہوتا تھا اور
مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔ اختِبَاراً -واَل ُت َوهِّلِ ْم ك فَ ِ
اسَت ْعم ْل ُه ُم ْ
ِ
مُثَّ انْظُْر يِف أ ُُمو ِر عُ َّمال َ ْ
عمال: ب اجْلَ ْو ِر واخْلِيَانَِة - حُمَابَا ًة وأَثَر ًة -فَِإن َُّهما مِج َاعٌ ِم ْن ُش َع ِ
اس کے بعد اپنے عاملوں کے معامالت پربھی نگاہ رکھنا َ َ
وَتو َّخ ِمْنهم أَهل التَّج ِرب ِة واحْل ي ِاء ِ -من أَه ِل الْبيوتَاتِ
اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبر دار ْ ْ ُُ ُ ْ ْ َ ْ َ ََ َ
تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ِ ِ ِ ِ ِ حِل
ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہیں۔اور دیکھوان
ِّمة -فَإن َُّه ْم أَ ْكَر ُم الصا َة والْ َق َدم يِف ا ِإل ْساَل م الْ ُمَت َقد َ َّ
میں بھی جو مخلص اورغیرت مند ہوں ان کو تالش کرنا َص ُّح أ َْعَراضاً -وأَقَ ُّل يِف الْ َمطَ ِام ِع إِ ْشَراقاً -وأ َْبلَ ُغ َخاَل قاً وأ َ أْ
جواچھے گھرانے کے افراد ہوں اور ان کے اسالم میں
اق -فَِإ َّن َسبِ ْغ َعلَْي ِه ُم األ َْر َز َ ب األ ُُمو ِر نَظَراً -مُثَّ أ ْ يِف َعواقِ ِ
سابق خدمات رہ چکے ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخالق َ
اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں۔ان ے اندر فضول ِ ِ
صاَل ِح أَْن ُفسه ْم - ِ ِ
خرچی کی اللچ کم ہوتی ہے اور یہ انجام کار پر زیادہ نر است ْ ك ُق َّوةٌ هَلُ ْم َعلَى ْ َذل َ
رکھتے ہیں۔اس کے بعدان کے بھی تمام اخراجات کا
انتظام کردینا کہ اس سے انہیں اپنے نفس کی اصالح کا
بھی موقع ملتا ے اوردوسروں
وح َّجةٌ َعلَْي ِه ْم إِ ْن ِ ِ ِ
ت أَيْدي ِه ْم ُ -
کے اموال پر قبضہ کرنے سے بھی بے نیاز ہو جاتے
ہیں اور پھر تمہارے امر کی مخالفت کریں یا امانت میں وغىًن هَلُ ْم َع ْن َتنَ ُاول َما حَتْ َ
رخنہ پیدا کریں تو ان پر حجت بھی تمام ہوجاتی ہے۔ ك -مُثَّ َت َف َّق ْد أ َْع َماهَلُ ْم - َخالَ ُفوا أ َْمَر َك أ َْو َثلَ ُموا أ ََما َنتَ َ
الص ْد ِق والْ َوفَ ِاء َعلَْي ِه ْم -فَِإ َّن ث الْعُيُو َن ِم ْن أ َْه ِل ِّ وابع ِ
اس کے بعد ان عمال کے اعمال کی بھی تفتیش کرتے
رہنا اور نہایت معتبر قسم کے اہل صدق و صفا کو ان پر َْ
استِ ْع َم ِال ِ
جاسوسی کے لئے مقرر کر دینا کہ یہ طرز عمل انہیں
امانت داری کے استعمال پر اور رعایا کے ساتھ نرمی
السِّر أل ُُمو ِره ْم َ -ح ْد َوةٌ هَلُ ْم َعلَى ْ اه َد َك يِف ِّ َت َع ُ
َح ٌد الر ِعيَّ ِة -وحَتَ َّف ْظ ِمن األ ْ ِ ِ األ ََمانَِة ِّ
والرفْ ِق بِ َّ
کے برتائو پرآمادہ کرے گا۔اوردیکھو اپنے مدد گاروں َع َوان -فَإ ْن أ َ َ
سے بھی اپنے کوبچا کر رکھنا کہ اگر ان میں کوئی ایک ت هِبَا َعلَْيه ِعْن َد َك ِ ٍ
ط يَ َده إِىَل خيَانَة ْ -
اجتَ َم َع ْ ِمْن ُه ْم بَ َس َ
بھی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوس
ِ ِ
متفقہ طورپر یہ خبر دیں تو اس شبہات کو کافی سمجھ ت َعلَْيه ك َشاهداً َ -فبَ َسطْ َ ت بِ َذل َك -ا ْكَت َفْي َ َخبَ ُار عُيُونِ َ أْ
لینا اور اسے جسمانی اعتبار سے بھی سزا دینا اور جو
صْبتَه ِ الْع ُقوبةَ يِف ب َدنِه -وأَخ ْذتَه مِب َا أَص ِ
مال حاصل کیا ہے اسے چھین بھی لینا اور سماج میں اب م ْن َع َمله -مُثَّ نَ َ َ َ َ ُ َ َ
ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی ُّه َم ِة. ِ ِ
وومَسْتَه بِاخْل يَانَة -و َقلَّ ْدتَه َع َار الت َ
مِب ِ َِّ
ََقام الْ َم َذلة َ
حیثیت سے روشناس کرانا اور ننگ و رسوائی کا طوق
صاَل ِحه اج مِب ا ي ِ
صل ُح أ َْهلَه -فَِإ َّن يِف َ
وَت َف َّق ْد أ َْمَر اخْلََر ِ َ ُ ْ
اس کے گلے میں ڈال دینا۔
خراج:
خراج اور مال گذاری کے بارے میں وہ طریقہ اختیار
صاَل َح لِ َم ْن ِس َو ُاه ْم ِ ِ
صاَل حاً ل َم ْن س َو ُاه ْم -واَل َ
ِ
وصاَل ح ِه ْم َ َ
کرنا جو مال گذاروں کے حق میں زیادہ مناسب ہو کہ اج وأ َْهلِه - َّاس ُكلَّ ُه ْم ِعيَ ٌ
ال َعلَى اخْلََر ِ إِاَّل هِبِ ْم -أل َّ
َن الن َ
خراج اور اہل خراج کے صالح ہی میں سارے معاشرہ
کی صالح ہے اور کسی کے حاالت کی اصالح خراج ولْيَ ُك ْن نَظَُر َك
کی اصالح کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ' لوگ سب کے
سب اسی خراج کے بھروسے زندگی گذارتے ہیں۔خراج
میں تمہاری نظر
مال جمع کرنے سے زیادہ زمین کی آباد کاری ( )1پر
اج
ب اخْلََر ِ استِ ْجاَل ِ ِ
ض -أ َْبلَ َغ م ْن نَظَ ِر َك يِف ْ يِف ِع َم َار ِة األ َْر ِ
ہونی چاہیے کہ مال کی جمع آوری زمین کی آبادکاری
ِ ِ ِ -أل َّ ِ
کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جس نے آباد کاری کے اج
ب اخْلََر َ وم ْن طَلَ َك اَل يُ ْد َر ُك إاَّل بالْع َم َار ِة َ - َن ذَل َ
بغیر مال گدازی کا مطالبہ کیا اسنے شہروں کو برباد
کردیا اور بندوں کو تباہ کردیا اور اس کی حکومت چند ك الْعِبَ َاد ومَلْ يَ ْستَ ِق ْم أ َْمُرهب الْبِاَل َد -وأ َْهلَ َ َخَر َ
ِ
بِغَرْيِ ع َم َار ٍة أ ْ
اع ِشر ٍ ِ ِ ِ ِ ِ ِ
ب أ َْو إاَّل قَلياًل -فَإ ْن َش َك ْوا ث َقاًل أ َْو علَّةً أَ ِو انْقطَ َ ْ
دنوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی ہے ۔ اس کے بعد اگر
لوگ گرانباری۔آفت ناگہانی۔نہروں کی خشکی ' بارش
کی کمی۔زمین کی غرقابی کی بناپ ر تباہی اورخشکی ف هِبَا َج َح َ ض ا ْغتَ َمَر َها َغَر ٌق -أ َْو أ ْ بَالٍَّة -أ َْو إِ َحالَةَ أ َْر ٍ
کی بنا پر بربادی کی کوئی فریاد کریں تو ان کے خراج
صلُ َح بِه أ َْمُر ُه ْم - مِب
میں اس قدرتخفیف کردینا کہ ان کے امور کی اصالح ہو ت َعْن ُه ْم َا َتْر ُجو أَ ْن يَ ْ ش َ -خ َّف ْف َ َعطَ ٌ
سکے اور خبر دار تخفیف تمہارے نفس پر گراں نہ گذ ت بِه الْ َمئُونَةَ َعْن ُه ْم -فَِإنَّه ك َش ْيءٌ َخ َّف ْف َ واَل َي ْث ُقلَ َّن َعلَْي َ
رے اس لئے کہ یہ تخفیف اور سہولت ایک ذخیرہ ہے
ني ِواَل يَتِ َ
ك ك يِف ِعمار ِة بِاَل ِد َك -وَت ْزيِ ِ ودو َن بِه َعلَْي َ ذُ ْخٌر َيعُ ُ
جس کا اثر شہروں کی آبادی اور حکام کی زیب و زینت ََ
کی شکل میں تمہاری ہی طرف واپس آئے گا اور اس اض ِة ك بِ ِ ِ ِ
ك ُح ْس َن َثنَائ ِه ْم -وَتبَ ُّجح َ ْ
است َف َ استِ ْجاَل بِ ََم َع ْ
کے عالوہ تمہیں بہترین تعریف بھی حاصل ہوگی
ت ِعْن َد ُه ْم مِب الْع ْد ِل فِي ِهم -معت ِمداً فَ ْ هِتِ
اورعدل و انصاف کے پھیل جانے سے مسرت بھی ض َل ُق َّو ْم َ -ا ذَ َخ ْر َ ْ ُ َْ َ
ِ ِ ِ
والث َقةَ مْن ُه ْم مِب َا َع َّو ْدَت ُه ْم م ْن َع ْدل َ ِم ْن إِمْج َام َ
ِ
حاصل ہوگی' پھر ان کی راحت و رفاہیت اور عدل و
ك ك هَلُ ْم ِّ -
انصاف ' نرمی و سہولت کی بنا پر جواعتماد حاصل کیا
ك هِبِ ْم - ِ
ہے اس سے ایک اضافی طاقت بھی حاصل ہوگی جو َعلَْي ِه ْم و ِرفْق َ
اوقات
ت بسا
ہے۔اس لئے کہ ت بوقت ضرورت کام آسکتی ٹ ن ن
ے نو ای ک حصہ ہ اسالمی ن ظ ام کا ق طہ امت از ے کہ اس ے زمی نوں پر ی کس ض رور رکھا ے کہ پ داوار می ں اگر ا ک صہ مالک زمی ن کی م ت اورآ اد کاری کاق
ن
ہ ب ن ح ئن ی ح ی ہ جی نہ کے کرم کا ب ( )1ئ ن ی
ات ت
ے
ق ہ ا ت اہ چ ا کر م سی ر پ سماج
ظ ورے
ت پ کو صہ ح ےپ ا وہ ے ہ الکن م اک اتخ اک وری پ وہ اور ے
ہ کی عت ودی تٹ ی حال ص کی داوار ی پ ں یم ن یمز ے
ق س ے
ن ہ ھی ن مالک کان
ے ج و دن ی ا کے مام الم اورع ی اش حکام کا طری ہ ہ ے۔لتی کنٹ اس ی کس کو حاکم کی صواب دی د اور اس کی واہ ش پر ہی ں رکھا ہ اوراسے ظ ام کی کم ی ل کا ب ی ادی ع صر رار دی ن ا چ اہ ت ا
کے دلوں می ں حاکم سے ہ مدردی پ ی دا ہنو۔پرس ئ سے ت
کون حاالت
ن ب ے اکہ ی کس اور پ ین داوار می ں راب طہ رہ
ے اور ماظلنکان زمی نئ ت ن وابس ہ کردی ا ہ حاالت قے۔ب لکہ ا شسے زمی ن کے ث ت کار ہ
می ں ج ی لگا کر کا ت کری ں اور حاد ا ی موا ع پر مملکت کے کام آسکی ں۔ور ہ اگر عوام می ں ب ددلی اورب د ی پ ی داہ وگ ی و ظ ام اور سماج کو برب ادی سے چ اے واال کو ی ہ ہ وگا۔
ایسے حاالت پیش آجاتے ہیں کہ جن میں اعتماد و حسن ت فِيه َعلَْي ِه ْم ِم ْن َب ْع ُد ث م َن األ ُُمو ِر َ -ما إِ َذا َع َّولْ َ
َفرمَّبَا ح َد َ ِ
ُ َ
ظن کے بعد ان پر اعتماد کرو تو نہایت خوشی سے
مصیبت کوبرداشت کر لیتے ہیں اور اس کا سبب زمینوں احتَ َملُوه -طَيِّبَةً أَْن ُف ُس ُه ْم بِه -فَِإ َّن الْعُ ْمَرا َن حُمْتَ ِم ٌل َما مَحَّْلتَه ْ
ض ِم ْن إِ ْع َوا ِز أ َْهلِ َها وإِمَّنَا يُ ْع ِو ُز
کی آباد کاری ہی ہوتا ہے۔زمینوں کی بربادی اہل زمین
کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اورتنگدستی کا سبب
اب األ َْر ِ -وإِمَّنَا يُ ْؤتَى َخَر ُ
وء ظَنِّ ِه ْمس الْواَل ِة علَى اجْل م ِع وس ِ ِ
حکام کے نفس کا جمعآوری کی طرف رجحان ہوتا ہے
اور ان کی یہ بد ظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے
أ َْهلُ َها ِإل ْشَراف أَْن ُف ِ ُ َ َ ْ ُ
بِالْب َق ِاء وقِلَّ ِة انْتِ َف ِ
اع ِه ْم بِالْعِرَبِ .
