You are on page 1of 43

‫حقوق نسواں !

عورت ےک ساتھ حسن معارشت یک اتکید‬


‫ِ‬
‫یوی ےک حسن سلوک یک تفصیل اور اس یک اببت مرد یک ذمہ دارایں‬
‫عورت ےک ساتھ حسن معارشت یک اتکید‬
‫تعایل ےن قرآن کرمی مںی معارشت ابملعروف‬
‫اسالم ےن عورت ےک ساتھ حسن سلوک یک بھی بڑی اتکید یک ےہ‪ ،‬اس ےک ےیل ہللا ٰ‬
‫یک اصطالح استعامل فرمایئ ےہ‪:‬‬

‫َوعَارِش ُ ْو ُھ َّن اِب لْ َم ْع ُر ْو ِف‪ ‬‬

‫النساء‪519.5.‬‬
‫’’مت ان ےک ساتھ اےھچ طریقے ےس گزر برس کرو۔‘‘‬

‫جس اک مطلب‪ ،‬عورت ےک حقوق یک حصیح ادائیگی‪ ،‬اس یک رضورایت زندگی (انن و نفقہ ‪ ،‬لباس) یک فراہمی اور اےنپ وسائل‬
‫ےک مطابق اےس ہر طرح یک آساین اور سہولتںی بہم پہنچاان ےہ۔ اس سلسلے یک متعدد احادیث اس ےس قبل ’’مرد اور عورت‬
‫دونوں یک خدمات اک دائرۂ اکر‘‘‬

‫عنوان ےک حتت بیان ہوچکی ہںی۔ یہاں چند احادیث اور مالحظہ فرمائںی۔‬

‫رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫الض•لَع ِ َأ ْعاَل ُہ‪ْ ،‬ن َذ َھ ْب َت تُ ِقمیُہُ کَرَس ْ تَہُ َو ْن تَ َ•ر ْک َتہُ ل َ ْم یَ َ•ز ْل‬
‫َ’و ْاس َت ْو ُصوا اِب لنِّ َساِئ َخرْی ً ا‪ ،‬فَ َّن الْ َم ْرَأ َۃ ُخ ِل َق ْت ِم ْن ِض•لَع ٍ َو َّن َأع َْ•و َج َش ٍئْی یِف ِّ‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫َأع َْو َج ِا ْس َت ْو ُصوا• اِب لنِّ َساِئ َخرْی ً ا‘‬

‫حصیح خباری کتاب الناکح‪،‬ابب الوصاۃ ابلنساء‪،‬حدیث منرب‪5186:‬‬


‫’’عورتوں ےک ساتھ بھالیئ کرےن یک وصیت قبول کرو‪ ،‬اس ےیل کہ عورت یک پیدائش پسیل ےس ہویئ ےہ اور پسیل مںی سب‬
‫ےس ٹڑیھا حصہ اس اک ابالیئ حصہ ےہ‪ ،‬اگر مت اےس سیدھا کران چاہو ےگ تو اےس توڑ بیٹھو ےگ (لیکن سیدھا نہںی کر سکو ےگ‬
‫حیت کہ معاملہ طالق تک پہنچ جائے گا) اور اگر مت اےس چھوڑ دو ےگ تو وہ ٹڑیھا ہی رےہ گا (یعین عورت یک فطری کجی‬
‫کبھی خمت نہںی ہوگی‪ ،‬اس ےیل اس کو برداشت کرےت ہوئے) اس ےک ساتھ بھالیئ کرےت رہو۔ (اس ےک ساتھ نباہ کرےن اک رصف‬
‫یہی طریقہ ےہ) ۔‘‘‬

‫رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل کو عورتوں ےک حقوق یک اتین فکر تھی کہ جحۃ الوداع ےک خطبے مںی بھی آپ ےن اس یک اتکید‬
‫فرمایئ۔ آپ ےن فرماای‪:‬‬

‫’ َااَل َو ْاس َت ْو ُص •وا اِب لنِّ َس •ا ِء َخرْی ً ا‪ ،‬فَ ن َّ َم••ا ُھ َّن َع َ••و ٍان ِع ْن••دَ مُک ْ• لَی َْس تَ ْم ِل ُک• َ‬
‫•ون ِم ْنھ َُّن َش •یًْئا غَرْی َ ٰذ ِل• َ•ک اَّل َأ ْن یَّْأ ِت َنی ِب َفا ِح َش • ٍۃ ُم َب ِّینَ ٍۃ‪ ،‬فَ • ْن فَ َعلْ َن‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫فَا ْھ ُج ُرو ُھ َّن یِف الْ َمضَ اجِ عِ‪َ ،‬وارْض ِ بُو ُھ َّن رَض ْ اًب غَرْی َ ُمرَب ِّ حٍ‪ ،‬فَ ْن َا َط ْعنَمُک ْ فَاَل تَ ْبغُوا عَلَ ْیھ َِّن َس ِبیاًل ‪َ ،‬أاَل َّن لَمُک ْ عَیٰل ِن َساِئمُک ْ َحقًّا َو ِلن َ َساِئمُک ْ عَلَ ْیمُک ْ‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫•ون‪َ ،‬أاَل َو َحقُّھ َُّن عَلَ ْیمُک ْ َأ ْن حُت ْ ِس ُنوا ِال َ ْیھ َِّن یِف‬
‫ون َواَل یَْأ َذ َّن یِف ب ُ ُیو ِتمُک ْ ِل َم ْن تَ ْک َر ُھ• َ‬
‫َحقًّا‪ ،‬فََأ َّما َحقُّمُک ْ عَیٰل ِن َساِئمُک ْ فَاَل ی ُ ْوطِنَئ َّ فُ ُرشَ مُک ْ َم ْن تَ ْک َر ُھ َ‬
‫کِ ْس َو ِتھ َِّن َو َط َعا ِمھ َِّن‘‬

‫جامع الرتمذي‪ ،‬حدیث‪1163 :‬‬


‫’’سنو! مت عورتوں ےک ساتھ بھالیئ کرےن یک وصیت• قبول کرو‪ ،‬بال شبہ وہ متہارے پاس قیدی ہںی (مت ہی ان ےک سب کچھ ہو‬
‫اور وہ متہارے رمح و کرم پر ہںی) اس ےک عالوہ مت ان یک کیس چزی اک اختیار نہںی رکھتے۔• ہاں اگر وہ کھیل ےب حیایئ (بد زابین و‬
‫بد سلویک) اک ارتاکب کریں تو مت ان ےس بسرتوں مںی علیحدگی اختیار کرلو اور ان کو اس طرح ہلکی مار مارو جس ےس ان کو‬
‫شدید رضب نہ آئے۔ اگر (اس حمکت معیل ےس وہ ٹھیک ہوجائںی) متہاری ابتںی مان لںی تو مت ان ےک ےیل کویئ اور راستہ نہ‬
‫ڈھونڈو (طالق نہ دو)۔ اید رکھو! متہارے ےیل متہاری عورتوں پر حق ہںی اور ایس طرح متھاری عورتوں ےک ےیل مت پر حق‬
‫ہںی۔ متہارا حق عورتوں پر یہ ےہ کہ وہ متہارے بسرتوں پر اےسی لوگوں کو نہ آےن دیں جن کو مت انپسند کرےت ہو اور متہارے‬
‫ذن ابراییب نہ دیں جن کو مت اچھا نہںی مسھجتے۔ سنو! اور ان عورتوں اک حق مت پر یہ ےہ کہ ان ےک لباس اور‬ ‫ھگروں مںی ان کو ِا ِ‬
‫خوراک مںی ان ےک ساتھ اچھا براتئو کرو (اس مںی کواتہی نہ کرو)۔‘‘‬

‫یہ ارشا ِد مبارک بھی بڑا جامع ےہ اور اس مںی ازدوایج زندگی مںی پیش آےن واےل نشیب و فراز ےک ابرے مںی بڑی مفید‬
‫ہداایت دی گیئ ہںی جن پر اگر میاں بیوی‬

‫صدق دل ےس معل کریں تو پیدا ہوےن وایل پیچیدگیاں• آساین ےس سلھج سکیت ہںی اور اخالق و کردار یک کواتہیوں• یک اصالح‬
‫ہوسکیت ےہ۔ ازدوایج زندگی کو خوش گوار بناےن اک یہی اصول ےہ کہ دونوں میاں بیوی او ًال ایک دورسے ےک حقوق حصیح‬
‫طریقے ےس ادا کریں اتکہ کویئ انخوشگوار مرحلہ ہی نہ آئے لیکن کیس یک کواتہی ےس اگر ایسا مرحلہ آ ہی جائے تو مذکورہ فرمان‬
‫رسول مںی بتالیئ ہویئ حمکت معیل کو بروئے اکر ال کر اس اک ازالہ آساین ےس کیا جا سکتا ےہ۔‬

‫معامالت مںی زایدہ بگاڑ‪ ،‬جس ےس ھگر اجڑ جاےت ہںی‪ ،‬ایس وقت آات ےہ کہ جب چھویٹ چھویٹ ابتوں کو نظر انداز کرےن ای ان‬
‫کو مناسب حمکت معیل ےس سلھجاےن ےک جبائے‪ ،‬خست اور انمناسب رویہ اختیار کیا جائے اور ان کو بڑھاای جائے۔ اس ےس ایک‬
‫چنگاری شعلہ بن جایت ےہ اور ھگر بھسم ہو کر رہ جاات ےہ۔‬

‫بگاڑ اک ایک اور سبب مرد اک قوت برداشت اور صرب و داانیئ ےس اکم لےنی ےک جبائے جدل ابزی اور اپین حامکیت و قوامیت اک ےب‬
‫تعایل ےن مرد کو عورت پر ّقوام بناای ےہ‪ ،‬اس ّقوامیت اک تقاضا ےہ کہ وہ صنف انزک یک فطری‬
‫اعتدایل ےس استعامل ےہ۔ ہللا ٰ‬
‫مکزوری اور کجی کوحمکت و داانیئ ےس برداشت کرے نہ کہ مکزور ےک مقابلے مںی اپین قوت اک مظاہرہ کرے۔ اس قوت‬
‫مردانگی اک ےب جا استعامل بھی اکرث ھگروں ےک آرام و سکون کو برابد کر دیتا ےہ۔‬

‫مذکورہ احادیث مںی مرد کو یہی نکتہ مسھجاےن یک کوشش یک گیئ ےہ کہ عورت ےک مقابلے مںی ہللا ےن مرد کو عقل و شعور اور‬
‫جسامین قوت زایدہ عطا یک ےہ‪ ،‬اس اعتبار ےس ھگر کو آابد رکھنے مںی اس یک ذےم داری بھی زایدہ ےہ‪ ،‬اس کو ہر وقت‬
‫حمکت و داانیئ اور صرب وحتمل ےس اکم لینا چاےیہ۔ جو مرد ِان حق آگاہ اس نکتے کو مسھج لےتی ہںی‪ ،‬وہ عورت مںی موجود اس‬
‫یک خوبیوں یک قدر کرےت اور مکزوریوں اور کواتہیوں کو برداشت کرےت ہںی‪ ،‬نتیجت ً•ا ان یک ازدوایج زندگی پر سکون گزریت اور‬
‫ھگر جنت• اک منونہ بنا رہتا ےہ اور جو مرد اس ےک برعکس رویہ اختیار• کرےت اور عورت یک خوبیوں کو نظر انداز کرےک اس یک‬
‫فطری کجی (ٹڑیھی پسیل) کو سیدھا کرےن یک اناکم سعی کرےت ہںی‪ ،‬وہ اپنا ھگر اجاڑ بیٹھتے• ہںی۔‬
‫حسن معارشت ےک ےیل چند رہامن اصول‬
‫عورت ےک ساتھ حسن معارشت یک جو اتکید ےہ‪ ،‬وہ پچھلے صفحات مںی آپ ےن پڑھ یل‪ ،‬مناسب معلوم ہوات ےہ کہ موضوع‬
‫یک اہمیت ےک پیش نظر وہ رہامن اصول بھی بیان کردیے جائںی جن پر معل کرےن ےس حسن معارشت اک اہامتم آساین ےس ہوسکتا‬
‫ےہ اور اس ےک تقاےض پورے کیے جا سکتے ہںی۔ یہ رہامن اصول حسب ذیل ہںی‪ ،‬یہ دراصل مرد ےک ذےم وہ حقوق ہںی جو اس‬
‫پر عورت یک طرف ےس عائد ہوےت ہںی‪ ،‬ان حقوق یک پوری رعایت اورادائیگی ےس حسن معارشت ےک تقاےض پورے ہوجاےت‬
‫ہںی۔‬

‫لیجیے! مالحظہ فرمائیے۔‬

‫حق مہر یک ادائیگی‬


‫سب ےس پہال اصول یہ ےہ کہ پوری خوش دیل ےس حق مہر ادا کیا جائے‪ ،‬اس مںی قطع ًا نہ کواتہی یک جائے اور نہ اس مںی بال‬
‫وجہ اتخری۔ اتہم عورت رضا مندی ےس اپنا یہ حق مہر معاف کردے تو ابت اور ےہ‪ ،‬عورت ایسا کر سکیت ےہ لیکن بال جرب‬
‫و اکراہ‪ ،‬اپین رضا مندی ےس۔ اگر عورت یہ ایثار کرے تو مرد ےس یہ ذےم داری ساقط ہوجائے گی۔‬

‫َو ٰاتُوا ال ِن ّ َسآ َء َصدُ قَا ِتـه َِّن حِن ْ لَـ ًة ۚ فَ ِا ْن ِطنْب َ لَمُك ْ َع ْن ىَش ْ ٍء ِّم ْن ُه ن َ ْف ًسا فَلُك ُ ْو ُه َه ِنيًٓئا َّم ِري ًٓئا‬

‫سورۃ النساء آیت منرب ‪4‬‬


‫’’اور مت عورتوں ےک حق مہر خویش ےس ادا کرو‪ ،‬اگر وہ خویش ےس اس مںی ےس کچھ معاف کردیں تو مت اےس رچتا پچتا کھا‬
‫لو۔‘‘‬

‫خوبیوں پر نظر رکھی جائے‬


‫رضوری نہںی کہ ہر مرد کو اس یک پسند اور خواہش ےک مطابق بیوی مل جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو سبحان ہللا۔ ہللا اک شکر‬
‫ادا کرے۔ بصورت دیگر اس پر نہ ھگنٹ حمسوس کرے اور نہ اس ےس نفرت و کراہت اک اظہار۔ بلکہ نوشتۂ تقدیر مسھج کر اےس‬
‫تعایل ایس مںی اس ےک ےیل بہرتی اک سامان پیدا کردے‪ ،‬اس ےس‬‫برداشت کرے اور اس ےک حقوق ادا کرے‪ ،‬ہو سکتا ےہ ہللا ٰ‬
‫تعایل ےن فرماای‪:‬‬
‫تعایل اوالد صاحل عطا فرما دے جو اس ےک ےیل دین و دنیا یک سعادت اک ابعث بن جائے۔ ہللا ٰ‬
‫ہللا ٰ‬

‫َو َعىٰٓس َا ْن حُت ِ ُّب ْوا شَ ـ ْيـــًٔـــ ا َّو ُھ َو رَش ٌّ لَّمُك‬

‫البقرۃ‪216‬‬
‫’’ہوسکتا ےہ جس چزی کو مت انپسند کرو‪ ،‬وہ متھارے ےیل بہرت ہو۔‘‘‪،‬‬

‫اور نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن بھی فرماای ےہ‪:‬‬

‫’’کویئ مومن مرد کیس مومنہ عورت (بیوی)ےس بغض دیل نفرت نہ رکےھ‪ ،‬اگر اس ےک اندر کویئ انپسندیدہ چزی ےہ تو کویئ‬
‫دورسی چزی پسندیدہ• بھی ہوگی۔‘‘(؟)‬
‫مطلب یہ ےہ کہ ہر انسان مںی اچھایئ اور برایئ دونوں ہی ہویت ہںی۔ اس ےیل نباہ اک طریقہ یہی ےہ کہ برائیوں کو نظر انداز‬
‫کرےک اچھائیوں (خوبیوں)• پر نظر رکھی جائے۔ انسان کو اےنپ وادلین‪ ،‬اوالد‪ ،‬بہن بھائیوں ےک معاےلم مںی بھی یہی اصول اپناان پڑات‬
‫ےہ‪ ،‬اس ےک بغری چارہ نہںی‪ ،‬ورنہ انسان اک مذکورہ رشتوں اک نبھاان بھی انممکن ہوجائے۔‬

‫بیوی ےک ےیل بھی ایس اصول کو سامنے رکھا جائے تو بیوی ےک ساتھ‪ ،‬اس یک بعض انپسندیدہ• ابتوں ےک ابوجود نباہ آسان ہوجاات‬
‫تعایل دین و دنیا یک بہت یس سعادتوں ےس بھی نواز دیتا ےہ۔‬
‫ےہ اوراس صرب و ضبط ےک صلے مںی اس کو ہللا ٰ‬
‫کیس بھی اختالف کو اان اور وقار اک مسئلہ نہ بناای جائے‬
‫ھگریلو معامالت مںی‪ ،‬رشتے داروں ےک معامالت مںی ‪ ،‬حیت کہ اےنپ ہی چبوں ےک معامالت مںی میاں بیوی ےک درمیان اختالف‬
‫ہوات رہتا ےہ اور خانگی زندگی اکرث وبیشرت ایس طرح گزریت ےہ‪ ،‬الا ماشاء ہللا۔ اگر کیس وقت یہ اختالف شدت اختیار• کر‬
‫جائے تو مرد کو چاےیہ کہ وہ صرب و حتمل اور در گزر ےس اکم ےل اور کیس بھی اختالف ای مسئلے کو اپین اان اور وقار اک مسئلہ‬
‫نہ بنائے۔ اان اور وقار اک مسئلہ بنا لےنی ےس وہ اختالف خمت ای مک نہںی ہوات بلکہ اس یک شدت ووسعت میںاضافہ ہوجاات ےہ اور‬
‫بہت یس خرابیوں اور مسائل اک ابعث بن جاات ےہ۔ اور اگر اپین اان کو داب کر افہام و تفہمی اور تواضع ےس اکم لیا جائے تو بڑے‬
‫ےس بڑا اختالف بھی خمت ای مک ہوجاات ےہ اور کویئ درمیاین راستہ اختیار کرےن ےس اتفاق رائے پیدا ہوجاات ےہ۔‬

‫بیویوں کو بھی اختالف رائے اور مشورے اک حق دیں‬


‫بعض مرد نہایت خود پسند ہوےت ہںی‪ ،‬وہ کیس کو بھی اختالف رائے اک حق دینے ےک ےیل تیار نہںی ہوےت اور کیس ےس مشورہ‬
‫لےنی یک رضورت بھی نہںی مسھجتے۔ اےسی لوگ اےنپ آپ ہی کو عقلِ لک مسھجتے اور بیوی یک رائے کو قطع ًا کویئ اہمیت نہںی دےتی۔‬
‫ہر معاےلم مںی اپین من ماین کرےت اور ھگر مںی ڈکٹڑی شپ (آمریت ) انفذ کرےت ہںی۔‬

‫یہ رویہ بھی خوش گوار ماحول ےک منایف ےہ جب کہ ھگریلو زندگی یک خوش گواری ےک ےیل ماحول یک خوش گواری نہایت‬
‫رضوری ےہ اور ایسا تب ہی ہوسکتا ےہ کہ مرد بیوی کو زندگی اک دورسا پہیہ مسھجے‪ ،‬جیسا کہ وہ واقعت ًا ےہ‪ ،‬اور ہر اہم‬
‫معاےلم مںی اس کو اعامتد مںی ےل کر فیصلہ‬

‫‪ ‬کرے اور اس ےس مشاورت اک اہامتم کرے‪ ،‬اس ےک دالئل سنے اور اےنپ دالئل اس کو سنائے ‪ ،‬اس طرح زیر حبث مسئلے ےک‬
‫سارے پہلو سامنے آجائںی ےگ جس یک روشین مںی بہرت فیصلہ کران آسان ہوجائے گا۔‬

‫اس سلسلے مںی ذیل یک حدیث ےس ہمںی اکیف رہامنیئ ملیت ےہ۔‬

‫حرضت معر فاروق ریض ہللا عنہ فرماےت ہںی‪’’:‬ا۔‘‬

‫•ایل ےن ان یک اببت وہ احاکم انزل‬


‫’’ہللا یک قس••م! ہم زم•انۂ ج•اہلیت مںی عورت••وں ک••و ک••ویئ اہمیت نہںی دےتی تےھ‪ ،‬ح••یت کہ ہللا تع• ٰ‬
‫فرمائے جو (اسالم ےن عورتوں یک اببت دیے۔) اور ان کو بہت یس رعایتںی دیں (جس ےس ان ےک اندر اعامتد اور ھگریلو مع•امالت‬
‫مںی اختالف رائے اک شعور پیدا ہوا‪ ،‬اس اک نتیجہ یہ ہوا کہ) ایک مرتبہ مںی اپین بیوی ک••و کیس ابت اک حمک دے رہ••ا تھ••ا کہ (اس‬
‫ےن اس ےس اختالف کرےت ہوئے کہا) اگر آپ یہ اکم اس اس طرح کر لںی تو زایدہ بہرت ہوگا۔ مںی ےن اس ےس کہ••ا‪ :‬تھجے م••ریے‬
‫معاےلم مںی دخل دینے اک کیا ح••ق ےہ؟ اور م••ریے حمک ےس رساتیب کی••وں ک••ریت ےہ؟ اس ےن مھج ےس کہ••ا‪ :‬ابن خط••اب! آپ پ••ر‬
‫مھجے تعجب ےہ‪ ،‬آپ چاےتہ ہںی کہ آپ یک ابت پر حبث و تکرار نہ یک جاے‪ ،‬حاالنکہ آپ یک بییٹ (ام املوم••ننی حفص••ہ ریض ہللا‬
‫عنہ••ا ) رس••ول ہللا ص••یل ہللا علیہ وس••مل ےس حبث و تک••رار ک••ریت ےہ جس یک وجہ ےس (بعض دفعہ) رس••ول ہللا ص••یل ہللا علیہ‬
‫وسمل سارا دن اس ےس انراض رےتہ ہںی۔‘‘‬

‫[‪ ]3‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪4913 :‬‬


‫اسالم ےن عورتوں ےک ساتھ حسن سلوک اور لطف و کرم اک معاملہ کرےن اک جو حمک دای ےہ‪ ،‬اس ےک نتیےج مںی مسلامن عورت‬
‫ےک اندر جو شعور اور اعامتد پیدا ہوا‪ ،‬جس پر خود رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن بھی اپین ازواج مطہرات ےک معاےلم‬
‫مںی معل کیا‪ ،‬اس یک ایک ھجلک حرضت معر فاروق ریض ہللا عنہ یک مذکورہ حدیث مںی دیکھی جا سکیت ےہ۔ اس ےس‬
‫واحض ہوجاات ےہ کہ عورت کو اہمیت نہ دینا اور استبداد رائے اک مظاہرہ کران یکرس غلط اور حسن معارشت اور اسوۂ رسول‬
‫ےک خالف ےہ۔‬

‫کسب معاش ‪ ،‬یعین رسمائے یک فراہمی مرد یک ذےم داری ےہ‬


‫تعایل ےن مرد اور عورت ‪ ،‬دونوں کو الگ الگ مقاصد ےک ےیل ختلیق کیا ےہ اور ایس مقصد ختلیق ےک حتت دونوں کو‬‫ہللا ٰ‬
‫جسامین‪ ،‬ذہین اور دماغی صالحیتںی بھی ایک دورسے ےس خمتلف عطا یک ہںی۔ پھر اس ےک مطابق دونوں اک دائرۂ اکر بھی‬
‫متعنی فرما دای ےہ۔ عورت اک دائرۂ اکر ھگر یک چار دیواری ےہ جہاں وہ خانگی امور (کھاےن پاکےن ‪ ،‬صفایئ دھالیئ وغریہ)‬
‫چبوں یک دیکھ بھال‪ ،‬ان یک تربیت و نگراین‪ ،‬ھگر یک حفاظت اور خاوند ےک مال یک حفاظت اور خاوند یک خدمت وغریہ یک ذےم‬
‫تعایل ےن اس کو صالحیتںی بھی اییس ہی دی ہںی کہ وہ یہ سارے امور نہایت خوش اسلویب ےس رس اجنام دے‬ ‫دار ےہ۔ ہللا ٰ‬
‫لییت ےہ۔‬

‫ایس ےیل اس کو حمک ےہ ‪:‬‬

‫َوقَ ْر َن يِف ْ ب ُ ُي ْو ِت ُك َّن‪ ‬‬

‫األحزاب‪33‬‬
‫’’مت اےنپ ھگروں مںی ٹک کر رہو۔‘‘‬
‫ِ‬
‫رضورایت زندگی یک فراہمی ےک ےیل‬ ‫مرد اک دائرۂ اکر بریون در‪ ،‬یعین ھگر ےس ابہر ےک امور ہںی‪ ،‬ھگریلو نظام چالےن اور‬
‫معایش جدو جہد اس یک ذےم داری ےہ‪ ،‬وہ جتارت کرے‪ ،‬کھییت ابڑی کرے‪ ،‬مالزمت کرے‪ ،‬ھگر اک سودا سلف الئے‪ ،‬وغریہ‬
‫وغریہ۔ یہ سارے امور ایس ےک ذےم ہںی۔‬

‫ہللا ےن مرد یک قوامیت یک ایک وجہ اس اک کسب معاش اک ذےم دار ہوان بتالیئ ےہ اور دورسی وجہ جو وہیب‪ ،‬یعین ہللا یک‬
‫تعایل ےن‪:‬‬
‫عطا کردہ ےہ‪ ،‬وہ عورت ےک مقابلے مںی اس اک عقیل و دماغی صالحیتوں• مںی عورت ےس ممتاز ہوان ےہ۔ ہللا ٰ‬

‫َا ِّلر َج ُال قَ ٰ ّو ُم ْو َن عَيَل النِّ َسا ۗ ِء ِب َما فَضَّ َل اهّٰلل ُ ب َ ْعضَ ھ ُْم عَيٰل ب َ ْع ٍض َّو ِب َمآ َانْ َف ُق ْوا ِم ْن َا ْم َوا ِلهِ ْم ‪ ‬‬

‫النساء‪34:‬‬
‫تعایل ےن ایک کو دورسے پر فضیلت• دی ےہ اور اس وجہ ےس کہ مردوں ےن‬
‫’’ مرد عورت پر حامک ہںی اس وجہ ےس کہ ہللا ٰ‬
‫مال خرچ کئے ہںی ۔‘‘‬

‫مںی ایس نکتے کو بیان فرماای ےہ ۔‬

‫ایک خشص ےن ِنیب کرمی صیل ہللا علیہ وسمل ےس پوچھا‪ :‬ہم مںی ےس کیس خشص یک بیوی اک اس پر کیا حق ےہ؟ ٔنیب کرمی صیل‬
‫ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’َأ ْن ت ُْط ِع َمہَا َذا َط ِع ْم َت َوتَ ْک ُسو َھا َذا ا ْکت َ َسی َْت َواَل تَرْض ِ ِب الْ َو ْجہَ‪َ ،‬واَل تُ َقبِّ ْح َواَل تَھْ ُج ْر اَّل یِف الْ َبی ِ•ْت‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫’’جب تو کھائے‪ ،‬اےس بھی کھال‪ ،‬جب تو پےنہ‪ ،‬اےس بھی پہنا‪ ،‬اس ےک چہرے پر نہ مار‪ ،‬نہ اےس برا بھال کہہ اور اس ےس‬
‫علیحدگی اختیار کرین پڑے تو ھگر ےک اندر ہی کر (نہ اس کو ھگر ےس ناکل اور نہ خود ھگر ےس نلک۔‘‘‬

‫ایک اور حدیث مںی بیوی چبوں پر خرچ کرےن کو زایدہ اجرو ثواب اک ابعث قرار دای۔ فرماای‪:‬‬

‫’ ِدیْنَ ٌار َأنْ َف ْقتَہُ یِف َسبِیلِ اہّٰلل ِ ‪َ ،‬و ِدینَ ٌار َأنْ َف ْقتَہُ یِف َرقَ َب ٍۃ‪َ ،‬و ِدینَ ٌار ت ََص َّد ْق َت ِبہِ عَیٰل ِم ْس ِکنیٍ ‪َ ،‬و ِدینَ ٌار َأنْ َف ْقتَہُ عَیٰل َأہْ ِل َک َأع َْظ ُمہَ••ا َأ ْج• ً•را اذَّل ِ ی َأنْ َف ْقتَہُ‬
‫عَیٰل َأہْ ِل َک‘[‪]5‬حصیح مسمل حدیث‪995:‬‬
‫’’ایک دینار وہ ےہ جےس تو ےن جہاد پر خرچ کیا‪ ،‬ایک دینار وہ ےہ جےس تو ےن کیس غالم یک آزادی پر خرچ کیا‪ ،‬ایک دینار‬
‫وہ ےہ جےس تو ےن کیس مسکنی پر صدقہ کیا‪ ،‬ایک دینار وہ ےہ جو تو ےن اےنپ بیوی چبوں پر خرچ کیا‪ ،‬ان سب مںی ےس‬
‫زایدہ اجر اک ابعث وہ دینار ےہ جو تو ےن اےنپ بیوی چبوں پر خرچ کیا۔‘‘‬

