Professional Documents
Culture Documents
Document
Document
اور فقہ اسالمی میں مذکور مال اور ثمن crypto currenciesاور اس کی ہم مثل دیگر مجازی /غیر حسی Bitcoin
:کی شرعی حیثیت ہماری رائے درج ذیل ہے Bitcoinکی تفصیالت پرتفصیلی غور کرنے کے بعد
شرعی لحاظ سے ” مال” کے زمرے میں آتا ہے ۔ مال کی تعریف فقہاء نے یہ کی ہے ” :جس چیز کی Bitcoin۔1
طرف طبیعت ( سلیمہ) مائل ہو،ا ور بوقت حاجت< اسے محفوظ کرناممکن ہو۔” دور حاضر میں ایسی بیسوں اشیاء ہیں
بھی مال کی تعریف میں بیان کردہ ان Bitcoinجنہیں غیر حسی ہونے کے باوجود شرعا بھی مال تسلیم کیا گیاہے۔
:دونوں شرائط پر پورا اترتا ہے
اس وقت ہزاروں لوگ اس کے ذریعہ تبادلہ کررہے ہیں ،کرنسیوں کے باہم تبادلے کے ریٹ بتانے والی ) 1
کا ایکسچینج ریٹ بھی بتاتی ہیں ،جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا عرف Bitcoinمعروف ویب سائٹس
عام قائم ہوچکاہے ۔
میں محفوظ کیاجاسکتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اسے کسی آلہ ) ( Electronic Deviceاسے کسی بھی برقی آلہ )2
میں محفوظ کرکے سالوں استعمال نہ بھی کرے تو وہ محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ ضائع اسی وقت ہوں گے جب وہ برقی آلہ
گم ہوجائے یا خراب ۔ ضائع ہونے کی صورت میں حکومت یا کوئی اور اتھارٹی اس کی ضامن نہیں اور اس کا
بدل ادا کرنے کا پابند نہیں ۔ا س سے یہ ثابت ہوا کہ یہ بذات خودمال ہے چیک یا ڈرافٹ کی طرح کسی اور کی رسید
نہیں ہے ۔ ( فقہی مقاالت ،کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت ) میں ہے :ثمن عرفی کی ہالکت کے وقت حکومت اس
”کا بدل ادا نہیں کرتی ہے ۔
۔ پھر یہ شرعی لحاظ سے ثمن بھی ہے ۔ شریعت میں ہر اس چیز کو ثمن رائج کہاجاتاہے جس کی لوگوں کے2
عرف میں مالیت ہو اور لوگ اسے بطور ذریعہ مبادلہ ( کرنسی ) کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیں۔ مختلف
ادوار میں کرنسی مراحل سے گزرتی رہی ہے ان تمام اقسام کی کرنسیوں کے ساتھ تبادلے کو فقہاء< نے جائز کہاہے
Legal۔چاہے اس کی مالیت کسی حکومت کے جاری کرنے سے پیداہوئی ہو جیسے کرنسی نوٹ جسے
کہاجائے یا محض لوگوں کے استعمال سے رائج ہوئی ہو ،دوونوں صورتوں میں وہ شرعا ً کرنسی کہالئے tender
کرنسیاں شرعی لحاظ سے فلوس رائجہ کے حکم میں ہیں ۔ان میں ا کثر Virtualاور دیگر ڈیجیٹل Bitcoinگی ۔ لہذا
عالمات کرنسی نوٹ کی ہیں اور ان کے تمام احکام وہی ہوں گے جو کرنسی نوٹ کے ہیں ۔ جیسے :جریان الربا ،
وراس مال المضاربہ ،والشرکۃ ،و السلم بہا ،واالستقراض ،ووجوب الزکاۃ ( ،البتہ ان دونوں میں فرق یہی ہے
کہ کرنسی نوٹ کی ثمنیت حکومت کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ حکومت اگر ثمنیت باطل کردے تو ان کی کوئی قیمت