والی نہیں ہے اور وہدوسرے لوگوں کے حاالت سے َ
عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں۔
کاتب:
ك َ -ف َو ِّل َعلَى أ ُُمو ِر َك َخْيَر ُه ْم - مُثَّ انْظُْر يِف َح ِال ُكتَّابِ َ
ِ ِ
اس کے بعد اپنے منشیوں کے حاالت پر نظر رکھنا اور َسَر َار َك -ك الَّيِت تُ ْدخ ُل ف َيها َم َكايِ َد َك وأ ْ ص َر َسائِلَ َ ص ْواخ ُْ
اپنے امور کو بہترین افراد کے حوالے کرنا اور پھروہ ِ مِم ِ ِ ِ ِ
خطوط جن میں رموز سلطنت اوراسرارمملکت ہوںان
َخاَل ق َّْن اَل ُتْبطُره الْ َكَر َامةُ - صال ِح األ ْ بِأَمْج َع ِه ْم ل ُو ُجوه َ
ٍ
افراد کے حوالے کرنا جو بہترین اخالق و کردارکے ضَر ِة َم ٍإل -واَل ك حِب َ ْك يِف ِخاَل ف لَ َ ئ هِبَا َعلَْي َ
َفيَ ْجرَتِ َ
مالک ہوں اور عزت پاکر اکڑ نہ جاتے ہوں کہ ایک دن
ك- َت ْقصر بِه الْغَ ْفلَةُ عن إِير ِاد م َكاَتب ِ ِ
لوگوں کے سامنے تمہاری مخالفت کی جرٔات پیداکرلیں ك َعلَْي َ ات عُ ِّمال َ َْ َ ُ َ ُُ
اور غفلت کی بناپ ر لین دین کے معامالت میں تمہارے ِ الصو ِ هِت وإِ ْ ِ
عمال کے خطوط کے پیش کرنے اور ان کے جوابات
كيما يَأْ ُخ ُذ لَ َك-فَ اب َعْن َ ص َدار َج َوابَا َا َعلَى َّ َ
دینے میں کوتاہی سے کام لینے لگیں اور تمہارے لئے ك واَل َي ْع ِجُز ف َع ْقداً ْاعَت َق َده لَ َ ضع ُ
ك -واَل ي ْ ِ
ُ ويُ ْع ِطي ِمْن َ
ك -واَل جَيْ َهل َمْبلَ َغ قَ ْد ِر َن ْف ِسه يِف ِ
َع ْن إِطْاَل ِق َما عُق َد َعلَْي َ
جو عہدوپیمان باندھیں اسے کمزور کردیں اورتمہارے
خالف ساز باز کے توڑنے میں عاجزی کا مظاہرہ کرنے ُ
ِ ِ
لگیں۔دیکھو یہ لوگ معامالت میں اپنے صحیح مقام سے
األ ُُمو ِر -فَِإ َّن اجْلَاه َل بَِق ْد ِر َن ْفسه يَ ُكو ُن بَِق ْد ِر َغرْيِ ه أ ْ
َج َه َل
نا واقف نہ ہوں کہ اپنی قدرو منزلت کا نہ پہچاننے واال
دوسرے کے مقام و مرتبہ سے یقینا زیادہ ناواقف ہوگا۔ اختِيَ ُار َك
-مُثَّ اَل يَ ُك ِن ْ
اس کے بعدان کاتقرر بھی صرف ذاتی
ِ
وح ْس ِن الظَّ ِّن ِمْن َ واستِنَ َامتِ َ استِ َ إِيَّ ُ
ہوشیاری ' خوش اعتمادی اور حسن ظن کی بنا پرنہ کرنا
ك- ك ُ ك ْ - اه ْم َعلَى فَر َ
کہ اکثر لوگ حکام کے سامنے بناوٹی کردار اور بہترین
صنُّعِ ِه ْم ِ الرج َال يَتعَّرضو َن لِِفر ِ
خدمات کے ذریعہ اپنے کو بہترین بنا کر پیش کرنے کی اسات الْ ُواَل ة -بِتَ َ َ َ فَِإ َّن ِّ َ َ َ ُ
صالحیت رکھتے ہیں جب کہ اس کے پس پشت نہ کوئی وحس ِن ِخ ْدمتِ ِهم -ولَيس وراء َذلِ َ ِ
اخالص ہوتا ہے اور نہ امانتداری پہلے ان کا امتحان لینا يح ِة واأل ََمانَِة ِ
ك م َن النَّص َ ْ َ ََ َ َ ْ ُْ
ِ حِلِ ِ مِب
اختَرِب ْ ُه ْم َا ُولُّوا ل َّ ِ
کہ تم سے پہلے والے نیک کردار حکام کے ساتھ ان کا
برتائو کیا رہا ہے پھر جو عوام میں اچھے اثرات رکھتے
اعم ْد ك -فَ ْ ني َقْبلَ َ
لصا َ َش ْيءٌ -ولَك ِن ْ
ہوں اور امانتداری کی بنیاد پر پہچانے جاتے ہوں انہیں َح َسنِ ِه ْم َكا َن يِف الْ َع َّام ِة أَثَراً -وأ َْعَرفِ ِه ْم بِاأل ََمانَِة َو ْجهاً -
أل ْ
صيحتِ ِ ِ فَِإ َّن َذلِ ِ
يل َعلَى نَ ِ َ َ
کا تقرر کردینا کہ یہ اسامر کی دلیل ہوگا کہ تم اپنے
پروردگار کے بندٔہ مخلصاوراپنے امام کے وفادار ہو۔
يت أ َْمَره - ك للَّه ول َم ْن ُولِّ َ ك َدل ٌ َ
اپنے جملہ شعبوں کے ( )1لئے ایک ایک افسر مقرر واج َع ْل لَِرأْ ِس ُك ِّل أ َْم ٍر ِم ْن أ ُُمو ِر َك َرأْساً ِمْن ُه ْم -اَل َي ْق َهُره
ْ
کردینا جو بڑے سے بڑے کام سے مقہور نہ ہوتا ہو اور ِ
کاموں کی زیادتی پر پراگندہ حواس نہ ہو جاتا ہو۔اور یہ كوم ْه َما َكا َن يِف ُكتَّابِ َ َّت َعلَْيه َكثريُ َها َ - َكبِريُ َها واَل َيتَ َشت ُ
یاد رکھنا کہ ان منشیوں میں جو بھی عیب ہوگا اور تم ت َعْنه أُلْ ِز ْمتَه. ِم ْن َعْي ٍ
ب َفَتغَ َابْي َ
اس سے چشم پوشی کرو گے اس کا مواخذہ تمہیں سے
کیا جائے گا۔
اس کے بعد تاجروں اور صنعت کاروں کے بارے میں ص هِبِ ْم خَرْي اً - ات وأ َْو ِ الصنَاع ِ
ُّجا ِر و َذ ِوي ِّ َ ص بِالت َّ اسَت ْو ِمُثَّ ْ
نصیحت حاصل کرو اور دوسروں کو ان کے ساتھ نیک ب مِب َالِه والْ ُمَتَرفِّ ِق بِبَ َدنِه -فَِإن َُّه ْم الْ ُم ِقي ِم ِمْن ُه ْم والْ ُم ْ
ضطَ ِر ِ
برتائو کی نصیحت کرو چاہے وہ ایک مقام پر کام کرنے
والے ہوں یا جا بجا گردش کرنے والے ہوں اورجسمانی اب الْ َمَرافِ ِق
َسبَ ُ
ِ
َم َو ُّاد الْ َمنَاف ِع وأ ْ
محنت سے روزی کمانے والے ہوں۔اس لئے کہ یہی
مہیا
نض
زندگی کے ئ
ضرورتافرادشمنافع کا مرکز اور ن ن ن نش
ت ن
ے اور
ہ روری ا و ہ کا دار کذمہ ا ے
ت ل یکے ی گرا کی
ش س ج ے ن
سے ات
ہ ب نی ت ن ہ ح ہ ع ر ق
لکہ ب ے ں
ی ہ ہ ن سے اء ا اور ت اب تک صرف ق ل ع ()1ب عض ش ارحی ن کی ظ رمی ں اس حصہ کا
ے اورحکی م امت ے چ ودہ صدی ب ل اس ک ہ ج ہا ب ا ی کی طرف ا ارہ کردی ا ھا۔ جس کا ادراک اہ ل س ی است کو س ی کڑوں سال کے ب عد ہ وا ہ
کرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔یہی دور دراز ( )1مقامات ِح -يِف َبِّر َك وحَبْ ِر َك اع ِد والْ َمطَار ِ وجاَّل بها ِمن الْمب ِ
ُ َُ َ ََ
بروبحر' کوہ میدان ہر جگہ سے ان ضروریات کے فراہم
اضعِ َها واَل ث اَل ي ْلتَئِم النَّاس لِمو ِ وسهلِك ِ
کرنے والے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی وحْي ُ َ ُ ُ َ َ كَ - وجبَل ََْ َ َ
ہے اور جہاں تک جانے کی لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ
وص ْل ٌح اَل جَي ِ ءو َن علَيها فَِإنَّهم ِس ْلم اَل خُتَ ُ ِ
وہ ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیں جہاں اف بَائ َقتُه ُ - ْرَت ُ َ ْ َ ُ ْ ٌ
لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اورجہاں تک جانے کی ك ويِف َح َو ِاشي ضَرتِ َور ُه ْم حِب َ ْ ِ
خُتْ َشى َغائلَتُه -و َت َف َّق ْد أ ُُم َ
لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ امن پسند لوگ ہیں جن
َن يِف َكثِ ٍري ِمْنهم ِضيقاً فَ ِ ِ ِ
سے فساد کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اوروہ صلح و آشتی احشاً ُْ ك أ َّ واعلَ ْم َم َع َذل َ بِاَل د َك ْ -
والے ہوتے ہیں جن سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا واحتِ َكاراً لِْل َمنَافِ ِع وحَتَ ُّكماً يِف وش ّحاً قَبِيحاً ْ - ُ -
ہے۔
ب َعلَى الْ ُواَل ِة فَ ْامنَ ْع ك باب م ِ ِ الْبِي ِ ِ
اپنے سامنے اور دوسرے شہروں میں پھیلے ہوئے ان ضَّر ٍة ل ْل َع َّامة َعْي ٌ
اعات و َذل َ َ ُ َ َ ََ
ِم َن ااِل ْحتِ َكا ِر فَِإ َّن َر ُس َ
کے معامالت کی نگرانی کرتے رہنا اور یہ خیال رکھنا
کہ ان میں بہت سے لوگوں میں انتہائی تنگ نظری اور
ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم َمنَ َع
َس َعا ٍر اَل ٍ مِب ِ
بد ترین قسم کی کنجوسی پائی جاتی ہے ۔یہ منافع کی
مْنه -ولْيَ ُك ِن الَْبْي ُع َبْيعاً مَسْحاً ََوا ِزي ِن َع ْدل -وأ ْ
ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اونچے اونچے دام خود ہی
معین کر دیتے ہیں' جس سے عوام کو نقصان ہوتا ہے ف بِالْ َف ِري َقنْي ِ ِم َن الْبَائِ ِع ِ
جُتْح ُ
اور حکام کی بد نامی ہوتی ہے۔لوگوں کوذخیرہ اندوزی
سے منع کرو کہ رسول اکرم (ص) نے اس سے منع
فرمایا ہے ۔خریدو فروخت میں سہولت ضروری ہے
جہاں عادالنہ میزان ہو اور وہ قیامت معین ہو جس سے
ق ن کسی فریق پر شت والے ن
خریدار یا بیچنے ن ش ن ت ئ ش ن
کے ذری عہ معا رہ کی دگیت می ں است رار پ ی داے کہن ج ار اور ص عت کار معا خرہ کی ز ندگی می ں رفیڑھئکی ہ ڈی کا کام کرےف ہ ی ں اور ا ہی ں خ
ن عضخ ت سدی ن کیفاصالح ر صوصی زورد ا ے ۔ اج ر م ں ب ے اوران کے م ارے می ںت صوصی یص حت رما ی فہ ت ً ئ کے ن ان ے ات
ق
ہ کے کائ ن
ں یہئ
موال
اس می ں کو ی
کہ
ت ے ہ و ہی ی ے۔
خ
( ت)1
ہ تو ا
یہ ن ی نپ ب ہ ج ہ
نکا طرہ کے ب د ہ و فج اے دکان ن ں خیم امہگ ہ اور ساد کہ ں ی ہ ےتو ے ہ ی ں ج و دوسری وموں می نں ہی ںتپ اے ج اے ہ ی ں ۔( )1ی ہ لوگ طر ا صلح پ س ن د ہ ن و ام ت ی ازی صوص ی ات ہ
ئکے طلب گار ہ وے ہ ی ں ( )3دور درازکے طر اک موارد ت ک س ر کرے کی روردگار سے رزق
لکہ پساری دن ےب ے ۔ ( ت2ب) ان کی گاہ کسی بمالک اور اراب پر ہی ں ہ و یشہ ہ نو ا ہ
ے ہ ی ں۔ ج ہ ر ا ے ا ں م
ی ی پا آج د ہ وا کے س '
ہ جے ا تک س ا ا
یج ل ھی کام کا ب مذہ غ ی ل سے ان ب ا پر
ظلم نہ ہو۔اس کے بعد تمہارے منع کرنے کے باوجود ك إِيَّاه َفنَ ِّك ْل بِه ف ُحكَْر ًة َب ْع َد َن ْهيِ َ اع فَ َم ْن قَ َار َ والْ ُمْبتَ ِ
اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے تو اسے سزا دو
وعاقِبه يِف َغ ِ إِسر ٍ
اف .