‫ایک دورسی حدیث مںی اہل و عیال پر خرچ کردہ دینار کو ’’افضل دینار‘‘ قرار دای۔ فرماای‪:‬‬

‫’َأ ْفضَ ُل ِدینَا ٍر ی ُ ْن ِف ُقہُ َّالر ُج ُل‪ِ ،‬دینَ ٌار ی ُ ْن ِف ُقہُ عَیٰل ِع َیا ِلہِ‘[‪]6‬حصیح مسمل حدیث‪994:‬‬
‫’’سب ےس افضل دینار ‪ ،‬جو آدمی خرچ کرے‪ ،‬وہ دینار ےہ جو وہ اےنپ اہل و عیال پر خرچ کرے۔‘‘‪،‬‬

‫انسان اگر اس نیت ےس کامئے کہ مںی ےن وہ فریضہ ادا کران ےہ جو ہللا ےن مھج پر بیوی چبوں ےک انن نفقہ ےک ابرے مںی عائد کیا‬
‫ےہ اور اس مںی رصف حالل ذرائع ہی اختیار کرے‪ ،‬تو اس اک یہ کامان اور اہل و عیال کو کھالان سب صدقہ (نیکی ہی نیکی) بن‬
‫جاات ےہ۔‬

‫’ َّن الْ ُم ْسمِل َ َذا َأنْ َف َق عَیٰل َأہْ ِلہِ ن َ َف َق ًۃ‪َ ،‬و ُہ َو حَی ْ ت َ ِس ُبہَا اَک ن َْت لَہُ َصدَ قَ ٌۃ‘[‪]7‬حصیح مسمل حدیث‪1002:‬‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫’’مسلامن جب ثواب یک نیت ےس اےنپ بیوی چبوں پر خرچ کرات ےہ تو وہ سب صدقہ (نیکی) بن جاات ےہ۔‘‘‬

‫ان احادیث ےس معلوم ہوا کہ بیوی چبوں یک کفالت یک ساری ذےم داری مرد یک ےہ عورت اس ےس یکرس فارغ ےہ۔ اس ےیل‬
‫کیس مرد کو بھی اپین بیوی کو مالزمت اور حمنت مزدوری ےک ےیل جمبور نہںی کران چاےیہ۔ ہللا ےن اس کو ھگر یک ملکہ بناای ےہ‪،‬‬
‫اس ےک اس اعزاز کو برقرار رکھا جائے‪ ،‬لوگوں یک انز برداری کروا کر ای افرسوں• اک حاشیہ بردار بنا کر اس‬
‫یک ےب توقریی نہ یک جائے اور نہ اس کو ھگر ےس ناکل کر اس یک عصمت و تقدس کو خطرے مںی ڈالا جائے۔‬

‫عورت یک عزت جس طرح ھگر ےک اندر رےنہ میںےہ‪ ،‬ایس طرح مرد یک عزت ھگر ےس ابہر نلک کر کسب معاش ےک ےیل حمنت‬
‫و جدو جہد کرےن میںےہ۔‬

‫جو مرد نکھٹو بن کر ھگر مںی بیٹےھ رےتہ ہںی ای دوستوں ےک ساتھ گپ شپ ہی کو مقصد زندگی بنائے رکھتے ہںی اور اہل و عیال‬
‫ےک انن نفقہ یک ذےم داری ےس غافل رےتہ ہںی جس یک وجہ ےس جمبور ًا• عورت کو اپنا اور چبوں اک پیٹ پالنے ےک ےیل در در یک‬
‫ٹھوکریں کھاین پڑیت ہںی ای پھر اےنپ میکے ےک سہارے زندگی گزارےن پر جمبور• ہویت ےہ‪ ،‬ظاہر ابت ےہ اےسی مردوں اک رویہ‬
‫حسن معارشت ےک یکرس منایف ےہ۔ حسن معارشت اک تقاضا یہ ےہ کہ مرد بہ رضا ورغبت اپین بیوی چبوں یک کفالت یک ذےم‬
‫داری بہ طریق احسن ادا کرے۔‬

‫خرچ مںی اعتدال اور میانہ روی رضوری ےہ‬


‫مناسب معلوم ہوات ےہ کہ یہاں اخراجات ےک معاےلم مںی اسالم یک اعتدال پر مبین تعلامیت یک طرف بھی کچھ اشارہ کردای جائے‬
‫کیونکہ ہامرے معارشے مںی ہر معاےلم مںی افراط و تفریط اک سلسلہ عام ےہ۔ معاشیات اور مالیات مںی بھی یہ افراط و تفریط‬
‫اکرث وبیشرت دیکھنے مںی آیت ےہ۔ کہںی ارساف و تبذیر ےہ تو کہںی کنجویس اور خبل یک انتہا۔ اسالم مںی یہ دونوں رویے‬
‫انپسندیدہ• ہںی۔‬

‫بیوی چبوں ےک انن و نفقے پر کس طرح خرچ کیا جائے‪ ،‬اس ےک ےیل اسالم ےن کیس حد اک تعنی نہںی کیا ےہ بلکہ انصاف پر مبین‬
‫ایک نہایت اہم اصول یہ بیان فرماای ےہ۔‪:‬‬

‫[ ِل ُي ْن ِف ْق ُذ ْو َس َع ٍة ِّم ْن َس َع ِت ٖه ۭ َو َم ْن قُ ِد َر عَلَ ْي ِه ِر ْزقُ ٗه فَلْ ُي ْن ِف ْق ِم َّمآ ٰاتٰى ُه اهّٰلل ُ ]الطالق‪7‬‬


‫’’خوش حال آدمی اپین خوش حایل ےک مطابق (بیوی چبوں پر) خرچ کرے اور جےس رزق مک دای گیا ہو‪ ،‬وہ اس مال مںی ےس‬
‫خرچ کرے جو ہللا ےن اےس دای ےہ۔‘‘‬

‫دورسا اصول یہ بیان فرماای ےہ‪:‬‬

‫َّولُك ُ ْوا َوارْش َ ب ُ ْوا َواَل تُرْس ِ فُ ْوا ۚ ِان َّ ٗه اَل حُي ِ ُّب الْ ُمرْس ِ ِفنْي َ‬
‫األعراف‪31:‬‬
‫’’کھائو پیو اور ارساف فضول خرچی نہ کرو‪ ،‬بالشبہ ہللا ارساف کرےن والوں کو پسند نہںی فرماات۔‘‘‬

‫ایک اور مقام پر فرماای‪:‬‬

‫الش ْي َط ُان ِل َربِّ ِه َك ُف ًورا‬ ‫السبِيلِ َواَل تُ َب ِّذ ْر تَ ْب ِذ ًيرا ﴿‪َّ ﴾٢٦‬ن الْ ُم َب ِّذ ِر َ•ين اَك نُوا خ َْو َان َّ‬
‫الش َيا ِطنيِ ۖ َواَك َن َّ‬ ‫َوآ ِت َذا الْ ُق ْرىَب ٰ َحقَّ ُه َوالْ ِم ْس ِك َني َوا ْب َن َّ‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫﴿‪﴾٢٧‬‬

‫سورہ بین االارسائیل آیت منرب ‪ 26‬ات ‪27‬‬


‫’’فضول خرچی مت کر‪ ،‬یقینا فضول خرچی کرےن واےل شیطانوں ےک بھایئ ہںی اور شیطان اےنپ رب اک بہت ہی انشکرا ےہ۔‘‘‬

‫قرآن ےن فضول خرچی ےک ےیل ارساف اور تبذیر دو لفظ استعامل کیے ہںی۔ دونوں لفظ رضورت ےس زایدہ خرچ کرےن پر بوےل‬
‫جاےت ہںی اس ےیل دونوں ےک معین فضول خرچی ےک کیے جاےت ہںی۔ بعض اس مںی فرق کرےت ہی ہںی‪ ،‬وہ کےتہ ہںی‪:‬‬

‫ارساف ےک معین ہںی‪ ،‬حد ےس نلک جاان۔ اس ےیل ہر چزی مںی حد ےس نلک جاان ارساف ےہ۔ کھاےن پینے‪ ،‬یعین رضورایت‬
‫زندگی پوری کرےن مںی حد ےس جتازو کران بھی ارساف انپسندیدہ• ےہ۔ ایک حدیث مںی نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’لُک ُوا َوارْش َ بُوا َوالْبَ ُسوا َوت ََص َّدقُوا یِف غَرْی ِ ِارْس َ ٍاف َواَل َم ِخیلَ ٍۃ‘‬

‫تعایل‪:‬قل من حرم زینۃ ہللا الیت اخرج لعبادہ۔‬


‫حصیح البخاری ‪:‬کتاب اللباس‪،‬ابب قول ہللا ٰ‬
‫’’کھائو‪ ،‬پیو‪ ،‬پہنو اور صدقہ کرو۔ البتہ دو ابتوں ےس گریز کرو‪ ،‬ارساف اور تکرب ےس۔‘‘‬

‫صدےق مںی تو ارساف پسندیدہ• ہوان چاےیہ کیونکہ ہللا یک راہ مںی زایدہ ےس زایدہ خرچ کران مطلوب ےہ ‪ ،‬لیکن اس حدیث•‬
‫مںی صدےق مںی بھی ارساف ےس رواک گیا ےہ۔ اس اک مطلب یہ ےہ کہ جن یک آمدین تھوڑی ےہ‪ ،‬وہ صاحب حیثیت نہںی ہںی۔‬
‫ان ےک ےیل حمک یہ ےہ کہ وہ پےلہ اےنپ اہل و عیال یک رضورایت پر خرچ کریں‪ ،‬اس ےک بعد دیگر مدات خری پر خرچ کریں اور‬
‫وہ بھی اتین مقدار مںی جس ےس نفقات واجبہ متأثر نہ ہوں۔ اےسی لوگوں ےک ےیل حمک ےہ کہ وہ صدقہ بھی اپین مایل پوزیشن ےک‬
‫مطابق ایک حد تک ہی کریں‪ ،‬اس ےس جتاوز نہ کریں۔ ورنہ احصاب حیثیت• ےک ےیل تو اجازت ےہ کہ وہ جتنا چاہںی ہللا یک راہ‬
‫مںی خرچ کر سکتے ہںی بلکہ ان کو تو خوب ہللا یک راہ مںی خرچ کرےن اک حمک ےہ۔‬

‫اور تبذیر ےک معین‪ ،‬انجائز امور مںی خرچ کران ہںی‪ ،‬چاےہ تھوڑا ہی ہو۔ بہر حال جائز امور مںی بھی فضول خرچی یک اجازت‬
‫نہںی ےہ۔ جب کہ انجائز امور مںی تو خرچ کرےن یک قطع ًا اجازت ہی نہںی ےہ۔‬

‫فضول خرچی ےس ممانعت ‪ ،‬افراط یک ممانعت ےہ جو ہامرے معارشے مںی زندگی ےک ہر شعبے مںی عام ےہ بلکہ یہ افراط‬
‫(فضول خرچی) ہامرا قومی شعار بن چکی ےہ۔‬

‫اس ےک مقابلے مںی تفریط (کواتہی) ےہ یعین رضورت ےک مطابق بھی خرچ نہ کران بلکہ تنگ دیل‪ ،‬کنجویس اور خبل اک مظاہرہ‬
‫کران۔ بعض لوگ اس مرض مںی بھی مبتال ہوےت ہںی اور اس اک مظاہرہ وہ اےنپ اہل و عیال ےک معاےلم مںی بھی کرےت ہںی۔‬
‫بیوی کو پورا خرچ نہ دینا‪ ،‬ایک ایک پایئ اک اس ےس حساب لینا۔ ای ھگریلو سامان خود ال کر دینا تو وہ پورا ال کر نہ دینا۔ ای‬
‫بیوی کو حسب رضورت کچھ خریدےن ےک ےیل جیب خرچ بھی مہیا نہ کران‪ ،‬اخراجات ےک معاےلم مںی بیوی پر اعامتد نہ کران‬
‫اور معمویل معمویل اخراجات ےک ےیل بھی اس اک خاوند ےک رمح وکرم اک حمتاج ہوان‪ ،‬وغریہ۔ یہ ساری صورتںی خبل اور کنجویس‬
‫یک ہںی جو انپسندیدہ• ہںی۔‬

‫اےسی خاوندوں یک بیوایں جب میکے (کچھ دنوں ےک ےیل اےنپ وادلین• ےک ہاں) جایت ہںی تو ابللک خایل ہاتھ جایت ہںی‪ ،‬خاوند ان کو‬
‫جیب خرچ دینا بھی گوارا نہںی کرےت۔ وہ وادلین ےک ہاں معمویل معمویل رضورایت ےک ےیل بھی وادلین ہی ےس رمق لےنی پر جمبور•‬
‫ہویت ہںی۔ وادلین ےک ہاں ان یک حیثیت مہامن یک ہویت ےہ اور وادلین حیت الاماکن حسب استطاعت اپین مہامن بیٹیوں اور‬
‫نواےس نواسیوں یک مہامن نوازی مںی کویئ دقیقہ فروگزاشت نہںی کرےت حیت کہ چبوں یک رضورایت ےک ےیل بھی کچھ خرچ کران‬
‫پڑے تو وہ دریغ نہںی کرےت۔ لیکن اےسی خاوندوں کو سوچنا چاےیہ کہ ان اک یہ رویہ اخالق ًا اور رشع ًا حصیح ےہ؟آخر شادی ےک‬
‫بعد بیوی چبوں ےک انن و نفقہ اک ممکل ذےم دار خاوند ےہ۔ اس یک بیوی چند دنوں ےک ےیل ماں ابپ ےک پاس جائے تو بال شبہ‬
‫اس کو کھالان پالان تو مہامن نوازی اک ایک حصہ ےہ اور ماں ابپ یہ فریضہ نہایت خوش دیل ےس ادا کرےت ہںی۔ لیکن کیا بیوی‬
‫کو ای چبوں کو دوایئ یک رضورت ہو‪ ،‬ای چبوں ےک بعض اضایف اخراجات ہوں ۔ کیا ان ےک ےیل بھی رمق مہیا کران وادلین• یک ذےم‬
‫داری ےہ؟ نہںی‪ ،‬یقینا نہںی۔ اس اک ذےم دار خاوندےہ۔ اگر وہ بیوی کو خایل ہاتھ میکے چھوڑ کر جاات ےہ تو یقینا وہ کنجویس‬
‫اور خبییل ےک عالوہ بد اخالیق اک بھی مظاہرہ کرات ےہ اور اےنپ سرسال پر وہ انروا بوھج ڈالتا ےہ جس ےک ذےم دار وہ نہںی‬
‫ہںی‪ ،‬بلکہ خاوند ےہ‪ ،‬گو وہ خامویش ےس اضایف خرچ بھی پورا کردیں لیکن خاوند یک یہ کنجویس اور بد اخالیق ان ےک ےیل ابر‬
‫خاطر رضور بنیت ےہ اور بیوی ےک ےیل بھی رشمندگی اک ابعث‪ ،‬اگر بیوی حساس اور مسھج دار ہو۔‬

‫بہر حال بعض لوگوں اک یہ رویہ کنجویس اور خبییل یک انتہا ےہ جو حسن معارشت‪ ،‬حسن اخالق ےک منایف اور رشیعت ےس‬
‫متجاوز ےہ۔‬

‫اسالم مںی ان دونوں انتہائوں ےک درمیان کفایت شعاری یک تلقنی ےہ۔‬

‫رشیعت اسالمیہ مںی نہ ارساف پسندیدہ ےہ اور نہ کنجویس اور خبییل۔ بلکہ وہ ان دونوں ےک درمیان اعتدال• اور میانہ روی‬
‫اختیار کرےن اک حمک دیتا ےہ۔ وہ فضول خرچی ےک مقابلے مںی جزر یس اور کفایت شعاری کو پسند کرات ےہ لیکن کفایت‬
‫تعایل اک فرمان ےہ‪:‬‬
‫شعاری اک مطلب خبل نہںی‪ ،‬بلکہ حد ےس جتاوز نہ کران ےہ۔ ہللا ٰ‬

‫َواَل جَت ْ َع ْل يَدَ كَ َم ْغلُوةَل ً ىَل ٰ ُع ُن ِق َك َواَل تَب ُْس ْطهَا لُك َّ الْبَ ْسطِ فَتَ ْق ُعدَ َملُو ًما َّم ْح ُس ًورا ﴿‪﴾٢٩‬‬
‫ِإ‬
‫سورہ بین ارسائیل\الارساء آیت منرب ‪29‬‬
‫’’اور نہ رکھ تو اپنا ہاتھ اپین گردن ےک ساتھ بندھا ہوا اور نہ اےس کھول دے ابللک کھول دینا‪ ،‬کہ تو بیٹھ رےہ مالمت کیا ہوا‪،‬‬
‫تھاک ماندہ۔‘‘[ بین ارسائیل‪]17:29‬‬

‫اس آیت یک تفسری ’’احسن البیان ‘‘ مںی درج ذیل الفاظ مںی یک گیئ ےہ‪:‬‬

‫’’اس مںی انفاق (خرچ کرےن) اک ادب بیان کیا جا رہا ےہ اور وہ یہ ےہ کہ انسان نہ خبل کرے کہ اپین اور اےنپ اہل عیال یک‬
‫رضورایت پر بھی خرچ نہ کرے اور دیگر مایل حقوق واجبہ بھی ادا نہ کرے۔ اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپین وسعت‬
‫اور گنجائش دیکےھ بغری ہی ےب دریغ خرچ کرات رےہ۔ خبل اک نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان ملوم یعین قابل مالمت و مذمت قرار پائے‬
‫گا اور فضول خرچی ےک نتیےج مںی حمسور (تھاکماندہ اور پچھتاےن والا)۔‬

‫حمسور ‪ ،‬اےس کےتہ ہںی جو چلنے ےس عاجز آچاک ہو‪ ،‬فضول خرچی کرےن والا بھی ابآلخرخایل ہاتھ ہو کر بیٹھ جاات ےہ۔‬

‫اےنپ ہاتھ کو اپین گردن ےس بندھا ہوا نہ رکھ۔ یہ کنایہ ےہ خبل ےس۔ اور نہ اےس ابللک ہی کھول دے۔ یہ کنایہ ےہ فضول‬
‫خرچی ےس۔‘‘[‪]9‬‬

‫بیوی ےک ےیل مناسب تفرحیی مواقع فراہم کران‬


‫بیوی ےک ساتھ خوش طبعی اور اس یک تفر ِحی طبع ےک مواقع پیدا کران‪ ،‬یہ بھی حسن معارشت اک ایک حصہ ےہ۔ لیکن اس اک‬
‫رسو سامان بھی رشیعت ےک دائرے مںی رےتہ ہوئے ہی کران ےہ نہ کہ اس ےس جتاوز کرےک‪ ،‬نزی اپین وسعت ےک مطابق نہ کہ اس‬
‫ےس بڑھ کر‪ ،‬جس ےس وہ خود زیر ابر ہوجائے۔‬
‫جےسی آج لک یٹ وی ڈراموں ‪ ،‬فلموں اور تھیرٹ ےک حفش مزاحیہ ڈراموں کو تفرحی اک سامان مسھجا جاات ےہ‪ ،‬اس ےک ےیل ھگروں‬
‫مںی یٹ وی ‪،‬وی یس آر اور کیبل اور نیٹ وغریہ اک انتظام کیا جااتےہ ای سیامنئوں ای تھڑی ہالوں (امحلراء وغریہ) اک رخ کیا جاات ےہ۔‬
‫لیکن یہ سب شیطاین تفرحی ےہ کیونکہ ان مںی قدم قدم پر رشیعت ےس جتاوز ےہ‪ ،‬ان مںی ہیجان انگزی جنیس مناظر اور‬
‫حراکت ےس شہواین جذابت کو بھڑاکای جاات ےہ‪ ،‬حفایش و عرایین اک مظاہرہ کیا جاات ےہ اور مردو زن اک ےب اباکنہ اختالط ہوات‬
‫ےہ اور اس طرح یک متعدد قباحتوں اور غری رشعی حرکتوں اک وہاں ارتاکب ہوات ےہ۔‬

‫رشیعت یک نظر مںی مذکورہ چزییں ’’تفرحی طبع‘‘ اک نہںی‪ ،‬خباثت و کثافت اور شیطنت یک مظہر ہںی‪ ،‬ان ےس ےب حیایئ‪،‬‬
‫تعایل ےن‬
‫حفایش اور مغرب یک حیا ابختہ تہذیب اک فروغ ہورہا ےہ۔ اس ےیل ان اک ھگروں مںی رکھنا جرم عظمی ےہ جس پر ہللا ٰ‬
‫قرآن جمید مںی دنیا و آخرت مںی شدید وعید• بیان فرمایئ ےہ‪:‬‬

‫‪ ‬لَّي َْس عَلَ ْيمُك ْ ُجنَ ٌاح َأن تَدْ ُخلُوا ب ُ ُيواًت غَرْي َ َم ْس ُكون َ ٍة ِفهيَا َمتَا ٌع لَّمُك ْ ‪َ  ۚ ‬والل َّـ ُه ي َ ْعمَل ُ َما تُ ْبدُ َ‬
‫ون َو َما تَ ْك ُت ُم َ‬
‫ون‪﴾٢٩﴿ ‬‬

‫سورہ النور• آیت منرب ‪29‬‬


‫’’جو لوگ اہل امیان مںی ےب حیایئ پھیلنے کو پسند کرےت ہںی‪ ،‬ان ےک ےیل دنیا و آخرت مںی درد انک عذاب ےہ۔‘‘‬

‫جب ےب حیایئ ےک پھیلنے کو پسند کرےن والوں ےک لئے اتین خست وعید• ےہ تو جو خود اےنپ ھگر والوں مںی اس کو پھیالےن ےک‬
‫ذمہ دار ہںی وہ کتین خست وعید ےک مستحق ہونگے؟ایس طرح دور دراز یک تفرحیی مقامات پر بیوی چبوں کو ےل جاان بھی ہر‬
‫کیس ےک بس اک اکم نہںی۔ یہ تفرحی رصف وہ لوگ برداشت کر سکتے ہںی جن ےک پاس وسائل یک فراواین ےہ‪ ،‬اےسی لوگ بیوی‬
‫چبوں مسیت اےسی مقامات پر جا سکتے ہںی اور وہاں رشیعت ےک دائرے مںی رےتہ ہوئے وہاں ےک حسنی قدریت مناظر اور روح‬
‫افروز شادایب ےس لطف اندوز ہوسکتے ہںی۔‬

‫اور جووسائل فراواں ےس حمروم ہںی‪ ،‬وہ مقامی ابغات اور تفرحی گاہوں مںی حسب رضورت جاسکتے ہںی۔ عالوہ ازیں اور‬
‫بھی جو مناسب تفرحی ےک مواقع اور طریقے ہںی‪ ،‬انھںی اختیار کیا جا سکتا ےہ جس ےک بعض منوےن ہمںی اسوۂ رسول مںی بھی‬
‫ملتے ہںی۔ جےسی رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل یک خوش مزایج اور خوش طبعی یک ایک مثال یہ ملیت ےہ کہ ایک مرتبہ سفر‬
‫مںی(رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل کو کچھ تنہایئ میرس آیئ تو) آپ ےن حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےک ساتھ دوڑ اک مقابلہ‬
‫کیا‪ ،‬حرضت عائشہ فرمایت ہںی‪:‬‬

‫’’رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل غزوۂ تبوک ای خیرب ےس واپس ترشیف الئے تو مریے طاقےچ ےک آےگ پردہ پڑا ہوا تھا‪ ،‬ہوا چیل‬
‫تو اس ےن پردے اک ایک حصہ ظاہر کردای جس ےس (طاقےچ مںی پڑے ہوئے) مریے کھلوےن اور گڑایں نظر آےن لگںی‪ ،‬آپ ےن‬
‫پوچھا‪ :‬عائشہ! یہ کیا ےہ؟ مںی ےن کہا‪ :‬یہ مریی گڑایں ہںی۔ آپ ےن ان مںی کپڑے اک ایک ھگوڑا بھی دیکھا جس ےک دوپر تےھ‪،‬‬
‫آپ ےن پوچھا‪ :‬یہ کیا ےہ جو مںی ان ےک درمیان دیکھ رہا ہوں؟ مںی ےن کہا‪ :‬یہ ھگوڑا ےہ۔ آپ ےن پوچھا‪’’ :‬اور اس ےک اوپر کیا‬
‫ےہ؟‘‘ مںی ےن کہا‪ :‬اس ےک دوپر ہںی۔ آپ ےن کہا‪’’ :‬کیا ھگوڑے ےک بھی پر ہوےت ہںی؟‘‘ عائشہ ریض ہللا عنہا ےن کہا‪ :‬آپ ےن‬
‫سنا نہںی کہ‬

‫حرضت سلامین‪ ‬علیہ السالم‪ ‬ےک ھگوڑوں ےک پر تےھ؟ حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا فرمایت ہںی‪( :‬یہ سن کر) رسول ہللا صیل ہللا‬
‫علیہ وسمل اس قدر ہنےس کہ مںی ےن آپ یک ڈاڑھںی دیکھںی۔‘‘[‪]10‬‬
‫حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا چونکہ صغری السن (مک سن) تھںی‪ ،‬اس ےیل چھویٹ معر یک چبیوں مںی کھلونوں ےک ساتھ‬
‫(ابخلصوص گڑے‪ ،‬گڑایئوں ےک ساتھ )جو رغبت ہویت ےہ‪ ،‬وہ حمتاج بیان نہںی۔ حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےک اندر بھی یہ‬
‫رغبت اور شوق تھا‪ ،‬رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن ان ےک مزاج و طبیعت ےک مطابق ان کھلونوں پر کبھی کویئ اعرتاض‬
‫نہںی فرماای اور ان کو ان ےک ساتھ کھیلنے اور ھگر مںی رکھنے یک اجازت مرمحت فرمایئ۔ نزی حملے یک چبیاں بھی حرضت عائشہ‬
‫ریض ہللا عنہا ےک پاس آ کر کھیال کریت تھںی اور رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن ان پر کویئ اعرتاض نہںی فرماای‪ ،‬خصوص ًا‬
‫عید اور خویش ےک موقع پر ‪ ،‬اور وہ آ کر قومی گیت بھی گاای کریت تھںی۔‪]11[ ‬‬

‫اس ےس معلوم ہوا کہ بیوی ےک مزاج و مذاق ےک مطابق تفرحی یک اشیاء بیوی یک دجلویئ اور دل داری ےک ےیل ھگر مںی رکھی‬
‫جا سکیت ہںی برشطیکہ رشیعت مںی ان یک اجازت ہو۔‬

‫دورسی ابت اس ےس یہ معلوم ہویئ کہ چبیاں اےنپ ہاتھوں ےس کھیل کود ےک طور پر کپڑے یک جو گڑایں بنایت ہںی‪ ،‬وہ جائز‬
‫ہںی۔ رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن ان ےس منع نہںی فرماای۔ البتہ آج لک جو مشیین گڑایں (پالسٹک وغریہ یک) نلک آیئ‬
‫ہںی۔ جن مںی ےس بعض مںی میوزک بھی لگا ہوات ےہ۔ نزی ان ےس چھوےٹ بےچ کھیلتے ہی نہںی‪ ،‬بلکہ ان کو شو پیس ےک طور پر‬
‫شو کیسوں مںی بطور جساوٹ ےک بھی رکھا جاات ےہ‪ ،‬ان اک جواز حمل نظر ےہ کیونکہ ہاتھ یک بین ہویئ ےب ہنگم یس گڑای اور‬
‫مشیین گڑای‪ ،‬ان د ونوں مںی زمنی آسامن اک فرق ےہ‪ ،‬اول اذلکر ےک جوازےس اثین اذلکر اک جواز اثبت نہںی ہوسکتا‪ ،‬نہ ایک کو‬
‫دورسے پر قیاس ہی کیا جاسکتا ےہ۔‬

‫ایس طرح خویش ےک موقع پر چھویٹ چبیاں اےسی گیت بھی گا سکیت ہںی جن مںی آابء و اجداد یک خدمات اور اکرانموں اک تذکرہ‬
‫ہو۔ مک سن (صغری السن) بیویوں مںی کھیل کود یک جو رغبت ہویت ےہ‪ ،‬اس اک ایک اور واقعہ احادیث مںی ملتا ےہ کہ رسول‬
‫ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےک اس ذوق اور شوق یک کس طرح رعایت فرمایئ۔‬

‫حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا فرمایت ہںی‪:‬‬

‫’’عید اک دن تھا‪ ،‬حبشی مسجد نبوی مںی (ایک جنگی گتکہ ابزی(کھیل‪ ،‬کرتب) اور نزیہ ابزی کر رےہ تےھ‪ ،‬آپ ےن مھج ےس‬
‫پوچھا‪ :‬تو اس کھیل کو دیکھنا پسند کریت ےہ؟‘‘ مںی ےن کہا‪ :‬ہاں۔ پس آپ ےن مھجے اےنپ پیےھچ کھڑا کر لیا‪ ،‬مریا رخسار آپ‬
‫ےک رخسار پر تھا (کیونکہ آپ ےن حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا کو پیےھچ ےس اکندھوں پر اٹھاای ہوا تھا) اور آپ کرتب ابزوں کو‬
‫فرماےت تےھ۔‬