باقی نہیں رہے گی ۔ ( کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت :ص ) 25جبکہ غیر حسی کرنسیوں کی ثمنیت باصطالح
الناس قائم ہوتی ہے ،لہذا جب تک یہ عرف قائم ہے ثمنیت بھی باقی رہے گی ،عرف ختم ہونے کے بعد یہ سلعہ
کے حکم میں ہوگا ۔ فقہ میں اس کی مثال نبھر جہ یا زیوف کی ہوگی )
۔ اس کےا ستعمال کے جواز کا مدار اس بات پر ہے کہ مستعمل کس ملک میں اسے استعمال کررہاہے ۔3
الف ۔بعض ممالک نے اسے قانونی طور پر تسلیم کیاہے اورا س پر دیگر کرنسیوں کی طرح ٹیکس بھی لگایا ہے
جیسے امریکا ،جرمنی ،ہالینڈاورا کثر ترقی یافتہ ممالک ۔
بنائے ہیں جیسے ہانگ Regulationsب ٰ) بعض نےا س سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اس کےا ستعمال کے ضوابط
کانگ ۔
ج) بعض ممالک ا س معاملے< میں بالکل ساکت ہیں جیسے پاکستان ۔
کو بطور کرنسی استعمال کرنا جائز ہے ۔ Bitconicsاس قسم کے ممالک میں
جن ممالک میں ا س کو ذریعہ تبادلہ بنانا قانونی طور پر منع ہے ( ایسے ممالک بہت ہی کم ہیں ) ان میں اس حکم
حاکم کی وجہ سے اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا ۔
کے متعلق ماہرین اقتصاد کے فراہم ) ( Digital Currenciesاور دیگر غیر حسی کرنسیوں ) ( Bitcoinبٹ کوئن
کردہ مطالعتی مواد پر تفصیلی غور وفکر کرنے کے بعد ،بٹ کوئن کی فقہی تکییف اور اس کےجواز یا عدم جواز
:کے متعلق جواب دینے سے پہلے ،تین امور قابل غور ہیں
۔ ایک یہ کہ غیر حسی کرنسی بالخصوص بٹ کوئن کی اصلیت کے متعلق ماہرین اقتصاد کی کیا تحقیق ہے۔1
۔ بٹ کوئن اورا س کے ہم مثل دیگر غیر حسی کرنسیوں کی فقہی تکییف اورا س کا مروجہ آلہ تبادلہ یعنی2
کرنسی نوٹ پر فقہی انطباق ۔
:بٹ کوائن کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے مذکورہ مقالہ میں چند امور قابل غور ہیں جن کا ذکر درج ذیل ہے
۔ بٹ کوئن ایک غیر حسی کرنسی ہے جس کا کوئی جسمانی وجود نہیں ،ا ورا س کا پورا مدار انٹرنیٹ پر ہے ۔1
۔بٹ کوئن ایک مکمل آزاد مصدر غیر حسی کرنسی ہے جس کے پیچھے کوئی طاقتور مرکزی یا حکومتی ادارہ نہیں ۔2
چنانچہ امریکہ کے وزارت خزانہ نےا س کو غیر مرکزی قرار دیاہے ۔
۔مروجہ کرنسی نوٹ کی طرح بٹ کوئن کو بھی سونے کی پشت پناہی حاصل نہیں ۔3
۔ مارکیٹ میں بٹ کوئن کی طلب ورصد کا معیار کافی بلند ہے عوام بالخصوص تاجروں کا رجحان بٹ کوئن کے4
لین دین کی طرف بڑھتا جارہاہے ۔
۔ بٹ کوئن کا استعمال دیگر رائج کرنسی مثال :ڈالر اور یورو کی طرح ہورہاہے ۔5
بٹ کوئن اور دیگر غیر حسی کرنسیوں میں پائی جانے والی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوں یوں معلوم ہوتا ہے