لیکن اس میں بھی حد سے تجاوز نہ ہونے پائے ۔ رْي ْ َ َ ْ
اس کے بعد ہللا سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں مُثَّ اللَّه اللَّه يِف الطَّب َق ِة ُّ ِ َّ ِ
جو مساکین 'محتاج ' فقراء اورمعذور افراد کا طبقہ ہے ين اَل ِحيلَةَ هَلُ ْم ِ -م َن الس ْفلَى م َن الذ َ َ
والزمْىَن -فَِإ َّن يِف ني وأ َْه ِل الُْب ْؤ َسى َّ ِ الْمساكِ ِ
جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔اس طبقہ میں مانگنے والے
بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال
ني والْ ُم ْحتَاج َ ََ
ِ ِ ِ ِ ِ
ہے۔ انکے جس حق کا ہللا نے تمہیں محافظ بنایا ہے اس ك
استَ ْح َفظَ َ واح َفظ للَّه َما ْ وم ْعَتّراً ْ - َهذه الطََّب َقة قَانعاً ُ
ت مالِ ِ ِ ِ ِ ِ ِ
م ْن َحقِّه في ِه ْم ْ -
کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض ك-
غنیمت کے غالت میں سے ایک حصہ مخصوص کردو واج َع ْل هَلُ ْم ق ْسماً م ْن َبْي َ
کہ ان کے دور افتادہ کا بھی وہی حق ہے جو قریب ص َوايِف ا ِإل ْساَل ِم يِف ُك ِّل َبلَ ٍد -فَِإ َّن ِ
وق ْسماً م ْن َغاَّل ت َ
ِ ِ
والوں کا ہے اورتمہیں سبکا نگراں بنایا گیا ہے ل ٰہذا ِ ِ لِألَقْ ِ ِ ِ ِ
خبردارکہیں غرور و تکبر تمہیں ان کی طرف سے غافل يت
اسُتْرع َ صى مْن ُه ْم مثْ َل الَّذي لأل َْدىَن – و ُكلٌّ قَد ْ َ
نہ بنادے کہ تمہیں بڑے کاموں کے مستحکم کر دینے َّك اَل ُت ْع َذ ُرَّك َعْن ُه ْم بَطٌَر -فَِإن َ َحقَّه -واَل يَ ْشغَلَن َ
سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے
ِ ك التَّافِه ِإلح َك ِام َ ِ ضيِيعِ َ بِتَ ْ
گا۔لہٰ ذا نہ اپنی توجہ کو ان کی طرف سے ہٹانا اور نہ ص ك الْ َكث َري الْ ُم ِه َّم -فَاَل تُ ْشخ ْ ْ
غرور کی بناپر اپنا منہ موڑ لینا۔جن لوگوں کی رسائی تم
تک نہیں ہے اور انہیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور
ور َم ْن اَل َّك هَلُ ْم -وَت َف َّق ْد أ ُُم َ ص ِّع ْر َخد َ ك َعْن ُه ْم واَل تُ َ مَهَّ َ
مِم
شخصیتوں نے حقیر بنادیا ہے ان کے حاالت کی دیکھ ال - الر َج ُ ك ِمْن ُه ْم َّْ -ن َت ْقتَ ِح ُمه الْعُيُو ُن وحَتْ ِقُره ِّ ص ُل إِلَْي َيِ
َ
بھال بھی تمہارا ہی فریضہ ہے لہٰ ذا ان کے لئے متواضع ِ ك ثَِقتَ َ ِ
اور خوف خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص اض ِع َ -فْلَيْرفَ ْع ك م ْن أ َْه ِل اخْلَ ْشيَة والت ََّو ُ َف َفِّر ْغ ألُولَئِ َ
کردو جو تم تک ان کے معامالت کو پہنچاتے رہیں اورتم ور ُه ْم -مُثَّ ْاع َم ْل فِي ِه ْم بِا ِإل ْع َذا ِر إِىَل اللَّه َي ْو َم َت ْل َقاه ك أ ُُم َ إِلَْي َ
ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بناپر روز قیامت
پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب اف ِم ْن الر ِعيَّ ِة أَحوج إِىَل ا ِإلنْص ِ
َ َْ ُ -فَِإ َّن َه ُؤاَل ِء ِم ْن َبنْي ِ َّ
سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور پھر ہرایک کے َع ِذ ْر إِىَل اللَّه يِف تَأْ ِديَِة َحقِّه إِلَْيه ِ
َغرْيِ ه ْم -و ُكلٌّ فَأ ْ
حقوق کو ادا کرنے میں پیش پروردگار اپنے
کو معذور ثابت کرو۔
اوریتیموں اور کبیر السن بوڑھوں کے حاالت کی بھی
الس ِّن مِم َّْن اَل ِحيلَةَ لَه واَل
الرقَِّة يِف ِّ وَت َع َّه ْد أ َْه َل الْيُْت ِم و َذ ِوي ِّ
ِ ِ ِ ص ِ
نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ يل -واحْلَ ُّق ك َعلَى الْ ُواَل ة ثَق ٌ ب ل ْل َم ْسأَلَِة َن ْف َسه -و َذل ََيْن ُ
ِ
سوال کرنے کے لئے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں ظاہر
ہے کہ ان کا خیال رکھنا حکام کے لئے بڑا سنگین مسئلہ يل وقَ ْد خُيَِّف ُفه اللَّه َعلَى أَْق َو ٍام -طَلَبُوا الْ َعاقِبَةَ ُّ ِ
ُكله ثَق ٌ
ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے حق تو سب کا سب ثقیل ہی ص ْد ِق موع ِ
ود اللَّه هَلُ ْم. فَصَّبروا أَْن ُفسهم -ووثُِقوا بِ ِ
ہے۔البتہ کبھی کبھی پروردگار اسے ہلکا قرار دے دیتا
َْ ُ َُ ْ َ َُ
ہے ان اقوام کے لئے جو عاقبت کی طلب گار ہوتی ہیں ك قِ ْسماً ُت َفِّرغُ هَلُ ْم فِيه ات ِمْن َواجعل لِ َذ ِوي احْل اج ِ
َ َ َْ ْ
اور اس راہمیں اپنے نفس کو صبر کاخوگر بناتی ہیں
اورخدا کے وعدہ پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اض ُع فِيه لِلَّه ِ
س هَلُ ْم جَمْلساً َع ّاماً َ -فتََت َو َ
ِ
ك -وجَتْل ُ صَ َش ْخ َ
ك ِم ْن ِ
ك -وتُ ْقعِ ُد َعْن ُه ْم ُجْن َد َك وأ َْع َوانَ َ الَّذي َخلَ َق َ
اور دیکھو صاحبان ضرورت کے لئے ایک وقت معین
کردو جس میں اپنے کوان کے لئے خالی کرلو اور ایک
عمومی مجلس میں بیٹھوں ۔اس خداکے سامنے متواضع ك ُمتَ َكلِّ ُم ُه ْم َغْيَرك َ -حىَّت يُ َكلِّ َم َ وشَر ِط َ
ك ُ َحَر ِاس َ
أْ
رہو جس نے پیدا کیا ہے اور اپنے تمام نگہبان ( )1پولیس' ِ ِ
فوج ' اعوان و انصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے واال ول اللَّه صلىهللاعليهوآلهوسلم ت َر ُس َُمتََت ْعت ٍع -فَِإيِّن مَس ْع ُ
ي ُق ُ يِف ِ ِ
ول َغرْي َم ْوط ٍن -لَ ْن تُ َقد َ
َّس
آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا
شکارنہ ہو کہ میں نے رسول اکرم (ص) سے خود سنا
َ
ہے کہ آپ نے بار بار فرمایا ہے کہ ' 'وہ امت پاکیزہ
ق میں
نہیں ہوسکتی ہے جس خ تکردار ف ق
ف ظ ئ ٹ ئ ن ق
ے کہ ہ صرف صد ق م ۔ کردے
ن مہ ا اک اس آکر ں م س ن ھ ے اور کو ی ب ھینم سد 'ت الم ر کے ب ے کہ حاکم جض لسہ عام می ں الوارث ہئ و کر ب ی ھ ج ان ( )1ف م فصد ی ہ ہی ں
ی ہ ن ی ی ی ئ ہ
ے اس مہارے پناس آے دی ں اور ہ کھ لنکر بمفات کرے کامو ع دی ں ۔چ اہ ے پ ا ی ں کہ ن ہ ا ن ہی ں ق ات کی راہ می ں حا لئ ن ہ ہ و ن لوگوں کےئروری غ پولیس ' بوج ' محا قظ ' درب ان ' ت ش
ے۔ ے نلگام چ ھوڑا ج ا نسکت ا ہ بکو ن یدس ہ اور
ن ت ے ہ ا تک س ا ج ا ک
شت ی ں یہ ان ر
ت ب کو وں ی
گ د ز کی کامح ر پ ام کے ی روا ت جاح کی اء
ت ' امان ر
ن ب کہ ے ا ف
ج لیامات پر ال ت ش
ی ادی س ئ سے پہل
ےق ئ چ ناس م
ے اور اس کی ز دگی عوام ال اس سے ہ ر د بل ہرحال ب سے فرہ اع ام
بف م ع ہ مر کا اس عد
بخ کے اس ےہ کا داری ت ا د
ن ی' ت را کی
ف اس لہ لی ت ی م ب ے کے قحاکم
ے۔ ے جس طرح وہ ودان کے م ادات کا ح ظ کر رہ ا ہ ے اور اس کا ح ظ عوام ال اس پر اسی طرح واج ب ہ ی ی ن ا زی ادہ م ی ہ
ي َ -غْيَر ُمتََت ْعتِ ٍع يف فِ َيها َحقُّه ِم َن الْ َق ِو ِّ أ َُّمةٌ اَل ي ْؤ َخ ُذ لِلضَّعِ ِ
کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا
موقع نہ دیا جائے '' ُ
اس کے بعد ان سے بد کالمی یا عاجزی کالم کا مظاہرہ –
احتَ ِم ِل اخْلُْر َق ِمْن ُه ْم والْعِ َّي -ونَ ِّح َعْن ُه ُم ِّ
ہو تواسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرور کو دور
رکھو کہ تاکہ خدا تمہارے لئے رحمت کے اطراف
يق
الض َ مُثَّ ْ
اف َرمْح َتِه - ِ
کشارہ کردے اور اطاعت کے ثواب کو الزم قرار دیدے ك أَ ْكنَ َ ك بِ َذل َ ف َ -يْب ُس ِط اللَّه َعلَْي َ واألَنَ َ
جسے جو کچھ دو خوشگواری کے ساتھ دو اور جسے
ت َهنِيئاً ِ ك َثواب طَ ِ ِ
منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔ اعته -وأ َْعط َما أ َْعطَْي َ ب لَ َ َ َ َ ويُوج ْ
اس کے بعد تمہارے معامالت میں بعض ایسے معامالت وامنَ ْع يِف إِمْج َ ٍال وإِ ْع َذا ٍر !