‫’دُونَمُک ْ اَی بَیِن َأ ْر ِفدَ ۃَ‘‬

‫’’شاابش‪ ،‬اے بنو ارفدہ (یہ حبشیوں اک لقب ےہ)۔‘‘‬

‫(دُونَمُک ْ ‪ ،‬لکمۂ ترغیب ےہ‪ ،‬یعین آپ ان کو ہال شریی دےتی تےھ کہ کھیلو‪ ،‬خوب کھیلو)۔‬

‫یہاں تک کہ جب مںی تھک گیئ‪ ،‬تو پوچھا‪’’ :‬بس‘‘ مںی ےن کہا‪ :‬ہاں۔ حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےن رسول ہللا صیل ہللا‬
‫علیہ وسمل ےک اس طرز معل کہ جب تک مںی خود نہںی تھک گیئ آپ ےن مھجے اپین چادر ےس پردہ کیے ہوئے اےنپ اکندےھ پر‬
‫اٹھائے رکھا اور اےنپ کھیل کود دیکھنے ےک شوق پر اس طرح تبرصہ فرماای‪:‬‬
‫الس ِّن الْ َح ِر َیص ِۃ عَیَل اللَّھْ ِو‘[‪]12‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث ‪5236,950,454:‬‬
‫’فَا ْقدُ ُروا قَدْ َر الْ َج ِاری َ ِۃ الْ َح ِدیثَ ِۃ ِّ‬
‫’’مت اس نو معر لڑیک اک اندازہ کرو جو کھیل کو دیکھنے یک اتین شوقنی ےہ۔‘‘‬

‫اس واقعے ےس یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیوی مک سن ہو تو خاوند کو خاص طور پر اس یک دل داری اور دل جویئ اک اور اس‬
‫یک دلچسپی ےک سامان اک اہامتم کران چاےیہ۔‬

‫اس ےس یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں ےک اےسی کھیل‪ ،‬جن اک جواز• رشیعت ےن تسلمی کیا ےہ‪ ،‬ان اک دیکھنا عورتوں ےک ےک ےیل‬
‫جائز ےہ‪ ،‬برشطیکہ پردے ےک تقاےض جمروح نہ ہوں۔‬

‫آج لک کرکٹ‪ ،‬ہایک وغریہ‪ ،‬جن ےک بڑے بڑے میچ اور مقابلے ہوےت ہںی اور پوری قوم کو ان کو دیکھنے اک خبار چڑھا ہوات اور‬
‫ان ےک نتیےج اک نہایت ےب چیین ےس انتظار ہوات ےہ‪ ،‬یہ کھیل رسارس انجائزہںی جن مںی ےب پناہ قومی وسائل ضائع کیے جاےت‬
‫ہںی اور وقت اک ضیاع الگ۔ ان اک نہ کھیلنا جائز ےہ اور نہ دیکھنا‪ ،‬سننا۔ نہ مردوں ےک ےیل اور نہ عورتوں چبوں ےک ےیل۔‬

‫اسالم مںی رصف وہ کھیل جائز ہںی جن مںی جنگی تربیت اک سامان ہو‪ ،‬جےسی ھگوڑوں• اک مقابلہ‪ ،‬نزیہ ابزی‪ ،‬وغریہ۔ انھی‬
‫کھیلوں مںی ایک کھیل بیوی ےک ساتھ مالعبت ےہ یعین اس ےک ساتھ دل لگی اور پر لطف ہنیس مذاق‪ ،‬جس ےس معارشیت‬
‫زندگی مںی حسن اور خوش گواری پیدا ہو۔‬

‫نیب‪ ‬صیل ہللا علیہ وسمل‪ ‬اک اپین زابن مبارک ےس اہلیہ ےک ساتھ حسن معارشت یک متثیل‬
‫حصیح خباری مںی گیارہ عورتوں اک ایک واقعہ بیان ہوا ےہ کہ وہ ایک جگہ مجع تھںی‪ ،‬انھوں ےن آپس مںی ایک دورسے ےس‬
‫کہا‪ :‬ہر عورت اےنپ اےنپ خاوند یک حصیح حصیح تفصیل بیان کرے کہ وہ اخالق و کردار اک کیسا ےہ اور بیوی ےک ساتھ اس اک‬
‫رویہ کیسا ےہ؟ تو ہر عورت ےن اےنپ اےنپ خاوند یک اببت نہایت اختصار ےس تفصیل بیان یک‪ ،‬ان مںی ایک عورت ام زرع‬
‫تھی‪ ،‬اس ےن اےنپ خاوند ابو زرع یک اببت جو وضاحت یک اس مںی اس ےک خاوند اور اس ےک چبوں وغریہ اک کردار سب ےس‬
‫بہرت تھا‪ ،‬نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن سب یک تفصیالت سن کر حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےس فرماای‪:‬‬

‫’کُ ْن ُت لَ ِک َأَکیِب َز ْرعٍ ُأِل ِّم َز ْرعٍ‘[‪]13‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪5189 :‬‬


‫’’مںی تریے ےیل ایسا خاوند ہوں جےسی ابوزرع ام زرع ےک ےیل تھا۔‘‘‬

‫بیوی ےک ساتھ ظمل و زایدیت اک معاملہ نہ کرے‬


‫عورت خلقی اور جسامین اعتبار• ےس مرد ےس مکزور ےہ‪ ،‬ایس ےیل اےس صنف انزک ےس تعبری کیا جاات ےہ‪ ،‬رسول ہللا صیل‬
‫ہللا علیہ وسمل ےن انھںی ایک مرتبہ قواریر (آبگینے) قرار دای ےہ۔ آبگینہ(شیشہ) بھی نہایت انزک ہوات ےہ۔‪]14[ ‬‬

‫مرد اس ےک مقابلے مںی قوی اجلثہ بھی ےہ اور زایدہ ذہین و دماغی صالحیتوں• اک حامل بھی۔ ایس ےیل ھگر یک قوامیت‬
‫(حامکیت) ایس کو عطا یک گیئ ےہ کیونکہ حامکیت ےک ےیل قوت و طاقت بھی رضوری ےہ اور ذہین و دماغی صالحیتوں یک‬
‫فراواین بھی۔ لیکن اس طاقت اک مطلب‪ ،‬مکزوروں پر دست درازی کران نہںی ےہ بلکہ صربو ضبط اک مظاہرہ اور رمح و کرم اک‬
‫معاملہ کران ےہ۔‬
‫مردوں یک ایک معتدبہ تعداد اپین اس خداد• داد طاقت اک غلط استعامل کریت اور عورتوں پر ظمل و زایدیت اک ارتاکب کریت ےہ‬
‫حاالنکہ ظمل و زایدیت اک ارتاکب حسن معارشت ےک منایف ےہ جب کہ حمک بیوی ےک ساتھ حسن معارشت (اچھا سلوک کرےن)‬
‫اک ےہ۔‬

‫ظمل یک کیئ صورتںی ہںی۔ مث ًال‪:‬‬

‫اس ےک انن ونفقہ‪ ،‬یعین رضورایت زندگی مہیا کرےن مںی کواتہی کران۔‬

‫اےنپ اختیارات• اک انجائز استعامل کرےت ہوئے عورت پر انروا پابندایں• لگاان‪ ،‬جےسی تو اےنپ میکے نہںی جا سکیت‪ ،‬فالں ےس میل‬
‫مالپ نہںی رکھ سکیت‪ ،‬اس طرح یک دیگر پابندایں جن اک رشع ًا جواز نہ ہو۔‬

‫لڑکیوں یک مسلسل پیدائش پر‪ ،‬جس مںی مرد یک طرح وہ بھی ےب اختیارےہ‪ ،‬طالق یک دھمکی دینا‪ ،‬ای اس کو اچھا نہ مسھجنا‪،‬‬
‫اس یک ےب عزیت کران‪ ،‬وغریہ وغریہ۔ حاالنکہ لڑےک ای لڑکیاں دینا‪ ،‬یہ ممکل طور پر ہللا ےک اختیار• مںی ےہ‪ ،‬کیس انسان یک‬
‫خواہش ای کوشش اک اس مںی دخل نہںی۔ اس ےک ابوجود• رصف عورت ہی کو اس اک ذےم دار ٹھہرا کر اس کو طعن و تشنیع اک‬
‫اور ظمل و زایدیت اک ہدف (نشانہ) بناان حامقت بھی ےہ اور ظمل اک ارتاکب بھی۔‬

‫ایک ظمل یہ بھی ےہ کہ مرد بعض دفعہ انراض ہو کر بیوی ےس بول چال بند کردیتا ےہ‪ ،‬ای اس ےس جنیس تعلق قامئ نہںی کرات‪،‬‬
‫ای اس ےک اور بعض حقوق ادا نہںی کرات‪ ،‬ای اس یک اببت قسم کھا لیتا ےہ۔ ظاہر ابت ےہ ایک ہی ھگر مںی رےتہ ہوئے خاوند یک‬
‫تعایل‬
‫یہ ےب ریخ ای ابئیاکٹ عورت ےک ےیل انقابل برداشت ےہ‪ ،‬رشیعت اس ظمل یک کس طرح اجازت دے سکیت ےہ؟ ہللا ٰ‬
‫ےن اس یک اببت قرآن جمید مںی فرماای ےہ‪:‬‬

‫الطاَل َق فَ َّن الل َّـ َه مَس ِ ي ٌع عَ ِل ٌمي‬


‫ون ِمن نِّ َساهِئ ِ ْم تَ َرب ُّ ُص َأ ْرب َ َع ِة َأ ْشهُ ٍر ۖ فَ ن فَا ُءوا فَ َّن الل َّـ َه غَ ُف ٌور َّر ِح ٌمي ﴿‪َ ﴾٢٢٦‬و ْن َع َز ُموا َّ‬
‫لِّذَّل ِ َين ي ُْؤ لُ َ‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫سورہ البقرہ آیت منرب ‪ 226‬ات ‪227‬‬
‫’’جو لوگ اپین بیویوں ےک پاس نہ جاےن یک قسم کھا لےتی ہںی‪ ،‬ان ےک ےیل چار مہےنی یک مہلت ےہ‪ ،‬اگر وہ رجوع کرلںی تو ہللا‬
‫بہت خبشنے والا‪ ،‬نہایت مہرابن ےہ اور اگر وہ طالق اک عزم کر لںی تو ہللا بہت سننے والا‪ ،‬خوب جاننے والا ےہ۔‘‘[‪]15‬‬

‫تعایل ےن اس آیت مبارکہ مںی قطع تعلقی یک زایدہ ےس زایدہ مدت اک تعنی فرما دای ےہ‪ ،‬اور وہ چار مہےنی ےہ‪ ،‬اس ےک اندر‬
‫ہللا ٰ‬
‫اندر وہ اپنا تعلق حبال کرےل ورنہ اس ےک بعد اس کو طالق دیین ہوگی۔ اس آیت یک تفسری حسب ذیل ےہ‪:‬‬

‫’’ایالء‘‘ ےک معین قسم کھاےن ےک ہںی‪ ،‬یعین کویئ شوہر اگر قسم کھاےل کہ مںی اپین بیوی‬

‫‪ ‬ےس ایک مہینہ ای دو مہےنی (مثال ےک طور پر) تعلق نہںی رکھو ںگا۔ پھر قسم یک مدت پوری کرےک تعلق قامئ کر لیتا ےہ تو کویئ‬
‫کفارہ نہںی۔ ہاں اگر مدت پوری ہوےن ےس قبل تعلق قامئ کرے گا تو کفارۂ قسم ادا کران ہوگا۔ اور اگر چار مہےنی ےس زایدہ‬
‫مدت ےک ےیل ای مدت ےک تعنی ےک بغری قسم کھاات ےہ تو اس آیت مںی اےسی لوگوں ےک ےیل مدت اک تعنی کردای گیا ےہ کہ وہ چار‬
‫مہےنی گزرےن ےک بعد ای تو بیوی ےس تعلق قامئ کر لںی ای پھر اےس طالق دے دیں۔ (اےس چار مہےنی ےس زایدہ معلق رکھنے یک‬
‫اجازت نہںی ےہ) پہیل صورت مںی (تعلق قامئ کرےن) مںی اےس کفارۂ قسم ادا کران ہوگا۔ اگر دونوں مںی ےس کویئ صورت اختیار‬
‫نہںی کرے گا تو عدالت اس کو دونوں مںی ےس کیس ایک ابت کو اختیار• کرےن پر جمبور کرے گی کہ اس ےس تعلق قامئ کرے ای‬
‫طالق دے۔ اتکہ عورت پر ظمل نہ ہو۔‘‘[‪]16‬‬
‫اس اک مطلب یہ ہوا کہ اسالم مںی عورت ےک ساتھ کیس بھی قسم اک ابئیاکٹ کرےک اس کو ذہین اذیت مںی مبتال کرےن یک‬
‫اجازت نہںی ےہ‪ ،‬کیونکہ یہ عورت پر ظمل ےہ۔ اگر غصے ای انرایض مںی خاوند اییس کویئ ابت کر بیٹےھ تو اس کو زایدہ طول نہ‬
‫دے بلکہ اس کو جدل از جدل خمت کرےک اپنا تعلق حبال کرےل‪ ،‬اگر وہ ایسا نہںی کرے گا تو ایک متعینہ مدت ےک بعد بذریعۂ عدالت‬
‫عورت کو اس ظمل ےس جنات دلوایئ جائے گی۔‬

‫ایک ظمل زمانۂ جاہلیت مںی عورتوں پر یہ کیا جاات تھا کہ نہ ان کو حصیح طریقے ےس آابد کیا جاات تھا اور نہ طالق دے کر ان کو‬
‫آزاد کیا جاات تھا‪ ،‬مرد عورت کو طالق دیتا اور عدت گزرےن ےس قبل رجوع کر لیتا‪ ،‬اور جس عورت کو تنگ کران اور اس یک‬
‫زندگی کو اجرین بنائے رکھنا مقصود ہوات تو وہ معر بھر ایس طرح طالق دے دے کر رجوع کرات رہتا۔‬

‫اسالم ےن اس ظمل اک سد ابب کرےن ےک ےیل اییس طالق یک ‪ ،‬جس ےک بعد عدت ےک اندر رجوع جائز ےہ‪ ،‬تعداد مقرر فرمادی‬
‫کہ وہ رصف دو مرتبہ ےہ۔‪ ‬‬

‫َا َّلطاَل ُق َم َّر ٰت ۠ ِن‬

‫البقرۃ‪229:‬‬
‫‪ ‬یعین زایدہ ےس زایدہ دو مرتبہ طالق دے کر (عدت ےک اندر) رجوع کیا جا سکتا ےہ‪ ،‬دو مرتبہ حق طالق استعامل کرےن ےک‬
‫بعد تیرسی مرتبہ طالق دی جائے گی تو رجوع اور صلح اک حق خمت‪ ،‬اور ہمیشہ ےک ےیل جدایئ‪ ،‬حیت تنکح زوجا‪ ‬غریہ۔‬

‫دورسی نصیحت مسلامنوں کو یہ فرمایئ گیئ کہ طالق دینے ےک بعد اگر رجوع اور صلح یک رضورت ہو (جس اک ہللا ےن دو‬
‫مرتبہ موقع عطا فرماای ےہ) تو اس رجوع اک مقصد عورت کو تنگ کران‪ ،‬اس کو نقصان پہنچاان اور اس ےک ساتھ زایدیت کران نہ‬
‫ہو بلکہ خوش اسلویب ےک ساتھ اس کو آابد کران ہو۔‬

‫َواَل تُ ْم ِس ُك ْو ُھ َّن رِض َ ًارا لِّ َت ْع َتدُ ْوا ۚ َو َم ْن ي َّ ْف َع ْل ٰذكِل َ فَقَدْ َظمَل َ ن َ ْف َس ٗه ۭ َواَل تَتَّ ِخ ُذ ْ ٓوا• ٰايٰ ِت اهّٰلل ِ ُھ ُز ًوا‬

‫البقرۃ‪231‬‬
‫’’(طالق دینے ےک بعد عدت گزرےن ےس قبل اگر مت ان کو روکو یعین صلح کر لو) تو مت ان کو نقصان پہنچاےن ےک ےیل نہ روکو اتکہ‬
‫مت ان ےس زایدیت کرو اور جو کویئ ایسا کرے گا وہ یقین ًااےنپ آپ ہی پر ظمل کرے گا اور مت ہللا یک آیتوں کو ہنیس مذاق نہ‬
‫بنائو‘‘‬

‫کتین خست وعید ےہ کہ اےسی مردوں ےک ےیل جو طالق دے کر رجوع تو کر لںی لیکن بیوی ےک حقوق ادا نہ کریں اور ان ےک‬
‫ساتھ ظمل و زایدیت اک رویہ جاری رکھںی۔ یہ ان اک اےنپ نفس پر بھی ظمل ےہ (کہ اس کو ہللا ےک عذاب اک مستحق بنا رےہ‬
‫ہںی)۔ اور ہللا ےک احاکم ےک ساتھ استہزاء و مذاق بھی ےہ اور اس پر بھی وہ ہللا یک زسا ےک مستوجب قرار پا سکتے ہںی۔‬

‫عدل و انصاف یک اتکید‬


‫حسن معارشت ےک تقاےض عدل و انصاف ےک اہامتم ےک بغری پورے نہںی ہوسکتے۔ اور اس یک دو موقعوں پر خاص طور پر بڑی‬
‫رضورت ہویت ےہ۔‬
‫ایک جب کہ مشرتکہ خاندان (جوائنٹ فمییل سسمٹ) مںی رہائش ہو۔ اےنپ بیوی چبوں ےک ساتھ دورسے بہن بھایئ‪ ،‬ان یک اوالد‬
‫اور وادلین سب ایک ہی ماکن مںی رےتہ ہوں۔ وہاںبہن بھائیوں اور وادلین• ےک حقوق ےک ساتھ اپین بیوی اک حق اس طرح ادا‬
‫کران کہ نہ اس ےک ساتھ کویئ زایدیت ہو اور نہ بہن بھائیوں اور وادلین• کو یہ شاکیت ہو کہ ان ےک حقوق مںی کواتہی ہورہی ےہ۔‬

‫ایک خشص ےن نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےس پوچھا‪ :‬ہم مںی ےس کیس خشص یک بیوی اک اس پر کیا حق ےہ؟ ٔنیب کرمی صیل ہللا‬
‫علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’َأ ْن ت ُْط ِع َمھَ••ا َذا َط ِع ْم َت َوتَ ْک ُس •وھا َذا ا ْکت َ َس •بْ َت َأ ِوا ْکت َ َس •بْ َت‪َ ،‬واَل تَرْض ِ ِب الْ• َ•و ْجہَ‪َ ،‬واَل تُ َقبِّ ْح‪َ ،‬واَل تَھْ ُج• ْ•ر اَّل یِف الْ َبی ِْت‘‪]17[ ‬س••نن ٔايب‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫داود‪ ،‬حدیث‪2124 :‬‬
‫’’جب تو کھائے‪ ،‬اےس کھال‪ ،‬جب تو پےنہ اےس پہنا‪ ،‬اس ےک چہرے پر نہ مار‪ ،‬اےس برا بھال نہ کہہ اور اس ےس علیحدگی اختیار‬
‫کرین پڑے تو ھگر ےک اندر ہی کر۔‘‘‬

‫اس حدیث پر حصیح معنوں مںی معل کران ےہ‪ ،‬چاےہ میاں بیوی علیحدہ ایک ماکن مںی رےتہ ہوں ای مشرتکہ خاندان یک صورت‬
‫مںی ایک ماکن مںی۔ دونوں صورتوں مںی سب ےک حقوق ےک ساتھ بیوی ےک ساتھ بھی حسن سلوک ےک تقاےض ممکل طور پر‬
‫ادا کرے۔‬

‫ہامرے معارشے مںی فمییل جوائنٹ سسمٹ مںی بھاوج نندوں اور ساس بہو اک مسئلہ بڑا‬

‫ھگمبری ےہ لیکن اگر بیوی ُسھَّگڑیعین سلیقہ مند ہو اور وہ بڑوں اک ادب اور چھوٹوں پر شفقت ےک اصول کو اپنائے رکےھ‪ ،‬ایس‬
‫طرح ھگر ےک بڑے بھی بہو کو بییٹ والا پیار اور شفقت دیں‪ ،‬نندیں• اس کو اپین بہن وایل حیثیت دیں۔ نزی خاوند بھی نہایت‬
‫سوھج بوھج اور حمکت معیل ےک ساتھ سب کو اےنپ اےنپ مقام پر رکھتے ہوئے سب ےک حقوق اک خیال رکےھ‪ ،‬نہ بڑوں ےک کےنہ پر‬
‫بیوی ےک حقوق مںی کواتہی کرے اور نہ بیوی یک حمبت مںی وادلین ےک ادب و احرتام ای ان ےک حقوق مںی کواتہی کرے‪ ،‬تو وہ‬
‫ھگر رواییت ھجگڑوں ےس حمفوظ اور جنت نظری بن جاات ےہ اور ایسا تب ہی ہوات ےہ جب خاوند مسیت چھوےٹ بڑے سب‬
‫حسن معارشت (اےھچ رویے) اک اہامتم کریں۔‬

‫دورسا اہم موقع عدل و انصاف کرےن اک وہ ےہ جب ایک خشص یک ایک ےس زایدہ بیوایں ہوں‪ ،‬دو ہوں ای تنی ای چار۔ اییس‬
‫صورت مںی خاوند ےک ےیل عدل و انصاف کران پل رصاط ےس گزرےن یک طرح نہایت مشلک ہوات ےہ۔‬

‫لیکن رشیعت ےن جہاں کیس معقول رضورت یک وجہ ےس ایک ےس زایدہ چار بیویوں تک یک اجازت دی ےہ (نہ کہ حمک) وہاں‬
‫دورسی طرف ان ےک درمیان عدل و انصاف اور مساوات اک بھی بڑی خسیت ےک ساتھ حمک دای ےہ‪ ،‬بصورت دیگر ایک ہی‬
‫تعایل ےن فرماای‪:‬‬
‫بیوی پر قناعت کرےن یک اتکید یک ےہ۔ ہللا ٰ‬

‫اب لَمُك ِّم َن النِّ َس•ا ِء َمثْىَن ٰ َوثُاَل َث َو ُراَب َع ۖ‪  ‬فَ• ْن ِخ ْفمُت ْ َأاَّل تَ ْع• ِدلُوا فَ َوا ِح•دَ ً•ة َأ ْو َم•ا َملَ َك ْت‬
‫تُ ْق ِس• ُطوا يِف الْ َي َت•ا َم ٰى فَ•ان ِك ُحوا َم•ا َ•ط َ‬ ‫َو ْن ِخ ْفمُت ْ َأاَّل‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫َأ ْدىَن ٰ َأاَّل تَ ُعولُوا‪﴾٣﴿ ‬‬ ‫َأيْ َمانُمُك ْ ‪َ  ۚ ‬ذٰكِل َ‬

‫النساء‪3‬‬
‫’’اگر متھںی اندیشہ ہو کہ مت انصاف نہںی کرسکو ےگ تو پھر ایک ہی بیوی ےک ساتھ گزارو کرو۔‘‘‬
‫گوای ایک ےس زایدہ بیوی یک اجازت مرشوط ےہ عدل و انصاف ےک ساتھ۔اگر یہ رشط پوری نہںی کر سکتے تو دورسی عورت‬
‫ےس ناکح کرےن یک بھی اجازت نہںی ےہ۔‬

‫ایک ےس زایدہ بیوایں ہوں تو ظاہر ابت ےہ کہ فطری طور پر خاوند اک دیل میالن کیس ایک یک طرف زایدہ ہوگا‪ ،‬یہ دل اک‬
‫معاملہ ےہ جس پر کیس اک اختیار نہںی ےہ‪ ،‬لیکن کیس ایک بیوی یک حمبت اک دل مںی زایدہ ہوان یہ قابل گرفت ےہ نہ عدل ےک‬
‫خالف‪ ،‬برشطیکہ یہ زایدہ حمبت اس کو عدل و انصاف ےک تقاضوں ےس نہ روےک۔‬

‫عدل و انصاف اور مساوات ےک حمک یک رو ےس خاوند متام بیویوں ےک ساتھ لباس‪ ،‬خوراک اور دیگر رضورایت زندگی مںی ان‬
‫ےک درمیان امتیاز نہںی کرات‪ ،‬سب ےک ساتھ یکساں سلوک کرات اور سب کو ایک یس سہولتںی مہیا کرات ےہ۔ ایس طرح میاں‬
‫بیوی ےک خصویص تعلقات یک ادائیگی مںی بھی مساوات اک اہامتم کرات ےہ۔سب ےک پاس ابری ابری جاات ےہ‪ ،‬کیس یک ابری پر‬
‫اس کو حمروم کرےک دورسی ےک پاس نہںی جاات۔ اس ےک اس ظاہری انصاف ےس عدل و مساوات ےک وہ تقاےض یقینا پورے‬
‫ہوجاےت ہںی۔ جو رشع ًا مطلوب ہںی‪ ،‬چاےہ اس ےک دل مںی کیس ایک بیوی یک حمبت زایدہ ہی ہو۔ لیکن حمبت یک اس‬
‫زایدیت ےن اس کو دورسی بیوی ای بیویوں یک حق تلفی پر جمبور نہںی کیا تو پھر یہ زاید ٔیت حمبت عند ہللا مذموم نہںی ہوگی‬
‫کیونکہ یہ دل اک معاملہ ےہ اور دل مںی سب بیویوں یک حمبت یکساں نہںی ہوسکیت‪ ،‬تو جو چزی انسان ےک اختیار• ےس ابہر ہو‪،‬‬
‫اس پر عندا ہلل مؤاخذہ نہںی ہوگا۔ نیب صیل ہللا علیہ وسمل کو بھی اپین متام ازواج مطہرات مںی ےس حرضت عائشہ ریض ہللا‬
‫عنہا ےس زایدہ پیار تھا‪ ،‬اس لئے آپ ےن اگرچہ ابرایں بھی مقرر فرما رکھی تھںی (جس یک آپ پوری پابندی فرماےت تےھ۔) اور‬
‫عدل اک بھی پورا اہامتم فرما ےت تےھ‪ :‬لیکن چونکہ دل مںی حمبت ایک بیوی یک زایدہ تھی‪ ،‬اس ےیل‬

‫آپ یہ دعا فرماای کرےت تےھ‪:‬‬

‫’َأل ٰل ّھ َّم ٰھ َذا قَ ْس ِمی ِفمیَا َأ ْم ِل ُک ‪ ،‬فَاَل تَلُ ْميِن ِفمیَا تَ ْم ِل ُک َواَل َأ ْم ِل ُک‘[‪]18‬‬

‫’’ای ہللا! جن چزیوں مںی مریا اختیار• ےہ‪ ،‬ان مںی مںی ےن یہ ابرایں مقرر کر رکھی ہںی۔ پس تو مھجے اس چزی پر مالمت نہ کران‬
‫جس پر تریا ہی اختیار ےہ‪ ،‬مںی اس مںی ےب اختیار ہوں۔‘‘‬

‫زایدہ بیویوں واےل خاوند ےک ےیل خطرانک امر جو ےہ‪ ،‬وہ یہ ےہ کہ کیس ایک بیوی یک حمبت‪ ،‬دورسی بیویوں یک حق تلفی اک‬
‫ابعث بن جائے اور وہ دورسی بیوی ای بیویوں کو معلقہ بنا کر رکھ دے‪ ،‬نہ ان کو طالق دے کر آزاد کرے اور نہ ان ےک حقوق‬
‫ادا کرے۔‬

‫وتعایل ےن بھی زایدہ بیوایں رکھنے والوں کو تنبیہ فرمایئ ےہ‪:‬‬


‫ایس ےیل ہللا تبارک ٰ‬
‫َ[ول َ ْن ت َ ْس َت ِط ْي ُع ْوٓا َا ْن تَ ْع ِدلُ ْوا بَنْي َ النِّ َسا ۗ ِء َول َ ْو َح َر ْصمُت ْ فَاَل تَ ِم ْيلُ ْوا لُك َّ الْ َم ْيلِ فَتَ َذ ُر ْو َھا اَك لْ ُم َعل َّ َق ِة ]‪ [ ‬النساء‪]129‬‬

‫’’ اور مت ےس یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ مت اپین بیویوں مںی ہر طرح ےس عدل کرو‪ ،‬خواہ مت اس یک کتین ہی خواہش رکھو ‪،‬‬
‫لہٰذا مت کیس ایک ہی یک طرف پوری طرح مائل نہ ہو جائو کہ دورسی کو بیچ مںی لٹکیت چھوڑدو۔‘‘‬

‫بہر حال عورت ےک ساتھ ظمل اور ان انصایف یک کیس صورت مںی اجازت نہںی ےہ۔ ایک بیوی ہو تب بھی‪ ،‬ایک ےس زایدہ ہو‬
‫تب بھی۔ ایک ےس زایدہ بیوایں رکھنا ایک بہت بڑی آزمائش ےہ‪ ،‬بہرت ےہ آدمی اس آزمائش مںی نہ پڑے۔ اور اگر کیس‬
‫جمبوری یک وجہ ےس دورسی بیوی انگزیر ہو تو اس رخصت ےس فائدہ اٹھاان جائز ےہ۔ لیکن اس رشعی رخصت ےس رصف‬
‫دنیوی فائدہ ہی نہ اٹھائے‪ ،‬آخرت یک ابز پرس اک بھی خیال رکےھ جہاں وہی‬
‫خشص رسخ رو ہوگا جو عدل و انصاف اک اہامتم کرےن والا ہوگا۔‬