میں اور مروجہ کرنسی نوٹ میں شرعی لحاظ سے کافی قدر مطابقت پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ بٹ کوئن میں دوکہ ان ؐ
بنیادی امور پائے جاتے ہیں جو ا س بات پرداللت کرتی ہے کہ بٹ کوئن میں ،شرعی نقطہ نگاہ سے ،مال ہونے کی
:اورذریعہ تبادلہ یعنی ثمن ہونے کی صالحیت موجود ہے
۔ بٹ کوئن کی خصوصیات اورفقہائے کرام کے ” مال ‘ کے ذکر کردہ تعریفات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔1
:چنانچہ فقہاء< متاخرین میں سے عالمہ شامی ؒ نے مال کی توریف یوں کی ہے
:اور شیخ مصطفی احمد الزرقانے ‘المدخل الفقھی العام ‘ میں مال کی جامع تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں
عہد حاضر میں کسی چیز کے ثمن اصطالحی بننے اور اس کے ثمنیت پراتفاق رائے پیدا ہونے کی دوصورت
ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ حکومت کسی چیز کو ثمن قراردیدے اور یوں عوام اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔
کہاجاتا ہے ۔ اوردوسری صورت یہ ہے کہ عوام میں Legal Tenderا س کو اصطالحی زبان میں ‘ زرقانونی ” اور
خود کسی شئی مرغوب کا چلن ہوجائے اور اس کو ذریعہ تبادلہ تسلیم کرلی جائے ۔
ولوان الناس اجازوا بینھم الجلود حتی تکون لھا سکۃ وعین لکرھتھا ان تباعبالذھب والورق ۔
ترجمہ‘ :ہر وہ چیز ثمنیت کی صالحیت رکھتی ہے جس کا چلن ،ا س کے کام گار اور نفع بخش تجربات کے مراحل
سے گزرنے کے بعد ،عرف عام میں بطور ثمن کے ہوجائے۔ اس کی واضح مثال مختلف زمانوں میں مختلف اشیاء
کے اندر پائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ کے عہد میں ‘ وامبم ‘ ( صدف سے پٹی ہوئی لڑیاں ) انڈیا میں ‘ کوریز ‘ ( چھلکوں
سے بنے ہوئے چمک دار گولے ) ‘ فیجی ‘ میں ویل (حوتان ) کے دانت ،شمالی امریکہ میں تمباکو ’،یاپ’ کے
جزیرہ میں قرض نما بڑے پتھر،ا ور جنگ عظیم دوم کے بعد ‘جرمنی ‘ اور دنیا بھر کے قید خانوں میں سگریٹ کو
بطور ثمن اور زر تبادلہ کے استعمال کیاجاتاتھا۔ ثمن کے ارتقاء میں امتیاز،ا ن اشیاء کے ایجاد واختراع سے ہوئی جن
کا استعمال بطور ثمن کے ہوتاتھا’۔
یہ بات بھی مسلم ہے کہ کسی شئی میں ثمنیت ہونے کی صالحیت پائے جانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ا س کو
حکومت نے ‘ زرقانی’ قررادیا ہو۔چنانچہ کرنسی نوٹ کے ابتدائی مراحل میں جب اس کی کوئی خاص شکل
وصورت نہیں تھی اس وقت لوگ سنار اور صراف سے سکوں کے عوض جاری کردہ وثیقہ اور سندیں حاصل کرتے
تھے جس کو محض بھروسہ اوراعتماد کی بنیاد پر قبول کیا جاتا تھا ۔ نہ اس کی کوئی قانونی حیثیت تھی اور نہ ہی
اپنے حق کی وصولیابی میں ا س کو قبول کرنے پر کوئی مجبور کیاجاتاتھا< ۔اور دورحاضر میں ا س کی ایک واضح