ْ
بھی ہیں جنہیںتمہیں خود براہ راست انجام دینا ہے۔جیسے
هِت
حکام کے ان مسائل کے جوابات جن کے جوابات محرر اشَر َا ِ -مْن َها إِ َجابَةُ ك ِم ْن ُمبَ َ ور ِم ْن أ ُُمو ِر َك اَل بُ َّد لَ َمُثَّ أ ُُم ٌ
افراد نہ دے سکیں یا لوگوں کے ان ضروریات کو پورا
اتومْنها إِص َدار حاج ِ ك مِب َا يعيا عْنه ُكتَّاب َ ِ ِ
کرنا جن کے پورا کرنے سے تمہارے مدد گار افراد جی كَ َ ُ ْ َ - ُ عُ َّمال َ َ ْ َ َ
ِ
چراتے ہوں اوردیکھو ہر کام کو اسی کے دن مکمل ك ور أ َْع َوانِ َ ص ُد ُك َ -ا حَتَْر ُج بِه ُ
ودها علَي َ مِب
َّاس َي ْو َم ُو ُر َ َ ْ الن ِ
کردینا کہ ہردن کا اپنا ایک کام ہوتا ہے۔اس کے بعد اپنے ٍ ِ ِ ٍ -وأَم ِ ِ
اور پروردگار کے روابط کے لئے بہترین وقت کا ض ل ُك ِّل َي ْوم َع َملَه فَِإ َّن ل ُك ِّل َي ْوم َما فيهْ :
واج َع ْل ْ
انتخاب کرنا جو تمام اوقات سے افضل اور بہتر ہو۔اگرچہ ك الْمواقِ ِ
يت ك وب اللَّه -أَفْ ِ لِن ْف ِس ِ
تمام ہی اوقات ہللا کے لئے شمار ہو سکتے ہیں اگر انسان ض َل ت ْل َ َ َ َ يما َبْينَ َ َنْي َ كفَ َ َ
ِ
کی نیت سالم رہے اور رعایا اس کے طفیل خوشحال ہو تصلَ َح ْ ت ُكلُّ َها للَّه إِذَا َ ك األَقْ َس ِام -وإِ ْن َكانَ ْ َجَز َل تِْل َ وأ ْ
جائے ۔
الر ِعيَّةُ.
ت ِمْن َها َّ النيَّةُ ِ - فِ َيها ِّ
اور تمہارے وہ اعمال جنہیں صرف ہللا کے لئے انجام وسل َم ْ
َ
دیتے ہو ان میں سے سب سے اہم کام ان فرائض کا قیام ك إِقَامةُ َفرائِ ِ اص ِة ما خُتْلِ ِ َِّ ِ
ہو جو صرف پروردگار کے لئے ہوتے ہیں۔اپنی جسمانی
ضه - ص به لله دينَ َ َ َ ُ ولْيَ ُك ْن يِف َخ َّ َ
ِ الَّيِت ِه َي لَه َخ َّ
طاقت میں سے رات اور دن دونوں وقت ایک حصہ ہللا كك يِف لَْيل ََع ِط اللَّه ِم ْن بَ َدنِ َ
اصةً -فَأ ْ
کے لئے قرار دینا اور جس کام کے ذریعہ اس کی قربت
ت بِه إِىَل اللَّه - وو ِّ
ف َما َت َقَّربْ َ ِ
و َن َهار َك َ -
چاہتے ہو اسے مکمل طور سے انجام دینا نہ کوئی رخنہ وص -بَالِغاً ِم ْن وم واَل َمْن ُق ٍ ِمن َذلِك َك ِاماًل َغير مثلُ ٍ
پڑنے پائے اورنہ کوئی نقص پیدا ہو جائے بدن کو کسی
َْ َْ ْ َ
قدرزحمت کیوں نہ ہو جائے۔اور جب لوگوں کے ساتھ ك لِلن ِ
َّاس -فَاَل صاَل تِ َ
ت يِف َ ك َما َبلَ َغ -وإِ َذا قُ ْم َ بَ َدنِ َ
َّاس َم ْن بِه الْعِلَّةُ ولَه
جماعت کی نمازادا کرو تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ
ضيِّعاً -فَِإ َّن يِف الن ِ تَ ُكونَ َّن ُمَنفِّراً واَل ُم َ
بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے
اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مند افراد بھی ول اللَّه
ت َر ُس َ اجةُ -وقَ ْد َسأَلْ ُ احْلَ َ
ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے
ِ
حضور اکرم (ص) سے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت فني َو َّج َهيِن إِىَل الْيَ َم ِن َ -كْي َ
صلىهللاعليهوآلهوسلمح َ
کا اندازہ کیا ہونا چاہیے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور َض َع ِف ِه ْم -و ُك ْنصاَل ِة أ ْ هِبِ
ص ِّل ْم َك َ
هِبِ
ُصلِّي ْم َ -ف َق َال َ أَ
ترین آدمی کے اعتبارسے نماز ادا کرنا اور مومنین کے
حال پر مہربان رہنا۔ ني َر ِحيماً». ِِ
بِالْ ُم ْؤمن َ
اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ اپنی رعایا سے دیر
تک ( )1الگ نہ رہنا کہ حکام کا رعایا سے پس پردہ رہنا ك -فَِإ َّن ك َع ْن َر ِعيَّتِ َ
احتِ َجابَ َوأ ََّما َب ْع ُد فَاَل تُطَِّولَ َّن ْ
ایک طرح کی تنگ دلی پیداکرتا ہے اور ان کے معامالت
کی اطالع نہیں ہو پاتی ہے اور یہ پردہ داری انہیں بھی الض ِيق -وقِلَّةُ ِع ْل ٍم اب الْ ُواَل ِة َع ِن َّ
الر ِعيَّ ِة ُش ْعبَةٌ ِم َن ِّ احت َج َ
ِ
ْ
احتَ َجبُوا ِ بِاألُمو ِر -وااِل حتِج ِ
اب مْن ُه ْم َي ْقطَ ُع َعْن ُه ْم ع ْل َم َما ْ
ان چیزوں کے جاننے سے روک دیتی ہے جن کے
سامنے یہ حجابات قائم ہوگئے ہیں اور اس طرح بڑی ْ َ ُ ُ
وي ْقبُ ُح دونَه َ -فيصغُر ِعْن َدهم الْ َكبِري ويعظُم َّ ِ
چیز چھوٹی ہو جاتی ہے اورچھوٹی چیز بڑی ہو جاتی الصغريُ َ - ُ َْ ُ َ ْ ُ ُُ ُ
ہے۔اچھا برا بن جاتا ہے اوربرا اچھاہوجاتا ہے
يح - ِ
ن ن ن ض
احْلَ َس ُن وحَيْ ُس ُن الْ َقب ُ
ے ورن ہ اس کی ز ندگی ن24ضگھن ٹ ہ عوام ال ن اس کی ذر ش م ( )1تہ ش ا د اس امر کی طرف اش ارہ ے کہ سماج اور عوام سے ت ن
ات ز دگی می ں ا ل ہ الگ رہ ا والی ناورحاکم کے روری ق ن خ ہ ن ن ئ ی تی ن ئ
ے جس سے ردہ داری ای ک ا سا ی ئرورت ہ ے۔پ س
ال کےئ وق ادا کر ن کت ا ہ ح ہ
ے ا ل و عی ن ے اور ہ لو وں می ں اپ ے مالک سے م اجصات ئکر سکت ا ہ پ می ا
وں ن
ن ہ وئگ نی و ن ہ ہا ی
ش ن
ے کہ عوام ال اس حاکم کی زخی ارت سے نمحروم ہ و ج ا ی ں اور اس کا دی دار ے کہ اس پ تردہ شداری کو طول ہ ہ وے پ ا ظ ے۔ا ل مس لہ یئہ فہ ے ی از ہی ں ہ ون سکت ا ہ کو ی ا ٹسان ب
ے ج و عوام کے دکھ ندرد ے کاخیکا حق ہ ے ن ص نکو حاکم ب ن ے۔ایس ہ ا تک ے اور ن ہ کسی درد دل کا ا ہار ک ی ا نج اس ہصرف ی لیویژن کے پردہ پر صی ب ہ و ج تسخسے ن ہ کو ی ری اد کی ج ا سک ی خ ش
ٹ ن
ڈوب مر ا ے اور آ ر می ں کسی دری ا می ں پ ش کومتفمی ں ب ی ھٹکر'' ا ا رب کم اال علی ف''قکا عرہ یلگا ا نچ اہ یت ئ
ے ص کو درب ار ح ے۔ایتسے اور ان کی ز دگی کی یل وں کو محشسوس نن ہ کرسک می ں ری ک ن ہ ہ و سک
ے اور ان کی حالت کے ی ن ظ ر سو ے راء کو د کھ ا پڑ ا ہ ے کو ہ می ں ب ی ھ کرحج از اور ی مامہک ے۔اس کے ل المی حتکومت اس طرح کی ال پرواہ ی کو بردا ت ہی ں کر سک ی ہ ے۔اس ن چ اہ ی ٹ
ے۔ پ ہی ڑ ا ھا ک ی کھی رو
اورحق باطل سے مخلوط ہو جاتا ہے۔اور حاکم بھی ف َما اط ِل -وإِمَّنَا الْ َوايِل بَ َشٌر -اَل َي ْع ِر ُ وي َشاب احْل ُّق بِالْب ِ
باآلخر ایک بشر ہے وہ پس پردہ امور کی اطالع نہیں ُ ُ َ َ
ِ
رکھتا ہے اور نہ حق کی پیشانی پر ایسے نشانات ہوتے ت َعلَى احْلَ ِّق َّاس بِه م َن األ ُُمو ِر -ولَْي َس ْ َت َو َارى َعْنه الن ُ
ہیں جن کے ذریعہ صداقت کے اقسام کو غلط بیانی سے
ب -وإِمَّنَا الص ْد ِق ِمن الْ َك ِذ ِ وب ر ض ا ف هِب ر ع ت - ات مِس
الگ کرکے پہچانا جاسکے۔ َ ِّ ُ ُ ُ َ ُ َ ْ ُ ٌ َ
ِ
ك بالْبَ ْذل يِفِ ِ ِ
اور پھر تم دو میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے۔یا وہ ت َن ْف ُس َ َح ُد َر ُجلَنْي -إ َّما ْامُر ٌؤ َس َخ ْ تأَ أَنْ َ
شخص ہوگے جس کا نفس حق کی راہمیں بذل و عطا پر
مائل ہے تو پھرتمہیں واجب حق عطا کرنے کی راہ میں ب َح ٍّق ُت ْع ِطيه -أ َْو فِ ْع ٍل ك ِم ْن و ِاج ِ
احت َجابُ َ َ
احْل ِّق -فَِفيم ِ
َ ْ َ
ِ
ف الن ِ َك ِر ٍمي تُ ْسديه أ َْو ُمْبَتلًى بِالْ َمْن ِع -فَ َما أ ْ
پر وہ حائل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اور کریموں َّاس َع ْن ع َك َّ
جیسا عمل کیوں نہیں انجام دیتے ہو۔یا تم بخل کی بیماری َسَر َ
َن أَ ْك َثر حاج ِ ِ
میں مبتال ہوگے تو بہت جلدی لوگ تم سے مایوس ات ك َ -م َع أ َّ َ َ َ ك -إِ َذا أَيِ ُسوا ِم ْن بَ ْذل َ َم ْسأَلَتِ َ
ہوکرخود ہی اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے اور تمہیں پردہ
ك ِ -م ْن َش َك ِاة َمظْلِ َم ٍة ِ مِم
ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔حاالنکہ لوگوں کے ك َّ -ا اَل َمئُونَةَ فيه َعلَْي َ َّاس إِلَْي َ
الن ِ
اف يِف ُم َع َاملَ ٍة. ب إِنْص ٍ
اکثر ضروریات وہ ہیں جن میں تمہیں کسی طرح کی
زحمت نہیں ہے جیسے ظلم کی فریاد یا کسی معاملہ میں
أ َْو طَلَ ِ َ
انصاف کا مطالبہ ۔ استِْئثَ ٌار وتَطَ ُاو ٌل وقِلَّةُ ِ
اصةً وبِطَانَةً -في ِه ُم ْ مُثَّ إِ َّن لِْل َوايِل َخ َّ
اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ ہر والی کے کچھ إِنْ ٍ
مخصوص اور راز دار قسم کے افراد ہوتے ہیں جن میں اب تِْل َ
ك َسب ِ اح ِسم م َّاد َة أُولَئِ َ ِ
ك ب َقطْ ِع أ ْ َ
ٍ
صاف يِف ُم َع َاملَة فَ ْ ْ َ َ
خودغرضی ،دست درازی اورمعامالت میں بے انصافی ك ِ ِ ِ ِ ٍ ِ ِ
پاء جاتی ہے ل ٰہذا خبردار ایسے افراد کے فساد کا عالج وح َّامت َك َ َحد م ْن َحاشيَت َ َح َوال -واَل ُت ْقط َع َّن أل َ األ ْ
ٍ ِ ِ
ان اسباب کے خاتمہ سے کرنا جن سے یہ حاالت پیدا ضُّر مِب َ ْن
ك يِف ْاعت َقاد عُ ْق َدة -تَ ُ قَ ِط َيعةً -واَل يَطْ َم َع َّن ِمْن َ
ہوتے ہیں۔اپنے کسی بھی حاشیہ نشین اورقرابت دار کو
ب أ َْو َع َم ٍل ُم ْشَتَر ٍك -حَيْ ِملُو َن َّاس -يِف ِشر ٍ
ْ يَلِ َيها ِم َن الن ِ
کوئی جاگیر مت بخش دینا اوراسے تم سے کوئی ایسی
توقع نہ ہونی چاہیے کہ تم کسی ایسی زمین پر قبضہ دیدو َمئُو َنتَه َعلَى َغرْيِ ِه ْم
گے جس کے سبب آبپاشی یا کی مشترک معاملہ میں
شرکت رکھنے والے افراد کو نقصان پہنچ جائیکہ اپنے
مصارف بھی دوسرے کے سرڈال دے اور
اس طرح اس معاملہ کا مزہ اس کے حصہ میں آئے اور ك يِف ُّ ِ
اس کی ذمہ داری دنیا اور آخرت میں تمہارے ذمہ رہے۔
الد ْنيَا وعْيبُه َعلَْي َ
كَ - ك هَلُ ْم ُدونَ َ َفيَ ُكو َن َم ْهنَأُ َذل َ
اور جس پر کوئی حق عائد ہو اس پر اس کے نافذ کرنے ِ
واآلخَر ِة.