‫خانگی امور مںی تعاون‬


‫حسن معارشت اک ایک پہلو یہ بھی کہ مرد حسب رضورت ھگریلو امور مںی بھی عورت اک ہاتھ بٹائے اور اس ابہمی تعاون کو‬
‫اےنپ مردانہ وقار اور شان ےک خالف نہ مسھجے۔ اس ےس بھی ازدوایج زندگی مںی خوش گواری آئے گی۔‬

‫نیب صیل ہللا علیہ وسمل یک اببت آات ےہ کہ حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےس حرضت اسود رمحہ ہللا ےن پوچھا‪:‬‬

‫’ َما اَک َن النَّیِب ُّ صیل ہللا علیہ وسمل ی َ ْصنَ ُع یِف ْ بَیْ ِتہٖ؟‘‬

‫’’نیب صیل ہللا علیہ وسمل اےنپ ھگر مںی کیا کرےت تےھ؟‘‘ حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےن فرماای‪:‬‬

‫الصاَل ِۃ‘[‪]19‬‬
‫الصاَل ُۃ خ ََر َج یَل َّ‬ ‫’اَک َن یَ ُک ُ‬
‫ون یِف ِمھْنَ ِۃ َأ ْھ ِلہِ تَ ْعیِن ِخدْ َم َۃ َأہْ ِلہٖ فَ َذا َحرَض َ ِت َّ‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫’’آپ ھگر والوں یک خدمت مںی (ھگریلو امور مںی تعاون) کیا کرےت تےھ۔ (اس دوران مںی) اگر مناز اک وقت ہوجاات تو مناز ےک ےیل‬
‫ترشیف ےل جاےت۔‘‘‬

‫حافظ ابن جحر‪ ‬رمحہ ہللا‪ ‬ےن اس حدیث یک رشح مںی شامئل ترمذی ےک حواےل ےس یہ حدیث• نقل یک ےہ‪ ،‬یہ بھی حرضت‬
‫عائشہ ریض ہللا عنہا ےس مروی ےہ‪:‬‬

‫’ َم••ا اَک َن اَّل ب َرَش ً ا ِم َن الْبَرَش ِ ‪ ،‬ی َ ْفیِل ْ ثُ• ْ•وبَہُ‪َ ،‬وحَی ْ ِل ُب َش•اتَہُ‪َ ،‬وخَی ْ• ِد ُم ن َ ْف َس•ہُ‘ َوَأِلمْح َ••دُ َوا ْب ِن ِحبَّ َان ِم ْن ِر َوای َ ِۃ ُع• ْ•ر َو َۃ َع ْن عَاِئ َش• َۃ ’خَی ِ ْی• طُ ثُ• ْ•وبَہُ‪،‬‬
‫ِإ‬
‫َوخَی ْ ِص ُف ن َ ْعلَہُ‘[‪]20‬‬
‫’’آپ انسانوں مںی ےس ایک انسان ہی تےھ‪ ،‬اےنپ کپڑوں ےس جوئںی خود ہی دیکھ لےتی‪ ،‬اپین بکری اک دودھ دوہ لےتی‪ ،‬اپنا اکم‬
‫خود کر لےتی‪ ،‬اپنا کپڑا یس لےتی اور‬

‫اپین جویت بھی گانٹھ لےتی تےھ۔‘‘‬

‫یعین ہر اکم اہلیہ ہی ےک سپرد نہ کرےت‪ ،‬بلکہ چھوےٹ موےٹ اکم خود بھی کر لےتی اور اس کو اپین شان ےک خالف نہ مسھجتے‪،‬‬
‫جےسی آج لک ےک مردوں اک شیوہ ےہ۔ ہمںی سوچنا چاےیہ کہ ہامرے پیغمرب اتین عظمت و شان ےک ابوجود بہت ےس ھگریلو‬
‫امور خود ہی اجنام دے لیا کرےت تےھ اور اس مںی کرس شان نہںی مسھجتے تےھ‪ ،‬تو آپ ےک مقابلے مںی ہامری کیا حیثیت ےہ؟ اس‬
‫اسوۂ رسول کو اپناےن مںی‪ ،‬جس مںی معارشیت زندگی اک حسن پیدا ہوات ےہ‪ ،‬ہم کیوں اپین توہنی حمسوس کرےت ہںی؟‬

‫حمبت اک بھرپور اظہار‬


‫حسن معارشت اک ایک اہم تقاضا یہ ےہ کہ جس طرح عورت کو یہ اتکیدی حمک ےہ کہ مرد اس کو جب بھی اےنپ پاس (خلوت‬
‫مںی) بالئے‪ ،‬وہ جس حالت مںی بھی ہو‪ ،‬اس یک تعمیل کرے اتکہ مرد ادھر ادھر منہ نہ مارات پھرے۔ ایس طرح مرد یک بھی‬
‫ذےم داری ےہ کہ وہ عورت ےک ساتھ بھرپور حمبت اک اظہار کرے۔ عورت ےک اندر فطری طور پر رشم و حیا اک جذبہ زایدہ‬
‫ہوات ےہ‪ ،‬سوائے چند شہوت زدہ عورتوں ےک۔اس ےیل وہ جنیس جذابت یک تسکنی ےک ےیل بہت مک مرد ےک سامنے پہل کریت ےہ۔‬
‫معوم ًا مرد ہی پہل کرات اور اس کو اس اکم ےک ےیل بالات اور آمادہ کرات ےہ۔‬
‫اس ےیل مرد یک ذےم داری ےہ کہ وہ بیوی ےک ساتھ ازخود بھرپور حمبت اک اظہار کرے اتکہ اس ےک اندر کویئ تشنگی نہ رےہ‬
‫اور وہ کیس اور یک طرف دیکھنے پر جمبور نہ ہو۔ اس ےک ےیل اس کو دو طریقے اختیار کرےن یک رضورت ےہ۔‬

‫(‪)1‬اس ےک ساتھ ہنیس مذاق اور دل لگی ےک ذریعے ےس اس یک دجلویئ و دل داری اک اہامتم کرات رےہ (جےسی نیب صیل ہللا علیہ‬
‫وسمل کو موقع ملتا تو عائشہ ریض ہللا عنہا ےک ساتھ دوڑ اک مقابلہ کرےت‪ ،‬ان کو حبشیوں ےک جنگی کرتب دکھا کر ان یک تفرحی‬
‫طبع اک سامان کرےت‪ ،‬ان کو گڑیوں اور چھویٹ چبیوں ےک ساتھ کھیلنے اک موقع فراہم کرےت‪ ،‬وغریہ وغریہ)۔‬

‫ایس ےیل ایک حدیث مںی بھی نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن بیوی ےک ساتھ ہنیس مذاق یک حوصلہ افزایئ فرمایئ۔ آپ ےن فرماای‪:‬‬

‫یب َّالر ُجلِ فَ َر َسہُ‪َ ،‬و ُماَل َع َب ُتہُ َأ ْھلَہُ َو َر ْم َیہُ ِب َق ْو ِسہٖ‘[‪]21‬‬
‫’لَی َْس ِم َن اللَّھْ ِو اَّل ثَاَل ٌث‪ ،‬اَت ِد ُ‬
‫ِإ‬
‫’’کھیل تنی ہی ہںی۔ انسان اک اےنپ ھگوڑے کو سدھاان (جنگ ےک ےیل تیار کران) دورسا‪ ،‬اس اک اپین بیوی ےک ساتھ کھیلنا‪،‬‬
‫(ہنیس مذاق اور دل لگی کران) تیرسا‪ ،‬اس اک اےنپ تری کامن ےس تری پھینکنے یک مشق کران۔‘‘‬

‫ان مںی ےس دو کھیلوں اک تعلق تو جنگی تیاریوں ےس ےہ جس ےس مقصود مسلامنوں کو ہمہ وقت جہاد ےک ےیل تیار رکھنا ےہ۔‬
‫اس ےس معلوم ہوا کہ اس قسم ےک ابمقصد کھیلوں ےک عالوہ دورسے متام کھیل انجائز ہںی کیونکہ ان مںی وقت اک بھی ضیاع‬
‫ےہ اور وسائل اک بھی ضیاع۔ البتہ ان ےک عالوہ بیوی ےک ساتھ ہنیس مذاق کو بھی ایک جائز کھیل تسلمی کیا گیا ےہ کیونکہ اس‬
‫اک بھی ایک نہایت اہم فائدہ ےہ اور وہ ےہ ھگریلو زندگی اک خوش گوار ہوان‪ ،‬اس ےیل رشیعت ےن اس یک بھی اہمیت کو‬
‫تسلمی کیا ےہ۔‬

‫یہی وجہ ےہ کہ نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن ِثیبّہ (شوہر دیدہ عورت‪ ،‬مطلقہ ای بیوہ) ےک مقابلے مںی کنواری عورت ےس شادی‬
‫کرےن یک ترغیب دی ےہ اور اس یک وجہ بھی یہ بیان فرمایئ‬

‫ےہ کہ دونوں ایک دورسے ےک ساتھ کھیلںی یعین آپس مںی دل لگی کریں اور ایک دورسے ےس وابستگی اک بھرپوراظہارکریں۔‬
‫ایک بیوہ ےک ساتھ مرد اس طرح وابستگی اک اظہار نہںی کر سکتا جس طرح کنواری ےک ساتھ کرات ےہ اور خود بیوہ بھی مرد‬
‫کو اس طرح ٹوٹ کر نہںی چاہیت جےسی کنواری عورت ےس متوقع ہوات ےہ۔‬

‫(‪)1‬دورسا طریقہ یہ ےہ کہ معیل طور پر ازخود بیوی ےس اظہار حمبت خمتلف پریایوں ےس کرات رےہ‪ ،‬اس اک انتظار نہ کرے کہ‬
‫بیوی یک طرف ےس اظہار ہو۔ جےسی نیب صیل ہللا علیہ وسمل بعض دفعہ وضو یک حالت مںی بھی اپین اہلیہ حمرتمہ اک بوسہ ےل لیا‬
‫کرےت تےھ اور پھر مناز ےک ےیل ترشیف ےل جاےت‪ ،‬حیت کہ روزے یک حالت مںی بھی بوسہ ےل لےتی‪ ،‬ایس ےیل حرضت عائشہ ریض‬
‫ہللا عنہا فرمایت ہںی کہ آپ کو اےنپ جذابت پر پورا کنرٹول حاصل تھا‪ ،‬یعین آپ ےن دورسوں کو متنبہ فرماای کہ بال شبہ روزے‬
‫یک حالت مںی بیوی ےس بوس و کنار یک اجازت ےہ کیونکہ نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےس ایسا کران اثبت ےہ ‪ ،‬لیکن یہ معل‬
‫نوجوانوں ےک ےیل اور اےسی لوگوں ےک ےیل جن کو اےنپ جذابت پر پورا کنرٹول نہ ہو‪ ،‬خطرانک بھی ہوسکتا ےہ اور وہ جذابت‬
‫یک رو مںی بوےس یک حد ےس جتاوز کرےک وہ اکم کر بیٹھںی جس اککفارہ دو مہےنی ےک روزے ای ساٹھ مسکینوں کو کھاان کھالانےہ۔‬

‫اتہم عام حاالت مںی عام لوگوں ےک ےیل روزے یک حالت ےک عالوہ دیگر حاالت اور اوقات مںی اظہار حمبت اور تعلق خصویص‬
‫ےک ےیل مواقع موجود ہںی‪ ،‬خود رمضان مںی بھی رات کو ان متام ابتوں یک اجازت ےہ جن اک تعلق میاں بیوی یک خلوت ےس‬
‫ےہ۔ غالب ًا ایس ےیل رشیعت مںی یہ بھی اجازت ےہ کہ ِ‬
‫حالت جنابت مںی حسری کھا کر روزہ رکھا جا سکتا ےہ۔ البتہ پھر منا ِز‬
‫جفر ےک ےیل غسل کران رضوری ےہ اور اس پر آساین ےس معل کیا جا سکتا‬

‫ےہ۔ یہ رخصت• ایس ےیل ےہ کہ رمضان املبارک یک راتوں مںی تعلقات زن و شو ہر قامئ کرےن مںی کیس قسم یک دقت نہ ہو۔‬
‫یہی وجہ ےہ کہ عبادت مںی بھی ایسا غلو (زایدیت) ان پسندیدہ ےہ جس ےس عورت یک حق تلفی ہواور• وہ مقصد پورا نہ ہو‬
‫جس ےک ےیل عورت ےس ناکح کیا جاات ےہ‪ ،‬عورت ساری رات خاوند یک منتظر رےہ اور میاں صاحب ساری رات نوافل اور‬
‫عبادت مںی گزار دای کریں۔ حیت کہ عورت دن ےک اوقات مںی اس ابت یک خواہش مند ہو لیکن عابد وزاہد خاوند اک دن بھی‬
‫طاق نسیاں بنا دے۔ اسالم مںی اےسی زہد‬
‫نفیل روزے مںی گزرے اور وہ اس کو مستقل معمول بناےل اور عورت کو گل دستۂ ِ‬
‫اور عبادت یک اجازت نہںی ےہ۔‬

‫حرضت عبدہللا بن معرو بن عاص‪ ‬ریض ہللا عنہام‪ ‬اک یہ واقعہ پےلہ گزر چاک ےہ کہ وہ زایدہ عبادت و زہد ےک ایس شوق مںی‬
‫بیوی اک حق ادا نہںی کرےت تےھ‪ ،‬نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےک عمل مںی یہ ابت آیئ تو آپ ےن ان کو بال کر پوچھا‪ :‬کیا مت رات کو قیام‬
‫کرےت ہو اور دن کو روزہ رکھتے ہو‪ ،‬کیا ابت اےسی ہی ےہ؟ انھوں ےن کہا‪ :‬ہاں‪ ،‬ایسا ہی ےہ۔ آپ صیل ہللا علیہ وسمل ےن‬
‫فرماای‪’’ :‬اس طرح مت کرو‪ ،‬روزہ• بھی رکھو اور روزہ چھوڑ بھی دای کرو۔ رات کو قیام بھی کرو اور سوای بھی کرو۔ اس ےیل کہ‬
‫متہارے جسم اک بھی مت پر حق ےہ‪ ،‬متہاری آنکھ اک بھی مت پر حق ےہ اور متہاری بیوی اک بھی مت پر حق ےہ۔‘‘[‪]22‬‬
‫بہر حال حسن معارشت اک ایک نہایت اہم تقاضا یہ بھی ےہ کہ عورت کو دیگر آسائشںی اور راحتںی بہم پہنچاےن ےک ساتھ ساتھ‬
‫اس یک جنیس آسودگی اک بھی ممکل اہامتم ہو۔ حیت کہ اگر آدمی اس مںی مکزوری حمسو س کرے تو اس ےک ےیل ڈاکرٹ ای حکمی‬
‫ےک مشورے ےس مقوایت‬

‫‪ ‬بھی استعامل کرات رےہ اتکہ عورت کو اس معاےلم مںی بھی تشنگی اور ان آسودگی اک احساس نہ ہو۔‬

‫عورت ہر حیثیت• ےس قابل احرتام ےہ‬


‫عورت ےک ساتھ حسن معارشت (اچھا براتئو کرےن) مںی ان تصورات کو سامنے رکھا جائے اور ان ےک مقتضیات کو مسھجنے یک‬
‫کوشش یک جائے جو اسالم ےن عورت یک عزت و وقار یک حبایل ےک ےیل بیان کیے ہںی‪ ،‬تو ایک انسان عورت ےک ساتھ ےب‬
‫رحامنہ‪ ،‬ظاملانہ اور سنگ دالنہ سلوک اک نہ تصور کر سکتا ےہ اور نہ اس کو حمض ذلت اندوزی اک سامان مسھج کر اےس اس اک‬
‫اصل مقام دینے ےس گریز کر سکتا ےہ۔‬

‫اسالم مںی عورت یک رصف چار حیثیتںی ہںی‪ ،‬وہ ماں ےہ‪ ،‬بہن ےہ‪ ،‬بییٹ ےہ اور بیوی ےہ۔ ان مںی ےس ہر حیثیت• ےس وہ‬
‫نہایت قابل احرتام ےہ۔‬

‫ماں ےہ تو ابپ ےس بھی زایدہ قابل احرتام ےہ ایس ےیل ہللا ےک رسول صیل ہللا علیہ وسمل ےن ایک حصایب ےک اس سوال پر کہ‬
‫مریے حسن سلوک اک سب ےس زایدہ مستحق کون ےہ؟‪َ  ‬م ْن َأ َح ُّق النَّ ِاس حِب ُ ْس ِن حَص َابَیِت ْ ‪ ، ‬آپ ےن فرماای‪’’ :‬متہاری ماں۔‘‘ اس‬
‫ےن سوال کیا‪ ،‬اس ےک بعد کون؟ آپ ےن فرماای‪ :‬متہاری ماں‪ ،‬اس ےن پھر پوچھا‪ :‬اس ےک بعد کون؟ آپ صیل ہللا علیہ وسمل ےن‬
‫فرماای‪’’ :‬متہاری ماں‘‘ اس ےن پھر پوچھا ‪ :‬اس ےک بعد کون؟ آپ صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪’’ :‬متہاری ماں‘‘ چوتھی مرتبہ‬
‫سوال کرےن ےک بعد فرماای‪’’:‬متہارا ابپ۔‘‘‪]23[ ‬‬
‫ماں‪ ،‬ابپ ےس بھی زایدہ حسن سلوک یک مستحق کیوں ےہ؟‬

‫نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن ابپ ےک مقابلے مںی ماں کو تنی مرتبہ سب ےس زایدہ حسن سلوک اک مستحق‬

‫قرار دای۔ اس یک توجیہہ مںی شارحنی حدیث ےن فرماای ےہ کہ ماں ےک زایدہ استحقاق یک تنی وجوہ ہںی۔‬

‫(‪)1‬نو مہےنی تک محل یک تلکیف برداشت کران۔‬


‫(‪)2‬وضع محل (زچگی‪ ،‬ڈلیوری) ےک مرحلے ےس گزران جو عورت ےک ےیل موت و حیات اک ایک نہایت سنگنی مرحلہ ہوات ےہ۔‬

‫(‪)3‬پھر دو سال تک رضاعت (بےچ کو دودھ پالان) راتوں کو اس ےک ےیل اٹھناا اور اس یک رضورایت اور صفایئ ستھرایئ اک‬
‫خیال رکھنا جب کہ وہ بول کر اپین حاجت اور تلکیف بیان نہںی کر سکتا۔‬

‫ان تینوں مراحل یک جاں گداز تلکیفوں• مںی مرد اک کویئ حصہ نہںی ہوات‪ ،‬رصف ماں اک جذبۂ شفقت ‪ ،‬جےس مامتا کہا جاات ےہ‪،‬‬
‫اےس ان تلکیفوں کو برداشت کرےن پر آمادہ کرات ےہ اور وہ ہنیس خویش ان ذےم داریوں کو ادا کریت ےہ۔‬

‫بیوی ھگر یک ملکہ اور ھگر یک زینت ےہ‬


‫تعایل ےن عورت ےک اندر فطری طور پر اےسی اوصاف رکےھ ہںی‪ ،‬جو مردوں ےسخمتلف ہںی‪ ،‬ان اوصاف یک وجہ ےس وہ‬ ‫ہللا ٰ‬
‫مذکورہ تینوں مشقتںی برداشت کر لییت ےہ‪ ،‬مرد عورت ےس زایدہ قوت وطاقت اک مالک ےہ لیکن اس ےک ابوجود مذکورہ‬
‫مشقتیںاس ےک ےیل انقابل برداشت ہںی‪ ،‬اس ےیل مرد یک مسھج داری اک تقاضا ےہ کہ وہ عورت یک ان مشقتوں پر ہمدردی ےس‬
‫غور کرے‪ ،‬اگر وہ ایسا کرے گا تو کبھی عورت کےس ساتھ ظمل و زایدیت اک معاملہ نہںی کرے گا۔‬

‫وہ مسھج ےل گا کہ مریی یہ بیوی مریے چبوں یک ماں ےہ اور ماں ہوےن ےک انےط ےس وہ ان یک خاطر وہ وہ تلکیفںی برداشت‬
‫کر لییت ےہ جو مںی نہںی کر سکتا۔ مزید برآں وہ مریی خدمت گزار ‪ ،‬مریے ھگر یک حمافظ ‪ ،‬مریی خواہشات ےک خاکوں مںی‬
‫رنگ بھرےن وایل اور مھجے سکون و راحت بہم پہنچاےن وایل ےہ‪ ،‬مریے ھگر یک ملکہ اور مریے ھگر یک زینت• ےہ۔ اگر یہ‬
‫مریے ھگر ےس نلک جائے تو ھگر امن وسکون اک گہوراہ• ‪ ،‬مہر و حمبت اک مرکز اور عزت ووقار اک سنگم نہںی رےہ گا بلکہ ایک‬
‫ےب آب و گیاہ حصرا مںی تبدیل ہوجائے گا جہاں کویئ روئیدگی ‪ ،‬شادایب اوربہجت و نشاط یک فرحت انگزیایں نہںی ہوں گی۔‬
‫ایک جہمن کدے مںی تبدیل ہوجائے گا جہاں زندگی یک رونق اور چہل پہل ےک جبائے ویراین اور ھجلسا دینے وایل ابد مسوم اک ڈیرہ‬
‫ہوگا۔‬

‫عورت‪ ،‬بییٹ اوربہن یک حیثیت• ےس‬


‫بہر حال یہ گفتگو توعورت ےک ماں اور بیوی ہوےن یک حیثیت• ےس تھی۔ لیکن جب وہ اےنپ ماں ابپ ےک ھگر مںی ہویت ےہ تو‬
‫وہ ان یک بییٹ اور بھائیوں یک بہن ہویت ےہ اور ان دونوں حیثیتوں• مںی بھی وہ حمرتم ہویت ےہ اور احادیث مںی ان دونوں ےک‬
‫پالنے اور ان یک تربیت کرےن یک بڑی فضیلت وارد ےہ۔ بییٹ ماں ابپ یک آنکھوں اک اترا اور دلوں اک دالرا ہویت ےہ‪ ،‬ماں ابپ‬
‫اےس شہزادیوں یک طرح انزو نعمت ےس پالتے اور اےس حسن تربیت ےس آراستہ کرےت ہںی اور بہن یک حیثیت• ےس وہ بھائیوں یک‬
‫مہر و حمبت اور ہمدردیوں اک مرکز ہویت ےہ اور وہ اس کو ہر طرح اک آرام و سکون بہم پہنچاےن مںی وادلین• ےک ہم دم وہم‬
‫راز ہوےت ہںی۔ بیوہ اور مطلقہ ہوےن یک صورت مںی بھی وادلین• ای بھائیوں اک ھگر ہی اس یک‬

‫مایوسیوں مںی امیدوں اک مرکز اور اتریکیوں مںی روشین اک منبع ہوات ےہ۔‬

‫مغرب مںی عورت یک ذلت و خواری•‬


‫اس ےک برعکس مغرب مںی عورت گرل فرینڈ• ےہ ای کیس افرس یک سٹینوگرافر• ای سیکرٹری‪ ،‬کیس دفرت یک لکرک ےہ ای کیس‬
‫اکرخاےن یک ورکر (مزدور) ریسپشن گرل (استقبال کرےن وایل چھوکری ےہ) ای ائری ہوسٹس (فضایئ مزیابن‪ ،‬جہازوں ےک‬
‫مسافروں یک خدمت کرےن وایل اور ان ےک دلوں کو لبھاےن وایل) ای ہسپتالوں• مںی مریضوں یک دیکھ بھال کرےن وایل اور اےنپ‬
‫افرس ڈاکرٹوں یک انز برداری کرےن وایل نرس۔ ہوٹلوں مںی گاہکوں کو چائے اور رشاب مہیا کرےن پر مامور اور ان یک نگاہ‬
‫ہوس اک شاکر بننے وایل خادمہ۔ بلکہ بہت ےس رشاب خانوں مںی ٹاپ لیس رسوس پر جمبور‪ ،‬جس مںی عورت کو اےنپ جسم اک‬
‫ابالیئ حصہ عرایں رکھنا پڑات ےہ اتکہ ان یک عرایین ےس مردوں یک ہوس یک تسکنی ہوسکے۔‬

‫مغرب یک یہ عورت اول تو ناکح ےس پےلہ ہی مردوں ےس جنیس تعلقات ےک نتیےج مںی بن بیاہی ماں بن جایت ےہ اورشادی ےک‬
‫بعد بھی یہ ڈانس لکبوں مںی غریوں یک ابہوں مںی ھجومیت اور ھجولیت ےہ۔ اس کو کبھی نہ ھگر یک ملکہ اک اعزاز حاصل ہوات ےہ‬
‫اور نہ معارشے مںی وہ عزت و مقام جو اسالم ےن عورت کو عطا کیا ےہ۔ اس ےک ےیل ذلت ہی ذلت ےہ اور قدم قدم پر‬
‫مردوں یک غالمی و حمکومی‪ ،‬ایک شوہر یک غالمی‪ ،‬جس مںی اس اک ممکل احرتام ےہ‪ ،‬اس کو قید لگیت ےہ اور ےب شامرہوس‬
‫زدہ مردوں یک غالمی‪ ،‬جس مںی ذلت و خواری ےک سوا کچھ نہںی‪ ،‬آزادی ۔ یہ ےہ وہ آ ٔ‬
‫زادی نسواں جس اک مغرب عمل بردار‬
‫ےہ۔‬

‫اسالم ےن عورت کو ان متام ذلتوں ےس چبا کر مرد کو اس ابت اک پابند بناای ےہ کہ اگر وہ‬

‫ماں ےہ تو اس یک ابپ ےس بھی زایدہ خدمت کرو‪ ،‬بییٹ ےہ تو انزو نعمت ےس اس یک پرورش کرو اور اس یک آرزؤں• اور‬
‫خواہشوں ےک مطابق اس اک جیون• ساتھی تالش کرےک اس ےک ساتھ اس اک ناکح کردو۔ بہن ےہ تو اس ےک ساتھ بھی بیٹیوں یک‬
‫طرح حسن سلوک کرو اور بیوی ےہ تو اس کو ھگر یک ملکہ بنا کر رکھو اور اس یک متام رضورایت ھگر بیٹےھ پوری کرو اور اس‬
‫ےک آرام و راحت اک ہرسامان مہیا کرو۔ اس کو اپین کیس بھی رضورت ےک پورا کرےن ےک ےیل ھگر ےس ابہر نلک کر کیس دفرت‪،‬‬
‫اکرخاےن ای فیکرٹی مںی اکم کرےن یک رضورت ےہ نہ اس کو اس یک رشع ًا اجازت ےہ۔ سوائے خست جمبوری ےک۔‬

‫عورت بھی بہ حیثیت انسان ےک مرد ےک برابر ےہ‬


‫عورت ےک ابرے مںی اسالم ےس قبل عرب ےک لوگ ہی جاہیل تصورات نہںی رکھتے تےھ جس یک بنا پر عرب معارشے مںی‬
‫عورت عزت ووقار ےس حمروم تھی بلکہ جعم مںی بھی عورت یک کویئ قدر و مزنلت نہںی تھی‪ ،‬اس کو پریوں یک جویت ےک ساتھ‬
‫تشبیہ دی جایت تھی‪،‬ای کہاجاات تھا کہ اس کو مردوں یک غالمی اور چاکری ےک ےیل پیدا کیا گیا ےہ ای وہ شیطان یک ایک آلۂ اکر‬
‫ےہ جس ےس شیطان انسانوں کو گمراہ کرےن اک اکم لیتا ےہ‪ ،‬وغریہ وغریہ۔‬

‫اعیل مقام عطا فرماای اور اس کو بہ حیثیت• انسان ہوےن‬


‫اسالم ےن ان تصورات اک خامتہ کرےک اس کو عزت ووقار اک ایک نہایت ٰ‬
‫تعایل ےن فرماای‪:‬‬
‫ےک اس یک بعض امتیازی چزیں ےس قطع نظر مردوں ےک مساوی قرار دای۔ ہللا ٰ‬
‫َ[ول َه َُّن ِمث ُْل اذَّل ِ ْي عَلَهْي ِ َّن اِب لْ َم ْع ُر ْو ِف ۠ َو ِل ِّلر َجالِ عَلَهْي ِ َّن د ََر َج ٌة ][البقرۃ‪]228‬‬

‫’’اور ان عورتوں اک (حق خاوندوں پر) ایس طرح ےہ (جس طرح خاوندوں• اک حق) ان عورتوں پر ےہ اور ان مردوں کو ان‬
‫پر کچھ فضیلت ےہ۔‘‘‪،‬‬