مثال چیک اور انعامی بانڈز ہے ۔
تاہم ا س بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بٹ کوئن در حقیقت وثیقہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کا اساس کسی
ملک کے نقود یا اثاث ہی ہے ،جس کے تبادلہ سےا س کو استقالل حاصل ہو ا ہے ۔ا ور اس کے استقالل حاصل
ہونے کے بعد اس کو لوگ یا تو خریدوفروخت میں ذریعہ تبادلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا پھر اس کو
استثمار کے لیے حاصل کرتے ہیں ۔
:بٹ کوئن کے مستقل بالذات ثمن اصطالحی ہونے کے اور وثیقہ کی حیثیت نہ رکھنے کے چند وجوہات یہ ہیں
۔ بٹ کوئن کے ضائع ہونے کی صورت میں حکومت اس کا کوئی بدل ادا نہیں کرے گی ۔ جبکہ مالی دستاویزات اور1
قرض کے سندات کے ضائع ہونے کے وقت حکومت کی طرف سے ان سندات کا بدل کا انتظام کیاجاتاہے ۔
۔ دور حاضر میں بٹ کوئن کا لین دین مروجہ کرنسی نوٹ کی طرح انجام دےرہی ہے اور کسی کے خیال میں یہ2
نہیں ہوتا کہ وہ قرض کا لین دین کررہاہے ،اور بدلہ میں بٹ کوئن بحیثیت وثیقہ کے حاصل کیا جارہاہے ۔
۔ جیسے آج کل کرنسی نوٹ کا استحکام سونے سے نہ رہا اسی طرح بٹ کوئن کو بھی کسی ثمن خلقی (3
سونا/چاندی) کی پشت پناہی حاصل نہیں ۔ بٹ کوئن کی قدر وقیمت اس کے ماوری موجود کرنسی نوٹ ہی کی وجہ
سے ہے ۔
بٹ کوئن اوردیگر ذریعہ تبادلہ کو اگر تقابلی نظر سے دیکھاجائے< تو یوں معلوم ہوتاہے کہ بٹ کوئن ‘ زرقانونی’
نہ ہونے کی حیثیت سے چیک اور انعامی بانڈز کے مانند ہے کہ اس کو قبول کرنے میں کسی کو مجبور نہیں کیا
جاسکتا اور اس کے مستقل بالذات ‘ثمن اصطالحی ‘ ہونے کی حیثیت سے کرنسی نوٹ ( فکوس نافقہ ) کی طرح
ہے ۔ خالصہ یہ کہ بٹ کوئن اپنے تمام شرعی قید وبند کے ساتھ مروجہ کرنسی نوٹ کی طرح ‘ فلوس نافقہ ‘ ہی کے
،زمرے میں آتا ہے ۔ چنانچہ جو فقہی احکام کرنسی نوٹ پر متفرع ہوتے ہیں
مثال :وجوب زکاۃ ،سلم ،استصناع ۔،مضاربہ ومشارکہ میں راس المال ہونے کی صالحیت ،صرف ،اور ربا ،ا سی
طرح بٹ کوئن پر بھی وہی فقہی احکام جاری ہوں گے ۔
بٹ کوئن اور حکومتی قوانین کی پاسداری
جہاں تک ملکی قانون کی پاسداری کا لحاظ رکھنے کی اور قانون شکنی سے اجتناب کی بات ہو تو یہ ان خارجی
امور سے وابستہ ہیں جن کا تعلق نظم ونسق سے ہے ۔ اور انتظامی معامالت میں ،عمومی اور اجتماعی فالح وبہبود
کے ملحوظ خاطر ،ملکی قوانین س میں بیشتر اوقات ترمیمات کی اور بعض اوقات منسوخ ہونے کی گنجائش ہوتی ہے ۔
لہذا جن ممالک میں بٹ کوئن کےا ستعمال کی ممانعت ہو ان ممالک میں اس کا استعمال محل نظر ہوگا اور جن ممالک
میں اس کے استعمال سے کسی بھی صورت میں ملکی قوانین وضوابط کی خالف ورزی نہ ہوتو ان ممالک میں بٹ
کوئن کو بطور مال وثمن استعمال کرنا جائز ہوگا ۔