کی ذمہ داری ڈالو چاہے وہ تم سے نزدیک ہویا دور ِ ِ
يب والْبَعِيد -و ُك ْن يِف َذل َ
ك وأَلْ ِزِم احْلَ َّق َم ْن لَ ِز َمه ِمن الْ َق ِر ِ
اوراس مسئلہ میں ہللا کی راہ میں صبرو تحمل سے کام َ
ِ ِ ِ ِ ِ
لینا چاہے اس کی زد تمہاریقرابتداروں اورخاص افراد ہی ث
ك َحْي ُ اصت َ
وخ َّ ك َ ك م ْن َقَرابَت َ صابِراً حُمْتَ ِسباً َ -واقعاً َذل َ َ
پرکیوں نہ پڑتی ہواور اس سلسلہ میں تمہارے مزاج پر ِ ِ
جو بار ہو اسے آخرت کی امید میں برداشت کرلینا کہ ك ِمْنه -فَِإ َّن َمغَبَّةَ َذل َ
ك وابتَ ِغ َعاقبَتَه مِب َا َي ْث ُق ُل َعلَْي َ
َوقَ َع ْ -
اس کا انجام بہتر ہوگا۔ ودةٌ.
اور اگر کبھی رعایا کو یہ خیال ہو جائے کہ تم نے ان پر حَمْ ُم َ
ظلم کیا ہے توان کے لئے اپنے عذر کا اظہار کرواور َص ِح ْر هَلُ ْم بِعُ ْذ ِر َك -
ك َحْيفاً فَأ ْ الر ِعيَّةُ بِ َ
َّت َّوإِ ْن ظَن ِ
اسی ذریعہ سے ان کی بد گمانی کاعالج کرو کہ اس میں
ِ ِ
تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعایا پر نرمی کا اضةًك ِريَ َ ص َحا ِر َك -فَِإ َّن يِف َذل َ ك ظُنُو َن ُه ْم بِِإ ْ واعد ْل َعْن َ ْ
ك و ِرفْقاً بِر ِعيَّتِ َ ِ ِمْن ِ
ِ ك لَن ْف ِس َ
اظہار بھی ہے اوروہ عذر خواہی بھی وہے جس کے
ك
اجتَ َ ك وإ ْع َذاراً َ -تْبلُ ُغ به َح َ َ َ
ذریعہ تمرعایا کو راہ حق پر چالنے کا مقصد بھی
حاصل کرسکتے ہو۔ ِم ْن َت ْق ِوميِِه ْم َعلَى احْلَ ِّق.
اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکارنہ کرنا جس
ضا فَِإ َّن يِف ِ ِ
کی تحریک دشن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک اك إِلَْيه َع ُد ُّو َك وللَّه فيه ِر ً ص ْلحاً َد َع َ واَل تَ ْد َف َع َّن ُ
کی رضا مندی ( )1پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ ود َك - الص ْل ِح دعةً جِل ن ِ
شخ ن ن فوجوں کو ت
ُّ َ َ ُُ ئ
حاالت صہ ہین ں ہ ی ں کہ ج وت ص ج ن ت اس کے مع ی
خ
ے ل ی کن ے اسے ن'' ی ر '' سے ظعب یر ک ی ا
ن
رآن ئ
ق
اور ے کار ہ
ق
طر ن ر ()1اس م ں کو ی ش ک ن ہ ں ے تکہ قصلح ا ک ب ہت
ی ت ظ ہ ن ئ ہ ی ی ی ہ ی ی
اور اس کے ب عد م طم ن ہن و کر ب ی ٹھ ج ا و کہ ایس ص
ے گا اور مہی ں اسے لی م ے ظ ام فمی ں ہ ر الم اپض ی المان ہ حرک وں خہ ی پر ن لح کر ا چن اہ ی دعوت دے م بول ضکرلوئ ش ی طرح کی ن لح ک
ص می نں جس
ب
کہ سرکار دوے تجس طرح ئ روردگار کے الف ہیضں ہ و ا چ اہ ی ے اورصاس کی کسی د عہ کو ھی مر ش ی پ حق ق کے م طابق ہ و ا چ اہف ی نے الٰہی ف ے کہاسے ر ا کر ا ہ وگا۔ لح کی بص ی ادی ی رط ی ہ ہ
سب تکی سب م طابق ی ف ت اور عی ن مر ن بی پ ئ غ
روردگار قھی ں ناور کو یتحرف ے س جس ل تظ اور جس جس د عہ پر لح کی ہ آپ ے ج ں د کھا گ ی ا ے کہ
ہللخھم '' ب غعالم (ص) کی ن لح می ت
ھی کو ی لط ا ن دام تہی عں ھا۔امام ا ئ
یکرد س پاواک راد ا کے من اورد ھا ق صح ح ھا۔دمحم ب ن ع ب دہللا ب ھی ای ک حرف ح ی ت
مہ کک ئ ا ھی ا سمک ب '' ھا لط درم ان م ں ہ ں
ے۔اوری ہ موالے کائ ن ات کی ب ی ادی لی م اور ص ش ل ی ت م ی یص ی ب
حسن ج ت ب ٰیقکی لح می ں م قھی ی ہی مام صوص ی ات پ ا ی ج ا ی ہ ی ں ج ن کا م اہ دہ سرکار دو عالم (ص) کی لح می ں ک ی ا ج ا چ کا ہ
ے۔ اسالم کاوا عی ہ دف اور صد ہ
قدرے سکون مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی
ك وأ َْمناً لِبِاَل ِد َك -ولَ ِك ِن احْلَ َذ َر ُك َّل احْلَ َذ ِر وراحةً ِمن مُه ِ
وم َ َ َ ْ ُ
افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن
ِ ِ ِ
وامان ک فضا قائم ہو جائے گی۔البتہ صلح کے بعد دشمن َّل - ب ليََتغَف َ ص ْلحه -فَِإ َّن الْ َع ُد َّو ُرمَّبَا قَ َار َ م ْن َع ُد ِّو َك َب ْع َد ُ
کی طرف سے مکمل طور پر ہوشیار رہنا کہ کبھی کبھی ِ ِ ِ
وہ تمہیں غافل بنانے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا تك ُح ْس َن الظَّ ِّن -وإِ ْن َع َق ْد َ فَ ُخ ْذ بِاحْلَْزم واهَّت ْم يِف َذل َ
چاہتا ہے لہٰ ذا اس مسئلہ میں مکمل ہو شیاری سے کام لینا ك ِذ َّمةً -فَ ُح ْط وبنْي َ َع ُد ِّو َك عُ ْق َد ًة -أ َْو أَلْبَ ْستَه ِمْن َ
ك َ َبْينَ َ
اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا اوراگر اپنے اور اس
ِ عه َد َك بِالْوفَ ِاء وار ِ
کیدرمیان کوئی معاہدہ کرنایا اسے کسی طرح کی پناہ دینا ك ُجنَّةً ك بِاأل ََمانَة ْ -
واج َع ْل َن ْف َس َ ع ذ َّمتَ َْ َ َ َْ
تو اپنے عہد کی پاسداری و وفاداری کے ذریعہ کرنا اور
ض اللَّه َش ْيءٌ - ت -فَِإنَّه لَْيس ِم ْن َفَرائِ ِ ُدو َن َما أ َْعطَْي َ
اپنے ذمہ کو امانت داری کے ذریعہ محفوظ بنانا اور َ
َش ُّد علَيه اجتِماعاً مع َت َفُّر ِق أَهوائِ ِهم -وتَ َشت ِ
ُّت
اپنے قول و قرارکی راہ میں اپنے نفس کو سپر بنادینا کہ َْ ْ َّاس أ َ َ ْ ْ َ َ َ الن ُ
ہللا کے فرائض میں ایفائے عہد جیسا کوئی فریضہ نہیں ِ ِ ِ
ہے جس پر تمام لوگ خواہشات کے اختالف اورافکار كَآرائِ ِه ْم ِ -م ْن َت ْع ِظي ِم الْ َوفَاء بِالْعُ ُهود -وقَ ْد لَ ِز َم َذل َ
ِ ِِ ِ
اسَت ْو َبلُوا
ني -ل َما ْ يما َبْيَن ُه ْم ُدو َن الْ ُم ْسلم َ الْ ُم ْش ِر ُكو َن ف َ
کے تضاد کے باوجودمتحد ہیں اور اس کا مشرکین نے
بھی اپنے معامالت میں لحاظ رکھا ہے کہ عہد شکنی کے
نتیجہ میں تباہیوں کا انداہ کرلیا ہے۔تو خبردار تم اپنے يس َّن بِ َع ْه ِد َك ِ
ك واَل خَت َ
ِ ِ
ب الْغَ ْد ِر -فَاَل َت ْغد َر َّن بِذ َّمتِ َ ِم ْن َعواقِ ِ
َ
عہدو پیمان سے غداری نہ کرنا اور اپنے قول و قرار ِ
ئ َعلَى اللَّه إِاَّل َجاه ٌل ِ
واَل خَت ْتلَ َّن َع ُد َّو َك -فَِإنَّه اَل جَيْرَتِ ُ
میں خیانت سے کام نہ لینا اور اپنے دشمن پر اچانک
ضاه َبنْي َ الْعِبَ ِاد ِ ِ
حملہ نہ کردینا۔اس لئے کہ ہللا کے مقابلہ میں جاہل و بد َشق ٌّي -وقَ ْد َج َع َل اللَّه َع ْه َده وذ َّمتَه أ َْمناً أَفْ َ
بخت کے عالوہ کوئی جرٔات نہیں کرتا ہے اور ہللا نے
عہدو پیمان کو امن وامان کا وسیلہ قراردیا ہے جسے يضو َن إِىَل ِج َوا ِره ِ ِ
وح ِرمياً يَ ْس ُكنُو َن إِىَل َمَن َعته ويَ ْستَف ُ
ِ ِ
بَرمْح َته َ
اپنی رحمت سے تمام بندو ں کے درمیان عام کردیا ہے اع فِيه - ِ
فَاَل إِ ْد َغ َال واَل ُم َدالَ َسةَ واَل خ َد َ
اور ایسی پناہ گاہ بنادیا ہے جس کے دامن حفاظت میں
پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں اور اسکے جوار میں منزل
کرنے کے لئے تیز سے قدم آگے بڑھاتے ہیں لہٰذا اس
میں کوئی جعل سازی ' فریب کاری اور مکاری نہ
ہونی چاہیے اورکوئی ایسا معاہدہ نہ کرنا جس میں تاویل
واَل َت ْع ِق ْد َع ْقداً جُتَ ِّو ُز فِيه الْعِلَ َل واَل ُت َع ِّولَ َّن َعلَى حَلْ ِن َق ْو ٍل
کی ضرورت پڑے اور معاہدہ کے پختہ ہو جانے کے
بعد اس کے کسی مبہم لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ك فِيه يق أ َْم ٍر لَ ِز َم َ يد والتَّوثَِق ِة واَل ي ْدعون َ ِ
َّك ض ُ َ َُ ْ
بع َد التَّأْكِ ِ
َْ
نہ کرنا اور عہد ٰالہی میںتنگی کا احساس غیر حق کے ِ ِ
ساتھ وسعت کی جستجو پرآمادہ نہ کردے کہ کسی امر صْبَر َك َعلَى ب انْف َساخه بِغَرْيِ احْلَ ِّق -فَِإ َّن َ َع ْه ُد اللَّه إِىَل طَلَ ِ
کی تنگی پر صبر کرلینا اور کشائش حال اور بہترین
ض َل َعاقِبَتِه َخْيٌر ِم ْن َغ ْد ٍر خَتَ ُ
اف اجه وفَ ْ ِ
ض ِيق أ َْم ٍر َت ْر ُجو انْفَر َ
ِ
عاقبت کا انتظار کرنا اس غداری سے بہتر ہے جس کے
اثرات خطرناک ہوں اور تمہیں ہللا کی طرف سے جواب ك ِم َن اللَّه فِيه ِط ْلبَةٌ -اَل تَ ْسَت ْقبِ ُل ط بِ َ تَبِ َعتَه -وأَ ْن حُتِ ي َ
اك واَل ِ فِ َيها ُد ْنيَ َ
دہی کی مصیبت گھیر لے اور دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو
ك.