‫یعین بہ حیثیت انسان ہوےن ےک مرد اور عورت دونوں ےک حقوق ایک جےسی ہںی جن کو پورے کرےن ےک دونوں رشع ًا پابند‬
‫ہںی۔ نہ عورت‪ ،‬مرد کو انسانیت ےس ماورا مقام اک حامل مسھجے کہ اس ےس اےسی مطالبات کرے جن اک پورا کران انساین طاقت‬
‫ےس ابال ہو اور نہ مرد عورت کو انساین رشف و تکرمی ےس عاری خملوق مسھجے کہ اس ےک ساتھ جس طرح اک چاےہ غری‬
‫انساین سلوک کرےک اس یک عزت ووقار کو جمروح ای اس ےک حقوق کو پامال کرے۔ دونوں کو رشیعت ےک دائرے میرں ےتہ ہوئے‬
‫ایک دورسے ےک حقوق ادا کرےن ہںی جو رشیعت ےن بتالئے ہںی۔ البتہ اس ےک ساتھ ساتھ اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے کہ‬
‫ھگر اک نظام چالےن ےک ےیل مرد و عورت مںی ےس مرد کو ّقوام و حامک اور عورت کو حمکوم بناای گیا ےہ کیونکہ دونوں کو یکساں‬
‫طور پر اگر حامکیت اک حق دای جاات تو ھگر اک نظام چل ہی نہںی سکتا تھا‪ ،‬جےسی ایک ملک مںی ایک ےک جبائے دو حمکران‬
‫مساوی طور پر اب اختیار• ہوں تو نظم مملکت قامئ نہںی رہ سکتا۔ یہ نظم ایک ہی اب اختیار حمکران ےک ذریعے ہی قامئ رہ سکتا‬
‫حق‬
‫ےہ۔ ایس ّقوامیت مںی یہ بھی شامل ےہ کہ مرد فطری قوتوں مںی‪ ،‬جہاد یک اجازت مںی‪ ،‬مریاث ےک دوگنا ہوےن مںی اور ِ‬
‫طالق و رجوع (وغریہ) مںی عورت ےس ممتاز ےہ۔ یہی ایک گونہ وہ فضیلت ےہ جو ہللا ےن مرد کو عطا یک ےہ جس کو قرآن‬
‫کرمی مںی‪ ‬وللرجال علیھن درجۃ‪ ‬مںی بیان کیا گیا ےہ۔‬

‫وتعایل ےن فرماای‪:‬‬
‫یہ ایک گونہ فضیلت ای امتیاز چونکہ انگزیر تھا اس ےیل ہللا تبارک ٰ‬
‫َ[واَل تَ َت َمنَّ ْوا َما فَضَّ َل اهّٰلل ُ ِب ٖه ب َ ْعضَ مُك ْ عَيٰل ب َ ْع ٍض ۭ ِل ِّلر َجالِ ن َِصي ٌْب ِّم َّما ا ْكتَ َـس ُب ْوا ۭ َو ِللنِّ َسا ۗ ِء ن َِصي ٌْب ِّم َّما ا ْكتَ َـسنْب َ ۭ َو ْسـَٔـــ لُوا اهّٰلل َ ِم ْن فَضْ هِل ٖ ۭ ]‬
‫[النساء‪]32‬‬

‫’’اور اس چزی یک آرزو نہ کرو جس ےک ابعث ہللا ےن مت مںی ےس بعض کو بعض پر فضیلت دی ےہ‪ ،‬مردوں اک اس مںی ےس‬
‫حصہ ےہ جو انہوں ےن کامای اور عورتوں‪ ‬ےک ےیل اس مںی ےس حصہ ےہ جو انھوں ےن کامای اور ہللا ےس اس اک فضل مانگو۔‘‘‬

‫اس آیت یک شان نزول مںی بتالای گیا ےہ کہ حرضت ام سلمہ ریض ہللا عنہا ےن رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےس عرض کیا‬
‫کہ مرد جہاد مںی حصہ لےتی ہںی اور شہادت پاےت ہںی‪ ،‬ہم عورتںی ان فضیلت• واےل اکموں ےس حمروم ہںی‪ ،‬ہامری مریاث بھی‬
‫مردوں ےس نصف ےہ۔ اس پر یہ آیت انزل ہویئ۔‪]24[ ‬‬
‫تعایل ےن جو جسامین قوت و طاقت اپین حمکت و ارادہ ےک مطابق‬ ‫تعایل ےک اس فرمان اک مطلب یہ ےہ کہ مردوں کو ہللا ٰ‬
‫ہللا ٰ‬
‫عطا یک ےہ اور جس یک نبیاد پر وہ جہاد بھی کرےت ہںی اور دیگر بریوین اکموں مںی حصہ لےتی ہںی‪ ،‬یہ ان ےک ےیل ہللا اک خاص‬
‫عطیہ ےہ‪ ،‬اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صالحیتوں ےک اکم کرےن یک آرزو نہںی کرین چاےیہ۔ البتہ ہللا یک اطاعت اور‬
‫نیکی ےک اکموں مںی خوب حصہ لینا چاےیہ اور اس میدان مںی وہ جو کچھ کامئںی گی‪ ،‬مردوں یک طرح ان اک پورا پورا صلہ‬
‫تعایل ےس اس ےک فضل اک سوال کران چاےیہ کیونکہ مرد اور عورت ےک درمیان‪ ،‬استعداد صالحیت‬ ‫انھںی ےلم گا۔ عالوہ ازیں ہللا ٰ‬
‫اور قوت اکر اک جو فرق ےہ‪ ،‬وہ تو قدرت اک ایک اٹل فیصلہ ےہ جو حمض آرزو• ےس تبدیل نہںی ہوسکتا‪ ،‬البتہ اس ےک فضل‬
‫ےس کسب و حمنت مںی رہ جاےن وایل مکی اک ازالہ ہوسکتا ےہ۔‪]25[ ‬‬
‫مرد ےک بعض صالحیتوں• اور خصوصیات مںی ممتاز ہوےن یک حمکتںی‬
‫تعایل‬
‫مرد اور عورت ےک درمیان جو چند امتیازی چزییں ہںی‪ ،‬اس یک ایک وجہ تو فطری صالحیتوں اک وہ فرق ےہ جو ہللا ٰ‬
‫ےن ان دونوں ےک درمیان رکھا ےہ جےس دنیا یک کویئ‬

‫طاقت خمت نہںی کر سکیت‪ ،‬کیونکہ اس یک وجہ وہ ختلیقی مقاصد ہںی جو ایک دورسے ےس خمتلف ہںی جن یک بنیاد پر عورت‬
‫(بریون دَر) ےک امور ہںی۔ جن مںی امور جہاں ابین‪،‬‬
‫ِ‬ ‫اک دائرۂ اکر ھگر یک چار دیواری ےہ اور مرد اک دائرۂ اکر ھگر ےس ابہر‬
‫جہاد اور کسب معاش وغریہ ہںی‪ ،‬عورت ان متام ذےم داریوں• ےس سبکدوش ےہ۔ ایس مںی عورت یک عزت بھی ےہ اور اس‬
‫یک عصمت و تقدس اک حتفظ بھی۔‬

‫عورت کو وراثت مںی حصے دار بناان‪ ،‬اس مںی بھی عورت یک عزت و احرتام یک حبایل ےہ جس ےس عورت اسالم ےس قبل‬
‫حمروم تھی‪ ،‬ورنہ عورت یک جو ذےم دارایں• ہںی‪ ،‬ان مںی اس کو ابلعموم مال یک رضورت نہںی ہویت‪ ،‬مال یک زایدہ رضورت‬
‫مرد ہی کو رہیت ےہ‪ ،‬ایس ےن اکروابر کران ےہ‪ ،‬عورت یک معایش کفالت ایس ےن کرین ےہ‪ ،‬حق مہر بھی ایس ےن ادا کران ےہ‪،‬‬
‫ولمیہ بھی کران اور دیگر شادی ےک اخراجات ہںی جو مرد ہی ےن برداشت کرےن ہںی۔ ان مںی ےس کویئ بھی ذےم داری عورت‬
‫پر نہںی ےہ۔ اس ےیل اس کو وراثت مںی مرد ےک دوگنا ےک مقابلے مںی ایک گنا حصے دار قرار دینا‪ ،‬اس یک عزت و احرتام ہی‬
‫ےک پیش نظر ےہ ورنہ اس کو مال یک رضورت ہی نہںی ےہ۔‬
‫مرد کو طالق و رجوع اک حق دینے مںی بھی بڑی حمکت ےہ اور وہ ےہ ھگر کو برابدی ےس چباان‪ ،‬عورت مرد ےک مقابلے مںی مک‬
‫حوصلہ بھی ےہ اور جذابیت بھی۔ اگر اس کو بھی طالق اک حق مل جاات تو اختالف و نزاع یک صورت مںی وہ فور ًا طالق دے‬
‫تعایل ےن زایدہ حوصلہ و ہمت ےس نوازا ےہ اس‬‫کر اےنپ پریوں پر لکھاڑی مار لیا کریت اور خامناں برابد ہوجاای کریت۔ مرد کو ہللا ٰ‬
‫ےیل وہ زایدہ صربو حتمل اک مظاہرہ کرات اور ھگر برابدی ےس حمفوظ رہتا ےہ۔ اگرچہ بعض مرد جہالت اور ےب شعوری یک وجہ‬
‫ےس صربو حتمل ےک جبائے جعلت اور عاقبت ان اندیشی‬

‫‪ ‬اک مظاہرہ کرےت ہوئے فوری طور پر طالق دے دےتی ہںی اور پھر بعد مںی پچھتاےت ہںی لیکن اگر عورت کو بھی حق طالق‬
‫مل جاات تو پھر طالق یک رشح اک اندازہ نہںی کیا جا سکتا تھا۔‬

‫عورت کو مارےن یک رخصت اور اس یک حمکت اور مطلب‬


‫جس طرح بعض مرد جہالت یک وجہ ےس عورت ےک حقوق حصیح طریقے ےس ادا نہںی کرےت‪ ،‬تو اس مںی اسالم اک تو کویئ‬
‫قصور نہںی‪ ،‬ان مردوں اک قصور ےہ جو اسالم ےک عطا کردہ بعض مردانہ امتیازی• حقوق اک ‪ ،‬جو نہایت حمکت پر مبین‬
‫ہںی‪،‬غلط استعامل کرےت اور اسالم یک بدانمی اک ابعث بنتے ہںی‪ ،‬انھی مںی ےس یہ طالق اک بھی حق ےہ جےس بعض مرد نہایت‬
‫غلط طریقے ےس استعامل کرےت اور اپنا ھگر اجاڑ لےتی ہںی جس اک مخیازہ عورت ےک عالوہ ان کو بھی بھگتنا پڑات ےہ‪ ،‬بےچ ہوں تو‬
‫ان کو بھی ۔‬

‫تعایل ےن نشوز (عورت یک انفرماین‪ ،‬رسکشی) یک صورت مںی مرد کو اس کو مسھجاےن ےک ےیل وعظ و‬
‫ای جس طرح ہللا ٰ‬
‫نصیحت کرےن‪ ،‬اس ےس بسرت ےس علیحدگی اختیار• کرےن ےک ساتھ ساتھ اس کو مارےن یک بھی اجازت ےہ۔‬

‫َ[وا ٰل ّيِت ْ خَت َافُ ْو َن نُشُ ْو َز ُھ َّن فَ ِع ُظ ْو ُھ َّن َواجْه ُُر ْو ُھ َّن يِف الْ َمضَ اجِ ع ِ َوارْض ِ ب ُ ْو ُھ َّن ۚ ][النسآء ‪]34‬‬

‫’’ اور جن بیویوں ےس متہںی رسکشی اک اندیشہ ہو انہںی مسھجاؤ (اگر نہ مسھجںی) تو خواب گاہوں مںی ان ےس الگ رہو (پھر‬
‫بھی نہ مسھجںی تو) انہںی مارو۔‘‘‬

‫تو یہ حق بھی ھگر ےک نظم کو برقرار رکھنے ےک ےیل ےہ کیونکہ ھگر اک ّقوام (حامک) مرد ہی ےہ جس طرح کیس ملک ای عالےق‬
‫ےک ّقوام (رسبراہ ای حامک جماز) کو ملک ای عالےق اک نظم و نسق برقرا ر رکھنے ےک ےیل خسیت کرین پڑیت ےہ‪ ،‬دار و گری ےس اکم‬
‫رسپُر غرور کو کچلنے ےک ےیل ان کو زدو کوب بھی کران پڑات ےہ۔ ایس طرح مرد کو بھی عورت‬‫لینا پڑات ےہ اور رسکشوں ےک ِ‬
‫کو راہ‬

‫‪ ‬راست پر رکھنے ےک ےیل آخری چارۂ اکر ےک طور پر زدو کوب کرےن یک بھی اجازت دی گیئ ےہ اتکہ ھگر مںی مرد یک قوامیت‬
‫(حامکیت) بھی برقرار رےہ اور ھگر اک نظم و نسق بھی انتشار ےس حمفوظ رےہ۔‬

‫لیکن مارےن اک یہ حق غری حمدود نہںی ےہ لیکن چونکہ انگریز حاالت مںی بطور عالج اس یک اجازت ےہ اس ےیل یہ مار و‬
‫حشیانہ اور ظاملانہ نہ ہو‪ ،‬بلکہ عالج یک حد تک ہلکی مار ہو جس ےس اس کو شدید چوٹ نہ آئے۔ نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن‬
‫خطبۂ جحۃ الوداع مںی فرماای‪:‬‬

‫َ’ولَمُک ْ عَلَ ْیہ َِّن َأ ْن اَل ی ُْؤ طِنَئ َّ فُ ُرشَ مُک ْ َأ َحدً ا تَ ْک َر ُھونَہُ‪ ،‬فَ ْن فَ َعلْ َن ٰذ ِل َک فَارْض ِ بُو ُھ َّن رَض ْ اًب غَرْی َ ُمرَب ِّ حٍ‘[‪]26‬‬
‫بسرتوں پر اےسی کیس خشص کو آےن یک اجازت نہ دیں جس کو مت انپسند کرےت ہو‪،‬‬ ‫’’متہارا عورتوں پر یہ حق ےہ کہ وہ متھارے ِإ‬
‫اگر وہ ایسا کریں تو مت ان کو اییس مار مارو جس ےس ان کو زایدہ چوٹ نہ آئے۔‘‘‬
‫اییس مار جو بطور عالج ہو اور جس مںی وحشیانہ پن نہ ہو‪ ،‬توچونکہ اس یک اجازت ےہ اس ےیل اس پر قیامت ےک دن ابز‬
‫پرس بھی نہںی ہوگی۔ نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’اَل ی ُْسَأ ُل َّالر ُج ُل ِفمیَا رَض َ َب ِا ْم َرَأتَہُ‘[‪]27‬‬


‫’’آدمی ےس اپین عورت (بیوی) ےک مارےن پر ابز پرس نہںی یک جائے گی۔‘‘‪،‬‬

‫ایک مرتبہ رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’اَل تَرْض ِ بُوا َم َاء اہّٰلل ِ ‘‬


‫ِإ‬
‫’’ہللا یک ابندیوں کو مت مارا کرو۔‘‘‬

‫چناچنہ حصابۂ کرام بڑے حمتاط ہوگئے‪ ،‬اس اک نتیجہ یہ ہوا کہ خاوندوں ےک مقابلے مںی ان یک جسارتںی بڑھ گئںی‪ ،‬حرضت معر‬
‫ریض ہللا عنہ ےن آکر نیب صیل ہللا علیہ وسمل کو اس نتیےج ےس آگاہ فرماای تو آپ ےن ان کو مارےن یک رخصت عنایت فرما دی۔‬
‫بعض حصابہ ےن اس رخصت اک غلط استعامل کیا تو بہت یس عورتوں ےن آکر ازواج مطہرات ےک پاس ان یک شاکیتںی کںی تو‬
‫رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫یارمُک ْ‘[‪]28‬‬
‫ون َأ ْز َوا َجہ َُّن لَی َْس ُأو ٰلِئ َک خِب ِ ِ‬
‫’لَقَدْ َط َاف ِبآلِ ُم َح َّم ٍد ِن َسا ٌء کَ ِثریٌ ی َْش ُک َ‬
‫’’آل محمد( صیل ہللا علیہ وسمل )ےک پاس بہت یس عورتوں ےن آ کر اےنپ خاوندوں• یک شاکیت یک ےہ‪ ،‬یہ لوگ مت مںی بہرت نہںی‬
‫ہںی۔‘‘‬

‫اس ےس معلوم ہوا کہ یہ رخصت ےب رحامنہ طریقے ےس مارےن یک نہںی ےہ اور جو ایسا کرے گا وہ بہرت لوگوں مںی شامر نہںی‬
‫ہوگا ایس ےیل رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن اس رخصت• یک بڑے حکامینہ انداز مںی وضاحت فرمایئ‪:‬‬

‫’اَل جَی ْ دِل ُ َأ َحدُ مُک ْ ْم َرَأتَہُ َجدْل َ الْ َع ْب ِد مُث َّ جُی َا ِم ُعہَا یِف آ ِخ ِر الْ َی ْو ِم‘‬
‫ِإ‬
‫’’مت مںی ےس کویئ خشص اپین بیوی کو اس طرح نہ مارے جس طرح غالم کو مارا جاات ےہ‪( ،‬کیونکہ یہ جعیب ابت ہوگی کہ اس‬
‫طرح مارےن ےک بعد) پھر دن ےک آخر مںی اس ےس ہم بسرتی کرے گا۔‘‘‬

‫ایس ےیل امام خباری رمحہ ہللا ےن اس حدیث پر ابب ابندھا ےہ‪:‬‬

‫’اَب ُب َما یُ ْک َر ُہ ِم ْن رَض ْ ِب النِّ َساء‘‬

‫’’اس ابت اک بیان کہ عورتوں کو ماران انپسندیدہ• (مکروہ) ےہ۔‘‘‬

‫اور قرآن کرمی مںی مارےن یک رخصت‪( ‬وارضبوھن)‪ ‬یک تفسری ان الفاظ مںی‬

‫‪ ‬فرمایئ ےہ‪{ :‬غَرْی َ ُمرَب ِّ حٍ}‪ ‬اییس مار جس ےس شدید چوٹ نہ آئے۔‘‘[‪]29‬‬


‫اور یہی وہ تفسری ےہ جو خود نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرمایئ ےہ جیسا کہ حصیح مسمل ےک حواےل ےس یہ حدیث گزری‬
‫ےہ۔‬
‫بہر حال مقصود اس تفصیل ےس یہ ےہ کہ ہلکی مار مارےن یک اجازت ایک خاص حمکت ےک حتت دی گیئ ےہ کہ بعض‬
‫حق طالق یک طرح اس کو بھی غلط استعامل کرےت ہںی تو یہ‬ ‫عورتوں ےک ےیل بعض دفعہ یہ عالج مؤثر ہوات ےہ لیکن جو لوگ ِّ‬
‫خست انپسندیدہ ےہ اور اےسی لوگ اسالم یک بدانمی اک ابعث بنتے ہںی‪ ،‬اےسی ہی لوگوں یک اببت رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل‬
‫ےن فرماای ےہ کہ یہ لوگ بہرت بھی نہںی ہںی اور عقل و دانش ےس بھی ےب بہرہ ہںی کہ مارےت بھی ہںی اور پھر ایس ےس اپین‬
‫خواہش بھی پوری کرےت ہںی۔‬

‫عورت کو منحوس مسھجنا غلط ےہ‬


‫حسن معارشت اک ایک حصہ یہ بھی ےہ کہ عورت کو منحوس نہ مسھجا جائے۔ بعض دفعہ ایسا ہوات ےہ کہ جب عورت نیئ‬
‫نوییل دلہن یک صورت مںی آیت ےہ تو چونکہ وہ یکرس ایک نئے ماحول مںی آیت ےہ‪ ،‬دولہا مسیت اس ھگر ےک سارے افراد اس‬
‫ےک ےیل اجنیب ہوےت ہںی‪ ،‬اس کو اس نئے ماحول ےس مانوس ہوےن مںی اور دولہا اور اس ےک ھگر والوں ےک مزاجوں کو مسھجنے‬
‫مںی کچھ وقت دراکر ہوات ےہ۔ ایس طرح دلھن بھی متام افراد خانہ ےک ےیل اجنیب ہویت ےہ‪ ،‬اس یک خوبیاں (ای برائیاں) ظاہر‬
‫ہوےن مںی بھی وقت لگتا ےہ۔ چند اایم ای چند ہفتوں مںی ایک دورسے یک اببت اچھا ای برا ہوےن اک نہ حصیح طور پر اندازہ‬
‫کیا جا سکتا ےہ اور نہ فیصلہ ہی۔‬

‫‪ ‬لیکن ہامرے معارشے مںی جعلت ےس فیصلہ کرےن اک مرض عام ےہ دلہن ےک آےن ےک بعد اگر اتفایق طور پر کویئ حادثہ ہوجاات‬
‫ےہ‪ ،‬یعین اکرو ابر مںی کچھ نقصان ہوجاات ےہ ای کویئ اور اریض و ساموی آفت آجایت ےہ تو فورا کہہ دای جاات ےہ کہ یہ نیئ‬
‫عورت جو ہامرے ھگر مںی آیئ ےہ‪ ،‬اس یک حنوست ےہ اور پھر ھگر ےک سارے افراد اس کو منحوس ابور کر لےتی ہںی۔‬

‫ظاہر ابت ےہ ایسا مسھجنا اور کہنا جہاں تقدیر ا ٰلہی ےک خالف ےہ جو کہ کامل امیان ےک منایف ےہ‪ ،‬وہاں حسن معارشت ےک‬
‫بھی خالف ےہ۔ قدریت حوادث و آفات اک ابعث عورت کو قرار دینا‪ ،‬جب کہ اس مںی اس ےک ارادے ای معل اک کویئ دخل‬
‫نہںی‪ ،‬یکرس خالف واقعہ اور ایک پاک دامن کو حنوست ےس ُمتّہم کران ےہ اور جب اس کو منحوس مسھج لیاجائے گا تو کون‬
‫اےس اچھا مسھجے گا ای اس ےس اچھا سلوک کرے گا؟‬

‫اس ےیل حسن معارشت اک تقاضا ےہ کہ اتفایق حوادث وواقعات یک بنیاد پر عورت کو ای کیس بھی چزی کو منحوس مسھجنا ےب‬
‫بنیاد ابت ےہ۔‬

‫حنوست ےک تصور یک بنیاد‬


‫در اصل یہ تصور ایک حدیث• ےس غلط فہمی ےک طور پر مشہور ہوگیا ےہ‪ ،‬وہ حدیث ےہ‪:‬‬

‫’الشُّ ْؤ ُم یِف ثَاَل ثَ ٍۃ‪ ،‬یِف الْ َف َر ِس‪َ ،‬والْ َم ْرَأ ِۃ‪َ ،‬وادلَّ ا ِر‘‬

‫’’حنوست تنی چزیوں مںی ےہ‪ ،‬ھگوڑے مںی‪ ،‬عورت مںی اور ھگر مںی۔‘‘‬

‫حاالنکہ ایک دورسی حدیث ےس اس یک وضاحت ہوجایت ےہ‪ ،‬وہ حسب ذیل ےہ‪:‬‬

‫’ ْن اَک َن الشُّ ْؤ ُم یِف َشیْئ ٍ ‪ ،‬فَ ِفی ادلَّ ا ِر‪َ ،‬والْ َم ْرَأ ِۃ‪َ ،‬والْ َف َر ِس‘[‪]30‬‬
‫ِإ‬
‫’’اگر کیس چزی مںی حنوست ہوسکیت ےہ تو وہ ھگر ےہ‪ ،‬اور عورت ےہ‪ ،‬اور ھگوڑا• ےہ۔‬
‫تعایل [ ِا َّن ِم ْن َا ْز َواجِ مُك ْ• َو َا ْواَل ِدمُك ْ عَدُ ًّوا‬
‫یہ دونوں رواایت امام خباری‪ ‬رمحہ ہللا‪ ‬ےن کتاب الناکح ےک‪ ‬ابب ما یتقی من شؤم املرأۃ• وقولہ ٰ‬
‫لَّمُك ْ ]‪[ ‬التغابن ‪ ]14‬مںی بیان یک ہںی۔‬

‫یعین امام خباری ےن شؤم املرأۃ (عورت یک حنوست ےس بچنے ) اک ابب ابندھا اور اس مںی قرآین آیت بھی ساتھ بیان کرےک یہ‬
‫واحض کردای ےہ کہ عورت اک منحوس ہوان کویئ قاعدہ لکیہ نہںی ےہ بلکہ بعض عورتںی منحوس ہوسکیت ہںی جےسی ہللا تبارک‬
‫وتعایل ےن فرماایےہ‪:‬‬
‫ٰ‬
‫’’متہاری بیویوں اور اوالد مںی ےس بعض متہاری دمشن ہںی۔‘‘‬

‫تعایل ےن‪ِ  ‬م ْن‪ ‬اک لفظ استعامل فرماای ےہ جو تبعیض ےک ےیل بھی آات ےہ۔ یعین ساری بیوایں ای ساری اوالد دمشن نہںی ےہ‬
‫ہللا ٰ‬
‫بلکہ بعض ہںی۔ اور یہ واحض ےہ کہ جو اوالد ماں ابپ یک فرماں بردار اور خری خواہ ہو‪ ،‬وہ ماں ابپ یک دمشن نہںی ےہ‪،‬‬
‫رصف وہ اوالد دمشن ےہ جو انفرمان اور گستاخ ہو۔ اور ہللا اک یہ فرمان واقعات ےک عنی مطابق ےہ۔ ایس طرح وہ بیوی‬
‫بھی جو‪ ‬فالصاحلات قانتات حافظات للغیب‪ ‬یک مصداق ہو‪ ،‬وہ خاوند یک دمشن نہںی بلکہ وفادار ‪ ،‬اطاعت شعار اور خری خواہ‬
‫ہوگی۔ اور جو اوالد اور بیوی نیک اور صاحل ہوگی‪ ،‬ان یک اببت حنوست اک تصور بھی نہںی کیا جا سکتا۔‬

‫ایس طرح امام خباری‪ ‬رمحہ ہللا‪ ‬ےن ایس ابب مںی یہ حدیث• بھی ذکر یک ےہ جس مںی رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‬
‫ےہ‪:‬‬

‫’ َما تَ َر ْک ُت ب َ ْع ِدی ِف ْتنَ ًۃ َارَض َّ عَیَل ِّالر َجالِ ِم َن النِّ َسآ ِء‘[‪]31‬‬
‫’’مںی ےن اےنپ بعد عورتوں ےس بڑھ کر کویئ فتنہ ایسا نہںی چھوڑا جو مردوں ےک ےیل سب ےس زایدہ نقصان دہ ہو۔‘‘‬

‫اس حدیث ےس بھی یہی نکتہ واحض ہوات ےہ کہ جو عورت فتنے اک ابعث ہو‪ ،‬اس مںی تو رش اور حنوست اک پہلو ہوسکتا ےہ‬
‫لیکن جو عورت اییس نہ ہو بلکہ اس ےک برعکس نیکی اور صاحلیت اک پیکر ہو‪ ،‬تو اےس منحوس کےسی قرار دای جا سکتا ےہ‬
‫اس یک طرف کیس تقدیری امر ےک ظہور یک وجہ ےس رش اور حنوست کو منسوب کران ایسا ہی ےہ جےسی حدیث مںی کہا گیا‬
‫ےہ کہ یہ کہنا کفر ےہ کہ فالں ستارے یک وجہ ےس ابرش ہویئ ےہ ۔ یعین ابرش برساےن ےک فعل کو ہللا ےک جبائے ستارے یک‬
‫طرف منسوب کران‪ ،‬یکرس غلط بلکہ کفریہ لکمہ ےہ تو پھر مطلق ًا عورت کو رش اورحنوست اک ابعث قرار دینا کیوں کر حصیح‬
‫ےہ؟ جب کہ اس رش ےک ظہور مںی اس اک کویئ دخل نہںی ےہ‪ ،‬بلکہ ایک تقدیری معاملہ ےہ جس اک ظہور اس عورت ےک نئے‬
‫ھگر مںی آےن ےک بعد ہوا ےہ۔ اور قضا و قدر ےک فیصلے اک اس ےک ساتھ توافق ہوگیا ےہ۔‬