آخَرتَ َ
جائیں ۔
دیکھو خبردار۔ناحق خون بہانے سے پرہیز کرنا کہ اس س َش ْيءٌ أ َْد َعى ِ ِ ِ ِ ِّ إِيَّ َ
سے زیادہ عذاب ٰالہی سے قریب تر اور پاداش کے وس ْف َك َها بغَرْي حل َها -فَإنَّه لَْي َ ِّماءَ َ اك والد َ
اعتبارسے شدید تر اورنعمتوں کے زوال۔زندگی کے َحَرى بَِز َو ِال نِ ْع َم ٍة وانِْقطَ ِ
اع ِ ٍ ِِ ٍ
لن ْق َمة واَل أ َْعظَ َم لتَبِ َعة -واَل أ ْ
خاتمہ کے لئے مناسب تر کوئی سبب نہیں ہے اور ك الد ِ َّة ِ -من س ْف ِ مد ٍ
پروردگار روز قیامت اپنے فیصلہ کاآغاز خونریزیوں
ِّها -واللَّه ُسْب َحانَه ِّماء بِغَرْيِ َحق ََ ْ َ ُ
ِ ِ ِ ِ ِ ِ
مْبتَد ٌ ِ
ِّماء َي ْو َم
يما تَ َسافَ ُكوا م َن الد َ ئ باحْلُ ْك ِم َبنْي َ الْعبَاد -ف َ
کے معاملہ سے کرے گا۔لہٰ ذا خبردار اپنی حکومت کا
استحکام ( )1ناحق خون ریزی کے ذریعہ نہ پیدا کرنا کہ
ُ
ِ
ك بِ َس ْفك َدٍم َحَر ٍام - ِ ِ
یہ بات حکومت کو کمزوراور بے جان بنا دیتی ہے بلکہ الْقيَ َامة -فَاَل ُت َق ِّويَ َّن ُس ْلطَانَ َ
تباہ کرکے دوسروں کی طرف منتقل کر دیتی ہے اور
تمہارے پاس نہ خدا کے سامنے اور نہ میرے سامنے
اس میں ت
ً
عمدا ن قتل فکرنے ت کا کوئی عذرنہیں ہے اور ت
ت ' عسکری ا ق الب اور ذہ ا ت و خراست مام اس ب اب ت
ن ق ت
ے شکہ دن ی ا می ں غحکومتوں نکا ی ام و وراث ت ' ج فم
ض
کام غعوامں اس حپ ن ے ل ی نکن حکومنوں م سے ہ و نسکت ا ن ہوری ر ح وا ()1ش
ے ج ی ا ی لط
ت ی
نےجق ہوں ت ا ں
ہ
ہ
ت
ے س ظ
ا ب کم
م
زی کے ذر عہ س ح
ی ق ت ر
ن
و کو وں
ت
مکو ح ی
ن پا وہ کہ ا ک ال
خ
ہ ے راد ان ن ج اور ے شں یہخ کن فکی خ و نی اور ملک کی و حالی ش
کے خب ر مم خ ہ
ی ی ک ی ت ف یئ ی ی ہ ی
ے ھب ا ی ہی ں رہ سکتپ ا تہ کن ضلم کے سا ے لی ف ے کہملک ک ر قکے سا ھ و ب ا ی رہع قسکت ا ہ ے کہا گ ی ا ہ آمادہ ہ و ا پڑا۔اسی لے صئکو ب ھی قود ک تی پر ن نلر ج ی سمی کا ا ج ام دیخکھ ل ا اوہ ہ ٹ
ی ہ ن ن
ل ن ہ
ے دیر ے اور زما ہ کی گردش کے ٹ ے لہٰذا اس سے پرہ ی ز ہ ر صاحب ا ت داراور صاحب ل و وش کا ری ہ ہ ناور ا سا یتت کا ون ب ہاے سے ب ڑا کو ی ج رم ابل صور ہی ں ہ
ے۔ ہی ں لگ ی ہ
ِ ك مِم َّا ي ْ ِ ِ ِ
ضع ُفه /ويُوهنُه بَ ْل يُِزيلُه َ
زندگی کا قصاص بھی ثابت ہے۔البتہ اگر دھوکہ سے اس
غلطی میں مبتال ہو جائو اور تمہارا تازیانہ ' تلوار یا ہاتھ
ويْن ُقلُه -واَل عُ ْذ َر فَإ َّن َذل َ ُ
سزا دینے میں اپنی حد سے آگے بڑھ جائے کہ کبھی َن فِيه َق َو َد ك ِعْن َد اللَّه واَل ِعْن ِدي يِف َقْت ِل الْ َع ْم ِد -أل َّ لَ َ
ِ ِ
يت خِب َطٍَإ -وأَْفَر َط َعلَْي َ ِ
کبھی گھونسہ وغیرہ بھی قتل کا سبب بن جاتا ہے۔تو خبر
دار تمہیں سلطنت کاغرور اتنا اونچا نہ بنادے کہ تم خون
ك أ َْو ك َس ْوطُ َ الْبَ َدن -وإِن ْابتُل َ
کے وارثوں کو ان کا حق خون بہا بھی ادا نہ کرو۔ ك أ َْو يَ ُد َك بِالْعُ ُقوبَِة -فَِإ َّن يِف الْ َو ْكَز ِة فَ َما َف ْو َق َها َسْي ُف َ
اور دیکھو اپنے نفس کو خود پسندی سے بھی محفوظ
رکھنا اور اپنی پسند پر بھروسہ بھی نہ کرنا اور زیادہ ك َ -ع ْن أَ ْن ُت َؤ ِّد َ
ي ك خَن ْ َوةُ ُس ْلطَانِ َ َم ْقَتلَةً -فَاَل تَطْ َم َح َّن بِ َ
ِ ِ ِ
إِىَل أ َْوليَاء الْ َم ْقتُول َحق ُ
تعریف کا شوق بھی نہ پیداہوجائے کہ یہ سب باتیں َّه ْم.
شیطان کی فرصت کے بہترین وسائل ہیں جن کے ذریعہ
ك ِمْن َها ِ
وہ نیک کرداروں کے عمل کو ضائع اور برباد کردیا والث َقةَ مِب َا يُ ْعجبُ َ
ك ِّ - اب بَِن ْف ِس َ اك وا ِإل ْع َج َ وإِيَّ َ
کرتا ہے۔ ص الشَّيطَ ِ ب ا ِإلطْر ِاء -فَِإ َّن ذَلِ َ ِ
اور خبردار رعایا پراحسان بھی نہ جتانا اور جو سلوک
ان يِف ك م ْن أ َْوثَ ِق ُفَر ِ ْ وح َّ َ ُ
ِِ ِ ِ ِ ِ
کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ني. َن ْفسه -ليَ ْم َح َق َما يَ ُكو ُن م ْن إِ ْح َسان الْ ُم ْحسن َ
ان سے کوئی وعدہ کرکے اس کے بعد وعدہ خالفی بھی ِ
نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور يماك -أَ ِو التََّزيُّ َد ف َ ك بِِإ ْح َسانِ َ اك والْ َم َّن َعلَى َر ِعيَّتِ َوإِيَّ َ
ِ ِِ
ك -أ َْو أَ ْن تَعِ َد ُه ْم َفتُْتبِ َع َم ْو ِع َد َك خِب ُْلف َ َكا َن ِم ْن ف ْعل َ
زیادتی عمل کاغرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے ك-
اور وعدہ خالفی خدا اوربندگان خدا دونوں کینزدیک
ب بِنُو ِر احْلَ ِّق - ِ ِ
ناراضگی کاباعث ہوت یہ جیسا کہ اس نے ارشادفرمایا فَإ َّن الْ َم َّن يُْبط ُل ا ِإل ْح َسا َن والتََّزيُّ َد يَ ْذ َه ُ
ہے کہ '' ہللا کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی بات ہے
َّاس -قَ َال اللَّه َت َعاىَل ت ِعْن َد اللَّه والن ِ ِ
کہ تم کوئی بات کہو اور پھراس کے مطابق عمل نہ کرو ب الْ َم ْق َ
ف يُوج ُ واخْلُْل َ
'' َ ( -كُبَر َم ْقتاً ِعْن َد اهلل أَ ْن َت ُقولُوا ما ال َت ْف َعلُو َن).
اورخبردار وقت سے پہلے کاموں میں جلدی نہ کرنا اور
وقت آجانے کے بعد سستی کا مظاہرہ نہ کرنا اور بات ط فِ َيها ِعْن َد َّس ُّق َ ِ هِن ِ ِ
اك والْ َع َجلَةَ باأل ُُمور َقْب َل أ ََوا َا -أَو الت َ وإِيَّ َ
سمجھ میں نہ آئے تو جھگڑا نہ کرنا اورواضح ہو جائے إِم َكاهِنَا -أَ ِو اللَّج ِ
تو کمزوری کا اظہار نہ کرنا۔ہربات کو اس کی جگہ ت -أَ ِو الْ َو ْه َن َعْن َها اجةَ ف َيها إِذَا َتنَ َّكَر ْ َ َ ْ
رکھواور ض ْع ُك َّل أ َْم ٍر َم ْو ِض َعه/ ت -فَ َ ض َح ْ إِذَا ْ
اسَت ْو َ
ہر امر کواس کے محل پر قرار دو۔ وأ َْوقِ ْع ُك َّل أ َْم ٍر َم ْوقِ َعه.
دیکھو جس چیز میںتمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے
ُس َوةٌ -والتَّغَايِب َ َع َّما اك وااِل ستِْئثار مِب ا الن ِ وإِيَّ َ
اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا اورجوحق نگاہوں کے َّاس فيه أ ْ ْ ََ َ ُ
ك لِغَرْيِ َك - ضح لِْلعي ِ ِ مِم
ون -فَِإنَّه َمأْ ُخوذٌ ِمْن َ
سامنے واضح ہوجائے اس سے غفلت نہ برتنا کہ
دوسروں کے لئے یہی تمہاری ذمہ داری ہے اورعنقریب ُت ْعىَن به َّا قَ ْد َو َ َ ُُ
ف ِمْن َ وع َّما قَلِ ٍيل َتْن َك ِشف عْن َ ِ
تمام امورسے پردے اٹھ جائیں گے اورتم سے مظلوم
کاب دلہ لے لیا جائے گا۔اپے غضب کی تیزی 'اپنی سر
ك ص ُ ك أَ ْغطيَةُ األ ُُمو ِر -ويُْنتَ َ ُ َ َ
ِ ِ
کشی کے جوش ' اپنے ہاتھ کی جنبش اور اپنی زبان کی وسطْ َو َة ِّك َ - وس ْو َر َة َحد َ ك َ ك مَحِ يَّةَ أَنْف َ لِْل َمظْلُوم ْ -املِ ْ
ِ ي ِد َك و َغر ِ
ك بِ َك ِّ س ِم ْن ُك ِّل َذل َ واحرَتِ ْ ب ل َسانِ َ
کاٹ پر قابو رکھنا اور ان تمام چیزوں سے اپنے کو اس ف
طرح محفوظ رکھنا کہ جلدبازی سے کام نہ لینا اور سزا كْ - ْ َ َ
ك ِ الْب ِادر ِة وتَأْ ِخ ِري َّ ِ
دینے میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ غصہ ٹھہر جائے ك َفتَ ْمل َ ضبُ َالسطْ َوة َ -حىَّت يَ ْس ُك َن َغ َ َ َ
ك َ -حىَّت تُكْثَِر ِ
ك ِم ْن َن ْف ِس َ ااِل ْختِيَ َار -ولَ ْن حَتْ ُك َم ذَل َ
اور اپنے اوپر قابو حاصل ہو جائے۔اوراس امرپ ربھی
اختیار اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا ہے جب تک
ِ ِ مُه وم ِ
پروردگار کی بارگاہ میں واپسی کا خیال زیادہ سے زیادہ ك أَ ْن َتتَ َذ َّكَر ب َعلَْي َك والْ َواج ُ ك بِذ ْك ِر الْ َم َعاد إِىَل َربِّ َ ََُ
نہ ہوجائے ۔ ما م ِ
ك ِ -من ح ُكوم ٍة ع ِادلَ ٍة أَو سن ٍَّة فَ ِ
اضلَ ٍة َّم َ
تمہارا فریضہ ہے کہ ماضی میں گزر جانے والی ْ ُ َ َ ْ ُ ضى ل َم ْن َت َقد َ َ ََ
عادالنہ حکومت اور فاضالنہ سیرت کو یاد رکھو' رسول يض ٍة يِف
-أ َْو أَثٍَر َع ْن نَبِِّينَا صلىهللاعليهوآلهوسلم أ َْو فَ ِر َ
اکرم(ص) کے آثار اور کتاب خدا کے احکام کو نگاہ میں
رکھواور جس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اسی ت مِم َّا َع ِم ْلنَا بِه فِ َيها - اه ْد َي َا َش َ
اب اللَّه َ -فَت ْقتَ ِد مِب
َ
كِتَ ِ
ك يِف َع ْه ِدي َه َذا ِ
وجَتْتَ ِه َد لَن ْف ِس َ
طرح ہمارے نقش قدم پر چلو اور جو کچھ اس عہد نامہ
میں ہم نے بتایا ہے اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو کہ ت إِلَْي َاع َما َع ِه ْد ُ ك يِف اتِّبَ ِ
میں تمہارے اوپر اپنی حجت کو مستحکم کردیا ہے تاکہ ك -لِ َكْياَل تَ ُكو َن ِ
ت بِه ِم َن احْلُ َّج ِة لَن ْف ِسي َعلَْي َ واسَت ْوثَ ْق ُ ْ -
جب تمہارا نفس خواہشات کی طرف تیزی سے بڑھے تو
تمہارے پاس کوء یعذرنہ رہے۔ور میں پروردگار کی ك إِىَل َه َو َاها :وأَنَا أ ْ
َسأ َُل ك ِعلَّةٌ ِعْن َد تَ َسُّر ِع َن ْف ِس َ لَ َ
وسیع رحمت اور ہر مقصد کے عطا کرنے کی عظیم
قدرت کے وسیلہ سے یہ سوال
وع ِظي ِم قُ ْد َرتِه َعلَى إِ ْعطَ ِاء ُك ِّل َر ْغبَ ٍة - ِ ِ
کرتا ہوں کہ مجھے اور تمہیںان کاموں کی توفیق دے جن
می اس کی مرضی ہو اور ہم دونوں اس کی بارگاہ میں اللَّه بِ َس َعة َرمْح َته َ -
ضاه ِ -م َن ا ِإلقَ َام ِة َعلَى الْعُ ْذ ِر أَ ْن يو ِّف َقيِن وإِيَّ َ ِ ِ
اوربندوں کے سامنے عذر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اك ل َما فيه ِر َ َُ
بندوں کی بہترین تعریف کے حقدار ہوں اور عالقوں میں
بہترین آثار چھو ڑ کرجائیں۔نعمت کی فراوانی اور عزت اض ِح إِلَْيه وإِىَل َخ ْل ِقه َ -م َع ُح ْس ِن الثَّنَ ِاء يِف الْعِبَ ِاد ومَجِ ِيل الْو ِ
َ
يف الْ َكَر َام ِة -وأَ ْن ضعِ ِ ِّع َم ِة وتَ ْ ِ
األَثَِر يِف الْبِاَل د -ومَتَ ِام الن ْ
کے روز افزوں اضافہ کوبرقرار رکھ سکیں اور ہم
دونوں کا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو کہ ہم سب ہللا
السعاد ِة والشَّهاد ِة ( -إِنَّا إِلَيه ِ
کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانے والے راجعُو َن) - ْ ََ ك بِ َّ َ َخَي ْتِ َم يِل ولَ َ
ہیں۔سالم ہو رسول خدا (ص) پر اور ان کی طیب وطاہر والساَل م َعلَى رس ِ
آل پر اور سب پر سالم بے حساب۔والسالم ول اللَّه -صلىهللاعليهوآلهوسلم الطَّيِّبِ َ
ني َُ َّ ُ
()54 وسلَّ َم تَ ْسلِيماً َكثِرياً َّ
والساَل ُم ين َ
ِ
الطَّاه ِر َ
آپ کا مکتوب گرامی ()54
(طلحہ و زبیر کے نام جسے عمران بن الحصین عليهالسالم ومن كتاب له
الخزاعی کے ذریعہ بھیجا تھا اور جس کا ذکر ابو جعفر
اسکافی 1نے کتاب المقامات میں کیا ہے ) إلى طلحة والزبير (مع عمران بن الحصين الخزاعي)
امابعد! اگرچہ تم دونوں چھپا رہے ہو لیکن تمہیں بہر
حال معلوم ہے کہ میں نے خالفت کی خواہش نہیں کی۔ ذكره أبو جعفر اإلسكافي في كتاب المقامات في
لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت مناقب أمير المؤمنين عليهالسالم .
کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت
ِِ ِ ِ
کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔تم دونوں بھی انہیں َّاس َحىَّت أ ََّما َب ْع ُد َف َق ْد َعل ْمتُ َما وإ ْن َكتَ ْمتُ َما -أَيِّن مَلْ أُرد الن َ
افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے چاہا تھا اورمیری
أ ََر ُادويِن -ومَلْ أُبَايِ ْع ُه ْم َحىَّت بَ َايعُويِن -وإِنَّ ُك َما مِم َّْن أ ََر َاديِن
بیعت کی تھی
ت ت وبَ َاي َعيِن -
ن ق ت ف ت ش ت ت ش ف ت ف
ں ج نت می ںف اقی ک '' کت ابشالم ام تات'' ب ھی ھی ن۔اسیخ کت اب می ں امی ر الموم ی ن ب یھ زلہ کے ی وخ می ں مارفہ وے ھض
ے اور اننکے س ر 70نص ی ات ()1ابو ج ع ر تاس کا ی م ع ت
ھے اورج گ ی بر کے سال اسالم ش ن ت یت و ہ ار م ف ں یم ہ اح ص اہ و ج ن
ھا ا ج ھ
ی عہ ی ذر کے
ن مران عتسے ا ے رت ح کہ ے
ہ ا ا
ی یت ب ہ اور
ت ے
ہ ا اس مک وب گرامی کا ن ق ی
ک ذکرہ
ت کے تئ
ب
ے ج و ہروان اورب صرہ کے درم ی ان ای ک ہر ے اور ا ہی ں اسکاف کی سب ت سے اسکا ی کہاج ا ا ہ ے اور عہد معاوی ہ می ں ا ال ک ی ا ھا۔اسکا ی ج احظ کے معاصروں می ں ھ الے ھ
ے۔ ہ
اض ٍر – ض ح ِ ان َغالِ ٍ ِ وإِ َّن الْع َّامةَ مَل ُتبايِعيِن لِس ْلطَ ٍ
ب واَل ل َعَر ٍ َ
اورعام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے
رعب داب سے کی ہے اور نہ کی مال دنیا کی اللچ میں َ ْ َ ْ ُ
کی ہے۔پس اگر تم دونوں نے میر ی بیعت اپنی خوشی فَِإ ْن ُكْنتُ َما بَ َاي ْعتُ َمايِن طَائَِعنْي ِ -فَ ْار ِج َعا وتُوبَا إِىَل اللَّه ِم ْن
سے کی تھی تو اب خدا کی طرف رجوع کرو اور فوراً
يب -وإِ ْن ُكْنتُ َما بَ َاي ْعتُ َمايِن َكا ِرهَنْي ِ َ -ف َق ْد َج َع ْلتُ َما يِل قَ ِر ٍ
توبہ کرلو۔اور اگرمجبوراً کی تھی تو تم نے اپنے اوپر
میرا حق ثابت کردیا کہ تم نے اطاعت کا اظہار کیا تھا اعةَ -وإِ ْسَرا ِر ُك َمايل بِِإظْ َها ِر ُك َما الطَّ َ َعلَْي ُكما َّ ِ
السب َ َ
اورناف رمانی کودل میں چھپا کر رکھا تھا۔اورمیری جان
اج ِرين -بِالت َِّقيَّةِ صيةَ -ولَعم ِري ما ُكْنتما بِأَح ِّق الْمه ِ ِ
کی قسم تم دونوں اس راز داری اوردل کی باتوں کے َ ْ َ َُ َ ُ َ َ الْ َم ْع َ
چھپانے میں مہاجرین سیزیادہ سزا وار نہیں تھے اور ان -وإِ َّن َد ْف َع ُك َما َه َذا األ َْمَر ِم ْن َقْب ِل أَ ْن تَ ْد ُخاَل فِيه والْ ِكْتم ِ
َ
تمہارے لئے بعت سے نکلنے اور اس کے اقرار کے بعد
َ -كا َن أَوسع علَي ُكما ِمن خر ِ
وج ُك َما ِمْنه َ -ب ْع َد
انکار کردینے سے زیادہ آسان روز اول ہی اس کا انکار ْ َ َ َ ْ َ ْ ُُ
کردیناتھا۔تم لوگوں کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ میں نے
عثمان کوقتل کیا ہے تو میرے اور تمہارے درمیان وہ
إِ ْقَرا ِر ُك َما بِه.
اہل مدینہ موجود ہیں جنہوں نے ہم دونوں سے علیحدگی وبْينَ ُك َما َم ْن خَتَلَّ َ
ف ت عُثْ َما َن َ -فَبْييِن َ وقَ ْد َز َع ْمتُ َما أَيِّن َقَت ْل ُ
اختیار کرلی ہے۔اس کے بعد ہرشخص اسی کاذمہدار ہے
جو اس نے ذمہداری قبول کی ہے۔ بزرگوارو! موقع وعْن ُك َما ِم ْن أ َْه ِل الْ َم ِدينَ ِة -مُثَّ يُْلَز ُم ُك ُّل ْام ِر ٍئ بَِق ْد ِرَعيِّن َ
غنیمت ہے اپنی رائے سے بازآجائو کہ آج تو صرف ان َع ْن َرأْيِ ُك َما -فَِإ َّن ما احتَمل -فَار ِجعا أَيُّها الشَّيخ ِ
ننگ وعارکاخطرہ ہے لیکن اس کے بعد عارونار دونوں َ ْ ََ ْ َ َ َْ
ِ
جمع ہو جائیں گے۔والسالم۔ اآل َن أ َْعظَ َم أ َْم ِر ُك َما الْ َع ُار -م ْن َقْب ِل أَ ْن َيتَ َج َّم َع الْ َع ُار والن ُ
َّار
والساَل ُم.