‫عدم موافقت ہوسکیت ےہ لیکن رصف ہللا یک مشیت ےس‬


‫یہ تو ہوسکتا ےہ اور ہوات ےہ کہ بعض دفعہ انسان ھگر خریدات ای کرائے پر لیتا ےہ‪ ،‬سواری ےک ےیل کویئ جانور‪ ،‬ای آج لک ےک‬
‫حساب ےس کویئ گاڑی وغریہ لیتا ےہ‪ ،‬ایس طرح کیس عورت ےس شادی کرات ےہ۔ لیکن یہ چزییں انسان کو راس نہںی آتںی‪،‬‬
‫اس کو مسلسل نقصان اور پریشاین اک سامنا کران پڑات ےہ۔ اییس صورت مںی اس کو یہ تو اجازت ےہ کہ عدم موافقت یک وجہ‬
‫ےس ھگر چھوڑ کر‪ ،‬جانور ای گاڑی بیچ کر‪ ،‬بیوی کو طالق دے کر وہ متبادل انتظام کر ےل لیکن ان اک تعلق حنوست ےس جوڑ کر‬
‫بد اعتقادی اک اظہار نہ کرے بلکہ اس کو قضا و قدر• اک فیصلہ مسھجے۔ اس ابرے مںی بھی ایک حدیث ےس ہمںی اکیف رہامنیئ‬
‫ملیت ےہ حرضت انس ریض ہللا عنہ روایت کرےت ہںی‪:‬‬
‫’’ایک خشص ےن کہا‪ :‬اے ہللا ےک رسول! ہم ایک ھگر میرں ےتہ ہںی‪ ،‬وہاں ھگر ےک افراد بھی اکیف ہوےت ہںی اور مال و دولت‬
‫یک بھی فرواین ہویت ےہ‪ ،‬لیکن ہم ھگر بدل لےتی ہںی تو وہاں ہامرے افراد اوراموال مںی مکی ہوجایت ےہ؟ تو آپ ےن فرماای‪ :‬اس‬
‫ھگر کو اےنپ حق مںی برا مسھجتے ہوئے چھوڑ دو۔‘‘[‪]32‬‬
‫اس یک ایک مثال یہ بھی ےہ کہ رشیعت اسالمیہ مںی اس تصور یک نفی یک گیئ ےہ کہ کویئ بامیری متعدی بھی ہویت ےہ بلکہ‬
‫اس عقیدے یک اتکید یک گیئ ےہ کہ ہللا ےک حمک اور مشیت ےک بغری کیس کو کویئ بامیری نہںی لگ سکیت۔ اس ےک ابوجود ہمںی‬
‫حمک دای گیا ےہ کہ جمذوم (کوڑھی ےک مریض) ےس اس طرح بھاگو جس طرح مت شری ےس بھاگتے ہو۔ اس یک کیا وجہ ےہ؟ اس‬
‫یک وجہ یہ نہںی کہ جذام اک مرض متعدی ےہ بلکہ اس یک وجہ اعتقاد یک خرایب ےس چباان ےہ۔ کیونکہ اگر کیس خشص کو جمذوم‬
‫ےک پاس بیٹھنے• ےس اگر جذام یک بامیری الحق ہوگیئ تو اس یک اصل وجہ تو ہللا اک حمک او راس یک مشیت ہوگی لیکن اس‬
‫خشص ےک اندر عقیدے یک یہ خرایب پیدا ہوسکیت ےہ کہ مھجے یہ بامیری اس مریض ےک پاس بیٹھنے یک وجہ ےس الحق ہویئ‬
‫ےہ۔ یہ عقیدہ• چونکہ اسالمی مسلّامت ےک خالف ےہ اس ےیل مسلامنوں ےک عقیدوں• کو حمفوظ رکھنے ےک ےیل احتیاط کرےن اک‬
‫حمک دای ےہ اتکہ اس بد عقیدگی ےس مسلامن حمفوظ رہںی۔‬

‫ایس طرح عدم موافقت یک صورت مںی زیر حبث مذکورہ اشیاء کو چھوڑا جا سکتا ےہ لیکن اس رد و بدل مںی ان یک حنوست‬
‫اکعقیدہ• نہ رکھا جائے بلکہ اس کو قضا و قدر اک فیصلہ ہی مسھجاجائے۔ شیخ الباین رمحہ ہللا زیر حبث حدیث ےک ابرے مںی‬
‫فرماےت ہںی‪:‬‬

‫’’یہ حدیث (لوگوں یک رائے ےک برعکس) اس مفہوم یک اتئید کریت ےہ کہ کیس چزی‬

‫مںی حنوست نہںی ےہ۔ اس ےیل کہ حدیث• ےک معین ہںی‪’’:‬اگر حنوست کیس بھی چزی مںی اثبت ہویت تو ان تنی چزیوں مںی ہویت‬
‫لیکن ابت یہ ےہ کہ حنوست کیس بھی چزی مںی یکرس اثبت ہی نہںی ےہ۔ اور بعض رواایت مںی جوالفاظ نقل ہوئے ہںی‬
‫کہ’’حنوست تنی چزیوں مںی ےہ‘‘ یہ بعض راویوں• اک اختصار اور ترصف ےہ (ورنہ اصل الفظ یہی ہںی کہ اگر حنوست ہویت تو‬
‫ان مںی ہویت)۔‘‘[‪]33‬‬
‫امام طحاوی رمحہ ہللا ےن بھی یہی ابت لکھی ےہ‪ ،‬فرماےت ہںی‪:‬‬

‫’’نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪ :‬اگر حنوست کیس چزی مںی ہویت تو عورت‪ ،‬ھگوڑے اور ھگر مںی ہویت۔‘‘ آپ ےن یہ خرب‬
‫نہںی دی کہ ان مںی ہویت ےہ بلکہ یہ فرماای ےہ‪ :‬اگر حنوست یک چزی مںی ہویت تو ان مںی ہویت‪ ،‬یعین اگر کیس چزی مںی ہویت تو‬
‫ان مںی ہویت اور جب ان تینوں مںی نہںی ےہ تو کیس بھی چزی مںی نہںی ےہ۔‘‘[‪]34‬‬
‫بعض احادیث اور آاثر ےس مذکورہ مفہوم یک اتئید‬
‫ہامرے وضاحت کردہ نکتے یک اتئید ذیل یک حدیث ےس بھی ہویت ےہ‪ ،‬جس مںی رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫السو ُء َوالْ َم ْرَأ ُۃ‬ ‫الصا ِل ُح‪َ ،‬والْ َم ْرکَ ُب الْہَ ِنُئی ‪َ ،‬وَأ ْرب َ ٌع ِم َن ِّ‬
‫الش َقا ِء‪َ :‬الْ َج ُار ُّ‬ ‫الصا ِل َح ُۃ‪َ ،‬والْ َم ْس َک ُن الْ َو ِاس ُع‪َ ،‬والْ َج ُار َّ‬
‫الس َعا َد ِۃ‪ ،‬ال َ َم ْرَأ ُۃ َّ‬
‫’َأ ْرب َ ٌع ِم َن َّ‬
‫السو ُء َوالْ َم ْس َک ُن الضَّ ِّی ُق‘[‪]35‬‬ ‫السو ُء‪َ ،‬والْ َم ْرکَ ُب ُّ‬ ‫ُّ‬
‫’’چار چزییں سعادت ےس ہںی‪ :‬نیک عورت‪ ،‬فراخ کشادہ ھگر‪ ،‬نیک پڑویس اور اچھی سواری‪ ،‬اور چار چزییں شقاوت (بد‬
‫خبیت ) ےس ہںی‪ :‬برا پڑویس‪ ،‬بری عورت‪ ،‬بری سواری‪ ،‬اور تنگ ماکن۔‘‘‬

‫یعین مذکورہ چزییں کیس ےک ےیل سعادت اک اور کیس ےک ےیل شقاوت اک ذریعہ ہںی اور یہ سب کچھ ہللا یک مشیت اور اس ےک‬
‫قضا و قدر ےک حتت ےہ۔‬

‫ایس ےیل بعض شارحنی ےن حدیث شئوم یک رشح مںی لکھاےہ‪ ،‬جےسی امام خطایب ہںی‪:‬‬
‫’ ِا ْن اَک ن َْت َأِل َح ِدمُک ْ د ٌَار یَ ْک َر ُہ ُس ْکنَا َھا َأ ْو ا ْم َرَأ ٌۃ یَ ْک َر ُہ حُص ْ َب َتہَا‪َ ،‬أ ْو فَ َر ٌس یَ َکر ُہ َسرْی َ ُہ فَلْ ُی َفا ِر ْقہُ‘‪]36[ ‬‬
‫’’اگر کیس اک ھگر ایسا ےہ کہ اس مںی رہائش اس کو انپسند ہو‪ ،‬ای بیوی اییس ہو کہ اس ےک ساتھ گزارا مشلک ہو‪ ،‬ای ھگوڑا‬
‫ایسا ہو کہ اس پر سفر اس کو انگوار ہو ‪،‬تو وہ ان کو چھوڑ دے۔‘‘‬

‫اور بعض ےن اس یک تفسری اس طرح یک ےہ‪:‬‬

‫’ َّن ُشْؤ َم ادلَّ ِار ضَ ِّی ُقہَا َو ُس ْو َء َج َو ِار َھا‪َ ،‬و ُشْؤ َم الْ َمرَأ ِۃ َأ ْن اَل تَدِل َ ُو ُشْؤ َم الْ َف َر ِس َا ْن اَل یُغ ُْز عَلَ ْیہِ‘[‪]37‬‬
‫ِإ‬
‫’’ھگر یک حنوست اس اک تنگ ہوان اورپڑویس اک برا ہوانےہ‪ ،‬عورت یک حنوست اس اک ابنھج پن اور ھگوڑے یک حنوست اس پر‬
‫جہاد کرےن اک موقع نہ ملنا ےہ۔‘‘‪،‬‬

‫بعض آاثر ےس بھی اس یک اتئید ہویت ےہ ‪ ،‬جےسی حرضت معمر (اتبعی) فرماےت ہںی کہ مںی ےن اس حدیث یک یہ تفسری سین‬
‫ےہ (بظاہر یہی ےہ کہ کیس حصایب ےس سین ہوگی)۔‬

‫السو ِء‘©[‪]38‬‬‫ُ’شْؤ ُم الْ َم ْرَأ ِۃ ِإ َذا اَک ن َْت غَرْی َ َولُو ٍد‪َ ،‬و ُشُؤ ُم الْ َف َر ِس ِإ َذا ل َ ْم یُغ َُز عَلَ ْیہِ َو ُشُؤ ُم ادلَّ ِار َج ُار ُّ‬
‫’’عورت یک حنوست اس اک ابنھج ہوان ےہ‪ ،‬ھگوڑے یک حنوست اس پر بیٹھ کر جہاد نہ کران ےہ اور ھگر یک حنوست برے‬
‫پڑویس اک ہوان ےہ۔‘‘‬

‫بہر حال مطلق ًا عورت ای کیس بھی چزی یک حنوست اک عقیدہ ےب بنیاد اور تقدیر پر امیان ےک منایف ےہ‪ ،‬اس ےیل اس قسم ےک‬
‫تصورات ےس چبنا ہر مسلامن ےک ےیل رضوری ےہ۔‬

‫بیوی کو عار نہ دالئے‬


‫تعایل اوالد صاحل پیدا فرما‬
‫بعض دفعہ ایسا ہوات ےہ کہ ایک عورت بد چلن ای مرد بد کردار ہوات ےہ لیکن اےسی جوڑے ےس ہللا ٰ‬
‫دیتاےہ‪ ،‬اوالد مںی ماں ابپ یک وہ خرابیاں نہںی ہوتںی جو رشیعت مںی بھی ان پسندیدہ• ہںی اور لوگوں یک نظروں مںی بھی‬
‫انقابل قبول ہویت ہںی۔ اےسی ماں ابپ یک کویئ نیک چلن لڑیک اگر کیس خشص ےک حبالۂ عقد مںی آجائے تو کیس بھی موقعے پر اس‬
‫یک کیس کواتہی یک وجہ ےس اس کو یہ نہ کےہ کہ ہاں تو بییٹ تو ایس ماں ای ابپ یک ےہ جواییس اییس ای ایسا ایسا ےہ ای تھی ای‬
‫تھا۔ اےس عار دالان کےتہ ہںی‪ ،‬رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن اےس انپسند فرماای اور اےس زمانۂ جاہلیت یک خُو (بدعادت)‬
‫قرار دای۔ حرضت ابوذر ریض ہللا عنہ فرماےت ہںی کہ مںی ےن ایک خشص (اےنپ غالم) کو برا بھال کہا اور اور اےس عار دالیئ کہ‬
‫تریی مااںییس تھی۔ تو رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن مھج ےس فرماای‪:‬‬

‫یک َجاھ ِل َّی ٌۃ‘‬


‫’اَی َأاَب َذ ٍّر! َأعَرَّی ْ تَہُ ِبُأ ِّمہِ؟ ن َّ َک ا ْم ُرٌؤ ِف َ‬
‫ِإ‬
‫’’اے ابو ذر! کیا توےن اس کو اس یک ماں یک وجہ ےس عار دالیئ ےہ ‪ ،‬تریے اندر توابھی تک جاہلیت یک خُو ےہ۔‘‘‬

‫پھر فرماای‪:‬‬

‫’ خ َْوانُمُک ْ خ ََولُمُک ْ َج َعلَہ ُُم اہّٰلل ُ حَت ْ َت َأیْ ِدیمُک ْ ‪ ،‬فَ َم ْن اَک َن َأخُو ُہ حَت ْ َت ی َ ِد ِہ‬
‫ِإ‬
‫فَلْ ُی ْط ِع ْمہُ ِم َّما یَْألُک ُ ‪َ ،‬ولْ ُیلْب ِْسہُ ِم َّما یَلْبَ ُس‪َ ،‬واَل تَلِک ِّ ُف ْو ُھ ْم َما ی َ ْغ ِل ُبہُ ْم‪ ،‬فَ ْن لَک َّ ْف ُت ُمو ُھ ْم فََأ ِعی ُن ْوھ ْم‘[‪]39‬‬
‫تعایل ےن ان ِإکو متھارے ماحتت کیا ےہ (مت کوان پر ابال دسیت عطا یک ےہ اور ان‬ ‫’’متھارے بھایئ (غالم) متہارے ما حتت ہںی‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫کو متھارے زیردست کیاےہ) پس جو بھایئ (غالم نوکر چاکر) اس ےک ما حتت ہو اس کو چاےیہ کہ اس کو وہی کچھ کھالئے جووہ‬
‫کھاات ےہ‪ ،‬اوراس کو وہی کچھ پہننے کو دے جو وہ خود پہنتا ےہ اور ایسا کویئ اکم اس ےک سپرد نہ کرے جو اس یک طاقت‬
‫ےس ابال ہو‪ ،‬اگر مت ایسا کویئ اکم اس ےک سپرد کرو تو مت ان یک مدد کرو (ان ےک ساتھ مل کر وہ اکم کرو۔)‘‘‬

‫اس حدیث ےس یہ معلوم ہوا کہ اےنپ ما حتتوں ‪ ،‬زیر دستوں اورغالموں‪ ،‬نوکروں کو عار دالان‪ ،‬ان کو اےنپ ےس مکرت مسھجتے ہوئے‬
‫ان کو کھاےن پینے مںی اےنپ ساتھ بٹھاےن ےس گریز کران اور ان پر ان یک طاقت ےس زایدہ اکموں اک بوھج ڈالنا یہ سب ممنوع ہںی تو‬
‫بیوی توغالم اور ماحتتوں ےس زایدہ رشف و فضل اور عزت و احرتام یک مستحق ےہ‪ ،‬اس ےک ساتھ ایسا معاملہ کرےن یک‬
‫اجازت کب ہو سکیت ےہ؟‬

‫اس ےیل حسن معارشت اک ایک تقاضا یہ بھی ےہ کہ بیوی کو عار نہ دالیئ جائے۔ اس ےک ماں ابپ کےسی بھی ہوں ای کےسی بھی‬
‫کبھی رےہ ہوں‪ ،‬ای وہ خود بھی کبھی اییس وییس رہی ہو لیکن توبہ کرےک اس ےن اپین اصالح کر یل ہو اور اب وہ حصیح‬
‫معنوں مںی ایک صاحل اور نیک چلن ہو اور ایس وجہ ےس اس ےن اےس اپنا رفیق زندگی بناےن ےک ےیل پسند کیا ہو تو اس ےک‬
‫بعد اس کوعار دالےن اک کویئ جواز نہیںےہ اور یہ حسن معارشت ےک خالف ےہ کیونکہ اس مںی‬

‫‪ ‬اس یک دل آزاری اک پہلو ےہ جب کہ حسن معارشت اک تقاضا اس یک دجلویئ و ددلاری کران ےہ نہ کہ دل آزاری۔‬

‫بیوی پر طاقت ےس زایدہ بوھج نہ ڈاےل‬


‫اس حدیث ےس یہ بھی معلوم ہوا کہ جب ایک غالم اور ما حتت خشص پر بھی اس یک طاقت ےس زایدہ بوھج ڈالنا جائز نہںی‬
‫ےہ جب کہ ان کو اےنپ ھگروں مںی رکھنے اک مقصد ہی ان ےس اپین خدمت لینا اور ان ےس اےنپ اندروین و بریوین اکم کراان ہوات‬
‫ےہ تو بیوی پر اس یک طاقت ےس زایدہ بوھج ڈالنا کب جائز ہوسکتا ےہ۔؟‬

‫بال شبہ خاوند یک خدمت اور ھگریلو امور یک اجنام دہی عورت یک ذےم داری ےہ‪ ،‬لیکن مرد ےک ےیل رضوری ےہ کہ وہ اس‬
‫معاےلم مںی بھی حسن معارشت ےک تقاضوں کو ملحوظ رکےھ اور اس پر اس یک طاقت ےس زایدہ بوھج نہ ڈاےل۔ اس یک کیئ‬
‫صورتںی ہوسکیت ہںی مث ًال‪ ،‬خاوند اس کو ھگریلو اخراجات ےک ےیل جو رمق مہیا کرے‪ ،‬وہ رضورایت ےس بہت مک ہو‪ ،‬لیکن‬
‫خاوند اس کو جمبور کرے کہ وہ ایس رمق ےس متام رضورایت پوری کرے‪ ،‬ظاہر ابت ےہ بعض خاوندوں• اک یہ رویہ رس ارس حتمک‬
‫اور تلکیف َما َال ی ُ َطاق ہی ےہ۔‬

‫ایس طرح بعض ھگروں مںی آےن وایل نیئ بہو پر رضورت ےس زایدہ اکموں اک بوھج ڈال دای جاات ےہ جب کہ ھگر مںی اس یک‬
‫جوان نندیں وغریہ بھی ہویت ہںی۔ عدل و انصاف اک تقاضا تو یہ ےہ کہ سب مل جل کر ھگریلو امور رس اجنام دیں‪ ،‬ساس سرس‬
‫بھی اس پہلو کو ملحوظ رکھںی‪ ،‬خاوند اگر اس سلسلے مںی ماں ابپ ےس کویئ ابت کرات ےہ تو اس کو زن مرید ہوےن اک طعنہ‬
‫دے کر خاموش رےنہ پر جمبور کردای جاات ےہ۔ اس ےب انصایف ےک تنی نتیجوں مںی ےس کویئ‬

‫ایک نتیجہ ابلعموم ظاہر ہوات ےہ۔‬

‫(‪)1‬ای تو خاوند اور بیوی دونوں‪ ،‬ماں ابپ اور ساس سرس ےک احرتام مںی خامویش ےس اس ےب انصایف کو برداشت کرےت رےتہ‬
‫ہںی اور عورت طاقت ےس زایدہ بوھج برداشت کریت رہیت ےہ اور ھگر اک نظم میاں بیوی یک خامویش اور بزرگوں• ےک احرتام‬
‫یک وجہ ےس قامئ رہتا ےہ۔ ظاہر ےہ یہ سکون دابئو اک نتیجہ ےہ‪ ،‬حسن معارشت اک نتیجہ نہںی۔‬

‫(‪)2‬اگر میاں بیوی اس ےب انصایف کو برداشت کرےن ےک ےیل تیار نہںی ہوےت تو جدل ای بہ دیر یہ صورت حال ماں ابپ ےس‬
‫علیحدگی پر منتج ہویت ےہ۔‬
‫(‪)3‬ھگر یک دورسی خواتنی (نندیں‪ ،‬ساس وغریہ)۔ اگر اس ےب انصایف پر مرص رہیت اورسارا بوھج فرماں بردار بیٹے یک بیوی پر‬
‫ہی ڈالنے یک پالییس پر گامزن رہیت ہںی تو جدل ہی پامینۂ صرب لربیز ہو جائے گا اور پھر آئے دن اس پر ابہم تھاک فضیحیت ہوگی‬
‫جس ےس میاں بیوی اک سکون بھی برابد ہوگا‪ ،‬ھگر اک امن بھی قامئ نہںی رےہ گا اور ساس اک ےب انصایف پر مبین یہ رویہ لڑیک‬
‫ےک خاندان کو بھی ان ےس بد ظن کردے گا اور خمامصت و عناد یک اییس فضا قامئ ہوجائے گی۔ جو دونوں خاندانوں کو مضطرب‬
‫رکےھ گا۔‬

‫بنا بریں یہ تینوں ہی صورتںی ظمل و ان انصایف یک ہںی جو حسن معارشت ےک خالف ہںی۔ یہ ساس بہو اک وہ رواییت کردار ےہ‬
‫جس یک کہانیاں ہامرے معارشے مںی عام ہںی۔ لیکن اہل دین اورخشیت ا ٰلہی رکھنے والوں کو اس قسم ےک رویوں ےس چبنا‬
‫چاےیہ‪ ،‬ایسا رویہ آخرت ہی برابد کرےن والانہںی ےہ بلکہ دنیا بھی بگاڑ دینے والا ےہ۔‬

‫مشاورت اک اہامتم کیا جائے‬


‫حسن معارشت اک ایک حصہ یہ بھی ےہ کہ ہر اہم معاےلم مںی مرد بیوی ےس مشاورت اک‬

‫اہامتم کرے‪ ،‬بیوی کو نظر انداز کرےک کویئ فیصلہ نہ کرے۔ یہ حسن معارشت ےک بھی خالف ےہ اور عقل و دانش ےک بھی‬
‫منایف۔ عدم مشاورت ےس بھی بعض دفعہ میاں بیوی ےک درمیان اییس تلخیاں اور کشیدگیاں پیدا ہوجایت ہںی جو پورے ھگر‬
‫ےک سکون کو برابد کردییت ہںی۔‬

‫تعایل ےن اےنپ پیغمرب تک کو یہ حمک دای کہ وہ مسلامنوں ےس مشاورت اک اہامتم کریں۔‬


‫ہللا ٰ‬

‫َ[وشَ ا ِو ْر ُھ ْم يِف ااْل َ ْم ِر ۚ ]‪[ ‬آل ٰ‬


‫معرن ‪]159‬‬

‫’’اور (دین ےک) اکم مںی ان ےس مشورہ کیا کیجئے۔‘‘‬

‫اور مسلامنوں یک صفت یہ بھی بیان فرمایئ کہ وہ اےنپ معامالت ابہم مشاورت ےس چالےت ہںی۔‬

‫الشوری‪]38‬‬
‫ٰ‬ ‫َ[و َا ْم ُرمُه ْ ُش ْو ٰرى بَيْهَن ُ ْم][‬

‫‪’’ ‬اور ان ےک اکم ابہمی مشورہ ےس ےط پاےت ہںی‘‘‬

‫صلح حدیبیہ ےک موقعے پر جو معاہدہ لکھا گیا تھا‪ ،‬مسلامن اس یک ظاہری دفعات ےس دل گری تےھ اور نبوت یک نگا ِہ دور رس مںی‬
‫اس ےک جو فوائد تےھ‪ ،‬عام مسلامن اس اک اندازہ• کرےن ےس قارص تےھ۔ بنا بریں جب رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن معاہدے‬
‫ےک حتریر کیے جاےن ےک بعد حصابہ کو حمک دای کہ اٹھو! اور اےنپ اےنپ جانور قرابن کردو (کیونکہ اس سال ہم مکہ جا کر معرہ نہںی‬
‫کر سکںی ےگ) لیکن حصابہ مغ ےس نڈھال اور دل گرفتہ تےھ‪ ،‬اس ےیل کویئ بھی نہ اٹھا‪ ،‬حیت کہ رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن‬
‫اپین ابت تنی مرتبہ دہرایئ مگر پھر بھی کویئ نہ اٹھا تو آپ اپین زوجۂ مطہرہ حرضت ام املومننی ام سلمہ ریض ہللا عنہا ےک پاس‬
‫ترشیف ےل گئے اور حصابہ ےک اس طرز معل اک ذکر کیا‪ ،‬حرضت ام سلمہ ریض ہللا عنہا ےن مشورہ دای کہ آپ کیس کو کچھ نہ‬
‫کہںی اور جا کر اپنا جانور ذحب کردیں اور اپنا رس منڈالںی۔ رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن اس مشورے ےک مطابق‬

‫دی اک جانور ذحب کردای اور جحام کو بالکر رس منڈوا لیا۔‬


‫اپین ہ َ ْ‬
‫اس اک نتیجہ یہ ہوا کہ حصابہ ےن آپ ےک معل کو دیکھ کر بالتوقف اےنپ اےنپ جانور بھی ذحب کر دیے اورابہم ایک دورسے ےک رس‬
‫بھی مونڈ دیے۔‬

‫یعین رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن اپین متام تر عظمت ےک ابوجود جب اپین اہلیہ حمرتمہ ےس جاکر مشورہ کیا تو انھوں ےن‬
‫جو مشورہ دای‪ ،‬اس پر معل کرےن ےس ایک نہایت اہم مسئلے اک فوری حل نلک آای جس پر آپ خود بھی خست پریشان تےھ۔‬

‫اس ےس یہ معلوم ہوا کہ انسان کو رصف اپین عقل و دانش ہی کو حرف آخر نہںی مسھجنا چاےیہ بلکہ اےنپ رفیق• زندگی یعین‬
‫بیوی ےس بھی ہر اہم معاےلم پر مشورہ کران اور ابہم مل کر سوچ چبار کران نہایت اببرکت معل ےہ ۔ نہ عورت اےنپ طور پر‬
‫فیصلہ کرے اور نہ مرد ہی ایسا کرے بلکہ دونوں قدم ےس قدم مال کر اور ایک دورسے کو اپنا ہم نوا بنا کر اور اعامتد مںی ےل‬
‫کر فیصلہ کریں۔‬

‫جب بےچ چبیاں جوان ہوجاےت ہںی تو ان ےک رشتوں انطوں ےک سلسلے مںی اگر ابہم مشاورت اور افہام و تفہمی ےس اکم نہ لیا‬
‫جائے تو بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوجایت ہںی اور بعض دفعہ چبوں ےک مستقبل بھی اتریک ہوجاےت ہںی‪ ،‬و عیل ہذا القیاس‪،‬‬
‫دورسے معامالت ہںی‪ ،‬سب مںی ابہم مشاورت ابعث برکت بھی ےہ اور حسن معارشت اک تقاضا بھی‪ ،‬اور ھگر یک خوش‬
‫گوار فضا اور اس ےک امن و سکون کو برقرار رکھنے• اک ایک بڑا سبب بھی۔‬

‫مرد حسن ابطین ےک ساتھ‪ ،‬ظاہری زیب و زینت کو بھی اختیار• کرے‬
‫جس طرح مرد یک خواہش ہویت ےہ کہ بیوی حسن و جامل اک پیکر ہو ای مک از مک آرائش‬

‫و زیبائش اک اہامتم کرےن وایل ہو۔ ایس طرح عورت یک بھی خواہش ہویت ےہ کہ اس اک خاوند مردانہ جاہ و جالل اور حسن‬
‫و جامل اک حامل ہو۔ اس ےیل مرد ےک ےیل بھی رضوری ےہ کہ وہ عورت یک اس جائزخواہش اک احرتام کرے اور رشیعت ےک‬
‫دائرے مںی رےتہ ہوئے ظاہری زیب و زینت• اختیار• کرےن مںی ےب اعتنایئ نہ برےت۔ جےسی صاف ستھرا رہنا‪ ،‬نظافت و طہارت‬
‫اک خیال رکھنا‪ ،‬خوشبو وغریہ اک استعامل اور کنھگی تیل اک اہامتم‪ ،‬وغریہ‪ ،‬ایس ےیل حدیث مںی آات ےہ حرضت عائشہ ریض ہللا‬
‫عنہا ےس پوچھا گیا‪ :‬نیب صیل ہللا علیہ وسمل جب اےنپ ھگر ترشیف الےت تےھ تو سب ےس پہال اکم کیا کرےت تےھ؟‬

‫حرضت عائشہ ریض ہللا عنہا ےن فرماای‪ ’’:‬مسواک کرےت تےھ۔ (اتکہ منہ ےس خوش گوار خوشبو آئے۔) اتہم اس زیب و زینت‬
‫ےک اختیار• کرےن مںی نہ رشیعت ےس جتاوز ہو اور نہ کرب و غرور اک اظہار ہو‪ ،‬یہ دونوں ابتںی انپسندیدہ ہںی۔ ‘‘‬
‫مث ًال‪ ،‬آج لک زیب و زینت اک معیار یہ ےہ کہ مرد اک چہرہ ِ‬
‫سنت رسول (داڑھی) ےس پاک ہو‪ ،‬انگریزوں ےک لباس (ٹایئ‪،‬‬
‫پتلون) مںی ملبوس ہو اور بیویٹ پارلر مںی جا کر آراستہ و پریاستہ ہو۔ ظاہر ابت ےہ یہ زیب و زینت ہللا کو انپسند ےہ۔‬

‫ایس طرح زیب و زینت ےک ڈانڈے کرب و غرور ےس نہ جا ملںی۔ بلکہ یہ زیب و زینت ظاہری و ابطین حسن و جامل اک ایسا‬
‫سن سریت اور ابطین جامل ےک بغری ظاہری حسن‬‫حسنی امزتاج ہو جس مںی ُحسن صورت بھی ہو اور ُحسن سریت بھی۔ ُح ِ‬
‫یک حیثیت• اس خشص یک طرح ےہ جو غبار آلود چہرے پر غازہ پایش کر لیتا ےہ جس ےس اس اک چہرہ نکھرےن ےک جبائے اور‬
‫دھندال جاات اور اکلک زدہ سا ہوجاات ےہ۔‬

‫تعایل ےن جہاں ظاہری لباس کو وجہ زینت• بتالای ےہ تو وہںی لباس تقوی یک‬
‫ایس ےیل ہللا ٰ‬
‫اہمیت کو بھی اجاگر کیا ےہ جس اک تعلق انسان ےک ابطن ےس ےہ۔‬
‫[ يٰبَيِن ْ ٓ ٰا َد َم قَدْ َا ْن َزلْنَا عَلَ ْيمُك ْ ِل َب ًاسا ي ُّ َوا ِر ْي َس ْو ٰا ِتمُك ْ َو ِريْشً ا َۭو ِل َب ُاس التَّ ْق ٰوى ۙ ٰذكِل َ َخرْي ٌ ۭ ٰذكِل َ ِم ْن ٰايٰ ِت اهّٰلل ِ ل َ َعل َّهُ ْم ي َ َّذكَّ ُر ْو َن ][األعراف‪]26‬‬

‫’’اے بین آدم(انسانو)! ہم ےن متہارے ےیل لباس ااترا ےہ جو متہاری رشم وایل چزیوں کو بھی چھپائے اور زینت اک ابعث بھی ہو‪،‬‬
‫اور لباس تقوی (دل مںی خشیت ا ٰلہی) یہ بہت بہرت ےہ‪ ،‬یہ ہللا یک نشانیوں مںی ےس ےہ اتکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘‬

‫گوای دل مںی جعب‪ ،‬کرب و غرور اور ظاہر ی حسن اک پندار اور ھگمنڈ نہ ہو‪ ،‬بلکہ ہللا اک خوف ہو جو انسان کو بہکنے اور‬
‫بھٹکنے ےس حمفوظ رکےھ۔ نیب صیل ہللا علیہ وسمل اک فرمان گرامی ےہ‪:‬‬

‫’اَل یَدْ خ ُُل الْ َجنَّ َۃ َم ْن اَک َن یِف قَلْ ِبہٖ ِمثْ َق ُال َذ َّر ٍۃ ِم ْن کِرْب ٍ ‘‬

‫’’وہ خشص جنت مںی نہںی جائے گا جس ےک دل مںی ذرہ برابر بھی تکرب ہوگا۔‘‘‬

‫نیب صیل ہللا علیہ وسمل اک یہ فرمان سن کر ایک خشص ےن پوچھا‪:‬‬

‫ون ثَ ْوبُہُ َح َسنًا َو ن َ ْعلُہُ َح َسنَ ًۃ‘‬


‫’ َّن َّالر ُج َل حُی ِ ُّب َأ ْن یَ ُک َ‬
‫ِإ‬
‫’’ایک آدمی یہ پسند کرات ےہ کہ اس اک لباس اچھا ہو اور اس یک جویت اچھی ہو (کیا یہ بھی کرب ےہ؟۔‘‘)‬

‫رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’ َّن اہّٰلل َ مَج ِ ی ٌل حُی ِ ُّب الْ َج َما َل‪َ ،‬ا ْل ِکرْب ُ ب َ ْط ُرالْ َح ِّق َومَغ ْ طُ النَّ ِاس‘‬
‫ِإ‬
‫تعایل خوب صورت ےہ‪ ،‬خوب صوریت کو پسند کرات ےہ۔ کرب (غرور) تو حق اک اناکر کران اور لوگوں کو حقریمسھجنا‬ ‫’’ہللا ٰ‬
‫ےہ۔‘‘[‪]40‬‬
‫یعین اچھا لباس پہن کر خوب صوریت اختیار• کران تو ہللا کو پسند ےہ کیونکہ وہ خود‬
‫ِ‬
‫(خلعت فاخرہ) پہن کر اس پر اتراان‪ ،‬اکڑان اور کرب و غرور اک اظہار ابیں طور کران کہ اس‬ ‫‪ ‬خوب صورت ےہ۔ البتہ اچھا لباس‬
‫کو حق یک ابت بتالیئ جائے تو اپین ااننیت مںی اس اک اناکر کر دے اور اےنپ ےس مک تر رتبوں ےک لوگوں کو حقری مسھجے‪ ،‬یہ کرب‬
‫ےہ جو ہللا کو انپسند ےہ۔‬

‫ایک اور حدیث مںی ہللا ےک رسول صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’کُون ُوا ِع َبا َد اہّٰلل ِ ِاخ َْوااًن ‪َ ،‬الْ ُم ْسمِل ُ َأخُو الْ ُم ْسمِل ُ ‪ ،‬اَل ی َ ْظ ِل ُمہُ‪َ ،‬واَل خَی ْ ُذلُہُ‪َ ،‬واَل حَی ْ ِق ُر ُہ‪ ،‬التَّ ْق ٰوی ٰھھُنَا‪َ ،‬وی ُِش ُری یٰل َصدْ ِر ٖ•ہ ثَاَل َث ِم َرا ٍر‪ ،‬حِب َ ْس ِب‬
‫ِإ‬
‫ا ْم ِر ٍء ِم َن الرَّش ِّ َأ ْن حَی ْ ِق َر َأخَا ُہ الْ ُم ْسمِل َ …احلدیث‘[‪]41‬‬
‫’’ہللا ےک بندو! بھایئ بھایئ ہو جائو۔ مسلامن مسلامن اک بھایئ ےہ‪ ،‬اس پر نہ ظمل کرے‪ ،‬نہ اس کو (مدد ےک وقت) ےب ایرو مدد‬
‫تقوی یہاں ےہ‪،‬‬ ‫تقوی یہاں ےہ‪ٰ ،‬‬ ‫گار چھوڑے اور نہ اس کو حقری مسھجے۔ اور اےنپ سینے یک طرف تنی مرتبہ اشارہ کرےک فرماای‪ٰ :‬‬
‫تقوی یہاں ےہ‪ ،‬یعین دل (سینے) مںی۔ آدمی ےک برا ہوےن ےک ےیل یہی ابت اکیف ےہ کہ وہ اےنپ مسلامن بھایئ کو حقری مسھجے۔‘‘‬ ‫ٰ‬
‫ایک اور حدیث مںی فرماای‪:‬‬

‫’ َّن اہّٰلل َ اَل ی َ ْن ُظ ُر یٰل َْأج َسا ِدمُک ْ َواَل یٰل ُص ُو ِرمُک ْ‪َ ،‬و ٰل ِک ْن ی َ ْن ُظ ُر یٰل قُلُو ِبمُک ْ َوَأشَ َار اِب َ َصا ِب ِع ٖہ یٰل َصدْ ِر ٖہ َویِف ِر َوای َ ٍۃ َوَأمْع َ ا ِلمُک ْ ‘[‪]42‬‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫تعایل متہارے جسموں اور متہاری صورتوں کو نہںی دیکھتا‪ ،‬وہ تو متہارے دلوں کو (اور اےنپ ہاتھوں ےس اےنپ سینے یک طرف‬‫’’ہللا ٰ‬
‫اشارہ فرماای) اور متہارے معلوں کو دیکھتا ےہ۔‘‘‪،‬‬

‫مرد رات اک بیشرت حصہ ھگر مںی گزارے‬


‫حرضت عبدہللا بن معرو‪ ‬ریض ہللا عنہام‪ ‬یک اببت پےلہ گزرا کہ وہ ساری رات قیام کرےت اور دن کو روزہ رکھتے تےھ‪ ،‬نیب صیل‬
‫ہللا علیہ وسمل ےک عمل مںی یہ ابت آیئ تو آپ ےن ان ےس فرماای‪:‬‬

‫َ’وَأِل ْھ ِل َک عَلَ ْی َک َحقًّا‘[‪]43‬‬


‫’’تریے ھگر والوں (بیوی) اک بھی تھج پر حق ےہ۔‘‘‬

‫اس ےس معلوم ہوا کہ قیام اللیل رات کو (ہللا یک عبادت کران) بال شبہ بہت فضیلت والا معل ےہ لیکن رات کو بیوی ےک‬
‫حقوق کو نظر انداز کرےک اگر قیام کیا جائے گا تو یہ پسندیدہ امر نہںی ہوگا۔ ایس طرح اگر کویئ مرد راتوں کو اپنا وقت‬
‫دوستوں ےک ساتھ گپ شپ مںی ای ایس طرح یک دیگر رس گرمیوں مںی گزارات ےہ اور رات کو دیر ےس ھگر مںی آات ےہ تو یہ‬
‫بھی بیوی یک حق تلفی ےہ اور حسن معارشت ےک بھی منایف ےہ۔‬

‫سن معارشت اک تقاضا ےہ کہ مرد سارادن ھگر ےس ابہر گزارےن ےک بعد رات اک وقت بیوی ےک پاس گزارے اور اس یک‬ ‫ُح ِ‬
‫ددلاری و دجلویئ اک اہامتم کرے۔ سارے دن یک جدایئ ےک بعد رات کو بھی عورت کو انتظار ےک کرب انگزی حملات گزارےن پر‬
‫جمبور کران کیس حلاظ ےس بھی مستحسن اور پسندیدہ• نہںی ےہ۔‬

‫میاں بیوی ےک درمیان راز یک ابتںی دوستوں مںی بیان نہ یک جائںی‬


‫بہت ےس نوجوان اےنپ دوستوں یک حمفل مںی تنہایئ اور راز یک ابتںی مزے ےل ےل کر بیان کرےت ہںی جو ان ےک اور ان یک‬
‫بیویوں ےک درمیان ہویت ہںی‪ ،‬ابخلصوص شب زفاف (شادی یک پہیل رات یک) ابتںی۔ یہ رشع ًا انپسندیدہ امر ےہ اور اس پر‬
‫خست وعید• وارد ےہ۔‬

‫‪ ‬نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’ َّن ِم ْن َأرَش ِّ النَّ ِاس ِع ْندَ اہّٰلل ِ َمزْن ِ ل َ ًۃ ی َ ْو َم الْ ِق َیا َم ِۃ‪َّ ،‬الر ُج ُل ی ُ ْفیِض ْ یٰل ا ْم َرَأ ِت ِۃ َوتُ ْفیِض ْ ل َ ْیہِ مُث َّ یُن ْرُش ُ رِس َّ َھا‪َ ،‬ویِف ِر َوای َ ٍۃ‪َّ :‬ن ِم ْن َأع َْظ ِم اَأْل َمان َ ِۃ‬
‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬ ‫ِإ‬
‫َأ ْی َأع َْظ ِم ِخ َیان َ ِۃ اَأْل َمان َ ِۃ‪ِ ،‬ع ْندَ اہّٰلل ِ …‘‬

‫’’قیامت ےک دن ہللا ےک ہاں لوگوں مںی سب ےس زایدہ بدتر درےج والا (دورسی روایت ےک الفاظ ہںی) امانت مںی سب ےس‬
‫زایدہ بڑی خیانت کرےن والا ‪ ،‬وہ خشص ہوگا جو اپین بیوی ےک پاس جاات اور وہ اس ےک پاس جایت ےہ (دونوں ہم بسرتی‬
‫کرےت ہںی) پھر وہ خشص اپین بیوی یک راز یک ابتںی پھیالات( دوستوں مںی بیان کرات) ےہ۔‘‘[‪]44‬‬
‫بیوی ےک راز افشا کرےن اک مطلب ےہ‪ ،‬ہم بسرتی ےک وقت میاں بیوی ایک دورسے ےک ساتھ جو پیار حمبت یک ابتںی کرےت‪،‬‬
‫ایک دورسے کو جنیس تذلذ پر آمادہ کرےن ےک ےیل جو حرکتںی کرےت اور اس خصویص معل ےس جو ذلت حاصل کرےت ہںی‪،‬‬
‫ان کیفیات کو بیان کران۔ اس یک ممانعت مںی کیئ حمکتںی ہںی‪:‬‬

‫(‪)1‬یہ ےب حیایئ یک ابتںی ہںی‪ ،‬ان ےس ےب حیایئ کو فروغ ملتا ےہ۔‬


‫(‪ )2‬بیوی ےک حسن و جامل اور اس یک انز نینانہ ادائوں اور حمبوابنہ مغزوں اور عشووں ےک بیان کرےن مںی خطرہ ےہ کہ اس‬
‫ےک دوست‪ ،‬یہ ابتںی سن کر اس ےک رقیب بن جائںی اور اس یک دلراب بیوی سب ےک ےیل فتنہ اور آزمائش بن جائے۔‬

‫(‪)3‬اوراگر بیوی اس ےک برعکس ہو‪ ،‬یعین خوب رو نہ ہو تو اس یک برائیاں ای اس ےک ابرے مںی انخوشگوار تأثرات یہ حسن‬
‫معارشت ےک منایف ےہ۔ دوستوں مںی ان ابتوں ےک بیان کرےن یک وجہ ےس یہ ابتںی دونوں خاندانوں مںی بلکہ دوستوں ےک‬
‫ھگرانوں مںی‬

‫‪ ‬پھیلںی گی جس ےک اثرات اےھچ نہںی ہوں ےگ۔‬

‫یہی حمک عورت ےک ےیل بھی ےہ کہ وہ خلوت یک ان ابتوں کو اپین سہیلیوں• مںی بیان نہ کرے۔‬

‫بیوی کو دیین تعلامیت ےس آگاہ کیا جائے‬


‫حسن معارشت اک ایک حصہ یہ ےہ کہ جس طرح بیوی ےک ےیل اپین طاقت ےک مطابق دنیوی آسائشںی اور سہولتںی مہیا کرے‪،‬‬
‫ایس طرح خاوند اس ابت اک بھی اہامتم کرے کہ بیوی یک آخرت یک زندگی بھی بہرت ہو۔ اور آخرت یک زندگی اک سنوران‬
‫منحرص ےہ اسالمی تعلامیت پر معل کرےن مںی۔ اور معل تب ہی ہوگا جب اس کو دیین تعلامیت ےس آگاہی اور ان پر معل کرےن‬
‫اک جذبہ ہوگا۔‬

‫بنا بریں مرد یک ذےم داری ےہ کہ وہ عورت یک دیین تعلمی و تربیت اک بھی اہامتم کرے اور دین پر معل کرےن اک جذبہ بھی اس‬
‫ےک اندر پیدا کرے۔ اگر بیوی اس مںی کواتہی کرے تو اس پر خسیت کرے اور دین پر معل کروائے اتکہ اس یک آخرت برابد نہ‬
‫ہو۔‬

‫عالوہ ازیں اس یک دین داری یک وجہ ےس اس یک گود مںی پلنے وایل اوالد بھی دین دار ہوگی‪ ،‬بصورت دیگر اوالد یک بھی ےب‬
‫راہ روی اک شدید خطرہ ےہ۔‬

‫تعایل ےن اہل امیان کو یہ حمک دای ےہ‪:‬‬


‫ایس ےیل ہللا ٰ‬
‫[ آٰي َهُّي َا اذَّل ِ ْي َن ٰا َمنُ ْوا قُ ْوٓا َانْ ُف َسمُك ْ َو َا ْه ِل ْيمُك ْ اَن ًرا َّوقُ ْو ُد َها• النَّ ُاس َوالْ ِح َج َارةُ][التحرمی‪]66‬‬

‫’’اے امیان والو! مت اےنپ آپ کو بھی اور اےنپ ھگر والوں (اہل) کو بھی اس آگ ےس چبائو جس اک ایندھن لوگ اور پتھر ہںی۔‘‘‬

‫ایس حمک مںی مناز یک پابندی بھی شامل ےہ‪ ،‬یعین بیوی بےچ اگر مناز مںی سسیت کرےت ہوں تو‬

‫تعایل ےن اےنپ پیغمرب کو حمک دای‪:‬‬


‫انھںی خسیت ےس مناز پڑےنھ یک تلقنی کرے۔ ہللا ٰ‬
‫َ[و ْا ُم ْر َا ْهكَل َ اِب َّلص ٰلو ِة َو ْاص َطرِب ْ عَلَهْي َا ٰ‬
‫][طہٰ‪]132‬‬

‫’’اےنپ اہل خانہ کو مناز اک حمک دیں اور اس پر مضبوطی ےس قامئ رہںی۔‘‘‬

‫اور نیب صیل ہللا علیہ وسمل اک فرمان گرامی ےہ‪:‬‬


‫’ ُم ُروا َأ ْواَل َدمُک ْ اِب َّلصاَل ِۃ َو ُھ ْم َأبْنَا ُء َس ْبع ِ ِس ِن َنی َوارْض ِ بُو ُھ ْم عَلَ ْیہَا َو ُھ ْم َأبْنَا ُء َعرْش ِ ِس ِن َنی َوفَ ِّرقُوا بَیْنَہُ ْم یِف الْ َمضَ اجِ عِ‘[‪]45‬‬

‫’’مت اپین اوالد کو ‪ ،‬جب کہ وہ سات سال یک ہوجائے‪ ،‬مناز اک حمک دو اور جب وہ دس سال یک ہوجائے (اور وہ منازمںی سسیت‬
‫کرے) تو اس پر اس یک رسزنش کرو‪ ،‬اور(اس معر مںی) ان ےک بسرت ایک دورسے ےس الگ کردو۔‘‘‪،‬‬

‫ھگر ےس ابہر جاےن یک اجازت دے‪ ،‬مگر…‬


‫حسن معارشت مںی یہ بھی شامل ےہ کہ خاوند بیوی کو ھگر ےس حسب رضورت ابہر نلکنے یک اجازت دے‪ ،‬اس مںی بالو جہ‬
‫قدغنںی نہ لگائے۔ جےسی بعض لوگ بیوی کو اس ےک رشتے داروں ےک پاس جاےن ےس روکتے ہںی‪ ،‬بعض ھگر ےس ہی نہںی نلکنے‬
‫دےتی‪ ،‬بعض مسجدوں مںی جاےن ےس روکتے ہںی۔ یہ سب ابتںی حسن معارشت ےک منایف ہںی۔ جب رشیعت ےن یہ پابندایں عائد‬
‫نہںی یک ہںی تو کیس اور کو اس اک حق کس طرح حاصل ہوسکتا ےہ؟‬

‫البتہ یہ رضوری ےہ کہ عورت بال وجہ ھگر ےس ابہر نہ ھگومیت پھرے اور اگر کیس رضورت یک وجہ ےس ابہر جاان پڑے تو‬
‫رشیعت ےک حمک ےک مطابق سادگی اور پردے ےس ابہر جائے۔ بعض عورتںی پردے اور سادگی یک اہمیت کو نہںی مسھجتںی اور‬
‫ےب پردہ بلکہ نمی عرایں ہو کر ھگر‬

‫ےس نلکیت ہںی۔ مرد یک ذےم داری ےہ کہ اییس ےب پردہ اور فیشن ایبل عورت کو خسیت ےس پردے اک پابند بنائے اور اس کو‬
‫اس حدیث اک مصداق بننے ےس روےک جس مںی رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن بہت یس عورتوں کو ’’لباس پہننے ےک ابوجود•‬
‫عرایںو قرار دای اوران• یک اببت جہمن یک وعید بیان فرمایئ۔ یہ حدیث ممکل الفاظ مںی پےلہ گزر چکی ےہ۔‬

‫ھگر ےک اندر بھی عورت یک حفاظت کرے‬


‫اس اک مطلب یہ ےہ کہ ھگر مںی اےسی لوگوں کو آےن یک اجازت نہ دے جن ےس عورت یک عزت کو خطرہ ہو اور نہ وہ خود‬
‫اےسی دوستوں کو ھگر مںی ال کر ھگنٹوں بٹھائے رکےھ جس ےس اس قسم ےک خطرات پیدا ہوں۔ ایس طرح قرییب رشتے داروں ےک‬
‫نوجوان چبوں کو بال حمابہ ھگر مںی آےن جاےن یک اجازت نہ دی جائے‪ ،‬حیت کہ رشیعت ےن دیور اور جیٹھ• تک ےس پردہ کرےن یک‬
‫اتکید یک ےہ۔ ایک حدیث• مںی رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن فرماای‪:‬‬

‫’ اَّی ْمک َوادلُّ خُو َل عَیَل النِّ َسا ِء فَ َقا َل َر ُج ٌل ِم َن اَأْلن َْص ِار‪ :‬اَی َر ُسو َل اہّٰلل ِ ! َأفَ َرَأیْ َت الْ َح ْم َو؟ قَا َل‪َ :‬الْ َح ْم ُو الْ َم ْو ُت‘[‪]46‬‬
‫ِإ‬
‫’’عورتوں ےک پاس جاےن ےس اجتناب کرو۔ ایک انصاری ےن پوچھا‪ :‬خاوند ےک قرییب رشتے دار (دیور‪ ،‬جیٹھ• وغریہ) ےک ابرے‬
‫مںی وضاحت فرما یئے۔ آپ ےن فرماای‪ :‬خاوند اک قرییب رشتے دار(دیور• ‪ ،‬جیٹھ وغریہ)تو موت ہںی۔‘‘‬

‫’’محو‘‘ عریب مںی خاوند ےک نہایت قرییب رشتے دار ےک ےیل استعامل ہوات ےہ‪ ،‬اس ےیل اکرث لوگ اس اک ترمجہ دیور‪ ،‬جیٹھ کر‬
‫دےتی ہںی۔ بالشبہ قرییب رشتے داروں مںی سب ےس پےلہ خاوند ےک حقیقی بھایئ ہی آےت ہںی لیکن اس لفظ مںی وسعت ےہ۔‬
‫اس مںی حقیقی‬

‫‪ ‬بھائیوں ےک عالوہ اس ےک چچا زاد ‪ ،‬ماموں زاد‪ ،‬پھوپی زاد‪ ،‬اور خواہر زاد (بھانےج) سب آجاےت ہںی جن سب ےک ےیل آج لک‬
‫کزن اک لفظ استعامل کیا جاات ےہ۔رشیعت اسالمیہ مںی ایک عورت ےک ےیل یہ سب غری حمرم ہںی جن ےس پردہ کرےن اک حمک‬
‫ےہ۔ لیکن ہامرے معارشے مںی ان ےس پردے اک رواج نہںی ےہ‪ ،‬سوائے چند ھگرانوں ےک بیشرت ھگروں مںی اس پر معل نہںی کیا‬
‫جاات‪ ،‬جس یک وجہ ےس بعض دفعہ عورت فتنے• اک شاکر ہوجایت ےہ اور ایسا اکم کر بیٹھیت ےہ جس یک زسا رمج (سنگساری)‬
‫ےہ۔ ایس ےیل رسول ہللا صیل ہللا علیہ وسمل ےن دیور ‪ ،‬جیٹھ• اور کزنوں کو موت ےس تعبری فرماای ےہ۔‬

‫اس ےیل مرد یک ذےم داری ےہ کہ ھگر ےک اندر ھگر مںی ساتھ رےنہ واےل بھائیوں اور ھگر مںی آےن جاےن واےل کزنوں پر نظر‬
‫رکےھ اور جہاں تک ہوسکے پردے اک اہامتم کرے اتکہ کیس قسم یک انخوشگوار صورت حال ےس دو چار نہ ہوان پڑے۔‬

‫ایس طرح ھگروں مںی اےسی لوگوں کو بھی داخلے یک اجازت نہ دی جائے جو ےب حیایئ یک ترغیب دینے واےل ہوں۔ جےسی خمنّث•‬
‫(ہیجڑے) وغریہ۔ نیب صیل ہللا علیہ وسمل ایک مرتبہ اپین اہلیہ حرضت ام سلمہ ریض ہللا عنہا ےک ھگر پر تےھ۔ ھگر مںی ایک‬
‫خمنّث بھی تھا‪ ،‬وہ حرضت ام سلمہ ےک بھایئ عبدہللا بن ایب امیہ ےس کےنہ لگا‪ :‬اگر لک کو ہللا ےن متہارے ےیل طائف کو فتح‬
‫کروادای تو مںی متہںی وہاں رہائش پذیر غیالن یک بییٹ بتالئوں گا جو مویٹ اتزی ےہ‪ ،‬چلتے وقت اس ےک جسم مںی آےگ پیےھچ اتنے‬
‫اتنے بَل پڑےت ہںی۔ نیب صیل ہللا علیہ وسمل ےن اس ےک یہ الفاظ سنے تو فرماای‪:‬‬

‫’اَل یَدْ ُخلَ َّن ٰھ َذا عَلَ ْیمُک ْ ‘‬

‫حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪5235 :‬‬


‫’’یہ متہارے ھگروں مںی داخل نہ ہوں۔‘‘‬

‫عورت یک خدمات اک اعرتف کرے‬


‫حسن معارشت ےک تقاضوں کو پورا کرےن ےک ےیل رضوری ےہ کہ مرد عورت یک ان خدمات اک اعرتاف کرے جو ایک عورت‬
‫ھگر ےک اندر رہ کر شب و روز رس اجنام دییت ےہ۔ جےسی‪:‬‬

‫‪            ‬ھگر یک صفایئ‬

‫‪            ‬کھاان پاکان اور انواع و اقسام یک ہانڈایں تیار کران۔‬

‫‪            ‬افراد خانہ ےک کپڑے دھوان۔‬

‫‪            ‬چبوں یک خرب گریی کران‪ ،‬ان یک خوراک وغریہ اک خیال رکھنا۔‬

‫‪            ‬آئے گئے مہامنوں یک خاطر تواضع کران۔‬

‫‪            ‬خاوند یک خدمت اور اس یک خواہش پوری کران۔‬

‫‪            ‬سلیقہ مندی اور سھگڑ پن ےس ھگر اکا انتظام چالان۔‬

‫‪            ‬رشتے داریوں اور ان ےک تقاضوں کو نبھاان۔‬

‫‪            ‬شادی شدہ بیٹیوں اور بیٹوں ےک چبوں اک خیال رکھنا۔‬


‫‪            ‬مستقبل یک منصوبہ بندی اور اس کو اےنپ ےیل اور پورے کنبے ےک ےیل زایدہ ےس زایدہ روشن بناےن یک ٔ‬
‫سعی پیہم اور‬
‫جہ ِدمسلسل کران‪ ،‬وغریہ وغریہ۔‬

‫ایک کتاب ےک فاضل مؤلف یک رصاحت‬


‫ایک کتاب ےک فاضل مؤلف ےن عورت یک خدمات اک بڑے مؤثر انداز مںی تذکرہ کیا‪  ‬ےہ‪ ،‬اس یک افادیت ےک پیش نظر ہم اےنپ‬
‫قارئنی یک خدمت مںی اےس پیش کرےت ہںی۔‬

‫’’بعض اندان لوگ مسھجتے ہںی کہ عورت اک خانگی اور ھگریلو اکم آسان ہوات ےہ۔ لہٰذا دن بھر رصف انہی اکموں ےک ےیل فارغ‬
‫رہنا ایسا رضوری نہںی ےہ۔ یہ گامن جہالت پر مبین ےہ اس ےیل کہ چبوں یک تربیت جییس اہم ذےم داری جب تک عورت ےک‬
‫اکندےھ پر ہویت ےہ اس ےک ےیل فرصت رضوری ےہ اتکہ اپین ذےم داری کو حدیث مںی بتائے ہوئے طریقہ ےک مطابق نباےنہ ےک‬
‫ےیل اےس کچھ پڑےنھ اور بکرثت مشاہدے اک موقع ےلم۔ مزید برآں اےس اپنا ذہن یکسو اور دل کو مطمنئ رکھنے ےک ےیل بھی‬
‫وقت دراکر ہوات ےہ اتکہ اےسیزوردار‪ ‬ثر احساس اور تزی جذےب ےس حمفوظ ہو جس اک راست اثر پیٹ ےک اندر ای دودھ پینے‬
‫واےل بےچ پر پڑات ےہ اور بد ترین اندیشہ سامنے آات ےہ۔ عمل نفسیات ےک جترے اور مشاہدے ےس اس اک ثبوت ملتا ےہ۔ ڈاکرٹ‬
‫محمد حسنی لکھتے ہںی‪:‬‬

‫’’یہ ایک واحض حقیقت ےہ کہ عورت اک پہال اکم یعین چبہ پیدا کران اور نسل انساین یک حفاظت کران ایسا معل ےہ کہ اس ےک‬
‫عالوہ کویئ اور اجنام نہںی دے سکتا۔ مرد ےک جسامین اعضاء یک بناوٹ پیٹ مںی چبہ پالنے ای دودھ پالےن ےک الئق ہرگز نہںی‬
‫ہویت۔ اب اگر عورت کو شدت ےس اکم مںی جوڑ دای جائے تو ظاہر ےہ اس ےک دل و دماغ اور اعصاب پر اس اک اچھا اثر‬
‫مرتب نہںی ہوگا۔‬

‫نزی یہ بھی ےط شدہ حقیقت ےہ کہ اس قسم ےک گہرے اثرات عورت ےک دل ےس ہو کر محل یک حالت مںی رےنہ واےل پیٹ ےک‬
‫بےچ پر براہ راست پڑےت ہںی ایس طرح شری خوار• چبہ بھی ان اثرات ےس کیس طرح خود کو نہںی چبا سکتا۔ مورویث اثرات ےک‬
‫بعض ماہرین یہاں تک کےتہ ہںی کہ ماں اور ابپ پر جو حالت ای کیفیت جنیس مالپ ای (ماں پر) محل ےک دوران طاری ہویت‬
‫ےہ اس اک متام تر اثر بےچ یک عادت‬