َّ -
()55
آپ کامکتوب گرامی ()55
(معاویہ کے نام) عليهالسالم ومن كتاب له
اما بعد!خدائے بزرگ وبرتر نے دنیا کو آخرت کا مقدمہ
قراردیا ہے اوراسے آزمائش کاذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ إلى معاوية
واضح ہوجائے کہ بہترین عمل کرنے واال کون ہے۔ہم نہ
اس دنیاکے لئے پیداکئے گئے ہیں اور نہ ہمیں اس کے الد ْنيَا لِ َما َب ْع َد َها -أ ََّما َب ْع ُد فَِإ َّن اللَّه ُسْب َحانَه قَ ْد َج َع َل ُّ
لئے دوڑ دھوپ کا حکم دیا گیا ہے۔ہم یہاں فقط اس لئے َح َس ُن َع َماًل -ولَ ْسنَا لِ ُّ
لد ْنيَا ِ ِ
وابَتلَى ف َيها أ َْهلَ َها لَي ْعلَ َم أَيُّ ُه ْم أ ْ ْ
رکھے گئے ہیں کہ ہمارا امتحان لیاجائے اورہللا نے
تمہارے ذریعہ ہمارا ' اور ہماریذریعہ تمہارا امتحان لے ِ ِ ِ
الس ْع ِي ف َيها أ ُِم ْرنَا -وإِمَّنَا ُو ِض ْعنَا ف َيها لنُْبَتلَي هِبَا ُخلِ ْقنَا واَل بِ َّ
لیا ہے اورایک کو دوسرے پرحجت قرا دے دیا ہے لیکن ِ
تم نے تاویل قرآن کاسہارا لے کردنیا پردھاوا بول دیا اور َح َدنَا ُح َّجةً وابتَاَل َك يِب -فَ َج َع َل أ َ ك ْ -وقَد ْابتَاَل يِن اللَّه بِ َ
الد ْنيا بِتَأْ ِو ِيل الْ ُقر ِ
مجھ سے ایسے جرم کا محاسبہ کردیا جس کا نہ میرے آن - ْ ت َعلَى ُّ َ اآلخ ِر َ -ف َع َد ْو َ َعلَى َ
ہاتھ سے کوئی تعلق تھا اورنہ زبان سے۔صرف اہل شام ِ ِ مِب
نے میرے سرڈال دیا تھا اور تمہارے جاننے والوں نے ت وأ َْه ُل صْيتَه أَنْ َ
وع َفَطَلَْبتَيِن َا مَلْ جَتْ ِن يَدي واَل ل َسايِن َ -
اهلَ ُكم وقَائِم ُكم قَ ِ ِ ِ َّ ِ
الشَّام يِب -وأَل َ
جاہلوں کو اور قیام کرنے والوں نے خانہ نشینوںکو اکسا اع َد ُك ْم؛
دیا تھا لہٰ ذا اب بھی غنیمت ہے کہ اپنے نفس کے بارے ب َعال ُم ُك ْم َج ْ ُ ْ
ِ
میں ہللا سے ڈرو اور شیطان سے اپنی زمام چھڑالو ف واص ِر ْ
ِع الشَّْيطَا َن قيَ َاد َك ْ - ك ونَاز ِ فَات َِّق اللَّه يِف َن ْف ِس َ
اورآخرت کی طرف رخ کرلو کہ وہی ہماری
واح َذ ْر أَ ْن ك -فَ ِه َي طَ ِري ُقنَا وطَ ِري ُق َ اآلخَر ِة َو ْج َه َ إِىَل ِ
اورتمہاریآخری منزل ہے۔اس وقت سے ڈرو کہ اس دنیا كْ -
ِ
میں پروردگار کوئی ایسی مصیبت نازل کردے کہ اصل َص َل و َت ْقطَ ُع س األ ْ ك اللَّه ِمْنه بِ َعاج ِل قَا ِر َع ٍة -مَتَ ُّ صيبَ َيِ
ُ
بھی ختم ہو جائے اورنسل کابھی خاتمہ ہو جائے۔میں ِ ِ ِ
پروردگار کی ایسی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے غلط ك بِاللَّه أَليَّةً َغْيَر فَاجَر ٍة -لَئ ْن الدَّابَِر -فَِإيِّن أُويِل لَ َ
احتِ َ ِ مَج عْتيِن وإِيَّ َ ِ
اك َج َوام ُع األَقْ َدا ِر اَل أ ََز ُال ببَ َ
ہونے کا امکان نہیں ہے کہ اگرمقدر نے مجھے اور ك -
تمہیں ایک میدان میں جمع کردیا تو میں اس وقت تک ََ
میدان نہ
چھوڑوں گا جب تک میرے اور تمہارے دمیان فیصلہ نہ ني). ِِ
ہوجائے ۔ وه َو َخْيُر احْل اكم َ
( َحىَّت حَيْ ُك َم اهلل َبْينَنا ُ
()56 ()56
آپ کی وصیت عليهالسالم ومن وصية له
(جو شریح 1بن ہانی 2کو اس وقت فرمائی جب انہیں شام وصى بها شريح بن هانئ -لما جعله على مقدمته إلى
جانے والے ہر اول دستہ کا سردار مقرر فرمایا)
صبح و شاماہلل سے ڈرتے رہو اوراپنے نفس کو اس الشام
ٍ
ف َعلَى َن ْف ِس َ
دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اور اس پر کسی حال میں
اعتبارنہ کرنااور یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی
ك ُّ
الد ْنيَا وخ ْوم َساء َ - اح َ صبَ ٍ ات َِّق اللَّه يِف ُك ِّل َ
ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کوب ہت سی پسندیدہ َّك إِ ْن مَلْ َت ْر َد ْع ور -واَل تَأْ َمْن َها َعلَى َح ٍال ْ -
واعلَ ْم أَن َ الْغَُر َ
چیزوں سے نہ روکا۔تو خواہشات تم کوب ہت سے نقصان
وہ امور تک پہنچادیں گی ل ٰہذا ہمیشہ اپنے نفس کو كت بِ َ ب -خَمَافَةَ َمكُْروه -مَسَ ْ ك َع ْن َكثِ ٍري مِم َّا حُتِ ُّ َن ْف َس َ
ك َمانِعاً َر ِادعاً ِ
األ َْه َواءُ إِىَل َكثِ ٍري ِم َن الضََّر ِر -فَ ُك ْن لَن ْف ِس َ
روکتے ٹوکتے رہو اورغصہ میں اپنے غیظ و غضب کو
دباتے اورکچلتے رہو۔
ك ِعْن َد احْلَِفيظَِة َواقِماً قَ ِامعاً . ِ
()57 -ولَن ْز َوتِ َ
آپ کا مکتوب گرامی ()57
(اہل کوفہ کےنام۔مدینہ سے بصرہ روانہ ہوتے وقت) عليهالسالم ومن كتاب له
امابعد! میں اپنے قبیلہ سے نکل رہا ہوں یا ظلم کی حیثیت
سے یا مظلوم کی حیثیت سے۔یامیں نے بغاوت کی ہے یا إلى أهل الكوفة -عند مسيره من المدينة إلى البصرة
ت ِم ْن َحيِّي َه َذا -إِ َّما ظَالِماً وإِ َّما
میرے خالف بغاوت ہوئی ہے۔میں تمہیں خدا کاواسطہ
دے کر کہتا ہوں کہ جہاں تک میرا یہ خط پہنچ جائے تم أ ََّما َب ْع ُد فَِإيِّن َخَر ْج ُ
سب نکل کرآجائو۔اس کے بعد مجھے نیکی پرپائو اغياً وإِ َّما َمْبغِيّاً َعلَْيه -وإِيِّن أُذَ ِّكُر اللَّه َم ْن مظْلُوماً وإِ َّما ب ِ
َ َ
تومیری امداد کرو
ت حُمْ تِسناً أ ََعانَيِن .- ِ
َبلَغَه كتَنايِب َه َذا لَ َّما َنقَفَر إِيَلَّ ت -فَِإ ْن ق ُكْن ُ
ش ت ت
ے۔یش خہاں ت ک کہ حج ناج کے زمان ہ می ں تجسست ان می ں
ک رہ ئ
ت ی ے ۔ابو م داد نک ی ت ھی اور قآپ تکے سا ھ مام معرکوں می فں فری ھکے ن ی ل الد ر صحان جل
امی رالمو ض ی ن ن
ش()1ی ہئ م
ہ ی د ہ وے۔ح رت ے ا ہی ں ش ام ج ا بے والے ہ ر اول دست ہ کا امی ر م رر ک ی ا و مذکورہ ہ دای ات سے سر راز رمای ا اکہ کو ی ص اسالمی پ اب دی سے آزادی کا صورن ہ
ے۔کرسک
اورغلطی پر دیکھو تو مجھے رضا کے راستہ پر لگا دو اسَت ْعتَبَيِن وإِ ْن ُكْن ِ
()63۔ ت ُمسيئاً ْ
ُ
()58 ()58
آپ کامکتوب گرامی عليهالسالم ومن كتاب له
(تمام شہروں کے نام۔جس میں صفین کی حقیقت کااظہار كتبه إلى أهل األمصار -يقص فيه ما جرى بينه وبين
کیا گیا ہے )
ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے أهل صفين
ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب بظاہر ( )1دونو ں َّام - و َكا َن ب ْدء أ َْم ِرنَا أَنَّا الَْت َقْينَا والْ َقوم ِمن أ َْه ِل الش ِ
کاخدا ایک تھا۔رسول ایک تھا۔پیغام ایک تھا۔نہ ہم اپنے ُْ ْ َ ُ
ود ْعو َتنَا يِف ِ ِ ِ والظَّ ِ
اهُر أ َّ
ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلب گار تھے ۔نہ وہ َن َربَّنَا َواح ٌد ونَبَّينَا َواح ٌد َ َ -
اپنے ایمان کوبڑھانا چاہتے تھے۔معاملہ بالکل ایک تھا يدهم يِف ا ِإلميَ ِ ِ ِ
صرف اختالف خون عثمان کے بارے میں تھا جس سے ان بِاللَّه ا ِإل ْساَل م َواح َدةٌ -واَل نَ ْستَ ِز ُ ُ ْ
ِ
ہم بالکل بری تھے اورہم نے یہ حل پیش کیا کہ جو اح ٌد إِاَّل َما يدو َننَا -األَمر و ِ
ُْ َ َّص ِد ِيق بَِر ُسوله -واَل يَ ْستَ ِز ُ والت ْ
مقصد آج نہیں حاصل ہوسکتا ہے ' اس کاوقتی عالج یہ
کیا جائے ہ آتش جنگ کو خاموش کردیاجائے اور لوگوں اخَتلَ ْفنَا فِيه ِم ْن َدِم عُثْ َما َن -وحَنْ ُن ِمْنه َبَراءٌ َ -ف ُق ْلنَا َت َعالَ ْوا ْ
کے جذبات کوپرسکون بنادیا جائے۔اس کے بعد جب ني الْ َع َّام ِة - نُ َدا ِو َما اَل يُ ْدر ُك الَْيو َم -بِِإطْ َف ِاء النَّائِر ِة وتَس ِك ِ
حکومت کو استحکام ہوجائے گا اورحاالت ساز گار ْ َ َ ْ
ہوجائیںگے تو ہم حق کو اس کی منزل تک النے کی ض ِع احْلَ ِّق َحىَّت يَ ْشتَ َّد األ َْمُر ويَ ْستَ ْج ِم َع َ -فَن ْق َوى َعلَى َو ْ
طاقت پیدا کرلیں گے۔لیکن قوم کا اصرار ( )2تھا۔کہ اس مو ِ
کا عالج صرف جنگ و جدال ہے۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ اض َعه َ -ف َقالُوا بَ ْل نُ َدا ِويه بِالْ ُم َك َابَر ِة -فَأ ََب ْوا َحىَّت ََ
ت احْل رب ور َك َدت -ووقَ َد ِ
جنگ نے اپنے پائوںپھیالدئیے اورجم کر کھڑی ہوگئی۔
شعلے بھڑک اٹھے اورٹھہرگئے اور قوم نے دیکھاکہ
ت ت ن َريانُ َها ومَحِ َش ْ َ ْ َجنَ َح ِ َْ ُ َ ْ
ق ن ت ن
-
ئ ت ض
ت ذکرہف تک ی ا قہ
ے۔ن صورت حال کان
ے ب لکہ تں ک یفا ہ
خ وں کے اسالم و ای مان کا ا رار ہی رت ے معاویئہ اور اس ن ہ ی ت
کے سا ھی ث ے کہ خح