‫‪ ‬اور طبیعت پرپڑات ےہ جن عورتوں کو محل یک مشقت اٹھاین پڑیت ےہ ‪ ،‬پیٹ ےک اندر بےچ یک حفاظت اور پیدائش ےک بعد ان‬
‫یک تربیت اور نگہداشت جن ےک ذمہ عائد ہویت ےہ‪ ،‬اییس متام خواتنی ےک ےیل رضوری ےہ کہ اعصایب ہیجان ےس دور رہںی‬
‫اور کویئ مشقت اک ایسا اکم نہ کریں جس ےس عضالت اور دماغ خست تاکن اک شاکر ہوجائے۔ ورنہ اس ےک اثرات زیر پرورش‬
‫پیٹ ےک بےچ ای شری خوار• پر گہرے اور بد ترین پڑیں ےگ اور اتدیر ابیق رہںی ےگ۔ ظاہر ےہ اس ذمہ داری کو سنبھالنا بھی اہم‬
‫فریضہ اور‪ ‬جانگسل‪ ‬مشغلہ ےہ جس مںی نسل انساین یک بقا افزائش اور تریق مضمر ےہ۔ اس مرحلہ ےس عہدہ بر آ ہوےن ےک‬
‫بعد یہ بھی رضوری ےہ کہ اہلیہ اےنپ چبوں پر اکمل توجہ رصف کرےن ےک ےیل پوری طرح فرصت ےس رےہ‪ ،‬اےنپ جسم‪ ،‬عقل‬
‫اعیل تعلمی اور اخالق اورنیک کردار اک بیج بو‬
‫اور اپین عادات و اطوار کو اس طرح قابو مںی رکےھ کہ تندہی ےس ان چبوں مںی ٰ‬
‫سکے اور بری عادت ےس انھںی چبا سکے۔ اور یہ اکم ایک دو ابر حمک دینے ای منع کرےن ےس نہںی ہوگا بلکہ اس ےک ےیل مسلسل‬
‫نگراین کڑی توجہ اور پوری دیکھ بھال رضوری ےہ اتکہ چبوں ےک اندر یہ صالحیتںی راخس ہوجائںی۔‬

‫چبوں کو کیس غلط اکم پر ےپ در ےپ ٹوکنا اور مسلسل اس ےک ےیل بیدار ہوان بھی طبیعتوں مںی غلط چزی راخس ہوےن ےس‬
‫حفاظت اکسبب بنتا ےہ۔ یہ نگراین جس ےس اگر غفلت نہ بریت گیئ‪ ،‬صرب اور اثبت قدمی ےس اس پر معل کیا گیا اور کیس قسم‬
‫یک اکتاہٹ روا نہ رکھی گیئ تو اس مںی شک نہںی کہ چبوں اور چبیوں مںی غلط افاکر• جڑ پکڑےن ےس پےلہ اکمل طریقہ ےس ان‬
‫یک بیخ کین ہوگی اور ان اک عالج مشلک نہ ہوگا۔‬

‫اور اگر کویئ یہ کےہ کہ چبہ رصف محل ای شری خوارگی ےک دوران ہی اپین ماں ےک اثرات کو قبول کرات ےہ اور اس ےس ربط قامئ‬
‫رکھتا ےہ‪ ،‬تو ظاہر ےہ یہ نظریہ انسان کو حیوان یک صفت مںی کھڑا کر دینے ےک مرتداف ےہ۔ اس ےیل کہ یہ انسان یک‬
‫خصوصیت• ےہ کہ وہ غذایئ پرورش ےک ذریعہ ہی نہںی بلکہ اخالیق اور ذہین نگہداشت اور پرورش ےک ذریعہ بھی اےنپ‬
‫اوصاف کو بےچ ےک اندر منتقل کرات ےہ۔ جب کہ حیوان اس جوہر ےس یکرس خایل ہوات ےہ۔ انساین تریق اورحیوانوں• ےس اس‬
‫ےک افضل ہوےن اک یہ بھی ایک سبب ےہ۔ اس طریقہ ےس نیئ نسلںی اپین پیش رو نسلوں ےس جترےب حاصل کریت ہںی عمل و‬
‫آگہی اک سبق سیکھیت ہںی جس ےس وہ اپنا فرض کام حقہ اجنام دےتی ہںی۔ اور جترےب کرےن مںی جو وقت اور حمنت رصف‬
‫ہویت ےہ انھںی اس ےس جنات مل جایت ےہ۔‬

‫اور اگر کیس عورت ےن خود ان اکموں کو اجنام دینے یک جبائے اےنپ چبوں یک نگہداشت اور پرورش ےک ےیل اےنپ نوکروں اور‬
‫خادموں پر اعامتد کیا‪ ،‬تو ان یک تریق رک جائے گی۔ کیونکہ ماں جس قدر توجہ اور رس گرمی ےس اےنپ چبوں ےک ےیل وقت‬
‫رصف کر سکیت ےہ‪ ،‬جتنے اخالص اور درد مندی ےس وہ اکم کر سکیت ےہ‪ ،‬اس‪ ‬اک سواں‪ ‬حصہ بھی اس ےک عالوہ کیس اور‬
‫مںی نہںی پاای جا سکتا کیونکہ ماں ےک اخالص اور پرورش یک شدید خواہش ےک پیےھچ اس ےک ممتا بھرے جذابت ہوےت ہںی اور‬
‫اس معاملہ مںی نوکروں اور ماحتتوں پر اعامتد کرےن ےس تربیت اور پرورش اک وہ پہال معیار قطع ًا برقرار نہںی رہ سکتا۔ خواہ‬
‫اعیل درےج یک خدمت یل جائے۔ خواہ تریق اور کامل ےک ےیل بڑے ےس بڑا وسیلہ اختیار• کیا جائے اور ان‬‫نوکروں ےس کتین ہی ٰ‬
‫خیانتوں اور سسیت اورغفلت ےس رصف نظر کیا جائے‪ ،‬جس اک نوکروں یک طرف ےس روز مرہ یک زندگی مںی ابرہا مشاہدہ کیا‬
‫جاات ےہ۔‬

‫اور آج جو دفاتر مںی اکم کرےن وایل مائوں ےن اپنا دودھ پالےن یک جبائے مصنوعی طریقہ استعامل مںی الان رشوع کر رکھا ےہ‬
‫ہامری نظر مںی یہ امانت مںی خیانت ‪،‬حدود ےس جتاوز اور سنت ا ٰلہیہ کو بگاڑ دینے ےک مرتداف ےہ۔ اس ےیل کہ ہللا ےن‬

‫عورت کو چھایت اس ےیل نہںی دی کہ انئٹ لکبوں میںاس اک مظاہرہ کیا جائے اور سڑکوں اور شاہراہوں پر اےنپ حسن و جامل یک‬
‫منائش یک جائے۔ بلکہ اس یک ختلیق اک اصل مقصد یہی شری خوارگی ےہ پھر شری خوارگی اک یہ معل رصف ایک عضو اک استعامل‬
‫نہںی ےہ بلکہ اس ےک پیےھچ شفقت مادری اور مضبوط عہد و پامین اک رشتہ ہوات ےہ اور آج شری خوارگی ےک ان مصنوعی‬
‫طریقوں کو دیکھ کر یہ اندیشہ ہوات حمسوس ےہ کہ خدا خنواستہ مستقبل مںی اےسی طریقے نہ اجیاد کر ےیل جائںی جن مںی مرد ےک‬
‫نطفہ کو ماں ےک رمح ےس ہٹا کر کہںی اور اس یک پرورش یک جائے اتکہ عورت کو محل یک مشقت اور خوبصوریت ےک زائل ہوےن‬
‫اک اندیشہ نہ رےہ۔‬

‫اس صدی ےک آغاز مںی اٹھنے وایل تعلمی نسواں یک حتریک ابتدا مںی بکرثت اس ابت اک پروپیگنڈہ• کریت تھی کہ چبوں یک بہرت تعلمی‬
‫و تربیت ےک ےیل یہ رضوری ےہ کہ عورت خود بھی تعلمی و تربیت ایفتہ ہو۔ لیکن جب عورت زیور تعلمی ےس آراستہ ہویئ تو‬
‫یہ حتریک اپنا پچھال پروپیگنڈہ• خود بھول گیئ ای بھال دی گیئ۔ اور اب وہ یہ کےنہ لگے کہ عورت مرد ےک شانہ بشانہ مردوں یک‬
‫طرح خود بھی اکم کرے۔ ظاہر ےہ ان اک یہ معل ان ےک پچھلے پروپیگنڈے ےک اندر موجود کھوٹ یک غامزی کرات ےہ اور پتہ‬
‫چلتا ےہ کہ اس پروپیگنڈے اور مشن ےک پیےھچ کون ےس اغراض و مقاصد اکر فرما تےھ جو ان ےک قول و فعل ےک تضاد اک‬
‫ابعث بنے۔‬

‫عالوہ ازیں ہم چاہںی توعورتوں اور خود اےنپ آپ ےک دمشن ان لوگوں کو جنھںی اخبارات اور رساےل عورتوں ےک انم نہاد حامی‬
‫اور معاون لکھتے آرےہ ہںی یہ کہہ سکتے ہںی کہ دیکھو! عورت حمنت یک عادی نہںی نہ اےسی متام اکموں کو وہ اجنام دے سکیت ےہ‬
‫جنھںی مرد کرےن یک سکت رکھتا ےہ۔ کیونکہ تکویین طور پر عورت مہینہ مںی مک و بیش ایک ہفتہ حیض ےس ہویت ےہ۔ یہ‬
‫حالت قریب قریب مرض یک حالت ےہ۔ جس ےک حتت عورت روز مرہ ےک بہت سارے اکم حسب معمول اجنام نہںی دے‬

‫سکیت۔ اس ےک بعد جب اےس محل ٹھہرات ےہ تو قرار محل ےک ابتدایئ دنوں مںی اےس اکیف تاکلیف اور متعدد بامیرایں آھگرییت‬
‫ہںی۔ محل ےک آخری دنوں مںی اس یک حالت کبھی اییس ہوجایت ےہ جےسی اس اک بدن ٹوٹ کر شل ہوگیا ہو۔ پھر ایک مزدور‬
‫عورت اگر غری شادی شدہ ےہ تو اس اک املیہ یہ ےہ کہ اےس مناسب شوہر یک تالش ہویت ےہ‪ ،‬وہ یہ کوشش کریت ےہ کہ اییس‬
‫ہر جگہ ےس صاف چب کرنلک جائے‪ ،‬جہاں اس یک نگاہںی خریہ اور نظریں چاک چوند ہویت ہوں۔ اور چب کر یہ نلک جاان کبھی اس‬
‫ےک ےیل نئے شوہر یک تالش ےس زایدہ خطرانک اور مشلک ہوجاات ےہ۔‬

‫عورت ےک ان دوست منا دمشنوں ےن یہ مسھج رکھا ےہ کہ عورت اک ھگر بیٹےھ رہنا اس ےک حقوق کو تلف کرےن اس یک خشصیت‬
‫کو خمت کرےن اور اس ےک وجود کو تہس نہس کر دینے ےک برابر ےہ۔ حاالنکہ جےسی زنگی کو الٹے اکفور کہاجاات‪ ‬تھاایس ےک مصداق‬
‫یہ بھی ہوگا کہ جو حمفوظ ہو جس یک خدمت یک جائے اور جس یک ایک ایک رضورت پوری یک جائے اییس ذات کو آ ٔ‬
‫زادی‬
‫نسواں جییس کتابوں ےک مصنف یک طرح ہم قیدی• اور نظر بند اک انم دینے لگںی۔ حاالنکہ یہ واقعہ ےہ کہ ایک عورت پردے ےک‬
‫پیےھچ رہ کر بھی ابعزت ‪ ،‬شان و شوکت وایل اور اےنپ شوہر پر حکومت کرےن وایل ہویت ےہ۔ اےس کیس دن یہ احساس نہںی‬
‫ہوات کہ اس ےک حقوق پامال کیے گئے ہںی ای وہ مظلوم و جمبور ےہ‪ ،‬ای قیدی• اور نظر بند ےہ ای اس یک عزت نفس داغدار اور‬
‫خشصیت جمروح ہوچکی ےہ۔ بلکہ اس قسم یک نفرت اک مظاہرہ آئے دن انھی اہل قمل لوگوں یک حتریروں ےس ہوات ےہ جو انم‬
‫نہاد ’’حقوق نسواں‘‘ اکبیرن لگا کر نلک پڑے ہںی۔ اس ذہنیت• اک شاکر رصف مرد ہںی عورتںی ان ےک ساتھ قطعی رشیک نہںی‬
‫ہںی۔ اور ان اک مقصد مرد وزن دونوں یک زندگی بگاڑےن ےک سوا کچھ نہںی ےہ۔ پھر زندگی تو در حقیقت سکون و اطمینان اک‬
‫انم ےہ جس مںی لوگ اےنپ ےیل برکت اور اثبت قدمی یک راہںی تالش کر سکںی۔ جب کہ اس انم نہاد حتریک یک پیدا کردہ‬

‫عورتوں مردوں ےک اندر اس یورش اور بغاوت یک غر ض رصف یہ ےہ کہ ان ےک اندر سکون اور چنی ےک جبائے کشمکش ‪،‬‬
‫تعایل چاہتا ےہ کہ ہر دو ےک اندر حمبت اور رأفت و رمحت پیدا ہو‪ ،‬اتکہ‬
‫اضطراب اور ےب چیین پیدا یک جائے۔ جب کہ ہللا ٰ‬
‫اکئنات یک آابد اکری اور نسل انساین یک حفاظت اور بقااک مرحلہ آسان ہو۔‬

‫حصت مند سامج یک بنیاد ہی ہمیشہ ابہم میل حمبت‪ ،‬رمح دیل اور سچایئ پر مبین ہویت ےہ۔ اتکہ سامج اک ہر فرد خویش خویش‬
‫اپنا فرض منصیب اجنام دے سکے۔ اےس کیس اکتاہٹ اور ےب چیین اک احساس نہ ہو۔ سامج یک حالت ایک جسم یک ہویت ےہ‬
‫جس اک ہر عضو اپنا اکم کرےن اور اپین ڈیویٹ پوری کرےن اک پابند ہوات ےہ۔ اگر ایک عضو بھی اےنپ فرض منصیب یک ادائیگی‬
‫ےس رک جاات ےہ تو پورا نظام بگڑ کر رہ جاات ےہ۔ یہ ہللا یک ےب عیب اور بلند ذات اببراکت ےہ جس ےن ہر چزی کو مناسب‬
‫طریقے ےس پیدا فرماای‪ ،‬پھر اےس راستہ پر لگا دای۔ ایس ےن ایک ایک فرد کو اور اکئنات ےک ذرے ذرے کو خواہ وہ حیواانت و‬
‫نبااتت ای جامدات ہوں‪ ،‬ای کویئ اور ہوں‪ ،‬غرض سب کو خاص اکموں ےک ےیل پیدا کر رکھا ےہ۔ ان ےک اندر مناسب طبیعتںی‬
‫بنایئ ہںی اور انھی اکموں اک انھںی خوگر بنا ڈالاےہ۔ ہامری موجودہ اور نیئ ےس نیئ زندگی اےنپ ہر میدان مںی بس ایس شاہراہ‬
‫پر ھگومیت ےہ عمل و حمکت اک صیغہ ہو‪ ،‬ای صنعت و حرفت اک لک پرزہ ہو۔ آج ہر پہیہ بڑی ابریکی‪ ،‬نزاکت اور صفایئ ےک‬
‫ساتھ ایس ڈگر پر ھگوم رہا ےہ جہاں اےس جوڑ دای گیا ےہ۔ عالوہ ازیں تریق و تربیت ےک جدیداصول اس ےک ےیل کوشاں ہںی‬
‫کہ حتقیق و جستجو ےک بعدچبوں اور چبیوں یک خمفی صالحیتوں• کو اجاگر کیا جائے‪ ،‬اتکہ ہر کویئ اےنپ تکویین فرائض اور‬
‫خمصوص ذمہ داریوں کو اجنام دے سکے۔ جب دیگر عنارص ےک ےیل اس قسم یک ختصیص اور مناسب اکرکردگی یک کوشش یک‬
‫جایت ےہ تو کیا وجہ ےہ کہ مردوں عورتوں ےک ےیل اس ےک خمالف کوشش یک جائے اور ان ےک تکویین اکموں ےس انہںی علیحدہ‬
‫رکھا جائے۔‬
‫سچ پوچھیے تو ایک مرد جو ھگر ےک ابہر اکم کرات ےہ اور حمنت و مشقت ےک بعد تھک کر چور ہوجاات ےہ‪ ،‬اےس اییس بیوی‬
‫یک رضورت ہویت ےہ جو آراستہ و پریاستہ ہو‪ ،‬خوشبو مںی بیس ہویئ ہو‪ ،‬آسودہ حال اور فارغ البال ہو‪ ،‬جس ےس مرد‬
‫سکون حاصل کرے اس یک قربت ےس اس یک تھکن اکفور ہو‪ ،‬پژمردگی اور اس یک ایک ایک پریشاین اک ازالہ ہو۔ لوگوں ےک‬
‫ساتھ مرصوف رہ کر تنگی اور شکر رجنی جو طبیعت مںی بس جائے اور جس اکتاہٹ اک وہ شاکر ہو اس سب اک خامتہ ہو۔‬
‫اس ےک جبائے اگر عورت ےن حمنت مشقت ےک میدان مںی قدم رکھا تو شوہر اور ابل چبوں یک رعایت وہ بھال کےسی کرے گی اس‬
‫ےیل کہ اکم ےک بعد وہ بھی تھک کر چور لوےٹ گی جےسی ابھی ابھی مرد لوٹا ےہ۔ اب تھاک ہوا تھکے ہوئے ےس کس طرح تسیل پا‬
‫سکتا ےہ؟ ان مںی ےس کس اک دل گردہ ےہ جو چبوں ےک ساتھ ہنیس مذاق اور دل لگی کرے‪ ،‬ان یک تربیت اور انہںی خوش‬
‫رکھنے ےک ِپتّہ مارےن واےل اکم کو ابآساین اجنام دے سکے۔ اور اگر خدا خنواستہ مرد وزن ےن یہ وطریہ اختیار• کر لیا تو ان یک‬
‫زندگی اک بس ہللا ہی نگہبان ےہ۔ اس صورت مںی ان یک زندگی اذیت و تلکیف اور بد خبیت اک دورسا انم ہوگی‪ ،‬اور پھر سامج‬
‫ےک یہ افراد خواہ مرد‪ ،‬عورت ہوں ای جوان اور بےچ ہوں‪ ،‬ان یک حیثیت زندگی یک مشیرنی مںی ان ےب جان لک پرزوں یک یس‬
‫ہوگی جن یک قسمت مںی سکون اور ٹھہرائو نہںی۔ ان اک اکم بس چلتے رہنا اور ھگستے رہنا ےہ۔‬

‫ادین شعور رکھنے والا اس حقیقت کو مسھج سکتا ےہ کہ اس پہلو ےس آج امریکن اور یورپنی سامج پر ذلت‬ ‫ہر بصریت اور ٰ‬
‫اور اناکمی ےک آاثر چھائے ہوئے ہںی اور ابھی تو یہ آاثر اور بھی گہرے ہوں ےگ اس ےیل کہ متام خرابیاں ابھی جڑ تک نہںی‬
‫پہنچںی۔ بہر کیف یورپ یک موجودہ ذلت یک ماری نیئ پود اک تعلق اےسی ماں ابپ ےس ےہ‪ ،‬جو حریان و پریشان اور گم کردہ‬
‫راہ ہںی جن ےک اعصاب ٹوٹ چکے ہںی‪ ،‬جن ےک‬

‫افاکر پراگندہ• اور جن ےک دل خست ےب چیین اک شاکر ہںی اور گراوٹ اک یہ اوچنا تناسب… جس ےک لک اعداد و شامر کو‬
‫مغریب ماہرین ےن فراہم کیا ےہ اس ےک اندر ےب راہ روی اور کجی اےنپ پورے رنگ اور پوری نوعیت ےک ساتھ ھجلکیت نظر‬
‫آیت ےہ یہ مظاہر اور آاثر اس جتربہ ےک آئینہ دار ہںی جو یورپ ےن عورت ےک اوپر اب تک کئے ہںی۔ اس ےیل کہ یہ نیئ نسل‬
‫متام تر انھی مزدور اور مالزم پیشہ خواتنی یک اوالد ہںی‪ ،‬جنھوں ےن ماں ےک پیٹ ےس مشقت اور اکم ےک دابئو کو حمسوس کیا‬
‫ےہ۔ اور جب انھوں ےن جمن لیا تو یہ ان یک سسیت‪ ،‬غفلت اور ےب توجہی اک شاکر ہوئے۔ اس جترےب ےک اناکم ہوےن ےک بعد کیا‬
‫پھر کویئ کیس قسم ےک جترےب یک جرأت کر سکتا ےہ؟ کیا لوگ اب بھی غور و فکر نہںی کریں ےگ؟‬

‫عورتوں ےک ان انم نہاد حامیتیوں ےک پاس ان ےک گامن ےک مطابق جو دلیل اور ثبوت ہںی جن یک بنیادیں متام تر مغالطے پر مبین‬
‫ہںی۔ ان اک سب ےس بڑا مغالطہ یہ ےہ جو وہ مسھجتے ہںی کہ عورت ےک ھگر مںی رےنہ ےس تقریبا آدھا سامج معطل اور بیاکر ہو‬
‫کر رہ جائے گا۔ گوای ان ےک کےنہ اک منشا یہ ےہ کہ عورت ےک ےیل ھگر مںی کویئ اکم نہںی ےہ۔‬

‫حاالنکہ واقعہ یہ ےہ کہ عورتوں یک ھگریلو ذمہ داری‪ ،‬شوہر یک نگہداشت اور خدمت‪ ،‬ابل چبوں یک تربیت اور پرورش اور ان‬
‫یک طرح طرح یک رضورایت یک تمکیل بذات خود اتین اہم ہویت ےہ جو عورتوں اک پورا وقت ےل لییت ےہ برشطیکہ عورت کام‬
‫حقہ اس فریضہ کو اجنام دے۔ ورنہ بسا اوقات ایسا ہوات ےہ کہ فرائض یک تمکیل ےک ےیل پھیال ہوا وقت بھی تنگ پڑ جاات ےہ۔‬
‫ہامرے اس دعوے پر مسکت دلیل جو خمالف کو تقریب ًا خاموش کر سکیت ےہ وہ یہ ےہ کہ اکم کرےن وایل مزدور خواتنی ہمیشہ‬
‫یہ عذر پیش کریت ہںی کہ جو اکم وہ نہںی کر سکتںی ان یک تالیف ےک ےیل کچھ مرد ای عورت مالزم رکھ ےیل جائںی۔ ظاہر ےہ‬
‫اس صورت مںی حکومت یک آمدین مںی کون یس اییس کامیئ‬

‫ای اضافہ ہو سکتا ےہ کہ عورت ھگر ےک ابہر اکم ےک ےیل نلکے۔ اور اس ےک پیےھچ پیےھچ ایک ای دو آدمی اےسی ہوں جنھںی وہ اکم‬
‫ےس الگ کیے رےہ۔ کیا اس کو اقتصادایت یک اصطالح مںی نفع خبش آدمی کہا جا سکتا ےہ اور کیا یہ خود خرایب اور خلل اک‬
‫پیش خمیہ نہںی ےہ کہ عورت ھگر ےک ابہر مردوں اک اکم کرے اور اکم کرےن واےل لوگوں مںی ےس ایک ای دو آدمی مک ہو کر ھگر‬
‫مںی اس عورت ےک چھوڑے ہوئے اکموں کو اجنام دیں۔ اور اس طرح اب ضابطہ اور ےب ضابطہ اےسی بیاکر لوگ لسٹ مںی ابیق‬
‫رہںی جن ےک نقصان اک کویئ اثر منافع ای خسارے ےک جبٹ مںی کہںی نظر نہ آئے۔ اور اگر اس کو درست تسلمی کیا گیا کہ سامج‬
‫ےک نصف ےب اکر مزدوروں کو اکم ےلم اس ےیل عورت کو اکم مںی لگاان چاےیہ۔ تو اس ےس تو یہ الزم آئے گا کہ سامج ےک مجلہ‬
‫مزدوروں• کو اکم ےس ہٹا دای جائے اتکہ ایک عورت کو عوامی اکم دای جاسکے۔‘‘‪]48[ ‬‬

‫[‪ ]1‬حصیح خباری کتاب الناکح‪،‬ابب الوصاۃ ابلنساء‪،‬حدیث منرب‪5186:‬‬

‫[‪ ]2‬جامع الرتمذي‪ ،‬حدیث‪1163 :‬‬

‫[‪ ]3‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪4913 :‬‬

‫سنن أيب داود‪:‬کتاب الناکح‪،‬ابب یف حق الزوج عیل املر ٰاۃ‪،‬حدیث ‪،2142:‬ورشح السنہ‪] 4[ )9/160(:‬‬

‫[‪ ]5‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪995 :‬‬

‫[‪ ]6‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪994 :‬‬

‫[‪ ]7‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪1002 :‬‬

‫تعایل‪:‬قل من حرم زینۃ ہللا الیت اخرج لعبادہ۔‬


‫[‪ ]8‬حصیح البخاری ‪:‬کتاب اللباس‪،‬ابب قول ہللا ٰ‬
‫[‪ ]9‬تفسری احسن البیان ‪ ،‬مذکورہ آیت۔‬

‫[‪ ]10‬سنن أيب داود‪:‬كتاب األدب‪،‬ابب يف اللعب ابلبنات حدیث‪4932 :‬‬

‫[‪ ]11‬حصیح البخاري‪:‬أبواب العيدين‪،‬ابب احلراب وادلرق يوم العيد‪ ،‬حدیث‪949 :‬‬

‫[‪ ]12‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث ‪5236,950,454:‬‬

‫[‪ ]13‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪5189 :‬‬

‫[‪ ]14‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪6149 :‬‬

‫[‪ ]15‬البقرۃ‪2:226،227‬‬

‫[‪ ]16‬تفسری احسن البیان‪ ،‬طبع دارالسالم‪ ،‬الہور‪ ،‬حبوالہ تفسری ابن کثری‬

‫[‪ ]17‬سنن أيب داود‪ ،‬حدیث‪2124 :‬‬

‫[‪ ]18‬سنن أيب داود‪ ،‬حدیث‪2134 :‬‬

‫[‪ ]19‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪676 :‬‬


‫[‪ ]20‬فتح الباري‪ ،212,211/2 :‬طبع دارالسالم‬

‫[‪ ]21‬سنن أيب داود‪ ،‬حدیث‪2513 :‬‬

‫[‪ ]22‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪5199 :‬‬

‫[‪ ]23‬حصیح خباری کتاب(األدب ‪،‬ابب أحق الناس حبسن الصحبۃ‪،‬حدیث•‪ ‬منرب‪5971‬۔‬

‫[‪ ]24‬مسند أمحد ‪322/6 :‬‬

‫[‪ ]25‬تفسری احسن البیان‬

‫[‪ ]26‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪1218 :‬‬

‫[‪ ]27‬سنن أيب داود‪ ، ،‬حدیث‪2147 :‬‬

‫[‪ ]28‬سنن أيب داود‪ ،‬حدیث‪2146 :‬‬

‫[‪ ]29‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪5204 :‬‬

‫[‪ ]30‬حصیح البخاری‪ ،‬حدیث‪5094,5093 :‬‬

‫[‪]31‬‬

‫[‪ ]32‬سنن أيب داود‪ ،‬حدیث‪3924 :‬‬

‫[‪ ]33‬سلسلۃ األحادیث الصحیحۃ‪ ،1/?72 :‬رمق احلدیث‪442 :‬‬

‫[‪ ]34‬رشح معاین اآلاثر‪ ،‬حبوالہ الصحیحہ لاللباین‪ ،728/2 :‬رمق احلدیث‪993 :‬۔‬

‫[‪ ]35‬موارد الظمآن‪ ،‬الناکح‪ ،‬حدیث‪ ،1232 :‬الصحیحۃ‪ ،509/1 :‬رمق احلدیث‪282 :‬‬

‫[‪ ]36‬فتح الباري‪ ،‬اجلہاد‪77/6 ،‬‬

‫[‪ ]37‬حوالۂ مذکور‬

‫[‪ ]38‬فتح الباری‪ ،77/6 :‬مصنف عبدالرزاق‪ ،411/10 :‬رمق احلدیث‪19527 :‬‬

‫[‪ ]39‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪ ،30 :‬و حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪1661 :‬‬

‫[‪ ]40‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪91 :‬‬

‫[‪ ]41‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪2564 :‬‬


‫[‪ ]42‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪2564 :‬‬

‫الکربی للبیھقی‪16:3 :‬‬


‫ٰ‬ ‫[‪ ]43‬السنن‬

‫[‪ ]44‬حصیح مسمل‪ ،‬حدیث‪1437 :‬‬

‫[‪ ]45‬سنن أيب داود‪ ،‬حدیث‪495 :‬‬

‫[‪ ]46‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪5232 :‬‬

‫[‪ ]47‬حصیح البخاري‪ ،‬حدیث‪5235 :‬‬

‫[‪ ]48‬ہامرے قلعوں کو درپیش اندروین خطرات ‪ ،‬ص‪153/147 :‬۔ حبوالہ حتفۃ العروس‪ ،‬ص‪303-310:‬‬

You might also like